FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

توازن : اقبال کی شاعری کا ایک پہلو

 

 

 

               پروفیسر محمد منور

 

ماخوذ: مطالعۂ اقبال کے سو سال

               مرتبین: رفیع الدین ہاشمی، محمد سہیل عمر ، وحید اختر عشرت

 

 

 

اس بات کو عموماً ایک امرِ مسلم کی طرح قبول کر لیا گیا ہے کہ فلاسفہ کا وہ اوّلین مکتب جس سے تعلق رکھنے والوں نے عالم کو کائنات Cosmos قرار دیا تھا۔ فیثاغورثی مکتب تھا۔ فیثاغورثیوں کے نزدیک اس کلمے سے ایک ایسا کل اور ایک ایسی وحدت مراد تھی، جس کے جملہ اجزا منظم و مرتب ہوں۔ فیثاغورثیوں کا عقیدہ تھا کہ ہر فرد، بشر اپنی جگہ ایک ننھی منّی سی منظم و مرتب کائنات ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ افرادِ آدم، عالمِ اکبر Macrocosm کے جملہ اساسی اصولوں کی بخوبی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہی باعث ہے کہ وہ ہر انسانی وجود کو عالمِ اصغر Microcosm قرار دیتے تھے۔ چنانچہ وہ اس خیال کے بھی حامی تھے کہ کارخانۂ فطرت کے اساسی اصولوں کا مطالعہ کرنے اور اُنہیں سمجھ لینے سے آدمی اپنی زندگی کو باقاعدگی اور تنظیم کے زیور سے مزیّن کر سکتا ہے۔

کائنات کے ایک منظم و مرتب وحدت ہونے کے بارے میں قرآن کریم کا ارشاد بڑا واضح اور صریح ہے۔ بہت سی آیات اس امر پر روشنی ڈالتی ہیں۔ ذیل میں چند آیات کا ترجمہ درج کیا جاتا ہے:

’’خدائے رحمن کی تخلیق (دُنیا) میں تم کو کہیں بھی رخنہ نظر نہ آئے گا۔ پھر سے نظر دوڑا لو، کیا کہیں کوئی کوتاہی دِکھائی دی؟‘‘ (۴:۶۸)

’’بالتحقیق ہم نے ہر شے کو ایک قدر و معیار کے مطابق پیدا کیا ہے۔ ‘‘ (۴۹:۵۴)

’’اس (خدا) نے آسمان کو اونچا اُٹھایا ہے اور میزان مقرر کر دی ہے تاکہ تم میزان کی خلاف ورزی کا ارتکاب نہ کرو۔ ‘‘

(۷:۵۵)

مسطورۂ بالا آیات کے مطالعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ خدا کی کائنات بے ربط اور بے جوڑ نہیں ہے۔ ہر شے آئینِ تناسب و توازن کی پابند ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن کریم سوجھ بوجھ رکھنے والے ہر شخص کو یہ تلقین کرتا ہے کہ وہ کائنات کے توازن و تناسب پر غور کرے تاکہ وہ خود اپنی زندگی کو بھی اس سانچے میں ڈھال سکے۔ توازن و تناسب فقط جسمانی ڈھانچے ہی کے لیے ضروری نہیں ، یہ تخیل و تفکر کے لیے بھی ضروری ہے اور افعال و اعمال کے لیے بھی۔

لی مین برائی سن Lyman Bryson کا خیال یہ ہے کہ دینی جذبہ خواہ وہ کسی بھی روپ میں ہو اور خواہ وہ اپنے اظہار میں کتنا ہی مبتدیانہ ہو یا کتنا ہی پختہ و عمیق، ہمیشہ اس اعتقاد پر مبنی ہوتا ہے کہ فطرتِ کائنات اور انسان کے تصور انصاف، رحم اور راستبازی کے مابین ایک غایتی ہم آہنگی موجود ہے۔  (Patterns of Ethics in America Today, P.108)

توازن ہی میں قوت کا راز پنہاں ہے۔ کائنات اس لیے باقی ہے کہ اس میں باقی رہنے کی قوت ہے اور وہ قوت توازن کا عطیہ ہے۔ جوں ہی توازن بگڑا، اثیرِ بسیط میں تیرنے والے جہان آپس میں ٹکڑا کر ختم ہو جائیں گے۔ یہی کیفیت اس عالمِ اصغر کی ہے جسے آدمی کہتے ہیں اور یہی تقدیر اس معاشرے کی ہے جسے آدمیوں کا مجموعہ استوار کرتا ہے۔ سپائی نوزا Spinoza کے بقول جسمانی بیماری کا مطلب یہ ہے کہ جسم کے اعضائے ترکیبی کے توازن میں خلل واقع ہو گیا ہے۔ جب یہ عدم توازن ختم ہو جائے تو صحت لوٹ آتی ہے، عدم توازن بڑھتا چلا جائے تو جان پر بن جاتی ہے۔ اسی طرح جالینوس کا ایک قول منقول چلا آتا ہے کہ ’’شر‘‘ روحانی بیماری ہے۔ قرآن اہلِ شر کے بارے میں خواہ وہ کفر کے مرتکب ہوں خواہ شرک کے اور خواہ نفاق کے، یہ فیصلہ صادر کرتا ہے کہ ’’فیِ قُلُوبھِمْ مَّرَض‘‘ (ان کے دلوں میں بیماری جاگزین ہے۔ )

