فہرست مضامین
ایک رات کی کہانی
فہمیدہ ریاض
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
انتساب
اپنے دل کا کھنکتا سکہ
جو تم ہر صبح سورج کے ساتھ ہوا میں اُچھالتے ہو
اگر خوف کے رُک پر گرے تو یہ مت بھلانا
کہ شجاعت اسی کے دوسرے رُخ پر کندہ ہے
سو یہ ایک داؤ بھی اسی بازی کے نام
جو ہم نے بدی ہے زندگی سے
٭٭٭
انتساب (۲)
شاید کہ قول خاک سے ہارا قلم مرا
تا عمر صرف حرفِ تمنا رقم کیا
جی کو ضد کہ آج تو خوں ناب روئیے
یہ قطرۂ سر شک سے بوٹے بنا گیا
پت جھڑ میں ضد رہی کہ لکھے نو بہار رنگ
تقدیر تو سیاہ تھی تحریر کی مری
یہ اُس کا حوصلہ ہے کہ پھوٹے ہزار رنگ
کیا بے قرار رنگ!
٭٭٭
ایک رات کی کہانی
بڑی سہانی سی رات تھی وہ
ہوا میں انجانی کھوئی کھوئی مہک رچی تھی
بہار کی خوشگوار حدت سے رات گلنار ہو رہی تھی
رو پہلے سپنے سے، آسمان پر سحاب بنکر بکھر گئے تھے
اور ایسی اک رات
ایک آنگن میں کوئی لڑکی کھڑی ہوئی تھی
خموش۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ تنہا
وہ اپنی نازک، حسین سوچوں کے شہر میں کھو کے رہ گئی تھی
دھنک کے سب رنگ اس کی آنکھوں میں بھر گئے تھے
وہ ایسی ہی رات تھی کہ راہوں میں اس کی، موتی بکھر گئے تھے
ہزار چھوتے، کنوارے سپنے
نظر میں اس کی،چمک رہے تھے
شریر سی رات کو چپکے سے وہ کہانی سنا رہی تھی
کہ آج
وہ اپنی چوڑیوں کی کھنک سے شرمائی جا رہی تھی
آخر کار یہ ساعت بھی قریب آ پہنچی
آخر کار یہ ساعت بھی قریب آ پہنچی
تو مری جان کسی اور کی ہو جائے گی
کل تلک میرا مقدر تھی تری زلف کی شام
کیا تغیر ہے اب غیر کی کہلائے گی
میرے غم خانے میں تو اب نہ کبھی آئے گی
تیری سہمی ہوئی معصوم نگاہوں کی زباں
میری محبوب کوئی اجنبی کیا سمجھے گا
کچھ جو سمجھا بھی تو اس عین خوشی کے ہنگام
تیری خاموش نگاہی کو حیا سمجھے گا
میری دم ساز زمانے سے چلی آتی ہیں
رہن غم وقف الم سادہ لوں کی آنکھیں
اور رولیں کوئی دم سادہ لوں کی آنکھیں
٭٭٭
زرد موسم
یہ زرد موسم کے خشک پتّے
ہوا جنہیں لے گئی اُڑا کر
اگر کبھی تم یہ دیکھ پاؤ
تو سوچ لینا
کہ ان میں ہر برگ کی نمو میں
زیاں گیا عرق شاخِ گل کا
کبھی یہ سر سبز کونپلیں تھیں
کبھی یہ شاداب بھی رہے ہیں
کھلے ہوئے ہونٹ کی طرح نرم اور شگفتہ
بہت دنوں تک
یہ سبز پتّے ہوا کے ریلوں میں
بے بسی سے تڑپ چکے ہیں
مگر یہ اب خشک ہو چکے ہیں
اگر کبھی اس طرف سے گزرو
تو دیکھ لینا
برہنہ شاخیں ہوا کے دل میں گڑی ہوئی ہیں
یہ اب تمہارے لیے نہیں ہیں
٭٭٭
سبب
آ گئی شامِ غم
آ گئی
پھر بتانے سے کیا فائدہ
ہو گیا دل کا خوں
ہو گیا
سچ ہے یہ
پھر فسانہ بنانے سے کیا فائدہ
کھو گئے ہم سفر
سب گئے اپنے گھر
راہ چلتوں کو اَب راہ میں روک کر
یہ کہانی سنانے سے کیا فائدہ
مر گئی کوئی شے
دفن کر کے اُسے
چل پڑی راہ پر
صرف میری تھی یہ
جیسے ہو یہ نہایت اہم اِک خبر
ایسے سُرخی لگانے سے کیا فائدہ
چوک میں شور اُٹھانے سے کیا فائدہ
اک تماشا بنانے سے کیا فائدہ
جن کی آنکھوں میں زندہ ہو اک خواب بھی
ایسے لوگوں کی بستی میں رہتی نہیں
بس یہی ہے سبب
جان لیں آپ سب
ایک مدّت سے کیوں شعر کہتی نہیں
کس لیے ہوں کسی کی سماعت پہ بار
روح نے کر لیا ہے سکوت اختیار
٭٭٭
برفباری کی رُت
یہیں تو کہیں پر
تمہارے لبوں نے
مرے سرد ہونٹوں سے برفیلے ذرّے چُنے تھے
اسی پیڑ کی چھال پر ہاتھ رکھ کر
ہم اک دن کھڑے تھے
یہیں برفباری میں ہم لڑکھڑاتے ہوئے جا رہے تھے
مہک تازہ بوسوں کی سُر میں سمائے
ہم آغوشیِ جسم و جاں کے نشے میں
گئی برفباری کی رُت
اور پگھلتی ہوئی برف بھی بہہ گئی سب
یہاں کچھ نہیں اب
کہ ہر شے نئی ہے
ہٹا کر ردا برف کی ، گھاس لہرا رہی ہے
ہری پتیوں کی گھنی ٹہنیوں میں
ہوا جب چلے تو
گئے موسموں سے گزرتی
ہماری ہنسی گونجتی ہے
٭٭٭
با کرہ
اُس کی اُبلی ہوئی آنکھوں میں ابھی تک ہے چمک
اور سیاہ بال ہیں بھیگے ہوئے خوں سے اب تک
تیرا فرمان یہ تھا اِس پہ کوئی داغ نہ ہو
سو یہ بے عیب اچھوتا بھی تھا اَن دیکھا بھی
بے کراں ریگ پہ سرگرم لہو جذب ہوا
دیکھ چادر پہ مری ثبت ہے اس کا دھبّہ
اے خداوند کبیر
اے جباّر
متکبر و جلیل
ہاں ترے نام پڑھے اور کیا ذبح اسے
اب کوئی پارۂ ابر آئے کہیں سایہ ہو
اے خداوندِ عظیم
یاد تسکیں ! کہ نفس آگ بنا جاتا ہے
قطرۂ آب ! کہ جاں لب پہ چلی آئی ہے
٭٭٭
آڈن کے نام
یہ سچ ہے مرے فلسفی
میرے شاعر
وہ وقت آگیا ہے
کہ دُنیا کے بوڑھے فریبی معلم کا جبّہ پکڑ کر
نئے لوگ کہہ دیں
کتابیں بدل دو
یہ جھوٹی کتابیں
جو ہم کو پڑھاتے چلے آ رہے ہیں
حقیقت کے رُخ سے
یہ معنیِ فرسودہ لفظوں کے پردے ہٹا دو
جلا دو
کتابیں جو ہم نے پڑھی ہیں
٭٭٭
کب تک
کب تک مجھ سے پیار کرو گے
کب تک؟
جب تک میرے رحم سے بچےّ کی تخلیق کا خون بہے گا
جب تک میرا رنگ ہے تازہ
جب تک میرا اَنگ تنا ہے
پر اس سے آگے بھی تو کچھ ہے
وہ سب کیا ہے
کسے پتہ ہے
وہیں کی ایک مسافر میں بھی
اَنجانے کا شوق بڑا ہے
پر تم میرے ساتھ نہ ہو گے تب تک
٭٭٭
مضراب
اے والی و ربِ کون و مکان
ڈوب گئی خاموشی میں مغرب کی اذاں
کیسا سکوت ہے ، والی و ربِ کون و مکان
الحمد للہ رب العالمین
سب تعریف خدا کی ہے جو ہے بہت عظیم
بارش سے نکھرا نکھرا شفاف فلک
نیلا نیلا حدِ نظر تک پھیلا ہے
سبزے کی مخمل سے ڈھکی ہے نرم زمیں
الحمد للہ رب العالمین
سب تعریف خدا کی ہے جو ہے بہت عظیم
کیسی سوچ نے میرے دل میں چُٹکی لی
کیسے دھیان سے میری آنکھیں بھر آئیں
سینے میں کیوں سناٹا سا چھا یا ہے
یہ میرے سجدے میں تذبذب کیسا ہے
لب پہ دُعائیں آ کے بنیں کیوں بے معنی
کوئی تو آئے کوئی تو آ کر دستک دے
کیسے کھولوں اپنے دل کے بند کواڑ
٭٭٭
قطرہ قطرہ
قطرہ قطرہ دل میں آنسو گرتے ہیں
اک آنسو اُس شخص کا، جو بے گانہ ہے
اک آنسو اُس نام کا ، جو ہم لے نہ سکے
اک آنسو اُس دُعا کو جو پوری نہ ہوئی
ایک فضول سی بات کہ جو بے سود کہی
(آنسو میرا خواب ، میں جس سے گھبراؤں
آنسو میری مراد، جسے میں بہلاؤں )
اک آنسو آس چہرے کا جو یاد رہے
آنکھوں کے رستے جو دل میں اُتر جائے
اک آنسو اُس ٹھہرے ٹھہرے لہجے کا
اک آنسو اُس جھوٹ کا جو اوروں سے کہا
پھیکی ہنسی سے قصہ کیسے ختم کیا
لمحہ لمحہ رات گزرتی جاتی ہے
قطرہ قطرہ دل میں آنسو گرتے ہیں
٭٭٭
وہ لڑکی
جن پر میرا دل دھڑکا تھا وہ سب باتیں دہراتے ہو
وہ جانے کیسی لڑکی ہے تم اب جس کے گھر جاتے ہو
مجھ سے کہتے تھے ، بن کاجل اچھی لگتی ہیں میری آنکھیں
تم اب جس کے گھر جاتے ہو، کیسی ہوں گی اُس کی آنکھیں
تنہائی میں چپکے چپکے نازک سپنے بنتی ہوں
تم اب جس کے گھر جاتے ہو کیا وہ مجھ سے اچھی ہو گی
مجھ کو تم سے کیا دلچسپی میں اک اک کو سمجھاتی ہوں
یاد بہت آتے ہو جب تم، یوں جھوٹوں دل بہلاتی ہوں
اک دن ایسا بھی آئے گا، مجھ کو پاس نہیں پاؤ گے
یاد آؤں گی یاد آؤں گی پچھتاؤ گے پچھتاؤ گے
لیکن میں دکھ درد سمیٹے ان گلیوں میں کھو جاؤں گی
لاکھ مجھے ڈھونڈو گے لیکن ہاتھ تمہارے کیا آؤں گی
٭٭٭
مفرور
کہیں تو ڈھونڈو سُراغ اُن کا
کہاں ہے دل اور دماغ اُن کا
ابھی تمہارے محاصروں میں گھرا ہے تاراج باغ اُن کا
وہیں کسی راہ پہ بچھی اُن کی چشمِ نم ہے
کٹا ہوا ہاتھ آج بھی بستۂ قلم ہے
گلوئے زیبِ رسن سے لپٹی ہیں ان کی بانہیں
جو گھر سے نکلے ، کہ جیسے دھرتی کے لال سے آہیں
جہاں تھے مسدود سارے رستے
وہیں پہ اُن کے قدم گڑے ہیں
تمہارے بوٹوں تلے وہیں اُن کے دل پڑے ہیں
بس ایک دل تھا ، بس ایک جاں تھی
نہ اتنی یکتا
کہ تلملانے لگیں سکنجے
مزاجِ حاکم ہو اتنا برہم
مگر کوئی صیدِ نو رسیدہ، شکارِ تازہ
تمہارے چنگل کی زد سے باہر نکل گیا کیا؟
بلند سر بے کسوں کی حرمت
یہی تو تھی جسم و جاں کی قیمت
متاعِ انمول ہاتھ آئی
لپٹ کے دامن کے ساتھ آئی
وہی گھٹی آہ چیخ بن کر ضمیرِ عالم ٹٹولتی ہے
بہت نمک خوار مضطرب ہیں کہ برملا راز کھولتی ہے
یہ غیرتِ خاک ہے
کہ جو میرے نطق میں ڈھل کے بولتی ہے
٭٭٭
کاغذ تیرا رنگ فق کیوں ہو گیا؟
” شاعر تیرے تیور دیکھ کر”
کاغذ تیرے رُخسار پر یہ داغ کیسے ہیں
"شاعر میں تیرے آنسو پی نہ سکا”
کاغذ! میں تجھ سے سچ کہوں۔۔۔۔۔۔
"شاعر میرا دل پھٹ جائے گا”
٭٭٭
اک پل ٹھٹکا میرے دوار
اک پل ٹھٹکا میرے دوار
بس ایسا ہے جیون۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے گھر میں پھیلی چُپ
جیسے دھول جمی شیشوں پر
جیسے راکھ کے اُڑتے ذرے
جیسے گیت کے بکھرے پنے
جیسے گلے میں چبھتے آنسو
جیسے اپنے دل کی دھڑکن
جیسے پوس کی دھوپ اکیلی
جیسے سونا سونا آنگن
جیسے تن میں چھپا سناٹا
جیسے پیاسا ماس برہن کا
جیسے جاتے دن کی اُداسی
جیسے آتی رین کا دھڑکا
جیسے نیر سے نین نہائے
جیسے اندر دھنش دھُندلائے
جیسے آس کمل ٹھٹھرائے
چھاتی سے بانہیں لپٹائے
دل میں بھینچے دل کا پیار
اک پل ٹھٹکا میرے دوار
بس ایسا ہے جیون
٭٭٭
اک لمحۂ عرفان
دوستو مجھ کو نہیں دعوائے پیغام بری
ہاں مگر کشف کے لمحات سے گُزری میں بھی
شب عجب سحر کے عالم میں مری آنکھ کھلی
کہ زباں پر تھی مرے موت کی سی بے مزگی
چادرِ سرد پہ اک نعش کی مانند تھی میں
اتنا بوجھل تھا لہو نبض بہت مدھم تھی
اس گھڑی سر میں نہ تھا دن کے خیالوں کا ہجوم
مری سانسوں میں مری ذات سمٹ آئی تھی
بعد از مرگ کے پیماں مرے دل میں گونجے
اور اس لمحے میں ان سب کی ضرورت نہ رہی
میں کہ وہ نقش ہوں ہر لمحہ مٹاتا ہے جسے
میرا انجام فنا ہے تو چلو یوں ہی سہی
سرسرساہٹ تھی فرشتوں کی نہ سرگوشی غیب
چند سوکھے ہوئے پتوں پہ ہوا ہنستی تھی
میں بھی اوہام کے اصنام خیالی پہ ہنسی
اور اسی نیند کے سیال میں پھر ڈوب گئی
دل میں اس لمحۂ عرفان کی تائید لئے
دوسرے روز ملاقات کی امید لئے
٭٭٭
کبھی دھنک سی اُترتی تھی ان نگاہوں میں
وہ شوخ رنگ بھی دھیمے پڑے ہواؤں میں
میں تیز گام چلی جا رہی تھی اس کی سمت
کچا ہے عجیب تھی اس دشت کی صداؤں میں
وہ اک صدا جو فریبِ صدا سے بھی کم ہے
نہ ڈوب جائے کہیں تُند رو ہواؤں میں
سکوتِ شام ہے اور میں ہوں گوش بر آواز
کہ ایک وعدے کا افسوں سا ہے فضاؤں میں
مری طرح یونہی گُم کردہ راہ چھوڑے گی
تم اپنی بانہہ نہ دینا ہوا کی بانہوں میں
نقوش پاؤ ں کے لکھتے ہیں "منزل نا یافت”
مرا سفر توہے تحریر میری راہوں میں
٭٭٭
جو مجھ میں چھپا میرا گلا گھونٹ رہا ہے
یا وہ کوئی ابلیس ہے یا میرا خدا ہے
جب سر میں نہیں عشق تو چہرے پہ چمک ہے
یہ نخلِ خزاں آئی تو شاداب ہوا ہے
کیا میرا زیاں ہے جو مقابل ترے آ جاؤں
یہ امر تو معلوم کہ تو مجھ سے بڑا ہے
میں بندہ و ناچار کہ سیراب نہ ہو پاؤں
اے ظاہر و مو جود مرا جسم دُعا ہے
ہاں اس کے تعاقب سے مرے دل میں ہے انکار
وہ شخص کسی کو نہ ملے گا نہ ملا ہے
کیوں نورِ ابد دل میں گزر کر نہیں پاتا
سینے کی سیاہی سے نیا حرف لکھا ہے
٭٭٭
شہر والو سنو
اس بریدہ زباں شہر میں قصہ گو خوش بیاں آئے ہیں
شہر والو سنو! اس سرائے میں ہم قصہ خواں آئے ہیں
شہرِ معصوم کے ساکنو! کچھ فسانے ہمارے سنو
دُور دیسوں میں ہوتا ہے کیا،ماجرے آج سارے سنو
وہ سیہ چشم،پستہ دہن،سیم تن، نازنیں عورتیں
وہ کشیدہ بدن، سبز خط ، خوش قطع، ماہ رُو نوجواں
اور وہ جادوگری ان کی تقدیر کی
وہ طلسمات، سرکار کی نوکری
اک انوکھا محل
جس گزرا تو ہر شاہزادے کا سر، خوک کا بن گیا
درس گاہوں میں وہ جوق در جوق جاتے ہوئے نوجواں
وہ تبسم فشاں ان کی پیشانیاں، ہائے کھوئی کہاں
آن کی آن میں پِیر اتنے ہوئے
ضعف سے ان کی مژگاں تلک جھڑ گئیں
جسم کی روح پر جھریاں پڑ گئیں
اور وہ شہزادیاں
کچی عمروں میں جو سیر کرنے گئیں
باغ کا وہ سماں
عشق کے پھول کھلتے ہوئے دُور تک ریشمی گھاس میں
وہ فسوں ساز خوشبو، بھٹکتی ہوئی ان کے انفاس میں
افسروں اور شاہوں کی آغوش میں
ان کے نچلے بدن کیسے پتھرا گئے
وہ عجب مملکت
جانور جس پہ مدت سے تھے حکمراں
گو رعایا کو اس کا پتہ تک نہ تھا
اور تھا بھی تو بے بس تھے ، لاچار تھے
ان میں جو اہل ِ دانش تھے، مدت ہوئی مر چکے تھے
جو زندہ تھے، بیمار تھے
کچھ عجب اہل ِ فن بھی تو تھے اس جگہ
سامری سِحر کے روگ میں مبتلا
خلعتِ شاہ تھی ان کی واحد دوا
بیشتر قابِ سلطان کے خوشہ چیں
گیت لکھتے رہے، گیت گاتے رہے
عہدِ زرّیں کے ڈنکے بجاتے رہے
کن وزیروں سے ان کی رقابت رہی
اور کام آئی کس کس کے جادو گری
شاہ کا جب کھٹولا اڑایا تو پھر
کیا ہوئی وہ پری
جمع کرتے تھے ہم
ایک رنگیں فسانہ، عجب داستاں
آستینوں میں دفتر نہاں لائے ہیں
شہر والو سنو
٭٭٭
اس کا دل تو اچھا دل تھا
ایک ہے ایسی لڑکی جس سے تم نے ہنس کر بات نہ کی
کبھی نہ دیکھا اس کی آنکھوں میں چمکے کیسے موتی
کبھی نہ سوچا تم نے ایسی باتیں وہ کیوں کہتی ہے
کبھی نہ سوچا ملتے ہو تو گھبرائی کیوں رہتی ہے
کیسے اس رخسار کی رنگت سرسوں جیسی زرد ہوئی
جب تک ملی نہیں تھی وہ تم سے وہ ایسی تنہا تو نہ تھی
مَل کر آنکھ بہانے سے وہ کب تک آنسو روکے گی
اس کے ہونٹوں کی لرزش بھی تم نے کبھی نہیں دیکھی
کس ایسی سنسان سڑک پر اسے اکیلا چھوڑ دیا
اس کا دل تو اچھا دل تھا جس کو تم نے توڑ دیا
وہ کچھ نادم، وہ کچھ حیراں، رستہ ڈھونڈھا کرتی تھی
ڈھلتی دھوپ میں اپنا بے کل سایہ دیکھ کے ہنستی تھی
آخر سورج ڈوب گیا اور راہ میں اس کو شام ہوئی
٭٭٭
فرہنگ نو
بناتے ہیں ہم ایک فرہنگ نو
جس میں ہر لفظ کے سامنے درج ہیں
وہ معانی جو ہم کو نہیں ہیں پسند
جرعۂ تلخ کی مثل پی جائیں گے
اصل کی اصل جو بس ہماری نہیں
سنگ سے پھوٹتا آب حیواں ہے یہ
جو ہمارے اشارے پہ جاری نہیں
ہم فسردہ چراغ اک خزاں دیدہ چراغ
زخم خوردہ اناؤں کے مارے ہوئے
اپنی توصیف حد سے گذارے ہوئے
اپنے ہر زخم کو ہر گھڑی چاٹتے
دبلیاں زہر کی چار سو بانٹتے
دوسروں کے لیے صرف نفرت لیے
خشک ہونٹوں پہ حرف حقارت لیے
جو اک خلا ہے جہاں اس کو بھرتے نہیں
چار آنکھیں حقیقت سے کرتے نہیں
کامراں ہو چکے ہیں نہ کل اور نہ آج
مرض پیارا ہو گر کیا کریں گے علاج
کیوں گریزاں رہے ہم سے روٹھی رہے
آنے والے زمانوں کی صد رنگ ضو
کیوں بنا لیں نہ ہم ایک فرہنگ نو
اس اندھیرے کنویں سے نکل آئیں گر
چند قدموں کا ہے اک کٹھن راستہ
بے کراں وسعتیں ڈھونڈتی ہیں ہمیں
روشنی ہے جہاں پو پھٹنے کا سماں
ایک شاداب وادی ہے چاروں طرف
سانس تازہ ہواؤں میں لیں گے وہاں
اپنے چہرے سے دھو دیں گے گرد ملال
وقت کا کھیل ہیں سب عروج و زوال
وقت کے آئینے میں جو تصویر ہے
اس میں شامل ہیں ہم خوش وضع با کمال
دل ربا خال و خد دیکھ پائیں گے ہم
اس گلستاں کے ہر ایک مہمان کے
رو برو ہوں گے ہم اصل امکان کے
جس کے آگے برابر ہیں میں اور تو
جس کی نظروں میں یکساں ہیں ہم اور وہ
بناتے ہیں ہم ایک فرہنگ نو
٭٭٭
ماخذ: مضراب شاعرات نمبر، اور دوسری ویب سائٹس سے
تدوین و ترتیب اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید