FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

بے زبانی زباں نہ ہو جائے

(حفیظ ہوشیار پوری ۔۔  بیسویں صدی کی اردو غزل کے تناظر میں)

 

حصہ دوم (باب ۲، ۳)

 

ڈاکٹر قرۃالعین طاہرہ

 

مقالہ:  پی ایچ ڈی ۱۹۹۹ ء

 

نگران: ڈاکٹر سہیل احمد خان

گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی، لاہور

 

 

 

یہ حصہ ڈاؤن لوڈ کریں

مکمل کتاب (چاروں حصے) ڈاؤن لوڈ کریں

باب دوم: اُردو غزل حفیظ سے پہلے

 

 

۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے اثرات ہماری تہذیبی روایات خصوصاً ً ادب پر

 

۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی ہماری سیاسی، ادبی و تہذیبی تاریخ میں بے حد اہمیت کی حامل ہے۔  اس تحریک کا تعلق کسی ایک مخصوص گروہ یا طبقے سے نہ تھا، بلکہ اس تحریک میں برِصغیر کی تمام اقوام بغیر کسی امتیاز کے شریک ہوئی تھیں۔  سبھی افراد نے اپنے اپنے دائرہ اختیار، بلکہ بسا اوقات اپنی حیثیت اور ہمت سے بڑھ کر حصہ لیا۔  کم تعداد میں ہونے کے باوجود اس تحریک کی راہنمائی کے فرائض مسلمانوں نے انجام دیے اور وہی انگریزوں کے عتاب کانشانہ بھی زیادہ بنے۔  مسلمانوں کے ہاتھ سے عنان حکومت چھینی گئی تھی۔  انھیں اس کا دکھ تھا۔  انھوں نے ہی دوسری اقوام سے زیادہ جانی ومالی قربانیاں دیں۔  انگریزوں نے بھی ان جانبازوں اور سرفروشوں کے ساتھ وہ بہیمانہ سلوک کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔  اس جنگِ آزادی میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان شہید ہوئے۔  معمولی باتوں کو بہانہ بنا کر پھانسیاں دی گئیں۔  مسلمان گولی سے اڑائے گئے قید کیے گئے۔  کالے پانی کی سزا سنائی گئی اور انھیں جلاوطن کیا گیا:

’’…. صرف دہلی شہر میں ستائیس ہزار آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا اور ان میں بہت بڑی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔  ان کے گھربار لٹے، جائدادیں تباہ ہو گئیں، جاگیریں اور ملکیتیں ضبط کر لی گئیں، مثلاً دہلی اور اطراف میں ان کے املاک شمار سے باہر تھے۔  ۱۸۵۷ء کے بعد وہ اقتصادی لحاظ سے اتنے خستہ ہو چکے تھے گویا ان کی کوئی حیثیت ہی نہ تھی۔  خدا جانے کتنی ریاستیں امارتیں اور کتنی ثردتیں خاک میں مل گئیں، لیکن قدرت کی کرشمہ فرمائیاں ملاحظہ ہوں کہ جن مسلمانوں کو انگریزوں نے ۱۸۵۷ء میں پستی و بے چارگی کی آخری منزل پر پہنچا دیا تھا۔  وہ تھوڑی ہی دیر بعد اٹھے اور ان کے جوش حمیت کا سیل اس درجہ بے پناہ تھا کہ مخالف قوتیں متحد ہو کر بھی اسے روکنے میں کامیاب نہ ہوئیں‘‘۔  (۱)

ظلم کی ایک حد ہوا کرتی ہے۔  کب تک کوئی ظلم کرے اور کب تک کوئی ظلم سہے، لیکن انگریزوں کے مظالم کی شاید کوئی حد تھی ہی نہیں:

’’…. ہزاروں پربیدیں اور کوڑے ایسے پڑے کہ کھالیں ادھڑ گئیں۔  بکثرت لوگوں کو جیلوں کی تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں ٹھونس دیا گیا۔  امراء کی جائدادیں ضبط کر لی گئیں۔  ان کے محلات ڈھا دیے گئے اور ان کو یا تو شہر بدر کر دیا گیا یا گرفتار کر لیا گیا اور یا قتل کر دیا گیا۔  غرض ایسی تباہی اور ایسی غارت گری دلی کی سرزمین نے کبھی نہ دیکھی تھی جیسی ۱۸۵۷ء میں دیکھی۔‘‘ (۲)

جنگِ آزادی برِ صغیر کے کسی ایک علاقے تک محدود نہ تھی۔  ہر قصبہ ہر گاؤں اور ہر شہر اس سے متاثر ہوا۔  گلی گلی کوچے کوچے میں جنگ جاری تھی، لیکن سب سے زیادہ تباہی و بربادی شہر دلی کی ہوئی۔  شہر کا نام ’’دلی‘‘ کیوں رکھا گیا یا کیسے پڑ گیا۔  اس کی بھی کوئی وجہ رہی ہو گی۔  دلی کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس شہر کو بدقسمت کہا جائے یا خوش قسمت کہ ہزار مرتبہ اجڑا اور بسا، شاید دلی کا تعلق دل سے بھی ہے کہ جو ایک مرتبہ اجڑ جائے تو پھر کبھی بس ہی نہ سکے گا، لیکن انسان پھر بھی زندہ رہتا ہے اور ہنستا بستا اپنی بقیہ زندگی گزار لیتا ہے۔  بعینہٖ یہی حال دلی کا تھا، جو اجڑتی رہی اور بستی رہی۔

۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے ان خوں چکاں واقعات کامختصر تذکرہ اس لیے ناگزیر تھا کہ دلی جو اِک شہر تھا عالم میں انتخاب اور جو اس تحریکِ آزادی کا بنیادی مرکز تھا۔  اہل علم بھی یہاں اکثرت سے تھے۔  دلی کی تباہی کوئی معمولی بات نہ تھی اور نہ وہ بھی اس صورت میں جبکہ بعض ادیب و شاعر اس تحریک آزادی میں باقاعدہ شریک ہوئے۔  سپہ گری کی۔  قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کی اور بعض نے جامِ شہادت نوش کیا۔

امام بخش صہبائی دلی کالج میں فارسی زبان و ادب کے جید استاد تھے۔  ان پر بھی حکومت سے غداری کا الزام عائد کیا گیا اور انھیں توپ سے اڑا دیا گیا اور ان کی لاش کو دریا برد کر دیا گیا:

’’مولانا فضل حق خیر آبادی علمی قابلیت میں منفرد اور یگانہ روزگار تھے، لیکن ان کی بغاوات کی پاداش میں انڈمان بھیج دیا گیا اور وہاں کوئی ایسی ذلیل خدمت نہیں تھی جو ان کے سپرد نہ ہو….. وہ ان مصائب کی تاب نہ لا سکے اور وہیں سپردِ خاک ہوئے۔

مفتی صدرالدین آزردہ کی نصف جائداد ضرور واگزاشت ہو گئی، لیکن ان کا آخری زمانہ خوشگوار بسرنہیں ہوا۔  اسی طرح شیفتہ کو سات سال کی قید ہوئی۔  منیر شکوہؔ آبادی پر جو ستم گزرے وہ ہیں فزوں تقریر سے، تحریر سے ’’غالب قلزم خون کے شنادر رہے۔‘‘ (۳)

شعر و ادب کے تخلیق کار اس واقعے کے عینی شاہد ہی نہ تھے بلکہ وہ بذاتِ خود اس تجربے سے گزر رہے تھے، ان کے کلام میں ۱۸۵۷ء کے صدمے کی شدت اور دکھ کی گہرائی ہو نا کوئی تعجب خیز امرنہیں اور وہی تخلیق کار کہ جن کی تخلیقات اس سانحے سے قبل اور ہی انداز رکھتی تھیں اب زندگی کو ایک نئے رُخ سے دیکھنے پر مجبور ہو گئے۔

۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی اگرچہ بظاہر ناکام رہی تاہم ۱۸۵۷ء کے سیاسی انقلاب نے ہماری صدیوں کی تہذیبی روایتوں کو بھی متاثر کیا۔  بدلتے ہوئے حالات اور نئے دور کے تقاضوں سے لوگوں نے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔  اس سے اُردو شاعری بالخصوص غزل نے انقلابی اثرات قبول کئے۔  یہاں تک کہ غالبؔ کو کہنا پڑا۔

بقدرِشوق نہیں ظرف تنگنائے غزل

کچھ اور چاہیے وسعت میرے یہاں کے لیے (۴)

غزل، جو اب تک ایک مروجہ ہیت اور موضوعات کی یکسانی لیے ہوئے تھی۔  غالبؔ جیسے نابغہ روزگار اور فکر و بصیرت رکھنے والی شخصیت کا وسعت بیان کی خواہش کرنا کوئی تعجب خیز امر نہیں۔  غالبؔ شاعر امروز و فردا تو ہیں ہی لیکن انھوں نے ماضی کو کبھی نظر انداز نہ کیا۔  چنانچہ ان کی شعری کائنات کی وسعت میں ماضی کے عمیق مطالعے کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔  غالبؔ کا عہد وہی ہے کہ جب جنگِ آزادی کے سلسلے میں کشت و خون کا بازار گرم تھا۔  اس سانحے کی جھلک جا بجا ان کے کلام میں مختلف استعاروں اور علامتوں کے ساتھ موجود ہے۔

لکھتے رہے جنوں کی حکایت خوں چکاں

ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی

اِک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

یوں غالبؔ کی غزل عہدِ گزشتہ کی بازگشت نہیں بلکہ اس میں عصر رواں میں خود ان کے تجربات اور مشاہدات کابیان بھی ہے۔  یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس عہد کی تاریخ پڑھنا ہو تو غالب کے خطوط کا مطالعہ کافی ہو گا۔  چنانچہ خطوط ہوں یا شاعری اپنے عہد کی سچی تصویر ان میں عیاں ہے۔  غالب نے غزل کی محدودیت کو وسعت بخشی اور وہ مضامین بھی بیان کیے جن سے غزل کا دامن اب تک تہی تھا:

’’….. غالبؔ اپنے عہد کی مخلوق بھی تھے اور ایک نئے عہد کے خالق بھی۔  وہ روایت عظمیٰ کو تسلیم بھی کرتے تھے اور اس کی تحسین و تہذیب کے لیے جدت کو بھی ضروری سمجھتے تھے۔  وہ تقلید و اجتہاد دونوں کے بیک وقت قائل تھے۔  غالبؔ کو ایک بابغہ روز گار تسلیم کیا جا چکا ہے اور نابغہ اپنے زمانے سے بہت آگے ہوتا ہے، لیکن وہ اس سے بے تعلق نہیں ہوتا۔  اگر ایسا ہو تو وہ اپنے زمانے کو کوئی نیاپیغام نہیں دے سکتا۔  وہ اپنے زمانے کے توانا اور صالح عناصر کو سمیٹ کر آگے بڑھتا ہے۔  وہ اپنے زمانے کے اصطلاحات اور محاورات میں لوگوں کو مخاطب کر کے اپنا نیا پیغام سناتا ہے۔‘‘(۵)

غالبؔ کے وہ موضوعات بھی جو اُردو اور فارسی کی کلاسیکی مشاعری میں برس ہابرس سے مستعمل رہے ہیں زندگی کا ایک نیا رخ رکھاتے معلوم ہوتے ہیں۔  مسئلہ جبر و قدر ہو یا وحدۃ الوجود۔  موجودات عالم اور ہستی مطلق کے تعلق کا سوال ہو یا زبان و مکان کا فلسفہ یا تصورارتقا کا مسئلہ۔  سلسلہ تعمیر و تخریب کا ہو یا جنت و دوزخ کے عقائد کا۔  روحانیت و ترک دنیا کی بات ہو یا زندگی کے حسن سے عشق کرنے کی غالبؔ نے ان مروجہ مضامین کو نئے معنی پہنائے۔

ایک نابغۂ روزگار کا وصف یہ بھی ہے کہ اس کا ذہن سوالات کی آماجگاہ بنا رہتا ہے، جیسا کہ ایک بچے کی ذہانت کا اندازہ کسی چیز کے بارے میں اس کے بار بار سوال کرنے سے لگایا جا سکتا ہے کہ بچہ کتنی متجسس طبیعت کا مالک ہے، تہہ تک پہنچنا چاہتا ہے۔  ہر چیز کا علم رکھنا چاہتا ہے اور اس علم کے بغیر خود کو مطمئن کر لینا اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔  اسی طرح ایک جینئس کے ذہن میں سوالات کی پورش اسے چین نہیں لینے دیتی غالبؔ نے اسی صدیوں پرانی کائنات میں جنم لیا۔  وہی خاکستر کاجہاں۔  وہی نیلا گدلا پانی، وہی خوشگوار یا مسموم فضا لیکن سوالات دیکھیے کہ کسی پیرائے اور کس انداز سے اٹھائے گئے ہیں۔

جبکہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پاپایا

یہ سوالات خود سے بھی ہیں اور خدا تعالیٰ سے بھی۔  شکوک اور سوالات کی سرحد پر ان کے قدم رک نہیں جاتے وہ تشکیک کے دائرے میں مقید یا اس کے گرد چکر ہی لگاتے نہیں رہتے بلکہ اثبات اور یقین کی منزل کی تلاش ان کا مقصد زیست ہے۔  اس منزل تک رسائی بہت آسان بھی ہے اور دشوار بھی۔  غالبؔ خدائے واحد پر یقین رکھتے ہیں۔  وہ جو کائنات اور تمام مخلوق کاخالق ہے۔  غالبؔ کو تمام کائنات میں اس کا جلوہ نظر آتا ہے۔  انسان مجبور محض ہے۔  جسے نہ اپنی پیدائش پر اختیار ہے اور نہ موت پر۔  زندگی کب بے وفائی کر جائے۔  باگ کو پکڑنے کی مہلت ہے نہ پا رکاب میں ڈالنے کی فرصت۔  یہ مجبوری و بے چارگی انسان کی زندگی میں اس طرح داخل ہے کہ چھٹکارا نہیں پایا جا سکتا، لیکن اس بات سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ غالبؔ کی شاعری انسان کو مجبور محض قرار دینے کے باوجود یاسیت، قنوطیت یا ہاتھ پاؤں چھوڑ کر بیٹھ رہنے کا درس نہیں دیتی۔  انسان کامرتبہ و منصب اس شان کا متقاضی ہے کہ وہ ہمہ وقت مصروف عمل رہے۔  سعی و کوشش آگے بڑھنے کی لگن، دل میں آرزوؤں کا ہجوم، خواہ انجام شکستِ آزروہی کیوں نہ ہو، انسان کو زندہ رہنے اور زندگی سے محبت کرنا سکھاتی ہیں۔

غالبؔ تخلیق شعر کو عطیہ خداوندی کہتے رہے۔  ’’خدا اور انسان‘‘ کا تعلق ان کی شاعری کا خاص موضوع رہا ہے۔  ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا۔  نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا۔  قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن۔  مجھ سے میرے گناہ کاحساب اے خدا نہ مانگ۔  خدا اور بندے کے تعلق سے بے شمار بیانات اور سوالات ان کی شاعری کاحصہ ہیں۔  اسی طرح ان کی غزل کے موضوعات متنوع ہیں اور ہر موضوع سطحی نہیں، بلکہ ایک گہرائی و گیرائی کے ساتھ مطالب کی ایک دنیا لیے نظر آتا ہے، تو پھر یہ تسلیم کر لینے میں کہ غالب درست ہی کہتے ہیں کہ آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں، کوئی حرج نہیں، لیکن اب یہ اگر مان بھی لیا جائے کہ مضامین غیب سے اترے۔  وحی اور الہام کا بھی عمل دخل ہے لیکن اسلوب، بیان کرنے کا انداز، الفاظ کا انتخاب اور نشست و برخاست، استعارات، علامات، تشبیہات و تلمیحات کو برتنے کا سلیقہ۔  لفظ کا ترنم اور موسیقیت، شعر کا غنائیت سے بھرپور ہونا، کہیں بات کو اتنے سادہ انداز میں بیان کرنا کہ سہل ممتنع کی مثال ہو کہیں موضوع کو الفاظ کے ریشم و حریر کے نہایت خوبصورت لباوے میں پیش کرنا کہ قاری تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔  بہرحال غالبؔ کے ذہن رسا اور کاوش کی داد تو دینا ہی پڑتی ہے۔

گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھئے

جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے

غالبؔ کا دور، غزل کا سنہری دور شمار کیا جاتا ہے۔  دبستانِ دہلی کے اس نمائندہ شاعر کے معاصرین میں ذوق ؔ و مومنؔ و ظفرؔ جیسے جید اساتذہ فن اور شعر کی تاریخ کے اہم نام شامل ہیں۔  دوسری طرف لکھنؤ میں ناسخؔ و آتشؔ دبستان لکھنؤ کی تمام تر خصوصیات کے ساتھ موجود تھے۔  لکھنوی دبستان کی خصوصیات میں رعایت لفظی سرفہرست ہے جس کا اثر یہ ہوا کہ شعر سے سادگی پر کاری جاری رہی اور تکلف اور بناوٹ نے شعر کو اسلوبی سطح پر شاندار لیکن معنوی لحاظ سے بے جان کر دیا مبالغہ نے غلو کی حدود کو چھو لیا۔  دور ازکار تشبیہات و استعارات کا استعمال عام ہونے لگا۔  لکھنوی شاعری نسوانیت کا اشتہار معلوم ہونے لگی۔  زنانہ لباس و آرائش و زیورات کی فہرست بڑی آسانی سے اس عہد کی لکھنوی شاعری کے مطالعے کے بعد مرتب کی جا سکتی ہے۔  حتیٰ کہ بسا اوقات گفتگو بھی نسائیا نداز میں ہونے لگی اور یوں غزل نے ریختی کا روپ دھا را۔  ہاشمی، جرات، انشاؔء و رنگین سبھی اس رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔

لکھنؤ میں غزل کے یہ انداز تھے، ایسے میں دہلی میں میر، درد اور پھر غالب و مومن و ذوق و ظفر نے غزل کی آبرو کو قائم رکھا۔  دبستان دہلی کی پہلی خصوصیت یہی تھی کہ جذبات کی سادہ اور پر اثر تصویر کشی کی جاتی تھی۔  ان کی غزلوں میں داخلیت اور جذبے کی آنچ موجود ہے۔

غالبؔ و مومنؔ و ظفرؔ کے بعد اُردو غزل کا وہ دور جسے شعرائے متاضرین کا دور کہا جاتا ہے، کا آغاز ہوا۔  داغؔ، نوح ناوریؔ اور سائل دبستان دہلی سے متعلق اور لکھنؤ میں امیرمینائیؔ، جلیل و تسلیم نمایاں رہے۔  اس عہد میں دبستان دہلی کے شعرا بھی لکھنوی شعرا کے اثر سے محفوظ نہ رہ سکے۔  یوں ان شعرا کے کلام میں بھی سوزو گداز کی جگہ ابتذال شوخی اور بانکپن نے لے لی۔

ادھر ملک کے سیاسی حالات و گرگوں تھے۔  سیاسی بدامنی کی بنا پر دہلی و لکھنؤ سے ہجرت کرنے والے شعرا کو رامپور میں پناہ ملی۔  یوں دہلی و لکھنؤ دبستان کے شعرا رامپور میں آ کر جمع ہوئے تو دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ کی خصوصیات یکجا ہو گئی۔  ان شعرا پر ایک دوسرے کے اثرات واضح طور سے محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

یہ دور ملک کی سیاسی بیداری کا دور تھا۔  یہی وہ عہد ہے کہ جس میں سرسید کی اصلاحی تحریک ابھری۔  اس فعال تحریک میں سرسید کے معاصرین حالیؔ، شبلیؔ، آزادؔ، نذیر احمد ؔ اور محسن الملکؔ وغیرہ تھے۔  شعر کی اصلاح کے سلسلے میں حالی اس تحریک کے نمایاں رکن تھے۔  اردو شاعری کی پہلی مبسوط تنقید حالی ہی نے لکھی۔  جو در اصل خود ان کے شعری مجموعے کا مقدمہ ہے۔  جس میں انھوں نے شاعری کی ماہیت اور مقصدیت پر کھل کر تبصرہ کیا ہے۔

حالی غزل کے مخالف نہ تھے۔  انھوں نے خوبصورت غزلیں بھی کہی ہیں۔  وہ قدیم روایات اور نئی اقدار دونوں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔  ان کی غزل روایتی ہوتے ہوئے بھی روایت سے ہٹ کر اپنا راستہ بناتی ہے۔  عمومی مضامین اور مبتذل لہجہ جو اس دور کی غزل کا ایک وصف قرار دیا جا رہا تھا۔  حالی کی غزل اس سے پاک ہے۔  بلکہا خلاقی و اصلاحی مضامین انھوں نے غزل میں بڑی خوبصورتی سے برتے ہیں۔  وہ غزل کی روایت کو یکسر رد تو نہیں کرتے، لیکن شاعری کے ایک بڑے حصے کو ناکارہ تصور کرتے ہیں۔  صرف عشق و عاشقی تک غزل کو محدود کر دینا، ان کے نزدیک پسندیدہ نہیں۔  ان کے نزدیک عشق زندگی کا صرف ایک پہلو ہے کل نہیں۔  ان کا خیال ہے کہ غزل چونکہ عوام کی پسندیدہ صنف سخن ہے، اس سے وہ کام بھی لیا جا سکتا ہے جو اب تک نہیں لیا گیا۔  چنانچہ قوم کی تعمیر و اصلاح کے لیے انھوں نے غزل کو منتخب کیا۔  ان کی غزل میں محبوب کی موہوم کمر اور زلف سیاہ کی تلاش بے سود ہے البتہ قوم کے دکھ درد اور ان کے مسائل کا بیان اور اخلاقی و اصلاحی خیالات بڑے و اضح انداز میں نظر آتے ہیں۔

حالی کی غزلیں مسلمان قوم کی تنزلی کا مرثیہ ہیں، لیکن وہ اپنی قوم سے کبھی مایوس نہیں ہوئے۔  امید و رجائیت کا دامن کبھی نہ چھوڑا۔  ان کی غزل سیاسی شعور، قومی درد مندی اور جذبۂ حب الوطنی سے بھرپور ہے۔  انھوں نے غزل کو عوام سے تخاطب کا ذریعہ بنایا۔  سماجی خرابیوں اور اخلاقی گراوٹوں کی نشاندہی کی۔  سیاسی مسائل کو موضوع بحث بنایا۔  یوں غزل کو سیاسی و سماجی شعور عطا کر کے غزل کے دامن کو وسعت بخشی۔  وہ غزل کی روایت میں شامل چند مباحث کو رد کر کے ان مسائل کو شامل کرنا چاہتے تھے جو وقت کا تقاضا تھے یوں انھیں غزل کا مخالف نہیں مصلح کہا جا سکتا ہے۔

دوسری طرف شعراء غزل سے صرف نظر کرتے ہوئے نظم کی طرف متوجہ ہو رہے تھے کہ وقت کی برق رفتاری غزل کا ساتھ اپنے سے قاصر تھی۔  نظم کے عروج اور غزل سے بے اعتنائی کے رویے نے اُردو شاعری کو ایک عجیب دورا ہے پر لاکھڑا کیا۔  اردو شاعری کی آبرو اور خوشبو پر اعتراضات کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔

غزل پر سب سے بڑا اعتراض اس کی مخصوص ہیت کی بنا پر کیا جاتا ہے کہ غزل دو برابر وزن کے مصرعوں میں ردیف قافیے کی موجودگی کا نام ہے۔  غزل کا ہر شعر عموماً اکائی ہوتا ہے۔  اس کے علاوہ طرحی غزلیں بھی کہی جاتی رہی ہیں۔  ہرشاعر مصرع طرح کے قوافی ذہن میں ترتیب دے لیتا ہے اور پھر اشعار کے سانچے میں مختلف خیالات کو ڈھالتا چلا جاتا ہے۔  اب اس بات کو کیسے تسلیم کیا جائے کہ درد و غم کتنے کیے جمع تودیوان کیا۔  یہاں تو الفاظ ردیف قافیے جمع کیے جائیں تو غزل تیار ہوتی ہے اس اعتراض سے حالی بھی کسی قدر متفق تھے:

’’حالی کو اس بات کا احساس ہو چلا تھا کہ وزن اور قافیے کے قدیم تصورات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے اس لیے انھوں نے شاعری کے لیے وزن اور قافیے کے بجائے تمثیل۔  تاثیر اور جذبات نگاری کو بنیادی اجزا قرار دیا۔‘‘(۶)

غزل پر ایک اعتراض یہ بھی ہوا کہ لوگ بات تفصیل سے کرنا اور سننا چاہتے ہیں یعنی بات کو وضاحت سے کہنا چاہتے ہیں، لیکن غزل میں کہہ نہیں پاتے۔  یہ بھی کہا جاتا ہے کہ غزل کسی بڑے خیال یا تاثر کو پیش کرنے سے قاصر ہے۔  اس لیے کسی بھی بڑے خیال کو پیش کرنا ہو تو نظم یا مثنوی کا سہارا لیا جاتا۔

’’غزل مغربی ادب میں پھل پھول نہ سکی۔  اس کی خاص وجہ وہی بے ربطی اور پراگندگی ہے۔  جیسے غزل کا طرۂ امتیاز کہا جاتا ہے۔  نیز غزل میں ربط، اتفاق اور تکمیل کی کمی ہے یہی ربط و اتفاق اور تکمیل تہذیب کا سنگ بنیاد ہیں اور انھی چیزوں کی وجہ سے غزل نیم وحشی صنف شاعری ہے‘‘۔  (۷)

غزل پر ایک بڑا اعتراض یہی بے ربطی ہے، حتیٰ کہ عشق و محبت کے مضامین کا بیان بھی مسلسل نہیں ہوتا۔  اس کا ہر شعر مختلف کیفیات رکھتا ہے۔  یعنی ایک شعر دوسرے شعر سے کسی قسم کی جذباتی یا معنوی مناسبت نہیں رکھتا۔  ردیف قافیے کی بنا پر فنی تسلسل تو موجود رہتا ہے لیکن معنوی ربط و تسلسل کی عدم موجود گی شعر کو منتشر خیالی عطا کرتی ہے۔

غزل پر ایک اعتراض اس کے محدود موضوعات کی بنا پر ہوا کہ وہ زندگی کے چند ایک پہلوؤں کی عکاسی تک محدود ہے۔  اس کا محبوب ترین موضوع حسن و عشق اور اس کے متعلقات ہیں اور انھی کی بازگشت صدیوں سے غزل کے ایوان میں گونجتی رہی ہے، پھر یہ اعتراض بھی ہوا کہ غزل تجربہ و مشاہدہ سے زیادہ سراپائے محبوب میں رہ گئی ہے۔  غزل میں چند خیالات کو ہی ادل بدل کر پیش کر دیا جاتا ہے۔

غزل پر ایک اعتراض یہ بھی ہوا کہ اس کی ہیئت میں لچک نہیں۔  وہی مطلع کے چند اشعار اور پھر وہی مقطع۔  سبھی ایک سانچے ردیف قافیے میں ڈھلے ہوئے۔  وہی مخصوص صدیوں سے مستعمل طویل و مختصر بحریں اور اوزان اور ان کی بندشیں۔  اس میں تجربہ کرنے کی قطعی کوئی گنجائش نہیں اور اگر کہیں ایسا کیا بھی گیا تو غزل، غزل نہیں رہی:

’’غزل عہد وحشت میں پیدا ہوئی، جاگیر دارانہ نظام کے سائے میں پروان چڑھی لہٰذا نیم وحشی صنف سخن ہے۔‘‘ البتہ یہ ایک الگ بحث ہے کہ اس کا دور عروج تو مغلیہ سلطنت کے تہذیب و تمدن سے بھرپور معاشرے میں ہوا۔  پھر یہ عہد وحشت کی پیداوار کیسے ہوئی۔

غزل پر ایک اعتراض یہ ہوا کہ غزل غیر تربیت یافتہ ذہنوں کی تخلیق ہے۔  ہر شاعر نے اپنی شاعری کی ابتدا غزل سے کی۔  اس لیے اس کابیشتر سرمایہ کچے ذہنوں کی تخلیق ہے۔

ایک اعتراض یہ بھی ہوا کہ سب لوگ ایک ہی طرح کی غزل کیوں لکھتے ہیں۔  کسی بھی دور کے شاعروں کے کلام کا جائزہ لیجیے۔  سبھی کی غزلیں ایک سی معلوم ہوں گی۔  ان کی انفرادیت اجتماعیت کے پردے میں چھپ کر رہ گئی ہے۔

غزل پر اعتراضات کی ایک وجہ نظم گوئی کی طرف بڑھتا ہوا رجحان بھی تھا جسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ غزل اس عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ تھی۔  اس لیے شعراء کا رجحان اور جھکاؤ نظم کی طرف زیادہ ہو گیا۔  حالی کی غزلوں میں اصلاحی رنگ نمایاں ہے۔  اصلاحی، ایک تو ان معنوں میں کہ صنف غزل کی اصلاح کی گئی اور دوسرے معاشرے کی اصلاح اور سدھار کے لیے غزل میں قومی و معاشی سماجی و اخلاقی مباحث برتے گئے۔  چنانچہ قومی احساس، سیاسی شعور، ملی رجحان اور اخلاقیات کے مختلف پہلو، حالیؔ کی غزل میں نمایاں ہیں۔  لیکن غزل ایک نازک اور مخصوص مزاج رکھنے والی صنف سخن ہے اسے ہر کوئی کامیابی سے نہیں برت سکتا، چنانچہ اس دور کے شعرا نے جو غزل سے کسی حد تک متنفر ہو چکے تھے۔  اظہارِ خیال کے لیے نظم کی ہیت کو منتخب کیا۔

ادھر انجمن پنجاب کے مشاعروں نے حالی و آزاد کی منظومات کا چرچا، چہار سو پھیلا دیا۔  ان مشاعروں میں پڑھی گئی نظموں نے اردو شاعری کے ایوان میں ذہنی، فکری، تہذیبی اور سماجی طور پر انقلاب برپا کر دیا۔  وطن سے محبت، انسان کی قدرومنزلت، حسن فطرت کی باریکیاں، محنت و اخلاق، دوستی و مروت جیسے موضوعات نے حسن و عشق کے مباحث پر فتح پائی۔  یوں ملکی مسائل اور قومی و ملی شعور نے شعری تخلیق میں راہ پائی۔  انجمن پنجاب کے مشاعروں کے عملی طور پر ختم ہو جانے کے بعد بھی منظومات کا وہ سلسلہ جو شروع ہو چکا تھا جاری رہا اور نظم گو شعراء کی ایک کھیپ سامنے آئی۔

اس وقت کی شعر فضا میں دو رویے سامنے آتے ہیں۔  ایک حالی اور ان کے رفقا کا جو غزل میں تبدیلی کے خواہاں تھے اور ان کے بعض ساتھی تو غزل کے بڑے معترضین میں سے تھے۔  البتہ نظم کے فروغ میں انھوں نے کافی کام کیا۔  دوسرا روّیہ ان غزل گو شعرا کا تھا جو روایتی غزل کی پاسداری اور اس کی آبرو کو ہر حال میں بحال رکھنا چاہتے تھے۔  انجمن پنجاب کے مشاعروں، حالی کی اصلاحی غزل اور اسمٰعیل و شرر کی آزاد نظم نے شعراء کی غزل کی طرف سے بے اعتنائی میں اضافہ کیا، لیکن یہ رجحان جو نظم کے فروغ کا چل پڑا تھا۔  زیادہ حاوی یوں نہ ہو سکا کہ غزل کے لیے فضا پھر سے سازگار ہونا شروع ہوئی اور وہ شاعر جو غزل کی اہمیت و مرکزیت برقرار رکھنا چاہتے تھے سامنے آئے۔

لکھنؤ میں صفی لکھنوی، عزیز ثاقب و آرزو نے غزل کی بقا میں اہم کردار ادا کیا اور وہ غزل جو اسلوبی سطح پر نہایت مرصع تھی، اب اس میں جذبہ و خیال کی آنچ بھی محسوس کی جانے لگی۔  یوں ان شعرا نے لکھنوی دبستان کی فضا کو بدلنے کی شعوری کوشش کی۔

ادھر دبستان دہلی میں داغؔ، بیخود، نوح ناوری اور سائل نے غزل کی تجدید کی۔  اس عہد کی غزل میں دبستان دہلی کی تمام تر خصوصیات، معنی آفرینی، مسائل حیات کے حل کی تلاش، جذبہ و وجدان کی گہرائی اور فکر وشعور کی لہر تلاش کرنا بے سود ہو گی۔  داغ اس عہد کے نمائندہ شاعر ہیں۔

داغ کا عہد سیاسی شکست و ریخت اور تہذیبی و سماجی طور پر زوال آمادہ عہد ہے، لیکن ادبی لحاظ سے اس قدر تنزلی کا شکار نہیں۔  داغ کی شاعری میں قدیم شعر روایت کی جھلک واضح ہے۔  غزل کی یہ تعریف کہ عورتوں سے گفتگو یا عورتوں سے متعلق گفتگو، داغ کی غزل عین اس کے مطابق ہے۔  ان کے اشعار میں حسن و عشق کی داستان جس ذوق و شوق اور جوش و ولولہ کے ساتھ رقم کی گئی ہے۔  وہ دبستان لکھنؤ کی یاد تازہ کرتی ہے۔  داغ نے پرورش قلعہ دہلی میں پائی اور یوں زبان و بیان کی خوبیاں، تہذیب ادب اور پاس محبت کا سلیقہ سبھی ان کی پرورش کا حصہ ہے لیکن طبیعت کی رنگینی نے انہیں دبستان لکھنؤ کی خصوصیات سے قریب تر کر دیا ہے۔  اس طرح داغ کی غزل میں دبستان دہلی اور لکھنؤ دونوں کی خصوصیات یکجا ہو گئی ہیں۔  دبستان دہلی احترام عشق، عاشق کی وضعداری، پاس ناموس محبوب حتیٰ کہ رقیب کا بھی ایک درجہ متعین کرتا ہے، لیکن لکھنوی تہذیب میں عشق و عاشقی میں سنجیدگی، تہذیب یا متانت کاعمل دخل اتنا نہیں اور داغ کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو دبستان لکھنو کی خصوصیات ان میں زیادہ نمایاں نظر آئیں گی:

’’…. معاملہ بندی کے مضامین جرأت نے بھی باندھے تھے، لیکن داغ کی جلی کٹی، طعن و تشبیع و شک و بد گمانی چھیڑ چھاڑ، لاگ ڈانٹ، چھین جھپٹ والے مضامین وہاں کہاں۔‘‘(۸)

’’جرأت، انشا اور رنگین کا نام بدنام ہی ہے۔  داغ ان سب کے مطالعے میں پاسنگ برابر بھی نہیں۔‘‘(۹)

داغ کی شاعری میں داخلیت اور خارجیت کا امتزاج ان کی غزل کو تیکھا پن عطا کرتا ہے۔  داغ کے شعری تجربات غزل کے اجتماعی لاشعور کا حصہ ہیں۔  اس میں کوئی انوکھا پن اور چونکا دینے والا بیان نہیں ہے۔  معاملہ بندی ہو یا ضائع بدائع کا استعمال، اردو شاعری کے لیے کوئی نیا تجربہ نہیں۔

’’داغ کو محض یہ کہہ کر بھی تو ٹالا نہیں جا سکتا کہ معاملہ بندی میں وہ بے نظیر ہیں، محبت کے ترجمان ہیں، وارفتگیِ عشق کے عکاس ہیں، رعنائی حسن کے جلوہ گر ہیں، شباب و سرمستیوں کے مصور ہیں، کیف و نشاط کے پیامبر ہیں اور دل عشاق کے نباض ہیں۔‘‘(۱۰)

یہ درست سہی کہ داغ کی شعری کائنات شوخی و شگفتگی، کج ادائی و بانکپن چھیڑ چھاڑ اور طنزو تشنیع سے ہی تشکیل پاتی ہے لیکن یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ ان کی شاعری اس کے علاوہ بھی بہت سے پہلو رکھتی ہے۔  ان مذکورہ موضوعات سے قطع نظر داغ کی شاعری کا وسیع النظری سے مطالعہ کیا جائے تو معرفت و تصوف کی باریکیاں نہ سہی، لیکن خدا اور بندے کے تعلق کا بیان بڑی صراحت کے ساتھ ملتا ہے۔  عہد و معبود کا رشتہ، مجبورومختار کا ناطہ، تہی دست کا دست غیب سے تعلق اور اس رشتہ و تعلق میں جس تقدس اور احترام کی ضرورت ہے داغ اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔  اس کی ایک مثال ۲۱ا شعار پر مشتمل ان کی وہ حمدیہ غزل ہے جو انہوں نے چالیس سال کی عمر میں سفرِ حج کے درمیان میں کہی تھی۔

سبق ایسا پڑھا دیا تو نے

دل سے سب کچھ بھلا دیا تو نے

مجھ گنہگار کو جو بخش دیا

تو جہنم کو کیا دیا تو نے

داغؔ کو کون دینے والا تھا

جو دیا اے خدا دیا تو نے

داغ کی شاعری میں حق و معرفت کے مضامین یا زندگی کے وسیع پہلوؤں کا تجربہ و مشاہدہ ہونا کوئی تعجب خیز امر نہیں کہ کوئی بھی شاعر زندگی سے یا زندگی کی تخلیق کرنے والے اپنے رب سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔  در اصل داغ کی شعری شہرت ان کے مخصوص شوخی و بانکپن اور عشق مجازی کی رنگینی ودلکشی کی بنا پر ہے اور دیگر موضوعات کی طرف قاری کی توجہ کم ہی جاتی ہے حالانکہ خداوند تعالیٰ، نبی کریمؐ اور بزرگانِ دین سے عقیدت محبت، فلسفۂ زیست کی موشگافیاں، پندو اخلاق کاد رس اور زندگی کہ جو راحت سے ہی نہیں مصیبت سے بھی عبارت ہے، کی تلخیوں کا بیان بھی موجود ہے۔

وہ مصیبت سنی نہیں جاتی

جس مصیبت کو دیکھتا ہوں میں

الٰہی زمانے کو کیا ہو گیا ہے

محبت تو کم ہے عداوت زیادہ

داغ کے ہمعصر امیر مینائی ۱۸۲۸ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔  طبیعت کا رجحان بچپن ہی سے شعر و سخن کی جانب تھا۔  پھر لکھنؤ کی فضا تو بے ذوق شخص پر بھی اپنا اثر قائم کیے بغیر نہیں رہتی۔  امیر نے جس ماحول اور جس عہد میں آنکھ کھولی، وہ زمانہ ہندوستان میں سیاسی بدامنی اور ابتری کا تھا۔  مغل حکمرانوں کی حکومت اور وقار کے خاتمے نے شہر دہلی جو بلند مذاق سخن اور اعلیٰ شعری معیار کے لیے سند تھا، سب سے زیادہ متاثر ہوا۔  شعر و سخن کے ناخدا، جنھیں دہلی نے ہمیشہ پناہ دی تھی، اب اس سے پناہ چاہنے لگے۔  آرزؔو، سوداؔ، میر حسنؔ، میر مستحسنؔ، جعفر علی حسرتؔ، میر سوزؔ، میر، ؔ جرأت ؔ، انشاؔ، مصحفیؔ، رنگین ؔ، نسیم دہلویؔ اور کئی دوسرے شاعر دوسرے شہروں خصوصاً ً لکھنؤ کی طرف رخ کرنے لگے۔

ناسخ دبستان لکھنؤ کی شعری اقدار کے بانی تھے اور واضح طور پر لکھنؤ کی ادبی خود مختاری کا اعلان بھی اپنی قادرالکلامی، طرز جدید اور مشہور شاگردوں کی جماعت کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔  ناسخ کی اصلاح زبان کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ توجہ مضامین سے ہٹ کر صرف زبان و اسلوب ہی کی جانب ہو گئی۔  زبان کی آرائش و زیبائش اور لفظی نشست وبرخاست کی طرف رجحان اور صنف گری کی طرف توجہ نے شعر سے اس کا سوز و گداز چھین لیا۔  امیر نے اسی ماحول میں پرورش پائی اور اسی فضا میں شاعری کی ابتدا کی۔  رعایت لفظی، مبتذول وفرسودہ مضامین، خارجیت اور تصنع لکھنوی شاعری کی خصوصیات تھیں اور باوجود اس کے کہ امیر ناسخ کے بجائے مصحفی سے متاثر تھے، اسیر دہلوی کے شاگرد تھے۔  لکھنؤ کا مخصوص رنگ ان کے کلام میں اپنی جھلک دکھاتا رہا تھا۔

خطِ عارض نے دل اہلِ قلم توڑ دیا

بیت ابرو نے ہلالی کا قلم توڑ دیا

مژدہ ہو میکشو کہ ہوا چاند عید کا

محتاج قفل میکدہ تھا اس کلید کا

مظفر علی اسیرؔ کا کلام متانت و سنجیدگی لیے ہوئے ہے اور اس میں نسائیت اور ابتذال کم ہے۔  اسیر کی شاگردی نے امیر مینائی کی غزل کے نکھار میں مدد دی اور انھی کے توسط سے وہ اودھ، واجد علی شاہ کے دربار سے ہوتے ہوئے رام پور پہنچے۔  جہاں داغؔ، منیرؔ اور جلال نے رامپور کی شعری فضا کو شعر و سخن سے مہکا رکھا تھا۔

امیر مینائی نے قصیدہ، مثنوی، واسوخت، رباعیات، تاریخی قطعات، حمد اور نعت سبھی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے، لیکن ان کے شعری کمالات کے جوہر غزل ہی میں کھل کر سامنے آتے ہیں۔  ۱۸۵۷ء کے ہنگامے نے بہت تباہی پھیلائی۔  افراتفری کے اس موقع پر تخلیق کار جو اپنی تخلیقات کو اولادِ معنوی کا درجہ دیتے تھے، سے بچھڑ کر رہ گئے۔  یہی سانحہ امیر کے ساتھ گزرا۔  جو کچھ ان کی یاداشت میں محفوظ رہا اور بعد کے دواوین میں امیر کی شاعری اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ جلوہ گر ہے۔  حسن و عشق، ہجر و وصال اور مہر و محبت کا بیان غزل کے لیے کوئی نیا نہیں۔  باغبان، صیاد، گلچیں، قفس، زنداں کی علامتیں بھی کوئی نئی نہیں، لیکن امیر نے جس طرح انھیں برتا اور نئے سیاسی مضاہیم عطا کیے وہ انھی کا حصہ ہے۔

پھنسی جو دام میں بلبل تو کن نگاہوں سے

کبھی چمن کو کبھی سوئے آشیاں دیکھا

بہارِ لالہ وگل پھر کبھی کا ہے کو دیکھیں گے

چلے ہیں اس چمن سے ہم نگاہ واپسیں ہو کر

امیر کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ ان کا شعرزبان اور بیان کے اعتبار سے سادہ مگر پُر تاثیر ہوتا ہے۔  لکھنوی پر داخت اور داغ کی صحبت کی بنا پر کلام میں رنگینی کبھی کبھی سطحیت کی جھلک دکھا جاتی ہے لیکن ابتذال کی سطح تک نہیں پہنچتے۔  شعر اپنی سادگی اور تاثر کی بنا پر ایک مخصوص فضا کی تشکیل کرتا ہے جو جانی پہچانی ہے۔  تراکیب و تشبیہات نادر تو ہیں لیکن بوجھل اور بے کیف نہیں۔  غزل یوں کہتے ہیں جیسے باتیں کر رہے ہوں۔  روز مرہ زندگی میں حسن و عشق کے معاملات ہوں یا سیاسی و سماجی رویے یا معاشرتی وتہذیبی اقدار موضوع ہوں ان کے بیشتر اشعار ضرب الامثال کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔

قریب ہے یارو، روز محشر، چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر

جو چپ رہے گی زبان خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا

زیست کا اعتبار کیا ہے امیر

آدمی بلبلا ہے پانی کا

اپنے مرنے کا نہیں غم مگر اتنا غم ہے

اے عزیزو ملک الموت نے گھر دیکھ لیا

رہ گیا اپنے گلے میں ڈال کر بانہیں غریب

عید کے دن جس کو غربت میں وطن یاد آیا

اس رائے کو تسلیم کرنے میں تامل نہیں ہو سکتا ’’امیر کے کلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ سقم سے پاک ہے۔‘‘

کہا جاتا ہے کہ جب کوئی قوم تنزلی کی انتہا تک پہنچتی ہے تو اس قوم میں کوئی نہ کوئی ایسی شخصیت جنم لیتی ہے جو اسے قعرِ مذلت سے نکال کر اوجِ ثریا تک پہنچا دیتی ہے۔  مسلمان قوم اور اردو شعری روایت جمودو یکسانیت کا شکار ہو رہی تھی، روایت پرستی نے راہیں مسدور کر رکھی تھیں، ایسے میں کائنات شعری میں ایک نوجوان وارد وہوتا ہے جو شاعری کو فرصت کا مشغلہ نہیں بلکہ زندگی کی ایک بڑی حقیقت سمجھتا ہے اور جس نے شاعری سے وہ کام لیا جس کا تصور بھی محال تھا۔  شعری ذوق رکھنے والے اس نوجوان کی شاعری کی ابتدا حسب روایت غزل سے ہی ہوئی اور اس کی غزل پر بھی داغ کا اثر نمایاں رہا، لیکن یہ اس کی اپنی طبیعت کا خاصا نہ تھا اس لیے جلد ہی وہ اس سحر سے آزاد ہو گیا۔  غزل کے بجائے اس کی توجہ نظم کی طرف ہوئی۔  نظم کی وسعت عرفان ذات، خودی و خود داری، بے نیازی و استغنا، عشق و خرد کے ساتھ ساتھ سماجی و اجتماعی مسائل، قومیت و طنیت، مذہب، سیاست، فلسفہ اخلاق و تصوف جیسے گراں بہا خیالات کو سمیٹنے میں کامیاب ہوئی۔  اس کامیابی نے شعری فلک کے آفتاب کا درجہ عطا کیا کہ جس کے سامنے نظریں خیرہ ہو سکتی تھیں، جس سے آنکھ ملا کر دیکھا نہ جا سکتا تھا۔

اردو شاعری میں ہر موضوع کے لیے الگ صنف سخن مقرر کر دی گئی ہے۔  اقبالؔ کی شاعری کا بہاؤ ان قیود کو اہمیت نہیں دیتا۔  وہ جو کہنا چاہتے ہیں کہہ دیتے ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ ناقدین کو ان کی غزل نظم سے قریب تر اور ان کی نظم غزل سے قریب ترین محسوس ہوتی ہے۔  اقبال کی شاعری میں غزل اور نظم کی حدود ضم ہوتی نظر آتی ہیں۔  خود اقبال بھی اپنی بعض منظومات کو غزل کہنے سے گریز کرتے ہیں۔  ان کی بعض مسلسل غزلیں نظم معلوم ہوتی ہیں۔  بال جبریل کی ابتدائی غزلیں ترکیب بند کہی جا سکتی ہیں۔  بات وہی آ جاتی ہے کہ اقبال موضوعات کی طرف متوجہ تھے ہیت ان کا مسئلہ کبھی نہیں رہا۔

بالِ جبریل سے پہلے پیام مشرق اور زبورِ عجم کی فارسی غزلیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال نے غزل کو مخصوص اور محدود مضامین کے حصار سے آزاد کرایا اور اپنی غزلیات میں نظامِ خودی کے مختلف اور مفرد عناصر کو پیش کیا۔  اقبال کاپیغام ایک تخلیقی جوش کی صورت میں نمودار ہوتا تھا۔  اقبال اپنے خیالات کے اظہار کے لیے کسی ہیت کو فوقیت نہیں دیتے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فکری زاویے اپنی مناسبت کے لحاظ سے کسی نہ کسی ہیت میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں۔‘‘(۱۱)

عشق، اضطراب جستجو آرزو مندی یہ سبھی موضوعات غزل کے لیے نئے نہیں لیکن اقبال نے انھیں جس طور برتا ہے۔  ان معنوں میں وہ کبھی استعمال نہ ہوئے تھے۔  پھر وہ مضامین جو اردو شاعری کے لیے نئے تھے یا جنھیں واضح طور سے کسی شاعر یا شعرا نے نہ برتا تھا۔  اقبال انھیں اس تواتر کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ ان کا ایک مخصوص فلسفہ، ایک مخصوص نظریہ سامنے آ جاتا ہے۔  انسان کو کائنات کا مرکز قرار دینا، زمان و مکان کی حدود و قیود، مردِمومن کا وجود، نظریۂ خودی، حیات وموت کی آویزش، حر کت و عمل کا پیغام، وحدتِ انسانی۔  یہ موضوعات غزل سے متعلق نہیں، تو کیا اقبال کی غزل تغزل سے محروم ہے پھر دوسرا سوال یہ سامنے آ سکتا ہے کہ تغزل ہے کیا؟

’’تغزل کا لفظ بالعموم ایک مخصوص صنف شعر سے جسے غزل کہتے ہیں، منسوب کیا جاتا ہے صاحبِ ذوق اصحاب جب غزل کے کسی اچھے شعر کی داد دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اس شعر میں شانِ تغزل پائی جاتی ہے چونکہ غزل میں عام طور پر عاشقانہ خیالات و جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔  اس لیے لوگ تغزل کو عشقیہ واردات سے مختص کر لیتے ہیں۔  در اصل تغزل کسی معین موضوع سے وابستہ نہیں بلکہ ایک مخصوص اسلوب بیان کا نام ہے جو غزل میں بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے۔‘‘(۱۲)

شعر و ادب کے مطالعے، خداداد صلاحیت اور طبعیت کی موزونی کی بنا پر اقبال نے حکمت و فلسفہ جیسے خشک مضامین کو بھی غزل میں حسن و دل آویزی سے پیش کیا اور بانگِ درا سے بالِ جبریل تک آتے آتے ان کی شاعری میں تغزل نکھر کر سامنے آتا ہے۔  یہ درست سہی کہ بانگِ درا میں دل سے زیادہ دماغ اور انداز تخاطب شاعرانہ کے بجائے ناصحانہ معلوم ہوتا ہے۔  رفتہ رفتہ اقبال کے کلام میں شاعر کا دل دھڑکتا اور فلسفی کا دماغ کام کرتا دکھائی دیتا ہے۔

’’بالِ جبریل کی غزلیات میں ہمیں فکر وتخیل کی پختگی کے ساتھ ساتھ رنگ تغزل کی بھی رچی ہوئی کیفیت نظر آتی ہے۔  بالِ جبریل کی اکثر غزلوں میں فکر کی جدت اور گہرائی کے ساتھ ساتھ رنگِ تغزل موجود ہے۔  مثلاً

تو ہے محیط بے کراں میں ہوں ذرا سی آبجو

یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر

باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں

کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر (۱۳)

دیگر شعراء کی مانند اقبال کی شاعری کی ابتدا بھی سولہ سترہ برس کی عمر میں ۱۸۹۳ء میں جب وہ سکاچ مشن سکول میں میٹرک کے طالب علم تھے، غزل گوئی سے ہوئی۔  داغ نو وادرشعرا کے لیے مرکز نگاہ تھے۔  اقبال ؔنے بھی انھی سے رجوع کیا اور خطوط کے ذریعے اصلاح لینی شروع کی۔  ابتدائی غزلوں میں داغ کا اثر نظر آتا ہے۔  خود اقبال داغ کی شاگردی کا اعتراف کرتے ہیں:

جناب داغ کی اقبال ؔ یہ ساری کرامت ہے

ترے جیسے کو کر ڈالا سخنداں بھی سخنور بھی

یہ اثر زیادہ دیر تک قائم نہ رہا۔  ۱۹۰۰ء کے آتے آتے اقبال نے لکھنؤ اور دہلی دبستان کی خصوصیات شعری سے الگ اپنی ایک راہ بنا لی تھی۔  عنفوان شہاب کے جذبوں پر جلد ہی اقبال کے خمیر میں رچی تہذیب و تربیت حاوی ہو گئی۔  بچپن میں والد کی تربیت اور میر حسن کی تعلیم نے آنے والے دنوں میں اقبال کی شعری تربیت میں اہم کردار ادا کیا، پھر پروفیسر آرنلڈ جیسے استاد سے فلسفہ کی تعلیم نے عشق و عاشقی کے محدود مسائل سے گریز کر کے مابعد الطبیعات، حیات و کائنات اور بشریات کی طرف متوجہ کیا۔  انگریزی و فارسی ادب کے مطالعے میں وسعت نے خیالات کو بھی کشادگی بخشی۔  بانگِ درا کی ابتدائی غزلوں میں عشق و خرد کی آویزش موجود ہے۔  غالبؔ ایسا شاعر کہ جس کے سحر سے آزاد رہناکسی شاعر کے لیے ممکن نہیں۔  فارسی الفاظ و تراکیب تشبیہات و علامات اور بلند فکری اقبال کے کلام میں غالب پسندی کے نتیجے میں در آئی ہے۔  بانگِ درا میں موجود، مرزا غالب پر نظم اقبال کی اس عقیدت کو ظاہر کرتی ہے جو انھیں غالب سے تھی، پھر اقبال کا فارسی شاعری کا مطالعہ بھی غائر تھا۔  مولانا روم، پیر رومی، کے روپ میں اقبال کے ذہن میں ابھرنے والے تصوف کے مسائل کی گتھیاں سلجھاتے رہے۔  چنانچہ ابتدا ہی سے وحدۃ الوجود۔  توحید زندگی کی ناپائداری کے مسئلے ان کے شعر میں جگہ پاتے رہے۔  بیدلؔ کی مشکل پسندی پیشِ نظر رہی۔  فارسی زبان کی شیرینی اور شاعری کی دل آویزی سے اقبال نے ہمیشہ استفادہ کیا۔  اپنے پیش روؤں کے خوشہ چین تھے تو ہمعصروں کے اچھے خیالات سے بھی اثر قبول کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے تھے۔  حالیؔ کی حب الوطنی سے متاثر تھے۔  شاعری میں جن تبدیلیوں کی خواہش حالی کو تھی، اقبال ان سے متفق تھے۔  حالی ہی سے متاثر ہو کر اقبال کی توجہ غزل سے ہٹ کر نظم کی طرف ہوئی۔  حالی ماضی کے مسلمانوں کی شان و شوکت یاد دلا کر مسلمانوں کو بیدار کرنا چاہتے تھے۔  اقبال بھی مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا ذکر کر کے نوجوان نسل کو خواب غفلت سے جھنجوڑنا چاہتے تھے۔  حب الوطنی، فطرت نگاری حالی کا پسندیدہ موضوع رہا، اقبال نے بھی اس حوالے سے بہترین نظمیں کہیں۔

اقبالؔ کی غزلیں بھی مکمل طور پر روایتی نہیں۔  عمومی موضوعات کے بجائے پیغام عمل، نوجوانوں کے دلوں میں جوش و جذبہ بیدار کرنا نظر آتا ہے۔  مناظرِ فطرت کی طرف توجہ، وطن سے محبت اور تلاش و جستجو ان کے محبوب موضوعات ہیں۔

غرض اقبالؔ نے اردو شاعری کو اپنی سیاست، فلسفہ، تاریخ، مذہب، معاشرت، بشریات و سماجیات سے متعلق واضح نظریات سے روشناس کرایا۔  اقبال ایسے واحد شاعر ہیں کہ جن کی پیروی کرنے کی کوشش تو کئی ایک نے کی لیکن چند قدم بھی اسی راہ پر نہ چل سکے کہ اقبال کی مخصوص لفظیات استعمال کر لینے سے کوئی اقبال نہیں بن جاتا۔  اس کے لیے اقبال کی سی فکر اور ذہن رسا اور اقبال کا سا درد اور جوش و جذبہ درکا رہے۔

اقبالؔ کے اس عہد میں کسی اور کاچراغ جلنا ممکن نہ تھا لیکن یہی وہ دور ہے کہ جب اصغرؔ، حسرت فانیؔ، جگرؔ، و یاسؔ نے غزل کی آبرو بحال کی اور اسے زندگی، تازگی اور توانائی عطا کی۔

’’…. اس دور کے غزل گو شعرا میں خود اپنا چراغ جلا لینے والے وہی لوگ ہو سکتے تھے جن کی غزل میں فنی کمال کے ساتھ ساتھ اس عہد کی فکری اور جذباتی فضا سے کسی نہ کسی قسم کی ہم آہنگی بھی ہوتی۔  فانیؔ، اصغرؔ، حسرتؔ اور جگرؔ کے بحیثیت شاعر باقی رہ جانے سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ ان کے ہاں کچھ تو تھا جس نے آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی تمازت کے باوجود ان کی اپنی روشنیوں کی جگ مگ کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ ان چراغوں سے اور بھی چراغ جلے‘‘۔  (۱۴)

ان شعرا کا کمال یہ تھا کہ انھوں نے غزل کی روایت سے انحراف نہ کیا کلاسیکی غزل جس کی نمو میں میرؔ و دردؔ، غالبؔ و مومنؔ، مصحفیؔ و آتشؔ نے خون جگر صرف کیا تھا۔  اس غزل کو اپنے عہد کے ماحول معاشرے سے ہم آہنگ کیا۔  ان کی غزلوں میں تفکر بھی ہے اور تغزل بھی۔  جذبہ بھی ہے اور شعور بھی۔  شیرینی بھی ہے اور رنگینی بھی۔  لطافت بھی ہے اور نغمگی بھی۔  تجربہ بھی ہے اور مشاہدہ بھی۔  یہی وجہ ہے کہ اردو کی کلاسیکی غزل کی بازیافت کا سہرا انھی شعرا کے سر ہے۔  اصغرؔ، حسرتؔ، فانیؔ و جگرؔ، ان کا نام ایک ساتھ لیا جاتا ہے۔  ایک ہی عہد اور ایک سے حالات سے تعلق ہے، لیکن ہر فرد ذات میں کائنات لیے ہوتا ہے اسی کائنات کی بو قلمونی اس کے تشخص و شناخت کا وسیلہ بنتی ہے اور اسے اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں سے نمایاں اور الگ قرار دیتی ہے۔

ان چاروں کا تعارف ان کے فن کے حوالے سے چند ایک لفظوں میں کروانا مقصود ہو تو عموماً یہی کہا جاتا ہے کہ اصغرؔ فلسفہ و تصوف کے شاعر، جگرؔ رندی و سرمستی کے، حسرتؔ عاشقانہ رنگ تغزل کے اور فانیؔ حزن و یاس اور تمنائے مرگ کے شاعر ہیں۔  ایک ہی عہد، ایک ہی صنف شاعری سے تعلق رکھنے والے شاعر ایک دوسرے سے اتنے فاصلے پر، لیکن ایسا نہیں ہے۔  اصغرؔ کی شاعری میں فلسفہ و تصوف کے علاوہ زمانے کی روشن اور حقیقت پسندی کے مظاہر بھی ہیں۔  جگرؔ صرف رندی و سرمستی کے ہی نہیں زندگی کی اعلیٰ اقدار کی شکست و ریخت، معاشرتی انحطاط اور مرگ آدمیت کے نوحہ کناں بھی ہیں۔  حسرتؔ کی شاعری میں کوٹھے پر ننگے پاؤں آنے کا تذکرہ ہی نہیں بلکہ چکی کی مشقت کا ذکر بھی ہے۔  فانیؔ فلسفۂ غم کے شاعر سہی لیکن زندگی کی اعلیٰ اقدار سے انکار اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے معنویت انھیں موت کی خواہش کرنے پر مجبور کرتی ہے۔  اس کے باوجود ان کی غزلوں میں تصوف اور عرفان ذات کی جستجو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اصغرؔکی شاعری کی شناخت تصوف و معرفت کے مضامین کے حوالے سے ہوئی تصوف صوفیوں کے مخصوص عقیدے کو کہا جاتا ہے۔  وہ عقیدہ کہ جس میں علمِ معرفت کے حصول اور خدا کی تلاش وجستجو میں انسان اپنے وجود کی نفی کر دے۔  اپنے ذہن و دل سے عام دنیاوی خواہشوں اور آلائشوں کو دور کر کے ساری توجہ اس ذات باری پر مرکوز کرے کہ جو سب کا مالک و خالق ہے۔  تزکیہ نفس کے لیے خود پر مکمل جبر ایک لازمی امر ہے یعنی ایک عام تعریف کے مطابق، تصوف، ترکِ دنیا کر کے خدا سے لو لگانے کا نام ہے۔  ہر چند کہ اسلام میں ترک دنیا کا درس کہیں نہیں دیا گیا۔  یہی وجہ ہے کہ اصغرؔ کا تصوف کہیں بھی ایک راہب یا تارک الدنیا فقیر کا نہیں ہے، نہ ہی ان کا تصوف، بے چارگی، مجبوری اور حزن و غم سے عبارت ہے بلکہ یہ وہ تصوف ہے جو زندگی کے بہت مسائل سے نبرد آزما ہونا سکھاتا ہے۔  اس فانی دنیا میں صرف ایک ذات ہے جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی اور کائنات کی تخلیق کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ ذات اپنا جلوہ دیکھنا چاہتی تھی۔  یوں تمام دہر میں اس کی جلوہ فرمائیاں ہیں جو انساں کو حیران کیے دے رہی ہیں۔

صد جلوہ رو برو ہے جو مژگاں اٹھائے

طاقت کہاں کہ دید کا احساں اٹھائے

جو نقش ہے ہستی کا دھوکہ نظر آتا ہے

پردے پہ مصور ہی تنہا نظر آتا ہے

ردائے لالہ و گل، پردہ مہ و انجم

جہاں جہاں وہ چھپے ہیں عجب عالم ہے

خدا پر پختہ یقین اور اس کی ذات پر کامل بھروسے کی وجہ سے ان کی شاعری میں قنوطیت، شکست، حزن، یاس، کم ہمتی، مایوسی، بے چارگی اور پچھتاوے کا احساس نمایاں نہیں ہے۔  در اصل ان کا تصوف دوسرے صوفیوں کی طرح قنوطی نہیں، رجائی ہے، جو زندگی سے بیزاری اور فرار کا درس دینے کے بجائے زندگی سے محبت کرنا سکھاتا ہے، جو بے عملی کا درس نہیں دیتا بلکہ زیست کرنے کے آداب سکھاتا ہے۔

قطرہ تنک مایہ بحر بے کراں ہے تو

اپنی ابتدا ہو کر اپنی انتہا ہو جا

عشق و خرد کی بحث شاعری میں کوئی نئی نہیں۔  عقل و شعور، نفع و نقصان، سودوزیاں کے حساب کتاب میں وقت ضائع کر دیتا ہے، لیکن عشق اس جمع تفریق سے بالا ہے۔  اقبال بھی ع

عشق کی ایک ہی جست نے کر دیا قصہ تمام

اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں

کے قائل ہیں تو اصغر کے نزدیک بھی عشق ہی کی بدولت کائنات کے اسرارورموز اور فطرت کے راز کھلتے ہیں۔

یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے

قطرے میں سمندر ہے، ذرہ میں بیاباں ہے

حیات و کائنات، مابعد الطبیعات، من و تو کا فلسفہ، مطالعۂ فطرت کا گہرا شعور عرفانِ ذات، خود شناسی و خود فراموشی، اصغرؔ کے خاص موضوعات ہیں۔  عبد اور معبود کا تعلق اس کی نوعیت، اپنی شناخت کی تگ و دو، خالق حقیقی تک رسائی کی کاوش، انسانی ذہن کو سوالات کی آماجگاہ بنا دیتی ہے۔  کیا، کیوں، کیسے اور کون، ذہن تمام وقت انھی مسائل کو سلجھانے میں مشغول رہتا ہے۔  ایسے میں وہ اپنی ذات کی نفی کر کے اسی کے جاہ و جلال، حسن و جمال اور تصور و خیال میں محو ہو جاتا ہے۔  قدرت کی جلوہ گری کہ جس سے ہم سرسری گزر جاتے ہیں اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو ہر ذرہ میں اک جہاند گر پوشیدہ ہے۔

نمود جلوہ بے رنگ سے ہوش اس قدر گم ہیں

کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی

اصغرؔ کی غزل، عشقِ حقیقی میں سرشار ہے لیکن یہ بھی نہیں کہ عشقِ مجازی کا ان کی شاعری میں عمل دخل ہی نہ ہو۔  یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اصغر کی شاعری میں عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی یوں مدغم ہیں کہ ان دونوں کی سرحدوں کا تعین ممکن نہیں۔  یہ عشقِ حقیقی ہی کا فیضان ہے کہ عشقِ مجازی میں بھی احترام و شائستگی کے تمام لوازم کا خیال رکھتے ہیں۔  ان کے وہ اشعار بھی جو شوخی و رنگینی سرمستی و سرشاری کی کیفیت لیے ہوئے ہیں، ان میں بھی شائستگی، رفعت و نفاست موجود ہے۔

کہہ کے کچھ لالہ و گل رکھ لیا پر وہ میں نے

مجھ سے دیکھا نہ گیا جس کا رسوا ہونا

یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی

یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا

حسن کی پاسداری کا احساس، غزل کی اس روایت میں کہ جہاں سراپائے محبوب کا تذکرہ کوئی انہونی بات نہیں تھی۔  اصغرؔ کی متانت کا تقاضا تھا۔

’’اصغرؔ کی غزل میں محبوب کی وہ کارفرمائی جو عام غزل گویوں کے یہاں نظر آتی ہے ان کے کلام میں نزاکت، نغمگی اور نفاست کے ساتھ جس شائستگی، شیرینی اور شگفتگی کا احساس ہوتا ہے۔  وہ نتیجہ ہے اس اعلیٰ تہذیبی کشودو کشید اور برنائی و برومندی کا جس کو ہم اردو زبان اور اردو سماج کہتے ہیں، جس میں ان کی شاعری اور شخصیت ڈھلی ہے‘‘(۱۵)

اردو شاعری کا مطالعہ ایک عام قاری کو یہا حساس عطا کرتا ہے کہ اس کا خمیر نالہ و شیون، شکوہ و شکایت، آہ و فریاد، غم و اندوہ، دکھ و درد اور یاس و حسرت سے اٹھا ہے کہ جس میں کہیں بھی سکون خوشی امید اور رجائیت کا گزر نہیں، ہر چند کہ رجائیت کا عمل دخل زندگی میں اتنا ہی ہے جتنا کہ غم و مایوسی کا لیکن جب ہم اپنی ہزار سالہ شعری تاریخ اٹھا کر دیکھتے ہیں تو رجائی نقطۂ نظر رکھنے والے شاعر یا رجائیت سے بھرپور اشعار انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔

چلا جاتا ہوں، ہنستا کھیلتا حوادث سے

اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے

کیوں شکوہ سیخ گردش لیل و نہار ہوں

اک تازہ زندگی ہے ہر اک انقلاب میں

اصغرؔ کی غزل فنی لحاظ سے بھی کامیاب ہے۔  تغزل اور شعریت ان کے کلام کا بنیادی وصف رہا۔  اصغرؔ کے تخیل کی رنگینی و رعنائی، بیان کی شگفتگی اور شائستگی اور الفاظ کے انتخاب اور تشبیہ و استعارے کے چناؤ نے عشق مجازی و عشقِ حقیقی، غرضیکہ اصغرؔ کی غزل کے ہر موضوع کو وہ حسن اور لے بخشی ہے کہ جس نے انھیں اپنے عہد میں اپنے ہی ساتھیوں میں ایک خاص امتیاز عطا کیا ہے۔

غزل بنیادی طور پر جذبہ و احساس کا بیان رہی ہے۔  انسان کی جبلت اور فطرت بہت کچھ بدل جانے کے باوجود بھی اس کی اساس وہی ہے۔  وہی چاہنا اور چاہے جانے کی آرزو، وہی نہ ملنے والی چیز پر غم و غصہ اور چھین لینے کی خواہش، وہی حسد اور رقابت، انسان کی بے کس و بے بسی حرماں نصیبی یا سیت و محرومی مجبوری و لاچاری کا احساس سبھی کچھ وہی ہے۔  ہم آج بھی خواہش کرتے ہیں جو آرزو کا روپ دھار لیتی ہے اور آرزو جب حسرت میں بدل جائے تو ساری امیدیں، رجائیت، جوش و ولولہ سرد پڑنے لگتا ہے۔  میرؔو غالبؔ ہوں یا داغؔ و امیر سبھی، آتا ہے داغِ حسرتِ دل کا شمار یاد کے نوحہ کناں ہوتے ہیں۔  ایسے میں یہی حسرتؔ ایک زندہ کردار کی صورت میں اردو شاعری کے افق پر نمودار ہوتے ہیں اور احساس دلاتے ہیں کہ زندگی میں اگر حسرتؔ بھی باقی نہ رہے تو پھر جینے کا مقصد بھی باقی نہیں رہتا۔  حسرتؔ نے ان شعرا کو جو غزل کی گرتی دیوار سنبھال رہے تھے، بڑا سہارا دیا، انھیں اس بات سے کوئی سروکار نہ تھا کہ غزل پر کیا اعتراضات ہو رہے ہیں۔  غزل میں کن مضامین کاداخلہ ممنوع ہو چکا ہے اور کن موضوعات کو خوش آمدید کہنا ہے۔  حسرتؔ کی غزل، ان کی زندگی جیسی کہا نھوں نے گزاری کی مکمل تصویر پیش کرتی ہے۔  اس لیے ان کی شاعری میں فلسفہ طرازی و معنی آفرینی کی بجائے عنفوان شباب کے جذبے اور حسن و عشق کے معاملات بالکل انسانی سطح پر ملیں گے:

’’انھوں نے اپنی عاشقی کو قضیۂ زمین برسرِزمین ہی رکھا۔  اس کو نہ آسمان پر لیے لیے پھرے نہ خانقاہوں اور ویرانوں میں بیٹھنے دیا۔  اپنے عشق کو نہ گاؤں سدھار کا حیلہ بنایا نہ بغاوت اور انقلاب کا وسیلہ۔  نہ یزداں و اہرمن کا مسئلہ۔‘‘(۱۶)

حسرت کی غزل روایتی جنوں زدگی اور ماورائیت سے پاک ہے۔  جسم وجاں کے سبھی تقاضے اور جذبے اس میں گھلے ملے نظر آتے ہیں۔  ان کا عشق گھریلو عشق ہے۔  جس تک رسائی نا ممکن نہیں۔

’’وہ جس چیز کو عشق کہتے ہیں وہ خالص انسانی چیز ہے‘‘(۱۷)

آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہار حسن

آیا میرا خیال تو شرما کے رہ گئے

حسرت کی غزل کی دنیا خود ان کی تشکیل کردہ ہے۔  ہر چند کہ انھوں نے مختلف اساتذہ سے فیض حاصل کیا ہے۔

شیرینی نسیم ہے سوزو گداز میر

حسرت ترے سخن یہ ہے لطف سخن تمام

لیکن جب وہ کہتے ہیں۔  ’’ہے زبان لکھنؤ میں رنگ دہلی کی نمود‘‘ تو یہ بات تسلیم کرنا ذرا مشکل ہو جاتی ہے۔  حقیقت یہ ہے کہ اسلوب و بیان کسی لحاظ سے بھی حسرت ؔ کا مزاج اور انداز لکھنوی نہ تھا۔  تسلیم ؔدہلوی کے شاگرد تھے اور دبستان دہلی کی تمام تر خصوصیات ان کے کلام میں موجود ہیں۔  لکھنوی اسکول کا ابتذال اور معاملہ بندی حسرتؔ کو متاثر نہ کر سکی۔  ہر چند کہ حسرت ؔکی غزل بھی حسن و عشق کے جذبوں اور تجربوں سے عبارت ہے۔  روایتی انداز بھی موجود ہے بلکہ ان کی وہ غزلیں جو ابتدائی زمانے کی ہیں ان میں جذبہ و احساس کی صداقت کا احساس بعد کی غزلوں کی نسبت زیادہ ہے۔  وہ خود اپنی شاعری کو مختلف خانوں میں منقسم کرتے ہیں اور اپنی غزلوں کا ایک پہلو فاسقانہ بھی بتاتے ہیں لیکن یہ پہلو بھی لکھنوی غزل کے محبوب کے حسن، لباس و بناؤ سنگھار اور عاشق کے سطحی جذبوں سے کہیں بلند ہے۔  فاسقانہ انداز کی تیرہ غزلیں، جو انھوں نے منتخب کی ہیں۔  ان میں بھی معصومیت اور عشق کے اولین تجربوں کا احساس جھلکتا ہے۔

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

حسرتؔ کی غزل کا وہ رخ جسے وہ عاشقانہ کہتے ہیں، شعری روایات میں عم زاد سے عشق ویسے ہی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔  حسرت کا عشق بھی گھر کی چاردیواری سے شروع ہوتا ہے۔  اور اس کی ہر کیفیت اور حالت جانی بوجھی ہے۔  حسرتؔ اس جذبات نگاری میں صداقت اور سادگی سے گریز کہیں نہیں کرتے۔  وہ فارسی تراکیب استعمال تو کرتے ہیں لیکن اس طرح کہ زبان کی سلاست اور شعر کی روانی میں فرق نہیں آنے پاتا فارسی زبان کی شیرینی اور سبک ساری اور شعر میں ان کا خوبصورت اور برمحل استعمال کہیں اجنبیت کا احساس نہیں ہونے دیتا۔

در پئے ایذائے جان مبتلا ہو جائیے

اس قدر بیگانہ عہد وفا ہو جائیے

حسرتؔ کی غزل کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ غزل جو درد و الم، غم و یاسیت سے تشکیل پاتی تھی محبت میں ناکامی اور محرومی جس کا انجام تھا۔  آہیں اور آنسو شاعر کا مقدر تھے۔  حسرتؔ کی غزل میں محبت کی المیہ داستان کے بجائے محبت کے نشاطیہ پہلو کی کیف و سرمستی نظر آتی ہے، یوں ان کی الم انگیزی اور دردمندی میں بھی نشاط و رجائیت اور امید کی کرن موجود ہے۔

حسرتؔ عارفانہ کلام کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ جس کلام میں عشقِ مجازی سے برتر عشق مطلق اور حسن سے حسنِ مطلق مراد ہو وہ عارفانہ کہلائے گا۔  حسرتؔ کو صوفی شاعر، تسلیم نہیں کیا جا سکتا تصوف ایک وسیع موضوع ہے۔  اس کی گہرائیوں تک رسائی ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔  حسرت ؔبھی قادر مطلق کی مطلق العنانیت اور انسان کی مجبوریوں سے آگاہ ہیں۔  تسلیم و رضا کو زندگی کی ایک بڑی سچائی تسلیم کرتے ہیں۔  بردباری، تحمل، مستقل مزاجی، صبر اور راضی برضا رہنا ہر مسلمان کے مزاج میں ان خصوصیات کا موجود ہونا ضروری ہے اور حسرتؔ میں یہ خوبیاں موجود تھیں:

’’جس شکل میں جہاں بھی حسن کا ظہور ہو وہ اس کی پرستش کرتے ہیں۔  وہ حسن بتاں میں اسی بے نشان کے نشان پاتے ہیں۔  ان کی نظر شیفتۂ حسن بتاں ہے، لیکن ان کا دل صورتِ حق کا آئینہ ہے۔  ان کی نظر کسی کی صورت کے رنگ میں حقیقت کی جویا ہے۔

گرویدہ اہل شوق جو حسن بتاں کے ہیں

شاید یہ سب نشاں اسی بے نشاں کے ہیں (۱۸)

حسرت ؔنے تمام زندگی فقر و درویشی کے عالم میں گزاری۔  لباس، خوراک اور انداز زیست سبھی قلندرانہ تھا۔

انگریز کی غلامی، انگریزی حکومت کی نوکری، سیاسی جبر واستبداد کی فضا، ہندو کی معتصب ذہنیت اور انگریز سامراج کی حاکمانہ جبلت حسرتؔ کے لیے کبھی قابل قبول نہ رہیں۔  انھیں غیر معمولی سیاسی شعور اور حالات و فضا کو پرکھنے کا ملکہ خوب تھا۔  ایثار و قربانی کا جذبہ، مصائب و آلام سے نمٹنے کی سکت قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے کا حوصلہ بدرجہ اتم موجود تھا۔  آزادی کے حصول میں آنے والے تمام مصائب خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے۔  سیاست ان کی زندگی میں اس طرح رچ بس گئی تھی کہ عشقیہ جذبات نظم کرتے کرتے سیاسی واقعات و نظریات کا ذکر بھی کر جاتے ہیں۔  سیاسی جد و جہد میں ان کی طبیعت کی بے باکی اور مستقل مزاجی نے انھیں کبھی سرجھکانے پر مجبور نہ کیا۔  شاعر کو عموماً تصورات کی دنیا میں مگن ایک بے عمل انسان تصور کیا جاتا ہے، لیکن حسرتؔ کیسے شاعر تھے کہ ان کا قول و عمل ہمیشہ ہم آہنگ رہا۔  مشق سخن اور چکی کی مشقت ساتھ ساتھ رہی۔  ان کی شاعرانہ زندگی، سیاسی زندگی اور ذاتی زندگی سبھی کچھ اس طرح یکجا نظر آتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ حسرتؔ خود خانوں میں تقسیم کرتے ہیں لیکن قاری کو انھیں منقسم کرنا ممکن دکھائی دیتا۔

احتجاجی، مزاحمتی اور حسبیہ شاعری کا آج غلغلہ بہت عام ہے لیکن یہ احتجاج اور مزاحمت تو ہماری کلاسیکی شعری روایت کا حصہ ہے۔  حسرت جیل جاتے ہیں تو آزادی کا گیت گاتے ہوئے، وہاں مقید رہتے ہیں تو وہی سرمستی جوش اور ولولہ ہے جو ہندوستان کی آزادی کے لیے ضروری ہے۔  وہ مصلحت کیش نہیں۔  حسرت گفتار ہی نہیں کردار کے بھی غازی تھے۔  اطاعت غیر اور رسمِ جفا کے خلاف احتجاج سے کبھی گریز نہ کیا۔  قیدو بند کی صعوبتیں اور انگریز سامراج کے جلسے جلوس اور ا خبارات کی پابندیوں اور دستور زباں بندی نے کبھی حسرتؔ کے حوصلے پست نہیں کیے نہ ان کے لہجے میں تلخی پیدا ہوئی۔

حسرتؔ کا سیاسی مسلک، عارفانہ اندازو فاسقانہ تیور، ان کی شاعری میں پوری آب و تاب سے موجود ہیں لیکن ان کی غزل سراسر عشقیہ ہے۔  انھوں نے اُردو غزل کو نئے امکانات سے روشناس کرایا اور تغزل کو تہذیب رسم عاشقی کے خاص انداز سے متعارف کرایا۔

تو نے کی حسرت عیاں تہذیب رسم عاشقی

اس سے پہلے اعتبار شان رسوائی نہ تھا

’’المیہ‘‘ یا ’’غم‘‘ شاعری کا بنیادی موضوع، زندگی اسی سے عبارت ہے۔  خوشی کے لمحے مختصر اور غم کی مدت طویل ہوا کرتی ہے۔  انسانی جسم میں بخار کی حدت، فشارِ خون کی شدت، دل کی دھڑکن کی رفتار غرض کہ میڈیکل سائنس کی مدد سے ہم اپنے جسم کے ہر اعضا کے افعال کی درستگی یا عدم درستگی کاپتہ چلا سکتے ہیں، لیکن غم کی شدت ماپنے کا آلہ آج تک وجود میں نہ آیا کہ جس کی بنا پر کہا جا سکے کہ غم اگر فلاں درجہ تک پہنچ جائے تو انسانی جسم کے لیے ناقابل برداشت ہے، پھر غم کی نوعیت کئی قسم کی ہو سکتی ہے۔  غمِ دنیا، غمِ روزگار، غمِ محبت اور غمِ ذات وغیرہ۔  پھر اس بات سے انکار بھی ممکن نہیں کہ جب انسان غم و اندوہ کی کیفیات میں مبتلا ہوتا ہے اور فراوانی اتنی کہ وہ اس کا عادی ہو کہ اس کے بغیر زیست بے مزا ہو کر رہ جائے، چنانچہ غم پسندی یاغم کی طلب اردو شاعری کے لیے کوئی انہونی یا انوکھی بات نہیں۔

اردو شاعری کی تاریخ فلسفۂ غم کے سلسلے میں فانیؔ کا تذکرہ ناگزیر ہے۔  یہ نہیں کہ فانیؔ سے پہلے اُردو شاعری میں غم کا تصور ہی موجود نہ تھا یا نمایاں نہ تھا۔  اردو شاعری بلکہ عالمی شاعری کی بنیادی المیہ یا غم پر استوار ہے کہ یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے، لیکن فانیؔ کے کلام میں غالبؔ کے اس مصرعے کی گونج سنائی دیتی ہے کہ موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیونکہ فانیؔ کی شاعر کا مطالعہ کیجیے تو وہ موت اور غم کے درمیان دائرہ در دائرہ سفر کرتی نظر آتی ہے۔  فانیؔ کی شاعری میں غم وا لم کی نسبت سے ہی رشید احمد صدیقی نے انھیں یا سیات کا امام کہا ہے۔  رشید احمد صدیقی فانیؔ کے غم سے متعلق اپنی اور اپنے ہم عصر شاعروں کی رائے تحریر کرتے ہیں:

’’فانی ؔکے غم و الم کی مختلف تعبیریں کی گئی ہیں۔  جوشؔ نے فانیؔ کی شاعری اور خود فانیؔ کے بارے میں بڑی ناملائم باتیں کہی ہیں۔  فراقؔ نے فانیؔ کے غم میں عظمت، عالم گیری اور پائندگی دیکھی ہے۔  جگرؔ نے ان میں میرؔ کا سوزو گداز، غالبؔ کی رفعت فکر اور مومنؔ کا اندازِ بانکپن پایا ہے۔  فانیؔ کے یہاں آلام حیات کی تفسیر ہے۔  فانیؔ زندگی کو ایک مسلسل اور منظم الم قرار دیتے ہیں۔  وہ الم جس نے بدھ کو نجات کا متلاشی بنایا اور جس کی نشاندہی مسیح کی صلیب کرتی ہے‘‘(۱۹)

میرؔ کی شعری خصوصیات میں سوز و گداز، رنج و الم اور غم و اندوہ نمایاں ہیں۔  ان کی زندگی مکمل طور پر دکھوں سے عبارت رہی اور یہی دکھ ان کی شاعری میں مختلف حوالوں سے ابھرتے رہے۔  فانیؔ کی شاعری میں بھی وہی یاست اور قنوطیت اپنی حھلک دکھاتی ہے جو میرؔ کی طبیعت کا خاصہ ہے۔

شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا

ساری امیدیں ٹوٹ گئیں دل بیٹھ گیا جی چھوٹ گیا

آنسو تھے سو خشک ہوئے دل ہے کہ امڈ آتا ہے

دل پہ گھٹا سی چھائی ہے کھلتی ہے نہ برستی ہے

فانیؔ بھی میرؔ کی طرح تمام زندگیع دل کا اجڑنا سہل سہی، بسنا سہل نہیں کے نوحہ کناں اور غم دل کے ہاتھوں پریشاں و سرگرداں رہے۔  فانی کی شاعری میں، دل اسی لیے نمایاں اہمیت رکھتا ہے کہ یہاں غم کے خزینے چھپائے جاتے ہیں۔

اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ فانی کے کلام میں ملک کے سیاسی مدوجذر یا عام معاشی حالات اور اقتصادی مسائل کا تذکرہ کے بجائے ان کی ذاتی اقتصادی مشکلات، ابتدائی عشق کے سلسلے میں ناکامی۔  زندگی میں آسودہ حالی کے فقدان اور پھرجوان بچی کی موت بعد ازاں رفیقہ حیات کی جدائی نے انھیں غم پسندی عطا کی۔  اسے بھی وہ خدا کا کرم ہی سمجھتے ہیں کہ بہت سے انسان درد دل سے محروم ہیں۔  پھر بھی انسان کہلاتے ہیں۔

میری ہوس کو عیش دو عالم بھی تھا قبول

ترا کرم کہ تو نے دیا دل دکھا ہوا

موت کی خواہش، موت کی طلب یا آرزو، صرف اسی غم سے نجات حاصل کرنے کے لیے کی گئی ہے۔  جب تک انسان زندہ ہے کسی نہ کسی صورت اسے غم کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو چہرے بدل بدل کے، آ جاتا ہے۔  غم جاں سے چھوٹے تو غم جہاں نے آلیا۔  غم روزگار سے نجات ملی تو غم جاناں نے جکڑ لیا۔  ان سبھی مسائل کا حل موت ہے۔  فانی کی شاعری میں موت کی خواہش نجات دہندہ کی صورت میں ابھری ہے۔  ان کی شاعری میں موت کی آرزو خدا سے وصال یا نئی دنیا کے اسرار و رموز جاننے کی خواہش کے سلسلے میں نہیں ابھری ہے، بلکہ موت کی خواہش، اس عالم اضطراب میں سکون کے حصول کے لیے کی گئی ہے۔

اُردو شاعری کے لیے یہ بلاشبہ ایک نیا موڑ تھا کہ جہاں موت کو محبوب اور مقصد اعلیٰ کا درجہ دے دیا گیا ہو۔  جس کا انتظار شدت سے کیا جاتا ہو اور جس کی طلب میں سانس رک رک جاتی ہو۔  موت کو پیار سے اپنی زندگی کہنا موت سے راز ونیاز ہونا۔  فانی کی شاعری کے عام لوازم ہیں:

ادا سے آڑ میں خنجر کی منہ چھپائے ہوئے

میری قضا کو وہ لائے دلہن بنائے ہوئے

زندگی کی بے ثباتی اور فنا کا شدید احساس ہی شوکت علی کو فانی بنا گیا۔

ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانیؔ

زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا

لیکن یہ خیال کرنا کہ فانیؔ کی شاعری غم و یاس یامرگ و فنا کے دائرے ہی میں مقید ہے تو یہ درست نہیں۔  فانی ؔکی غزل میں، حسن و عشق کابیان بھی موجود ہے۔  وہی معاملات اور واردات قلبی کا بیان۔  وہی عاشقی کا محبوب کے سامنے کچھ کہنے کی حسرت دل میں رکھنے کے باوجود کچھ کہہ نہ پانا۔  فانی کی شاعری میں خواہشات کی شکست و ریخت اور آرزوؤں کی ناکامی، ’’دل‘‘ کی موجودگی کے باعث ہوئی۔  نہ دل ہوتا نہ آرزوئیں جنم لیتیں نہ زندگی اتنی آزاد ہوتی۔

درد دے کر دلِ فانی ؔکو مٹا دینا تھا

اس حقیقت کو بھی افسانہ بنایا ہوتا

لیکن یہ دکھ اور درد انسانی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور تمام مخلوقات میں انسان ہی ہے جو یہ غم برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ غم ہم کو دیا سب سے جو مشکل نظر آیا۔  فانیؔ میں غم برداشت کرنے، غم کو گوارا بنانے اور غم کو نشاطیہ روپ دینے کی صلاحیت اور ظرف موجود تھا۔

غم کو بنا کے محرم اسرار کائنات

ہر نقش غم کو پیکر انساں بنا دیا

’’یوں تو اردو کے اساتذہ متغزلین کے یہاں اکثر غم کا ادراک ملتا ہے اور مقامِ غم سے ہی مقامِ معرفت کی ابتدا ہوتی ہے۔  یہ معرفت خواہ معرفتِ نفس ہو یا معرفتِ روحانی، غم کا انتہائی نقطۂ عروج فانیؔ کے کلام میں ہے۔  یہاں پہنچ کر فانیؔ غم کو ایک اثباتی حقیقت مان لیتے ہیں اور خوشی کو عدم غم نہیں کرب معکوس سمجھتے ہیں اور اس لیے عیشِ غم یا نشاطِ غم کی ترکیب عالم وجود میں آئی ہے۔  اسی نشاط غم کی ایک ناکام کھوج فانی اور ان سے اثر پذیر تمام متغزلین نے کی ہے‘‘(۲۰)

غم سے کنارہ کرنے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو غم کا مداوا سوچنے کے بجائے اپنی ذات کو تکلیف دے کر اپنی روح کو ایذا پہنچا کر خود کو دنیا کی آلائشوں سے دور کر کے روحانی پاکیزگی کا حصول بھی انسان کا ایک مقصد ہو سکتا ہے اور غم سے نشاط کا خط اٹھانا بھی ایک رخ ہے جسے فانی ؔنے اپنایا ہے۔

پھر ملی غیب سے نویدِ نشاط

غم کے ساماں ہوئے فراہم کیا

فانی ؔکی شاعری کے حزینہ پہلو کے تجزیئے کے سلسلے میں ایک رائے، جو دوسری آرا سے مختلف ہے، کچھ یوں ہے:

’’فانیؔ کو فلسفۂ غم کا شاعر کہا جاتا ہے، لیکن ان کی شاعری کا اصل موضوع غم نہیں بلکہ موت ہے۔  غم کا ذکر فانیؔ کے ہاں اس سے کچھ زیادہ نہیں جتنا کہ دوسرے شاعروں کے ہاں ملتا ہے۔  البتہ موت کا ذکر انھوں نے جس طرح اور جتنے عنوانوں سے کیا ہے اس کا جواب کہیں اور ملنا مشکل ہے‘‘ (۲۱)

فانی ؔکی غزل تصوف و عرفان اور فلسفہ و فکر کے گھمبیر مسائل کا احاطہ کرتی ہے۔  انسان کی حقیقت، دنیا میں اس کا مقام و مرتبہ، انسان کی ابتدا و انتہا کے سلسلے میں تشکیک و وہم، زیست ایک فریب، انسان کا اپنی ہی راہگزار کو نہ پہچاننا، دنیا کا اجتماع اضداد ہونا اور انسان کا اسی دنیا میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہونا اور جب بات اشرف المخلوقات کی مجبوری کی آ جائے تو وہ یہ بھی دیکھنا چاہتا ہے کہ انسان کسی حد تک مختار ہے۔  جبر و اختیارکا یہ فلسفہ کوئی نیا نہیں اور اس مسئلے کا حل کسی بڑے سے بڑے عالم کے پاس بھی نہیں۔  انسان نئی سے نئی دنیا فتح کر سکتا ہے اور کرتا ہے لیکن یہ وہی انسان ہے کہ جو ایک پتے کو ہلانا چاہے تو نہیں ہلا سکتا کہ یہ اس کے اختیار سے باہر ہے۔  پھر انسان کہاں تک مجبور ہے اور کہاں تک مختار اس کا فیصلہ کوئی نہیں کر سکا اور فانی ؔنے امیدوں کو اس طرح ٹوٹتے دیکھا ہے کہ انھیں تو زندگی مسلسل جبر دکھائی دیتی ہے۔  جس میں اختیار کی کوئی گنجائش نہیں انسان مجبور محض ہے۔  انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود اس ذات باری کے ہاتھوں کٹھ پتلی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔  جو وہ چاہتا ہے وہی کچھ ہوتا ہے۔

زندگی جبر ہے اور جب کے آثار نہیں

ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں

جسم آزادی میں پھونکی تو نے مجبوری کی روح

خیر جو چاہا کیا اب یہ بتا ہم کیا کریں

فانیؔ نے اپنے تجربات اور جذبہ و احساس سے اردو غزل کیا ساس یعنی غم و الم کے موضوعات کو منفرد انداز عطا کیا۔

جگرؔ مراد آبادی کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے کہ وہ تقلیدی شاعر تھے۔  ابتدا میں ہر شاعر اپنے پیشروؤں یا معاصرین سے متاثر ہوتا ہے۔  رفتہ رفتہ اس کا انفرادی رنگاس کی پہچان بن جاتا ہے۔  جگرؔ مراد آبادی اپنی شناخت قائم کروا سکے یا نہیں، اس کے متعلق متضاد آرا ہیں۔  واقعاتی شاعری اور اصلاحی نظموں کے دور عروج میں حسرتؔ، اصغرؔ اور فانیؔ کے ہمراہ جگرؔ بھی شعری افق پر نمودار ہو کر، میرؔ کا سوز و گداز، غالبؔ کا انداز تفکر اور رعنائی خیال، مومنؔ کا والہانہ پن، داغؔ کی سادگی، روانی، نزاکت، شوخی اور حسرتؔ کی معصومیت اور حقیقت نگاری لیے، اپنی جداگانہ حیثیت تسلیم کروانے میں کامیاب ہوئے ہیں یا نہیں۔  ان کی شاعری میں ارتقا کا احساس ہے یا نہیں۔  ان کی شاعری میں ترقی پسند رجحانات حالات کا تقاضا تھے یا ان کی فطرت میں رچے بسے تھے۔  رندی و سرمستی کلاسکی شاعروں سے مستعار ہے یا ان کا تجربہ۔  حسن و عشق کا تصور مادرائی و خیالی ہے یا حقیقت سے تعلق رکھتا ہے۔  حسن سراپا ناز عشق سر تا سرنیاز ہے یا خود داری و غیرت کے جذبات بھی رکھتا ہے۔  سائنسی ترقی اور مادیت کی دوڑ نے انسانیت کی اقدار کی نفی تو نہیں کر دی۔

جگرؔ کی شاعری کاجائزہ لیتے ہوئے یہ چیدہ چیدہ سوالات ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔  جگر کی ابتدائی دور کی شاعری میں اسلوبی سطح پر صفائی، سادگی، روانی، برجستگی، بے ساختگی اور موضوعاتی اعتبار سے معاملہ بندی، حسن و عشق کی واردات اور کیفیات، نظم کی گئی ہیں۔  جگرؔ نے انھی روایتی موضوعات کو ایک نئے قالب میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔

ڈاکٹر ابو للیث صدیقی کہتے ہیں:

’’جگرؔ ایک فطری شاعر ہے۔  یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں فطرت کی سادگی اور جوش پایا جاتا ہے۔  انھوں نے اپنی دورِ شباب کی شاعری میں نہ مضمون کو تلاش کرنے کی کوشش کی نہ کوئی مخصوص رنگ اختیار کیا۔  تاہم جو انداز کثرتِ مشق سے خود بخود پیدا ہو گیا وہ ان کا مخصوص اور منفرد و آہنگ ہے۔  ان کی شاعری ان کے دل کی کہانی ہے اور اس میں کسی طرح کا تضاد یا تصنع نہیں‘‘(۲۲)

جبکہ کلیم الدین احمد کی رائے یوں ہے:

’’جگرؔ داغ کے متبع ہیں لیکن داغ ؔسے کم مرتبہ رکھتے ہیں۔  داغؔ کا میدان وسیع ہے۔  جگرؔ کا میدان تنگ ہے۔  داغؔ حقیقت طراز شاعر تھے۔  جگر ؔمیں اس پایہ کی حقیقت نگاری موجود نہیں۔  جگر ؔکے اشعار داغ ؔکی سی صفائی سادگی سلاست روانی اور رنگینی تو رکھتے ہیں، لیکن داغ ؔکی تازگی شوخی معاملہ بندی اور بے ساختگی نہیں رکھتے۔‘‘(۲۳)

کلیم الدین احمد اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ جگرؔ کے اشعار میں داغؔ کی سادگی صفائی سلاست روانی اور رنگینی ہے، جو شاعری کے اہم اوصاف ہیں، لیکن داغ ؔکی شوخی و معاملہ بندی و بے ساختگی نہیں، تو خود داغؔ کی یہ شوخی اور معاملہ بندی اردو شاعری کے معیار و نقد و نظر پر کہاں تک پوری اترتی ہے۔  یہ سبھی جانتے ہیں۔  اگر اردو شاعری پر نظر کی جائے تو شاعر زندگی کانوحہ پڑھتے ہی نظر آتے ہیں، لیکن جگرؔ غموں کے آگے سپر نہیں ڈالتے، بلکہ حوصلے سے برداشت کرتے ہیں۔

میں زخم بھی کھاتا جاتا ہوں قاتل سے بھی کہتا جاتا ہوں

توہین ہے دست و بازو کی وہ وار کہ جو بھرپور نہیں

تری خوشی سے اگر غم میں بھی خوشی نہ ہوئی

وہ زندگی تو محبت کی زندگی نہ ہوئی

اردو شاعری خصوصاً ً اردو غزل کے مرکزی کردار عاشق و محبوب ہمیشہ سے ایک ہی صفات رکھتے چلے آئے ہیں۔  محبوب ہمیشہ ظالم، کج ادا، بے رحم، وعدہ خلاف، جور پیشہ، حسن وجمال کا مرقع اور بے جا تفاخر کا حامل اور عاشق سدا سے مرنجان مرنج، نیم جان، بے خواب، سایۂ دیوار تلے دیدار کا انتظار کھینچتا ہوا۔  جذبۂ عشق میں اس حد تک غرق کہ غیرت و حمیت کا قطعی کوئی احساس اس میں موجود نہیں، لیکن جگرؔ کی شاعری میں یہ تصور تبدیل ہو جاتا ہے۔

کوئی حسیں نظر میں ٹھہرتا نہیں جگرؔ

باز آئے اس بلندیِ ذوقِ نظر سے ہم

وہ آئے ہیں اے دل ترے کہنے کا یقیں ہے

لیکن میں کیا کروں مجھے فرصت ہی نہیں ہے

محبوب تک رسائی اردو غزل کا ایک لاینحل مسئلہ رہا ہے، لیکن اس سے پہلے یہ تو معلوم کیا جائے کہ یہ محبوب و اقعتاً موجود بھی ہے یا صرف چاند میں اس کی شبیہہ دکھائی دیتی ہے۔  عاشق اصنامِ خیالی اور ماورائی یا روایتی کردار کی پرستش ہی تو نہیں کیے جا رہا۔  ؔ جگر کا کلام اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ان کا محبوب روایتی یاماورائی نہیں۔  گوشت پوست کا اسی دنیا سے تعلق رکھنے والا انسان ہے۔  جس پر زمانے کے سردو گرم کا اثر بھی ہوتا ہے۔  جو جفا بھی کرتا ہے اور وفا بھی۔  جو محبت سے لطف لینا ہی نہیں جانتا اس کے دکھوں سے اپنے دل میں پیدا ہوتی ہوئی خلش بھی محسوس کرتا ہے۔

وہی انساں جسے سرتاج مخلوقات ہونا تھا

وہی اب سی رہا ہے اپنی عظمت کا کفن

آدمی کے پاس سب کچھ ہے مگر

ایک تنہا آدمیت ہی نہیں

جگرؔ کی شاعری اپنے ابتدائی دور سے لے کر آخری عہد تک کئی رنگ بدلتی ہے۔  رندی و سرمستی کے عالم میں محبت کے گیت گاتے، نغمگی و موسیقیت اور محاکات کا رنگ نکھارتے ہیں اور جب سیاسی و سماجی مسائل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو فکر کی گہرائی نمایاں ہونے لگتی ہے۔  ملک و قوم کا درد، ملک کے ناگفتہ بہ حالات، وطن سے محبت، سیاسی انتشار اور بدحالی کی کیفیت انہیں بھی اپنا فرض ادا کرنے پر مجبور کرتی ہے، لیکن ان کا انداز رہنما کا نہیں بلکہ شاعر کا ہے۔  شاعر جو انسان کو بے حسی کی دلدل سے نکال کر جوش و جذبہ عطا کرتے ہیں اور جس کے بغیر کسی بھی عمل کی تکمیل ممکن نہیں۔

جگر ؔکی شاعری ارتقائی مراحل طے کرتی ہوئی رندی و سرمستی کی وادیوں سے گزرتی اس مقام پر پہنچتی ہے جہاں ان کی طبیعت میں کچھ ٹھہراؤ آ جاتا ہے۔  الفاظ کی رنگینی و رعنائی کے بجائے موضوعات کے انتخاب میں گہرائی پیدا ہونے لگتی ہے۔  اصغرؔ کی محبت نے شعر میں حکیمانہ رنگ کو نکھار بخشا۔

اللہ اگر توفیق نہ دے انساں کے بس کا کام نہیں

فیضانِ محبت عام سہی، عرفانِ محبت عام نہیں

ان کا جو کام ہے وہ اہلِ سیاست جانیں

میرا پیغامِ محبت ہے جہاں تک پہنچے

جگرؔ کی شاعری کے اگلے دور میں متصوفانہ مضامین، خدا اور بندے کا تعلق، خدا کی ذات کے اقرار، اس پر ایمان اور اس سے عشق موجود و لاموجود، مکاں ولامکاں اور جبر و اختیار کے مسائل نظر آتے ہیں اس دور میں ان کی انفرادیت اپنا آپ تسلیم کرواتی نظر آتی ہے۔

نفس نفس میں صفاتِ تازہ، مماتِ تازہ حیاتِ تازہ

انھیں میسر ہے ذات تازہ جو خود کو تجھ میں مٹا رہے ہیں

جو ترے کچھ نظر نہیں آتا

آرزو بن گئی مجسم کیا

اس دور کی غزلوں میں مضامین کا تنوع قابلِ غور ہے۔  ان کے کلام میں حسن و عشق کی گرمی، رعنائی خیال، زندگی کے انقلابات اور تغیرات سیاسی تہذیبی و سماجی مسائل، انسان دوستی و مادیت پرستی کے دور میں انسان کی قدرومنزلت آلامِ دہر، سبھی موضوعات موجود ہیں۔  جگرؔ کا تعلق کسی جماعت سے نہیں تھا۔  اس دور کی شاعری ترقی پسند خیالات کی ترجمان ہے۔  جرأت و بے باکی سے وہ اپنے ملک کو درپیش مسائل کاجائزہ لیتے ہیں۔  انسان کو درندہ بنتے کچھ دیر نہیں لگتی۔  آزادی کا عمل وحشت و بربریت کی انتہاؤں پر مکمل ہوا۔  کیا اسے ہی انسانیت کہتے ہیں۔  انسانوں کا گھٹنا، سایوں کا بڑھنا کیا یہی ترقی ہے۔  جگر ؔنے اردو غزل کو مے و مستی کے ترانے دیے ہیں تو ساتھ ہی ان سوالات کے جواب بھی چاہے ہیں:

’’یاسؔ یگانہ چنگیزی انہیں اردو کے مشہور نقاد، مجنوں گورکھپوری یاس ؔعظیم آبادی کہنا پسند کرتے ہیں۔  (۲۴)

’’مجنوں گورکھپوری، یاسؔ عظیم آبادی کو، نہ لکھنوی مانتے ہیں اور نہ یگانہ تسلیم کرتے ہیں وہ اس یگانے کو مانتے ہیں جب وہ یاسؔ عظیم آبادی تھے، یاس سے بگڑ کر وہ یگانہ ہوئے اس یگانے کو نہیں مانتے (۲۵)

یاسؔ عظیم آباد پٹنہ سے تعلق رکھتے تھے۔  زندگی کا بیشتر حصہ لکھنو میں بسر ہوا۔  عام شعرا ء کے برعکس مالی پریشانیوں سے دور رہے۔  میرؔ کی نازک مزاجی ان کی معاشی و جذباتی نا آسودگی اور محرومی کی بنا پر تھی۔  بہرحال میر ؔکی انانیت ان کے حالات اور مزاج کی دردمندی کے باعث حدود سے تجاوز نہیں کرتی۔  یاس ؔکی خود پرستی اور انانیت میں ان کا معاشی و جذباتی اعتبار سے آسودہ ہونا، اہم اسباب تھے۔  جن کے باعث وہ کسی دوسرے کو خاطر میں نہیں لاتے۔  پھر فطری ذہانت اور شعور و ادراک کی جھلک ان کی شاعری اور زندگی دونوں میں نمایاں ہے۔  نئے شعر اء ایک سی کہانی کہتے کہتے اور سنتے سنتے اکتا چکے تھے۔  اب ان کا رجحان دہلوی رنگ تغزل کی جانب ہوتا جا رہا تھا۔  یاسؔ کی انفرادیت پسند طبیعت نہ لکھنوی شعرا کی پیروی کرنا چاہتی تھی اور نہ دہلوی سخنوروں کی تقلید اسے منظور تھی۔  غالبؔ کی سحرانگیز شخصیت اور شاعری کے سحر سے آزاد رہنا نئے شعرا کے لیے ممکن نہیں تھا۔  یاسؔ کے لیے یہ صورت حال بھی قابل قبول نہ تھی، ہر چند کہ وہ خود غالبؔ کے سحر سے گریز نہ کر سکے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی غالبؔ کے اسلوب کی جھلک اور ان کے فکری آہنگ کے رنگ یاسؔ کی شاعری میں نظر آ جاتے ہیں۔  وہ غالبؔ شکن کہلائے تو سہی لیکن اپنی اس مہم میں کامیاب نہ ہو سکے۔  یاسؔ کی انانیت، خود پرستی اور انفرادیت پسندی کے سامنے کسی اور کا چراغ جلنا ممکن نہ تھا۔

’’یگانہؔ کے لیے نہ تو اقبالؔ اور نہ جوشؔ، نہ اختر شیرانیؔ اور نہ مجازؔ، ان میں سے کوئی بھی قابل قبول نہ تھا۔  ان کی تمام تر پسندیدگی اکبر الہ آبادی کے کلام اور کم و بیش ان کے جیسے خیالات کی تھی۔  چنانچہ ان کے فلسفہ خودی کا رخ، باہر کی جانب نہیں یعنی مستقبل آفرینی کی جانب نہیں بلکہ اندر کی جانب یعنی تنقید نفس اور تنقیدِ ذات کی جانب تھا۔  ان کا زمانہ آدمی سے خالی تھا اور وہ چراغ لیے آدمی ڈھونڈ رہے تھے۔  مگر ان کو یہ بتانے والا کوئی نہ تھا کہ وہ جس آدمی کو ڈھونڈ رہے ہیں وہ تو رومیؔ کے زمانے میں بھی نہ تھا…..‘‘(۲۶)

آدمیت کی تلاش اس وقت مکمل ہوتی ہے جب اس حرص و ہوس سے بھری دنیا میں کوئی ایک آدمی ہی مل جائے، لیکن اس تلاش میں ناکام ہو کر فرد باہر کی دنیا سے کنارہ کر کے اپنی ذات کے سفر کا آغاز کرتا ہے۔  اس سفر میں اس کا واسطہ یا تو اداسی، تنہائی، محرومی، بے چارگی اور یاسیت سے پڑتا ہے یا پھر انانیت خود پرستی اور نرگسیت سے۔  یاسؔ اس سفر میں مایوسی و محرومی سے ہمکنار نہیں ہوتے بلکہ خود پرستی انھیں اپنے دامن میں جگہ دیتی ہے۔

کیا یہ بتاؤں کیا ہوں میں قدرت خدا ہوں میں

میری خود پرستی بھی عین حق پرستی ہے

خضر منزل اپنا ہوں، اپنی راہ چلتا ہوں

میرے حال پر دنیا کیا سمجھ کے ہنستی ہے

یاسؔ اپنی روش سے خود بھی کچھ اتنے خوش نہ تھے۔  انا پرست شخص ویسے بھی زندگی میں تنہا رہ جاتا ہے۔  تمام تر رجائیت، انفرادی لب و لہجہ اور زورو بیان کے باوجود یاس ؔحقیقت آشنا تھے۔

خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا

خدا بنے تھے یگانہ خدا بنا نہ گیا

یاسؔ کی شاعری خود پرستی سے ہی عبارت نہیں بلکہ آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا، کاغذ کاتذکرہ بھی ہے۔  زندگی میں اچھائی کیوں کم اور برائی کیوں زیادہ ہے۔  حسن اتفاق کی کمی اور ا خلاقی اقدار کی بیخ کنی کیوں عروج پر ہے۔  خیرو شر، سزا و جزا، فلسفہ و حدۃالوجود، جبر و اختیار کے انسانی شعور و ادراک سے ماورا مسائل، لیکن جن کے بارے میں ہر ذی شعور سوچتا ضرور ہے۔  نتیجہا خذ کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔  ان کا موضوع رہے ہیں۔  فرقہ جبر یہ سے تعلق کی بنا پر انسان کو مجبور محض جانتے ہیں۔

ایسی آزاد روح اس تن میں

کیوں پرائے مکان میں آئی

اور اس کے باوجود زندگی کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کا درس دیتے ہیں۔  مصائب و مشکلات سے جارحانہ انداز میں نمٹنا جانتے ہیں۔  ان کی غزل جینے کا حوصلہ آگے بڑھنے کی امنگ اور توانا احساس بخشتی ہے اور اس بات کا اعلان بھی کہ غزل صرف حسن و عشق کے اسرارورموز کو آشکار کرنے کا ہی نام نہیں ہے۔

اصغرؔ، حسرتؔ، فانیؔ، جگرؔ، یاسؔ اور ان کے غزل گو معاصرین نے غزل کی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔  ان کے نزدیک غزل صرف دل کے دھڑکنے کی صدا نہیں بلکہ سوچتے ہوئے ذہن کی آواز بھی ہے۔  یہ ایک فرد کے ذاتی محسوسات کا بیان ہی نہیں، کائنات میں ہونے والے واقعات و سانحات کا تجزیہ بھی ہے۔  یہ وہی دور ہے کہ غزل کے متوازی نظم اپنی تمام تر حشر سامانیوں اور توانائیوں کے ساتھ شعری کائنات میں جلوہ گر تھی۔  ان شعرا ء نے غزل کو وہ تحرک عطا کیا جو اس کی پائندگی کا سبب بنا اور وہ آنے والوں کے لیے اس راہ دشوار کو آسان بنا گئے۔

حوالہ جات

۱۔  غلام رسول مہر، ۱۸۵۷ء کے تین بنیادی پہلو، نقوش ۱۹۵۷، صفحہ ۳۰۲۔  ۳۰۳

۲۔  شیخ اسمٰعیل پانی پتی، نقوش، جون ۱۹۵۷ء صفحہ

۳۔  خواجہ احمد فاروقی، غدر کی ادبی تاریخ کا ایک ورق، نقوش شمارہ ۱۹۔  ۲۰ صفحہ ۲۰۲۔  ۲۰۳

۴۔  ڈاکٹر وقار احمد رضوی، تاریخ جدید اُردو غزل، کراچی، نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۱۹۸۸ء صفحہ ۱۹۰

۵۔  مجنوں گورکھپوری۔  غالب شخص اور شاعر، کراچی، مکتبۂ اربابِ قلم ۱۹۷۴ء صفحہ ۳۵

۶۔  ڈاکٹر محمد حسن، جدید اردو ادب، کراچی، غضنفر اکیڈمی ۱۹۴۷ء صفحہ ۷۵

۷۔  ڈاکٹر رشید احمد صدیقی، جدید اردو غزل، مرتب ڈاکٹرسید معین الرحمن، لاہور یونیورسل بکس صفحہ ۲۴

۸۔  ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی، دلی کا دبستان شاعری، کراچی اردو اکیڈمی سندھ ۱۹۸۹ء صفحہ ۲۵۹

۹۔  داغ کے کلام میں نظریہ حسن و عشق، ماہ نو، چالیس سالہ مخزن ۱۹۸۷ء صفحہ ۹۹

۱۰۔  محمودالرحمن، مقدمہ انتخاب کلام داغ، اسلام آباد میپکو، ۱۹۸۵ء صفحہ ۲۱

۱۱۔  صدیق جاوید، بالِ جبریل کا تنقیدی مطالعہ صفحہ ۱۲۱

۱۲۔  صوفی تبسم، ’’اقبال اور تغزل‘‘ رسالہ لیل و نہار، ۲۲؍ اپریل، ۱۹۶۱ء

۱۳۔  اورینئٹل کالج میگزین۔  جشن اقبال نمبر صفحہ ۲۳۴

۱۴۔  پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی۔  نئی غزل کے پیش رو۔  اردو غزل، مرتب کامل قریشی، لاہور پروگریسو بکس ۱۹۸۹ء صفحہ ۲۲۵

۱۵۔  رشید احمد صدیقی، جدید اردو غزل، لاہور یونیورسل بکس ۱۹۸۷ء صفحہ ۶۳

۱۶۔  رشید احمد صدیقی، جدید اردو غزل، حالی تا حال۔  لاہور یونیورسل بکس ۱۹۸۷ء صفحہ ۴۶

۱۷۔  ڈاکٹر یوسف حسن، اردو غزل، حیدرآباد ۱۹۴۸ء صفحہ ۷۶

۱۸۔  کلیم الدین احمد۔  اردو شاعری پر ایک نظر، کراچی غضنفر اکیڈمی ۱۹۸۵ء صفحہ ۵۲۴

۱۹۔  رشید احمد صدیقی، جدید اردو غزل، لاہور یونیورسل بکس ۱۹۸۷ء صفحہ ۵۶

۲۰۔  عطا محمد، فلسفۂ عیش غم اور فانی کے مفروضات۔  نقوش مئی ۱۹۵۰ء صفحہ ۶۱

۲۱۔  شان الحق حقی، نقد و نگارش، کراچی مکتبۂ اسلوب ۱۹۸۵ء صفحہ ۶۴

۲۲۔  تذکرے و تبصرے، سراج الاسلام کراچی غضنفر اکیڈمی، ۱۹۸۷ء صفحہ۱۴۱

۲۳۔  کلیم الدین احمد اور شاعری پر ایک نظر، کراچی غضنفر اکیڈمی، ۱۹۸۵ء صفحہ ۵۵۹

۲۴۔  کلاس لیکچر، جامعہ کراچی ۱۹۷۵ء

۲۵۔  تاریخ جدید اردو غزل۔  وقار احمد رضوی، کراچی، نیشنل بک فاؤنڈیشن ۱۹۸۸ء صفحہ ۳۱۶

۲۶۔  نقد حرف۔  ممتاز حسن، کراچی مکتبۂ اسلوب، ۱۹۸۵ء صفحہ ۶۶

٭٭٭

 

 

 

باب سوم: بیسویں صدی کا سیاسی، تہذیبی و سماجی پس منظر

 

بیسویں صدی کا ادبی منظر نامہ

 

کائنات کو وجود میں آئے صد ہا قرن گزر چکے ہیں۔  آج تک کوئی اس کی تخلیق کا حتمی سن یا تاریخ دریافت نہیں کر سکا ہے۔  کائنات پیدائش و فنا کے اصولوں پر عمل پیرا ہے اگر فنا کا ’’وجود‘‘ نہ ہوتا تو آج دنیا اور زندگی کی اقدار، توازن و اعتدال کے نہ ہونے کے باعث ان حالات سے دوچار ہوتیں جن کا تصور بھی محال ہے۔  زلزلے، طوفان، وبائی امراض اور خوفناک جنگیں دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے عنصریت کو روکنے کا ایک ذریعہ ہیں، لیکن ان کی آمد نسلِ انسانی کے لیے ہمیشہ سے ایک المیہ ہوا کرتی ہے اور یہ ایک فطری امر ہے۔  تاریخ کا مطالعہ کر لیجیے۔  دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں طوفان یا آتش فشاں یا زلزلہ یا جنگ کی صورت میں موت نسل انسانی پر اجتماعی طور پر حملہ آور ہوتی رہی ہے اور اس مخصوص خطے میں فتح کے جھنڈے لہرا دیتی ہے۔

’’جنگ‘‘ مہیب لفظ۔  کہ طوفان، زلزلے یا آتش فشاں کے پھٹنے کا عمل تو خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے بنی نوع انسان کو آزمائش میں ڈالنے یا نصیحت کے لیے ہے لیکن جنگ، یہ انسان کی انسان کے خلاف ہے۔  اس عمل سے انسان گریز کر سکتا ہے لیکن نہیں کرتا۔  زور آور ہمیشہ زورآور رہنا چاہتا ہے اور زیرِدستوں کو مفتوح بنائے رکھنے کے نشے سے کبھی دستبردار ہونا نہیں چاہتا۔  دوسری طرف مفتوح بھی ہمیشہ سرِتسلیم خم کرنے میں ہی نجات تصور نہیں کرتا جب کبھی اسے موقع ملتا ہے وہ اپنی مدافصت کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور بعض مرتبہ یہ زیردست اس زور آور پر اپنی قوت ارادی اور جوشِ عمل کی بدولت فتح بھی پا لیتا ہے۔  زیادہ دور کی بات نہیں انیسویں صدی کی تاریخ کا سرسری جائزہ لیا جائے تو ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ کس کس طرح طاقتور اقوام نے کمزور قوموں کو اپنا مفتوح بنایا اور ان کمزور اقوام نے کس طرح اس کھلی جارحیت کامقابلہ کیا:

’’انیسویں صدی کے وسط میں تمام دنیا میں نو آبادیاتی نظام کے خلاف مختلف جگہوں پر سخت جد و جہد ہوئی اور کئی ایشیائی ملکوں میں قومی آزادی کی جنگیں لڑی گئیں۔  مثلاً چین کی ٹائیکنگ بغاوت اور دوسری جنگ افیون یعنی (Opium War) ہندوستان میں ۱۸۵۷ء کاہنگامہ، ایران میں بیبون کی شورش اور انگریزوں سے ایران کی جنگ۔  لبنان اور شام میں کسانوں کی بغاوت۔  یہ تمام جنگیں سامراجی طاقتوں کے خلاف تھیں۔  اگرچہ اس کا آغاز سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان سے ہو چکا تھا لیکن اس سلسلے کی آخری کڑی ۱۸۵۷ء کا انقلاب ثابت ہوا، جسے انگریزوں اور ان کے بہی خواہوں نے غدر کا نام دیا۔‘‘(۱)

۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کسی فوری اشتعال کا رد عمل نہ تھی بلکہ صدیوں سے مسلمانوں کے خون میں اس کی پرورش ہو رہی تھی۔  مسلمانوں کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ برصغیر میں انگریزوں کے قدم جمانے میں، خود مسلمانوں کی کوتاہیوں کا ہاتھ ہے جس کی وجہ سے وہ، جو چیزیں خریدنے اور بیچنے آئے تھے۔  وہ پورے کاروبارِ سلطنت کے مالک بن بیٹھے۔

ڈاکٹر محمد عمر ’’غالب کا عہد‘‘ کے عنوان سے اپنے مقالے میں لکھتے ہیں:

’’اورنگ زیب کی وفات (۱۷۰۷)سے مغلیہ سلطنت کے زوال و انحطاط اور طوائف الملوکی کی داستان شروع ہوتی ہے۔  ایک طرف تو خانہ جنگیوں اور دوسری طرف امرا کی کا مجوئیوں نے اندرونی سیاسی طاقتوں، مرہٹوں، سکھوں، جاٹوں اور روہیلوں کو ابھرنے کا موقع بہم پہنچایا اور ساتھ ساتھ بیرونی حملہ آوروں کی حوصلہ افزائی بھی کی۔‘‘(۲)

یہ وہ عہد تھا کہ جب مسلم تہذیب و ثفاقت کو نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا۔  روحانی اقدارس پشت جا پڑیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کا معاشی نظام یکسر بدل گیا۔  کسبِ حلال پر کاربند رہنے والے مجبور اً یا زمانے کی رفتار کا ساتھ دینے کے لیے کسبِ زر کے ناجائز ذرائع بھی استعمال کرنے لگے۔  ظلم و استحصال کی افراط نے طوائف الملوکی کو جنم دیا۔  طبقۂ امرا کی عادات و کردار کا عکس عوام پر بھی ہوا۔  انگریز سامراج نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

محمود الرحمن ان حالات میں انگریزوں کے ذہن رساکا تجربہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں۔

’’انگریزوں نے برِ عظیم میں اپنے قیام کو مستحکم کرنے کے لیے ابتدا ہی سے اپنی فوج رکھنے کا طریقہ اختیار کر رکھا تھا اور اس میں زیادہ تعداد دیسی لوگوں کی تھی۔  دیسی سپاہی پیٹ کی خاطر فرنگیوں کی نوکری تو کر رہے تھے لیکن جہاں بھی موقع ملا حاکموں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے رہے۔  انقلابی نعرے لگاتے رہے اور ان سے معرکہ آرا ہوتے رہے۔‘‘(۳)

انگریزوں کی کامیاب منصوبہ بندی کے نتیجے میں مغلیہ سلطنت رفتہ رفتہ قلعہ تک محدود ہو کر رہ گئی۔  بہادر شاہ ظفر کی بے کسی اور تہی دامنی کا اثر عوام پر پڑا۔  جب بادشاہ، اختیارات تو ایک طرف خود اقتصادی زبوں حالی کا شکار ہو تو ایسے میں عوام کی حالت کا کیا ذکر کیا ریاستوں کے حکمراں اور کیا عوام سبھی سے ان کی زمینیں اور جاگیریں چھین لی گئیں، لیکن کب تک یہ ظلم سہا جاتا۔  کمزور اور زیردست، طاقتور اور زیر دست کے سامنے اپنے حقوق کی بحالی، اپنی زمین اور اپنی سلطنت کے حصول کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔  ۱۸۰۶ء میں مدراس کے علاقے ویلور میں دیسی سپاہیوں نے انقلاب برپا کیا اور کئی انگریز افسروں کو تہ تیغ کیا۔  ۱۸۲۴ء میں جب انگریز برما پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔  دیسی سپاہیوں نے اس میں شمولیت سے صاف انکار کیا انگریز حکام اس بات کو برداشت نہ کر سکے اور انہوں نے وہیں کئی سپاہیوں کو گولیوں کانشانہ بنا ڈالا۔  اس عہد میں مسلمانوں کو چند ایسے سرفروشوں کی رہنمائی کی سعادت حاصل ہوئی جن کی زندگی کا مقصد ہی اس غلامی کی زندگی سے نجات حاصل کرنا اور کروانا تھا۔  شاہ عبدالعزیز اور سید احمد شہید دہلوی اور ادھر بنگال میں شہید تیتو میر میدان عمل میں اترے۔

جنگ آزادی کی ابتدا ۱۰ مئی ۱۸۵۷ء میں میرٹھ کے پرجوش نوجوانوں سے ہوئی۔  یہ وہ لاوا تھا جو برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد سے ہی مسلمانوں کے سینوں میں کھول رہا تھا۔  بہانہ چربی زدہ کارتوس بنے۔  میرٹھ سے اٹھنے والا جوش و جذبے سے معمور یہ قافلہ دہلی پہنچا اور بادشاہ سے انقلاب کی قیادت سنبھالنے کی درخواست کی۔  بادشاہ نے مایوسی کا اظہار کیا کہ وہ تہی دست ہے۔  خود میں اس آزمائش میں پورا اترنے کی صلاحیت نہیں پاتا، لیکن ان پر جوش نوجوانوں کی جرأت نے بادشاہ کو حوصلہ بخشا اور اس نے نوجوانوں کاساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔  تمام برصغیر میں آزادی کی جنگ کے لیے جیالے اپنے گھروں سے باہر آ گئے۔  انگریزوں کی شکست کے آثار تھے کہ اپنوں ہی کی سازشوں کی بدولت جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔  انگریزوں نے شہر دہلی اور قلعہ پر قبضہ کر لیا۔  تحریک آزادی ناکام ہوئی۔  شہزادوں کو قتل اور بادشاہ کو جلاوطن کیا گیا۔  عوام پر بے پناہ مظالم اور تشدد کیے گئے۔

۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کا بر صغیر پاک و ہند کی زندگی پر گہرا اثر پڑا ہوا۔  ماحول کی تبدیلی سے زندگی کا ایک اور رخ سامنے آیا جو ظاہر ہے کہ خوبصورت نہ تھا۔  ہندوستان کی سماجی و معاشرتی زندگی پر پہلا اثر تو اقتصادی زبوں حالی اور بے روز گاری کا ہوا۔  فکر معاش اور تلاش نے ہر فرد پر مختلف اثرات ڈالے۔  کچھ میں فراریت کا رحجان پروان چڑھا۔  کچھ نے اصلاح و احتجاج کی طرف توجہ کی۔  کچھ خاموش ہو کر مستقبل کی جانب دیکھنے لگے اور کچھ افراد نے ملک کو سیاسی غلامی سے نجاب دلانے کے لیے جہاد کی کوششیں اور تیز کر دیں۔  برِصغیر میں مختلف قومیتیں بستی تھی، لیکن یہ ناکامی مسلمانوں کے لیے زیادہ نقصانہ دہ ثابت ہوئی کہ مسلمانوں کو ہر اعتبار سے سیاسی تہذیبی، تعلیمی، معاشی، معاشرتی غرض کہ ہر طرح سے کچلنے کی کوشش کی گئی۔

جنگ آزادی کے اثرات کے بارے میں محمودالرحمن رقم طراز ہیں۔

’’اٹھارہ سو ستاون کا یہ ناکام انقلاب اور اس کے ہمہ گیر اثرات نہ صرف برعظیم کی تاریخ کا ایک اہم باب ہیں، بلکہ اردو شاعری کا بھی خاص موضوع بنے ہیں۔  عام مورخوں کی طرح شعراء نے بھی یہ منظر دیکھا کہ سات سمندر پار سے آئے ہوئے فرنگی اپنی حکمت عملی اور جوڑ توڑ کی بدولت اس ملک پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہو گئے۔  ان سخنوروں کے سامنے یہ تلخ حقیقت بالکل نمایاں تھی کہ کوچۂ دہلی جو کبھی اوراق مصور تھا۔  اب وہاں توپ و تفنگ کا پہرہ تھا اور سنگین وسلاسل کی یورش تھی۔  ان کے دیکھتے ہی دیکھتے حسین و جمیل عمارتوں کا یہ شہر کھنڈر میں تبدیل ہو گیا تھا۔  ان کی امیدوں کا آخری مرکز، قلعۂ معلی غیروں کی تحویل میں جا چکا تھا۔  ان کے جیتے جی حصول آزادی کی کوشش دیرینہ ناکامی و نامرادی کے قالب میں ڈھل چکی تھی۔  اب ہر سو شکست وریخت کا روح فرسا سماں ان سب کے پیشِ نظر تھا۔‘‘(۴)

اس دور میں تخلیق کیے گئے شعر و ادب سے اس عہد کی پوری تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے۔  اس دور میں جو شہر آشوب لکھے گئے اس میں تمام دکھوں کا تذکرہ ہے۔  تباہ شدہ ہندوستان کی منظر کشی پر آشوب حالات کا عکس، عظمت رفتہ کا احساس، دہلی کی بربادی اور غیر ملکی آقاؤں کی آمد سے پیدا ہونے والی مشکلات کا تذکرہ۔  گردش ایام، دہلی کی مجلس و تہدیبی زندگی کے خاتمے پر اظہارِ افسوس، باکمال ہنرمندوں کے مٹ جانے کا غم، عظیم عمارتوں کی بربادی کانوحہ اور احباب کے چھٹ جانے کا دکھ اہم موضوعات ہیں۔

اس دور کے شعراء میں بہادر شاہ ظفر مرکزی حیثیت رکھتے ہیں کہ ان تمام مصائب و آلام سے وہ براہ راست گزرے۔  قلعہ دہلی، سلطنت ہندوستان کاچھن جانا، شہزادوں کے سروں کا قلم کیا جانا، عوام کا تحریک کے لیے جان و مال کی قربانی دینا۔  بہادر شاہ ظفر کے لیے یہ صدمے کم نہ تھے۔

میں وہ کشتہ ہوں کہ میری لاش پر اے دوستو

اک زمانہ دیدہ حسرت سے تکتا جائے گا

اور ستم بالائے ستم کہ زندگی کے آخری حصے میں انہیں جلاوطنی کا داغ بھی اٹھانا پڑا اور وہ دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار کے نوحہ کناں، دیار غیر میں دفنائے گئے۔

یہ تو تھی سلطان ہند کی داستان۔  عام لوگوں کا حال بھی کم برا نہ تھا۔  انہی دکھوں کو نظم کرنے والے ظہیر ؔدہلوی، بہادر شاہ ظفرؔ کے متوسلین میں تھے۔  ان کے شہر آشوب، قتل و غارت گری کا دل دہلا دینے والا بیان ہیں۔

مفتی صدرالدین آزردہ، جنگِ آزادی میں شریک رہے۔  آزردہ کے شہرآشوب میں دہلی کے باشندوں بالخصوص با اثر لوگوں کی تصویر کشی کی ہے کہ انقلاب کے ہاتھوں وہ بھی گلی کوچوں میں پریشاں حال، سر بہ گریباں پھر رہے ہیں۔

غالبؔ انقلاب ستاون کی تاریخ کے شاہد بھی ہیں اور مورخ بھی۔  ان کا کلام دیکھیے یا ان کے خطوط پر نگاہ کیجیے خطوط کو ترتیب وار رکھ کر ایک مورخ، انقلاب کی تاریخ، تہذیبی، معاشی، سماجی، معاشرتی پس منظر میں جزئیات کے ساتھ رقم کر سکتا ہے۔

داغؔ کا تعلق قلعہ دہلی سے براہ راست تھا کہ وہاں ہی ان کی پرورش ہوئی۔  قلعہ دہلی اور سلطنت دہلی کا زوال ان کا ذاتی غم تھا۔  شہرِ دہلی میں ہونے والے مظالم اور خون آشام و اقعات نے انھیں خون کے آنسو رلایا ہزاروں اہلِ دہلی کی مانند وہ بھی آخر کار اپنا شہر چھوڑ کر ہجرت کے دکھ اٹھانے پر مجبور ہوئے۔

۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے اثرات جو تباہی و خون ریزی سے پر تھے۔  صرف شہر دہلی تک ہی محدود نہ تھے بلکہ برصغیر کاہر شہر اور ہر قصبہ اس کی لپیٹ میں تھا۔  چنانچہ فدا علی عیش ؔ، جانؔ صاحب، منیرؔ شکوہ آبادی، امیرؔ مینائی سبھی نے ان حالات و واقعات کو موضوع بنایا کہیں صاف اور واضح انداز میں اور کبھی رمزو کنایہ کے پیکر میں۔  اس دور کا ادب اپنے عہد کی سیاست و معاشرت میں ہونے والے تغیر و تبدل کی عکاسی کرتا ہے۔  یوں ادب بھی بدلتے زمانے کا ساتھ دیتا اور وقت کے تقاضے پورے کرتانظر آتا ہے۔  جمود یکسانیت سے گریز اور تحرک جو زندگی کے لیے لازمی ہے، ادب کے لیے بھی ضروری ہے۔

’’جس طرح ایک معاشرتی تحریک معاشرے کے جمود کو توڑتی ہے۔  بعینہٖ ادبی تحریک اس ادب میں تحرک پیدا کرتی ہے، جس میں یکسانیت اور پیوست پیدا ہو چکی ہو۔  پس ادبی تحریک فی لاصل ادب کے جمود کو توڑنے اور اس کی کہنگی کو زائل کر کے تنوع اور نیرنگی پیدا کرنے کا عمل ہے۔  ادب میں تحریک کا دوسرا مفہوم اس فیضان سے تعبیر ہوتا ہے جو ادیب کو ادب تخلیق کرنے پر اکساتا ہے۔  مجتبیٰ حسین نے اس کی مثال اقبالؔ کے مندرجہ ذیل مصرع سے فراہم کی ہے۔ ع مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے نگامرغ چمن۔  گویا مرغ چمن کے نغمے نے شاعر کو شعر کہنے کی تحریک دی ہے …. حفیظ ہوشیارپوری نے اس مفہوم کو قدرے مختلف انداز میں یوں پیش کیا ہے اور تحریک کا رشتہ نامعلوم کے ساتھ قائم کیا ہے۔

لب پہ آتی ہے بات دل سے حفیظ

بات دل میں کہاں سے آئی ہے (۵)

اردو ادب میں اٹھنے والی تحریکیوں میں فرد کے خارج اور داخل دونوں کا اہم کردار رہا ہے۔  اس کی تخلیقات معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کا بیان بھی اور اس کے باطن میں اٹھنے والے جذبات و احساسات اور نئے تجربوں کی عکاسی بھی۔

 

سرسید تحریک

 

۱۸۷۵ء کی جنگ آزادی کی ناکامی نے اداسی، مایوسی، اضمحلال کی فضا کو جنم دیا۔  مسلسل مایوسی اور غم انسان سے جینے کا حوصلہ چھین لیتے ہیں اور بے حوصلہ اور جوش و ولولے سے تہی انسانوں کو ہمیشہ غلام بنائے رکھنا زیادہ مشکل بھی نہیں۔  مسلمان برطانوی استعمار کی طاقت اور ہندو قوم کی چالاک ذہنیت کے درمیان کچھ اس طرح پسے ہوئے تھے کہ ان کا دوبارہ زندہ اقوام میں شامل ہونا کٹھن نظر آ رہا تھا، لیکن مسلمانوں میں ایک شخصیت ایسی بھی تھی کہ جسے یہ کام نا ممکن دکھائی نہ دیا۔  جو بے چارگی و مایوسی کی چادر مسلمانوں کے کندھوں سے اتار پھینکنے اور واقعات کا تجزیہ عقل و شعور کی روشنی میں کرنے پر آمادہ نظر آئے۔  وہ غم و دکھ اور حزن و یاس کو اپنانے کے بجائے ان وجوہ کے متلاشی نظر آئے کہ جن کی بنا پر مسلمانوں کو ان حالات کا سامنا کرنا پڑا اور ان وجوہ کی تلاش کے بعد ان عوامل کا سدِ باب کرنا تھا کہ جس کی وجہ سے کاروبار سلطنت مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھن کر غیروں کے ہاتھ میں چلا گیا۔  ان تمام حالات و واقعات کے تجزیے میں جذبہ و احساس سے قطع نظر عقل و شعور اور سائنسی نظریات سے مدد لی گئی۔

اس پُر آشوب اور ظلم و ستم کی گرم بازاری میں سرسید احمد خان ہی وہ شخصیت تھے کہ جنھوں نے ملک کی ڈولتی کشتی کو کنارے لگانے کا عزم کیا۔

نذیر چوہدری، مدرستہ العلوم علی گڑھ کے زیر عنوان اپنے مقالے میں لکھتے ہیں:

’’سرسید احمد خان نے جذباتی انداز اختیار نہیں کیا بلکہ حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے مسلمانوں کی اس حالات زار کے اصل اسباب تلاش کرنے اور ان کا حل پیش کرنے کا ارادہ کیا۔  سرسید احمد خان اس نتیجے پر پہنچے کہ اب مسلمان حکومت سے ٹکر لے کر اور جدید علوم وفنون سے کنارہ کشی کر کے اپنا قومی وجود برقرار نہیں رکھ سکتے۔  سرسید احمد خان نے اس راز کو پالینے کے بعد عملی اقدام کرنے کا فیصلہ کیا۔  وہ فیصلہ یہ تھا کہ سیاسی میدان میں اس وقت انگریز سے مفاہمت کی پالیسی اختیار کی جائے اور عملی میدان میں جدید رجحانات کو اختیار کیا جائے۔‘‘(۶)

سرسید احمد خان دور اندیش، مخلص، علم پرور، ان تھک، ہواؤں کا رخ پہچاننے والے انسان تھے اور ملک کو اس وقت ایسے ہی افراد کی ضرورت تھی۔  سرسید احمد خان، بلاشبہ اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے اور اس ادارے کو استحکام ان کے ہم خیال اور انھی جیسے محنتی اور قوم کا درد رکھنے والے ساتھیوں نے بخشا۔  سرسید کی خوش قسمتی کہ ان کے حلقۂ احباب میں وہ لوگ شامل تھے کہ جو ان کے ہم خیال تھے۔  حالیؔ، آزادؔ، شبلیؔ اور مولوی نذیر احمد نے سرسید کے ساتھ مل کر اردو ادب کے تن مردہ میں روح پھونکی اور اس کے ارکان خمسہ کہلائے۔  سرسید تحریک سے منسلک اور متاثر ہونے والے قلمکاروں کی فہرست کچھ کم طویل نہیں ہے۔

’’علی گڑھ تحریک سرسید کا خواب زریں تھا اور اس خواب کو تعبیر میں لانے کے لیے جن لوگوں نے نسل بعد نسل کام کیا ان کی فہرست بہت طویل ہے ان میں حسرت موہانیؔ، محمد علی جوہرؔ، ظفر علی خانؔ، حبیب الرحمن شیروانی، عبدالماجد دریا آبادی اور طفیل احمد منگلوری جیسے مشہور زمانہ لوگ بھی شامل ہیں، جنھوں نے سیاست صحافت اور ادب کو بطور خاص متاثر کیا۔  تعلیم کے میدان میں خواجہ غلام السیدین، خواجہ منظور حسین، ڈاکٹر ذاکر حسین، مولانا احسن مارہروی، رشید احمد صدیقی، پروفیسر مجیب اور الیاس برنی منظر عام پر آئے۔  خالص ادبی زاویے سے محفوظ علی بدایونی۔  خوشی محمد ناظر، عبدالرحمن بجنوری، سید سجاد حیدر یلدرم، سجاد انصاری، مہدی الافادی، قاضی عبدالغفار کو پیدا کیا اور ان سب کے اردو کو موضوعات اور اسالیب کے تنوع سے مالا مال کیا۔  (۷)

جدید اردو نثر اور جدید اردو شاعری کے ان اہم اور معتبر ناموں نے اپنے قلم کی تمام تر جولانیاں مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے میں صرف کیں۔  ان کی یہ اصلاحی تحریک پہلی نظر میں تو محسوس ہوتا تھا کہ شاید انگریزی و مغربی ادب کو متعارف کروانے کی ایک سعی ہے لیکن در حقیقت وہ مسلمانوں کو ترقی یافتہ اقوام کی صف میں دیکھنے کی خواہش رکھتے تھے، جو مغربی تعلیم اور جدید علوم و فنون کے حصول کے بغیر ممکن نہ تھی۔  اس خواہش کی تکمیل کے لیے سرسید نے جو انداز اپنایا وہ انہیں متنازعہ شخصیت بنا گیا کہ اس دور کے علما، عوام اور سرسید کے قریبی ساتھیوں میں سے بھی کچھ لوگ سرسید کے جذبۂ حب الوطنی کو سمجھ نہ سکے اور ان پر اعتراضات اور ان سے اختلافات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔  سرسید اور علی گڑھ تحریک سے نظریاتی اختلاف رکھنے والوں میں محسن الملک، شر ر، سید امداد علی اور شبلی کے علاوہ مزاحیہ انداز نگارش رکھنے والے اکبر الہ آبادی اور منشی سجاد حسین بھی تھے۔

سرسید اعتراضات و اختلافات کے سنگریزوں کو چننے کے بجائے اپنے مشن میں ہمہ تن مصروف عمل رہے۔  انھوں نے تاریخِ سرکشی بخنور، رسالہ دربابِ علم، اسبابِ بغاوتِ ہند اور رسالہ خیر خواہانِ ہند وغیرہ لکھ کر مسلمانوں اور انگریزوں میں صلح کی کوششیں اور تیز کر دیں۔  دوسری طرف انھیں مسلمانوں کا مغربی علوم و فنون اور جدید تعلیم سے بے بہرہ ہوناکھٹک رہا تھا۔  ان کے خیال میں مسلمانوں کی پستی کی سب سے بڑی وجہ تعلیم سے دوری تھی:

’’سرسید کا یہ فیصلہ کہ مسلمان جدید تعلیم حاصل کریں صرف اس لیے نہ تھا کہ وہ انگریز حاکم کے سامنے سرخرو ہو سکیں۔  اپنی معاشی حالت کو بہتر بنا سکیں اور ہندوؤں سے جو کچھ ہی دن پہلے ان کے محکوم رہ چکے تھے۔  پیچھے نہ رہ سکیں بلکہ اس لیے بھی تھا کہ وہ جدید تعلیم سے اپنے آپ کو آراستہ کر کے کھوئی ہوئی سلطنت، کھویا ہوا وقار، کھوئی ہوئی شان و شوکت دوبارہ حاصل کر سکیں۔  نئی تعلیم سے ان کے رگ و پے میں توانائی کی جو لہر رواں ہو گی وہ انھیں غفلت شعاری کے حصار سے باہر نکال لائے گی کہ اس وقت جد و جہد اور سعی و عمل ہی درکار تھا۔‘‘(۸)

 

اکبر الہ آبادی

اکبر مشرقی روایات اور تہذیب کے دلدادہ تھے۔  سرسید کاجدید علوم و فنون کے حصول پر اصرار، اکبر الہ آبادی کو ناگوار گذرا۔  معاشرے میں کسی بھی نئی چیز یا نئے خیال کو آسانی کے ساتھ نہیں اپنایا جاتا۔  اکبر الہ آبادی مغربیت کے اس سیلاب سے خوفزدہ تھے کہ جو مشرقی اقدار کی سمت نہایت تیزی سے بڑھتا آ رہا تھا۔  انھیں ڈر تھا کہ اگر اسے روکا نہ گیا تو مشرق و مغرب میں فرق باقی نہ رہے گا۔  ان تمام حالات کی ذمہ داری ان کے نزدیک سرسید احمد خان کے سر تھی:

’’اکبر الہ آبادی کا سارا زور سرسید کی مخالفت میں صرف ہوا ہے۔  بظاہر اکبر کے موضوعات شاعری کا دامن بہت وسیع نظر آتا ہے۔  معاشرت، مذہب، سیاست، قیادت، تعلیم، حکومت، تہذیب اور اخلاق کے مختلف شعبوں کے ساتھ ساتھ شیخ، مرزا جمن، سلو، کلو، بدھو، وفاقی، مولوی مدن، ہرچرن داس، گاندھی جی اور کرزن مہاراج سبھی کو انہوں نے طنزو تعریض کا نشانہ بنایا ہے لیکن موضوع کے اس ظاہر تنوع کے باوجود اگر آپ ان کی ظرافت کا مرکز و محور تلاش کرنا چاہیں تو چنداں دقت نہ ہو گی۔  کلیات اکبر پر سرسری نظر ڈالتے ہی سرسید احمد خان، مختلف موضوعات کے پردے میں سامنے آ جائیں گے۔‘‘(۹)

سرسید احمد خان اور اکبر دونوں ہی مسلمانوں کی اصلاح چاہتے تھے۔  سرسید نے سنجیدہ انداز اختیار کیا اور اکبر نے طنز و مزاح سے وہی کام لینا چاہا۔  اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اکبر سرکاری ملازم تھے اور اس ملازمت کی بنا پر کھل کر وہ حکومت کے خلاف یا مغربی تہذیب پر اعتراض نہ کر سکتے تھے۔  اس وجہ سے انہوں نے طنزو مزاح کا راستہ اختیار کیا۔  سرسید نے ان کی مخالفت صرف اس بنا پرکی تھی کہ سرسید جس مغربی تعلیم کی ترویج و ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔  مغربیت کا یہ سیلاب صرف تعلیم کے میدان تک ہی محدود نہ رہے گا بلکہ ہماری مشرقی تہذیب، ثقافت، معاشرت، اخلاقی اقدار اور زبان سبھی اس تندوتیز سیلاب کے دھارے میں بہہ جائیں گے۔  اکبر اس ترقی اور خوشی کے خواہش مند نہ تھے جو مذہب کو پسِ پشت ڈال دے سرسید نے مذہب کو سمجھنے کے لیے جو عقلی و سائنسی روش اختیار کی، اکبر اس کے مخالف تھے۔  جب انسان کا مذہب اس کی تہذیب و ثقافت معاشرت اور زبان تک میں غیروں کی جھلک نظر آنے لگے تو پھر اس کی اپنی ذات کیا باقی رہ جائے گی۔  ڈاکٹر فرمان فتح پوری تحریر کرتے ہیں:

’’اکبر کا خیال تھا کہ مغربی فیشن کی کورانہ تقلید ہلاکت کا پیش خیمہ ہے۔  ملک تو ہاتھوں سے جا ہی چکا ہے۔  مغرب ذہن پر بھی اپنا قبضہ جما رہا تھا۔  سیاسی غلامی، ذہنی غلامی کی پیغامبر تھی۔  اکبر سمجھتے تھے کہ اگر دماغ بھی گرفتار ہو گیا۔  اگر روح بھی غلام ہو گئی تو پھر ہندوستان کی قسمت میں ابدی غلامی لکھ دی جائے گی۔  ہاں اگر ہم اپنی ہستی کو نہ بھولیں۔  اپنی جڑ سے علیحدہ نہ ہوں تو کچھ امید کی جا سکتی ہے۔‘‘(۱۰)

در اصل اکبر مادی زندگی کے ساتھ ساتھ اخلاقی و روحانی اقدار اور مذہب کو ایک مسلمان کے لیے ضروری خیال کرتے تھے وہ اس تعلیم کے حق میں نہ تھے جو ملک میں کلرکوں کی تعداد بڑھا دے۔  عورتوں کی تعلیم کی مخالفت اس بنا پر کی کہ یہ تعلیم انھیں گھر سے دوری بخشے گی۔  ان کے نزدیک پردہ عورت کا زیور ہے اسے ترک کر کے عورت خود اپنی عظمت کو کم کر رہی ہے۔  نئی تعلیم صرف ڈگریاں دینا جانتی ہے۔  فرد کی سیرت و کردار کی پیشکش سے اسے کوئی دلچسپی نہیں۔  ڈاکٹر وقار احمد رضوی لکھتے ہیں:

’’غرض اکبر کی غزلوں میں ایک صدی کی تہذیبی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کا عکس ہے۔  اس میں انگریزی تسلط، تہذیب و تعلیم نسواں، جدید تعلیم، سیاست، مذہب اخلاق پر وہ نئی پرانی تہذیب کی آویزش اور مختلف مسائل کی عکاسی ہے۔  جدید تہذیب نے بے حیائی بے شرمی، عریانی دی۔  نئی تہذیب نے ناچ گھر، نائٹ کلب اور سینما سے روشناس کرایا۔  یہی وہ چیزیں ہیں جو اکبر کی تنقید کا ہدف بنیں۔‘‘(۱۱)

اکبرمسلمانوں کی ترقی و خوشحالی کے خلاف نہ تھے بلکہ وہ اس خیال کو درست نہ جانتے تھے کہ ہر نئی چیز سونا اور ہر پرانی چیز خاک ہے۔  وہ ترقی کے خواہش مند تھے۔  مسلمانوں کو اپنے پیروں پر کھڑا دیکھنا چاہتے تھے۔  آخر عمر میں سرسید کے بارے میں بھی ان کے خیالات میں تبدیلی آ گئی تھی۔  حقیقت یہ ہے کہ اکبر کبھی سرسید کی ذات کے خلاف نہ تھے اور نہ ہی مغربی تعلیم سے انھیں کوئی کد تھی بلکہ وہ مغرب کی کورانہ تقلید پر معترض تھے اور سرسید تحریک مغربی تعلیم کی پرچار کی تھی اس لیے انھوں نے اس پر تنقید کی۔  اکبر سرسید کے خلوص، جذہب و ایثار وعمل اور قوم کے لیے جو دردان کے دل میں تھا اور جو محنت انھوں نے مسلمان قوم کی بیداری کے لیے کی اس کا اعتراف کھلے دل سے کرتے ہیں۔

واہ رے سرسید پاکیزہ گہر کیا کہنا

یہ دماغ اور حکیمانہ نظر کیا کہنا

قوم کے عشق میں پرسوز جگر کیا کہنا

ایک ہی دھن میں ہوئی عمر بسر کیا کہنا

اکبر نے حالی و شبلی کے ساتھ مل کر قوم کے انحطاط و زوال پر آنسو نہیں بہائے، نوحے اور مرثیے نہیں لکھے۔  بلکہ ان نقائص کی نشان دہی کی جو مسلمان کی ذات میں اندر تک پھیلتے جا رہے تھے۔  ہنسی مذاق اور ظریفانہ انداز میں انہوں نے عوام کو مخاطب کیا اور عوام نے ان کی بات کو سمجھا بھی۔  انورسدید کہتے ہیں:

’’اکبر کے اس ظریفانہ مسلک نے سوچ کو جو تبدیلی دی اس کے اثرات بیسویں صدی کے ربع دوم میں ظفرؔ علی خان، علامہ اقبالؔ، حسرتؔ اور جوہرؔ کے نتیجے میں ظاہر ہوئے۔  جنھوں نے سرسید کی عقلیت اور اکبر کی تہذیب و مذہب پسندی میں امتزاج پیدا کیا اور مسلمانوں کے دینی و ملی شعور کو نئی جہت عطا کر دی۔  یوں بیسویں صدی کی تحریکیوں میں اکبر کی آواز بھی شامل ہو گئی۔‘‘(۱۲)

سرسید کے معترضین کے سلسلے میں اکبر الہ آبادی کا ذکر کسی قدر تفصیل سے ہوا۔  سرسید کے دست راست آزاد و حالی کی خدمات بھی شعر و ادب کے سلسلے میں ناقابل فراموش ہیں۔

 

انجمن پنجاب

’’۱۸۵۷ء کی خون ریز جنگ آزادی کے بعد عوام میں دہشت و خوف کی فضا پھیل چکی تھی۔  غم و غصہ کا اظہار انھیں تختۂ دار کی طرف کھینچ رہا تھا۔  سہمی ہوئی یہ فضا ساکت اور غیر متحرک معلوم ہوتی۔  زندگی کو متحرک کرنے کے لیے حکومت کے ایما سے مختلف شہروں اور صو بوں میں علمی و ادبی سوسائٹیاں قائم کی گئیں چنانچہ بمبئی، بنارس، لکھنؤ، شاہ جہاں پور، بریلی اور کلکتہ میں انجمنیں قائم کی گئیں تاکہ ان کے ذریعے شہروں میں ادبی جلسے، مذاکرے اور مشاعرے منعقد کیے جا سکیں۔‘‘(۱۳)

صوبہ پنجاب میں تعلیم کی وسعت، علوم و فنون کی ترقی اور شعر و ادب کے ارتقا کے لیے انجمن پنجاب لاہور کا قیام عمل میں لایا گیا جو برٹش گورنمنٹ کے ایما پر قائم کی گئی۔  اس انجمن کے قیام کے لیے انگریز حکام نے بہت دلچسپی سے کام کیا۔  اس کے جلسوں میں شریک ہوئے۔  اس انجمن کے قیام کا مقصد یہی تھا کہ ۱۸۵۷ء کے ہنگاموں کے بعد انگریزوں اور مسلمانوں میں جو دشمنی کی فضا پروان چڑھ رہی ہے اسے کم کیا جائے، لیکن اس بات سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ انجمن سے وابستہ شعراء کے پیش نظر صرف انگریز حکام کی خوشنودی کا حصول نہ تھا، بلکہ وہ جان چکے تھے کہ جدید علوم و فنون آج کی زندگی کی اہم ضرورت ہیں۔  مشرقی علوم و فنون اور شعر و ادب ہر ایک اصلاح کا متقاضی ہے۔  ان تقاضوں کی تکمیل میں وہ حکومت کی مدد رد نہیں کر سکتے، چنانچہ ’’انجمن اشاعت مطالب مفیدہ پنجاب‘‘ کے قیام کے مقاصد، جدید علوم و فنون کا حصول، قدیم مشرقی علوم کا احیاء، دوسرے مفید علوم کی اشاعت، حکومت اور عوام کے درمیان خلیج کو کم کرنے کے لیے علمی و معاشرتی مسائل پر تبادلۂ خیالات، حاکم و محکوم کے درمیان رابطہ، ملکی ترقی کے کاموں میں تعاون، صنعت و تجارت کا فروغ تھا۔  ابتدا میں اس کی رکنیت سرکاری ملازمین اور جاگیر دار طبقے کے لوگوں کو ہی دی گئی پھر احساس ہوا کہ اس سے انجمن کے مقاصد مکمل طور پر حاصل نہ ہوں گے تو عوام کو بھی شامل کر لیا گیا۔  انجمن میں ہفتہ وار مجلسوں کا اہتمام کیا گیا۔  جس میں پڑھے جانے والے مضامین پر عوام نے بہت دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔  یوں عوام میں بھی تنقیدی شعور بیدار ہوا۔  ’’ہندوستان میں مجلسی تنقید کی اولین روایت کو انجمن پنجاب ہی نے فروغ دیا۔‘‘(۱۴)

مولانا محمد حسین آزاد کے مضامین اس انجمن میں بہت پسند کیے جاتے تھے۔  رفتہ رفتہ ڈاکٹر بی ڈبلیو لائٹر، جو انجمن کے صدر تھے، پس منظر میں چلے گئے اور آزاد کی شخصیت انجمن کے حوالے سے زیادہ ابھر کر سامنے آئی۔  کرنل ہالرائیڈ کی تحریک اور آزادی کی تجویز پر جلسے کے اختتام پر مشاعرے کے انعقاد کا سلسلہ شروع ہوا۔  جس سے عوام کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوا۔  ہالرائیڈ کی یہ تجویز کہ موضوعاتی مشاعرے منعقد کروائے جائیں، آزاد کے دل کی آواز تھی۔  آزاد مشاعرے کے ذریعے شاعری میں ایک نیا انداز اور نئی تبدیلی کے خواہاں تھے۔  نظم اردو شاعری کے لیے کوئی نئی صنف نہ تھی۔  اردو کے اولین شاعر قلی قطب شاہ کے دیوان میں بھی نظم موجود ہے، پھر مثنوی بھی طویل نظم ہی کی ایک صورت ہے۔  شہر آشوب بھی نظمیں ہی ہیں۔  مرثیے بھی نظم ہی کا ایک انداز ہیں اور پھر نظیر اکبر آبادی نظموں کی تخلیق کی بنا پر ہی جدید شاعری کا پیش رو اور موجد قرار دیے گئے، لیکن اردو غزل کے دورِ عروج میں آزاد کے لیے شعری فضا کو نظم کے لیے سازگار بنا نا اتنا آسان نہ تھا۔

’’شاعری میں اصلاحی تحریک کی ابتدا آزاد نے ۱۸۶۷ء میں ہی کر دی تھی اور حصولِ مقصد کے لیے انجمن پنجاب کو جو بنیادی طور پر اصلاحی کاموں کے لیے قائم کی گئی تھی آزاد نے اپنے ادبی موقف کا وسیلہ بنا لیا۔  سات سال کی محنت شاقہ کے بعد جب نظم اردو کے حق میں فضا سازگار ہو گئی اور اسمعیل میرٹھی جیسے شعراء ان کی آواز پر کان دھرنے لگے۔  تو آزاد نے نئی شاعری کا پہلا مشاعرہ قائم کیا اور اس میں موضوعی نظم کی مثال بھی خود ہی پیش کر دی۔  چنانچہ امر واقعہ یہ ہے کہ انجمن پنجاب کا قیام حکومت کے ایما پر ہوا، لیکن اس کی ادبی جہت محمد حسین آزاد نے متعین کی۔  (۱۵)

ان مشاعروں میں کئی شعراء نے حصہ لیا، لیکن آزاد و حالی کے علاوہ کوئی قابلِ ذکر شاعر نہ تھا۔  حالی اس کے چوتھے مناظمے میں پہلی بار شامل ہوئے۔  انہوں نے چار مناظموں میں شرکت کی اور اپنی مشہور نظمیں (مثنویاں ) برکھارت، نشاطِ امید، حبِ وطن اور مناظرۂ رحم و انصاف پیش کیں۔  آزاد بنیادی طور پر نثر نگار تھے، نظمیں انھوں نے بھی بہتر کہیں، لیکن حالی کی شعری تخلیقات کی داد عوام نے زیادہ دی۔

آزاد نے ان نظموں کی تخلیق میں سادگی کا انداز اپنایا۔  جس نے اکثر بے رنگی کی کیفیت پیدا کی۔  گہرائی اور اچھوتے پن کی کمی نے ان کی نظموں کو بے لطف کیا۔

کلیم الدین احمد، آزاد کی شعری تخلیقات کاجائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں:

’’شاعر جو مجدد ہو، جو نئے دور کی بنیاد قائم کر سکے۔  آزاد ایسے شاعر نہ تھے، نہ تو قوت ایجاد کہیں دکھائی دیتی ہے اور نہ کہیں تنوع ہے۔  کوئی صنف بھی ایجاد نہیں کی۔  مثنوی میں مناظر قدرت کا بیان کوئی نئی بات نہ تھی۔  میرؔ و سوداؔ کے ہاں ایسی مثالیں ملتی ہیں۔  اگر کوئی نئی چیز ہے تو وہ اخلاقی مضامین کو استعارہ کی شکل میں بیان کرنا۔  صرف اسی وجہ سے انہیں مجدد نہیں کہا جا سکتا۔  آزاد کم پایہ اور محدود قسم کے شاعر تھے۔  آزاد اور ان کی شاعری کی اہمیت صرف تاریخی ہے اور بس۔‘‘(۱۶)

آزاد کی یہ تاریخی اہمیت انجمن پنجاب کے سر کردہ رکن ہونے کی بنا پر ہے۔  آزاد کی خواہش اور کوشش کی بنا پر انجمن میں ہونے والے مناظمے اپنے عہد کی ضرورت تھے۔  نیچرل شاعری اس کا خاص موضوع تھا۔  قدرت کی نیرنگیوں کو شاعر اپنی آنکھ سے دیکھتا اور سراہتا ہے اور اپنے اس تجربے میں قاری کو بھی شریک کرنا چاہتا ہے۔  بہرحال نیچرل شاعری سے مراد صرف مناظر قدرت کی تصویر کشی ہی نہ تھا، بلکہ اس کے مفہوم کو وسعت دی گئی۔  سادگی، بے تکلفی، مبالغہ سے گریز اور عام فہم انداز اس نیچرل شاعری کی خصوصیت تھی۔

’’حالی کے یہاں نیچرل شاعری کا مفہوم وسیع ترمعنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔  اس سے مراد اس قسم کی شاعری ہے جو لفظاً اور معناً دونوں طرح نیچرل یعنی فطرت کے مطابق ہو۔‘‘(۱۷)

مناظر فطرت کے علاوہ اخلاقی موضوعات اور حب الوطنی کے جذبات کی عکاسی انھی مناظموں میں پیش کی گئی منظومات کے موضوعات تھے۔  انسان دوستی، مروت، محنت، اخلاق و معاشرت۔  یوں روایتی و رسمی شاعری جو واردات قلبی اور عشقیہ جذبہ و احساس کے محور پر گھومتی تھی، اس سے ہٹ کر ایک نئی فضا تخلیق کی گئی۔  ہر نیا خیال یا نظریہ فوراً ہی قبول عام حاصل نہیں کر لیتا۔  چنانچہ اعتراضات اور جواب اعتراضات کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری رہا:

’’انجمن کے مناظمے وقت کا اہم موضوع تھے۔  انھوں نے اس وقت کی ادبی دنیا میں ایک ہل چل مچا دی تھی۔  ان مناظموں میں جدید شاعری کے جو نمونے پیش کیے جاتے تھے۔  لکھنؤ کے ادبی محاذ سے ان پر شدید مخالفت کے تیر برسائے گئے۔  موافقین نے بھی حمایت و دفاع کا حق ادا کر دیا۔  (۱۸)

انجمن پنجاب کا یہ احسان ضرور قابلِ ذکر ہے کہ اس انجمن کے تحت ہونے والے مشاعروں کے نتیجے میں ملک میں نیا احساس و شعور بیدار ہوا۔  قومیت و وطینیت کے جذبات زیادہ ابھر کر سامنے آئے۔  انگریزی نظموں کے تراجم بھی ہوئے۔  مغربی ادب سے واقفیت بڑھی۔  سائنس، مادیت، ارضیت، فطرت، عقلیت، فطری و حقیقی جذبات، اجتماعی زندگی کا احساس، اردو شاعری میں نمایاں ہونے لگا۔  یہ موضوعات غزل کے روایتی مزاج کے منافی تھے، اس لیے نظم کی ہیئت برقی گئی۔

 

انجمن کے اثرات

حالیؔ و آزادؔ وشبلی ؔ کے تنبع میں نظم نگاروں کی ایک پوری صف سامنے آئی۔  ان شعرا کا تعلق انجمن پنجاب سے براہ راست تھا یا نہیں، لیکن انجمن پنجاب کی شعری تحریکات کا اثر ان پر نمایاں ہے۔

آزادؔ و حالی ؔکے ہمعصر اسمٰعیل میرٹھی بھی بدلتی ہوئی فضا کے تقاضے سمجھتے تھے۔  غالب کا شاگرد ہونے کے باوجود انھیں اپنے عہد کے تقاضوں کے مطابق غزل سے زیادہ نظم مناسب معلوم ہوئی۔  نظم میں بھی انھوں نے انگریزی سے اردو میں نظمیں ترجمہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔  وہ سرسید کی اصلاحی تحریک کے معتقد تھے۔  ان کی شاعری کے موضوعات بھی وہی تھے جو سرسید تحریک کے مقاصد تھے، یعنی خواب غفلت کا شکار مسلمانوں کو ان کی عظمت رفتہ یاد دلا کر جگانا۔  وہ مسلمانوں کو یہ بھی یاد کرانا چاہتے تھے کہ وہ اپنا کھویا ہوا مقام تلوار سے ہی نہیں علم و فن کی مدد سے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

اسمٰعیل، حالیؔ و شبلیؔ سے متاثر ہیں لیکن ان کی شاعری حالی کی شاعری کی طرح مسلمانوں کی اصلاح کا اعلان نامہ نہ تھی۔  انھوں نے بچوں کے لیے جو شعری تخلیقات پیش کیں، اردو شاعری کا دامن اس سے تہی تھا۔

عبدالقادر سروری ’’جدید اردو شاعری‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’اسمٰعیل کا رنگ کئی حیثیتوں سے قدیم اور جدید شعراء کے مقابلے میں ممتاز ہے۔  اردو شاعری میں اسمٰعیل ایک نئی طرز کے بانی اور ایک نئے رنگ کے نقاش ہیں۔  کہنے کو تو ان کی شاعری کے مخاطب کم سن بچے ہیں لیکن ان میں حسن فطرت کی وہ جھلک موجود ہے جس کا تاثر عمر اور مذاق کی قید سے اعلیٰ و ارفع ہے اور شاعرانہ صنف گری کی وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جنھیں زمانے کے ساتھ کوئی تخصیص نہیں۔‘‘(۱۹)

شوق قدوائی نظم گو شعرا میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔  ان کا عہد بھی کم و بیش وہی ہے جو کہ حالی ؔ، آزادؔ، شبلیؔ، اسمٰعیلؔ و اکبرؔ کا تھا اور یہ تمام شعرا اپنے دور کی اصلاحی تحریکوں کے مبلغ بھی رہے لیکن شوق نے ان تحریکیوں سے براہِ راست اثر قبول نہیں کیا لیکن یوں بھی نہیں ہے کہ وہ قوم کا درد اپنے دل میں رکھتے ہی نہ ہوں۔

عبدالقدار سروری، جدید اردو شاعری صفحہ ۱۲۸ پر لکھتے ہیں:

’’شوق نے ’’لیل و نہار‘‘ کے نام سے ایک طویل مسدس قومی بھی لکھا تھا جو ۱۸۸۹ء کی محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں پڑھا گیا۔  یہ مسدس حالی کے مسدس کے مقابلے میں کچھ کم رقبہ نہیں رکھتا۔‘‘(۲۰)

اردو شاعری میں زمانے کے تغیر و تبدل کا ساتھ دینے کے لیے ہیئت کے کئی تجربے کیے گئے۔  اردو شاعری میں نظم غیر مقفیٰ کو آزاد اور اسمٰعیل میرٹھی نے سب سے پہلے متعارف کروایا۔  عبدالحلیم شرر نے اپنے رسالے ’’دلگداز‘‘ کو نظم آزاد اور نظم معریٰ کی ترویج کے لیے استعمال کیا۔  شرر ایک مہم جو اور جرأت مند انسان تھے۔  انھوں نے اردو نظم میں ہیئت اور اسلوب کے تجربے بھی بڑی جرأت کے ساتھ کیے۔  نظم معریٰ اور نظم آزاد کا تصور انگریزی سے اردو میں آیا۔  آزاد اور اسمٰعیل کے بعد شر ر، نظم طباطبائی اور نادر کاکوری نے اس تحریک کو آگے بڑھایا۔

انجمن پنجاب کے مشاعروں کا سلسلہ حالی و آزاد ہی کے عہد تک زور شور سے جاری رہا۔  حالی اور آزاد کے معاصرین اور بعد میں آنے والے نظم گو شعراء کہ جن کا بظاہر انجمن پنجاب سے کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا، ان کا تذکرہ انجمن پنجاب کے ذیل میں صرف اس خیال سے کیا گیا ہے کہ ان کی ذہنی تربیت اور ان کی تخلیقات کے لیے انجمن نے نمونے فراہم کر دیے تھے۔  جنھیں بعد میں انھوں نے ترقی بھی دی اور اردو شاعری کو نئی اصناف سے روشناس بھی کروایا۔

 

ترقی پسند تحریک

موجودہ صدی کے ابتدائی عشرے مختلف النوع تحریکات کے عروج و زوال کی داستانیں لیے ہوئے ہیں۔  یہ سبھی تحریکات برِصغیر کی سرزمین سے نہ ابھریں بلکہ بیرون ملک سے ان کے اثرات یہاں پہنچے۔

رومانی تحریک کی ابتدا انیسویں صدی کے ابتدائی ایام میں ہو چکی تھی۔  اس نے آہستہ آہستہ اپنا تعارف کروانا شروع کیا اور پھر پورے یورپ کو متاثر کیا۔  رومانیت کے ساتھ ساتھ ایک ایسی تحریک بھی چل رہی تھی جو اس کے بالکل متضاد تھی۔  وہ زندگی کو اصل رنگ میں پیش کرنا چاہتی تھی۔

خوابوں میں گم رہنے والے، دھندلکوں اور خوشبوؤں کی باتیں کرنے اور سننے والوں کے ردِ عمل میں حقیقتاً جس تحریک نے جنم لیا وہ ترقی پسند تحریک کہلائی لیکن جب ہم ترقی پسند تحریک کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ صرف رومانی تحریک کاردِ عمل نہ تھا بلکہ یہ اس دور کے بدلتے ہوئے حالات کا تقاضا بھی تھا کہ عوام خود اپنی موجودہ حالت اور روش سے اکتائے ہوئے تھے۔  بیداری کی لہر نے انھیں اپنے موجودہ مقام سے متنفر کر دیا تھا۔  غلامی کا بندھن انہیں تکلیف دینے لگا تھا۔  یوں بیسویں صدی کی ابتدا ہی سے زندگی کے اصول و نظریات اور عقائد میں تغیر و تبدل نظر آنے لگا تھا، شاعر و ادیب بدلتے حالات کا تقاضا جان چکے تھے کہ اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا، جو نہایت تلخ ہیں۔  زندگی کے بنیادی مسائل کا حل فرد کی اولین ضرورت ہے، چنانچہ زندگی کی ترجمانی اور عکاسی ادب میں بڑی باریک بینی سے ہونے لگی۔  مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کی تلاش ادب کا مطمع نظر ٹھہرا۔  انسان کو مادی طور پر مستحکم کرنے کی خواہش نے جنم لیا کہ برصغیر کے عوام صدیوں سے معاشی پس ماندگی اور طبقاتی تقسیم کا شکار تھے۔  روٹی کپڑا اور مکان ان بنیادی ضرورتوں سے بھی ہر ایک بہرہ ور نہ تھا۔  زندگی کے دوسرے مسائل بھی توجہ طلب تھے، چنانچہ قلمکاروں نے ادب برائے ادب کے نظریے کو رد کرتے ہوئے ادب برائے زندگی کا تصور پیش کیا۔  اردو شاعری اس بات کا ثبوت ہے۔  سماجی و معاشرتی زندگی کی تصاویر کے ساتھ ساتھ تاریخی عروج و زوال اور مدوجزر سبھی کا بیان اپنے اپنے دور کے حوالے سے تقریباً سبھی شعرا کے کلام میں موجود ہے، لیکن یہ سب شعرا کی انفرادی کوششیں تھیں۔  حالات کا تقاضا تھا کہ اب انفرادی سطح سے بلند ہو کر اجتماعی کوشش کی جائے ہندوستان اس وقت برطانوی سامراج کے ظلم و استبداد، دولت کی ناہموار تقسیم، طبقاتی کش مکش اور جاگیر دارانہ نظام کی چیرہ دستیوں کا مرقع تھا۔  ان حالات نے عوام میں انتشار، افرا تفری اور بے اعتمادی کی فضا پھیلا رکھی تھی۔  یہی وہ وقت تھا کہ جب ہندوستان کے ادیبوں نے یکجا ہو کر ان مسائل کی نشاندہی کی اور ان کے حل کی تلاش پر توجہ دی۔

تعجب خیز امر یہ ہے کہ ہندوستان کے عوام کے سدھار کے لیے اس تحریک کا آغاز یورپ میں تعلیم حاصل کرنے والے ہندوستانی جوانوں نے لندن میں کیا۔  یہ نوجوان مغربی ادب میں جاری تحریکیوں سے متاثر تھے۔  اپنے ادب اور عوام میں رشتہ مضبوط دیکھنا چاہتے تھے۔

ڈاکٹر شمیمہ بیگم نقوی اپنے مقالے ’’ترقی پسند تنقید کا ارتقاء اور احتشام حسین‘‘ میں رقم طراز ہیں:

’’۱۹۳۵ء میں لندن میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد پڑی جس کے محرک جیوقی گھوش، ڈاکٹر ملک راج آنند، پرومودسین گپتا، ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور سجاد ظہیر تھے۔  ڈاکٹر کے ایس بھٹ، ڈاکٹر کے ایس سہنا اور بعض دوسرے لوگ اس کے موئیدین میں تھے۔  ان سب کی رائے سے انجمن کا منشور تیار کیا گیا اور سائیکلوسٹائل کرا کے ہندوستان بھیجا گیا۔‘‘(۲۱)

انجمن ترقی پسند کا یہ منشور جو ایک صفحے پر مشتمل تھا۔  ان ادیبوں نے اس خیال کے تحت ہندوستان اپنے ادیب دوستوں کو ارسال کیا کہ وہ یہاں کے ادیبوں کو اس تحریک سے آگاہ کریں اور ان کی رائے لیں۔  ان ادیبوں کا تعلق ہندوستان کے کسی ایک شہر سے نہ تھا۔  علی گڑھ میں ڈاکٹر محمد اشرف، امرتسر میں محمود الظفر اور ڈاکٹر رشید جہاں، کلکتہ میں بیرن مکرجی، حیدر آباد دکن میں ڈاکٹر یوسف حسین خان، بمبئی میں ہتھی سنگھ وغیرہ۔  ان تمام تخلیق کاروں نے اپنے اپنے شہر میں صرف اردو ہی نہیں بلکہ ہندی اور دیگر علاقائی زبانوں کے ادیبوں سے اس سلسلے میں روابط قائم کیے۔  سید سجاد ظہیر جو انجمن ترقی پسند مصنفین کا منشور مرتب کرنے والوں میں سے ایک تھے۔  سب سے پہلے ہندوستان پہنچے اور انہوں نے یہاں کے ادیبوں سے مل کر ترقی پسند ادب کی تخلیق کے لیے فضا ساز گار کرناشروع کی۔  سجاد ظہیر ترقی پسند تحریک کی تنظیم سے متعلق اپنا نقطۂ نظر یوں واضح کرتے ہیں:

’’جب ہم نے ترقی پسند ادبی تحریک کی تنظیم کی جانب قدم اٹھایا تو چند باتیں خصوصیات کے ساتھ ہمارے سامنے تھیں۔  پہلے تو یہ کہ ترقی پسند ادبی تحریک کا رخ ملک کے عوام کی جانب مزدوروں، کسانوں اور درمیانہ طبقے کی جانب ہونا چاہیے۔  ان کو لوٹنے والوں اور ان پر ظلم کرنے والوں کی مخالفت کرنا اپنی ادبی کاوش سے عوام میں شعور، حس و حرکت، جوش عمل اور اتحاد پیدا کرنا اور تمام ان آثار اور رجحانات کی مخالفت کرنے جو جمہور، پست ہمتی پیدا کرتے ہیں، ہمارا اولین فرض ٹھہرا۔  اسی لیے ہم اپنی تنظیم میں اس پر زور دینا چاہتے تھے کہ دانشوروں کے لیے ادبی تخلیق کے ساتھ ساتھ عوامی زندگی سے زیادہ قرب ضروری ہے بلکہ نیا ادب بغیر اس کے پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔  اس لیے ہم چاہتے تھے کہ ہماری انجمن کی شاخیں گوشہ نشیں علما کی ٹولیاں نہ ہوں بلکہ ان میں حرکت بھی ہو‘‘(۲۲)

ترقی پسند تخلیق کاروں نے ملک کے مختلف حصوں سے ہم خیال ادیبوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے ترقی پسند مصنین کی پہلی کل ہند کانفرنس منعقد کروانے کا ارادہ کیا۔  منشی پریم چند کو صدارت کے لیے منتخب کیا گیا۔  اس کانفرنس میں اُردو ہندی اور دوسری علاقائی زبانوں کے ادیبوں اور شاعروں کو جن میں بزرگ تخلیق کار بھی شامل تھے اور نوجوان بھی، شرکت کی دعوت دی گئی۔  بابائے اردو مولوی عبدالحق بھی اس کانفرنس میں شریک ہوئے منشی پریم چند نے صدارتی خطبے میں تخلیق کاروں کو اپنے عہد کے مسائل کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا:

’’….. انسانیت کے بہترین مذہبی، اخلاقی اور روحانی پیشواؤں نے انسانیت کے سامنے ہمیشہ اخوت مساوات تہذیب کا آدرش پیش کیا اور اپنے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش کی، لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ انسانی آزادی، اخوت، مساوات کا یہ زریں خواب اسی صورت میں حقیقت میں بدل سکتا ہے اور اس آئیڈیل کی تکمیل جب ہی ہو سکتی ہے جب ہم ترقی کی قوتوں کا ساتھ دیں …..‘‘(۲۳)

پریم چند نے تلخ حقائق کاسامنا کرنے تنگ نظری اور تعصب سے گریز اور قوت عمل کے فقدان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

’’ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گاجس میں تفکر ہو۔  آزادی کا جذبہ ہو، جس میں جوہر ہو، تعمیر کی روح ہو، زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو، جو ہم میں حرکت ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے۔  سلائے نہیں، کیونکہ اب اور زیادہ سونا موت کی علامت ہو گی۔‘‘(۲۴)

اس کانفرنس کے بعد ترقی پسند تحریک ملک کے مختلف صو بوں میں پھیل گئی۔  اس تحریک نے صرف ادبی سطح پر ہی نہیں بلکہ سماجی معاشی اور سیاسی تصورات پر بھی اپنا اثر قائم کرنا شروع کر دیا۔  ترقی پسندا دب آزادی کا ادب تھا۔  جاگیر دارانہ نظام، غاصبانہ طرز حکومت اور سامراجی قوتوں سے آزادی کا ادب، کہ جس نے کچلے ہوئے عوام کی تلخ مسائل سے بھری زندگی کو موضوع بنایا۔  آزادی اظہار کی اہمیت پر زور دیا گیا۔  یہ ادب چونکہ خواص کے لیے تخلیق نہیں کیا گیا تھا۔  بلکہ اس کا مخاطب مزدور اور کسان تھا۔  اس لیے سادہ اور سلیس انداز بیان کو اپنانے پر زور دیا گیا کہ عوام کے لیے لکھا گیا ادب عوام ہی کی زبان میں تخلیق ہونا چاہیے۔

ترقی پسند تحریک نے جلد ہی مقبولیت حاصل کر لی۔  نوجوان نسل کی ذہانت اور بزرگوں کے تجربے نے اس تحریک کو بڑھانے میں بہت کام کیا۔  ترقی پسند تحریک نے ادب کی مختلف اصناف شاعری، افسانہ نگاری اور تنقید کو متاثر کیا۔

 

افسانہ

اردو افسانے کے اہم نام نیاز فتح پوری، لطف الدین احمد، سجاد حیدر یلدرم، سلطان حیدر جوش وغیرہ رومانی طرز فکر کے علمبردار تھے۔  ان کی تحریر قاری کے منتشر ذہن کے لیے سکون کا سامان فراہم کرتی لیکن آنکھیں بند کر لینے سے زندگیی کے مسائل کی شدت اور نوعیت میں کمی واقع نہیں ہوتی، اس حقیقت کا ادراک سب سے پہلے پریم چند کے افسانوں میں نظر آتا ہے کہ جن کے افسانے طبقاتی کش مکش اور استحصال کے موضوعات پر مبنی تھے۔  سدرش، علی عباس حسین اور اعظم کرپوی نے افسانے کو حقیقی مناظر دیے۔  ان کا مقصد اپنے عوام اور معاشرے کی اصلاح تھی۔

اس سے پہلے ۱۹۳۲ء میں ’’انگارے‘‘ کی اشاعت نے ایوان ادب میں زلزلے کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔  انگارے کے مصنفین میں وہی لوگ شامل تھے جو ترقی پسند تحریک کے بانیوں میں سے تھے۔  ان کے افسانے زندگی کی تلخیوں سے پر تھے۔  سماج کاکوئی پہلو، ان کی نظروں اور قلم کی زد سے بچ نہ سکا۔  نتیجتاً حکومت نے اسے ضبط کر لیا۔  ترقی پسند رجحانات رکھنے والے افسانہ نگاروں میں احمد علی، رشید جہاں، حیات اللہ انصاری، کرشن چندر، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، ادپندرناتھ اشک، اختر اورینوی، اختر انصاری، سہیل عظیم آبادی، سعادت حسن منٹو، ممتاز مفتی، بلونت سنگھ، ہاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور اہم ہیں۔

ناموں کی اس فہرست میں وہ افسانہ نگار شامل ہیں جو اردو افسانے کی رومانی تحریک کے رد عمل کے طور پر سامنے آئے۔  ان افسانہ نگاروں میں مختلف انداز فکر رکھنے وا لے تخلیق کار ہیں۔  ایک حقیقت پسند اور دوسرے ترقی پسند۔  حقیقت پسند اور ترقی پسند افسانے کا فرق شہزاد منظر ترقی پسند افسانے کی روایت اور نیا افسانہ کے عنوان کے تحت اپنے مقالے میں یوں کرتے ہیں:

’’….. حقیقت نگار کانقطۂ نظر قطعی غیر شخصی ہوتا ہے۔  اس کا اولین مقصد زندگی کی عکاسی ہے۔  وہ کچھ نہیں چھپاتا۔ ا لبتہ وہ غیر متعلق تفصیلات کو کم کر دیتا ہے اس کا انداز بیان بہت صاف اور سیدھا ہوتا ہے اس کا اسلوب اس کے موضوع سے پوری طرح ہم آہنگ ہوتا ہے اور وہ اپنی ذاتی رائے کا بہت کم اظہار کرتا ہے۔  مصنف حقیقی زندگی سے جتنا قریب ہوتا ہے وہ اتنا ہی بڑا حقیقت نگار ہوتا ہے۔

ہم جسے ترقی پسند افسانہ کہتے ہیں وہ عناصر ترکیبی سے مل کر وجود میں آیا ہے۔  ان میں ایک حقیقت نگاری اور دوسرا انقلابی شعور ہے۔  ترقی پسند افسانے کے بارے میں میرا خیال ہے کہ اگر حقیقت نگاری انقلابی اور طبقاتی شعور کے ساتھ کی جائے تو ترقی پسند افسانہ وجود میں آتا ہے۔  جس میں سماجی تنقید خود بخود شامل ہو جاتی ہے ……‘‘(۲۵)

ترقی پسند تحریک کے زیر اثر جو افسانے لکھے گئے وہ اپنی ہیئت و اسلوب اور خیال و موضوع ہر اعتبار سے، چند ایک کو چھوڑ کر کہ جہاں افسانہ نگار اپنی نگار اپنی جذباتیت کو قابو میں نہیں رکھ سکے، بہترین ادب میں شمار کیے جاتے ہیں۔

 

تنقید

ترقی پسند تحریک سے پہلے حالی و شبلی و آزاد نے اس سلسلے میں کام کیا۔  قدیم شعرا کے تذکروں میں بھی اس کے کچھ آثار مل جاتے ہیں لیکن تجزیاتی انداز اور تحقیق کی گہرائی جو تنقید کے لیے ضروری ہے۔  وہ ان تنقیدی تحریروں میں کم نظر آتی ہے۔  حالی و شبلی کے بعد آنے والوں نے انھیں کے خیالات سے استفادہ کیا یا پھر مغربی ادب سے درآمدہ شدہ خیالات کو اردو کے قالب میں ڈھال کر پیش کیا۔

ترقی پسند تحریک سے اردو تنقید کے باقاعدہ سفر کا آغاز ہوا۔  یہ سفر عملی تنقید کا تھا۔  اب نقاد نے تخلیق پارے کو زندگی، معاشرہ اور زمانے کے حوالے سے پرکھنے پر زور دیا۔  انفرادی پسند و ناپسند کو معیار قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ڈاکٹر شارب ردولوی، ترقی پسند تحریک اور اردو تنقید کے عنوان سے اپنے مقالے میں لکھتے ہیں:

’’….. ترقی پسند تنقید نے ادب کے سماجی تاریخی اور عمرانیح مطالعے پر زور دیا ہے اور داخلیت اور خارجیت کے مابین گہرے ربط کی نشاندہی کر کے ادب کے سماجی و اجتماعی پہلوؤں کی وضاحت کی۔  ترقی پسند تنقید نے اس بات پر اصرار کیا کہ ادب محض تصور آرائی اور خیال آرائی نہیں وہ زندگی کا ترجمان ہوتا ہے۔  اس لیے زندگی کو اس کے تمام حسن رعنائی اور دلکشی کے ساتھ پیش کرنا چاہیے۔‘‘(۲۶)

ترقی پسند ناقدین نے نئے تنقیدی مباحث کا آغاز کیا۔  انھوں نے ترقی پسندی کے مفہوم کی وضاحت، ادب کا تنقید کے ساتھ تعلق اور دیگر نظریاتی مسائل کے حل کی تلاش شروع کر دی۔  ان ناقدین نے تنقید کو سائنسی اور معروضی انداز سے پیش کیا۔  ادب اور زندگی کے تعلق پر بحث کی گئی۔

ان ناقدین میں اختر حسین رائے پوری، سجاد ظہیر، ڈاکٹر عبدالعلیم، فیض احمد فیض، مجنوں گورکھپوری، ڈاکٹر اعجاز حسین، احتشام حسین، آل احمد سرور، ممتاز حسین، اختر انصاری، سردار جعفری، ظ۔  انصاری، ظہیر کاشمیری، وقار عظیم، علی جواد زیدی، اختر اور ینوی اور عزیز احمد ترقی پسند تنقید کے سلسلے کے نمایاں نام ہیں لیکن یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ان سب نے مختلف موضوعات پر مضامین لکھے جو مختلف رسالوں میں شائع ہوئے لیکن تنقید پر کوئی مکمل کتاب سامنے نہیں آئی۔

 

نظم

شاعری کسی بھی زبان کے ادب میں تخلیق کی جانے والی سب سے پہلی صنف، ترقی پسند تحریک نے شاعری کی تخلیقی ترقی اور ترویج میں خاصا کام کیا ہے۔  ترقی پسند تحریک سے کچھ قبل بھی اردو شاعری میں تغیر و تبدل کی فضا کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔  جس کے زیر اثر وطن پرستی اور انقلابی نظریات سامنے آ رہے تھے۔

ترقی پسند تحریک نے شاعری کو حقائق سے قریب تر کرنے کے سلسلے میں بے حد کام کیا۔  جذباتیت و رومانیت سے گریز اور حقیقت کی تلخی کا احساس ان شعرا کے ہاں بھرپور طریقے سے سامنے آتا ہے۔

شاعری میں صنف نظم ترقی پسند شعرا کی محبوب ہیت رہی ہے۔  ترقی پسند شعرا کے نظم میں مختلف رجحانات سامنے آتے ہیں جس کی وضاحت کرتے ہوئے قمر ریئس کہتے ہیں:

’’….. ترقی پسند نظم میں تین رجحانات غالب رہے ہیں۔  پہلا رجحان ہے بلند آہنگ لہجہ میں سیاسی اور نظریاتی شاعری کا شاید جوش کے اثر سے مجاز نے اس کا آغاز کیا تھا۔  بعد میں سردار جعفری، مخدوم، کیفی، نیاز حیدر، ظہیرکاشمیری اور جان نثار اختر کے یہاں زیادہ نمایاں رہا۔  دوسرا رجحان ہے نرم اور مدھم لہجے کی نیم رومانی اور نیم فکری شاعری کاجس میں رمزیت کا انداز نمایاں رہا ہے۔  اس کی نمائندگی احمد ندیم قاسمی، اخترا لایمان، مجید امجد، عزیز حامد مدنی، ساحرؔ لدھیانوی، منیب الرحمن، فارغؔ بخاری، عارفؔ عبدالمتین، ابن انشاؔ، کمال احمد صدیقی، رفعت سروشؔ کرتے ہیں۔  فیضؔ کا تعلق بھی اسی قبیلہ سے ہے لیکن بعد میں وہ الگ اک دبستان بن گئے۔  تیسرا رجحان قوم پرست شاعروں کے ملے جلے لہجے یعنی نیم رومانی نیم کلاسیکی اسالیب کی شاعری کا رجحان ہے۔  اس کی نمائندگی ساغرؔ نظامی، آئند نرائن ملا، جمیلؔ مظہری، علی جوادؔ زیدی، مسعود اختر جمالؔ، سکندر علی وجدؔ، شمیمؔ کرمانی، نازشؔ پرتاب گڑھی جیسے شعرا نے کی۔‘‘(۲۷)

اپنے عہد اور زندگی کے مسائل کا بیان نظم کے لیے کوئی نیا موضوع نہیں۔  اردو شاعری میں شہر آشوب میں اپنے عہد کے سیاسی و سماجی زوال کی تصویر کشی کی جاتی ہے۔  چنانچہ جعفر زٹلی، سودا اور نظیر اکبر آبادی نے برسراقتدار طبقہ کی ناعاقیت اندیشوں اور نا انصافیوں کی داستان بیان کی۔  پھر سرسید تحریک کے زیر اثر حالی آزاد اور شبلی نے وطن پرستی کے موضوعات اپنائے۔  ترقی پسند شاعروں نے معاشرے کی سیاسی و سماجی صورت حال پر تنقید ہی نہیں کی بلکہ اسے بدلنے کی کوشش کی، پھر یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ترقی پسند تحریک نے صرف برصغیر کے عوام ہی کو پیش نظر نہیں رکھا بلکہ ادب میں برپا ہونے والی دیگر بین الاقوامی تحریکیوں سے کہ جن کا تعلق ادب کے ساتھ ساتھ فکر معاش اور معاشرے سے تھا، رابطہ رکھا۔  سیاسی شاعری اور راست شاعری کی نمایاں مثالیں ترقی پسند شعرا کے کلام سے عیاں ہیں۔  ترقی پسند شاعر نے فرد کی داخلیت سے گریز کرتے ہوئے خارج کو اپنا موضوع بنایا اور قاری سے براہ راست خطاب کا اندازا ختیار کیا۔  زندگی کی جبریت کے خلاف بلند لہجے میں احتجاج کیا جانے لگا۔  ان کے اہم موضوعات میں برصغیر خصوصاً ً اور تمام دنیا کی عموماً، طبقاتی تقسیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کی نشان دہی کی گئی۔  مزدور وکسان کے پسینے بہانے اور بھوکے پیٹ سونے کے دکھ کو بیان کیا گیا۔  عورت جو شاعروں کے اعصاب پر سوار تھی اب اس کی جگہ وطن اور وطن میں پیدا شدہ مسائل کی یلغار نے لے لی۔  نئی سحر کے متلاشی اور انقلاب کے منتظر ان شعرا نے بیانیہ اسلوب اور منطقی انداز میں ادب اور سماج کے مرکزی کردار یعنی محنت کش عوام کے گیت گائے۔  ان شعراء نے اشتراکی نظریے کو اپنے فکر و خیال کا مرکز تصور کیا۔

ترقی پسند شعرا میں رجحانات اور اسالیب کا تنوع ہے۔  وہ سیاسی، سماجی، اقتصادی صورت حال کو بڑی خوبی سے شعر کے قالب میں ڈھال لیتے ہیں۔  آزاد، نظم معریٰ اور نثری نظم کی صورت میں انھوں نے ہیت کے تجربے کیے ہیں۔

 

غزل

غزل اردو شاعری کی آبرو، عطر، جوہر، سبھی کچھ ہوتے ہوئے بھی معترضین کے حملوں کا شکار رہی۔  ترقی پسند تحریک سے متعلق شعرا کا رجحان نظم کی طرف تھا کیونکہ خطابیہ لہجہ اور بیانیہ انداز نظم کے لیے تو قابل قبول ہے غزل کی ایمائیت ایجاذواختصار اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

غزل چونکہ ایک مقبول اور محبوب صنف سخن تھی۔  اس لیے ترقی پسند شعرا ء بھی اس سے صرف نظر نہ کر سکے۔  ترقی پسند شعراء غزل کہتے بھی تھے اور غزل کی مخالفت میں پیش پیش بھی تھے اور اسے غیر جمہوری بیکار اور مردود صنف سخن جانتے تھے۔  حالانکہ غزل نے اپنی فنی پابندیوں کے باوجود ہر دور کے حالات اور ہر عہد کی تاریخ کا ساتھ دیا ہے۔  کسی بھی عہد کی تاریخ کا سیاسی سماجی اور معاشی پس منظر اس دور کے شعراء کی غزلیات سے عیاں ہوتا ہے۔  نظیر اکبر آبادی ہوں یا غالب ؔو حالیؔ یا اقبالؔ سبھی نے بندھے ٹکے مضامین سے انحراف کرتے ہوئے نئے موضوعات کے لیے غزل کی سرزمین کو ہموار کیا۔  ترقی پسند غزل گو شعر اء نے بھی فرسودہ موضوعات اور روایتی طرز بیان کو بدلنے کی ضرورت پر زور دیا۔  چنانچہ اس دور کی غزلوں میں سیاسی آویزش، آزادی کے لیے نعرے، غیر طبقاتی تقسیم کے خلاف آوازیں جاگیر دارانہ نظام کی نفی، انگریز سامراج کی نا انصافیوں اور ظلم کی داستان عیاں ہے۔

اب غزلوں میں رخِ جاناں اور زلفِ یار کے بجائے لیلائے وطن کا تذکرہ زیادہ تھا، رقیب کاتصور بدل گیا، کوچہ یار، وطن کی گلیوں میں تبدیل ہو گیا۔  سیاست زندگی کا لازمی جز وبن گئی۔  فنی و فکری آزادی اور آزادی ٔ اظہار کی طلب بڑھتی گئی۔  سماجی و معاشی عصری آگہی نے انسان کو مسائل اور ان کے حل کے لیے آمادہ کیا۔  چنانچہ ترقی پسند شعرا کی غزلوں میں ادب برائے زندگی کانظریہ فروغ پانے لگا اور وہ یہ محسوس کرنے لگے کہ انھوں نے غزل کے دامن کو بہت وسعت بخشی ہے حالانکہ اب وہ انھی موضوعات کے حصار میں مقید نظر آنے لگی۔  اس بات کا احساس ترقی پسند شعرا کو ہو گیا، چنانچہ جلد ہی غزل کی وہ فضاجس رومانی انقلاب، لمحاتی و اضطراری کیفیت کی ترجمان تھی، ختم ہو گئی۔  اب ان کی غزل فرد کے گہرے شعور کی نمائندہ بن کر ابھری الفاظ، علامات، استعارے و تشبیہات ہر چند کہ سب نئے نہ تھے بلکہ بیشتر اردو کی کلاسیکی شاعری سے مستعار لیے گئے تھے وہ اپنی نئی معنویت اور تہہ داری کے ساتھ سامنے آئے۔  جذبی ؔ، مجازؔ، فراقؔ، فیضؔ، مجروحؔ، تاباں ؔ، سردارؔ جعفری، جاں ؔ نثار اختر، کیفی ؔاور خورشید اسلام کی غزل اظہار رائے پر قدغن کے باوجود پرانی ہی علامتوں اور استعاروں کے ساتھ اپنے عہد کی نمائندگی کرتی ہے۔  ان کی غزل گہرائی و گیرائی اور وسعت خیال اور جذبے کی آنچ سے مزین ہے۔

قیام پاکستان کے بعد غزل میں عصرِ موجود کی بے چینی اور اضطراب، نئے ملک میں پیدا ہونے والے لامتناہی مسائل، ہجرت کے دکھ، اپنی شناخت کا احساس، ماضی کی بازیافت، حال سے عدم اطمینان اور مستقبل سے متعلق امیدوبیم، خدشات و خواہشات، سحر کاناتمام انتظار، غرض عصری حالات سے عدم اطمینان، انھیں مستقبل سے خوشگوار امیدیں وابستہ کرنے سے روکتا بھی ہے اور ایک اچھے مستقبل کی جھلک دکھاتا بھی ہے۔  ترقی پسند شعراء کی غزل روایتی تصور غزل سے الگ اپنی شناخت کرواتی ہے، جو فرد کی زندگی کے صرف رومانی پہلو کی نشاندہی نہیں کرتی بلکہ اس کی زندگی کے ہر مسئلے کو بیان کرنے کا ہنر بھی جانتی ہے۔

 

ترقی پسند تحریک اور اعتراضات

 

ترقی پسند تحریک نے خالصتاً برصغیر کی مٹی سے جنم نہ لیا تھا۔  اس کے پیش روؤں نے دنیائے ادب میں پیدا ہونے والی دیگر تحریکوں کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اس کا منشور ترتیب دیا تھا۔  یہ ادیب عالمگیر اقتصادی بحران اور ملکی و بین الاقوامی حالات سے واقف تھے۔  انھوں نے انسانیت کے غموں اور مسائل کا احساس کیا اور معاشرتی زبوں حالی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی رفتار پر گہرے دکھ کا اظہار کیا، چنانچہ یہ تحریک جس کا منشور لندن میں مرتب ہوا تھا، بہت جلد برصغیر کے تمام علاقوں تک اور برصغیر کی بیشتر زبانوں تک اس کے اثرات پہنچے، پھر قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں میں ترقی پسند ادیب و شاعر، شعری و ادبی تخلیقات میں اپنے نظریات اور احساسات پیش کرتے رہے۔  اردو بولنے والے دنیا کے جس حصے میں موجود ہیں، ترقی پسند تحریک کے اثرات ان پر واضح ہیں۔  ترقی پسند تحریک ایک باقاعدہ تحریک کی صورت میں اب تو موجود نہیں لیکن اس کے اثرات اب بھی باقی ہیں۔

ترقی پسند تحریک کی تمام تر اہمیت کے باوجود دورِ آغاز سے اب تک اس پر بے انتہا اعتراضات کیے گئے۔

علی سردار جعفری، ترقی پسندتحریک کے ایک اہم رکن ترقی پسندتحریک پر لگائے گئے اس الزام

’’ترقی پسندادیبوں اور شاعروں کے موضوعات پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں اور طے شدہ ادب موضوعات پر اچھا ادب تخلیق نہیں کیا جا سکتا‘‘(۲۸)

کے جواب میں کہتے ہیں کہ دنیا کے ہر عہد کا ادب طے شدہ موضوعات ہی کی تخلیق کرتا ہے۔  مثلاً محبت، طنزو مزاح، رحم، شجاعت، ضبط و غضب، نفرت و حقارت، حیرانی اور جذبہ امن و سکون۔  اردو فارسی کے موضوعات ہی طے شدہ نہیں بلکہ تشبیہات استعارات بھی طے شدہ تھے:

’’اس طرح یہ بات بھی ایک اعتراض کے انداز میں کہی جاتی ہے کہ کوئی تنظیم یا جماعت ایک موضوع دے دیتی اور اس کے حکم کے تحت ترقی پسند ادب تخلیق کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔  مثلاً امن کا موضوع، فرقہ وارانہ فساد کا موضوع، قحط بنگال کا موضوع، جد و جہد کا موضوع اور آزادی کاموضوع وغیرہ۔‘‘(۲۹)

علی سردار جعفری اس الزام کو درست نہیں مانتے ان کے خیال میں دنیا کے بہترین شہ پارے کسی حکم کی تعمیل میں ہی تخلیق کیے گئے ہیں۔

ترقی پسندتحریک پر سب سے بڑا اعتراض یہی کیا جاتا ہے کہ اس نے ہنگامی ادب تخلیق کیا ہے۔  جس کی اہمیت وقتی اور لمحاتی ہے لیکن علی سردار جعفری اس اعتراض کو بھی رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ترقی پسندتحریک کا وہ ادب جو وقتی ضرورت کے تحت لکھا گیا تھا تاریخ کا حصہ ہے اور وہ ادب جو زندہ ہے اور زندہ رہے گا تاریخ ادب کا عظیم کارنامہ ہے اور کوئی استدلال اس کو مٹا نہیں سکتا۔  (۳۰)

ترقی پسندتحریک پر ایک بڑا اعتراض یہ کیا جاتا رہا ہے کہ ترقی پسندافسانہ نگار ہو یا شاعر وہ زندگی کے تاریک پہلوؤں ہی کی طرف توجہ دیتے ہیں۔  ان کے افسانے ہوں یانظمیں وہ اشتعال اور نفرت کے جذبات کو ابھارتی ہیں۔  طوائف کی زندگی کا تذکرہ ہو یا مزدور اور کسان کے شب و روز کا بیان ہو۔  وہ اس کی زندگی کے افلاس، دکھ، بیماری اور تشنہ خواہشات کی تصویر کشی ہیں۔  روشن پہلو، مثبت زاویے اور زندگی کی خوبصورتی کا ذرہ برابر بھی شائبہ نظر نہیں آنے پاتا۔  جس کی بنا پر ہم ترقی پسند ادب کو تعمیری کے بجائے تخریبی ادب سمجھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

ممتاز شیریں ترقی پسند ادب کے عنوان سے ترقی پسند ادیبوں کے ایک عام رجحان کا تذکرہ کرتی ہیں۔  انہیں بھی اسی بات کا دکھ ہے کہ ترقی پسند ادیب شاعر یا سیت و قنوطیت، الجھنوں اور شکوک کا شکار ہے:

’’ترقی پسند ادب کا عام رجحان ہی یہ ہے کہ زندگی اور حقیقت کے چند (زیادہ تر تاریک) پہلوؤں پر خصوصی توجہ کی جا رہی ہے۔  اس میں شک نہیں کہ مقاصد کے حصول کے لیے یہ ایک حد تک ضروری ہے لیکن اس کے معنی یہ بھی نھیں کہ روشن پہلو بالکل نظر انداز کر دیے جائیں۔  ہاں، آج ہمیں اپنے گرد تاریکی اور برائیاں ہی زیادہ نظر آ رہی ہیں۔  نیکی اور روشنی کم ہے لیکن انھیں کم از کم اسی تناسب میں پیش کیا جائے۔  ہمیشہ زندگی اور انسانی کردار کی سیاہ تصویریں پیش کرنے سے زندگی اور انسانی فطرت ہی سے مایوسی ہو جائے گی۔  پھر آنے والے دور کی امید کہاں رہے گی؟ انسان کا فطرت پر سے بھروسا اٹھ جائے تو انسانیت کا مستقبل روشن کیسے نظر آئے گا؟‘‘(۳۱)

ترقی پسند شعراء کی تخلیقات ایک طرف تو انقلاب کا پیغام دیتی ہیں لیکن انقلاب کے لیے جس جوش جذبہ و لولہ اور رجائی نقطۂ نظر کی ضرورت ہے اس کا ان کے کلام میں فقدان ہے۔  یہی وجہ ہے کہ وہ چیختے ہیں، روتے ہیں لیکن مردانہ وار آگے وبڑھنے کی جرأت نہیں رکھتے وہ اندھیروں سے نفرت کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن روشنی کے حصول کا کوئی طریقہ نہیں بتا پاتے۔

ترقی پسند ادیب و شاعر پر ایک بڑا اعتراض زندگی اور حقیقت کی عریاں تصویر کشی کی بناپر کیا جاتا ہے۔  فحاشی، عریانی، جنس ان کی انقلابی شاعری کے اہم موضوعات ہیں:

’’….. بعض تو ایسا معلوم ہوتا ہے سیکس کو فیشن سمجھ کر خواہ مخواہ عریاں حقیقتوں کو اجاگر کر تے ہیں، بعض عریاں نگاری کو اپنی جرأت کا اظہار سمجھتے ہیں یا محض ضد اور بغاوت….‘‘(۳۲)

ترقی پسندتحریک پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس کی بنیاد تو مزدور اور کسان کے محنت کش اور جد و جہد کے عادی جسم پر رکھی گئی لیکن اس کی ترویج و تبلیغ کرنے والے محنت کی مشقت اور بھوک کی اذیت اور زندگی کے مصائب سے آگاہ نہ تھے۔

وہ باتیں انقلاب کی کرتے ہیں لیکن انھیں اس مشقت و محنت کا اندازہ ہی نہیں ہے جو انقلاب کے لیے ضروری ہے۔  تن آسانی اور آرام طلبی کی عادت ان کی رگوں میں سرایت کر چکی ہے۔  ان کا نچلے طبقے کے مسائل سے اور ان کی جد و جہد سے کوئی تعلق نہیں۔  زندگی کسی اور طرح گزارنے والے اور شعر میں عوام کے دکھوں پر واویلا مچانے والے شاعر کی تخلیق بالعموم درد سے تہی رہی۔  قول و فعل کے تضاد نے ان کے کلام کو اثر سے خالی رکھا۔  ڈاکٹر عبادت بریلوی، اُردو ادب کی ترقی پسندتحریک، ایک جائزہ جریدہ نقوش میں اسی اعتراض کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’ ’ اس طرح کے ادیب اگرچہ انقلاب کے خواب دیکھتے ہیں لیکن خو داپنی ذہنیتوں میں انقلاب پیدا نہیں کرتے۔  ان لوگوں کی ذہنیتیں بورژداہیں۔  بورژدا تہذیب کلچر اور مذاق اور عادت و اطوار کا علمبردار وہ متوسط طبقہ ہے، جس سے ان ادیبوں کا تعلق ہے۔  انقلاب کی طرف وہ جذبات کے راستے سے پہنچتے ہیں۔  اگر اس سلسلے میں وہ عقل کاسہارا لیتے تو اپنے ذہنوں میں انقلاب کو ضروری سمجھتے ،ا یسا نہیں ہوا… وہ خود محنت کرنا نہیں چاہتے۔  وہ تن آسان اور تعیش پسند ہوتے ہیں دوسروں کو نقصان پہنچا کر اپنا الو سیدھا کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔  وہ حقیقت سے دور خیال دنیا میں بسیرا لیتے ہیں۔  ہمارے اکثر ترقی پسند ادیبوں کے کردار میں یہی خصوصیات ہیں۔‘‘(۳۳)

ترقی پسندتحریک کا تعلق بعض اوقات ادب سے زیادہ سیاست سے معلوم ہوتا ہے۔  ادب میں ترقی پسند رجحانات، سیاسی جد و جہد آزادی کے نتیجے میں جنم لیتے محسوس ہوتے ہیں سرخ سویرا، حریری پرچم، آنچل کو پرچم بنا لینے پر اصرار اور دنیا کے معاشی سیاسی اور سماجی نظام کو بدل ڈالنے کے نعرے ترقی پسند نظریاتی شاعری کے خاص موضوعات ہیں۔  ان شعرا میں سے بیشتر نے اپنے فن کو اشتراکیت کے مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنایا۔  انقلاب اور نئی سحر کے ترانے سنانے کے ساتھ اردو شاعری کے مرکزی کردار یعنی عاشق کو رد کر کے مزدور کو ہیرو کے روپ میں پیش کیا۔  اس کی محنت کی عظمت کے گیت گائے:

’’اس کے کچھ عرصے بعد ہی ترقی پسندتحریک کا رجحان ہنگامی سیاست کی طرف ہو گیا اور اب شعر کا معیار مسلک کی صحت کو قرار دیا جانے لگا۔  شاعری سیاست کی نظر ہو گئی اور ادب کو سیاسی پروپیگنڈے کا آلۂ کار سمجھا جانے لگا۔  نظمیں صرف اپنے نفس مضمون کی سیاسی اہمیت کی بنا پر جانچی اور تولی جانے لگیں۔  انداز بیان اور جمالیاتی حسن تو درکنار شاعری کے ابتدائی ضابطوں کو بھی نظر اندار کیا جانے لگا اور اس سیاسی بلکہ صحافتی افادیت کو سماجی شعور کا نام دیا گیا۔  اس سے شاعری میں بے رنگی یکسانیت اور سطحیت پیدا ہو گئی اور یہ تحریک ادبی کی بجائے سیاسی تحریک ہو کر رہ گئی‘‘(۳۴)

ترقی پسندتحریک پر موضوعات کے حوالے سے بے انتہا اعتراضات ہوئے لیکن فنی پہلوؤں پر بھی اسلوب اور انداز کو پسندیدہ قرار نہیں دیا گیا چونکہ تمام ترقی پسند شاعری بیانیہ اور خطابیہ ہے۔  ہر چند کہ شعراء نے قدیم کلاسیکی علامات، تشبیہات و استعارات کو نئی معنویت دی۔  کچھ نئے علامتی مفاہیم بھی اجاگر کیے لیکن ان کی تکرار نے تاثیر میں اضافہ کرنے کے بجائے منفی اثر پیدا کیا۔  ترقی پسند شاعری، افادی ادب کا حصہ تھی۔  چنانچہ شاعری میں منطقی انداز اور سطحی بیانی اسلوب کے فروغ نے شعری ذوق کو نقصان پہنچایا یوں بھی کہا جانے لگا کہ جو کام نثر کی ذمہ داری تھی اور وہ اس ذمہ داری کو بہ حسن و خوبی انجام دے سکتی تھی۔  شاعری کے سپرد کر دی گئی یوں شاعری نثر سے قریب تر ہو کر اپنا ترنم اور لے، اپنی کو ملتا کھوتی چلی گئی۔

’’اردو شاعری پر ایک نظر‘‘ میں کلیم الدین احمد لکھتے ہیں:

’’شاعری کے فنی پہلو پر بھی ترقی پسند شعرا زیادہ توجہ نہیں کرتے۔  یوں کہتے تو ہیں کہ نظم میں فن کے اعتبار سے بھونڈاپن نہ رہ جائے۔  اس لیے شاعر کو پورے سازوسامان سے کام لینا چاہیے لیکن اس پر دھیان نہیں دیتے۔  وہ صرف موضوع کو دیکھتے ہیں۔  تکنیک کو نہیں دیکھتے۔  نئی چیزوں کو داخل کرنا ان کے لیے کافی ہے وہ نہیں جانتے کہ تجربوں اور ان کے اظہار میں ناگزیر ربط ہے۔  شاعری ایک فن ہے اور اگر اس کی فنی حیثیت سے غفلت برتی جائے تو کامیابی نا ممکن نہیں تو دشوار ضرور ہو جائے گی۔‘‘(۳۵)

اردو ادب کی ایک ایسی تحریک جو بڑے زور شور سے اٹھی جسے اپنے عہد کے تخلیق کاروں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور جس سے وابستہ ہو کر خود کو ترقی پسند کہلانے میں فخر محسوس کیا۔  ایک مختصر عرصہ (۱۹۳۶ء تا ۱۹۵۳ء) کہ اس سال منعقد ہونے والی ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس کے بعد یہ تحریک عملی طور پر ختم ہو گئی۔  ترقی پسندتحریک پر اعتراضات کا سلسلہ تو اس کے قیام کے ابتدائی روز سے ہی ہو گیا تھا۔  اس کی ناکامی کی وجوہ بھی چند ایک نہیں بلکہ کئی تھیں۔  ڈاکٹر وقار احمد رضوی اس کے ادب میں ناکام ہو جانے کی وجوہ مختصراً یوں بیان کرتے ہیں:

’’در اصل اس تحریک کی سب سے بڑی خامی نعرہ اور ادب کے فرق کا فقدان تھا۔  دوسرے کم علمی اور تیسرے شدت چوتھا سبب یہ تھا کہ ترقی پسندوں کا کعبہ روس تھا۔  ان کی ترقی پسندی روشی اشتراکی ادب کی سستی نقل سے آگے نہ بڑھی۔  ان وجوہ سے ترقی پسند تحریک ناکام رہی۔  اس تحریک پر اشتراکیت کی چھاپ تھی جس سے ادب پروپیگنڈا بن گیا۔  دوسرے اس کے زوال کا سبب ماضی سے انحراف تھا۔  ترقی پسندتحریک کے زوال کا ایک اور سبب ان کے تخلیقی ادب میں جنس کا کھلم کھلا اظہار تھا، جس سے ترقی پسند ادب پر فحاشی اور عریانی کا لیبل لگا۔  ترقی پسندتحریک کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب ادعائیت یا اس کی آمرانہ پالیسی تھی۔  سجاد ظہیر اس تحریک کے سب سے بڑے آمر تھے۔  وہ جس کو چاہتے جماعت سے خارج کر دیتے۔  ….. مذہب سے بیزاری کا اس تحریک میں دخل یہ تھا کہ ان لوگوں کو فطرتاً مذہب سے لگاؤ نہ تھا۔  دوسرے ان کی پرورش غیر مذہبی ماحول میں ہوئی تھی۔  تیسرے یہ کہ اس تحریک کے بیشتر افراد کی تعلیم مغرب میں ہوئی تھی اور ان کے ذہن و دماغ پر مغربی فکر خاص طور پر مارکس کا اثر تھا۔  مذہب سے بیگانگی کا نتیجہ یہ رہا کہ اس تحریک میں آفاقیت نہیں آ سکی….. ترقی پسند تحریک کی شدت یہ تھی کہ ادیب کے لیے کمیونسٹ ہوناضروری ہے ….. ترقی پسندوں کا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے اس نظریے کو اپنی دھرتی کی خوشبو اور سماجی رویوں کے حوالے سے دکھانے کی کوشش نہیں کی۔  وہ رہتے ہندوستان پاکستان میں تھے اور بات کرتے تھے روس اور انگلستان کی۔  ۱۹۴۷ء سے قبل ترقی پسندوں نے تحریک آزادی میں قلمی حصہ لیا حصول آزادی کے بعد یہ مقصد ختم ہو گیا اس لیے یہ تحریک بھی پھیکی پڑ گئی۔‘‘(۳۶)

یہ درست سہی کہ مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کے قیام کی کوشش میں ترقی پسند ادیب بھی کوشاں رہے اور جب وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو گئے تو تحریک کا جوش و خروش بھی مدھم ہوتا گیا، پھر پاکستان میں متوسط طبقہ اور غریب متوسط طبقہ (کہ ادب کا تعلق بھی عموماً انہی طبقات سے تھا) پر جاگیر داروں سرمایہ داروں، زمینداروں اور وڈیروں کا بڑا اثر تھا عنان حکومت بھی انھی کے ہاتھ آئی ملک کو احتجاج و مزاحمت کی فضا سے پاک رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ ادبا اور دانشوروں کے قلم کو بے قابونہ ہونے دیا جائے۔  ادیبوں کے نمائندہ سر کردہ افراد حکومتی ارکان میں شامل کیے گئے اور ادیبوں کی فلاح کے لیے ایک ادارہ رائٹرز گلڈ کی صورت میں تشکیل دیا گیا۔  دوسری طرف ترقی پسند مصنفین کو ایک سیاسی جماعت قرار دے دیا گیا۔  پھر اس پر پابندی بھی عائد کر دی گئی۔  ترقی پسند ادیبوں پر کڑی نگاہ رکھی جانے لگی۔  ان ادیبوں کے کردہ نا کردہ ’’جرائم‘‘ کی پاداش میں انھیں پسِ زنداں رکھا گیا ترقی پسند ادیب حالات سے بد دل ہو کر یا خاموش ہو گئے یا پھر وقت کا تقاضا سمجھتے ہوئے گلڈ میں شامل ہو کر اسی فضا کاحصہ بن گئے اور ترقی پسند تحریک جو اپنی ابتدا کے روزاول سے ہی اعتراضات کا نشانہ بنی رہی، آخر کار سیاست کاشکار ہو گئی۔

 

حلقۂ اربابِ ذوق

 

ترقی پسندتحریک کے متوازی ۱۹۳۹ ء میں ایک اور تحریک ’’بزم افسانہ گو یاں‘‘ کے نام سے وجود میں آئی جوبعد ازاں ’’حلقۂ اربابِ ذوق‘‘کے نام سے متعلق متعارف ہوئی۔  اس کی ابتدا سے متعلق تفصیل، باب اول میں رقم ہے۔  ’’حلقۂ اربابِ ذوق‘‘ عہدِ موجود کی ادبی صورتِ حال پر کس طرح اثر انداز ہوا، مختصراً تحریر ہے۔

حلقے کا دائرہ کار وسیع ہوا۔  افسانوں کے ساتھ ساتھ شاعری اور تنقیدی مضامین بھی پیش کئے جانے لگے شاعر و ادیب بہت جوش و خروش سے اس بحث میں حصہ لیتے۔  تخلیق کار کو اپنی اور اپنی تخلیق کی مدافعت اور ناقدین کے اعتراضات کا جواب دینے کی اجازت نہ تھی۔  وہ وسیع النظری اور وسیع القلبی سے تمام تنقید سنتا اور اعتراضات پر غور کر کے اپنی آئندہ تحریر کو ان اسقام سے پاک کرنے کی کوشش کرتا۔  حلقے کے مقاصد اب تک متعین نہیں کیے گئے تھے۔  صرف ادب کی تخلیق ہی اس کا مطمع نظر تھی، چنانچہ اس کے مقاصد بھی متعین کیے گئے، جس کے تحت اردو زبان و ادب کی تعلیم و ترویج اور اشاعت پر زور دیا گیا، نوجوان تخلیق کاروں کی تخلیقات کو متعارف کروانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔  اردو زبان کے ادیبوں کے حقوق کو تسلیم کروانے پر زور دیا گیا۔  ایک اہم بات یہ کہ اردو کا تنقیدی ادب جو عموماً واہ وا اور بہت خوب تک محدود تھا، اس میں سچائی، خلوص اور بے تکلفی سے اپنی بے لاگ رائے کا اظہار کرنا، پھر اردو زبان و ادب کے لیے فضا کو سازگار بنانا۔  حلقۂ اربابِ ذوق نے ان مقاصد کی تکمیل کے لیے کام کا آغاز کر دیا۔  دوسری طرف ترقی پسندتحریک میں اس وقت اردو ادب کے تقریباً تمام اہم اور معتبر نام شامل تھے۔  حلقے کا ان حالات میں اپنے قدم جما لینا معمولی بات نہ تھی۔  اردو ادب کے کئی اہم ناموں میں جن میں اکثریت ترقی پسندتحریک سے تعلق رکھنے وا لے ادیبوں کی بھی تھی، بطور صدر یا بطور تخلیق کار یا بطور سامع حلقے کے اجلاسوں میں شرکت کی۔  ان میں راجندرسنگھ بیدی، ادیندر ناتھ اشک، مہندرناتھ، کرشن چندر، ڈاکٹر محمد باقر، اختر شیرانی، قیوم نظر، میرا جی، صفدر میر، الطاف گوہر، ہری چند اختر، پروفیسر حمید احمد خان، سید عابد علی عابد، تابش صدیقی جیسے ممتاز شاعر، ادیب اور تنقید نگار شامل ہوئے۔  حلقۂ اربابِ ذوق کے اجلاسوں نے تخلیق کاروں کو متحرک کیا۔  عموماً تخلیق کار سست روی سے کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔  ان ہفتہ وار اجلاس کی بنا پر وہ فعال ہوئے، پھر حلقے کے شاعر اور ادیب کسی مخصوص نظریات کے پابند نہ ہونے کے باعث کھلے ذہن سے لکھتے تھے۔  انھیں خود پر یہ پابندی کبھی عائد نہ کرنا پڑی کہ کیا لکھنا ہے اور کیا نہیں لکھنا۔  وہ جو دیکھتے یا محسوس کر تے لکھ کر حلقے میں تنقید کے لیے پیش کر دیتے۔  حلقے میں اسلوبیاتی اور موضوعاتی ہر دو اعتبار سے بحث و تنقید کا آغاز ہوتا۔  بعض حاضرین البتہ اس بات کا گلہ کرتے کہ موضوع کی بجائے اسلوب یا فن پر زیادہ توجہ کی جاتی ہے۔  بہرحال اس تنقید کی مدد سے تخلیق کار آئندہ کے لیے رہنمائی حاصل کرتا۔

ان تخلیق کاروں میں میرا جی کی شخصیت بہت اہمیت کی حامل ہے۔  خصوصاً ً اس وقت جب فیض احمد فیض، عبادت بریلوی، سید وقار عظیم اور ظہیر کاشمیری وغیرہ حلقے کے نقطۂ نظر اور اس کی کارگزاری سے غیر مطمئن ہو کر حلقے سے علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں، میراجی کی شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے۔  میرا جی کے ہمرا ن۔  م۔  راشد بھی حلقے کے اہم ارکان میں شامل تھے۔  ان دونوں نے اپنے عہد کی مشہور ترقی پسندتحریک سے کوئی اثر قبول نہ کیا۔  مارکس اور مارکسیت سے انہیں کوئی سروکار نہ تھا۔  ان کا رجحان مغربی ادب اور اس میں شروع ہونے والی مختلف شعری تحریکیوں کی طرف تھا۔  وہ نہ صرف ان کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے بلکہ ان سے متاثر بھی تھے اور یہ اثرات ان کی شاعری پر بآسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔

چنانچہ سمبل ازم، سریلزم، رومینٹزم اور ریلزم کے متفرق اثرات ان کی شاعری میں جا بجا نظر آتے ہیں۔  میرا جی اور ن۔  م۔  راشد نے فرانسیسی شاعر ملارمے اور بودلیئر سے واضح اثر قبول کیا۔  ان کی شاعری ابہام، اشاریت اور رمزیت کا مجموعہ نظر آتی ہے۔  ان کے خیال میں کسی بات کو واضح طور سے بیان کر دینے سے تاثر میں کمی آ جاتی ہے۔  راشد اور میرا جی دونوں ہی ابہام و اشاریت کی انتہائی حد تک پہنچ گئے۔  جہاں مفہوم ایک عام قاری بلکہ خاص قاری کی گرفت میں بھی نہیں آ سکا۔  جنس کو زیادہ موضوع بنایا گیا۔  فرائیڈ کے نظریۂ جنس سے متاثر ہو کرکہی گئیں ان نظموں سے حلقے کے دیگر شعراء کا متاثر ہو جانا بعید از قیاس نہ تھا چنانچہ یوسف ظفر، مختار صدیقی اور قیوم نظر پر بھی اس کے کچھ اثرات نظر آتے ہیں۔  راشد اور میرا جی ابہام اور جنسیت کے گرداب سے باہر نہیں نکل پائے۔  یوں دونوں ہی کی شاعری اپنے نظریات میں انتہا پسند ہونے کے باعث وہ مقام حاصل نہ کر سکی جو اس کا حق تھا۔  میرا جی کی تمام تر توجہ نظم آزاد اور نظم معریٰ کی طرف مرکوز رہی۔  ان رجحانات کے باعث کچھ عرصہ تک ’’غزل‘ ‘ کے لیے سازگار ماحول فراہم نہ ہو سکا، لیکن یہ رجحان زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکا اور حلقے کے شاعر غزل کی ایمائیت اور اس کی ضرورت سے انکار نہ کر سکے۔  یوسف ظفرؔ قیوم نظرؔ، ضیاؔ جالندھری، انجم ؔرومانی، شہزادؔ احمد، شہرت ؔبخاری اور ناصرؔکاظمی نے اس دور میں جبکہ نظم اپنے تمام تر مغربی اثرات کے ساتھ اپنے قدم جما چکی تھی، اردو غزل کی تجدید کی۔  ہیت و فنی اعتبار سے غزل کا رشتہ قدیم کلاسیکی غزل سے جا ملتا ہے، لیکن موضوعات کا تعلق روایت سے ہوتے ہوئے بھی ایک نئی جہت پیش کرتا ہے۔  اپنے عہد کے مسائل، دکھ، ضروریات اور گرد و پیش کی زندگی کی پیش کش ان کی غزل کے موضوعات ہیں۔  علائم ورموز، استعارے اور تشبیہوں میں نیا پن غزل کو جدید عہد سے ہم آہنگ کرنے میں معاون ہوا۔  اس عہد کی غزلیں فنی و موضوعاتی اعتبار سے روایتی شاعری سے انحراف نہ کرتے ہوئے بھی جدیدیت سے ہمکنار نظر آتی ہیں۔  اس عہد کی غزل گیت سے قریب تر ہوئی۔  فارسی و عربی اور اردو کے مشکل اور ثقیل الفاظ غزل سے دور ہوئے۔  سادہ زبان، مختصر بحریں اور آسان الفاظ کے استعمال نے غزل کو سہل متمع بنا دیا۔  ترقی پسندتحریک نے ماضی کی روایت سے رشتہ یکسر منقطع کر لیا تھا۔  حلقے کے غزل گو شعراء نے ماضی کے دفینے سے فائدہ اٹھایا۔  ان کی شاعری میں جدید حالات کا عکس بھی ہے اور قدیم روایات و اساطیر کے حوالے بھی ہیں۔

حلقۂ اربابِ ذوق نے منتخب تخلیقات کی اشاعت کاسلسلہ بھی شروع کیا جس میں سال بھر میں شائع ہونے والی منتخب منظومات شائع کی جاتیں۔  جس سے اس عہد کی شاعری کی سمت اور رفتار کا اندازہ ہو سکتا ہے۔  پھر حلقہ اربابِ ذوق کا اپنا مرتب کردہ مجموعہ ’’نئی تحریریں‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آیا۔  اس کے تخلیق کار آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کر سکتے تھے۔  اس میں مغربی ادب کے تراجم اور نظریاتی مضامین بھی شائع ہوتے رہے۔  یوں حلقہ اپنی پہچان اور واضح کرتا گیا۔

’’نئی تحریریں‘‘ تک آتے آتے حلقے کی حیثیت ایک انجمن سے بڑھ کر یقیناً ایک ادارے کی سی ہو گئی۔  یہ ادارہ گزشتہ پندرہ سولہ برس سے اردو ادب کی خدمت بجا لا رہا تھا، جبکہ دوسری تحریکیوں کے پاس بڑے بڑے خوش آئند نعرے اور شہرت بخشنے والے طریقے موجود تھے کہ نئے ادیبوں کا ان سے متاثر ہونالازمی تھا، مگر حلقہ اربابِ ذوق نے وقتی ستائش سے بے نیاز ہو کر فن کی لگن کو اپنا مطمع نظر بنایا۔  اردو ادب کی حقیقی قدروں کاکچھ اس طرح ساتھ دیا کہ اعلیٰ درجے کے ادب پارے تخلیق ہوئے۔  یہ اس لیے تھا کہ یہی وہ جماعت تھی جس نے خالصتاً ادب ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا‘‘(۳۷)

’’نئی تحریریں‘‘ کے اجرا کا مقصد یہی تھا کہ حلقے سے تعلق رکھنے والے ادبا اور شعرا کی تخلیقات صرف حلقے کی نشستوں تک ہی محدود نہ رہیں بلکہ یکجا ہو کر اہلِ ذوق کے سامنے آ سکیں۔  چنانچہ اس پرچے میں حلقے میں پڑھے جا نے والے تنقیدی مضامین، مغربی ادب سے شعر پاروں اور نثرپاروں کے تراجم اور دیگر تخلیقات شامل تھیں۔  نئی تحریریں، نے ایک قاری ہی کی توجہ اپنی جانب مبذول نہیں کروائی۔  بلکہ بڑے نام اسے نظر انداز نہ کر سکے۔  خواہ تعریف میں چاہے اعتراضات کے تحت، بہرحال اچھی تنقید نئی تحریریں کے لیے قابل قبول تھی:

’’…. مجھے جو چیز اس میں نظر نہیں آئی وہ تجربے کی روح ہے حالانکہ حلقے کی خاص چیز یہی تھی۔  آج کل کے زمانے میں حلقے کو چاہیے تھا کہ اچھی اور معیاری چیزوں کی فکر میں پڑنے کے بجائے تجرباتی چیزیں شائع کی جاتیں۔  چاہے یہ تجربے مہمل اور احمقانہ ہی کیوں نہ ہوتے۔  اچھی چیزیں تو افراد اپنے آپ بھی لکھ لیتے ہیں۔  تجربے کرنے کے لیے کسی جماعت کی ضرورت پڑتی ہے۔  کم سے کم عام ادیبوں کو تو پڑتی ہے۔  مجھے تو حلقے سے بس یہ شکایت ہے کہ ایسا رسالہ کیوں نکال رہے ہیں جیسے اور بھی نکل رہے ہیں۔‘‘(۳۸)

بہترین نظموں کے انتخاب کے ساتھ ساتھ حلقے نے بہترین مقالات کا انتخاب بھی شائع کیا۔  اس میں صرف حلقے میں پڑھے جانے والے مقالات شائع نہیں کیے جاتے تھے بلکہ سال بھر میں شائع ہونے والے بہترین مقالات کا انتخاب کیا جاتا تھا۔

اردو کے اہم افسانہ نگار منٹو بھی قیام پاکستان کے بعد حلقہ کے اجلاس میں شرکت کرنے لگے۔  یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جس نشست میں منٹو کے افسانہ پڑھنے کا اعلان کیا گیا ہوتا۔  اس روز کی تعداد بڑھ جاتی۔  منٹو نے ۱۹۵۰ء سے ۱۹۵۴ء تک کے حلقے کے جلسوں میں شرکت کی اور اپنے بہترین افسانے جو بعد میں مشہور بھی ہوئے، یہیں پیش کیے۔

حلقے کا پہلا باقاعدہ الیکشن حلقے کے لیے زیادہ خوشگوار ثابت نہ ہوا۔  انتظار حسین ۱۹۶۲ء میں حلقے کے سیکرٹری نامزد کیے گئے تھے۔  ان کے سیکرٹری شپ کے زمانے میں حلقے میں بہترین کہانیاں اور بہترین شاعری تنقید کے لیے پیش کی جاتی رہی تھی۔  حلقہ، تخلیقی ادب کے سلسلے میں ایک فعال کردار ادا کر رہا تھا۔  انتظار حسین کی خدمات کے پیش نظر سوچا جا رہا تھا کہ انتظار حسین کو بلامقابلہ آئندہ کے لیے بھی سیکرٹری شپ تفویض کر دی جائے کہ حلقے کے ایک قدیمی رکن قیوم نظر جو کسی رنجش کی بناپر ان دنوں حلقے سے کنارہ کش ہو چکے تھے۔  اٹھ کھڑے ہوئے۔  حلقے کے الیکشن کا ا علان ہوا اور الیکشن کے روز خاصی گہما گہمی رہی۔  نتیجہ نکلا تو انتظار حسین منتخب ہو گئے۔  ردِعمل کے طور پر قیوم نظر، امجد الطاف، ریاض احمد اور ان کے کچھ اور ساتھیوں نے حلقے سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔

تقریباً دس برس بعد ۱۹۷۲ء میں پھر ایک مرتبہ ایسی صورت حال پیش آئی جو زیادہ شدید تھی اور جو حلقے کو دو حصوں میں منقسم کر گئی۔  ان دونوں حلقوں نے اپنے نام میں شناخت کے لیے سیاسی اور ادبی کا اضافہ کر لیا۔  در اصل حلقے میں ایک عرصے سے دو مختلف رویے سامنے آ رہے تھے۔  ایک گروہ ادب برائے ادب کا قائل تھا۔  دوسرا گ روپ ادب میں سیاسی نقطۂ نگاہ واضح رکھتا تھا۔  ادبی گروہ سیاست کابالکل ہی مخالف نہ تھا لیکن وہ سیاست کو ادب پر حاوی نہیں ہونے دینا چاہتا تھا، پھر حلقے کی روایت بھی یہی تھی کہ ہر قسم کا موضوع خواہ وہ زندگی کے کسی پہلو یا شعبہ سے تعلق رکھتا ہو، ادب ہی کے حوالے سے پیش کیا جائے، لیکن جب ایسا نہ ہو سکا تو انھوں نے جن میں انتظار حسین، شہرت بخاری اور انجم رومانی سرفہرست ہیں، حلقے سے علیحدگی اختیار کر کے اپنا حلقۂ اربابِ ذوق (ادبی) کے نام سے تشکیل دیا۔

اس تقسیم کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دونوں حلقوں کے شاعر اور ادیب اپنے اپنے حلقے میں مصروف عمل ہو جاتے اور آزادی کے ساتھ تخلیقی قوتوں کو استعمال کر کے بہترین ادب پیش کرتے، لیکن ایسا نہ ہوا۔  انہوں نے اپنی تخلیقی توانائیاں ایک دوسرے پر نکتہ چینی کرنے اور اعتراضات کرنے میں صرف کیں اور وہ زبان استعمال کی جو ان کے شایان شان نہ تھی۔  ترقی پسند ادیبوں کی آمد کے علاوہ کچھ اور محرکات بھی تھے کہ جنھوں نے حلقے کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزارا اور یہ محرکات آپس کے نہایت معمولی اختلافات تھے، جنھیں نظر انداز کیا جا سکتا تھا، پھر بعض سنجیدہ ادیبوں کی طرف سے ان حلقوں کو ایک بار پھر متحد کرنے کی کوششیں کی گئیں جو ناکام رہیں۔

اب کئی حلقے، حلقۂ اربابِ ذوق کے تحت ایک ہی وقت میں مختلف مقامات پر، مختلف ادیبوں کی سرگردگی میں اپنی ہفتہ وار نشستیں منعقد کر رہے ہیں۔

 

تحریکِ اقبال

 

برِصغیر پاک و ہند میں انیسویں صدی کی آخری دہائیاں اس لحاظ سے بہت اہم ثابت ہوئیں کہ ان میں ایسی شخصیات کا ظہور ہوا، جنھیں تاریخ ساز کہا جا سکتا ہے اور انھی کی جد و جہد اور مسلسل کوشش کی بنا پر مسلمان جو پچھلی ڈیڑھ صدی سے سیاسی اور اقتصادی، سماجی و تعلیمی، غرض ہرلحاظ سے پس ماندہ تھے وہ تعلیم کے فقدان کے باعث اور حالات کی ستم ظریفیوں کی بنا پر قوتِ فکر اور عمل دونوں سے تہی معلوم ہو رہے تھے۔  وہ خواب غفلت میں ڈوبی اس قوم کو بیدار کرنے کی سعی کرنے لگے اور عوام میں اپنے تشخص اور ملک و ملت کی پہچان کے لیے کوشاں ہوئے۔  ان شخصیات میں سب سے اہم اور نمایاں شخصیت اقبال کی ہے۔  اقبال کی شاعری نے اس وقت جنم لیا جب برصغیر کی فضا مختلف النوع آوازوں سے گونج رہی تھی۔  انحطاط پسند اور زوال آمادہ مسلم قومیت کی ترقی اور اصلاح کے لیے کئی تحریکیں سرگرم عمل تھیں اس سلسلے میں دو تحریکیں زیادہ فعال اور نمایاں ثابت ہوئیں۔  ایک تو قدیم نظریات کے مطابق مذہب کے تحفظ کی تحریکیں، اس سلسلے میں دیوبند اور ندوۃ العلماء کی خدمات سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔  دوسری تحریک عصر موجود میں زمانے کا ساتھ دیتے ہوئے جدید مغربی علوم کا حصول اور مذہب کی اپنے عہد کے ساتھ مناسبت اور مذہب کی توضیح پیش کرنے کی تحریک یعنی سر سید تحریک۔  اس کے علاوہ ایک تحریک اور بھی تھی۔  یعنی جمال الدین افغانی کی تحریک کہ جس نے اتحاد بین المسلمین کے لیے بے انتہا کوششیں کیں۔  اس تحریک سے مسلم اہلِ ہند بھی متاثر ہوئے۔  اتحاد اسلامی کی اس تحریک سے مولانا محمد علی جوہرؔ، مولانا شوکت علیؔ، ابو الکلام آزادؔ، ظفرؔ علی خان اور اقبالؔ کا متاثر ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔

اقبالؔ اردو کے وسیع المطالعہ شاعر تھے۔  ان کی شاعری کا آہنگ اور مختلف رجحانات میلانات کا موجود ہونا اس بات کی دلیل ہے۔  انھوں نے اردو شعر و ادب سے ہی استفادہ نہ کیا بلکہ فارسی ادب میں انوریؔ، نظامیؔ، قآنیؔ، صائبؔ، طالبؔ آملی، غنیؔ کاشمیری، فیضیؔ، بو علی قلندر کے اشعار کی تضمین کی ہے۔  رومیؔ، سعدیؔ، حافظؔ، عرفیؔ، بیدلؔ، نظیریؔ، عراقیؔ، جامیؔ، فغانیؔ اور وحشیؔ سبھی سے فیض حاصل کیا۔

اردو شاعری میں وہ غالبؔ سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں اور بار بار انھوں نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے کہ غالب ہی وہ واحد ہستی ہیں کہ جن کے اشعار نے مسلمانانِ ہند کے ادبی سرمائے میں گراں قدر اضافہ کیا ہے:

’’پیام مشرق‘‘ میں مرزا غالبِ کو رومیؔ، بائرن اور براؤننگ کی صف میں ایک منفرد مقام دیا ہے۔  یہ عقیدت مندی آخری دور کے کلام میں بھی موجود ہے۔  ’’جاوید نامہ‘‘ میں غالب کو ان مضطرب روحوں کے ساتھ دکھایا گیا ہے جو مقام کی پابند نہیں ہو سکتیں اور جن کے سوزِدوام نے انھیں گردشِ جاوداں کا خوگر بنا دیا ہے (۳۹)

بانگِ درا کی نظم ’’مرزا غالبؔ‘‘ میں اقبالؔ نے غالبؔ کے اس وصف کی طرف اشارہ کیا ہے کہ انھیں خالق نے وہ تخیل عطا فرمایا ہے کہ جس پر سبھی حیران ہیں۔

غالب ؔ اور اقبالؔ دونوں جدت پسند تھے۔  دونوں نے فارسی میں بھی شاعری کی۔  دونوں ہی انسان کی عظمت کے قائل ہیں۔  دونوں میں ہی تلاش و تحقیق و جستجو کی خواہش بہت تیز تھی۔  یوں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اقبالؔ نے غالبؔ کے فن کو آگے بڑھایا۔  اپنے علم، وسیع مطالعہ، ژرف نگاہی، عقل و شعور اور انسانی نفسیات کی موشگافیوں کے دلیرانہ اور بے باکانہ، حق و صداقت سے لبریز اظہار کے ذریعے اسے وسعت بھی دی۔

علامہ اقبالؔ نے بانگِ درا سے لے کر جاوید نامہ تک میں خود غالب کا ذکر بہت محبت و احترام کے ساتھ کیا ہے، لیکن اس سے یہ تصور کر لینا کہ اقبالؔ، غالبؔ کی صدائے بازگشت ہیں۔  درست نہیں کیونکہ غالبؔ کی شاعری میں فلسفیانہ آہنگ تو مل جاتا ہے لیکن وہ فلسفی نہیں ہیں، نہ ہی کسی مخصوص نظام فکر یا فلسفۂ حیات کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ اس کے برعکس اقبالؔ کی شاعری میں مربوط فلسفۂ کائنات اور ایک مخصوص پیغامِ زیست نظر آتا ہے۔  بہرحال ہر دو شاعروں کے، اردو شاعری پر جو احسانات ہیں انھیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

پروفیسر وقار عظیم لکھتے ہیں:

’’اگر غالبؔ نے اردو شاعری کو ذہن دیا تو اقبالؔ نے اسے وحدت فکر اور ذوق یقین دیا۔‘‘(۴۰)

اقبالؔ اردو وفارسی کی کلاسیکی شاعری سے متاثر اور مغرب کے جدید شعری روّیوں سے پوری طرح آگاہ تھے۔  ان کی جڑیں اپنی زمین میں پیوست تھیں۔  وہ ہوا پر قدم جمانے کی کوشش نہیں کر رہے تھے بلکہ روایت کا گہرا شعور ان کی روح اور شاعری میں رچابسا تھا۔  خود اقبال بیسویں صدی کے شا عر تھے اور بیسویں صدی کے طلوع ہوتے سورج نے بہت سی تحریکیوں کو جنم لیتے دیکھا۔  سب سے نمایاں تو وہی سرسید احمد خاں، حا لی ؔ و شبلیؔ کی اصلاحی و مقصدی تحریک تھی۔  دوسرے اکبر ؔالہ آبادی کی شاعری بھی ایک تحریک کی صورت میں ابھری جو سرسید تحریک کا رد عمل تھی۔  بہرحال اقبالؔ کی ابتدائی شاعری پر شبلی حالی اور اکبر کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔  ۱۹۰۰ء سے ۱۹۰۵ء تک اقبالؔ نے مغربی شاعری سے بھی اثر قبول کیا اور مناظر فطرت کی تصویر کشی کی طرف متوجہ رہے۔  یہی دور ہے کہ جب آزاد ؔو حالیؔ اور شبلیؔ و اسمٰعیل میرٹھی کی منظر نگاری کی جھلک اقبال ؔکی شاعری میں بھی نظر آتی ہے لیکن حالیؔ کی مقصدیت زیادہ واضح ہے اور اسی چیز نے شعری حسن کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔  حالی ؔنے معنی کو اسلوب پر ہمیشہ فوقیت دی۔  اقبالؔ کی شاعری سے بھی مقصد کو الگ نہیں کیا جا سکتا لیکن مطالعہ وسیع ہونے کی بنا پر اور خدا داد صلاحیت کی وجہ سے انھیں اس مسئلے سے دو چار نہ ہونا پڑا۔  اقبال ؔکی شاعری نظم کی ہیت میں ہو یا غزل کے سانچے میں ڈھلی، اردو شاعری کی ایک نئی اور توانا آواز ہے۔  ان کی شاعری اس بات کی دلیل ہے کہ وہ نابغہ روزگار ہستیوں میں سے ایک ہیں۔  ان کی شعری تخلیقات اعلیٰ مقاصد، عقل و عشق کی اہمیت، شخصیت کی تعمیر اور اناوخود داری سے مزین ہیں۔  اقبالؔ کی شاعری کے موضوعات کا احاطہ کرنا آسان نہیں۔  خودی و بے خودی، عقل و عشق، عشق رسول، فلسفۂ تصوف، فقرو قلندری، منظر نگاری، تصور زمان و مکان، بہشت و دوزخ کا تصور، تصور حیات، نظریہ وطینت، سوزِ غم ملت، عزم و یقین، ذوقِ عمل، شاہین اور مردِ مومن، ان میں سے بیشتر موضوعات یا تو اردو شاعری کے لیے بالکل نئے تھے یا انھیں اب تک اس طور سے برتا ہی نہ گیا تھا۔  ِؔ نے واضح طو رپر قاری کے سامنے پیش کیا۔  قاری نے اقبال کو صرف شاعر ہی نہیں بلکہ فلسفی، مصلح، محب قوم دردمند انسان غرض خلوص کاپیکر سمجھا کہ جس کا مقصد حیات صرف اپنے عوام اور ملت اسلامیہ کی بھلائی ہے جو صرف زاہد خشک اور و اعظ بے عمل ہی نہیں کہ جس پر خود زندگی کے راز منکشف نہیں ہوتے جو خود تشکیک و گمان کا شکار ہو کر عوام کو بھی وہم و گمان کی متذبذب فضا میں لے جاتا ہے، جبکہ اقبال کی شاعری اور زندگی کا مقصد راستہ بھولے ہوئے قافلے کی رہنمائی کرنا ہے۔  اقبال کے نزدیک شاعر مجنوں نہیں بلکہ شان ابراہیمی رکھتا ہے۔  شاعر اسی معاشرے سے تعلق رکھتا ہے۔  اس لیے ایک عام انسان کی طرح اس کی زندگی بھی اصول و ضوابط کی پابند ہونی چاہیے اور ایک انسان تبھی کامیاب ہو سکتا ہے کہ جب وہ ان اصولوں کو اپنالے۔  یعنی ایمان خودی، سخت کوشی اور عالمگیر اخوت۔

اقبالؔ کی شاعری منفرد لب و لہجہ اور بلند پایہ خیالات و نظریات سے تشکیل پاتی ہے۔  فکر و فن کی ہم آہستگی اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک ہر خیال اپنی فارم خود سے کر آتا ہے یعنی بات صرف نظم یاغزل کے اشعار کے موضوعات ہی کی نہیں ان کی بنت اور تعمیر کی بھی ہے کہ اقبالؔ جو بات کہنا چاہتے ہیں جو پیغام دینا چاہتے ہیں، اس کا لہجہ اور لے اور اس پیغام سے مطابقت رکھتی ہے چنانچہ سوز و گداز، تلخی، تندی، افسردگی، نیاز مندی، بے باکی، شوخی، دلبری و قاہری سبھی رنگ نمایاں ہیں۔  ان کے مخاطب عوام و خواص ہی نہیں بلکہ حضرت یزداں بھی ہیں کہ جو کچھ ان کے دل میں ہے وہ کہہ بھی دیتے ہیں کیونکہ انھیں اس بات کا یقین ہے کہ:

میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ

کہ میں ہوں محرم راز درون خانہ

یہی لہجے کا بے ساختہ پن اور خیالات و نظریات کی اٹھان ہے، جس کی ہر ایک نے تعریف کی لیکن بات پھر وہی آ جاتی ہے کہ نئی چیز ہو یا نئے خیالات ونظریات یازبان کو ایک نئے انداز سے برتنے کی کاوش، جلد قبول عام حاصل نہیں کر سکتی۔  ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں:

’’پھر بھی بعض اس بنا پر کہ اقبال کی غزل کی زبان کلاسیکی اور روایتی اردو غزل کی زبان سے الگ ہے یا ان کے بیشتر موضوعات غزل کاتعلق سیاسی و ملی افکار سے ہے ان کی غزل گوئی سے پوری طرح مطمئن نظر نہیں آتے۔  بعض کے نزدیک اقبال کی غزلوں میں غیر مانوس اور اجنبی عربی و فارسی الفاظ اصطلاحات اور تشبیہ و استعارات کی کثرت ہے اور غزل کبھی اس کی متحمل نہیں ہو سکتی، بعض کے خیال میں غزل کی ایک خاص زبان ہوتی ہے وہ صرف نرم لطیف شیریں خوشگوار اور لوچدار الفاظ کا بار اٹھا سکتی ہے۔  اقبالؔ کی غزل اس نرم و لطیف زبان سے خالی ہے۔‘‘(۴۱)

اقبالؔ کی شاعری پر سب سے پہلے جو اعتراضات ہوئے۔  وہ زبان سے متعلق تھے۔  اقبال کا ’’اہلِ زبان‘‘ نہ ہو کر بھی زبان پر ایسی دسترس رکھنا، ’’اہل زبان‘‘ کو گوارا نہ ہوا اور وہ اپنی صلاحیتیں اقبال کی شاعری میں غلطیاں تلاش کرنے میں صرف کرنے لگے، لیکن کب تک۔  اقبال کی شاعری نہ صرف مقبول ہوئی بلکہ بہت جلد اس نے اپنی اہمیت بھی تسلیم کروالی۔

لیکن اعتراض کرنے والے ہار ماننے کو تیار نہ تھے۔  آل احمد سرور، اقبال اور اس کے نکتہ چیں کے عنوان سے اپنے مقالے میں لکھتے ہیں۔

’’….. ایک نے کہا ا قبالؔ کا کلام (Parochial) ہے۔  دوسرے نے اعلان کیا کہ چونکہ اقبال کی زندگی اور شاعری میں تضاد ملتا ہے اس لیے ان کی شاعری قابلِ اعتنا نہیں۔  تیسرے نے اور آگے بڑھ کر آواز دی کہ اقبال کی شاعری بے جان ہے۔  زندگی سے اسے کوئی علاقہ نہیں۔  اقبال ایک ایسے ماضی کی یاد میں محو ہے جو کبھی واپس نہیں آ سکتا۔  چوتھے کو اقبال کے کلام میں مزدوروں اور جمہوریت کے خلاف و عظ نظر آیا۔  وہ فرمانے لگے کہ اقبال اسلامی فاشسٹ ہے۔  شاعروں نے کہا کہ وہ تو فلسفی ہے، اسے شاعری سے کیا غرض۔  فلسفی بولے کہ وہ شاعر ہیں۔  فلسفے کی گہرائیاں ان کے بس کی بات نہیں۔  صلح پسند حضرات ان سے اس وجہ سے ناراض ہوئے کہ وہ قتل و خون کی دعوت دیتے ہیں اور چنگیز و تیمور کو دوست رکھتے ہیں ….‘‘(۴۲)

اقبالؔ کی شاعری پر اعتراضات اس بات کاو اضح ثبوت ہیں کہ انھوں نے اپنے عہد کے ہر مفکر، دانشور اور قاری کو متاثر کیا۔  سبھی نے ان کی شعری فکر کا احاطہ کرنے کی کوشش کی اقبال کی شاعری فرد کے ذاتی تجربے کی آئینہ دار نہیں، بلکہ پوری قوم سے خطاب ہے۔  انھوں نے فرد کو تکمیلِ انسانیت کی راہ دکھائی۔  ان کے نزدیک فرد کی تعمیر عوام کی تعمیر ہے۔  اقبال کی رجائیت، تصورِ عشق، تصورِ قوم و ملت، تصورِ حیات، فلسفۂ خودی، تعلیم و تعلم، اسلام اور ملت اسلامیہ سے تعلق، سیاسی افکار، تحریک پاکستان غرض کہ اقبال کے تمام افکار و نظریات اقبال کے بعد نمایاں ہونے والی ترقی پسند، رومانی اور داخلی رو کی تحریکیوں میں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔

اقبالؔ نے اردو شاعری کو نئے خیالات سے نہ صرف روشناس کرایا بلکہ شاعری کا اسلوب ہی بدل دیا۔  ہر چند کہ وہ اسلوب سے زیادہ مطالب کی طرف متوجہ ہیں، ان کے نزدیک وہ خیال جس میں زندگی کے حقائق کا ذکر نہ ہو کتنے ہی خوبصورت الفاظ میں پیش کیا جائے، اس کا کوئی فائدہ نہیں۔

اقبالؔ کی شاعری کے آخری دورکے بارے میں ڈاکٹر گوہر نوشاہی لکھتے ہیں:

’’اقبال کی زندگی کا تیسرا دور ہمارے سامنے اقبال کو ایک ادارے کی حیثیت سے لاتا ہے۔  اس دور میں اقبال ایسا چشمہ بن گئے تھے، جن کے گرد تشگانِ علم و فن کاہر وقت ایک ہجوم رہتا تھا۔‘‘(۴۳)

’’اقبالؔ کے گرد علم و فن کے طالب پروانوں کی طرح رقصاں رہتے۔  ان سے استفادے کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے۔  اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جدید اردو شاعری پر اقبال کے بڑے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔  اردو شاعری خصوصاً ً غزل واردات قلبی کی مخصوص لے رکھتی تھی۔  تصوف بھی اردو غزل کے لیے کوئی نیا موضوع نہ تھا، لیکن خدا اور بندے کے تعلق میں پہلی مرتبہ بندے کو خدا کے سامنے اس قدر بلند آہنگ سے پیش کیا من و تو کی اس گفتگو میں بندے نے سارے حجابات اٹھا دیے۔  اردو شاعری کی نئی عمارت کی اساس اقبال ؔنے رکھی جس نے عوام و خواص کے ذہن کو حیران بھی کیا اور متاثر بھی۔  انسان جس چیز سے متاثر ہوتا ہے اسے شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنانے کی کوشش بھی کرتا ہے، لیکن یہ بات بھی ناقابل تردید ہے کہ اقبال ؔکو جس قدر پسند کیا گیا، ان کی پیروی کرنے کی واضح کوشش کہیں نظر نہیں آتی۔  اقبال ؔکی پیروی کے سلسلے میں چند ایک نام البتہ سامنے آتے ہیں لیکن ظاہر ہے اقبال ؔسے مخصوص تلمیحات و تشبیہات و استعارات استعمال کر لینے سے شاعری میں رنگِ اقبالؔ کا پیدا ہو جانا ممکن نہیں۔  اس کے لیے فکر کی گہرائی، فلسفیانہ موشگافیاں، سیاسی و سماجی تبدیلیوں کا واضح احساس، وسیع المطالعہ ذہن، فکر رسا، ایمائی و رمزیہ انداز میں پرانی علامتوں کو نئے مفاہیم کا لباس پہنانا، خطابت کا وہ اندازکہ جس میں شاعری کی جاذبیت کو بھی برقرار رکھا جائے، اسلامی فلسفہ سے واقفیت اور مغربی تہذیب و تعلیم کا گہرا مشاہدہ یہ تمام اوصاف اور صلاحیتیں ضروری ہیں، جو اقبالؔ میں تو تھیں لیکن ہر ایک میں نہیں ہو سکتیں کہ ’’اقبال ہمیشہ دیر سے آتا ہے‘‘ اقبالؔ کی شاعری سبھی کو اپنی طرف بلاتی اور متوجہ کرتی ہے۔

ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:

’’….. سرسید کی مانند اقبالؔ نے اپنے رفقا کی امداد سے کوئی تحریک شروع نہ کی لیکن افکار کی توانائی اور فلسفۂ زیست کے استحکام کا یہ عالم ہے کہ اقبال اپنے وجود میں نہ صرف خود ایک تحریک بنے بلکہ ایسی تحریک جس کے افکار کی توانائی آج بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔  ان تصورات میں آج بھی رہنمائی کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور ان کے نظریات میں آج بھی مشعل راہ بننے کی جو دت ہے۔‘‘(۴۴)

 

کلاسیکی تحریک

 

اردو ادب نے مغرب سے اٹھنے والی ادبی تحریکات سے بھی اثر قبول کیا۔  یہ الگ بات کہ بسا اوقات ان تحریکات کا اثر یہاں پہنچتے پہنچتے ایک صدی کا عرصہ لگتا رہا۔  سولھویں صدی میں مغرب میں احیائے علوم کی تحریک کے زیرِ اثر مذہب، فلسفہ اور سائنس ایک دوسرے سے برسرِپیکار رہے۔  فضا میں موجود جمود کو تحرک عطا کرتے رہے۔  اطالیہ فرانس، انگلستان نے مصوری، مجسمہ سازی اور ادب و شعر میں عروج حاصل کیا۔  روایت سے بغاوت کی ریت ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔  عمرانی تحریک بھی قدامت کو خیرباد کہہ کر نئی راہوں کی متلاشی رہی لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ وہ ماضی کے مصنفین سے استفادہ کرتے رہے۔  وطن سے محبت کے باعث اس تحریک کے پیروکار اپنی ملکی زبان میں ادب تخلیق کرتے رہے۔  المیہ ان کا خاص موضوع تھا۔  تھامس مور کی ’’یوٹوپیا‘‘ نے شہرت حاصل کی۔  شیکسپیئر اور سرفلپ سڈنی اس کے نمائندہ تخلیق کار تھے۔  یہ تحریک بعد میں جنم لینے والی دو اہم ترین تحریکات، کلاسیکی اور رومانی تحریک کاسرِ آغاز ثابت ہوئی۔  مختلف ادوار کاشعر و ادب کلاسک کے اعلیٰ تخلیق کار پیش کرتا رہا ہے۔

کلاسیکی ادب کی پہلی تحریک کامرکز یونان قرار پایا کہ جہاں اسیکلس اور سوفوکلیز کلاسیک کے درجے پرپہنچے۔  کلاسیکیت کی دوسری تحریک کا مرکز روم تھا۔  رومی تخلیق کاروں نے یونانی کلاسیکی فنکاروں کی روشن خیال اور تخلیقی گہرائی کو مرکز نگاہ بنایا۔  ہورس نے تہذیبی شائستگی اور رفیع الشان موضوعات کے باعث کلاسیکیت میں نمایاں مقام حاصل کیا۔  سیسر واور ورجل کلاسیکی مزاج رکھتے ہیں۔  رومن تخلیق کاروں کی توجہ ہیت و اسلوب کی جانب زیادہ رہی اور موضوع کی طرف کم، چنانچہ اس عہد کے تنقید نگار اسلوب کے آہنگ، لفظوں کی نشست و برخاست، ترتیب و تنظیم کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

سترھویں صدی میں فرانس فنون لطیفہ کا مرکز قرار پایا۔  فرانس میں ابھرنے والی کلاسیکی تحریک قومی وحدت کو اہم گردانتی تھی۔  ولیر، کارنیلے، راسین، پا سکل ڈیکارٹ، بولیو، والتیر، موستیکو، بقون نے ڈرامہ، مذہب، فلسفہ شاعری اور تنقید میں اعلیٰ درجے کی تخلیقات پیش کیں۔

اٹھارھویں صدی میں کلاسیکی تحریک، انگلستان میں ابھر کر سامنے آئی۔  ڈرائیڈن انگریزی ادب کی نوکلاسیکیت کا باوا آدم کہلایا۔  ڈرائیڈن نے سب سے پہلے رسمی اور تقلیدی روش سے انحراف کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہر عہد اور ہر مقام وآب و ہوا کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جو چیز یونانیوں کے لیے باعث مسرت اور ا ہم ہے، ہو سکتا ہے وہ انگریزوں کے نزدیک بے معنی ہو۔  ڈرائیڈن کے علاوہ پوپ اور جانسن بھی نوکلاسیکی اقدار کے نمائندے قرار پائے بلکہ جانسن کی حیثیت کلاسیکی و رومانی دور کے درمیان ایک پل کی سی ہے۔

اٹھارھویں صدی میں عقلیت پسندی، مادی نظریات، مصنوعی رسوم و قیود اور نوکلاسیکی ضابطوں کے خلاف ردِ عمل شروع ہو چکا تھا۔  انقلاب فرانس نے آزادی و مساوات کا نیا تصور دیتے ہوئے طبقہ امر اور روسا کی حاکمیت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔  ’’انسان آزاد پیدا ہوا ہے لیکن جدھر دیکھیے وہ پایہ زنجیر ہے۔‘‘ روسو انسان کو اس کا پیدائشی حق دلانا چاہتا تھا۔  اس کا اظہار ان کی مختلف تحریروں سے ہوتا ہے۔

 

رومانی تحریک

 

رومانی تحریک کے بانی رو سو نے فرد اور اس کی زندگی کے مطالعے پر زور دیا اور تہذیب کے مقابلے میں ہمیشہ فطرت کو ترجیح دیتا رہا۔  روسو کا شریف وحشی در اصل وہ فطری انسان ہے جو تہذیب اور رسوم و قیود کی پابندیوں سے یکسر آزاد ہے اور اس کے نزدیک فطرت کو تمدن پر برتری حاصل ہے۔  فطرت کی طرف واپسی، ان مصنوعی اصول و ضوابط کے خلاف ردِ عمل تھا جو صرف حاکم اور امیر طبقہ کی زندگی سے مطابقت رکھتے تھے۔  یوں پابندی کے بجائے آزادی، عقلیت کے بجائے جذباتیت اور مخصوص طبقۂ امرا کے بجائے عوام، رومانی تحریک کے پیش نظر ہے۔  رومانی تحریک پر اعتراضات بھی ہوئے۔  سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ اس سے وابستہ تخلیق کار خوابوں کی دنیا میں، خیالی ہیولوں کے منتظر رہتے ہیں جو ان کے جسم و جاں کو سکون پہنچا سکیں لیکن جب وہ حقیقی زندگی کے مسائل کا سامنا کرتے ہیں تو ان پر مایوسی، انفعالیت اور محرومی چھا جاتی ہے۔  ہر چند کہ ایسا نہیں ہے۔  رومانیت صرف خواب و خیال ہی سے عبارت نہیں بلکہ خیال اور حقیقت دونوں کے امتزاج کا نام ہے۔  یوٹوپیا کی تخلیق اس خواہش کا اظہار ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش کی زندگی کو کتنامنزہ اور خوبصورت دیکھنا چاہتا ہے۔  رومانی تحریک صرف فرانس تک ہی محدود نہیں رہی۔  جرمن اور انگریزی ادب کے علاوہ اس کے اثرات دیگر ممالک کے زبان و ادب پر بھی ہوئے۔  جرمن، فرانسیسی اور انگریزی ادب میں اس کی چند مشترک خصوصیات جو نمایاں رہیں وہ یوں ہیں کہ فرد کی انفرادیت پر زور دیا جاتا رہا ہے۔  عقلیت کے بجائے جذبات کی طرف توجہ ہے۔  انسان ریاستی پابندیوں کی بنا پر آزادی اظہار سے محروم ہے۔  اپنے جذبہ و احساس کا بیان نہیں کر سکتا۔  رومانی ادیب اس پر زور دیتا ہے کہ اسے آزادیء اظہار حاصل ہو۔  فطرت پرستی اس کا مسلک رہا ہے۔  انسان شہروں کو چھوڑ کر جنگلوں دیہاتوں اور وادیوں میں دلچسپی لینے لگا۔  لوک ادب اور لوک گیتوں سے دلچسپی بڑھنے لگی۔  انسان کی آزادی اور مساوات اہم جزو رہا ہے۔  پہلی نسل میں ولیم و رڈزر ورتھ اور کولرج دوسری نسل میں بائرن، شیلے اور کیٹس نے فطرت کے حسین مناظر اور دیہاتی زندگی کی خوبصورتی کو موضوع بنایا۔  جرمن میں رومانی تخلیق کاروں میں جمیز میکفرس، کلنگر، لیزملر، ویگز، گوئٹے اور شلر۔  فرانس میں چیٹو برانڈ۔  ہیوگو، جارج ساں، الفرڈمسے کے علاوہ سوائن برن، فٹزجیرالڈ، سیٹولنسن ان تمام ادیبوں، شاعروں، ڈرامہ نگاروں اور نقادوں نے ہیئت وزبان کے روایتی سانچے کو بدلا، عام لوگوں کی زبان کو اہم جانا اور موضوعات کے تنوع نے ان کی تخلیقات کی اہمیت واضح کی۔

 

ریلزم

 

حقیقت پسندی کی تحریک نے انیسویں صدی میں اس وقت جنم لیاجب انسان رومانیت کے دھندلکوں میں گم ہو کر کائنات سے کٹتا جا رہا تھا، در اصل یہ ایک طرح سے رومانی تحریک کے خلاف ردِ عمل تھا جو کہ خوابوں اور تصورات، اشاروں اور رموز پر انحصار کرتی تھی، چنانچہ ریلزم میں عام روز مرہ کی زندگی کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا گیا، محنت کی عظمت ان کا خاص موضوع تھا، ان کی تخلیقات میں انسان اپنے ماحصل سے الگ نہیں بلکہ فطرت کاحصہ نظر آنے لگا۔  ادب میں بالزاک، سٹینڈہال، ڈکنزاور طالسطائی اس کی نمائندگی کرتے ہیں۔

 

امپیریشن ازم

 

اس تحریک کا آغاز بھی انیسویں صدی میں ہوا۔  اس تحریک کا نام Claude Monet کی ایک تصویر Impression Sunrise کی وجہ سے پڑا۔  یہ بنیادی طور پر مصوری ہی کی تحریک تھی۔  جس میں فطری مناظر سے متاثر ہو کر لینڈسکیپ کی طرف توجہ کی اور تیزی سے بدلتی ہوئی روشنی اور موسم کے بدلتے ہوئے انداز کو خوبصورتی سے مصور کرنے کی کوشش کی۔  شعر و ادب نے بھی اس تحریک سے اثرات قبول کیے۔

 

علامتی تحریک

 

شعر و ادب کی تاریخ میں علامت کا استعمال اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود شعر کی تاریخ۔  قدیم ترین کلاسیکی ادب کا جائزہ لیا جائے یا دیو مالائی ضمیاتی ادب کا، علامت بھرپور طریقے سے مستعمل نظر آتی ہے۔  عہد قدیم میں علامت عموماً غیر شعوری طور پر استعمال کی جاتی تھی اور قاری اس سے اپنے عقیدے یا مذہب کے مطابق مطالب اخذ کر لیتا تھا۔  شاعر یا ادیب کو خود احساس بھی نہیں ہوتا تھا کہ وہ کون سی علامتیں برت رہا ہے اور اس سے کون کون سے مطالب اخذکیے جائیں گے، لیکن پھر ایسا ہوا کہ علامت وقت کی ضرورت بن گئی۔  تخلیق کار اپنی تخلیقات میں انھیں شعوری طور پر برتنے لگا کہ فرصت زندگی بہت کم ہے اور انسان اس مختصر فرصت میں بہت کچھ کرنا چاہتا ہے۔  علامت نگاری کی ابھرنے والی اس تحریک کے پس منظر میں کچھ ایسے ہی خوف اور خدشے تھے کہ فرد بہت کچھ کرنا چاہتا ہے، لیکن اس کے پاس وقت محدود ہے:

’’پاستروک کا کہنا ہے کہ انسان استعارے اور علامتیں اس لیے استعمال کرتا ہے کہ اس کی حیات مختصر ہے اور اس کے ذمے کام بہت بڑا ہے، چنانچہ وہ چیزوں پر عقابی نظر ڈالتا ہے۔  کوندے کے انداز میں۔  یہی شاعری ہے۔  عظیم انفرادیت کا شارٹ ہینڈ۔  یہ روح کا انداز تحریر ہے۔  ادھر ڈی۔  ایچ لانس نے بھی علامتوں کو شعور کی نامیاتی اکائی Organic Unit قرار دیا تھا۔  اب دیکھئے پاستروک، عقابی نظر، کوندے کے لپکنے، شارٹ ہینڈ اور اندازِ تحریر کے حوالے سے کیا کہہ رہا ہے۔ ا یک طرح سے علامتیں اور استعارے عالمِ صغیر میں عالمِ کبیر کو سیمٹے بیٹھے ہیں۔‘‘(۴۵)

رومانی تحریک سائنسی نظریات کے خلاف ردِ عمل کے طور پر سامنے آئی۔  یہ قدیم اصول و ضوابط کی نفی اور ان سے بغاوت کا ا علان نامہ تھی۔  پابندیوں سے نجات و آزادی کی اس خواہش نے رومانیت پسندوں کو اعتدال و توازن سے دور کر دیا۔  نتیجتاً یہ تحریک جس تیزی سے اٹھی اسی طرح دھیمی پڑ گئی۔

انیسوی صدی میں مسئلہ ارتقاء سے الگ، رومانیت کی جذبات پرستی اور بے قاعدگی کے خلاف ایک ردِ عمل شروع ہو چکا تھا۔  جس کا رخ دوبارہ کلاسیکیت کی غیر جانب داری اور قوانین کی کڑی پابندی کی سمت تھا اور یہ ردِ عمل ایک سائنسی مشاہدے سے متصف ہو چکا تھا جو حیاتیاتی سائنس سے بہت حد تک ملتا تھا۔  فرانس میں یہ ردِ عمل بہت واضح نظر آتا ہے۔‘‘(۶۶)

علامت نگاری کی تحریک کو عروج فرانس میں انیسویں صدی میں حاصل ہوا۔  شعر و ادب، اساطیر و مذہب میں علامت کا استعمال قدیم عہد ہی سے مروج رہا ہے۔  علامت یعنی سمبل در اصل یونانی لفظ (Symboline) سے اخذ کیا گیا ہے جس سے مراد ’’دو چیزوں کو ایک ساتھ رکھنا‘‘ ہیں، اس کا ماخذ یونانی مرکب لفظ (Sym.Bolan) ہے، جس کے معنی ساتھ پھینکا گیا، کے لیے جاتے ہیں۔  ڈاکٹر سہیل احمد اس کی مزید وضاحت یوں کرتے ہیں:

’’اصل یونانی مفہوم میں اس کا استعمال کچھ یوں تھا کہ دو فریق کوئی چیز مثلاً (چھڑی یاکوئی سکہ) توڑ لیتے تھے اور بعد میں ان ٹکڑوں کو دونوں فریقوں کے درمیان کسی معاہدے کی شناخت کانشان سمجھا جاتا تھا۔  اس طرح سمبل کامطلب ہوا کسی چیز کا ٹکڑا جسے جب دوسرے ٹکڑے کے ساتھ رکھا جائے یا ملایا جائے تو اس اصل مفہوم کو زندہ کر دے یا یاد دلا دے، جس کا وہ شناختی نشان ہے۔‘‘(۴۷)

امریکہ میں پیورٹن اخلاقیات کی سخت گیری نے ایڈگرایلن پو کے نظریات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا اور ایڈگرایلن پو کے نظریات کے زیرِ اثر فرانس میں علامت پسندی کی تحریک شروع ہوئی۔  فرانسیسی ہمیشہ سے حسن پرست رہے ہیں اور ان کے لیے پو کی طرف دلچسپی میں اس کے نظریۂ جمال کو خاصا دخل رہا ہے۔  ایڈگرایلن پو کا اصرار کم وقت میں کم لفظوں میں مکمل اور پر تاثر بات کہنے پر ہے۔

’’ایڈگرایلن پو کے نزدیک چونکہ نظم کا مقصد یہ ہے کہ وہ قاری کو شدید طور پر متاثر کرے اور چونکہ شدید تاثر مختصر ہوتا ہے۔  اس لیے نظم کو بھی بہ اعتبار تاثر مختصر ہونا چاہیے۔‘‘(۴۸)

پو کے نزدیک ابہام شاعری کے لیے لازمی ہے۔  لفظ جب علامت کا روپ دھار لیتا ہے تو مفاہیم کی ایک کائنات اس کے اندر جنم لیتی ہے۔

فرانس میں گیراڈی۔  ڈی نبراں، میلارمے، والیری، رامبو اور بودلیر اس تحریک کے سر کردہ تخلیق کاروں میں شمار ہوتے ہیں۔

علامتی تحریک اپنی انتہائی صورت میں لفظوں کے گورکھ دھندے، ابہام و ذاتی علامات کے استعمال کے باعث چیستان کامنظر پیش کرتی ہے۔  در اصل علامت کے استعمال کے لیے شعراء کے لیے زبان پر قدرت لازمی ہے اور جہاں شاعر نے ذرانا پختگی کا مظاہرہ کیا، تخلیق میں تاثیر کی جگہ الجھاؤ پیدا ہو گیا۔

انگلستان میں روزیٹی، ییٹس اور جرمنی میں رلکے اور جارج اسٹیفن نے اس تحریک کو عروج پر پہنچا یا اور ان فرانسیسی، انگریزی، امریکی اور جرمن ادیبوں نے دنیا بھر کے شعر و ادب کو متاثر کیا اور علامتی تحریک کی گونج دیگر ممالک کے شعر و ادب میں بھی سنی جانے لگی۔

 

ابہام

یہ کہنا کہ ابہام شعر و ادب یا مصوری کے فن میں انیسویں صدی سے پہلے کبھی پایا ہی نہ گیا تھا درست نہیں۔  قدیم فنون میں بھی ایسے شہ پارے موجود ہیں کہ جن کے مفاہیم واضح نہیں اور جن کی روح تک پہنچنے کے لیے قاری یا ناظر کو بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے۔  اشاریت و ایمائیت ہمیشہ سے ہی خصوصاً ً شاعری کا وصف رہی ہے۔  قدیم شعر و ادب میں ایمائیت، اشاریت یا ابہام کا استعمال غیر ارادی اور غیر شعوری طور پر ہوتا تھا اور تخلیق کے حسن میں اضافہ کا باعث بھی۔

انیسویں صدی کے نصف آخر میں ابہام نے رجحان یا تحریک کی صورت اس وقت اختیار کی کہ جب امریکی تخلیق کار ایڑ گرایلن پو کے اثر سے فرانسیسی اور پھر انگریزی شاعری میں علامت پسند تحریک کا آغاز ہواجو تمام دنیا میں پھیل گئی۔

علامت پسند تحریک کے زیراثر بعض شاعروں نے ذاتی علامات کا استعمال اس انداز میں کیا کہ شاعری الفاظ کا گورکھ دھندہ بن کر رہ گئی اور اشاریت و ایمائیت سے کوسوں دور جا پڑی کہ اشاریت و ایمائیت کا حسن اس وقت تباہ ہو جاتا ہے جب لفظ کا اصل مفہوم سے تعلق صرف تخلیق کار کے ذہن تک ہو اور قاری تک جس کی رسائی ممکن ہی نہ ہو۔  آگ سے مراد ہم حرارت، زندگی، روشنی، گرمی لے سکتے ہیں لیکن اگر تخلیق کار کے ذہن میں اس سے مراد کھڑکی ہو تو قاری کے لیے اس تک پہنچنا مشکل ہو جائے گا۔

ابہام صرف الفاظ اور مفہوم کے درمیان عدم مطابقت سے ہی وجود میں نہیں آیا بلکہ تکنیک اور اسالیب کے تجربوں نے بھی اس میں اضافہ کیا کہ جدید شاعری کا ایک بڑا حصہ تلمیحاتی ہے اور تلمیحات بھی وہ جو معروف نہیں۔  ابہام کا ایک سبب اور بھی ہے۔

’’لوئی میکس نے اپنی کتاب موڈرن پوئٹری میں بتایا ہے کہ جدید شاعری میں زیادہ تر ابہام کا ایک سبب اس کی Cutting ہے یہ اصلاح سینما سے مستعار لی گئی ہے۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ جدید شعرا ء دو خیالوں یا دو تصویروں کی درمیانی کڑیوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔  جبکہ پرانے شعراء ایسا نہیں کرتے تھے۔  میکنس نے اس طریق کار کے دو فائدے بتائے ہیں ایک تو اس سے شاعری میں تیز رفتاری اور ارتکاز پیدا ہوتا ہے۔  دوسرے شعرا اپنے خیالات یا اپنی زندگی یا موجودہ زندگی کے تیز رفتار تغیر کی ترجمانی کے لیے درمیانی کڑیوں کو کلام میں شامل نہیں کرتے۔‘‘(۴۹)

 

وجودیت

جبر و اختیار کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔  دنیا کے ہر عہد کے ادب میں کسی نہ کسی شکل میں اس کا وجود ہے۔  خدا نے انسان کو مجبور بنایا ہے تو کچھ اختیارات بھی اسے عطا کیے ہیں۔  وہ مذاہب کہ جہاں خدا کے وجود کو شدت کے ساتھ تسلیم نہیں کیا جاتا۔  وہ بھی اس نظریے کی صداقت پر یقین رکھتے ہیں۔  مثلاً وجودیت Existentialism میں خدا کا تصور موجود نہیں ہے۔  اس لیے تمام اچھے برے نتائج کی ذمہ داری انسان پر آ پڑتی ہے۔  ان کا خیال ہے کہ ہم اپنی ہستی کافیصلہ اپنے کاموں کا تعین خود کرتے ہیں، اس لیے بے چارگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔  وہ خدا کی نفی کر کے انسان کی ذات کو اہم جانتے ہیں۔  ان کے خیال میں اس طرح انسان میں زیادہ خود اعتمادی اور قوت فیصلہ پیدا ہوتی ہے۔  کیرک گارد نے ان خیالات کو واضح طور پر پیش کیا اور وجود کو جوہر پر فوقیت دی۔  اس کے خیال میں انسان اس کے علاوہ کچھ نہیں جو کچھ کہ وہ خود کو بناتا ہے۔  وجودیت کے اس فیصلے نے تحریک کی صورت انیسویں صدی میں اس وقت حاصل کی جب انسان اپنے ہونے اور نہ ہونے کے مسائل میں الجھا ہوا تھا شپلنگ، اینگلز، بکوئن انھی مباحث میں مصروف تھے۔  وجودیت بھی دوراہوں پر گامزن تھی۔  ایک گروہ خود کو مذہب سے علیحدہ نہ کر سکا تھا، ان میں کیرک گارد، سپٹزر، مارشل اور رچرڈ کروز شامل تھے۔  دوسرے گروہ میں ژاں پال سارتر اور ہیڈ گر تھے جن کے نزدیک خدا کی موجودگی ضروری نہیں۔  اس طرح انھوں نے فرد کو زیادہ اہم جانا۔  ان دونوں میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ دونوں اس پر متفق ہیں کہ وجود کو جوہر پر تقدم حاصل ہے۔  دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں نے سارتر پر گہرا اثر ڈالا۔  اس کی تحریروں میں زندگی کی عکاسی کے بجائے انسان کے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش زیادہ نظر آتی ہے۔  سارتر، کامیو، رلکے، کافکا، دستوفسکی اور نطشے سبھی اس نظریے کے موئد ہیں کہ انسان اپنے آپ کا ذمہ دار ہے۔  خدا سے انکار کی وجہ سے وجودیوں کا خیال تھا کہ ان میں خود اعتمادی ابھرے گی لیکن اس کے برعکس انسان کی بے چارگی میں اضافہ ہوا۔  خدا کے وجود سے انکار کے باعث وہ ایک بڑے روحانی سہارے سے محروم ہو کر مایوسی و بے بسی کا شکار ہوئے۔  مشرق میں وجودیت کا اثر پھیلنے لگا مغرب میں یہ جلد ہی زوال کا شکار ہوئی۔  کولسن ولسن کی کوششوں سے وجودیت میں روحانیت کا عنصر بھی شامل ہو گیا۔

 

تحریک نفسیات

انسان اپنی زندگی میں بہت سے تجربوں اور جذبوں سے گزرتا ہے چونکہ وہ اس کی زندگی میں در آتے ہیں، اس لیے قبول کرنے پڑتے ہیں۔  ایک تخلیق کار انھی تجربات اور محسوسات کو اپنی تخلیقات میں پیش کر دیتا ہے۔  ان تجربات اور محسوسات کے جواز کی تلاش کا نام نفسیات ہے۔  انسان جو کچھ کرتا ہے اس کا کوئی نہ کوئی جواز ضرور ہوتا ہے۔  ہر سوچ کے پیچھے فرد کا شعور یا لاشعور ہے۔  فرائیڈ انسانی ذہن اور باطن کے ان گوشوں تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے، جن تک فرد خود بھی نہ پہنچ پایا ہو۔  تحلیل نفسی شخصیت کے چھپے ہوئے گوشوں کو بے نقاب کر دیتی ہے۔  فرائیڈ اوڈی پس کا مپلکس کو بہت اہمیت دیتا ہے ہر چند کہ انسانی اور زندگی کے ترجمان ادب میں جنسی الجھنوں کے علاوہ بھی بے شمار مسائل ہیں اور ان مسائل پر لکھا گیا ادب بھی کلاسیکیت کے درجے تک پہنچا ہے۔  فرائیڈ انسان کے لاشعور میں پوشیدہ خواہشات کو سامنے لے آتا ہے۔  اس کا خیال ہے کہ فرد کی وہ خواہش جو اپنی زندگی میں پوری نہیں ہوتی، خواب میں تکمیل کا روپ دھار لیتی ہے۔ ا دیب اپنی ناتمام حسرتوں کو اپنی تخلیقات میں مکمل صورت میں پیش کر کے تسکین حاصل کرتا ہے۔  فرائیڈ، یونگ اور ایڈلر نے نفسیات اور ادب کے درمیان رشتے کو واضح کیا اور اس طرح وہ اصطلاحیں جو خاص نفسیات تک محدود تھیں، ادب میں بھی عام طور پر استعمال ہونے لگیں۔  مثلاً شعور، لاشعور، تحت الشعور، نیوراتی کیفیات، انا، نرگسیت، اجتماعی لاشعور، احساس کمتری اور احساس برتری وغیرہ۔  زندگی علم اور نظریات کبھی ساکن نہیں رہے، چنانچہ

’’فرائیڈ کے نظریات جنھیں اس نے زندگی کے تجربوں سے حاصل کیا تھا۔  ایک مرتبہ پھر نظری علم کی طرف مائل ہونے لگے۔  چنانچہ ایرخ فرم، کیرن ہارٹی اور ایچ۔  ایس سیلون کی صورت میں ایک نیا دبستان ظہور میں آیا، جس نے ابتداء تو فرائیڈ کے نظریات سے کی، لیکن اپنا رخ معاشرے کے خارج کی طرف رکھا۔  یہ نوفرائیڈن مکتب فکر تھا۔‘‘(۵۰)

بعد میں ابھرنے والی تحریکوں میں نفسیاتی تحریک کے اثرات واضح طور سے محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

 

فیوچرازم (۱۹۰۹ء)

ادب زندگی کا عکاس ہے۔  ادب زندگی کی عکاسی نہیں کرتابلکہ زندگی کے تلخ حقائق سے فرار کا نام ہے۔  ادب زندگی ہے۔  ادب زندگی کو ویسے ہی پیش کرنے کے بجائے جیسی ہونی چاہیے، کا بیان ہے۔  ادب کے بارے میں متضاد آراء مختلف ادوار میں تحریکیوں کی صورت میں نمایاں ہوتی رہی ہیں۔  ایسی ہی ایک تحریک جس کے دائرہ عمل کا آغاز شعر و ادب سے ہوا۔  بعد ازاں مصوری، موسیقی، فنِ تعمیر سبھی شعبوں پر اس نے اپنے اثرات ثبت کیے۔  اطالیہ سے اٹھنے والی تحریک، فرچرازم، کامنشور اس تحریک کے بانی میری نیٹی Marinetti نے پیش کیا۔

’’حسن و جمال کا وجود جد و جہد میں ہے۔  ایسا فن پارہ جو جامعیت سے عاری ہو۔  شاہکار نہیں ہو سکتا۔‘‘(۵۱)

یہ تحریک ادب اور مصوری دونوں میں مقبول رہی۔  یہ دور مشینوں کا دور تھا۔  نئی نئی ایجادات ہو رہی تھیں۔  فن کاروں نے بھی اس تبدیلی کو اپنے اندر محسوس کیا اور شاعری میں بھی مشینی استعارات (Industrial Imagery) کا استعمال کیا۔

اس تحریک کا مقصد اپنے ملک کو ماضی کی فرسودگی سے نجات دالانا اور مستقبل میں درپیش مسائل کے حل میں آلات اور مشینوں سے کام لے کر وقت کی تیز رفتاری کے ہاتھوں شکست کھانے کے بجائے اس کا مقابلہ کرنا تھا۔

فریڈرک نطشے اور ہنری برگساں سے متاثر اس تحریک کے علمبردار اپنی قوم کو ماضی کے قدیم فنون سے نجات دلانا چاہتے تھے۔  حرکی تصور کو جلا بخشنے والے فیوچرسٹ تحریک کے علمبردار زندگی میں سست روی سے نفرت کرتے ہیں۔

ان کے نزدیک زمان و مکان کا تصور بے معنی ہے۔  خوف، خطر اور خدشے زندگی کاحسن ہیں۔  بغاوت، جارحیت اور جنگ زندگی کا لازمی حصہ ہیں یعنی تشدد پسندی سے گریز ممکن نہیں، یہاں تک کہ ان کے نزدیک لوہے یا لکڑی کی گرمی ایک عورت کی مسکراہٹ یا آنسوؤں سے زیادہ سنسنی خیز ہے۔‘‘(۵۲)

فیوچرسٹ زندگی کے ہر رخ کی عکاسی ہر پہلو سے کرنا چاہتا ہے۔  اس تحریک نے جدید فنونِ لطیفہ کے تمام شعبوں پر گہرے اثرات ثبت کیے۔  اطالیہ سے ہوتے ہوئے تحریک کے اثرات جرمن فنونِ لطیفہ پر پھر روس میں ’’کیو بو، فیوچرازم‘‘ تحریک کے آغاز میں بھی اس کے اثرات نمایاں ہیں۔ ا مریکہ میں ۱۹۱۳ء میں اس کے اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔

 

تجریدیت (۱۹۰۷۔  ۱۹۱۴ء)

فرانس اور جرمنی کی سرزمین فنون لطیفہ کے لیے ہمیشہ سازگار رہی۔  یہاں کے باذوق تخلیق کار حالات کے بدلتے تیور بھی دیکھتے رہے اور اپنے پیشروؤں کے نظریات سے بھی مستفید ہوتے رہے۔  تجریدیت سے وابستہ فن کار زندگی کو جیسی وہ ہے، ویسا ہی پیش کرنے کو فن کا نام نہیں دیتے۔  تجرید نگار جسم کو اس کی اصل صورت میں پیش کرنے کے بجائے سیایوں کی صورت میں سامنے لاتے ہیں۔  ’’اصل منظر نظر سے اوجھل ہو کر بھی سامنے رہتا ہے، لیکن اسے پہچاننے کے لیے ذہن رسا کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔  تجریدیت کا بنیادی فلسفہ افلاطون کے اس نظریے سے اخذ کیا گیا ہے کہ حسن صرف مجسم ہی نہیں بلکہ خط اور دائرہ بھی جمالیاتی پیکر ہیں۔

 

کیوب ازم

پابلوپکا سو۔  کیڈنسکی اور ہنری مائس نے مصوری کی تحریک (Cubism) کے زیرِ اثر تجسیم کے بجائے تجرید پر توجہ صرف کی۔  یہ تجرید، بے چہرہ اور بے روپ ہے۔  جبرواستبداد کے اس دور میں جب سچ بولنا اور سچ سننا مشکل معلوم ہو تو فن کار تجرید کا راستہ اختیار کرتا ہے اور اپنا پیغام دیکھنے اور پڑھنے والوں تک پہنچا دیتا ہے۔

تھامس مانٹ، جمیس جائس، یوحین ادنیل اور کافکا وغیرہ کی تخلیقات میں تجرید کا فن عروج پر ہے۔  تجرید بے مقصد لفظ لکھنے یا سیدھی سادی بات انفرادی انداز میں کہنے یا آڑی ترچھی لکیریں کھینچنے کا نام نہیں بلکہ اس کے لیے وضاحت سے بیان کیے گئے ادب پارے سے کہیں زیادہ محنت و ریاضت درکار ہے، تبھی ایک تجریدی فن کار اپنے مفہوم کا ابلاغ صحیح انداز میں کر سکے گا۔  تجریدیت کی تحریک باقاعدہ طور پر نہ سہی لیکن اب بھی دنیا بھر کے ادب میں اپنی جھلک دکھا جاتی ہے۔

 

دادا ازم (۱۹۴۱ء)

روایت سے بغاوت ہر دور میں نئی نسل کے ان جوانوں کا شیوہ رہی ہے جو اپنی ذات کی شناخت خالصتاً اپنے حوالے سے چاہتے ہیں۔  دادا ازم کی تحریک نے بھی ایسے ہی نواجوانوں کے جوش و جذبے سے جنم لیا جو زندگی سے اپنا حق چھیننا چاہتے تھے۔  روایت سے بغاوت کی اس سراسر تخریبی تحریک نے زندگی کی موجود صورت حال کی شدید مخالفت کی۔  یہ نوجوان بلاشبہ اپنے قدم اس مٹی میں جمانا چاہتے تھے، جہاں پہلے کسی نے قدم نہ رکھاہو۔  یہ تحریک علامت نگاری کی مروجہ اور مقبول تحریک ہی کی ایک ترقی یافتہ شکل میں سامنے آئی۔

یہ تحریک ۱۹۱۶ء میں زیورچ میں شروع ہوئی، جہاں بہت سے مصوروں اور شاعروں نے پہلی جنگ عظیم کے بعد سوئٹرزلینڈ میں پناہ لی تھی۔  ۱۹۱۸ء کے دادا ازم کے منشور کے مطابق یہ ایک اکسانے والی (Provocative) ادب و مصوری کی تحریک تھی:

’’اس تحریک کے علمبرداروں کی تحریریں براہ راست علامت پسند تحریک کی روایات کی پیدا وار تھیں۔  بعد میں دادا ازم والے سماجی انقلاب پرست بن گئے۔  ان کے اندازِ مخالفت کا جو وحشیانہ جذبہ تھا، اسے سیاسی صحافت میں ایک نیا میدان مل گیا، یہ لوگ رسمی ادب (Conventional) کو ضائع کرنے پر تلے ہوئے تھے۔  آخر میں یہ لوگ اپنا نام (Dadaist) ترک کر کے اضطراری طور پر لکھنے لگے، اس اضطراری تحریک (Automatic Writing) کا نام انھوں نے سریلزم رکھا۔  یعنی دادا ازم ٹوٹ کر سریلزم بن گئی۔‘‘(۵۳)

در اصل اس تحریک کے ایک اہم رکن آندرے بریتون نے ۱۹۲۲ء میں اس تحریک سے الگ ہو کر ایک نئی تحریک کی طرف توجہ کی یوں دادا ازم میں شعور والا شعور اور ادب و حقیقت سب کو یکجا کر دیا گیا، یوں سریلزم کی تحریک وجود میں آئی۔  اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دادا ازم کی مانند سریلزم تخریبی تحریک نہ تھی۔

 

سریلزم (۱۹۲۴ء)

’’مشہور شاعر اور مصور (Anderbreton) نے ۱۹۲۴ء سریلزم کی بنیاد رکھی۔  سریلزم کے اثرات ادب اور مصوری دونوں فنون پر واضح ہیں۔  سرئیلسٹ ادب اور تصاویر خواب کی سی کیفیت لیے ہوتی ہیں۔  خوابوں اور تصورات کے تال میل سے ایک ایسی فضا تخلیق کی جاتی ہے۔  جس کا وجود حقیقت کی دنیا میں بے شک نہ ہو لیکن وہ تخلیق کار کے لیے باعث تسکین ہوتی ہے۔  سرئیلسٹ نقد ونظر سے فن میں تحت الشعوری رشتوں کا اتفاقی عمل اور خوابوں کی قدرتِ مطلقہ کا اظہار بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔  اپنے مخصوص تخلیقی اور منکشفانہ اسلوب کی بنا پر سریلزم ایسے فنی عمل سے عبارت ہے جس کا بیشتر انحصار مصورانہ حسنِ نزاکت نیز اتفاقیہ اور خود بخود وقوع پذیر ہونے والے عمل پر ہوتا ہے۔  اس تحریک نے ان تمام قوانین اور رسم و رواج کے خلاف اعلانِ بغاوت کیا جو انسانی روح کی ہزیمت کا باعث بنتے یا اسے زیر بار کرتے ہوں۔‘‘(۵۴)

’’سریلزم سراسر تخریبی تحریک نہیں تھی، اس کا بنیادی مقصد انسانی فطرت کو زیادہ سچائی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مکمل طور پر پیش کرنا تھا۔  اس تحریک کی نفسیاتی، اخلاقی اور سماجی اہمیت جو بھی ہو لیکن اس میں شک نہیں کہ اس تحریک نے جمالیاتی اور ادبی قدروں کو زبردست نقصان پہنچایا۔  غالباً اسی لیے پال ولیری نے اس تحریک کے علمبرداروں کو وحشی قرار دے رکھا تھا۔‘‘(۵۵)

یہ بیسویں صدی کی ہنگامہ پرور تحریک تھی۔  اپنے مختصر زمانہ قیام میں اس نے فنون لطیفہ پر گہرے اثرات ثبت کیے، لیکن جلد ہی اس کے مبلغین دوسری تحریکیوں سے متاثر ہونے لگے نتیجتاً یہ تحریک دوسری تحریکیوں میں مدغم ہوتی گئی۔

 

فرائیڈین نفسیاتی تحریک

سریلزم تحریک کا آغاز فرانس سے ہوا۔  ۱۹۲۰ء تا ۱۹۳۰ء فرانسیسی شعر و ادب پر سریلسٹ تخلیق کاروں کا اثر نمایاں رہا۔  اس تحریک کے نمائندہ تخلیق کاروں نے اپنے عہد کی تمام تر بے چینیوں، بے یقینیوں اور زندگی کے ہر شعبے میں تنظیم و ترتیب کی عدم موجودگی کو اپنی تخلیقات میں پیش کیا۔  ناراض، غصیلا نوجوان اس تحریک کاہیرو ہے جو قومیت کے کٹر اصولوں، سماج و معاشرت کے شدید رسم و رواج اور ذہنی و اخلاقی اقدار کی قیود سے بغاوت کرتا ہے، حتیٰ کہ فنون لطیفہ بھی اس کے لیے باعث تسکین نہیں ہیں۔  در اصل اس تحریک کا زمانہ آغاز وہ تھا کہ جب وقت دو عظیم جنگوں کے درمیان مقید تھا۔  ایک بڑی جنگ ہو چکی تھی اور دوسری متوقع تھی۔  فرد شدید اضطراب و بے چینی کا شکار تھا۔  انسان اپنی شخصیت کو مختلف حصوں میں منقسم محسوس کرتا تھا۔  اس تحریک پر ادب سے زیادہ نفسیات کے اثرات واضح تھے۔  سریلزم سے تعلق رکھنے والے شعر و ادب سے زیادہ نفسیات سے تعلق رکھتے تھے۔  وہ انسان کی اصل حقیقت کا ادراک چاہتے تھے انسان آزاد پیدا ہوا ہے۔  پھر اسے پابندیوں میں کیوں جکڑا گیا ہے۔  اس ایک سوال سے جنم لینے والے بے شمار سوالات کے جوابات کی تلاش ان کا مقصد حیات تھی۔  حقیقت سے ماورا ایک اور حقیقت شعور و لاشعور کی کرشمہ سازیوں کا بیان خواب و حقیقت کو یکجا کر کے دیکھنا۔  مشاہدے اور تجربے کے بجائے وجوان اور حقیقت کے بجائے تمثیلی انداز نظر اپنایا گیا۔

اس تحریک کو فرائیڈئین نظریات نے تقویت بخشی۔  تحت الشعور میں ڈوب کر فن کی تخلیق اس تحریک کا منشور تھا۔

 

تحریک تا اثرات

ادب برائے ادب اور ا دب برائے زندگی کی بحث کوئی نئی نہیں۔  میتھوآرنلڈ کے نزدیک بھی ادب کا زندگی سے گہرا تعلق ہے۔  ’’اس نے ادب کو زندگی کے حوالے سے اور زندگی کو تنقید کے حوالے سے پرکھنے کی کوشش کی۔  ادب کو تنقیدِ حیات بنا کر اس نے زندگی کے رشتے کو استوار کیا اور تنقید کو پوری زندگی کی تنقید کے عظیم منصب پر فائز کیا۔‘‘(۵۶)

والٹرپیٹر نے بھی ادب برائے ادب اور فن برائے فن کے اس شور میں اپنی تخلیقات پیش کیں اور تنقید میں ذاتی تاثرات کو اہمیت دی۔  اس کا خیال یہ تھا کہ نقاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ فنکار کی تخلیقات کی روشنی میں اس کی انفرادیت کو سمجھے اور اس کا تجزیہ کرے۔  دنیا ان گنت انسانوں کا مجموعہ ہے جو بظاہر ایک سے ہیں لیکن ہر ایک اپنی ذات میں ایک الگ کائنات رکھتا ہے۔  جو دوسرے سے قطعی مختلف ہے۔  ہر شخص کا تاثر دوسرے سے مختلف ہے، بے شک ان سب کا تعلق ایک ہی ماحول یا عہد سے کیوں نہ ہو۔  فرانسیسی حقائق نگار فلابیر اور زدلا اس تحریک کے بانیوں میں سے تھے۔  تاثرات کی اس تحریک میں رسکن، ولیم مورس، آ سکروائلڈ نے اہم تخلیقات پیش کیں۔  بعد ازاں اس تحریک نے تمام دنیا میں پھیل کر ادب و موسیقی و مصوری کے شعبوں میں اپنا اثر قائم کیا۔

 

امیجنزم (۱۹۱۵ء)

امیجنزم کی ابتدا ۱۹۱۵ء کے لگ بھگ ہوئی۔  اس تحریک کے بنیادی اصولوں میں سے چند کچھ یوں ہیں کہ شاعری میں مصنوعیت اور تکلف سے گریز کر کے اسلوبی سطح پر شاعری کو قاری کے لیے عام فہم بنایا جائے کہ شاعری صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے یا مخصوص ادبی گروہ کے لیے نہیں کی جاتی بلکہ شاعری سے حظ اٹھانے کا حق ایک قصاب، سبزی فروش، گھریلو خاتون یا ایک طالب علم کو بھی ہے، البتہ شعراء نے اس بات کی اجازت دی کہ نئی کیفیات نئے آہنگ و انداز میں پیش کی جا سکتی ہیں۔  ایہام جو ایک عرصہ تک شعری کائنات پرچھایا رہا تھا۔  انھوں نے اس سے شعری طور پر گریز کر کے موضوع کو براہِ راست بیان کرنے کا طریقہ اپنایا۔  شاعری کے خدوخال واضح ہونے چاہییں۔  مبہم اور پیچیدہ طرز اظہار کا گزر امیجنزم کے اصول و قواعد میں کہیں نہیں۔  چنانچہ شاعری میں ایہام ہی نہیں رومانیت کے دھندلکوں سے بھی گریز کر کے احساسات و جذبات کی واضح تصاویر پیش کی گئیں۔

’’بیسویں صدی کی پہلی ربع صدی میں فلسفہ و ادب میں ایسے تصورات پیدا ہوئے جنھوں نے روسو کی تعلیمات کی نفی کا کام شروع کیا۔  امریکہ میں ارونگ بیبٹ (Irving Babbit) اور انگلستان میں ایذرا پونڈ (Ezra Pound) اور ٹی۔  ای ہیوم (T.E.Hulme) نے ٹھوس، مثبت اور معروضی اقدار و معیارات کے حق میں ایسے خیالات تصورات کی ترویج کی، جو روسو، رومانیت اور انفرادیت کے نظریات کی نفی کرتے تھے۔‘‘(۵۷)

ارونگ کے خیال میں رومانی ادیب ’’تغیر‘‘ کو ہی اصل حقیقت جانتے ہیں جبکہ ثبات کو بھی اتنی ہی اہمیت حاصل ہے، پھر رومانی ادیب اپنی خیالی دنیا میں محو رہتا ہے۔  حقیقی دنیا سے اس کا رابطہ نہیں رہتا، لیکن انسان حقیقت کی کڑی دھوپ سے کب تک خود کو بچا سکتا ہے۔  نتیجتاً رومانی ادیب محرومی، یاسیت، اداسی، تنہائی اور فکری انتشار کاشکار ہو جاتا ہے۔

ٹی۔  ای۔  ہیوم نے بھی رومانی ادیب پر اعتراضات کیے۔  رومانی ادیب انسان کو تمام تر صلاحیتوں سے بہرہ ور سمجھتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کبھی بھی لامحدود صلاحیتوں کا مالک نہیں ہو سکتا۔  انسان تو خود اپنی حدود میں مقید ہے اس لیے وہ لامحدود صلاحیتوں اور قوتوں کا مالک کیسے ہو سکتا ہے۔  ہیوم نے رومانیت کی موت کا ا علان کیا، لیکن اس طرح کے اعلانات سے تحریکیں ختم نہیں ہوا کرتیں۔  رومانی طرز احساس کے حامل کئی شاعر سامنے آئے جن پر امیجنزم تحریک سے تعلق رکھنے والے شعراء نے مسلسل اعتراضات کیے۔  ہیوم نے رومانی نظریہ شعر و ادب سے یکسر گریز کر کے کلاسیکی رجحان کی طرف اپنی توجہ مرکوز کی۔

ٹی۔  ایس ایلیٹ نے بھی رومانی تصورات کو زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں دیکھا اور مسلسل غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ رومانی طرز احساس زندگی کے حقائق سے چشم پوشی کا نام تو ہو سکتا ہے زندگی کے حقائق نہیں۔  چنانچہ ایلیٹ نے اعلان کیا۔

’’میں سیاست میں شاہ پسند، مذہب میں کیتھولک اور ادب میں کلاسیکیت پسند ہوں۔‘‘(۵۸)

ٹی۔  ایس ایلیٹ کے نزدیک تنقیدفنکار پر نہیں فن پارے پر ہونی چاہیے۔  ناقد کا کام فن پارے کی تشریح اور اس کے عیوب و محاسن کی نشاندہی، تقابل اور تجزیہ ہونا چاہیے۔

ایلیٹ شاعری کو الہامی یا وجدانی عطیہ نہیں سمجھتا بلکہ اس کے نظریے کے مطابق شاعری میں شعور اور سلیقہ دونوں کا عمل دخل ہوتا ہے۔  وہ شاعری کو جذبات کا اظہار نہیں بلکہ جذبات سے فرار کا ذریعہ سمجھتا ہے۔  اس کے اشعار نفسیات، بشریات، رمزنگاری اور فلسفہ سے پُر ہیں۔

ایلیٹ کے خیال میں:

’’ شاعر کا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ نئے جذبات کی تلاش کے بجائے مانوس جذبات کا استعمال کرے اور شاعری میں ان احساسات کا ا ستعمال کرے جو اصل جذبے میں موجود نہ ہوں، دو مختلف و متفرق تجربات کو آپس میں ضم کر کے ایک نئی ترتیب میں ڈھال دینا ہمیشہ سے شاعری کی خصوصیات رہی ہے۔  (۵۹)

ایذراپاؤنڈ، امیجنزم تحریک کا نمائندہ شاعر، بھی اس نظریے کاحامی ہے کہ شاعری میں تجربے کو براہِ راست پیش کیا جانا چاہیے۔  شاعر کو غیر ضروری اور مبہم الفاظ سے گریز کر کے امیج سے کام لے کر اپنے جذبہ و احساس اور واردات و تجربات کو پیش کرنا چاہیے پاؤنڈ زبان کی تاثیر پر زور دیتا ہے۔  اس کی شاعری کا مرکزی کردار انسان ہے۔  پاؤنڈ کا سادگی اور قطعیت پر اصرار علامت و ابہام سے پُراس مصنوعی شاعری کے رد عمل کے طور پر پیدا ہوا جو شعر سے اس کا حسن چھینتی جا رہی تھی۔  پاؤنڈ کی شاعری سادہ ہے۔  اس میں کوئی پیچیدگی اور ابہام نہیں ہے۔  وہ زبان پر اپنی پوری توجہ مرکوز رکھتا ہے اور سادہ عام فہم الفاظ کے ساتھ ساتھ ثقیل الفاظ بھی استعمال کر جاتا ہے پھر اس کی شاعری میں تشبیہات و استعارات میں تلمیحات کا بھی خاصا ذخیرہ نظر آ جاتا ہے۔

امیجنزم پسند شعراء ماحول کے جبر، گھٹن اور پابندیوں سے مبرا ایک ایسے معاشرے کا قیام چاہتے تھے جہاں آزادی کا سکون پرور احساس شاعر کی تمام خوابیدہ صلاحیتوں کو جگا دے اور اس کے زنگ آلود ذہن اور قفل بستہ دل کو کھول کر کھلی اور کشادہ فضا میں سانس لینے کے قابل بنا دے۔

امیجنزم تحریک کے اہم شعرا میں ہاپکنز، ایولی نیئر، ہارٹ کرین، ڈلن ٹامس، ای۔  ای کمنگز اور سرجان پرس سبھی نے رومانی طرزِ احساس کو رد کیا اور انہوں نے عام بول چال کی زبان میں اپنے شعری تجربات نظم کیے۔

 

مارکسی تحریک

کارل مارکس کا تعلق بنیادی طور پر معاشیات سے تھا۔  انسان طبقات میں منقسم ہے۔  اس کا جواز کارل مارکس یوں پیش کرتا ہے کہ طبقاتی تقسیم کا باعث ذرائع پیداوار اور اس کی تقسیم میں عدم مساوات ہے۔  آویزش اور کشمکش کا آغاز انھی طبقوں میں ناہمواری کے باعث ہوا ہے۔  بھوک افلاس اور ان سے جنم لینے والے مسائل صرف اس صورت میں ختم ہو سکتے ہیں کہ جب سرمایہ دار اور مزدور کا فرق ختم ہو جائے۔  محنت کرنے والا شدید محنت کے باوجود پیٹ بھر روٹی نہیں پاتا اور سرمایہ دار کی تجوریاں بھرتی ہی چلی جاتی ہیں۔  مثالی معاشرے کے قیام کے لیے اس تفاوت کو دور کرنا لازمی ٹھہرا۔  ادیب سماج کا حصہ ہے۔  ادب کا معاشرے سے تعلق کبھی منقطع نہیں ہوتا۔  عام طور سے ادیب کا تعلق بھی نچلے متوسط طبقے سے ہوتا ہے اور وہ بھوک کا مفہوم اچھی طرح جانتا ہے۔  مارکس کے عقائد و نظریات ’’خارجی دنیا اپنا الگ الگ وجود رکھتی ہے۔  جس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔‘‘ پر مبنی تھے۔

’’کارل مارکس کے معاشی و عمرانی نظریات نے مغرب کی ادبی تنقید پر گہرا اثر ڈالا ہے۔  ادب بھی مارکس کے دائرہ فکر میں شامل ہے، کیونکہ اس کے نزدیک ادیب بھی ہر تہذیبی کرشمے کی طرح بنیادی معاشی نظام حیات کا تابع ہے۔  شاعری بھی انھی قوتوں سے وجود میں آتی ہے۔  جو قوتیں طبقات کو جنم دیتی ہیں۔  اس لیے ان قوتوں کو سمجھے بغیر شاعری سمجھنا مشکل ہے۔‘‘(۶۰)

اینگلز اور مارکس نے ادب کو کبھی اپنے نظریات کے لیے پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا انھوں نے ادب کو کبھی ہتھیار نہ سمجھا۔  روس سے جنم لینے والی اس مارکسی تحریک کو آگے بڑھانے والوں میں لیوٹالسٹائی، تر گنیف چیخوف اور میکسم گور کی نے معاشرتی سطح پر کچلے ہوئے لوگوں کو ہیرو کا درجہ دیا۔  ٹرائسکی، لینن، لیوناف، چارسکی، گلیڈ کوف، پیناک، پاسٹر ناکاور شولو خوف نے سماجی کشمکش معاشی ناہمواری اور عدم مساوات کے انقلابی نظریات کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا۔

ادب سیاست اور معاشیات ایک دوسرے سے الگ نہیں کیے جا سکتے، چنانچہ خواہش کے باوجود پروپیگنڈا عناصر کو ادب سے دور نہیں رکھا جا سکا بلکہ اس کی ضرورت محسوس کی گئی۔

’’انقلاب ہی سے روس میں ادب اور سیاست ایک دوسرے سے منسلک رہے ہیں لیکن جب انقلاب کے بعد روشن خیال طبقہ برسر اقتدار آ گیا تو یہ ظاہر ہو گیا کہ ان تبدیل شدہ حالات میں ادب اور سیاست کی یکجہتی کا بہت غلط استعمال ہو سکتا ہے۔  لینن اور ٹرائسکی، لیوناف چارسکی اور گور کی نے خلوص سے ادب کو آزاد رکھنے کی کوشش کی لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ بہت وثوق سے فن کو پروپیگنڈا کا ایک ذریعہ بننے کے قابل سمجھتے تھے۔‘‘(۶۱)

یہ موضوع ایسا تھا کہ جس سے سبھی متفق تھے۔  چنانچہ انگلستان میں بھی مارکسی نظریات کو فروغ حاصل ہوا جارج ارویل، سپنڈر، آڈن لیوس، کرسٹو فراشروڈ، رالف فاکس اور کرسٹوفرکاڈویل کے ساتھ ساتھ مورس کی تخلیقات میں اس کا گہرا تاثر دیکھا جا سکتا ہے۔  برناڈ شا اور ایچ جی دیلز، رڈیاڈ کپلنگ نے مارکسی نظریات کے تحت زندگی میں موجود تضادات پر گہری تنقید کی۔

یہ تحریک چونکہ عوام سے متعلق تھی۔  ان کی زندگی کے مسائل کا حل پیش کرتی تھی اس لیے جلد ہی اس کا دائرہ اثر تمام دنیا میں پھیل گیا، چنانچہ تیسری دنیا کے پس ماندہ ممالک کا ادیب بھی اشتراکی خیالات کو اپنی تخلیقات میں جگہ دینے لگا۔  یہ الگ بحت ہے کہ حکمران طبقہ یا بورژوائی طبقے کے لیے وہ تحریریں کس حد تک قابل قبول ہیں۔

زمان و مکان ساکت و جامد نہیں زمانہ بہت تیز رفتاری سے آگے کی جانب بڑھ رہا ہے۔  وقت کو کبھی کوئی گرفت میں نہیں لے سکا۔  زمین و مکان کی ہیئت تغیر و تبدل سے آشنا ہوتی رہتی ہے۔  جغرافیائی حدود بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔  زندگی اپنی تمام تر حشرسامانیوں کے ساتھ رواں دواں ہے۔ ا دب و لسانیات بھی متحرک رہ کر ہی اپنی زندگی کا ثبوت دیتے ہیں۔  اردو زبان و ادب کی تاریخ اگرچہ بہت قدیم نہیں لیکن کچھ اتنی نئی بھی نہیں کہ اس میں کسی ارتقا کا احساس ہی نہ ہو سکے۔  برصغیر کی سرزمین سے کئی تحریکیں اٹھیں، خواہ ان کا تعلق سیاست، مذہب یا سماج سے ہو ادب پر ان کے گہرے اثرات ثبت ہوئے۔  پھر برصغیر کے بیرونی روابط بھی تھے۔  یونان، فرانس، انگلستان، جرمن، روس اور دیگر ممالک میں اٹھنے والی تحریکیوں کے اثرات جلد یا بدیر برصغیر تک پہنچے اور یہاں کے زبان و ادب نے انھیں اپنے ادب میں جگہ دی کہ اگر انھیں بدیسی اثرات کہہ کر رد کر دیا جاتا تو ادب جمود کا شکار ہو کر خود اپنی زندگی کی فنا کاباعث قرار پاتا۔  کلاسکی، رومانی، نفسیاتی، وجوی، تجریدی، حقیقت نگاری، تمثال نگاری، تاثراتی، علامت نگاری اور مارکسی تحریکات وغیرہ کا اثر اردو شعر و ادب میں بہت گہرائی و گیرائی کے ساتھ محسوس کیا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

 

حوالہ جات

 

۱۔  وقار احمد رضوی، جدید اردو غزل، کراچی نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۱۹۸۸ء صفحہ ۹

۲۔  ڈاکٹر محمد عمر، غالب نمبر الشجاع، کراچی۔  صفحہ ۵۲

۳۔  محمود الرحمن، جنگ آزادی کے اردو شعرائ، اسلام آباد قومی ادارہ برائے تحقیق، تاریخ و ثقافت ۱۹۸۶ء صفحہ ۱۰۴

۴۔  محمود الرحمن، ۱۱۲۔  جنگ آزادی کے اردو شعراء، اسلام آباد، قومی ادارہ برائے تحقیق، تاریخ وثقافت، ۱۹۸۶ء صفحہ ۱۱۲

۵۔  انور سدید، اردو ادب کی تحریکیں، کراچی، انجمن ترقی اردو ۱۹۸۵ء صفحہ ۶۱

۶۔  نذیر چوہدری، مجلہ علم و آگہی، کراچی، گورنمنٹ نیشنل کالج، صفحہ ۷۸

۷۔  انور سدید، اردو ادب کی تحریکیں، کراچی، انجمن ترقی اردو ۱۹۸۵ء صفحہ ۳۵۲۔  ۳۵۳

۸۔  محمود الرحمن، ۱۱۲۔  جنگ آزادی کے اردو شعرا، اسلام آباد، قومی ادارہ برائے تحقیق، تاریخ وثقافت، ۱۹۸۶ء صفحہ ۱۵۵

۹۔  فرمان فتح پوری، سرسید اور اکبر الہ آبادی۔  نگار، سرسید نمبر صفحہ ۲۵۱

۱۰۔  فرمان فتح پوری، سرسید اور اکبر الہ آبادی۔  نگار، سرسید نمبر

۱۱۔  ڈاکٹروقار احمد رضوی، جدید اردو غزل، کراچی نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۱۹۸۸ء صفحہ۴۴۶

۱۲۔  انور سدید اردو ادب کی تحریکیں، کراچی انجمن ترقی اردو ۱۹۸۵ء صفحہ ۳۶۱

۱۳۔  وقار احمد رضوی، جدید اردو غزل، کراچی نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۱۹۸۸ء صفحہ۲۰۱

۱۴۔  انور سدید، اردو ادب کی تحریکیں، کراچی، انجمن ترقی اردو ۱۹۸۵ء صفحہ ۳۷۰

۱۵۔  انور سدید، اردو ادب کی تحریکیں، کراچی، انجمن ترقی اردو ۱۹۸۵ء صفحہ ۳۸۲۔  ۳۸۳

۱۶۔  کلیم الدین احمد، اردو شاعری پر ایک نظر، نئی شاعری صفحہ ۳۰

۱۷۔  ابو اللیث صدیقی۔  آج کا اردو ادب، لاہور، فیروز سنز، ۱۹۷۰ء صفحہ ۶۰

۱۸۔  ابو سلمان شاہجہاں پوری، انجمن پنجاب لاہور، مجلہ علم و آگہی، گورنمنٹ نیشنل کالج کراچی صفحہ ۷۴۔  ۷۳

۱۹۔  عبدالقادر سروری، جدید اردو شاعری، لاہور غلام علی اینڈ سنز، ۱۹۷۶ء صفحہ ۱۲۱

۲۰۔  عبدالقادر سروری، جدید اردو شاعری، لاہور غلام علی اینڈ سنز، ۱۹۷۶ء صفحہ ۱۳۸

۲۱۔  ڈاکٹر شمیمہ نقوی، ترقی پسند تنقید کا ارتقاء اور احتشام حسین کراچی، اردو اکیڈمی سندھ ۱۹۸۷ء صفحہ ۲۹۱

۲۲۔  سجاد ظہیر، روشنائی، کراچی، مکتبۂ دانیال ۱۹۸۳ء صفحہ ۹۰۔  ۸۹

۲۳۔  سجاد ظہیر، روشنائی، کراچی، مکتبۂ دانیال ۱۹۸۳ء صفحہ۱۱۴

۲۴۔  عبادت بریلوی، اردو ادب کی ترقی پسند تحریک، ایک تنقیدی جائزہْ، نقوش

۲۵۔  قمر ریئس۔  عاشور کاظمی، ترقی پسندادب، پچاس سالہ سفر، دہلی ایجوکیشن پبلشنگ پریس، ۱۹۸۹ء صفحہ ۳۴۹

۲۶۔  قمر ریئس۔  عاشور کاظمی، ترقی پسندادب، پچاس سالہ سفر، دہلی ایجوکیشن پبلشنگ پریس، ۱۹۸۹ء صفحہ ۵۴۹

۲۷۔  قمر ریئس، ترقی پسند تحریک پچاس سالہ سفر، ترقی پسند نظم۔  مذاکرہ۔  دہلی ایجوکیشنل پبلشنگ پریس ۱۹۸۹ء صفحہ نمبر ۴۶۲

۲۸۔  قمر ریئس، عاشورکاظمی، مرتب۔  ترقی پسند تحریک پچاس سالہ سفر، دہلی ایجوکیشنل پبلشنگ پریس ۱۹۸۹ء صفحہ ۶۳

۲۹۔  ترقی پسند تحریک پچاس سالہ سفر، علی سردار جعفری، تحریک، جمالیات اور سیاست، دہلی ایجوکیشنل پبلشنگ پریس ۱۹۸۹ء

صفحہ

۳۰۔  قمر ریئس، عاشورکاظمی، مرتب۔  ترقی پسند تحریک پچاس سالہ سفر، دہلی ایجوکیشنل پبلشنگ پریس ۱۹۸۹ء صفحہ ۶۸

۳۱۔  ممتاز شیریں، معیار لاہر، نیا ادارہ ۱۹۶۳ء صفحہ ۱۴۵۔  ۱۴۶

۳۲۔  ممتاز شیریں، ترقی پسند ادب۔  معیار لاہور نیا ادارہ ۱۔  ۱۹۶۳ء صفحہ ۱۴۴

۳۳۔  عبادت بریلوی، اردو ادب کی ترقی پسند تحریک، ایک جائزہ، نقوش، صفحہ ۴۹

۳۴۔  ڈاکٹر محمد حسن، آزاد نظم، غزل اور ترقی پسند شاعری، نقوش، جنوری ۱۹۵۷ء صفحہ نمبر ۲۶۹

۳۵۔  کلیم الدین احمد، اردو شاعری پر ایک نظر، کراچی غضنفر اکیڈمی، ۱۹۸۵ء صفحہ ۲۱۶

۳۶۔  وقار احمد رضوی، جدید اردو غزل، کراچی نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۱۹۸۸ء صفحہ ۶۶۷۔  ۶۶۹

۳۷۔  یونس جاوید، حلقہ اربابِ ذوق لاہور، مجلس ترقی ادب، ۱۹۸۴ء صفحہ ۱۱۱

۳۸۔  محمد حسن عسکری، حلقہ اربابِ ذوق تخلیقی عمل اور اسلوب صفحہ ۳۰۰

۳۹۔  ڈاکٹر عبدالشکور احسن، اقبال کی فارسی شاعری کا تنقیدی جائزہ، لاہور، اقبال اکادمی ۱۹۷۷ء صفحہ ۴۳۷۔  ۴۳۶

۴۰۔  اقبال شاعر یا فلسفی اوریئنٹل کالج میگزین۔  اقبال نمبر صفحہ ۳۷۳

۴۱۔  فرمان فتح پوری، اقبال سب کے لیے کراچی اردو اکیڈمی سندھ ۱۹۷۸ء صفحہ ۳۹۰

۴۲۔  آل احمد سرور، اقبال اور اس کے نکتہ چیں، اقبالیات کے نقوش، مرتب ڈاکٹر سلیم اختر، اقبال اکادمی، ۱۹۷۷ء صفحہ ۷۲۵

۴۳۔  گوہر ناشاہی، لاہور میں اردو شاعری کی روایت، لاہور، مکتبہ عالیہ ۱۹۹۱ء صفحہ ۱۶۰

۴۴۔  ڈاکٹر سلیم اختر، اقبال اور ہمارے فکری رویے۔  لاہور سنگِ میل ۱۹۸۵ء صفحہ ۸۱

۴۵۔  ڈاکٹر سہیل احمد خان، علامت، نومبر ۱۹۹۲ء صفحہ ۱۵

۴۶۔  صدیق کلیم، نئی تنقید، لاہور، سوندھی ٹرانسلیشن سوسائٹی، گورنمنٹ کالج ۱۹۶۹ء صفحہ ۱۴۱

۴۷۔  ڈاکٹر سہیل احمد خان، علامتوں کے سرچشمے، پاکستانی ادب، سرسیدین ۱۹۸۲ء صفحہ ۶۳۵

۴۸۔  سجاد باقر رضوی، مغرب کے تنقیدی اصول لاہور، اظہار سنز، ۱۹۷۱ء صفحہ ۲۳۱

۴۹۔  نظیر صدیقی، اردو ادب کے مغربی دریچے، لاہور، نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۱۹۸۳ء صفحہ ۵۳

۵۰۔  انورسدید، اردو ادب کی تحریکیں، کراچی انجمن ترقی اردو، ۱۹۸۵ء صفحہ ۱۲۴

۵۱۔  نسیم نیشوفوز، ماہ نو دسمبر ۱۹۹۰ء صفحہ ۲

۵۲۔  نسیم نیشوفوز، ماہ نو دسمبر ۱۹۹۰ء صفحہ ۴

۵۳۔  نظیر صدیقی۔  اردو ادب کے مغربی دریچے، لاہور نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۱۹۸۳ء صفحہ ۱۹

۵۴۔  زوار حسین، ماوراواقعیت، ماہ نو، مارچ ۱۹۹۱ء

۵۵۔  نظیر صدیقی، اردو ادب کے مغربی دریچے، لاہور نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۱۹۸۳ء صفحہ ۵۰

۵۶۔  سجاد باقر رضوی، مغرب کے تنقیدی اصول، لاہور اظہار سنز ۱۹۷۲ء صفحہ ۲۵۰

۵۷۔  سجاد باقر رضوی، مغرب کے تنقیدی اصول، لاہور اظہار سنز ۱۹۷۱ء صفحہ ۲۹۷

۵۸۔  سجاد باقر رضوی، مغرب کے تنقیدی اصول، لاہور اظہار سنز ۱۹۷۱ء صفحہ ۲۹۹

۵۹۔  سجاد باقر رضوی، مغرب کے تنقیدی اصول، لاہور اظہار سنز، ۱۹۷۱ء صفحہ ۳۰۷۔  ۳۰۹

۶۰۔  ڈاکٹر جمیل جالبی، ارسطو سے ایلیٹ تک، کراچی نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۱۹۷۹ء صفحہ ۶۵

۶۱۔  صدیق کلیم، نئی تنقید لاہور، سوندھی ٹرانسلیشن سوسائٹی، گورنمنٹ کالج ۱۹۶۲ء صفحہ ۱۶۰

٭٭٭

تشکر: مصنفہ جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

یہ حصہ ڈاؤن لوڈ کریں

مکمل کتاب (چاروں حصے) ڈاؤن لوڈ کریں