توازن کا احساس علامہ اقبال کے افکار و اشعار کا ایک اہم پہلو ہے۔ چنانچہ وہ ہر نظامِ فکر اور فلسفے کی اچھی چیزوں پر بھی نگاہ رکھتے تھے اور بری چیزوں پر بھی۔ مثلاً وہ جمہوریت کی اچھی باتوں کے قائل ہیں۔ مگر جب وہ استعماری روپ دھارتی ہے یا دو صد مغزِ خر کے شمار ہی کو معیارِ دانش قرار دے لیتی ہے تو وہ اسے معاف نہیں کرتے۔ وہ اشتراکیت کی اچھی باتوں کی تعریف کرتے ہیں مگر اس کی خدا نا شناسی اور احترامِ روحِ آدمیت سے نا آگاہی پر سخت نکتہ چینی کرتے ہیں۔ مسولینی کی شخصیت سے بہت متاثر تھے، مگر جب اس نے حبشہ کو پامال کیا تو علامہ اقبال نے مسولینی پر بھی اور اس سارے تمدن پر بھی لعن طعن کی، جس نے یورپ کی استعماری اور فسطائی روح کو جنم دیا تھا— ان کی ’’خودی‘‘ کو ’’بے خودی‘‘ کا سہارا میسر ہے۔ ان کا ’’شکوہ‘‘ بھی تنہا نہیں رہا، اسے بھی ’’جوابِ شکوہ‘‘ نے تقویت دے دی۔ اُن کے یہاں آزادیِ افکار کو تقلید اور تقلید کو آزادیِ افکار کی احتیاج ہے۔

ان کے اکثر شعر پارے بالعموم خود اپنی ذات میں نظم و ترتیب اور تناسب و توازن کا خوبصورت نمونہ پیش کرتے ہیں۔ وہ جبلی شاعر تھے مگر وہ پیدائشی مفکر بھی تھے— ’’جام و سندان باختن‘‘ ہر صاحبِ شوق کے بس کا روگ نہیں۔ علامہ اقبال کے یہاں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ان کا فلسفہ، شعر پر حاوی ہو جائے۔ شعر و فلسفہ کا وہ خوب صورت امتزاج ہوتا ہے کہ ’’ارتباط حرف و معنی اختلاطِ جان و تن‘‘ والی بات بن جاتی ہے۔ مثلاً ضربِ کلیم میں ’’عورت‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں :

مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن

اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں !

یا مثلاً

از کلیمے سبق آموز کہ دانائے فرنگ

جگرِ بحر شگافید و بہ سینا نہ رسید

چوں سرمۂ رازی را از دیدہ فروشستم

تقدیرِ امم دیدم پنہاں بکتاب اندر

یہ توازن ان کی اکثر نظموں کی ہیئت و ترکیب اور ان کے موضوعات کے مابین جلوہ گر نظر آتا ہے۔

یہ فکری اور فنی توازن بے سبب نہ تھا۔ علامہ اقبال کا مطالعہ گوناگوں تھا اور وہ مطالعہ سطحی نہ تھا کہ دماغ کا سرمایہ تو بنا رہے، مگر دل و جان کی گہرائیوں تک نہ اُترے۔ حق تو یہ ہے کہ ان کے لیے ’’خبر‘‘ کا ’’اثر‘‘ جزوِ دل و جاں بن گیا تھا، اس لیے جو ان کی زبان سے نکلتا تھا، وہ گہرے احساس اور کامل اخلاص کا مظہر ہوتا تھا۔ وہ عربی، فارسی اور اُردو، انگریزی اور جرمن وغیرہ زبانوں سے بخوبی آگاہ تھے۔ کسی حد تک سنسکرت بھی جانتے تھے۔ سنسکرت اُنہوں نے سوامی رام تیرتھ سے پڑھی تھی۔ فلسفے اور قانون کے عمر بھر طالب علم رہے۔ تاریخِ تمدن و سیاست سے بھی بھرپور دل چسپی تھی اور تاریخِ ادیان و مذاہب سے بھی۔ وہ تاریخ ادبِ مغرب سے بھی آشنا تھے اور تاریخِ ادبِ مشرق سے بھی، خواہ وہ ادب قدیم تھا یا جدید۔ یہی عالم معاشیات کا تھا۔ معاشیات کے موضوع پر اُنہوں نے ایک کتاب بھی لکھی تھی اور اس وقت جب ابھی اُن کا کوئی شعری مجموعہ منصہ شہود پر نہ آیا تھا۔ وہ سائنس کے طالب علم نہ تھے، لیکن اس کے با وصف قدیم و جدید سائنسی نظریات و اکتشافات پر نظر تھی۔ بالخصوص معاصر سائنسی نظریات سے آگاہی نے ان کو جدید مغربی تمدن اور پھر عالمِ انسانیت پر ثبت ہونے والے اس کے اثرات کو سمجھنے میں بیش بہا مدد بہم پہنچائی تھی— اسی وسعتِ نظر کے باعث وہ ہر نظامِ فکر و عمل کے اچھے نکات کو منتخب کر لینے پر قادر تھے۔ خالی انتخاب سے بھی بات نہیں بنتی، علامہ اقبال اس منتخب مواد کو وہ حسنِ ترکیب عطا کرتے ہیں کہ ایک نئی چیز وجود میں آ جاتی ہے— موسیقی سے لگاؤ تھا۔ کلاسیکل موسیقی کے خصوصاً رسیا تھے۔ اس ’’حسنِ سماعت‘‘نے ان کی شاعری کو خوش آہنگ بنانے میں بڑا حصہ لیا، چنانچہ کرخت آوازیں ، ثقالتیں ، تعقیدیں اور ناہمواریاں ان کے کلام میں کم ہیں۔ بقول ابو الاثر حفیظ جالندھری، اقبال پتھر کی بھاری چٹانیں اُٹھا لاتے ہیں ، مگر موتیوں کی طرح جڑ دیتے ہیں۔

اُنہیں بخوبی علم تھا کہ ان کا دور عصرِ مادہ پرستی ہے۔ وہ اس سے بھی آگاہ تھے کہ عصر معاصر کے معاشی مسائل ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معاشروں کو کس انداز میں متاثر کر رہے ہیں اور اس سے روحِ انسانیت کس عذاب میں مبتلا ہو چکی ہے اور ہو رہی ہے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ مذہبی اقدار متزلزل ہو رہی ہیں۔ علم مابعدالطبیعات سمٹ رہا ہے۔ ’’منطقی اثباتیت‘‘ پھیل رہی ہے۔ روح سکڑ رہی ہے اور بدن انگڑائی لے رہا ہے۔ اخلاقی اقدار کے قدم لڑکھڑا رہے ہیں اور آدمی وحشت و حیوانیت کی جانب مراجعت کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ (آج کے ہپّی حضرات و خواتین اسی مراجعت کا جلوہ ہیں ) ۔ چنانچہ اُنہوں نے ٹھیک کہا تھا:

عذابِ دانشِ حاضر سے باخبر ہوں میں

کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل ؑ

’’مثلِ خلیل ؑ‘‘ کی ترکیب تشبیہی ان کے احساس کی شدت کو بڑھا رہی ہے۔ گویا وہ محسوس کر رہے تھے کہ باطل کے مناظر بخوبی سمجھنے والے اور ان مناظر کے خلاف حق کی آواز بلند کرنے والے اپنے دور میں وہ واحد فرد ہیں ، باقی لوگ اگر از روئے باطن ان کی تائید کرتے بھی ہیں تو ان کا ظاہر ایک طرح سے تماشبین ہی کا سا ہے۔

ان کے خیال میں دورِ معاصر کا یہ عذاب اور افراتفری، عدم تناسب و توازن کی پیداوار تھے۔ اس لیے کہ معاصر افکار اور معاصر نظام کسی نہ کسی ایک پہلو پر ضرورت سے زیادہ زور دے رہے تھے اور باقی پہلو دب رہے تھے، اور وہ حاوی عنصر مادہ پرستی تھا— نیز یہ کہ زندگی کو ایک منظم و مرتب وحدت کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا تھا۔ بہ الفاظِ دیگر حیات و کائنات اندھوں کا ہاتھی بن کر رہ گئی تھی۔ جو اندھا ہاتھی کی دُم پکڑے ہوئے تھا، وہ کہہ رہا تھا ’’ہاتھی رسی ہے‘‘ جو سونڈ پکڑے ہوئے تھا اس کا بیان تھا کہ ہاتھی سانپ ہے اور جو ٹانگ سے لپٹا ہوا تھا، اس کا اعلان تھا کہ ’’ہاتھی ستون ہے‘‘۔ وہ دم کو دم یا سونڈ کو سونڈ یا ٹانگ کو ٹانگ کہہ ہی نہیں سکتے تھے۔ اس لیے کہ دم یا سونڈ یا ٹانگ تو کسی اعضائی وحدت کا حصہ ہے اور وہ وحدت پیشِ نظر نہ ہو تو یہ اسمی تعین کس طرح عمل میں آئے؟

یہ مثال جو بچوں کے قاعدوں میں ایک ننھے سے سبق کی حیثیت رکھتی ہے، بڑوں سے بڑے داناؤں کے لیے چراغِ راہ ہے— یہ سبق درس دیتا ہے کہ کائنات کا ہر ذرّہ ایک نظام ہے اور وہ کسی اور نظام سے مربوط ہے اور وہ کسی اور سے، اور اسی طرح تا  لا انتہا یہ سلسلہ چلا جاتا ہے:

حقیقت ایک ہے ہر شے کی خاکی ہو کہ نوری ہو

لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرّے کا دل چیریں

اس شعر میں مضمون کے تفلسف نے بیان کی شعریت پر بار ڈالنے کے بجائے اُلٹا اسے نکھار دیا ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ بیان کی شعریت نے مضمون کے تفلسف کو سنوار دیا ہے۔ اسی طرح ایک فارسی قطعہ جو  ارمغانِ حجاز سے ماخوذ ہے، دیکھیے۔ یہ بھی فلسفیانہ مضمون اور شاعرانہ حسنِ بیان کے امتزاج کا دلنشین نمونہ ہے:

 

دو صد دانا دریں محفل سخن گفت

سخن نازک تر از برگِ سمن گفت

ولے بامن بگو آں دیدہ ور کیست

کہ خارے دید و احوالِ چمن گفت

 

’’بڑے بڑے اہلِ نظر نے اس باغِ عالم میں گفتگو فرمائی۔ گفتگو جو برگِ سمن سے بھی نازک تھی۔ لیکن مجھے بتاؤ وہ دیدہ ور کون ہے، جس نے ایک کانٹے کو دیکھا اور سارے باغ کے احوال بیان کر دیئے۔ ‘‘

ایسا خیال کہ ذرّے کا دل چیرنے سے خورشید کا لہو ٹپکے گا یا کانٹے کو دیکھ کر پورے باغ کے اسرار بیان کیے جا سکتے ہیں ، وہی شخص ظاہر کر سکتا ہے، جو پوری کائنات کو ایک مربوط وحدت جانتا ہے۔

علامہ اقبال کا اصرار ہے کہ یہ ہمہ جہتی منظر اور یہ جہاں شناسی اُنہیں قرآن کی بدولت میسر آئی:

گوہرِ دریائے قرآں سُفتہ ام

شرحِ رمزِ صبغۃ اللہ گفتہ ام

اسی طرح ایک موقع پر تلقین کرتے ہیں کہ اگر تم مسلمانوں کی سی نگاہ کے مالک ہو تو اپنے آپ کو اور قرآن کو سمجھو:

چوں مسلماناں اگر داری جگر

در ضمیرِ خویش و در قرآں نگر

قرآن ہی سے رازِ خودی واضح ہو گا اور قرآن ہی سے سرِ خدائی عیاں ہو گا۔ اس کی روشنی میں بات ذرّے سے چل کر آفتاب تک اور بندے سے چل کر خدا تک پہنچے گی۔

فلسفہ و فکر کے بہت سے طالب علم نقاد اس خیال کے حامی ہیں کہ اقبال نے افلاطون، ارسطو، نطشے اور برگساں وغیرہ سے بڑا اثر قبول کیا ہے، بالکل بجا ہے۔ اُنہوں نے سب کے افکار کا مطالعہ کیا تھا اور ان سب کی پسندیدہ باتوں کو، جو خود ان کے نظریات کی موید تھیں ، سراہا اور قبول بھی کیا۔ لیکن ہر اِک سے اتفاق کسی زاویے پہلو یا جزو کے ضمن میں آیا ہے۔ آیا کامل افلاطون یا کامل نطشے یا کامل برگساں سے اقبال کو کامل اتفاق ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ ازروئے منطق ان مختلف نظریات کے علمبردار حضرات میں سے بیک وقت ایک ہی کے ساتھ کاملاً متفق ہو سکتے تھے، ایک سے زیادہ کے ساتھ نہیں ، اور اگر ایک ہی سے یہ اتفاقِ کامل ممکن تھا تو پھر وہ کون ہے۔ کسی کا بھی نام نہیں لیا جا سکتا۔ اگر وہ کسی پیشرو کے ساتھ کاملاً متفق ہوتے تو وہ زیادہ سے زیادہ افلاطونِ ثانی یا نطشۂ ثانی یا برگسانِ ثانی کہلاتے۔ اگر ایسا نہیں اور یہ بھی عیاں ہے کہ اقبال حسنِ انتخاب پر قادر تھے، تو ماننا پڑے گا کہ ان کا نظریہ اور مقصد دوسروں سے جدا تھا۔ وہ کن چیزوں کو کس مقصد کے لیے منتخب کر رہے تھے، اور پھر وہ منتخب اُمور و وسائل اور تصورات و خیالات محض بے جوڑ اشیا کی ڈھیری ہیں یا وہ علامہ اقبال کے مقصد کے سانچے میں ڈھل کر کوئی نئی دِل کش اور دِل کشا شے بن گئے ہیں ؟ علامہ اقبال کے بقول شہد کے ذرّے یہ نعرہ نہیں لگا سکتے کہ وہ نرگس ہیں یا گلاب— وہ شہد ہیں اور اس کے عمومی ذائقے اور لذت کے حصہ دار:

ایں نمی گوید کہ من از عبہرم

آں نمی گوید من از نیلو فرم

یہی عالم علامہ اقبال کے نظامِ فکر کا ہے۔ ان کا نظام اقبال کے سوا کسی دوسرے سے منسوب نہیں کیا جا سکتا—

اہلِ نظر بقدر شعور و ادراک کائنات کا مطالعہ کرتے چلے آئے ہیں۔ جسے جس قدر بہتر نظر ملی، اس نے حقائق کو اسی قدر بہتر سمجھا۔ بعد میں آنے والے اہلِ نظر نے اپنے پیش روؤں کی تائید کر دی مگر تائید اور اندھی تقلید میں فرق ہے— اقبال بھی موید تو ہیں مگر کوتاہ نظر مقلد نہیں۔ وسیع ارادت ہے تو مولانا رومؒ سے، اور وہ اس لیے کہ اُن کا سرچشمۂ ہدایت قرآن ہے۔ وہاں اتحاد و اتفاق کے لیے گنجائش بہت زیادہ تھی— بہرحال، یورپ میں اقبال سے قبل اور معاصر دور میں ’’زریں اوسط‘‘ کا اصول ’’فوق البشر‘‘ ’’تخلیقی ارتقا‘‘ ’’آمریت، ’’اشتراکیت‘‘، ’’سرمایہ داری‘‘، ’’منطقی اثبات‘‘ اور ’’یہ وہ‘‘ کے ایسے نظریات موجود تھے، لیکن توازن و تناسب کا وہ قرآنی انداز جس کے اقبال علمبردار ہیں ، کہاں تھا اور کہاں ہے!

علامہ اقبال ان شعراء میں سے نہ تھے کہ جو خیال بھی کسی کے بیان سے یا کسی منظر سے یا کسی قافیے کے باعث سوجھ گیا، اس سے جس طرح کا شعر یا قطعہ یا نظم اختراع کی جا سکی، کر دی، خواہ وہ ان کے نظامِ فکر یا ان کے عام نظریات سے کوئی مطابقت رکھے یا نہ رکھے۔ یہ روّیہ ان شعراء کا ہے جن پر قرآن نے یہ تنقید کی ہے کہ انھم فی کل وادیھیمون (وہ خیال کی ہر وادی میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں۔ )

علامہ اقبال جو اثر قبول کرتے ہیں ، وہ ان کے وسیع نظامِ فکر و خیال سے متصادم نہیں ہوتا، اُلٹا اس کی تعمیر کا حسین جزو بن جاتا ہے۔ جہاں بظاہر تصادم کا منظر جلوہ گر ہے، وہاں درحقیقت تدریج ہے یا پس منظر کی وسعتوں میں کوئی شے کسی دوسری سے فاصلے پر ہونے کی بدولت مربوط نظر نہیں آتی۔ پس منظر کی کلیت ذہن نشین ہے تو نہ بے ربطی ہے نہ تصادم— کائنات کے تصادمِ بے نہایت میں تلخی و شیرینی، بلندی و پستی، شیری و روباہی، نور و ظلمت تصادم کا نام نہیں ، وہ تو ایک سلسلے کے اجزاء ہیں جس سے خدا کی خلّاقی کے گوناگوں مظاہر وجود میں آتے ہیں :

سلسلۂ روز و شب تارِ حریر دو رنگ

جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات

ہر وادیِ خیال میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والے شعرا وہی ہو سکتے ہیں جن کے پیشِ نظر کوئی مقصد یا مقصود نہیں ہوتا۔ ورنہ تلاش کہیں تو کوئی مثبت رُخ اختیار کرتی، اور آوارگی ہی مایۂ حیات بن کر نہ رہ جاتی۔

ظاہر ہے کہ جو شخص حیات و کائنات کی کلیت اور وحدت کا تصور رکھتا ہو، وہ زندگی کے معاملے میں بھی نظم و ضبط کو نظرانداز نہ کرے گا۔ جسم میں بھوک کے احساس ہی کی کیفیت کا مسئلہ لے لیجیے۔ جب بھوک مٹانے کے بجائے محض کھانا پینا ہی مقصود بن جائے اور ہوس کا رنگ اختیار کر لے تو گویا توازن چھن گیا۔ قرآن حکیم کا حکم ہے:

کلوا واشربوا ولاتسرفوا  (کھاؤ پیو، مگر زیادتی نہ کرو۔ )

زیادتی مراد ہے بھوک اور پیاس کا حد سے بڑھ جانا۔ امام غزالی کہتے ہیں :

’’ضرورت سے زیادہ کھانا پینا، ذہن کو کند اور حافظے کو کمزور کر دیتا ہے۔ خوابیدگی بڑھ جاتی ہے جو وقت کا ضیاع بھی ہے اور جس سے قلب کی قوت بھی گھٹ جاتی ہے، نورِ دانش دھندلا جاتا ہے اور آدمی نیکی اور بدی میں تمیز کرنے کی اہلیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ ‘‘ (بحوالہ: A History of Muslim Philosophy، از: ایم۔ ایم شریف)

یہ توازن اور اعتدال کی نہایت معمولی سی مثال تھی مگر اس کے اثرات کی جولان گاہ بھی کتنی وسیع ہے۔ معنی یہ کہ ہر وہ چیز جو اپنی حدود کی پابند ہے، وہ متناسب ہے، متوازن ہے، حسین ہے اور خیر ہے۔ یہاں ابن مسکویہ کا قولِ ذیل بے محل نہ ہو گا:

’’ہر وہ شے جو عمل میں آنی چاہیے، اگر اس طرح عمل میں آئے جس طرح آنی چاہیے، اس حد تک جس حد تک چاہیے، وہاں جہاں چاہیے، اور اس وقت جس وقت چاہیے، خیر کہلاتی ہے، اور ہر وہ شخص جو سوچ سمجھ کر اپنے شوق و اختیار سے اس طریق پر گامزن ہوتا ہے، اسے مردِ دانا کہتے ہیں۔ ‘‘ (A History of Muslim Philosophy, p.306)

اور یہ تو عیاں ہے کہ مثال فقط عمل کے ذریعے پیش کی جا سکتی ہے، لہٰذا اچھا وہ ہے جس سے اچھائی سرزد ہو۔ وہ جس کے ہاتھوں بھلے کام عمل میں آئیں ، وہ بھلا اور جس سے برے کام عمل میں آئیں ، وہ برا— جو کچھ نہ کرے وہ ناکارہ، ہیچ اور بعض کے نزدیک بدتر بلکہ خود علامہ اقبال کے نزدیک بھی— چنانچہ وہ نظریات و تصورات جو عمل کی تائید و تصدیق سے محروم رہتے ہیں ، مثال اور نمونہ نہیں بن سکتے۔ ان کی حیثیت سرمایۂ دماغ اور موعود ذہنی سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتی۔ یہی باعث ہے کہ علامہ اقبال ان لوگوں کو پسند نہیں کرتے جو اپنے کردار کو اپنی گفتار کے مقابل نہیں تولتے اور میزان بحال نہیں رکھتے:

تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی

کہ تو گفتار، وہ کردار تو ثابت، وہ سیارا

اس مقام پر پہنچ کر ہمیں متوازن کردار کے لیے علامہ اقبال کے ’’مردِ مومن‘‘ پر ایک نظر ڈالنی چاہیے، اقبال کا مردِ مومن ان کا نصب العینی انسان ہے۔ وہ کیسا ہونا چاہیے، جواب تو ایک ہی ہے کہ توازن و اعتدال کا نمونہ، اعمال و اقوال کا خوبصورت امتزاج؟ چنانچہ ضربِ کلیم کی ایک نظم کے چند اشعار درج کیے جاتے ہیں جو مردِ مومن کی توصیف میں ہیں :

 

ُِوذ:ہ کھولوانڈوں کی پڈنگ بنائئقہاری و غفاری و قدوسی و جبروت

یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

 

قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے

دُنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان

 

جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم

دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان

 

فطرت کا سرودِ ازلی اس کے شب و روز

آہنگ میں یکتا صفتِ سورۂ رحمن!

 

مسجدِ قرطبہ میں ’’مردانِ حق‘‘ کا جو نقشہ کھینچا ہے، وہ یوں ہے:

نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو

رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز

بانگِ درا میں کہا ہے:

گزر جا بن کے سیلِ تُند رَو کوہ و بیاباں سے

گلستان راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا

اسی طرح ضربِ کلیم میں آتا ہے:

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

گویا علامہ اقبال کا نصب العینی انسان ’’احسن تقویم‘‘ کی صحیح مثال ہے۔ سختی کی جگہ سختی، نرمی کے موقع پر نرمی، جگرِ لالہ کے لیے ٹھنڈک، دریاؤں کے لیے طوفان، کوہ و بیابان کے لیے سیلِ تُند رَو اور گلستان کے لیے جوئے نغمہ خواں ، بزمِ اُنس میں ابریشم، رزمِ حق و باطل میں فولاد— یہی اسلام کی اصل روح ہے، اسی کا نام صراطِ مستقیم ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:

لاتکن راطباً فتعسر ولا یابساً فتکسر۔ (نہ اتنے تر بنو کہ نچوڑ لیے جاؤ اور نہ اتنے خشک بنو کہ توڑ دیے جاؤ۔ )

قرآن حکیم میں آتا ہے:

’’نہ تو اپنے بازو کو اپنے گلے کا ہار بنا لو اور نہ بے تحاشا پھیلاتے چلے جاؤ۔ (دونوں صورتیں غیر معتدل ہیں ) ۔ لہٰذا خطرہ ہے کہ پھٹکار اور دھتکار پا کر بیٹھ رہو گے۔ ‘‘ (۱۷:۲۹)

توازن کا درس دینے والی اور بھی بہت سی آیات ہیں۔ مگر مزید مثالوں سے دانستہ گریز کیا جا رہا ہے۔ علامہ اقبال قرآن کی اسی توازن آموزی کے پیشِ نظر لکھتے ہیں :

 

زقرآں پیش خود آئینہ آویز

دگرگوں گشتۂ از خویش بگریز

ترازوئے بنہ کردارِ خود را

قیامت ہائے پیشیں رابر انگیز

 

’’قرآن کو آئینے کی طرح پیشِ نظر رکھ۔ اس آئینے میں دیکھے گا، تو پتہ چلے گا کہ تو بالکل بدل کر رہ گیا ہے، لہٰذا اپنے اس مسخ شدہ وجود سے گریز اختیار کر لے، اپنے کردار کے لیے ترازو مقرر کر لے یعنی کردار کو اعتدال کا نمونہ بنا لے۔ جب تو ایسا کرے گا تو تجھ میں وہی قوت آ جائے گی، جو تیرے آباؤ اجداد کو میسر تھی۔ لہٰذا تو بھی وہی قیامت دُنیا میں بپا کر دے گا، جو عہدِ ماضی میں تیرے آباؤ اجداد بپا کرتے تھے۔ ‘‘— گویا علامہ اقبال کے یہاں طاقت اور قوت کا راز تناسب اور توافق میں پنہاں ہے— مگر یہ نظریۂ قوت ذرا آگے چل کر زیرِ بحث آئے گا۔

مشرق و مغرب کی آویزش کے معاملے میں علامہ اقبال کا میلان مشرق کی طرف اس لیے ہے کہ مشرق کے فکری نظام میں عموماً روح کو اہمیت حاصل رہی ہے۔ اور مغرب میں عموماً مادہ کو۔ لیکن یہ محض ترجیحی درجہ بندی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ روح کافی ہے اور مادہ بے ضرورت شے ہے۔ وہ رہبانیت کے شدید مخالف تھے، اس لیے کہ لارھبانیۃ فی الاسلام— رہبانیت خلافِ اعتدال ہے، لہٰذا اسلام میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں لیکن مغرب کی بے روح مادہ پرستی بھی ناگوار شے ہے۔ اس لیے کہ بے روح معاشرہ احترامِ انسانیت کے تصور ہی سے محروم رہ جاتا ہے اور نتیجتاً اخلاق کی ناقہ بے زمام ہو جاتی ہے۔ رحم اور ہمدردی کا جذبہ ناپید ہو جاتا ہے۔ ہوس سود کی کوئی حد نہیں رہتی۔ آدمی طبقات کی نذر ہو جاتا ہے۔ گویا عالمِ انسانیت وحشت کدہ بن کر رہ جاتا ہے۔ علامہ اقبال کو نہ رہبانیت پسند ہے اور نہ مادہ پرستی، چنانچہ وہ اپنے دَور کے مشرق و مغرب، دونوں سے خوش نہ تھے:

بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے

یہاں ساقی نہیں پیدا، وہاں بے ذوق ہے صہبا

اسی طرح جاوید نامہ میں رقمطراز ہیں :

 

غریباں را زیر کی سازِ حیات

شرقیاں را عشق رازِ کائنات

زیرکی از عشق گرد و حق شناس

کارِ عشق از زیرکی محکم اساس

خیز و نقشِ عالمِ دیگر نبہ

عشق را بازیر کی آمیزدہ

 

علامہ کہتے ہیں کہ اہلِ مغرب کے لیے عقل سب کچھ ہے اور اہلِ مشرق کے لیے عشق۔ حالانکہ عقل کو عشق کی مدد درکار ہے تاکہ وہ حق شناس ہو جائے اور عشق کو عقل کی ضرورت ہے تاکہ اس کا معاملہ پختہ بنیاد ہو جائے۔ لہٰذا اے مردِ مسلمان اُٹھ اور ایک نئی دُنیا کی طرح ڈال دے۔ وہ دُنیا ایسی ہو جس میں عشق اور عقل ایک دوسرے کے دمساز و قرین ہوں

بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ شعر ذیل میں علامہ اقبال نے دل کو عقل کی قید سے رہا کر دینے کی تلقین کی ہے، وہ شعر ہے:

اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

مگر اس شعر کی رو سے کوئی تضاد یا تصادم ثابت نہیں ہوتا۔ ترجیح اسی امر کو ہے کہ دل کو عقل کی رفاقت میسر رہے۔ ہاں کبھی کبھی اسے من مانی بھی کر لینے دی جائے جس کا مطلب ہے کہ آدمی کو گاہے گاہے کوئی ’’بے عقلی‘‘ بھی کر لینی چاہیے۔ اس سے زندگی کی لذت میں اضافہ ہو جائے گا۔ ’’کاش کر دے و گزاشتے‘‘ کا مفہوم تقریباً یہی ہے۔ ویسے علامہ اقبال کا نظریہ یہ ہے کہ مردِ مومن جس کا کردار ترازو رہا ہو، عالمِ سکروا استغراق میں بھی اعتدال و احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اس کا جنوں بھی سمیع و بصیر ہوتا ہے   اگرچہ اس امر کا اس بحث سے براہِ راست تعلق نہیں تاہم علامہ کا شعر ذیل ان کے جنونِ متوازن پر روشنی ڈال رہا ہے:

باچنیں زورِ جنوں پاسِ گریباں داشتم

درجنوں از خود نرفتن کارِ ہر دیوانہ نیست

علامہ اقبال اس معاملے میں اتنے محتاط ہیں کہ انبیا علیہم السلام کی وحی کو چھوڑ کر باقی ہر الہام، کشف، وجدان وغیرہ کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ مثلاً ان کا شعر:

صاحبِ ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے

گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش

ہو سکتا ہے کہ وہ فرشتہ جو نغمے الہام کر رہا ہے، خود بے سُرا ہو رہا ہو۔ لہٰذا صاحبِ ساز کو ہر دم چوکنا رہنا چاہیے۔ مطلب یہ کہ اگر وجدان کو اکیلے چھوڑ دیا جائے تو کبھی کبھی غلطی کا اندیشہ ہے۔ لیکن جیسا کہ اوپر بیان ہوا، یہ الہام صوفیا اور اولیا یا مجذوب حضرات کا الہام، وجدان اور کشف ہے، اور یہ انبیاء علیہم السلام کی وحی سے بالکل جدا ہے۔ انبیاء کی وحی کو غیر انبیاء کے الہامات کی صحت و عدم صحت کے لیے کسوٹی کی حیثیت حاصل ہے    لہٰذا عقل کی شدید ضرورت ہے تاکہ وہ وحی پر استوار ہونے والی شرع کی میزان پر ان معاملات کشف وجدان کو تول سکے   جو کچھ مخالف شریعت ہے، وہ غلط ہے۔ اتنی عقل ہر دم ایک رفیقِ بیدار کی طرح دِل کے ہم راہ رہنی چاہیے۔ شریعت کی خلاف ورزی کرنے والا الہام و وجدان خطائے آہنگ کا نتیجہ ہے۔ اس خطا کے امکان پر حضرت مجدد الف ثانی ؒ بالفاظِ ذیل روشنی ڈالتے ہیں :

’’در وحی قطع است و در الہام ظن۔ زیرا کہ وحی بتوسطِ ملک است و ملائکہ معصوم اند۔ احتمالِ خطا درایشاں نیست۔ و الہام اگرچہ محلِ عالی داردو آں قلب است و قلب از عالم امراست، امّا قلب را با عقل و نفس نحوی از تعلق متحقق است و نفس ہر چند کہ تزکیہ مطمئنہ گشتہ است امّا:

ھر چند کہ مطمئنہ گردد

ہرگز زصفات خود نگردد

پس خطارا درایں موطن، مجال پیدا شد۔ ‘‘

(مکتوباتِ امام ربانی، مطبع مجددی، امرتسر، دفتر اوّل، حصہ دوم، صفحہ نمبر ۴)

ترجمہ اس عبارت کا یہ ہے:

’’وحی حتمی اور یقینی ہے، اور الہام گمان و احتمال۔ اس لیے کہ وحی فرشتے کے توسط سے آتی ہے اور فرشتے معصوم ہیں ، ان سے غلطی اور خطا کا اندیشہ نہیں۔ رہا الہام تو اگرچہ وہ بھی محلِ عالی کا مالک ہے اور وہ محلِ قلب ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ قلب کا تعلق عالمِ امر سے ہے۔ (عالمِ خلق سے نہیں ، قلب خاکی نہیں قلب افلاکی ہے) ۔ تاہم قلب کو عقل اور نفس سے ایک طرح کا تعلق تو بالتحقیق ہو جاتا ہے اور نفس خواہ تزکیہ پا کر کتنا ہی مطمئن ہو جائے، پھر بھی وہ اپنی صفات سے کاملاً عاری نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا وہاں خطا کے لیے جولانی کی گنجائش موجود ہے۔ ‘‘

گویا علامہ اقبال الہام و وجدان کے ہر مدعی کو باخبر کر دینا چاہتے ہیں کہ اسے ہوشیار رہنا چاہیے۔ جس آواز کو وہ فرشتے کی آواز جان رہا ہے، ممکن ہے وہ اس کے نفس کی آواز ہو   نفس کسی نخوت کا صیدِ زبوں ہو اور وہ نخوت نفس کی آواز بن کر الٹے سیدھے دعاوی کرا رہی ہو، کبھی غوث ہونے کا دعویٰ کبھی مہدی و قطب ہونے کا دعویٰ، کبھی پیغمبر ہونے کا دعویٰ، کبھی ذات منزّہ سے ہمکنار ہونے کا دعویٰ و علی ہذا القیاس   ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے اس عقل بیدار کی ضرورت ہے جو شریعت کے نور سے مستنیر ہو۔

اس بحث کے پیشِ نظر یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ ان بزرگوں کی تعریض بے محل ہے جو کہتے ہیں کہ اقبال ’’لٹھ لے کر‘‘ عقل کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ایسی آرا غیر معتدل ہیں اور اقبال کی تعلیمات و تصریحات کو تماماً پیشِ نظر نہ رکھنے کا نتیجہ ہیں۔ اقبال دل کو یا عشق کو عقل پر ترجیح ضرور دیتے ہیں ، مگر یہ ترجیح کی بات ہے۔ اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کے نظامِ فکر میں عقل کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ بے نسبتِ عقل کوئی بھی نظام، نظام کیسے بن سکتا ہے۔

قرآن ان لوگوں کو ’’ظالم‘‘ اور ’’معتد‘‘ قرار دیتا ہے جو حدود کا احترام نہیں کرتے۔ حدود شکنی کا عمل وہیں ظہور میں آتا ہے، جہاں جبلتیں سرکش ہو جاتی ہیں۔ ہر جبلت انسان کے لیے جوہری قوت کی حیثیت رکھتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی جبلت کسی دوسری جبلت یا دوسری جبلتوں پر مسلط نہ ہو جائے۔ یہ ایک جبلت کا کسی دوسری ایک یا ایک سے زیادہ جبلتوں پر تسلط ’’حد شکنی‘‘ کا موجب بن جاتا ہے۔ ’’احترامِ حدود‘‘ کا دوسرا نام انصاف ہے۔ یہی شریعت ہے۔ یہی آئینِ دین ہے۔ اور پھر وہی بات کہ خودی مسولینی کی ہو یا ہٹلر کی، پابند شرع ہو جائے تو مسلمانی ہو جاتی ہے۔ ‘‘— یہی باعث ہے کہ فقہِ اسلامی میں شریعت کی خلاف ورزی پر عمل میں آنے والی سزا کا نام ’’حد‘‘ ہے۔

علامہ اقبال کے فکر کا لب لباب خودی ہے— بعض سہولت پسند نقاد خودی کا سلیس ترجمہ ’’قوت‘‘ کر لیتے ہیں۔ پھر اس ترجمہ کا مزید سلیس ترجمہ فاشیت قرار دے لیا جاتا ہے، اور چونکہ علامہ اقبال کی علامات میں شاہین، شیر، تیغ، جہاد، سنجر، تیمور، ابدالی، نادر اور مسولینی وغیرہ کلمات و اسما موجود ہیں ، اس لیے ’’فاشیت‘‘ کے دعوے کو دلیل مل جاتی ہے   مگر ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ علامہ اقبال جس قوت کے قائل ہیں ، وہ اندھی اور بے مقصود نہیں۔ قوت برائے قوت ایک مہمل جوہر ہے۔

قوت ’’خیر‘‘ بھی ہے اور ’’شر‘‘ بھی۔ فیصلہ مقصود کے ہاتھ میں ہے۔ الاعمال بالنیات۔ قوت کا غلط استعمال شر ہے، قوت کا بجا استعمال خیر ہے۔ ایک قوت وہ ہے جو معاشرے کا تحفظ کرتی ہے، ظلم و جور کا قلع قمع کرتی ہے۔ اس کے برعکس ایک قوت وہ ہے جس کے مزاج میں ذوقِ تخریب و غارت ودیعت کیا گیا ہے۔ مطلب صاف ہے کہ علامہ اقبال جس قوت کے حامی ہیں ، وہ ’’پابندِ حدود‘‘ ہے۔ وہ شرح کے تابع ہے۔ اس کی روح اعتدال ہے۔ یہی باعث کہ ان کے نزدیک ’’اختیار‘‘ جبر پر استوار ہے اور وہ اختیار جو ’’غیر مجبور‘‘ ہے۔ وہ چنگیزی کے سوا کچھ نہیں ، یہاں جبر سے مراد پابندیٔ آئین و شرع ہے   علامہ اقبال ’’می شود از جبر پیدا اختیار‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے، اسرارِ خودی میں لکھتے ہیں :

 

ہستیِ مسلم ز آئین است و بس

باطنِ دینِ نبیؐ این است و بس

 

برگِ گل شد چوں ز آئیں بستہ شد

گل ز آئیں بستہ شد گلدستہ شد

 

نغمہ از ضبطِ صدا پیداستے

ضبط چوں رفت از صدا غوغاستے

 

دَر گلوئے ما نفس موجِ ہواست

چوں ہوا پابندِ نے گردد نواست

 

مسلمان کی ہستی آئین کی پابندی کے باعث ہے۔ دینِ رسولؐ کی روح یہی امر ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پھول کی پتی پابندیٔ آئین کے باعث گل ہے اور گل پابندی کے باعث گلدستے کا روپ دھار لیتا ہے۔ آواز پابند ہوتی ہے تو نغمہ بن جاتی ہے اور پابندی ختم ہو جائے تو نغمہ رخصت ہو جاتا ہے اور شور و غل باقی رہ جاتا ہے۔ ہماری سانس محض موجِ ہوا ہے، جب وابستۂ نے ہو جائے تو نَوا بن جاتی ہے۔ گویا تناسب کا نام حسن ہے اور تناسب ہی میں قوت کا راز پنہاں ہے۔

امام غزالی کہتے ہیں :

’’جمال خود اپنی ذات میں وہ جوہر ہے جو ہر کسی کو مرغوب ہے۔ جمال سے مفہوم ہے کسی کل کے اجزا کا باہمی حسنِ تناسب اور یہ چیز فقط مادی اشیا ہی میں جلوہ گر نہیں ہوتی۔ یہ آدمی کی حرکات و سکنات، طرزِ عمل رویے اور تصورات و نظریات میں بھی پائی جاتی ہے— غرضیکہ وہ شے جو جمیل ہے، ہمارے لیے خود اپنی ذات میں مرغوب ہے۔ ‘‘ (A History of Muslim Philosophy, p. 636)

بے نظم مسالا، اینٹ، پتھر، چونا، گچ، رنگ وغیرہ ڈھیر اور انبار کہلاتا ہے، وہی سب کچھ پابند تناسب ہو جائے تو تاج محل اور موتی مسجد وجود میں آ جاتی ہے۔ آدمیوں کی بے نظم جمعیت بھیڑ بھاڑ سے زیادہ کچھ نہیں۔ وہ بھیڑ بھاڑ جب پابندِ نظم ہو جائے تو فوج کہلاتی ہے، جس کی حرکات میں آہنگ پایا جاتا ہے، اور وہی آہنگ اس کی قوت کا راز ہے۔ جب تک یہ آہنگ باقی ہے، فوج فوج ہے۔ وہ مدافعت بھی کرتی ہے، وہ شر کے خلاف جہاد بھی کرتی ہے اور جب بے نظم ہو جائے تو پھر ایک ہجوم میں تبدیل ہو کر اپنی قوت کھو بیٹھتی ہے۔ بات وہی کہ

ع           می شود از جبر پیدا اختیار

اگر سطورِ بالا میں بیان کردہ اصول کی روشنی میں کائنات کے وسیع نظام کے اندر مختلف معاشروں اور معاشرتوں کا نظارہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ علامہ اقبال کے اسماء جو قوت پر دلالت کرتے ہیں ، وہ محض علامات ہیں ، ورنہ قوت کا اصل سرچشمہ ’’پابندی‘‘ خود اپنی ذات میں ایک قوت ہے اور روحاً اور معناً چنگیزیت اور فاشیت اور فسطائیت سے بالکل مختلف ہے۔

مزید برآں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ علامہ اقبال نے تربیتِ خودی کے لیے تین مراحل بتائے ہیں۔ پہلا اطاعت، دوسرا ضبطِ نفس اور تیسرا نیابت الٰہی۔ نیابتِ الٰہی ایک طرح سے پہلے دونوں مرحلوں کا منطقی نتیجہ ہے۔ جو فرد اطاعت و ضبطِ نفس کے عمل میں کامل نہیں ، وہ عناصر کائنات کا مسخر نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ اس میں روحِ اعتدال پیدا نہ ہو گی جو قوت کا سرچشمہ ہے— نائب الٰہی وہی ہو گا جو احکامِ خداوندی کا سب سے زیادہ پابند ہو گا اور جسے احکامِ الٰہی کی پابندی:  تخلقوا باخلاق اﷲ (اللہ کے اخلاق و اوصاف اپنا لو) کا نمونہ بنا دے گی۔ وہ اللہ جو خلاق ہے، رزّاق ہے، رحمن ہے، غفار ہے، ستار ہے، اور ساتھ ہی جبار ہے، قہار ہے، ذوالقّوت، ذوانتقام ہے۔ ہر صنعت اپنی جگہ جلوہ گر، گوناگوں جوہر کا توازن اور اسی توازن کا مالک ہے۔ علامہ اقبال کا نصب العینی انسان، ان کا مردِ مومن جو:۔  ع

قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت

کی ترکیبِ حسین کا مظہر ہونے کے باعث

آہنگ میں یکتا صفتِ سورۂ رحمن

بن جاتا ہے:

میزانِ اقبال، اقبال اکادمی، لاہور، ۱۹۸۲ء

٭٭٭

تشکر: وسیع اللہ کھوکھر جن کےتوسط سے فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید