FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

بسیرا

 

 

 

نوشاد عادل

 

 

 

شہر خموشاں کے رہنے والے ابدی نیند سو رہے تھے اور رات کے وقت قبرستان کا منظر کیسا ہوتا ہے یہ تو وہی جانتے ہیں جنہیں رات کے وقت قبرستان میں جانے کا اتفاق ہوا ہو، اور وہ بھی اکیلے۔ یہ قبرستان بہت پرانا معلوم دیتا تھا۔ اس کی چار دیواری جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ گئی تھی۔ قبرستان کے پھاٹک کا دروازہ کب کا اپنی میعاد پوری کر چکا تھا۔ اب وہ ٹیڑھا میڑھا ہو گیا تھا۔ اس کا نچلا حصہ زمین میں دھنسا ہوا تھا۔ اس وقت ہوا قدرے تیز چل رہی تھی۔ ہوا کے شوریدہ سر اور گستاخ جھونکے مرنے والوں کی روحوں کی طرح وہاں چکراتے پھر رہے تھے۔ پودوں اور درختوں سے لڑتی جھگڑتی ہوائیں جب سنسناتی ہوئی ان کے درمیان میں سے نکلتی تھیں تو یوں لگتا تھا کہ جیسی بھوت پریت ہلکی آواز میں سیٹیاں بجا رہے ہوں۔ وہاں زیادہ تر کچی اور پرانی قبریں تھیں۔ بعض قبریں کھلی ہوئی تھیں۔ ان کے تختے چوری کے لیے گئے تھے۔ ایسی کھلی ہوئی قبروں میں مردے کی باقیات چند بے ترتیب ہڈیوں کی شکل میں پڑی ہوئی تھیں۔ دور کسی گوشے سے ایک کتے کی دل دہلا دینے والی ہوک ابھر رہی تھی۔ شاید وہ اپنے مالک کی قبر پر بین کر رہا تھا۔ کتے کی رہ رہ کر ابھرنے والی ہوک سکوت شب کا دامن تار تار کر رہی تھی۔ ایسے ہول ناک ماحول میں وہاں کون جا سکتا تھا۔ خلق خدا اپنے اپنے گھروں میں سو رہی تھی۔

 

دفعتاً دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ہوا کوئی انسان قبرستان میں داخل ہوا۔ وہ اطمینان سے قبروں کے درمیان چلتا ہوا ایک طرف بڑھ رہا تھا۔ اس آدمی کے پتھریلے چہرے پر شیطانیت اور درشتی رقصاں تھی۔ وہ کوئی کفن چور تھا، نہ گور کن۔ اس آدمی کا نام رشید تھا گندے علم کا ماہر تھا۔ در اصل اسے بہت پہلے سے پراسرار علوم سیکھنے کا شوق تھا۔ وہ اپنے اس شوق کی خاطر بہت بھٹکا تھا۔ آخر اسے ایک بوڑھا شخص مل گیا تھا، جو کالے جادو کا ماہر تھا۔ رشید کے استاد نے اس کی شاگردی اختیار کر لی تھی۔ رشید کے استاد نے اسے بہت گندے علم سکھا دئیے تھے۔ ابھی کچھ دن پہلے رشید کے استاد نے اسے بتایا تھا کہ اس شہر میں ایک جگہ ایک مکان میں ایک خزانہ دفن ہے، جو عرصہ دراز پہلے ایک ہندو آدمی نے وہاں دفن کیا تھا۔

یہ قصہ پاکستان بننے سے پہلے کا ہے۔ اس ہندو آدمی کے کئی دشمن تھے جو اسے جان سے مارنا چاہتے تھے، چناں چہ ایک رات اس نے تمام دولت ایک بڑے برتن میں بند کر کے اسے زمین میں دبا دیا اور دیگ پر گندھے ہوئے آٹے کے دو سانپ بنا کر رکھ دئیے۔ اس ہندو نے عہد کیا کہ وہ پانچ سال کے بعد آ کر یہ خزانہ واپس نکال لے گا۔ ہندو اپنے بیوی بچوں کو لے کر را توں رات اپنے ہی گھر سے فرار ہو گیا، مگر وہ اپنا عہد پورا نہ کر سکا اور ایک بیماری سے مر گیا۔ یوں پانچ سال سے زائد عرصہ گزر گیا۔ پانچ سال کا عرصہ مکمل ہوتے ہی ان آٹے کے بنے ہوئے سانپوں میں جان پڑ گئی۔ آج تک خزانہ اسی جگہ جوں کا توں دفن ہے۔ اس جگہ نیا مکان بن گیا۔ اب خزانہ اس نئے مکان کے تہہ خانے میں دفن ہے۔ سب سے پہلے مکان مالک کے لڑکے کو خزانے کا علم ہوا اس نے تہہ خانے میں برتن کے ہلنے کی آوازیں سن لی تھیں۔ زمین میں موجود خزانہ کھڑک رہا تھا۔ خزانہ محفوظ رہا۔ رشید کے استاد نے اسے مزید بتاتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے بھی خزانہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی، مگر کامیاب نہ ہو سکا تھا۔ رشید نے استاد سے کہا کہ وہ اس خزانے کو نکالنے کی بھر پور کوشش کرے گا۔

لیکن وہ جانتا تھا کہ خزانہ حاصل کرنے کے لیے انتہائی کٹھن عمل کرنا ہو گا۔ اگر معمولی سی بھی گڑ بڑ ہو گی تو عمل اس پر الٹ سکتا ہے۔ استاد نے بتایا کہ زمین میں موجود خزانہ بھینٹ لے گا، تبھی باہر نکلے گا اور بھینٹ انسانی دینا ہو گی۔ رشید کو اپنا عمل شروع کرنے کے لیے ایک انسانی مخصوص ہڈی درکار تھی۔ وہ قبرستان میں ہڈی حاصل کرنے ہی آیا تھا۔ آخر وہ ایک قبر کے نزدیک پہنچ کر رک گیا۔

اگلے ہی لمحے وہ قبر کے بچے کچے بوسیدہ تختے ہٹا رہا تھا۔ اس قبر کے ابھار کی مٹی تقریباً غائب ہو چکی تھی۔ اس لیے آسانی سے تختے ہٹ گئے۔ رشید نے اندر جھانکا۔ چاند کی دھیمی روشنی میں چند ہڈیاں چمکتی ہوئی نظر آ رہی تھیں اور انسانی بھیانک کھوپڑی بھی نظر آ رہی تھی۔ رشید رشید اپنی مطلوبہ ہڈی کو دیکھ چکا تھا۔ اس کے بھدے ہونٹوں پر ایک مکروہ مسکراہٹ کھلنے لگی۔ اس کا یہ کام ختم ہو چکا تھا۔ اس نے تیزی سے وہ ہڈی اور کھوپڑی نکال لی اور واپس پلٹ گیا۔

ہوا میں یکلخت تیزی آ گئی تھی۔ وہاں عجیب عجیب آوازیں ابھرنے لگیں، جیسے روحیں آپس میں چہ میگوئیاں کر رہی ہوں۔ رشید وہاں سے سیدھا اس بڑے ویران مکان میں پہنچا، جہاں اب کوئی نہیں رہتا تھا۔ وہاں جو بھی کرائے دار رہنے آتا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں مکان خالی کر جاتا تھا، کیوں کہ وہاں ڈراؤنی آوازیں گونجتی تھیں۔

مکان کا مالک اسے اونے پونے میں بیچنے کی کوششیں کر رہا تھا۔ پورا مکان بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ وہاں کے بھاری گرد آلود ماحول میں حشرات الارض کی بہتات تھی۔ جھینگر تسلسل اور تواتر کے ساتھ جھر جھرا رہے تھے۔ جگہ جگہ مٹی دھول کی تہیں جمی ہوئی تھیں۔ مکڑیوں کے جالے بھی ہر جگہ موجود تھے۔ چھتوں اور دیواروں کے پلستر اُکھڑے ہوئے تھے، مگر رشید ان سب با توں سے بے نیاز تہہ خانے کی طرف چلا جا رہا تھا۔ تہہ خانے میں قبر ایسی خاموشی تھی۔

رشید نے اندر داخل ہونے کے بعد تہہ خانے کا دروازہ بند کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ بھلا یہاں کون آئے گا۔ اندر اس نے ایک جگہ پہلے ہی کچھ سامان رکھا ہوا تھا۔ ایک چادر تھی، صراحی تھی۔ ایک کانٹے دار پودے کی ڈنڈی تھی۔ نیم کے چند پتے تھے۔ کسی پرندے کی کھوپڑی کا ڈھانچا تھا۔ اور بھی بہت سا الم غلم سامان وہاں پڑا ہوا تھا۔ معاً رشید نے کھڑکھڑاہٹ کی آواز سنی، جو زمین میں سے ابھر رہی تھی۔ رشید کریہہ انداز میں ہنسنے لگا۔

