FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

تاریخ احمدیت

               نا معلوم

 سیاسی منظر

            ١٨٥٧ء کی نا کام جنگِ آزادی کے بعد برطانیہ کا پورے بر صغیر پر قبضہ ہو گیا۔ جنگ کا اہم پہلو اُن علما ء کا کردار تھا جو انہوں نے برطانوی غاصبوں کے خلاف منظم مزاحمت کی صورت میں ادا کیا۔ سیّد احمد شہید کی تحریک بالاکوٹ میں ان کی اور ان کے رفقاء کی شہادت سے ختم نہ ہو سکی۔زندہ بچ جانے والے مجاہدین اور حریت پسندوں نے شمال مغربی سرحدی صوبہ کی پہاڑیوں کو اپنا مرکز بنا کر برطانوی راج کے خلاف جہا د جاری رکھا اور برطانوی فوجوں کو کئی لڑائیوں میں کچل کر رکھ دیا جن میں سے اہم ١٨٦٣ کی جنگ امبیلا ہے۔ برطانوی دستوں کے خلاف مجاہدین نے حیران کن بہادری اور شاندار جرات کا مظاہرہ کیا۔ سرحدوں پر ہزیمت اُٹھانے کے بعد انگریزوں نے ہندوستان میں مجاہدین کی خفیہ تنظیم کو تباہ کرنے کی کوشش کی کیونکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ یہ تنظیم ان مجاہدین کو اسلحہ اور رقوم کی فراہمی کی ذمہ دار ہے جس نے سرحدوں کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ ١٨٦٤ء اور ١٨٦٥ء میں انبالہ اور پٹنہ میں چلنے والے مقدمات کے بعد تقریباً ایک درجن انتہائی فعال مجاہدین کو ”سزائے حبس دوام بہ عبور دریائے شور ”کے طور پر کالا پانی ( انڈمان )بھجوا یا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ ملکہ معظمہ کے خلاف جنگ کی سازشوں میں شریک تھے۔ اس کے بعد ١٨٦٨ء، ١٨٧٠ء اور ١٨٧١ء میں گرفتاریوں اور مقدمات کی ایک نئی لہر آئی اور را ج محل، مالدہ اور پٹنہ میں مقدمات کا سلسلہ شروع ہوا جس میں مزید کالے پانی کی سزائیں سنائی گئیں۔

(The Muslim World Vol 2 Page no.7)

 ظالمانہ مقدمات کے تواتر اور  پولیس کی بے رحمانہ تفتیشوں کے بعد حکومت مجاہد ین کو رسد کی فراہمی کا نظام درہم برہم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔

ہنٹر رپورٹ

            ٢٠ ستمبر١٨٧١ء کو عبداللہ نامی ایک پنجابی مسلمان نے کلکتہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نارمن کو قتل کر دیا۔ وائسرائے لارڈ میو کے کاغذات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمان وہابی خیالات سے بالواسطہ طور پر متاثر تھا اور اس نے وہابیوں کے مرکز کے طور پر مشہور ایک مسجد سے دینی تعلیم حاصل کی تھی۔ جسٹس نارمن مجاہدین کے سخت خلاف تھا۔ اس نے غیر قانونی حراست کی تمام اپیلیں ١٨١٨ء کے ضابطہ IIIکے تحت مسترد کر دی تھیں اور پٹنہ کیس کی سزاؤں کے خلاف بھی اپیلیں سننے سے انکار کر دیا تھا۔ (لارڈ میو کو سرجارج کیمبل کاخط ١٢ اکتوبر ١٨٧١ء اور ٣٠ نومبر ١٨٧١ء کو اے آرگل کی یادداشت کی اینڈکس نمبر ٢۔ میو کاغذات کا بنڈل وہابی نمبر ٢٨۔ کیمبرج یونیورسٹی لائبریری لندن۔ حوالہ شدہ پی ہار ڈی۔ برطانوی ہند کے مسلمان۔کیمبرج ١٩٧٢ء)

            برطانوی حکومت نے مسلمانوں کے خلاف سختیاں کیں۔ ان کو اپنا اصل دشمن گردانتے ہوئے بڑی شدت سے دبانے کی کوشش کی۔ انہوں نے باغی مسلمانوں کی چلائی ہوئی جہادی تحریکوں کو ختم کرنے کے لیے تمام وحشیانہ حربے استعمال کیے۔(١٨٧١ء کو نومبر تا دسمبر میں ارسال کردہ خطوط نمبر ٣١٧، میو پیپر ز نمبر ٤١ بنڈل وہابی١١)

            ٣٠مئی ١٨٧١ء کو وائسرائے لارڈ میو کو جو کہ ڈزرائیلی حکومت کا آئرش سیکرٹری تھا۔ایک مقامی سول ملازم  ڈبلیو۔ڈبلیو ہنٹر کو اس سلگتے مسئلے پر کہ ”مسلمان اپنے ایمان کی وجہ سے برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کے لیے مجبور ہیں ” ایک رپورٹ تیار کرنے کو کہا۔

(London, Page no.199  Life of Sir William Wilson Hunter(

            ہنٹر نے حقیقت حال تک رسائی کے لیے تمام خفیہ سرکاری دستاویزات کی جانچ پڑتال کی۔ ہنٹر نے اپنی رپورٹ ١٨٧١ء میں ”ہندوستانی مسلمان۔ کیا وہ شعوری طور پر ملکہ کے خلاف بغاوت کے لیے مجبور ہیں ” کے عنوان سے شائع کی۔ اس نے اسلامی تعلیمات خصوصاً جہاد کا تصور،نزول مسیح و مہدی کے نظریات، جہادی تنظیم کو در پیش مسائل اور  وہابی تصورات پر بحث کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ ”مسلمانوں کی موجودہ نسل اپنے مقاصد کی رُو سے موجودہ صورت حال (جیسی کہ ہے )کو قبول کرنے کی پابند ہے مگر قانون (قرآن ) اور پیغمبروں (کے تصورات )کو دونوں ہاتھوں سے یعنی وفاداری اور بغاوت کے لیے استعما ل کیا جا سکتا ہے اور ہندوستان کے مسلمان ہندوستان میں برطانوی راج کے لیے پہلے بھی خطرہ رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ اس دعوی کی کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتا کہ یہ باغی اڈہ (شمالی مغربی سرحد ) جس کی پشت پناہی مغربی اطراف کے مسلمانوں کے جتھے کر رہے ہیں ،کسی کی رہنمائی میں قوت حاصل کرے گا۔ جو ایشیائی قوموں کو اکھٹا اور قابو کر کے ایک وسیع محاربہ کی شکل دے دے۔”

اس کے علاوہ مزید لکھتا ہے  :

            ”ہماری مسلمان رعایا سے کسی پُر جو ش وفاداری کی توقع رکھنا عبث ہے۔ تما م قرآن مسلمانوں کے بطور فاتح نہ کہ مفتوح کے طور پر تصورات سے لبریز ہے۔ مسلمانانِ ہند ہندوستان میں برطانوی راج کے لیے ہمیشہ کا خطرہ ہو سکتے ہیں ”

The Indian Musalmans Calcutta 194

مذہبی انتہا پسندی

            ١٨٥٨ء میں ملکہ وکٹوریہ کے اعلان میں یہ کہا گیا تھا کہ مذہبی عقائد کی تبلیغ کے معاملے میں برطانوی حکومت غیر جانبدار رہے گی۔ اس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کئی مذہبی مہم جو ہندوستان کی مذہبی منڈی میں اپنے مال کے نمونے لے کر آ گئے۔”ہندوستانی مشرکین ” کو انجیل مقدس کا درس دینے والے عیسائی مبلغین برطانوی نوآبادیات کی اپنی پیدا وار تھے۔ہندوؤں کی مذہبی انتہا پسند تنظیموں آر یا سماج، برہمو سما ج اور دیو سماج نے اپنے نظریات کے احیا ء کے لیے پُر جوش طریقِ کار ایجاد کیے۔ سکھ، پارسی،جین مت اور بدھ مت والے نسبتاً کم جوش و خروش سے اپنے عقائد پھیلاتے رہے۔ صرف آزاد خیال اور دہریئے ایک آزاد معاشرے کے قیام کی وکالت اور مذہبی آزادی کی مذمت کرتے تھے۔مسلمانوں میں کئی فرقے اور ذیلی فرقے پھوٹ پڑے۔جن میں مادہ پرست،اہلِ حدیث،اہلِ قرآن (چکڑالوی)اور عدم تشدد پرست صوفی مشہور ہیں دو بڑے فرقے سنی اور شیعہ موجود تھے۔پوراہندوستانی معاشرہ کثیر تعداد ی چھوٹے چھوٹے مخالفانہ گروہوں میں بٹ گیا تھا جو ایک دوسرے کے سخت خلاف تھے۔اس فرقہ وارانہ لڑائی سے برطانوی سامراج کو ہندوستان میں اپنی حکومت کو مضبوط کرنے میں مدد ملی۔١٨٧٥ء میں مل شنکر نے جو کہ اپنے برہمنی نام ”سوامی دیانند ”سے مشہور تھا  ہندوستانی انتہا پسند تنظیم ”آریا سماج ”کی بنیاد رکھی۔ وہ ایک متعصب ہندو تھا اور انتہا پسند ہندو مت کا شمالی ہندوستان میں ایک چلتا پھرتا معلم تھا۔اس نے بت پرستی،کم سن بچوں کی شادیوں اور چھوت چھات کی جدید روشن خیالی کے نا م پر مذمت کی اور ویدوں کی خالص تعلیمات پیش کیں۔

آریہ سماجیوں کے خیال میں ایک ویدی معاشرے کی تشکیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہندوستان میں اسلام کا وجود تھا۔ سوامی ١٨٨٣ء میں وفات پا گیا۔وہ بدنام زمانہ کتاب ”ستیا رتھ پرکاش ”کا مصنف تھا۔ جو تمام غیر ہندو مذاہب کے خلاف تھی۔ راجہ رام موہن رائے (١٨٣٣ء۔ ١٧٧٢ء )نے ویدی معاشرے کی قدیمی خوبصورتی کو واپس لانے کے لیے برہمو سماج کی بنیاد رکھی، وہ عیسائیت سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ وہ ١٨٣٣ء میں انگلستان ایک سیاسی مقصد کے لیے گیا اور وہیں وفات پائی۔ اس تحریک نے اس وقت زور پکڑا جب ایک ہنگامی ہندو کیشب چندر سین (٨٤۔ ١٨٣٨ء ) نے بڑے فصیحانہ انداز میں یسوع مسیح کی توصیف کرتے ہوئے عیسائی مبلغین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی۔ وہ ١٨٧٠ء میں انگلستان گیا جہاں اس کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ وہاں اس کے کئی لیکچر کرائے گئے جن میں اس نے اپنے آپ کو ”مسیح علیہ السلام کا اوتار” قرار دیا اور اپنے سماج کو ہندو مت کا مصفیٰ کلیسا کہا۔جگدیش چندربوش اور رابندر ناتھ ٹیگور وغیرہ برہمو سماجی تھے۔ پنڈت ایس این اگنی ہوتری نے ہندو مت کے احیا ء کے لیے دیو سماج تحریک کی بنیاد رکھی۔ رام کرشنا مشن، پرارتھنا سماج اور بال گنگا دھر تلک مشن کا مقصد ہی زندگی کے تمام شعبوں میں ہندوؤں کی بالا دستی کا قیام تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ تمام غیر ہندوؤں خصوصاً مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال کر ایک ہندو معاشرے کا قیام عمل میں لایا جائے۔ تلک نے مرہٹہ رہنما شیوا جی، جو حضرت اورنگ زیب عالمگیر کا سخت مخالف تھا،کی تمام رسومات کو زندہ کیا اور جنوبی ہندوستان میں اس کے اعزاز میں کئی تقریبات منعقد کرائیں۔ عیسائی مبلغین نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں حد درجہ قوت و اثر حاصل کر لیا تھا۔ کمپنی کے میثاق ١٨١٣ء کی رو سے عیسائی مبلغین کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ایک لاٹ پادری تین ذیلی پادریوں کے ساتھ کلکتہ میں تعینات کیا گیا۔ اس کلیسائی ادارہ کے تمام اخراجات کی ذمہ دار”ایسٹ انڈیا کمپنی”تھی ہندوستان میں عیسائیت کے فروغ کی سرگرمیوں کو انگلستان کی ہر قسم کی حوصلہ افزائی حاصل تھی۔” ایسٹ انڈیا کمپنی ”کے بورڈ آف گورنر ز کے ایک رکن نے برطانوی دارالعلوم میں تقریر کرتے ہوئے کہا :

            ”پروردگار نے انگلستان کو ہندوستان کی وسیع و عریض سلطنت اس لیے عطا کی ہے کہ اس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مسیح کا پھریرا لہر ائے۔ہر ایک کو اپنی تمام قوت اس امر پر لگا دینی چاہیے کہ تمام ہندوستانیوں کو عیسائی بنانے کے عظیم کا م میں کسی بھی لحاظ سے کسی قسم کا تساہل یا تعطل پیدا نہ ہونے دے”۔

   Modern Religious Movements In India Page no.107

            ١٨١٣ء کے اسی میثاق کی رو سے اسی کلیسائی محکمے کے تمام اخراجات کمپنی کو ہونے ولے محاصل میں سے ادا کیے جانے تھے اور ١٩٤٧ء تک ایسا ہی ہوتا رہا۔ان مبلغین کو عیسائی تبلیغی سر گرمیوں کے حامیوں سے ملنے والے رضاکارانہ چندوں سے رقم ملتی رہی  ١    ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور حکومت میں عیسائیت مکمل طور پر شہنشاہیت اور تجارت کے ساتھ نتھی کر دی گئی تھی۔سلطنت کے مفادات کے تحفظ کے لیے ”عیسائی تبلیغی مراکز ”مسلح دربان کا کام دیتے رہتے عیسائیت، تجارت اور نو آبادیات کی تثلیث نے سلطنت کے مقاصد کی ہمیشہ نگہبانی کی۔

Brain Gardner, The East India Company London,1971,Page No.1

            ١٨٥٧ء کی جنگ آزادی کی ایک اہم وجہ چند جنونی عیسائی مبلغین کی شروع کردہ جارحانہ مہم بھی تھی۔ جنگ کے بعد اس مہم نے مختلف شکل اختیار کر لی۔ اس بات پر زیادہ زور دیا گیا کہ جن علاقوں میں تبلیغی مراکز بند ہو چکے تھے وہاں بھیجنے کے لیے مقامی آلہ کاروں کو خریدا جائے۔”کلیسائی تبلیغی مجلس لندن”نے ہندوستان میں مبلغین بھجوائے اور ان کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے حکومت کی مدد حاصل کر لی (جان بیلی۔خدا کا بدلہ یا انگلستان کی ہندوستان میں مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے ذمہ داری۔ لندن ١٨٥٧ء۔مذاہب ہندوستان۔ کلیسائے انگلستان کا سہ ماہی ریویو ٤٤ ١٨٥٨۔جان جپسپ۔ ہندوستان بغاوت نمبر ٦٢۔١٨٥٨ء )ہندوستان کے طول و عرض میں ٢١ مختلف عیسائی کلیساء کام کر رہے تھے۔ عیسائی آبادی کا بڑا حصہ رومن کیتھولک تھا۔ جن کی تعداد پانچ لاکھ کے قریب تھی۔اس کے بعد فرقہ معترضہ (ایک لاکھ بیس ہزار )، فرقہ اصبطاغی(٨١٠٠٠ )، کلیسائے انگلستانی کے پیرو کار (٤٩٠٠٠)تھے۔کئی چھوٹے گروہ جیسے امریکی، آرمینیائی، متبعین مجلس، کالو یانی، غیر مقلدین، اسقفیائی،آزاد،لو تھری،اصول پسند،شام کے یونانی، ویزلیائی مبلغین نے بھی ہندوستانیوں کو عیسائیت کا پرچار کیا۔انیسویں صدی کے اختتام تک برطانوی اور دیگر یور پیوں سمیت ہندوستان میں عیسائی آبادی تقریباً ٢٠ لاکھ کے قریب تھی۔  ٣

مسلمانوں کا رد عمل

            ١٨٥٧ء کے پُر آشوب واقعہ کے بعد مسلمانان برصغیر اپنے سیاسی و معاشی حقوق کی سر توڑ کوشش کر رہے تھے  انگریز  انہیں دبانے پر تلے ہوئے تھے۔ سر سید احمد خاں نے ان کی رہنمائی کی ان کا نسخہ یہ تھا کہ جدید تعلیم حاصل کی جائے۔

Brain Gardner, The East India Company London,1971,Page No.251Page

Page 388 See Klaus Knorr, British Colonial Theories (1570-1850)

H.J.S. Cotton, New India  Vol.1 Page No.33

راسخ العقیدہ مسلمانوں نے جو کہ انگریزوں سے متنفر تھے اور ہندوستان کی شمال مغربی سرحد پران کے خلاف جنگ آزادی   کے لیے برسر پیکار تھے۔ان کے بتائے گئے طریقے کو قبول نہ کیا۔علماء نے ان کی تاج برطانیہ سے وفاداری کی وکالت،  آزاد مشرب تفسیر قرآن، خصوصاً ان کے حیات مسیح علیہ السلام کے بارے میں نظر یہ، نزول مہدی علیہ السلام، جہاد، ہندوستان کو دارالسلام مانتے وغیرہ نظریات کی سختی سے تنقید اور مذمت کی۔ تمام مکاتب فکر کے علما ء خصوصاً سید احمد شہید کے پیرو کاروں (دیوبندیوں ) نے اس موقف کا بھر پور اعادہ کیا کہ برطانوی سامراج نے ہندوستان پر بزور قوت قبضہ کیا ہے اور یہ ”دار الحرب ”ہے۔اگرچہ کئی معاملات میں انہوں نے انگریز سے براہ راست اور کھلی ٹکر لینے سے احتراز کیا۔کئی مفکرین مثلاً مولوی چراغ علی دکنی (٩٥۔١٨٤٤ء ) نے ہندوستان کو دار الحرب نہ دارالسلام بلکہ محض دار الامن قرار دیا۔

A Critical exposition of popular Jehad,Calcutta,1855,Page No.159-160

            وہ علماء جنہوں نے ہندوستان کو دار الحرب قرار دیا تھا۔ انہوں نے کبھی بھی انگریزوں کے ساتھ سماجی میل جول کی حمایت نہیں کی۔ وہ برطانوی راج کے قیام کے متعلق اپنے آپ کو کبھی قائل نہ کر سکے۔

            مسلمان علماء کی طرف سے عیسائی مبلغین کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ کیرانہ کے مولانا رحمت اللہ، آگرہ کے ڈاکٹر وزیر خان،لکھنؤ کے مولانا عبدالباری،مولانا آل حسن اور مولانا محمد علی بچراوی نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں عیسائی مبلغوں کے اعتراضات کے عالی شان جواب دیے لیکن عیسائی مبلغین کے جارحانہ دھاوے کے خلاف یہ زیادہ تر مدافعانہ جنگ تھی۔

غداروں کا خاندان

            احمدیہ تحریک کے بانی مرزا غلام احمد کا تعلق پنجاب کے ایک مغل گھرانے سے تھا۔سکھ حکمرانوں نے ان کے پردادا مرزا گل محمد کو آبائی علاقے قادیان سے نکال دیا تھا۔ جس نے اس وقت پنجاب کے حکمران راجہ رنجیت سنگھ کے ایک مخالف سردار فتح سنگھ کے دربار میں اپنے اہل و عیال سمیت پناہ لے لی۔فتح سنگھ کے مرنے کے بعد رنجیت سنگھ نے اس کے علاقے بھی قبضہ میں لے لیے۔ مرزا غلام احمد کے باپ مرزا غلام مرتضیٰ اور ان کے چچا مرزا مرزا غلام محی الدین نے سکھ فوج میں شامل ہو کر سکھوں کے مظالم کے خلاف شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کی تحریک آزادی کو کچلنے میں سرگرمی سے حصہ لیا۔مرزا مرتضیٰ نے شمال مغربی ہند میں سید احمد شہید کے ساتھیوں اور ان کشمیری مسلمانوں کو شہید کیا جو سکھوں کے اقتدار کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔رنجیت سنگھ نے کشمیر پر ١٨١٨ء میں اور  پشاور پر ١٨٢٣ء میں قبضہ کیا۔

            ١٨٣٤ء میں اس کی”بیش بہا ”خدمات کے عوض رنجیت سنگھ نے قادیان میں اس کے پانچ گاؤں بحال کر دئیے۔اگلے سال رنجیت سنگھ نے وفات پائی۔اس کی وفات کے بعد مرکزی قوت کمزور پڑنے لگی اور انگریزوں کا اثر و نفوذ بڑھنے لگا۔ مرزا مرتضیٰ نے انگریزوں کی طرف داری کی۔وہ سکھ دربار میں انگریزوں کا قابل اعتماد آلہ کار بن گیا۔جب سکھوں کو اس بات کا علم ہو گیا تو انہوں نے اسے اور اس کے بھائی مرزا غلام محی الدین کو قتل کرنے کی کوشش کی،مگر یہ اپنے چھوٹے بھائی مرزا غلام حیدر کی مداخلت کے باعث بچ گئے۔

            ١٨٥٧ء کی جنگ آزادی میں خدمات سر انجام دینے والے وفادار گھرانوں کی دستاویز تیا ر کرتے ہوئے ”روسائے پنجاب ”نامی کتاب میں سرلیپل گریفن غلام مرتضیٰ کی خدمات کے بارے میں مندرجہ ذیل خیالات پیش کرتا ہے  :

دربار نو نہال سنگھ اور شیر سنگھ کے وقت مرزا غلام مرتضیٰ کو سر گرم خدمت پر رکھا گیا۔١٨٤١ء میں وہ جنرل ونٹورا کے ساتھ منڈی اور کولو بھیجا گیا اور ١٨٤٣ء میں ایک پیادہ رجمنٹ کے ساتھ پشاور بھیجا گیا۔اس نے ہزارہ میں بغاوت کے وقت اپنے آپ کو ممتاز کیا اور جب ١٨٤٨ء کی بغاوت پھوٹ پڑی تو وہ حکومت کا وفادار رہا اور اس کی طر ف سے لڑتا رہا۔اس کے بھائی غلام محی الدین نے بھی اس وقت بیش قیمت خدمات سرانجام دیں۔دیوان ملراج کی امداد کے لیے جب بھائی دیوان سنگھ اپنے فوجی دستوں کے ساتھ ملتان جا رہا تھا تو مرزا غلام محی الدین نے دوسرے جاگیر داروں لنگر خان ساہیوال اور صاحب خان ٹوانہ کی مدد سے مسلمان آبادی کو ساتھ ملا لیا اور صاحب دیال کی فوج کے ساتھ باغیوں پر حملہ کیا اور انہیں مکمل شکست دیتے ہوئے چناب میں دھکیل دیا جہاں چھ سوسے زائد افراد ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔

Mirza Ghulam Ahmad Qadiani, Kitab-ul-Baryah, Qadian p.143

            مارچ ١٨٤٩ء میں جب انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کیا تواس گھرانے کی تمام جاگیریں تو بحال نہ کی گئیں مگر سا ت سو روپے کی پنشن،قادیان اور قریبی دیہاتوں کے مالکانہ حقوق مرزا غلام مرتضیٰ اوراس کے بھائی کو دیے گئے۔

See Abdul Rahim Dard Qadiani, Life of  Ahmad, Lahore 1948, p.13

            انگریزوں کے پنجاب کے الحاق کے دو ماہ بعد جون ١٨٤٩ء میں مرزا غلام مرتضیٰ نے پنجاب کے مالیاتی کمشنر جے۔ایم۔ ولسن کو خط لکھا جس میں پنجاب کے الحاق کے موقع پر ا س کے خاندان کی طرف سے کی گئی خدمات کے عوض مدد کی استدعا کی گئی تھی۔١١ جون ١٨٤٩ء کو ولسن نے جواب دیا۔

میں نے تمہاری درخواست کا بغور جائزہ لیا ہے جس نے مجھے تمہاری اور تمہارے خاندان کی ماضی کی خدمات اور حقوق یاد دلا دیئے ہیں۔ مجھے بخوبی علم ہے کہ برطانوی حکومت کے قیام سے لے کر تم اور تمہارا خاندان یقیناً مخلص،وفادار اور ثابت قدم رعایا رہے ہو اور تمہارے حقوق واقعی قابل لحاظ ہیں۔تمہیں ہر لحاظ سے پر امید اور مطمئن رہنا چاہیے کہ حکومت برطانیہ تمہارے خاندانی حقوق  اور خدمات کو کبھی فراموش نہیں کرے گی اور جب بھی کوئی سازگار موقع آیا ان کا خیال کیا جائے گا۔تم ہمیشہ سرکار انگریزی کا ہوا خواہ اور جاں نثار رہو کیونکہ اسی میں سرکار کی خوشنودی اور تمہاری بہبودی ہے۔

Mirza Ghulam Ahmad, Kashful Ghata, Ziaul-Islam Press Qadian1898,p.

            ١٨٥٧ء کی جنگ آزادی نے پنجاب کے وفادار خدمت گاروں کو موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے برطانوی آقاؤں کو اپنی خدمات پیش کرسکیں۔ ہماری تاریخ کے اس کڑے دور میں مرزا کے گھرانے کی طرف سے انگریزوں کو پیش کی گئی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے سر لیپل گریفن لکھتا ہے  :

١٨٥٧ء کی بغاوت کے دوران مرزا کے گھرانے نے بہترین خدمات سرانجام دیں۔مرزا غلام مرتضیٰ نے کئی آدمی بھرتی کیے اور اس کا بیٹا غلام قادر جنرل نکلسن کی فوجوں میں خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ جب اس نے چھیالیس مقامی پیادوں کے باغیوں کو تباہ کیا جو سیالکوٹ سے تریموں گھاٹ فرار ہو گئے تھے۔جنرل نکلسن نے غلام قادر کو ایک سند عطا کی جس میں یہ لکھا تھا کہ ١٨٥٧ء میں مرزا کے گھرانے سے بڑھ کر ضلع میں کسی اور نے اتنا وفاداری کا ثبوت نہیں دیا”

 See Abdul Rahim Dard Qadiani, Life of  Ahmad, Lahore 1948, p.

            دلی میں حریت پسندوں کی طرف سے جنرل نکلسن کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔عبدالرحیم درد بیان کرتا ہے  :

            ”جنرل نکلسن کے ذہن پر قائم شدہ وفادارانہ ا ور سرگرم تاثر جو مرزا کے گھرانے نے چھوڑا اور جس کا تذکرہ سرجان لارنس نے اپنی جنگ آزادی کی روداد”جنرل نکلسن کے بغیر دلی فتح نہیں ہو سکتاتھا” میں کیا ہے کی حقیقت حال اس نیچے دئیے گئے خط سے معلوم کی جا سکتی ہے جو اس نے اپنی موت سے ایک ماہ قبل اگست ١٨٥٨ء کو مرزا غلام قادر کو لکھا  :

جیساکہ تم نے اور تمہارے گھرانے نے عظیم ترین اخلاص اور وفاداری سے ١٨٥٧ء کی بغاوت کو کچلنے میں تریمو گھاٹ، میر تھل اور دوسری جگہوں پر حکومت کی امداد کی ہے اور اپنے آپ کو حکومت کا مکمل وفادار ثابت کیا ہے اور اپنی جیب سے پچاس سواروں اور گھوڑوں سے حکومت کی امداد کی ہے لہٰذا تمہاری وفاداری اور بہادری کے اعتراف میں تمہیں یہ پروانہ جاری کیا جاتا ہے جسے تم سنبھال کر رکھنا۔حکومت اور اس کے اہل کار ان ہمیشہ تمہاری خدمات،حقوق اور اخلاص جوتم نے حکومت کے بارے میں دکھلایا ہے کا ہمیشہ خیال رکھیں گے۔باغیوں کو کچلنے کے بعد میں تمہارے گھرانے کی بہبود کی طرف خیال کروں گا۔میں نے گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر مسٹر نسبت کو لکھا ہے جس میں تمہاری خدمات کی طرف اس کی توجہ مبذول کروائی ہے۔

See Abdul Rahim Dard Qadiani, Life of  Ahmad, Lahore 1948, p.

            وہ ١٨٥٧ء کی بد نصیب جنگ کے خاتمے پر برطانوی آقاؤں کی جانب سے دو سو روپے مالیت کی ایک خلعت اور ایک سندسے نوازا گیا۔گورنر کے دربار میں اسے ایک کرسی بھی عطا کی گئی۔

            نیچے رابرٹ کسٹ کمشنر لاہور کی جانب سے ٢٠ستمبر ١٨٥٨ء  کو لکھے گئے اس توصیفی خط کا متن ہے جو اس نے مرزا غلام مرتضیٰ کو لکھا  :

رابرٹ کسٹ صاحب بہادر کمشنر لاہور

تہور و شجاعت دستگاہ مرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان بعافیت باشند

            از اینجاکہ ہنگام مفسدہ ہندوستان موقوعہ١٨٥٧ء از جانب آپ کے رفاقت و خیر خواہی ومدد دہی سرکار دولت مدار انگلشیہ درباب نگاہ داشت سواراں وبہمر سانی اسپاں بخوبی بمنصہ ظہور پہنچی اور شروع مفسدہ سے آج تک آپ بہ دل ہوا خواہ سرکا ر رہے اور باعث خوشنودی سرکار ہوا۔لہٰذا بدلے اسی خیر خواہی اور خیر سگالی خلعت مبلغ دوسوروپے سرکار سے آپ کو عطا ہوتا ہے اور حسب منشا چھٹی صاحب چیف کمشنر بہادر نمبری ٥٧٦ مورخہ ١٠ اگست١٨٥٧ء پروانہ ہذا با اظہار خوشنودی سرکار و نیک نامی وفاداری بنام آپ کے لکھا جاتا ہے۔

Ghulam Ahmad, Shahadat-ul-Quran, Punjab Press Sialkot,1893. p.

            سر ظفر اللہ بیان کرتا ہے کہ مرزا غلام مرتضیٰ نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں فوج میں شمولیت اختیار کی اور کئی لڑائیوں میں اعزازات حاصل کیے۔بعد ازاں اس نے اور اس کے بڑے بیٹے مرزا غلام قادر نے انگریزوں کے لیے قابل تعریف خدمات سرانجام دیں جن کو حکام نے باقاعدہ پسند کیا۔

Sir Zafarullah, Essence of Islam, vol.1,London,1979,p.viii

            ١٨٧٦ء میں مرزا غلام مرتضیٰ نے وفات پائی۔

See Qazi Fazal Ahmad’s Kalma-e- Rabani,Lahore,1893

اس کے مرنے کے بعد اس کے بڑے بیٹے مرزا غلام قادر        نے کمشنر مالیات پنجاب رابرٹ ایجرٹن کو اپنے والد کی مو ت کی اطلاع دیتے ہوئے اور برطانوی شہنشاہیت کے لیے اپنے خاندان کی خدمات پیش کرتے ہوئے خط لکھا۔اس نے اپنی خدمات کی بنا پر کچھ مدد کی درخواست کی۔مرزا غلام احمد کی کتاب ”کشف الغطاء”میں ٢٩ جون ١٨٧٦ء کو ایجرٹن کی طرف سے غلام قادر کو دیا گیا جواب یوں ہے۔

سررابرٹ ایجرٹن فنانشل کمشنر پنجاب

مشفق مہربان دوستاں مرزا غلام قادر ریئس قادیان حفظہ

            آپ کا خط دو ماہ حال کا لکھا ہو ا ملاحظہ حضور ایں جانب میں گزرا۔مرزا غلام مرتضیٰ صاحب آپ کے والد کی وفات سے ہم کو بہت افسوس ہوا۔ مرزا غلام مرتضیٰ سرکار انگریز کا اچھا خیر خواہ  اور وفاداررئیس تھا۔ہم آپ کی خاندانی لحاظ سے اسی طرح عزت کریں گے۔جس طرح تمہارے باپ وفادار کی کی جاتی تھی۔ ہم کو کسی اچھے موقع کے نکلنے پر تمہارے باپ کی وفاداری کی بہتری اور پابجائی کا خیال رہے گا۔

المرقوم٢٩ جون ١٨٧٦ء

سررابرٹ ایجرٹن صاحب بہادر

فنانشل کمشنر پنجاب

Mirza Ghulam Ahmad, Kashful Ghata, Qadian 1898, p.5

سوانحی خاکہ

            مرزا غلام احمد ١٣ فروری ١٨٣٥ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۔چھ سال کی عمر میں انہیں ایک نجی استاد کے حوالے کر دیا گیا جس نے انہیں قرآن پاک اور فارسی پڑھائی۔دس سال کی عمر میں ایک عربی استاد نے انہیں عربی زبان اور قواعد پڑھائے۔ ١٧ سال کی عمر میں ایک تیسرا استاد رکھا گیا جس نے انہیں عربی،علم نحو،منطق اور طب کی تعلیم دی۔

Muhammad Yaqoob Khan,Quest after God (Glimpses of the life of Mirza Ghulam Muhammad) Anjuman Ahmadia,Lahore,1949 Page 17

            اوائل عمری میں ہی ان کے باپ نے ان کو اپنے نقش قدم پر چلا لیا جو کہ انگریزوں کی خدمت کر کے بڑے صبر کے ساتھ اپنی کھوئی ہوئی جائیداد کے دوبارہ حصول کا خواہش مند تھا جس سے صرف اس گھرانے کی زرعی ضروریات ہی پوری ہوتی تھیں۔مرزا غلام احمد نے قادیان کی کھوئی ہوئی جاگیروں کے حصول میں بیکار طور پر عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے۔

Tarikh-i-Ahmadya, Vol.l, Compiled by Dost Muhammad Shahid, Rabwah.

            وہ اس کام میں بری طرح ناکام ہوئے اور ان کے با پ نے انہیں بالکل بیکار شخص سمجھنا شروع کر دیا۔ آخر کار    ١٨٦٤ء میں ان کے باپ نے سیالکوٹ کچہری میں انہیں اہلمد (کلرک ) کی معمولی نوکری دلوا دی جسے انہوں نے قبول کر  لیا۔اپنے سیالکوٹ میں قیام کے دوران وہ قانون کے امتحان میں بیٹھے مگر اس میں بری طرح ناکام ہوئے۔ سیالکوٹ میں وہ چار سال تک (٦٨۔ ١٨٦٤ء ) ٹھہرے۔وہاں ان کے عیسائی مبلغین خصوصاً سکاٹ لینڈ کے پادریوں کے ساتھ قریبی تعلقات پیدا ہو گئے جن کے ساتھ انہوں نے مذہبی اور سیاسی معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔

            ١٨٥٧ء کی جنگ کے بعد عیسائی مبلغین پنجاب میں ہجوم در ہجوم آئے کیوں کہ یہ خطہ برطانوی نو آبادیاتی حکمت عملی میں خاص اہمیت اختیار کر چکا تھا۔

Mirza Bashir Ahmad,Seerat.ul.Mahdi,P.135

            جنگ آزادی کے بعد کے دور میں عیسائی مبلغین نو آبادیاتی کھیل میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے لیے بڑی سرگرمی سے جنگ آزادی کی اہم مذہبی،سماجی،معاشی اور سیاسی وجوہات کا مطالعہ کر رہے تھے اورہندوستانی سیاست میں ابھرنے والے رجحانات کا جائزہ لے رہے تھے۔

See Frederick Henry Copper, The Crises In The Punjab from the 10th of May until the fall of Dehli,London,1858

            ١٨٥٨ء سے لے کر ١٨٧٠ء کے درمیانی سالوں میں جنگ آزادی کی وجوہات پر بہت سے مطالعات کیے گئے اور ان سوالوں پر بحث کے لیے بہت سے تبلیغی اجتماعات منعقد کیے گئے۔ایسا ہی ایک اجتماع دسمبر ١٨٦٢ء میں پنجاب میں منعقد ہوا۔اس میں ٣٥عیسائی مجالس اور ان کے نمائندوں کے علاوہ اعلیٰ مقامی و فوجی افسران اور کثیر تعداد میں با اثر لوگوں نے شرکت کی۔اگرچہ سرکاری حلقوں میں کافی لے دے ہوئی کہ آیا ایسا اجتماع منعقد ہونا چاہیے کہ نہیں۔

The Indian Crisis, A Special General Meeting of the Church Missionary Society at Exeter Hall, on Thursday,January12th,1858, London

The History of Church Missionary Society, London,1899 Vol. II P.2

            ١٨٦٩ء میں بغاوت کی وجوہات جاننے اور سلطنت کے احکامات کے لیے تجاویز دینے کے لیے مسیحی مبلغین پر مشتمل ایک نجی جماعت نے ہندوستان کا دورہ کیا۔اس گروہ نے بہت سی جگہوں کا دورہ کیا اور ان سیاسی و مذہبی مسائل کا جائزہ لیا جنہوں نے ہندوستان میں برطانوی راج کے لیے ایک مستقل خطرہ پیدا کر دیا تھا۔ابتدائی معلومات حاصل کرنے کے لیے اعلیٰ برطانوی حکام جو انتظامی اور فوجی عہدوں پر متمکن تھے ان سے مشورے کے لیے اجلاس منعقد کے اور خفیہ محکمے کے اہل کاروں کے ساتھ مباحثے کیے۔ اس کے نتیجے میں ١٨٧٠ء میں لندن میں ایک اجتماع منعقد ہوا جس میں اس گروہ کے نمائندوں کے علاوہ اہم تبلیغی عہدیداران نے شرکت کی۔اس جماعت اور مبلغین نے اپنی علیحدہ علیحدہ رپورٹیں پیش کیں۔نتیجۃً یہ دونوں قسم کی اطلاعات ایک خفیہ اور رازدارانہ دستاویز کے طور پر نجی استعمال کے لیے ”ہندوستان میں برطانوی شہنشاہیت کی آمد ”کے عنوان سے چھاپ دی گئیں۔  ٧   اس اطلاع میں سے ایک اقتباس نیچے دیا جاتا ہے جس میں ایک پیغمبر کی ضرورت بیان کی گئی ہے،جو برطانوی سامراجیت کے فاسدانہ سیاسی منصوبوں میں استعمال ہوسکے۔

Adu Mudassara, Qadian Say Israel Tak,Lahore,1979, P.24

ملکی آبادی کی غالب اکثریت اپنے پیروں کی اندھا دھند پیروی کرتی ہے۔اگر ا س مرحلے پر ہم کسی ایسے شخص کو ڈھونڈ نے میں کامیاب ہو گئے جو اپنے آپ کو ظلی نبی کے طور پر پیش کر دے تو لوگوں کی کافی تعداد اس کے ارد گرد اکٹھی ہو جائے گی لیکن اس مقصد کے لیے عوام میں سے کسی ایک کو راضی کرنا بہت مشکل ہے اگر یہ مسئلہ حل ہو جائے تو ایسے شخص کی نبوت حکومت کی سر پرستی میں پروان چڑھ سکتی ہے۔ہم پہلے ہی مقامی حکومتوں کو غداروں کے ذریعے قابو کرنے کی حکمت عملی سے کام لے چکے ہیں ،مگر یہ ایک مختلف مرحلہ تھا۔ کیونکہ غداروں کا تعلق عسکری نقطہ نظر سے تھا،مگر اب جب کہ ملک   کے ہر مقام پر ہمارا اقتدار قائم ہے اور ہر جگہ پرامن و امان ہے ہمیں ملک کے اندر اندرونی بے چینی پیدا کرنے کے لیے اقدامات اختیار کرنے ہوں گے۔

            اس وقت جب برطانوی آلہ کار وفاداروں کی تلاش میں تھے مرزا سیالکوٹ میں متعین سکاٹ لینڈ کے ایک مبلغ بٹلر ایم۔اے سے قریبی دوستی پروان چڑھانے میں مصروف تھا۔وہ دونوں اکثر ایک دوسرے سے ملتے اور مذہب اور ہندوستان میں برطانوی حکومت کو در پیش مسائل پر بحث اور تبادلہ کرتے۔بٹلر نے اسے کھلے عام عزت اور احترام بخشا۔

Files of church of England Magazine, Church of England Quarterly               Review, Church Missionary Intelligence and Church  Missionary Record

اگرچہ یہ ایک غیر ملکی تبلیغی سربراہ اور بر سر اقتدار جماعت کے رکن سے ایسابمشکل ہی متوقع تھا۔مرزا محمود جو کہ مرزا کا بیٹا اور قادیانی گروہ کا ١٩١٤ء سے ١٩٦٤ء تک سر خیل رہا اپنے باپ کے بٹلر سے تعلقات کی نوعیت بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے :

            ”اس وقت پادریو ں کا بہت رعب تھا،لیکن جب سیالکوٹ کا انچارج مشنری ولایت جانے لگا تو حضر ت صاحب سے ملنے کے لیے خود کچہری آیا۔ڈپٹی کمشنر اسے دیکھ کر اس کے استقبال کے لیے آیا اور دریافت کیا کہ آپ کس طرح تشریف لائے۔کوئی کام ہو تو ارشاد فرمائیں ،مگر اس نے کہا میں صرف آپ کے اس منشی سے ملنے آیا ہوں۔یہ ثبوت ہے اس امر کا کہ آپ کے مخالف بھی تسلیم کرتے تھے کہ یہ ایک ایسا جوہر ہے جو قابل قدر ہے۔

Mirza Mahmud Ahmad Seerat-e-Masih-e-Maood,Rabwah,P.15

Mirza Mahmud Ahmad’s Address, Alfazal Qadian, 24 April,1934

            مرزا صاحب کے لیے ١٨٦٨ء کا سال فیصلہ کن ثابت ہوا۔ایک عربی محمد صالح کا ہندوستان آنا ہوا جس کا سیاسی مقصد تھا۔وہابیوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے صورت حال اس وقت خاصی تشویشناک تھی۔انگریزوں کے لیے پنجاب جیسے اہم خطے میں ایک عرب محرک کی موجودگی گھمبیر مسائل کھڑے کر سکتی تھی۔پنجاب پولیس نے اسے امیگریشن ایکٹ کی خلاف ورزی اور جاسوسی کے الزامات میں گرفتار کر لیا گیا۔  ١١   سیالکوٹ کچری کے ڈپٹی کمشنر (پر کنز ) نے تفتیش شروع کی۔مرزا صاحب کی عربی کے ترجمان کے طور  eview, پر خدمات حاصل کی گئیں۔عرب کے ساتھ بحث کے دوران مرزا صاحب نے ہندوستان میں برطانوی حکومت کے جواز میں زور دار بحث کی اور اس کا دفاع کیا۔اپنی بلاغت کے زور پر انہوں نے اپنے برطانوی آقا کی نظروں میں اپنی اہمیت ثابت کر دی۔پر کنز نے کچہری کے ایک ملازم کی صورت میں ایک مفید اور وفادار آلہ کار تلاش کر لیا۔جو سلطنت کے مقصد کے لیے استعمال ہو سکتا تھا اگر اسے اس کام پر لگا دیا جائے۔ پرکنز ایک فری میسن تھا اور لاہور کے” لاج آف ہوپ” کا ایک رکن تھا۔مرزا صاحب نے ١٨٦٨ء میں بغیر کسی واضح وجہ کے سیالکوٹ کچہری میں اپنی ملازمت چھوڑ دی اور قادیان میں قیام پذیر ہو گیا۔ جس روز مرزا صاحب نے قادیان کو روانگی اختیار کی اس دن احترام کے طور پرپر کنز نے کچہری میں تعطیل کر دی۔

Dr Basharat Ahmad, Mujadid-i-Azam,Lahore 1939,P.42

Address of Abdul Mannan Omer at the Annual Gathering of December19, Ahmadiya Anjuman Lahore 1981,p.12

            ١٨٦٨ء میں مرزا غلام احمد کی والدہ چراغ بی بی عرف گھسیٹی وفات پا گئی۔اُسے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مکمل طور اپنے والد کی رقم پر انحصار کرنا پڑا۔اسے عدالتوں میں حاضری کے لیے ڈلہوزی اور دوسری جگہوں پر سفر کرنا پڑتا۔اس نے خاموشی سے تمام سختیوں کا مقابلہ کیا اور اپنے مذموم مقصد کو کبھی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیا۔١٨٧٦ء میں مرزا غلام مرتضیٰ کی وفات نے اس کے بیٹوں مرزا غلام قادر اور مرزا غلام احمد پر مزید مشکلات لا ڈالیں۔اپنی زندگی کے دوران مرزا غلام مرتضیٰ نے اپنے جدی رشتہ داروں کی جائیداد پر غاصبانہ قبضہ کیے رکھا جو قادیان میں واقع تھیں۔اس کی وفات کے بعد غلام قادر کو وہ جائیداد مل گئی اور مرزا غلام احمد اس کا رفیق جرم بن گیا۔١٨٧٧ء میں مرزا غلام مرتضیٰ کی وفات کے ایک سال بعد مرزا قاسم بیگ کے بیٹے مرزا غوث جو کہ قادیان کی جدی املاک کے نصف کا اکیلا وارث تھا۔ جس سے مرزا غلام مرتضیٰ نے اسے محروم رکھا تھا،عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔اسے پتا تھا کہ مرزا برادران اسے حصہ دینے پر رضامند نہیں ہوں گے۔ اس نے لاہور میں متعین ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر مرزا اعظم بیگ کو اپنی جائیداد کا حصہ فروخت کر دیا۔ اعظم بیگ کی مالی معاونت کے بعد اس نے پنجاب کی اعلیٰ عدالت جو دیوانی اور فوجداری مقدمات میں مجاز سماعت مرافعہ تھی مقدمہ جیت لیا۔ مرزا برادران کے پاس اپنے دفاع میں اس دلیل کے علاوہ کوئی ثبوت نہ بچا تھا کہ وہ آبائی جائیداد کی منتقلی اور فروخت کے لیے اسلامی قوانین وراثت کی بجائے محض رسومات و رواجات کے پابند ہیں۔ مرزا غوث کو اس کے حقیقی جائیداد کے حصہ سے محروم کرنے کی مرزا غلام قادر اور مرزا غلام احمد کی یہ ایک عیارانہ چال تھی۔مرزا غوث کی جائیداد کے حصہ کو ہتھیانے کے لیے مرزا غلام احمد نے جو کہ بعد میں نبوت اور اسلام کی علمبرداری کا ٹھیکیدار بنا،اسلامی قوانین کی بجائے خاندانی رسوم کو ترجیح دی۔ روایات کے مطابق مرزا غوث صرف بیٹے کی شادی پر جائیداد فروخت کر سکتا تھا یا اور کسی قابلِ جواز ضرورت پر ایسا کر سکتا تھا۔ چونکہ وہ بے اولاد تھااوردوسری کوئی ذاتی ضرور ت پیش نہ تھی اس لیے وہ اپنی جائیداددوسروں کو فروخت نہیں کر سکتاتھا۔ عدالت نے مرزا برادران کی یہ دلیل مسترد کر دی اور فیصلہ مرزا غوث کے حق میں کر دیا۔

            طویل مقدمہ بازی نے مرزا گھرانے کو مالی مصائب کے کنارے تک پہنچا دیا تھا۔غلام قادر جائیداد کا نقصان اورشکست کی ذلت برداشت نہ کر سکا اور ١٨٨٣ ء میں وفات پاگیا۔بقیہ جائیداد کا اختیار اس کی بیوہ کو حاصل ہو گیا۔مرزا غلام احمد کی خاندانی معاملات میں بہت کم سنی جاتی تھی مگر وہ اپنی الگ ”سلطنت ” کے قیام میں مصروف تھا۔مرزا غلام احمد کا کہنا ہے کہ اپنے والد کی وفات کے بعد اس نے پُر مصائب زندگی گزاری۔وہ حقیقی طور پر ایک قلاش اور معنوی طور پر ایک مایوس آدمی تھا۔اس کے بڑے بھائی نے تمام جائیداد کا اختیار سنبھالے رکھا اور اس کی آمدنی کو اپنی فلاح میں صرف کیا اور مرزا صاحب کو ایک رسالہ کے چندے کے طور پر چند روپے دینے سے انکار کر دیا۔غلام قادر کی بیوہ بھی مرزا کے لیے اتنی ہی سخت تھی اور اس سے سخت نفرت کرتی۔مرزا غلام احمد کی بیوی حرمت بی بی نے بھی اس کے ساتھ بڑا سخت وقت گزارا، کیوں کہ مرزا صاحب بیماری،نفسیاتی عدم توازن اور مالی مشکلات کا شکار تھے۔ان سالوں میں اس کے ساتھ جو سلوک ہوااس نے اس کی مستقبل کی ز ندگی پربڑا اثر چھوڑا اس کی جھلک اس کے مستقبل کے دعووں میں بھی نظر آتی ہے۔

In 1879,his close friend Mulana Muhammad Hussain Batalvi  wrote a         book against jehad  and got a reward from the British (supplement Ishat-ul-Sunnah,Lahore vol.viii no.9 pp261-262

            ١٨٨٠ء کے اخیر تک وہ اپنی کتاب ”براہین احمدیہ ” کی  تدوین میں پورے طور پر مصروف رہا۔ ١٨٨٣ء میں اس کے بڑے بھائی غلام قادرکی وفات نے اس کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا اور وہ اپنے پسندیدہ مقصد یعنی نبوت کے دعوے کی طرف بڑی تیزی سے بڑھا۔برطانوی راج کی اطاعت گزاری اور جہاد کی مذمت (١٨٧٩ء میں اس کے ایک قریبی دوست محمد حسین بٹالوی نے جہاد کے خلاف ایک کتاب لکھی اور برطانویوں سے انعام حاصل کیا) اس کی تحریروں سے عیاں تھی  ١٣۔ وہ اپنے فرضی منصبی کو پورے خلوص سے پورا کرتا رہا۔ہندوستان میں اور دنیا کے دوسرے حصوں میں نو آبادیاتی راج کے استحکام کے لیے سر انجام دی گئی اپنی خدمات پر متفخر رہا۔

ہوشمند کذاب

            مرزا غلام احمد نے بڑی عیاری کے ساتھ اپنا کام شروع کیا۔اپنا کام شروع کرنے سے پہلے مرزا صاحب نے کچھ الہامات اور وحی کے نمونے پیش کیے جن کے بارے میں اس کا دعویٰ تھا کہ یہ خدا کی جانب سے ہیں۔اس کے بیانات کی غیر مربوط اور حماقت آمیز نوعیت اور جسمانی و ذ ہنی بیماریوں مثلاً اضطراب، ذیابیطس اور اعصابی تناؤ میں مبتلا ہونے کے اقرار نے مذہب کے سنجیدہ طلبا کو مجبور کر دیا کہ وہ پہلے اس کے ذہن کی درستی کا تعین کریں۔ایک ہندوستانی عیسائی استاد دانیال نے اس سے قادیان میں ملاقات کی اور اسکی ذہنیت کا اندازہ لگانے کے لیے اسے سات سوالات پیش کیے۔قادیان کے رسالے ”ریویو آف ریلیجنز”نے مرزا صاحب سے مشاورت کے بعد ان سوالات کا جواب چھاپ دیا۔ (ریو یو آف ریلیجنزقادیان اپریل ١٩٠٦ء ) رسالے نے مرزا کی جسمانی و ذ ہنی بیماریوں سے انکار نہیں کیا بلکہ یہ دعویٰ کیا کہ آنحضو رﷺ  نے ان تمام کو مسیح موعود کی نشانیاں بتلایا ہے۔

H.A.walter,The Ahmadia Movement ,Associated Press Calcatta,1918,P.No2

            لاہو ر کے ایک اور عیسائی عالم ڈاکٹر ایچ۔ڈی۔گرسوالڈ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مرزا دیانتدار مگر خود فریبی کا شکار ہے۔  ٢

 Dr.Griswold, Mirza Ghulam Ahmad ,the Mehdi and Messiah of Qadian,Ludhiana,1902

            قاہرہ کی ایک تبلیغی مجلس میں ١٩٠٦ء میں ایک عیسائی مبلغ نے کہا۔

اب ١٩٠٦ء میں مرزا غلام احمد ستر سال کی عمر کے قریب ہے اور مذہبی لگن اور یقین کامل کے دعوے اس کے بہت سے ذاتی مقاصد کی تکمیل کے لیے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے واضح دھوکہ دہی اختیار کر رکھی ہے۔اگر یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ ذاتی مقاصد کی تکمیل کے لیے بد ترین ہتھکنڈے اختیار کر رہا ہے۔

The Muhammadia World Today,papers presented at First Missionary Conference, Cairo 4-9 April 1906 ,London

            مرزا صاحب کے رنگ برنگے ماضی،ان کے دعووں تحریروں ،وحی و الہامات اور پیش گوئیوں وغیرہ کا تجزیہ یہ اخذ کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ وہ ایک باخبر کذاب تھے۔ سب کچھ جانتے ہوئے دھوکہ دے رہے تھے انہوں نے سامراجی ضروریات کا احساس کر کے خدا کے نام کو ان کی تکمیل کے لیے استعمال کیا اس تمام کاروبار کا مقصد ذاتی عظمت اور  مذہب کے نام پر دولت و شہرت اکٹھی کرنا تھا۔

            قادیانیوں کی انجیل ”تذکرہ ” میں وہ لغویات اور احمقانہ پن ہے جو مقدس اشخاص کے سوانح یا تاریخ میں نہیں ملتا۔ اس کی وحی عربی،اردو،فارسی،انگریزی، عبرانی،ہندی اور پنجابی زبان میں ہے زبان بھی گھٹیا،مبہم،عامیانہ اور غلط ہے حقیقت میں اس کا بڑا حصہ لغو اور بے معنی فقرات پر مشتمل ہے جس کے کوئی واضح معانی نہیں ہیں۔قادیانی ان بیانات کی کئی تاویلیں پیش کر کے مرزا صاحب کی نبوت ثابت کرتے ہیں۔کچھ وحی اعداد اور خانوں کی شکل میں ہے اور بقیہ غیر معروف اور نامعلوم زبان میں ہے جس کے بارے میں خود اس کا اپنا اقرار ہے کہ اسے سمجھ نہیں۔یہ الم غلم خیالات ان کے اندرونی احساسات،جذباتی بحران اور ذہنی پسماندگی کو منعکس کرتے ہیں۔مرزا صاحب چونکہ تمام عمر مختلف اقسام کی بیماریوں مثلاً اعصابی تناؤ، سر چکرانا،ذیابیطس،درد شقیقہ،قولنج،تپ دق، خفقان،مردمی کمزوری اور شدید اور مستقل پیچش میں مبتلا رہے اس لیے اس کے ذہن میں کچھ عدم توازن کی کیفیات پیدا ہو گئی تھیں۔وہ ذہنی طور پر غیر متوازن تھے مگر ہر طرح سے ایک فریب کار اور عملاً مکاری میں مبتلا رہے۔وہ غیر ملکیوں کا آلہ کار بن چکے تھے کیوں کہ اسی دروازے سے وہ آگے بڑھ سکتے تھے۔ وہ اپنے سیاسی مقصد میں بالکل واضح موقف رکھتے تھے اس میں کبھی تضاد پیدا نہ ہو ا۔شروع سے آخر تک ایک رہا،ان کی عام تحریروں کے بین السطور لب لباب برطانیہ سے وفاداری، جہاد کی مذمت،اسلامی دنیا کو سامراجی تسلط کے تحت دیکھنے کی خواہش اور ہندوستان میں سامراج کے استحکام کے لیے خدمات سر انجام دینا ہے۔وہ اپنے مخالفین کے لیے بڑی سخت زبان استعمال کرتے تھے جبکہ غیر ملکی آقاؤں کے لیے ان کی زبان بڑی ملائم ہو جاتی ان کی ایک بھی وحی،پیشین گوئی یا خواب ایسا نہیں جو کسی بھی طرح سے برطانوی مفادات کے خلاف جاتا ہو یا ایک نوآبادیاتی طاقت کے طور پر کی گئی ان کی جارحیت اور بد اعمالیوں کی مذمت کرتا ہو۔ان کے دعوے کے مطابق ان کی وحی کا ایک ایک لفظ خدا نے وحی کیا ان کا خدا برطانیہ حامی کا حامی اوراسلام کے خلاف دکھائی دیتا ہے، وہ مسلمانوں کی غلامی اور انگریزوں کے تسلط اور ان کی معاشی اور مادی خوشحالی پر خوش ہے۔یہ با ت بڑے کھلے انداز میں ٹھوس بنیادوں پر واضح ہو چکی ہے کہ احمد یہ تحریک کا وجود یہودیوں اور سامراجیوں کی پشت پناہی کا مرہون منت تھا۔یہودیوں کے خفیہ اثر اور دولت اور برطانوی حکومت کے خفیہ کلیسائی نظام کی مالی اعانت نے احمدیت کے نو خیز پودے کی آبیاری کر کے اسے تنا ور درخت بنا دیا۔انہوں نے اپنے سامراجی مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنے حواری کی اعانت سے اسلام دشمن تحریک چلائی اور ان کی اجتماعیت میں دراڑ ڈالنے کے لیے مسلم دنیا کے اتحاد پر کاری ضرب لگائی۔

شاہکار تخلیق   :   Magnum Opus

            سال ١٨٧٢ء کے لگ بھگ مرزا صاحب نے ہندوستانی اخبارات و رسائل میں اپنے آپ کو اسلام کے علمبردار کے طور پر متعارف کرانے کے لیے مضامین روانہ کرنے شروع کیے۔بعد ازاں انہوں نے آریا برہمو اور دیو سماج کے رہنماؤں کے ساتھ ویدوں کے فلسفے اور تناسخ ارواح کے سوال پر زور دار مباحثے شروع کیے۔وہ اپنے آپ کو اسلام کا دفاع کرنے والے اسلامی مبلغ کے طور پر پیش کرنے کے لیے بیتاب تھے اور اس کے لیے مسلمانوں کی تائید حاصل کرنا چاہتے تھے۔١٨٧٩ء تک وہ ”براہین احمدیہ ” نامی کتاب کی تدوین میں مصروف رہے ١٨٨٤ء میں اس کتاب کی پہلی چار جلدیں چھپ گئیں۔اس کی متواتر اپیلوں پر بہت سے خوشحال مسلمانوں خصوصاً ریاست پٹیالہ کے دیوان سید محمد حسین (ریاست پٹیالہ کا دیوان خلیفہ محمد حسین برطانوی حکومت کا طرف دار تھا اسے اس شاہی مجلس کا اعتماد بھی حاصل تھا جو کہ پنجاب کی اس وفادار ریاست کے معاملات پر اختیار رکھی تھی۔اس کتاب کی اشاعت کے لیے اس نے مرزا صاحب کی بڑی مالی اور اخلاقی مدد کی۔١٨٨٤ء میں مرزا پٹیالہ گیا جہاں اس کا سرگرم استقبال کیا گیا۔١٨٨٦ء میں مرزا کو پٹیالہ آنے کی دعوت دی کہ چند اہم معاملات پر بات کرنا تھی اور تین ارکان پر مشتمل شاہی مجلس جس کے سربراہ سردار دیواسنگھ ان سے اس کا تعارف کرایا گیا۔مسیحیت کے دعویٰ کے بعد ١٨٩١ء میں مرزا صاحب نے ریاست کا تیسرا چکر لگایا۔کچھ لوگوں کوشک تھا کہ اپنے مکروہ مقاصد کی تکمیل کے لیے رقم کے فراہمی کے لیے خلیفہ انگریزوں اور مرزا صاحب کے مابین رابطے کا کام کرتا تھا۔(دیکھیے مصباح الدین۔”خاتم النبیین ”۔ راولپنڈی ١٩٧٣ء نواب بھوپال، حیدر آباد دکن کے مولوی چراغ علی، لدھیانوی کے نواب علی محمد خان اور واہ کے رئیس سردار غلام محمد نے اس کتاب کی اشاعت میں اس کی مالی معاونت کی۔

Mirza Ghulam Ahmad, Brahin-e-Ahmadya, Safeer-e-Hind Press, Amritsar, 188

            براہین احمدیہ کی پہلی جلد میں دو فارسی نظمیں اور ایک طویل اعلان جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر اسلام کی حمایت میں درج ان کی دلیلوں کو کوئی جھٹلانے کی جرأت کرے تو اسے دس ہزار روپے انعام دیا جائے گا۔یہ ایک احمقانہ اور  بڑا دعویٰ تھا بعد ازاں ان کے بیٹے مرزا  بشیر احمد نے کہا کہ وہ اسللام کے حق میں ایک دلیل بھی نہ دے سکے۔

Mirza Bashir Ahmad, Searat-ul-Mahdi, vol.1 p.93

            مرزا نے یہ کتاب کاروباری نکتہ نظر اور اسلام کے داعی ہونے کی شہرت حاصل کرنے کے لیے لکھی پہلے کتاب کی قیمت پانچ روپے بتائی گئی لیکن بعد ازاں اسے دوگنا کیا اور پھر پچیس روپے تک بڑھا دی گئی۔وہ اس کی قیمت سو روپے مقرر کرنا چاہتے تھے مگر یہ خیال ترک کر دیا۔مسلمانان ہند کو اپیلیں کی گئیں کہ وہ پیشگی رقوم بھجیں۔یہ وعدہ کیا گیا کہ اس کتاب کی پچاس جلدیں آئیں گی جن میں اسلام کی حقانیت کے ڈھیر لگا دیے جائیں گے مگر اس کی صرف پانچ جلدیں چھپ سکیں۔ پہلی چار ١٨٨٤ ء جب کہ پانچویں جلد ٢٣ سال کے بعد ١٩٠٨ میں یعنی مرزا کی وفا ت کے بعد منظر عام پر آسکی۔  براہین احمدیہ میں مرزا کی بہت دلچسپ وحی،کشف اور الہامات کے نمونے درج ہیں۔مرزا نے اپنے مستقبل کے فاسد منصوبوں کی تکمیل کے لیے ان الہامات وغیرہ کو خام مواد کے طور پر استعمال کیا درحقیقت اس نے ابتدا ہی میں خفیہ طور پر نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا۔(براہین احمدیہ کی تدوین کے وقت مرزا غلام احمد نے اپنے اصل مدعا ء یعنی دعویٰ نبوت کو چھپائے رکھا اور بڑی عیاری سے اس کو مناسب وقت کے لیے مؤخر کر دیا۔١٧اگست ١٨٩٩ء کو ” دنیا میں ایک نبی اصیا جس کو دنیا نے قبول نہ کیا ”۔اس سے قبل جب وہ براہین احمدیہ کی تدوین میں مصروف تھا دعویٰ نبوت کے خلاف مسلمانوں کے سخت رد عمل کی وجہ سے اس نے اپنی وحی کی نام نہاد دوسری قرأت بیان کی۔”دنیا میں ایک نذیر آیا ”۔یہ بڑے واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ وہ کس درجہ محتاط تھا اور اس کی وحی اور خوابوں میں کیا منصوبے پنہاں تھے۔”تذکرہ ”۔صفحہ نمبر ١٠٤ ) نہ تو اس وقت کوئی مناسب وقت تھا نہ ہی وہ اس احمدی ناٹک کے ابتدائی مرحلہ میں مسلمانوں کے غیض و غضب کو للکارنے کی ہمت رکھتا تھا۔اس کتاب کی تیسری جلد میں اس نے فصیح و بلیغ انداز میں برطانوی راج کی تعریف کی اور اپنے گھرانے کو برطانوی سامراج کے سب سے مخلص اور وفادار کے طور پر متعارف کرایا ا س نے پر زور طریقے سے اپنے آپ کو وحی کا حامل گردانا اور برطانوی حکومت کے خلاف جہاد کو اللہ کی طرف سے ممنوع قرار دیا۔اس نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ انجمن اسلام لاہور (ایک نجی ادارہ جو مسلمانوں کے لیے کام کرتا تھا۔) اور اس کی شاخوں کو ہندوستان کے مقتدر علماء سے جہاد کے خلاف فتاوی حاصل کرنے چاہئیں اور انہیں کتابی شکل میں اس کے سرورق ”علماء ہند کی جانب سے خطوط کا مرقع ” کے تحت چھاپ دینا چاہیے۔اس کی پنجاب اور خصوصی طور پر ہندوستان شمال مغربی حصوں میں وسیع پیمانے پر تقسیم کرنی چاہیے تاکہ ہنٹر کی کتاب ”ہندوستانی مسلمان ” میں لگائے گئے الزامات کا جواب دیا جا سکے اور جہاد کے قائل مسلمانوں کے دلوں سے اس تصور کو اکھاڑ ا جا سکے۔

 Brahin-e-Ahmadya,vol.3 P.A

            مسلمانان ہند نے مرزا صاحب کی نیت کو مشکوک جان کر اس کی ان تحریروں کے خلاف سخت رد عمل ظاہر کیا جن میں برطانوی راج کی مدح و توصیف اور دنیائے اسلام کے دیگر حصوں پر اس کے قیام ک خواہشات درج تھیں۔کتاب کی چوتھی جلد میں اس نے تسلیم کیا کہ کئی لوگوں نے ان تحریروں پر سخت اعتراضات کیے ہیں ، بلکہ گالیاں تک دی ہیں کہ وہ ہندوستان میں برطانوی راج کی وکالت کیوں کرتا ہے۔ ٧  تاہم اس نے دلیل دی کہ قرآنی آیات اور احادیث نبویہ کے مطالعہ کے بعد وہ اپنا ذہن تبدیل نہیں کر سکتا اور اپنے موقف پر قائم ہے۔اس کتاب کی بعض وجوہات کی بناء پر کچھ حلقوں کی جانب سے پذیرائی بھی ہوئی کیونکہ غلطی سے یہ سمجھ لیا گیا کہ یہ اسلامی احیا ء کے ایک دعویدار کی طرف سے اپنے انداز میں اسلام کے دفاع کی ایک کوشش ہے مگر محتاط مسلمان علماء نے مرزا غلام احمد کے ممکنہ بلند بانگ دعووں کے خلاف اپنے خدشات کا اظہار کیا انہوں نے مرزا صاحب کو سیاسی آلہ کار،جھوٹا مدعی اور نالائق قرار دیا۔براہین احمدیہ کی طباعت کے بعد اس نے اپنی نجی زندگی پر توجہ دی۔اس کے پاس ایک آرام دہ زندگی گزارنے کے لیے کافی رقم اکھٹی ہو گئی تھی اور یہ سلسلہ بڑھتا گیا کیونکہ برطانیہ کے خفیہ فنڈ سے بھی آبیاری جاری رہی۔اس کے کچھ قریبی ارتقا ء نے اس پر اعتراض کیا کہ ان کی محنت سے کمائی گئی اور  کنجوسی سے بچائی گئی رقم، جو کہ اسلام کی اشاعت کے لیے بدی جاتی ہے وہ مرزا صاحب کی بیوی کے زیورات کی خریداری پر صرف ہو رہی ہے۔ (”فاروق ”۔قادیاں۔٧ اکتوبر  ١٩٩٨ء۔مرزا صاحب کے نہایت قریبی ساتھی اور جماعت کے اہم رکن خواجہ کمال الدین بھی ان میں سے ایک تھے۔سید سرور شاہ۔”کشف اختلاف”۔صفحہ نمبر ١٥ ) ڈاکٹر عبد الحکیم جو ایک وقت میں مرزا صاحب کے پر جوش پیروکار تھے انہوں نے واضح طور پر مرزا صاحب کے رقم بٹورنے کے طریق کار کو افشاء کیا اور بتایا کہ وہ کس طرح اسلام کے نام پر رقم بٹورتے تھے اور اسے ذاتی استعمال میں لاتے تھے۔(الذکر الحکیم نمبر ١تا ٦۔مبارک برادرز۔پٹیالہ سٹیٹ۔پنجاب ٧۔ ١٩٠٦ء ) ایسی اکا دکا آوازوں کو دبا دیا گیا،بلکہ مرزا صاحب کے دعووں میں ڈوب گئیں۔

Brahin-e-Ahmadya,vol.4 p.A

 ١٨٨٤ء میں پچاس برس کی عمر میں آپ کو دوسری شادی کا خیال آیا۔پہلی بیوی سے آپ کے بیٹے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد تھے۔اگرچہ آپ نے اپنی خراب صحت کا متعدد تحریروں  میں بڑا واویلا کیا اور کہا کہ وہ پرانی بیماریوں مثلاً تپ دق ذیابیطس اور درد شقیقہ وغیرہ میں مبتلا ہے اور صنف مخالف میں ہر طرح کی دلچسپی کھو چکا ہے پھر بھی اس نے اعلان کیا کہ خدیجہ کے ساتھ دوسری شادی کے لیے اس پر وحی اُتری ہے۔

.Tazkira: 2nd Edition,Rabwah,1969,p.3

            ١٧ نومبر ١٨٨٤ ء کو آپ نے نصرت جہاں سے شادی کر لی جو لاہور میں محکمہ آب پاشی میں معمولی ملازم میر ناصر نواب کی بیٹی تھی۔میر صاحب عرصہ دراز تک مرزا صاحب کے مذہبی دعووں کی مخالفت کرتے رہے بعد میں رام ہو گئے۔مرزا صاحب کو تیسری شادی کی بھی شدید خواہش تھی مگر محمدی بیگم کے ساتھ معاشقے نے انہیں ایک ایسی الہامی دلدل میں پھنسا دیا کہ وہ اس خیال کو زیادہ دیر تک بر قرار نہ رکھ سکے۔

            ١٨٨٥ء میں مرزا صاحب نے مجد داور وقت کے مصلح ہونے کا دعویٰ کیا۔اگلے سال آپ ہشیار پور تنہائی میں چلہ کشی کے لیے چلے گئے۔چلے کے مکمل ہونے پر آپ نے ٢٠ فروری ١٨٨٦ء کو یہ اعلان چھپوایا کہ انہیں ایک ذہین اور  خوبصورت بچہ عطا ہو گا اس کا نام عمانویل اور بشیر ہو گا۔وہ اول اور آخر کا روپ۔سچائی اور عظمت کا مظہر ہو گا۔جیسے اللہ تعالی بذات خود عالم بالا سے اُتر آیا ہو۔نتیجہ آپ کے بیٹے مرزا (بشیر الدین ) محمود احمد نے دعویٰ کیا کہ وہ ہی موعود بیٹا ہے۔آپ نے ١٩٤٤ء میں ایک تو مرزا صاحب کی مبہم تحریر دوسرے اپنی وحی کی بناء پر”مصلح موعود ”ہونے کا دعویٰ کیا۔

            یکم دسمبر ١٨٨٨ء کو مرزا صاحب نے اعلان کیا کہ انہیں خدا نے بیعت اور جماعت بنانے کا حکم دیا ہے۔  بیعت ہونے کے لیے دس شرائط قبول کرنا تھا۔ان میں چوتھی شرائط اگرچہ عمومی نوعیت کی تھی،لیکن ہر احمدی کو پابند کرتی تھی کہ وہ حکومت برطانیہ کا وفادار رہے گا۔ آپ نے رسمی طور پر لدھیانہ میں ٢٣ مارچ ١٨٨٩ء کو بیعت لی۔جماعت میں داخلے کی چوتھی شرط پر مرزا محمود اس طرح خیال آرائی کرتے ہیں  :

            ”اپنے آغاز سے یہ جماعت حکومت کی وفادار ہے اور ہر طرح کی بد نظمی اور پریشانیوں سے دور رہی ہے۔اس تحریک کے مقدس بانی نے اسے تحریک میں شمولیت کی  بنیادی شرط کے طور پر مقرر کیا ہے کہ ہر رکن قانونی طور سے قائم حکومت کی مکمل اطاعت کرے اور بغاوت کی طرف لے جانے والے تمام راستوں سے پرہیز کرے۔اس حکم کی تعمیل میں جماعت احمدیہ کے پیروکاروں نے ہمیشہ اپنے آپ کو احتجاج کی ہر طرح کی اقسام سے علیحدہ رکھا ہے اور دوسرے لوگوں کی ایک کثیر تعداد پر بھی اپنا اثر و نفوذ ڈالا ہے”۔ (مرزا محمود احمد۔”تحفہ شہزادہ ویلز شہنشاہ معظم۔ویلز کے شہزادے کی خدمت میں تحفہ۔منجانب احمدیہ جماعت نشر و اشاعت۔صدر انجمن احمدیہ۔قادیان۔راج ہنس پریس۔دلی۔جنوری ١٩٢٢ء  صفحہ نمبر ٥)۔

شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار

            ہندوستان میں برطانوی راج کو مرزا صاحب خدا کی ایک نعمت عظیمہ خیال کر تے تھے۔آپ نے اپنے پیروکاروں کو پر زور تاکید کی کہ وہ ان کے ساتھ بھر پور تعاون کریں کیوں کہ اسی میں ان کی نجات اور خدا کی رضامندی ہے۔ یہ صرف برطانوی سامراجیوں کا استحقاق تھا کہ وہ توپوں کے گولے چلائیں یا اسلحہ لہرائیں۔اس کے برعکس بیکار مذہبی مباحث میں زبان چلانا اور قلم گھسیٹنامسلمانان عالم کی ذمہ داری تھی۔مرزا صاحب کہتے ہیں ” چونکہ میری زندگی کا زیادہ تر حصہ برطانوی حکومت کی وفاداری کے پرچار میں گزرا ہے۔جہاد کی مذمت اور برطانوی حکومت کی وفاداری کے پرچار پر میں نے اتنی کتابیں لکھیں ہیں کہ اگر ان کو اکٹھا کر دیا جائے تو پچاس الماریاں بھر جائیں ”۔

   Mirza Ghulam Ahmad,Taryaq-ul-Quloob,,1899,P.1

ایک اور کتاب میں آپ سوال پوچھتے ہیں  :

            ”پھر میں پوچھتا ہوں کہ جو کچھ میں نے سرکار انگریزی کی امداد حفظ و امان اور جہادی خیالات کے روکنے کے لیے برابر سترہ سالوں (١٨٨٥ تا  ١٨٩٧ ) تک پورے جوش سے پوری استقامت سے کام کیا۔کیا اس کام کی اور اس خدمت نمایاں کی اور اس مدت دراز کی دوسرے مسلمانوں میں جو میرے مخالف ہیں کوئی نظیر ہے ؟کوئی ‘نہیں ‘۔

Mirza Ghulam Ahmad,Sitara Qaaisarya,Qadian,1899,P.3Qadian

            ہمیں مرزا غلام احمد کی انگریز کی حمایت میں لکھی گئی تحریروں پر کوئی اعتراض نہیں ، نہ ہو گا اگر وہ ذاتی نوعیت کی ہوتیں۔آخر اور کئی لوگ انگریز سے کھلی وفاداری کا اظہار کر رہے تھے،مگر آپ اپنے ہر اس فقرے کو جو آپ کے ہونٹوں سے نکلتا ہے ”وحی و الہام” کہتے ہیں۔ ہمیں خدا کی وحی کی رو سے انگریز کی سامراجی ظالمانہ حکومت کی آنکھ بند کر کے اطاعت پر سخت اعتراض ہے۔

Phoenix, His Holiness,P.63

            قادیانیوں کا جماعتی آرگن ”ریویو آف ر یلیجنز قاد یان ”بڑے واضح انداز سے مرزا صاحب کی ان خدمات کا تذکرہ کرتا ہے جو آپ نے برطانوی نو آبادیاتی نظام کے استحکام کے لیے سرانجام دیں۔جریدہ لکھتا ہے  :

”جماعت احمدیہ کے بانی کی تحریروں کو عظیم سفارت کاروں اور حکومت میں موجود دانشوروں نے بہت سراہا ہے”۔

            سرفریڈرک کنگھم نے جو پشاور ضلع کا مہتمم اور سپرنٹنڈنٹ تھا،نے ١٩٠٠ میں مرزا صاحب کو لکھا  :

            ”جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں یہ اسلام  کے نظریے کی ایک منصفانہ اور  روشن خیال تعبیر ہے جس میں آپ کے علم اور قوت فیصلہ کا برابر حصہ ہے۔مجھے کوئی شک نہیں کہ آپ جیسے شہرت یافتہ معلم کے بیان کا ہر اچھا محمڈن (مسلمان) خیر مقدم کرے گا۔اپنے عقیدے کے محافظ کے طور اور اس ثبوت کے باعث کہ اسلام ایسے جرائم پر پردہ نہیں ڈالتا جو عیار یا جاہل لوگ مذہب کے لبادے میں کرتے ہیں۔ مجھے بڑی خوشی ہو گی اگر آپ کے رسالے اور مفتوی کی صوبہ سرحدمیں وسیع پیمانے پر تشہیر کی جائے۔

Review of Religions, Qadian,Vol.VI.190

            اسی طرح امریکہ یوینورسٹی بیروٹ کے پروفیسر ٹوائے نے اسلامی خطرہ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس میں اس نے عام مسلمانوں کے خیالات پر ان اثرات کی تعریف کی گئی جو جماعت احمدیہ نے مرتب کیے ہیں۔

Review of Religions,Qadian,Vol.V.May1906,P.193.MirQasimAli,Tabligh-i-Risalat,Vol.VI,P.13

جوبلی تقریبات

            مرزا غلام احمد برطانوی نو آباد کاروں کے ساتھ وفاداری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔آپ نے ٢٠ جون ١٨٩٧ء کو قادیان میں اپنی مربیہ اور کفیلہ اعظم ملکہ وکٹوریہ کی پچھترویں جوبلی کے لیے ایک خاص تقریب کا اہتمام کیا۔قادیانی زعماء نے چھ زبانوں میں تقریریں کیں اور راج کی برکات پر روشنی ڈالی۔ملکہ کی درازی عمر اور ہندوستان میں اس کے شاندار راج کی خوشحالی اور استقلال کی دعائیں مانگی گئیں ، قصبے کے غریب لوگوں میں کھانا تقسیم کیا گیا۔جبکہ تمام گھروں ، گلیوں اور مسجدوں میں چراغاں کیا گیا۔بیس جون کو وائسرائے ہند لارڈ ایلکن کو مبارکباد کا تار بھجوایا گیا۔اس مبارک موقع کی مناسبت سے ڈپٹی کمشنر کے ذریعہ ملکہ وکٹوریہ کو کتاب ”تحفہ قیصریہ” کا ایک خوبصورت مجلد نسخہ بھجوایا گیا۔

ملکہ عالیہ کو ارسال کردہ تحفے میں آپ نے بڑے ہی عا جزانہ طریقے سے ایک مختصر حاشیے میں اپنے گھرانے کی ان سیاسی خدمات کا تذکرہ کیا جو ١٨٥٧ء اور اس کے بعد کے دور سے لے کر اس وقت تک جب آپ نے سلطنت کی خاطر اپنے عظیم کام کا بیڑہ اُٹھایا تھا،سر انجام دی تھیں۔ آپ نے اپنی خدمات گنوائیں اور اپنے آپ کو برطانوی سلطنت کے حد درجہ خیر خواہ اور ذلیل خوشامدی کے طور پر پیش کیا۔انہوں نے بڑی شدت سے ملکہ کی طرف سے جواب کا انتظار کیا اور جب ملکہ نے یہ تحفہ قبول کر لیا تو آپ کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانا نہ رہا اور ملکہ کے اس احسان عظیم پر آپ نے اس کا بے تحاشہ شکریہ ادا کیا۔

ملکہ معظمہ کے دربار عالی سے اپنے تحفے اور خدمات کی پسند کے چند جملوں کے لیے آپ کتنے بے چین تھے۔اس کا اندازہ آپ کی اس وحی سے لگایا جا سکتا ہے جو چار اکتوبر ١٨٩٩کو اُتری۔”مجھ پریہ وحی کی گئی کہ ملکہ وکٹوریہ کی طرف سے شکریہ ” (”تذکرہ صفحہ نمبر ٣٤١” ایک کشف میں آپ نے دیکھا کہ ملکہ آپ کے گھر قادیان آئی ہے”تذکرہ صفحہ نمبر ٣٢٧”)

            ملکہ وکٹوریہ کی ٧٥ویں جوبلی کا دن ہندوستان میں برطانوی نو آباد کاروں کے خلاف نفرت کی ایک لہر لے کر آیا۔اسی دن شام کو دو یورپیوں کو مسٹر رانڈ جو کہ ہندوستانی افسر شاہی سے تعلق رکھتا تھا اور لیفٹیننٹ ائیر سٹ،کو ایک سرکاری استقبالیہ سے واپس آتے ہوئے راستے میں ایک ہندو برہمن نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔یہ ایک سیاسی نوعیت کا قتل تھا اور ہندوستان میں برطانوی راج کے خلاف غم و غصہ کا حد درجہ اظہار۔

            ٢٢ جنوری ١٩٠١ کو ملکہ وکٹوریہ نے یہ وفات پائی۔مرزا غلام احمد اپنی مربیہ ملکہ عالیہ معظمہ کی وفات پر بڑے رنجیدہ ہوئے۔ آپ نے برطانوی حکومت کو مندرجہ ذیل برقی تار ارسال کیا  :

            ”میں اور میرے پیروکار اس گہرے غم کا اظہار کرتے ہیں جو ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کی وفات کے باعث بہت بڑے نقصان کی شکل میں برطانوی سلطنت کو پہنچا ہے ”۔انڈیاآفس لائبریری لندن میں یہ خط موجود ہے۔

(دیکھیں ”حکومت ہند محکمہ داخلہ کی جانب سے لارڈ جارج فرانسس ہیملٹن۔معتمد برائے داخلہ برائے ہندوستان۔نمبر ٢٤۔بتاریخ ٢٤۔٣۔١٩٠١  مرزا غلام احمد رئیس قادیان کی پٹیالہ سے برقی تار۔بتاریخ ٢٤ جنوری ١٩٠١)۔

جاسوس نبی

            مرزا صاحب کی اپنی تحریریں پڑھ کر بعض اوقات کراہت سی محسوس ہوتی ہے،جن میں وہ برطانوی سامراج کی قصیدہ گوئی کرتے ہیں اور بلا شبہہ اپنے آپ کو ایک کاسہ لیس اور خوشامدی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جب کبھی وہ برطانوی راج کے متعلق بات کرتے ہیں مرزا غلام احمد نے اپنی تحریروں کے ٢٤ صفحات  (١٨٨٢تا ١٨٩٤) کا حوالہ  دیا ہے جن میں آپ نے برطانوی سامراج کی تعریفیں کی ہیں۔( ٢٤ فروری ١٨٩٨ کو  لیفٹیننٹ گورنر پنجاب سرولیم میکورتھ ینگ کے نام میموریل اس کے بعد کی دہائی میں آپ نے اپنی سیاسی خدمات کا زبردست ڈھنڈورا پیٹا اور اپنے آقاؤں سے وفاداری اور عالم اسلام کی مذمت میں بہت کچھ لکھا اور انہیں وحی کی تائید عطا کی۔)آپ اپنے آپ کو ان حدوں تک لے گئے کہ ایک برطانوی جاسوس کے طور پر خدمات سرانجام دینے پر تیار تھے۔برطانوی حکومت کو اپنی سیاسی خدمات پیش کرتے وقت آپ ہندوستان کے ان علما ء کے نام معلوم کرنے پر اُتر آئے جو برطانوی ہند کو دار الحرب قرار دیتے تھے یا جہاد کو ایک ناگزیر ضرورت سمجھتے تھے۔وہ اسلامی شریعت کی رو سے دار الحرب میں نماز جمعہ کی بجائے نماز ظہر ادا کرنے کے حامی تھے۔ برطانیہ کے ان دشمنوں کو بے نقاب کرنے کے لیے مرزا صاحب نے یکم جنوری ١٨٩٨ ء کو وائسرائے کو ایک میموریل روانہ کیا جس میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ جمعہ کو چھٹی کا دن قرار دیا جائے اور اس تجویز کی تائید کے لیے تمام سرکردہ مسلمان علماء کے پاس بھجوایا جائے۔اس کے حاشیے میں آپ نے یہ واضح کر دیا کہ جو اس کی توثیق نہیں کرے گا وہ اپنے آ پ کو حکومت کا مخالف اور انگریز کا دشمن ثابت کرے گا۔

Mir Qasim Ali Qadian ,Tabligh-e-Risalat ,vol v,Qadian,1922 p.

            جاسوس پیغمبر نے گورنر جنرل ہند کو ایک درخواست بھیجی جس میں یہ پیش کش کی  کہ وہ ”خدا کی طرف سے بھیجی گئی برطانوی حکومت ”کے بد خواہوں کو بے نقاب کرے گا اور بڑے خلوص سے التجاء کی کہ علماء کی طرف سے خطبہ جمعہ میں برطانوی راج کی برکات کا تذکرہ کیا جائے۔یہ بھی خواہش کی گئی کہ اگر گورنمنٹ چاہے تو وہ قادیانی خفیہ ذرائع سے تیار کی گئی برطانیہ مخالف بیوقوف علمائے ہند کی فہرست بھی حکومت کو پیش کر سکتے ہیں۔ دانا حکومت اسے ایک حکومتی راز کے طور پر سنبھال کر رکھے تاکہ اس پر مستقبل میں عمل درآمد کیا جا سکے۔آپ نے نمونہ تحریر کا ایک خاکہ اس کے ساتھ منسلک کیا جس میں نام، جگہ اور کیفیت وغیرہ کے خانے بنے ہوئے تھے تاکہ برطانیہ مخالف علماء ہند کے ناموں کا اندراج کیا جا سکے۔

Tabligh-e-Risalat , vol. v,p.11

            اس جاسوسی کے علاوہ آپ نے بڑے شاطرانہ انداز میں علماء کو غیر ضروری مذہبی مباحث میں الجھائے رکھا۔آپ نے ان کے خلاف بڑی غلیظ اور اشتعال انگیز زبان استعمال کی اور ان کی کردار کشی کرتے رہے۔ان جہادی علماء کے خلاف جو ہندوستان میں برطانوی سامراجیت کے خلاف بر سر پیکار تھے۔ان کے خلاف جنگ چھڑنے کے بعد آپ نے ہند و اور عیسائی مذاہب کے ساتھ مباحثے شروع کر دئیے تاکہ برطانوی حکمت عملی ”لڑاؤ اور حکومت کرو ” کی محافظت میں فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کو ہوا دی جا سکے۔ہر مذہب کے لوگوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ وہ اپنے تحفظ اور بقاء اور اپنے نظریات کی تشہیر کے لیے حکومت کا مکمل ساتھ دے۔ علماء کو مذہبی مباحث میں عیاری کے ساتھ الجھانے کے بعد آپ ان کے حملہ کا نشانہ برطانوی سامراجیت سے ہٹا کر ارتدادِ احمدیت پر منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔آپ نے اپنے مخالفین کے لیے موت اور ذلت کی پیش گوئیاں کیں اور جب آپ کی پیش گوئیاں غلط ثابت ہو گئیں تو وہ اپنے بیانات کی تشریح میں احمقانہ انداز میں دور کی کوڑیاں لائے۔آپ کو ہمیشہ شرمندگی اُٹھانی پڑی۔ آپ کے کردار کی ایک اہم بات آپ کی ہر پیش گوئی کی تکمیل کے لیے بے شرمی پر مبنی اصرار تھا۔انصاف کے کسی بھی معیار پر یہ آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ منجم آپ سے بہتر پیش گوئیاں کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے اکثر قیاسیات صحیح ثابت ہوئے ہیں۔مرزا صاحب کی نبوت کا سب سے بڑا مواد آپ کی پیش گوئیاں ہیں جو زیادہ تر آپ کے معاشی مفاد یعنی منی آڈروں کی وصولی، چندوں اور تحائف کا حصول اور آپ کے دشمنوں کی ذلت اور موت اور مقدمے بازی میں آپ کی کامیابی پر منتج ہوتی تھیں۔

 Mirza Ghulam Ahmad , Haqiqat-ul- wahi,Qadian ,1907

            دلچسپ پیش گوئیوں میں ایک آپ کی محمدی بیگم سے شادی کی شدید تمنا ہے جو کہ آپ کے قریبی رشتے داروں میں ایک پرکشش اور خوب صورت لڑکی تھی یہ پیش گو ئی کی کہ وہ بہر حال آپ کی دلہن بنے گی، مگر ایسا نہ ہو سکا۔آپ نے اپنی پیش گوئیوں میں اسے آسمانی دلہن قرار دیا۔خوف،تحریص اور دباؤ کے ہر حربے کے باوجود اس لڑکی کے والد نے مرزا صاحب کی خواہشات کے آگے سر تسلیم خم نہ کیا۔ اس فسانہ رسوائی نے ہندو اور عیسائی مخالفین کو ہمارے نبی اکرمﷺ   کی حیات طیبہ پر بڑی ہوشیاری سے کیچڑ اچھالنے کا موقع فراہم کر دیا۔ کیونکہ مرزا صاحب بھی اپنے آپ کو اسلام کا علمبردار اور ہمارے حضور ؐ کے ظلی نبی ہونے کا دعویدار تھا۔ مرزا صاحب کی زندگی کے دوران میں ہی محمدی بیگم کی شادی مرزا سلطان محمود سے ہو گئی اور نہ تو مرزا سلطان محمود نے مرزا صاحب کے الہامات کے مطابق وفات پائی اور نہ ہی محمدی بیگم بیوہ ہو کر آپ کے نکاح میں آئی۔

سرکارکی خفیہ سرپرستی

            مذہبی اختلافات کو پروان چڑھانا سامراجی حکمت عملی کا ایک حصہ تھا جس نے ہندوستانی معاشرے کو درجنوں چھوٹے چھوٹے متحارب گر و ہوں میں تقسیم کر دیا۔مختلف مذہبی تنظیموں کے درمیان اختلافات کو بڑھانے کے لیے برطانوی انٹیلے جنس نے اشتعال انگیز اور بد زبانی سے لبریز مواد اپنے آلہ کاروں کے ذریعے پھیلانا شروع کر دیا۔ مذہبی مہم جوؤں نے اپنے مخالفین پر حملوں کے لیے پریس کو بڑی آزادی سے استعمال کی تاکہ انہیں بے فائدہ مذہبی تنازعات میں مشغول رکھا جا سکے۔١٨٨٦ حکومت نے ہندوستان میں آٹھ ہزار نو سو تریسٹھ رسالوں کو مندرج کیا جن میں سے ایک ہزار چارسو پچاسی اردو میں ،ایک ہزار تین سو باون بنگالی میں ہندی میں آٹھ سو تینتالیس ہندی میں ، چھ سو نو اسی انگریزی میں اور بقیہ دیگر زبانوں میں تھے۔ ان میں سے زیادہ تر مذہبی تنازعات سے بھرے ہوتے تھے۔نیو یارک میں منعقدہ تبلیغی مجلس لندن کی اطلاع۔١٨٨٦۔صفحہ نمبر ٣١٩)

            مرزا غلام احمد نے ایک مخصوص انداز میں ہندو اورعیسائی مذہبی رہنماؤں کے خلاف مذہبی تنازعات شروع کئے۔ آپ نے ان کو مباہلوں کے لیے للکارا۔ان کی مذمت میں الہام اور وحی پیش کی اور ان کے خلاف ذلیل زبان استعما ل کر کے انہیں اشتعال دلایا کہ وہ جوابی کارروائی کریں آپ کی اس ذلیل جنگ کا نتیجہ اسلام کے خلاف بہت سی توہین آمیز تحریروں کی صورت میں نکلا۔ (مولانا مظہر علی اظہر۔”ستیارتھ پرکاش اور غلام احمد ”۔لاہور ) حکومت پنجاب نے صوبے میں موجود مختلف گروہوں اور فرقوں کے درمیان ان تنازعات کا قریبی جائزہ لیا۔اعلی برطانوی حکام کو مذہبی لڑائی بھڑکانے میں مرزا غلام احمد کی سرگرمیوں کی خصوصی رپورٹ دی گئی۔١٨٩٣ء میں امرتسر کے ایک میڈیکل مشنری ہنری مارٹن  کلارک کے ساتھ آپ نے ایک مذہبی مباحثہ کیا جس کے نتیجے میں امرتسر میں مرزا غلام احمد اور عبداللہ آتھم کے درمیان بحث چھڑ گئی جو کہ مسلمان سے عیسائی ہواتھا اور سیالکوٹ میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تھا۔حکومت پنجاب کے محکمہ داخلہ کی روداد میں ایسے مباحث کا ایک سلسلہ دیا گیا ہے جو مسلمانوں اورعیسائیوں کے درمیان مختلف عنوانات کے تحت ہوئے تھے عیسائیوں کی طرف سے ہنری مارٹن اور عبداللہ آتھم جبکہ مسلمانوں کی نام نہاد نمائندگی کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی پیش ہوتے تھے۔یہ مباحثہ کسی بھی فریق کی کامیابی کے بغیر چودہ دن جاری رہنے کے بعد ختم ہو گیا۔مرزا صاحب نے فریق مخالف یعنی پادری آتھم کی پندرہ ماہ کے اندر اندر موت کی پیش گوئی کی۔یہ آپ کو خواب میں خدا کی طرف سے وحٰ کی صورت میں بتایا گیا تھا آپ نے تسلیم کیا کہ آتھم کی موت نہ ہونے کی صورت میں آپ کے بیشک بے عزت کیا جائے اور جھوٹی بات پر اڑے رہنے پر پھانسی دے دی جائے۔ (حکومت پنجاب۔روداد محکمہ داخلہ۔جنوری تا جولائی ١٨٩٤ منجانب جے۔جے سائم ناظم ہدایات عامہ پنجاب۔بجانب چیف سیکرٹری حکومت پنجاب۔نمبر ٤٥٧ بتاریخ ١٨٩٤۔٢۔٢٢ انڈیا آفس لائبریری۔لندن )

            ٤ستمبر ١٨٩٧ ء کو پندرہ ماہ کی میعاد ختم ہو گئی اور آتھم نہ مرا۔عیسائی پادریوں نے احمدیوں کا مذاق اُڑایا اور قادیانی شاطر کی مذمت کی۔ مرزا صاحب بے حیائی سے اپنی اس پیش گوئی کی تکمیل پر اڑے رہے۔آپ کا کہنا تھا کہ آتھم نے دراصل سچائی کی طرف رجوع کر کے خود کر بچا لیا۔سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور نے ”ایک خطرناک جنونی ” کے عنوان سے لکھا  :

            ” پنجاب میں ایک مشہور جنونی ہے جس کا ہمیں پتا چلا ہے کہ گورداسپور میں ہے اور اپنے آپ کومسلمان اورمسیح موعود کہتا ہے۔امرتسر میں ایک مقامی عیسائی شریف آدمی کے بارے میں موت کی پیش گوئیوں نے چند ماہ تک شہر میں ہیجان برپا کئے رکھا لیکن بد قسمتی سے اس کے الہامی دعوے بری طرح سے اسی کو واپس مل گئے اور مرنے والا ابھی زندہ ہے۔ اس طرح کا جنونی شخص لازمی طور پر پولیس کی نگرانی میں ہے۔جہاں کہیں بھی وہ باہر پرچار کرنے کے لیے جاتا ہے تو امن کو شدید خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس کے کافی پیروکار ہیں جو جنون میں اس سے تھوڑے سے کم تر ہیں۔یقیناً ایسے آدمی کے بے سود الہامات و تخیلات سے کسی سیاسی خطرے کا اندیشہ نہیں ہو سکتا، لیکن اس کے پاگل پن میں ایک طریق کار ہے۔بلا شبہہ اس میں تعلیمی قابلیت ہے اور اس کی تحریریں ضخیم جلدوں میں ہیں۔یہ تمام باتیں ایک خطرہ کی نشاندہی کرتی ہیں۔یہ درست ہے کہ راسخ العقیدہ لوگوں میں وہ ایک ملعون شخص ہے جس کی شہرت مدراس جیسی دور دراز جگہ پر بھی پہنچ گئی ہے ”۔ (سول اینڈ ملٹی گزٹ۔٢٤ اکتوبر ١٨٩٤)

            آتھم کی طرح مرزا صاحب نے ایک ریٹائر ڈ پولیس ملازم پنڈت لیکھ رام پشاوری آریہ سماجی کے ساتھ مباحثہ شروع کیا۔ آپ نے پیش گوئی کی کہ لیکھ رام فروری ١٨٩٨ تک مر جائے گا اس کو بنی اسرائیل کے ایک بچھڑے کے طور پر پیش کیا گیا۔چھ مارچ ١٨٩٧ کو لاہور میں لیکھ رام پر اسرار طور پر قتل ہو گیا۔جس سے پنجاب میں وسیع پیمانے پر فرقہ وارانہ تناؤ پیدا ہو گیا۔اس صورت حال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مرزا صاحب نے اپنے دعوے پر مزید زور دیا۔ ایک آریہ سماج رہنما لالہ لاجپت رائے اس واقع کے سلسلے میں بیان کرتا ہے :

             ”آریہ سماج کی تاریخ میں مارچ ١٨٩٧ء میں لیکھ رام کا قتل ایک یادگار واقعہ ہے۔وہ ایک پر لگن آریہ سماجی اورسوامی دیانند کا مخلص پیروکار تھا۔ پریتی ندھی سبھانے اسے گزر اوقات کے لیے کچھ رقم دے رکھی تھی۔وہ شائستہ نہ تھا قتل کے بعد لاہور میں اس کی ارتھی جلائی گئی۔قاتل کی نشاندہی کے لیے ایک کمیٹی قائم کا کام لاجپت کے سپرد کیا گیا۔  پولیس اور سماج نے ملزم کو ڈھونڈنے کے لیے اپنے اپنے آلہ کاروں کی ذمہ داری لگائی،مگر مسلمانوں نے ان کے تمام منصوبے تلپٹ کر دئیے۔دو یا تین آدمی گرفتار ہوئے۔مگر عدم شناخت کی وجہ سے اُنہیں چھوڑ دیا گیا۔لوگ مکمل طور پر جانتے تھے کہ اس کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ لاہور کے مسلمان قاتل کے ہمدرد تھے اور یہ قتل ایک بڑی سازش کا نتیجہ تھاجس میں لاہو ر کے مسلمان رئیس شامل تھے جنہوں نے قاتل کو پناہ دی اور بھاگ جانے میں مدد دی ”۔ (لاج پت رائے۔”خود نوشت تحریریں ”۔مدیر و جے چند ر جوشی۔دلی۔١٩٦٥۔صفحہ نمبر ٧٥)

The Civil & amp; Military Gazzette,24October 189

Lajpat Rai,Autobiographical Writings-edit by V. C. Joshi, Delhi, 1965,p.7

نورا کُشتی

            ڈ اکٹر ہنری مارٹن کلارک نے جو آتھم کا سر پرست تھا یکم اگست ١٨٩٧ کو امرتسر کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں مرزا غلام احمد پر تعزیرات ہند کی دفعہ ٣٠٧ کا مقدمہ درج کر وا دیا جس میں یہ الزام لگایا کہ مرزا صاحب نے عبدالمجید نامی شخص کو بھیج کر اسے قتل کرانے کی کوشش کی۔ مقدمہ بعد ازاں مسئلہ اختیار سماعت کی بنیاد پر ضلعی منتظم گورداسپورکی عدالت میں چلایا گیا۔سماعت کے دوران پولیس نے مرزا غلام احمد کی طرف سے پیروی کے وقت عبدالمجید پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنے پہلے بیان کو تبدیل کر دے۔اس سے مقدمہ کی بنیادیں ہل گئیں۔مرزا صاحب کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کی جا سکتی تھی۔ یہ ایک جوڑ توڑ کا معاملہ تھا۔ انگریزوں نے اپنی تیار کردہ ساری کارروائی بڑی دلچسپی سے دیکھی۔کرنل ڈگلس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور نے بعد ازاں عبدالرحیم درد کو بتایا کہ اس مقدمے کی ساری نگرانی حکومت پنجاب نے کی تھی۔

A.R. Dard, Autobiographical Writings-edit by Vijaya Chandra Joshi, Delhi p.7, 1965

            ڈاکٹر کلارک کے مقدمہ نے مرزا صاحب کے بارے میں قائم شدہ اس عام تاثر کو زائل کر دیا کہ آپ اپنی پیش گوئیوں کی تکمیل کے لیے اپنے آلہ کاروں کے ذریعے اپنے مخالفین کو قتل کر وا دیتے ہیں۔ مرزا صاحب نے اپنے مخالفوں کو مباہلوں کی للکار دی اور ان کی تذلیل جاری رکھی۔حتی کہ ٢٤ فروری ١٨٩٩ء کو حکومت پنجاب نے آپ کو حکم دیا کہ آپ کسی ایسی پیش گوئی کی اشاعت سے باز رہیں جس میں کسی شخص کی تذلیل مقصود ہو یا اسے خدائی قہر کا نشانہ بنایا جائے۔اس حکم کا مقصد مذہبی غیظ و  غضب سے اُٹھنے والی شدت کو روکنا تھا اور آپ کے مخالفین کو ٹھنڈا کرنا تھا جو زیادہ تر محمد حسین بٹالوی کے پیروکار تھے۔برطانوی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔یہ ایک عارضی اقدام تھا۔ برطانوی سلطنت کے وفادار آلہ کار مرزا صاحب نے بڑی وفاداری سے حکم کی تعمیل کی اور کچھ عرصہ تک آپ نے زبان سے ایسے الہامات پر مبنی ایک لفظ نہیں نکالا۔ اگر آپ خدا کی طرف سے بھیجے گئے ہوتے اور خدا نے اپنی خواہش آپ پر منکشف کی ہوتی تو کبھی خاموش نہ رہتے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزا قادیانی اپنے برطانوی آقاؤں کی لے پر رقص کر رہے تھے۔ آپ محض برطانوی سامراجیت کے ترجمان تھے اور آپ کا کوئی خدائی نصب العین نہ تھاسوائے اس کے کہ برطانوی نو آباد کاروں کے سیاسی منصوبوں کی تکمیل کی جا سکے۔

مذہبی مباحث پر ایک یادداشت

            انیسویں صدی کے آخر میں عیسائی مشنریوں اور آریہ سماجیوں نے اسلام کے خلاف جاہلانہ اور جارحانہ حملوں کا سیلابی دروازہ کھول دیا۔ انہوں نے مرزا صاحب کی طرف سے ان کے رہنماؤں پر کی گئی تنقید، آپکی تحریروں اور پیش گوئیوں میں کی جانے والی اہانت کو جواز بنا لیا۔برطانوی افسر شاہی کے خفیہ ہاتھ نے صورتحال کو خر اب کرنے میں خطرناک کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر احمد شاہ نامی ایک مرتد لندن میں رہائش پذیر تھا اس سے پہلے انگریزوں نے اسے لداخ میں ایک میڈیکل افسر مقرر کیا۔اس نے ازواج مطہرات  کے متعلق ایک غلیظ کتاب لکھی۔برطانوی محکمہ خفیہ نے آر پی تبلیغی پریس گو جرانوالہ پنجاب میں کئی ہزار کاپیاں طبع کروائیں۔کتاب کا نام ”امہات المؤمنین”رکھا گیا۔ اس کی ایک ہزار کاپیاں مفت تقسیم کی گئیں تاکہ مسلمانوں کے جذبات کو بر انگیختہ کیا جا سکے اور ہندوستان کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان کشیدگی اور نفرت کو اور زیادہ بھڑکایا جائے۔

            ٢٦ اپریل ١٨٩٨ ء کو انجمن حمایت اسلام لاہور نے حکومت کو ایک یاد داشت ارسال کی جس میں اس کتاب کی ضبطی کے احکامات کا مطالبہ کیا گیا۔ (حکومت پنجاب۔روداد محکمہ داخلہ۔نمبر ١٣ تا ٢٦ فائل نمبر ١٣٥۔جون ١٨٩٨ انڈیاآفس لائبریری لندن )مرزا صاحب نے مورخہ چار مئی ١٨٩٨ کو حکومت سے استدعا کی کہ اس کتاب کو ممنوع قرار نہ دے۔آپ نے یہ تجویز پیش کی کہ مسلمان اس کا جواب تیار کریں۔ آپ نے انجمن کے اس اقدام پر تنقید کی اور حکومت سے ان کی یاد داشت کو نظر انداز کرنے کو کہا۔ (”تبلیغ رسالت”۔جلد ٧۔ صفحہ نمبر ٢٧۔روداد محکمہ داخلہ۔جون ١٨٩٨۔ انڈیا آفس لائبریری لندن)

            ہندوستان میں مذہبی جوش و خروش بڑھتا گیا۔ مذہبی رہنماؤں نے اپنے مخالفین کی شخصیات و عقائد پر بے دردی سے حملے شروع کر دئیے اورکسی طرح کی شائستگی کا کوئی خیال نہ رکھا۔اس تناؤ کے ماحول میں اکتوبر ١٨٩٨ ء میں مرزا صاحب نے وائسرائے ہند لارڈ ایلکن کو ایک یادداشت ارسال کی۔آپ نے ایک ضابطہ اخلاق کی تجویز پیش کی جس کی رُو سے مخالفین کو مذہبی تنازعات میں بد کلامی اختیار کرنے سے روکنا اور قانون کے دائرے میں لانا تھا۔ (حکومت پنجاب محکمہ داخلہ کارروائی نمبر ١٧٤  تا  ١٨٢۔فائل نمبر ١٣٥۔ اکتوبر ١٨٩٨۔مرزا غلام احمد قادیانی کی یادداشت۔مذہبی تنازعات کے بارے میں انڈیا آفس لائبریری۔لندن۔حکومت پنجاب کارروائی۔محکمہ داخلہ۔اکتوبر ١٨٩٨ ء۔انجمن حمایت اسلام لاہور اور مونگھیر کی جانب سے پیش کردہ یادداشت۔”امہات المؤمنین ”نامی کتاب کی اشاعت کے خلاف مولوی ابو سعید محمدحسین کا لکھا ہوا ایک مضمون جس کے ساتھ مرزا غلام احمد کی یاد داشت بھی تھی۔جس میں کئی تجاویز دی گئیں تھیں کہ کس طرح مذہبی مخالفین کو ضابطے کا پابند بنایا جائے کہ وہ جرم کے مرتکب نہ ہو سکیں۔انڈیا آفس لائبریری لندن )۔

            آپ نے خدشہ کا اظہار کیا کہ مذہبی تنازعات سے نکلنے والی حد درجہ حرارت برطانوی حکومت کے پُر امن راج کے لیے خطرہ کھڑا کر دے گی اور ایک سیاسی بے چینی کی طرف بھی لے جا سکتی ہے۔ مذہبی اشتعال پر مبنی تحریریں مسلمان جنونیوں کو برطانوی حکومت کے خلاف ہتھیار اُٹھانے پر اُکسا سکتی ہیں جس طرح ١٨٥٧ ء کی شورش میں ہوا تھا۔اس یادداشت کا مقصد سیاسی بغاوت کو روکنا اور اپنے سامراجی آقاؤں کو تجویز پیش کرنا تھا کہ وہ ابھرتے ہوئے سیاسی حالات کی روشنی میں مذہبی معاملات میں اپنی غیر جانبدارانہ حکمت عملی پر نظر ثانی کریں۔یہ تجویز برطانوی آقاؤں کے لیے شدید محبت اور وفاداری کے تحت دی گئی تھی مگر برطانوی حکومت نے آپ کی تجویز مسترد کر دی اور اس پر کوئی کارروائی نہ کی۔(حکومت ہند۔محکمہ داخلہ کہتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی طرف سے پیش کردہ یادداشت پر گورنر جنرل کی کونسل کوئی اقدام اُٹھانے کو تیار نہیں جو کہ ”امہات المؤ منین” نامی کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں ہے۔ (مراسلہ نمبر ٦٠٢ ٢۔بتاریخ ١٨٩٨۔١٢۔٣١ )کمشنر لاہور سے درخواسست کی گئی کہ وہ مرزا کو اس بارے میں مطلع کر دے۔حکومت پنجاب۔محکمہ داخلہ کی روداد۔فائل نمبر ٣٥۔اکتوبر ١٨٩٨۔انڈیا آفس لائبریری لندن )

            عبدالرحیم درد مرزا صاحب کی اس سیاسی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں  :

”اس تجویز پر عمل درآمد حکومت کے اپنے لیے مفید تھا۔سیاسی طور پر گمراہ کن عناصر لوگوں کو حکومت کے خلاف بھڑکانے کے لیے مذہبی جھگڑوں کا فائدہ اُٹھا سکتے تھے۔اسی بات کا احساس کر کے حکومت نے ١٨٩٧ ء میں بغاوت ایکٹ منظور کیا تھا مگر اس کے نفاذ کے باوجود ملک قانونی پابندی سے پھسل کر بے اطمینانی کی طرف جا رہا تھا۔چونکہ ہندوستان مستقل طور پر ایک مذہبی سرزمین رہی ہے اور اس کے لوگ سیاسی مسائل کے بجائے مذہبی مسائل پر بہت جلدی اُ ٹھ کھڑے ہوتے ہیں لہٰذا اس قانون سے بھی در حقیقت حکومت کو مثبت نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔ ١٨٩٧ ء کے بغاوت ایکٹ سے بھی مذہبی لڑائیوں کی روک تھام نہ ہو سکی اور  جب اس کی میعاد گزر گئی تو حکومت نے ایسی کسی دفعہ کی کوئی پروا نہ کی۔”

A.R. Dard, The life Of Ahmad,Lahore,1948,P.433

            مرزا صاحب نے مخالفین کے خلاف اپنی گھٹیا اور گندی زبان کے استعمال کی دلچسپ توجیہ پیش کی جسے آپ   متواترعیسائیت اور پادریوں کے خلاف استعمال کر رہے تھے۔آپ نے اپنے عیسائیت مخالف طرز عمل اور حضرت مسیح علیہ السلام کی ذات پر رکیک حملوں کا یہ جواز پیش کیا کہ آپ کی غیر شائستہ تحریریں سر پھرے مسلمانوں کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے تھیں۔وہ ان تحقیر آمیز اور سخت تحریروں کو پڑھ کر مطمئن ہو گئے اور اپنے انتقام آور رویہ سے باز آ گئے جو بصورت دیگر ملکی امن کے لیے پُر خطر ثابت ہو سکتا تھا دوسرے آپ نے یہ موقف اختیار کیا کہ عیسائیت مخالف تحریریں مسلمان ممالک میں سیاسی اہمیت کی حامل قرار دی جاتی ہیں ،ایسی تحریری پڑھ کر مسلمان برطانوی حکومت کی مذہبی حکمت عملی کو پسند کرتے ہیں اور ان کے لیے محبت بھرے جذبات رکھتے ہیں۔

Mirza Ghulam Ahmad ,Tarryaq-ul-Qalub, Qadian1899,P.317

            ان کا یہ خیال تھا کہ برطانوی مسلمانوں پر مائل بہ کرم ہیں اور ان کے اقتدار سے اسلام کو کوئی خطرہ نہیں۔ اس مقصد کو پیش نظر رکھ کر بھاری مقدار میں قادیانی مذہبی لٹریچر مسلمان ممالک میں بھجوایا گیا تاکہ سامراجی پروپیگنڈہ کیا جا سکے۔مرزا صاحب یہ بات کہنے کی جرأت نہ کرسکے کہ عیسائی تبلیغی مراکز کی جڑیں سامراجی توسیع پسندی میں پیوست ہیں اور جب تک سامراج برداشت کرے، اس کے مذہبی دُم چھلے قائم رہ سکتے ہیں اور جب تک سامراج زندہ ہے دجال نہیں مارا جا سکتا۔آپ نے سامراجیت کی تعریف کے نغمے گائے لیکن اس کے بچے کو مذموم قرار دیا۔آپ گڑ کھاتے رہے اور گلگلوں سے پرہیز کرتے رہے  ٧  مرزا غلام احمد کی سخت تحریروں اور ناشائستہ طرز عمل پر مسلمانوں علماء کی ایک جماعت نے آپ کو ترکی بہ ترکی جواب دینے کی ٹھانی۔ (حکومت پنجاب۔محکمہ داخلہ کی کارروائی۔ فائل نمبر ٢٩۔مئی ١٨٩٨ ء۔”مرزا غلام احمد کے پیرو کاروں کی ”جعفر زٹلی ” کے مدیر کے خلاف شکایت۔انڈیا آفس لائبریری لندن )۔

Phoenix His Holiness,P.68

            جس سے آپ کے لہجے کی سختی میں مزید اضافہ ہوا۔ تاہم مخالف حملے نے آپ کو ان مولویوں کے خلاف جو آپ کے لیے سدراہ بن گئے تھے،قانون کا سہارا لینے پر مجبور کر دیا۔ دراصل مرزا صاحب حکومت کی مدد سے ا پنے لیے ایک دفاعی حصار قائم کرنا چاہتے تھے کیونکہ آپ کی نبوت میں قوت برداشت کی کمی تھی۔ آپ انگریز کی بھر پور سرپرستی کے خواہاں تھے۔ تحریک احمدیت کا صحیح نصب العین نہ تھا۔اسی لیے مرزا صاحب اپنی بقاء کی جدوجہد میں ہمہ تن مصروف اور خوفزدہ رہتے تھے۔ آپ جانتے تھے کہ آپ کی نبوت آنے والے طوفان کا مقابلہ نہ کر سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ انگریزوں کے تلوے چاٹتے رہے اور تحفظ کے لیے گڑ گڑاتے رہے۔ آپ یہ اُمّید رکھتے تھے کہ انگریز آپ کی نبوت کو اپنے متبنی اور لے پالک بچے کی طرح پالیں گے اور آپ ان کے سیاسی مفادات کا مذہبی انداز سے تحفظ کریں گے۔

Phoenix His Holiness, P.121

تحریکِ احمدیت

مذہبی دعووں کی سیاست

            مرزا صاحب کا سارا کاروبار صرف اور صرف مذہب کی آڑ میں سیاست تھی جس کا اسلام کے احیاء کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔آپ انگریزوں کے آلہ کار اور مسلمانوں کے اتحاد کے سب سے بڑے دشمن تھے۔مجدد، مہدی، مسیح موعود، نبی، رسول اور  کرشن اوتار کے دعوے صرف سیاسی تماشے تھے۔آپ کے سیاسی کاروبار کی نوعیت سمجھنے کے لیے آپ کے مہددیت کے دعوے سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔

مہدی

            احادیث کے مطابق مہدی ایک ہدایت یافتہ شخصیت ہوں گے۔نبی کریمﷺ   کے طریق پر خلافت قائم کریں گے اور زمین کو اُس وقت عدل و انصاف سے بھر دیں گے جب اسے زمین سے منتشر کر کے نکالا جا چکا ہو گا۔ وہ ایک جنگجو اور  اسلام کے عظیم سپاہی ہوں گے۔تاریخ کے مختلف ادوار میں اپنے سیاسی مقاصد کو پروان چڑھانے کے لیے کئی مذہبی مہم جوؤں نے مہد ی ہونے کا دعویٰ کیا۔سیاسی مقاصد کی خاطر ایران کے بابیوں اور  ہندوستان کے قادیانیوں نے اس کا سب سے زیادہ استعمال کیا۔ جب کبھی مسلمانوں کی سیاسی قو ت تنزل کا شکار ہوئی تو کوئی نہ کوئی مہدی اُٹھ کھڑا ہوا۔انیسویں صدی کے سیاسی حالات کے باعث ”مہدی ”کے تصور نے بڑی اہمیت حاصل کی۔ یہ اعتماد بحال کرنے اور  کسی قوم کی اُمید زندہ رکھنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔یہ توقع کی جاتی تھی کہ مہدی علیہ السلام آکر ماضی کی شان و شوکت بحال کریں گے اور اسلامی دُنیا کو ایک خوشگوار انجام تک لے جائیں گے۔مرزا صاحب نے مہدی کا دعویٰ ١٨٩١ء میں کیا۔ آپ نے یہ اعلان کیا کہ آپ کی ذات میں مہدی کے متعلق تمام پیش گوئیاں مکمل ہو گئی ہیں ،مگر مہدی کے جہادی پہلو کے متعلق سوچ کر آپ خوف سے کانپ جاتے۔ آپ نے اپنے آپ کو ”عدم تشدد کا حامی مہدی” قرار دیا جو زمین پر جنگ کو روکنے آیا تھا۔آپ نے انگریزوں اور مسلمانوں کو یہ یقین دلانے کی سر توڑ کوشش کی کہ مہد ی کی عالمی فتوحات کی جو پیش گوئیاں ہیں وہ امن کی فتوحات ہیں ، جنگ کی نہیں۔اپنی کتابوں میں آپ نے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا کہ وہ ایک خونخوار جنگجو اور خونی مہدی کے تصور کو پروان چڑھا رہے ہیں ،جو غیر مسلم یہودیوں اور عیسائیوں کو قتل کرے گا۔  ١  ایسا کوئی مہدی نہیں آ سکتا جو جہاد شروع کرے۔ وہ ایک ابلاغ کا ر تو ہو سکتا ہے،سپاہی نہیں۔انگریزوں کے خلاف جنگ کا سوال ہی پید انہیں ہوسکتا تھا،خواہ ہندوستان میں یااسلامی دُنیا میں کہیں اور اس کی ضرورت پیش آئے۔

            انیسویں صدی کے آخیر میں نو آبادیاتی قومیں ایشیا ء اور افریقہ میں نو آبادیوں کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی تھیں فرانسیسی سامراج نے تیونس پر قبضہ کر لیا اور برطانیہ مصر لے گیا۔مصر کے معاملات میں برطانیہ کی مداخلت ١٨٧٥ء میں شروع ہوئی جب برطانوی وزیر اعظم ڈزرائیلی نے نہر سویز کے حصص خریدنے کے لیے بات چیت شروع کی۔ اس کے بعد اگلی دہائی میں بھی انہوں نے ”پُر امن نفوذ پذیری ” جاری رکھی، خد یواسماعیل نے نو آبادیاتی شکنجے سے جان چھڑانے کی کوشش کی،مگر ناکام رہا۔ ١٨٧٩ء میں مصری فوج میں ایک بغاوت ہوئی جو دبادی گئی۔ دوسال بعد کرنل احمد اعرابی نے مصری معاملات میں برطانوی مداخلت کے خلاف چند فوجی افسران اور  مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مل کر ہتھیار اُٹھا لیے۔ ١١ اور ١٢ جون کو اسکندریہ میں بلوہ ہوا۔ ایک مہینے بعد برطانوی امیر البحر  فریڈرک بی  کیمپ نے وہ کیاجسے بعد میں ولزلی نے ”اسکندریہ پر احمقانہ اور مجرمانہ بمباری ”کا نام دیا گیا۔لندن میں اعرابی کی جنگ آزادی کو ختم کرنے کے لیے گلیڈ سٹون حکومت نے فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ ستمبر ١٨٨٢ء میں فوج کے نائب سالار ولزلی کو طل کبیر کی جنگ میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جو کہ نہر سویز اور قاہرہ کے تقریباً وسط میں تھی۔تاہم برطانوی فوجیں کامیاب رہیں اور کرنل احمد کی فوجیں جزیرہ سشیلز کی طرف ہٹ گئیں۔١٨٨٣ء میں برطانیہ نے مصر پر قبضہ کر لیا اوراس حقیقت کے باوجود کہ مصر ترکی سلطنت کا حصہ تھا،برطانیہ نے اس پر اپنا نو آبادی تسلط جاری رکھا۔

     (مرزا غلام احمد”حقیقت المہدی ”قادیان۔ ١٨٩٩ء۔ صفحہ نمبر ٦۔ اور  ” محمد علی، مرزا غلام احمد” لاہور۔١٩٦٧ء صفحہ نمبر ٥)

            اعرابی کی نو آبادیاتی مخالف بغاوت کے دوران سوڈان میں ایک مذہبی رہنما المہدی (محمد احمد ) اُٹھ کھڑے ہوئے۔انہوں نے تمام قبائل کو متحد کیا اور ان تمام مصری دستوں کو متواتر شکستیں دیں جو انہیں گرفتار کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔نیل کے مغرب میں مہدی کے درویشوں نے پورے سوڈان کا مکمل اختیار جلد ہی سنبھا ل لیا۔

((مہدی برطانوی یا مصری تاریخ کا ایک باب یا حصہ نہیں یہ اسلامی احیاء کے خود مختار تاریخی عمل کا حصہ ہے۔ دیکھئے بی۔ایم۔ہولٹ          ”سوڈان میں مہدی ریاست ”۔ ٨٩۔١٨٨١۔ آکسفورڈ۔١٩٥٨۔ اور۔محمد شکیبہ۔”سوڈان میں برطانوی حکمت عملی ” لندن۔١٩٥٢ء)

            ١٨٨٣ء میں دس ہزار فوجیوں کولے کر برطانوی جرنیل ہکس نے درویشوں کے خلاف لڑنے کے لیے صحرا میں بڑھنا شروع کیا۔ جذبہ جہاد سے سر شار مہدی کی فوجوں نے دس ہزار آدمیوں کی فوج کا مکمل صفایا کر دیا جس سے برطانوی حیران اور خوفزدہ ہو گئے۔ لارڈ فٹ موریز نے دار الامرا ء کو بتایا کہ ”جب سے فرعون کے ہاتھی بحیرہ احمر میں ڈوب کر تباہ ہوئے اس وقت سے کسی فوج کی اتنی مکمل تباہی آج تک نہیں ہو سکی ”۔ سوڈانیوں اور عرب ممالک کی کثیر تعداد نے یہ یقین کر لیا کہ آپ وہی ا صل مہدی ہیں جن کی آمد کی خوشخبری حضور اکرمﷺ   نے دی تھی۔

(لٹن سٹار کی۔ Eminent Victorians۔چٹوئی اور انڈس۔لندن۔١٩٧٤۔صفحہ نمبر ٢٥٥)

            برطانوی سامراجیوں نے درویشوں کے خلاف لڑنے کے لیے چارلس گورڈن کا انتخاب کیا۔ گورڈن نے تائیوان کی چین میں ”تائپنگ بغاوت ”کو کچل کر بڑا نام کمایا تھا۔اس تحریک کا سربراہ خدا کا بیٹا،خدا کا پیغمبر،آسمانی بادشاہ اور حضرت مسیح کا چھوٹا بھائی ہونے کا دعویدار تھا۔ وہ بھی مرزا کی طرح اپنے علمی مقاصد میں ناکامی پرسیاست کی طرف راغب ہو گیا۔١٨٦٤ ء میں گورڈن نے ”مسیح کی بغاوت ”کچل دی اور نان کن پر قبضہ کر لیا۔

            مہدی کی فوجو ں کے بڑھتے ہوئے عسکری دباؤ کے سامن گورڈن نے اپنی چھاؤنیاں ہٹا لیں اور برطانوی احکامات کے خلاف خرطوم پر اپنا قبضہ جاری رکھا جب تک کہ ١٨٨٥ء میں مہدی کی فوجوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ درویشوں نے جنرل گورڈن کو مار ڈالا۔ملکہ وکٹوریہ اصرار کرتی رہی کہ ہندوستانی دستوں کو عدن سے حرکت دی جائے کہ وہ گورڈن کو بچا سکیں۔مشہور انگریزی شاعر لارڈٹینی سن نے گورڈن کے بارے ایک نظم لکھی اور برطانوی پریس نے اسے ”سپاہی ولی”کا خطاب دے دیا اگرچہ ریڈ ور زبلرز نے یہ کہا ”یہ آدمی اُونٹوں سے بھی کم حیثیت کا مالک تھا۔

(رچرڈ گیرٹ۔ ”جنرل گورڈن ”۔آتھر بیکر لمیٹڈ لندن۔١٩٧٤ء  صفحہ نمبر ٢١٥

                        محمد احمد المہدی سوڈانی کو برطانوی فوجیں کبھی بھی نیچا نہ دکھا سکیں۔ دس سال کے عرصے کے بعد کچنر نے ١٨٩٦ء میں سوڈان کو سامراجی دائرہ اختیار میں زبردستی لانے کے لیے فوجی مہمات شروع کیں۔ ایک سال کے بعد مہدی  کے خلیفہ کو  بڑی خونریزی کے بعد شکست ہوئی اور وہ ایک سال بعد مارے گئے۔کچنر نے مہدی کا مقبرہ تباہ کر دیا۔ ان                   کی ہڈیاں دریائے نیل میں پھینک دی گئیں اور یہ تجویز ہوا کہ ان کی کھوپڑی رائل کالج آف سرجنز کو بھجوائی جائے جہاں اس کی نپولین کی آنتوں کے ساتھ نمائش کی جا سکے۔بعد ازاں وادی حلفہ میں یہ کھوپڑی رات کے وقت خفیہ طور پر دفن کر دی گئی۔

            مہدی کی سوڈان میں جنگ آزادی نے عرب اور شام میں سنگین خطرے بھڑکا دئیے۔ مسلمانانِ ہند نے بھی برطانوی فوجوں کی ذلت آمیز شکستوں پر اطمینان کا سانس لیا۔ انہوں نے مہدی سوڈانی کو عزت و احترام دیا۔ انہیں خطوط بھیجے اور قوموں کے نجات دہندہ کا درجہ دیا۔ ہندوستان میں اُنہیں یقین پورا پایا جاتا تھا کہ مہدی سوڈانی افریقہ کو فتح کرنے کے بعد انڈیا بھی فتح کریں گے اور غیر ملکی شکنجوں سے مسلمانوں کو آزاد کرائیں گے۔

(    اے ایگمن ہیک۔دی جزنر۔میجر جرنل سی۔ جی گولڈن۔سی۔ بی الخرطوم۔کیگن پال ٹرونج اینڈ کمپنی لندن ١٨٨٥ء۔صفحہ نمبر ٤٤ٍ)

            جب مہدی سوڈانی کی تحریک پورے زوروں پر تھی، مرزا قادیانی جہاد کی مذمت اور برطانوی سامراج کے روشن ترین خاکے تیار کر کے مذہبی مواد کی بھاری مقدار افریقہ کو بھجوا رہا تھا۔

            اپنی کتاب ”حقیقت المہدی ”میں اس نے جہادی اور خونی مہدی کی سخت مذمت کی اور دعویٰ کیا کہ پچھلے بیس سالوں سے (١٨٧٩۔٩٩ ١٨ء)وہ تصور جہاد کے خلاف پرچار کر رہا ہے۔ ایک خونی مہدی اور مسیح کی آمد کے نظریئے اور جہاد مخالف لٹریچر کی عرب ممالک خصوصاً ترکی،شام، کابل وغیرہ میں تقسیم جاری رکھی۔ اپنی کتاب کے ساتھ عربی اور فارسی میں ایک اٹھارہ صفحات کا ضمیمہ منسلک کر کے اس نے عرب ممالک کے مسلمانوں کو دعوت دی کہ وہ اس کی مہدویت کے دعویٰ کو تسلیم کر لیں اور جہاد کے نام پر جنگیں بند کر دیں اور برطانوی حکومت کے بارے میں اپنے دلوں میں گہرا احترام پیدا کریں۔ایک دوسری کتاب ”ملکہ وکٹوریہ کی خدمت میں تحفہ ”میں آپ ذکر کرتے ہیں۔

”والد صاحب مرحوم کے انتقال کے بعد یہ عاجز دنیا کے مشغلوں سے بالکل علیحدہ ہو  کر خدا تعالی کی طرف مشغول ہوا اور مجھ سے سرکار انگریزی کے حق میں جو خدمت ہوئی وہ یہ تھی کہ میں نے پچاس ہزار کے قریب کتابیں اور رسائل اور اشتہارات چھپوا کر اس ملک اور نیز دوسرے بلادِاسلامیہ میں اس مضمون کے شائع کیے کہ گورنمنٹ انگریز ہم مسلمانوں کی محسن ہے، لہٰذا ہر ایک مسلمان کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ اس گورنمنٹ کی سچی اطاعت کرے اور دل سے اس دولت کا شکر گزار اور دعا گو رہے اور یہ کتابیں میں نے مختلف زبانوں یعنی فارسی عربی میں تالیف کر کے اسلام کے تمام ملکوں میں پھیلا دیں یہاں تک کہ اسلام کے دو مقدس شہروں مکہ اور مدینہ میں بھی شائع کر دیں۔اور روم کے پایہ تخت قسطنطنیہ اور بلادِ شام اور مصر اور کابل اور افغانستان کے متفرق شہروں میں جہاں تک ممکن تھا   اشاعت کر دی جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ لاکھوں انسانوں نے جہاد کے غلیظ خیالات چھوڑ دئیے جو نا فہم ملاؤں کی تعلیم سے ان کے دلوں میں تھے۔یہ ایک ایسی خدمت مجھ سے ظہور میں آئی کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ برٹش انڈیا کے تمام مسلمانوں میں سے اس کی نظیر کوئی مسلمان دکھلا نہیں سکتا۔

(    دیکھئے مرزا غلام احمد ”ستارہ قیصریہ ”١٨٩٩ء۔قادیان۔ صفحہ نمبر ٤٠٣  ”حقیقت مہدی ”قادیان۔١٨٩٩ء)

            کیا اپنی جیب سے ہزاروں روپیہ خرچ کر کے برطانوی حمایت میں لٹریچر چھپوانے میں کوئی مقصد کارفرما ہے؟ کیا احمدی اس پر روشنی ڈالیں گے؟ یہ ہزاروں روپے (جن کی آج وقعت کروڑوں روپے بنتی ہے )کہاں سے آئے ؟ ١٨٩٨ء میں مرزا صاحب نے انکم ٹیکس کے ایک مقدمہ میں اپنی سالانہ آمدنی سات سو روپے سے کم ظاہر کی تھی، جس پر ضلع گرداسپور                                کے کلکٹر ٹی۔ٹی ڈکسن نے انہیں انکم ٹیکس سے مستثنی قرار دیا تھا۔

(مرزا غلام احمد۔”تحفہ قیصریہ”ص ٢٧۔)

 مرزا صاحب اسے ایک خدائی نشانی قرار دیتے ہیں۔

(مرزا غلام احمد”ضرورت الامام ”قادیان ١٨٩٩ء  )

برطانوی پروپیگنڈا مہم میں خرچ کے لیے وہ ہزاروں روپوں کا کہاں سے انتظام کرسکا ؟ جواب بالکل صاف ہے۔ سیاست کے اس فریب کارانہ کھیل کی مدد کے لیے برطانوی خفیہ تنظیموں کی تفویض پر خفیہ مذہبی رقوم رکھی گئی تھیں۔ہندوستان اوراس کے باہر برطانیہ کی حمایت میں پروپیگنڈا مہم کی تدوین اور اسے جاری رکھنے کے لیے فری میسن اور یہودی بھی آپ کو رقوم دیتے تھے۔ مرزا صاحب نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ وہ اسلامی ممالک میں اس لٹریچر کے ساتھ چند عرب شرفا ء کو بھی بھیجتے رہے ہیں۔

(مرزا غلام احمد کی تیار کردہ یادداشت جو منظوری کے لیے ملکہ وکٹوریہ ہندوستان کے منتظم اعلی کے نائب منتظم اور ہندوستان کے دوسرے اہل کاروں کو پیش کی گئی۔”تبلیغ رسالت ”۔جلد ٣۔صفحہ نمبر ١٩٦ )

قادیان کی خفیہ تنظیم کے تربیت یافتہ یہ جاسوس اسلام مخالف قوتوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھتے تھے۔غلام نبی (قادیان)عبدالرحمن مصری، عبدالمحی عرب،(پروفیسر عبدالمحی عرب حکیم نورالدین سے بہت متاثر تھا۔ وہ نیویارک میں طب کی تعلیم کے لیے جانا چاہتا تھا،مگر امریکی حکومت نے اسے ایرانی جاسوس سمجھتے ہوئے اجازتِ داخلہ دینے سے انکار کر دیا۔ جس پر وہ لندن میں مقیم ہو گیا )

(مولانا غلام رسول مہر۔”سفر نامہ حجاز ” کراچی۔ ١٩٨٤ئ۔ صفحہ نمبر ٧٦)

اور شاہ ولی اللہ کو انیسویں صدی کے اخیر میں تخریب کارانہ مقاصد کے لیے مصر بھیجا گیا۔ان کی خدمات قاہرہ میں برطانوی خفیہ والوں کو تفویض کر دی گئیں۔ہمارے ذہنوں میں ایک اور اہم سوال اُبھرتا ہے کہ مرزا صاحب کا یہ دعویٰ تھا کہ برطانوی ہند میں جہاد ممنوع اور غیر قانونی ہے،مگر آپ نے اسے بقیہ اسلامی دنیا کے لیے مکمل طور پر غیر قانونی اور ممنوعہ کیوں قرار دیا۔ جہاں مسلمان یورپی سامراجیت کے خلاف اپنے بقاء کی جنگ لڑ رہے تھے۔کیا یہ سامراجی قوتوں اور ان کے یہودی حلیفوں کے واسطے اسلامی دنیا کی جہادی تحاریک کو تباہ کرنے کی ایک طے شدہ حکمت عملی نہیں تھی ؟

قادیانیت کیا ہے؟

قادیانیت برطانوی سامراج کا پیدا کردہ اسلام دُشمن سیاسی و سازشی فتنہ ہے جس کو مرزا غلام قادیانی نے مذہبی روپ دے کر مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد کو مٹانے کی خطرناک سازش دور فرنگی میں فرنگی کے اشاروں پر تیار کی تھی جس کا اعتراف خود مرزا غلام قادیانی کرتا ہے کہ قادیانیت انگریز کا (خود کاشتہ پودا ) ہے (مجموعہ اشتہارات جلد سوم ص١٢١  از مرزا قادیانی ) اور قادیانی عالمی صیہونی تحریک کے آلہ کار یورپ کے تربیت یافتہ اور اسرائیل کے ایجنٹ ہیں۔ قادیانیت کا وجود ننگ انسانیت اور ملت اسلامیہ کے لیے ایک ناسور اور ایمان کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ قادیانیت حضورﷺ  سے بغض  و عناد، ختم نبوت پر ڈاکہ زنی اور یہودیت کے مکر و فریب اور دجل کا دوسرا نام ہے۔

قادیانیت سے خبر دار رہنے کے لیے انٹر نیٹ پر ملاحظہ کیجیے

http://www.weeklykhatm-e-nubuwwat.clickhere2.net

http://www.khatm-e-nubuwwati1.clickhere2.net

٭٭٭

تشکر: اسد، رکن اردو محفل جنہوں نے جریدے کی جلد کی فائل مہیا کی

ردوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید