FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

راوی کے کنارے

 

 

 

               قمر جمالی

 

مشمولہ ’اردو پلے‘ مرتبہ پروفیسر سیدمعزالدین احمدفاروق

 

 

 

 

 

 

 

کردار

 

جہانگیر:شہنشاہ ہند

نورجہاں :ملکہ

سیف اللہ:بنگال کا گورنر

کسان:ایک معمولی کاشتکار

عورت:کسان کی بیوی

قاضی:منصف

ضلع دار

آصف خاں :نورجہاں کا بھائی

خادم:خادم

کاکل:خادمہ

سنبل:خادمہ

دروغہ:جیل کا نگراں

ٹھاکر:سیف اللہ کا مشیر

 

 

 

 

منظر

 

لوگوں کا مجمع  اور  شور و غل کی گونج، ہاتھی کی چنگھاڑ۔ ۔ ۔ پھر جہانگیر کی گونجتی ہوئی آواز۔

 

جہانگیر:مہاوت۔ ۔ ۔ واضح رہے حکم عدولی کی سزا موت ہے۔

(سنسنی خیز ساز، ہاتھی کی چنگھاڑ)

جہانگیر: (انتہائی غضبناک لہجہ میں) تعمیل ہو۔

(ہاتھی کی چنگھاڑ۔ ۔ ۔ پھر سیف اللہ کی دردناک چیخ۔ ۔ ۔ لوگوں کا شور و غل میں تحلیل ہو جاتی ہے  اور  ان آوازوں کے درمیان نوبت کی آواز ابھرتی ہے۔ )

اعلانچی  :ہوشیار، خبردار، حضور ممدوح الشان والیٔ ہندوستان شہنشاہ جہانگیر کے حکم سے ہر خاص و عام کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ حاکم بنگال عزت مآب سیف اللہ خاں کے انتقال پر  ملال کے ماتم میں تین دن تک سلطنت مغلیہ کے ہر گوشے میں جملہ کاروبار بند رکھا جائے۔

(نوبت کی آواز)

نورجہاں        : (گلو گیر آواز میں) اب ماتم گساری سے حاصل؟ آپ نے ملکۂ عالیہ کے نور نظر کو اس کی جان عزیز سے محروم کر کے انصاف کے نام کو اونچا کیا ہے عالی جاہ۔ ۔ ۔

جہانگیر:بیگم!ہم کو آپ کے جذبات کا احساس ہے  اور  ہم آپ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ مگر  ہم اس حقیقت کو فراموش نہیں کر سکتے کہ انصاف مغل سلطنت کی اساس ہے۔

نورجہاں        : (طنزیہ انداز میں)  اور  اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ ایک معمولی کسان کی ضد پر انصاف کو اندھے کی لاٹھی کی طرح گھمایا جا سکتا ہے۔

جہانگیر:بیگم۔

نورجہاں        :ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ آپ نے جس بچہ کو گود میں کھلایا تھا جس کو اپنے پہلو میں تخت پر بٹھایا تھا کیا وہ اس رعایت کا مستحق نہیں تھا کہ اس کو صفائی کا موقع دیا جاتا۔

جہانگیر:ہم نے سیف اللہ کودو بار موقع دیا کہ وہ اپنی ذمہ داری محسوس کرے مگر  افسوس۔ ۔ ۔ اس نے ہمارا مشورہ قبول نہیں کیا  اور   اس معاملہ کو اپنے وقار کا سوال بنٍا لیا۔

(ستار کا جھالا۔ ۔ ۔ فلیش بیک)

سیف  :بے شک۔ یہ ہمارے وقار کا سوال ہے۔

ضلع دار        :مگر  حضور والا کیا یہ ممکن نہیں کہ شاہی خفیہ پولیس اس معاملہ کوکسی  اور   ہی رنگ میں پیش کرے۔

سیف   :اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم ایک معمولی کسان کی ضد کے سامنے اپنا سر جھکا دیں۔

ضلع دار        :خدانخواستہ۔ ۔ ۔  مگر  کسان  کو مظلوم سمجھنے والے لوگوں کی بھیڑ پر سپاہیوں کی یلغار کے معاملہ کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

سیف  :یہ تو ٹھیک ہے مگر  تم ہی بتاؤ! جب ہماری موجودگی میں مشتعل ہجوم نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو اس کا انجام کیا ہونا چاہئے تھا۔ ۔ ۔  ہمارے نزدیک یہ کوئی تشویش کی بات نہیں۔

(دربان کی آمد)

دربان  :سرکار کی جئے ہو۔

سیف  :کیا ہے ؟

دربان  :دو فریادی ایک بچے کی لاش کے ساتھ کل شام سے راج محل کے دروازے کے سامنے بیٹھے ہیں۔

سیف  :ہوں۔

دربان  :پہرے داروں نے ان کوہ ٹانے کی بہت کوشش کی مگر ۔ ۔ ۔

سیف  : (باٹ کاٹتے ہوئے طنزیہ لہجہ میں) مگر وہ ہٹنا نہیں چاہتے۔

دربان  :جی سرکار۔

سیف  :تو پھر کیا چاہتے ہیں ؟

دربان  :انصاف۔

(سنسنی خیز ساز)

سیف  : (جھنجھلا کر) نہیں وہ انصاف نہیں چاہتے ان کے سینوں میں انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے۔ ۔ ۔  اور  انتقام۔ ۔ ۔ (رک کر فیصلہ کن انداز میں) ٹھیک ہے ان کو دیوان عام میں بھیج دیا جائے۔

(لوگوں کی سرگوشیوں کی آوازیں۔ )

نقیب   :ادب، ادب کہ حاکم بنگال برآمد ہیں۔

۔ ۔ ۔ (خاموشی)۔ ۔ ۔ (گونج)۔ ۔ ۔

سیف  :معزز حاضرین۔ ۔ ۔ ہم نے آپ حضرات کو اس لئے تکلیف دی ہے کہ آپ کے روبرو ایک ناخوشگوار واقعہ کا اظہار کر سکیں آپ میں سے بہت سوں کو معلوم ہو گا کہ کل ہمارے ہاتھی کے پاؤں تلے ایک معصوم بچہ کچل کر ہلاک ہو گیا تھا، ہم نے بچے کے والدین سے اپنی دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے پیش کش کی تھی کہ خون بہا لے کر مہاوت کو معاف کر دیں بلاشبہ ہم جانتے ہیں کہ انسانی جان ایک انمول شئے ہے اسے خریدا نہیں جا سکتا مگر ۔ ۔ ۔

کسان  : (مداخلت کرتے ہوئے) اپرادھی کوسزا تو دی جا سکتی ہے۔

سیف  : (چونک کر) یقیناً۔ ۔ ۔ مگر سوال یہ ہے کہ قصور وار کون ہے ؟(خاموشی) میں قبلہ قاضی صاحب سے رجوع کرتا ہوں کہ مقدمہ کی سماعت فرما کر ازروئے شرع فیصلہ صادر فرمائیں۔

قاضی  :فریادی۔ ۔ ۔ بیان کرو تمہاری شکایت کیا ہے ؟

کسان  : (خاموشی)

قاضی  :بولو!تم خاموش کیوں ہو۔ ۔ ۔ یاد رکھو جب تک تم اپنی شکایت بیان نہیں کرو گے انصاف نہیں کیا جا سکتا۔ ۔ ۔ (وقفہ)۔ ۔ ۔ ڈرو مت یقین کرو انصاف اقتدار سے بہت بلند ہے۔

عورت/مرد    :ہم کو بدلہ چاہئے۔

قاضی  :کس سے ؟

کسان  :اپرادھی سے۔

قاضی  :تمہارے خیال میں مجرم کون ہے ؟

عورت  :ایک نہیں دو ہیں سرکار۔

قاضی  :تم؟

کسان  :یہ میری بیوی ہے سرکار۔

قاضی  :ٹھیک ہے تمہارے خیال میں مجرم کون ہے ؟

کسان  :کس کا نام بتاؤں سرکار، میری سمجھ میں نہیں آتا۔

قاضی  :جس کو تم مجرم سمجھتے ہو۔

کسان  :میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ ان میں سے ایک وہ ہے جس نے میری آنکھوں کے سامنے میرے معصوم بچے کو ہاتھی کے پاؤں تلے روند ڈالا۔

قاضی  :دوسرا؟

کسان  :دوسرا وہ ہے جو اپرادھی کی حمایت  اور  حفاظت کے لئے حکومت کی طاقت کا استعمال کر رہا ہے۔

قاضی  :مدعی، انصاف کا مبہم الزاموں کی نہیں کھلے ثبوت کی ضرورت ہیں۔ ۔ ۔  ملزموں کے نام بتاؤ!

عورت  :میں بتاتی ہوں اصلی اپرادھی یہ ہے صوبیدار۔ ۔ ۔ !

(سنسنی خیز ساز، لوگوں کی مبہم آوازیں۔ )

آواز   :بدتمیز عورت، تیری اتنی ہمت۔ ۔ ۔

(گونج)

آواز   :اس کی زبان کھینچ لی جائے۔

آواز   :نہیں دونوں کو تہہ تیغ کر دیا جائے۔

قاضی  :خاموش۔ ۔ ۔ خاموش۔ ۔ ۔

سیف  :قبلۂ محترم۔ ۔ ۔  سیف اللہ اپنے خدا کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ اس کی جگہ کوئی  اور  ہوتا تو اس گستاخ کو نہایت عبرتناک سزا  دیتا مگر جہانگیری عدل و انصاف کا تقاضہ ہے کہ صبر و برداشت سے کام لیا جائے۔

قاضی  :پھر بھی کیا یہ بات سچ نہیں کہ آپ کے ہاتھی کے پاؤں تلے ایک معصوم بچہ کچل ڈالا گیا۔

سیف  :لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ محض اتفاق تھا  اور  اتفاق حادثہ کہلاتا ہے اقدام نہیں۔

قاضی  :بہرحال مہاوت کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے۔

سیف  :بلاشبہ، مگر دنیا میں کوئی سمجھدار انسان نہیں چاہتا کہ چھوٹے سے چھوٹا حادثہ اس کی زندگی میں داخل ہو کر ہلچل مچا دے۔

قاضی  :اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ انسانی جان کے نقصان کو محض حادثہ کا نام دے کر معاملہ کو رفع دفع کر دیا جائے۔

سیف  :میری جانب سے معاوضے کی پیش کش کی جا چکی ہے، جناب والا۔

قاضی  :مدعی۔ ۔ ۔ تم کو معاوضہ لینے میں کیا اعتراض ہے۔

کسان  :باپ کو بیٹے کی ضرورت ہے دولت کی نہیں مالک۔ ۔ ۔

قاضی  :جبکہ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ ہم میں سے کوئی نہیں جو مردے میں جان ڈال سکے۔

کسان  :مگر اپرادھی کو سزا تو دی جا سکتی ہے۔

سیف  : (غضبناک لہجہ میں) سزا،  سزا، کیسی سزا، کس بات کی سزا۔ ۔ ۔ تم لوگ اس قابل نہیں کہ تمہارے ساتھ انصاف کیا جا سکے۔

عورت  : اور  تم سے انصاف کی آشا کرنا پتھر میں جونک لگانا ہے۔

کسان  :ہاں ہم اپنے بادشاہ سے انصاف مانگیں گے۔

سیف  : (غصہ سے بے قابو ہو کر) ذلیل، کمینے، تیری یہ ہمت، ہم کو دھمکی دیتا ہے۔ لے جاؤ اس مردود کو اور  ڈال دو قید خانے کی تنگ و تاریک کوٹھری میں۔

(ہیجان پیدا کرنے والا ساز)

 

﴿۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ﴾

(غمگین ساز)

جہانگیر: (بے چینی سے ٹہلتے ہوئے) یقیناً اس کا جرم بھی لائق تعزیر ہے، خسرو کی طرح وہ بھی غلط راستہ پرجا رہا ہے۔

آصف  : (بات کاٹتے ہوئے) گستاخی معاف، عالم پناہ کو شہزادے خرم کے متعلق فیصلہ کرنے سے قبل خود اپنی حیثیت کا تعین کرنا ہو گا۔

جہانگیر: (تلخی سے) آصف خان۔

آصف  :عالی جاہ محض شہنشاہ ہی نہیں بلکہ ایک باپ بھی ہیں۔

جہانگیر: (نرم لہجہ میں) ہم جانتے ہیں مگر تم ہی سوچو کیا یہ بات تشویشناک نہیں کہ ہماری تمام تر مہربانیوں کے باوجود خرم گستاخی پر آمادہ ہے۔

آصف  :یہ بات قابل لحاظ ہے عالی جاہ مگر ۔ ۔ ۔

جہانگیر:اس نے صاف لفظوں میں دھمکی دی ہے کہ باریابی کے بغیر وہ دکن واپس نہیں جائے گا گویا ہم محکوم ہیں اس کی ہر خواہش کے سامنے سر جھکانا ہمارا فرض ہے۔

آصف  :ہرگز نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ باپ  اور  بیٹے کے درمیان یہ خلیج یہ فاصلہ کس لئے۔ عالی جاہ میں جانتا ہوں کہ۔ ۔ ۔ (کہتے کہتے رک جاتا ہے) گستاخی معاف، آصف کو اس موضوع پر لب کشائی سے معذور سمجھا جائے تو کرم ہو گا۔

جہانگیر:نہیں نہیں آصف تحفظ سے کام مت لو ہم  تو صرف اپنی غلط فہمی کا ازالہ چاہتے ہیں  اور  امید کرتے ہیں تم اس سلسلہ میں ہماری مدد کرو گے۔

آصف  :سر آنکھوں پر عالی جاہ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔

(ہچکچاہٹ۔ ۔ ۔ )

جہانگیر:آصف مت بھولو کہ خرم کے ساتھ ہماری وابستگی تم سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ ہمارا خون ہے، ہمارا لخت جگر ہے ہم اس کو معاف بھی کر سکتے ہیں مگر جاننا چاہتے ہیں یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے۔

آصف  :اس لئے کہ محل کے داخلی معاملات نے صاحب عالم کو احساس دلایا ہے کہ ان کو جان بوجھ کر ظل سبحانی سے دور کیا جا رہا ہے۔

جہانگیر:ہرگز نہیں، ہمارے دل میں آج بھی خرم کے لئے وہی جگہ ہے مگر  جانے کیوں وہ خودبخود ہم سے دور  ہوتا جا رہا ہے اس سلسلہ میں ہمارے خفیہ پولیس بھی خاموش ہیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ ۔ ۔  آخر وہ لوگ کون ہیں جو ہمارے ذمہ داروں کو غلط راستہ پرلے جانا چاہتے ہیں۔

آصف  :جہاں تک صاحب عالم کا تعلق ہے ان کا خیال ہے کہ وہ صحیح راستہ پر ہیں۔

جہانگیر:جبکہ تم اچھی طرح جانتے ہو  کہ حقیقت کیا ہے۔

آصف  :صرف اس قدر کہ حالات نے صاحب عالم کو ملکہ عالیہ کی طرف سے بدگمان کر دیا ہے۔

نورجہاں        :ہم سے بدگمانی کا یہ مطلب تو نہیں کہ بیٹا باپ کے خلاف نیام سے تلوار نکال کر میدان جنگ میں کود پڑے۔

آصف  :یہ آ پ  کاخیال ہے ملکہ عالیہ جہاں تک مجھے معلوم ہے اس کا سچائی سے کوئی تعلق نہیں۔

نورجہاں        :اس کا یہ مطلب ہوا کہ۔ ۔ ۔

جہانگیر: (بات کاٹتے ہوئے) بیگم۔ ۔ ۔ ہم نے آصف کو اس لئے بلایا تھا کہ خلد آشیانی خان بابا کے جشن ولادت کی تاریخ نزدیک ہے۔ ہم چاہتے ہیں اس بار یہ جشن نہایت سادگی سے منایا جائے۔

آصف  :بہت بہتر۔

جہانگیر:آج ہی تمام صوبوں کے حکام کو فرمان جاری کر دئیے جائیں کہ حسب سابق کسی تفریق کے بغیر غریبوں کے ساتھ فراخ دلی  اور  اخوت کا برتاؤ کیا جائے۔ خیر، خیرات  اور  داد و دہش کے علاوہ قیدیوں کی عام رہائی کی روایت برقرار رکھی جائے۔

ٹھاکر   :جشن کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔

سیف  :شاباش، ہمیں تم سے یہی امید تھی ٹھاکر۔ ۔ ۔ ؟ابھی تمہاری آمد سے قبل ہم یہی سوچ رہے تھے کہ مغلوں کے لئے اس سے زیادہ فخر کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ ان کے جاں نثاروں میں ترکی، ایرانی، افغانی ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے ایسے سورما بھی شامل ہیں جو بال سے باریک فرق کے بغیر اپنے بادشاہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔

ٹھاکر   : اور  یہ ہم سب کے لیے گرو کی بات ہے۔

سیف  :بے شک۔

ٹھاکر   :ہم میں سے ہر ایک جانتا ہے کہ ہم ایسے پوتر سامراج کے ناگر ک ہیں جس نے چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے بھارت ورش کو سمیٹ کر ایک گورو شالی دیش بنا دیا ہے۔

سیف  :سبحان اللہ!۔ ۔ ۔ تمہارے جذبات لائق تحسین ہیں ٹھا کر، لیکن کیا تم اس سچائی سے انکار کر سکتے ہو کہ ہندوستان میں آج بھی مذہب کے نام پر حکومت کے خلاف سرکشی کا احساس پایا جاتا ہے۔

ٹھاکر   :ید ی میں اس سے انکار کروں تو۔

سیف  :تو اس کے سوا کیا  کہا جا سکتا ہے کہ ہم سچائی سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔

ٹھاکر   :ہو سکتا ہے کہ آپ کا خیال صحیح ہو مگر  میں تو اس لئے حاضر ہوا تھا کہ اتسو کی خوشی میں رہائی پانے والے قیدیوں میں وہ بدنصیب کسان بھی شامل ہو گیا ہے جس نے حضور والا کے انصاف کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

سیف  : (چونک کر) کیا؟

ٹھا کر   :جی ہاں۔ ۔ ۔ اپرادھی باہر موجود ہے۔

سیف  : (اونچی آواز میں) پیش کیا جائے۔

(زنجیروں کی آواز قریب آ کر رک جاتی ہے۔ )

سیف  :کسان۔ ۔ ۔ تمہاری گستاخ نگاہی  اور  بے ادبی کے باوجود تم کو ایک بار پھر موقع دیا گیا ہے کہ تم چا ہو تو اب بھی تاسف کا اظہار کر کے ہماری خوشنودی حاصل کر لو ہم جانتے ہیں قید و بند کی صعوبتیں جھیل کر تم کو احساس ہو گیا ہو گا کہ حصول انصاف کے لئے تم نے جو راستہ اختیار کیا تھا۔

کسان  : (بات کاٹتے ہوئے) وہ ایک دم ٹھیک تھا۔

(سنسنی پیدا کرنے والا ساز)

سیف  : (غصہ کے ساتھ) اوہ۔ ۔ ۔ تو تم ابھی تک اپنی ضد پر قائم ہو؟

کسان  :یہ ضد نہیں سرکار انصاف کی مانگ ہے اپرادھی کو اس کے اپرادھ کی سزا ملنی چاہئے۔

سیف  : اور  اپرادھی ہم ہیں۔

کسان  :جی نہیں آپ تو کیول انصاف کی ترازو کا پاسنگ ہیں۔

(غصہ پیدا کرنے والا ساز)

سیف  : (چیخ کر) ٹھاکر۔

ٹھاکر   :جی سرکار۔

سیف  :لے جاؤ اس بد زبان کو ہماری نظروں سے دور کر دو ورنہ ہماری تلوار اس کے لہو سے ناپاک ہو جائے گی  اور  منادی کر دوکہ جس کسی نے اس سے بات کی یا کوئی مدد کرتا ہوا پایا گیا اس کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔

(ڈھول پیٹنے کی آواز)

عورت  :اب کیا ہو گا؟

کسان  :ہم لوگ لاہور جائیں گے۔

عورت  :لاہور۔ ۔ ۔ ؟

کسان  :ہاں لاہور۔ ۔ ۔ جانتی ہے یہ سڑک سیدھی لاہور جاتی ہے۔

عورت  : اور  لاہور میں بھی ہمارے ساتھ نیائے نہیں کیا گیا تو۔ ۔ ۔

خفیہ نویس      : (دور سے) یہ ناممکن ہے بابا۔

کسان  : (حیرت سے) کون۔

خفیہ    :سور داس ہوں بابا، لوگ تو نین سکھ کہتے ہیں پر ہوں اندھا۔ ۔ ۔  آنکھوں سے دکھتا نہیں۔

کسان  :مگر تمہاری آنکھیں تو اچھی خاصی ہیں۔

خفیہ    :ہاں بابا۔ ۔ ۔ دیکھنے میں دیکھنے والی لگتی ہیں مگر ان میں جوت نہیں جیسے تمہارے صوبے کا صوبیدار کہنے کو انصاف کرتا ہے مگر انصاف کرتا نہیں۔

کسان  :بابا۔

خفیہ    :سور داس کو سب کچھ معلوم ہے بابا۔

کسان  :پھر بھی آپ ہم سے بات کر رہے ہیں۔

خفیہ    :اس لئے کہ سور داس آنکھوں کا اندھا ضرور ہے مگر کانوں کا بہرا نہیں وہ سن رہا ہے بادشاہ سلامت کا انصاف تمہیں پکار رہا ہے۔ ۔ ۔  جاؤ۔ ۔ ۔  جاؤ۔ ۔ ۔ جاؤ۔

کسان  :مگر ہم لوگ اپنے بادشاہ تک کیسے پہونچیں گے بابا۔

خفیہ    :یہ لو۔ ۔ ۔ شاہی مہر ہے۔ لاہور پہنچ کر کسی بھی سرکاری ملازم کو دکھا دینا وہ تم کو۔ ۔ ۔

(دور سے قدموں کی آہٹ)

کسان  : (گھبرا کر)کوئی آ رہا ہے۔

خفیہ    :کون۔

کسان  :سپاہی لگتا ہے۔

خفیہ    : (فقیر کی طرح) ایک پیسہ کا سوال ہے بابا بھگوان کے نام پر۔ ۔ ۔  ایک پیسہ دے دو۔

سپاہی   : (قریب آ کر) اے بڈھے یہاں کیا کر رہے ہو۔

خفیہ    :بھیک مانگ رہا ہوں بابا، صبح سے کچھ نہیں کھایا بابا۔ ۔ ۔  بھوکا ہوں۔

سپاہی   : (حقارت سے) بھوکے ہو تو مر کیوں نہیں جاتے۔ تم کو زندہ رہنے کی کیا ضرورت ہے۔

خفیہ    :ٹھیک کہتے ہو بابا، مگر زندگی  اور  موت تو بھگوان کے اختیار میں ہے آنکھوں کا اندھا، پیٹ کا بندہ بھگوان کیسے بن سکتا ہے۔

سپاہی   :اچھا چلو یہاں سے۔ ۔ ۔ بھاگو، خبردار جوان لوگوں سے بات کی۔

خفیہ    :کن سے بابا۔

سپاہی   :اب جاتے ہو کہ نہیں۔

خفیہ    :جاتا ہوں بابا۔ ۔ ۔ جاتا ہوں، ناراض کیوں ہوتے ہو؟(صدا لگاتا ہے) ایک پیسہ کا سوال ہے بابا۔ ۔ ۔ بھگوان کے نام پر۔ ۔ ۔ ایک پیسہ۔ ۔ ۔  ایک پیسہ۔ ۔ ۔  ایک پیسہ۔ ۔ ۔

(آواز ڈوب جاتی ہے۔ )

نورجہاں کی آواز

پیارے سیفو، ہزاروں دعائیں!

ایک کسان  اور  اس کی بیوی شاہی محل کے جھروکے کے نیچے آ کر انصاف کی دہائی دیتے ہیں۔ یہ دونوں تمہارے ہی صوبہ سے آئے ہیں۔ ۔ ۔ میں نے ان کو طرح طرح سے سمجھایا انعام وا کرام دے کر رخصت کرنا چاہا لیکن وہ قلعہ کی دیوار کے نیچے  اور راوی کے کنارے کنارے گدھوں کی طرح منڈلاتے رہتے ہیں۔ تم جانتے ہو جہاں پناہ غریبوں پر کس درجہ مہربان ہیں  اور  انصاف کو دنیا کی ہر چیز پر ترجیح دیتے ہیں، تم کو بھی مغل سلطنت کے طور طریقوں کا پابند ہونا چاہئے۔ ہم نے تمہاری ذات سے جو توقعات وابستہ کر رکھی ہیں امید ہے کہ تم ان پر پورے اترو گے۔

تمہاری خالہ۔ ۔ ۔ نورجہاں

سیف  :اوہ تو وہ لوگ وہاں تک پہنچ ہی گئے۔

ضمیر    :تو کیا ہوا۔

سیف  :کون جانے۔

ضمیر    :جبکہ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ تم نے کبھی اقتدار کو انصاف سے بلند نہیں سمجھا۔

سیف  :خدا شاہد ہے میں نے کبھی کسی پر ظلم نہیں کیا۔

ضمیر    :اس کے باوجود بھی پریشان ہو۔

سیف  :اس لئے کہ ہوا کا رخ بدلتے دیر نہیں لگتی۔

ضمیر    :تم سپہ سالار بھی ہو۔

سیف  :وہ تو ٹھیک ہے مگر ۔

ضمیر    :مت بھولو کہ تمہاری رگوں میں ایرانی خون دوڑ رہا ہے تم نے مغل اقتدار کے لئے اپنی بہترین صلاحیتوں کا استعمال کیا ہے اس کے علاوہ ملکہ عالیہ کے بھانجے ہو اور  ملکہ عالیہ اس وقت ہندوستان کی اصلی حکمراں ہیں۔

سیف  :یہ سب کچھ جانتا ہوں پھر بھی۔ ۔ ۔

ضمیر    : (بات کاٹتے ہوئے)ڈرتے ہو، بزدل کہیں کے، یقینا تم اسی قابل ہو کہ ایک معمولی کسان تمہاری بساط الٹ کر رکھ دے۔

سیف  :بکو مت، ادب سے بات کرو۔

ضمیر    :تو پھر تیار ہو  جاؤ اس انصاف کے لئے جو تمہاری زندگی میں داخل ہونے والا ہے۔

سیف  :میں تیار ہوں۔

ضمیر    :شاباش۔ ۔ ۔ بہادروں کی طرح حالات کا مقابلہ کرنے والوں نے ہمیشہ حکومت کی ہے۔

خادم   :حضور والا۔

سیف  : (چونک کر)۔ ۔ ۔ ایں۔ ۔ ۔ (سنبھلتے ہوئے) کیا ہے۔

خادم   :شاہی قاصد پیغام لے کر آیا ہے۔

سیف  :آنے دو۔

(قدموں کی آواز)

قاصد  :حضور کے نام سلطان عالم کا خصوصی پیغام پیش خدمت ہے۔

سیف  :ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ تم جا سکتے ہو۔

(کاغذ کی کھڑکھڑاہٹ)

جہانگیر کی آواز

بنام حاکم بنگال سیف اللہ خاں۔ ۔ ۔ واضح ہو کہ ایک کسان  اور  اس کی بیوی تمہارے خلاف شکایت لے کر آئے تھے ہم نے ان کو انعام و ا کرام سے نواز کر واپس کر دیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف کرو اور   اطمینان کی زندگی گزارنے دو، یاد رکھو شہنشاہ جس طرح روزمرہ کی ضرورتوں کے پابند ہوتے ہیں اسی طرح انصاف بھی ان کی زندگی کا معمول ہے مابدولت کی خواہش ہے کہ بنگال کی رعایا کے ساتھ تمہارا سلوک بہتر ہونا چاہئے کیوں کہ ان میں سے ہر ایک کی ذمہ داری تم پر ہے۔ ۔ ۔ صرف تم پر۔ ۔ ۔

سیف  : (سانس) بے شک میں ہی ذمہ دار ہوں  اور  اب میں اپنی ذمہ داری پوری کروں گا وہ کمبخت اس سرزمین پر  قدم تو رکھ لیں۔ ۔ ۔ (بلند آواز سے) کوئی ہے۔

خادم   ۔ :حضور والا۔

سیف  :کوتوال کو حاضری کا پابند کیا جائے۔

خادم   :بہت بہتر۔

﴿۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ﴾

نورجہاں        :عالم پناہ۔

جہانگیر: (چونک کر) بیگم آپ۔

نورجہاں        :جی ہاں۔ ۔ ۔ دن کا ایک پہر گزر چکا ہے۔

جہانگیر:اوہ۔ ۔ ۔ شاید وقت کی رفتار بہت تیز ہے۔

نورجہاں        : (ہلکی سی ہنسی کے ساتھ) مگر اتنی بھی نہیں کہ فاصلوں کا احساس ختم ہو جائے۔

جہانگیر:بیگم سچ تو یہی ہے مگر ہمارے احساس کی ہر سمت آپ کے خوشگوار تصور کی منزل پر ختم ہو جاتی ہے۔

نورجہاں        :بہت خوب۔ ۔ ۔ آج پھر کسی کو شرمندہ کیا جا رہا ہے۔

جہانگیر:نہیں بیگم ہم تو خود شرمندہ ہیں۔

نورجہاں        :سوال یہ ہے کہ تذکرہ لکھتے وقت آپ اس درجہ محو ہو جاتے ہیں کہ کبھی کبھی ہم کو اپنی نفی کا احساس ہونے لگتا ہے۔

جہانگیر:ملکہ۔ ۔ ۔

(سوالیہ میوزک)

نورجہاں        :گستاخی معاف۔ ۔ ۔ عالم پناہ کو محض جہانگیر کے دائرے میں محدود نہیں کیا جا سکتا ہے۔

جہانگیر:ہم سمجھتے ہیں۔

نورجہاں        :تو پھر ہم کو اجازت دیجئے کہ شریک حیات کی حیثیت سے اپنی ذات پر اعتماد کا مطالبہ کر سکیں۔

جہانگیر: (ہنستے ہوئے) اچھا تو یہ بات ہے، جانتی ہو، ہم کیا لکھ رہے تھے۔

نورجہاں        :جی نہیں۔

جہانگیر:لاہور کا موسم اتنا گر م ہو چکا ہے کہ۔

نورجہاں        : (بات کاٹتے ہوئے)ہمارا خیال ہے موسم کی شدت اس واقعہ کی اہمیت سے کم ہے جو آج تزک جہانگیری کا عنوان ہوا ہے۔

جہانگیر:اگر ہم اس خیال کی تردید کریں تو۔

نورجہاں        :توہم اس کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں کہ حقیقت کی تلاش میں کبھی کبھی آدمی غلط راستہ بھی اختیار کر لیتا ہے لیکن کیا انصاف کی روسے اس کو مجرم قرار دیا جا سکتا ہے۔

جہانگیر:نہیں تو۔

نورجہاں        :تو پھر آپ ہی کہئے ہم کو آپ کی ذات سے جو نسبت ہے اس کا تقاضہ آپ کے بغیر نامکمل ہے۔

(محبت آمیز موسیقی)

نورجہاں        : (محبت آمیز آواز میں) سرتاج۔ ۔ ۔ آپ کا یہی انداز تو ہم کو شہ دیتا ہے کہ ہم گستاخیوں کا ارتکاب کریں۔

جہانگیر:اس لئے توہم نے لکھ دیا ہے کہ۔ ۔ ۔ کوئی نہیں جانتا جہانگیر نے نورجہاں کی ہلکی سی مسکراہٹ کے عوض اپنا سب کچھ بیچ دیا ہے دل، دماغ، تخت و تاج یہاں تک کہ اب اس کے پاس ماضی کی بھولی بسری یادوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔

نورجہاں        : اور  نورجہاں نہیں چاہتی کہ شہزادہ سلیم جیسا عاشق صادق شہنشاہ جہانگیر جیسا منصف مزاج  اور  ہندوستان جیسے عظیم ملک کا میر کارواں زندگی کے کسی موڑ پر پہنچ کر اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرے۔

جہانگیر:ہم اکیلے نہیں ہیں بیگم آپ کی قربت نے ہم کو مکمل کر دیا ہے۔

نورجہاں        :تو پھر سچ کیا ہے۔

جہانگیر:آپ دیکھ سکتی ہیں۔

نورجہاں        :بہت خوب۔ ۔ ۔ ’’زبان یار من ترکی دمن ترکی نمی دانم‘‘۔

جہانگیر: (ہنستے ہوئے)چلئے یہ بات بھی باعث اعتراض ہوئی۔

نورجہاں        :اس لئے کہ آپ کی اپنی زباں فارسی ہے۔

جہانگیر: اور  ترکی میں ہم اس لئے لکھتے ہیں کہ وہ ہمارے ذہن کے ساتھ چلتی ہے۔

نورجہاں        :گویا ترکی آپ کے شعور کی زبان ہے۔

جہانگیر: اور  فارسی ہمارے دل کی۔

نورجہاں        :جب دل و دماغ کے بیچ کشمکش ہوتی ہے تو آدمی کا چہرہ تیسری زبان کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔

جہانگیر:بیگم لگتا ہے آج آپ۔

نورجہاں        :جی نہیں ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ عالم پناہ کسی پیچیدہ مسئلہ کو سلجھانا چاہتے ہیں۔

جہانگیر:بے شک۔ ۔ ۔ خوشیوں سے بھرپور اس زندگی میں کبھی کبھی ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اگر آپ ہمارے ہمراہ نہ ہوتیں تو شاید ہم سلطنت کے امور میں مدغم ہو کر رہ جاتے۔

نورجہاں        :دل نوازی کا شکریہ۔

جہانگیر:یقین کرو بیگم۔ ۔ ۔ اس کے سوا کوئی بات نہیں جو ہمارے لئے باعث تشویش ہو ہم تو بس اپنی ٹوٹتی ہوئی خوداعتمادی کو جوڑنا چاہتے ہیں  اور   امید کرتے ہیں آپ بھی اس کام میں ہمارا ساتھ دیں گی۔

نورجہاں        :بسر و چشم۔ ۔ ۔ مگر نورجہاں کے لیے یہ بات۔

جہانگیر: (بات کاٹتے ہوئے) ہم جانتے ہیں ذمہ داریوں کے احساس  اور   فرائض کی تکمیل کے لئے ایک طرف آپ کی فراست  اور  دوسری جانب آصف خاں کی دانشمندی موجود ہے پھر بھی ہمارے ذہن پر تاریک پرچھائیوں کا ہجوم منڈلا رہا ہے ہم نہیں جانتے ایسا کیوں ہے۔ ۔ ۔ ؟ (زیر لب) ایسا کیوں ہے۔ ۔ ۔ ؟

نورجہاں        : (آہستہ سے) عالم پناہ۔

جہانگیر:ہاں بیگم۔ ۔ ۔ طوفان میں گھری ہوئی کشتی کی طرح ہم کسی انجان خطرہ سے دوچا رہیں۔ لگتا ہے کوئی ہمارے اعتماد کو ہم سے چھین لینا چاہتا ہے ہم کو پناہ کی ضرورت ہے۔

نورجہاں        :سلطان عالم۔

جہانگیر:ہاں بیگم آپ کی سیاہ زلفوں کے سائے میں، ارغوانی ساغر کی تلخی میں، یا پھر کائنات کی وسعتوں میں ہم کو پناہ چاہئے۔ ۔ ۔ پناہ۔ ۔ ۔

(مندروں کے گھنٹال  اور   مسجدوں کی اذانوں کے درمیان خادمہ کی آواز، صبح کی موسیقی)

خادمہ  :صبح مبارک ہو۔

سیف  :تم کو بھی مبارک ہو سنبل۔

خادمہ  :ناشتہ تیا رہے۔

سیف  :نہیں ابھی خواہش نہیں ہے۔

خادمہ  :نصیب دشمناں طبیعت ناساز ہے کچھ۔

سیف  :ہاں سنبل دماغ پر ایک بوجھ سا ہے رات ایک خواب دیکھا تھا جو اب تک ہمارے ذہن میں سوال بن کر کھٹک رہا ہے۔

خادمہ  :خواب۔ ۔ ۔ اگر کوئی حرج نہ ہو تو کنیز بھی اس خواب کو سننا چاہتی ہے جس نے حضور کے مزاج کو مکدر کر دیا ہے۔

سیف  :ہاں ہاں ضرور۔ ۔ ۔ ہم نے دیکھا تھا ہم بہت ہی بلند و بالا مقام پر کھڑے ہیں ہمارے آس پاس تا حد نگاہ پانی ہی پانی ہے نیلگوں  اور   شفاف پانی۔ ۔ ۔ ایک لمحہ کے لئے ہم نے سوچا شاید یہ دنیا کا سب سے اونچا مقام ہے کہ دفعتاً ایک دھما کہ سا ہوا  اور   آسمان سے ایک تارہ ٹوٹ کر پانی میں ڈوب گیا  اور  دیکھتے ہی دیکھتے پانی کا رنگ ایک دم سرخ ہو گیا  جیسے خون کا دریا، او خدا کتنا بھیانک تھا وہ منظر۔

خادمہ  :پروردگار اپنا رحم کرے۔

(قدموں کی چاپ)

دروغہ  :اعلیٰ حضرت کی جے ہو۔

سیف  :کیا بات ہے داروغہ زنداں، کافی پریشان دکھائی دیتے ہو۔

دروغہ  :جی سرکار۔ ۔ ۔ وہ کسان۔

سیف  :کسان۔ ۔ ۔ کون سا کسان۔ ۔ ۔ ؟

دروغہ  :وہی جو حضور کے خصوصی حکم کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔

سیف  :ہاں، کیا ہوا اس کو، راہ راست پر آ گیا۔

دروغہ  :جی نہیں۔ ۔ ۔  فرار ہو گیا۔

(سنسنی خیز ساز کے دوران)

سیف  : (حیرت  اور  غصہ کے ساتھ) فرار ہو گیا۔

دروغہ  : (خوف زدہ لہجہ میں) جی۔ ۔ ۔ جی حضور۔

سیف  :دروغہ زنداں۔ ۔ ۔ یاد رکھو اگر  ۲۴ گھنٹوں کے اندر وہ گرفتار نہیں ہوا تو تم کو۔ ۔ ۔ (کہتے کہتے رک جاتا ہے) اس کو ڈھونڈ کر لاؤ، تلاش کرو، ہر طرف ہرکارے دوڑاؤ۔ ۔ ۔ جاؤ۔ ۔ ۔ بنگال کا چپہ چپہ چھان ڈالو، یاد رکھو وہ ایک معمولی کسان نہیں، ہمارا  سب سے خطرناک دشمن ہے۔

(گھوڑا دوڑنے کی آواز)

سیف اللہ کی آواز

خالہ حضور۔ ۔ ۔ بعد ادائے آداب، آپ کا بدنصیب بھانجا صمیم قلب سے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے حد درجہ پشیمان ہے۔ ۔ ۔ یہ عرض ہے کہ میں نے حکم عدولی کرتے ہوئے اس کسان کو قید خانے میں ڈال دیا تھا جس کے ساتھ فیاضی کا سلوک کرنے کے لیے ظل سبحانی نے خصوصی حکم صادر فرمایا تھا مگر ۔ ۔ ۔ خالہ حضور، آدمی اگر خطا کار نہیں ہوتا تو رحم کا لفظ بے معنی تھا۔ ۔ ۔ اپنی خطا کو تسلیم کرتے ہوئے، میں خدا کے واسطے آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس بار کسی طرح بھی اس کسان کو شہنشاہ سے نہ ملنے دیجئے وہ یہاں سے فرار ہو چکا ہے، مجھے یقین ہے وہ سیدھا لاہور پہنچے گا۔ امید کہ خالہ حضور۔ ۔ ۔ ایک بدنصیب بھانجے کی التجا کو مسموع فرمائیں گی۔

آپ کا گناہگار۔ ۔ ۔ سیف اللہ

نورجہاں        : (زیر لب) سیفو، یہ تم نے اچھا نہیں کیا، ہم کہاں تک تمہارا ساتھ دیں گے۔

(دھیرے دھیرے نوبت بجنے کی آواز کے ساتھ ایک دم نفیری کی آواز ابھرتی ہے پھر لوگوں کی ملی جلی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ )

آوازیں         :تسلیمات۔ ۔ ۔ چاند ہو گیا۔ ۔ ۔ عید کا چاند مبارک ہو۔ تسلیمات، مبارک ہو۔

کاکل   :عید کا چاند مبارک ہو ملکہ عالم۔

نورجہاں        :تم کو بھی مبارک ہو کاکل۔

عورت نقیب    :ادب، ادب شہنشاہ تشریف لا رہے ہیں۔

جہانگیر: (دور سے) بیگم۔ ۔ ۔ ابھی دور افق بعید کی نیلگوں وسعتوں سے جھانکنے والے چاند کی باریک سی لکیر کو دیکھ کر ہماری زبان سے بے اختیار ایک مصرع نکل گیا۔

نورجہاں        :ارشاد فرمائیے۔

جہانگیر:شرط یہ ہے کہ جواب میں دوسرا مصرع چاہئے۔

نورجہاں        :عطا فرمائیے ممکن ہے تعمیل کی جا سکے۔

جہانگیر:ہلال عید بر اوج فلک ہویدا شد

دونوں :ہلال عید بر اوج فلک ہویدا شد

نورجہاں        :کلید میکدہ گم گشتہ بود پیدا شد

جہانگیر:سبحان اللہ، سبحان اللہ بیگم آج ہم آپ کی زود گوئی  اور   خوش بیانی کے قائل ہو گئے۔

نورجہاں        :ذرہ نوازی کا شکریہ۔

جہانگیر:تو پھر اذن طلوع دو جام و مینا کو، خدا کی پناہ پورے تیس دن ہو گئے لذت کام و دہن سے عاری ہیں۔

نورجہاں        :اک ذرا توقف فرمائیے۔

جہانگیر:نہیں بیگم نہیں مطربہ۔ ۔ ۔  ساز چھیڑو کہ مستیاں جاگ اٹھیں، گیت گاؤ کہ زندگی جھوم اٹھے (ساز کی آواز) ہنسو بیگم ہنسو کہ فضا میں نغمے بکھر جائیں۔

(دونوں کے ہنسنے کی آوازیں)

( اور  ان آوازوں کو چیرتی ہوئی گھنٹے کی آواز ابھرتی ہے)

نورجہاں        :سنا آپ نے۔ ۔ ۔  کوئی فریاد کر رہا ہے۔

جہانگیر:سن لیا۔

نورجہاں        :کون ہے۔

خادم   :ایک کسان ہے ملکہ عالم۔

جہانگیر: (چونک کر)اوہ تو وہ آ گیا۔

نورجہاں        : (حیرت سے) کون آ گیا عالم پناہ۔

جہانگیر:انصاف کی دہائی دینے والا کون ہو سکتا ہے بیگم۔

نورجہاں        :مگر یہ وقت تو آپ کے آرام کرنے کا ہے۔

جہانگیر:فریاد زماں و مکاں کی قید سے بالا تر ہوتی ہے بیگم۔

(مبہم آوازیں پھر خاموشی)

نقیب کی آواز   :با ادب با ملاحظہ ہوشیار، نگاہ رو برو حضور ممدوح الشان والی ہندوستان شہنشاہ جہانگیر جلوہ افروز ہو رہے ہیں۔

سیف  :اف!سمجھ میں کچھ نہیں آتا ٹھاکر ہمیں کیوں طلب کیا گیا ہے۔

ٹھا کر   :پورے پندرہ دن ہو گئے سرکار لشکر کے لوگوں میں چہ  میگوئیاں ہو رہی ہیں۔

سیف  :یقیناً، محل سے باہر ایک بے گانے کی طرح ہمارا قیام معنی خیز ہے ٹھا کر مجبور ہو کر  ہم نے خود ہی عالم پناہ سے درخواست کی ہے کہ شرف باریابی کا موقع عطا فرمایا جائے۔

خادم   :شاہی قاصد پیغام لے کر آیا ہے سرکار۔

سیف  :آنے دو۔

قاصد  :حضور کے نام شاہی پیغام۔

سیف  : (بے تابی سے) لاؤ۔ ۔ ۔

سیف  : (پیغام لے کر) تم جا سکتے ہو۔

(کاغذ کی کھڑکھڑاہٹ)

جہانگیر کی آواز

برخوردار سیف اللہ خاں مابدولت نے تمہاری درخواست پر غور فرمایا بلاشبہ تم کو انتظار کی زحمت سے دوچار ہونا  پڑا، مگر  اب وقت آ چکا ہے۔ ۔ ۔  ہم چاہتے ہیں کہ کل صبح تم سے راوی کے کنارے ملاقات کی جائے۔ آج کی رات تم کو اجازت ہے جس طرح چا ہو عیش و عشرت کی محفل سجاؤ۔

سیف  :گویا شہنشاہ ہم سے ایک عام آدمی کی طرح ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ ٹھیک ہے (قدرے اونچی آواز سے) آج کی رات کھل کر جشن منایا جائے۔

(طبلے کی کھنک کے ساتھ ناچنے گانے کی آواز  اور  لوگوں کی واہ واہ، قہقہے۔ ۔ ۔  صبح کے نقاروں کی آواز)

آواز   :قلعہ کا دروازہ کھل چکا ہے۔

آواز   :ہاتھی پر سونے کے ہودے میں شہنشاہ کی جگہ وہی کسان بیٹھا ہے۔

سیف  : اور  عالم پناہ۔

آواز   :ایک عام آدمی کی طرح بجرے میں سوا رہیں۔

سیف  :گویا امتحان کا وقت آ پہنچا۔ ۔ ۔ او خدا تو گواہ رہنا غرور کا سر نیچا ہو چکا ہے۔

(سنسنی خیز ساز پھر ہاتھی کی چنگھاڑ)

جہانگیر: (انتہائی غضبناک لہجہ میں) تعمیل ہو۔

(ہاتھی کی چنگھاڑ، سیف اللہ کی دردناک چیخ، لوگوں کے شور و غل کی ڈوبتی ہوئی آوازوں کے پس منظر  میں غمگین ساز پھر نورجہاں کی سسکیوں کی آواز)

جہانگیر:بیگم آنسو پونچھ ڈالو،  یقین  کرو سیف اللہ ہم کو اولاد کی طرح عزیز تھا مگر  انصاف۔ ۔ ۔ ہم کو اولاد سے زیادہ عزیز ہے۔

(فیڈ آؤٹ)

٭٭٭

ماخذ: ’’مٹھی بھر دھول‘‘

بھوپال بک ہاؤس، بدھوارہ، بھوپال

٭٭٭

تشکر: ڈاکٹر شرف الدین ساحل جن کے توسط سے وہ ان پیج فائل فراہم ہوئی جس سے یہ کتاب ترتیب دی گئی۔

ان پیج سے تبدیلی اور تدوین: اعجاز عبید