یقیناً خزانہ انسانی خون کے لیے بے تاب تھا۔

راحیل کو اس کے انکل نے جب سے سفید سفید نرم و ملائم بالوں والی ایرانی بلی لا کر دی تھی تو خوشی کے مارے اس کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ سفید بلی کے ساتھ کھیلتا رہتا تھا۔ بلی بھی اس سے بہت مانوس ہو گئی تھی۔ اس نے بڑے پیار سے بلی کا نام مانی رکھا تھا۔ راحیل بالکل ہی بچہ نہ تھا۔ نویں جماعت کا ذہین طالب علم تھا، مگر مانی کے آنے کے بعد بچہ ہی بن گیا تھا۔ اسکول سے آنے کے بعد وہ ہوتا تھا اور اس کی بلی مانی۔ اس کے گھر والے بھی اس کی دیوانگی سے عاجز آ چکے تھے، مگر ایک اطمینان ہو گیا تھا کہ اب راحیل گھر سے باہر نہیں رہتا۔ ہر وقت ان کی نظروں کے سامنے تو رہتا ہے۔ ہاں صرف شام کو راحیل گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلنے چلا جاتا تھا، لیکن وہاں بھی مانی کو ساتھ لے کر جاتا تھا۔ مانی فرماں بردار بچے کی طرح ایک طرف بیٹھی رہتی تھی۔

 

اس وقت راحیل گھر میں ہی موجود تھا اور مانی کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ یک بیک وہ کتے کی آواز سن کر چونک گیا۔ اس نے ناگوار نظروں سے گیٹ کی طرف دیکھا، جہاں سے اس کا دوست زوہیب اپنے شرارتی کتے کے ساتھ اندر داخل ہو رہا تھا۔ زوہیب جان بوجھ کر کتے کو ساتھ لاتا تھا تاکہ کتا… راحیل کی بلی کو تنگ کرے اور یہی ہوا۔ کتے کی آواز سن کر بلی سہم گئی۔ زوہیب کا کتا بلی کو دیکھتے ہی اس کی طرف لپکا اور بلی جان بچا کر بھاگی۔ زوہیب قہقہے لگانے لگا۔

’’کیا بکواس ہے یہ…؟‘‘ راحیل جھنجلا گیا۔ ’’تم اس پاگل کو لے کر کیوں آ جاتے ہو یہاں …؟‘‘

’’ارے تو اس میں ناراض ہونے والی کونسی بات ہے۔ ‘‘ زوہیب اس کے قریب آتا ہوا بولا۔ ’’بس ٹائے گر زیادہ سے زیادہ اسے جان سے تو مارے گا…‘‘

’’کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘ راحیل نے اسے گھورا۔

’’میں تو مذاق کر رہا تھا…‘‘ زوہیب اس کی شکل دیکھ کر ہنس دیا۔ پھر ٹائے گر کو آواز دی۔ ’’اے ٹائے گر… کم آن…‘‘

’’دیکھو زوہیب… تمہارا یہ بے وقوف کتا مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا… اسے اپنے ساتھ مت لایا کرو… اگر اس نے مانی کو ذرا بھی نقصان پہنچایا تو میں اسے بھی ختم کر دوں گا۔ پتا ہے مانی کتنی قیمتی ہے ؟‘‘

’’اور تمہیں معلوم ہے، ٹائے گر کتنا قیمتی ہے ؟‘‘ زوہیب نے ہونٹ سکیٹر کر کہا۔

’’بس تو پھر اپنے قیمتی ٹائے گر کو میرے ہاتھوں مرنے سے بچا لو…‘‘ راحیل نے مضبوط لہجے میں کہا۔

’’یار تم تو ایک دم سیریس ہو گئے ہو… ٹائے گر تو مذاق کرتا ہے …‘‘

’’اللہ کے بندے … انسانی مذاق اکثر جان لیوا ثابت ہوتے ہیں، یہ تو پھر جانور کا مذاق ہے …‘‘

’’توبہ ہے …‘‘ زوہیب نے اپنا ما تھا پکڑا۔ ’’کہانیاں پڑھ پڑھ کر کہانیوں جیسے ڈائیلاگ بولنے لگے ہو۔ ‘‘

اتنے میں ٹائے گر زوہیب کے پاس آ گیا۔ راحیل نے مڑ کر مانی کو دیکھا، وہ ایک اونچی جگہ پر چڑھی ہوئی خوف زدہ نظروں سے ٹائے گر کو دیکھ رہی تھی۔ ٹائے گر مانی کی طرف منہ کر کے بھونکنے لگا۔

’’راحیل… راحیل…‘‘ کوئی اسے آوازیں دے رہا تھا۔

راحیل نے پلٹ کر دروازے کی طرف دیکھا تو پڑوس والی آنٹی نظر آئیں، جو ہاتھ ہلا رہی تھیں۔ وہ قریب آ گئیں۔ ٹائے گر کو دیکھ کر ان کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہو گئیں۔ ’’اوہ یہ شریر بھی موجود ہے۔ ‘‘ پھر راحیل سے پوچھا ’’مانی کدھر ہے ؟‘‘

راحیل کی آنٹی زبیدہ مانی سے بہت پیار کرتی تھیں۔ وہ مانی کی وجہ سے ہی یہاں آتی تھیں۔

’’وہ رہی۔ ‘‘ راحیل نے اشارہ کیا۔ ’مگر ابھی نہیں آئے گی، کیوں کہ یہاں یہ ٹائے گر جو موجود ہے۔ ‘‘

’’زوہیب اسے لے جاؤ… دیکھو، وہ کتنا ڈر رہی ہے …‘‘ آنٹی نے زوہیب سے کہا۔ وہ خاموشی سے ٹائے گر کو لے کر چلا گیا۔ تب مانی اتر کر آئی آنٹی نے بلی کو گود میں لے لیا۔

’’اوہ… راحیل دیکھو اس کے بال کتنے نرم ہیں … نیچے بھی نرم و گداز ہیں۔ ‘‘

شام کو راحیل جب گراؤنڈ کرکٹ کھیلتے گیا تو مانی کو بھی ساتھ لے کر گیا تھا۔ راحیل وہاں جا کر کھیل میں لگ گیا۔ زوہیب وہاں موجود تھا۔ اس نے اور ایک اور لڑکے واجد نے پہلے ہی ایک پروگرام بنایا ہوا تھا۔ وہ راحیل کو پریشان کرنا چاہتے تھے۔ جب راحیل کی بیٹنگ آئی تو موقع پا کر زوہیب نے مانی کو پکڑ لیا اور بھاگتا ہوا گراؤنڈ سے باہر نکل گیا۔ اس نے پھرتی سے باہر کھڑے ہوئے واجد کے ہاتھ میں بلی پکڑائی اور خود واپس آ کر اپنی جگہ بیٹھ گیا، جیسے وہاں سے ہلا تک نہ ہو۔ واجد نے مانی کو گراؤنڈ سے قریب ایک ویران اور خالی گھر میں پھینک دیا اور خود زوہیب کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔

’’کام ہو گیا ناں ؟‘‘ زوہیب نے سرگوشیانہ انداز میں پوچھا ’’کہاں ڈالا ہے ؟‘‘

’’وہیں … جہاں تم نے کہا تھا… اپنی خالی گھر میں …‘‘

’’ویری گڈ…‘‘ زوہیب مسکرانے لگا۔ ’’اب مزہ آئے گا۔ اب راحیل کی حالت دیکھنے والی ہو گی…‘‘

کھیل ختم ہونے کے بعد راحیل نے مانی کو دیکھا تو وہ اسے کہیں نہ ملی۔ وہ بہت پریشان ہوا۔ اس نے سب دوستوں سے معلوم کیا، مگر سب نے لا علمی ظاہر کی۔ راحیل کی پریشانی دیکھنے کے قابل تھی۔ وہ گراؤنڈ کے قریب گلیوں میں اسے تلاش کرنے لگا۔ شام کے سائے لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ چند دوست بھی راحیل کے ساتھ تھے۔ ان میں واجد اور زوہیب پیش پیش تھے۔ ادھر مانی بلی اس ویران گھر میں گھوم رہی تھی۔ وہ دیوار پر چڑھنا چاہتی تھی، مگر اس نے چند چوہے دیکھے تو وہ ان کی طرف جھپٹی، جس طرح کتا بلی کا دشمن ہوتا ہے اسی طرح بلی بھی چوہوں کی دشمن ہوتی ہے۔ بلی کو اپنی طرف آتا دیکھ کر چوہوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ چوہے ٹوٹے ہوئے دروازوں سے مختلف کمروں میں گھس گئے۔

بلی نے ایک چھوٹے چوہے کو تاک لیا۔

چھوٹے چوہے کی جان مشکل میں پڑ گئی تھی۔ وہ مختلف کمروں میں بھاگتا پھر رہا تھا۔ اسے کوئی جائے پناہ نہیں مل رہی تھی۔ چوہا تہہ خانے میں جا گھسا تو بلی اس کے پیچھے اندر گھس گئی۔ یہ وہی تہہ خانہ تھا، جہاں رشید خزانہ حاصل کرنے کے لیے سفلی علم کیا کرتا تھا۔ اس وقت رشید یہاں موجود نہیں تھا، البتہ اس کا سامان وہاں پڑا ہوا تھا۔ تہہ خانے میں کئی جگہ بل بنے ہوئے تھے۔ چھوٹا چوہا ایک بل میں گھس گیا۔ مانی بلی غرا کر رہ گئی۔ دفعتاً بلی کی نظر ہڈی پر پڑی۔ وہ دھیرے دھیرے اس ہڈی کی طرف بڑھی اور اسے منہ میں دبا کر تہہ خانے سے باہر نکل گئی۔ نا صرف تہہ خانے سے، بلکہ اس مکان سے ہی باہر نکل گئی۔

راحیل بلی کی تلاش سے تھک ہار کر گھر پہنچا تو گھر میں داخل ہوتے ہی اسے حیرت اور خوشی کا جھٹکا سا لگا۔ اس کی سفید پیاری سی بلی پہلے ہی گھر میں موجود تھی۔

راحیل نے بڑھ کر بلی کو گود میں لے لیا۔ ’’تم یہاں ہو… میں تمہیں تلاش کرتے کرتے تھک گیا تھا۔ ‘‘ بلی اس کے ہاتھ سے اپنا سر رگڑ رہی تھی۔

راحیل اس بات سے قطعی بے خبر تھا کہ اس کی بلی مانی کے ساتھ ایک انتہائی ہولناک حادثہ پیش آ چکا ہے۔

دوسرے دن جب راحیل اسکول سے گھر واپس آیا تو خلاف توقع آج مانی نے اس کا استقبال نہیں کیا۔ ہمیشہ جب بھی وہ اسکول سے واپس آتا تو مانی بلی کہیں بھی ہوتی، بھاگ کر میں دروازے تک آ جاتی اور راحیل اسے گود میں اٹھائے اندر داخل ہو جاتا۔ راحیل کو تشویش ہوئی کہ مانی کو کچھ ہو تو نہیں گیا۔ وہ کتابیں اپنے کمرے میں رکھ کر مانی کو آوازیں دینے لگا۔ اس نے اپنی امی اور چھوٹے بھائی سے معلوم کیا، مگر انہوں نے بھی اسے صبح سے نہیں دیکھا تھا۔ راحیل کو زیادہ تلاش نہیں کرنا پڑا۔ مانی اسٹور میں سے نکل کر باہر آ رہی تھی۔ اس کا چہرہ سستا ہو تھا اور اس میں وہ لہلہاہٹ اور چستی نظر نہیں آتی تھی، جو پہلے تھی۔

’’کیا ہو گیا اسے ؟‘‘ راحیل نے چھوٹے بھائی عدیل سے پوچھا۔ ’’کوئی الٹی سیدھی چیز تو نہیں کھلا دی؟‘‘

’’نہیں بھائی، میں نے تو کچھ بھی نہیں کھلایا۔ ‘‘عدیل نے نفی میں سر ہلایا۔

بعد میں راحیل اسکول کے کام میں مشغول ہو گیا۔ شام کے وقت حسب معلوم پڑوس والی آنٹی آئیں۔

راحیل نے کام کرتے کرتے آنٹی کو دیکھا، وہ لان میں موجود تھیں اور انہوں نے مانی کو گود میں لیا ہوا تھا۔ راحیل مسکرا کر دوبارہ کام کرنے لگا۔ اسکول کا کام بہت زیادہ تھا۔ صرف ذرا دیر کے لیے کھانے کھانے اٹھا تھا، ورنہ جب سے کام ہی کر رہا تھا۔ لکھتے لکھتے راحیل کا ہاتھ بہک گیا اور کاپی کے صفحے پر پین کی موٹی لکیر بن گئی۔

اس نے ایک تیز کٹیلی چیخ سنی تھی۔

اس کا دل اچھل پڑا۔ راحیل نے کھڑکی سے لان کی طرف دیکھا تو اسے یوں لگا، جیسے اس کی بصارت دھوکا کھا رہی ہے۔ وہ سمجھا کہ شاید آنٹی پر حملہ کرنے والی مانی بلی نہیں تھی، مگر یہ حقیقت تھی کہ وہ مانی بلی ہی تھی۔

اس کی بلی غرا غرا کر غضب ناک انداز میں آنٹی زبیدہ پر حملے کر رہی تھی۔ آنٹی چیخیں مار رہی تھیں۔ ان کے دونوں ہاتھ لہولہان ہو گئے تھے۔ راحیل فوراً لان کی سمت دوڑا۔ اس نے قریب جا کر بلی کو دبوچ لیا، جو آنٹی کی گردن پر اپنے دانت پیوست کرنا چاہتی تھی۔ راحیل کی حالت عجیب ہو گئی۔ وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ غصے کا اظہار کرے یا حیرت کا۔ آنٹی کی آوازیں سن کر راحیل کی امی آ گئیں۔

’’کیا ہوا…؟ کیا ہوا…؟‘‘ راحیل کی امی کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔

’’بلی… بلی… مانی…‘‘ آنٹی زبیدہ کے منہ سے بمشکل نکلا۔

راحیل کی امی نے فوراً اپنا دوپٹہ پھاڑ ڈالا اور دونوں ہاتھوں پر اسے لپیٹ دیا۔

’’اُف… نا جانے اسے کیا ہوا تھا۔ ‘‘ آنٹی کے حواس جب قدر سے بحال ہوئے تو انہوں نے بتایا۔ ’’میں اس کو پیار کر رہی تھی کہ اچانک اس نے غرا کر میرے ہاتھوں پر پنجے مارنا شروع کر دئیے، پتا نہیں کیا ہوا تھا اسے۔ ‘‘

رشید کو ایک انسان کی ضرورت تھی، لیکن انسانی بھینٹ کا مرحلہ ابھی نہیں آیا تھا۔ وہ ایک مشکل عمل کر رہا تھا۔ اس جاپ کے مکمل ہونے کے بعد خزانے کے محافظ سانپ دوبارہ آٹے کے بن جاتے۔ فی الحال تو وہ سانپوں کو باہر نکالنے کے لیے عمل کر رہا تھا۔ اس نے تہہ خانے میں ایک مٹی کے پیالے سے دودھ بھی رکھ رہا تھا، تاکہ سانپ باہر آ کر دودھ پی کر چلے جائیں پھر انسانی بھینٹ دے کر خزانہ حاصل کر لیا جائے۔

 

اگلی رات جب رشید تہہ خانے میں پہنچا تو ہڈی کو غائب پا کر حیران پریشان رہ گیا۔ آخر یہاں سے ہڈی کون لے کر جا سکتا تھا۔ بالغرض اگر یہاں کوئی آیا بھی تھا تو صرف ایک ہڈی ہی کیوں لے گیا، بھلا ہڈی اس کے کس کام میں آئے گی۔ یک بارگی رشید چونک کر زمین پر کچھ دیکھنے لگا۔ تہہ خانے میں چھوٹے چھوٹے نشانات بنے ہوئے تھے۔ گرد کی وجہ سے وہ واضح نظر آ رہے تھے۔

رشید کے حلق سے آواز برآمد ہوئی۔ ’’تو اس کا مطلب ہے یہاں کوئی بلی آئی تھی۔ ‘‘ ایک طرح سے وہ مطمئن بھی ہو گیا تھا کہ اگر یہاں کوئی انسان آتا تو اس کا سامان دیکھ کر سمجھ جاتا کہ یہاں کوئی شیطانی عمل کر رہا ہے اور اس کا بھانڈا بھی پھوٹ سکتا تھا۔ وہ گرفتار بھی ہو سکتا تھا۔ رشید آسیبی انداز میں ہنستا ہوا اپنے سامان کی طرف بڑھنے لگا۔ وہ انسانی کھوپڑی پر عمل کر کے معلوم کر سکتا تھا۔ وہ بلی کہاں گئی ہے ؟ اس کا ٹھکانہ کہاں ہے ؟

منور علی صاحب کے ساتھ ایک مصیبت یہ تھی کہ وہ بے خوابی کا شکار رہتے تھے۔ وہ را توں کو لاکھ کوشش کے باوجود سو نہیں پاتے تھے۔ انہوں نے کبھی خواب اور گولیاں استعمال نہیں کی تھیں۔ وہ اس کو مصنوعی طریقہ قرار دیتے تھے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ منور علی صاحب ریٹائرڈ فوجی افسر تھے۔ ریٹائر منٹ کے بعد بھی ان کے اندر کا فوجی ختم نہیں ہوا تھا۔ وہ اب بھی اپنے آپ کو فٹ رکھنے میں کامیاب تھے۔ مگر برا ہوا اس بے خوابی کا… زندگی اجیرن کر دی تھی بدبخت نے … سکون سے سونا ان کی خواہش بن گیا تھا۔ وہ را توں کو لان میں ٹہلتے تھے۔ کبھی مطالعہ کرنے لگتے۔ اگر زیادہ ہی دل گھبراتا تو چھت پر چلے جاتے تھے۔ ان کا نوکر اسماعیل بھی ان کے ساتھ ہوتا تھا۔ انہوں نے اسماعیل کو اسی لیے ملازم رکھا تھا کہ وہ را توں کو ان کے لیے چائے اور کافی بنائے ان کے ساتھ رہے۔ منور صاحب رات گزاری کے لیے اسماعیل کو اپنی فوجی زندگی کے قصے سناتے تھے۔ جو اسماعیل دل چسپی سے سنتا تھا اور یونہی با توں میں رات گزر جاتی تھی۔

 

آج رات بھی حسب معمول وہ چھت پر موجود تھے۔ اسماعیل ان کے اور اپنے لیے کافی بنا لایا تھا۔ آج منور علی صاحب سیاست پر گفتگو کر رہے تھے۔ اچانک بولتے بولتے منور صاحب رک گئے۔ وہ ایک طرف گھور کر دیکھ رہے تھے۔

اسماعیل، جو کافی پینے کے ساتھ ساتھ ان کی بات سن رہا تھا۔ ان کے خاموش ہونے پر چونک پڑا۔ ’’کیا بات ہے سر؟… آپ خاموش کیوں ہو گئے اچانک؟‘‘

’’شش… ایک منٹ…‘‘ منور صاحب نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بدستور اسی سمت گھورتے رہے، مگر نظروں کی راہ میں گہرا سیاہ اندھیرا حائل تھا۔

’’وہاں دیکھو…‘‘ منور صاحب نے اس طرف انگلی اٹھائی۔ ’’تمہیں کچھ نظر آ رہا ہے …‘‘

’’ہاں سر…‘‘ اسماعیل غور سے دیکھتا ہوا بولا ’’وہاں تو سرد ویران گھر ہے …‘‘

’’وہ تو مجھے بھی معلوم ہے۔ ‘‘ منور صاحب نے فوجیوں جیسے لہجے میں کہا۔ ’’مگر میں نے وہاں کوئی ہیولہ دیکھا تھا۔ ‘‘

’’ہو سکتا ہے، وہاں سے کوئی گزر رہا ہو…‘‘ اسماعیل نے قیاس آرائی کی، جیسے منور صاحب نے سر کی جنبش سے مسترد کر دیا۔ ’’میں گھر کے باہر کی نہیں، اندر کی بات کر رہا ہوں اندر کوئی کھڑا تھا۔ ‘‘

’’اندر…؟‘‘ اسماعیل بے یقینی سے ان کا چہرہ تکنے لگا۔ ’’مگر وہ تو عرصے سے خالی…‘‘ اسماعیل نے منور صاحب کی کڑی نظریں دیکھتے ہی اپنی بات بدل ڈالی ’’شش… شاید… کوئی ہو سکتا ہے۔ ‘‘

’’میرا خیال وہ کوئی چور ہی ہو گا۔ ‘‘ انہوں نے ویران گھر دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’جو اتنی رات کو یہاں چوری کا مال چھپانے آیا ہو گا۔ ‘‘

’’سر آپ نے اچھی طرح دیکھا تھا، وہ انسان کا ہی سایہ تھا؟‘‘

’’محض چند سیکنڈ وہ نظر آیا تھا۔ اس کے بعد دکھائی نہیں دیا… ویسے میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ انسان ہی تھا…‘‘ منور صاحب نے ٹھوس لہجے میں کہا۔

اسماعیل آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ویران گھر کی طرف دیکھنے لگا شاید اسے وہ ہیولہ نظر آئے۔

راحیل اپنی آنٹی زبیدہ کے ساتھ ڈاکٹر کے کلینک گیا تھا، تاکہ ان کے ہاتھوں کو ڈریسنگ کرائی جائے۔

 

آنٹی نے بتایا کہ وہ کافی تکلیف محسوس کر رہی ہیں۔ زخموں میں جیسے آگ بھر گئی ہو۔ ڈاکٹر نے زخموں پر بندھا کپڑا ہٹایا تو حیرت زدہ رہ گیا خود راحیل اور آنٹی بھی حیران رہ گئیں۔ پتلی پتلی خراشوں کی لکیریں اب کافی چوڑی ہو گئی تھی اور ہاتھ کا وہ حصہ پورا سوج گیا تھا۔ زخموں کے اردگرد کی کھال گلابی پڑ گئی تھی۔ ڈاکٹر بے یقینی اور تعجب سے زخموں کو دیکھ رہا تھا۔

’’یہ… یہ کس چیز سے زخم آئے ہیں ؟‘‘ ڈاکٹر سراپا سوال بن گیا۔ اس کے چہرے پر ایک تحیر آمیز کیفیت پائی جاتی تھی۔

’’بلی نے پنجے مارے تھے۔ ‘‘ راحیل نے جلدی سے وضاحت کی۔

’’حیرت ہے میں نے اپنی زندگی میں بلی کے پنجوں سے آنے والے ایسے زخم نہیں دیکھے۔ ‘‘ ڈاکٹر متفکر بھی نظر آتا تھا۔ ’’ویسے ہو سکتا ہے، آپ کی جلد پر پنجوں کے جراثیم کاری ایکشن ہوا ہو۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، میں ابھی چیک کر لیتا ہوں۔ ‘‘ ڈاکٹر نے اسے اچھی طرح چیک کیا اور ایک ٹیوب زخموں پر مل دی۔ ڈریسنگ کے بعد انہیں فارغ کر دیا۔

گھر آ کر راحیل اپنے کمرے میں لیٹ گیا۔ سوچ سوچ کر اس کے سر میں دکھن ہونے لگی تھی۔ یہ آخر کیا چکر تھا؟ کھانا کھانے کے بعد راحیل دوبارہ کمرے میں آ گیا۔ اس نے مانی کی تلاش میں نظریں دوڑائی، مگر وہ کہیں نظر نہ آئی۔ مانی کا خیال دماغ سے جھٹک کر وہ آرام سے لپٹ گیا، لیکن لیٹتے ہی خوف ناک قسم کے خیالات اس کے دماغ میں سر ابھارنے لگے۔ وہ ان سے پیچھا چھڑانا چاہتا تھا، مگر وہ اتنا ہی اس کی بند نظروں کے سامنے آتے جا رہے تھے۔ اس کا قلبی اضطراب بڑھتا جا رہا تھا۔ کافی رات تک وہ بے چین انداز میں کروٹیں بدلتا رہا۔ اس کی چھٹی حس اسے چیخ چیخ کر خبردار کر رہی تھی کہ کوئی ہول ناک خطرہ اس کے اردگرد منڈلا رہا ہے۔

راحیل ایک دم چونک گیا۔ ’’خطرہ…؟ کیسا خطرہ…؟ نہیں یہ… یہ صرف میرا وہم ہے۔ ‘‘

وہ بے چینی ہو کر بستر سے اٹھ گیا۔ رات کا بیش تر حصہ سلگتی ہوئی لکڑی کی طرح سلگتے سلگتے ختم ہو گیا تھا۔ اس کا دماغ پھٹا جا رہا تھا۔ دل کسی انجانے خطرے کی وجہ سے خزاں زدہ پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔ اچانک ایک کھٹکا ہوا۔

راحیل اچھل پڑا۔ اس نے سراسیمہ نظروں سے کھڑکی کی طرف دیکھا تو اس کا دل مرغ بسمل کی طرح پھڑاکے مارنے لگا۔ لان کی طرف کھلنے والی کھڑکی پر اس کی بلی بیٹھی تھی اور بلی کی نظریں اس پر جمی تھیں۔ وہ بالکل ساکت و جامد تھی۔ راحیل نے دھندلائی ہوئی نظروں سے دیکھا۔ بلی کے منہ اور اگلے پنجوں پر خون لگا ہوا ہے۔ اسے زوروں کے چکر آ گئے۔

اگلے روز راحیل کو اپنے چھوٹے بھائی عدیل سے معلوم ہوا کہ زوہیب کو اس کے گھر والے اسپتال لے گئے ہیں۔ نا جانے رات کو اسے کیا ہوا تھا۔ راحیل اسپتال کا نام معلوم کر کے وہاں پہنچا۔ اس نے گزشتہ رات کا واقعہ کسی کو نہیں بتایا تھا اسے کچھ علم نہیں تھا کہ مانی کو دیکھنے کے بعد اس پر کیا بیتی تھی، کیوں کہ وہ بے ہوش ہو گیا تھا۔ صبح دیر سے بھی اُٹھا تھا۔ گھر والے سمجھے کہ طبیعت خراب ہے راحیل اسپتال گیا تو وہاں زوہیب کے تمام گھر والے موجود تھے۔ زوہیب کی والدہ نے روتے ہوئے بتایا کہ رات کو اچھا خاصا تھا۔ صبح ہم نے اسے لان میں پڑا دیکھا۔ اس پر سکتے کی کیفیت طاری تھی۔ اور اس کا کتا ٹائے گر مرا پڑا تھا۔ کسی نے اسے بے رحمانہ طریقے سے چیر پھاڑ ڈالا تھا۔

یہ سن کر راحیل کی رگ و ریشے میں خوف و دہشت کی لہریں سرایت کر گئیں۔

اسے رات کا واقعہ یاد آ گیا، جب اس نے مانی بلی کے منہ اور پنجوں پر خون لگا دیکھا تھا۔ اس کا کیا مطلب تھا؟ راحیل نے لرزتے دل کے ساتھ سوچا۔ تاہم اس نے مانی کے بارے میں کسی کو نہیں بتایا۔ اس کو پختہ یقین تھا کہ زوہیب کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا ہے، اس میں ضرور مانی بھی ملوث ہے۔ اس نے زوہیب کو دیکھا، جو سکتے کی کیفیت میں تھا۔ وہ پھٹی پھٹی نظروں سے کسی غیر مرئی نقطے کو گھورے جا رہا تھا۔ راحیل نے دیکھا، اس کی آنکھوں میں ایک خوف منجمد ہو کر رہ گیا تھا، جیسے وہ اب تک کوئی ڈراؤنا منظر دیکھ رہا ہو۔ ڈاکٹروں کے مطابق اس نے کوئی خوف ناک خواب دیکھ لیا تھا، جس کا اثر براہ راست اس کے اعصابی نظام پر پڑا تھا، اس لیے اس پر سکتہ طاری ہو گیا تھا۔ زوہیب کے گھر والے ٹائے گر کی پراسرار موت پر پریشان تھے، مگر زوہیب کی موجودہ حالت کے پیش نظر ٹائے گر کی موت کے معمے کو پس پشت ڈال دیا تھا اور راحیل کے خیال میں یہ بہتر ہی تھا۔ زوہیب خاموش بیٹھا تھا۔ راحیل زوہیب کے گھر والوں سے اجازت لے کر واپس اپنے گھر آ گیا۔ اب اسے مانی سے ایک خوف سا محسوس ہونے لگا تھا۔ پہلے وہ باہر سے آتے ہی ہمیشہ مانی کو تلاش کرتا تھا اور مانی کہیں بھی ہوتی بھاگتی چلی آتی تھی، مگر اب ایسا نہیں تھا۔ اسے یوں لگتا تھا کہ اس کے گھر میں کسی آسیب نے بسیرا کر لیا ہے۔ راحیل ایسی با توں پر یقین نہیں رکھتا تھا، مگر موجودہ صورت حال کو دیکھتے، جانچتے ہوئے اسے یقین کرنا پڑا تھا۔ آتے آتے وہ آنٹی کی خیریت دریافت کر آیا تھا۔ ان کے ہاتھ کی وہی حالت تھی، جو پہلے تھی۔

راحیل سیدھا اپنے کمرے میں پہنچا اور دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ بلی اس کے کمرے میں آ جائے۔ وہ اب سنجیدگی سے غور کر رہا تھا کہ وہ مانی کو کہیں دور چھوڑ کر آ جائے۔ یہ سوچتے وقت وہ دو مختلف احساسات کا شکار تھا۔ مانی سے اسے محبت بھی تھی۔ وہ اس کی چہیتی بلی تھی۔ اسے چھوڑنے کا خیال آتے ہی دل میں غم اور اداسی کا دھواں بھر گیا تھا، مگر گزشتہ دنوں ہونے والے واقعات کو بھی مد نظر رکھنا تھا۔ وہ اس تلخ حقیقت سے روگردانی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ سب مانی کی وجہ سے ہی ہوا تھا۔ وہ اپنے بستر پر بیٹھا ہوا سوچ کے دریا میں بن کر غوطے لگا رہا تھا۔

اچانک ’’میاؤں ‘‘ کی آواز نے اسے دہلا دیا۔ مانی پہلے ہی کمرے میں موجود تھی۔

راحیل نے خوف زدہ نظروں سے اسے دیکھا۔ اب اس کے منہ اور پنجوں پر خون کے نشانات بھی نہیں تھے۔ راحیل اپنی جگہ مجسمے کی طرح بیٹھا اسے دیکھے جا رہا تھا۔

مانی اس کے نزدیک آ کر رک گئی۔ دیکھنے میں وہ بہت خوب صورت بلی تھی، مگر راحیل کو اس سے خوف آ رہا تھا۔ ایک لمحے کو راحیل کے دماغ میں یہ خیال آیا کہ کہیں وہ اسے غلط تو نہیں سمجھ رہا ہے ہو سکتا ہے۔ ان تمام پراسرار واقعات میں مانی کا کوئی دخل نہ ہو۔

’’میاؤں۔ ‘‘ مانی نے بھولپن سے راحیل کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔

راحیل نے دھیرے دھیرے ہاتھ بڑھا کر اسے گود میں اٹھا لیا اور اس کے سر میں ہاتھ پھیرنے لگا۔ مانی اس کے ہاتھ سے اپنا سر رگڑ رہی تھی۔ یہ دیکھ کر راحیل کے ذہن سے تمام وسوسے اور شبہات زائل ہونے لگے۔

’’اوہ مانی… آئم سوری… میں تمہیں غلط سمجھ رہا تھا۔ ‘‘ لیکن اس کے ذہن میں ایک گرہ پڑی ہوئی تھی۔ وہ خون کو کس خانے میں فٹ کرے، جو گزشتہ رات اس نے مانی کے منہ اور پنجوں پر دیکھا تھا۔ ہو سکتا ہے مانی نے کسی چوہے کو مارا ہو۔ وہ مانی کے بالوں میں ہاتھ پھیر رہا تھا، وہی ملائمت تھی اس کے سفید سفید بالوں میں۔

مانی اس کے ہاتھوں میں لوٹنے لگی، جونہی وہ پلٹی راحیل دھک سے رہ گیا۔ ایک یخ بستہ برف کی سی ٹھنڈک اس کے دل میں لکیر کی صورت میں اترتی چلی گئی۔ اس کے ہاتھ پیر ڈھیلے پڑنے لگے۔ مانی کے پیٹ کا حصہ سیاہ بالوں سے بھرا ہوا تھا، جب کہ پہلے ایسا ہرگز نہیں تھا۔ وہ پوری کی پوری سفید بالوں والی بلی تھی، مگر… یہ … یہ کالے بال کہاں سے پیدا ہو گئے ؟ کیا کوئی کالا جادو…؟

’’دیکھا تم نے …؟‘‘ منور علی صاحب نے پر جوش انداز میں کہا۔ ’’اب تو تمہیں یقین آ گیا ہو گا؟‘‘

 

اسماعیل نے اثبات میں سر کو جنبش دی۔ ’’جی سر… وہ کوئی آدمی ہی ہے۔ یقیناً وہ چور ہی ہو گا۔ ‘‘

’’چلو جلدی کرو… آج اس چور کی گدی پکڑ لیتے ہیں … میری بندوق نکال لینا۔ ‘‘ منور صاحب کے اندر کا فوجی جاگ گیا۔

اسماعیل ان کا ارادہ جان کر کانپنے لگا۔ ’’سس… سر… سر یہ آپ کیا کر رہے ہیں سر سوچیے ذرا…‘‘

’’احمق آدمی میں تم کو اکیلے ہی نہیں بھیج رہا ہوں۔ ‘‘ منور صاحب بگڑ گئے۔ ’’میں تمہارے ساتھ ہوں … تمہاری جان کیوں نکلی جا رہی ہے۔ ‘‘

’’چچ… چلیے سر…‘‘ اُن کا موڈ دیکھ کر مجبوراً اسماعیل نے حامی بھر لی۔

دونوں بندوق لے کر گھر سے باہر نکلے اور اس خالی گھر کی طرف بڑھنے لگے، جہاں ’’چور‘‘ گھسا ہوا تھا۔

ہر طرف سناٹا اور اندھیرا تھا۔

اسماعیل کی کپکپی چھوٹ رہی تھی۔ وہ اس وقت کو کوس رہا تھا، جب منور صاحب نے ہیولہ دیکھا تھا، لیکن اب وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اب تو ہر حالت میں ان کا ساتھ دینا تھا۔ اس مکان کے آگے آ کر دونوں رک گئے اندر سے دروازہ بند پڑا تھا۔ منور صاحب نے اسے دیوار پر چڑھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی دیوار پر چڑھنے لگے۔ وہ دیوار پر چڑھ گئے اور اسماعیل کو بھی چڑھنے میں مدد دی۔ اندر کا بھیانک ماحول دیکھ کر اسماعیل کی رگوں میں خون جمنے لگا۔ ایک آسیبی کہر وہاں چھائی ہوئی تھی۔ دھندلا سا غبار وہاں کے اُجاڑ اور برباد لان کی فضا میں منجمد تھا۔ اوپر سے حشرات الارض کی مختلف آوازیں وہاں کے ڈراؤنے پن میں مزید اضافہ کر رہی تھیں۔ کئی مرتبہ وہاں بھاگتے ہوئے چوہے ان کی ٹانگوں سے ٹکرا گئے۔ اسماعیل کے منہ سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی تھی۔ منور صاحب نے اسے سرگوشیانہ انداز میں ڈانٹا تھا۔

وہاں روشنی کا کوئی انتظام نہیں تھا، مگر پھر بھی ایک نیلی غبار آلود روشنی وہاں پھیلی ہوئی تھی۔ اسماعیل کی پوری کوشش تھی کہ وہ منور صاحب کے ساتھ ہی رہے۔ کہیں وہ بے دھیانی میں اس سے الگ نہ ہو جائیں۔ چنانچہ وہ ان کے ساتھ ساتھ قدم اٹھاتا جا رہا تھا۔

’’سر… سر… میرا خیال ہے، چور یہاں سے نکل گیا ہے …‘‘ اسماعیل نے ان کے کان میں کہا۔

’’شش بے وقوف… خاموش رہو۔ ‘‘ منور صاحب نے اسے دھیمی آواز میں جھڑکا۔

’’سس… مجھے … ڈ… ڈر لگ رہا ہے۔ ‘‘ اسماعیل نے کانپتے ہوئے انکشاف کیا۔ وہ بھاگ نکلنے کی فکر میں تھا۔

منور علی صاحب نے پلٹ کر بندوق اسماعیل پر تان لی اور غرائے۔ ’اگر اب منہ سے ایک لفظ بھی نکالا تو میں تمہیں مار کر چلا جاؤں گا۔ ‘‘

اسماعیل کی گھگھی بندھ گئی۔ وہ تھر تھر کانپنے لگا تھا، بلکہ کانپنے میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔ ’’جی… جی سر غلطی ہو گئی۔ ‘‘

اسماعیل کا چہرہ عجیب سا ہو گیا۔ وہ اب کچھ نہ بولا تھا۔

وہ دونوں مختلف کمروں میں گھومتے رہے۔ آخر ایک کمرے میں آ کر انہیں چونک جانا پڑا۔ وہاں انہوں نے تہہ خانہ دیکھ لیا تھا، جس کی سیڑھیاں نیچے جا رہی تھیں۔ منور علی صاحب کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ وہ سمجھ گئے، یقیناً چور یہیں پر چوری کا مال جمع کرتا ہو گا اور اس وقت بھی وہ اندر موجود ہو گا۔ وہ کسی چیتے کی طرح ہوشیار اور چوکس ہو گئے۔ اسماعیل کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کر کے وہ دبے قدموں زینے سے نیچے اترنے لگے۔ معمولی سی بھی آواز پیدا نہیں ہو رہی تھی۔

زینے کا اختتام ایک بڑے کمرے میں ہوا، جہاں کافی روشنی تھی۔ وہاں انہیں عجیب و غریب آوازیں آ رہی تھیں۔ کسی کے بولنے کی آواز بھی آ رہی تھی، مگر مفہوم سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ نا جانے بولنے والا کیا کہہ رہا تھا۔ زینے کے قریب ہی ایک بڑا سا چبوترا سا بنا ہوا تھا۔ منور علی صاحب اور اسماعیل چبوترے کے عقب میں چھپ گئے۔ انہوں نے جھانک کر دیکھا اور گویا ان کا دل دھڑکنا بھول گیا۔ پورا بدن ٹھنڈے ٹھنڈے پسینوں میں بھیگتا چلا گیا۔

نئی صبح راحیل اُٹھا تو بلی اس کے نزدیک ہی بیٹھی تھی۔ یہ دیکھ کر وہ پلکیں جھپکنا بھول گیا کہ مانی بلی کا آدھا بدن کالے بالوں سے بھرا ہوا تھا۔ ایک رات میں ہی وہ نصف کالی ہو گئی تھی۔ گویا وہ سفید سے کالی بلی کا روپ دھار رہی تھی۔ کالی بلی… جو نحوست اور بدبختی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ راحیل فوراً اپنے کمرے سے باہر نکل گیا وہ عجیب مشکل میں پھنس گیا تھا۔ اسے بلی کو ہاتھ لگانے سے بھی ڈر لگ رہا تھا۔ وہ کئی دنوں سے اسکول بھی نہیں جا رہا تھا۔ وہ سیدھا باتھ روم میں جا گھسا۔ پھر ناشتا کرنے کے بعد آنٹی زبیدہ کی طرف چلا گیا۔ اُن کی حالت بہت بگڑی ہوئی تھی۔ دونوں ہاتھ آدھے آدھے سوج گئے تھے اور گلابی پن بڑھ گیا تھا۔ ویسے ہاتھ کام ٹھیک ٹھاک کام کر رہے تھے، لیکن گلابی پن اور سوجن کی وجہ سے بدنما لگ رہے تھے۔ ان کا فیملی معالج خود پریشان تھا۔ اس کے کہنے کے مطابق یہ اپنی نوعیت کا عجیب کیس تھا۔ بہرحال وہ اپنی سی کوشش کر رہا تھا۔

 

راحیل کافی دیر تک وہاں رکا پھر گھر آ گیا۔ اسے مانی کہیں نظر نہیں آئی۔ راحیل چاہتا بھی یہی تھا کہ مانی اس کی نظروں سے دور ہی رہے۔ شام کے وقت وہ زوہیب کے گھر گیا۔ اس کے گھر والے اسے اسپتال سے لے آئے تھے، تاہم اس کی حالت پہلے جیسی ہی تھی۔ سکتہ تھا کہ ٹوٹنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ زوہیب کی والدہ کا کہنا تھا کہ اس پر کسی آسیب کا اثر ہو گیا ہے۔ وہ کافی دیر زوہیب کے پاس ٹھہرا۔ پھر گھر کی طرف چل دیا۔ اس نے اپنی دستی گھڑی پر نظر ڈالی تو حیران رہ گیا۔ ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا تھا۔

یک لخت اسے اپنے عقب سے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔

اس نے مڑ کر دیکھنا چاہا، مگر کامیاب نہ ہو سکا ایک مضبوط ہاتھ اس کے منہ پر جم گیا راحیل کی آنکھیں دہشت سے اُبل پڑیں۔ وہ تڑپا، مگر پکڑنے والی کی گرفت بہت مضبوط تھی۔ اگلے ثانیے اس کی ناک پر ایک رو مال آ لگا۔ پھر راحیل کو کچھ بھی یاد نہ رہا۔ اس کا دماغ اندھے کنویں میں بھاری پتھر کی طرح بیٹھتا چلا گیا۔

اسے اغوا کرنے والا رشید کے علاوہ کون ہو سکتا تھا۔ گلی سنسان تھی۔ کوئی بھی وہاں نہیں تھا ماسوائے ان دونوں کے۔ رشید کو اپنے علم سے معلوم پڑ گیا تھا کہ وہ بلی اسی لڑکے کے پاس ہے، جو اس کی سحر زدہ ہڈی لے گئی تھی۔ یوں بھی اسے انسانی بھینٹ دینے کے لیے ایک جیتا جاگتا انسان درکار تھا، جو اسے اس لڑکے کی شکل میں مل گیا تھا۔ رشید نے اپنے کندھے پر پڑی ہوئی چادر اُتاری اور لڑکے کو اس میں لپیٹ کر کندھے پر ڈال لیا۔ اب اس کا رخ اسی گھر کی جانب تھا، جہاں خزانہ دفن تھا۔

 

تہہ خانے میں آنے کے بعد رشید نے لڑکے کو اس جگہ لٹا دیا، جس کے عین نیچے خزانے کی دیگ موجود تھی اور خود ایک عمل میں مصروف ہو گیا یہ طویل اور صبر آزما عمل تھا۔ اس نے وہاں دودھ سے لبریز پیالا بھی رکھا ہوا تھا، تاکہ سانپ باہر آ کر دودھ پئیں اور باہر چلے جائیں۔ جوں جوں رشید عمل کرتا جا رہا تھا۔ زمین کے نیچے کھڑکھڑاہٹ کی آوازیں بتدریج ابھرتی جا رہی تھیں۔ پھر ایک طرف زمین میں خفیف سا شگاف پڑ گیا اور اس میں سے دو کالے دھاریوں والے ناگ باہر نکلے۔ وہ اشتعال میں پھنکاریں مار رہے تھے۔ ان کی دو شاخہ زبانیں بار بار لپلپا رہی تھیں۔ وہ دودھ کی بو سونگھ چکے تھے اور پیالے کی طرف بڑھنے لگے گو کہ دونوں سانپ زیادہ لمبے نہیں تھے، مگر رشید جانتا تھا کہ وہ کتنے خطرناک اور زہریلے ہیں۔ دونوں ناگ دودھ پینے میں مشغول ہو گئے۔ رشید نے دیکھا کہ دودھ ان کی پھنکار، گرم سانس اور زہریلی زبان سے نیلا پڑ گیا تھا۔ دودھ کا پیالا ختم کرتے ہی دونوں سانپ زینے کی طرف بڑھ گئے۔ زینے کے قریب چبوترے کے اوٹ میں منور علی اور اسماعیل چھپے ہوئے تھے۔ سانپوں نے انہیں نظر انداز کر دیا تھا۔ اسماعیل دہشت کے مارے بے ہوش ہو چکا تھا۔ منور صاحب کی عقل کام نہیں کر رہی تھی۔ ان کے ہاتھوں میں دبی ہوئی بندوق لرزش کے مارے ہل رہی تھی۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ یہ شخص کوئی شیطانی کام کر رہا ہے۔ پھر وہ سانپوں کو دیکھ کر اور زمین سے ابھرنے والی کھڑکھڑاہٹ کو سن کر جان گئے کہ یہ شخص خزانے کے لیے سب کچھ کر رہا ہے۔ اور اس خیال سے ہی وہ لرزہ ہو گئے کہ وہ شخص اس لڑکے کو خزانے کی بھینٹ چڑھانا چاہتا ہے، تاکہ خزانہ اوپر آ جائے۔ منور علی صاحب نے ایسے بہت سے قصے سن رکھے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ زمین میں مدفن خزانہ انسانی خون مانگتا ہے اور جب اسے زندہ انسان کا خون مل جاتا ہے تو وہ اوپر آ جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی انسانی پنجر بھی اوپر آ جاتا ہے، جس میں خون کی ایک بوند بھی نہیں ہوتی۔ خزانے کے محافظ سانپوں کو مارا نہیں جاتا، کیوں کہ خزانے کے سانپوں کو مارنا بد شگونی سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے سوچا کہ لڑکے کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے، مجھے کچھ کرنا چاہیے۔

انہوں نے بندوق اٹھائی اور اس آدمی کی کھوپڑی کا نشانہ لے لیا۔

اس آدمی کی پشت ان کی طرف تھی۔ گڑ گڑاہٹ بڑھنے لگی تھی۔ اس کے ساتھ ہی آدمی کی آواز بھی بلند ہوتی جا رہی تھی۔ منور صاحب نے اچھی طرح سے اس کے سر کا نشانہ لے لیا۔ ان کی بندوق بھی ڈبل بیرل تھی۔ اس کا ایک کارتوس تقریباً تین انچ لمبا ہوتا ہے کارتوس اپنے نشانے پر جا کر پھٹ جاتا ہے اور اس میں سے ان گنت ننھے ننھے چھرے گھومتے ہوئے نکلتے ہیں۔ گولی جسم کے جس حصے میں گھستی ہے وہاں صرف گولی کی گولائی کے برابر سوراخ ہوتا ہے، مگر وہ بدن کے اندر تباہی مچا کر دوسری جانب سے بے شمار چھروں کی صورت میں بڑا سوراخ کرتی ہوئی نکل جاتی تھی۔ منور علی صاحب نے دھڑکتے دل کے ساتھ ہی لبلبی پر انگلی رکھ دی اور انگلی کا دباؤ بڑھنے لگا۔

ناگہاں اس آدمی پر ایک سفید اور سیاہ بلی نے حملہ کر دیا۔

نا جانے کب وہ اندر داخل ہو گئی تھی۔ وہ آدمی اس افتاد ناگہانی سے بوکھلا گیا تھا۔ وہ راحیل کی بلی مانی تھی۔ رشید مصیبت میں گرفتار ہو گیا تھا۔ بلی نے پہلے ہی حملے میں اس کے چہرے پر کئی گہری خراشیں ڈال دی تھیں۔ رشید اپنا جنتر منتر بھول گیا تھا اور اپنی جان بلی سے چھڑانے کی فکر میں لگ گیا تھا۔ مانی بلی بار بار اس پر جھپٹ رہی تھی۔ رشید نے بلی کو پکڑ کر دیوار پر مارا۔ وہ ابلیسی انداز میں چیخی۔ ادھر راحیل کے بدن میں کسمساہٹ ہونے لگی تھی۔ اس کی بند آنکھوں کے پپوٹے متحرک ہو گئے تھے۔ اس کے عین نیچے گڑ گڑاہٹ ہو رہی تھی۔ ایک دم اس کے حواس بیدار ہو گئے۔ اس نے متوحش نظروں سے رشید کی طرف دیکھا اور اس جگہ سے ہٹ گیا۔ چند لمحوں کی بات رہ گئی تھی، ورنہ اس رات راحیل مر جاتا۔ اس کے ہٹتے ہی زمین میں گہرا شگاف پڑ گیا۔ ایسا لگتا تھا نیچے آتش فشاں ابل رہا ہے۔ آگ کے شعلے اوپر تک آ رہے تھے اور اس کی گرمی سے تہہ خانہ گرم ہونے لگا تھا۔ وہ تنور کی طرح دہک رہا تھا۔ زمین میں شگاف دیکھ کر رشید کی چہرے پر مسرت کے تاثرات ابھر آئے۔ اس نے آگے بڑھ کر گومگو حالات میں کھڑے راحیل کو دبوچ لیا۔

راحیل چلانے لگا۔

’’ہا ہا ہا… بے وقوف لڑکے … چیخ پکار سے کوئی فائدہ نہیں … یہاں کوئی نہیں ہے جو تیری فریاد سن کر تیری مدد کے لیے آئے۔ ‘‘رشید نے ابلیسی قہقہہہ    قہقہہہقہہ                                                                                                                                                               لگایا۔

راحیل اس کی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے بہت مچلا، مگر جیسے اسے دو آہنی آنکڑوں نے دبوچا ہوا تھا۔

منصور صاحب کے ساتھ یہ مصیبت تھی کہ وہ اس گھمبیر صورت حال میں گولی نہیں چلا سکتے تھے، کیوں کہ وہ آدمی لڑکے کے عقب میں تھا۔ لڑکا مسلسل تڑپ رہا تھا۔ گولی اسے بھی لگ سکتی تھی۔ راحیل اس جادوگر کا بھیانک ارادہ بھانپ کر سر سے پیر تک کانپ گیا۔ وہ آدمی اسے زندہ سلامت اس آگ اگلتے ہوئے شگاف میں دھکیلنا چاہتا تھا۔ رشید کا یہی ارادہ تھا۔ وہ واقعی اس لڑکے کو تہہ خانے میں پیدا ہونے والے عظیم سوراخ میں پھینک دینا چاہتا تھا، تاکہ خونی خزانے کی پیاس بجھ جائے اور دولت اوپر آ جائے۔

وہ راحیل کو کھینچتا ہوا سرے پر لے آیا۔ راحیل نے گردن موڑ کر اس موت کے کنویں میں جھانکا تو اس کا دم لبوں پر آ کر اٹک گیا۔ سارے بدن کا خون ایک جگہ جمع ہو کر دماغ کی طرف چڑھ دوڑا۔ کنویں کے اندر اس نے دھکتے ہوئے انگاروں کے درمیان ایک بڑا سا برتن دیکھا تھا۔ اس دیگ پر کوئی ڈھکن نہیں تھا۔ دیگ کے اندر سونے کی سلاخیں، اینٹیں، سکے اور چمکیلے موتی نظر آ رہے تھے، مگر اس کی نظر سونے کی اشیاء پر نہیں، بلکہ اس دیگ کے آہنی دانتوں پر جمی ہوئی تھی۔ دیگ کے آہنی دانت آپس میں کٹکٹا رہے تھے۔

وہ کوئی بڑے سے خونخوار جانور کی طرح لگ رہی تھی، جو اپنا ہولناک منہ کھولے ہوئے تھے۔

وہ انسانی خون اور گوشت کے لیے بے قرار ہو رہی تھی۔ رشید نے پوری طاقت صرف کر دی تھی کہ کسی طرح لڑکے کو اندر پھینک دے، لیکن راحیل میں نا جانے کہاں سے طاقت پیدا ہو گئی تھی۔ اس نے رشید کے ہاتھ جکڑ لیے تھے، تاکہ گرنے نہ پائے۔

اچانک وہاں ایک کڑک دار آواز گونجی ’’اے خبردار… چھوڑ دو اس لڑکے کو۔ ‘‘

رشید نے پلٹ کر دیکھا۔ اس کے عقب میں ایک بوڑھا آدمی بندوق لیے ہوئے کھڑا تھا۔ وہ کافی چوکس نظر آتا تھا۔ رشید الجھن میں پڑ گیا یہ کون ہے اور یہاں کیسے آ گیا؟

دھیرے دھیرے وہ آدمی رشید کے نزدیک آنے لگا۔ اچانک رشید نے بجلی کی سرعت سے لڑکے کو بوڑھے آدمی پر دھکیل دیا۔ وہ سنبھل نہ سکا۔ دونوں گڈمڈ ہو کر گر گئے۔ بندوق اس بوڑھے کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ رشید کسی خبیث بد روح کی طرح ہنسا اور نیم غنودہ راحیل کی طرف بڑھا کہ منور صاحب نے اس کی ٹانگ پکڑ لی۔

رشید رک گیا۔ ’’اوہ اچھا… بڑے بے چین ہو رہے ہو… پہلے تم ہی چلو۔ ‘‘

یہ کہہ کر رشید نے اپنی ٹانگ چھڑا لی اور منور علی صاحب کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔ اب وہ انہیں کنویں کی طرف کھینچ رہا تھا۔ راحیل ہمت کر کے بمشکل کھڑا ہوا اور بندوق اٹھا کہ رشید کی طرف لپکا۔ اس نے بندوق کا بھاری بھر کم دستہ رشید کے سر میں دے مارا۔ رشید کے حلق سے ایک انتہائی کریہہ اور مکروہ چیخ نکلی۔ اس کا سر پھٹ گیا اور خون نکلنے لگا تھا، لیکن اس بدبخت نے ابھی تک منور علی صاحب کے ہاتھ نہیں چھوڑے تھے۔ رشید نے غرا کر سامنے دیکھا، مگر راحیل اس کی نظروں میں نہیں آیا۔

اچانک اس کے عقب سے لڑکے کی آواز آئی۔ ’’بس شیطان آدمی تمہارا کھیل اب ختم ہو گیا ہے …‘‘

رشید نے آواز کی جانب گردن موڑ کر دیکھا۔ لڑکا اس کے عقب میں کنویں کے دوسری طرف کھڑا تھا۔ اس نے بندوق اٹھائی ہوئی تھی اور راحیل نے ٹریگر دبا دیا۔

ایک ہولناک دھماکہ تہہ خانے کی محدود فضا میں گونجا۔

بندوق کے جھٹکے سے راحیل پیچھے لڑکھڑا گیا۔ گولی رشید کے سینے میں دھنس گئی۔ اس کے چھرے گھومتے ہوئے نکلے، جنہوں نے اندرونی اعضاء کو آناً فاناً ٹکڑوں میں تبدیل کر دیا۔ رشید ایک لمحے کو بھونچکا رہ گیا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔ پھر اسے شدید… انتہائی تکلیف کا احساس ہوا۔ اس نے سینے کے سوراخ کو دیکھا، جو دھاروں دھار خون اگل رہا تھا۔

رشید کے منہ سے فلک شگاف چیخ نکلی۔ وہ جھوم کر منور علی صاحب پر گرنے لگا تو انہوں نے لیٹے لیٹے ٹانگیں اوپر کر کے اسے اپنے اوپر گرنے سے روک لیا۔ رشید خرخراتا ہوا ان کی ٹانگوں پر آ کر ٹک گیا تھا۔ انہوں نے پوری قوت سے ٹانگیں اچھال دیں اور رشید اپنے تمام تر سفلی جادو کے ساتھ اس خونی کنویں میں جا گرا، جہاں دیگ کے آہنی دانت اس کے استقبال کے لیے پہلے ہی تیار تھے۔ رشید جیسا پلید آدمی اتنی آسانی سے نہیں مر سکتا تھا۔ اسے ابھی تڑپ تڑپ کر اذیت کے عالم میں جان دینا تھا۔ جونہی آہنی دانت اس کے بدن میں پیوست ہوئے، وہ کٹے ہوئے بیل کی طرح ڈکرانے لگا۔ اس کی آخری چیخیں سن کر راحیل اور منور صاحب کے رونگٹے کھڑے ہو رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے خونی دیگ نے اسے سالم نگل لیا۔ وہاں بھیانک آوازیں گونجنے لگیں۔ آہنی دانت رشید کی ہڈیاں چبا رہے تھے۔ راحیل نے دیوار کے پاس بلی کو دیکھا تو دنگ رہ گیا۔ مانی بلی بری طرح تڑپ رہی تھی۔ اور اس نے ایک خوف ناک منظر دیکھا۔

مانی بلی کے بدن میں سے ایک اور سیاہ بلی کا ہیولہ نکل کر کنویں کی طرف بڑھا اور کنویں میں کود گیا۔

یہی وہ آسیب تھا، جو مانی بلی کے جسم پر قابض ہو گیا تھا۔ رشید کے مرتے ہی وہ بھی نکل گیا۔ اب مانی بلی پہلے کی طرح سفید ہو گئی تھی۔ راحیل نے بلا جھجک بڑھ کر اسے اٹھا لیا۔ ادھر منور صاحب نے بے ہوش اسماعیل کو کاندھے پر ڈال لیا اور دونوں بھاگتے ہوئے زینے کی طرف بڑھتے چلے گئے۔

کس طرح ان کی واپسی ہوئی تھی، یہ بالکل ہوش نہ تھا۔

راحیل نے منور صاحب کو تمام واقعات اور حالات سے آگاہ کر دیا تھا۔ اس وقت وہ منور صاحب کے گھر میں تھا۔

منور صاحب نے پر خیال انداز میں سوچتے ہوئے کہا۔ ’’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلی پر اثر کیسے ہوا؟‘‘

’’یہ تو مجھے خود نہیں معلوم… لیکن اس پر کوئی سحر ہو گیا تھا۔ وہ اب نکل گیا ہے۔ میں نے خود دیکھا تھا کہ ایک سیاہ بلی کا ہیولہ اس کے جسم میں سے نکل کر کنویں میں کود گیا تھا… دیکھیں انکل… یہ بالکل سفید ہو گئی ہے۔ ‘‘ راحیل نے مانی کو پچکارتے ہوئے کہا۔

’’میں نے تو اتفاقاً ہی اس خبیث جادوگر کو دیکھا تھا۔ میں تو یہ سمجھا تھا کہ کوئی چور ہو گا، جو چوری کر مال چھپانے آیا ہو گا، مگر وہاں تو کہانی ہی دوسری نظر آئی۔ ‘‘ منور صاحب اپنے اعصاب پر کنٹرول کر چکے تھے۔ ’’نا جانے کب سے وہ اس مکان میں بسیرا کیے ہوئے تھا۔ ‘‘

’’کچھ بھی ہو انکل۔ ‘‘ راحیل مسکرایا۔ ’’اب وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہاں بسیرا کرنے کے لیے دفن ہو گیا ہے۔ ‘‘

’’ہاں واقعی…‘‘ منور صاحب نے اسے تحسین آمیز نظروں سے دیکھا۔ ’’اور تم نے بڑی بہادری دکھائی، ورنہ میں تو مشکل میں پڑ گیا تھا۔ ‘‘

’’یہ سب اللہ تعالیٰ کی مرضی تھی انکل…‘‘ راحیل نے کہا۔ ’’اچھا انکل آپ بھی میرے ساتھ میرے گھر چلیں۔ ‘‘

’’وہ کیوں بھئی؟‘‘

’’تاکہ میں انہیں بتا سکوں کہ میں کہیں نہیں گیا تھا، آپ کے پاس تھا۔ ‘‘

’’مگر بھئی… تمہارے گھر والے مجھے تو جانتے ہی نہیں۔ ‘‘

’’میں انہیں بتا دوں گا کہ آپ میرے دوست انکل ہیں۔ ‘‘ راحیل نے کہا تو منور صاحب ہنس دئیے۔

’’چلو ٹھیک ہے۔ ‘‘

راحیل منور صاحب کے ساتھ اپنے گھر پہنچا تو وہاں کافی لوگ جمع تھے۔ وہ سب پریشان نظر آتے تھے۔ راحیل کو دیکھتے ہی سب کے چہرے کھل گئے۔ راحیل یہ دیکھ کر چونک گیا کہ وہاں زوہیب بھی موجود تھا۔ جو بالکل ٹھیک ٹھاک نظر آ رہا تھا۔ آنٹی بھی موجود تھیں، جن کے دونوں ہاتھ بھی تندرست ہو چکے تھے۔ راحیل سمجھ گیا، مانی پر سے اثر ختم ہوتے ہی وہ بھی ٹھیک ہو گئے ہیں، مگر ابھی ایک اُلجھن باقی تھی۔

اس نے اکیلے زوہیب سے پوچھا۔ ’’تمہارے ساتھ کیا ہوا تھا؟‘‘

’’میں خود تمہیں یہی بتانا چاہتا تھا…‘‘ زوہیب نے کہنا شروع کیا۔ ’’اس رات میں اپنے کمرے میں موجود تھا تو ٹائے گر کے بھونکنے کی آواز سنائی دی۔ میں باہر نکلا تو ٹائے گر لان میں کھڑا تمہاری بلی مانی پر بھونک رہا تھا۔ میں حیران رہ گیا کہ مانی ڈر کیوں نہیں رہی ہے، ورنہ پہلے تو وہ ٹائے گر کو دیکھتے ہی فرار ہو جاتی تھی اور پھر وہ اکیلے یہاں کیسے آ گئی؟ اتنے میں مانی نے ٹائے گر پر حملہ کر دیا اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے ٹائے گر کو چیر پھاڑ ڈالا… میری حالت غیر ہو گئی۔ مانی کی خونچکاں آنکھوں میں دیکھتے ہی میرے حواس دھواں بن کر ہوا میں تحلیل ہونے لگے۔ یقین کرو راحیل… مجھے ایسا لگ رہا تھا، جیسے کوئی شعاع مانی کی آنکھوں سے نکل کر میرے دماغ میں گھس رہی ہے … پھر مجھے کچھ ہوش نہ رہا تھا۔ ‘‘

’’لیکن اب فکر مت کرو… وہ ٹھیک ہو چکی ہے۔ اس پر اثر ہو گیا تھا، وہ اب دور ہو گیا ہے، مگر کسی سے اس بات کا تذکرہ مت کرنا… بلاوجہ لوگ مذاق بنائیں گے۔ ‘‘ راحیل نے کہا۔ اس نے تہہ خانے میں پیش آنے والے ہول ناک واقعات اور جان لیوا جنگ کا واقعہ دانستہ اسے نہیں بتایا تھا۔

یہ کچھ دنوں بعد کا ذکر ہے کہ راحیل کے گھر کی ملازمہ اسٹور کی صفائی کر رہی تھی تو اسے پیٹی کے عقب سے ایک ہڈی ملی، جو اس نے اٹھا کر باہر کوڑے دان میں پھینک دی۔

٭٭٭

متن کا ماخذ: کتاب ایپ

تشکر: www.idealideaz.com، www.kitaabapp.com

تدوین ور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید