FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

انبیاءؑ کے قصے

 

 

                   نا معلوم

 

 

 


 

 

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

آدم علیہ الصلاۃ والسلام

 

آدم علیہ الصلاۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے۔ (ابن حبان)

جب اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کرنا چاہا تو فرشتوں اور ابلیس سے کہا: میں کھنکھناتے ہوئے سیاہ اور سڑے ہوئے گارے سے ایک انسان بنانے والا ہوں۔ جب میں اسے ٹھیک طرح سے بنا کر مناسب شکل دے دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا۔      (الحجر: ۲۹۔ ۲۸۔ و اعراف: ۱۲۔ ۱۱)

الغرض اللہ نے پوری زمین سے ایک مٹھی مٹی لی یہی وجہ ہے کہ آدم علیہ السلام کی اولاد میں کوئی گورا ہے، کوئی کالا ہے، کوئی سانولا ہے، کوئی نرم ہے، کوئی سخت ہے، ، کوئی ناپاک ہے اور کوئی پاک ہے۔    (ترمذی، ابو داؤد)

پھر اللہ تعالیٰ نے اس مٹی کے خلاصے سے گارا تیار کیا۔          (مؤمنون:۱۲)

جب گارا سیاہ اور بدبو دار ہو گیا اور اس سے کھن کھن کی آواز آنے لگی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے آدم علیہ السلام کا پتلا بنایا۔     (ص:۷۵۔ حجر: ۲۸)

پھر اللہ نے پتلے کو کچھ عرسہ کے لئے ویسے ہی چھوڑ دیا جب ابلیس نے اسے دیکھا تو اس کے گرد چکر لگانے لگا اور اس کو بغور دیکھتا رہا۔ اس نے دیکھا کہ پتلا اندر سے خالی ہے تو وہ سمجھ گیا کہ آدم اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکیں گے۔           (مسلم)

پھر اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے دن عصر کے بعد اس پتلے کو زندہ انسان بن جانے کا حکم دیا۔ حکم سنتے ہی وہ پتلا زندہ انسان بن گیا۔          (آل عمران: ۵۹۔ اور صحیح مسلم)

جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان کے جسم میں روح پھونکی تو انہیں چھینک آئی انہوں نے اللہ کے حکم سے الحمد للہ کہا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یرحمک اللہ۔ اللہ تم پر رحم کرے۔          (ابن حبان)

پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا جاؤ ان فرشتوں کو سلام کرو اور سنو وہ کیا کہتے ہیں جو کچھ وہ کہیں وہی تمہارا اور تمہاری ذریت کا سلام ہو گا۔ آدم علیہ السلام ان کے پاس گئے اور ان سے کہا: "السلام علیکم "فرشتوں نے جواب دیا "وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ”       (بخاری)

جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو تمام فرشتے اللہ کے حکم کے مطابق آدم کے سامنے سجدہ میں گر پڑے لیکن ابلیس نے تکبر کیا اور سجدہ کرنے سے صاف انکار کر دیا اور کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ (اعراف:۱۱۔ ۱۲)

 

 

 

 

ابلیس کی حقیقت

 

ابلیس جنات میں سے ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (الا ابلیس کان من الجن)مگر ابلیس جنات میں سے تھا۔        ( کھف: ۵۰)

دوسری بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ ابلیس آگ سے پیدا ہوا اور فرشتے نور سے پیدا ہوئے۔      (مسلم)

تیسری بات یہ ہے کہ ابلیس کی اولاد ہے (افتتخذونہ وذریتہ اولیاء من دونی)      (کھف: ۵۰)

جبکہ فرشتوں میں تناسل کا سلسلہ نہیں ہے۔

اسی طرح ابلیس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ تکبر کیا، جب کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کے ایسے مکرم بندہ ہیں کہ اللہ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے۔

اگر یہ کہا جائے کہ شیطان جب فرشتوں میں نہیں تو اسے سجدہ کرنے کا حکم کیوں دیا گیا؟ جواب یہ ہے :

کہ اسے اپنے علم، اجتہاد اور عبادت کی وجہ سے آسمان میں ایک بلند مقام حاصل تھا۔

پھر اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پیٹھ پر مسح کیا مسح کرتے ہی ہر روح جو ان کی اولاد میں قیامت تک پیدا ہونے والی تھی نکل پڑی۔ پھر ان روحوں کو آدم کے سامنے پیش کیا آدم علیہ السلام نے کہا : اے میرے رب! یہ کون لوگ ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تمہاری اولاد ہے۔ آدم علیہ السلام نے ان میں سے ایک شخص کو دیکھا ان کو اس کی آنکھوں کے درمیان جو نور تھا وہ بہت پسند آیا کہنے لگے اے میرے رب! یہ کون ہے ؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ تمہاری اولاد کی آخری جماعتوں میں ایک شخص ہے۔ جس کا نام داؤد ہے۔ آدم نے پوچھا: اے میرے رب! تو نے اس کی عمر کتنی رکھی ہے ؟ اللہ نے فرمایا:۶۰ سال آدم نے عرض کیا اے میرے رب میری عمر سے اس کی عمر میں ۴۰سال بڑھا دے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایسا کر دیا اور اس پر گواہ بھی ٹھہرا دیا۔

پھر جب آدم کی عمر مکمل ہو گئی تو اللہ نے ان کی طرف ملک الموت کو بھیجا تو آدم نے کہا کیا میرے عمر سے ابھی چالیس سال باقی نہیں ہیں ؟ملک الموت نے کہا: کیا آپ نے یہ چالیس سال اپنے بیٹے داؤد علیہ السلام کو ہبہ نہیں کیے تھے۔ آدم علیہ السلام نے انکار کر دیا لہٰذا آپ کی اولاد بھی ان کاری ہے اور آدم بھول گئے لہٰذا آپ کی اولاد بھی نسیان کا شکار ہو گئی۔              (ترمذی، نسائی، ابن حبان، حاکم)

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پشت سے نکلنے والی اولاد سے میدان عرفات میں عہد لیا۔

اللہ تعالیٰ نے جتنی مخلوق پیدا کرنی تھی ان کو آدم کے آگے چیونٹیوں کی طرح پھیلا دیا پھر ان سے بالمشافہ گفتگو فرمائی(الست برکم قالوابلی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ) (اعراف: ۱۷۲۔ ۱۷۳)

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم کی پسلی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا تاکہ آدم ان سے سکون حاصل کریں۔ (اعراف: ۱۸۹:بخاری)

پھر اللہ نے انہیں جنت میں رہنے کا حکم دیا۔           (اعراف: ۱۹)

آدم جمعہ کے دن جنت میں داخل ہوئے۔            (بخاری)

اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے فرمایا تم اپنی بیوی کے ساتھ اس جنت میں رہو اور جہاں سے چاہو خوب کھاؤ پیو لیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ تم نقصان اٹھاؤ گے۔ اور یہ ابلیس تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے۔ اس سے ہوشیار رہنا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکلوا دے۔ الغرض یہاں تم بڑے عیش و آرام سے رہو گے۔            (بقرہ: ۳۵۔ طہ:۱۷۔ ۱۸۔ ۱۹)

آدم اور ان کی زوجہ جنت میں بڑے آرام سے رہ رہے تھے لیکن ابلیس ان کے پیچھے لگا ہوا تھا اس نے آدم سے کہا اے آدم ! میں تمہیں ایسا درخت نہ بتاؤں کہ جس کو کھا کر تم کو ایسی سلطنت مل جائے جس میں کبھی ضعف نہ آنے پائے۔            (طہ:۱۲۰)

اور ایک دن ان سے کہنے لگا تمہارے رب نے جو تمہیں اس درخت سے منع کیا ہے صرف اس لئے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ اور ہمیشہ زندہ رہو اور پھر قسم کھا کر کہا میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔  اعراف: ۲۰۔ ۲۱)

الغرض اللہ تعالیٰ نے جو عہد آدم علیہ السلام سے لیا تھا آدم اسے بھول گئے اور ابلیس نے بالآخر ان کو ورغلا ہی دیا۔ (طہ:۱۱۵۔ اعراف:۲۲)

آدم علیہ السلام کی زوجہ مطہرہ سیدہ حوا نے پہلے درخت سے کھایا اور آدم علیہ السلام کو ترغیب دی۔ بالآخر دونوں نے درخت سے کھا لیا۔

اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر حوا نہ ہوتی تو کوئی عورت اپنے خاوند کے ساتھ خیانت نہ کرتی۔  (بخاری، مسلم)

درخت سے کھانا ہی تھا کہ ان کی شرم گاہیں ایک دوسرے کے سامنے ظاہر ہو گئیں۔ یہ دیکھ کر انہوں نے جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے شروع کر دیئے۔

اللہ تعالیٰ نے انہیں پکار کر فرمایا کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت کے کھانے سے منع نہیں کیا تھا۔ اور میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے اس سے ہوشیار رہنا۔          (اعراف: ۲۲)

اللہ تعالیٰ نے آدم کو طویل القامت پیدا کیا تھا سر میں بال گھنے تھے۔ جب انہوں نے اس درخت سے کھا لیا تو ان کا لباس علیحدہ ہو گیا۔ ان کا ستر نظر آنے لگا وہ بھاگے تو ایک درخت نے ان کے بال پکڑ لئے وہ اس سے جھگڑنے لگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم ! مجھ سے بھاگتے ہو۔ آدم نے عرض کیا: تجھ سے شرم آتی ہے۔ اس نافرمانی کی وجہ سے۔          (حاکم، ابن سعد)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم یہاں سے اتر کر نیچے چلے جاؤ اب تمہیں کچھ عرصے کے لئے زمین پر رہنا ہے اور وہیں فائدہ اٹھانا ہے۔ (بقرۃ: ۳۶)

پھر اللہ تعالیٰ نے جمعہ ہی کے دن انہیں زمین پر اترنے کا حکم دیا اور اسی دن وہ زمین پر اتار دئے گئے۔   (نسائی، ابو داؤد، ابن حبان)

 

 

 

مسائل

 

(۱)    اللہ تعالیٰ نے اس درخت کا تعین نہیں کیا جس سے آدم کو منع کیا گیا تھا، اور تعین میں ہمارے لئے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہمارے لئے ضرور بیان فرما دیتا۔

اور قرآن کی تفسیر کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کے مبہم مقامات کا تعین اس وقت تک نہ کرے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح صریح حدیث نہ مل جائے۔

(۲)    آدم علیہ السلام کتنی مدت جنت میں رہے اور ان کی اولاد جنت میں ہوئی یا نہیں ان کے متعلق صحیح معلومات ثابت نہیں ہیں۔

(۳)    آدم علیہ السلام کی اولاد میں شادی طریقہ۔

تاریخ میں نقل ہے کہ حوا کے ہاں ہر حمل سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتے تھے۔ ایک حمل سے پیدا ہونے والا لڑکا دوسرے حمل سے پیدا ہونے والی لڑکی سے شادی کرتا تھا۔

(۴)    اس جنت کی حقیقت جس میں آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی تھے اس جنت سے مراد وہ جنت ہے جو آسمان میں ہے۔

حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن جب لوگ جنت کے قریب ہو جائیں گے تو آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے کہیں گے : اے ہمارے باپ! ہمارے لئے جنت کو کھلوا دو، تو آدم علیہ السلام کہیں گے تم کو اس جنت سے صرف تمہارے باپ کی غلطی نے نکالا تھا۔ (مسلم)

آدم علیہ السلام کی توبہ

آدم علیہ السلام اپنی زوجہ کے ساتھ زمین پر آ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو مندرجہ ذیل دعائیہ کلمات سکھائے :”ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین”۔       (اعراف: ۲۳)

ان دونوں نے ان دعائیہ کلمات کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے روز ان کی توبہ قبول فرمائی۔              (بقرۃ:۲۷، اعراف:۲۳، النسائی)

جب آدم علیہ السلام زمین پر رہنے لگے تو پھر اللہ نے ان کے لئے عمدہ لباس کا انتظام فرمایا (اعراف :۲۶)

اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد کو عزت و کرامت سے سر فراز فرمایا۔ بحر و  بر میں ان کی نقل و حرکت کے لئے سواریاں مہیا کیں اور ان کے لئے پاکیزہ کھانوں کا انتظام فرمایا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر برتری عطا فرمائی۔ (اسراء:۷)

آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا واقعہ

آدم علیہ السلام کی اولاد بہت ہوئی ان میں سے دو نے ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی پیش کی اللہ نے ایک کی قربانی قبول فرمائی دوسرے کی نہیں، جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی اپنے بھائی سے کہنے لگا میں تجھے ضرور قتل کروں گا۔

بھائی نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ تو متقی لوگوں کی قربانی قبول فرماتا ہے، تم میں تقویٰ نہیں ہے۔ اس لئے تمہاری قربانی قبول نہیں ہوئی اس میں میرا کیا قصور ہے۔ بالآخر اس نے اپنے بھائی کو قتل کیا، قتل کرنے کے بعد سمجھ نہیں آیا کہ اپنے مقتول بھائی کی لاش کا کیا کرے، اللہ تعالیٰ نے ایک کوا بھیجا جو زمین پر اتر کر زمین کو کریدنے لگا قاتل بھائی نے کوے سے سیکھا کہ کس طرح اپنے بھائی کی لاش کو چھپائے۔ پھر اپنے اس فعل پر بہت نادم ہوا اور افسوس کیا۔             (مائدہ: ۲۸تا ۳۱)

قاتل کا نام قابیل تھا۔

مقتول کا نام ہابیل تھا۔

قابیل پہلا شخص ہے جس نے بنی آدم میں قتل کو جاری کیا۔     (بخاری)

آدم علیہ السلام بہت روئے اس قتل پر اور افسوس کیا۔

آدم علیہ السلام کی وفات

آدم علیہ السلام کی عمر اللہ تعالیٰ نے ہزار سال رکھی تھی۔ آدم نے چالیس سال اپنی عمر میں سے داؤد علیہ السلام کو ہبہ کیے تھے۔

جب آدم علیہ السلام کی عمر پوری ہو گئی تو ملک الموت ان کے پاس آیا آدم علیہ السلام نے کہا کیا میری عمر کے ابھی چالیس سال باقی نہیں ہیں ؟ ملک الموت نے کہا آپ نے چالیس سال اپنے بیٹے داؤد کو نہیں دئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا آدم نے انکار کیا ان کی اولاد بھی انکار کرتی ہے وہ بھول گئے ان کی اولاد بھی بھولتی ہے۔           (ترمذی)

بہر حال اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی عمر ایک ہزار سال کر دی اور داؤد علیہ السلام کی عمر ۱۰۰ سال کر دی۔ (ابو داؤد)

ہابیل کے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السللام کو ایک بیٹا دیا انہوں نے ان کا نام شیث علیہ السلام رکھا۔

اور اپنی وفات سے پہلے شیث علیہ السلام کو وصیت کی۔ جب فرشتوں نے آدم علیہ السلام کی روح قبض کر لی۔ فرشتے اپنے ساتھ کفن اور خوشبو لے کر آئے تھے۔ پھر فرشتوں نے انہیں غسل دیا، کفن پہنایا، اور نماز جنازہ پڑھی، قبر کھودی اور لحد میں دفن کیا۔ پھر کہا اے بنی آدم یہ ہے تکفین و تدفین وغیرہ کا طریقہ۔      (حاکم، طبرانی کبیر)

آدم علیہ السلام کا انتقال جمعہ کے روز ہوا۔    (ابن خزیمہ)

دفن کی جگہ نا معلوم ہے۔

آدم علیہ السلام کے انتقال کے بعد سیدہ حوا کا انتقال ہو گیا۔

آدم علیہ السلام کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔          (بخاری)

آدم علیہ السلام کی نافرمانی

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی نافرمانی کی پس بہک گئے۔          (طہ: ۲۱)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے بحث کی کہ آپ نے لوگوں کو اپنی غلطی۔ گناہ۔ کے سبب سے جنت سے نکلوایا اور انہیں بد بخت بنایا۔

آدم علیہ السلام نے فرمایا اے موسیٰ علیہ السلام !اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسالت اور کلام کرنے کے لئے چنا اور آپ مجھے ایک ایسے معاملے میں ملامت کر رہے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ نے میری تخلیق سے قبل لکھ دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا آدم علیہ السلام دلیل کے ذریعہ موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے۔    (بخاری۔ مسلم)

حدیث شفاعت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :کہ لوگ محشر کے دن آدم علیہ السلام کے پاس آ کر کہیں گے۔ اے آدم ! آپ ابو البشر ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا ہے اور آپ میں روح پھونکی اور فرشتوں کو آپ کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیا اور جنت کو آپ کا ٹھکانا بنایا کیا آپ اپنے رب کے پاس ہمارے سفارشی نہیں بنیں گے۔

آدم علیہ السلام ارشاد فرمائیں گے آج میرے رب کو اس قدر شدید غصہ آیا ہوا ہے کہ اتنا غصہ اس سے پہلے کبھی نہیں آیا اور نہ ہی بعد میں آئے گا۔ اس نے مجھے درخت کے کھانے سے منع کیا تھا۔ میں نے نا فرمانی کی اس لئے میرے علاوہ نوح علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، مجھے تو آج اپنی جان کی فکر ہے۔          (بخاری )

 

 

 

ادریس علیہ الصلاۃ السلام

 

ادریس علیہ السلام صدیق تھے نبی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بلند مرتبہ دیا تھا۔      (مریم:۵۷)

معراج میں چوتھے آسمان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ادریس کے پاس گذرے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو سلام کیا، انہوں نے سلام کا جواب دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جبریل سے پوچھا یہ کون ہیں ؟ جبریل نے کہا یہ ادریس ہیں۔        (بخاری)

"ورفعنٰا مکانا علیا”        (مریم: ۵۷)اس آیت سے بعض علماء نے کہا ہے۔ جیسے مجاہد وغیرہ کہ ادریس چوتھے آسمان پر اٹھا لئے گئے اور وہاں ان کو موت آئی۔     (تفسیر طبری)(لیکن یہ روایت ضعیف ہے )

 

 

 

نوح علیہ الصلاۃ والسلام

 

نوح علیہ السلام، آدم علیہ السلام کے دس قرون بعد مبعوث کئے گئے۔    (ابن حبان، مستدرک حاکم، طبرانی کبیر)

آدم علیہ السلام اور نوح علیہ السلام کے درمیان دس قرون تھے جو مکمل توحید اور اسلام پر تھے۔  (مستدرک حاکم)

قرن سے مراد سو سال ہے۔ ٹوٹل ایک ہزار سال بنیں گے۔ الغرض :جب بنی آدم میں کفر و شرک کا سلسلہ شروع ہوا۔ اور لوگوں نے بتوں کی عبادت شروع کی اور گمراہی کی طرف چل پڑے تو اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔

اس کفر و گمراہی کا سبب یہ تھا کہ:ود، سواع، یغوث، یعوق، اور نسر۔ نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگ تھے جب ان کا انتقال ہو گیا تو شیطان نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ ان کے بت بنا لیں اور ان کے وہی نام رکھیں، جو نام زندگی میں تھے اور ان کو اپنی مجلسوں میں نصب کر لیا کریں قوم نے ایسا ہی کیا۔ ان لوگوں نے ان بتوں کی پوجا (عبادت) نہیں کی لیکن جب وہ مر گئے اور علم مٹ گیا تو آئندہ نسلوں نے ان بتوں کی پوجا(عبادت) شروع کر دی۔                (بخاری)

الغرض جب زمین پر شرک اور فساد عام ہوا اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو مبعوث کیا جب سے نوح علیہ السلام مقام رسالت پر فائز ہوئے اپنی قوم کو تبلیغ کرنے لگے۔ قوم نے نوح علیہ السلام کی تکذیب کی لیکن نوح علیہ السلام تبلیغ کرتے رہے علی الاعلان بھی اسلام کی دعوت دی، تنہائی میں بھی ہر ایک کو سمجھایا۔          (نوح ۵تا ۷، ۸، ۹)

نوح علیہ السلام اپنی قوم کو ۹۵۰ سال تک دعوت دیتے رہے لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔  (عنکبوت:۱۴)

آخر نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے فریاد کی کہ میری قوم نے میری نافرمانی کی اور گمراہ کرنے والوں کی بات مانتے رہے اور میرے خلاف طرح طرح کی سازشیں کرتے رہے۔        (نوح: ۲۱۔ ۲۲)

اے میرے رب! میں مغلوب ہوں میری مدد فرما ان کافروں سے بدلہ لے۔     (اقتربت الساعۃ:۱۰)

کشتی کا بیان

اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ تمہاری قوم میں سے جو قلیل لوگ ایمان لے آئے بس وہ مؤمن ہیں اب مزید کوئی ایمان نہیں لائے گا۔ اب تم یہ کرو کہ ہمارے حکم سے ہمارے نگرانی میں ایک کشتی بناؤ۔ (ھود:۳۶)

الغرض نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں کشتی بنائی۔

طوفان

جب اللہ تعالیٰ کے عذاب کا حکم آ پہنچا تو تندور سے پانی نے جوش مارنا شروع کیا۔   (ھود: ۴۰)

اور آسمان سے تیز بارش شروع ہو گئی۔       (اقتربت الساعۃ:۱۱)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے نوح!اس کشتی میں تمام جانوروں کا ایک ایک جوڑا اور اپنے اہل و عیال کو سوار کر لو اور جو لوگ ایمان لے آئے انہیں بھی سوار کر لو اور یہ دعا پڑھنا”بسم اللہ مجرھا ومرسھا”         (مؤمنون:۲۸۔ ۲۹)

کشتی پہاڑ جیسی لہروں میں نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو لے کر چلی جا رہی تھی اور کافر ڈوبتے جا رہے تھے۔

نوح علیہ السلام کا بیٹا

نوح علیہ السلام کا ایک لڑکا جو ایمان نہیں لایا تھا کشتی میں سوار نہیں ہوا۔ نوح علیہ السلام نے آخری مرتبہ پھر ان کو کہا اے میرے بیٹے !ایمان لے آؤ اور ہمارے ساتھ سوار ہو جا ؤ اور کافروں کا ساتھ چھوڑ دو تاکہ غرق ہونے سے بچ جاؤ، لڑکے نے جواب دیا میں پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا وہ مجھے طوفان سے اور غرق ہونے سے بچا لے گا۔ نوح علیہ السلام نے فرمایا آج اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں یہ گفتگو جاری تھی کہ ایک موج آئی اور لڑکا غرق ہو گیا۔ نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا وعدہ یاد آیا کہنے لگے اے میرے رب!میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے۔ اور تو نے وعدہ کیا تھا کہ میرے اہل کو بچائے گا۔ ( تو پھر تو نے اسے کیوں ڈبو دیا؟ )اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے نوح !وہ تمہارے اہل میں سے نہیں ہے اس لئے کہ اس کے عمل اچھے نہیں ہیں۔     (ھود: ۴۵۔ ۴۶)

آخر کافروں کی مکمل تباہی ہوئی اور اللہ تعالیٰ نوح علیہ السلام کو اور ان کے اہل و عیال کو سخت تکلیف سے نجات دی۔ (انبیاء:۷۶، ۷۷)

جب تمام کافر ڈوب گئے تو اللہ تعالیٰ نے زمین سے فرمایا اے زمین!اپنے پانی کو جذب کر لے اور آسمان سے کہا اے آسمان رک جا۔

الغرض پانی ختم ہو گیا اور کشتی جو دی(پہاڑ )پر جا کر کھڑی ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے نوح!ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ اترو، ہماری برکتیں تمہارے اور جو لوگ تمہارے ساتھ سوار ہیں سب کو شامل حال ہیں۔     (ھود:۴۴، ۴۸)

نوح علیہ الصلاۃ السلام کی اولاد

طوفان سے پہلے نوح علیہ السلام کا ایک بیٹا عابر فوت ہوا۔ دوسرا بیٹا کنعان غرق ہو گیا۔       (تفسیر طبری)

اور تین لڑکے تھے جو طوفان کے بعد زندہ رہے۔ سام، یافث، حام، اہل عرب سام کی اولاد ہیں۔ رومی یافث کی اولاد ہیں۔ اور حبشی حام کی اولاد ہیں۔        (طبرانی کبیر)

نوٹ: نوح علیہ السلام کے سوا مؤمنین میں سے کسی سے نسل نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : اور ہم نے اس کی اولاد کو باقی رہنے والی بنایا۔            (صفات:۷۷)

تو اس زمین پر آج تک تمام لوگوں۔ طوفان کے بعد۔ کی نسبت نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں سام، یافث، حام کی طرف کی جاتی ہے۔

نوح علیہ الصلاۃ السلام کی وفات

جب نوح علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا میں تمہیں دو باتوں کا حکم دیتا ہوں اور دو باتوں سے منع کرتا ہوں میں تمہیں شرک اور تکبر سے منع کرتا ہوں اور میں تمہیں "لا الہ الا اللہ "کا حکم دیتا ہوں اس لئے کہ اگر ترازو کے ایک پلے میں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے رکھ دیا جائے اور دوسرے پلے میں "لا الہ الا اللہ "رکھ دیا جائے تو دوسرا پلہ جھک جائے گا۔ اور میں تمہیں سبحان اللہ و بحمدہ کا حکم دیتا ہوں اس لئے کہ وہ ہر چیز کی صلاح ہے اور اسی کے ذریعہ ہر چیز کو رزق مہیا کیا جاتا ہے۔ (مسند احمد)

نوٹ: نوح علیہ السلام کے انتقال کی جگہ اور دفن کی جگہ کے متعلق کوئی صحیح معلومات میسر نہیں ہے۔

 

 

 

ہود علیہ الصلاۃ والسلام

 

ہود علیہ السلام کو ان کی قوم عاد کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا۔    (ھود: ۵)

قوم عاد کو "ارم "بھی کہتے ہیں۔ ان کے خیموں یا مکانات میں بہت ستون تھے جن کی وجہ سے یہ لوگ ستون والے کہلاتے تھے۔   (شعراء: ۱۳۰، احقاف: ۲۱، الفجر:۸)

یہ بڑے طاقت ور اور قد آور تھے ان جیسی قوم دنیا میں پیدا نہیں کی گئی یہ لوگ مقام احقاف میں آباد تھے۔

احقاف یمن میں ایک پہاڑ ہے جو عمان اور حضر موت کے درمیان ہے۔ سمندر کے کنارے پر، اور یہ قوم عاد پہلے لوگ تھے جنہوں نے شرک اور بتوں کی عبادت شروع کی طوفان کے بعد اللہ نے ان میں ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔

ہود علیہ السلام نے دعوت و تبلیغ شروع کی اور قوم سے کہا اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اللہ کی عبادت کرو اس کے علاوہ تمہارا کوئی الہ نہیں شرک اور تمام گناہوں سے توبہ کرو قوم نے انکار کیا اور کہا جن ہستیوں کی عبادت ہمارے آباء و اجداد کرتے تھے ان کو ہم نہیں چھوڑیں گے اگر آپ سچے ہیں تو عذاب لے آئیں۔ (اعراف:۷۰، ۷۱)

بالآخر ہود علیہ السلام نے فرمایا اگر تم میری نصیحت سے منہ موڑتے ہو تو میری ذمہ داری ختم ہو گئی اب تم اپنے فعل کے خود ذمہ دار ہو دیکھو خبردار ہو جاؤ عنقریب تم پر اللہ کا عذاب نا زل ہو گا۔       (ھود: ۵۷)

اللہ کا عذاب

الغرض قوم عاد اپنے رسول کو مسلسل جھٹلاتے رہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنا ہلاکت خیز عذاب بھیج دیا اور وہ عذاب بڑا سخت اور درد ناک تھا۔     (شعراء:۱۳۹، ھود:۵۸)

عذاب کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ ایک بادل آتا ہوا دکھائی دیا لوگ کہنے لگے یہ تو بادل ہے ہم پر بارش ہو گی۔ ہود علیہ السلام نے کہا یہ تو وہ عذاب ہے جس کی تم جلدی کر رہے تھے یہ تو آندھی ہے جس میں درد ناک عذاب ہے، اور یہ آندھی مغرب کی طرف سے آئی اور ان پر چھا گئی۔                 (احقاف:۲۴)

سخت آندھی چلنی شروع ہو گئی اور مسلسل سات راتیں اور آٹھ دن تک چلتی رہی۔ آندھی نے ہر چیز کو تباہ کر کے رکھ دیا ہر چیز ریزہ ریزہ ہو گئی۔      (الحاقۃ: ۶۔ ۷، الذاریات:۴۱۔ ۴۲، احقاف:۲۵)

کافر لوگ سب ہلاک ہو گئے ان کا نام و نشان مٹ گیا۔

اللہ تعالیٰ نے ہود علیہ السلام کو اور ایمان والوں کو عذاب سے بچا لیا۔              (ھود:۵۸)

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب آسمان پر بادل چھا جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا رنگ متغیر ہو جاتا کبھی گھر میں داخل ہوتے کبھی باہر نکلتے جب بارش ہو جاتی تو خوش ہو جاتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب اس بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اے عائشہ! شاید کہیں ایسا نہ ہو جائے جیسا کہ قوم عاد نے بادل دیکھ کر کہا تھا یہ بادل ہم پر بارش برسائے گا۔ لیکن اس میں عذاب تھا۔         (مسلم، ترمذی، بخاری)

 

 

 

صالح علیہ الصلاۃ والسلام

 

اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کے بعد ثمود کو زمین میں خلیفہ بنایا تھا۔     (اعراف:۷۴)

قوم ثمود مقام حجر میں آباد تھی۔                             (حجر: ۸۰)

حجر کی بستی اس راستہ پر واقع تھی جو راستہ مدینہ منورہ سے تبوک جاتا ہے۔         (بخاری)

یہ لوگ وادی میں، پہاڑوں کو تراش تراش کر مضبوط مکان بناتے تھے تاکہ خطرہ کے وقت وہ اس میں امن سے رہ سکیں۔    (حجر:۸۲، فجر:۹)

اللہ تعالیٰ نے صالح علیہ السلام کو قوم ثمود کی طرف رسول بنا کر بھیجا تھا۔ صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت الی اللہ دی لیکن ان کی قوم نے انہیں جھٹلایا اللہ تعالیٰ نے صالح علیہ السلام سے فرمایا آپ گھبرائیں نہیں چند ہی روز میں انہیں معلوم ہو جائے گا کہ کون جھوٹا ہے میں ان کی آزمائش کے لئے ایک اونٹنی بھیجنے والا ہوں۔ لہٰذا آپ ان کے انجام کا انتظار کریں اور صبر سے کام لیں۔ (اقتربت الساعۃ:۲۶۔ ۲۷)

معجزہ

قوم نے معجزہ کا مطالبہ کیا صالح علیہ السلام سے۔ بعض روایات میں ہے کہ قوم صالح نے ایک پتھر کی طرف اشارہ کر کے کہا آپ اس پتھر سے ایک اونٹنی نکالیں اونٹنی نکلی تو قوم کے کچھ لوگ ایمان لے آئے۔ بعض روایات میں ہے کہ قوم نے صالح علیہ السلام سے کہا اگر آپ سچے ہیں تو کوئی نشانی لائیے۔

صالح علیہ السلام ان کو ایک پہاڑ کی طرف لے گئے، پہاڑ ہلنے لگا پھر وہ پھٹ گیا اور اس سے ایک اونٹی نکلی۔ (ہدایۃ:طبری)

اللہ تعالیٰ نے بطور نشانی ایک اونٹنی بھیج دی، اونٹنی کا ظہور ایک معجزہ تھا اور یہ معجزہ اس قوم کے لئے ایک قسم کا انتباہ تھا اور قوم کو ڈرایا گیا کہ اگر اس کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی کی گئی تو عذاب آنے میں دیر نہیں لگے گی۔  (اسراء:۵۹)

صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ یہ اونٹنی میری صداقت کی ایک کھلی نشانی ہے۔ اس کو چھوڑ دو تاکہ یہ اللہ کی زمین میں جہاں چاہے کھائے اس کے اور تمہارے درمیان پانی پینے کی باری مقر ر کر دی گئی ہے۔

ایک دن یہ پانی پئے گی اور ایک تمہارے جانور پئیں گے۔ اس کی باری کے دن تم اپنے جانوروں کو پانی نہ پلانا۔          (اسراء:۵۹، ھود:۶۴، شعراء:۱۵۵)

یہ باری اس لئے کہ اونٹنی ساراپانی ختم کر دیتی۔

اس معجزہ کے آنے کے باوجود قوم کی سرکشی میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی۔ اور اونٹنی ان کے لئے ایک مصیبت بن گئی۔ لہٰذا قوم کے لوگوں نے اپنے ایک ساتھی کو۔ جو بڑا بدبخت تھا۔ اونٹنی کے قتل پر مشورہ اور ترغیب دی۔

صالح علیہ السلام نے قوم کے لوگوں کو بہت سمجھایا کہ اونٹنی کو قتل نہ کرو۔ لیکن یہ لوگ کب ماننے والے تھے۔ بالآخر اس بدبخت نے اونٹنی پر حملہ کر کے قتل کر دیا اور قوم کے لوگ بھی اس کام میں شریک تھے۔

صالح علیہ السلام نے قوم سے فرمایا: اب تم تین دن اپنے گھروں میں رہ لو، تین دن کے بعد عذاب نازل ہو گا یہ وعدہ سچا ہے۔    (ھود:۶۵، اقتربت الساعۃ)

اس کے بعد قوم کے لوگوں نے صالح علیہ السلام کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔

یہ اس طرح کہ قوم صالح میں نو آدمی بڑے شریر تھے ان کا کام تو بس زمین پر فساد برپا کرنا تھا۔ یہ نو آدمی اکھٹے ہو کر آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے۔ کہ ہم عہد کریں کہ ہم راتوں رات جا کر صالح اور ان کے اہل و عیال کو قتل کر ڈالیں گے اور ان کے وارثوں سے کہہ دیں گے کہ صالح کے گھر والوں کی ہلاکت کے وقت ہم موجود نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تدبیر کو ناکام کر دیا اور انہیں خبر بھی نہیں ہو ئی کہ ان کی تدبیریں کس طرح خاک میں مل گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے عذاب کے آنے سے پہلے ہی صالح کو اور مؤمنین کو اس عذاب سے نجات دی اور کافر قوم سے بھی نجات دی۔        (نمل :۵۳، ھود:۶۶)

صالح علیہ السلام جب وہاں سے رخصت ہونے لگے تو اپنی قوم کو ایک مرتبہ پھر مخاطب کیا اور فرمایا اے میری قوم میں نے تو اپنے رب کے احکام تمہیں پہنچا دئے میں نے تمہاری خیر خواہی میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لیکن تم خیر خواہی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔                   (اعراف:۷۹)

الغرض تین دن کے بعد عذاب الٰہی نازل ہونا شروع ہوا۔              (اقتربت الساعۃ:۳۱)

اب قوم صالح اپنی حرکت پر نادم ہوئے لیکن اب کیا ہو سکتا تھا عذاب نے ان کو گھیر لیا۔ (شعراء:۱۵۷۔ ۱۵۸)

اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک زور دار چیخ کا عذاب نازل فرمایا۔                (الحاقۃ:۵)

اتنی زور دار چیخ تھی کہ وہ کھڑے نہ رہ سکے آناً فاناً زمین پر گر گئے اور ذلت کے عذاب میں گرفتار ہو گئے۔ (ھود:۶۷، الذاریات:۴۴۔ ۴۵)

ان کے محل اور قلعے سب ویران ہو گئے۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (جب حجر سے گذرے )، معجزے نہ طلب کرنا۔ صالح علیہ السلام کی قوم نے معجزہ طلب کیا تھا نتیجہ کیا نکلا۔     (ہدایہ و نہایہ)

 

 

 

ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام

 

ابراہیم علیہ السلام "کلدانیین” کی بستی میں پیدا ہوئے، اور یہ بستی”بابل” کی حدود میں واقع تھی۔

پھر یہاں سے رحلت کر کے "بیت المقدس” کی طرف اور "کنعاینین” کی بستی میں رہائش اختیار کی۔        (بدایہ ونہایہ)

ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر تھا۔     (انعام: ۷۴)

ابراہیم علیہ السلام کے والد اور قوم ستاروں اور بتوں کی عبادت کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔          (مریم:۴۱)

ابراہیم علیہ السلام نے نبی ہونے کے بعد دعوت و تبلیغ شروع کی۔ اور اپنی قوم کو سمجھانے کے لئے ہر قسم کی محنت کی لیکن قوم انکار کرتی رہی اور ان کو جھٹلاتی رہی۔

ابراہیم علیہ السلام نے ستاروں کی عبادت کرنے والوں کے ساتھ مناظرہ کیا جو قرآن نے ذکر کیا۔ (سورہ انعام:۷۵تا۸۳)

اسی طرح ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کی عبادت کرنے والوں کے ساتھ بھی مناظرہ کیا جو بابل کے مقامی لوگ تھے۔ اور سارے بتوں کو توڑ دیا۔    (صافات: ۸۳تا۹۸، انبیاء:۵۱تا۷۰)

ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے کا منصوبہ بنا لیا اور لکڑیاں جمع کرنا شروع کیں اور بہت لکڑیاں جمع کیں اور ایک بڑے میدان میں رکھ کر آگ لگا دی۔

جب آگ بھڑکنے لگی اس کے شعلے بلند ہوئے اور انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ پاؤں باندھ کر منجنیق میں ڈال کر ان کو آگ میں پھینک دیا تو ابراہیم علیہ السلام یہ دعا پڑھی۔ حسبنا اللہ ونعم الوکیل۔ (ہدایۃ ونہایۃ)

الغرض ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا گیا تو ابراہیم علیہ السلام نے کہا”حسبنا اللہ ونعم الوکیل”اور کہا اے اللہ تو آسمان میں واحد ہے میں زمین میں تیری عبادت کرنے والا، واحد بندہ ہوں۔    (تفسیر ابن کثیر)

سارے جانور آگ بجھا رہے تھے صرف چھپکلی پھونک مار کر آگ کو دہکا رہی تھی۔          (بخاری، ابن ماجہ)

حدیث میں ہے عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے گھر میں ایک لکڑی رکھی ہوئی تھی جب اس سے پوچھا گیا تو کہنے لگیں ان چھپکلیوں کو مارنے کے لئے رکھی ہوئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں فرمایا کہ جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو زمین کے تمام جانور آگ کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے تھے سوائے چھپکلی کے یہ آگ کو پھونک مار رہی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں اس کو قتل کرنے کا حکم دیا۔             (احمد)

اللہ تعالیٰ نے آگ سے فرمایا اے آگ ابراہیم علیہ السلام پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا، آگ ٹھنڈی ہو گئی اور قوم کی تدبیر ناکام ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے بچا لیا۔        (انبیاء:۶۹۔ ۷۰، عنکبوت:۲۴)

نوٹ :کئی دن ابراہیم علیہ السلام آگ میں رہے۔

اسی دوران لوط علیہ السلام ایمان لائے اور ابراہیم علیہ السلام کی رسالت کی تصدیق کی۔ (عنکبوت:۲۶)

لوط بن ہاران بن آزر۔ یعنی لوط ابراہیم علیہ السلام کے بھائی کے بیٹے ہیں۔

تبلیغ کے آخری مراحل میں ابراہیم علیہ السلام اور بادشاہ "بابل” کے درمیان ان کے محل میں مناظرہ ہواجس کو قران نے (بقرہ:۲۵۸) میں ذکر کیا ہے۔ بادشاہ کا نام نمرود تھا جو "بابل” کا حکمران تھا۔

ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت

ابراہیم اور ان کی بیوی "سارہ”جو ابراہیم علیہ السلام کے چاچا کی بیٹی تھیں اور لوط علیہ السلام نے ملک شام کی طرف ہجرت کی اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (کو ان کی زوجہ اور لوط کے ساتھ )اس ملک میں پہنچا دیا جس میں اللہ تعالیٰ نے پوری عالم کے لئے برکتیں رکھی تھیں۔    (عنکبوت:۲۶، انبیاء:۷۱)

جب ابراہیم علیہ السلام ایک آبادی پر پہنچے جس کا ایک ظالم حکمران تھا، اسے بتایا گیا کہ ابراہیم یہاں ایک خوبصورت عورت کے ساتھ آئے ہیں۔ اس بادشاہ نے آپ کے پاس ایک آدمی بھیجا اس نے دریافت کیا کہ اے ابراہیم یہ عورت تمہارے ساتھ کون ہے ؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا میری بہن ہے۔ پھر ابراہیم لوٹ کر سارہ کے پاس گئے اور کہا میری بات کو جھوٹا نہ کرنا میں نے ان لوگوں کو بتایا ہے کہ تم میری بہن ہو اللہ کی قسم اس زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مؤمن نہیں    (ص:۱۹)

اور اس کو بھیجا بادشاہ کی طرف، جب بادشاہ نے ان کی خوبصورتی کو دیکھا تو ان کی طرف برائی کے ارادے سے ہاتھ بڑھایا۔ تو بادشاہ کا ہاتھ جام ہو گیا تو کہنے لگا میرے لئے اللہ سے دعا کر میں تجھے کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ تو "سارہ” نے دعا کی اللہ نے اس کو چھوڑ دیا اسی طرح تین مرتبہ بادشاہ نے ہاتھ بڑھایا اور جام ہو گیا۔

پھر بادشاہ نے اپنے محافظ کو بلایا اور کہنے لگا تم میرے پاس کوئی انسان نہیں لائے ہو بلکہ ایک شیطان کو لائے ہو۔ پھر بادشاہ نے "سارہ”کو چھوڑ دیا اور بطور خادم ان کے لئے ہاجرہ کو پیش کیا۔ "سارہ” ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئی اس حالت میں کہ ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ تو ہاتھ سے اشارہ کیا کہ کیا خبر ہے ؟

تو سارہ نے کہا اللہ نے کافر کی تدبیر کو رد کر دیا اور بطور خادم ہاجرہ کو دیا۔           (بخاری، مسلم)

پھر ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی اور ہاجرہ اور لوط کے ساتھ واپس اپنے ملک”بابل” آئے۔ اور بہت سارا مال بھی ساتھ لے کر آئے۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کے حکم پر لوط علیہ السلام کسی اور ملک کی طرف ہجرت کر گئے جس کا نام ہے "غورزغر”۔

اسماعیل علیہ الصلاۃ والسلام کی پیدائش

ابراہیم علیہ السلام کی بیوی”سارہ” نے ہاجرہ کو ابراہیم علیہ السلام کے لئے ہبہ کر دیا ان سے اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے۔

تاریخ میں ہے کہ جب ہاجرہ کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو سارہ کو غیرت آئی انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کو کہا ان کو اور ان کے لڑکے کو میرے پاس سے نکال دو۔ ابراہیم علیہ السلام نے لڑکے کو اور ان کی والدہ کو ساتھ لے جا کر مسجد الحرام کے قریب آباد کر دیا۔ اس وقت مکہ میں کوئی نہیں رہتا تھا۔ اور نہ ہی وہاں پانی تھا۔

ابراہیم علیہ السلام نے ہاجرہ کو کچھ کھجوریں اور تھوڑا سا پانی دے دیا اور وہاں سے چلے گئے۔ ہاجرہ نے کہا اے ابراہیم!آپ ہمیں اس وادی جس میں نہ کوئی انسان ہے اور نہ ہی کوئی اور شے۔ میں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں ؟ وہ یہ بات مسلسل کہتی رہیں مگر ابراہیم علیہ السلام نے ان کی طرف پلٹ کر بھی نہ دیکھا تو ہاجرہ نے پوچھا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے تجھے یہ حکم دیا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا جی ہاں۔

تو بی بی ہاجرہ نے کہا کہ پھر اللہ تعالیٰ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ ابراہیم علیہ السلام وہاں سے چلتے جا رہے تھے ایک پہاڑ پر آئے جہاں سے ہاجرہ علیہ السلام پر نظر نہ پڑ سکے اور قبلہ کی طرف رخ کر کے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی۔ (سورہ ابراہیم:۳۷)

ادھر ہاجرہ اسماعیل علیہ السلام کو دودھ اور پانی پلاتی رہیں یہاں تک کہ پانی ختم ہو گیا پھر دونوں ماں بیٹا پیاسے رہ گئے۔ ہاجرہ اسماعیل علیہ السلام کی طرف دیکھتی کہ وہ پیاس کی وجہ سے منہ کھولا ہوا تھا یہ صورت حال ہاجرہ کی برداشت سے باہر ہو گئی تو وہ صفا ایک چھوٹے سے پہاڑ پر (دیکھتیں )کھڑی ہو گئیں اور نیچے وادی میں دیکھتیں کہ شاید کوئی انسان نظر آ جائے جب کوئی نظر نہ آتا تو صفا سے نیچے اتر کر دوسری طرف مروہ کی پہاڑ پر چڑھتیں شاید کوئی انسان نظر آ جائے۔ الغرض انہوں نے صفا اور مروہ پر سات چکر لگائے۔

ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اس لئے لوگ صفا مروہ کی سعی کرتے ہیں۔ جب ہاجرہ آخری مرتبہ مروہ پر آئیں تو انہوں نے ایک آواز سنی اور پھر توجہ سے سنی تو انہوں نے زمزم کی جگہ پر ایک فرشتہ دیکھا جس نے اپنے پر مارکر زمین سے پانی نکالا تو ہاجرہ نے اس کے گرد آڑ لگائی اور پانی کو اپنے ہاتھوں سے روکنے لگیں۔

ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ ہاجرہ پر رحم فرمائے اگر وہ زمزم کو اپنی حالت پر رہنے دیتیں یا اس کے گرد آڑ نہ لگاتیں تو زمزم قیامت تک ایک جاری نہر کی صورت میں بہتا رہتا۔ پس ہاجرہ نے پانی پیا اور اپنے بیٹے کو دودھ پلایا۔

فرشتے نے ہاجرہ سے کہا کہ سازوسامان کی فکر نہ کرنا یہاں اللہ کا گھر یہ بچہ اور اس کے والد تعمیر کریں گا۔ ہاجرہ وہاں پر رہتی تھیں کہ جرہم قبیلے کا ایک قافلہ دور سے گزرا انہوں نے اس مقام پر پرندے دیکھے تو کہا یہ پرندے پانی کے گرد ہوتے ہیں۔ یقیناً یہاں پانی ہے انہوں نے ایک بندہ بھیجا کہ دیکھ کر آؤ کہ وہاں پانی ہے یا نہیں۔ تو انہوں نے آ کر بتایا کہ وہاں پانی ہے۔ وہ قافلے والے وہاں آ کر آباد ہونے لگے اور ہاجرہ سے کہا کہ آپ ہمیں یہاں پر آباد ہونے کی اجازت دیتی ہیں ؟ ہاجرہ نے جواب دیا بالکل لیکن تمہیں پانی پر کوئی حق نہیں ہو گا۔ قافلے والوں نے کہا ٹھیک ہے۔

ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ہاجرہ ان لوگوں سے مانوس ہو گئیں اور وہ لوگوں (انسانوں ) سے محبت کرتی تھیں۔ ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی اور اپنے بچے اسماعیل علیہ السلام سے وقتاً فوقتاً ملنے آیا کرتے تھے جب اسماعیل علیہ السلام بڑے ہوئے اور ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ دوڑ دوڑ کر چلنے لگے۔ تو ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کر رہے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے خواب کا ذکر اسماعیل علیہ السلام سے کیا اسماعیل علیہ السلام نے کہا اے ابا جان !جو حکم آپ کو ملا ہے اس پر عمل کرو آپ مجھے ان شاء اللہ صابرین میں سے پائیں گے۔

ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کو لٹا دیا اور ذبح کرنے لگے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو آواز دی اور فرمایا: اے ابراہیم! تم نے خواب کو سچا کر دکھایا تم اس سخت امتحان میں کامیاب ہو گئے اللہ نے اسماعیل علیہ السلام کو بچا لیا اور ان کے برابر میں ایک بڑا ذبیحہ عطاء فرما کر اسے ذبح کرایا۔           (صافات:۱۰۲تا۱۱۲)

اسماعیل علیہ السلام بڑے ہو گئے اور جرہم قبیلے سے عربی بھی سیکھ لی اور انہی میں شادی بھی کر لی، اس کے بعد ہاجرہ فوت ہو گئیں۔ ابراہیم علیہ السلام اس کے بعد پھر دو مرتبہ چکر لگا کر حال احوال معلوم کرنے کے بعد چلے گئے لیکن اسماعیل علیہ السلام سے ملاقات نہیں ہوئی۔ تیسری مرتبہ پھر تشریف لے کر آئے اور اسماعیل علیہ السلام کو زمزم کے قریب پایا سلام دعا کرنے کے بعد ابراہیم علیہ السلام نے کہا، اے اسماعیل علیہ السلام!اللہ نے مجھے یہاں ایک بیت اللہ بنانے کا حکم دیا ہے۔ آپ میرے ساتھ اس میں تعاون کریں گے۔ اسماعیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ جو حکم اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا اس کو شروع کریں میں آپ کے ساتھ ضرور تعاون کروں گا۔ تو دونوں نے کعبہ بنانا شروع کر دیا۔

اسحاق علیہ السلام کی بشارت

ایک دن اللہ کی طرف سے چند فرشتے ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے ابراہیم علیہ السلام نے انہیں انسان سمجھ کر ان کے سامنے بچھڑے کا گوشت لا کر رکھ دیا فرشتوں نے گوشت کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا تو ابراہیم علیہ السلام نے ان سے خطرہ محسوس کیا فرشتوں کہا آپ ڈریں نہیں ہم فرشتے ہیں ہم آپ کو ایک لڑکے کی بشارت دینے آئے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے کہا اس بڑھاپے میں لڑکا کیسے ہو گا ابراہیم کی زوجہ سارہ نے بھی بشارت سنی تو ہنسنے لگیں اور کہنے لگی میرے ہاں اب بچہ ہو گا، حالانکہ میں بوڑھی ہو چکی ہوں اور بانجھ بھی ہوں۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہو گی، فرشتوں نے کہا تم اللہ کے کام پر تعجب کرتی ہو اللہ جو چاہے کر سکتا ہے۔

پھر ابراہیم علیہ السلام نے فرشتوں سے پوچھا اب تم کو کیا مہم در پیش ہے۔ فرشتوں نے کہا ہم لوط کی مجرم قوم کی طرف عذاب لے کر آئے ہیں۔    (ھو:۶۹، تا۷۶۔ حجری:۵۲تا ۵۸، الذاریات:۲۴تا۳۷)

بیت اللہ کی تعمیر

اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو کعبہ کی حدود اربعہ بتائیں اور انہیں حکم دیا کہ کعبہ کو تعمیر کریں ابراہیم علیہ السلام مکہ پہنچے اور اسماعیل علیہ السلام سے مل کر کعبہ کی تعمیر شروع کی۔ دونوں تمام دن کھڑے ہو کر بیت اللہ کی تعمیر کرتے رہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام سے کہا پتھر لاؤ، وہ پتھر کے لئے روانہ ہوئے ان کو وہاں حجر اسود ملا وہ اس کو لے کر ابراہیم کے پاس آئے انہوں نے پوچھا: یہ پتھر تمہیں کہاں سے ملا؟ اسماعیل علیہ السلام نے کہا یہ پتھر جبریل آسمان سے لے کر آئے تھے وہ پتھر رکھ دیا گیا اور کعبہ کی تعمیر مکمل ہو گئی۔      (مسند احمد، مستدرک حاکم موقوف ابن عباس)ایک روایت میں ہے کہ جب بیت اللہ کی تعمیر حجر اسود کی جگہ تک پہنچ گئی جبریل نے آسمان سے حجر اسود لا کر انہیں دیا۔

مقام ابراہیم علیہ السلام

جب دیوار اونچی ہو گئی تو اسماعیل علیہ السلام ایک پتھر لے کر آئے تاکہ ابراہیم علیہ السلام اس پر کھڑے ہو کر کعبہ کی تعمیر مکمل کریں اسی طرح اس پتھر کو کعبہ کی حدود اربعہ پر گھماتے تھے یہاں تک کہ تعمیر مکمل ہو گئی۔ تو پتھر کو اپنی جگہ پر چھوڑ دیا جو دروازے کے قریب بالکل دیوار سے لگی ہوئی تھی۔ اس پتھر کو اس لئے مقام ابراہیم کہتے ہیں بعد میں امیر المومنین عمر بن الخطاب نے اپنے دور خلافت میں اس پتھر "مقام ابراہیم”کو دیوار سے الگ کر کے تھوڑا سا پیچھے کر دیا۔ (تفسیر ابن کثیر، باسناد صحیح)

نوٹ:کعبہ کو سب سے پہلے بنانے والا کون ہے۔ اس میں اختلاف ہے۔

(۱)فرشتوں نے آدم علیہ السلام سے پہلے بنایا۔

(۲)آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے کعبہ کو بنایا ہے۔

(۳)شیث علیہ السلام نے سب سے پہلا کعبہ کو بنایا ہے۔

(۴)ابراہیم علیہ السلام نے سب سے پہلا کعبہ کو بنایا ہے اور یہ ہی راجح اور صحیح بات ہے کیوں کہ

(ا)قرآن کی ظاہری آیات سے یہ واضح ہے۔                  (بقرہ:۱۲۷)

(ب)اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ پکڑو مقام ابراہیم کو جائے نماز۔ (بقرہ: ۱۲۵)

(ج)حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا بندوں اور دوست ہے۔ اور میں بھی اللہ کا بندہ اور رسول ہوں۔ تو جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا بنایا ہے میں نے مدینہ کو حرمت والا قرار دیا۔      (نسائی)

بعض احادیث میں ہے کہ کعبہ آسمان اور زمین کی خلقت سے پہلے اللہ نے حرمت والا قرار دیا ہے لیکن اس کا اظہار ابراہیم علیہ السلام کے بنانے کے بعد ان کی زبان سے ہوا۔ یعنی پہلی دفعہ مکہ کی حرمت کا اعلان اللہ کی طرف سے ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے ہوا ہے۔

نوٹ: کعبہ کی بنیاد جو ابراہیم علیہ السلام نے رکھی تھی۔

(۱)حجر اسماعیل علیہ السلام کی جانب سے چھ ہاتھ کعبہ کی بنیاد میں شامل تھے۔

(۲)کعبہ کی زمین مسجد کی زمین سے برابر تھی۔

(۳)کعبہ کے دو دروازے تھے، ایک جو ابھی ہے دوسرا مغرب کی جانب، ایک داخل ہونے کے لئے دوسرا نکلنے کے لئے۔

(۴)دونوں دروازے مسجد کی زمین سے برابر تھے تاکہ داخل ہونے اور نکلنے میں سہولت ہو۔

حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:اے عائشہ!اگر تیری قوم کا زمانہ شرک کے قریب نہ ہوتا(یعنی نئے مسلمان نہ ہوتے )

اور میرے پاس اتنا مال نہیں ہے کہ جس سے میں اس کو دوبارہ بنا دوں اگر فتنہ کا ڈر نہ ہوتا اور میرے پاس مال ہوتا تو میں کعبہ کو گرا دیتا اور اس کو زمین کے برابر کر دیتا۔ اساس ابراہیم پر بنا دیتا۔ اور اس کے لئے دو دروازے بنا دیتا جو زمین کے برابر ہوتے ایک دروازہ داخل ہونے کے لئے اور دوسرا باہر آنے کے لئے اور حجر کے چھ ہاتھ کو بھی کعبہ میں شامل کر دیتا جس کو قریش نے نفقہ( مال)کم ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا۔ وہ جگہ دکھا دوں جو قریش نے چھوڑ دی تھی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو وہ جگہ جو چھ ہاتھ کے قریب تھی دکھا دی۔

جب عبداللہ بن زبیر کی خلافت آئی تو انہوں نے کعبہ کو گرا دیا اور بنیاد ابراہیم پر نئے سرے سے بنا دیا۔

(بخاری، مسلم، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ)

جب ابن زبیر کو شہید کر دیا گیا تو عبد الملک بن مروان(خلیفہ وقت) نے حکم دیا کہ کعبہ کو گرا دیا جائے اور قریش کی بنیاد پر بنایا جائے۔ تو مکہ کے گورنر نے جو حجاج تھے اسی طرح کر دیا۔

ابراہیم علیہ السلام کا حج

جب ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر مکمل کر لی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ لوگوں میں حج کا اعلان کر دو، ابراہیم علیہ السلام نے اعلان کیا تو ہر طرف سے جواب ملا لبیک اللھم لبیک پھر ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام اور مسلمین کے ساتھ حج کیا، اور تمام مناسک ادا کئے۔   (طبری، روایت موقوف ہے )

ابراہیم علیہ السلام کی وفات

جب ابراہیم علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی۔   (سورہ بقرۃ: ۱۳۲)

ایک موقوف روایت میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی عمر دو سو سال ہوئی۔   (حاکم مستدرک )

ابراہیم علیہ السلام اور ان کے صحیفے

اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو چند صحیفے عطاء فرمائے تھے جن میں زندگی گزارنے کے سلسلہ میں متعدد ہدایات تحریر تھیں۔ (سورۃ اعلی:۱۸، ۱۹)

 

 

 

 

لوط علیہ الصلاۃ والسلام

 

لوط علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام کے ہم عصر تھے اور سدوم بستی کے رہنے والے تھے۔ ان کی قوم بہت برے کاموں میں مبتلا تھی وہ مردوں کے ساتھ بد فعلی کرتے تھے۔  اور رہزنی بھی کرتے تھے اور اپنی مجلسوں میں بڑی بڑی نازیبا حرکتیں کرتے تھے، لوط علیہ السلام اپنی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے، لوط علیہ السلام نے تبلیغ شروع کی اور اپنی قوم کو سمجھاتے رہے ایک دن قوم کے لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ لوط اور ان کے گھر والوں کو اپنی بستی سے نکال دو یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں۔               (نمل:۵۶، انبیاء:ٍ۱۶۵، ۱۶۶)

ایک دن قوم نے کہا: اے لوط اگر تم ان نصائح سے باز نہیں آئے تو ہم تم کو شہر سے نکال دیں گے ہم تمہاری نصیحتوں سے سخت بیزار ہیں۔                 (شعراء:۱۶۷)

جب لوط علیہ السلام اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہو گئے تو اللہ سے اس طرح دعاء کی: اے میرے رب!مجھے اور میرے گھر والوں کو ان لوگوں کے اعمال بد سے نجات دے۔ اے میرے رب! اس مفسد قوم کے مقابلہ میں میری مدد فرما۔  (شعرا:۱۶۹، عنکبوت:۳۰)

لوط علیہ السلام پر صرف ان کے گھر والے ہی ایمان لائے (یعنی صرف بیٹے ) فقط اور ان کی بوڑھی بیوی ایمان نہیں لائی۔ وہ اپنی قوم سے ملی ہوئی تھی اور لوط علیہ السلام کی خبریں انہیں پہنچاتی رہتی تھی۔(شعراء:۱۶۷)

عذاب

اللہ تعالیٰ نے چند فرشتوں (جبریل، اسرافیل، میکائیل) کو عذاب کے ساتھ لوط علیہ السلام کی قوم کی طرف روانہ فرمایا۔ لوط علیہ السلام نے انہیں اپنے ہاں ٹھہرایا اور فرشتوں کو انسان سمجھے اور بہت پریشان ہوئے اور کہنے لگے آج تو بڑی مصیبت کا دن ہے۔ ان کی بیوی نے قوم کو خبر دی کہ ہمارے گھر میں بہت حسین لوگ آئے ہوئے ہیں۔

ان کی قوم بہت خوش ہوئی اور دوڑتے ہوئے لوط علیہ السلام کے گھر پہنچے لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کی بیٹیوں کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:یہ میری بیٹیاں موجود ہیں یہ تمہارے لئے حلال ہیں ان سے نکاح کر لو اللہ سے ڈرو اور میرے مہمانوں کے معاملہ میں مجھے رسوا نہ کرو۔         (ھود:۷۷تا۸۰)

قوم کے لوگوں نے ایک نہ سنی اور دروازے کے ساتھ کھڑے ہوئے لیکن دروازہ بند تھا۔ لوط علیہ السلام فرشتوں کو پہچان نہ سکے۔ لہٰذا کہنے لگے کہ:تم اجنبی آدمی معلوم ہوتے ہو آخر تمہارے یہاں آنے کا مقصد کیا ہے ؟ فرشتوں نے جواب دیا کہ ہم آپ کے رب کے فرستادہ فرشتے ہیں، اور عذاب لے کر آئے ہیں آپ نہ ڈریں اور نہ غمگین ہوں یہ لوگ آپ تک نہیں پہنچ سکتے اور نہ آپ کو کسی قسم کا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔  (ھود:۸۱، حجر:۶۲، تا۶۳)

اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی بینائی سلب کر لی تو وہ لوگ نہ فرشتوں تک پہنچ سکے اور نہ لوط علیہ السلام تک۔  (اقتربۃ الساعۃ:۳۷)

پھر فرشتوں نے لوط علیہ السلام سے کہا کہ آپ اپنے گھر والوں کے ساتھ راتوں رات اس بستی سے نکل جائیں اور آپ سب کے پیچھے رہیں۔ اور آپ لوگوں میں سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے اور جہاں جانے کا آپ کو حکم ملا ہے وہاں سیدھے چلے جائیں یہ سب ہلاک ہونے والے ہیں اور ان کے ساتھ آپ کی بیوی بھی ہلاک ہو گی ان پر صبح کے وقت آسمان سے عذاب نازل ہو گا۔      (حجر۶۵، ھود:۸۱، عنکبوت:۳۴)

الغرض لوط علیہ السلام کے جانے کے بعد اللہ نے صبح کے وقت بستی کو الٹ پلٹ کر زیر و زبر کر دیا اور ان پر پتھروں کی بارش کی پوری قوم لوط کی بیوی سمیت ہلاک ہو گئی۔  (نمل:۵۷، ۵۸، شعرا:۱۷۰، ۱۷۳، حجر:۷۴)

اور سدوم کی بستی مدینہ سے شام جانے والے راستہ میں واقع ہے۔ اور وہ کھنڈرات عبرت کی نشانی بن کر رہ گئے ہیں اور عام گذر گاہ پر واقع ہیں۔        (حجر:۷۶، صافات:۱۳۷، ۱۳۸)

نوٹ: لوط علیہ السلام کی بستی سدوم کے نام سے مسمیٰ ہے۔

اور اس بارش کا پانی بحر میت سے مسمیٰ ہے جو آج کل بھی ہے۔

اس کے علاوہ لوط علیہ السلام کے متعلق کسی قسم کی معلومات میسر نہیں ہیں۔

 

 

 

اسماعیل علیہ السلام

اسماعیل علیہ السلام کا قصہ ابراہیم علیہ السلام کے قصہ کے ساتھ گذر گیا۔

نوٹ: اسماعیل علیہ السلام کے ہاں بارہ لڑکے پیدا ہوئے۔ اسماعیل علیہ السلام جرہم کے قبیلے اور آس پاس کے لوگوں کے لئے رسول مبعوث ہوئے۔ آس پاس میں عمالیق کے قبیلہ اور یمن والے شامل ہیں۔ اور اپنی وفات کے وقت اپنے بھائی اسحاق علیہ السلام کو وصیت کی کہ انہیں اپنی والدہ کے ساتھ دفن کیا جائے۔        (طبری)

 

 

 

اسحاق علیہ الصلاۃ والسلام

 

جب اسحاق علیہ السلام پیدا ہوئے تو ابراہیم علیہ السلام کی عمر سو سال تھی اور اسحاق علیہ السلام اسماعیل علیہ السلام کے پیدا ہونے کے چودہ سال بعد پیدا ہوئے۔ اسحاق علیہ السلام جب پیدا ہوئے ان کی ماں سارہ کی عمر ۹۰ سال تھی۔ اسحاق علیہ السلام نے اپنے والد کی زندگی میں ایک عورت رفقہ سے شادی کی اس سے دو جڑواں لڑکے پیدا ہوئے، عیص، یعقوب۔ یعقوب عیص سے چھوٹے تھے۔

رومیوں کی نسل عیص سے ہے۔

بنی اسرائیل کی نسل یعقوب سے ہے۔

 

 

 

یعقوب علیہ الصلاۃ والسلام

 

یعقوب علیہ السلام نے اسحاق علیہ السلام کی وفات کے بعد اپنے ماموں کی لڑکی سے شادی کی، جس کا نام لیا تھا۔ پھر دوسری لڑکی سے شادی کی جس کا نام راحیل تھا۔ نزول تورات سے پہلے بہ یک وقت دو بہنوں سے نکاح جائز تھا۔ یعقوب علیہ السلام کو راحیل سے دو لڑکے ہوئے۔ یوسف، اور بنیا مین۔ بنیامین کی ولادت کے بعد راحیل فوت ہو گئیں۔ یعقوب علیہ السلام کی باقی اولاد سب لیا سے ہوئی۔ جن کی تعداد ۱۰ تھی۔

 

 

 

یوسف علیہ الصلاۃ والسلام

 

یوسف علیہ السلام حاران میں پیدا ہوئے (بیت المقدس) کی ایک بستی ہے۔ یوسف علیہ السلام نے بچپن میں ایک خواب دیکھا کہ سورج چاند اور گیارہ ستارے انہیں سجدہ کرے رہیں۔

یعقوب نے ان سے کہا کہ اس خواب کو اپنے بھائیوں سے نہ بیان کرنا ورنہ وہ تمہارے خلاف کوئی تدبیر کریں گے (یوسف:۴، ۵)

یوسف کے سوتیلے بھائیوں نے یہ خواب سن کر ان سے حسد شروع کیا اور بہانے سے یوسف کو اپنے ساتھ سیر کرنے کے لئے لے گئے اور سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ انہیں کسی گہرے کنویں میں ڈال دیا جائے پھر انہوں نے یوسف کی قمیص کو اتار کر کنویں میں ڈال دیا۔

اس وقت یوسف ٍ۱۸ سال کے تھے۔ا للہ نے یوسف کی طرف وحی بھیجی کہ گھبراؤ نہیں ایک وقت آئے گا کہ تم ان کی حرکات یاد دلاؤ گے۔            (یوسف:۱۵)

سب بھائیوں نے یعقوب سے آ کر کہہ دیا کہ یوسف کو بھیڑیئے نے کھا لیا یعقوب نے فرمایا پورے واقعہ میں ذرا بھی سچائی نہیں ہے۔ انہی ایام میں ایک قافلہ جو شام سے مصر کی طرف جا رہا تھا۔ اس کنویں کے پاس سے گذرا جس میں یوسف کو ڈالا گیا تھا۔ اہل قافلہ نے وہاں قیام کیا اور کنویں سے پانی نکالنے کے لئے کنویں میں ڈول ڈالا۔ ڈول میں یوسف بیٹھ گئے جب ڈول کو کھینچا تو یوسف کو دیکھ کر وہ لوگ بہت خوش ہوئے۔ اتفاق سے یوسف کے بھائی وہاں پہنچ گئے اور یوسف کو اسی قافلہ کے ہاتھ میں بہت کم قیمت میں فروخت کر دیا(یوسف:۲۰)قافلہ والوں نے مصر جا کر مصر کے ایک وزیر کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ وزیر نے انہیں گھر لے جا کر اپنی بیوی سے کہا انہیں عزت و اکرام کے ساتھ رکھو۔ ہو سکتا ہے کہ ہم انہیں اپنا بیٹا بنا لیں۔

یوسف وزیر کے گھر میں جوان ہو گئے جوان ہوتے ہی اللہ نے انہیں حکمت اور علوم سے سر فراز فرمایا۔ (یوسف:۲۲)یعنی نبوت

نوٹ: خریدنے والا وزیر تھا جس کا نام قطفیر تھا جو شاہی خزانے کا افسر تھا۔ بعض نے کہا ان کا نام مالک بن ذعر اور ان کی بیوی کا نام راعیل بعض نے کہا زلیخا تھا۔ یوسف علیہ السلام بے حد حسین تھے ان کو حسن کا ایک وافر حصہ عطاہوا تھا اور ان کی والدہ راحیل کو بھی حسن کا ایک بڑا حصہ عطاء کیا گیا تھا۔    (مسلم، طبری)

وزیر کی بیوی یوسف کی محبت میں گرفتار ہو گئی اور اس نے انہیں پھسلانا چاہا۔      (یوسف:۲۳)

ایک دن موقع پا کر اس نے گھر کے تمام دروازے بند کر دیئے اور یوسف سے کہا آؤ جلدی کرو۔ (یوسف:۲۳)

یوسف نے انکار کر دیا اور معاذاللہ کہنے کے بعد دروازے کی طرف بھاگے وہ عورت بھی انہیں پکڑنے کے لئے ان کے پیچھے بھاگی۔ اس بھاگ دوڑ میں ان کی قمیص کا دامن اس عورت کے ہاتھ میں آ گیا۔ اس نے اتنی زور سے قمیص کا دامن پکڑا کہ وہ پھٹ گیا۔ یوسف دروازہ کھول کر باہر نکلے اور وہ عورت بھی ان کے پیچھے پیچھے دروازے کے باہر آ گئی۔ دروازے پر دونوں نے وزیر کو کھڑا ہوا پایا۔

عورت بڑی چالاک تھی اور فوراً اپنے شوہر سے کہا جو شخص آپ کی بیوی کے ساتھ برے کام کا ارادہ کرے اس کی سزا اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کو قید کر دیا جائے یا درد ناک سزادی جائے۔

یوسف نے کہا میرا کوئی قصور نہیں اس عورت نے مجھ سے برے کام کا ارادہ کیا تھا معاملہ سلجھانے کے لئے اس عورت کے ایک شاہد نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر ان کا دامن آگے سے پھٹا ہوا ہے تو عورت سچی ہے اور اگر دامن پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تو یوسف سچے ہیں۔

وزیر مصر نے یوسف کا دامن دیکھا تو وہ پیچھے سے پھٹا ہوا تھا۔ تو سمجھ گیا کہ اس کی بیوی کا قصور ہے اور یوسف سے کہا کہ تم اس بات کا کچھ خیال نہ کرو مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ تم بے قصور ہو اور اپنی بیوی سے کہا کہ اپنے گناہ کی معافی مانگو۔         (یوسف:۲۳تا۲۹)

نوٹ:وہ شاہد ایک بچہ تھا اسی گھر کا۔         (طبری)

یہ خبر شہر کی عورتوں کو پہنچ گئی اور ایک دن آپس میں کہا وزیر کی بیوی اپنے غلام سے برائی چاہتی ہے اور وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہے۔ جب وزیر کی بیوی نے شہر کی عورتوں کے یہ طعنے سنے تو اس نے ان کی دعوت کرنے کے لئے انتظام کیا۔ اور ہر ایک عورت کو ایک ایک چھری دے دی۔ اور یوسف سے کہا ذرا باہر آؤ، جب وہ باہر آئے تو عورتوں نے ان کے حسن و جمال کو دیکھ کر چھریوں سے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے یہ سب وارفتگی کے حالت میں کہنے لگیں سبحان اللہ یہ انسان نہیں ہے یہ کوئی معزز فرشتہ ہے۔ جب وزیر کی بیوی نے یہ حالت دیکھی تو کہا یہی ہیں وہ جن کے بارے میں تم مجھے ملامت کرتی تھیں۔ میں تو اب بھی یہی کہتی ہوں کہ اگر انہوں نے وہ کام نہیں کیا جس کام کا میں انہیں حکم دیتی ہوں تو یہ ضرور قید کر دئے جائیں گے۔

الغرض جب یوسف نے یہ دیکھا تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ جس کام کی طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیں اس کام کے مقابلہ میں مجھے قید خانہ پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف کی دعا قبول فرمائی اور یوسف کو ان کے مکرو فریب سے بچا لیا۔    (یوسف:۳۰تا۳۵)

الغرض وزیر نے باوجود اس کے کہ انہوں نے یوسف کو بے قصور قرار دیا پھر بھی بات کو رفع دفع کرنے یا عورت کو بے قصور ثابت کرنے کے لئے یہی مناسب سمجھا کہ یوسف کو کچھ عرصہ کے لئے قید خانہ بھیج دیں۔ (یوسف:۳۰، ۳۵)

یوسف علیہ السلام قید خانہ بھیج دیئے گئے۔ ان کے ساتھ دو جوان آدمی بھی قید خانہ میں داخل ہوئے۔ ان دونوں میں سے ہر ایک نے خواب دیکھا اور خواب کی تعبیر کے لئے یوسف کی طرف رجوع کیا۔ ان میں سے ایک نے کہا میں نے خواب دیکھا کہ میں شراب بنانے کے لئے انگور نچوڑ رہا ہوں۔

دوسرے نے کہا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں، اور پرندے آ کر روٹیاں کھا رہے ہیں۔

یوسف نے تعبیر بتانے سے پہلے درس توحید دیا پھر بتایا کہ تم میں سے ایک تو بری ہو جائے گا اور اپنے آقا کو بدستور شراب پلائے گا اور دوسرا پھانسی پر لٹکایا جائے گا اور پرندے آ کر اس کے سر کو نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ خوابوں کی تعبیر بتانے کے بعد یوسف نے کہا کہ بادشاہ کے پاس میرا ذکر کرنا نہ بھول جانا وہ رہائی کے بعد اپنے بادشاہ کے پاس پہنچا تو اس سے یوسف کا ذکر کرنا بھول گیا اس طرح یوسف چند سال اور قید خانہ میں رہے۔ (یوسف:۳۶، ۴۲)

پھر حسن اتفاق سے ایک دن بادشاہ نے خواب دیکھا کہ سات موٹی تازہ گایوں کو سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہے اور خواب میں سات سبز بالیاں اور سات خشک بالیاں بھی دیکھیں۔ ملک کے سرداروں نے کہا ایسے خوابوں کی تعبیر ہمیں نہیں آتی۔

یہ باتیں رہائی پانے والے شخص نے سن لیں اور یوسف علیہ السلام یاد آ گئے۔ اس نے بادشاہ اور سرداروں سے کہا کہ آپ مجھے قید خانہ جانے کی اجازت دیجئے تاکہ خوابوں کی تعبیر معلوم کروں۔ وہ قید خانہ پہنچا اور یوسف سے خواب کی تعبیر پوچھی۔ یوسف نے کہا تم سات سال تک متواتر کھیتی کرو گے اور پیداوار زیادہ ہو گی۔ پھر اس کے بعد سات سال تک سخت قحط پڑے گا تو تم ایسا کرنا کہ جب پیداوار کے سال آئیں تو صرف اتنی کھیتی کاٹنا جتنی تمہارے کھانے کے لئے ضروری ہو باقی غلہ کو بالیوں ہی میں رہنے دینا پھر جب قحط کے ساتھ سال آئیں گے تو ان میں سات سال کی پیداوار استعمال کرنا ہے۔      (یوسف:۴۳، ۴۹)

اس شخص نے جا کر یہ تعبیر بادشاہ کو بتا دی۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ ان کو (تعبیر بتانے والا) میرے پاس لاؤ۔ جب قید خانہ میں یوسف کے پاس آدمی پہنچا اور بادشاہ کا پیغام دیا تو یوسف نے کہا اپنے مالک کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا قصہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے۔

بادشاہ نے ان عورتوں کو بلایا اور ان سے یوسف کے متعلق پوچھا۔ عورتوں نے کہا سبحان اللہ ہم نے یوسف میں کوئی برائی نہیں دیکھی، اور وزیر کی بیوی بھی موجود تھی اس نے بھی صاف صاف اپنے جرم کا اقرار کیا۔ یوسف نے کہا یہ تحقیقات میں نے اس لئے کرائی ہیں کہ وزیر کو معلوم ہو جائے کہ میں نے اس کی عدم موجودگی میں کوئی خیانت نہیں کی۔ (یوسف:۵۰، ۵۳)

الغرض جب بادشاہ یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی اور ذہانت کا قائل ہو گیا اور ان سے گفتگو کی تو یوسف سے کہا کہ آج سے آپ ہمارے امور مملکت کے امین ہیں۔

یوسف نے کہا مجھے اس سر زمین کے خزانوں کا ذمہ دار بنا دیں، میں امانت دار بھی ہوں۔ اور ان کی اچھی طرح حفاظت بھی کر سکتا ہوں۔   (یوسف:۵۴، ۵۶)

نوٹ: مصر کے بادشاہ کا نام ریان بن الولید تھا۔

نوٹ :یوسف نے کتنے سال قید خانہ میں گذارے، قرآن میں ہے (بضع سنین) بضع کا لفظ عربی میں تین سے لے کر نو تک استعمال ہوتا ہے۔

نوٹ:مصر کا بادشاہ پہلے سے مسلمان تھا۔ بعض نے کہا یوسف کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا۔ واللہ اعلم

خلاصہ یہ کہ:جب یوسف وزیر خزانہ بن گئے تو انہوں نے بادشاہ کے خواب کے مطابق آنے والے قحط کے پیش نظر بہترین انتظامات کئے۔ ان کے سوتیلے بھائی کنعان (جو فلسطین میں تھا )سے غلہ لینے مصر آئے۔ تو یوسف نے انہیں پہچان لیا۔ لیکن وہ یوسف کو نہ پہچان سکے۔ یوسف نے ان کو غلہ دے دیا اور ان سے کہا کہ آئندہ اپنے سوتیلے بھائی کو بھی ساتھ لے کر آنا۔

نوٹ: یوسف نے غلہ دینے سے پہلے ان کے پورے خاندان کی معلومات حاصل کیں۔ یوسف کی خواہس پر اگلے سال وہ بنیامین کو بھی ساتھ لائے۔ تو یوسف نے اپنے حقیقی بھائی کو اپنے پاس ٹھہرایا اور ان سے کہا کہ میں تمہارا بھائی یوسف ہوں۔ پھر تیسری بار یوسف کے سوتیلے بھائی مصر آئے تب یوسف نے بھائیوں کے سامنے اپنے آپ کا انکشاف کیا۔

پھر یوسف نے اپنے والد اور پورے خاندان کو مصر بلوا لیا۔ یوسف کی ہدایت کے مطابق ان کا پورا خاندان مصر منتقل ہو گیا۔ جب وہ لوگ مصر کے قریب پہنچے تو یوسف نے ان کا استقبال کیا۔ جب وہ لوگ یوسف کے گھر پہنچے تو انہیں اپنے تخت پر بٹھایا اس موقع پر یعقوب اور(ان کی بیوی) یوسف کی والدہ اور ان کے تمام بھائی تعظیماًیوسف کے آگے سجدے میں گر پڑے۔ یوسف کو اپنے بچپن کا خواب یاد آ گیا اور اپنے والد سے کہا: اے ابا جان!یہ میرے خواب کی تعبیر ہے۔

نوٹ:تاریخ میں ہے کہ یوسف کی والدہ بنیامین کی ولادت کی بعد فوت ہو گئی تھیں۔ تو تخت پر سجدہ کرنے والی یوسف کی خالہ تھیں، بعض نے کہا یہ یوسف کی سوتیلی ماں تھیں۔

قرآن کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوسف کی حقیقی ماں تھی اور تاریخ میں جو مذکور ہے وہ غلط ہے۔ واللہ اعلم

نوٹ:تاریخ میں ہے کہ یعقوب مصر میں یوسف کے ساتھ ۱۷ سال کے بعد فوت ہو گئے۔ اور وصیت کی کہ مجھے ابراہیم اور اسحاق علیہ السلام کے ساتھ فلسطین میں دفن کیا جائے۔ تو یوسف ان کی وصیت پر عمل کر کے اس کا جثہ یہاں ( مصر) سے لے کر فلسطین میں دفن کیا۔ اسی طرح تاریخ میں ہے کہ یعقوب کی عمر ۱۴۰ سال ہوئی۔

اسی طرح تاریخ میں ہے کہ جب یوسف علیہ السلام فوت ہوئے تو انہوں نے بھی وصیت کی کہ مجھے شام میں دفن کیا جائے تو ان کا حثبہ مصر ہی میں رہا یہاں تک جب موسیٰ علیہ السلام رسول ہوئے انہوں نے پھر ساتھ لے کر فلسطین میں اپنے والد کے ساتھ دفن کیا۔

نوٹ:یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں صرف یوسف رسول تھے۔ فقط یوسف علیہ السلام کی شادی کے متعلقہ تاریخ میں ہے کہ انہوں نے زلیخا کے شوہر کے وفات ہونے کے بعد زلیخا سے شادی کی۔ ان کے متعلق اور کوئی صحیح معلومات میسر نہیں ہے۔

 

 

 

 

ایوب علیہ الصلاۃ والسلام

 

ایوب علیہ السلام کے نسب میں اختلاف ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ وہ عیصو بن اسحاق علیہ السلام کے نسب میں سے ہیں۔ اور ان کی والدہ لوط علیہ السلام کی بیٹی تھیں۔ اور ان کی بیوی میں بھی اختلاف ہے۔ بعض نے کہا لیا بنت یعقوب اور بعض نے کہا فشا بنت بعقوب اور بعض نے کہا فشا  بنت یوسف بن یعقوب اور بعض نے کہا رحمت بنت فراثیم یوسف علیہ السلام کی پوتی تھیں۔

ایوب کا وطن (علاقہ)

اس میں اختلاف ہے بعض نے کہا کہ وہ آدوم کے رہنے والے تھے۔ جو ارد میں واقع ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ وہ تشنیۃ جو دمشق کے نواح میں واقع ہے ایوب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بڑی دولت دی ہر قسم کے مویشی اور بڑی واسع زمین وغیرہ اللہ تعالیٰ نے ان کی آزمائش کی شیطان کے ذریعہ شیطان نے پہلے ان کا تمام مال ضائع کر دیا۔ پھر ان کی تمام اولاد کو ہلاک کر دیا پھر ان کے جسم پر حملہ کر دیا۔ زبان، دل اور عقل کے علاوہ سب پر قابو پا لیا۔ لیکن ایوب صابر رہے اور اس آزمائش میں پورے اترے اور ہمہ اوقات اللہ کی طرف رجوع کرتے رہے۔ (ص:۴۱، ۴۴)

سب لوگوں نے ان کو چھوڑ دیا سوائے ان کی بیوی جوان کی خدمت کرتی رہی ایک دن ایوب علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعاء کی اے میرے رب!مجھے شیطان نے مصیبت اور سخت تکلیف میں مبتلا رکھا ہے اور تو بڑا رحم کرنے والا ہے۔                (ص:۴۱، انبیاء:۸۳)

حدیث میں ہے کہ ایوب علیہ السلام ۱۸سال تک آزمائش میں مبتلا رہے سب نے انہیں چھوڑ دیا ان کے بھائیوں میں سے صرف دو شخص ان کے پاس آتے رہے اور ان کی بیوی۔ جب ایوب علیہ السلام قضائے حاجت کے لئے جاتے اور اپنی حاجت سے فارغ ہوتے تو ان کی بیوی ان کے ساتھ چمٹ جاتی تھیں۔ ایک دن بیوی نے ان کے پاس جانے میں دیر کر دی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس وحی بھیجی۔ اے ایوب !اپنا پیر زمین پر مارو، پیر زمین پر مارتے ہی ایک چشمہ نکل پڑا اللہ نے ان سے فرمایا: یہ تمہارے نہانے اور پینے کے لئے ٹھنڈا پانی ہے اس پانی سے نہاؤ اور اس پانی کو پیتے رہو۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں شفا عطاء فرمائی۔ اور ان کو کافی اہل و عیال بھی دیئے۔     (ابن حبان)

ایوب علیہ السلام کے لئے دو بیدرن ایک گندم کا ایک اور جو کا اللہ تعالیٰ نے دو بادل بھیجے ایک سےے گندم کے بیدر میں سونا برسا یہاں تک کہ وہ بھر گیا دوسرے سے جو کے بیدر میں چاندی برسی یہاں تک کہ وہ بھی بھر گیا۔ (ابن حبان، حاکم)

تاریخ میں ہے کہ ایوب کی بیوی نے اپنے کچھ بال بیچے تھے۔ ایوب علیہ السلام نے قسم اٹھا ئی کہ اگر میں اچھا ہو گیا تو تمہیں سو کوڑے ماروں گا۔ بعض نے کہا کچھ اور کہا جس پر کوئی صحیح دلیل موجود نہیں۔ بہر حال ایوب علیہ السلام نے کوڑے مارنے کی قسم کھائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اپنی قسم کو توڑو نہیں ایسا کرو کہ گھاس کا ایک گچھا لے کر ماردو تمہاری قسم پوری ہو جائے گی۔         (ص۴۴)

اس کے بعد ایوب علیہ السلام ۷۰ سال زندہ رہے۔

 

 

 

ذوالکفل علیہ الصلاۃ والسلام

 

صحیح قول یہ ہے کہ ذوالکفل نبی ہیں ان کا نام اللہ نے انبیاء کے ناموں کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ (انبیاء:۸۵، ۸۶، ص:۴۸)

تاریخ میں ہے کہ وہ ایوب علیہ السلام کے بیٹے تھے لیکن یہ درست نہیں ہے۔

 

 

 

شعیب علیہ الصلاۃ والسلام

 

اللہ تعالیٰ نے شعیب علیہ السلام کو اہل مدین کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔           (اعراف:۸۵)

اہل مدین کو اصحاب الایکۃ(جنگل والے ) بھی کہتے ہیں۔                        (شعرا:۱۷۶)

نوٹ: مدین۔ اصحاب الایکۃ۔ دونوں ایک ہی قوم ہے۔ باپ کی نسبت سے مدین کھلایا اور زمین کی طبعی و جغرافیائی حیثیت سے اصحاب الایکۃ کے لقب سے مشہور ہوا اور یہ عربی قبیلہ تھا جو آج کل سعودی عرب اور اردن و شام کی حدود میں ہے۔ سیدنا شعیب علیہ السلام کی قوم بت پرستی اور مشرکانہ عقائد پر کار بند ہونے کے علاوہ ناپ تول میں کمی کرتی تھی اور چوری ڈاکہ زنی بھی کرتی تھی۔ شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت الی اللہ دی اور ان کی اصلاح میں مصروف ہو گئے قوم ان کی نبوت کا انکار کرتی رہی۔ بالآخر انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ تم پر کسی نے جادو کر دیا ہے تم ہمارے ہی مثل ایک انسان ہو ہم تو تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں اگر تم سچے ہو تو عذاب لے کر آؤ اور ہمیں نیست و نابود کر دو۔

اللہ تعالیٰ نے شعیب علیہ السلام کی قوم پر سخت ا آواز سے ہلاکت نازل کر دی۔ سخت آواز کے ساتھ ایک زلزلہ بھی آیا صبح ہوئی تو وہ سب لوگ بے جان اپنے گھروں میں گرے پڑے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے شعیب اور مومنین کو اپنی رحمت سے اس عذاب سے بچا لیا۔         (اعراف:۹۱، ۹۲، ھود:۹۴)

 

 

 

موسیٰ علیہ السلام

 

موسی ٰعلیہ السلام کا سلسلہ نسب یعقوب علیہ السلام تک پہنچتا ہے جو یوں ہے۔ موسیٰ علیہ السلام بن عمران بن قاہت بن لاوی بن یعقوب بن اسحاق علیہ السلام بن ابراہیم، ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے حقیقی بھائی تھے۔ موسیٰ علیہ السلام مصر میں پیدا ہوئے یہ وہ دور ر تھا جب مصر میں ایک نہایت متعصب قبطی النسل خاندان بر سر اقتدار تھا۔

نوٹ:یہ مصری حکمران اس وقت سے آ رہیں ہے جب ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی سارہ کے ساتھ اس مصر سے گزر رہے تھے جہاں شاہ مصر نے سارہ کے ساتھ زنا کا ارادہ کیا تھا۔ پھر یوسف علیہ السلام اسی مصری بادشاہ کے وزیر خانہ تھے۔ اور یوسف علیہ السلام کی وفات کے بعد بنی اسرائیل اسی مصر میں زندگی گزار رہے تھے اور اس دور میں بنی اسرائیل اسلام پر قائم رہے۔ یہاں تک کہ موسیٰ علیہ السلام کا دور آیا پھر ان میں تبدیلی آئی۔ بعض صحابہ سے نقل ہے کہ فرعون اور اس کے وزراء نے ایک دن مذاکرہ کیا کہ ابراہیم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ ان کی اولاد میں انبیاء اور بادشاہ ہوں گے اور بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے وہ اس سے اس کا ملک چھین لے گا۔

الغرض فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے تمام بچے قتل کر دیئے جائیں اور انہوں نے ایسا ہی کیا پھر انہیں خیال آیا کہ بنی اسرائیل ختم ہو جائیں گے تو خدمت کون کرے گا۔ پھر فرعون نے حکم دیا کہ ایک سال بچے نہ مارے جائیں اور دوسرے سال مارے جائیں۔

نوٹ: اسی طرح تذکرہ بنی اسرائیل میں مشہور تھا بنی اسرائیل سے فرعون کے لوگوں نے سنا، موسیٰ علیہ السلام اس سال پیدا ہوئے جس سال نو مولود بچے قتل کئے جا رہے تھے۔ اور ہارون علیہ السلام اس سال پیدا ہوئے جس سال بچے زندہ رکھے جاتے تھے۔    (طبری، مسند ابی یعلی)

نوٹ:مصر کے ہر بادشاہ کا لقب فرعون تھا موسیٰ علیہ السلام کے دور کے بادشاہ(فرعون) کا نام ’’ولید ‘‘تھا۔ بڑا ظالم اور سر کش بادشاہ تھا اس نے بنی اسرائیل پر بہت ظلم کئے ان کو خدمت گار بنا رکھا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ اس کمزور جماعت(بنی اسرائیل) پر احسان کرے ان کو امام بنائے انہیں فرعون اور ا آل فرعون کا وارث بنائے۔ الغرض فرعون کے دور میں موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔ (قصص:۷، طہ:۳۸، ۳۹)

موسیٰ علیہ السلام جب پیدا ہوئے تو اس بات کا خطرہ تھا کہ فرعون انہیں قتل نہ کرا دے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو وحی بھیجی کہ ان کو دودھ پلاتی رہیں اور جب وہ ان کے متعلق خطرہ محسوس کریں تو انہیں ایک صندوق میں رکھیں اور اس صندوق کو سمندر میں ڈال دیں اور کسی قسم کا خوف و غم نہ کریں۔ (قصص:۳تا۶)

موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے موسیٰ علیہ السلام کو دریا میں ڈال دیا لیکن وہ اس صدمہ کو برداشت نہ کر سکیں اور قریب تھا کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور ان کو سمندر میں ڈالنے کے واقعہ کا اظہار کر دیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کو مضبوط کر دیا۔ اور وہ اس واقعہ کو ظاہر کرنے سے باز رہیں۔ (قصص:۱۰)

موسیٰ علیہ السلام کی ایک بہن بھی تھیں جب موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے موسیٰ علیہ السلام کو سمندر میں ڈال دیا تو موسیٰ علیہ السلام کی بہن سے کہا تم موسیٰ علیہ السلام کے پیچھے پیچھے جاؤ اور دیکھتی رہو کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے۔        (قصص:۱۱)

موسیٰ علیہ السلام کی بہن سمندر کے بہاؤ کے ساتھ دور سے ان کے پیچھے چلتی رہیں اور موسیٰ علیہ السلام سمندر میں چلے جا رہے تھے۔ فرعون کے آدمیوں نے صندوق کو بہتے ہوئے دیکھا تو انہیں سمندر سے نکال دیا اور فرعون کے سامنے رکھ دیا فرعون کے وزیر(ہامان)اور باقی لشکروں کا فیصلہ تھا کہ انہیں قتل کر دیں فرعون کی بیوی نے فرعون سے کہا یہ میری اور تمہاری ا آنکھوں کی ٹھنڈک ہو گا لہٰذا اسے قتل نہ کرو، ہو سکتا ہے ہم اسے اپنا بیٹا بنا لیں۔ فرعون اور ان کے وزیر اس بات پر راضی ہو گئے۔                (قصص:۸، ۹)

ابن عباس سے مروی ہے کہ فرعون نے کہا تمہاری آنکھوں کے لئے ٹھنڈک ہو گا مجھے اس کی ضرورت نہیں۔         (مسندابی یعلی)

جب فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو پالنے کا فیصلہ کر لیا تو کسی دودھ پلانے والی کی تلاش شروع ہوئی بہت سی دودھ پلانے والی آئیں لیکن موسیٰ علیہ السلام نے کسی دودھ پلانے والی کا دودھ نہیں پیا۔

ان کی بہن نے جو حالات کا بڑی ہوشیاری سے مطالعہ کر رہی تھی دودھ پلانے والی عورتوں کو تلاش کرنے والوں سے کہا :کیا میں تمہیں ایسا گھرانا نہ بتاؤں جو ان کو دودھ پلائے۔ فرعون اس تجویز پر راضی ہو گیا اور موسیٰ علیہ السلام کو غیر شعوری طور پر دودھ پلانے کی غرض سے ان کی والدہ کے پاس پہنچا دیا۔ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی آنکھیں ٹھنڈی ہو گئیں۔    (قصص:۱۲، ۱۳)

نوٹ:فرعون کی بیوی(آسیہ) نے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ سے کہا کہ آپ ہمارے گھر میں آ کر بچہ کو دودھ پلاتی رہیں اور ان کی تربیت کرتی رہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے انکار کیا اور کہا میری بچے ہیں اور شوہر ہے مجھے ان کی خدمت کرنی ہے گھر کے کام کرتے ہیں۔ تو آسیہ نے موسیٰ علیہ السلام کو ان کی والدہ کے ساتھ ان کے گھر میں بھیجنے پر رضامندی کا اظہار کیا اور موسیٰ علیہ السلام کا نفقہ اور موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے لئے دودھ پلانے کی اجرت بھی مقر ر کی۔

اس طرح موسیٰ علیہ السلام اپنے ہی گھر میں پرورش پاتے رہے جب جوان ہوئے تو ایک دن شہر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ دو آدمی لڑ رہے ہیں۔ ایک کا تعلق ان کی قوم بنی اسرائیل سے تھا اور دوسرے کا تعلق فرعون کی قوم سے تھا جو ا آدمی ان کی قوم سے تعلق رکھتا تھا اس نے موسیٰ علیہ السلام سے مدد طلب کی موسیٰ علیہ السلام نے اسے مظلوم سمجھا اور دوسرے کو ایک مکا مارا وہ مر گیا۔ یہ دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام نے اسی وقت توبہ کی اور اللہ سے معافی مانگی اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور انہیں معاف فرما دیا۔          (قصص:۱۰، تا۱۷)

نوٹ:موسیٰ علیہ السلام اس کو قتل کرنا نہیں چاہتے تھے لیکن وہ مکا مارنے سے فوت ہو گیا۔

پھر دوسرے دن موسیٰ علیہ السلام نے شہر میں دیکھا کہ وہی شخص جس نے گذشتہ دن ان سے مدد مانگی آج پھر مدد طلب کر رہا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس سے کہا تو ہی حقیقت میں قصور وار ہے کہ روزانہ لڑتا رہتا ہے موسیٰ علیہ السلام نے ارادہ کیا کہ اس کو پکڑ لیں تو وہ کہنے لگا، اے موسیٰ علیہ السلام !تم مجھے قتل کرنا چاہتے ہو جس طرح تم نے کل ایک شخص کو قتل کیا تھا۔   (قصص:۱۸، ۱۹)

نوٹ:دوسری مرتبہ بھی موسیٰ علیہ السلام نے بھی اس شخص کو جو قوم فرعون سے تعلق رکھتا تھا پکڑنے کا ارادہ کیا لیکن چونکہ موسیٰ علیہ السلام نے پہلے اسرائیلی کو ڈانٹا اس لئے اس کہا نے آپ مجھے قتل کریں گے۔

الغرض فرعون کو خبر مل گئی کہ کل کا قتل موسیٰ علیہ السلام نے کیا تو فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کے لئے صلاح و مشورہ شروع کیا۔ ابھی صلاح و مشورے ہو رہے تھے کہ ایک شخص شہر سے دوڑتا ہوا آیا اور کہا موسیٰ علیہ السلام کو کہ فرعون تمہیں قتل کرنے کے لئے صلاح و مشورہ کر رہا ہے۔ تم شہر سے فوراً چلے جاؤ۔ موسیٰ علیہ السلام فوراً شہر سے ڈرتے ہوئے نکل گئے اور اللہ سے دعا کی اے میرے رب مجھے ظالم قوم سے نجات دے۔ (قصص:۱۸تا۲۱)

اللہ کی رہنمائی سے مدین پہنچ گئے انہوں نے ایک کنویں پر دیکھا کہ بہت سے لوگ اپنے اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں لیکن دو لڑکیاں کچھ فاصلہ پر اپنے جانوروں کو لئے ہوئے کھڑی ہیں موسیٰ علیہ السلام نے ان لڑکیوں کے جانوروں کو پانی پلا دیا اور اس کے بعد ایک طرف سایہ میں آ کر بیٹھ گئے۔

نوٹ:عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب وہ لوگ اپنے جانوروں کو پلا کر فارغ ہوتے تو کنویں پر پتھر ڈھانک دیا کرتے تھے اس پتھر کو دس آدمی اٹھایا کرتے تھے موسیٰ علیہ السلام نے اکیلے ہی وہ پتھر ہٹا دیا۔ (مصنف عبدالرزاق، و ابن ابی شیبہ)

کچھ دیر بعد ان لڑکیوں میں سے ایک لڑکی آئی اور کہنے لگی میرے والد نے آپ کو بلایا ہے تاکہ وہ آپ کو جانوروں کے پانی پلانے کی اجرت دیں۔ موسیٰ علیہ السلام اس لڑکی کے والد کے پاس پہنچے اور ان سے اپنا قصہ بیان کیا پورا قصہ سننے کے بعد انہوں نے کہا ڈرو نہیں تمہیں ظالم قوم سے نجات مل گئی۔        (قصص:۲۵)

نوٹ:ان لڑکیوں کا والد صحیح بات یہ ہے کہ وہ شعیب علیہ السلام تھے پھر ان لڑکیوں میں ایک نے اپنے والد سے کہا کہ انہیں نوکر رکھ لیجئے اس لئے کہ بہترین نو کر وہ ہے جو طاقتور بھی ہو اور امانت دار بھی ہو۔ والد (شعیب علیہ السلام) نے کہا اے موسیٰ علیہ السلام میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان لڑکیوں میں سے ایک لڑکی کا نکاح تم سے اس شرط پر کر دوں کہ تم آٹھ سال تک میرے ہاں نوکری کرو اور اگر تم دس سال نوکری کرو تو یہ تمہاری طرف سے ہے۔ میں تمہیں تکلیف میں ڈالنا نہیں چاہتا ہوں۔ موسیٰ علیہ السلام نے یہ معاہدہ منظور کر لیا اور پوری مدت سال پوری کی۔ (قصص:۲۶تا۲۸، مسند ابی یعلی)

نوٹ:تاریخ میں ہے کہ جس لڑکی سے موسیٰ علیہ السلام کی شادی ہوئی اس کا نام صفورۃ تھا۔

مقر رہ مدت پوری کرنے کے بعد موسیٰ علیہ السلام اپنے اہل و عیال اور جو بکریاں وغیرہ تھیں سب کو لے کر وہاں سے روانہ ہو گئے۔ اثناء سفر میں ان پر سرد رات آئی اور راستہ بھی ان سے گم ہو گیا۔ اسی اثناء میں موسیٰ علیہ السلام کو کوہ طور پر آگ دکھائی دی تو اپنے اہل و عیال سے کہا مجھے کوہ طور پر آگ دکھائی دے رہی ہے۔ تم یہاں ٹھہرو میں آگ کی طرف جاتا ہوں شاید میں وہاں سے راستہ کی کوئی خبر لے آؤں یا کوئی انگارہ ہی لے آؤں جس سے تم سردی کی شدت سے بچ جاؤ۔    (قصص:۲۹)

الغرض موسیٰ علیہ السلام آگ کے پاس پہنچے تو موسیٰ علیہ السلام کے داہنے کنارے پر ایک درخت تھا اس درخت سے آواز آئی اے موسیٰ علیہ السلام میں اللہ رب العالمین ہوں میں تمہارا رب ہوں، تم اپنی جوتیاں اتار دو اس لئے کہ تم اس وقت طویٰ نامی مقدس وادی میں ہو میں نے تمہیں اپنی رسالت کے لئے منتخب فرمایا ہے۔ لہٰذا جو کچھ تمہاری طرف وحی کی جا رہی ہے اسے غور سے سنو۔ پھر اللہ نے ان کو وحی کی اس کے بعد پھر اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ یہ بتاؤ تمہارے سیدھے ہاتھ میں وہ کیا چیز ہے ؟ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا یہ میری لاٹھی ہے۔ اللہ نے فرمایا اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دو موسیٰ علیہ السلام نے ڈال دی۔ تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ لاٹھی سانپ کی مانند زمین پر ہل رہی ہے اور وہ چل رہی ہے۔

موسیٰ علیہ السلام سانپ سے ڈر گئے اور چلنے لگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ علیہ السلام واپس آؤ آگے بڑھو ڈرو نہیں میرے پاس رسول ڈرا نہیں کرتے۔ سانپ کو اٹھا لو یہ پھر لاٹھی بن جائے گا۔  (قصص:۳۱، طہ:۲۰، ۲۱)

پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ علیہ السلام ! اپنا ہاتھ گریبان میں داخل کرو، پھر اسے نکالو وہ بغیر کسی بیماری کے سفید ہو کر نکلے گا۔ اے موسیٰ علیہ السلام ! تمہارے رب کی طرف تمہاری نبوت کی یہ دو نشانیاں تمہیں مل گئی ہیں۔ (۱)لاٹھی کا سانپ بن جانا۔ (۲) ہاتھ کا گریبان میں ڈالنے سے سفید ہو جانا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے موسیٰ علیہ السلام ! اب تم ان دو نشانیوں کے ساتھ فرعون، اس کی ظالم قوم کے پاس جاؤ انہیں اللہ کے عذاب سے ڈراؤ۔             (قصص: ۳۲، طہ:۲۲، ۲۳)

موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا اے میرے رب!میں نے ان میں سے ایک آدمی کو قتل کر دیا تھا مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے اس کے بدلے میں قتل کرد یں گے۔ اے میرے رب! میری زبان اچھی طرح نہیں چلتی میرے بھائی ہارون مجھ سے زیادہ فصیح زبان بولتے ہیں انہیں میرے ساتھ میرا مددگار بنا کر بھیج دے۔ (موسیٰ علیہ السلام نے اور بھی دعائیں کی)اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے موسیٰ علیہ السلام ! میں نے تمہاری تمام دعائیں قبول کر لیں میں نے تمہارے بھائی کو بھی نبوت دی، میں تم دونوں کو غلبہ دوں گا وہ لوگ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔   (طہ:۳۶، مریم۵۳، قصص:۳۵)

پھر اللہ نے دونوں کو حکم دیا کہ اب میری آیات لے کر فرعون کے پاس جاؤ وہ بہت سر کش ہو گیا ہے اس سے کہو کہ ہم رب العالمین کی طرف سے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔     (شعراء:۱۶، طہ:۴۳)

اور ان سے یہ بھی کہو کہ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے اور ان پر ظلم نہ کرے۔ الغرض موسیٰ علیہ السلام اور ہارون نے فرعون اور ان کی ظالم قوم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا لیکن فرعون نے انکار کیا بلکہ خود الوہیت کا دعویٰ کر دیا اور لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں اس مصر کا خدا ہوں میرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔ اور موسیٰ علیہ السلام کو مخاطب ہو کر کہا اگر تم سچے ہو تو نشانی پیش کرو۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دی وہ بڑا سانپ بن گئی اور اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکالا تو وہ سفید نظر آنے لگا۔ فرعون اور ان کی قوم نے کہا یہ تو محض جادو ہے۔ پھر انہوں نے ان نشانیوں کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ (نمل:۱۴، زخرف:۴۷)

فرعون نے اپنی قوم سے کہا موسیٰ علیہ السلام بڑے ماہر جادو گر ہیں یہ چاہتے ہیں کہ اپنے جادو سے تم کو ملک سے نکال دیں اب تم مجھے کیا مشورہ دیتے ہو۔        (شعراء:۳۴، ۳۵)

قوم نے مشورہ دیا کہ موسیٰ علیہ السلام کو کچھ عرصہ کے لئے مہلت دیجئے۔ اور تمام بڑے بڑے جادو گروں کو جمع کر کے موسیٰ علیہ السلام سے مقابلہ کریں الغرض جادو گر جمع ہو گئے مقابلہ کرنے کا دن بھی مقر ر ہوا۔ (عید کا دن) اور صبح کے وقت مقابلہ دیکھنے کے لئے تمام لوگ جمع ہو گئے۔ سب سے پہلے جادو گر فرعون کے دربار میں حاضر ہوئے عرض کیا اے بادشاہ اگر ہم غالب رہے تو کیا ہمیں انعام ملے گا؟ فرعون نے کہا ضرور ملے گا پھر موسیٰ علیہ السلام اور جادو گر ایک دوسرے کے مقابل آ کر کھڑے ہو گئے۔ جادو گروں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا آپ پہلے ڈالیں گے یا ہم ڈالیں ؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا تم ہی پہلے ڈالو۔

جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر ڈال دیں اور کہنے لگے فرعون کی عزت کی قسم ہم ہی غالب رہیں گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے جب دیکھا کہ رسیاں اور لاٹھیاں سانپ بن کر دوڑ رہی ہیں تو کچھ خوف محسوس کیا اللہ نے کہا اے موسیٰ علیہ السلام ڈرو نہیں تم ہی غالب رہو گے تمہارے ہاتھ میں جو لاٹھی ہے اسے ڈال دو، جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی ڈال دی لاٹھی اژدہا بن گئی اور جادوگروں کی شعبدہ بازیوں کو نگلنا شروع کر دیا۔ (شعراء:۴۵)

جادو گروں نے جب حقیقت کو دیکھ لیا تو فوراً سجدہ میں گر پڑے اور موسیٰ علیہ السلام اور ہارون پر ایمان لائے۔ فرعون نے جادوگروں سے کہا تم میری اجازت سے پہلے ایمان لائے اور ان کو پھانسی دینے کی دھمکی دی۔ جادوگروں نے جواب دیا کوئی پرواہ نہیں ہمیں تو اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہی ہے اگر قتل کریں تو ہمیں کیا مضائقہ ہے۔

نوٹ:جادوگروں کی تعداد میں شدید اختلاف ہے لیکن ابن عباس کہتے ہیں ۱۷ تھے۔      (تفیسر ابن کثیر)

جو موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے :

(۱)جادوگر ایمان لائے، (۲)بنی اسرائیل کی اولاد، (۳)فرعون کی بیوی، (۴)قوم فرعون کا ایک آدمی جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا۔         (مومن :۲۸)

جادوگروں کے ایمان لانے سے فرعون کی قوم کے سرداران خوف زدہ ہو گئے اور اپنی سیادت کے ختم ہونے کا خطرہ لاحق ہو گیا تو فرعون سے صلاح و مشورہ کرنے کے بعد فرعون نے کہا کہ ہم ان کے لڑکوں کو قتل کرتے رہیں گے اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیا کریں گے اس طرح کرنے سے ہم ان کی قوت کو ختم کر سکتے ہیں۔

الغرض موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو صبر کی تلقین کی اور خوشخبری سنا دی کہ فتح بالآخر ہماری ہی ہو گی۔ اس کے بعد فرعون اور قوم فرعون پر مسلسل اور یکے بعد دیگرے عذاب آنے شروع ہوئے ان عذابوں کا مقصد یہ تھا کہ وہ مخالفت چھوڑ دیں اور ایمان لے آئیں۔

(۱)سب سے پہلا عذاب جو ان پر نازل ہوا وہ قحط کا عذاب تھا، (۲)طوفان، (۳)ٹڈیوں، (۴)جوؤں (۵)مینڈکوں (۶)خون کے عذاب اور وہ ہر مرتبہ یہی کہتے کہ اے موسیٰ علیہ السلام اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہم پر سے یہ عذاب ٹال دے اگر آپ نے یہ عذاب ٹال دیا تو ہم ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے۔ جب وہ عذاب ٹل جاتا تو وہ وعدہ خلافی کرتے تھے۔ اور ایمان نہیں لاتے تھے اور اپنی دولت اور سیادت پر فخر و ناز کرتے رہے۔

نوٹ:طوفان سے مراد تیز تیز بارشیں، ٹڈیوں سے مراد کہ ان کی زراعت کھیت سب کو تباہ و برباد کیا جوؤں سے یہ ہوا کہ ان کا سکون و آرام ختم ہو گیا۔ اور مینڈک ان کے برتنوں اور کھانوں میں گر جاتے تھے، خون سے یہ ہوا کہ ان کے کنویں اور نہریں پینے والا پانی سارا خون بن گیا کبھی بھی صاف پانی پینے کے لئے انہیں نہیں ملتا تھا۔

نوٹ:ان سب عذابوں سے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو محفوظ کر لیا۔

ایک دن فرعون نے اپنے سرداروں اور قوم سے کہا اب میں موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرتا ہوں مجھے ڈر ہے کہ وہ تمہارا دین نہ بدل دیں اور وہ اپنی مدد کے لئے اپنے رب کو پکاریں اور میری سزا سے بچنے کی کوشش کریں۔

اس موقع پر قوم فرعون کا وہ شخص جو ایمان لے آیا تھا اور ابھی تک اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا فرعون کے پاس پہنچا اور اس سے کہا کیا تم ایک آدمی کو محض اس لئے قتل کر رہے ہو کہ وہ یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ اس سلسلہ میں اپنے رب سے کھلی نشانیاں بھی لایا ہے اگر وہ جھوٹا ہے تو جھوٹ کا وبال اسی پر ہو گا اور اگر وہ سچا ہے تو عذاب یقیناً  آئے گا جس کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے۔ لیکن فرعون نے غرور و تکبر کر کے کہا، اے میرے سرداروں ! میرے علم میں میرے سوا تمہارا کوئی الہ نہیں اور اے ہامان(فرعون کا وزیر تھا)اینٹیں پکا کر ان سے میرے لئے ایسی بلند عمارت بناؤ کہ اس پر چڑھ کر میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ لوں۔ مجھے یقین ہے کہ موسیٰ علیہ السلام جھوٹے ہیں۔   (حم المومن:۲۸، ۲۹، ۳۰، والقصص:۳۸)

الغرض جب فرعون نے مومنین کو ختم کرنے کا عزم کیا تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ میرے بندوں کو لے کر رات کے وقت یہاں سے روانہ ہو جاؤ۔ (شام کی طرف جانے کا ارادہ تھا)

حدیث میں ہے موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے ساتھ رات کے وقت شہر سے نکل گئے لیکن راستہ بھول گئے، انہوں نے بنی اسرائیل سے پوچھا یہ کیا بات ہے۔ علماء بنی اسرائیل نے کہا جب یوسف کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے ہم سے اللہ کی طرف سے عہد لیا تھا کہ ہم مصر سے نہیں جائیں گے۔ جب تک ان کی لاش کو ساتھ نہ لے جائیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا: ان کی قبر کہاں ہے ؟ علماء نے کہا قبر کا علم کسی کو نہیں سوائے ایک بڑھیا کے، بڑھیا نے کہا میں نہیں بتاؤں گی جب تک تم میری ایک بات نہ مان لو وہ یہ کہ میں جنت میں تمہارے ساتھ ہوں۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس بات کو پسند نہیں کیا۔ بالآخر موسیٰ علیہ السلام اس کی بات مان گئے بڑھیا ان کو ایک جھیل کے پاس لے گئی۔ اس نے کہا سارا پانی نکال ڈالو۔ سب نے مل کر اس کا پانی نکال دیا اس نے کہا: اب کھودو انہوں نے کھودا اور یوسف کی لاش کو نکال لیا لاش کو ساتھ لیتے ہی راستہ دن کی روشنی کی طرح معلوم ہو گیا۔  (مستدرک حاکم)

جب فرعون کو یہ معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے ساتھ نکل چکے ہیں تو اپنے لشکر کے ساتھ صبح کے وقت ان کا تعاقب کیا۔ موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی چلتے رہے یہاں تک کہ سمندر کے کنارے جا پہنچے تو فرعون بنی اسرائیل کے قریب ہوا تو نبی اسرائیل نے کہا اب ہم پکڑے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مارو، انہوں نے سمندر پر لاٹھی ماری سمندر پھٹ گیا اور دونوں طرف ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ پانی کے بڑے بڑے پہاڑ کھڑے ہیں۔              (شعراء:۶۰تا۶۳)

نوٹ:موسی ٰ کے ساتھ ہارون اور بنی اسرائیل کے ایک بڑے عالم یوشع بن نون بھی تھے جو موسی اور ہارون کے بعد بنی اسرائیل کے لئے نبی ہوئے تھے۔ تاریخ میں ہے کہ سمندر میں اللہ تعالیٰ نے بارہ راستے بنا دیئے، بنی اسرائیل بارہ قبیلے تھے ہر ایک کے لئے الگ الگ راستہ۔

جب موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل نے سمندر پار کیا تو فرعون پہنچ گیا موسیٰ علیہ السلام نے دوبارہ لاٹھی سے سمندر پر مارنا چاہا تاکہ فرعون سمندر پار نہ کر سکے، اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنی لاٹھی سمندر پر نہ مارو۔ فرعون اور ان کے لشکر نے بھی سمندر کے راستوں میں چلنا شروع کیا جب آخری فوجی سمندرمیں داخل ہوئے اللہ تعالیٰ نے سمندر کے پانی کو حکم دیا جو رکا ہوا تھا وہ بہنا شروع ہو گیا۔ اس طرح فرعون اور اس کا لشکر سب غرق ہو گئے۔

جب فرعون ڈوبنے لگا تو کہنے لگا میں موسیٰ علیہ السلام اور ہارون کے الہ پر ایمان لاتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے کہا اب اس وقت ایمان لانے سے کیا ہوتا ہے۔ آج ہم تیرے بدن کو بچا لیں گے تاکہ بعد میں آنے والوں کے لئے ایک عبرتناک نشانی ہو۔    (قصص:۴۰)

نوٹ:یہ اس لئے ہوا کہ صحابہ سے ثابت ہے کہ بنی اسرائیل کو فرعون کی موت پر شک ہوا۔

الغرض اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کر دیا، اور بنی اسرائیل کو فرعون کے باغات اور چشموں کا وارث بنا دیا۔ (شعراء:۵۷، ۵۹)

نوٹ:ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھے جبریل نے آ کر کہا: کہ جب فرعون غرق ہو رہا تھا تو میں اس کے منہ میں مٹی ڈال رہا تھا، کہ کہیں اس کو اللہ کی رحمت نہ پہنچے۔ (ترمذی، مسند احمد، حاکم)

نوٹ:موسیٰ علیہ السلام کی نجات اور فرعون کی ہلاکت یوم عاشوراء میں ہوئی۔ اس لئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دن روزہ رکھنے کی ترغیب دی ہے۔

نوٹ:فرعون اور اس کی کابینہ اور لشکر (فوج) وغیرہ سب ہلاک ہو گئے، صرف جو باقی زندہ رہا وہ عوام الناس اور بچے وغیرہ، تو تاریخ میں ہے کہ اس واقعہ کے بعد مصر کی حکمرانی عورتوں کے ہاتھ میں آ گئی۔ وزیروں کی عورتوں نے عام لوگوں سے شادیاں کیں اور حکمرانی اپنے پاس رکھی۔

سمندر پار کرنے اور فرعون کے غرق ہونے کے بعد بنی اسرائیل سیناء یا کوہ طور جو بیت المقدس میں واقع ہوتا ہے روانہ ہو گئے۔ (راستے میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گذرے جو اپنے بتوں کے سامنے جمے بیٹھے تھے، بنی اسرائل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا: اے موسیٰ علیہ السلام جیسے ان لوگوں کے بت ہیں ایسا ہی ایک بت ہمارے لئے بنا دیجئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا تم بڑے نادان لوگ ہو جس کام میں وہ لوگ مبتلا ہیں وہ سب برباد ہونے والا ہے۔ کیا میں تمہارے اللہ کے علاوہ کوئی اور الہ تلاش کروں، حالانکہ اللہ ہی ہے جس نے تم کو فرعون اور قوم فرعون سے نجات دی جو تم کو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچاتی رہتی تھی۔ تمہارے لڑکوں کو قتل کر دیا کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیا کرتے تھے۔   (اعراف:۱۳۸تا۱۶۱)

نوٹ:بنی اسرائیل کے شرک کا سوال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بہت بڑے عرصہ سے یہ لوگ مشرکین بت پرستوں ( قوم فرعون) کی غلامی میں زندگی گذار رہے تھے جس کی وجہ سے ان کے عقائد اور دین و اخلاقیات میں تبدیلی آ چکی تھی۔

جب بنی اسرائیل ’’صحراء سیناء ‘‘ میں آباد ہو گئے تو پانی کی ضرورت ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پانی کی درخواست کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا پتھر پر اپنی لاٹھی مارو جیسے ہی موسیٰ علیہ السلام نے پتھر پر لاٹھی ماری ویسے ہی اس سے بارہ چشمے جاری ہو گئے۔         (بقرہ:۵۷، ۶۰)

نوٹ:ہر قبیلے کے لئے الگ الگ چشمہ

جب پانی ملا اس کے بعد بنی اسرائیل نے بھوک کی شکایت کی اللہ تعالیٰ نے ان کے کھانے کے لئے من و سلویٰ نازل فرمایا ’’من ‘‘ بعض مفسرین کے نزدیک ترنجبین ہے۔ یا اوس جو درخت یا پتھر پر گرتی، شہد کی طرح میٹھی ہوتی اور خشک ہو کر گوند کی طرح ہو جاتی یہ بعض صحابہ کی بھی رائے ہے، اور بعض مفسرین کے نزدیک شہد یا میٹھا پانی ہے۔

یہ سب کچھ ملنے کے بعد سایہ کی ضرورت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے بادل کا ان پر ٹھنڈا سایہ کر دیا۔ اسی زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے ’’کوہ طور ‘‘ پر چالیس رات رہنے کا وعدہ کیا اور بنی اسرائیل کے بھی چند آدمیوں کو ساتھ لانے کی اجازت دی موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے ستر(۷۰)آدمیوں کو ’’کوہ طور ‘‘ لے جانے کے لئے منتخب کیا۔      (بقرہ:۵۱، اعراف:۱۵۵)

جب موسیٰ علیہ السلام جانے لگے تو اپنے بھائی ہارون کو اپنی قوم میں اپنا جانشین بنا دیا، وعدہ کے مطابق موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے ۷۰ آدمی’’ کوہ طور ‘‘ کی جانب روانہ ہوئے۔

موسیٰ علیہ السلام نے چالیس دن کوہ طور پر گذارے اللہ سے باتیں ہوتی رہیں ایک دن موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے کہا: اے میرے رب!مجھے اپنا دیدار کرا دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکتے، لیکن ایسا کرو کہ اس پہاڑ کی طرف دیکھو، اگر پہاڑ اپنی جگہ قائم رہا تو تم مجھے دیکھ سکو گے جب اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو وہ ریزہ ریزہ ہو گیا اور موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو کر گر پڑے، جب انہیں ہوش آیا تو اللہ سے توبہ کی۔

اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا جو کچھ تمہیں دیا جا رہا ہے اسے مضبوطی سے پکڑ لو، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے کچھ تختیوں میں نصیحت اور احکام لکھ کر ان کے حوالے کیا اور فرمایا اس کو مضبوطی سے پکڑے رہنا ہے اور اپنی قوم سے کہنا کہ اس کتاب کی باتوں کی پیروی کرتے رہیں۔ (اعراف:۱۴۳، ۱۴۵)

وہ ستر آدمی جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ گئے تھے ان میں سے بعض نادان لوگ کہنے لگے اے موسیٰ علیہ السلام ہم ہر گز آپ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک آپ ہمیں اللہ کا کھلم کھلا دیدار نہ کروا دیں۔ ان کی اس درخواست پر ایک زلزلہ آیا بجلی گری اور وہ سب مر گئے موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا اے میرے رب!اگر تو چاہتا تو مجھ کو اور ان سب کو پہلے ہی ہلاک کر دیتا کیا تو ہم کو ان نادانوں کی وجہ سے ہلاک کر رہا ہے ؟ یہ تیری آزمائش ہے۔ تو ہمارا کارساز ہے ہمیں معاف فرما ہم پر رحم فرما، اللہ تعالیٰ نے ان سب کو معاف کر دیا اور پھر زندہ کر دیا۔   (بقرہ:۵۶)

موسیٰ علیہ السلام کے کوہ طور جانے کے بعد ادھر سامری نے بنی اسرائیل کو گمراہ کر دیا۔ ہوا یہ کہ لوگوں نے قوم فرعون کے زیورات کا بوجھ اتار ڈالا۔ سامری نے اس کا ایک بچھڑا بنا یا جس میں سے بچھڑے کی آواز نکلتی تھی لوگوں نے اس کی پوجا شروع کر دی اور کہنے لگے یہ ہے تمہارا اور موسیٰ کا رب۔ ہاروں علیہ السلام نے انہیں بہت سمجھایا لیکن لوگوں نے انکار کیا۔

نوٹ: سامری در اصل فرعون کی قوم سے تھا اور گائے کو پوجتا تھا وہ بنی اسرائیل کا پڑوسی تھا اس لئے بنی اسرائیل کے ساتھ چلا آیا تھا( یہ صحابہ کا قول ہے )

جب موسیٰ علیہ السلام چالیس دن پورے کرنے کے بعد کوہ طور سے واپس آئے اور یہ حالت دیکھی تو اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! کیا تم سے تمہارے رب نے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا؟ کیا وعدہ پورا ہونے میں کوئی بہت بڑی مدت گذر گئی جو تم صبر نہ کر سکے۔ اور پھر اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ جب تم نے یہ دیکھا تھا کہ وہ گمراہ ہو گئے تو ان کو گمراہی سے کیوں نہیں روکا ؟ہارون علیہ السلام نے کہا کہ میں نے روکا لیکن وہ نہیں مانتے تھے، اور قریب تھا کہ مجھے قتل کر دیں۔

پھر موسیٰ علیہ السلام نے سامری سے فرمایا کہ تجھے کیا ہوا تھا یہ کیوں کیا؟سامری نے کہا: مجھے وہ چیز سوجھی جو اوروں کو نہ سوجھی میں نے وہ کام کیا جو اچھا معلوم ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: جا دنیا میں تیرے لئے یہ سزا ہے کہ تو کہتا رہے مجھے ہاتھ نہ لگانا، اور آخرت میں تیرے لئے سخت عذاب ہے۔

نوٹ:تاریخ میں ہے کہ عمر بھر سامری یہ کہتا رہا کہ مجھ سے دور رہو اس لئے کہ اسے چھوتے ہی چھونے والا بھی اور یہ سامری بھی دونوں بخار میں مبتلا ہو جاتے۔ پھر یہ سامری انسانوں کی بستی سے نکل کر جنگل میں چلا گیا اور وہیں زندگی گذاری۔

پھر موسیٰ نے اس بچھڑے کو جلا دیا اور اس کی راکھ کو سمندر میں اڑا دیا۔ پھر اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! تم نے جو گناہ کیا ہے اس کی سزا میں اب تم ایک دوسرے کو قتل کرو، اپنے رب سے توبہ کرو۔ بنی اسرائیل ایک دوسرے کو قتل کرتے رہے پھر اللہ نے انہیں معاف کر دیا۔ تاکہ بقیہ لوگ اللہ کا شکر ادا کریں۔

نوٹ: مفسرین سے نقل ہے کہ ارتکاب شرک کرنے والوں کو کھڑا کر دیا گیا اور دوسروں کو انہیں قتل کرنے کا حکم دیا گیا۔ تاریخ میں مقتولین کی تعدادستر ہزار(۷۰۰۰۰) بیان کی گئی ہے۔

پھر موسیٰ نے توریت کے متعلق بنی اسرائیل سے کہا کہ اس کو مضبوطی سے پکڑ لو اور اس پر عمل کرو، بنی اسرائیل نے کہا ہم نے سن لیا پھر چپکے سے کہا یا اپنے دل میں کہا ہم نافرمانی کریں گے۔ یہ سب کچھ انہوں نے اس لئے کہا کہ اللہ نے طور کا پہاڑ ان کے اوپر بادل کی طرح معلق کر دیا۔ تو انہوں نے مذکورہ بات کی ورنہ اس سے پہلے بالکل منکر تھے۔

بنی اسرائیل کی نافرمانی اور ناشکری کا سلسلہ شروع تھا کہ انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ ہم ایک کھانے پر ہرگز صبر نہیں کر سکتے ہمیں سبزی ترکاری، ککڑی، کھیرا، دال، اور پیاز وغیرہ کی ضرورت ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا اگر تمہاری یہی خواہش ہے تو کسی شہر میں اتر جاؤ اسے فتح کرو پھر تمہیں وہ چیزیں مل جائیں گی۔

موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم!اب تم ارض مقدس(بیت المقدس) کی طرف چلو اس میں داخل ہو جاؤ وہاں کے باشندوں سے لڑو اور پیٹھ نہ پھیرو فتح تمہاری ہو گی۔ قوم نے کہا:اے موسیٰ! اس سر زمین میں تو بڑے زبردست طاقتور لوگ آباد ہیں۔ ہم تو ہر گز اس میں داخل نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ خود لڑائی کے بغیر نہ نکل جائیں اگر وہ نکل جائیں گے تو ہم داخل ہو جائیں گے۔ اے موسیٰ!تم جاؤ اور تمہارا رب تم دونوں لڑو ہم یہیں بیٹھے ہیں۔ جب موسیٰ اپنی قوم سے مایوس ہو گئے تو اللہ تعالیٰ سے دعاء کی اے میرے رب!ہم میں اور نافرمان لوگوں میں جدائی ڈال دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اب اس ارض مقدس پر ان لوگوں کو چالیس سال تک غلبہ حاصل نہیں ہو گا۔ یہ لوگ زمین میں مارے مارے پھریں گے۔ او یہ ان کی سزا ہے۔ تم ان پر غم نہ کرو۔

نوٹ:تاریخ میں ہے کہ یہ بیت المقدس ہے وہ جب یوسف کے زمانہ میں بنی اسرائیل مصر چلے گئے تو ان کی عدم موجودگی میں ’’عمالقہ ‘‘قوم بیت المقدس پر قابض ہو گئے۔ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر واپس آئے تو انہوں نے بیت المقدس کو دشمن سے آزاد کرانے کے لئے جہاد کا حکم دیا لیکن بنی اسرائیل نے لڑنے سے انکار کر دیا۔

قتل کا ایک مقدمہ

بنی اسرائیل کی ایک آبادی میں ایک بہت مالدار شخص تھا اس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ بلکہ صرف اس کا بھتیجا اس کا وارث تھا اس نے موقع پا کر چچا کو قتل کر دیا اور کسی کے گھر کے سامنے پھینک دیا۔ بعض صحابہ سے روایت ہے کہ مقتول کی ایک لڑکی تھی بھتیجے نے اس سے شادی کرنی چاہی چچا نے انکار کر دیا تو اس وجہ سے قتل کر دیا گیا۔ قاتل کی نشاندہی کرنے پر بنی اسرائیل نے اختلاف کیا تو مقدمہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس لے کر آئے۔

اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی اس وحی کی روشنی میں موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ قاتل کو معلوم کرنے کے لئے ایک گائے ذبح کرو، لیکن بنی اسرائیل ٹال مٹول کر رہے تھے۔ کبھی کہتے تھے کہ وہ گائے کیسی ہو اور کبھی کہتے تھے کہ اس کا رنگ کیسا ہو وغیرہ۔

الغرض انہوں نے مطلوبہ گائے کو ذبح کیا، اللہ نے ان سے فرمایا کہ اس گائے کا ٹکڑا مقتول کو مارو، تو مقتول زندہ ہو گیا اور اپنے قاتل کا نام بتا دیا۔     (بقرہ:۶۸تا۷۳)

مقتول نے کہا کہ میرا قاتل میرا بھتیجا ہے، پھر دوبارہ مر گیا اور شریعت کے مطابق قاتل کو سزا دی گئی۔

موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام

ایک دن موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں کھڑے ہوئے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا: لوگوں میں سب سے زیادہ عالم کون ہے ؟ موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا میں بڑا عالم ہوں، اللہ نے انہیں تنبیہ فرمائی کیوں کہ انہوں نے اس طرح نہیں کہا کہ اللہ کو معلوم ہے۔ پھر اللہ نے ان کو وحی بھیجی کہ میرا ایک بندہ اس جگہ میں ہے جہاں دو دریا ملتے ہیں وہ تم سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا اے اللہ! میں اس تک کیسے پہنچوں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایک مچھلی ٹوکری میں رکھو لو جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے وہیں وہ ملے گا۔ پھر موسیٰ علیہ السلام نے سفر شروع کیا ان کے ساتھ ان کے خادم ‘‘یوشع بن نون’’ بھی تھے اور ایک مچھلی ٹوکری میں رکھ لی جب وہ دونوں صخرہ(بڑا پتھر) کے پاس پہنچے تو اپنے سر زمین پر رکھ کر سو گئے مچھلی ٹوکری سے نکلی اور دریا میں اس نے اپنا راستہ بنا لیا۔ واسک للہ عن الحوت جریۃ الماء فصار علیہ مثل الطاق ۔

جب دونوں نیند سے اٹھے تو دونوں ایک رات اور دن میں جتنا وقت باقی رہا تھا اس میں چلتے رہے۔ جب صبح ہوئی تو موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا ہمارا ناشتہ لاؤ۔ ہم تو اس سفر سے تھک گئے۔ ابتدا میں موسیٰ علیہ السلام کو تھکان محسوس نہیں ہوئی مگر جب اس جگہ سے آگے بڑھ گئے جہاں تک ان کو جانے کا حکم ہوا تھا تو وہ تھک گئے۔

ان کے خادم نے کہا: جب ہم صخرہ کے پاس پہنچے تو مچھلی ٹوکری سے نکل کر دریا میں چلی گئی۔ میں اس کا ذکر کرنا بھول گیا۔ پھر دونوں واپس لوٹے جب مجمع البحرین پہنچے تو دیکھا کہ مچھلی کا راستہ مثل روشن دان کے کھلا ہوا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام صخرہ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص کپڑا لپیٹے ہوئے لیٹا ہوا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے سلام کیا، خضر علیہ السلام نے کہا تمہارے ملک میں سلام کہاں سے آیا؟ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ میں موسیٰ ہوں۔ خضر نے کہا بنی اسرائیل کے موسی؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا ہاں۔

پھر موسیٰ علیہ السلام نے کہا:کیا میں اس شرط پر آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں کہ جو علم کی باتیں آپ کو سکھائی گئی ہیں وہ آپ مجھے سکھادیں ؟ خضر علیہ السلام نے کہا تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا اگر اللہ نے چاہا تو آپ ضرور مجھ کو صبر کرنے والا پائیں گے اور میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ پھر تینوں سمندر کے کنارے پر روانہ ہوئے چلتے چلتے اتنے میں ایک کشتی وہاں سے گذری، کشتی والوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا۔ اور ان سب کو بغیر کرایہ کے سوار کر لیا۔

اس کے بعد خضر علیہ السلام کشتی کے تختوں میں سے ایک تختے کی طرف بڑھے اور اس کو اکھیڑ ڈالا، موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے ان لوگوں نے تو ہمیں کو بغیر کرائے کے سوار کیا اور آپ نے ان کی کشتی میں سوراخ کر دیا، اور کشتی والوں کو غرق کرنا چاہا۔ خضر علیہ السلام نے کہا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا میں بھول چکا ہوں اور اس پر میری گرفت نہ کیجئے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پہلا اعتراض تو موسیٰ علیہ السلام کا بھول سے تھا۔ پھر وہ دونوں چلے ایک لڑکا چند لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا خضر علیہ السلام نے اس لڑکے کو قتل کر دیا۔ موسیٰ نے کہا آپ نے ایک معصوم جان کا ناحق خون کیا۔ خضر علیہ السلام نے کہا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا اگر اس کے بعد بھی میں نے آپ سے سوال کیا تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہیں لے کر چلئے گا۔ پھر دونوں آگے چلے چلتے، چلتے وہ ایک گاؤں میں پہنچے انہوں نے گاؤں والوں سے کھانا مانگا، انہوں نے کھانا کھلانے سے انکار کر دیا۔ پھر دونوں نے دیکھا کہ اس گاؤں میں ایک دیوار ہے جو گرنے والی تھی، خضر علیہ السلام نے دیوار کو سیدھا کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ چاہتے تو اس کی مزدوری ان گاؤں والوں سے لے سکتے تھے۔ خضر علیہ السلام نے کہا کہ اب میرے اور تمہارے درمیان جدائی ہو گی۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے ہماری خواہش تھی کہ کاش وہ صبر کرتے تاکہ ان دونوں کے مزید حالات ہمیں سننے کا موقع ملتا۔ خضر علیہ السلام نے کہا اب میں تمہیں ان باتوں کے اسباب بتاتا ہوں جن پر تم صبر نہیں کر سکے۔ وہ کشتی چند مسکینوں کی تھی جو سمندر میں محنت مزدوری کرتے تھے میں نے اس کو اس لئے توڑا کہ آگے چل کر ایک بادشاہ کی سلطنت آنے والی تھی جو ہر صحیح سالم کشتی کو زبردستی چھین لیا کرتا تھا اور عیب دار کو نہیں چھینتا تھا۔ وہ لڑکا جس کو میں نے قتل کیا اس کے ماں باپ دونوں مومن تھے ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ بڑا ہو کر اپنے والدین کو سرکشی اور کفر سے ان کو ایذا نہ دے اور ہم نے چاہا کہ اس کے بدلے اللہ اس کو ایسا لڑکا عطا فرمائیے جو اس سے بہتر ہو۔ اور وہ دیوار تو اس شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ بڑا نیک تھا اللہ نے چاہا کہ وہ خزانہ محفوظ رہے اور وہ یتیم بڑے ہو کر اسے نکال لیں۔

یہ سب آپ کے رب کی ایک رحمت تھی میں نے یہ تمام کام اپنی مرضی سے نہیں کئے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کئے۔ (کھف:۶۰تا۸۲، بخاری)

موسیٰ علیہ السلام اس سفر سے واپس اپنی قوم کے پاس آئے۔

نوٹ:خضر علیہ السلام اللہ کے نبی تھے جیسا کہ آیت سے واضح ہوتا ہے ’’کہ یہ تمام کام اپنی مرضی سے نہیں کئے بلکہ اللہ کے حکم سے کئے۔         (کھف:۸۲)

اور وہ فوت ہو گئے زندہ نہیں ہیں جیساکہ بعض اہل بدعت کا موقف ہے کہ وہ زندہ ہیں اور دنیا میں گھومتے رہتے ہیں۔ اور جو روایات اس کے متعلق مروی ہیں وہ سب باطل ہیں اور جھوٹ ہیں۔

موسیٰ علیہ السلام اور قارون

موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے ایک شخص تھا جس کا نام قارون تھا۔ وہ بہت مالدار تھا، اس کے خزانے کی مفاتیح(چابیاں )اتنی تھیں کہ ایک بڑی جماعت بمشکل اٹھاتی تھی۔ اور انتہائی سرکش اور مغرور تھا۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے کہ قارون موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا اور منافق ہو گیا جس طرح سامری منافق ہو گیا تھا۔         (تفسیر ابن جریر)

اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہماسے ثابت ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو زکاۃ کا حکم دیا قارون نے نہیں مانا اور تنگ آ کر ایک بدکار عورت کو بہت مال(دینا)دیا اور اس کو حکم دیا کہ موسیٰ علیہ السلام پر لوگوں کے سامنے الزام لگاؤ کہ وہ اس سے زنا کرنا چاہتے تھے، لیکن وہ عورت جب آئی اور الزام لگانے کے وقت ڈر گئی صحیح طرح الزام نہ لگا سکی۔ موسیٰ علیہ السلام نے جب اس سے دریافت کیا کہ اس الزام لگانے کا باعث کیا ہے تو عورت نے انکشاف کیا کہ اس کا سبب قارون تھا۔

موسیٰ علیہ السلام نے اس کو بدعا دی اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ موسیٰ کی اطاعت کرے۔ موسیٰ علیہ السلام نے زمین سے کہا اس کو پکڑ لے زمین نے اس کو غائب کر دیا۔       (تفسیر طبری)

نوٹ:اس صحراء اور چالیس سال کے دوران ہارون علیہ السلام فوت ہو گئے۔ اور اس کے بعد موسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے، تقریباً دو سال کے بعد۔

جب موسیٰ علیہ السلام کے فوت ہونے کا وقت آیا تو ملک الموت ظاہری طور پر انسانی شکل و صورت میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، تو موسیٰ علیہ السلام نے ان کو تھپڑ مار دیا، ملک الموت رب کے پاس گئے اور عرض کیا اے میرے رب!تو نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم واپس جاؤ اور ان سے کہو کہ کسی بیل کی پیٹھ پر ہاتھ رکھیں ہاتھ کے نیچے جتنے بال آ جائیں، ہر بال کے بدلے انہیں ایک سال زندگی دی جائے گی۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا پھر کیا ہو گا؟ فرمایا پھر موت، تو موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا تو پھر ابھی ہی صحیح۔ (بخاری، مسلم)

 

 

 

یوشع بن نون علیہ السلام

 

صحراء میں (میدان)میں ہارون اور موسیٰ علیہما السلام اور بہت سے لوگوں کا انتقال ہو گیا خاص کر وہ لوگ جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بیت المقدس کے فتح کرنے سے انکار کیا تھا۔ تو اس کے بعد بنی اسرائیل کے لئے موسیٰ علیہ السلام کا خادم یوشع نبی ہو گئے انہوں نے اپنی سر کردگی میں جبارین(بیت المقدس) کے شہر پر حملہ کیا اور اس کو فتح کر لیا۔

یوشع علیہ السلام نے اپنی قوم کے ساتھ جنگ شروع کی، جنگ کرتے کرتے عصر کا وقت آ گیا، انہوں نے سورج سے کہا تو بھی مامور ہے اور میں بھی مامور ہوں پھر اس طرح دعا کی اے اللہ !اس کو ہمارے اوپر روک دے، سورج روک دیا گیا۔ یہاں تک کہ اللہ نے یوشع علیہ السلام کو فتح دی۔    (بخاری)

نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ سورج نہیں روکا گیا کسی بھی انسان کے لئے سوائے یوشع علیہ السلام کے لئے کئی راتیں روکا گیا یہاں تک کہ اس نے بیت المقدس کو فتح کر لیا۔            (مسند احمد: ۴/۳۶۵)

جب بیت المقدس فتح ہوا تو بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا کہ سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں لیکن وہ سرنیوں کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے اور ان کو حکم دیا گیا تھا کہ حطۃ(اے اللہ !ہمارے گناہ معاف فرما دے ) زبان سے کہو۔ بنی اسرائیل نے ’’حطۃ ‘‘ کے بجائے ’’حبۃ فی شعرۃ ‘‘ یعنی گندم بالی میں، کہتے ہوئے داخل ہوئے۔  (بخاری، مسلم)

نوٹ:سجدہ سے مراد بعض علماء کے نزدیک حقیقی سجدہ مراد ہے۔ (یعنی سجدہ شکر) اور بعض کے نزدیک جھکتے ہوئے داخل ہونا مراد ہے۔

اس نافرمانی کے باوجود یوشع علیہ السلام نے فتوحات جاری رکھیں اور بنی اسرائیل پر غنائم تقسیم کرتے رہے یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہو گئے۔

نوٹ:خضر علیہ السلام کے متعلق چند باتیں

(۱)خضر علیہ السلام نبی تھے اللہ کی طرف سے اس کے بہت دلائل ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کو کہا تھا’’ میں نے یہ تمام کام اپنی مرضی سے نہیں کئے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کئے۔ (کھف:۸۲)

(۲)دوسری بات یہ ہے کہ کسی معصوم جان کو قتل کرنا نبی کے علاوہ کسی ولی کے لئے جائز نہیں ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ خضر نبی تھے اور اس نے قتل وحی کے ذریعہ سے کیا۔

(۳)تیسری بات یہ ہے کہ اگر خضر علیہ السلام نبی نہ ہوتے بلکہ ولی ہوتے تو موسیٰ علیہ السلام جو نبی تھے اور نبی کا علم ولی سے زیادہ ہوتا ہے تو موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس سیکھنے کے لئے نہ جاتے، اس سے یہ معلوم ہوا کہ وہ نبی تھے اور ہر نبی کے پاس ایسا علم ہوتا ہے جو دوسرے نبی کے پاس نہیں ہوتا۔

حدیث میں ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام خضر علیہ السلام کے پاس پہنچے تو خضر علیہ السلام نے موسیٰ سے کہا تھا کہ مجھے جو علم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے وہ تیرے پاس نہیں ہے اور جو علم اللہ نے تجھے دیا ہے وہ میرے پاس نہیں ہے۔ (بخاری)

کیا خضر علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں ؟

نوٹ:خضر علیہ السلام کی زندگی کے متعلق جتنی بھی روایات موجود ہیں سب جھوٹ اور کمزور ہیں، اور نہ ہی ان کی ملاقات نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہوئی۔

یوشع بن نون علیہ السلام کی وفات کے بعد بنی اسرائیل کچھ عرصہ تو ٹھیک رہے پھر ان میں انحراف آ گیا، دین میں بدعات ایجاد کر لیں یہاں تک کہ بتوں کی پوجا شروع کر دی، اور آپس میں جھگڑے قتل و غارت شروع کی، اور اللہ نے ان کی نافرمانی کی وجہ سے ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کر دیا، جنہوں نے ان کے علاقے بھی چھین لئے اور ان میں بہت قتل بھی کیا۔ بالآخر بعض لوگوں کی دعاؤں سے شمویل  نبی پیدا ہوئے جنہوں نے دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا۔

بنی اسرائیل نے اپنے نبی سے مطالبہ کیا کہ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقر ر کر دیں یا ایک قائد( یعنی جنگی قائد) جس کی قیادت میں ہم دشمنوں سے لڑیں۔

نوٹ:وہ بادشاہ (قائد) بھی نبی کے احکام کے ہی پابند ہوتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ’’طالوت ‘‘ کو ان کے لئے بادشاہ مقر ر کر دیا لیکن طالوت اس نسل سے نہیں تھے جس سے نبی اسرائیل کے بادشاہوں کا سلسلہ چلا آ رہا تھا۔ بلکہ یہ غریب اور ایک عام فوجی تھے۔ جن پر بنی اسرائیل نے اعتراض کیا تو نبی شمویل نے فرمایا کہ میرا انتخاب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مقر ر کیا ہے لیکن پھر بھی بنی اسرائیل نے مزید کسی نشانی کا مطالبہ کیا تاکہ وہ پوری طرح مطمئن ہو جائیں۔

نبی نے کہا اس کی بادشاہت کی ظاہری نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق یعنی تابوت آ جائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلجمعی ہے اور آل موسیٰ اور آل ہارون کا بقیہ ترکہ ہے۔ (یعنی تبرکات ہیں )۔ یہ تابوت بھی بنی اسرائیل کے دشمن نے ان سے چھین کر لے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نشانی کے طور پر یہ تابوت فرشتوں کے ذریعے سے طالوت  کے دروازے پر پہنچا دیا۔ جسے دیکھ کر بنی اسرائیل خوش بھی ہوئے اور طالوت کی بادشاہی کے لئے منجانب اللہ نشانی بھی سمجھا۔

طالوت لشکر کو لے کر نکلے اور کہنے لے اللہ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے۔ جو اردن اور فلسطین کے درمیان ہے۔ جس نے پانی پی لیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے تو کوئی بات نہیں ہے لیکن اس تنبیہ کے باوجود اکثریت نے پانی پی لیا اور نہ پینے والوں کی تعداد۳۱۳ تاریخ میں بتلائی گئی ہے۔

جب طالوت لشکر سمیت نہر سے گزر گئے تو ان لوگوں نے کہا جنہوں نے نہر سے پانی پی لیا تھا آج تو ہمیں طاقت نہیں ہے کہ جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑیں، لیکن مومنوں اور پانی نہ پینے والوں نے کہا بسا اوقات چھوٹی اور تھوڑی سی جماعتیں بڑی اور بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم و تائید سے غلبہ پا لیتی ہیں۔

نوٹ:جالوت اس دشمن قوم کا کمانڈر تھا جس سے طالوت اور ان کے لشکر کا مقابلہ تھا، یہ قوم عمالقہ تھی جو اپنے وقت کی بڑی جنگجو اور بہادر تھی۔

جب جنگ شروع ہو گئی تو اللہ کے حکم سے مسلمانوں نے جالوتیوں کوشکست دے دی اور ’’داؤد ‘‘ نے جالوت کو قتل کر دیا۔ تو اللہ نے ’’داؤد‘‘ کو بادشاہت بھی عطا فرمائی اور نبوت بھی۔

نوٹ:داؤد علیہ السلام جو ابھی نبی تھے نہ بادشاہ بلکہ لشکر طالوت میں ایک سپاہی کے طور پر شامل تھے۔

داؤد علیہ الصلاۃ والسلام

نوٹ:داؤد علیہ السلام کے ذکر سے پہلے ہم بنی اسرائیل کے اور انبیاء کا تذکرہ کرتے ہیں جن کا تذکرہ تاریخ نے کیا ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ تاریخ میں ہے کہ یوشع بن نون کی وفات کے بعد کالب بن یفنۃ جو موسیٰ علیہ السلام کے بہنوئی تھے، بنی اسرائیل کے حکمران تھے لیکن ان کی نبوت ثابت نہیں ہے۔

ان کی وفات کے بعد پھر بنی اسرائیل میں حکمرانی حزقیل بن بوزی نے سنبھالی اس کے بعد پھر الیاس نبی مبعوث ہو گئے۔

 

 

 

الیاس علیہ الصلاۃ والسلام

 

الیاس علیہ السلام اللہ کے نیک بندے اور رسول تھے۔ (انعام:۸۶)

ان کے زمانے میں ان کی قوم کے لوگ بعل نامی بت کو پوجتے تھے قوم کے اکثر لوگوں نے ان کو جھٹلایا اور چند مخلص بندے ان پر ایمان لائے۔

تاریخ میں ہے کہ الیاس علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے تھے۔ قرآن کریم میں ان کا نام الیاس کے علاوہ الیاسین بھی آیا ہے۔ اور وہ بعلبک کے رہنے والوں کے لئے رسول تھے۔ جو دمشق کے قریب واقع ہے۔ جو آج کل لبنان کا ایک مشہور شہر ہے۔

 

 

 

ایسع علیہ السلام

 

ایسع علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بڑے نیک بندے تھے اور اللہ نے ان کو کتاب اور نبوت عطائ فرمائی تھی۔ (ص:۴۸، الانعام:۹۰)

تاریخ میں ہے کہ ایسع علیہ السلام الیاس علیہ السلام کے چچا زاد بھائی تھے۔ اور ان کے بعد انہیں مبعوث کیا گیا۔

 

 

 

داؤد علیہ السلام

 

اللہ تعالیٰ کے رسول تھے (نساء:۱۶۳)طالوت کے قصہ کے بعد اللہ نے داؤد علیہ السلام کو رسول بنا کر ان پر زبور کتاب نازل فرمائی۔         (بقرہ:۲۵۱)

داؤد کے رسول بننے کے بعد شمویل علیہ السلام فوت ہو گئے تو نبوت اور حکمرانی دونوں اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کے حوالے کر دیں، اب وہ بنی اسرائیل کے نبی بھی تھے اور حکمران بھی۔

مندرجہ ذیل روایات جھوٹی ہیں۔

(۱)طالوت کی دشمنی اور حسد داؤ علیہ السلام کے ساتھ یہاں تک کہ اس نے انہیں قتل کرنے کا ادارہ کیا۔

(۲)(یہ جھوٹی روایت ہے )داؤد علیہ السلام نے اپنی عبادت پر کیا اور کہا اے میر رب!رات اور دن کی کوئی گھڑی ایسی نہیں جس میں آل داؤد تیری عبادت نہ کرتے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہیں آئی اور داؤد کو آزمائش میں ڈال دیا، ہوا یوں کہ شیطان داؤد علیہ السلام کے پاس سونے کی کبوتری بن کر آیا، وہ نماز پڑھ رہے تھے انہوں نے نماز ہی میں اسے پکڑنا چاہا وہ اڑ گیا داؤد علیہ السلام اس کے پیچھے پیچھے گئے اور ایک عورت کو نہاتے دیکھا جو بہت خوبصورت تھی داؤد نے اس کے شوہر کو جہاد پر بھیج دیا یہاں تک وہ شہید ہو گیا داؤد نے اس کی بیوی سے نکاح کیا۔ بعض روایات میں اس عورت کے شوہر کا نام اوریا تھا۔

نوٹ:ان کے متعلق اور بھی جھوٹی روایات موجود ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے داؤد کو حق و باطل میں فیصلہ کرنے کی خصوصیت کے ساتھ قابلیت عطاء فرمائی تھی۔ داؤد کثرت سے عبادت کرتے تھے مقدمات کے فیصلہ میں دیر ہو جاتی تھی ایک دن دو گروہ جھگڑتے ہوئے داؤد علیہ السلام کے عبادت خانے میں دیوار سے داخل ہو گئے۔ داؤد علیہ السلام گھبرا گئے فریقین نے کہا آپ ڈریں نہیں ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں۔

پھر ان میں سے ایک نے مقدمہ پیش کیا اور کہا: یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس ۹۹ بھیڑیں ہیں اور میرے پاس ایک بھیڑ ہے۔ یہ کہتا ہے کہ میں اپنی ایک بھیڑ بھی اس کو دیدوں مجھ سے سختی سے مطالبہ کرتا ہے۔ داؤد علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کا مطالبہ کرنا ظلم ہے اور وہ تجھ پر ظلم کر رہا ہے۔ داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کام کرتے تھے اور اپنی روزی خود کماتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کے لئے لوہے کو نرم کر دیا تھا۔ وہ لوہے سے زرہیں بنایا کرتے تھے اسی طرح کیل اور سوارخ وغیرہ خود اپنے ہاتھ سے کرتے تھے۔ (سورۃسبا:۱۰، ۱۱بخاری )

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں اور پرندوں کو داؤد علیہ السلام کے تابع کر دیا تھا پہاڑ ان کے ساتھ تسبیح پڑھا کرتے تھے اور پرندے بھی ان کے پاس جمع ہو جایا کرتے تھے۔ پھر یہ پہاڑ اور پرندے صبح و شام ان کے ساتھ مل کر تسبیح پڑھا کرتے تھے۔ (انبیاء:۷۹، ص:۱۸، ۱۹)

داؤد علیہ السلام کو پرندوں کی بولیاں سمجھنے کی صلاحیت بھی اللہ نے بخشی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد کو ایک نیک بخت صالح بیٹا عطاء فرمایا جن کا نام سلیمان تھا۔ (ص:۳۰)اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی نبی بنا دیا اور دعوت و تبلیغ اور امور سلطنت میں داؤد علیہ السلام کے قوت بازو بن گئے۔

ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ دو عورتیں کہیں جا رہی تھیں ان کے ساتھ ان کے لڑکے بھی تھے ایک بھیڑیا آیا اور ایک کے لڑکے کو لے گیا۔ ہر ایک عورت دوسری سے کہنے لگی کہ بھیڑیئے نے تیرے لڑکے کو لیا ہے۔ مقدمہ داؤد علیہ السلام کی عدالت میں پہنچا داؤد علیہ السلام نے بڑی عمر کی عورت کے حق میں فیصلہ کیا، اور پھر وہ دونوں باہر نکلیں تو سلیمان علیہ السلام سے ان کی ملاقات ہوئی انہوں نے مقدمہ اور داؤد علیہ السلام کا فیصلہ انہیں سنایا۔ سلیمان علیہ السلام نے فرمایا چھری لاؤ تاکہ میں اس لڑکے کو دو ٹکڑے کر کے دونوں میں تقسیم کر دوں۔ ان میں سے جو چھوٹی تھی وہ کہنے لگی اللہ آپ پر رحم فرمائے ایسا نہ کیجئے یہ اسی کا لڑکا ہے۔ یہ سن کر سلیمان علیہ السلام نے چھوٹی عورت کے حق میں فیصلہ کیا۔         (بخاری)

نوٹ:تاریخ میں ہے کہ داؤد علیہ السلام نے بنی اسرائیل پر چالیس سال حکومت کرنے کے بعد سو سال کی عمر میں وفات پائی۔ اور داؤد علیہ السلام کی عمر ۶۰ سال تھی آدم علیہ السلام نے اپنی عمر میں سے ۴۰ سال ان کو تحفہ میں دیئے تھے۔

داؤد علیہ السلام کی وفات

حدیث میں ہے کہ جب داؤد علیہ السلام گھر کے باہر جاتے تو گھر کے دروازے بند کر دیتے تھے۔ ایک دن وہ گھر کے دروازے بند کر کے چلے گئے تو ان کی بیوی نے دیکھا کہ ایک شخص گھر کے وسط میں کھڑا ہے۔ بیوی کہنے لگی یہ گھر میں کیسے داخل ہو گیا۔ اتنے میں داؤد علیہ السلام واپس آ گئے داؤد علیہ السلام نے پوچھا تم کون ہو اس نے کہا: میں نہ بادشاہوں سے ڈرتا ہوں اور نہ حجاب سے روکتا ہوں داؤد علیہ السلام نے کہا تو پھر تم ملک الموت ہو۔ الغرض ملک الموت نے ان کی روح قبض کر لی۔      (مسند احمد)

 

 

 

سلیمان علیہ الصلاۃ والسلام

 

 

سلیمان داؤد علیہ السلام کے صاحبزادے اور ان کے جانشین تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا رسول بنا کر لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا تھا۔         (ص:۳۰، الانعام:۸۵)

سلیمان بھی پرندوں کی بولی سمجھ جایا کرتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہوا کو ان کے تابع کر دیا، ہوا ان کے حکم سے چلتی تھی وہ اس کے ذریعہ سفر کیا کرتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے شیاطین اور جنات کو ان کے قابو میں کر دیا، جنات ان کے حکم سے مکانات تعمیر کرتے تھے۔ اور سمندروں میں غوطے لگاتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ جنات سلیمان علیہ السلام کے اور بھی کئی کام کرتے تھے۔ (انبیاء:۸۱، ۸۲، سبا:۱۲، ۱۳)

سلیمان جنات کی غلطی پر انہیں سزا بھی دیا کرتے تھے بعض جنات کو زنجیروں سے باندھ دیا کرتے تھے۔ (ص:۳۸)

سلیمان علیہ السلام بڑی شان و شوکت والے بادشاہ تھے ان کا ایک محل تھا جس کا فرش شیشے کا بنا ہوا تھا۔ (النمل:۴۴)

الغرض اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کو ہر قسم کی نعمت عطاء کی تھی۔ ایک دن سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کو حاضر ہونے کا حکم دیا، سوائے ہد ہد کے سب پرندے حاضر ہو گئے۔ سلیمان علیہ السلام نے کہا کیا ہدہد غیر حاضر ہے۔ اگر وہ غیر حاضر ہے تو اسے سخت سزادوں گا یا وہ اپنی غیر حاضری کی کوئی معقول وجہ پیش کرے۔ کچھ ہی دیر کے بعد ہدہد آ گیا اس نے سلیمان علیہ السلام سے کہا مجھے ایک ملک کا پتہ چلا ہے جس کا آپ کو ابھی تک پتہ نہیں وہ ملک سبا ہے اور میں نے اس ملک کے متعلق ایک یقینی خبر لایا ہوں۔ (نوٹ:سبا یہ یمن میں واقع ہے، ملک سبا پر ایک عورت حکومت کرتی ہے اور اس کا ایک بڑا عظیم الشان تخت ہے۔ جس پر وہ بیٹھتی ہے۔ اور وہ اور اس کی قوم اللہ کے علاوہ سورج کی عبادت کرتے ہیں۔ ہدہد کی یہ تقریر سننے کے بعد سلیمان علیہ السلام نے ہدہد سے فرمایا اچھا ہم دیکھتے ہیں کہ تو سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ بول رہا ہے۔

سلیمان علیہ السلام نے فوراً ملکہ سبا کے نام ایک خط لکھا اور اس کو اسلام کی دعوت دی، خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ میرے مقابلہ میں سر کشی نہ کرو اور مسلم بن کر آ جاؤ۔ خط لکھنے کے بعد انہوں نے ہدہد سے کہا میرا یہ خط لے جا اور ملکہ سبا پر ڈال دے۔ پھر ان سے ذرا ہٹ جا اور دیکھتا رہ کہ وہ کیا کرتے ہیں۔

ہدہد نے وہ خط لیا اور ان کے اوپر ڈال دیا۔ ملکہ نے جب اس خط کو دیکھا تو اپنے سرداروں اور وزیروں سے کہا میرے پاس ایک معزز خط ڈالا گیا ہے۔ یہ خط سلیمان علیہ السلام کی طرف سے ہے اس کی ابتدا بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوئی۔ اس میں لکھا ہے کہ سر کشی نہ کرو اور مسلم بن کر میرے پاس آ جاؤ، اے سرداروں !مجھے رائے دو کہ اس معاملہ میں مجھے کیا کرنا چاہیئے ؟ سرداروں نے کہا ہم بڑے طاقتور اور بڑے جنگجو لوگ ہیں حکم دینا آپ کا کام ہے تعمیل کرنا ہمارا کام ہے۔ ملکہ سبا نے کہا:بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس بستی کو خراب کر دیا کرتے ہیں اور وہاں کے عزت دار لوگوں کو ذلیل کر دیا کرتے ہیں۔

میں ان کو ایک ہدیہ(تحفہ) بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ قاصد کیا جواب لاتے ہیں۔ جب قاصد سلیمان علیہ السلام کے دربار میں پہنچے تو سلیمان نے کہا کیا تم لوگ مال و دولت سے میری مدد کرنا چاہتے ہو مجھے اللہ نے بہت کچھ دیا ہے۔ تم اپنے تحفے سمیت واپس جاؤ ہم تمہارے پاس ایسے لشکر لے کر آئیں گے جن کا مقابلہ تم نہیں کر سکو گے۔

جب وہ قاصدواپس چلے گئے تو ملکہ سبا اظہار اطاعت کے لئے فلسطین روانہ ہوئی ادھر سلیمان علیہ السلام نے اپنے سرداروں سے کہا: تم میں سے کون ملکہ سبا کا تخت میرے پاس لے آئے گا اس سے قبل کہ وہ میرے پاس مسلم بن کر آئیں، ایک شخص (جس کو کتاب کا علم تھا)نے کہا میں تخت کو اس سے پہلے کہ آپ کی پلک چھپکے آپ کے پاس لے آؤں گا، اور اتنی دیر میں وہ لے بھی آیا، سلیمان علیہ السلام نے جب تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا یہ سب رب کا فضل ہے۔

نوٹ:جو تخت لے کر آیا یہ کون تھا اس میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں یہ آدمی تھاجس کا نام آصف بن برخیا تھا۔ بعض نے کہا یہ جبریل علیہ السلام تھے عام مشہور بات یہ ہے کہ وہ آدمی آصف بن برخیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ طاقت دی کہ وہ اتنی جلدی میں تخت لے آیا۔ واللہ تعالیٰ اعلم

سلیمان علیہ السلام نے حکم دیا کہ اس تخت میں کچھ رد و بدل کر دو، ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ راہ راست پر آتی ہے یا گمراہی پر جمی رہتی ہے۔ جب ملکہ سبا سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچی تو اس سے پوچھا گیا کیا تمہارا تخت بھی ایسا ہی ہے ملکہ نے کہا گویا یہ وہی ہے اور ہمیں تو پہلے ہی علم ہو گیا تھا کہ آپ واقعی نبی ہیں اور ہم مسلم ہو گئے تھے۔

سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا کو مزید حیرت میں ڈالنے کے لئے اس سے کہا محل کے اندر چلو، وہ محل کے اندر داخل ہوئی اسے محسوس ہوا کہ محل کے فرش پر پانی کھڑا ہوا ہے اس نے اپنے کپڑے اٹھائے اور پنڈلی کھول دی، سلیمان علیہ السلام نے کہا یہ پانی نہیں ہے یہ ایسا محل ہے کہ اس کا فرش شیشے کا بنا ہوا ہے۔ اس پر ملکہ سبا کا ایمان اور بھی مضبوط ہو گیا۔

نوٹ: تاریخ میں اس عورت کا نام بلقیس لکھا ہے۔

اسی طرح تاریخ میں مشہور بات یہ ہے کہ اس سے سلیمان علیہ السلام نے شادی کر لی اسی طرح تاریخ میں ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے ان کی شادی ان کی حسب خواہش ہمدان کے بادشاہ سے کر دی تھی۔ جو سبا ملک کے قریب تھے۔ تو سلیمان علیہ السلام نے یمن اور سبا کا اقتدار بھی اسی کو سونپ دیا تھا۔

سلیمان علیہ السلام کو جہاد کا بڑا شوق اور ولولہ تھا ان کی سو۱۰۰ بیویاں تھیں ایک دن جوش جہاد میں فرمایا آج رات کو میں ۱۰۰ بیویوں کے پاس دورہ کروں گا ہر ایک سے ایک ایک مجاہد پیدا ہو گا جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا۔ اور ان شاء اللہ کہنا یاد ہی نہیں آیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کسی بیوی کو حمل نہیں ٹھہرا سوائے ایک بیوی کے جس کے ہاں آدھا بچہ پیدا ہوا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر سلیمان علیہ السلام ان شاء اللہ کہہ لیتے تو وہ سب پیدا ہوتے اور اللہ کے راستے میں جہاد کرتے۔         (بخاری، مسلم)

اس کے بعد سلیمان علیہ السلام نے اللہ کی طرف رجوع کر کے اللہ سے معافی مانگی اللہ نے ان کی دعا قبول فرمائی ان کو معاف کر دیا۔         (ص:۳۴، ۳۵)

نوٹ:یعقوب علیہ السلام نے مسجد بیت المقدس کی بنیاد ڈالی تھی اور بنائی تھی۔ پھر سلیمان علیہ السلام نے اس کی تجدید کی، نہ یہ کہ سلیمان علیہ السلام نے اس کی بنیاد ڈالی اس کی دلیل یہ ہے کہ حدیث میں ہے :

عن ابی ذر قال قلت یا رسول اللہ ای مسجد وضع اولا؟قال:المسجد الحرام قلت:ثم ای ؟قال مسجد بیت المقدس۔ قلت کم بینھما؟قال اربعون سنۃ۔    (بخاری، مسلم)

اور ابراہیم علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کے درمیان چار ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ گذرا ہے۔ جب سلیمان علیہ السلام بیت المقدس کی تجدید و تعمیر کی تکمیل کے قریب پہنچے تو تین دعائیں کیں۔

(۱)میں ایسا فیصلہ کروں جو اللہ کے فیصلہ کے موافق ہو۔

(۲)ایسی حکومت مجھے ملے جو دوسرے کو نہ ملے۔

(۳)جو شخص بھی اس مسجد میں آ کر نماز پڑھے تو وہ گناہوں سے ایسا پاک ہو جائے جیسا وہ پیدائش کے وقت تھا ان کی پہلی دو دعائیں قبول ہو گئیں۔   (نسائی، ابن ماجہ)

تاریخ میں ہے کہ ہیکل (مسجد اقصیٰ) کی تعمیر میں سات سال لگے۔ سلیمان علیہ السلام کی اس عظیم الشان حکمرانی کے متعلق ان کی وفات کے بعد یہود کہتے تھے کہ یہ جادو کے ذریعے کر رہے تھے۔ اور یہود جادو کرتے تھے اور یہ دعویٰ تھا کہ انہوں نے سلیمان سے حاصل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کو جادو سے بری قرار دیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جادو کفر ہے سلیمان نے یہ کفر ہرگز نہیں کیا۔ (بقرہ:۱۰۲)

سلیمان علیہ السلام کی وفات

سلیمان علیہ السلام کے حکم سے جنات تعمیر وغیرہ کا کام کرتے رہتے تھے۔ سلیمان عصا کے سہار کھڑے ہوئے عبات کر رہے تھے کہ اسی حالت میں ان کو موت آ گئی۔ موت کے بعد بھی ان کا جسم اسی طرح کھڑا رہا جنات جو مختلف کاموں میں مشغول رہا کرتے تھے یہی سمجھتے رہے کہ سلیمان علیہ السلام زندہ ہیں لہٰذا وہ بدستور اپنے اپنے فرائض ادا کرتے رہے۔

سلیمان علیہ السلام کے عصا (لاٹھی)کو دیمک نے کھا لیا عصا گر پڑا اور اس کے ساتھ سلیمان علیہ السلام کا جسم بھی گر پڑا۔ اب جنات کو معلوم ہوا کہ سلیمان وفات پا چکے ہیں۔ سلیمان علیہ السلام کی وفات کا علم ہوتے ہی جنات نے کام چھوڑ دیا۔ اور اب انہیں اور انسانوں کو معلوم ہوا کہ وہ غیب کا علم نہیں رکھتے اگر وہ غیب کا علم رکھتے ہوتے تو سلیمان علیہ السلام کی وفات کی انہیں خبر ہو گئی ہوتی اور وہ اتنے عرصہ مزید کیوں مصیبت چھیلتے اور تکلیف اٹھاتے۔   (سبا:۱۳، ۱۴)

سیدنا سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد بنی اسرائیل یروشلم میں جمع ہو گئے تاکہ سلیمان کے بیٹا احبعام بن سلیمان کو بنی اسرائیل پر حکمران مقر ر کر دیں۔ لیکن بنی اسرائیل نے رحبعام پر شرط لگا دی کہ وہ زبور اور سلیمان علیہ السلام کے احکام میں تخفیف کریں۔ یعنی بعض سخت مشکل احکامات کو ختم کر دیں۔ لیکن رحبعام کے انکار پر ۱۰ قبائل الگ ہو گئے اور بربعام بن نباط کو حکمران مقر ر کر دیا۔

نوٹ:یربعام بن نباط، یہ سلیمان علیہ السلام کے ایک لشکر کے قائد تھے پھر بغاوت کر کے مصر بھاک گئے تھے سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد واپس فلسطین آ گئے اور ۱۰ قبائل کے حاکم بن گئے۔

اور یہود اور نبیا میں کی نسل نے رحبعام بن سلیمان کو حاکم بنا دیا۔ یہاں سے بنی اسرائیل دو ملکوں میں تقسیم ہو گئے ایک شمال بیت المقدس جس کا دارالحکومت شکیم جو یربعام نے بنایا، دوسرا جنوب بنت المقدس جس کا دارالحکومت یروشلم تھا، اور دونوں ملکوں کے درمیان بہت لڑائیاں اور قتل و غارت ہوئی۔

اسی دوران امبر اطوار لاشوری نے یربعام کی حکومت پر حملہ کر کے ان کی حکومت کو ختم کر دیا اور بنی اسرائیل کو قتل کر دیا۔ جو زندہ رہا ان کو اسیر(قیدی) بنا کر عراق لے گئے اور مصر کے فرعون نے رحبعام کے ملک پر حملہ کر کے ان کی حکومت کو ختم کر دیا۔ اس کے بعد پھر بنی اسرائیل ذلت اور غلامی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہو گئے۔

پھر فارس نے بابل اور فلسطین پر قبضہ کر لیا، اور اسے فتح کیا، فتح کرنے کے بعد فارس والوں نے بنی اسرائیل کے ساتھ نرمی اور شفقت کا رویہ اختیار کیا۔ اور ان کو واپس فلسطین میں جمع ہونے کی اجازت دی، تو بنی اسرائیل مصر اور عراق وغیرہ سے جمع ہوتے رہے چونکہ زیادہ بنی اسرائیل یہودا اور بنیامین کی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لئے اس وقت وہ یہود سے مشہور ہونے لگے اس کے بعد وہ یہود کھلاتے تھے۔

 

 

 

 

یونس علیہ الصلاۃوالسلام

 

حدیث میں ہے کہ یونس علیہ السلام کے والد کا نام متیّٰ ہے۔ (بخاری، مسلم)

یونس علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے نینوی کے شہر میں رہنے والوں کے لئے رسول بنا کر مبعوث کیا، نینویٰ شہر موصل میں واقع ہے۔ جو شمالی عراق میں دریائے دجلہ کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔ یونس علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ سے زائد انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ انہوں نے اپنی قوم کو اللہ کا پیغام ایک مدت تک سنایا اور توحید کی طرف بلایا، لیکن قوم نے ایمان قبول نہیں کیا آخر جب یونس علیہ السلام مایوس ہو گئے تو قوم کو تین دن کی مہلت دی کہ تین دن کے اندر عذاب الٰہی آ جائے گا اور عذاب موعود کے آنے سے پہلے یہ گمان کر کے کہ ایسی صورت میں جب کہ عذاب آنے ہی والا ہے اگر وہ قوم کو چھوڑ کر چلے جائیں تو اللہ تعالیٰ ان کی گرفت نہیں کرے گا وہ قوم کو چھوڑ کر چلے گئے۔ انہوں نے قوم کو چھوڑنے کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے صریح حکم کا انتظار نہیں کیا۔ محض حسن ظن کی بنیاد پر قوم کو چھوڑ دیا۔ (انبیاء:۸۷، ن:۴۸)

قوم کو چھوڑنے کے بعد وہ ایک کشتی میں سوار ہو گئے راستے میں کشتی طوفان کی موجوں میں گھر گئی اور قریب تھا کہ لہروں کی نذر ہو جائے کشتی والوں نے قرعہ اندازی کی کہ کسی کو کشتی کے باہر پھینک دیا جائے تاکہ کشتی کے وزن میں کمی آ جائے اور کشتی کا توازن برقرار رہے۔ قرعہ اندازی میں یونس علیہ السلام کا نام نکلا اور ان کو کشتی کے باہر سمندر میں پھینک دیا گیا، اور ایک بڑی مچھلی نے ان کو نگل لیا۔ اب وہ سمجھ گئے کہ انہوں نے قوم کو چھوڑنے کے سلسلہ میں حکم الٰہی کا انتظار نہ کر کے اچھا نہیں کیا۔ لہٰذا وہ اپنے آپ کو ملامت کرنے لگے اور اس غم و ندامت کے عالم میں مچھلی کے پیٹ ہی میں یہ تسبیح پڑھنی شروع کی’’لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین ‘‘۔

الغرض انہوں نے معافی مانگی اپنی غلطی کا اعتراف کیا اللہ نے ان کو معاف کیا اور اس مشکل سے ان کو نجات دی۔ اللہ کے حکم سے مچھلی نے ان کو ایک کھلے اور صاف میدان میں ڈال دیا۔ اگل دیا۔ مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی وجہ سے وہ بیمار ہو گئے تھے اور ان کی بری حالت تھی۔ اللہ نے ان کے اوپر لوکی کی ایک بیل اگا دی جس سے آپ سایہ بھی حاصل کرتے اور کھانا بھی۔ بعض صحابہ سے ثابت ہے کہ ایک پہاڑی بکری کو اللہ نے انا کے لئے مسخر کیا وہ صبح و شام ان کو دودھ پلایا کرتی تھی۔

نوٹ:یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں کتنے دن رہے اس کے متعلق تاریخ میں مختلف اقوال ہیں۔ ۴۰دن، ۷دن، ۳دن، لیکن بعض صحابہ سے ۴۰ دن کا ثبوت ملتا ہے۔       (مستدرک حاکم)

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس نہ کرتے اور اللہ کا فضل و کرم ان پر نہ ہوتا تو وہ قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔         (صافات:۱۴۳، ۱۴۴)

تاریخ میں ہے کہ یونس کی قوم نے آپ کے چلے جانے کے بعد جب عذاب کے آثار دیکھے تو ایک میدان میں نکل کر جس میں سب چھوٹے بڑے بچے عورتیں حتی کہ جانور بھی شامل تھے اللہ کے حضور گڑگڑائے اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور شرک و بت پرستی سے توبہ کی۔ اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔

نوٹ:یہ واحد قوم تھی جس کو عذاب دکھائے جانے کے بعد بخش دیا گیا تھا۔

پھر اللہ نے یونس علیہ السلام کو ان کی قوم کے ایک لاکھ سے زیادہ افراد کی طرف بھیج دیا، ان کی قوم نے ان کی تصدیق کی اللہ نے ان کو دنیوی عیش و راحت سے سرفراز کیا۔

 

 

 

 

عزیر علیہ الصلاۃ والسلام

 

تاریخ میں مشہور بات یہ ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے ایک نبی تھے۔ اور داؤد و سلیمان علیہما السلام اور زکریا و یحییٰ علیہما السلام کے درمیانی زمانہ میں نبی تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ ایک زمانہ میں توریت بنی اسرائیل سے گم ہو گئی تو عزیر نے تورات کو اپنی یادداشت سے ترتیب دیا، تو یہودی نے ان کو اس کے بعد اللہ کا بیٹا کہنا شروع کر دیا۔

 

 

 

 

زکریا علیہ الصلاۃ والسلام

 

زکریا علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی تھے اور انبیاء بنی اسرائیل میں سے عیسیٰ علیہ السلام کے ہم عصر تھے۔ زکریا علیہ السلام کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی وہ فکر مند رہا کرتے تھے کہ دین کے کام کو کون سنبھا لے گا۔ رشتہ داروں میں سے انہیں اس سلسلہ میں کوئی امید نہیں تھی بلکہ انہیں اندیشہ تھا کہ کہیں وہ دین کے لئے نقصان دہ ثابت نہ ہوں۔    (مریم:۵)

سیدہ مریم علیہا السلام عمران کی بیٹی اور عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ تھیں۔ جب رحم مادر میں تھیں تو ان کی والدہ نے ان کو اللہ تعالیٰ کی نذر کر دیا تھا۔ جب سیدہ مریم علیہا السلام پیدا ہوئیں تو اللہ تعالیٰ نے زکریا علیہ السلام کو ان کا کفیل( نگران) بنا دیا۔ زکریا جب کبھی سیدہ علیہا السلام کے پاس جاتے تو دیکھتے کہ ان کے پاس کھانے کی چیزیں اور تازہ پھل رکھے ہوئے ہیں ایک دن انہوں نے مریم سے پوچھا کہ یہ کھانے کی چیزیں تمہارے پاس کہاں سے آتی ہیں ؟ مریم نے جواب دیا کہ:اللہ تعالیٰ کے پاس سے وہ جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق مہیا فرماتا ہے۔ تب زکریا علیہ السلام کو اپنے بے اولاد ہونے کا احساس ہوا۔ اور لڑکے کے لئے دعا کرنے کا خیال آیا اور انہیں توقع ہوئی کہ جو اللہ تعالیٰ غیب سے رزق مہیا کر سکتا ہے وہ غیب سے بغیر مادی اسباب کے لڑکا بھی دے سکتا ہے۔

نوٹ:مریم علیہا السلام کی والدہ نے مریم کو مسجد کی خدمت کے لئے وقف کر دیا تو مسجد کے یا بنی اسرائیل جو علماء تھے ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہ مریم کی کفالت اپنے ذمے لے، زکریا چونکہ ان کے خالو تھے اس لئے انہوں نے استحقاق کا دعویٰ کیا مگر فیصلہ قرعہ اندازی سے ہوا۔ اور زکریا علیہ السلام کا نام نکلا تو زکریا علیہ السلام نے مریم کی کفالت و نگرانی کا ذمہ لے لیا۔

زکریا علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی اے میرے رب!مجھے ایسا فرزند عطا فرما جو بہت نیک ہو اور تجھ سے محبت کرنے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے زکریا علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اور فرشتوں کے ذریعہ انہیں لڑکا ہونے کی خوشخبری سنائی کہ اللہ آپ کو ایک بیٹے کی ولادت کی خوشخبری دیتا ہے اس لڑکے کا نام ’’یحییٰ ‘‘ ہو گا اور یہ ایسا نام ہے کہ اس سے پہلے اس نام کا کوئی آدمی پیدا نہیں ہوا۔

جب زکریا علیہ السلام نے یہ خوشخبری سنی تو تعجب سے پوچھا:اے میرے رب!میرے یہاں لڑکا کیسے ہو گا؟ میری بیوی بانجھ ہے اور میں حد سے زیادہ بوڑھا ہو چکا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اسی حالت میں ہو گا تمہارے رب کے لئے یہ کام کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ زکریا علیہ السلام نے عرض کیا:اے میرے رب!میرے لئے کوئی نشانی مقر ر کر دیجئے کہ اس سے میں پہچان جاؤں کہ اب لڑکا پیدا ہونے والا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نشانی یہ ہے کہ تم تین دن اور تین راتیں مسلسل کسی سے بات نہ کرو لیکن اپنے رب کا ذکر کثرت سے کرتے رہو۔ اگر کسی ضرورت سے کسی سے کچھ کہنا ہو تو صرف اشارہ کر دو۔ یعنی ان کی زبان پر مہر لگا دی گئی باوجود تندرستی کے وہ بات نہیں کر سکتے تھے۔

الغرض زکریا علیہ السلام نے ایسا ہی کیا اللہ تعالیٰ نے انہیں لڑکا عنایت فرمایا اس لڑکے کا نام اللہ تعالیٰ کے فرمان کے بموجب یحییٰ رکھا گیا۔         (مریم:۱۰، ۱۱، آل عمران:۴۱)

نوٹ:زکریا علیہ السلام کی وفات کے سلسلہ میں نہ قرآن اور نہ حدیث میں کوئی ذکر موجود ہے۔

 

 

 

یحییٰ علیہ الصلاۃ والسلام

 

ان کا نام اللہ تعالیٰ نے یحییٰ رکھ دیا۔ (مریم :۷، ۸، آل عمران:۴۰)

ان کو اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی میں نبوت عطاء فرمائی تھی۔         (آل عمران:۳۹، مریم:۱۲، ۱۳)

اور انہی کے زمانے میں عیسیٰ علیہ السلام نبی ہوئے۔ تو یحییٰ علیہ السلام نے ان کی نبوت کی تصدیق کی۔  (انبیاء:۹۰)

تاریخ میں ہے کہ یحییٰ علیہ السلام کی زندگی کا بہت بڑا حصہ صحرا میں بسر ہوا وہ جنگلوں میں خلوت نشین ہوتے اور درختوں کے پتے اور ٹڈیاں ان کی خوراک تھیں۔

حدیث میں ہے : کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پانچ باتوں کے متعلق حکم دیا تھا کہ وہ خود بھی ان پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی اس پر عمل کرنے کا حکم دیں، انہوں نے بنی اسرائیل کو نصیحت کرنے میں کچھ تاخیر کر دی تو عیسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ باتوں پر عمل کرنے کا حکم دیا تو اب یا تو آپ بنی اسرائیل کو ان باتوں کا حکم دیں ورنہ میں حکم دوں گا۔

یحییٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو بیت المقدس میں جمع کیا جب پوری مسجد بھر گئی تو انہوں نے وعظ شروع کیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ باتوں کے متعلق حکم دیا ہے کہ خود بھی ان پر عمل کروں اور تمہیں بھی حکم دوں کہ تم بھی ان پر عمل کرو۔

(۱)پہلا حکم یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ ذرا سا بھی شرک نہ کرو، کیوں کہ جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تو اس کی مثال اس آدمی جیسی ہے جو اپنے خالص مال یعنی سونے یا چاندی سے کوئی غلام خریدے پھر اس سے کہے کہ یہ میرا گھر ہے اور یہ میرا کام ہے لہٰذا میرے لئے کام کرتے رہو اور اپنا عمل(کمائی) مجھے ادا کرتے رہو۔ تو وہ غلام عمل۔ کام۔ کرے اور اپنے آقا کے علاوہ دوسرے کو اپنا عمل۔ کمائی۔ ادا کرے تو تم میں سے کون اس بات کو پسند کرتا ہے ؟ کہ اس کا غلام ہو اور وہ اپنا عمل (کمائی) آقا کے علاوہ کسی اور کو ادا کرے۔ بے شک اللہ نے تم کو پیدا کیا اور تمہیں رزق دیا تو تم اس کے ساتھ ذرا سا بھی شرک نہ کرو۔

اور بے شک اللہ نے تمہیں نماز کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا جب تم اپنے چہرے کو نماز میں قائم کر دو تو ادھر ادھر نہ دیکھو اس لئے کہ اللہ اپنا چہرہ اپنے بندے کے لئے قائم کر دیتا ہے۔ جب تک وہ بندہ نماز پڑھتا ہے اور اس سے منہ نہیں پھیرتا۔ جب تک بندہ اپنا چہرہ اس کی طرف سے نہ پھیر لے۔

اور اللہ تمہیں روزوں کا حکم دیتا ہے تو روزہ دار کی مثال اس شخص جیسی ہے جو کسی جماعت میں ہو اور اس کے پاس تھیلی ہو جس میں مشک(خوشبو) ہو سب کے سب کو اس کی خوشبو پسند آتی ہے۔ اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک (کستوری کی)خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

اللہ تمہیں صدقے کا حکم دیتا ہے تو صدقہ دینے والے کی مثال اس شخص جیسی ہے جس کو دشمن نے قید کر لیا ہو اور ہاتھ گردن سے باندھ دیا ہو پھر اس کو اس کی گردن مارنے کے لئے آگے کیا ہواس وقت وہ کہے کہ میں قلیل یا کثیر مال سے اپنے نفس کا فدیہ دیتا ہوں پھر وہ اپنے نفس کا فدیہ دے ( اور بچ جائے )

اور اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ اس کا ذکر کیا کرو ذکر کرنے والے کی مثال اس شخص جیسی ہے جس کے پیچھے دشمن دوڑتا ہوا نکلے یہاں تک کہ وہ ایک قلعہ کے پاس پہنچے اور اپنی جان بچا لے تو بندہ اسی طرح اپنے نفس کو شیطان سے اللہ کے ذکر کے ذریعے بچا سکتا ہے۔ (ترمذی)

یحییٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی وفات

تاریخ اور بعض صحابہ سے منقول ہے کہ یحییٰ علیہ السلام کے زمانہ میں جو بادشاہ تھا وہ اپنی بھتیجی سے نکاح کرنا چاہتا تھا تو یحییٰ نے منع کیا اور وہ ہر روز بھتیجی کی ایک ضرورت(حاجت) پوری کرتا تھا۔ جب بھتیجی کی ماں کو یہ معلوم ہوا تو اس نے اپنی لڑکی سے کہا جب تو بادشاہ کے پاس جائے اور وہ تجھ سے تیری ضرورت حاجت کے متعلق سوال کر تو اس سے کہنا کہ میری حاجت یہ ہے کہ تو یحییٰ علیہ السلام کو ذبح کر دے تو بادشاہ نے یحییٰ علیہ السلام کو بلایا اور ذبح کر دیا۔ ان کے خون کا ایک قطرہ زمین پر گرا اور وہ خون جوش مارتا رہا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ’’بخت نصر ‘‘ کو بھیجا۔ بنی اسرائیل کی ایک بوڑھی عورت اس کے پاس گئی اور وہ جوش مارتا ہوا خون اسے دکھایا۔

اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ جب تک خون کا جوش ختم نہ ہو وہ اس ملک کے لوگوں کو قتل کرتا رہا اس نے ۷۰ ہزار آدمی قتل کئے اس کے بعد وہ ٹھہر گیا۔    (حاکم)

نوٹ: تاریخ میں ہے کہ زکریا اور عمران کی بیویاں بہنیں تھیں۔ ایک اور قول ہے کہ زکریا مریم کی بہن کے شوہر تھے یعنی زکریا علیہ السلام مریم کے بہنوئی تھے۔

مریم رحمہا اللہ

مریم جب پیدا ہوئیں تو ان کی کفالت اور نگرانی زکریا علیہ السلامے اپنے ذمے لی، اور زکریا علیہ السلام نے ان کو اپنے عبادت خانہ میں رکھا اور ان کی خبر گیری کرتے رہے۔ ۔ ۔ اور ان کے پاس کھانے کی چیزیں رکھی ہوئی تھیں۔

وہ گود میں بھی بات کرے گا اور ادھیڑ عمر میں بھی بات کرے گا۔ مریم نے کہا اے میرے رب! میرے یہاں لڑکا کیسے ہو گا جب کہ کسی مرد نے مجھے ہاتھ تک نہیں لگایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اسی طرح اللہ پیدا کرے گا۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے الغرض تمہارے ہاں لڑکا ہو گا اللہ اس لڑکے کو کتاب و حکمت اور توریت و انجیل کی تعلیم دے گا اور بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گا۔ (آل عمران:۴۷، ۴۹)

الغرض :اللہ تعالیٰ نے ان کے رحم میں ایک روح پھونک دی اور کلمہ ’’کن ‘‘ سے عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کر دیا۔ الغرض اللہ کی قدرت سے مریم حاملہ ہو گئیں (۹مہینے کی حاملہ تھیں )۔ جب وضع حمل کا وقت قریب آیا تو وہ کھجور کے ایک تنے کے پاس چلی گئیں اور کہنے لگیں :اے کاش میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی(نہ یہ بچہ ہوتا اور نہ کوئی تہمت لگاتا)وہ یہ سوچ ہی رہی تھیں کہ فرشتے نے انہیں آواز دی اس نے کہا:غمگین نہ ہو یہ دیکھو تمہارے رب نے تمہارے لئے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے اس میں سے پانی پیو اور کھجور کے تنے کو اپنی طرف کھینچ کر ہلاؤ تم پر ترو تازہ کھجوریں جھڑیں گی۔ پھر جب تمہارے ہاں بچہ پیدا ہو جائے اور تم کسی انسان کو دیکھو تو اس سے بات نہ کرنا اگر کوئی تم سے بات کرے تو اشارہ سے کہہ دینا کہ میں نے اللہ کے لئے روزہ رکھنے کی نذر مانی تھی۔ لہٰذا آج میں کسی سے بات نہیں کر سکتی۔

بعض روایات میں ہے کہ اس زمانے میں روزے میں کھانا پینا اور بات چیت چھوڑ دینا ہوتا تھا۔ الغرض عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہو گئے اور مریم نے انہیں گود میں لیا اور اپنی قوم کے پاس آئیں۔ جب قوم نے دیکھا کہ مریم کے ہاں بغیر شوہر کے لڑکا ہے تو انہوں نے ان پر تہمت لگائی اور کہنے لگے اے مریم!نہ تمہارا باپ برا آدمی تھا اور نہ تمہاری ماں ہی بدکار تھی۔ یہ تو تم نے بہت ہی برا کام کیا۔ مریم نے فرشتے کی ہدایت کے بموجب ان سے کوئی بات نہیں کی اور صرف یہ کیا کہ بچہ کی طرف اشارہ کر دیا، یعنی اس بچہ سے پوچھ لو، قوم نے کہا ہم ایسے بچے سے کیسے بات کریں۔ اس وقت عیسیٰ علیہ السلام خود ہی بول اٹھے انہوں نے کہا:میں اللہ کا بندہ ہوں، اللہ نے مجھے نبی بنایا، میرے اوپر سلام ہے جس دن میں پیدا ہوا، جس دن میں مروں گا اور جس دن میں زندہ ہو کر دوبارہ اٹھایا جاؤں گا۔    (مریم:۲۷تا۳۳)

قرآن میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مریم کو منتخب فرمایا انہیں پاک و صاف بنایا اور ان کو تمام جہانوں کی عورتوں پر پسندیدہ کیا۔  (آل عمران:۴۲)

 

 

 

 

عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام

 

عیسی ٰ علیہ السلام مریم کے لڑکے تھے اور بغیر باپ کے، مریم کے بچن سے معجزانہ طور پر پیدا ہوئے تھے۔ اور سلسلہ انبیائے بنی اسرائیل کے آخری نبی ہیں۔ اور ’’بیت الحم ‘‘ فلسطین میں پیدا ہوئے۔ پیدائش کے بعد سے لے کر بڑے ہونے اور دعوت و تبلیغ شروع کرنے تک عیسیٰ علیہ السلام کہاں رہے قرآن و حدیث اور صحابہ سے اس کے متعلق کوئی معلومات میسر نہیں ہیں۔

جب عیسیٰ علیہ السلام بڑے ہوئے تو ان پر نزول وحی کا آغاز ہوا، تو انہوں نے تبلیغ شروع کی اور اپنی قوم سے کہا میں تمہاری طرف رسول بھیجا گیا ہوں اور اس سلسلہ میں تمہارے رب کی طرف سے نشانیاں لے کر آیا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ میں تمہارے اطمینان کے لئے مٹی سے پرندے کی شکل بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے۔ اور میں مادر زاد اندھوں کو بینا اور برص کے مریضوں کو صحتیاب کرتا ہوں اللہ کے حکم سے، اور میں اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتا ہوں اور میں تمہیں یہ بھی بتاتا ہوں کہ تم نے کیا کھایا ہے اور اپنے گھروں میں کیا کیا ذخیرہ کیا ہے۔ اور میں بعض ایسی چیزیں جو تم پر( تمہاری سرکشی کی وجہ سے ) حرام کر دی گئی تھیں ان کو حلال کرتا ہوں۔ میں تمہارے پاس دلائل و براہین اور حکمت کی باتیں لے کر آیا ہوں۔ او جن چیزوں میں تم اختلاف کر رہے ہو ان میں فیصلہ کر رہا ہوں کہ کون سی چیز صحیح ہے اور کون سی غلط۔

لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو میرا اور تمہارا رب صرف اللہ تعالیٰ ہے اسی کی عبادت کرو۔ یہی صراط مستقیم ہے۔  (آل عمران:۴۹تا۵۱، الزخرف:۶۳، ۶۴)

اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو طرح طرح کے معجزے دئے تھے اور روح القدس (جبریل) سے ان کی تائید کی تھی۔ لیکن کفار نے عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ عیسیٰ علیہ السلام نے کہا: کون ہے جو اللہ کے راستہ میں میری مدد کرے ؟ حواریوں (یہ وہ لوگ تھے جو عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے تھے ) نے کہا ہم اللہ کے راستہ میں آپ کے مددگار ہیں آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلم ہیں۔ ایک دن حواریوں نے عیسیٰ علیہ السلام سے کہا: کیا آپ کا رب ایسا کر سکتا ہے کہ ہم پر اسمان سے ایک دستر خوان نازل فرما دے۔

نوٹ:بعض صحابہ سے ثابت ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے حکم پر حواریوں نے تین روزے رکھے۔ روزے پورے کرنے کے بعد انہوں نے دستر خوان نازل ہونے کا مطالبہ کیا۔

عیسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا:اللہ سے ڈرو مومن کے لئے ایسا مطالبہ کرنا اچھا نہیں ہے۔ حواریوں نے جواب دیا کہ ایمان تو ہم بے شک لے آئے ہیں۔ ہم تو بس یہ چاہتے ہیں کہ اس دستر خوان سے کھاتے رہیں اور ہمارے دلوں کو اطمینان ہو جائے کہ جو آپ نے ہم سے کہا ہے وہ بالکل سچ ہے۔

عیسیٰ علیہ السلام نے حواریوں کا یہ جواب سن کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی: اے ہمارے رب!ہم پر آسمان سے ایک دستر خوان نازل فرما دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:میں تم پر دستر خوان تو نازل کر دوں گا لیکن یہ یاد رکھو کہ اس کے نازل ہونے کے بعد جو شخص کفر کرے گا تو میں اس کو سخت عذاب دوں گا۔

عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا اور اپنی قوم کو بشارت دی کہ میرے بعد احمد نام کا ایک رسول آئے گا۔ تمہارے لئے اس پر ایمان لانا اور اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔ ان وعظ اور نصیحتوں کے باوجود بنی اسرائیل مخالفت پر ڈٹے رہے اور بالآخر عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کی سازش کی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے حسب وعدہ عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھا لیا، بنی اسرائیل عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہ کر سکے اور نہ پھانسی دے سکے۔ البتہ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے شبہ میں کسی اور کو پھانسی دے دی، اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی تمام شرارتوں سے محفوظ رکھا۔ (نساء:۱۵۷، ۱۵۸)

تاریخ میں ہے کہ جب بنی اسرائیل نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔ تو اس وقت کے بادشاہ کو بھی عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف ابھارا تو سب نے مل کر عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کرنے کی سازش تیار کر لی اور عیسیٰ علیہ السلام کے ایک شاگرد کو۳۰ دینار پر جاسوسی کے لئے تیار کیا۔ عیسیٰ علیہ السلام اپنے شاگردوں کے ساتھ بیت المقدس گئے عبادت کرنے کے بعد کسی اور جگہ گئے۔ بنی اسرائیل عیسیٰ علیہ السلام کے ایک شاگرد(جس کو جاسوسی کے لئے تیار کیا گیا تھا) کی رہنمائی میں مذکورہ جگہ جہاں عیسیٰ علیہ السلام تھے پہنچے اور اس کا محاصرہ کر لیا تو عین اس وقت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آسمان پر اٹھا لیا اور خود گرفتار کروانے والا(جاسوس) پر عیسیٰ علیہ السلام کی شکل و شباہت طاری کر دی۔ بنی اسرائیل اور حکومت کے اہلکاروں نے اسی کو عیسیٰ علیہ السلام سمجھ لیا اور اسی کو لے جا کر پھانسی پر چڑھا دیا، جیسا کہ سورہ مائدہ ۱۵۷، ۱۵۸ میں مذکور ہے۔

لیکن ابن عباس سے اس کے خلاف نقل ہے :

قال:لما اراداللہ ان یرفع عیسیٰ الی السماءخرج علی اصحابہ وقال:ایکم یلقی علیہ، شبھی فیقتل مکانی فیکون معی فی دجتی، فقال شاب من احدھم سنا، فقال لہ، عیسیٰ اجلس، ثم اعاد علیہم، فقال ذلک شاب فقال لہ:اجلس ثم اعاد علیہم فقال ذالک شاب فقا:انا۔ فقال عیسیٰ انت ھوذاک فالقی علیہ شبہ، عسی ورفع عیسیٰ الی السمائ، قال:وجائ الطلب الیھودفاخذو الشبہ، فقتلوہ ثم صلبوہ، وافترقوا ثلاث فرق، (یعنی اتباع عیسیٰ الحواریین)فقالت طائفۃ کان للہ فینا ماشاء ثم صعد الی السماء وقالت فرقۃ: کان فینا ابن اللہ ماشاء ثم رفعہ اللہ الیہ، وقالت فرقۃ:کان فینا عبداللہ ورسولہ ماشاء ثم رفعہ اللہ الیہ وھؤلاء المسلمون، فتظاہرت الکافرون، علی المسلمۃ، فقتلوھا، فلم یزل الاسلام طاسا، حتی بعث اللہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم (تفسیر طبری)

تاریخ میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اٹھا لیا تو اس وقت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر ۳۴ سال تھی۔

مسئلۃ(۱):عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے نیند کی حالت میں زندہ اٹھا لیا۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ یعنی عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی نشانی ہیں لہٰذا تم اس سلسلہ میں ذرا بھی شک نہ کرو۔       (زخرف:۶۱)

مسئلۃ(۲):قیامت کے قریب اتریں گے۔

معراج کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ملاقات ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام سے ہوئی انہوں نے قیامت کے متعلق مذاکرہ کیا، قیامت کا علم ان میں سے کسی کے پاس نہیں تھا، پھر انہوں نے دجال کا ذکر کیا تو عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: میں اتروں گا اور اسے قتل کروں گا۔     (ابن ماجہ)

الغرض عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے قریب عادل حکمران بن کر نازل ہوں گے۔ اور دمشق کے شرقی سفید منارے کے پاس اتریں گے۔         (بخاری، مسلم)

نزول کے وقت نماز کی اقامت ہو چکی ہو گی، مسلمانوں کا امیر کہے گا نماز پڑھایئے عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے نہیں بہر حال گفتگو کے بعد عیسیٰ علیہ السلام ہی نماز پڑھائیں گے اور وہ اس امت کی قیادت بھی کریں گے۔

نوٹ:عیسیٰ علیہ السلام اترنے کے بعد شریعت محمدی کے تابعدار ہوں گے، اور اترنے کے بعد نبی کی حیثیت نہیں بلکہ ایک حکمران کی حیثیت سے ہوں گے۔ اس لئے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔

اور شریعت محمدی کے احکام اللہ تعالیٰ عیسیٰ کو آسان میں اپنی قدرت و علم وسیع سے سکھائے گا، اور جب اتریں گے اسی وقت امامت کروائیں گے نماز نبوی پڑھائیں گے، اور جہاد بھی کریں گے جو دین محمدی کا ایک حصہ ہے۔

حدیث میں ہے :آسمان سے نازل ہونے کے بعد عیسیٰ علیہ السلام عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کریں گے صلیب کو توڑ ڈالیں گے سوروں (خنزیر) کو قتل کر دیں گے جزیہ اٹھا دیں گے۔        (بخاری)

اور عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت دجال نکل چکا ہو گا اور جب وہ عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھے گا اگرچہ وہ ان کی خوشبو ہی سے گھل گھل کر مر جاتا لیکن عیسیٰ علیہ السلام اسے قتل کر دیں گے۔               (مسلم)

پھر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں کے پاس آئیں گے جن کو اللہ نے دجال سے بچا لیا ہو گا۔ وہ شفقت سے ان کے چہروں پر ہاتھ پھیریں گے اور ان کو ان درجات کی خبر دیں گے جو جنت میں ان کو دیئے جائیں گے۔ وہ ایسے حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام پر وحی بھیجے گا کہ میں نے اپنے ایسی مخلوق نکالی ہیں کہ کوئی ان سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ لہٰذا تم میرے مسلم بندوں کو ان کے شر سے بچانے کے لئے کوہ طور کے پہاڑ پر لے جاؤ، پھر اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اور وہ جس حوض پر سے گذریں گے اور جتنا پانی اس میں ہو گا سب پی جائیں گے پھر چلیں گے یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچیں گے تو کہیں گے ہم نے زمین والوں کو قتل کر کے ختم کر دیا اب آسمان والوں کو بھی قتل کر دیں گے۔ پھر وہ اپنے تیر آسمان کی طرف چلائیں گے اللہ تعالیٰ ان تیروں کو خود آلود کر کے لوٹائے گا وہ سمجھیں گے کہ آسمان کے لوگ بھی مارے گئے۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھ دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج پر عذاب بھیجے گا ان کی گردنوں میں کیڑا پیدا ہو گا تو صبح تک وہ سب اس طرح مر جائیں گے جیسے ایک آدمی مرتا ہے۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی پہاڑ سے زمین پر اتریں گے تو زمین پر ایک بالشت برابر جگہ ان کی بدبو اور گندگی سے خالی نہ پائیں گے۔ پھر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ایسے پرندوں کو بھیجے گا جو بڑے اونٹوں کی گردنوں کے مثل ہوں گے، وہ ان کو اٹھا کر لے جائیں گے اور جہاں اللہ کا حکم ہو گا وہاں ان کو پھینک دیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایسا پانی برسائے گا کہ پوری زمین کو دھلائے گا اور زمین بالکل صاف ہو جائے گی۔      (مسلم)

نوٹ:عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں تمام ملتیں مٹ جائیں گی سوائے اسلام کے اور وہ ۴۰ سال زمین پر رہیں گے پھر وفات پائیں گے، اور مسلمان ان کے جنازے کی نماز پڑھیں گے۔ (مستدرک حاکم)

٭٭٭

تشکر: مرثد ہاشمی، مکتبہ جبرئیل۔ جن کے توسط سے فائل کی فراہمی ہوئی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید