FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 ۔۔۔

اور دوسرے افسانے

 

 

                علی بابا

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

ایک پل اور یہ صدی

 

رات ہے اور سنگم ہے ایک لڑکے اور لڑکی کا۔

جس طرح ہر پل کا اپنا سحر ہوتا ہے،اس طرح رات کا بھی اپنا فسوں ہے، اپنے تارے ، تجلیاں ہوتی ہیں۔ اور وہ دونوں بھی قسمت سے ملے ہیں۔ تین چار مہینوں کے بعد ، دونوں کے پاس روٹھنے کے اپنے اپنے جواز ہیں اور اپنے اپنے دل کے بہانے۔

’’ بتاؤ ۔۔۔ کیا دیکھا ہے مجھ میں ؟ ۔۔۔ کیا ۔۔۔ ۔۔۔ اس طرح راستہ پکڑ کر کھڑے ہو جانے سے تمہیں کیا ملے گا؟ ۔۔۔ ہاں ! ۔۔۔ بتاؤ نا ۔۔۔ کیا ملے گا ۔۔۔ ۔۔۔ ؟‘‘۔

’’ راستہ؟ میں تو اپنے راستے پہ جا رہا تھا ! بھلا مجھے کیا پتہ تھا کہ تم بھی ٹہلتی ہوئی اسی طرف سے آؤ گی ! ۔۔۔ کیا پتہ کہ یوں ہی اچانک مڈ بھیڑ ہو جائے گی۔۔۔ ۔۔۔ ! سچ اگر پتہ ہوتا کہ تم ہو تو میں راستہ بدل لیتا ۔۔۔ ۔۔۔ ‘‘۔

’’ کیوں ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم conscious ہو Guiltyہے تمہارے اندر۔ ایسا ہی ہے نا ۔۔۔ ۔۔۔ ؟‘‘۔

’’ نہیں۔ ایک وقت تھا کہ مجھ میں سونا بھرا ہوتا تھا او ر اب ۔۔۔ ۔۔۔ ! اب تو سیسہ بھی نہیں ہے۔ میں نے تو تمہاری طرف دیکھا بھی نہیں ہے‘‘۔

’’ نہیں ۔ میرے قریب سے گذرتے ہوئے تم تردد میں پڑ کر رک گئے تھے ‘‘۔

’’ میں انکار تو نہیں کر رہا ۔ یہی ہوا ہو گا ۔ بھلا تیری ایسی عورت کو دیکھ کر اگر آدمی ایک لمحہ کے لیے حسن و جمال کے سحر میں جکڑ کر ہوش و حواس گم کر بیٹھے تو یہ جرم ہوا کہ فریب ؟ ۔۔۔ میں ۔۔۔ میں تو نیم وا کلّی دیکھ کر بھی اس کے سحر میں کھو جایا کرتا ہوں‘‘۔

’’دیکھو۔۔۔ اچھی طرح سمجھ لو کہ میں نا ، آک کی کلی ہوں، گلاب کی نہیں‘‘۔

’’ ہاں ۔ وہ تو تم ہو‘‘۔ وہ گہری سانس لے کر اس کے زلفوں کو تکنے لگتا ہے ۔ آوارہ جٹائیں کہ جیسے کالی گھٹائیں اڑتی جا رہی ہوں اور رات ۔۔۔ ۔۔۔ رات شام کے وقت مہکتے ہوئے درخت کی چھایا کی طرح بڑھتی ، ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے۔

’’ سُنو ! دن میں سپنے دیکھنا چھوڑ دو، کچھ نہیں ہاتھ آنے والا‘‘۔

لڑکی غصے بھری نظروں سے اُسے دیکھتی ہے اور وہ چوٹ کھا کر بھی مسکرا دیتا ہے ۔ دونوں بچھڑ جانا چاہتے ہیں لیکن بچھڑتے نہیں۔ وہی راستہ ہے اور دونوں کے ٹہلنے کی رفتار بھی وہی ہے اور دونوں ڈرنا بھی نہیں جانتے۔ پریشانی نہ ڈر، بات چیت نہ کوئی آواز ۔ دونوں ایک پَل کے لیے نزدیک آ کر پھر الگ ہو کر تارکول کی سڑک کے متوازن کناروں پر چلنے لگتے ہیں۔ وہ سڑک کے اُس پار اور یہ سڑک کے اس طرف، درمیان میں ہیں تارکول کی سیاہ پٹیاں، دھبے دھبے بنی سڑک اور چاندنی رات میں سڑک کے اطراف ایستادہ شرینہہ کے درختوں میں ہلکورے کھاتی، مہکتی ہوئی ہوا کے جھونکے۔ وہ لڑکی کو نظر انداز کیے دور پہاڑی پر بنی اونچی عمارت کی روشنیوں کو دیکھنے لگتا ہے ۔ یہ عمارت اسے بہت اچھی لگتی ہے ، پتہ نہیں کیوں؟ شاید اس لیے کہ اس میں رہتا ہے اس پورے علاقے کا انچارج اور اس کا پرانا ساتھی، دوست۔ وہ پھر لڑکی کو تکنے لگتا ہے ۔ لڑکی سادہ لباس میں مونا لینزا ، وینس، قلو پطرہ ، کرائیسیا اور مومل جیسی لگتی ہے ۔ نہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ سندر ۔وہ چلتے چلتے کھو جاتا ہے اور اپنے آپ بھنبھناتا ہے:

’’ تو بہ۔ سمئے ہے یا وید کال سے بھی کسی پرانے کال کی چمکتی ہوئی اُجلی چودھویں کی رات!‘‘۔

اور فرلانگ بھر کھڑی عمارت کی روشنیوں میں کچھ ڈھونڈتے ہوئے اچانک ٹھٹھک جاتا ہے اور پھر لڑکی کو دیکھنے لگتا ہے ۔ درد انگیز آواز کوئل کی کوک ایسی، زخمی کرتی، تڑپاتی ہوئی۔

’’ کہیں تم جان بوجھ کر تو فاصلہ نہیں بڑھا رہے ہو؟ تم تو ہمیشہ اس موڑ سے walk کرتے ہوئے مڑ جایا کرتے ہو۔اگر ایسا ہے بھی تو مجھے پتہ ہے کہ کیوں ہے‘‘۔

’’ تم جو چاہو سمجھو ۔ میری راہوں کا تو مجھے بھی پتہ نہیں ہوتا۔ میں نے انسانی سوسائٹی سے اپنے آپ کو بہت دور کر لیا ہے ۔ میرا راستہ صرف میرا ہے ، کہیں ختم نہ ہونے والا راستہ ۔’’ وہ درشت آواز میں جواب دیتا ہے اور اس کی گردن جھکی ہوئی ہے اور پھر وہ اچانک بھڑک اٹھتا ہے ، کچھ کرختگی اور ملائمت کے ملے جلے انداز میں کہتا ہے :’’ اچھا بھئی ! تم نے جیسا بھی سمجھا ہے ، اگر اسی طرح ہی ہے تو تمہیں اس سے نقصان کیا ہے ؟ یوں سمجھو کہ تیرے قدموں کی آہٹ سے میں ایک طرح کا سکون پا رہا ہوں ۔ایک وارفتگی کی کیفیت ہے جو مجھے جکڑتی جا رہی ہے ، کوئی خواب ہے کہ میں دیکھے جا رہا ہوں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر میں نے اپنا ہاتھ بلند کیا تو چندا میری ہتھیلی پر آ جائے گا۔ بتاؤ نا ۔۔۔ تمہیں اس سے کیا گزند پہنچ رہی ہے۔ تمہیں کیا پتہ کہ آدمی تمہیں کیسے کیسے اور کس کس انداز سے دیکھتے ہوں گے !؟ کل تمہارا چپڑاسی بتا رہا تھا، سائیں! قسم قرآن کی ،بڑے شان مان والی، راجیشوری عورت ہے ‘‘۔

’’ اچھا۔۔۔ تو تم اب میرے چپڑاسی تک بھی پہنچ گئے ہو ‘‘۔ وہ ایک دہکتا الاؤ بنتی جا رہی ہے ۔

’’ ارے بھئی! تم تو یونہی بکے جا رہی ہو ۔ وہ چپڑاسی میرا پرانا یار ہے ۔ اُس زمانہ کا ، جب تم نے حیدر آباد دیکھا بھی نہیں ہو گا۔ ہمارا بہت اچھا یارانہ ہے، سگریٹ کا یارانہ‘‘۔

’’ چرس والا سگریٹ نا؟‘‘۔

’’ نہیں۔۔۔ قسم سے ۔ مجھے تو بالکل پتہ نہیں کہ وہ چرس پیتا بھی ہے یا نہیں۔ میں بھی نرا احمق ہوں ، میں تو اپنے ساتھیوں کی کوئی خبر تک نہیں رکھتا‘‘۔

’’ ہاں نا۔ بچارے چپڑاسیوں کے حال سے کیوں کر واقف رہا جائے گا۔ خبر رکھی جاتی ہے اپنے سٹینڈرڈ والوں کی۔ سچ بتاؤ ، کتنی مرتبہ چرس پیاہے ؟‘‘۔

’’ میرے خیال میں موجود ہ امریکن پریذیڈنٹ سے بھی دو چار مرتبہ زیادہ پیا ہو گا ۔ ایک ٹکیہ میں تو یوکلپٹس کے پتوں کی ملاوٹ تھی، مجھے تو ذرہ بھی مزا نہیں آیا ، میں نے بہت کوشش کی ۔ اس سے تو گولڈ فلیک سگریٹ اچھا ہوتا ہے۔ واہ! کیا شاندار پیکٹ ہوتا ہے ۔ بوسکی کی جیبوں سے نظر آنے والا پیلا زرد پیکٹ ۔ میں نے ہزاروں کے حساب سے پئے ہوں گے ۔ گولڈ فلیک! ۔۔۔ ہاں، وہ مجھے میرے بچپن کی گرل فرینڈ سپلائی کیا کرتی تھی، گُروس کے حساب سے۔ پتہ ہے کیا کہتی تھی؟‘‘

’’ کیا !؟‘‘۔

’’ آ سگریٹ منہ میں لائے تھو، منی،’جدی‘ فلم رو دیو آنند لاگے ہے‘‘۔ اس کی آواز بھرا جاتی ہے ۔

’’ لیکن تم تو مجھے ہیپی لگتے ہو‘‘۔ وہ کچھ روٹھنے والے انداز میں کہتی ہے۔

’’Really۔ میں تمہیں ہپیوں جیسا لگتا ہوں۔ ہِپی تو بہت شاندار لوگ ہوتے ہیں۔ شاہ کی طرح بستی بستی گھومنے والے، پھِرنے والے‘‘۔

’’ کیا تم ہِپی نہیں ہو؟‘‘۔

’’ نہیں۔۔۔ لیکن تم آج ایسے سوال کیوں کر رہی ہو؟ تم تو ایسے پوچھ گچھ کر رہی ہو جس طرح لڑکیاں شادی کرنے سے پہلے اپنے بوائے فرینڈ کے ہر راز کو ڈھونڈ نکالتی ہیں ، گڈ(Good) ، اور بیڈ(Bad) دونوں‘‘۔

’’ مِسٹر! زبان سنبھال کر بات کرو۔ میری شادی ہو چکی ہے‘‘۔

’’ میں بھی کوئی کنوارہ تو ہوں نہیں ۔ گھر میں جوان یا بوڑھی لیکن بچوں کے ریوڑ کے ساتھ مدھو بالا جیسی بیوی بیٹھی ہے ۔ اب ٹھنڈی ہوا کے مزے لیتی سورہی ہو گی‘‘۔

’’ اور تم یہاں کیا کرنے آتے ہو؟‘‘۔

’’ میں اپنی مرضی کا مالک ہوں، بچپن سے ہی زور آور ۔ کیوں کہ میں سندھو میں نہا نہا کر بڑا ہوا ہوں۔ آج شام اگر کہیں سے سو روپے مل جاتے تو میں اس وقت سندھو میں چپُّو سے کھیل رہا ہوتا۔ مجھے چپُّو چلانے میں بڑا لطف آتا ہے ‘‘۔

اچانک دونوں کے کندھے ایک دوسرے سے چُھو جاتے ہیں اور وہ بجلی کا جھٹکا سا محسوس کر کے تھوڑا سا دور ہو جاتے ہیں۔

’’ تم نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے ‘‘۔

’’ نہیں ۔ ہم باتیں کرتے ہوئے خود بخود ایک دوسرے کے قریب آ گئے تھے ۔ باتیں کرتے یا جھگڑے ہوئے، ایسا ہی ہوتا ہے ‘‘۔

’’ ہوتا ہو گا‘‘۔ وہ پھر سڑک کے الگ الگ کناروں پر خاموش، سَرنیہوڑائے چلنے لگے۔ وہ اُترے ہوئے چہرے اور کلائی سے پسینہ پونچھتی ہے اور لڑکا۔۔۔ لڑکا بڑی انگڑائی لیتے ہوئے گہری سانس لیتا ہے۔

اور ایک پَل کے لیے چھا جاتی ہے دونوں کے درمیان ایک تڑپانے والی، دم کشیدہ خاموشی۔

’’ تم کب تک walkکرو گے؟‘‘۔

’’ تم کہو تو میںwalkکرنے کے بجائے اس بستی سےwalk outکر جاؤں ، ہمیشہ کے لیے ۔۔۔ کہو نا‘‘۔

’’ میں کیوں کہوں؟‘‘۔ پھر ایک لمحے کے لیے دونوں خاموش ہو کر چلتے رہتے ہیں۔ دونوں کے بڑے بڑے پائنچے ہوا میں پھڑکتے رہتے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد لڑکی بے رُخی سے کہنے لگتی ہے:

’’ میں سب سمجھتی ہوں۔ میں جادوگرنیوں کی طرح لوگوں کے دل میں چھپا ہر لفظ پڑھ لیتی ہوں۔ میں بولڈ(Bold) عورت ہوں۔ تجھے جو کچھ کہنا ہے ، کہہ دے ۔ یا تو پھر تم نے صرف مجھے بدنام کرنے کے لیے اتنے کشٹ کاٹے ہیں۔یہ تو سستی شہرت ہوئی ہے نا؟‘‘۔

لڑکی کی بات پر لڑکا کھلکھلا کر ہنس دیتا ہے۔

’’ ایک طرف بولڈ ار دوسری طرف بدنامی کا خوف ۔ میں نے تو تمہیں اتنا کمزور کبھی نہیں جانا تھا ۔ قسم قرآن کی ۔۔۔ ۔۔۔ تم تو یونہی اول فول بک رہی ہو ۔ تم رولڈ گولڈ نہیں بلکہ گوشت پوست کی زندہ، جیتی جاگتی عورت ہو۔ جس طرح پرانے یگوں کی دیویاں ہوتی تھیں۔ اگر تجھے کرشن مہاراج بھی دیکھے تو پتھر کی مورت ہو جائے۔ تم نے کبھی کرشن مہاراج کی مورتی پر غور کیا ہے ‘‘۔

’’ نو ۔۔۔ نو ، جینٹل مین ! زیادہ تعریف کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ سب کچھ مایا ہے ۔ تم بھلے اپنے آپ کو کرشن سمجھتے رہو ‘‘۔

’’ نہیں ۔ سب کچھ ایک مقصد رکھتا ہے ، حقیقت ہے۔ صرف خود آدمی کو بے مقصد نہیں ہونا چاہیے‘‘۔

’’ ہوں۔۔۔ ہاں ۔ یہ بات تم نے بہت شاندار کہی‘‘۔

’’Thanks۔۔۔ . سُنو ! ایک عرض کروں‘‘۔

’’ کھل کر بات کرو۔ Say Openly۔ مجھ میں سننے کی سکت ہے ‘‘۔

’’ تم اُس طرف ، میرا مطلب ہے کہ چاند اس طرف ہے ، اس لیے تم اس طرف چلونا ۔۔۔ پلیز۔۔۔ ۔۔۔ !‘‘۔

’’ چاند والی سائیڈ کیوں؟۔۔۔ میں نہیں سمجھی۔۔۔ ۔۔۔ ‘‘۔

’’ دیکھو نا ، اس طرف چاند ہے۔ تم سڑک کے بائیں کنارے چلو اور میں دائیں۔ اب بس دو فرلانگ ہی رہ گئے ہیں‘‘۔

’’ لیکن کیوں؟۔۔۔ عجیب قسم کا پاگل پن ہے ۔۔۔ ۔۔۔ !‘‘۔

’’ ہوشیاری ہے ، عقلمندی ہے ۔ آج تم نے پرفیوم بہت اچھی لگائی ہے ۔ چاند کی دھیمی روشنی، جھومتے ہوئے درخت اور خوشبو ۔ قسم قرآن کی ، میں کچھ بھی نہیں بولوں گا، کوئی حد پار نہیں کروں گا۔ بس صرف محسوس کروں گا کہ چودھویں کی رات میں کوئی سایہ خوشبوئیں بکھیرتا جا رہا ہے ۔ ہوسکتا ہے آج کی رات میرا موڈ کوئی پینٹنگ بنانے کا ہو جائے اور مجھے کہیں سے سو روپے مل جائیں۔ سو روپے میں بکتی ہے ایک پینٹنگ ‘‘۔

’’ مجھے کیا پڑی ہے ؟‘‘۔

’’ لیکن یہ ایٹی کیٹز(etiquettes) اور مینرز(Manners) کا بھوک کیوں؟ ہِپی لڑکے اور لڑکیاں تو چلتے ہی ہواؤں کے الٹ رُخ پر ہیں بغیر کسی کے کہنے کے تاکہ آتے جاتے تھکے ماندہ لوگ ان کے جسم کی خوشبو میں اپنے ارمان پورے کرتے جائیں۔ دنیا میں رہ جانی بھی تو بس یہی خوشبو ہے ‘‘۔

Okay’’ ‘‘ وہ ناراض ہو کر سڑک کے مطلوبہ کنارے چلی جاتی ہے اور لڑکا چاند کو تکتے ہوئے اس کے الٹ کنارے، خوشبو کے کسی جھونکے میں کھویا ہوا ، مگن ہو کر چلتا رہتا ہے۔

اور دو سائے چاندنی میں چلتے آرہے ہیں ایک دوسرے سے کچھ فاصلہ رکھ کر ۔ روٹھے، کھوئے ، بے چین، بُجھے بُجھے سے اور ستارےTwinklingکرتے رہتے ہیں اور جدا ہونے کا موڑ قریب آتا جا رہا ہے ۔ اچھا خاصہ دور چلنے کے بعد لڑکی اچانک Turnلیتی ہے۔

’’ تم مجھے روگی لگ رہے ہو۔Psychic۔ تم نے میرےNight Walkمیں رکاوٹ ڈالی ہے۔ مجھے سَر میں درد ہونے لگا ہے‘‘۔

’’ ہم سب مریض ہیں۔ میں دل پر بوجھ محسوس کر رہا ہوں۔ پوری انسانی سوسائٹی بیمار اور حواس باختہ ہے ۔ نیچ ہے ۔ نفر ت کے لائق ‘‘۔

’’ کیسے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ؟ کچھ سوچا بھی ہے کہ تم پوری انسانی سوسائٹی پر کیچڑ اُچھال رہے ہو!‘‘۔

’’ ہاں ۔ میں سوچ سمجھ کر بولتا ہوں۔ اگر سوسائٹی کو ازل سے اسی طرح ہی چلنا تھا تو پھر میں ایسی سوسائٹی پر تھوکتا ہو ں۔ اگر کبھی میرے ہاتھ میں کوئی کچرا دان آ گیا تو میں سماج کو بہ بانگِ دہل اس میں پھینک دوں گا ۔ میں بہترین سُپر لیڈر ہوں۔ تم نے کبھی خاکروبوں کے لمبے لمبے نوکیلے تنکوں والے جھاڑوؤں پر سوچا ہے ، جن سے وہ ہماری سڑکیں ، گھر اور کچرا صاف کرتے ہیں؟ اس جھاڑو کی مدد سے آدمی، آدمی سے تو کیا افریقہ کے شیر سے بھی لڑسکتا ہے ، اسے نچا سکتا ہے‘‘۔

’’ درمیان میں یہ جھاڑو پھر کہاں سے آ گیا ؟‘‘۔

’’ اس لیے کہ Good Human Society کو اسی جھاڑو نے جنم دیا ہے ‘‘۔

’’ تمہارے خیال میںGood Human Society ہے کیا ؟ اگر ہے تو کہاں ہے ؟‘‘۔

’’ ہر جگہ ہے ۔ ہم دونوں ساتھ چل رہے ہیں۔ کیا ہم آپس میں اچھی باتیں نہیں کر رہے ہیں؟ کیا یہ کچھ کم ہے کہ تم نے میرے لیے خوشبو کے سارے دریچے وا کر دیے ہیں۔ مجھے پتہ تھا کہ تم ایک شاندار عورت ہو ، تبھی تو تجھ سے عرض کیا تھا۔ سچی بات ہے ، آج مجھے سپنوں بھری نیند آئے گی ۔ پتہ نہیں کتنے برسوں سے میں نے کوئی سپنا ہی نہیں دیکھا ۔۔۔ ۔۔۔ !‘‘ وہ گلو گیر لہجے میں بات کر کے گہری سانس لیتا ہے اور اس سے پہلے کہ رو پڑے، ٹھہر جاتا ہے اور جاتی ہو ئی لڑکی کو دیکھتا رہے ہے۔ لڑکی مڑ کر بھی نہیں دیکھتی ، جیسا کہ وہ ہمیشہ دیکھا نہیں کرتی ۔ وہ لوٹ جاتا ہے اور جھنجھلا کر اچانکU Turn لیتا ہے ، دو چار قدم دوڑ کر چلاتا ہے۔

’’ سنو تو ۔۔۔ مجھے تمہاری ضرورت ہے ، شدید ضرورت ہے ۔ زمین کے گولے سے بھی بڑی ضرورت ہے ‘‘۔

خاموشی ۔۔۔ تن کر پتھر ہو چکی دو مورتیں ۔ برف کی طرح جَم چکے نَین۔

( دونوں بڑی تکلیف میں ہیں اور پھر آہستہ آہستہ لڑکی کا چہرہ تانبے کی دہکتی درانتی کی طرح سوالیہ نشان بن جاتا ہے )۔

’’ تم ہی میری ضرورت ہو ۔ اس پرتھوی پر تم میری سب سے بڑی ضرورت ہو ۔ کیا تم ہمارے کسی کام نہیں آسکتی ؟‘‘۔

’’ کیسا کام ؟‘‘۔ کچھ قدم آگے بڑھ چکی لڑکی بھی اب خاموش کھڑی ہے ۔

’’ دیکھو نا ۔۔۔ پرتھوی اچھے اور بُرے ہر طرح کے لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ صدیوں سے کچھ آدمی دھرتی پر جنگیں اور دنگا فساد کرتے اور کچھ دوسرے آدمی اسے سُور گ بنانے کے لیے زہر کے کٹورے پیتے آئے ہیں۔ اس دھرتی کو جنت بنانا تو اب بچوں کے کھیل جیسا ہے ۔ یہ صدی سائنس کی سب سے بڑی صدی ہے ۔ اسی صدی میں ہمیں پتہ چلا ہے کہ موت پر فتح پانا ممکن ہے ، بہر صورت ممکن ہے۔It’s not an impossible mission اور ایسی سوچ رکھنے والوں میں سے مَیں بھی ایک حقیر آدمی شامل ہوں‘‘۔

‘‘You mean ۔۔۔ control on death is possible?’’

’’ Yes very very possible mission, very very easy and possible. I need you because you are genious. You can’t imagine which kind of a lady you are!”’’

وہ بڑی امید کے ساتھ، بڑی حلیمی کے ساتھ اس کی منت کرتا ہے ۔

’’ کیا تمہیں اعتبار نہیں آ رہا ؟ سچ کہہ رہا ہوں ۔۔۔ موت پر قبضہ میرے لیےHundred Percent Sure ہے ۔ لیکن ۔۔۔ لیکن میرا اور تمہارا یوں پھر یوں اتفاق سے ملنا بھی بہت مشکل ہے ۔۔۔ میں۔۔۔ میں تو اس بات کے لیے خواب میں بھی امید نہیں رکھ سکتا، اور خواب ۔۔۔ خواب نجات یافتہ آدمی ہی پسند کرتے ہیں۔ مجھے تو ہر گھڑی یوں لگتا ہے کہ جیسے میرے بنواس کا انت موت پر قبضہ کے بعد بھی نہیں ہونے والا ‘‘۔

‘‘Okay, Good night, My love to your little kids, Bye’’

اور وہ اسے دیکھے بغیر درخت سے ایک پتہ توڑ کر منہ میں ڈالتا ہے ، تیزی سے U Turn لیتا اور سُبک فرام ، سیٹیاں بجاتا ہوا جا رہا ہے ، دبی مسکراہٹ ہے اس کے ہونٹو ں پر اور نینوں میں ہے ایک میٹھے درد کا عکس۔ اور چاندنی رات میں خوشبو میں بسی عورت اور درخت ٹھنڈی سانسیں بھرتے رہتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

دیس نہ کوئی پردیس

 

سچی بات یہ ہے کہ وہ بھی چکر میں آ گیا ہے۔اور پھر چکر کیوں نہ ہو؟

اب وہ بیچاری انٹرنیشنلزم کی حامی عورت اوراس کے ساتھ سماجی مصلح بھی۔بہت خوبصورت، با اخلاق ، با مروت،کندن ایسی عورت، جو سندھ ایسے پچھڑے ، پسماندہ ملک میں رہتے ہوئے بھی چین،جاپان،امریکہ ،روس،افریقہ،انڈونیشیا ، مڈل ایسٹ کے لوگوں کے لیے ہی نہیں بلکہ وائلڈ لائف کے لیے بھی سوچے۔ازل اور ابد تک سوچے۔ اب اس بیچاری کو کیا خبر کہ یہ عشق و شق کیا ہوتا ہے ۔ بس جب سے اخبار میں، پتہ نہیں کیسے ، اس کی فوٹو چھپی ہے لوگ دھڑا دھڑا س پر عاشق ہونے لگے ہیں۔ ایک ایکٹر قسم کا لڑکا تو ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ گیا ہے اور اس بیچاری کے لیے ہے پائے ماندن نہ جائے رفتن۔ وہ کل بھی میرے پاس شکایت لے کر آئی تھی اور آج بھی ٹیلیفون کیا ہے کہ میں پریشان ہوں ، آ رہی ہوں اور اس کا پورا پروگرام چوپٹ ہو گیا ہے ۔ وہ بڑی الجھن میں پھنس کر خیالوں میں گم ہو جاتا ہے۔

توبہ۔ عشق کون کرے ہے اور دردِ سر میرے لیے ! پگلی ! اگر لڑکوں سے جان چھڑانی ہے تو پھر بال بوائے کٹ بنوانے، یورپی اسکالر عورتوں کی طرح اونچی ایڑی والا سینڈل پہن کر فوجی انداز میں ٹاپ ٹاپ کر کے چلنے کے بجائے پھسپھسا کر چلے۔ بھلا ۔۔۔ اتنے شاندار انداز میں چلنے کی ضرورت بھی کیا ہے اور یہ دودھ کی مانند اُجلے کپڑے پہننے کی کیا حاجت ؟ یوں تو ہر مرد شاندار عورت کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے ۔ اور وہ اپنے پروگرام کے درہم برہم ہو جانے پر مزید جُز بُز ہو جاتا ہے۔

’’ اب بھلا اس کو ٹیلی فون پر کپکپانے کی کیا پڑی تھی ! چھورا اس کے ساتھ عشق کر رہا ہے ، قتل تو نہیں کرر ہا اس کا ؟‘‘۔

وہ اپنے تئیں سرگوشیاں کرتا ہے اور گھنٹی کی آواز پر منہ پھلا کر دروازے کی طرف بڑھتا ہے ، جونہی دروازہ کھلتا ہے تو وہ پسینہ میں شرابور اندر داخل ہوتی ہے۔

’’ خیریت تو ہے ؟‘‘۔

’’ خیریت تمہارا ٹھینگا ‘‘۔ وہ کُولر سے پانی کا گلاس بھرتی، ہانپتی کانپتی ، پنکھے کے نیچے بیٹھ جاتی ہے اور گھونٹ گھونٹ پانی پینے لگتی ہے ۔

’’ ارے بھائی ! اب تو وہ گلے پڑ گیا ہے !‘‘۔

’’ اوہو! میں تو یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ تم تھرڈ ورلڈ وار کی علامات کے متعلق کوئی بڑی اہم خبر پڑھ کر آئی ہو‘‘۔

’’ توبہ ۔ تو کیا تھرڈ ورلڈ وار کی علامات نہیں ہیں کیا؟ لیکن یہ چھورا میرے جیون میںہائیڈروجن بم سے بھی زیادہ خطرناک ہے ‘‘۔ وہ بڑے جوش بھرے انداز میں کہتی ہے ۔

’’ تو کیا اُس نے آج پھر کوئی شرارت کی؟‘‘۔

’’ آج تو صاف صاف بدمعاشی پر اُتر آیا۔ دیکھو! میں ایک بار پھر کہتی ہوں کہ وہ تمہارے دوست کا بھائی ہے ۔ مجھ سے کچھ ہو نہ جائے۔ میں اسے ایسا ہاتھ دکھا دوں گی کہ اسے ماں یاد آ جائے گی۔ پتہ نہیں لوگ کیسے کتیوں کی طرح بچے پیدا کرتے اور سڑک پر پھینکتے جاتے ہیں‘‘۔

’’ کچھ بتاؤ تو سہی کہ ہوا کیا ہے ؟‘‘ وہ شدید بے زاری کے عالم میں چیخ اٹھتا ہے۔

’’ آج اُس نے پارک میں پیچھے سے آ کر میری آنکھوں پر اپنے ہاتھ یوں رکھ دیے جیسے میں نے پہلے سے اسے وقت دے رکھا تھا ۔ کیا زمانہ آ گیا ہے ۔ آدمی کسی پارک میں دو منٹ بھی چین سے بیٹھ نہیں سکتا ‘‘۔

’’ اچھا ۔۔۔ عقب سے اس نے تمہاری آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیے!‘‘۔

’’ تو کیا میں بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہوں ؟ اوپر سے بے شرمی کا یہ مظاہرہ کہ کہنے لگا ، کاش! اللہ سے کچھ اور مانگتا !‘‘۔

’’ تو پھر تم خاموشی سے دیکھتی رہیں! ایک تھپڑ جڑ دیتیں‘‘۔

’’ تھپڑ؟ عجیب آدمی ہو ! اب مجھے اور کوئی کام تو ہے نہیں،بس ! لوگوں کو تھپڑ مارتی پھروں اور ہاں مجھے پتہ چلا ہے کہ وہ تمہارا سٹوڈنٹ ہے ۔ ہائے ، ہائے ! توبہ !! کیا فائن آرٹس کے طلبا ایسے ہی ہوتے ہیں؟‘‘۔

’’ میر ایسا کون سا شاگرد ہے ؟ میرے تو سبھی شاگرد بڑے احمق ہیں ، اونٹ ہیں، ہی ہم ، ہی ہم کر کے چلتے ہیں‘‘۔

’’ بھئی ! تمہارا شاگرد ہے ۔ وہی جس نے لارڈ جِم کا کردار ادا کیا تھا ۔ بالکل مرسا ۔۔۔ . کیا کہتے ہیں ۔۔۔ .اوٹول جیسا۔ بس صرف بال اور آنکھیں سیاہ ہیں۔ چلتا بھی بڑے کروفر کے ساتھ ہے‘‘۔

’’ اوٹول جیسا چھورا۔۔۔ میرا شاگرد! میرے تو شاگرد رنگیلے جیسے ہیں‘‘۔ وہ اپنے آپ سے کہا ہے ۔

’’ ہاں، تمہارا شاگرد بھی اگر نہیں تو تمہارے کالج میں پڑھتا ضرور ہے اور ہے بھی تمہارے دوست کا چھوٹا بھائی‘‘۔

’’ بھائی ! کون سے دوست کا ؟‘‘۔

’’ بھئی ! حیرت ہے ۔ وہ تمہارا دوست نہیں جس کی ایک بہن ہے گوری اور لمبی لمبی ۔ تمہارے حافظہ کو کیا ہو گیا ہے ! وہ لڑکی ۔۔۔ جس کے لیے میں نے کہا تھا کہ یہ جنگ کے موضوع پر بنائی گئی فلم ’’ ہیون نُون مسٹر علی سن ‘‘۔ والی ڈیبورا کیئر جیسی لگتی ہے ‘‘۔

’’ اوہ ۔۔۔ ۔۔۔ ! حافظہ خراب ہو گا تمہارا ۔ تم نے کہا ، ’’ تمہارے ساتھ کتنا خاموش پیار کرتی ہے ۔ شادی کیوں نہیں کرلیتے اس کے ساتھ ؟‘ وہی نا!‘‘۔

اس بات پر وہ بڑے تکلیف دہ انداز میں کمرے میں ٹہلنے لگتی ہے ۔

’’ بھئی ! دیکھو ! شادی تمہارا اپنا مسئلہ ہے ، کسی دیہاتن کے ساتھ کرو یا کسی سویپرلیڈ ی کے ساتھ ۔میں تمہارے ساتھ اس لڑکے کے متعلق بات کرنے آئی ہوں‘‘۔

’’ کچھ ہوش سے کام لو ۔۔۔ بی ایزی۔۔۔ پلیز بی اِیزی۔۔۔ !‘‘ وہ فِرج سے کوک کی دو بوتلیں نکال کر گلاسوں میں ڈالتا ہے۔

’’ کیوں گھر والے آ گئے ہیں کیا ؟‘‘۔ وہ سہم کر دھیما پن اختیار کر لیتی ہے۔

’’ ارے بھئی ! وہ سب بڑے آدمی ہیں، اس طرح کے واہیات گھر میں کیوں رہنے لگے۔ میری تو بس اللہ نے سن لی ہے ۔ ہوسٹل لائف تو ڈوگز(Dogs)لائف ہے ‘‘۔

’’ بھئی! میں ڈوگز لائف پہ فلم دیکھ چکی ہوں۔ تم بے کار باتیں کیوں کیے جا رہے ہو؟ اس لڑکے نے تو مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ میں نا کبھی سڑک پر چلتے چلتے ڈھیر ہو جاؤں گی‘‘۔

’’ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمہارے ساتھ بے ہودگی سے پیش آیا ہے ؟‘‘۔

’’ او ۔۔۔ نو ۔۔۔ ایسا بھی نہیں ہے ۔ میں سمجھتی ہوں کہ جو ناول وہ پڑھتا ہے ، اس کے ڈائیلاگ میرے کانوں میں انڈیلتا رہتا ہے ۔بائی گاڈ! باتیں کرنے کے معاملہ میں بڑا سؤر ہے ۔ گفتگو کرتے وقت ہونٹ، آنکھیں، ناک ، سب اس کے کنٹرول میں ہوتے ہیں ۔ سامنے والے کو بالکل جکڑ میں لے لیتا ہے ‘‘۔

’’اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمہارے ذہن پہ چھا گیا ہے ؟ لیڈی ! یُو آر اِن لَو‘‘۔

’’ کیا بکتے ہو ؟ دنیا کے سب مسائل تمام ہوئے اور باقی رہ گیا ہے پیار ۔ ارے بھئی ! یہ سب فراغت کے چونچلے ہیں‘‘۔ وہ کوک کا گھونٹ بھرتی اور بیزاری سے اس کے چہرے کو گھورتی ہے اور وہ اپنی رِسٹ واچ میں وقت دیکھنے لگتا ہے ۔

’’ کیا ہم کل اس مسئلہ پر بات نہیں کرسکتے ۔۔۔ ؟ آج میرا دل تپتی دوپہر میں شاپنگ کرنے کو چاہتا ہے ۔ جب دن تپ کر دوزخ بن جاتا ہے نا تو چیزوں کے دام گر جاتے ہیں۔ میں ایک اچھی سی شرٹ لینا چاہتا ہوں اور میرے پاس شلوار قمیص تو ہے نہیں‘‘۔

’’ مجھے سب پتہ ہے، لیکن کیا آج تم یہ بوڑھی عورتوں کی شاپنگ کا پروگرام کینسل نہیں کرسکتے ؟ بائی گاڈ! میں بہت پریشان ہوں‘‘۔ وہ روہانسی ہو جاتی ہے۔ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔

’’ او۔ کے! آخری مرتبہ وہ تم سے کس طرح پیش آیا؟ اس کا رویہ کیساتھ تھا اور اس نے کیا کیا کہا ؟‘‘۔ وہ صوفہ پر لیٹنے کے لیے اپنے آپ کو پھینک دیتا ہے۔

’’ رویہ ؟ بالکل ایک نارمل بندے جیسا۔ چمکتی آنکھوں کے ساتھ بہت ساری باتیں کرتا رہا۔ کہہ رہا تھا، برسوں بیت گئے، تم پہلی عورت ہو جس کے لیے میں چکرا گیا ہوں۔ ذہنی طور پر ہائلی انسپائر اور کہا کہ مجھے تمہاری اتنی ضرورت ہے جتنی ایک شیر خوار بچے کو ماں کے دودھ کی۔ یہ بھی کہا کہ میں شادی وادی یا ایسے ہی کسی اور چکر میں نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے کوئی لالچ ہے۔ میں تو صرف لٹُّو اور ڈوری جیسا ساتھ چاہتا ہوں۔ بھلا اتنے مختصر ملاپ میں کیا رکھا ہے ؟‘‘۔

’’ بھئی واہ ! ۔۔۔ یہ تو کوئی ونڈر فل لڑکا ہے۔ جیسے میرا اور تمہارا ساتھ ایک ننھے، بلکتے نوزائیدہ بچے جیسا پیارا رشتہ ہے ، بھلا اسی طرح اس کے ساتھ دو قدم چلنے میں کیا برائی ہے ؟ ہوں ۔۔۔ ہوں ۔۔۔ ۔۔۔ ‘‘ وہ ایک ٹھنڈی سانس لیتا ہے اور پھر اُس پر دھونس جماتا ہے ، ’’ میں بھی تمہارا رشتہ دار ہوں نا ؟۔۔۔ بتاؤ نا ۔۔۔ میرا اور تمہارا کیا رشتہ ہے؟‘‘۔

’’ حیرت ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تمام جہاں کے ساتھ فرینڈ شپ کرتی پھروں؟‘‘۔

’’ تو تمام جہان کے ساتھ نہیں ہے کیا ؟ تم یہ کیوں بھول رہی ہو کہ تم ایک رائٹر ہوں، ملک کی جانی مانی ادیبہ، جیتی جاگتی ہیروئن ، چلتی پھرتی یونیورسٹی۔ سارے جہان کی قلمی دوستی کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے ، مگر دوست نہیں ہے تو صرف یہی ایک لڑکا۔۔۔ ۔۔۔ !؟‘‘۔

’’ ہاں۔ اس نے میری آنکھوں پر ہاتھ کیوں رکھے۔ جان نہ پہچان ، میں تیرا مہمان۔ اب تجھے کیا پتہ کہ میں اُس وقت کیا سوچ رہی تھی؟‘‘۔ وہ خالی گلاس زور کے ساتھ میز پر رکھتی ہے ، ’’ میں اس لفنگے کے ساتھ آدھا گھنٹہ بھی دوستی رکھنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ ایسے چھچھورے میرا آئیڈیل نہیں ہوسکتے ، ایک پَل کے لیے بھی نہیں۔۔۔ ۔۔۔ ‘‘۔

’’ لیکن تم تو اس کی آئیڈیل ہو اور مُکرتی کیوں ہو؟ ابھی تو تم نے کہا کہ وہ بہت serious تھا‘‘۔

’’ یہ میں نے کب کہا ۔۔۔ ۔۔۔ ؟ کب کہا میں نے ؟‘‘۔

’’ اوہ۔۔۔ ۔۔۔ ! تم Absent minded writer ہو۔ تم نے پتہ نہیں کیا کیا کہا ۔ ٹھنڈا مزاج ، ناک، آنکھیں، ہونٹ ، سب اس کے کنٹرول میں۔ کیا یہ سب ایک سنجیدہ نوجوان کی علامات نہیں ہیں؟‘‘۔

’’ توبہ ۔۔۔ ‘‘۔ وہ پھر غصہ میں آکر کمرے میں ٹہلنے لگتی ہے اور تیز تیز بولنے لگتی ہے ، ’’ اب تو تم بھی مجھے سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہو۔ میرے پاس دوستوں ووستوں کے لیے وقت نہیں ہے۔ تم سمجھتے کیوں نہیں ہو کہ میں ایک Pure writer ہوں۔ میرے پاس سوچوں کے وسیع افلاک ہیں۔ بھئی ! مجھے میری نئی کتاب اپنی زندگی سے بھی پیاری ہے اور اس کے لیے میں اپنی صحت و حت کی پرواہ بھی نہیں کرتی۔ اس کتاب کو لکھنے کے لیے میں نے پندرہ برس کشت کاٹے ہیں۔ کبھی کبھی تو کاغذ بھی میرے لیے پرابلم بن جاتا ہے ۔ تم ہی کہو، میں بھلا کوئی پرائز جیتنے کے چکر میں ہوں ؟ ارے بھئی ! مجھے میری کتاب مکمل کرنے دو ، پھر چاہے میرے جسم کی بولی لگا دو۔ میں اتنی بولڈ ہوں کہ تمہیں بروتھل میں بھی بیٹھ کر دکھا سکتی ہوں۔ کان کھول کر سن لو ، میں اس صدی کے لیے ایک چیلنج ہوں۔ میرے ناول کا تھیم ؟ میرے ناول کا تھیم ازل سے آج تک ہوتی آئی خون ریزی کا داغ داغ سرخ لہو ہے ، جو صدیوں کے دھماکوں سے سیاہ پڑ چکا ہے ۔جو لہو اب بہت زیادہ اور مزید گندہ ہو چکا ہے ۔ بڑا حبس ہے اور دم گھونٹنے والی بدبو ہے ‘‘۔ وہ پاگلوں کی طرح آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر رونے لگتی ہے۔ دھاڑیں مار کر روتی ہے اور پھرا چانک کتابیں اٹھا کر جانے کے لیے سیڑھیوں کی طرف دوڑ لگاتی ہے کہ اس کا اُونچی ایڑی والا سینڈل زینے میں پھنس جاتا ہے اور وہ چیخ مارکر قلابازیاں کھاتے ہوئے گر جاتی ہے ۔ وہ بھاگ کر اس کے پاس پہنچتا ہے۔

’’ چوٹ تو نہیں لگتی؟‘‘۔

’’ میں فولادی اعضا کی مالک ہوں‘‘۔ اس کے آنسو ہیں کہ رُکنے کا نام نہیں لیتے۔ وہ اسے اپنی بانہوں میں اٹھا لیتا ہے اور وہ بچوں کی طرح ہاتھ پاؤں مارتی جاتی ہے ،’’ چھوڑ مجھے ۔۔۔ میں نے کہا نا ۔۔۔ میرے ہڈ مضبوط ہو چکے ہیں۔ مجھے بہت کچھ لکھنا ہے ‘‘۔

’’ خاک لکھنا ہے تجھے ۔ تم اس صدی کی سب سے واہیات رائٹر ہو ، کمزور اور Un-natural ‘‘۔

’’ ہاں، سچ ہمیشہ واہیات ہی لگتا ہے ۔ تم Un-natural رائٹر ہو اس لیے تمہارا رہن سہن بھی Un natural ہے ۔ جس طرح زندگی میں پانی، روٹی ، کپڑا گھر ضروری ہے ۔ اسی طرحMaleکے لیے Female اور Female کے لیے Male۔ چونتیس برس کی ہو گئی ہو۔ بتاؤ اور کتنا وقت تنہا رہو گی؟ تم ادھوری ہو ، اس لیے تمہاری تحریریں بھی ادھوری ہیں‘‘۔ وہ قہر آلود نگاہوں سے اسے گھورتا ہے۔

’’ کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟‘‘۔

’’ ہاں ۔ بھلا تم مردوں سے اتنی الرجک کیوں ہو؟ جس طرح سب عورتیں خراب نہیں ہوتیں اسی طرح سب مرد بھی بُرے نہیں ہوتے‘‘۔

’’۔۔۔ ۔۔۔ ‘‘۔ وہ آنکھیں پھاڑے اس کی طرف دیکھتی رہتی ہے۔

’’ ٹھیک ہے، میں اشتہاری فلموں کا چھوٹا ایکٹر ہی سہی، لکس نِرالا لکس کرنے والا۔ لیکن میں نے تم جیسے ہزاروں رائٹرز کو پڑھا ہے ۔ تم نہ صرف اپنی بلکہ اپنے پورے کنبہ کی تباہی کی ذمہ دار ہو۔ تمہارے رشتہ دار ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ تم اگر کسی بینک میں منیجر ہی ہوتیں تو آج تمہارے پاس کار ہوتی ، بنگلہ ہوتا‘‘۔

’’ تم تو یوں کہہ رہے ہو جیسے خود بڑے گریگوری ، مارلن برانڈو، لنکا سٹر یا دلیپ بن گئے ہو۔ ایک نہیں چار شادیاں کیے بیٹھے ہو‘‘۔

’’ ٹھیک ہے ، تم ٹی وی کے لیے سکرپٹ لکھو، میں کام کرتا ہوں ۔فن اور آرٹ کی دنیا کا ہر آدمی پیسوں کے لیے نہیں بلکہ فن کے لیے زندہ رہتا ہے۔ بہترین آرٹسٹ سکرپٹ کا محتاج ہوتا ہے اور شادی۔۔۔ شادی کے لیے ایک بمباسٹک لڑکی میری نظر میں ہے‘‘۔

’’!Really‘‘ وہ ایک ہی لمحے میں اپنے تمام دکھ درد بھول سی جاتی ہے اور بڑی محبت پاش نظروں سے اسے دیکھتی ہے۔ جیسے اسے اپنے کانوں پہ اعتبار نہ آ رہا ہو۔

’’ تو پھر ٹھیک ہے، جس دن تم شادی کرو گے، اس دن میں بھی کنواری نہیں رہوں گی‘‘۔

’’ میری بات مان لو، اسی لڑکے کے ساتھ شادی کر لو۔ اس کو میں نے ہی تیار کیا ہے ، اس کی ہمت بڑھائی ہے ۔ ورنہ وہ تو چھپ چھپ کر تمہاری راہیں دیکھا کرتا تھا‘‘۔

’’ کیا !؟‘‘۔

’’ ہاں‘‘۔ وہ مسکرادیتا ہے ۔

’’ سوری جینٹلمین ! اس لڑکے کے ساتھ صرف دوستی رکھی جا سکتی ہے۔ شادی ہر آدمی کا ذاتی مسئلہ ہے‘‘۔

’’ قسم قرآن کی ! ایسا شاندار لڑکا تجھے پوری روئے زمین پر نہیں ملے گا‘‘۔

’’ میں نے کہا نا، میرا سر مت کھاؤ۔ میں شوہر ڈھونڈنے کے معاملے میں شیر ہوں‘‘۔وہ تھک ہار کر کہتی ہے، کیا تم شاپنگ کے لیے نہیں جا سکتے؟ مجھے تنہائی چاہیے‘‘۔

’’ جاتا ہوں، جاتا ہوں ۔ مری کیوں جا رہی ہو۔۔۔ ۔۔۔ ؟ میں نے کہا خواہ مخواہ اپنے آپ کو لکھنے کی مشین مت سمجھو۔ تم لکھ لکھ کر اپنے آپ کو تباہ کر چکی ہو۔ ایک خواب آور گولی لے کر سو جاؤ۔ میں کوئی اچھی سی فلم دیکھ کر لوٹ آؤں تو پھر تم اپنی ماں کے پاس چلی جانا ۔’’Remember, No writing, Okay‘‘۔

’’O Kay‘‘ وہ دھیرج کے ساتھ آنکھیں موندے، نرم تکیہ کو سر کے نیچے سہلاتے ہوئے کہتی ہے۔

’’ واہ ! تم تو پہلی رات کی دلہن کی طرح سیج پر روٹھ بھی گئیں ! دروازہ اندر سے بند کرنے کے لیے کیا تمہارے باپ کا نوکر آئے گا؟ ارے بھائی ! زمانہ خراب ہے ، یہاں پانچ برس کی بے بی پردس دس آدمی چڑھ جاتے ہیں۔ میں رات کے دس بجے سے پہلے نہیں آؤں گا‘‘۔ وہ تیزی کے ساتھ سیڑھیاں نیچے اُتر جاتا ہے اور باہر والے دروازے کے بند ہونے کی تیز آواز سماعتوں سے ٹکراتی ہے۔

وہ اٹیچ باتھ روم کے دروازے کو دیکھ کر اپنا سر کُھجاتی اور نیچے جا کر بیرونی دروازہ بند کر کے اوپر آ جاتی ہے اور پھر گھومتے پھرتے قمیص اتارتی جاتی ہے نہا کر ٹھنڈا ٹھار ہو کر سونے کے لیے ۔ اور کمرے میں ایئر کنڈیشنر اور پنکھے کی آوازوں کے ساتھ سیٹی بجنے کی سُریلی آوازیں گونجنے لگتی ہیں اور ریڈیو پر گیتا کی آواز میں گیت۔

’’ اپنے پہ بھروسہ ہے ، اک داؤ لگا لے‘‘۔

گونجتا رہتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

بڑا آدمی

 

اُس نے اپنی پوری زندگی میں اپنے گاؤں کے متعلق اتنا بھی نہیں سوچا کہ وہاں کیا چل رہا ہے ،کیا ہو رہا ہے ۔لیکن آج دو تین ماہ کے بعد شہر کا چکر لگاتے، ایک کراٹے کلب میں اپنے جوان بھتیجوں ، بھتیجیوں اور چچا زاد بھائیوں، خالہ زادبہنوں کے تنومند بیٹوں کو شہر کے نوجوانوں کے ساتھ جوڈو کراٹے کھیلتا دیکھ کر بڑی گہری سوچ میں ڈوب گیا ہے اور گہرے خیالات میں ڈوبا دریا بادشاہ کے بند والے راستے سے گاؤں لوٹ رہا ہے :

’’ ہو ں ۔۔۔ یہ سب لڑکے تو جوان ہو گئے ! ۔۔۔ ہاں ۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے اتنے کڑیل جوان ۔۔۔ ! بھلا ان لڑکوں کے لیے لڑکیاں کہاں سے آئیں گی ؟ بھلا یہ لڑکے جو ڈاکٹر ، انجینئر، پائلٹ اور ایکٹر بننے کے خواب سنبھالے بڑے ہو رہے ہیں، تو یہ ان بڑی بڑی جیبوں والی اَن پڑھ ، گنوار گا گروں والیوں کو پسند کریں گے ؟‘‘۔ وہ را ہ چلتے ٹھنڈے دل کے ساتھ غور کرتا ہے اور اس کے ذہن کے پردے پر ایک ایک ہو کر سب جوان لڑکیاں گزرنے لگتی ہیں، خوبصورت ، گوریاں،سیدھی سادیاں ، دو چار سندھی جماعتیں خواندہ، سیاہ ، سبز، سرخ رنگا رنگ کشیدہ کاری والے گا گرے پہنے ہوئی لڑکیاں۔

’’ چچا ! کیا وہ لڑکی اس بڑی جیب میں کوئی طوطا پالے گی؟‘‘۔ اپنے بیٹے کی بات یاد آتے ہی اس سے ایک قہقہہ چھوٹ جاتا ہے ۔ جمی کا عاشق، اس کا بیٹا جو بچپن سے ہی اُسے بابا کے بجائے چچا کہہ کر بلاتا ہے اور وہ ایک انسپائریشن کے ساتھ گہری ٹھنڈی سانس لیتا ہے اور اپنے گرد و پیش پر ایک نگاہ ڈالتا ہے ۔

نیلے نیلے آسمان میں سفید سفید بادل دوڑتے جا رہے ہیں ۔ سورج ٹھنڈا ٹھنڈا اور بڑا ہوتا جا رہا ہے۔ آسمان میں تاڑو نامی پرندے کی آوازیں برکھا برسنے کے لیے چیخ کی صورت تیرتی جا رہی ہیں اور کھیتوں میں چھوٹی نسل کے سفید بگلے ایک دوسرے کے پیچھے ایک ڈار بنائے آہستہ آہستہ اپنے گھونسلوں کی طرف اڑتے جا رہے ہیں۔ اور ہواؤں میں بارش کے بعد اٹھی سوندھی مٹی کی خوشبو پھیلی ہوئی ہے ۔ وہ چلتے چلتے محسوس کرنا ہے کہ پورے گاؤں کی گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ وہ جب سے پیدا ہوا ہے اس نے تو یہی محسوس کیا ہے اور اب جبکہ وہ چونتیس برس کا ہوچکا ہے ۔ تب یہ بات اُسے شدت سے محسوس ہونے لگی ہے۔ اسے گاؤں کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن پھر بھی محسوس کرتا ہے کہ گاؤں کی نئی نسل کے ساتھ، جواب جوان ہو رہی ہے ، وہی سلوک نہیں ہونا چاہیے جو اب تک ہوتا آیا ہے۔وہ پورا دوش گاؤں کے بوڑھے بوڑھیوں کے سر تھوپتا ہے جو اپنے تئیں بڑے کہلواتے ہیں اور بڑے با اثر ہیں۔ جو چاہتے ہیں ، وہ ہو جاتا ہے ۔ جو قینچی کی طرح کاٹ کر ہمیشہ دو ٹکڑے کر دیتے ہیں۔ اسے اب اپنے ماموں پر غصہ آنے لگتا ہے اور وہ سوچنے لگتا ہے :

’’ ہوں۔۔۔ پورا دوش اسی یوروپین ماموں کا ہے ۔ جہاں جہاں بھی گئے ، پورا سندھ لتاڑ آئے، لیکن ماما نے کیا کیا ؟‘‘ اور وہ چلتے چلتے اپنے ماموں کے کردار پر غور کرتا جا رہا ہے اور اس کے Imaginationمیں ماموں کا جیون ایک فلم کی صورت دھندلا دھند لا گزرنے لگتا ہے۔

ایک آدمی ، شاندار لباس ، آنکھوں پر سنہری کمانی والا چشمہ، بالکل جیسے کوئی انگریز ادا کار۔ کبھی فراٹے بھرتی گاڑی میں سوار، کبھی بید سے لوگوں کی پٹائی کر رہے ہیں۔ کبھی ٹیلیفون پر بات کر رہے ہیں ، کبھی بڑے بڑے دفتروں سے تیز تیز گزر رہے ہیں۔ کبھی لائبریری میں کتابوں میں گم ہیں، کبھی کچھ لکھ رہے ہیں۔ کبھی دکھی ہیں ، نیند میں تڑپ رہے ہیں ، جیسے سپنے میں رو رہے ہوں۔

اور وہ Imaginationکی اتھاہ گہرائیوں سے نکل آتا ہے اور اسے خواہ مخواہ محسوس ہوتا ہے کہ آج ماموں بہت دکھی ہوں گے ۔ وہ جب سے جوان ہوا ہے اور اسے یاد پڑتا ہے کہ وہ ہمیشہ ماموں سے کچھ دوری پر رہا ہے ۔ وہ دونوں بس دس پندرہ برسوں میں یونہی کسی عید یا خوشی کے کسی اور موقعہ پر دس پندرہ مرتبہ ملے ہوں گے اور وہ بھی پانچ دس منٹوں کے لیے، جیسے کوئی نا تا نہ رشتہ! وہ سوچتے ہوئے دکھی ہو جاتا ہے اور پھر یادوں کی گہرائی میں اُتر جاتا ہے۔

ایک گورا چٹا شخص، انگریزوں جیسا کھلاڑی، اکیلا دو پناہ گیر اساتذہ کے ساتھ ٹینس کھیل رہا ہے اور پھر اس کے کان میں پتہ نہیں کہاں سے ماموں کی آواز گونجنے لگتی ہے :

’’ گمان ! تمہیں پتہ ہے ، جب تمہارے ماموں علیگڑھ سے طلائی تمغے کے ساتھ ایم اے کر کے لوٹے تھے تو اس شہر کے کیا ہندو کیا مسلمان، سب قطار بنائے اسے سٹیشن سے یوں لے آئے تھے جیسے وہ کوئی حجِ اکبر کر آئے ہوں‘‘۔

اسے چلتے ہوئے کچھ اور دھند لا سا یاد آنے لگتا ہے ، پرانے کسی خواب کی طرح:

دریا بڑی مستی میں ہے ۔ وہ کم سن ہے ۔ چمکدار ساڑھیوں میں بڑی بڑی ہندوانیاں ہیں اور سفید سوٹ پہنے ہوئے ہیں ماموں اور ماموں جیسے بڑے بڑے لوگ، باتیں کرتے، قہقہے مارتے، دریا کے کنارے کھڑے ایک بڑے جہاز پر آتے ہیں۔ وہ جہاز پر دھرے تختے پر چڑھتے ہوئے ڈرتا ہے ، ایک ہندوانی اسے گود میں اٹھا کر چومنے لگتی ہے اور ماموں قہقہے لگاتے ہیں۔

اور وہ دھند کے ایک اور پردے میں چلا جاتا ہے :

وسیع و عریض بنگلہ ہے، چہار اطراف ایک باغ ہے اور تھوڑے سے فاصلہ پر ایک جیل نما جگہ ہے، جس میں ٹانگوں کے بیچ لکڑیاں پھنسا کر باندھے گئے لوگ الٹے لٹکے ہوئے ہیں۔ تحصیلدار بڑے غصہ میں ہیں۔ اپنے ما تحتوں کے سامنے ایک دھاڑ کی صورت چلاتے ہیں، ’’ وہ اور ہوں گے بزدل تحصیلدار، بیواؤں کے ساتھ سینہ زوریاں کرتا ہے ۔ اُس وڈیرے ، کتے کے بچے کی پگڑی اتار کر، اسے گلے میں ڈال کر یہاں لے آؤ۔ اگر وڈیرہ گھر میں نہ ہو تو اس کی بیوی کو لے آؤ‘‘۔

اور دوسرے لمحہ:

دوسرے لمحہ میں پولیس والے ہیں۔ نصف مونچھ کٹا وڈیرہ ہے اور تحصیلدار کی چھڑی ہے ۔ تحصیلدار اپنی چھڑی سے وڈیرے کی چمڑی اُدھیڑ ڈالتا ہے ۔ وڈیرے کی قمیص لیر و لیر ہو جاتی ہے۔ تحصیلدار اسے اُس وقت تک مارتا ہے، جب تک وہ غش کھا کر اس کے قدموں میں گر نہیں جاتا : ’’ سائیں ! میری توبہ۔ یا حسین! میری توبہ ۔ گھوڑا ڑے میری توبہ ‘‘۔ تحصیلدار کے ایک ٹھڈے سے وڈیرہ کی ناک سے لہو کا فوارہ چھوٹ جاتا ہے اور وہ اپنے آپ میں سمٹا جاتا ہے۔

’’ کتیا کے بچے ! کان کھول کر سن لو، دوبارہ اگر تم نے غریبوں کو مارا، تنگ کیا تو تیری بیوی انہی ماچھیوں سے اٹھوا لوں گا۔ ہو گے تم کسی منسٹر کے بھڑوے، میں ایرے غیرے کی پرواہ نہیں کرتا‘‘۔ اور تحصیلدار تیز قدم اٹھاتے منشی کو ڈانٹ پلا دیتے ہیں:

‘‘Three months jail, One thousand rupees fine’’

وہ راہ چلتے سوچوں کے بھنورسے نکل آتا ہے اور پھر گرد و پیش کا جائزہ لیتا ہے۔ سندھیا پر رات کا دھند چڑھتا جا رہا ہے۔ پھر نہ جانے کہاں سے اس کے کانوں میں انجانی سی آوازیں گونج اٹھتی ہیں:

’’ بابا! تمہارے ماما جیسے لوگ کہاں! مولا پاک کی قسم ہمارے ہاں تحصیلدار تین ماہ کے اندر بستر گول کر جاتا ہے ۔۔۔ لیکن تمہارے ماموں ۔۔۔ تمہارے ماموں نے وہ صاحبی چلائی کہ کسی انگریز نے بھی نہ چلائی ہو گی۔ بابا ! ہر حرامی بد چلن کے گلے میں پھندہ، چاہے کوئی کتنا بھی خانِ خاناں کیوں نہ ہو۔ سب کو نکیل ڈال دی انہوں نے ۔ خدا کی پناہ !‘‘۔

‘‘ تو کیوں آخر ماموں اپنے گاؤں میں اتنے ٹھنڈے ہیں؟‘‘۔ اس کے ذہن میں سوال کلبلاتا ہے اور وہ اپنے ماموں کے اپنے گاؤں کے اندر اٹھنے بیٹھنے کے طریقے پر غور کرتا ہے ۔

Imagination:

وہ پیدل جا رہا ہے اور اس دوران ماموں سینکڑوں بار موٹر میں زناٹے سے گذر جاتے ہیں۔

ماموں لائبریری میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

ماموں ایزی چیئر میں سر جھکائے اور پاؤں تپائی پر رکھے بی بی سی سُن رہے ہیں۔

ماموں پوتے، پوتیاں ،نواسے اور گاؤں کے چھوٹے بچے بڑی سی گاڑی میں لئے کہیں گھومنے جا رہے ہیں۔

ماموں نیند میں ہیں کہ بیدار پتہ نہیں۔ نیند ماموں سے کوسوں دور ہے ماموں نیند میں تڑپتے ہوئے سے لگتے ہیں۔

ماموں قہقہے لگا رہے ہیں ، جیسے ہمیشہ لگاتے ہیں ۔ بڑے بڑے قہقہے ، جن میں شور زیادہ، خوشی کم ہوتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ ماموں دکھی ہیں اور جیون میں پہلی مرتبہ اس کے دل میں تڑپ سی اٹھتی ہے کہ کبھی ماموں کے ساتھ بیٹھنا چاہیے۔

وہ چلتے ہوئے پھر اردگرد کا جائزہ لیتا ہے ۔ اس کے گاؤں کی روشنیاں جل اٹھی ہیں۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ گاؤں کا وہ پہلے جیسا دیہاتی حسن ختم ہو چکا ہے ۔ گاؤں اب کراچی کی شر ف آباد یا گلشن اقبال جیسی آبادی محسوس ہوتا ہے یا پھر کوئی نئی تعمیر ہونے والی پناہ گیر کالونی۔

وہ گاؤں میں نئی بڑی جامع مسجد کے سامنے کھڑی ماموں کی سُرخ گاڑی دیکھ کر گھر جانے کے بجائے ماموں کے گھر چلا جاتا ہے۔

’’ صلح کرنے میں کیا برائی ہے ؟۔۔۔ ہیں ؟ میں کوئی نوکری لینے یا کسی کی سفارش کرنے تو نہیں جا رہا ۔ کب تک ہم یونہی اجنبی سے رہیں گے ؟‘‘ وہ اپنے آپ سے سوال کرتا ماموں کے گھر میں داخل ہوتا ہے ۔ گھر کے تمام مکین اسے دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے ۔ بے بی الوینا اسے چھیڑتی ہے اور و ہ اسے اٹھا کر گول چکر دینا شروع کرتا ہے

‘‘Where is uncle?’’

’’He is sleeping‘‘۔ بے بی پرانی جگہ کے ایک کمرے کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ دروازہ بند ہے ۔ وہ کھڑکی سے سوئے ہوئے ماموں پر نظر ڈالتا ہے ۔ اسے زندگی میں پہلی مرتبہ محسوس ہوتا ہے کہ ماموں بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں۔ الوینا اسے نئی دو منزلہ عمارت میں لے آتی ہے۔

‘‘Papa says, this for me, ‘‘Good home’’

‘‘Yes, very nice, Beautiful’’

وہ اس نئی جگہ میں پہلی مرتبہ آیا ہے۔ پوری جگہ کو اچھی طرح دیکھتا ہے اور بالکنی سے ہو کر بے بی کے ساتھ چھت پر چلا آتا ہے ۔

’’ Shall we play Ping Pong?’’

‘‘No, I am feeling tired’’ وہ جان چھڑانا چاہتا ہے ۔ وہ سوچتا ہے کہ ماموں پتہ نہیں کب اٹھیں گے ؟ اسے اپنے گھر لوٹ جانا چاہیے ۔ وہ نیچے اترتا ہے تو ماموں اسے باتھ روم سے نکلتے نظر آ جاتے ہیں۔ ماموں اس پر ایک خوشگوار نظر ڈالتے ہیں۔

’’ کب آئے ہو؟‘‘۔

’’ ابھی، تھوڑی دیر پہلے۔ آپ تو ابھی سوئے ہوئے تھے !؟‘‘۔

’’ نہیں، یونہی لیٹا ہوا تھا ۔ میں تمہاری آواز سن رہا تھا ۔ کیسے آنا ہوا ؟‘‘۔

’’ یونہی، دل نے کہا اور میں چلا آیا‘‘۔

’’ سچ۔۔۔ !‘‘ ماموں چشمہ صاف کر کے آنکھوں پر چڑھاتے اور اسے یوں دیکھتے ہیں کہ جیسے انہیں یقین نہ آ رہا ہو۔

’’ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘ وہ ماموں سے پوچھتا ہے۔

’’ ہاں ۔ طبیعت کو کیا ہو گا؟ طبیعت تو آدمی کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے‘‘۔

وہ ماموں کی اس بات پر مسکرادیتاہے ۔اسے محسوس ہوتا ہے کہ ماموں وہی ہیں ۔ ان میں کوئی چینج نہیں آئی، اگر تبدیلی آئی ہے تو صرف یہ کہ اس کے بیٹے بوڑھے ہو گئے ہیں ۔ ماموں وہی ینگ، سمارٹ اور ہینڈ سم ہیں۔

’’ تمہارا کالج کیسے چل رہا ہے ؟‘‘۔

’’ ٹھیک ہے ۔ بس چل رہا ہے ‘‘۔

’’ آ۔۔۔ ہا ۔۔۔ کیا زمانے تھے ! ٹیچرز لائف بھی ٹیچرز لائف ہے ۔’’ ماموں ایک پل کے لیے گہری سانس لے کر اپنی یادوں میں کھو جاتے ہیں۔

’’ ماموں ! کیا رکھا ہے اس لائف میں؟‘‘۔

’’ ہوں ۔۔۔ میں نے سات آٹھ برس ٹیچرز لائف گزاری ہے ۔ مجھے سب پتہ ہے ۔ کیا شاندار لائف ہے ! بس صرف آدمی کی اپنی کوالٹی ہونی چاہیے‘‘۔

’’ :پھر آپ نے ٹیچنگ لائف کیوں چھوڑ دی؟‘‘۔

’’ ارے بھائی! چھڑائی گئی۔ میں تو ہمیشہ محسوس کرتا ہوں کہ میں نے ٹیچنگ لائف چھوڑ کر اپنے آپ کو توڑ دیا تھا، اپنے آپ کو کولہو کا بیل بنانے کے لیے ، وہ بھی جان بوجھ کر۔ کبھی کبھی آدمی قربانی کا بکرا بن جاتا ہے ‘‘۔ ماموں بڑی دیر تک خاموش ہو جاتے ہیں۔ممانی چائے لے کر آتی ہے۔ ایک پل کے لیے دونوں چپ ہو کر چائے کی چُسکیاں لیتے رہتے ہیں۔

’’ کوئی کام تو نہیں؟‘‘۔

’’ نہیں تو ‘‘۔ وہ فوراً جواب دیتا ہے۔

’’ پتہ نہیں کیوں کوئی کام کے بغیر میرے پاس آتا ہی نہیں ہے ! ’’ ماموں بہت دکھی ہو جاتے ہیں۔

اور ممانی کسی گولے کی طرح اچانک پھٹ پڑتی ہے : ’’ کسی کو پاگل کتّے نے کاٹا ہے کہ تمہارے پاس آئے گا ۔ جو بھی آتا ہے ، اس کا چہرہ نوچ لیتے ہو۔ پھر کہتے ہو کہ میرے پاس کوئی آتا ہی نہیں ہے‘‘۔

ممانی کی بات پر ماموں کے چہرے پر ایک مسکراہٹ کھل اٹھتی ہے اور ماموں اسے آنکھ مارتے ہیں، ’’ پتہ نہیں کیوں لیکن اب تم پسند آنے لگے ہو؟ سچ بتاؤ، کام سے آئے ہونا ؟ تم اگر غلط کام بھی کہو گے تو وہ بھی کر دوں گا‘‘۔

’’ نہیں، بائی گاڈ! میں صرف آپ کو دیکھنے کے لیے آیا تھا‘‘۔

’’ ہُوں ۔۔۔ ارے بھائی! مجھے سب پتہ ہے ۔ پھٹے منہ تمہارا ،

‘‘Really, She is fine girl’’

’’ جی ! ‘‘ و ہ گھبرا جاتا ہے۔

’’ ارے ! کپ اُلٹ رہا ہے ، پھر کہتے ہو کہ میں ڈانٹتا ہوں ۔ مجھے پتہ ہے ، تم پانچ برسوں کے بعد پانچ منٹ کے لیے آتے ہو تو صرف مجھے دیکھنے کے لیے نہیں، نہ ہی کسی کام کے لیے۔ میں ٹیچنگ لائف میں بچے نہیں جوان پڑھایا کرتا تھا‘‘۔

’’Thanks‘‘۔ وہ ماموں کی بات پر شکریہ ادا کرتا ہے۔

‘‘Really you are a lucky person and gentle fellow’’

ماموں اس کا جائزہ لیتے ہوئے مسکراتے ہیں لیکن بڑی تکلیف کے ساتھ اور ممانی کام کاج کرتے ہوئے دور سے اسے خبردار کرتی ہے:

’’ ارے بھاگ جاؤ۔ یہ ہنستے ہنستے، سہلاتے سہلاتے اچانک بگڑ بیٹھے گا‘‘۔

’’ میں چلوں ؟‘‘۔

’’ کیوں؟ اس بوڑھی کی بات دل کو لگ گئی کیا؟‘‘۔

نہیں تو ۔ پھر کبھی اچھی سی کمپنی کریں گے‘‘۔

’’ ہاں۔ زندگی ہے تو کمپنیاں ہی کمپنیاں ہیں‘‘۔

ماموں کپ کو تپائی پر رکھتے ہیں اور وہ اجازت لے کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اسے پہلی مرتبہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے ماموں ویسے نہیں تھے ، جیسا اس نے انہیں سمجھا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

ہم لوگ

 

 

وہ تیز نہیں چل سکتا تھا۔ اُس کی بائیں ٹانگ یا تو کم سنی میں نکل چکی تھی یا پھر کوئی اور نقص تھا۔ لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اُس کی ٹانگ میں کوئی پھیر تھا، جو اس کی لنگڑاہٹ سے ظاہر ہوا کرنا تھا۔ وہ ہمیشہ تھکا تھکا ، اُداس اُداس اور بیمار سا لگتا ۔ دیکھو تو ترس آ جائے۔

وہ ہماری گُڈز آفس میں سِیل مین(Sales Man) تھا ۔ اس کی عمر بیس اکیس برس کے قریب ہو گی۔ مسکین سی صورت، چھوٹا قد ، لاغر بدن اور دبلا پتلا سا۔۔۔ دور سے دیکھو تو یوں لگے جیسے چودہ برس کا لڑکا آ رہا ہے ۔ تمام دن گدھے کی طرح محنت و مشقت میں جُتا رہتا، جھڑکیاں کھاتا اور گالیاں سنتا رہتا۔

’’ ارے او نظامو کے بچے ! جا ایک آنے کا برف لے آ۔ ارے اور سیل مین ! کہاں مر گیا ؟ یہ لو پیسے ، فَٹ سے دو لفافے لے آ۔۔۔ ۔۔۔ ‘‘۔

ہمارے دفتر میں اور کوئی چپڑاسی نہیں تھا، اسی لیے تمام کام اسے ہی کرنا پڑتا۔ وہ ایک کام سے فارغ ہوتا تو دوسرے کے پیچھے بھاگا بھاگا جاتا۔

’’ ابے او حرامی ! کہاں مر گیا تھا ، جایہ میمو دے آ ’ سی۔ ٹی ۔ او‘ کو اور ایک دوائی ایف او ، کو اور واپسی میں میرا کھانا لیتے آنا۔ ابے او مردود ! یہ کیسے چلتا ہے تم، جلدی جاؤ، سالا ایک میمو دینے میں سارا دن لگا دیتا ہے ‘‘۔

بارش ہو رہی ہو، آسمان آگ برسا رہا ہو یا کوئی طوفان اٹھا ہو ، وہ تمام دن یارڈ کے اندر لنگڑ۔ لنگڑ، لنگڑاتا چلتا رہتا اور بوگیوں پر لیبل لگا کر انہیں سیل کرتا رہتا۔ یہاں تک کہ رات کے دس گیارہ بج جاتے ۔

میں نے کئی مرتبہ اسے اپنے میلے تولیہ ( جسے وہ گرمی میں سر ڈھانپنے کے لیے استعمال کرتا) سے کمر باندھتے ہوئے دیکھا۔ اگر پوچھ لو کہ ارے یہ تولیہ کیوں اس طرح باندھ رکھا ہے ؟ تو جواب میں کہے گا ، ’’ یونہی ۔ پیٹ میں تکلیف ہے نا ‘‘۔ کبھی کبھی تو پورا دن پیٹ کے درد کے سبب کراہتا اور بل کھاتا رہتا۔ پتہ نہیں اسے کیا بیماری تھی کہ دن بدن کمزور ہوتا جا رہا تھا۔ میرے ساتھ اُس کا یارانہ تھا۔ اس لیے اگر کچھ پوچھنا ہوتا یا گھر سے آیا ہوا کوئی خط وغیرہ پڑھوانا ہوتا تو اوروں کو چھوڑ کر میرے پاس آ جاتا۔ دفتری معاملات میں بھی میرے ساتھ کھل کر گفتگو کرتا ۔ اس کے دل میں کوئی بھی بات ہوتی تو گھوم پھر کر میرے پاس ہی آتا اور میرے ساتھ اپنا غم ہلکا کر لیتا ۔’’’’ بابو جی! یہ ریلے اوور ٹائم کیوں نہیں دیتے؟ دیکھو نا ، صبح آٹھ بجے آتا ہوں، رات کے گیارہ بجے جاتا ہوں۔’’ یا پھر کہتا ، ’’ بھائی ! یہ کک آؤٹ کے کیا معنی ہیں؟ بڑا صاحب جب بھی مجھ سے ناراج ہوتا ہے ۔ کہتا ہے کک آؤٹ کر دوں گا‘‘۔ کبھی کبھی ایسے سوال کرتا کہ مجھے ہنسی آ جاتی اور یوں بھی ہوتا کہ میں اس کے کئی سوالوں کے جواب نہ دے پاتا۔

ایک دن وہ مجھے بہت خوش نظر آیا۔ وہ تنخواہ کا دن تھا۔پتہ نہیں کس نے اس کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی کہ تنخواہ بڑھ گئی ہے اور وہ پھول کی طرح کھل اٹھا ۔ کہہ رہا تھا ، ’’ بھائی ! آج تو فلم دیکھیں گے ۔’’ سنا ہے ‘‘ ٹیکسی ڈرائیور ‘‘ بڑی اچھی فلم ہے‘‘۔ اور کچھ دیر بعد جب تنخواہ لے آیا تو یوں لگ رہا تھا کہ جیسے سب کچھ لٹا کے آیا ہو ۔ پتہ نہیں کن خیالات میں ڈوبا، غوطے کھا رہا تھا۔’’ بھائی یہ میرے دو روپے کیوں کاٹ دیے؟ میری تو سبھ حاجریاں تھیں ‘‘۔میں نے اُسے بتایا کہ دو ماہ سے جو واشنگ الاؤنس مل رہا تھا وہ بھی کاٹ لیا ہے ۔ لیکن ا س بچارے کو کیا پتہ کہ واشنگ الاؤنس کس بلا کا نام ہے۔دفتر میں سب کا خیال تھا کہ اسے تپ دق ہے ، اس لیے دفتر کے مٹکے سے پانی پینا اس کے لیے ممنوع تھا۔ لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اسے ٹی بی یا اس قسم کی کوئی اور بیماری نہ تھی۔ میں کیا ، سب کو پتہ تھا کہ اسے کیا بیماری لاحق ہے اور اس کا علاج کیا ہے ، لیکن ہم نے کبھی اس کے متعلق غور کیا ہی نہ تھا ۔ ہم سب اسے مشورہ دیا کرتے کہ کسی اچھے ڈاکٹر سے علاج کرواؤ نہیں تو مر جاؤ گے ۔ اور یہ حقیقت ہے کہ میں جب بھی اس کے پیٹ پر تولیہ باندھا دیکھتا تو مجھے بھی اس کی صورت سے ڈر لگتا۔ میں ڈرتا کہ کہیں قرضہ نہ مانگ لے۔ کیونکہ میرے سوا وہ کسی کے ساتھ اتنی حجت نہیں کرتا تھا ۔ ’’ بھائی ! آج تو بڑے جور کی بھوک لگ رہی ہے ، چار آنے دو ، تنکواہ کے روج دے دوں گا‘‘۔ وہ ایسی مسکین اور معصوم صورت بنا کر کہتا کہ غصہ کے بجائے ترس آ جاتا اور وہ پھر مطلوبہ رقم تنخواہ کے دن ضرور لوٹا دیتا۔

ایک دن ہمارے دفتر کا عملہ نماز جمعہ پڑھنے گیا اور ہم دونوں دفتر میں رہ گئے۔مجھے اور کوئی کام نہیں تھا، اس لیے دفتر کے بینچ پر مزے کے ساتھ ٹانگ پر ٹانگ رکھے سگریٹ کے کش مار اور اخبار پڑھ رہا تھا۔ وہ اپنے خیالات میں گم بیٹھا بلٹیوں کی کتاب پر مہریں مار رہا اور ٹھنڈی سانسیں بھر رہا تھا ۔ میں سمجھ گیا کہ آج اسے پھر کوئی ڈانٹ پڑی ہے ۔ لیکن یہ میرے لیے کوئی نئی بات نہ تھی ۔ بھلا کون سا ایسا دن تھا کہ اس کو ڈانٹ نہ پڑتی ہو۔ وہ خود ہی شروع ہو گیا :

’’ بھائی! اب تو اس نوکری سے جی کھٹا ہو گیا ہے ۔آج پھر بڑے صاحب نے چارج چھیٹ دے دیا ہے ۔ بھلا میں کوئی پڑھا لکھا ہوں جو روج روج بیٹھا چارج چھیٹ کا جواب لکھوں‘‘۔

’’ کس بات کی چارج شیٹ ہے ؟‘‘۔ میں نے پوچھا۔

’’آج بڑے بابو نے مجھے روئی کے بوروں میں سوتا دیکھ لیا۔ دیکھو بھائی! میں بھی انسان ہوں۔ صبح آٹھ بجے کام پہ آتا ہوں، رات کو دس دس، گیارہ گیارہ بجے جاتا ہوں۔ تم اپنے ایمان سے کہو ، کبھی یہ لوگ مجھے چین سے بیٹھنے دیتے ہیں ؟ اورتو اور اتبار کے روج بھی کام پہ آنا پڑتا ہے۔ پھر بھی اگر کسی روج تھوڑا سا دیر سے آ جاؤں تو یہ لوگ ہجار باتیں سناتے ہیں اور چارج چھیٹ تھما دیتے ہیں ۔سچ۔۔۔ ۔۔۔ میں تو روج روج کے جھگڑے سے تنگ آ گیا ہوں ۔ سوچتا ہوں ، نوکری چھوڑ دوں‘‘۔

’’ پھر کیا کرو گے؟‘‘۔

اُس نے میری بات کا جواب نہیں دیا ۔ پتہ نہیں کسی سوچ میں گم تھا ۔ میں اس کے گھریلو حالات سے واقف تھا ۔ میں ہی اس کے گھر سے آئے ہوئے خط اس کو پڑھ کرسناتا تھا۔ میں نے اسے کہا، ’’پگلے ! ایسا خیال کبھی دل میں نہ لانا۔ نوکری بڑی مشکل سے ملتی ہے اور پھر تم اکیلے تو ہو نہیں ، تمہارے پیچھے پورے سات افراد کھانے والے ہیں ۔ ان کا کیا ہو گا؟‘‘۔

’’ پھر یہ لوگ مجھے چین سے رہنے کیوں نہیں دیتے؟‘‘۔

’’ بھائی! تم نہیں جانتے ، میں پہلے ہی کتنا دکھی ہوں‘‘۔

اس نے سر جھکا کر میز پہ رکھ لیا اور اپنا چہرہ باز میں چھپا لیا۔ وہ آنسو نہیں بہا رہا تھا، سسکیاں نہیں بھر رہا تھا لیکن وہ رو رہا تھا ۔ وہ ایسے ہی روتا ۔۔۔ ہمیشہ روتا رہتا تھا۔

اس بات کے دوسرے دن مجھے ایک ضروری کام کے سلسلہ میں حیدر آباد جانا پڑ گیا اور تین دن کے بعد جب میں صبح سویرے دفتر آیا تو نظاموں کی جگہ ایک دوسرے لڑکے کو میز کرسیاں صاف کرتے دیکھا۔ میں نے سوچا، کوئی نیا بھنگی ہے ، جھاڑو دینے کے ساتھ ساتھ آفس کی میز کرسیاں جھاڑنا بھی اپنی ڈیوٹی سمجھتا ہے ۔ اس لیے دھول سے بچنے کے لیے میں آفس کے باہر چہل قدمی کرنے لگا۔

مجھے بعد میں پتہ چلا کہ نظامو کو ڈسچارج کیا گیا ہے ۔ اس نے کسی تاجر سے سیل لگانے کے پیسے مانگے تھے اور اس کی اور بھی کوئی شکایتیں ہوئی تھیں، اس لیے اسے نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔

جب میں نے افسوس کا اظہار کیا تو ہمارا ایک بابو ناراض ہو گیا، کہنے لگا:’’ ارے ! تم نہیں جانتے وہ سالا کتنا حرامی ہو گیا تھا۔ میاں! وہ ہم تم سے زیادہ کما لیتا تھا۔ خدا کی قسم ، سیل لگانے کے بعد ایک روپے سے کم نہیں لیتا تھا‘‘۔

’’ کہاں یار! وہ بچارہ تو پورا دن بھوکا مرتا تھا‘‘۔ میں نے کہا۔

اس پر میرا ایک اور ساتھی بھڑک اٹھا:’’ ارے تمہیں کیا معلوم ! وہ سالا تو میری لوڈنگ کے پیسے بھی کہا جاتا تھا۔ جو نیا تاجر آتا، اسے کہتا، پیسے نکالو تو تیرا مال جلدی گاڑی میں بھجوا دوں گا۔ جبھی تو مبین سالے سے جلتا تھا۔ سالا حرامی ، کم ذات ‘‘۔

بات یہاں تک آ گئی تو ہمارے ایک پنجابی بابو سے بھی رہا نہیں گیا۔ اس نے فوراً کہا، ’’ اجی! اس دی گل کر دے او ۔ اوتے ساڈا وی باپ بن گیا سی ۔ مینوں کہدا سی، بابو جی ! تسی اتنے پیسے کماندے او، کدی سانوں وی چائے پانی کرائیونیں ! میں سالے دے منہ تے چٹاخ سے چاٹا ماریا تے سالے دامنہ ئی لال ہو گیا ۔ سور دی اولاد‘‘۔

اس بات پر ہنسی کا پھوارہ پھوٹ پڑا۔ سب نظامو کو گالیاں دے کر اپنی اپنی بھڑاس نکال رہے تھے ۔ اس کے بعد وہ مجھے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا ۔ ہاں اس کے جانے کے بعد جلد ہی اس کا ایک خط مجھے ملا، جو ابھی تک میرے پاس رکھا ہوا ہے ۔ کہتے ہیں دوسروں کا خط پڑھنا اخلاقی جرم ہے۔ لیکن میں آپ سے چھپاتا نہیں۔ میں نے اس کے نام آیا ہوا خط پڑھا ہے ۔ ویسے بھی اس کے خطوط اسے میں ہی پڑھ کر سنایا کرتا تھا۔ شاید یہی سبب تھا کہ اس کا خط پڑھتے ہوئے مجھے میرے ضمیر نے کوئی ملامت نہیں کی ۔ وہ خط میں آپ کو بھی سنانا چاہتا ہوں۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ میں آپ کو یقین چلاتا ہوں کہ اس خط میں ایسی کوئی بات نہیں جسے سننے کے لیے آپ کا ضمیر آمادہ نہ ہو۔ یہ ایک ماں کی ٹیڑھی میڑھی لکھائی میں تحریر شدہ خط ہے ۔ ایک سیدھا سادھا خط ۔۔۔ ہمارے ملک کے کروڑوں انسانوں کی درد بھری کہانی، جسے ہم اچھی طرح جانتے ہیں لیکن اس پر کبھی غور نہیں کرتے۔ نظاموں کو ماں کی طرف سے لکھے ہوئے اس خط کی عبارت کچھ یوں ہے:

’’ نور چشم نظام الدین! خدا تجھے سلامت رکھے!‘‘۔

اس سے پہلے بھی ایک خط تجھے بھیج چکی ہوں۔ لیکن تم نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ میں یہاں سخت پریشان ہوں ۔ تمہارے چھوٹے بھائی کی طبیعت بہت خراب ہے ۔ اسے میعادی بخار ہو گیا ہے ۔ ڈاکٹر کہتا ہے کہ ٹیکے لگیں گے ، نہیں تو۔۔۔ میرا تو کلیجہ منہ کو آرہا ہے۔ میرے لال ! کسی بھی طرح ادھار و دھار لے کر بیس روپے بھیج دو۔ بیماری الگ ہے اور گھر کا حال یہ ہے کہ رات کا آٹا نہیں ہے ۔ دکاندار نے ادھار دینے سے جواب دے دیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس مرتبہ کچھ بچت کرنا ، صرف دوکاندار کے ہی 45 روپے ہو گئے ہیں، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ لینا دینا ہے ۔ تمہاری بڑی بہن کی قمیص پھٹ کر لیروں لیر ہو گئی ہے ۔ اسے دیکھ کر تو میرا دل پھٹنے کو ہوتا ہے ۔ تمہاری چچی نے بھی ہم سے سگائی توڑ کر غیروں سے کرلی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ پچھلے خط میں تم نے لکھا تھا کہ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، ان دنوں سے میرا آرام جاتا رہا ۔

میرے پیارے بیٹے! آج کل کی بیماریاں بہت خطرناک ہوتی ہیں ۔ اپنے دوادارو کا خیال رکھو اور تجھے دیکھے بھی بہت دن ہو گئے ہیں۔ اگر تمہاری تنخواہ نہ کٹے تو کبھی آکر چہرہ دکھا جاؤ۔ اب تمہارے لیے میری روح تڑپ اٹھتی ہے ۔ اپنی صحت کے متعلق ضرور لکھنا تاکہ میرے دل کو کچھ تسلی نصیب ہو۔ دوسرا یہ کہ تجھے کوارٹر کب ملے گا؟ اس بات کا خاص خیال رکھنا اور اس خط کو تار سمجھنا ، کسی بھی طرح بیس روپے بھیجنا۔ خدا کرے تمہارے روزگار میں برکت ہو۔

’’فقط تمہاری ماں۔۔۔ ۔۔۔ ‘‘۔

٭٭٭

ماخذ: اردو ڈائجسٹ (http://urdudigest.pk)

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید