FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

رستم و سہراب

               یا

عشق و فرض

               آغا حشرؔ کاشمیری

﴿  ترتیب و تصحیح 

ڈاکٹر انجمن آرا  انجمؔ

ایم ۔  اے (اردو ۔ انگریزی۔ عربی)

پی۔ ایچ۔ ڈی  (اردو)

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ

 

 

انتساب

اپنے
 مرحوم والدین
 کے نام
 جنھوں نے مجھے علم کی وہ شمعِ فروزاں
عطا کی جس کی  روشنی میں
دینی, دنیوی اور روحانی سعادت و مسرت
کے لازوال خزینوں تک
 میری رسائی ہو سکی
                                         انجمن آرا  انجمؔ

(اصل کتاب میں تین ڈرامے شامل ہیں، یہاں ڈرامے الگ الگ کر دئے گئے ہیں، اصل مقدمہ ہر ای بک میں شامل ہے)

 

مقدمہ

        ڈرامے کو یونانی اور سنسکرت روایات میں قدیم زمانہ سے بڑی اہمیت حاصل رہی۔ ان روایات میں وہ مذہب کا بھی حصہ تھا اور شعری و ادبی سرمایہ کا بھی۔ لیکن دونوں ہی زبانوں میں یہ اپنے عروج تک پہنچ کر زوال کا شکار ہو گیا۔ ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی یہ روایات آگے نہ بڑھ سکی۔ اردو شعرو ادب کا آغاز ہوا تو مختلف شعری و نثری اصناف پر توجہ دی گئی۔ لیکن ڈرامے کی طرف کوئی التفات نہ ہوا۔ اس کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں. لیکن شاید ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ ڈراما لکھنے پڑھنے سے زیادہ  ’’کھیلنے ‘‘کا متقاضی ہوتا تھا جس میں مختلف کرداروں کا بہروپ بھرنا ہوتا تھا اور یہ کام بھانڈوں اور نقالوں سے وابستہ قرار دیا جاتا تھا اور متانت اور سنجیدگی کے خلاف۔ شاید اسی لیے اربابِ قلم نے اس کو قابلِ اعتنا نہ خیال کیا۔ تا آنکہ علم و ادب کے رسیا، کھیل تماشوں کے شوقین، رقص و موسیقی کے دلدادہ اور جدت پسند طبع کے مالک نواب واجد علی شاہ کا اس طرف میلان ہوا۔ انھوں نے ’’رادھا کنھیا کا قصہ‘‘ کو ۱۸۴۳ء میں رہس کی شکل میں اسٹیج پر پیش کیا۔ خود اس میں کردار ادا کیا۔ اور بھی کئی رہس اس شاہی اسٹیج پر دکھائے گئے ۔ اس طرح شاہی سرپرستی میں ڈراما کھیلا گیا۔ تو لوگوں کی جھجھک دور ہوئی اور جلد ہی اہل اردو ڈراما نگاری کی طرف مائل ہو گئے ۔ دس سال کے اندر اندر ہی امانت کی ’’اندر سبھا‘‘ نے اسٹیج کی دنیا میں دھوم مچا دی۔ اسی دوران تھئیٹر کا رواج شروع ہو گیا تھا۔ مغربی اثرات کے تحت بہت سی تھئیٹریکل کمپنیاں وجود میں آ گئیں۔ ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے  کے لیے لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ابھر کر سامنے آئی۔

        آغا حشرؔ (۱۸۷۹۔۱۹۳۵) اردو ڈرامے کی دنیا میں ایک بلند قامت حیثیت سے ابھرے ۔ انھوں نے ڈرامے کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ انھوں نے مختلف تھئیٹریکل کمپنیوں میں کام کیا۔ اپنی کمپنی قائم کی، متواتر ڈرامے لکھے ، خود ان کی ہدایت کاری کی اور ڈرامے کھیلنے کے معیار کو  بلندی بخشی۔ ان کے زیادہ تر ڈرامے ماخوذ ہیں۔ انگریزی کے مقبول و معروف ڈراموں کو انھوں نے اردو جامہ پہنایا۔ انھوں نے کرداروں کے ناموں،مکالمات،گانوں اور ڈراموں کی پوری فضا کو مشرقی رنگ میں ایسا رنگ دیا کہ کہیں اجنبیت اور پردیسیت کا احساس نہیں ہوتا۔ انھوں نے کرداروں کو ہندوستانی تہذیب و معاشرت میں اس طرح ڈھال دیا کہ وہ نامانوس نہیں معلوم ہوتے ۔ اپنے چست مکالموں، اعلیٰ پایہ کے گانوں،بر جستہ گوئی اور زبان کے اعلیٰ معیار سے ان ڈراموں کو ادبی وقار بخشا۔

        بیسویں صدی میں سنیما کا چلن عام ہونا شروع ہوا تو  تھئیٹر اور اسٹیج پر پھر زوال  کے سائے منڈلانے لگے ۔ فلمیں عوامی دلچسپی اور تفریح کا ذریعہ بن گئیں۔ دھیرے دھیرے تھئیٹر کی عوامی مقبولیت ختم ہو گئی۔ ان ڈراموں کی طباعت و اشاعت بھی معدوم ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ اب ان کا دستیاب ہونا مشکل ہے ۔

        اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا یہ ڈرامے (جو تقریباً ایک صدی پر محیط ہیں) ہماری ادبی روایت کا اہم حصہ ہیں۔ ان کو محفوظ رکھنا اور ان کا ادبی مطالعات میں شامل رکھنا ہمارا  فرض  ہے ۔تھئیٹر کا رواج ختم ہونے کے باوجود ہم ان ڈراموں سے صرف  نظر نہیں کر سکتے ۔ بالکل  اسی طرح جیسے  قصیدے کا ماحول ختم ہونے کے باوجود ہم اس کے مطالعہ کو نظر انداز نہیں کر سکتے یا کلاسیکی غزل کو ادبی  مطالعہ سے خارج نہیں کر سکتے ۔لیکن اگر متون ہی دستیاب نہ ہوں تو پھر کوئی بھی مطالعاتی کوشش نہیں کی جا سکتی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دور کے اُن تمام ڈراموں کے متون مہیا کرائے  جائیں جن کی اپنے زمانہ میں عام مقبولیت رہی تاکہ یہ ادبی مطالعہ کے لیے بنیا د فراہم کریں۔ اس کے بغیر ہماری ادبی تاریخ تشنہ رہ جائیگی۔

        ڈاکٹر انجمن آرا  انجمؔ جن کے تحقیقاتی کاموں کا مرکز و محور آغا حشر اور ان کے ڈرامے رہے ہیں، مبارکباد کی مستحق ہیں کہ انھوں نے حشر کے تین ڈراموں  …………سفید خون،یہودی کی لڑکی اور رستم و سہراب کے معتبر متون پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ بہت  ہی دشواریوں کے باوجود،بقول مؤلفہ،’’ہم نے پوری کوشش کی ہے کہ ان نقائص و اسقام سے پاک حشر کے ڈراموں کا صحیح متن پیش کر دیں۔ چنانچہ جو اشعار یا گانے وزن سے گرے ہوئے نظر آئے اُن کا وزن درست کر دیا گیا ہے ۔،مقفیٰ عبارتوں میں جہاں جھول نظر آیا، اسے نکال دیا گیا ہے ۔ مکالموں کے غلط  انتساب کی تصحیح کر دی گئی ہے ۔الفاظ اور  فقرے اگر رہ گئے ہیں  تو انھیں فراہم کر دیا گیا ہے اور اگر عبارت میں کسی طرح کا اضافہ دخیل ہو گیا ہے تو اسے خارج کر دیا گیا ہے ۔‘‘

        ابتدائی تین ابواب ڈرامے کی مختصر تاریخ ، آغا حشر کے حالاتِ زندگی اور آغا حشر کے فن پر گفتگو کے لیے  وقف کیے گئے ہیں۔ آخر میں تینوں ڈراموں کا متن دیا گیا ہے ۔ ہر ڈرامے کے شروع میں قصہ کا خلاصہ، اس کا مختصر تعارف اور اس پر تبصرہ  بھی لکھا گیا ہے جس سے اس  پیش کش کی افادیت بڑھ گئی ہے ۔

         مؤلفہ نے ایک اہم ضرورت کی تکمیل کی بنیاد ڈالی ہے ۔ممکن ہے حشر کے  باقی ڈراموں کے متون بھی وہ مرتب کر سکیں اور یہ اس بات کا  پیش خیمہ بن جائے کہ دوسرے محققین دوسرے ڈراما نگاروں کے ڈراموں کے متون کی تدوین و ترتیب کا کام انجام دے سکیں۔

                                        پروفیسر عتیق احمد صدیقی

                                        سابق صدر شعبۂ اردو

                                                اور

                                        ڈین فیکلٹی آف آرٹس

                                        اے ۔ایم ۔ یو۔ علی گڑھ

 

تعارف

حشرؔ کی ڈراما نگاری کے آخری دور کا یہ المیہ ڈراما ایر ان کے مشہور شاعر فردوسیؔ کے ’’شاہنامہ‘‘سے ماخوذ ہے ۔ حشرؔ نے یہ ڈراما ۱۹۳۰ میں میڈن تھئیٹر لمیٹڈ کلکتہ کی پارسی امپیریل تھیئٹریکل کمپنی کے لیے لکھا تھا۔ یہ کمپنی اس زمانے میں بمبئی میں مقیم تھی‘‘۔(۱)  آغا جمیل صاحب کے مطابق ’’رستم وسہراب‘‘  ۱۹۲۹ میں لکھا گیا‘‘۔(۲)

یہ ڈراما تین ایکٹ پر مشتمل ہے ۔ پہلے ایکٹ میں چار سین، دوسرے میں آٹھ اور تیسرے میں چھ یعنی کل اٹھارہ سین ہیں۔

’’رستم وسہراب، ،کے پلاٹ کا خمیر جذبۂ وطن پرستی کی شدّت ،عشق و فرض کی نفسیاتی کشمکش ، وفا اور دغا کی آویزش ، شاہوں کی ہوسِ اقتدار کی قربان گاہ پر خون کے رشتوں کی قربانی ، باپ کی تلاش میں بیٹے کی جگر کاوی، تاج و تخت سے وفاداری نیز دنیا کی نگاہ میں بھرم رکھنے کے لیے باپ کی سخن سازی سے اٹھایا گیا ہے ۔

وطن پرستی کا جذبہ اس ڈرامے کے مختلف کرداروں بالخصوص گُرد آفرید کے سینے سے لاوے کی طرح ابلتا ہے اور ایک بحرِ نا پیدا کنار کی طوفانی موجوں کی طرح پورے  ڈرامے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔ ڈرامے کے الفاظ کی سطح سے نیچے اگر گہرائی میں جا کر محسوس کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس ڈرامے کے فقط کردار ہی نہیں بلکہ خود ڈراما نگار اس جذبے سے سرشار ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان پر غیر ملکی تسلط کے خلاف جو جذبہ خود آغا حشرؔ کے وجود میں تلاطم برپا کیے ہوئے تھا وہ الفاظ میں ڈھل کر گُرد آفرید کی زبان سے پگھلے ہوئے لاوے کی طرح ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے رواں دواں ہے حتیٰ کہ خود محبت جیسا شدید جذبہ بھی اس کی آنچ سے پِگھل جاتا ہے ۔ اس ڈرامے کا دوسرا نام عشق و فرض بھی اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ ڈراما نگار کی نظر میں حبِّ وطن ایسا جذبہ ہے جسے عشق و محبت کے جذبات پر بھی غالب رہنا چاہیے ۔

        پلاٹ:۔ ایران کا مشہور زمانہ جنگ جو رستم اپنے وطن ایران واپس جاتے ہوئے سمنگان میں کچھ دیر کے لیے قیام کرتا ہے اور اپنے گھوڑے کو سر سبز میدان میں چرنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے ۔ چند تورانی سردار رستم کو سوتا دیکھ کر اُس کا گھوڑا چُرا کر لے جاتے ہیں ۔ جاگنے پر رستم اپنے گھوڑے کو تلاش کرتا ہے اور اس کے نہ ملنے پر تورانی سرداروں سے اس کی سخت گفتگو ہوتی ہے ۔ رستم ، شاہ سمنگان کے دربار میں پہنچ کر اُس سے مطالبہ کرتا ہے کہ یا تو فوراً میرا گھوڑا واپس کرو یا جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔

شاہ سمنگان ، رستم کی بے جگری ، اولوالعزمی اور با رعب شخصیت سے متاثر ہو کر اس کو اپنا مہمان بنا لیتا ہے اور اپنی  بیٹی تہمینہ کی شادی اُس سے کر دیتا ہے ۔ رستم تہمینہ کو وہیں چھوڑ کر ایران واپس چلا جاتا ہے ۔ تہمینہ کے بطن سے سہراب پیدا ہوتا ہے ۔ شجاعت اور فنِ سپہ گر ی کی دنیا میں وہ نو عمری ہی میں اپنا نام پیدا کر لیتا ہے ۔

توران کے شہنشاہِ افراسیاب کے لیے اپنے دشمن رستم کا اپنے ہی ما تحت شاہِ سمنگان کا داماد بن جانا ایک نا قابلِ برداشت توہین تھی ۔ وہ اپنے انتقامی جذبے کی آگ کو بجھانے کے لیے سہراب کو جس کا وطن سر زمین توران ہے ،  تورانی فوج کے ساتھ ایران پر حملہ کرنے کا حکم صادر کر دیتا ہے ۔ سہراب ، ایران کے قلعۂ سفید پر حملہ آور ہوتا ہے ۔ قلعہ کا سردار گستہم اور دوسرے فوجی افسر سہراب کے مقابلے کی ہمت نہیں پاتے مگر اس کے سامنے سپر بھی نہیں ڈالنا چاہتے لیکن قلعۂ سفید کا ایک سردار بہرام غدّاری کر کے شکست تسلیم کرنے اور صلح کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور حاکمِ قلعہ گستہم کو بھی اس پر تیار کر لیتا ہے ۔ مگر حاکمِ قلعہ کی شیر دل ، خوددار اور محب وطن بیٹی گرد آفرید ، غدّار بہرام کو سخت لعنت ملامت کرتی ہے اور اپنی ولولہ انگیز تقریر سے ایرانی فوج میں نئی زندگی دوڑا دیتی اور نیا جوش بھر دیتی ہے ۔

گُرد آفرید مردانہ لباس میں خود میدانِ جنگ میں آتی ہے اور عالمِ غیظ و غضب میں سہراب کو مقابلے کے لیے للکارتی ہے ۔ دورانِ جنگ گردآفرید گھوڑے سے گر جاتی ہے جس سے اس کا خود سر سے اتر جاتا ہے اور بال بکھر جاتے ہیں۔ سہراب اس کی بہادری ، جرأت اور حسن  و جمال سے مسحور ہو کر اپنا دل اُسے دے بیٹھتا ہے ۔ گرد آفرید بھی اس کی مردانہ وجاہت اور شجاعت کو دیکھ کر اُس کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے لیکن اس کا عشق ، وطن کی محبت اور حفاظت کے جذبے کو مغلوب نہیں کر پاتا اور وہ ایک شدید ترین نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہو جاتی ہے ۔ ایک طرف اس کا محبوب سہراب ہے اور دوسری طرف اس کا محبوب وطن ہے ۔ گرد آفرید کا پورا وجود ان دو مخالف محبوبوں کی محبت کی کشمکش سے سلگ اٹھتا ہے ۔ چنانچہ وہ ایک طرف تو سہراب اور اس کی فوج کو قلعے میں آنے کی دعوت دیتی ہے مگر جب سہراب پہنچتا ہے تو اس سے ملنے سے انکار کر دیتی ہے ۔ سہراب اپنی اس تذلیل کو برداشت نہیں کر سکا ۔ انتہائی جوش اور غیظ و غضب میں اپنی فوج کو قلعے پر حملہ کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن ساتھ ہی تنبیہ کر دیتا ہے کہ گردآفرید کو کوئی گزند نہ پہنچے ۔ غدّار بہرام موقع پاکر گرد آفرید کی پیٹھ میں خنجر بھونک دیتا ہے ۔ اس واقعہ کا علم ہونے پر سہراب بپھر جاتا ہے اور بہرام کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے ۔ محبت کے جوش اور شدید غم کے عالم میں گرد آفرید کا سر اپنے زانو پر رکھ لیتا ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کی محبت کا اقرار کرتے ہیں اور گردآفرید اسی حالت میں دم توڑ دیتی ہے ۔

سہراب کی پیش قدمی سرزمین ایران میں جاری رہتی ہے ۔ اس طوفان کو روکنے کے لیے ایران کے پاس صرف ایک ہی دلاور ہے اور وہ ہے رستم جو یہ نہیں جانتا کہ جنگ آزما سہراب اس کا لختِ جگر ہے ۔ دوسری طرف سہراب یہ تو جانتا ہے کہ رستم میرا باپ ہے مگر وہ رستم کو پہچانتا نہیں۔ وہ اپنے تورانی سرداروں سے رستم کی شناخت چاہتا ہے مگر وہ رستم کو پہچانتے ہوئے بھی سہراب کو نہیں بتاتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ رستم کو اگر کوئی زیر کر سکتا ہے تو صرف سہراب۔ چنانچہ باپ اور بیٹے کے ٹکراؤ سے یہ عظیم المیہ وجود میں آتا ہے ۔ غیر شعوری طور پر خون کا رشتہ دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف تلوار اٹھانے سے روکتا ہے ۔ سہراب لاکھ چاہتا ہے کہ رستم یہ بتا دے کہ وہ رستم ہے مگر رستم اقرار نہیں کرتا اور جو نہ ہونا چاہیے تھا وہ ہو جاتا ہے ۔رستم  سہراب کو مغلوب کر کے ہلاک کر دیتا ہے مگر جب وہ سہراب کے بازو پر تہمینہ کودی ہوئی اپنی بندھی نشانی یعنی اپنا مہرہ دیکھتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ سہراب تو اسی کے جگر کا ٹکڑا ہے ۔ اپنے ہاتھوں لائی ہوئی اس بد نصیبی پر رستم کا وجود آنسوؤں میں پگھل جاتا ہے ۔

کردار نگاری:۔ ڈرامے کے سبھی کردار اپنی جگہ اہم ہیں خصوصاً رستم ، سہراب، بہرام ، ہجیر، تہمینہ اور گرد آفرید کے کردار بڑے اثر انگیز ہیں۔ رستم وسہراب ،  شجاعت ، جرأت اور دلیری کے پہاڑ ، بے خوفی اور جانبازی کی علامت ، اپنے اپنے وطن سے محبت کے پیکر ، ایرانی و تورانی جاہ و جلال اور عظمت کی قابلِ رشک ہستیاں ، بہرام، غدارِ قوم و ملک ، بزدل اور کمینہ ، ہجیر ملک و قوم کا وفادار اور ان کی آزادی پر مر مٹنے والا ، تہمینہ ، رستم کی با وفا شریکِ حیات اور اپنے بیٹے سہراب سے بے پناہ محبت کرنے والی ماں ۔ سب سے زیادہ اثر انگیز اور دل کی گہرائیوں میں اتر جانے والا کردار ہے گُردآفرید کا جو حسن و جمال اور نسائیت و پاکیزگی کا مجسمہ، عشق و محبت کا پیکر ، شرافت ، جرأت اور حوصلہ مندی کا مرقع ، وطن پرستی اور جاں نثاری کی لازوال مثال ہے جس پر ایرانی تاریخ ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ اس ڈرامے کا ہر کردار مسحور کن حد تک اثر آفریں ہے ۔ حرکت و عمل سے بھر پور یہ کردار دل پر ایک پائدار نقش قائم کرنے میں کامیاب نیز حشرؔ کے فنِ کردار نگاری کے کمال کا بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں۔

عشق و فرض کی جنگ میں گردآفرید جس روحانی اذیت اور ذہنی کشمکش سے دوچار ہوتی ہے اس کا اظہار حشرؔ نے اپنے جادو نگار قلم سے کتنے پُر اثر طریقے پر کیا ہے ۔

گُرد آفرید: ۔آؤ سہراب تمھیں دیکھ کر دل میں زندہ رہنے کی تمنا پیدا ہو گئی، لیکن اب تمنا کا وقت نہیں رہا ۔ میرے دل کے مالک میرے فرض نے مجھے بے مرّوت بننے کے لیے مجبور کر دیا تھا ۔ حقِّ وطن کا مرتبہ عشق سے بلند تر ہے اس لیے مجھے معاف کر دو۔

پھر کہتی ہے :۔

گُر آفرید :۔ آہ تمھیں کیا معلوم عشق و فرض کی کشمکش میں میری روح نے کتنے عذاب برداشت کیے ہیں ۔ کتنے زلزلوں سے تنہا واقفِ پیکار رہی ہے ۔ صدمہ نہ کرو۔ دوست اور دشمن ہم نام ہیں اس لیے تمھیں دھوکا ہوا ۔ میں نے اپنے پیارے سہراب سے نہیں اپنے ملک کے مخالف سے جنگ کی ہے ۔

انتہائی جری ، بہادر اور اپنی طاقت پر نازاں رستم جب اپنی تلوار سے میدانِ جنگ میں اپنے بیٹے سہراب کو قتل کر دیتا ہے تو پدرانہ محبت کے سوتے پھوٹ پڑتے ہیں ۔ بیٹے کی موت پر رستم کا روحانی اور ذہنی کرب نا قابلِ برداشت ہے ۔  تمام دنیا سے ٹکر لینے والے رستم اور ایک باپ میں کتنا فرق ہے ۔

رستم: ۔ آسمان ماتم کر ۔ زمین چھاتی پیٹ۔ درختو! پہاڑو! ستارو !  ٹکرا کر چور چور ہو جاؤ۔ آج ہی زندگی کی قیامت ہے ۔ آج ہی دنیا کا آخری دن ہے ۔ زندگی کہاں ہے !دنیا کہاں ہے !زندگی سہراب کے خون میں اور دنیا  رستم کے آنسوؤں میں ڈوب گئی ۔ سہراب ! سہراب ! سہراب!

زبان و بیان :۔ آغا حشرؔ کا یہ رزمیہ ڈراما  پُر شکوہ الفاظ ، اثر آفریں فقروں ، زبان کی حلاوت ، بیان کی چاشنی ، عبارت کے دروبست، شیریں فارسی تراکیب ، چست بند شوں ، حسین اور خوبصورت تشبیہات کا ایک طلسم ہے ۔ اشعار کے بر محل اور برجستہ استعمال ، مکالموں کی روانی اور اثر انگیزی، کرداروں کی داخلی کیفیت اور نفسیاتی کشمکش، عشق اور وطن پرستی کے طاقتور جذبوں کی باہمی آویزش،کرداروں کے مرتبے اور مقام کے لحاظ سے اندازِ گفتگو کی پیشکش میں حشرؔ کے جادو نگار قلم نے ڈرامے کے فن کو اس کی معراج پر پہنچا دیا ہے ۔

حشرؔ کا یہ رزمیہ ڈراما ، پلاٹ کی تعمیر و ترتیب ، کرداروں کی تشکیل ، مکالموں کی بلند آہنگی ، خطیبانہ اندازِ بیان اور منظر نگاری کے لحاظ سے ایک ادبی شاہکار اور اردو اسٹیج کا ایک غیر فانی کارنامہ ہے ۔

 

               ڈرامے کے کردار

        مردانہ

رستم:۔          سر زمیں فارس کا مشہور و معروف پہلوان

سہراب:۔      توران کا نامور دلیر ،  رستم کا فرزند

شاہِ سمنگان:۔

پیلسم:۔         شاہِ سمنگان کے فوج کا سردار

ہومان :

                سہراب کی تورانی فوج کے سردار

بارمان:

شاہ افراسیاب :۔   شنہشاہِ توران

گستہم :۔        قلعۂ سفید کا مقتدر رئیس

بہرام:۔         قلعۂ سفید کا مقتدر رئیس۔غدّار

ہجیر:۔           قلعۂ سفید کا جنگ آزمودہ محافظ

شاہ کیکاؤس:۔   شنہشاہِ ایران۔

طوس ، گودرز:۔ کیکاؤس کی فوج کے سردار

(ان کے علاوہ سردارانِ لشکر، ایران و توران کے

        سپاہی ، حاجب ، دربان چند دیہاتی وغیرہ)

        زنانہ

        تہمینہ:۔ شاہِ سمنگان کی دختر، رستم کی بیوی، سہراب کی ماں۔

        گُرد آفرید:۔قلعۂ سفید کے حاکم کی شیر دل دختر، سہراب کی محبوبہ

                          (ان کے علاوہ کنیزیں وغیرہ)

۔مقام۔

قدیم ایران و توران

پہلاباب

                 پہلا سین

تورانی سرحد۔ ایک سرسبز و شاداب پہاڑی مقام ۔

( آسمان میں صبح کا آفتاب۔رستم گھوڑے کی پِیٹھ پر سوار دکھائی دیتا ہے )۔

رستم:۔ دنیا کے لیے روشنی، پھولوں کے لیے مسکراہٹ ، پرندوں کے لیے زمزمہ ، دریاؤں کے لیے ترنم ریز روانی ، سوئے ہوئے قوائے عمل کے لیے بیداری کا پیغام لانے والا آفتاب افقِ مشرق کی پیشانی پر تاجِ زرنگار کی طرح چمک رہا ہے ۔ کتنا پر جلال نظارہ !یوں معلوم ہوتا ہے کہ آفتاب نہیں ایک نورانی کتاب ہے جس میں دنیا جاگنے کے بعد اپنے ماضی کے خواب کی تعبیر پڑھ رہی ہے ، ستاروں کے ملک سے آیا ہوا ایک نورانی فرشتہ ہے جس سے کائنات کی ہر شے زندگی کی برکتیں مانگ رہی ہے ۔ آسمان کی مانند ، اس زمیں پر بھی ، ہر روز اس طرح طلوع و غروب کے منظر دکھائی دیتے ہیں۔ انسانوں کی قسمت کا ستارہ اور قوموں کے اقبال کا آفتاب بھی یونہی گمنامی کی رات کا سیاہ پردہ ہٹا کر شہرت کی فضا میں چمکتا،کامیابی کے سنہرے دنوں پر حکومت کرتا اور آخر دنیا کی یادداشت و تواریخ کے صفحوں پر اپنے دھندلے یا روشن نشان چھوڑ کر شامِ فنا کی تاریکی میں غائب ہو جاتا ہے    ؂

دنیائے بے ثبات میں ہر شے ہے  تیز گام

ہر دن کے ساتھ رات ہے ہر صبح کی ہے شام

رنگِ زوال سے ہیں رنگے ، گل بھی خار بھی

دھوکا ہے اس چمن کی خزاں بھی ، بہار بھی

(گھوڑے کی پیٹھ سے اتر تا ہے )

        آفتاب کی سنہری کرنوں کے ساتھ چاروں طرف خوب صورتی اور رنگینی بکھری ہوئی ہے اور پرندوں کے ترانوں پر ہوائیں رقص کر رہی ہیں ۔ زمین پر صبح کی روشنی پھولوں کی خوشبو اور بلبل کے نغموں کا سیلاب بہ رہا ہے ۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگل قدرت کا بنایا ہوا ایک شعر اور یہ سرخ و زرد پھول اس شعر کے حسین استعارے ہیں ۔

(پیار سے گھوڑے کی گردن تھپتھپا تا ہے )

        میرے بچپن کے رفیق !جوانی کے دوست !میدانِ جنگ کے وفا دار ساتھی! وہ دیکھو ہر ے بھرے درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں تمھارے لیے دور تک سبز مخمل کا دسترخوان بچھا ہوا ہے ۔ خوشبو میں نہائے ہوئے ہوا کے جھونکے بار بار تمھیں بلانے آ رہے ہیں۔ جاؤ ، ان کی دعوت قبول کرو۔

(گھوڑے کو چرنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے )

سردی ، گرمی ، بھوک ، پیاس کی تکلیفوں سے بے پروا ہو کر آسمان سے ٹوٹے ہوئے تارے کی طرح جو فضا میں راستہ بھول گیا ہو دو مہینے سے شکار کے پیچھے جنگلوں اور پہاڑوں میں بھٹکتا پھر رہا ہو ، بس شکار اور سفر دونوں ختم ہوئے ۔ تھکے ہوئے جسم کو تھوڑا آرام دینے کے بعد آج ہی ایران روانہ ہو جاؤنگا (ڈھال کا تکیہ بنا کر زمین پر لیٹ جاتا ہے ) نیند!پیاری نیند!تم فطرت کی لاڈلی بیٹی ہو ،  برکتوں کے ملک کی ملکہ ہو ، آرام کی سلطنت کی شہزادی ہو   ؂

راہ میں بکھرے ہوئے کانٹوں کو ٹھکراتی ہوئی

آؤ ، آؤ  ، مسکراتی ، پھول برساتی ہوئی

روح کو تسکین دو اور جسم کو آرام دو

زندگانی کو خدا کا بہترین انعام دو

(رستم سوجاتا ہے ، چند تورانی سردار جو ایران کی سیاحت سے واپس ہو کر اپنے وطن سمنگان کی طرف جا رہے ہیں داخل ہوتے ہیں)

سردار نمبر ۱:۔ دنیا کے عجائبات میں تم بھی ایک عجیب چیز ہو ۔ بہشت کو دیکھنے کے بعد بھی کہتے ہو کہ بہشت خوب صورت نہیں ہے ؟

سردار نمبر ۲:۔ ہاں ۔

سردار نمبر۱:۔ تب یقیناً تم ایران کے سفر میں آنکھیں ساتھ لے کر نہیں گئے تھے ۔  مجھے تو یہ محسوس ہوتا تھا کہ جمشید اور فریدوں کی سرزمیں میں نہیں کسی شاعر کے خیال کی رنگین دنیا میں سیر کر رہا ہوں۔

سردار نمبر ۲:۔ جس طرح موت اور زندگی ،ظلمت اور نور ،اہرمن اور یزداں میں ازل سے جنگ ہو رہی ہے اسی طرح قد یم ایران اور توران بھی ایک دوسرے کی دشمنی کو اپنی زندگی کا واجب الادا فریضہ سمجھتے ہیں۔ ہم تورانی ہیں ، تورانی کے گلے پر خنجر رکھ دو تب بھی ایران کی تعریف نہ کرے گا۔

سردار نمبر۱:۔ تعریف نہ کرے گا !کیوں؟

سردار نمبر۲:۔کیونکہ وہ ہمارے دشمنوں کا ملک ہے ۔

سردار نمبر ۱:۔ ایرانی قوم تورانی قوم کی دشمن ہے لیکن ایران کے پُر عظمت پہاڑ ، خوب صورت شہر، شاداب جنگل،پریوں کی زلفوں کی طرح لہراتے بل کھاتے ہوئے دریا ہمارے دشمن نہیں ہیں۔ کیا اس سفر میں تورانی سمجھ کر ایران کے آسمان نے تمھیں اپنے سورج چاند کی روشنی نہیں دی؟ ایران کے چشموں نے تمھاری پیاس نہیں بجھائی؟ ایران کی زمین نے تمھیں بیٹھنے سونے کی جگہ دینے سے انکار کیا ؟ تم دشمنی سے اپنے ہونٹوں کو سچ بولنے کی اجازت نہ دو لیکن میں تو توران کے بادشاہ کے سامنے بھی بے خو ف ہو کر کہہ دوں گا کہ دنیا کا بہشت ایشیا ہے اور ایشیا کا بہشت ایران ہے ۔

سردار نمبر۲ :۔ بس بس میں ایران کی تعریف میں قصیدہ سننا نہیں چاہتا ۔ تم شاعر نہیں سپاہی ہو!

سردار نمبر۱:۔ میں تمھارے جیسا چھوٹا دل، تنگ نظر اور پست خیال لے کر اس دنیا میں نہیں آیا ہوں۔ اچھے کو اچھا کہنا شاعری نہیں انصاف ہے ، تم جتنے ایران کے دشمن ہو اس سے زیادہ انصاف اور عقل کے دشمن ہو۔

سردار نمبر ۲:۔تمھارے الفاظ زہر کی طرح کڑوے اور چھری کی نوک کی طرح تیز ہیں۔ (تلوار کھینچ کر )  واپس لو،معافی کر ان لفظوں کو واپس لو، ورنہ مجھے اس کا جواب تلوار سے دینا ہو گا۔

سردار نمبر۱ :۔ تو اس جواب کا جواب بھی تلوار ہی کی زبان سے سننا ہو گا۔

(دونوں ایک دوسرے پر حملہ کرتے ہیں)

سردار نمبر ۳:۔ (روک کر) یہ کیا !تلوار اور طاقت کا ایسا ذلیل استعمال !کیا دنیا میں اب ہمارا کوئی دشمن نہیں رہا جو تلوار کو زنگ سے بچانے کے لیے ہم نے آپس میں جنگ شروع کر دی؟  تورانیوں کے پاس حربہ ، لشکر ، دولت طاقت ہمت سب کچھ ہے ، صرف ایک چیز اتفاق نہیں ہے  اس لیے دشمنوں کے مقابلے میں ان کی فتح شکست بن جاتی ہے ۔ تلواریں پھینک دو ٹوٹی ہوئی محبت کو جوڑنے کے لیے ہا تھ ملاؤ۔ جو قوم ہمدردی اور اتفاق کے ساتھ ایک دل ایک خیال ہو کر دنیا میں زندگی بسر کرنا نہیں جانتی، یاد رکھو اس کی قسمت کے نوشتے پر دائمی ذلت کی مُہر لگ چکی ہے ۔ وہ آزاد دنیا میں غلامی کے لیے پیدا ہوئی ہے اور آخری سانس تک غیر قوم کی غلام رہے گی   ؂

گر دِلوں میں اتفاق اور خواہشوں میں میل ہے

زندگی کی راحتوں کو فتح کرنا کھیل ہے

کامیابی کے لیے احساسِ حالت چاہیے

ایک ہو جاؤ اگر دنیا میں عزت چاہیے

سردار نمبر۱:۔دوست!ندامت کے ساتھ میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہوں۔

سردار نمبر۲:۔ یہ لڑائی نہ تھی ، ہماری دوستی نے ایک لمحے کے لیے تلواروں کی جنگ کا خواب دیکھا تھا۔

سردار نمبر۳:۔ ہمیں شام ہونے سے پہلے سمنگان پہونچ جانا چاہیے ۔تلواریں تیز کر چکے ۔ اب قدم تیز کرو۔

(آگے بڑھتے ہیں ، سوئے ہوئے رستم پر نظر پڑتی ہے )

سردار نمبر۱:۔کو ن؟ یہ انسان ہے یا قدرت کے جلال ، پہاڑ کی مضبوطی اور شیر کی ہیئت نے انسانی جسم اختیار کر لیا ہے !

سردار نمبر۳:۔یہ معلوم ہوتا ہے کہ گوشت اور ہڈی سے گھرا ہوا طاقت کا سمندر نیند میں چھاتی پھلا کر دھیرے دھیرے سانس لے رہا ہے ۔

سردار نمبر ۱:۔ اس کے چہرے کی طرف جتنا دیکھو اتنا ہی تعجب بڑھتا ہے ۔ قدرت بھی پیدا کرنے کے بعد مدتوں حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھتی رہی ہو گی۔

 سردار نمبر۲:۔ (گھوڑے کو دیکھ کر) وہ دیکھو !ہرن کی آنکھیں، مور کی گردن،گینڈے کی چھاتی،چیتے کی کمر،ہنس کی چال،تمام خوبصورتیوں کو ایک آئینے میں دیکھنا ہو تو سامنے دیکھو!

سردار نمبر۱:۔ کیا شاندار گھوڑا ہے ! گو یا ہری بھری گھاس پر جنگل کا بادشاہ گھوم رہا ہے ۔

سردار نمبر۳:۔ اسے باندھ کر سمنگان لے چلو۔ بادشاہ کو نذر کریں گے ۔

سردار نمبر ۱:۔ لیکن یہ چوری ہے ۔

سردار نمبر ۳:۔ یہ چوری نہیں کیوں کہ چور کو سزا ملتی ہے اور ہمیں بادشاہ سے انعام ملے گا۔

(سب جاتے ہیں ۔ رستم آہستہ آہستہ بیدار ہوتا ہے )

رستم :۔ جس طرح گرمی کی گود میں دم توڑتے ہوئے کھیت بارش ہو جانے کے بعد زندہ ہو جاتے ہیں اسی طرح جاگنے کے بعد سونے اور محنت کے بعد آرام انسان کے جسم میں نئی زندگی اور نئی طاقت پیدا کر دیتا ہے (اُٹھ کر) آفتاب ، شہنشاہ کیکاؤس کے اقبال کی طرح ، بلند ہوتا جاتا ہے اور اس کی دھوپ سخی کی ہمت کی طرح بڑھتی جاتی ہے (گھوڑے کو پکارتا ہے ) آؤ ! آؤ! میرے دوست آؤ !ایران کا راستہ میری واپسی کا انتظار کر رہا ہے ، نہیں سنا ،کہاں ہو ؟ رخش کیا دور نکل گئے ؟ جنگ، سیر ، سفر ، ہر جگہ ساتھ دینے والے دوست آؤ!

(گھوڑے کی تلاش میں جاتا ہے ،دو دیہاتی داخل ہوتے ہیں)

دیہاتی۱:۔ گھوڑا تھا یا طوفان! اس کی نسوں میں لہو کی جگہ بجلی بھری ہوئی تھی۔

دیہاتی۲:۔ اس کے جسم کے ہر جھٹکے کے ساتھ دو چار آدمی زمین پر گیند کی طرح لڑھکتے ہوئے دکھائی دیتے تھے ۔

دیہاتی۱:۔ اور ہر لا ت پر دو چار پسلیوں کے ٹوٹنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔

دیہاتی ۲:۔ جب گھوڑا اتنا بہادر ہے تو اس کا مالک کتنا بہادر ہو گا۔

دیہاتی۱:۔ یہ کون آ رہا ہے !ماتھے پر شکن ، بھنوؤں میں کھچاؤ، آنکھوں میں سرخی،  چہرے پر غصے کی تمتما ہٹ!کیا اس جنگل کو اس کے کسی جرم کی سزا دینا چاہتا ہے ؟

(رستم واپس آتا ہے )

رستم:۔ کہیں دکھائی نہیں دیا ۔ کہیں پتہ نہیں ملا ۔ کیا میں یقین کر لوں کہ جس طرح بڑھاپے میں انسان کو تندرستی چھوڑ دیتی ہے ،دوسری جگہ لیاقت سے زیادہ تنخواہ مل جانے پر آقا کو نمک حرام نوکر چھوڑ دیتا ہے ، مصیبت آنے پر خوشامدی مصاحب اور جھوٹے دوست چھوڑ دیتے ہیں ۔اسی طرح دنیا سے دغا بازی سیکھ کر آج میرے رخش نے بھی مجھے چھوڑ دیا !نہیں !نہیں! یہ ناممکن ہے ،پھرکیاں ڈھونڈوں؟کس سے پوچھوں؟ آسمان سے پوچھا، زمین سے پوچھا، چشمے کی لہروں ، ہوا کے جھونکوں ، جنگل کے درختوں سے پوچھا۔ لیکن کوئی جواب نہیں دیتا ۔ سب چپ ہیں۔ سنو سنو درختو سنو! تمھارے ہی سبز سائے کے نیچے میری زندگی کا سایہ غائب ہوا ہے ، اسے پیدا کرو ورنہ اس جنگل میں آگ لگا کر تمھیں دھوئیں اور بربادی میں دفن کر دوں گا    ؂

زمیں کنیز ہے میری فلک غلام مرا

اجل کی طرح ہے بے رحم انتقام مرا

زمانہ جس سے لرزتا ہے میں وہ رستم ہوں

نہیں سنا ہے تو اب سن لو مجھ سے نام مرا

دیہاتی۱:۔ یہاں سے نکل چلو ، یہ آدمی بھوکے شیر کی طرح خوفناک ہو رہا ہے ۔

(بھاگنا چاہتے ہیں ۔ رستم انھیں روکتا ہے )

رستم:۔ ٹھہرو  !

دیہاتی۲:۔ آپ آگ بگولے کی طرح گرم ہو رہے ہیں ، ذرا ٹھنڈے ہو جائیے  ہم لوٹ کر ابھی آتے ہیں ۔

رستم:۔ (زمین پر لات مار کر )  میں حکم دیتا ہوں ٹھہرو ۔ تمھیں موت کا حکم تو نہیں سنایا گیا ۔ پھر کانپ کیوں رہے ہو؟

دیہاتی۱:۔ جناب کانپتا کون ہے ، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے اس لیے ذرا ٹانگوں کو سردی معلوم ہو رہی ہے ۔

رستم:۔ (ڈانٹ کر) تم کون ہو؟

دیہاتی۲:۔ ہم ، ہم آدمی ہیں۔

رستم:۔ میں کب کہتا ہوں تم گھاس یا پتھر ہو ۔

(دونوں دیہاتی خوف سے گر پڑتے ہیں)

دیہاتی۱:۔ گھر سے نکلتے وقت آج ضرور ہم نے کسی منحوس کا منہ دیکھا تھا۔

رستم:۔ بزدلو !اٹھ کھڑے ہو اور جو پوچھوں اس کا جواب دو… اٹھتے ہو یا… (گھونسہ تان کر)

دیہاتی ۲:۔ (اٹھتے ہوئے ) اٹھو بابا ، ہم زمین سے نہ اٹھے تو یہ ہمیں دنیا ہی سے اٹھا دے گا۔

رستم:۔ تم دونوں کہاں رہتے ہو؟

دیہاتی ۱:۔ اس جنگل سے تھوڑی دور پر ایک گاؤں میں۔

رستم:۔ تم قریب کے گاؤں میں رہتے ہو ۔

دیہاتی ۲:۔ جناب ہم دونوں غریب کسان ہیں۔ بادشاہ کے محل میں پیدا نہیں ہوئے جنت کے لائق نہیں ۔ پھر گاؤں میں نہ رہیں گے تو کہاں رہیں گے ۔

رستم:۔ تم یہیں کے رہنے والے ہو تو ضرور دیکھا ہو گا۔

دیہاتی۱:۔ کسے دیکھا ہو گا۔

رستم:۔ خبردار !میرے سامنے جھوٹ بولنے کی جرأت نہ کرنا (گلا پکڑ کر) اقرار کرو۔

دیہاتی۲:۔مگر گردن توڑنے سے پہلے یہ تو بتا دیجیے کہ کس بات کا اقرار کریں؟

رستم:۔کہ تم نے میرے وفا دار گھوڑے کو دیکھا ہے ۔

دیہاتی۱:۔ ارے !تو کیا وہ شیرنی کے دودھ سے پلا ہوا گھوڑا  آپ ہی کا تھا؟

رستم:۔ ہاں!وہ کہا ں ہے ؟

دیہاتی۱:۔ تورانی سرداروں کے قبضے میں ۔

دیہاتی۲:۔ وہ اسے گرفتار کر کے اپنے بادشاہ کو نذر دینے کے لیے سمنگان لے گئے ہیں ۔

رستم:۔ تو بکتا ہے ، جھوٹا ہے ، پاگل ہے ، نا ممکن کو ممکن نہیں بنایا جا سکتا ہے ۔ طوفان زنجیروں میں نہیں جکڑا جا سکتا ۔ بجلی رسیوں میں نہیں باندھی جا سکتی ۔ اس دنیا میں کسی ماں نے ایسا جری بے خوف لڑکا نہیں پیدا کیا جو رستم کے رخش نامی گھوڑے کی پیٹھ پر اپنی سواری کی زین کس سکے ۔ تیری آنکھو ں نے تجھے دھوکا دیا اور تو مجھے دھوکا دے رہا ہے ۔

دیہاتی۱:۔ میں نہیں بلکہ سچ بات کا یقین نہ کر کے آپ خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں۔

رستم:۔ تیری سچائی کا ثبوت۔

دیہاتی۲:۔ ثبوت اور گھوڑا ، دونوں آپ کو سمنگان میں ملیں گے ۔

(دونوں چلے جاتے ہیں)

رستم:۔ سمنگان۔کون سمنگان؟توران کی ایک چھوٹی سی ریاست !زمین کے نقشے میں ایک دھندلاسانشان!دنیا کے جغرافیہ میں ایک حقیر نقطہ ! (ڈھال اور گرز اٹھا کر) دیکھوں گا، دیکھوں گا ، سمنگان!دیکھوں گا ، کہ تیرے قلعے کی دیواریں ، تیرے بادشاہ کے تخت کے پائے ، تیرے بہادروں کے دل اور بازو کتنے مضبوط ہیں ۔ اپنے سپاہیوں سے کہ دے کہ اپنی کمانیں چڑھا لیں، اپنے ترکشوں میں تیر بھر لیں۔ اپنی تلواروں پر سان دھر لیں۔ تیرے آسمان کے لہو کے چھینٹوں سے اور تیری زمین کو لاشوں سے ڈھاک  دینے کے لیے رستم آندھی اور طوفان بن کر تیری طرف آ رہا ہے     ؂

 پیے گا خون ، کہ غصہ ہے تشنہ لب میرا

کہیں پناہ نہ دے گا تجھے ، غضب میرا

گھِرا ہے شعلوں میں تو بھی ، ترا مقدر بھی

بجھا سکے گا نہ اس آگ کوسمندر بھی

(جوش و خروش کے ساتھ سمنگان کی طرف روانہ ہو جاتا ہے )

(سین ختم)

 

               دوسرا سین

(دربارِ سمنگان)

(امرائے سلطنت حاضر ہیں ۔ حبشی تاتاری غلام کندھوں پر شراب کی زرنگار صراحیاں اور ہاتھوں میں طلائی جام لیے ہوئے ہیں ۔ شاہِ سمنگان  تخت پر رونق افروز ہیں)

شاہِ سمنگان:۔ سمنگان کے ستارو !تاج کے وفادارو !یہ دنیا ازل سے ابد کی طرف جانے والا ایک راستہ ہے ۔ اس راستے پر خدا کے سوا خدا کی پیدا کی ہوئی ہر چیز سفر کر رہی ہے ۔ آج میری عمر کے مسافر نے بھی زندگی کے سفر میں اپنے راستے کی پچاس منزلیں طے کر لی ہیں    ؂

کل بڑھاپا بھی نہ ہو گا نوجوانی کی طرح

ساتھ دنیا کے بہے جاتے ہیں پانی کی طرح

کس طرف کو جا رہے ہیں یہ پتا کوئی نہیں

اس سفر کی ابتدا ہے ، انتہا کوئی نہیں

وزیر:۔

حیاتِ جاودانی دے خدا اس دارِ فانی میں

ہماری عمر بھی مل جائے تیری زندگانی میں

پیلسم:۔

خوشی کا دن ، مسرت کا زمانہ بار بار آئے

ہزاروں بار یوں ہی اس گلستاں میں بہار آئے

(کنیزوں کا رقص، رقص کے بعدساقی امرائے دربار کے سامنے جامِ شراب پیش کرتے ہیں ۔ اس وقت رستم غصے اور جوش میں داخل ہوتا ہے )

رستم:۔(آ کر) بس بس،دنیا میں تمھاری خوشی کے دن ختم ہو چکے ۔پیالے پھینک دو۔ صراحیاں توڑ دو، اپنی ہستی کو آنسوؤں میں غرق کر دو ۔ (بادشاہ سے ) تمھیں سمنگان کے بادشاہ ہو ؟ (درباریوں سے ) ہاں تمھیں اس تخت و تاج کی حفاظت کرنے والے بہادر ہو ؟یہی آنکھیں ہیں جو اپنے سوا تمام دنیا کو حقارت سے دیکھتی ہیں ۔ یہی ہاتھ ہیں جو شیر کی کلائی موڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں؟   ؂

کمانیں بھی ہیں، ڈھالیں بھی ہیں، کندھوں پر تبر بھی

کرو ثابت کہ ان سینوں میں ہے دل بھی جگر بھی

بڑھو ، جوہر دکھاؤ، آج اگر تلوار باندھی ہے

میں آیا ہوں کہ دیکھو ، کون بجلی کون آندھی ہے

پیلسم :۔ شاہی دربار میں آج تک کسی نے اس جوش و دلیری کے ساتھ گفتگو کی جرأت نہیں کی۔ تم مظلوم ہو ، فریادی ہو، دیوانے ہو ، آخر کون ہو؟

رستم:۔ میں کون ہوں؟ اس تخت کے لیے زلزلہ، اس سلطنت کے لیے بربادی اور تم سب کے لیے موت کی گرج     ؂

عدو کو پھونک دے وہ برقِ شعلہ فام ہوں میں

خدا کے قہر کا اک نقشِ انتقام ہوں میں

فنا کے ہونٹ سے نکلا ہوا پیام ہوں میں

اجل کے ہاتھ کی شمشیرِ بے نیام ہوں میں

یہ بزمِ عیش چمکتی ہے جو ستاروں سے

جلے گی اب مری تلوار کے شراروں سے

پیلسم:۔ ادب سیکھ ادب !یہ ہمارے بادشاہ کا انتہائی رحم ہے کہ ابھی تک تجھے اس گستاخی کی سزا نہیں دی گئی۔

رستم:۔ عورتوں کی طرح تمھاری زبان میں طاقت ہے مگر مجھے سزا دینے کے لیے تمھارے بازوؤں میں طاقت نہیں ہے   ؂

ہستیِ نا چیز ،  ٹھہرے گی فنا کے سامنے !

شمع کی لَو ، سر اٹھائے گی ہوا کے سامنے !

گھاس کا تنکا ، سزا دے ، اور کسے ؟ طوفان کو!

تم نے دیکھا ہی نہیں اب تک دلیر انسان کو

پیلسم:۔بس !اس سے زیادہ تحمل نہیں ہو سکتا۔ تیری گستاخی برداشت کی حد سے آگے بڑھ رہی ہے  ؂

زباں اور سر کٹا دیتی ہیں تلخ و تیز تقریریں

نہ لہرائیں کہیں نا گن کی صورت سر پہ شمشیریں

ہماری بھی رگوں میں زندگی کا خون بہتا ہے

سمجھ رکھا ہے کیا تو نے ہمیں بے جان تصویریں

رستم:۔ زمین پر اُگی ہوئی گھاس جیسے پیروں سے روندتا ہوا یہاں تک آیا ہوں میں اس سے بھی زیادہ تمھیں بے حقیقت سمجھتا ہوں ۔ سنو !تم سمنگان کے شاہی دربار میں نہیں بلکہ قسمت کا فیصلہ سننے کے لیے مجرموں کی طرح میرے غصے کی عدالت میں کھڑے ہو ۔ اگر دنیا میں زندہ رہنے کی خواہش ابھی پوری نہیں ہوئی ہے تو میرے غضب کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ، سر جھکا کر،  ہاتھ جوڑ کر ، اپنے قصور کے لیے معافی اور اپنی زندگی کے لیے رحم مانگو ۔

بادشاہ:۔ اے شخص !میں بڑی دیر سے تیری دیوانگی آمیزگستاخیوں کو حیرت سے دیکھ رہا ہوں۔کسی مقدمے میں انصاف ، کسی قصور کی معافی ، کسی خدمت کا انعام ؟ بیان کر تو کیا چاہتا ہے ؟

رستم:۔ میں اپنا رخش نامی گھوڑا چاہتا ہوں۔ تیری سلطنت میں شریفوں کا چہرہ لگا کر پھرنے والے ڈاکو اسے تورانی سرحد سے چرا لائے ہیں ۔ اگر تو نے آج ہی، اسی وقت ، اسی جگہ اسے حاضر نہ کیا تو اس دنیا میں تیری ہستی اور اس زمیں پر سمنگان دکھائی نہ دے گا    ؂

قسم خورشید کی ، نوری زرہ جس کے بدن پر ہے

قسم مہتاب کی، جو لشکرِ انجم کا افسر ہے

قسم ہے کہکشاں کی ، جو کمانِ چرخِ اخضر ہے

قسم ہے آسماں کی جو شفق کے خون سے تر ہے

دکھائی دو گے یوں تم آبِ خنجر کی روانی میں

بہیں ، ٹوٹی ہوئی کشتی کے تختے ، جیسے پانی میں

بادشاہ:۔تو اس دعوے سے بات کر رہا ہے گویا تباہی تیرے اشارے اور موت تیرے غصے کا نام ہے ۔انسان اتنا خوف ناک نہیں ہوتا۔میں تیرا نام جاننا چاہتا ہوں۔

رستم:۔ میرا نام سنتے ہی اس دربار کی دیواریں کانپ اٹھیں گی ، یہ شراب اور غرور کے نشے سے سرخ چہرے زرد ہو جائیں گے اور تو آندھی کے تھپیڑے سے ہل گئے درخت کی طرح تخت سے نیچے گر پڑے گا    ؂

روح یوں لرزے گی گویا دب گئی ہے برف میں

اس قدر ہیبت ہے میرے نام کے ہر حرف میں

شورسے گونجا ہوا ہر شہر ہر ویرانہ ہے

نام میرا شیر کا ایک نعرۂ مستانہ ہے

بادشاہ:۔ چاہے تیرا نام سنتے وقت ہمارے کانوں کے پاس ہزاروں بادل ایک ساتھ گرج اٹھیں ، پھر بھی ہم تیرا نام سننا چاہتے ہیں ۔

رستم:۔ بازوؤں کی طاقت نے شہرت کی سنہری روشنائی سے ایران اور توران کے ذرے ذرے پر میرا نام لکھ دیا ہے ۔ میں سام اور نریمان کا جگر بند ، زال و رودابہ کا  فر زند، زابلستان کا جّرار، فارس کا مددگار    ؂

شاہ کیکاؤس کے اقبال کی تنویر ہوں

فاتحِ ملکِ شجاعت ، مالکِ شمشیر ہوں

تیر و ترکش میرے خادم ، گرز ہے ہمدم مرا

کام ہے میداں نوازی ، نام ہے رستم مرا

(سب چونک پڑتے ہیں ۔ شاہ گھبرا کر تخت سے اتر آتا ہے )

بادشاہ:۔ رستم ؟ رستم ؟ کیا وہی رستم جس کی عظمت مآب ہستی پر آج ایران فخر کرتا ہے ۔

رستم:۔ ہاں میں وہی رستم ہوں ۔ گھوڑا دویا جنگ کرو۔ بولو، زندگی اور موت دونوں میں سے کسے پسند کرتے ہو!

بادشاہ:۔ نامور رستم !ایرانی اور تورانی تلواروں کے ٹکرانے کی جگہ شاہی دربار نہیں، میدانِ جنگ ہے ۔ آئیے بیٹھیے ! آپ ہمارے مہمان ہیں۔میں میزبان کی حیثیت سے آپ کا خیر مقدم کرتا ہوں۔

رستم :۔اس دنیا میں میرا سب سے بڑا دوست میرا وفادار گھوڑا ہے ، جب تک وہ نہ مل جائے میں تمھاری طرف دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھا سکتا۔

بادشاہ:۔ آپ دو روز تک ہماری مہمانی قبول کیجیے ، سمنگان سے رخصت ہونے سے پہلے آپ کا گھوڑا  آپ کی خدمت میں حاضر ہو جائے گا۔

رستم :۔ اپنا وعدہ وفا کرو گے ؟

بادشاہ:۔اگر انسان ہونے کا دعویٰ ہے ؟

رستم :۔مہمان بنا کر دھوکا تو نہ دو گے ؟

بادشاہ:۔ اگر کمینہ کہلانے کی شرم ہے ؟

پیلسم:۔ ٹھہریے جلالت مآب ٹھہریے !اس تاج و تخت کی حفاظت کرنے والے جان نثاروں کی طرف سے سمنگان کی وفادار رعیت کی طرف سے ، تورانیوں کی حمیت و غیرت کی طرف سے ، میں یہ سوال کرنے کا حق رکھتا ہوں کہ آپ کس کی مرضی سے توران کے سب سے بڑے دشمن کو مہمان بنا رہے ہیں؟

بادشاہ:۔ اس سوال کا مطلب؟

پیلسم:۔جس طرح رعایا اپنے بادشاہ کی اطاعت گزار ہوتی ہے اسی طرح بادشاہ بھی ملک کی آواز اور رعیت کی مرضی کا تابع ہوتا ہے ۔ جب تک بادشاہ اور رعیت کی مرضی میں اتفاق نہ ہو حکومت اور سلطنت کبھی قائم نہیں رہ سکتی۔

بادشاہ:۔ میں دوبارہ پوچھتا ہوں کہ ان لفظوں کا کیا مطلب ہے ؟

پیلسم :۔ آب خود مختار اور آزاد نہیں ، شنہشاہِ افراسیاب کے ما تحت ہیں ، اس لیے توران کے دشمن کو مہمان بنا کر دنیا میں تورانیوں کو بزدل اور بے حمیت ثابت نہ کیجیے ۔اس شرمناک جرأت کو نہ سمنگان کی رعیت معاف کرے گی اور نہ توران کا شہنشاہ افراسیاب معاف کرے گا۔

رستم:۔ افراسیاب؟ کون افراسیاب؟ وہی جو صدہا مرتبہ اپنی نامردی سے میدانِ جنگ کو ذلیل کر چکا ہے ، جو کتنی ہی بار رستم کی تلوار سے زندگی کی بھیک مانگ چکا ہے    ؂

سرکشی میں جو فلک ہے ، روندے جانے میں زمیں

جس میں ہمت ہے ، نہ غیرت ، جس کی دنیا ہے نہ دیں

دم بھرے اس کا جو تجھ سا بزدل و نا مرد ہے

تیرا وہ افراسیاب ان ٹھوکروں کی گرد ہے

پیلسم:۔ (درباریوں سے )جس کے پہلے ہی لفظ پر تلواروں کو میان سے تڑپ کر باہر نکل آنا چاہیے تھا اس کی بد زبانی کا جواب دینے کے لیے ابھی تک تمھاری زبانوں اور ہاتھوں کو حرکت نہیں ہوئی    ؂

شرم ہے تم پر ، اگر دنیا میں یہ زندہ رہے

ہاں بڑھو توران کا اقبال تابندہ رہے

(پیلسم اور اس کے ساتھی رستم پر حملہ کرتے ہیں ، رستم حملہ آوروں کو شکست دینے کے بعد پیلسم کو زمیں پر گرا کر خنجر نکالتا ہے )

ٹیبلو

(سین ختم)

 

               تیسرا سین

سمنگان کی شاہی محل سرا

(شہزادی تہمینہ اور کنیزیں آتی ہیں)

تہمینہ :۔ نیلا آسمان ، ہنستا ہوا چاند، جگمگاتے ہوئے ستارے ،کتنی حسین رات ہے  دن کے ختم ہوتے ہی دنیا کی خوب صورتی جاگ اٹھی ہے ۔ یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ درخشاں نظارے قدرت کی شاعری ہیں اور رات چاند کی چادر اوڑھے ہوئے اس حسین شاعری کا مطالعہ کر رہی ہے ۔

کنیز(۱):۔اور مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سمنگان کی شہزادی کے حسن کا مقابلہ کرنے کے لیے نیلم کے تخت پر بیٹھی ہوئی رات کی ملکہ چاند کا آئینہ سامنے  رکھ کر اپنے سیاہ بالوں میں تاروں کے موتی پرو  رہی ہے ۔

تہمینہ:۔ تم نے میرے حسن کی تعریف کرناکس سے سیکھا ہے ؟

کنیز(۱):۔ آپ کا آئینہ ، وہی آئینہ جس کے اندر آپ کا چہرہ اس طرح نظر آتا ہے گویا چاندی کے چشمے میں سونے کا پھول تیر رہا ہے ۔

تہمینہ:۔ آئینہ تو خوشامدی ہوتا ہے ۔

کنیز(۱):۔ معاف کیجیے وہ بد صورت چہرے کی کبھی خوشامد نہیں کرتا ۔

تہمینہ :۔اری بیوقوف !عورت کا حسن تو وہم کا خواب ، خیال کی حماقت اور یقین کی دیوانگی ہے ۔ وہ خوبصورتی جو عمر بڑھنے کے ساتھ کم ہو جاتی ہے ، ڈوبتے ہوئے دن کی روشنی کی طرح پھیکی پڑ جاتی ہے اور بجلی کی طرح چمک کر پھول کی خوشبو کی طرح اڑ جاتی ہے ۔ میں اس آنی اور فانی خوبصورتی کو عورت کے ساتھ جوانی کا مذاق سمجھتی ہوں    ؂

بہار دلربائی ایک دھوکا ایک سایا ہے

یہ کچا رنگ ، مٹی کے کھلونوں پر چڑھایا ہے

کہاں کا حسن ، پاگل ہے جو اترائے جوانی پر

ہوا سے کچھ لکیریں بن گئی ہیں بہتے پانی پر

( ایک کنیز کا داخلہ)

کنیز (۲):۔حضور،حضور !سنتے ہی چونک اٹھیے گا ۔ میں آپ کے لیے اس پرانی دنیا کی ایک نئی خبر لائی ہوں ۔

تہمینہ:۔ نئی خبر !

کنیز (۲):جی ہاں نئی ، اچھوتی ، کنواری خبر۔اس دنیا کے سارے جھگڑوں کی جڑ تین چیزیں ہیں یعنی زمین، زر اور زن ۔ سلطنت کے لیے ، دولت کے لیے ، عورت کے لیے ، تو لڑائیاں ہوا ہی کرتی ہیں لیکن ایک گھوڑے کے لیے خون خرابہ ہوتے ہوئے آج ہی دیکھا ہے ۔

تہمینہ:۔ لڑائی ہوئی ۔کہاں؟

کنیز (۲):دربار میں۔

تہمینہ:۔ کس سے ؟

کنیز (۲):۔ ہمارے وزیر جنگ پیلسم اور ایران کے سپہ سالا ر رستم سے ۔

تہمینہ:۔ ایران کے دربار کی زینت رستم، سمنگان کے دربار میں کیسے آ گیا؟

کنیز(۲):۔ اپنے کھوئے ہوئے گھوڑے کی تلاش میں۔

تہمینہ:۔ تو لڑائی کی وجہ؟

کنیز (۲):۔ انسانیت و شرافت کا فرض سمجھ کر ہمارے بادشاہ نے گھر آئے ہوئے قومی دشمن کو مہمان بننے کے لیے دعوت دی ۔ اس دعوت کو پیلسم اور اس کے ہم خیال سرداروں نے توران کی بے عزتی سمجھا ۔ اس بنا پر بات بڑھ گئی اور ایک خوف ناک جنگ شروع ہو گئی۔

تہمینہ:۔کہاں رستم!کہاں سمنگان!اری پاگل تو ضرور کوئی خواب دیکھ کر آئی ہے ۔

کنیز (۲):۔ تلواروں کی گھٹا میں رستم کو بجلی کی طرح چمکتے ہوئے دیکھ کر مجھے بھی اس نظارے پر خواب ہی کا دھوکا ہوا تھا لیکن اپنے حریف کو شکست دینے کے بعد رستم کو جہاں پناہ کے ساتھ آرام کے لیے محل میں جاتے ہوئے دیکھا تب یقین ہوا کہ میں خواب نہیں دیکھ رہی ہوں، جاگ رہی ہوں۔

تہمینہ :۔وہ سمنگان میں کب تک رہے گا؟

کنیز (۲):۔ پرسوں شام تک ، کیوں کہ گھوڑے کو ڈھونڈ نکالنے کے لیے جہاں پناہ نے دو دن کا وعدہ کیا ہے ۔

تہمینہ:۔ میں برسوں سے رستم کا  پُر جلال نام اور اس کی جرأت اور دلیری کے عجیب و غریب کارنامے سن رہی ہوں ۔جب دشمن بھی بے اختیار ہو کر اس کی بے مثال بہادری کی تعریف کرتے ہیں تو میں سوچ میں پڑ جاتی ہوں کہ وہ کتنا اقبال مند اور کیسا شان دار آدمی ہو گا جس کی شہرت نے تمام دنیا کو فتح کر لیا ہے ۔ جی چاہتا ہے کہ ایک بار اس کو چھپ کر دیکھوں اور معلوم کروں کہ دنیا اس کی اتنی تعریف اور عزت کیوں کر رہی ہے ۔

کنیز:۔ (۲):۔ آپ رستم کو دیکھنا چاہتی ہیں؟

تہمینہ:۔ اگر ممکن ہو،لیکن چھپ کر اور وہ بھی صرف ایک بار۔

کنیز(۲):۔مگر یہ خیال رہے کہ رستم نے دنیا کو فتح کرنے کی قسم کھائی ہے اور آپ بھی دنیا کی حسین ترین شے ہیں کہیں وہ محبت کی طاقت سے آپ کو بھی فتح  نہ کرے ۔

تہمینہ:۔ تو مجھ سے مذاق کرتی ہے ۔

کنیز(۲):یہ مذاق نہیں پیشین گوئی ہے ۔ کیوں کہ میں حسن و عشق کی قسمت کا حال بتانے والی نجومی ہوں ۔

(کنیزیں ہنستی ہیں۔ تہمینہ شرم و حیا سے گردن جھکا لیتی ہے )

(سین ختم)

 

               چوتھا سین

شاہی محل

(  آراستہ خواب گاہ ۔ رات کا وقت ۔ خواب گاہ کی کھڑکیوں میں سے شہر سمنگان کے گھروں کی روشنی دکھائی دے رہی ہے ۔ شاہ سمنگان اور رستم بیٹھے ہوئے ہیں۔ چند غلام ہاتھ باندھے ہوئے حکم کے منتظر کھڑے ہیں)

بادشاہ:۔ پیلسم کی زندگی اسے واپس دے کر آپ نے یہ ثابت کر دیا کہ جو بہادر ہوتا ہے وہ رحم دل بھی ہوتا ہے ۔

 رستم:۔ لیکن معافی ملنے کے بعد بھی پیلسم کا چہرہ حسد کی آگ کے دھوئیں سے سیاہ ہو رہا تھا ۔ مجھے یقین نہیں کہ وہ میرے رحم کی قدر کرے گا۔

بادشاہ:۔ اب رات کی آنکھوں میں بھی نیند کا خمار دکھائی دے رہا ہے ۔ اجازت دیجیے کہ میں آپ کو شب بخیر کہوں۔

رستم:۔ اس مہربانی کا شکریہ۔

شاہ سمنگان:۔ میری دعا ہے کہ آپ آرام کی نیند سوئیں اور مسرت کا خواب دیکھ کر ہنستے ہوئے بیدار ہوں۔

(غلاموں کے ساتھ جاتا ہے )

رستم:۔ موت کیا ہے ؟ ایک لمبی نیند، اور نیند کیا ہے ؟ ایک مختصر موت۔ سونا اور مرنا، دونوں موت ہی کی دو شکلیں ہیں ۔ لیکن کیسے تعجب کی بات ہے کہ انسان ایک کو آرزو اور التجاؤں سے بلاتا ہے اور دوسرے کا نام سنتے ہی خوف سے کانپ اٹھتا ہے    ؂

آسماں کے ہاتھ میں ہے چاند کا زرّیں ستار

گونج اٹّھے نغمہ و راحت سے اس کا تار تار

رات تھوڑی رہ گئی ہے صبح ہے جانا مجھے

ہاں سناؤ اے ستارو ! نیند کا گانا مجھے

(رستم سو جاتا ہے ۔ پیلسم اپنے ہمراہیوں کے ساتھ چوروں کی طرح دبے پاؤں داخل ہوتا ہے )

پیلسم:۔ خاموش !  آہستہ !پیروں کے نیچے کی زمین بھی تمھارے پاؤں کی آواز نہ سن سکے ۔

ہمراہی(۱):۔ ہاتھ میں چمکتے ہوئے خنجروں کی طرح ہمارے پاؤں بھی ہمارے قبضے میں ہیں، بڑھو۔

پیلسم:۔ ٹھہرو ! بڑھنے سے پہلے اپنی حمیت اور ہمت کا ایک بار اور امتحان کر لو۔ رستم کے ہاتھ سے سرِ دربار ذلیل ہونے کے بعد بھی تم اپنی بے عزتی پر صبر کر چکے تھے ۔لیکن میں نے اپنی تقریر سے تمھاری مردہ ہمتوں میں جان ڈال دی۔ تمھارے خون میں جو پانی بن گیا تھا ،اس میں پھر سے سرخی اور گرمی پیدا کی ، پھر تم سب نے اپنی ذلت کا بدلہ لینے کے لیے تلواروں پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی۔

ہمراہی (۱):۔ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں اپنی ذلت بھی یاد ہے اور قسم بھی۔

ہمراہی(۲):۔ دنیا کا خیال ہے کہ سیاہ رنگ پر کوئی رنگ نہیں چڑھتا۔ آخر ہم اس خیال کو غلط ثابت کرنے کے لیے رستم کے خون سے رات کی سیاہ چادر کو سرخ بنانے آئے ہیں۔

پیلسم:۔ تو جاؤ ، پہلے اس کے گرز اور ترکش پر قبضہ کر لو۔

(ساتھی رستم کا گرز اور ترکش اٹھا لیتے ہیں)

        دیکھتے ہو کس اطمینان اور آرام کے ساتھ سو رہا ہے ۔ دشمنوں کے ملک میں دشمنوں کی چھت کے نیچے تم نے کسی انسان کو اس طرح نڈر ہو کر سوتے ہوئے نہ دیکھا ہو گا۔ گویا یہ فیصلہ کرنے کے بعد سویا ہے کہ دنیا میں اور سب کچھ ہے لیکن فکر ، ڈر اور موت نہیں۔

(چھُری مارنے جاتا ہے )

ہمراہی(۱):۔ (تہمینہ کو سامنے سے آتے دیکھ کر) ہوشیار! کوئی آ رہا ہے ۔

پیلسم:۔ یہ کون؟ تہمینہ !رستم کی خواب گاہ میں؟ سمنگان کی شہزادی !لیکن کیوں؟ جس طرح اس کے باپ نے دشمن کو مہمان بنا کر سارے توران کو بے عزت کیا ، کیا اسی طرح یہ بھی جوانی کے نشے سے اندھی ہو کر رستم کے آغوش میں اپنے کو ذلیل کرنے آئی ہے ؟

ہمراہی(۲):۔ ہم نے تو سنا تھا کہ صورت کی طرح اس کی سیرت بھی حسین ہے ۔

ہمراہی (۳):۔چھپ جاؤ اور سنو ! اس کی باتوں سے اس کا ارادہ ظاہر ہو جائے گا۔

پیلسم:۔ اگر یہ ناپاک ارادہ اور  پُر از گناہ خیال لے کر یہاں آئی ہے تو قسم ہے سمنگان کی عزت کی     ؂

نہ رہنے دوں گا کوئی نقش اس شاہی نگینے میں

یہ خنجر بھونک دوں گا سب سے پہلے اس کے سینے میں

ہزاروں کھیل دیکھے ، دیکھنا تم یہ تماشا بھی

تڑپتا ہو گا رستم کی بغل میں اس کا لاشا بھی

        (سب چھپ جاتے ہیں ۔ تہمینہ خوف زدہ نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھتی ہوئی داخل ہوتی ہے )

تہمینہ:۔ شرم اور دل کی جنگ کسی طرح ختم نہیں ہوتی ۔ شرم کہتی ہے کہ لوٹ چل اور دل کہتا ہے آگے بڑھ۔

(سوچتی ہے )

        اگر وہ جاگ کر پوچھ بیٹھا کہ تم کون ہو ؟ کیوں آئی ہو ؟ تو شرم سے سر جھکانے کے سوا اور کیا جواب دے سکوں گی … ہمت مجھے سہارا دے …

        (آہستہ آہستہ قریب جا کر سوئے ہوئے رستم کو دیکھتی اور حیرت زدہ ہو جاتی ہے ) کیا دیکھا ؟ نیند کی انگوٹھی میں ایک بیش قیمت ہیرا ، بہادری، نیکی اور شرافت کی روشنی سے چمک رہا ہے ۔ ایک زمین کا چاند جس کے سامنے آسمان کا چاند بھی کرنوں کا دامن پھیلا کر مردانہ حسن کی بھیک مانگ رہا ہے   ؂

تجلّی صبح کی اور دبدبہ ہے بادشاہوں کا

یہ چہرہ  دیکھنے سے نور بڑھتا ہے نگاہوں کا

(دوبارہ جھک کر غور سے دیکھتی ہے ، رستم جاگ اٹھتا ہے )

رستم:۔ (پلنگ سے دھیرے دھیرے اُٹھ کر) آنکھو ! یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں  ؂

عجب چہرہ ہے جس کو حسن کی کرنوں نے گھیرا ہے

یہ جلوہ ہے کہ جادو، چاندنی ہے یا سویرا ہے

                        (تہمینہ جانا چاہتی ہے ،رستم روکتا ہے ) ٹھہرو !اندھیری رات میں حسن کا چراغ لے کر آنے والی حسینہ ٹھہروا!تم کون ہو؟

تہمینہ:۔ اس سے زیادہ آپ کو جاننے کی ضرورت نہیں کہ میں سمنگان کی ایک شریف لڑکی ہوں۔

رستم:۔ تمھارا نام؟

تہمینہ:۔ تہمینہ۔

رستم:۔ اور جس کی زندگی کے باغ میں یہ حسین پھول پیدا ہوا ہے اس باغبان کا نام؟

تہمینہ:۔ شاہ سمنگان (رستم چونکتا ہے ) دوست اور دشمن ہر ایک کی زبان اقرار کرتی ہے کہ آپ انسانوں میں عظیم ترین انسان اور دنیا کی پر جلال ہستیوں میں عجیب و غریب ہستی ہیں۔ آپ کے حوصلے اور جرأت کے قصے سن سن کر میرے دل میں مدّت سے خواہش تھی کہ آپ کی زیارت کروں۔ آج وہ تمنا پوری ہوئی۔ اب اجازت چاہتی ہوں۔

(دھیرے  دھیرے دروازے کی طرف لوٹتی ہے )

رستم:۔ کیا میں وہی رستم ہوں !اوہ کتنا عجیب انقلاب؟ دنیا فتح کرنے والے کو آج ایک عورت کے حسن نے فتح کر لیا (بے تابانہ)   ؂

یہی ہے جس سے ہر شے ہے حسین و زرنگار اتنی

کہاں سے لائی دنیا ورنہ حسن اتنا بہار اتنی

(تہمینہ جانا چاہتی ہے )

سنو!ٹھہرو !چلیں منہ پھیر کر کیوں خستہ جانوں سے

سمنگاں کا یہی دستور ہے کیا میہمانوں سے

تہمینہ :۔ سمنگان اچھی طرح اپنے مہمانوں کی عزت کرنا جانتا ہے ۔ کیا یہ مہمانی آپ کے لیے تکلیف کا باعث ہوئی۔

رستم:۔

ہو گیا بیگانہ کیوں آرام و ضبط و ہوش سے

پوچھیے یہ حال میری حیرتِ خاموش سے

جب سے میں جاگا ہوں ، لب ہے اور آہِ سرد ہے

جس جگہ پہلو میں دل تھا اب وہاں پر درد ہے

تہمینہ:۔ مرض سے بے پروائی مرض کا علاج نہیں ہے ۔ اجازت دیجیے کہ میں شاہی حکیم کو طلب کروں ۔

رستم :۔ روح کی بیماری کا علاج پیغمبر کرتے ہیں ، جسم کی بیماری کا علاج حکیم کرتے ہیں اور دل کی بیماری کا علاج محبت کی نظر کرتی ہے     ؂

بس اب اس زندگی میں زندگی کا مدعا تم ہو

مرے غم کی شفا تم ہو مرے دل کی دوا تم ہو

(رستم تہمینہ کا ہاتھ پکڑتا ہے ، تہمینہ غصے سے ہاتھ جھٹک کر)

تہمینہ:۔ میرا ہاتھ چھوڑ دو ، تمھاری شرافت پر بھروسا کرنا میری غلطی تھی۔ یا د رکھو اپنی عصمت و آبرو کی حفاظت کے وقت سمنگان کی ہر شریف لڑکی رستم سے زیادہ طاقتور ہے ۔

رستم:۔ (حیرت سے ) یہ کیا؟ میری محبت کے پاک جذبے کو تم شک کی نظر سے دیکھتی ہو! میں کمینہ نہیں ہوں۔ شریف اپنے ہی خون سے اپنے جسم کو رنگ دے گا لیکن ذلت کے دھبوں سے اپنے نام و عزت کو کبھی  داغ دار نہ کرے گا۔

تہمینہ:۔ معاف کرنا ، میں یہ سمجھی کہ …

رستم:۔ تم جو بھی سمجھیں غلط سمجھیں۔رواج ، مذہب اور شادی کے مقدس قانون کے مطابق جو لڑکی میری قسمت میں برابر کی شریک ہو کر زندگی سے موت تک میرے رنج و راحت کی حصہ دار ہو گی، اس کے سوا رستم ہر جوان لڑکی کو اپنی بہن اور ہر بوڑھی عورت کو اپنی ماں سمجھتا ہے    ؂

کبھی ہو گا نہ داغِ جرم سے چہرہ خجل میرا

نہ گندی ہے نظر میری نہ ہے ناپاک دل میرا

تہمینہ:۔ ہر دوشیزہ لڑکی آپ جیسے شریف اور بہادر کی لونڈی بننا اپنی خوش نصیبی سمجھے گی ۔ لیکن اس بات کو نہ بھولیے کہ میں تورانی ہوں اور آپ ایرانی ہیں۔

رستم:۔ تو کیا تم محبت کو ایران اور توران کے لفظوں میں قید سمجھتی ہو۔ محبت کا کوئی مذہب ، کوئی قوم، کوئی وطن نہیں ہے ۔ محبت خدا کے رحم کی طرح ذات اور قوم کو نہیں صرف خوبیوں کو پوچھتی ہے ۔ محبت مذہبی منصب ، ملکی نفرت ، قومی دشمنی، ذاتی غرور اور ہر اندھیرے کو، سورج کی روشنی بن کر،دور کر دیتی ہے ۔ محبت پورب اور پچھم کی طرف بہتے ہوئے دو دریاؤں کو ایک بنا کر ایک راستے پر چلنے کے لیے مجبور کر دیتی ہے     ؂

محبت کی نگاہوں میں اندھیرا بھی سویرا ہے

نہ تورانی نہ ایرانی ، نہ تیرا ہے نہ میرا ہے

نئی تحریر لکھیں آؤ قسمت کے نوشتے میں

زباں سے ہاں کہو بندھ جائیں دو دل ایک رشتے میں

تہمینہ:۔ اس بات کا جواب دینے کا مجھے اختیار نہیں ہے ۔ ایشیا کی لڑکی شادی کے بعد شوہر کی اور شادی سے پہلے باپ کے حکم کی اطاعت کرتی ہے ۔

رستم:۔ رستم اور تہمینہ کی شادی،ممکن ہے کہ آئندہ کے لیے ایران اور توران کو دوست بنا دے ۔ اسی لیے مجھے کامل یقین ہے کہ تمھارے صلح پسند والد اس رشتے کو ضرور منظور کریں گے    ؂

نا امیدوں کو نویدِ راحت و آرام دیں

ایک ہو کر آؤ دنیا کو نیا پیغام دیں

      (تہمینہ شرما کر سر جھکا لیتی ہے ۔ پیلسم اپنے ہمراہیوں کے ساتھ پوشیدہ مقام سے باہر نکلتا ہے )

پیلسم:۔ غافل ہے باندھ لو !

(پیلسم کے ساتھی پیچھے سے رستم کو موٹی زنجیروں سے جکڑ لیتے ہیں)

تہمینہ :۔ تم کون ہو؟

رستم :۔ یہ کیا؟

پیلسم:۔ غرور کا جواب ۔ توران کی ذلت کا بدلہ     ؂

تری نخوت تری تقدیر نے دھوکا دیا تجھ کو

سمنگاں کی زمیں پر لائی تھی تیری قضا تجھ کو

نہ کوئی دوست ہو گا اور نہ کوئی ہم وطن ہو گا

زمیں تیرا جنازہ آسماں تیرا کفن ہو گا

رستم:۔ احسان فراموش !دغا باز !جس طرح کتّے کے سامنے روٹی کا ٹکڑا پھینک دیتے ہیں اسی طرح میں نے دربار میں تیری چھینی ہوئی تلوار اور تیری  حقیر زندگی رحم کر کے تجھے دے دی تھی۔ اگر تیری ماں کے دودھ میں غیرت کا ایک قطرہ بھی ہوتا تو ذلت کو بے حیائی کی فتح سمجھ کر دوبارہ میرے روبرو آنے کی جرأت نہ کرتا ۔    ؂

گیدڑ نے پھر سے روپ بھرا ہے دلیر کا

چہرہ لگا کے آیا ہے گردن پہ شیر کا

آنکھیں ہیں لال ، خوف سے پر رنگ زرد ہے

بے شرم تو شریف و جری ہے ، نہ مرد ہے

پیلسم :۔اب یہ بکواس اس زنجیر کے لوہے میں نرمی اور اس دل میں تیرے لیے رحم پیدا نہیں کر سکتی  ؂

مری شرافت پہ کر لے حملے دہن میں جب تک تری زباں ہے

یہ لن ترانی، یہ بد زبانی ، بجھی ہوئی آگ کا دھواں ہے

رستم:۔ شرافت !ان قدموں میں بیٹھ کر جن ہونٹوں سے اپنے بزدل اور ذلیل ہونے کا اقرار کر چکا ہے ان ہونٹوں سے شرافت کے لفظ کو بے عزت نہ کر ۔ کمینے ! تو اس دنیا ہی میں پیدا نہیں ہوا جس میں شرافت اور شریف رہتے ہیں    ؂

بے غیرتی کی آگ سے ، دوزخ ہے دل کا گرم

بازو میں تیرے زور، نہ آنکھوں میں تیری شرم

تو بھی کثیف ہے ترا دل بھی کثیف ہے

کتّا گلی کا تجھ سے زیادہ شریف ہے

پیلسم:۔ ہاتھی کو پکڑنے کے لیے جنگل میں گڑھا کھودنا ، سامنے سے آتے ہوئے شیر پر دور سے تیر چلانا، بھیڑیے کے پنجے میں پنجہ ڈال کر لڑنے کے بدلے دس قدم پیچھے ہٹ کر اس پر برچھا مارنا ، اگر یہ نامردی اور کمینہ پن نہیں ہے تو دشمن کو شمشیر کے بدلے تدبیر سے شکست دینا یہ بھی شرافت کے خلاف نہیں ہے ۔     ؂

فتح پانے کے لیے یہ آخری اوزار ہے

گُرز و خنجر کی طرح دھوکا بھی اک ہتھیار ہے

رستم:۔ دھوکا شیر دل شریفوں کا نہیں، لومڑی کا دل اور بچھو کی روح رکھنے والے کمینوں کا حربہ ہے ۔ ایک شریف دغا اور فریب سے دشمن پر فتح حاصل کرنے کو فتح نہیں اپنی شرافت کی شکست اور اپنی تلوار کی بے عزتی سمجھتا ہے ۔   ؂

جری کو آبرو اور جان پیاری ہے کمینے کو

بہادر مانگتا ہے موت بے شرمی کے جینے کو

پیلسم:۔ اب تیرا جینا اور مرنا دونوں ہمارے قبضے میں ہیں۔ اپنی روح سے کہہ کہ جسم سے نکل کر موت کی پیشوائی کرے ۔

(رستم کے سینے میں تلوار بھونکنے کے لیے آگے بڑھتا ہے )

تہمینہ:۔ خبر دار !(پیلسم کی کلائی پر زور سے گھونسہ مارتی ہے ) پیلسم کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ جاتی ہے ۔  (تہمینہ تلوار پر پاؤں رکھ کر کھڑی ہو جاتی ہے ) انسانیت کی پیشانی پر شرم کے دھبے ! تو شیر کو دھوکے سے زنجیر میں جکڑ کر اس کے خون سے اپنی ذلیل تلوار کے منہ پر بہادری کا غازہ ملنا چاہتا ہے ۔حیف ہے تجھ پر۔ مجھے آج معلوم ہوا کہ سمنگان کی مائیں تیرے جیسے کمینے لڑکے بھی پیدا کرتی ہیں    ؂

چاہتا ہے تو کہ سر جھک جائے سارے ملک کا

نام رسوا کر رہا ہے تو ہمارے ملک کا

یہ فریب ، اتنا حسد انسان کو انسان سے

یوں دغا کرتے نہیں حیوان بھی مہمان سے

پیلسم:۔ بدکار ، بد چلن۔ ملک کے دشمن کو اپنی عزت نذر کر دینے کے بعد ہمیں ملک کی عزت کرنا سکھا رہی ہے ۔

تہمینہ:۔ بدکار؟ بد چلن ؟ کیا کہا موذی نمک حرام؟

(جھپٹ کر پیلسم کا گلا پکڑ لیتی ہے )

یہ بل ، یہ جوش ، یہاں تک بڑھا جنون تیرا

میں پی کے چھوڑوں گی ان ناخنوں سے خون تیرا

پیلسم:۔ (گلا چھڑانے کے بعد) باندھ لو۔

(پیلسم کے سپاہی دو طرف سے تہمینہ کی کلائیاں پکڑ لیتے ہیں)

تہمینہ:۔ (ہاتھ چھڑاتے ہوئے ) چھوڑ دو،کمینو!مجھے چھوڑ دو ، اس پاجی کو اپنے گندے منہ کے ہر لفظ کا ثبوت دینا ہو گا۔ میں اس سے اپنی بے عزتی کا ثبوت مانگتی ہوں… کُتّے ! جو کچھ کہا ہے اسے ثابت کر    ؂

مرد ہے تو اپنی غیرت کو ذرا للکار دے

ایک تو تلوار لے اور اک مجھے تلوار دے

رستم:۔ بدبخت ، بیوقوف، رحم و درگزر کو بھی مجبوری سمجھتے ہیں۔ پیلسم میری برداشت پر غلط بھروسا نہ کر، میں اور سب کچھ دیکھ سکتا ہوں لیکن بچے کی تکلیف ، بوڑھے پر ظلم اور عورت کی بے عزتی کبھی نہیں دیکھ سکتا ۔

پیلسم:۔

دیکھنا ہی ہو گا جو کچھ ہے تری تقدیر میں

دیکھنے ہی کے لیے باندھا ہے اس زنجیر میں

رستم:۔

باندھ رکھنے کے لیے کافی یہ تدبیریں نہیں

گھاس کے تنکے ہیں لوہے کی زنجیریں نہیں

(زنجیر کو توڑ کر گُرز اٹھانے کے لیے دوڑتا ہے )

گُرز ترکش کیا ہوئے اچھا مری ہمت تو ہے

ہاتھ میں حربہ نہیں ، پر ہاتھ میں طاقت تو ہے

(گُرز نہ پا کر چھت کا کھمبا توڑ کر اس سے پیلسم اور اس کے ساتھیوں پر      حملہ کرتا ہے )

       لڑائی  ۔ٹیبلو

(ڈراپ سین)

 

دوسرا  باب

                  پہلا سین

سمنگان کا شاہی محل

تہمینہ:۔ امید اور انتظار میں ہوا کے جھونکے کی طرح زندگی کے سولہ برس گزر گئے ۔ یا خدا…  عورت کا دل اس قدر کمزور اور مرد کا اتنا بے رحم ہوتا ہے ۔ عورت محبت کا نشہ پی کر تمام عمر ہوش میں نہیں آتی اور مرد پیالہ ہونٹوں سے جُدا ہوتے ہی اس شراب کی لذت اور سرور کو فراموش کر دیتا ہے   ؂

دل کی فضا میں برق سی چمکی نکل گئی

کیا دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بدل گئی

پیالہ تھا ، مَے تھی ، عیش و خوشی کا شباب تھا

شادی نہ تھی وہ میری جوانی کا خواب تھا

(سین ختم)

 

               دوسرا سین

توران کا شاہی محل

                (امرائے سلطنت کے ساتھ جوش اور غصے کی حالت میں توران کے شہنشاہ افراسیاب کا داخلہ)

افراسیاب:۔ توران کے سب سے بڑے دشمن  رستم کو اپنا مہمان بنا کر اسے اپنی بیٹی تہمینہ کا حسن و شباب نذر دینا ، اسی  شادی کے شرمناک نتیجے  میں سہراب کی پیدائش کا حل پندرہ برس تک اپنے آقا و شہنشاہ سے پوشیدہ رکھنا، کیا یہ مجرمانہ جرأت نہیں ہے ۔ کیا یہ تورانیوں کی توہین اور شہنشاہ توران سے کھلی بغاوت نہیں ہے ۔ سمنگان کے شاہی محل میں رہنے والے کتّے !مصلحت تیری سفارش کر رہی ہے اس لیے میری رگ میں گرجتا ہوا غصے کا طوفان ایران کی تباہی تک خاموشی اختیار کرے گا۔ اس کے بعد تیرے لیے نہ معافی ہے اور نہ زندگی ہے ۔ ہومان !بارمان!

ہومان ۔ بارمان:۔ ولیِ نعمت!

افراسیاب:۔ میرا حکم تھا کہ تورانی لشکر کے بارہ ہزار بہادر سامانِ جنگ کے ساتھ سفر کے لیے تیار رہیں۔

ہومان ۔ بارمان:۔ (ہاتھ باندھ کر) خداوند!

 افراسیاب :۔ سمنگان کے بادشاہ کا نواسہ سہراب ، کیکاؤس کے سر کو شاہی تاج سے محروم کرنے کے لیے ایران کی سرزمین کو اپنے گھوڑے کی ٹاپوں سے روندنا چاہتا ہے ۔میرا خط اور تحفہ لے کر تم آج ہی سمنگاں روانہ ہو جاؤ۔ سہراب سے کہنا کہ ایران کی مغرور چھاتی میں توران کی عزّت کا جھنڈا گاڑنے جا رہے ہو اس لیے توران کا شہنشاہ افراسیاب تمھاری کامیابی کے لیے دعا کرتا اور فتح یابی سے قبل ہی تمھیں ایران کی فتح کی مبارک باد دیتا ہے ۔

ہومان:۔ جہاں پناہ نے جو حکم دیا ہے ہم دونوں غلام اس کے ایک ایک حرف کی تعمیل کریں گے ۔

افراسیاب:۔ سنو! قدر دانی یا ہمدردی کے جذبے نے مجھے سہراب کی مدد پر مائل نہیں کیا ۔سانپ کا بچہ بھی سانپ ہی ہوتا ہے اور بڑا ہو کر سانپ ہی کی طرح ڈستا ہے ۔ رستم کے خون اور طاقت کا وارث سہراب اگر زندہ رہا تو ایک دن وہ بھی توران کے تاجدار کے لیے  دوسرا رستم ثابت ہو گا۔ ضرورت ہے کہ پہلے جوان بیٹے کے ہاتھوں بوڑھے باپ کو قتل کرا دوں ۔ اس کے بعد دعوت میں بلا کر زہر یا خنجر سے سہراب کا بھی خاتمہ کر دوں۔ اس لیے کوشش کرنا کہ میدان جنگ میں قسمت کا آخری فیصلہ ہونے تک باپ بیٹے ایک دوسرے کو پہچان نہ سکیں۔ سمجھ گئے ۔ جاؤ۔ دیوان خانے میں انتظار کرو ۔ میں بہت جلد تحفے کی کشتیاں اور اپنا خط تمھارے پاس بھیجتا ہوں ۔ سب کچھ بھولنا لیکن دو باتیں نہ بھولنا ، میرا حکم اور اپنا فرض۔

دونوں:۔   شاہی اقبال کی فتح ہو!

(دونوں جاتے ہیں)

افراسیاب:۔ (وزیر سے ) سنتے ہو ! میرا حکم ہے کہ آج سے ہر وقت گھوڑوں کی پیٹھ پر زین اور تورانی بہادروں کے جسم پر زرہ بکتر اور ہتھیار سجے رہیں۔ رستم کی موت کی خبر ملتے ہی بجلی کی طرح پوری طاقت کے ساتھ ایران کے سر پر ٹوٹ کر اُس کے غرور کو ریزہ ریزہ کر دوں گا اور وہی دن میری زندگی کا بہترین دن ہو گا۔

وزیر :۔ اعلیٰ حضرت !یہ سلطنت کا قدیم نمک خوار حضور کی خیر خواہی اور ملک کی بہبود کے خیال سے کچھ عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہے ۔

افراسیاب:۔عرض ،عرض، تو ہمیشہ عرض اور گزارش کی آڑ میں ما بدولت کے جوش کو سرد کرنے کے لیے وعظ شروع کر دیتا ہے ۔ بول ، عرض کر۔ لیکن یہ خیال رہے کہ ایران پر حملہ کرو اور کیکاؤس کو تباہ کر دو، ان دو جملوں کے سوا میں اور کچھ سننا نہیں چاہتا ۔

وزیر:۔ میری یہ عرض ہے کہ آپ اپنی رعیت کے مالک ہیں لیکن آسمان کی گردش ، قسمت کی تحریر اور خدا کی مرضی کے مالک نہیں ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اپنی طاقت ، اپنا خزانہ ، اپنی رعیت کے لاکھوں نوجوانوں کی زندگیاں برباد کر کے بھی آج تک ایران کو تباہ نہ کر سکے ۔ جب ایران کی تباہی خدا کوہی منظور نہیں ہے تو ایران پر حملہ کرنا خدا کی مرضی سے جنگ کرنا ہے ۔

افراسیاب:۔ میرا دماغ پچھلی ذلتوں کی یاد سے دوزخ بنا ہوا ہے اس لیے سہراب کو میں اپنے غضب کا حربہ بنا کر ایران سے ضرور بدلہ لوں گا۔

وزیر:۔ میں معافی مانگ کر پھر عرض کروں گا کہ ملک اور سلطنت کی بہبوداسی میں ہے کہ جو کچھ ہے اس کی حفاظت کیجیے اور جو نہیں ہے اور نہیں مل سکتا اسے زبردستی حاصل کرنے کا خیال ترک کر دیجیے ۔   ؂

نہ زندگی ہے ہمارے بس میں نہ موت ہی اختیار میں ہے

کسے بنانا کسے مٹانا یہ قبضۂ کردگار  میں ہے

نہ رکھیے ایرا ن سے عداوت ، نہ ہو گا کچھ اور نہ ہو سکا ہے

اِدھر ہیں آپ اُدھر ہے قدرت اِدھر بشر ہے اُدھر خدا ہے

افراسیاب:۔ میں خدا کی مرضی کو مجبور کروں گا کہ ایران کی قسمت کی تحریر افراسیاب کے قلم سے دو بارہ لکھی جائے ۔ افراسیاب کی غلامی ، یہی ایران کی آخری قسمت ہے ۔

وزیر:۔ جہاں پناہ !بادشاہ رعیت کا باپ ہوتا ہے ۔ آپ باپ ہو کر اپنی رعایا کے بوڑھوں کو بے اولاد ،بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ نہ بنائیے ۔ رعیت کے خون پسینے کی کمائی کا جو روپیہ آپ قہر و غضب کی نمائش ، فوج کی تیاری اور جنگ کا سامان خریدنے پر خرچ کر رہے ہیں وہی روپیہ رعایا کے بچوں کی تعلیم ، یتیموں اور بیواؤں کی پرورش ، بھوکے کسانوں اور غریب مزدوروں کی ترقی و فلاح میں خرچ کیجیے ؂

بچا تا ہے یہی دشمن کے حملوں اور بلاؤں سے

کوئی لشکر نہیں بڑھ کر رعایا کی دعاؤں سے

وہی ہے بادشہ رکھتا ہے جو حربہ محبت کا

زمانہ اس نے جیتا جس نے دل جیتا رعیت کا

افراسیاب:۔ تیری پچھلی وفاداریوں اور خدمتوں کا خیال کر کے میں اب تک تجھے معاف کرتا رہا ، لیکن اب دیکھتا ہوں کہ تو میرے رحم کو غضب سے بدلنا چاہتا ہے ۔

وزیر:۔          خداوند نعمت !تنخواہ اور انعام کے روپوں سے اپنی جیبیں بھرنے کے لیے اپنے آقا کو غلط راستے کی طرف لے جانا خدمت نہیں ہے بلکہ جان و مال سے بے پروا ہو کر مالک کی بھلائی کے لیے سچائی کا آئینہ بن کر اس کی بھول اس کے سامنے ظاہر کر دینا ہی حقیقی جاں نثاری اور سچی وفاداری ہے     ؂

جسے خدا سے خطر فرض پر نگاہ نہیں

وہ زر کا یار ہے مالک کا خیر خواہ نہیں

جہاں میں جھوٹ، خوشامد ہی جس کا دھندا ہے

وہ صرف پیٹ کا کتّا ، غرض کا بندہ ہے

افراسیاب:۔ معلوم ہوا تو ضرور رشوت لے کر ایرانیوں سے مِل گیا ہے ۔ لے جاؤ اس دوست کے لباس میں چھپے ہوئے دشمن کو قتل کر دو۔ اگر یہ زندہ رہا تو اپنی نا مردانہ باتوں سے تمام تورانیوں کو بزدل بنا دے گا۔

(جاتا ہے )

وزیر :۔ ظالم بادشاہوں سے تمام زندگی کی خیر خواہی اور وفاداری کا آخر میں یہی انعام ملتا ہے ۔ ان غرور کے بولتے ہوئے پتلوں کی نظر میں سچ بولنا دنیا کا سب سے بڑا جرم ہے ۔ چوری ، ڈاکا ،دھوکا ، قتل ، بغاوت ، یہ ہر گناہ معاف کر دیتے ہیں لیکن سچائی کا جرم کبھی معاف نہیں کرتے ۔ (سپاہیوں سے ) چلو ! سچ بولنے کی سزا دینے کے لیے مجھے موت کی عدالت کی طرف لے چلو    ؂

ریت کی دیوار پر بنیاد ہے ہر بات کی

بادشاہوں کی عنایت، دھوپ ہے برسات کی

(سین ختم)

 

               تیسرا سین

سمنگان کا شاہی محل

(شاہِ  سمنگان ، تہمینہ ، کنیزیں، بارمان اور ہومان موجود ہیں)

شاہِ سمنگان:۔ بیٹی !بادل کے کما ن سے نکل کر زمیں کی طرف آتا ہوا بجلی کا تیر اور سہراب کا ارادہ ہماری منتوں سے اپنا راستہ نہیں بدل سکتا اس لیے اپنی مامتا کو اس کی سرکش مرضی کے ساتھ صلح کرنے کے لیے مجبور کرو۔

تہمینہ:۔ ابّا جان !میری زبان نے مجبوری سے اسے ایران جانے کی اجازت دے دی ہے لیکن مامتا کی آگ سے جلتا ہوا دل ابھی تک اجازت دینے کے لیے تیار نہیں    ؂

اُدھر کہتا ہے وہ ، ماں مجھ کو قسمت آزمانے دے

اِدھر کہتا ہے دل میرا ، نہ جانے دے نہ جانے دے

نہ وہ مانے نہ یہ مانے ، کروں کیا ، سخت مشکل ہے

اُدھر بپھرا ہوا سہراب ، اِدھر بگڑا ہوا دل ہے

ہومان:۔محترم بانو! توران کے شہنشاہ افراسیاب نے محبت کے تحفوں کے ساتھ تورانی فوج کے جو بارہ ہزار بہادر بھیجے ہیں ان میں ہر سپاہی بارہ ہزار دلیروں کی طاقت کا مالک ہے ۔ ان بارہ ہزار تورانی شیروں کے ساتھ آپ کانا مور فرزند جس زمین پر قدم رکھے گا    ؂

سر جھکا دے گا زمانہ جبہ سائی کے لیے

آئے گی خود فتح بڑھ کر پیشوائی کے لیے

غم نہ کیجیے آپ اس کے نیک و بد کے واسطے

قسمت و اقبال حاضر ہیں مدد کے واسطے

(سہراب جوش میں داخل ہوتا ہے )

سہراب:۔ رستم کا فرزند اپنے بازو اور تلوار کے سوا کسی سے مدد کا طلب گار نہیں ہے ۔ (ہومان ، بارمان سے ) میں نے صرف ناشکر گزاری کے الزام سے بچنے کے لیے تاج دار توران کی فوجی مدد قبول کر لی ہے لیکن سہراب تورانی لشکر کے اعتماد پر نہیں اپنی  جرأت و طاقت کے بھروسے پر ایران کے غرور کو للکارنے جا رہا ہے ۔ خدا میرا حافظ ، ہمت میری ہمدم، تلوار میری خادم، میدانِ جنگ میرا راستہ اور کیکاؤس کا تخت میرے سفر کی آخری منزل ہے ۔ اس سفر کے آغاز کا نام ہے استقلال اور اس سفر کے خاتمے کا نام ہے فتح۔

بارمان:۔ ہمیں کامل یقین ہے کہ آپ اپنے زورِ بازو سے ضرور ایران کی تاریخ بدل دیں گے ۔

سہراب:۔ ماں !جس رستم کی پیدائش پر آسمان زمیں کو مبارک باد دیتا ہے ، جس رستم کا نام سن کر بہادری غرور کے نشے سے جھوم اٹھتی ہے اس رستم کا بیٹا ہونا میرے لیے شرم کا نہیں فخر کا باعث ہے ۔ پھر آج تک میری حقیقت کو پردے میں رکھنے کی کیا وجہ تھی    ؂

دل میں رکھا راز  ، دنیا کو خبر ہونے نہ دی

شامِ گمنامی کی تم نے کیوں سحر ہونے نہ دی

تہمینہ:۔ اس غصے اور رحم بھرے سوال کا جواب ماں سے نہیں ماں کی مامتا سے پوچھ۔ تیری پیدائش کا راز ظاہر ہونے سے اندیشہ تھا کہ تیرا باپ تجھے اپنے پاس بلا کر میری دنیا کی روشنی مجھ سے چھین لے گا اور مجھ بد نصیب کی آنکھیں شوہر کے چہرے کی طرح بیٹے کی صورت دیکھنے کے لیے بھی بے رحم قسمت کے سامنے فریاد کرتی رہیں گی    ؂

نہ زہر گھول دے تقدیر میرے جینے میں

چھپا رکھا تھا اسی سے یہ بھید سینے میں

سہراب:۔ماں ! رستم جیسا باپ اور سہراب جیسا بیٹا ۔ ان دونوں آفتاب و مہتاب کی موجودگی میں دنیا کو حقیر ستاروں کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں خدا اور دنیا کے سامنے کیکاؤس کو تخت سے اتار کر اپنے باپ کو ایران کا بادشاہ اور تمھیں ایران کی ملکہ بنانے کا عہد کر چکا ہوں ۔ اس عہد کو پورا کرنے کے لیے اب تم سے آخری مرتبہ اجازت مانگنے آیا ہوں۔

تہمینہ:۔ (روتے ہوئے ) سہراب !

سہراب:۔ کیا ماں !روتی ہو ۔ روؤ نہیں۔ مائیں لائق کے لیے نہیں نا لائق  اولاد کے لیے روتی ہیں ۔ تمھارا بیٹا عزت کی دنیا فتح کرنے جا رہا ہے اس لیے یہ رونے کا نہیں خوش ہونے کا وقت ہے ۔ ہنستے ہوئے ہونٹوں سے اجازت دے کر مجھے میدانِ جنگ کی طرف رخصت کرو ۔ سمنگان کے قلعے کے دروازے پر فوج اور ایران کی زمین پر شہرت تمھارے سہراب کا انتظار کر رہی ہے ۔

تہمینہ:۔ سہراب ،ایران کی زمین جادو کی زمین ہے جہاں جاتے ہی انسان اپنے پیاروں اور اپنی پچھلی محبت کو بھول جاتا ہے ۔ مجھے خوف ہے کہ یہاں سے جانے کے بعد اپنے باپ کی طرح کہیں تو بھی غریب تہمینہ کو نہ بھول جائے    ؂

تری صورت تری باتیں مرے دوہی سہا رے ہیں

تجھی کو دیکھ کر دنیا میں اتنے دن گزارے ہیں

کلیجے سے لگا لینے کو پاؤں گی کہاں تجھ کو

کرے گا کون ضد مجھ سے کہے گا کون ماں مجھ کو

سہراب:۔ ماں!ماں !یہ تم کیا کہہ رہی ہو ؟ تم میری نجات کا وسیلہ ہو ، میری زندگی کی برکت ہو     ؂

بھول جاؤں فرض کو ایسی نہیں اولاد میں

اپنی اک اک سانس میں تم کو کروں گا یاد میں

تہمینہ:۔ اچھا تو خدا کی مرضی پوری ہو ۔ (مہرہ نکال کر) یہ تیرے باپ کی دی ہوئی نشانی ہے ۔ اس نے سمنگان سے رخصت ہوتے وقت تاکید کی تھی کہ اگر لڑکی ہو تو مہرہ اس کے سر کے بالوں میں اور لڑکا ہو تو اس کے بازو پر ضرور باندھ دینا ۔ لا ہاتھ بڑھا ۔ پندرہ برس سے آج ہی کے دن کے لیے اس محبت کی یاد گار کی حفاظت کر رہی تھی ۔ اس مہرہ پر نظر پڑتے ہی باپ بیٹے کو ، خون خون کو پہچان لے گا (سہراب کے بازو پر مہرہ باندھ دیتی ہے ) میرے لال !تجھے سچّے بہادر اور سچّے سپاہی کا فرض سکھانے کی ضرورت نہیں ہے ، پھر بھی رخصت کرنے سے پہلے نصیحت کرتی ہوں کہ ہمیشہ تلوار کو کمزور کا محافظ سمجھنا ، ظلم کو ذلیل جاننا اور پیروں میں پڑے ہوئے دشمن کو رحم مانگنے پر معاف کر دینا   ؂

دیکھنا جرأت و طاقت پہ نہ الزام آئے

لب پہ شاباش ہو سہراب کا جب نام آئے

سہراب:۔ پیاری ماں ! میں لوہے کے ہتھیاروں سے سج کر میدانِ جنگ کی طرف ناموری کی تلاش میں جا رہا ہوں ۔ یہ آہنی ہتھیار دشمن کی ہمتوں کو ، جسموں کو،  فوجو ں کو اور قلعوں کو فتح کر سکتے ہیں لیکن عزت اور شہرت پر فتح پانے کے لیے مجھے ایک اور حربے کی ضرورت ہے ۔

تہمینہ:۔ میرے بچے وہ کون ساحربہ ہے ؟

سہراب:۔ (تہمینہ کے قدموں میں بیٹھ کر ) ماں کی دعا    ؂

ہو نہ یہ حربہ تو پھر بیکار میرے ہاتھ ہیں

ساتھ ہے دنیا اگر ماں کی دعائیں ساتھ ہیں

تہمینہ:۔ (سہراب کے سر پر ہاتھ رکھ کے )  ؂

دعا دیتی ہوں تجھ کو وقتِ رخصت ، بخت یا ور ہو

زمانہ پاؤں کے نیچے ، خدا کا ہاتھ سر پہ ہو

(سین ختم)

 

               چوتھا سین

ایرانی سرحد، قلعۂ سفید کا اندرونی حصہ

     (قلعہ کے رئیس گستہم اور فوجی سردار بیٹھے ہوئے غمگین نظروں سے سامنے کھڑے ہوئے بہرام کی طرف دیکھ رہے ہیں)

بہرام:۔ سہراب زوال کا نقیب ، تخریب کا علمبردار ، فنا کا پیامی ، موت کی سانس کا شعلہ ہے ، ہمارا قلعۂ سفیدویرانۂ عبرت ، ہمارے نگارستانِ عیش مقتلِ آرزو، ہمارے محلات و باغات گھوڑوں کے طویلے بن جائیں، ہماری آسودگی ، معاشرتی شیرازہ ، ملکی نظام ، قومی دربار ، جنگی ذخیرے ، سربرآوردہ افراد اور بہترین سپاہیوں کی زندگیاں برباد ہوں، ان یقینی المناک نتائج کے سوا اِس لشکر کشی، صف آرائی کا اور کوئی حاصل نہیں ہے ۔ سہراب کی تلوار کی جھنکار کو ہمیں اپنی شومیِ قسمت کی طرف سے اعلانِ جنگ تصور کرنا چاہیے ۔

گستہم :۔ لیکن ہم نتیجے کے ظہور سے پہلے ہی کیوں یقین کر لین کہ تقدیر ہمارے خلاف اس جنگ کا فیصلہ کر چکی ہے ۔ جب تک ہمارے پاس قلعۂ سفید کی بلند و مستحکم دیواریں ہیں ، حوصلوں میں توانائی ہے ، آزادی کی محبت ہے ،سر فروشی کا جذبہ ہے ، جوشِ فدائیت کی فراوانی ہے اس وقت تک ایک کم عمر ، نو خیز قوت کے سامنے تلواریں پھینک کر ایران و توران کی نظر میں اپنے دعوائے شجاعت کو ذلیل نہ کرنا چاہیے ۔

سردار(۱):۔ بے شک!حوصلوں کی پستی ، ذلت کی طرف مرد کا پہلا قدم ہے ۔  مجھے ابھی تک ارادوں کی پسپائی کا کوئی معقول سبب نظر نہیں آتا ۔ دنیا امید کی جلوہ گاہ ہے ، مایوسی کا ظلمت کدہ نہیں ہے ۔احساس کا نام زندگی اور جوشِ عمل کا نام کامیابی ہے ۔

سردار(۲):۔ آپ کی رائے مرض کی صحیح تشخیص ہے ۔دشمن کا خوف حملے سے زیادہ ہیبت ناک ہوتا ہے ۔ یہ صرف ہمارا وہم ہے جو ہمارے سامنے شکست یافتہ مستقبل کی اشک بار تصویر پیش کر رہا ہے ۔

بہرام:۔ امید آپ لوگوں کی توقعات کو فریب دے رہی ہے ۔ ہوا میں گرہ دینے کی نا کام و بے نتیجہ کوشش نہ کیجیے ۔ اپنی طاقت کا غلط اندازہ کرنے پر آپ کی پہلی غلطی اور سہراب کو طفلِ شیر خوار یا معمولی نبرد آزما سمجھنا یہ دوسری غلطی ہے ۔ میں ملک کی بہبود کے لیے بہترین مشورہ دے کر اپنی ذمہ داری اور قومی فرض سے سبکدوش ہو چکا ۔ ہر شخص اپنی رائے کا مالک ہے ۔ لیکن خوش ہونے سے پیشتر ایک بار بھر متنبہ کرتا ہوں کہ آپ لوگ اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے امن و آشتی کا دروازہ بند کر رہے ہیں۔ وقت کی آنکھیں بدل چکی ہیں۔ سہراب کے قوائے حربی اور فتوحاتِ جلیلہ کو ہیچ سمجھ کر اس سے بر سرِ جنگ ہونا جنگ نہیں خودکشی ہے ۔

گستہم:۔ (حاضرین سے ) مجھے اپنی رائے صائب یا خطا ہونے پر اصرار نہیں ۔ قیاس کی پیشین گوئی صحیح بھی ہوتی ہے اور غلط بھی۔ میں نے جلسۂ مشاورت کے سامنے اپنا ذاتی خیال پیش کر دیا ۔ اب آپ لوگ متفق ہو کر خود فیصلہ کریں کہ پیشِ نظر مشکلات میں کیا کرنا چاہیے ۔ جنگ یا صلح  !

سردار (۳):۔ جب لشکر بے حوصلہ ، اسبابِ مدافعت کمزور ، حالات ناموافق ، تدبیر خلافِ امید ، فتحِ موہوم اور قوی بازو دشمن کے حملے کامیاب ہیں تو ایسے برگشتہ وقت میں ضرورتِ صلح کا احساس نہ کرنا، اپنی آسائشِ حیات اور ذرائع نجات سے دست بردار ہونا ہے ۔ میری رائے صلح کے حق میں ہے ۔

سردار(۴):۔سہراب کا حملہ اتفاقی آندھی ہے جو تھوڑی دیر مطمئن فضا میں اضطراب پیدا کر کے اپنی طاقت کی نمائش کے لیے دوسری طرف روانہ ہو جائے گی ۔ اس لیے ابلہانہ جوش سے مشتعل ہو کر ہنگامی آفت کو دائمی مصیبت نہ بنانا چاہیے ورنہ زندگی کی غلطیوں میں یہ سب سے زیادہ ہولناک غلطی ہو گی۔

گستہم :۔ (بہرام سے ) جب کثرتِ رائے جنگ کی مخالف ہے تو آپ ہماری جانب سے صلح کے قاصد بن کر جائیے ۔ سہراب سے کہیے کہ دوستی کی نسیمِ بہار سے دشمنی کا موسمِ خزاں ختم ہوا ۔ ہم جان و مال کی سلامتی کے وعدے پر اپنا قلعہ حوالے کرنے پر تیار ہیں …

بہرام:۔ وقت کی یہی پکار تھی ۔ ضرورت و مصلحت کا یہی مطالبہ تھا۔ ملک کی بنیادیں آنے والے زلزلے کی دہشت سے کانپ رہی تھیں۔ آپ نے اس فیصلے سے بند باندھ کر خون اور تباہی کے سیلاب کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ بربادی کے ہاتھ کے حربے چھین لیے ۔ بدبختی کی امیدیں توڑ دیں ۔ میں آپ کی دانائی اور مآل اندیشی کو مبارک باد دیتا ہوں ۔ میری زبان سے سہراب کا شکریہ آمیز جواب سننے کے لیے آمادہ رہیے ۔

          (جوش میں جانا چاہتا ہے ، گرد آفرید داخل ہوتی ہے اور اس کے سینے پر اپنی تلوار کی نوک رکھ دیتی ہے )

گرد آفرید:۔ ٹھہرو !کہاں جاتے ہو؟

بہرام:۔ صلح کرنے ۔

گرد آفرید :۔ کس سے ؟

بہرام:۔ سہراب سے ۔

گرد آفرید:۔ سہراب سے !ایران کے بدترین بدخواہ سے ، قوم کے دشمن سے ؟ جبر واستبداد کے نمائندے سے ؟ طاقتور سے کمزور کا ، پتھر سے شیشے کا ، آندھی سے تنکے کا کبھی اتحاد نہیں ہوتا۔ صلح برابر والوں میں ہوتی ہے  اور طاقت کا ثبوت دینے کے بعد ہوتی ہے ۔ یہ غیر مساوی صلح پست ہمتی کا اظہارِ بے کسی ہے ، ذلت کی پرستش کا معاہدہ ہے ، ملک فروشی کی دستاویز ہے ، تمھاری غیرت کی پیشانی پر دائمی غلامی کی مُہر اور تمھاری مادرِ وطن کے  پُر جلال چہرے پر شرم کی سیاہی کا داغ ہے ؂

مردود ہے وہ کوشش ، ملعون ہے وہ خامہ

آزادیِ وطن کا ، لکھے جو بیع نامہ

عزت سمجھ رہے ہو غیروں کی بندگی میں

مر جاؤ، گر ہے جینا ذلت کی زندگی میں

بہرام:۔ گرد آفرید !حریف کی طاقت اور ملک کی کمزوری کا صحیح اندازہ کرنے کے بعد رائے ظاہر کرو، غلط جوش عقل کی گمراہی ہے ۔ جس سہراب نے اس قلعۂ سفید کے محافظ ہجیر جیسے طاقت کے پہاڑ کو گھوڑے سمیت اٹھا کر مٹّی کے ڈھیلے کی طرح زمین پر پھینک دیا اس محبوبِ تقدیر و خداوندِ شمشیر کو ہم پا شکستہ تدبیروں اور مجنونانہ تقریروں سے فتح نہیں کر سکتے ۔

گرد آفرید:۔ فتح جرأت و عزیمت سے ملا کرتی ہے ۔ سوچنے ، رونے اور بیوہ عورت کی طرح ہائے ہائے کرنے سے نہیں ملتی ۔ فتح بے عزتی کے غلاموں کی ملکہ اور ہمت کے آقاؤں کی کنیز ہے ۔ بزدل قسمت سے فتح کی بھیک مانگنے اور جری قسمت کے منہ پر تھپڑ مار کر فتح کو اپنی مِلک اور حق سمجھ کر زبردستی حاصل کرتے ہیں    ؂

جرأت ہے جس کے پاس وہی فتح مند ہے

جھُک جائے گا جہاں جو ہمت بلند ہے

اٹھو بڑھو دکھاؤ کہ طاقت ہے پاؤں میں

ملتی ہے فتح مرد کو خنجر کی چھاؤں میں

 بہرام :۔ لیکن جب صلح کر لینے سے ہمارا قلعہ ، وجاہت ، ثروت، زندگی ، ہر شے شامت و ہلاکت سے محفوظ رہتی ہے تو فولاد پیکر سہراب سے پنجہ کشی کر کے ہمیں دنیا میں اپنی حماقت کا اعلان کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟

گرد آفرید:۔ شر م کر!شرم کر!خود غرضی کے بازار میں دولت و راحت کے مصنوعی سکّوں پر قوم کا اقتدار و حرمت فروخت کر دینے کو تو شرافت کا سودا جانتا ہے ؟ پالتو کتّے کی طرح گلے میں سہراب کی اطاعت کا پٹّا ڈال کر اس کے پاؤں چاٹنے کو عزت کی زندگی سمجھتا ہے    ؂

تری زباں ہے فسا نہ نمک حرامی کا

سبق پڑھاتا ہے اوروں کو بھی غلامی کا

بہرام:۔خبردار !گردآفرید توکسی معمولی شخص سے ہمکلام نہیں۔میری شخصیت و حیثیت کا ادب کر ، جا گھر میں جا ۔ سلطنت کے انتظام میں عورت کو دخل دینے کا حق نہیں ہے ۔

گرد آفرید:۔ شرافت باختہ، بزدل،بے حیا !تو مجھے عورت کہتا ہے ۔ آ!عمل کے آئینے میں ہم دونوں اپنے چہرے دیکھیں ۔ اس وقت تیری حقیقت تیرے سامنے بے نقاب ہو جائے گی ۔ تیری نگاہیں شرم کے بوجھ سے دب کر زمین میں دفن ہو جائیں گی اور تجھے معلوم ہو جائے گا کہ گردآفرید عورت نہیں، بہرام عورت ہے ۔کیوں کہ میں عورت ہو کر بھی دنیا کے شریف ترین مرد کی طرح ملک اور قوم کے دشمن کا سراپنے پیروں سے روندنا چاہتی ہوں اور تو مرد ہو کر بھی ایک آبرو فروش عورت کی طرح اپنی پلکوں سے سہراب کے پاؤں کی گرد صاف کرنا اور اس کی پاپوش کو اپنے سر کا تاج بنانا چاہتا ہے ۔

بہرام:۔ ذلیل ! زبان دراز!

                        (بہرام گرد آفرید پر تلوار سے حملہ کرتا ہے ۔ گرد آفرید اسے اٹھا کر زمین پر دے مارتی ہے اور کلائی مروڑ کر تلوار چھین لیتی ہے )

گرد آفرید:۔کتّا شیرنی پر حملہ نہیں کر سکتا ۔ وطن کے دشمن !جا(لات مارکر) سہراب کے کفش برداروں کی فہرست میں نام لکھا کر اپنی عزت افزائی پر فخر کر ! تیری قسمت میں نہ شریفوں کی زندگی ہے نہ بہادروں کی موت۔

بہرام:۔ گرد آفرید !میں اس توہین کا خوفناک بدلہ لوں گا ۔ تجھ سے بھی اور جو یہ نظارہ دیکھ کر اپنی مجرمانہ خاموشی سے تیری تائید کر رہے ہیں ان سے بھی۔

(غصے میں سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا چلا جاتا ہے )

گرد آفرید :۔ ایران کے دلیرو !یہ دوست نما منافق جس کے پاس مردانہ روح، شرم،ایمان کچھ نہیں ہے ۔ ذاتی مفاد کی نگہداشت جس کی سرشت، مطلب پرستی جس کی زندگی کا معیار و معراج اور دغا جس کا خمیر ہے ، اپنی گویائی کی حرارت سے تمھارے دل میں ہمت کے لہراتے ہوئے چشموں کو خشک کر کے تمھیں بھی اپنی طرح مردودِ خلائق بنانا چاہتا تھا۔خدا نے ہمیں اس نگوں ساری و خواری سے بچا لیا ۔ بہادرو ! سہراب اس دنیا میں ، دنیا سے علیٰحدہ کوئی چیز نہیں ہے ۔ وہ بھی تمھاری ہی طرح مٹی پانی سے بنا ہوا انسان ہے ۔ وہ بھی تمھاری طرح اپنی زندگی کی مدّت اور موت کے وقت سے بے خبر ہے ۔ اس لیے تنکے کو پہاڑ اور پہاڑ کو آسمان سمجھ کر اپنی قوتوں کو حقیر نہ سمجھو۔ اٹھو… اٹھو مست ہاتھی کی طرح جھوم کر ، آندھی کی طرح جھلا کر ، بادل کی طرح گرج کر، پُر غیظ بجلی کی طرح تلواریں کھینچ کر حفاظتِ وطن کے لیے اٹھ کھڑے ہو۔ جہاں بزدلی ہے وہیں شکست ہے اور جہاں جرأت ہے وہیں فتح ہے ۔

گستہم:۔ خوف ،خیال کا خواب ہے ۔ تم نے اس خواب سے ہمیں بیدار کر دیا۔

سب:۔ زندہ باد گردآفرید !

گرد آفرید:۔ زندہ باد ایران !

(سب جوش میں تلواریں کھینچ لیتے ہیں)

ٹیبلو

(سین ختم)

 

               پانچواں سین

میدانِ جنگ کا ایک حصہ

 (ہومان ، بارمان اور قلعۂ سفید کے محافظ ہجیر کے ساتھ سہراب کا داخلہ ، ہجیر کے دونوں ہاتھ کمند سے بندھے ہوئے ہیں)

سہراب:۔ تم قلعۂ سفید کے محافظ ہو؟

ہجیر :۔ ہاں!

سہراب:۔ تمھارا نام؟

ہجیر:۔ ہجیر۔

سہراب:۔ قلعے کے حاکم کا نام ؟

ہجیر:۔ گستہم۔

سہراب:۔ اگر قید کی زندگی کو جس کے سر پر موت کی تلوار لٹک رہی ہے آزاد زندگی میں بدلنا چاہتے ہو تو تنبیہ آمیز خط لکھ کر انجام سے غافل گستہم کو آگاہ کر دو کہ خوفناک مستقبل تباہی و بربادی کے جلو میں قلعے کے پھاٹک کے سامنے پہنچ گیا ہے اس لیے رحم و معافی حاصل کرنے کے لیے میرے حضور میں آ کر نذرانۂ اطاعت پیش کرے ۔

ہجیر:۔ قویٰ کے ساتھ میری قوتِ حافظہ بھی ضعیف ہو گئی ہے اس لیے عمر کے آخری دنوں میں غداری کا سبق یاد نہیں کر سکتا۔

سہراب:۔ یعنی ؟

ہجیر:۔تم نے میدانِ جنگ میں شکست دے کر میرے جسم کو قید کر لیا ہے میری روح تمھارے قید و بند میں نہیں ہے ۔ میرا ضمیر اور میرا جذبۂ وطن پرستی آزاد ہے اور ہمیشہ آزاد رہے گا۔ خلش و خطرہ سمجھ کر انتہائی عقوبتوں کے ساتھ قتل کر دو یا فتح کی یاد گار سمجھ کر زندہ رکھو۔ لیکن میں لالچ سے مغلوب اور تکلیفوں سے دہشت زدہ ہو کر اپنے ملک کی غلامی کے کاغذ پر کبھی دستخط نہ کروں گا۔

سہراب:۔عقل کی شرکت میں اپنی غلط کار رائے پر نظرِ ثانی کر۔موت کے جبڑے میں ملک کو نہ جھونک ۔ میری اطاعت ہی میں تیرے اہلِ وطن کی زندگی ہے ۔

ہجیر:۔ زمین پر رینگتے ہوئے حقیر کیڑوں کی طرح صرف حرکت کرنے اور سانس لینے کا نام زندگی نہیں ہے ۔ آزادی اور اختیار سے محروم ہو کر پامال گھاس کے مانند جینا انسانیت کی موت ہے ۔ میری تمنا اور دعا ہے کہ میرے اہل وطن جیئیں لیکن غلام بن کر نہیں ، آقا بن کر ۔ کتّے کی طرح نہیں ،شیر کی طرح۔

سہراب:۔ گستہم کو خط لکھ کر تسلیمِ شکست کا مشورہ دینا تری طرف سے اس وقت ملک کی سب سے بڑی خدمت تھی۔ تیرے انکار نے ثابت کر دیا کہ تو سخت بیوقوف ہے ۔

ہجیر:۔ ملک کے نمک حراموں کو ملک کے دشمن بھی احترام کی نظر سے نہیں دیکھتے ۔ میں بیوقوف کہلانا پسند کرتا ہوں لیکن بے داغ معزّز  نام کے ساتھ دغا باز اور قوم فروش کے خطاب کا اضافہ نہیں چاہتا ۔

سہراب:۔ اچھا تو اب میرے غضب کی ہولناکیوں کو کوئی الزام نہیں دے سکتا ۔ (ہومان،  بارمان سے ) خونریزی و تباہ کاری کے مقید درندوں کو زنجیریں کھول کر قلعۂ سفید پر حملہ آور ہونے کے لیے آزاد کر دو اور غم کی سیاہ رات میں برباد شدہ وطن کو تودۂ خاک پر اُلّو کی طرح ماتم کرنے کے لیے اس بدبخت کو قید میں رکھو ۔ لے جاؤ۔ یہی نا شکری کی کم از کم سزا ہے ۔

(ہومان ، بارمان ہجیر کو لے جاتے ہیں)

      فریب خوردہ ، یہ نیم مجنوں ایرانی ، امید کی زمین میں ہنسی بور ہے ہیں ۔      لیکن انھیں جلد آنسوؤں کی فصل کاٹنی ہو گی     ؂

میرے قدموں کو بوسہ دے گی جھک جھک کر جبیں تیری

بساطِ عجز بن جائے گی سجدوں سے زمیں تیری

اٹھا سکتا نہیں سرتیغِ جوہر دار کے آگے

سُن او ایران! جھک جا اب مری تلوار کے آگے

(مردانہ لباس میں انتہائی جوش و غضب کے ساتھ گرد آفرید داخل ہوتی ہے )

گرد آفرید:۔ ایران کی تاریخ شرفِ انسانیت و فتوحاتِ شرافت کا صحیفۂ زریں ہے ۔فروتنی و پامالی کا فسانۂذلّت نہیں ہے ۔ایران اپنی علمی ، اخلاقی ، تمدنی اور جنگی قوتوں کے سامنے دنیا کا سرجھکانے کے لیے پیدا ہوا ہے ۔ جھکنے کے لیے پیدا نہیں ہوا    ؂

ایران کے قدموں میں ہے جیحون سے تا گنگ

اس خاک سے پیدا ہوئے طہمورث و ہوشنگ

ہر ذرّہ ہے خورشید کے ہم پایہ وہم رنگ

ہر قطرہ ہے طوفانِ قضا پوش دمِ جنگ

ہر فرد یہاں کوہ فگن ، زور شکن ہے

یہ شیروں کا گہوارہ ، شجاعت کا وطن ہے

سہراب:۔ تیرے پاس پُر شکوہ استعاروں اور فصیح و بلیغ لفظوں کا وافر سرمایہ معلوم ہوتا ہے لیکن تو اپنی گویائی کے اسراف سے ایرانیوں کے حوصلے کی بے مائیگی اور عزم و ہمت کے افلاس پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔ قسمت کے افق پر صبحِ زوال کی پہلی کرن دکھائی دے رہی ہے ، پھر بھی احمق ایران ابھی تک زندگی کو شبِ راحت سمجھ کر دیرینہ عظمت کا خواب دیکھ رہا ہے ۔

گرد آفرید :۔ آفتاب کی عظمت و جلالت کا انکار بے بصر ہونے کا اقرار ہے ۔ غرور کے مرض سے تیری بینائی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اس لیے تیری نظر پلکوں کی حدسے آگے نہیں بڑھ سکتی۔

سہراب:۔ جنگ کا میدان ، شاعروں کی بزمِ خیال، منطقیوں کی مجلس ، فلسفے کا مدرسہ نہیں ہے ۔ یہاں کی شعریت کا نام زخم ، منطق کا نام تلوار اور فلسفے کا نام طاقت ہے ۔ اچھا ظاہر کر ، تو کو ن ہے ؟ تیری موت کے بعد قلعۂ سفید میں کس نام سے تیرا ماتم کیا جائے گا۔

گرد آفرید :۔

دشمنِ نخوت حریفِ شعلہ سامانی ہوں میں

بس مرا نام و نشاں یہ ہے کہ ایرانی ہوں میں

سیلِ خوں میں موجِ آہن کی روانی دیکھ لے

آج تو بھی بُرّشِ تیغِ کیانی دیکھ لے

                    (سہراب پر حملہ ۔ دونوں میں خوف ناک جنگ ۔ گرد آفرید کی شکست ۔ گھوڑے سے زمیں پر گرتے وقت خود علیٰحدہ ہو جانے سے گرد آفرید کے بال کھل کر بکھر جاتے ہیں اور مرد کے لباس میں ایک حسین دوشیزہ کو دیکھ کر سہراب حیرت زدہ ہو جاتا ہے )

سہراب:۔ رعنائی انسانیت کی جمیل ترین تصویر ، مردانہ مرقع میں !حسن کی دنیا کا ماہِ کامل، زرہ بکتر کے بادل میں !!موسمِ بہار کے تبسم کی رنگینی ، جنگی نقاب میں !!!   ؂

چمک رہا ہے نگارِ قدرت کا تاجِ زر خاک کی جبیں پر

کہ شاخِ انجم سے گر گیا ہے کوئی گلِ روشنی زمیں پر

طلوعِ قوسِ قزح کا عالم ہے جلوۂ جسم نازنیں پر

نثار ہے حسنِ شامِ جنت بہارِ گیسوئے عنبریں پر

حسین آنکھوں میں سحرِ ناطق نظر میں انداز دلبری کے

 بلوریں گردن پہ روئے روشن، چراغ ہے ہاتھ میں پری کے

گردآفرید:۔ اقبال مند سہراب!ایران کی وہ بہادر لڑکی جس کے بازوؤں میں طاقت کا طوفان ، جس کی تلوار میں بجلیوں کا سیلاب ،جس کے حملے میں کوہِ آتش فشاں کا ہنگامہ پوشیدہ تھا ، جو حریف کو کتابِ زندگی کا مہمل لفظ اور فتح کو اپنے گُرز کی ضرب کی صدائے بازگشت سمجھتی تھی آج اس کے اعتقاد کی دنیا نا کامی کے زلزلے سے تباہ ہو گئی ہے ۔ اس کے یقین کا فلک بوس قلعہ بنیا دوں سے اکھڑ کر عاجزی کی سر زمین پر  سرنگوں ہو گیا ہے ۔ مجھے امان دو، میں اظہارِ در ماند گی کے ساتھ اپنی شکست کا اقرار کرتی ہوں۔

سہراب:۔ بہادر نازنیں!زندگی کی سلطنت میں عورت حاکموں کی حاکم اور فاتحوں کی فاتح ہے ، جو خون کا ایک قطرہ گرائے بغیر اپنی رنگین مسکراہٹ سے ایک لمحے میں آدھی دنیا کو قتل کر سکتی ہے ، جو شرم آلود نگاہوں کے اشارے سے چشمِ زدن میں بادشاہوں کا تاج اور دلیروں کی تلوار چھین سکتی  ہے ، اسے تیر و شمشیر لے کر میدانِ جنگ میں آنے کی کیا ضرورت ؟ جس کے مقابلے میں ہمیشہ مرد کے غرور کو شکست ہوتی ہے ۔ اٹھو ! یہ میری فتح نہیں ، تمھاری فتح ہے ۔

گرد آفرید:۔ (دل میں)کس قدر شریف !جتنا چہرہ خوبصورت ہے اتنا ہی دل بھی خوبصورت ہے ۔ (چونک کر) ارے !میں کدھر جا رہی ہوں۔

سہراب:۔ فتح یاب حسینہ!پنکھڑیوں کا دروازہ کھول کر باہر نکل آنے والی خوشبو کی طرح تم اپنی اصلی شکل میں عیاں ہو گئیں تو اب تمھیں اپنا نام و نشان بھی ظاہر کر دینا چاہیے ۔ یہ میرا حکم نہیں بارگاہِ حسن میں مؤدبانہ درخواست ہے ۔

گرد آفرید:۔ میرے نام میں کوئی ایسی شیرینی اور موسیقی نہیں ہے جس سے سماعت لذت اندوز ہو سکے ۔ میں قلعۂ سفید کے حاکم گستہم کی بیٹی گرد آفرید ہوں۔

سہراب:۔ اور جانتی ہو ، میں کون ہوں ؟

گرد آفرید:۔جس گرد آفرید کی ہیبت سے بہادروں کی رگوں کا سرخ خون زرد ہو جاتا تھا تم اسے شکست دینے والے سہراب ہو۔

سہراب:۔ تمھاری نظر تمھیں مغالطہ دے رہی ہے ۔ آفتاب کی تجلی میں شمع کی روشنی کی طرح میری ہستی تمھارے حسن کے جلال میں گم ہو گئی ہے ۔ اس چہرے کی پرستش کے لیے اب نیا نام ، نیا جسم ، نئی زندگی اختیار کی ہے ۔  ؂

مجروحِ شوق ، جور کشِ روز گار ہوں

زخمی جگر کا شور ، وفا کی پکار ہوں

دل کو نشہ ہے عشق کا آنکھوں کو دید کا

سہراب اب غلام ہے گرد آفرید کا

گرد آفرید:۔ (دل میں) اس کی باتیں فردوس کا نغمہ کیوں معلوم ہوتی ہیں!کیا میری روح میں تبدیلی ہو رہی ہے ؟

سہراب:۔ پیاری آفرید!عرضِ تمنا کے جواب میں تمھاری ایک مختصر ہاں عشق کی عقیدت مندی کا بہترین انعام ہے ۔ میرے دل کو تحفۂ محبت سمجھ کر قبول کرو۔

گرد آفرید:۔ (دل میں) ایک نامعلوم جذبہ انتقام کے شعلوں کو سرد کیے دے رہا ہے ۔ (چونک کر) مگر نہیں ، عظمتِ وطن کے قاتل کا جرم ، میں کبھی معاف نہیں کر سکتی ۔ ( سہراب سے ) سہراب تمھاری تلوار نے گردآفرید کو فتح کیا تھا لیکن تمھارے شریفانہ سلوک نے غیر مغلوب نفرت کو شکست دے کر گرد آفرید کی روح کے ہر گوشے اور دل کے ہر ذرے کو فتح کر لیا ۔ تم اب تک دشمن تھے لیکن اب میری جان کے مالک اور میرے ملک کے مہمان ہو۔ میں تمام ملک کی طرف سے تمھیں اور تمھاری بہادر فوج کو قلعۂ سفید میں تشریف آوری کی دعوت دیتی ہوں۔ اجازت دو کہ قلعہ جا کر تمھارے شاہانہ خیرمقدم کی تیاریوں سے جذبات کی فضا میں محبت کا بہشت تعمیر کروں۔

سہراب:۔ اب میں تمھاری مرضی کی مخالفت نہیں کر سکتا ، تمھارا حکم میری زندگی کا واجب الاطاعت قانون ہے کیوں کہ تم حسن کی سلطنت کی ملکہ ہو اور میں اس سلطنت کی وفادار رعیت ہوں ۔

گرد آفرید:۔ تم … تم… میرے دل کی دنیا کے بادشاہ ہو ۔

(دونوں جاتے ہیں )

ٹیبلو

(سین ختم)

 

               چھٹا  سین

قلعۂ سفید کا دروازہ

(ہومان ، بارمان اور سردارانِ فوج مع لشکر موجود ہیں)

ہومان:۔ دنیا کے حربوں میں سب سے زیادہ خوفناک حربہ عورت کا حسن ہے ۔

بارمان:۔ اور حسن ہی کا دوسرا نام عورت کی فتح ہے ۔

ہومان:۔ یہاں بھی حسن و عشق کا معرکۂ کار زار شروع ہو گیا ہے ۔

بارمان:۔ پہلی جنگ میں گرد آفرید کو شکست ہوئی تھی، اس جنگ میں سہراب کو شکست ہو گئی۔

(از خود رفتہ حالت میں سہراب داخل ہوتا ہے )

سہراب :۔ محبت !محبت!تو زندگی کی حلاوت ہے ، دل کی جنت ہے ، روح کا نشہ ہے ، دنیا کا حسن ہے ، عروسِ آفرینش کا سنگار ہے ، دوشیزۂ قطرات کے رنگینیِ شباب کی فردوس آفرینی ہے    ؂

زندہ ہے تجھ سے کیفِ طرب کائنات میں

تو نغمۂ ازل ہے ربابِ حیات میں

آسودگیِ روح، نشاطِ نظر نہیں

دنیا میں کچھ نہیں ہے محبت اگر نہیں

ہومان:۔ اے ضیغمِ توران !اے تورانیوں کے مرکزِ امید !  آپ معبدِ عشق میں حسنِ نسوانی کے بُتِ رعنا کے روبرو اظہار عبودیت کے لیے نہیں آئے ہیں۔ اپنا عہد و ارادہ یاد کیجیے ۔ میدانِ مبارزت میں محبت کی فتح یابی تورانیوں کی فتح نہیں ہے ۔

بارمان:۔ میری بھی یہی گزارش ہے کہ اس ارضِ دارو گیر میں ہستی و عدم کی درمیانی زمین پر آپ کے ولولہ حرب و ضرب کو صنم پرستی میں مشغول دیکھ کر محبت کے لفظ کی تکرار بیمار عقل کا ہذیان ہے ۔

سہراب:۔تم پتھر ہو،سرد ہو،بے کیف ہو،زندگی کی بہترین لذت سے محروم ہو ، تمھارے دل میں محبت کی حِس ہوتی تو تم بھی اقرار کرتے کہ دنیا کا نور عورت کا حسن ہے اور حسن گرد آفرید ہے ۔

ہومان:۔ افسوس!

سہراب:۔ افسوس ان کے لیے ہے جو محبت کے آبِ حیات کو زہر سمجھتے ہیں (قلعے کے پھاٹک کے قریب جا کر) تعجب!!ابھی تک دروازہ بند ہے ۔ یہ کیا!

بارمان:۔  اور دنیا کے خاتمے تک بند ہی رہے گا

سہراب:۔ کیوں ؟

ہومان:۔تاکہ دنیا پر ثابت ہو جائے کہ آپ نے گرد آفرید کی نمائشی، مصنوعی پر فریب محبت پر یقین کر کے ناقابلِ تلافی غلطی کی ہے ۔

سہراب:۔ خبردار !تم میرے یقین کو دیوانگی کہہ سکتے ہو ، میری آنکھوں کو الزام دے سکتے ہو ، لیکن گرد آفرید کی محبت کو جھوٹی محبت کہنے کی جرأت نہیں کر سکتے ۔ تم نے ان پھول کی پنکھڑیوں سے شہد ٹپکتے نہیں دیکھا ۔ ایسے خوبصورت ہونٹ کبھی جھوٹ نہیں بولتے ۔

بارمان:۔اے دامِ فریب کے خوش اعتقاد اسیر !اب بھی اپنی غلطی کا اعتراف کر۔ دشمن کے جنگی قلعے کا دروازہ عورت کے وعدوں سے نہیں زورِ بازو سے کھُلتا ہے ۔

(فصیلِ قلعہ پر گرد آفرید دکھائی دیتی ہے )

سہراب:۔ (ہومان اور بارمان سے ) وہ دیکھو!اُدھر دیکھو اور اپنے قیاس کی ناتواں بینی پر نادم ہو    ؂

کہتے تھے تم کہ مرہمِ زخمِ جگر نہیں

دنیائے انتظار میں شب ہے سحر نہیں

ہر ذرّہ چشمِ شوق ہے ارمانِ دید میں

پھیلا ہوا ہے نور فضائے امید میں

(بیتابانہ دیوارِ قلعہ کے نزدیک جا کر)

       پیاری آفرید!روح سے قریب ہو کر اب اس قدر دور کیوں ہو ؟ فصیلِ قلعہ سے جلووں کی بارش ہو رہی ہے لیکن اس سے تشنہ تمناؤں کی تسکین نہیں ہو سکتی۔

(ہومان اور بارمان کی طرف اشارہ کر کے )

بجلی گرا دے ان کے خیال اور یقین پر

آ میرے دل کے چاند اترا زمین پر

گرد آفرید:۔ زمین کی لعنت !دنیا ،ظلم فروشی کا بازار ، غلام سازی کا کارخانہ ، وقارِ انسانیت کی قتل گاہ، عزتِ نفس کا مذبح نہیں ہے ۔ ہوا ، پانی ، روشنی کی طرح خدا کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں میں سے آزادی بھی ایک نعمت ہے ۔ ہر خطۂ دنیا اُسے اپنا قدرتی ورثہ اور ہر انسان اسے اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے ۔ ایرانی قوم نے تیرے ملک کی آزادی ، دولت ، صنعت ، حرفت ، تجارت ، دنیا کی برکتوں میں سے کون سی برکت اور زندگی کی مسرتوں میں سے کون سی مسرت چھین لی تھی جو تو بِلا اشتعال ، بلا سبب ، بلا جرم ، اس کا تمدنی و معاشرتی نظام غارت کرنے اور اس کے دل کا اطمینان اور ملک کی متاعِ نشاط لوٹنے آیا ہے ؟ تو بہادر نہیں رہزن ہے ۔ جا !واپس جا!بہشت کے آستانے پرا ہر من کے کارندے کا اور قلعۂ سفید کے دروازے پر ایک ننگِ انسانیت ڈاکو کا خیر مقدم نہیں ہو سکتا ۔

سہراب:۔ پیاری آفرید!یہ اہلِ وفا کی زبان اور محبت کا لہجہ نہیں ہے ۔ تم اس طرح غیر شناسا بن کر گفتگو کر رہی ہو گویا ہماری ملاقات اس دنیا کے بدلے خواب و خیال کی دنیا میں ہوئی تھی ۔ کیا اتنی دو ر سے مجھے پہچان نہیں سکتیں ؟ غور سے دیکھو میں سہراب ہوں۔ وہی سہراب جو حسن کی پرستش کو عشق کا مذہب اور تمھارے تصوّرِ رنگین کو اپنی روح کی بہشت سمجھتا ہے ۔

گرد آفرید:۔خبر دار !ان سامعہ خراش لفظوں سے میرے مقدس حسن کی توہین نہ کر، مغرور !اپنی اتفاقی کامیابیوں کو وقت کی سِفلہ نوازی اور قسمت کی غلط بختی سمجھنے کے بدلے یہ سمجھ رہا ہے کہ تو جہان پر جابرانہ حکومت کرنے کے لیے اور یہ جہان مجبور بیل کی طرح اپنے زخمی کندھوں پر اطاعت کا جوا رکھ کر تیرے دائرۂ حکم میں گردش کرنے کے لیے پیدا ہوا ہے ۔ لیکن ارضِ ایران کی وسعت قلعۂ سفید کی چہار دیواری میں محدود نہیں ہے ۔ ہماری موت کے بعد بھی ایران اپنی قوت و صولت کے ساتھ زندہ رہے گا اور ثابت کر دے گا کہ سہراب وقت کے کھیلنے کا کھلونا اور اتفاقات کی ہوا میں قسمت کی لہروں میں ناچتے ہوئے بلبلے کا تماشا تھا ۔    ؂

آنکھوں میں تری حسن کھٹکتا ہے چمن کا

دشمن ہے مری قوم کا قاتل ہے وطن کا

مت دیکھ لٹیرے ہوسِ خام سے مجھ کو

نفرت ہے تری شکل ، ترے نام سے مجھ کو

سہراب :۔پیاری آفرید !عورت دنیا کی سب سے زیادہ حسین و محبوب شے ہے ۔ جذبات اس کا نام سنتے ہی ناچ اٹھتے ہیں ، روح اس کی تصور سے روشن ہو جاتی ہے اور عشق اپنی تمام نیاز مندیوں کے ساتھ اس کے قدموں پر سجدے میں گر پڑتا ہے ۔ تمھاری اس محبت آزار گفتگو سے اس کی رفعت و محبوبیت کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ عورت کی تغیر پذیر فطرت کے بارے میں کتابوں کے ورق اور انسانوں کے تجربوں نے جو رائے دی ہے کیا تم اس غلط رائے کو  آج صحیح ثابت کرنا چاہتی ہو   ؂

کیوں کیا مخمور و بے خود بادۂ سر جوش سے ؟

کیوں دیا پیغامِ الفت نرگِس  مَے نوش سے ؟

ایک فتنہ اور بالائے زمیں پیدا کیا

کیوں مرے دل میں محبت کا یقیں پیدا  کیا؟

گرد آفرید:۔ محبت کا یقین دلائے بغیر تیری قید سے رہا ہونا نا ممکن تھا۔ بیوقوف سُن!اپنے اہلِ وطن کی روح میں نا مردانہ زندگی کی حقارت اور شجاعانہ موت کا احترام پیدا کرنے اور پیدا شدہ جذبے کو آخری سانس تک قائم و شعلہ فشاں رکھنے کے لیے مجھے زندہ رہنے کی ضرورت تھی۔ شکر ہے کہ میں زندہ ہوں لیکن سہراب کے لیے نہیں، اپنے ملک کے لیے ۔ محبت کے لیے نہیں ، اپنے وطن کی خدمت کے لیے ۔ تو مسمار گھروں اور بے کفن لاشوں پر قبضہ کر سکتا ہے لیکن ہماری زندگی میں ہمارے قلعے اور ہماری آزادی پر قبضہ نہیں کر سکتا    ؂

جا ، پلٹ جا ، اور نہیں کہتی کہ خالی ہاتھ جا

حسرتوں کے ساتھ آیا ، ذلتوں کے ساتھ جا

سہراب:۔ (انتہائی حیرت سے ) گردآفرید؟  گرد آفرید؟

گرد آفرید:۔ رعونت کے پتلے !یہ ایران و توران کی کشاکش نہیں، مصافِ حیات میں خود غرضی و ظلم سے ایثار و قربانی کی آویزش ہے ۔ یہ جنگ جابروں کے لیے سرمایۂ لعنت اور ستم رسیدوں کے لیے تلقینِ خود داری و درسِ حرّیت ہے ۔اگر قسمت کی شرکت و اعانت سے تو کامیاب بھی ہوا تو تیری فتح شکست سے زیادہ ذلیل اور وقت کی نامساعدت سے ہم سپر انداز بھی ہوئے تو ہماری شکست فتح سے زیادہ شاندار ہو گی۔ تاریک سائے میں ڈوبتے ہوئے شام کے آفتاب کی طرح دنیا نظروں سے غائب ہو جاتی ہے ، اب دو چیزیں دھوئیں کے کاغذ پر لکھے ہوئے آگ کے حرفوں کی طرح دکھائی دے رہی ہیں  معزز زندگی  یا  ۔  معزز موت۔

(چلی جاتی ہے )

سہراب:۔حسین جسم میں دغا باز روح !صندل میں سوزش !چاندنی میں دوپہر کی دھوپ کی تپش!(ہومان بارمان سے )تم سچ کہتے تھے !حسن نے کبھی وفادار دل کی قدر نہیں کی ۔ حملہ کرو… حملہ کرو… اس قلعۂ سفید ، اس حصارِ سنگین کی ہستی، عورت کے وعدے سے بھی زیادہ کمزور ہے ۔ اُف کتنا فریب!عورت !تو صرف ایک خوبصورت دھوکا ہے !!  بِزَن …

(تورانی لشکر حملہ کرتا ہے ۔ فصیلِ قلعہ سے کھولتے ہوئے تیل ، گراں وزن پتھروں اور تیروں کی خونی بارش ہوتی ہے ، شدید و مہیب جنگ کے بعد سہراب کے گرز سے دروازہ ٹوٹ کر گڑ پرتا ہے اور حملہ آور فوج قلعے میں فاتحانہ جوش کے ساتھ داخل ہوتی ہے )

ٹیبلو

(سین ختم)

 

               ساتواں سین

قلعۂ سفید کا اندرونی حصہ

(جدال و قتال کے ہنگاموں ، زخمیوں کی چیخوں ، ہتھیاروں کی جھنکار، نعرہ ہائے جنگ ، بِزَن و بِگیر کا شور و غل سنائی دے رہا ہے ۔ بہرام منتظمانہ جذبات اور شریرانہ مسرت کے ساتھ داخل ہوتا ہے )

بہرام:۔گناہ اور سزا دونوں اعتقاد کے فریب ہیں ۔ نیکی و بدی کا تخیل ، بلند پروازِ عقل کی ترقیِ معکوس ہے ۔ آج سے پیشتر اپنی شمشیر و تدبیر سے ملک کے دشمنوں کی امداد کرنا، میں ایک شرمناک گمراہی ، ایک ہیبت ناک گناہ ، ایک پروردۂ لعنت جرم سمجھتا تھا مگر اب؟ اب نہیں ۔ موت ، آگ ، بربادی نے شہر کے ہر حصے کو گھیر لیا ہے ۔  کٹے ہوئے  سر خون کی لہروں میں بلبلوں کی طرح تیر رہے ہیں ، ایک دریدہ دہن ، محرومِ فراست چھوکری کو ’’عقلِ کل‘‘ اور اس کی احمقانہ رائے کو دنیا کی دانش مندی کا ’’خلاصہ‘‘ سمجھنے والوں کی یہی سزا ہے ، میری تردید و توہین کا یہی انعام ہے ۔ ایران کی تاریخ میں میرا نام قاتلانِ قوم میں لکھا جائے گا۔ دنیا مجھے دشمنِ وطن کہے گی ، کہنے دو !عاقبت خراب ہو گی ، ہونے دو !مجھے تو قوم ، وطن ، عاقبت کچھ نہیں چاہیے … انتقام !صرف انتقام!!چاہیے … بہرام چل، دست بدست جنگ میں دوبارہ سہراب کی رہنمائی کر … سہراب کی فتح ہی تیرے انتقام کی فتح ہے ۔

          (بہرام کی روانگی ، خون آلود تلوار لیے ہوئے گرد آفرید داخل ہوتی ہے )

گرد آفرید:۔ موت ایک تغییرِ ہیئت ، ایک تبدیلیِ لباس ، ایک نقلِ مکانی ، ایک جدید آغازِ عمل کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ سفرِ حیات میں مسافر کا پیکرِ خاکی و مقصدِ سفر بدل جاتا ہے ، لیکن منزل نہیں بدلتی ۔ موت ، جدید زندگی کی ابتدا ہے یعنی ہم موت کے دروازے سے ، معلوم دنیا سے نامعلوم دنیا میں داخل ہوتے ہیں ۔ یہی زندگی کا راز ہے اور یہ راز صرف شہیدانِ حق و حریت کو معلوم ہے ۔ شاباش!ایران کے فدائیو! شمعِ ملت کے پروانو !شاباش !تمھارے خون کا ہر قطرہ صبحِ عزت کا نو طلوع آفتاب اور ہماری جنگِ آزادی کا ہر لمحہ سعادتِ جاودانی کا سرمایہ دار ہے ۔ سرفروشانہ موت کے بعد بھی تم مستقبل کے غیر فانی حافظے اور بقائے دوام کی لازوال دنیا میں زندہ رہو گے !تمھاری حیرت آفریں قربانیوں نے مغرور سہراب …

       (سہراب کا نام زبان پر آتے ہی دل میں محبت کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے )

آہ کتنا شجاع !کیسا شریف !!اس کی تجلی بار چہرے کی طرف دیکھنے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ اسی چہرے کے نور سے آفتاب و مہتاب کی آفرینش ہوئی ہے ۔ سہراب !میری روح کو محبت کی روشنی سے منور کرنے والے سہراب!تم توران میں کیوں پیدا ہوئے ؟ اگر تم مادرِ ایران کے فرزند ہوتے تو میں کنیز بن کر تمھاری خدمت کو کامرانی ، نشاط، اور تمھاری پرستش کو وسیلۂ نجات سمجھتی اور … (خیال بدلتا ہے )… بیوقوف عورت !کیا عشق کی بجلیوں کی چمک کو جذبۂ جنگ کی تڑپ بن کر ، ملک اور قوم کے اعتبار کو دھوکا دے رہی ہے ؟ کیا تو دل سے نہیں، صرف زبان و تلوار سے سہراب کی مزاحمت کر رہی ہے ؟ ہوشیار! تیرا گنہگار خیال تجھے جرم کی مہیب دنیا میں کھینچے لیے جا رہا ہے …اس دنیا میں جہاں لعنت ہے ، رحمت نہیں !سزا ہے ، کفارہ نہیں ! نفرت کر ، سہراب سے نفرت کر ، دل سے بھی اور روح سے بھی۔

(پھر شعلۂ محبت بھڑکتا ہے )

لیکن میں نفرت نہیں کرتی اور نہیں کر سکتی تو باعث تعجب کیوں ہے ؟ دنیا میں کون عورت ہے جو ایسے پیکرِ شجاعت ، وفادار، رحیم ، جمیل کو اپنا دل اور اپنا مقدر سپرد نہ کر دے گی؟ اسے دیکھنے کے بعد اس حسن و جاذبیت سے معمور دنیا کی کسی شے کی طرف دیکھنے کی تمنا باقی نہیں رہتی ۔ وہ صانعِ فطرت کی نظر افروز صنعت اور مصوّرِ قدرت کا حسین ترین شاہکار ہے (دوبارہ خیال کی رَو بدلتی ہے )…دور ہو !اے عورت کی فطری کمزوری دور ہو !محبت باغیانہ شورش ، فرض کی آواز اور ضمیر کی پکار کو مغلوب نہیں کر سکتی ۔ جس قدر کمینہ شرافت سے ، غدار اپنے ملک سے ، بزدل عزت کی موت سے نفرت کرتا ہے ، میں بھی، ہاں میں بھی ، اسی قدر سہراب سے نفرت کروں گی۔ اس کے چہرے کی نظر فریبی صرف ایک حسین لعنت ہے ۔ وطن کا دشمن اگر ارضِ وطن کی طرح خوب صورت ، نعرۂ آزادی کی طرح پُر جلال ، محبتِ قومی کی طرح قابلِ پرستش ہو تب بھی وہ دنیا کی بدترین ہستی ہے ۔ محبت پیچھے ہٹ! فرض آگے بڑھ!

(خوف و اضطراب کی حالت میں گستہم داخل ہوتا ہے )

گستہم:۔ اوہ !وہم بھی نہ تھا کہ وہ انسان جس کو چمنِ کائنات کا گلِ سرسَبد ، قدرت کا نقشِ آخر ، آفر نیش کا خلاصہ ، کتابِ تخلیق کا تکملہ کہا جاتا ہے وہ بھیڑیے سے زیادہ خونخوار اور کتے سے زیادہ رذیل ثابت ہو گا… اے خدا ! تو نے اس بد نہاد شخص ، اس متحرک لعنت کے ڈھیر کو کیوں پیدا کیا؟ کیا اس ننگِ ہستی کے بغیر تیرے بے عیب و مکمل نظام کی تکمیل نہیں ہو سکتی تھی؟

گُرد آفرید:۔ آپ کا ہر لفظ خطرے کا اعلان کر رہا ہے !کیا ہوا؟

گستہم:۔ دغا!شرمناک دغا۔

گرد آفرید:۔ دغا دی!کس نے !غیر ت نے ؟ ہمت نے ؟ قسمت نے ؟

گستہم:۔ ایرانی ماں کے پلے ہوئے سانپ نے ، قوم کُش ، خائنِ ملت بہرام نے ۔

گرد آفرید:۔ ملعون … دوزخی !

گستہم :۔ اس نے سہراب کے پاس اپنا ایمان اور دوزخ کے پاس اپنی روح فروخت کر دی۔ اس کی جفا کوشی و بے حمیتی دیکھ کر مجھے تعجب ہو رہا ہے ۔

گرد آفرید:۔ تعجب کیوں کرتے ہو؟ ہمیشہ ملک کے نمک حراموں ہی نے غیروں کی غلامی کے طوق سے اپنے ملک کی گردن کی زینت افزائی کی ہے ۔ غداری کی تاریخ پڑھو ! بہرام کی وطن دشمنی دنیا کا پہلا عجیب واقعہ نہیں ہے ۔

گستہم:۔ اس کی امداد و  رہنمائی سے سہراب کی فوج نے قلعہ کے محفوظ مقامات اور سامانِ جنگ کے ذخیروں پر قبضہ کر لیا ہے ۔ عنقریب قسمت جنگ کی کمان سے اپنے ترکش کا آخری تیر چلانا چاہتی ہے ۔ اب ہمارے لیے کوئی امید باقی نہیں رہی۔

گرد آفرید:۔(تڑپ کر)کیوں باقی نہیں رہی۔ جب تک غلامی سے نفرت باقی ہے ، غیرت باقی ہے ، جسم میں ایک بھی سانس اور قلعے میں ایک بھی جانباز باقی ہے ، امید بھی باقی رہے گی۔ ہم فانی دنیا میں لا زوال زندگی لے کر نہیں آئے ہیں۔ جب مدتِ حیات محدود ، فنا لازمی، اجل یقینی ہے تو عزت و شرافت کے ساتھ مرو۔ بہادروں کی طرح مرو ، بوڑھے ، اپاہج، ناکارہ ہو کر بیماری کے بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مرنے کے بدلے قوم پر قربان ہو کر مادرِ وطن کی آغوش میں مرو۔ ناامیدی سامنے سے دور ہو ۔ آؤ!بس فتح یا موت۔

(تصویرِ غضب بنی ہوئی گستہم کے ساتھ جاتی ہے )

(بہرام اور سپاہیوں کے ہمراہ سہراب داخل ہوتا ہے )

سہراب:۔ گرد آفرید میری روح کی تمنا اور میرے خوابِ تمنا کی تعبیر ہے ۔وہ میری امید کی امید میری زندگی کی زندگی ہے ۔ اسے زندہ گرفتار کر لو ۔ خبردار !اس کے سر کے ایک بال اور پاؤں کے ایک ناخن کو بھی صدمہ نہ پہنچے ۔

بہرام:۔ لیکن گرد آفرید ہی نے ایرانیوں کی مردہ ہمتوں میں دوبارہ حرکتِ حیات اور قوتِ عمل پیدا کی تھی۔

سہراب:۔ اس لیے ؟

بہرام:۔ وہ رحم کی مستحق نہیں ہے ۔

سہراب:۔ عشق کی اتنی مجال نہیں کہ وہ حسن کو اس کے جرم کی سزا دے سکے ۔ جاؤ!(بہرام اور سپاہیوں کی روانگی ) ناز سراپا غرور۔ اور نیاز ہمہ تن شکر ہوتا ہے ۔ میں اس بے دید ، بے مہر سے صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ خوبصورتی اور بے وفائی کا آپس میں کون سا رشتہ ہے ؟ چہرہ حسین ، دل بہادر ، آنکھیں بے مروت۔ میں نے دنیا میں ایسی عجیب عورت نہیں دیکھی۔

(گرد آفرید کی تلاش میں جاتا ہے )

(سین ختم)

 

               آٹھواں سین

اندرونِ قلعہ کا دوسرا حصہ

(دُور کُشت و خون کا ہنگامہ،بگیر و بزن کا شور ،آگ اور دھوئیں سے محصور گھروں کا نظارہ ،گرد آفرید تھکان سے نڈھال ، زخموں سے چور،لہو میں شرابور لڑکھڑاتی ہوئی داخل ہوتی ہے )

گرد آفرید:۔ آزادی کا آفتاب ،تلواروں کی فضا میں خون سے رنگین افق پر آخری بار چمک کر غروب ہو گیا ۔ دغا و خیانت نے قلعۂ سفید کی قسمت کو غدار بہرام کا تیار کردہ سیاہ کفن پہنا دیا ۔ بیواؤں کے شیون ، یتیموں کی فریاد ، خاک و خون میں لتھڑی ہوئی لاشوں کے سوا کچھ باقی نہیں رہا۔

(تلوار کو مخاطب کر کے )

           تلوار!پیاری تلوار !!میں غارت شدہ حیاتِ قومی کا بقیہ ، آتشِ افسردہ کا دھواں،کا روانِ رفتہ کا  پس ماندہ غبار ، ہنگامۂ تباہی کی آخری گونج ہوں۔ اس جسم سے روح کی علیٰحدگی کا وقت بھی قریب آ پہنچا ہے ۔ جب تک موت ان دونوں کو جدا نہ کر دے ، میری زندگی کی وفادار سہیلی !تو مجھ سے جدا نہ ہونا۔ ایک بار سہراب کے خون میں ۔ (جذبۂ محبت سے مغلوب ہو کر)… آہ کیسا خوبصورت نام ، کتنا شیریں نام !! اس نام کو سنتے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ دل کی دنیا میں محبت کے زمزموں کی بارش ہو رہی ہے (خیال میں تبدیلی) محبت!کس کی  محبت ؟ سہراب کی محبت!!خبردار ، دل !خبردار ۔ اگر تو نے تصور کے آئینے میں ملک و قوم کے دشمن کی محبت کا عکس بھی پڑنے دیا تو میں تجھے سینے سے نکال کر پیروں سے مسل کر ، ذلت کی ٹھوکر مار کر ، بھوکے کتّوں کے آگے پھینک دوں گی۔ آہ کیا تھا !اور کیا ہو گیا!انسانی امید اور انسانی زندگی بے حقیقت چیزیں ہیں ۔ وقت کی گردش نے ثابت کر دیا کہ امید تاریک فضا میں آسمان سے ٹوٹے ہوئے ستارے کی عارضی روشنی اور زندگی ہوا کی لہروں میں بہتے ہوئے پرندے کے متحرک پروں کا زمین پر بھاگتا ہوا سایہ ہے ۔

                     (تورانی سپاہیوں کے ساتھ بہرام داخل ہوتا ہے )

بہرام:۔ تلاش کامیاب ہوئی، گرفتار کر لو۔ گرد آفرید !میرے مشورے پر ہنسنے اور میری اہانت پر اظہارِ پسندیدگی کرنے والوں کی قسمت کا انقلاب دیکھا؟ کہاں ہیں آزادیِ ملت کے فدائی، کہاں ہے تیرا غرور ، کہاں ہیں تیرے گرجتے ہوئے دعوے ؟

دیکھ آئینے میں چہرہ ، زخم بھی ہے ، خاک بھی

خون میں ڈوبا ہوا ہے جسم بھی پوشاک بھی

گر رہے ہیں آنکھ سے آنسو تنِ صد پاش پر

رو رہی ہے کیوں کھڑی ہو کر وطن کی لاش پر

گرد آفرید:۔کیا تیری روح اہرمن کے دل کی تاریکی سے پیدا ہوئی ہے ؟ کیا تیری پرورش ایرانی ماں کے دودھ کے عوض درندے کے خون سے کی گئی ہے ؟ موذی ! … جلاّد!اگر تیرے ایمان کی طرح تیری بصارت و سماعت بھی غارت نہیں ہو چکی ہے تو دشمنوں کی ٹھوکروں کی ضرب سے زخمی ملک کی درد ناک حالت دیکھ اور ڈوب مر!بندگی و بیچارگی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی مادرِ وطن کی شرر بار فریاد سن اور شرم کر! اِس خانماں ویرانی کا باعث ،اس سیلابِ ذلت کا منبع ، اس طوفانِ ہلاکت کا مخزن ، اس نا قابلِ عفو ، ناقابلِ کفارہ جرمِ عظیم کا مجرم کون ہے ؟… تو… یہ جگر شگاف ماتمی آوازے کسے ازلی وا بدی ملعون کہہ رہے ہیں؟تجھے !… جن بہادروں نے حفاظتِ ملّت کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک قربان کر دیا وہ تیرے قومی بھائی نہ تھے ؟ جن شریف عورتوں نے فرض کی قربان گاہ پر اپنے شوہروں ، بھائیوں اور بچوں کی جانیں نثار کر دیں کیا وہ تیری ملکی بہنیں نہ تھی ؟ اپنے بھائیوں کی زندگیاں،اپنی بہنوں کا سکون و آرام ، اپنے مرزبوم کی سطوت و قہرمانیت لٹوا کر ندامت کے زخم سے مر جانے کے بدلے خوش ہو رہا ہے ؟ ٹوٹے ہوئے دلوں ، ذبح کی ہوئی امیدوں ، خونِ جگر سے بھیگی ہوئی آہوں ، سوختہ قسمت قلعہَ سفید کی خاکِسترِ برباد پر آنسو بہانے کے عوض دوزخ کے مؤکل کی طرح بے رحمی سے ہنس رہا ہے ؟    ؂

نہ ہو گا تجھ سا بے غیرت کمینے سے کمینہ بھی

زمانے کے لیے لعنت تو بھی تیرا جینا بھی

بہرام:۔ عداوت کے بازار کا سودا اتنے ہی گراں داموں پر بکتا ہے ۔ تو نے مجھ سے میری نفرت مول لی تھی ۔یہ برگشتہ بختی اسی خرید کردہ نفرت کی قیمت ہے ۔ یہ زبوں حالی میرے جنسِ انتقام کا معاوضہ ہے ۔

گرد آفرید:۔ اگر تیرا دل مجھ سے انتقام لینے کے لیے بے قرار تھا تو شریف دشمن کی طرح تلوار سے میرا مقابلہ کرتا ۔ مقابلے کی جرأت نہ تھی تو کھانے میں زہر ملا دیتا ، یہ بھی نا ممکن تھا تو سوتے میں چھری بھونک دیتا لیکن غریب ملک نے تیرا کیا قصور کیا تھا جس قصور کی پاداش میں تو نے اس کے ہر گھر کو انسانوں کا مذبح اور ہر ذرّے کو عظمت و عزت کا ماتم کدہ بنا دیا ۔ تو سہراب کی نوازش کے سایے میں تباہ شدہ وطن کی خاک اور قوم کے زخمی دل کے خون سے اپنی دنیوی جنت بنانا چاہتا ہے ۔ لیکن یاد رکھ ! اس جنت کا ہر پھول تیرے مجرم ضمیر کو سانپ بن کر ڈستا اور یہ معصیت آباد ہمیشہ نفرت و لعنت کے زلزلوں سے کانپتا رہے گا    ؂

اگر وہ جانتی ، دل ہے دغاؤں سے بھرا تیرا

تری ماں پیدا ہوتے ہی دبا دیتی گلا تیرا

        یاد رکھ ! جرم کی زندگی ، اطمینانِ قلب کی موت ، اور گناہ کی بہار ، روح کی خزاں ہے    ؂

راحتِ عصیاں سے بڑھ کر رنج عالم میں نہیں

جو جلن اس عیش میں ہے وہ جہنم میں نہیں

بہرام:۔ (ہمراہیوں سے ) کیا دیکھتے ہو ؟ گرفتار کر لو یا قتل کر دو۔

      (سپاہی چاروں طرف سے یورش کرتے ہیں۔ گرد آفرید شکاریوں کی برچھیوں کے حلقے میں محصور شیرنی کی طرح ہر ایک کے حملے کا جواب دیتی ہے )

بہرام:۔ میرے گزشتہ انتقام کا آخری نوالہ۔

(پیچھے سے گرد آفرید کی پیٹھ میں خنجر بھونک دیتا ہے )

گرد آفرید:۔ آہ…دغا باز …مارِ آستین…

           (گرتے گرتے پلٹ کر دونوں ہاتھوں سے بہرام کا گلا پکڑ لیتی ہے )

         اتنے گناہ کر چکا تھا یہ آخری گناہ نہ کرتا تو کیا دوزخ کے دروازے تیرے لیے بند ہو جاتے ؟ کتّے !تجھے زندہ رکھنا کمینہ پن کی عمر میں اضافہ ہے ۔ تیرا ایمان مر چکا ۔ انسانیت مر چکی… تو بھی مر!

                 (غصے میں جان لینے کے ارادے سے گلا دباتی ہے پھر رک جاتی ہے )

                        مگر نہیں !تو بد فطرت ہے ، نمک حرام ہے ، سنگ دل ہے ، قاتل ہے ، دنیا کی بدترین مخلوق ہے ،سب کچھ ہے ، پھر بھی میرا ہم وطن ہے (گلا چھوڑ دیتی ہے ) جا !قوم پرستوں کے مذہب میں بدی کا بدلہ بدل نہیں ہے ۔ میں اپنے وطن کی عزت کی خاطر اپنا خون معاف کرتی ہوں۔

(زمیں پر گر پڑتی ہے اس وقت سہراب داخل ہوتا  ہے )

سہراب:۔ یا خدا !میں کیا نظارہ دیکھ رہا ہوں !قفس خالی، رنگیں نوا فاختہ، پیکرِ شجاعت کی حسین روح، شعلۂ حسن کی تجلی ، خون میں ڈوبی ہوئی ہے !! افسانۂ عزت کا عنوان ، صحیفۂ حرّیت کا سر نامہ ، جرأتِ نسوانی کی تاریخ  کا ورقِ زرّیں خاک پر پڑا ہوا ہے !!

(گرد آفرید کا سر زانو پر رکھ کر)

آفرید !پیاری آفرید!!  آنکھیں کھولو… میں تمھیں بے وفائی کا الزام دینے کے لیے نہیں ، اپنی وفاداری کا یقین دلاتے آیا ہوں۔ تمھارا تبسمِ ناز میری پرستش کا صلہ ہے ۔ کیا ناکامِ محبت کو اپنے لبِ نازک سے تسکین نہ دو گی؟ کیا اپنی مسکراہٹ سے میرے دل کی تاریکیوں میں امید کی صبح پیدا نہ کرو گی؟    ؂

کرو کچھ رحم میری التجا پر میری آہوں پر

اٹھو ، بولو، ہنسو، دیکھو میں صدقے ان نگاہوں پر

گرد آفرید:۔ (آنکھیں بند کیے ہوئے نیم بے ہوشی کی حالت میں) کس کی آواز؟     ستاروں کا گایا ہوا نغمۂ آسمانی زمین پر کون گا رہا ہے ؟

سہراب:۔ تمھارا شیدائی ، تمھارا  پر ستار سہراب!

گرد آفرید:۔ (آنکھیں کھول کر) تم… تم … اوہ… مرنا بھی مشکل ہو گیا ہے ۔

        (جوشِ محبت سے اٹھنے کی کوشش کرتی ہے اور گر پڑتی ہے )

                آؤ ۔ پیارے سہراب آؤ ۔ تمھیں دیکھ کر دل میں زندہ رہنے کی تمنا پیدا ہو گئی لیکن اب تمنا کا وقت نہیں رہا ، عدم کے مسافر کا سامان بندھ چکا ہے ۔ زندگی کے نظارے اسے ہمیشہ کے لیے رخصت کر رہے ہیں ۔  میرے دل کے مالک!میرے فرض نے مجھے بے مروت بننے کے لیے مجبور کر دیا تھا۔ حقِ وطن کا مرتبہ عشق سے بلند تر ہے ۔ اس لیے مجھے معاف کر دو اور جو ہوا اسے بھول جاؤ ۔ موت کے دروازے پر دنیا کی دوستی و دشمنی ختم ہو جاتی ہے ۔

سہراب :۔ پیاری آفرید ! تم نے دنیائے فرض کی ایک جدید حقیقت اور عورت کے دل کی عظمت کا ایک عظیم الشان راز ظاہر کر کے وہ بوجھ دور کر دیا جس سے میری روح پاش پاش ہوئی جا رہی تھی۔ میرا خیال تھا کہ تم مجھے اپنی محبت کا مستحق نہیں سمجھتیں اسی لیے اس قدر جوشِ مخالفت کے ساتھ جنگ کر رہی ہو۔

گرد آفرید:۔ آہ !تمھیں کیا معلوم، عشق و فرض کی کشمکش میں میری روح نے کتنے عذاب برداشت کیے ہیں ۔ کتنے طوفان ، کتنے زلزلوں سے تنہا وقفِ پیکار رہی ہے !! صدمہ نہ کرو ۔دوست اور دشمن ہم نام ہیں ۔ اس لیے تمھیں دھوکا ہوا۔ میں نے اپنے پیارے سہراب سے نہیں اپنے ملک کے مخالف سے جنگ کی ہے     ؂

دمِ آخر بھی صیدِ عشق و وقفِ بے قراری ہوں

میں پھر اقرار کرتی ہوں تمھاری تھی تمھاری ہوں

سہراب:۔ آہ !ان لفظوں میں کتنا ترنم ہے اور کتنی امید نوازی ہے !!قسمت کی ستم ظریفی دیکھو ، تسکین کے پیاسے کو راحت کا آبِ حیات بھی پلا رہی ہے اور جدائی کا زہر بھی۔

        (یکایک جوشِ غضب میں اٹھ کھڑا ہوتا ہے ۔ سپاہیوں سے )

        کیا میری زبان کے واضح الفاظ ، معنی و مفہوم سے تہی دست تھے ؟ میرے حکم سے بے پروا  ہو کر ، دنیا کی یہ سب سے زیادہ قیمتی زندگی کس نے برباد کی؟

بہرام:۔ (فخر یہ لہجے میں)… میں نے ؟

سہراب:۔ …تو نے !… ایک ایرانی نے !… گرد آفرید کے ہم قوم وہم وطن نے !… کس لیے !

بہرام:۔ اس لیے کہ یہ میرا خیر خواہانہ فرض تھا۔ اس لیے کہ وہ تورانیوں کی دشمن تھی اور میں تورانیوں کا دوست ہوں۔

سہراب:۔ تو کتنا بے حیا!کتنا بد اصل !کتنا قابلِ نفرت ہے ۔ مرقعٔ شجاعت کی جس تصویرِ فدائیت نے ملک و قوم کی آبرو پر اپنی محبت ، راحت ، امید، زندگی کی ہر بیش بہا شے قربان کر دی۔ اس سینے میں ، جو عشقِ وطن سے معمور ہو رہا تھا ، خنجر بھونکتے وقت تیرے دل نے تجھ پر لعنت نہ کی ، تیرا ہاتھ قبضے تک پہنچنے سے پیشتر مفلوجِ نہ ہو گیا؟ اپنے باپ کی نا پاک یاد گار !ماں کی کو کھ کے ملعون نتیجے !سگِ دنیا !تیرے جسم کے ہر ذرے نے جس ایران کے نمک سے پرورش پائی ہے جب تو نے اس محسنِ ایران سے وفاداری نہ کی تو توران کا تو کب دوست ہو سکتا ہے ! جس منہ سے اپنے کو تورانیوں کا دوست کہتا ہے میں اس ذلیل منہ پر تھوکتا ہوں۔ تیرے رہنے کی جگہ دنیا نہیں دوزخ ہے ۔

(خنجر بھونک دیتا ہے )

بہرام:۔ دنیا کے لیے عاقبت خراب کی لیکن گناہ نے فریب دے کر عاقبت بھی تباہ کی اور دنیا بھی (مر جاتا ہے)۔

سہراب:۔ (گرد آفرید کو عالمِ نزع میں دیکھ کر) آہ!… دنیا کی پلکوں پر زندگی آمادۂ ترادش آنسو کے قطرے کی طرح تھر تھرا رہی ہے ۔ شعلۂ حیات آندھی میں رکھے ہوئے چراغ کی لَوکی طرح کانپ رہا ہے  …موت ! موت!!تو عشقِ پُر تمنا ، حسنِ روح افروز ، شبابِ معصوم پر کیا ظلم کر رہی ہے ؟ تو بے مہر و سنگ دل ہے ، لیکن باغِ ہستی کا اتنا حسین و رنگین پھول توڑ کر آخر میں تو بھی اپنی بے دردی پر نادم ہو گی …رحم کر … رحم …

گرد آفرید:۔ فرشتے روشنی کی چادر میں لپٹے ، پھول اور نغمے بکھیرتے ہوئے آہستہ آہستہ زمین پر اتر رہے ہیں ، دنیا عالمِ نور سے بدل رہی ہے ۔ مرکزِ اصلی کی طرف مائلِ پرواز روح کے لیے آسمان کا دروازہ کھل گیا ہے کس نے پکارا؟۔ زندگی کے دروازے پر کون دستک دے رہا ہے …  موت !تو ہے …نہیں سمجھتی تھی کہ تو اتنی خوبصورت ہو گی الوداع ! پیارے وطن الوداع… پیارے سہراب الوداع   ؂

نہیں معلوم رازِ مرگ دنیا کے طبیبوں کو

اگر فرصت ملے تو یاد کرنا بد نصیبوں کو

(آخری ہچکی لے کر دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے )

سہراب:۔ ٹھہر !اے حسین مسافرہ ٹھہر!تو کارگاہِ تمنا کو خرابۂ یاس، ایوانِ نشاط کو ماتم سرا، جلوہ زارِ ہستی کو مسکنِ ظلمت بنا کر کہاں جا رہی ہے ؟ واپس ا… اے نا معلوم منزل کے رہرو !واپس آ!تیرے جانے کے بعد دنیا میں صرف فریاد اور آنسوؤں کی آبادی رہ جائے گے ۔ آفتاب و مہتاب، آسمان کے دل کے داغ، تارے رات کے جگر کے آبلے اور رنگین پھول زمین کے جسم کے زخم معلوم ہوں گے ۔

       (دیوانہ وار پکارتا ہے ) آفرید … آفرید !!… آفرید… !!اے جمالِ ناطق!  اے حسنِ گویا!تو کیوں خاموش ہو گیا؟ تو کیوں بے کس کی پکار کا جواب نہیں دیتا ؟ کیا میرے لیے اب تیرے پاس محبت کی ایک مسکراہٹ، تسکین کا ایک حرف بھی نہیں ہے ؟

ہائے کون جواب دے !پھول ہے ، خوشبو نہیں !مکان ہے ،مکین نہیں سلطنت ہے ! ملکہ نہیں۔(گرد آفرید کی لاش سے مخاطب ہو کر) قدرت نے کائنات سے اپنا عطیۂ عظمت واپس لے لیا ۔ دنیا کا حسن بہشت کے اضافۂ جمال کے لیے بلا لیا گیا۔ زمین کا چہرہ ، فخر کا جلال ، تاریکیِ عدم کو مطلعِ نور بنانے کے لیے چلا گیا۔

اے ملکۂ جمال ! تو نے فرض پر عشق کو اور ملک پر زندگی کو قربان کر کے ابدی حیات حاصل کر لی ۔ ایران کی آئندہ نسلیں ، تیرے ثبات و استقلال کے حیرت آفریں کارناموں پر فخر کریں گی ۔ ایران کی لڑکیاں تیری بہادری کے گیتوں سے اپنی زندگیوں کو مبارک بنائیں گی ۔ ایران کی تاریخ میں ایثار کے حرف ، تیرے پُر جبروت نام کی تجلیات سے صفحۂ دنیا پر آفتاب و مہتاب بن کر چمکتے رہیں گے ۔ اے پژمردہ بہارِ آفرینش!اے افسردہ شعلۂ وطن پر ستی! اے خوابیدہ طوفانِ شجاعت ، میں تیرے قدموں کو الوداعی بوسہ دیتا ہوں ۔ یہی اولین اور آخری بوسۂ محبت ہے ۔

(روتا ہوا گرد آفرید کے پیروں پر گر پڑتا ہے)

(ڈراپ سین )

 

تیسرا  باب

               پہلا سین

سہراب کے لشکر کی چھاؤنی

(ہومان اور بارمان تورانی سردار اور سپاہی جشن منا رہے ہیں ۔ رقاصہ رقص و نغمہ میں مصروف ہے )

گانا

جائیں گے وہاں ، خوش دلِ دیوانہ جہاں ہو

گھر لیں گے وہیں ، اب کے پری خانہ جہاں ہو

ہو گی کوئی جنت ، مری جنت تو وہی ہے

خُم خانہ و میخانہ و پیمانہ جہاں ہو

منہ چوم نہ لے پھول کے دھوکے میں تمھارا

جانا نہ وہاں ، بلبلِ دیوانہ جہاں ہو

پانی کے عوض مستیِ رنگیں ہو برستی

پر اتنے ہی ٹکڑے پہ کہ مے خانہ جہاں ہو

اے حشرؔ مرے شعر ہیں مستی کا ترانہ

گانا یہ غزل  محفلِ رندانہ جہاں ہو

ہومان :۔ بادل کی محفل میں سنہری پشواز پہن کر بجلی ناچ رہی ہے ۔

بارمان :۔ کل تلوار کی تال پر موت کانا چ بھی شروع ہو جائے گا۔

سردار (۱):۔ صرف ناچ۔

ہومان:۔ گانا بھی۔

سردار (۲):۔ کون گائے گا؟

ہومان:۔ زندگی۔

سردار(۳):۔کیا گائے گی؟

ہومان:۔ فنا کا گیت۔

سردار(۲):۔ زندگی غم اور خوشی کا سُروں سے بنا ہوا خود ایک دلچسپ گیت ہے ۔

سردار (۱):۔ ٹھیک ہے اور یہ گیت مزہ اس وقت دیتا ہے جب اسے شراب کا پیالہ ہاتھوں میں لے کر گا یا جائے ۔

سردار(۳):۔لیجیے ہونٹوں کی مضراب سے روح کے ستار میں زندگی کی راگنی بجائیے ۔

سردار(۴):۔ اہا ہا ہا     ؂

شرابِ ناب کے جلووں سے ساغر میں اجالا ہے

ہزاروں چودھویں کے چاند ہیں اور ایک ہالہ ہے

سردار(۲):۔

یہ وہ شے ہے گرے تو خاک سے اکسیر پیدا ہو

ہر اک قطرے سے اک اک حسن کی تصویر پیدا ہو

(سب سردار کھڑے جھوم رہے ہیں۔ ناچ ۔ )

ٹیبلو

(سین ختم)

 

               دوسرا سین

ایران کے شہنشاہ کیکاؤس کا دربار

    (کیکاؤس تخت پر بیٹھا ہوا ہے چہرہ غصے سے خوفناک اور آنکھیں لال ہو رہی ہیں)

کیکاؤس:۔ جس کیکاؤس کے ابرو پر شکن دیکھ کر دنیا گناہگار غلام کی طرح کانپ کر سجدے میں گر جاتی ہے ، جس کے قہر کے حضور میں طوفان سے زیادہ طاقت ور اور زلزلے سے زیادہ خوفناک انسان دو زانو ہو کر رحم کی بھیک طلب کرتے ہیں اس کے غضب سے یہ بے پروائی ، اس کے حکم سے یہ سرتابی ۔ گویا وہ فرمانبردار نہیں فرماں روا ہے ۔ ایران کا خادم نہیں ایران کا آقا ہے ۔رستم ، مغرور رستم!تیری روح میں بغاوت کا مرض پیدا ہو گیا ہے ۔ میرا شاہی مرتبہ یہ جرأت اور گستاخی برداشت نہیں کر سکتا ۔

گردرز:۔جہاں پناہ ۔ خانہ زاد کی جاں بخشی ہو ۔ آپ غصے میں غلط رائے قائم کر رہے ہیں۔ رستم سے اس وقت کوئی قصور سرزد نہیں ہوا کہ اس کی بے داغ جاں نثاری پر شبہ کیا جائے ۔ دنیا میں دو چیزیں ہمیشہ اپنی روشنی سے چمکتی رہیں گی ، آسمان پر آفتاب اور زمیں پر رستم کی وفاداری۔

کیکاؤس :۔ دھوکا نہ کھاؤ۔ تم اوپر کا ملمع دیکھ کر پیتل کو سونا سمجھ رہے ہو۔

گردرز:۔ غلام کی یہ گزارش ہے کہ سہراب جیسے خوفناک دشمن کے مقابلے میں اس وقت ایران کو رستم کے مشورے ، مدد اور تلوار کی سخت ضرورت ہے اس لیے اسے ناراض کرنا مناسب نہیں ہے ۔ اگر وہ آنے کے بعد رنج و غصے کے ساتھ واپس چلا گیا تو ایران اپنے سب سے بڑے خیر خواہ اور سب سے بڑے سپاہی کی خدمت سے محروم ہو جائے گا۔

طوس:۔ جلالت مآب ! رستم کا نعرۂ جنگ سنتے ہی مردہ ہمتیں زندہ ہو جاتی ہیں   ؂

ڈر نہیں کچھ بھی اگر ہو سارا عالم اک طرف

لاکھ لشکر اک طرف ہیں اور رستم اک طرف

سلطنت کی آبرو ہے ملک کا اقبال ہے

وہ ہمارے بازوؤں کا زور، سر کی ڈھال ہے

کیکاؤس: ۔ جنگ میں شرکت ہی کے لیے میں نے خط لکھ کر اسے طلب کیا تھا لیکن اس کا زابل سے ایران نہ آنا کیا ثابت کر رہا ہے ۔ یہی کہ تمھاری خوشامد اور تعریفوں نے اسے مغرور بنا دیا ہے     ؂

سمجھتا ہے کہ بجھ سکتا نہیں ہرگز  چراغ اُس کا

اِس سے بڑھتا جاتا ہے غرور اُس کا دماغ اُس کا

(رستم آتا ہے …)

رستم:۔

اے تاج بخش ، باج ستاں ، شاہِ کام گار

اے ملک گیر ، قلعہ شکن، شیرِ کار زار

تو حسنِ کائنات ہے ، تو فخرِ روزگار

قسمت ہو زیرِ حکم ، ظفر زیرِ اختیار

جب تک فلک پہ جلوۂ شمس و قمر رہے

اس تاج کی ضیا سے جہاں میں سحر رہے

کیکاؤس:۔ (غصے سے دوسری طرف منہ پھیر کر) جھوٹا ، ریا کار۔

رستم:۔ خاقانِ عالم!غلام حاضر ہے ۔

کیکاؤس :۔ تو صرف ہونٹوں سے اپنے کو غلام کہہ کر میرے غصے اور اختیار کا منہ چڑاتا ہے ۔ طلبی کا خط ملنے کے بعد بھی فوراً حاضر ہونے کے بدلے میرے حکم سے بے پروائی برتنا ، کیا یہی فرض شناس غلاموں کا طریقہ ہے ؟ یہ غلامی نہیں نمک حرامی ہے ۔

رستم:۔ رستم اور نمک حرام ۔ خداوند نعمت !میرے کانوں نے آج تک ایسے ذلیل لفظ نہیں سنے ۔ جو رستم ایران کی اطاعت کو اپنا فرض ، ایران کی خدمت کو اپنا مذہب اور ایران کی محبت کو اپنا ایمان سمجھتا ہے اسے نمک حرام کہہ کر آپ اپنی قدر دانی کا ثبوت دے رہے ہیں !     ؂

صلہ اچھا ملا مجھ کو مری خدمت گزاری کا

یہی انعام ہے کیا عمر بھر کی جاں نثاری کا

کیکاؤس:۔ اب تک میری آنکھو ں پر تیری بناؤٹی وفاداریوں نے پردہ ڈال رکھا تھا، آج  وہ پردہ ہٹ گیا۔ اب میں تجھے تیری اصلی شکل میں دیکھ رہا ہوں    ؂

عیاں ہر حرف ہے مجھ پر ترے دل کے نوشتے کا

مجھے دھوکا نہ دے تو روپ بھر کر اک فرشتے کا

رستم:۔ بس جہاں پناہ بس! کیا حضور نے سرِ دربار مجھے ذلیل کرنے کے لیے زابل سے ایران میں طلب کیا تھا؟ ادب اور برداشت کی بھی حد ہوتی ہے ۔    ؂

میں بھی اپنے سینے میں رکھتا ہوں دل انسان کا

دھیان رکھیے اپنے رتبے اور اپنی شان کا

کیا کہوں دیتا ابھی پتھر سے پتھر کا جواب

شرم آتی ہے کہ کھایا ہے نمک ایران کا

کیکاؤس:۔ تیری بے خوفی اور سرکشی دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا ایران میں دو بادشاہ حکومت کر رہے ہیں۔ آج تیرے غرور کی تجھے سزا دے کر ثابت کر دوں گا کہ ایران کا بادشاہ رستم نہیں کیکاؤس ہے ۔

رستم:۔ تب میں بھی یہ کہنے پر مجبور ہوں گا کہ کیکاؤس کی سلطنت اور کیکاؤس کا تاج رستم ہی کی تلوار اور بازو کی مدد سے ابھی تک اپنی جگہ پر قائم ہے ۔ اگر اس دل میں بادشاہ بننے کی خواہش ہوتی تو آج ایران کا تاج کیکاؤس کے سر پر نہیں رستم کے سر پر دکھائی دیتا ۔لیکن میرا کام بادشاہ بننا نہیں ، بادشاہ بنانا ہے ۔ میں تاج پہنتا نہیں ، تاج بخشتا ہوں ۔    ؂

تکا کرتے ہیں میری مہربانی کی نگاہوں کو

میں وہ ہوں بھیک میں دیتا ہوں تاج و تخت شاہوں کو

کیکاؤس :۔ یہ سلطنت کا مجرم ہے ۔ گرفتار کر لو… خاموش کھڑے ہو ۔ کیا میرا حکم نہیں سنا۔ قید کرو۔

رستم :۔ نا عاقبت اندیش کیکاؤس ! اپنی عقل کی تاریکی سے تاج کی چمک کم نہ کر ۔ آج مجھے معلوم ہو گیا کہ جس تخت پر جمشید ، فریدوں ، کیقباد جیسے دانا و بینا بادشاہ بیٹھ کر دنیا میں ایران کا نام روشن کر چکے ہیں تو اس شاہی تخت پر ہرگز بیٹھنے کے قابل نہیں     ؂

سلطنت ایران کی پائی سمجھ پائی نہیں

ایک بچّے کے برابر تم میں دانائی نہیں

راستہ کوئی دکھا سکتا نہیں بدبخت کو

لو چلا میں تم بچاؤ اپنے تاج و تخت کو

(رستم غصے میں چلا جاتا ہے )

گودرز:۔ اعلیٰ حضرت !تباہی سہراب کی شکل میں دروازے پر موجود ہے ۔ رستم کو واپس بلائیے ۔

کیکاؤس:۔ کبھی نہیں ۔ رستم ایران سے چلا گیا تو کیا ایران کی زمیں غلّہ نہ اُگائے گی؟ ایران کا آسمان پانی نہیں برسائے گا ؟ ایران میں آفتاب و مہتاب طلوع نہ ہوں گے ؟ ایرانی تا ج کے چمکتے ہوئے ہیرے پتھر بن جائیں گے ؟ میں رستم کو کوئی چیز نہیں سمجھتا ۔ ایران کی عزت رستم سے نہیں ہے ۔

طوس:۔ ایک بار پھر غور کیجیے !

کیکاؤس:۔ ضرورت نہیں۔

طوس:۔ افسوس! آپ نے آدھی دنیا فتح کر لی لیکن اپنے غصے کو فتح نہ کر سکے ۔

کیکاؤس :۔ بس خاموش !

(غصے میں خنجر لے کر تخت سے اترتا ہے ۔ طوس سر جھکا دیتا ہے ۔ گودرز کیکاؤس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے درباری حیرت سے دیکھتے رہ جاتے ہیں)

(سین ختم)

 

               تیسرا سین

سہراب کے لشکر کی چھاؤنی

(رات کا وقت ۔ بہت دور ایرانی اور تورانی لشکر کے خیمے دکھائی دے رہے ہیں ۔ ہومان ، بارمان اور ہجیر کے ساتھ سہراب داخل ہوتا ہے )

سہراب:۔ ہجیر تم میری قید سے رہائی چاہتے ہو؟

ہجیر:۔ چاہتا ہوں لیکن ایک شرط پر ۔ ایران میرا وطن ہے ، میں آپ کا شریک ہو کر ایران کے خلاف تلوار نہیں اٹھاؤں گا۔

سہراب:۔ قوم کی جاں نثار گرد آفرید کی طرح جس ایرانی کے دل میں وطن کی محبت نہیں ہے ، میں خود اسے دنیا کی سب سے زیادہ ذلیل ہستی سمجھتا ہوں۔ اچھا تو میں تمھیں رہائی دوں گا۔ عزت ، دولت، عہدہ، اور جاگیر بخشوں گا اور آج سے اپنا عزیز ترین بھائی سمجھوں گا۔ صرف اتنا بتا دو (ہجیر کو سوچ میں دیکھ کر) سنتے ہو بہادر۔

ہجیر :۔ (چونک کر) سن رہا ہوں۔

سہراب:۔ کیا واقعی رستم اس لشکر میں نہیں ہے ؟

ہجیر:۔ میں نے ایرانی لشکر کا ایک ایک کونا ایک ایک خیمہ ، ایک ایک سردار کا چہرہ آپ کو دکھایا اور اُن سرداروں کے نام ، رتبے ، عہدے سے بھی واقف کرا دیا ۔تعجب ہے کہ پھر بھی آپ میری سچائی پر شک کر رہے ہیں ۔

سہراب:۔ بے شک ! میں نے بھیس بدل کر رات کی تاریکی میں تمھارے ساتھ ایرانی فوج کا پورا جائزہ لیا لیکن میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ وہ ضرور موجود ہے ۔ ہجیر!کیا یہ ممکن نہیں کہ رستم کے پہچاننے میں تمھاری آنکھوں نے غلطی کی ہو۔

ہجیر :۔ میں رستم کو ایک بار نہیں سیکڑوں بار دیکھ چکا ہوں ۔ میری نظر ابھی اتنی کمزور نہیں کہ دیکھی ہوئی صورت کو بھی نہ پہچان سکوں۔

سہراب :۔ تو پھر تسلیم کر لوں کہ وہ زابل سے ایران کی مدد کے لیے نہیں آیا۔

ہجیر:۔ مجھے جاسوس سے اطلاع ملی ہے کہ رستم اس جنگ میں کیکاؤس کی مدد کے لیے آیا تھا لیکن کیکاؤس نے سرِ دربار اس کی بے عزتی کی اور وہ بے انتہا ناراض ہو کر غصے کے ساتھ اپنے ملک کو واپس چلا گیا ۔

رستم:۔(خود سے ) ایک طرف اس کی آواز اور ایک طرف دل کی آواز۔ کس آواز کو سچائی کی آواز سمجھوں !

ہجیر:۔ (خود سے ) اگر سہراب نے رستم کی جان کو نقصان پہنچا یا تو میرے ایران کی حفاظت کون کرے گا ؟ میں سچائی کو اندھیرے سے روشنی میں نہ آنے دوں گا۔

سہراب:۔ دیکھ ہجیر!جس طرح رات کے وقت شکار کی تاک میں بیٹھے ہوئے بھیڑیے کی آنکھیں اندھیرے میں چمکتی ہیں اسی طرح مجھے تیری آنکھوں میں ایک خوفناک چمک دکھائی دیتی ہے ۔ ’’رستم نہیں ہے ‘‘ یہ کہتے وقت ہو اسے ہلتے ہوۓ پتے کی طرح تیرے ہونٹ کانپ اٹھتے ہیں اور پیلے پتے کی طرح تیرا چہرہ زرد ہو جاتا ہے ۔ (گریبان پکڑ کر) خبردار! مجھے دھوکا نہ دینا ، ورنہ قسم ہے تلوار کی تیرے خون کو موری میں بہتے ہوئے پانی سے بھی زیادہ حقیر سمجھوں گا۔ آگے بڑھ !اب دنیا میں تیرے لیے دو ہی چیزیں رہ گئی ہیں ۔ سچا ثابت ہوا تو رِہا ۔ جھوٹا ثابت ہوا تو موت۔

(دونوں جاتے ہیں)

بارمان:۔ جب سہراب، رستم کے خیمے کے پاس پہنچ کر نہایت غور سے اس کے چہرے کو دیکھنے لگا ۔ اس وقت مجھے اندیشہ ہوا کہ ضرور خون کا جوش خون کو پہچان لے گا لیکن شاباش ہے ہجیر کو ، اس کے ایک جھوٹ نے باپ اور بیٹے کے درمیان سینکڑوں پردے ڈال دیے ۔

ہومان:۔ لیکن مجھے یہ نہ معلوم ہو سکا کہ کیکاؤس کے دربار سے خفا ہو کر چلے آنے کے بعد رستم دوبارہ کیکاؤس کی مدد کے لیے کس طرح راضی ہو گیا۔

بارمان:۔ کیکاؤس نہایت غصہ ور اور جلد باز بادشاہ ہے ۔ جوش کم ہونے کے بعد اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور آخر اس کے شرمندہ ہونے اور طوس و گودرز کے سمجھانے سے رستم اپنا ارادہ بدلنے پر مجبور ہو گیا ۔

ہومان:۔ اپنے بادشاہ افراسیاب کی آرزو پوری کرنے کے لیے کوشش کرو کہ جنگ کے آخر تک باپ بیٹے ایک دوسرے کو نہ پہچان سکیں ۔ توران کی سلامتی کے لیے رستم و سہراب دونوں کو ، اور دونوں نہیں تو ایک کو ضرور مرنا چاہیے ۔ ورنہ یہ دونوں مل کر ساری دنیا کو ایران اور کیکاؤس کا غلام بنا دیں گے ۔

(چلے جاتے ہیں)

(سین ختم)

 

               چوتھا سین

میدانِ جنگ

(اندر سے لڑائی کے باجے اور مارو مارو کا شور سنائی دیتا ہے ۔ ایران کے سپاہی پناہ پناہ کہتے ہوئے بھاگتے ہیں۔ گردرز اور طوس کے ساتھ رستم کا داخلہ)

رستم:۔ شاباش سہراب شاباش!  آفریں ہے تیری بہادری کو، آفریں ہے تیری ماں کے دودھ کو (طوس و گودرز سے ) میدانِ جنگ میرا وطن اور تلواروں کی چھاؤں میری آرام گاہ ہے ۔ میری ساری زندگی خنجروں کی چمک اور خون کی بارش میں بسر ہوئی ہے لیکن میں نے آج تک اتنی بے جگری اور اتنی شاندار بے پروائی کے ساتھ کسی انسان کو موت  سے کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس کی دلیری اور جنگ کا طریقہ دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں ایک دوسرا رستم پیدا ہو گیا۔

گودرز:۔ لیکن جس طرح آگ پر پارہ اُڑ جاتا ہے اسی طرح مقابلے کے وقت آپ کا نام سنتے ہی اس کی طاقت بھی اس کے بازوؤں سے علیٰحدہ ہو جائے گی۔

رستم:۔ میں نے صرف ایران کی محبت اور فرض سے مجبور ہو کر ایک سولہ برس کے نا تجربہ کار لڑکے کے مقابلے میں میان سے تلوار کھینچی ہے لیکن میں اس کے سامنے اپنا رتبہ اور نام ظاہر نہیں کروں گا کیوں کہ ایک کم سن بچے سے لڑنا رستم کی آبرو نہیں، رستم کے نام کی بے عزتی ہے ۔(پھر اندر شور ہوتا ہے )

طوس:۔ وہ دیکھیے !وہ دیکھیے !ہمارا لشکر پھر سیلاب کی طرح آگے بڑھنے کے بدلے کنارے سے ٹکرا کر لوٹتی ہوئی لہر کی طرح سمٹ کر پیچھے ہٹ رہا ہے ۔

رستم :۔ زندگی سے اتنی محبت ، موت کا اتنا خوف ، کیا یہ میدانِ جنگ میں تلوار و شجاعت کو ذلیل کرنے آئے تھے ۔ جاؤ ! شرم دلانے والے لفظوں سے ہمت کے جمے ہوئے سمندر میں دوبارہ طوفان پیدا کرو۔ ان سے کہو کہ مایوس نہ ہوں، رستم زندہ ہے اور ایران کا اقبال بھی زندہ رہے گا۔

    (گودرز اور طوس جاتے ہیں ۔ اندر سے دوبارہ شور کی آواز)

      ان بزدلوں کی روح میں غیرت کی روشنی بجھ گئی ہے ۔ اس لیے انھیں فرض کا راستہ دکھائی نہیں دیتا …یہ کون!…  سہراب…تنا بہادر کتنا خوبصورت! دیکھنے سے آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں۔ اگر یہ میرا فرزند ہوتا تو آج آسمان کی طرح زمین پر بھی دو آفتاب دکھائی دیتے … آہ ! وہ موت کی تلاش میں اس طرف آ رہا ہے ۔ واپس جا!واپس جا ! سہراب اگر تیرے ماں باپ زندہ ہیں تو ان کے بڑھاپے اور ارمانوں پر رحم کر اور واپس جا ۔ نادان تو ایران میں رستم سے نہیں اپنی قسمت سے جنگ کرنے آیا ہے ۔

سہراب:۔ (آ کر) چہرہ آگ  اور دل برف ۔ خوف کی آندھی میں یہ ریت کے ذروں کی طرح اڑتے پھر رہے ہیں۔ شاید بزدلوں کے خیال میں بھاگنے ہی کا کام بہادری ہے ۔ کیکاؤس تیری قسمت کے روشن دن کی شام آ گئی۔ کل میرے قدم تیرے تخت پر اور تیرا تاج میرے قدموں میں ہو گا۔

(آگے بڑھتا ہے ۔ رستم روکتا ہے )

رستم:۔ ٹھہر۔ اس جنگ میں خود فتح تیرے خنجر کی دھار اور نصیب تیرے بازوؤں کا زور بن جائے تو بھی کیکاؤس تک زندہ نہیں پہنچ سکتا کیوں کہ اس کا تاج تیری امید سے اور اس کا تخت تیری ہمت سے بہت زیادہ بلند ہے ۔

سہراب:۔ یہ چہرہ !یہ جلال !اے ایرانی بزرگ  تو کون ہے ؟

رستم:۔ ایران کا نمک خوار ، شہنشاہ کیکاؤس کا جاں نثار۔

سہراب:۔ (دل میں) میری ماں نے اپنے لفظوں سے میرے دل پر رستم کی جو تصویر کھینچ دی ہے اس تصویر سے یہ چہرہ کس قدر ملتا ہوا ہے ۔

رستم:۔ میں دنیا کی کوئی عجیب چیز نہیں ہوں، تو میر ے چہرے کی طرف غور سے کیا دیکھ رہا ہے ۔

سہراب:۔ (دل میں )     ؂

وہی شوکت عیاں ہے اس کے تیور اور قرینے سے

اُڑے جاتے ہیں نقشِ دشمنی دل کے نگینے سے

نہ جانے کون کہتا ہے کہ بڑھ قدموں پہ سر رکھ دے

یہی ہے باپ تیرا جا لپٹ جا اس کے سینے سے

رستم :۔ وہی خاموشی وہی حیرت ، تو کوئی خواب دیکھ رہا ہے    ؂

آنکھ کیوں پتھرا گئی بڑھتے قدم کیوں جم گئے

کیا ہوا جو یک بہ یک آندھی کے جھونکے تھم گئے

ناز مت کر ، ہاتھ بے قیمت لہو میں رنگ کر

عورتوں سے لڑ چکا امرد سے اب جنگ کر

سہراب:۔ جنگ دشمن سے ہوتی ہے ، عزیزوں اور بزرگوں کے ساتھ نہیں ہوتی ۔ یہ جنگ خون سے شروع ہو کر آنسوؤں پر ختم نہ ہو اس لیے حملے سے پیشتر اے محترم انسان! میں تیرے نام اور رتبے سے واقف ہو جانا چاہتا ہوں     ؂

جس کو دیکھا تھا کبھی آئینۂ تقدیر میں

دیکھتا ہوں میں وہی جلوہ تری تصویر میں

رستم:۔ تو عجیب طرح کی گفتگو کر رہا ہے ۔ کیا موت کے خوف سے دیوانہ ہو گیا ہے    ؂

پوچھنا نام و نشاں اس جنگ کے انجام سے

لڑنے آیا ہے یہاں مجھ سے کہ میرے نام سے

سہراب:۔ میں نام اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ یہ چہرہ دیکھ کر میرے دل میں دشمنی کی جگہ تیری عزت پیدا ہو گئی ہے    ؂

جس کی تلوار سے توران کے لب پر دم ہے

کیوں چھپاتا ہے یقیناً وہ تو ہی رستم ہے

رستم:۔ رستم شیروں سے ، اژدہوں سے ، دیوؤں سے ، بہادری کے طوفان سے لڑتا ہے ۔ اپنی عمر ، رتبے اور شہرت کی توہین کرنے کے لیے جنگ کے میدان کو ماں کی گود سمجھنے والے نا سمجھ لڑکوں کا مقابلہ نہیں کرتا   ؂

سرد ہو جاتے ابھی یہ جوش کیا اور شور کیا

سامنے رستم کے تو کیا اور تیرا زور کیا

کانپ اٹھتا دیکھتے ہی موت کی تصویر کو

جنگ میں رستم نہ آیا دے دعا تقدیر کو

سہراب:۔ بہادر بوڑھے ، میرا دل نہیں چاہتا کہ تجھ پر حملہ کروں ۔ میں منت کرتا ہوں کہ مجھے غفلت کے اندھیرے میں نہ رکھ۔ اگر واقعی تو رستم ہے تو میں تلوار پھینک کر دو زانوں بیٹھ کر تیرے قدموں کو بوسہ دوں گا اور عزت و ادب کے ساتھ سر جھکا کر تیری بزرگی کو سلام کروں گا    ؂

اور کہوں گا کہ خوش اقبال بنا دے مجھ کو

ہاتھ سر پر مرے رکھ اور دعا دے مجھ کو

رستم:۔ دنیا پر یہ ثابت کرنے کے لیے کہ سہراب نے رستم جیسا یکتائے زمانہ دلیر سے جنگ کی تھی، تو دھوکا دے کر مجھ سے رستم ہونے کا اقرار کرانا چاہتا ہے    ؂

کیوں نہیں کہتا کہ مجھ میں جنگ کا اب دم نہیں

ہوش میں اکان کھول اور سن کہ میں رستم نہیں

سہراب:۔ اگر تو رستم نہیں تو آنکھیں بند ہونے سے پہلے دنیا کو آخری مرتبہ حسرت کی نظروں سے دیکھ لے ۔

(دونوں میں جنگ ، آخر سہراب رستم کو گرا دیتا ہے اور چھاتی پر چڑھ کر خنجر بھونکتا ہے ۔رستم ،سہراب کی کلائی پکڑ لیتا ہے )

رستم:۔ ٹھہر !ایران کے بہادروں کا دستور ہے کہ دشمن کو دو مرتبہ شکست دینے کے بعد قتل کرتے ہیں ۔ اگر تجھے اپنے بازوؤں پر بھروسہ ہے اور تیرے دل میں بہادروں کے دستور کی عزت ہے تو کل مجھے نصیب آزمانے کا ایک اور موقع دے ۔ کل کا فیصلہ قسمت کا آخری فیصلہ ہو گا۔

سہراب:۔ اگر تجھے یقین ہے کہ رات بھر کی خوشامد سے صبح کو قسمت تیری مدد کے لیے زیادہ ہو جائے گی تو اچھا زندگی بچانے کے لیے اس آخری کوشش کے لیے تجھے کل تک کے لیے مہلت دیتا ہوں (سینے سے اُٹھ کر )مرد کا زیور بہادری اور بہادری کا زیور رحم ہے ۔

(خنجر پھینک دیتا ہے )

(سین ختم)

 

               پانچواں سین

ہومان و بارمان کا خیمہ

ہومان:۔ جس کا جوش جوان اور تجربہ بچہ ہے ، جس کا بازو طاقت ور اور عقل کمزور ہے ،وہ دنیا کو فتح کر سکتا ہے ، دنیا پر حکومت نہیں کر سکتا۔

بارمان:۔ قبضے میں آئے ہوئے شیر کو دوبارہ حملہ کرنے کے لیے آزاد کر دینا یہ سہراب کی ایسی خوفناک غلطی ہے کہ اس غلطی پر نادان بچہ اور دیوانے بھی افسوس کرتے ہوں گے ۔

ہومان:۔ اور اس احمقانہ غلطی کو وہ بہادری اور رحم کہتا ہے ۔

بارمان:۔ جنگ کیا ہے قتل ، خون ، موت کی نمائش ۔ اس لیے جنگ خود ایک بے رحمی ہے ۔ بے رحمی کی سلطنت میں رحم کے قانون پر عمل نہیں ہوتا۔

ہومان :۔ یہ اس کمزوری کا نتیجہ ہے کہ جو فتح طاقت اور تلوار سے حاصل نہ ہو سکی ہو رستم نے عقل کے زور اور فریب کے حربے سے حاصل کر لی۔

بارمان:۔ تو اب کیا کرنا چاہیے ۔ ہمارے بادشاہ افراسیاب کی آرزو اور ہماری کوشش برباد ہوا چاہتی ہے

ہومان:۔ چلو !سہراب کو اس کی غلطی پر شرمندہ کریں ، اس کی روح میں ایک نئی روشنی پھونکیں ، اس کے دل کی نیکی کو عداوت سے اور رحم کے جذبے کو غصے سے بدل دیں ۔ اگر ہمارے جھنجھوڑنے سے سہراب کی سوئی ہوئی زندگی جاگ اٹھی تو کل کا دن رستم کی زندگی کا آخری دن ہو گا۔

(دونوں جاتے ہیں)


               چھٹا سین

میدانِ جنگ

        (رستم اداس چہرے اور غمگین دل کے ساتھ مایوس نگاہوں سے آسمان کی طرف دیکھ رہا ہے )

رستم:۔ پروردگار ! میں نے کبھی تیرے قہر و غضب کو حقیر نہیں سمجھا ۔ کبھی تیری طاقت کے سامنے اپنی فانی طاقت کا غرور نہیں کیا۔ پھر اس ذلت کی شکل میں تو نے میرے کس گناہ کی سزا دی ہے ۔ اے درد مندوں کی دوا، اے کمزوروں کی قوت، اے نا امیدوں کی امید ، میں نے کل ساری رات تیرے حضور میں سجدۂ نیاز کے ساتھ آنسو بہا کر مدد کے لیے التجا کی ہے ۔ اپنے عاجز بندے کی التجا قبول کر ، اس بڑھاپے میں دنیا کے سامنے میری شرم رکھ اور ایک بار میرے عہدِ شباب ، میری جوانی کا زور و جوش مجھے دوبارہ واپس دے     ؂

عطا کر دے وہی طاقت جو اک دن تھی مرے بس میں

جوانی کا لہو پھر جوش مار ے میری نس نس میں

تری قدرت پلٹ سکتی ہے سارے کارخانے کو

پھر اک د ن کے لیے تو بھیج دے پچھلے زمانے کو

(سہراب داخل ہوتا ہے )

سہراب:۔ صبح ہو گئی ۔ ممکن ہے آج کی صبح اس کی زندگی کی شام ثابت ہو۔ نہ جانے کیا سبب ہے کہ اس کی موت کا خیال آتے ہی میری روح کانپ اٹھتی ہے (رستم کو دیکھ کر) تو آ گیا۔ کیا جنگ کے نقارے کی پہلی چوٹ سے تیری نیند ٹوٹ گئی …

رستم:۔ بہادر اپنا وعدہ نہیں بھولتا ۔ میں آدھی رات سے صبح ہونے کا انتظار کر رہا ہوں۔

سہراب:۔ آج لڑائی کا دوسرا دن ہے ۔ جانتا ہے ، اس جنگ کا کیا نتیجہ ہو گا؟

رستم:۔ ہم دونوں میں سے ایک کی موت۔

سہراب:۔ شیر دل بوڑھے ۔ میرا دل تیری موت کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ایک غیبی آواز مجھے بار بار اس جنگ سے روک رہی ہے ۔ اگر ایران کی گود بہادر فرزندوں سے خالی نہیں ہے تو جا ، واپس جا اور اپنے عوض میں کسی اور ایرانی کو بھیج دے ۔ تجھے زندگی اور سلامتی کے ساتھ لوٹ جانے کی اجازت دیتا ہوں۔

رستم:۔ کل کی اتفاقی فتح پر غرور نہ کر ۔ ہر نیا دن انسان کے لیے نئے انقلاب لے کر آتا ہے ۔ تقدیر کا پہیّا ہمیشہ ایک ہی سمت میں نہیں گھومتا    ؂

گھڑی بھر میں بدلنا ہو گا تجھ کو پیرہن اپنا

منگا کر پاس رکھ لے جنگ سے پہلے کفن اپنا

        (جنگ شروع ہوتی ہے ۔ تھوڑی دیر کے بعد سہراب ہاتھ روک لیتا ہے )

سہراب:۔ ٹھہر!  آج میں تجھ میں نیا جوش اور نئی قوت دیکھ رہا ہوں۔ جواں ہمت بوڑھے مجھے پھر شک ہوتا ہے کہ تو رستم ہے ۔ میں تیری عزت کا واسطہ اور تیری بہادری کی دہائی دے کر ایک بار پھر تیرا نام پوچھتا ہوں ۔ زور سے نہیں منت سے ۔ غرور سے نہیں عاجزی سے ۔

رستم:۔ تو میرا نام ہی جاننا چاہتا ہے تو سُن میرا نام ہے …

سہراب:۔ (خوشی کی گھبراہٹ سے ) رستم!

رستم :۔ نہیں ، سہراب کی موت!

سہراب:۔ افسوس تو نے میرے رحم کی قدر نہ کی۔

        (دوبارہ جنگ ہوتی ہے ۔ رستم سہراب کو گرا کر سینے پر چڑھ بیٹھتا ہے )

رستم:۔

بس اسی ہمت اسی طاقت پر تھا اتنا غرور

تو کوئی شیشہ نہ تھا کیوں ہو گیا پھر چور چور

کیا ہوا زورِ جوانی اُٹھ اجل ہے گھات میں

دیکھ لے اب کس قدر قوّت ہے بوڑھے ہاتھ میں

(سہراب کے سینے میں خنجر بھونک دیتا ہے )

سہراب:۔ آہ اے آنکھو! تمھارے نصیب میں باپ کا دیدار نہ تھا ۔ کہا ں ہو ، پیارے باپ کہا ں ہو! آؤ ! آؤ کہ مرنے سے پہلے تمھارا سہراب تمھیں ایک بار دیکھ لے    ؂

کیا خبر تھی کہ بگڑ جائے گی قسمت اپنی

آخری وقت دکھا دو مجھے صورت اپنی

رستم:۔ کیا اپنی جوانی کی موت پر ماتم کرنے کے لیے اپنے باپ کو یاد کر رہا ہے ۔ اب تیرے باپ کی محبت ، اس کے آنسو ، اس کی فریاد ، کوئی تجھے دنیا میں زندہ نہیں رکھ سکتی    ؂

مرہم کہاں جو رکھ دے دلِ پاش پاش پر

آیا بھی وہ تو روئے گا بیٹے کی لاش پر

سہراب:۔بھاگ جا ، بھاگ جا ، اس دنیا سے کسی اور دنیا میں بھاگ جا ۔ تو نے سام اور نریمان کے خاندان کا چراغ بجھا دیا ہے ۔ تاریک جنگلوں میں ، پہاڑوں کے غار میں ، سمندروں کی تہہ میں ، تو کہیں بھی جا کر چھپے لیکن میرے باپ رستم کے انتقام سے نہ بچ سکے گا!

رستم:۔ (چونک کر کھڑا ہو جاتا ہے ) کیا کہا؟ کیا کہا؟ تو رستم کا بیٹا ہے ؟

سہراب:۔ ہاں!…

رستم :۔ تیری ماں کا نام؟

سہراب:۔ تہمینہ۔

رستم:۔تیرے اس دعوے کا ثبوت؟

سہراب:۔ ثبوت ؟ اس بازو پر بندھی ہوئی میرے باپ رستم کی نشانی !

رستم:۔ جھوٹ ہے ، غلط ہے ، تو دھوکا دے رہا ہے ، مجھے پاگل بنا کر اپنے قتل کا انتقام لینا چاہتا ہے (گھبراہٹ کے ساتھ سہراب کے بازو کا کپڑا پھاڑ کر اپنا دیا ہوا مہرہ دیکھتا ہے ) وہی مہرہ۔ ۔ ۔  وہی نشانی (سر پٹک کر) آہ یہ کیا کیا؟ اندھے !پاگل! جلّاد ! یہ تو نے کیا کیا    ؂

خون میں ڈوبا ہے وہ جس سے مزہ جینے میں تھا

دل کے بدلے کیا کوئی پتھر ترے سینے میں تھا

توڑ ڈالا اپنے ہی ہاتھوں سے او ظالم اسے

تیرا نقشہ تیرا ہی چہرہ جس آئینے میں تھا

سہراب:۔ فتح مند بوڑھے تو رستم نہیں ہے ۔ پھر میری موت پر خوش ہونے کے بدلے اس طرح رنج کیوں کر رہا ہے ؟

رستم:۔اب اس دنیا میں رنج اور آنسو ، رونے اور چھاتی پیٹنے کے سوا اور کیا باقی رہ گیا ہے ۔ میں نے تیری زندگی تباہ کر کے اپنی زندگی کا ہر عیش اور اپنی دنیا کی ہر خوشی تباہ کر دی ۔ مجھ سے نفرت کر ، میرے منہ پر تھوک دے ۔ مجھ پر ہزاروں زبانوں سے لعنت بھیج   ؂

فغاں ہوں ، حسرت و ماتم ہوں ، سر سے پاؤں تک غم ہوں

میں ہی بیٹے کا قاتل ہوں ، میں ہی بدبخت رستم ہوں

 (سہراب  کے پاس ہی زمین پر گر پڑتا ہے اور سہراب کے گلے میں ہاتھ ڈال کر چھاتی سے لپٹ جاتا ہے )

سہراب:۔ باپ !پیارے باپ !!

رستم:۔ ہائے میرے لال۔ تو نے الفت سے ، نرمی سے ، منت سے مجھ سے کتنی مرتبہ میر انام پوچھا۔ اس محبت اور عاجزی کے ساتھ پوچھنے پر لوہے کے ٹکڑے میں بھی زبان پیدا ہو جاتی ہے ، پتھر بھی جواب دینے کے لیے مجبور ہو جاتا ہے ،لیکن اس دو روزہ دنیا کی جھوٹی شہرت اور اس فانی زندگی کے غرور نے میرے ہونٹوں کو ہلنے کی اجازت نہ دی۔ میرے بچے ، میری تہمینہ کی نشانی    ؂

کس جگہ بے رحم اجل سے میں نہاں رکھوں تجھے

آنکھ میں ، دل میں ، کلیجے میں، کہاں رکھوں تجھے

بس نہیں انسان کا چلتا فنا و فوت سے

کیا کروں کس طرح تجھ کو چھین لوں میں موت سے

سہراب:۔ ہومان ، بارمان ، ہجیر ، سب نے مجھے دھوکا دیا۔ باپ !نہ رو، میری موت کو خدا کی مرضی سمجھ کر صبر کرو    ؂

مل گئی مجھ کو جو قسمت میں سزا لکھی تھی

باپ کے ہاتھ سے بیٹے کی قضا لکھی تھی

رستم:۔ جب تیری ناشاد ماں بال نوچتی ، آنسو بہاتی ، چھاتی پیٹتی ،ماتم اور فریاد کی تصویر بنی ہوئی سامنے اکر کھڑی ہو گی اور پوچھے گی ، میرا  لاڈلا سہراب  میرا بہادر بچہ، میری کوکھ سے پیدا ہونے والا شیر کہاں ہے ؟ تو اپنا ذلیل چہرہ دونوں ہاتھوں سے چھپا لینے کے سوا کیا جواب دوں گا۔کن لفظوں سے اس کے ٹوٹے ہوئے دل اور زخمی کلیجے کو تسلّی دوں گا    ؂

سنوں گا ہائے کیسے مامتا کی اس دہائی کو

کہاں سے لاؤں گا ، مانگے گی جب اپنی کمائی کو

نگاہیں کس طرح اٹھیں گی مجھ قسمت کے ہیٹے کی

دکھاؤں گا میں کن ہاتھوں سے ماں کو لاش بیٹے کی

سہراب:۔ پیارے باپ ! میری بدنصیب ماں سے کہنا کہ انسان سب سے لڑ سکتا ہے ، قسمت سے جنگ نہیں کر سکتا ۔ آہ (آنکھیں بند کرتا ہے )

رستم:۔ یہ کیا !یہ کیا!میرے بچے !آنکھیں کیوں بند کر لیں ؟ کیا خفا ہو گئے ؟ کیا ظالم باپ کی صورت دیکھنا نہیں چاہتے ؟ یہ موت کا گہوارہ ، یہ خون میں ڈوبی ہوئی زمین، پھولوں کا بستر ، ماں کی گود ،باپ کی چھاتی نہیں ،پھر تمھیں کس طرح نیند آ گئی    ؂

میرے بچے یوں نہ جا مجھ کو تڑپتا چھوڑ کے

میرا دل ، میرا جگر ، میری کمر کو توڑ کے

ہائے کیا کیا آرزو تھی زندگانی میں تجھے

موت آئی پھولتی پھلتی جوانی میں تجھے

سہراب:۔ ماں…خدا…تمھیں…تسلی دے … آہ ! او خدا …

رستم:۔ اور … اور … بیٹا بولو۔ چپ کیوں ہو گئے ۔ آہ … اس کا خون سرد ہو رہا ہے ۔ اس کی سانسیں ختم ہو رہی ہیں ۔ اے خدا !اے کریم و رحیم خدا ! اولاد باپ کی زندگانی کا سرمایہ اور ماں کی روح کی دولت ہے ۔ یہ دولت محتاجوں سے نہ چھین ۔ اپنی دنیا کا قانون بدل ڈال ۔ اس کی موت مجھے اور میری باقی زندگی اسے بخش دے … موت … موت… تو زال و رودابہ کے گھر کا اجالا اور بڑھاپے کی امید ، میری تہمینہ کا بولتا کھیلتا کھلونا ، کہاں لے جا رہی ہے ؟دیکھ میری طرف دیکھ ! میں نے بڑے بڑے بادشاہوں کو تاج و تخت کی بھیک دی ہے آج ایک فقیر کی طرح تجھ سے اپنے بیٹے کی زندگی کی بھیک مانگتا ہوں؂

پھینک دے جھولی میں تو میرے گلِ شاداب کو

ہاتھ پھیلائے ہوں میں ، دے دے مرے سہراب کو

سہراب:۔ (آنکھیں بند کیے ہوئے ) دنیا ۔ رخصت ۔ آہ او خدا !… (مر جاتا ہے )

رستم:۔ آہ جوانی کا چراغ ہچکی لے کر بجھ گیا ۔ بے رحم موت نے میری امید کی روشنی لوٹ لی ۔ اب لاکھوں چاند ہزاروں سورج مل کر بھی میرے غم کا اندھیرا دور نہیں کر سکتے ۔ آسمان ماتم کر ، زمین چھاتی پیٹ درختو ! پہاڑو! ستارو !ٹکرا کر چور چور ہو جاؤ۔ آج ہی زندگی کی قیامت ہے ۔ آج ہی دنیا کا آخری دن ہے ۔ زندگی کہاں ہے ؟ دنیا کہاں ہے ؟ زندگی سہراب کے خون میں اور دنیا رستم کے آنسوؤں میں ڈوب گئی … (دیوانوں کی طرح پکارتا ہے ) سہراب !…۔ سہراب!…سہراب!…

(غش کھا کر گر پڑتا ہے )

(ڈراپ سین)

***

حوالے؛

 ۱۔    ڈاکٹر عبد العلیم نامی : اردو ٹھئیٹر حصہ  دوم ،  ص۶۶۴

۲۔     آغا جمیل صاحب کا خط(۹ ! مئی ۱۹۹۰ء )  راقمہ کے نام

تمت با لخیر

٭٭٭

مرتبہ کی اجازت اور تشکر کے ساتھ

ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید