FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

اس نے کہا تھا

اور دو دوسری کہانیاں

 

 

                  چندر دھر شرما گُلیری

ہندی سے رسم الخط کی تبدیلی/ ترجمہ: اعجاز عبید

 

 

 

 

خوشیوں بھری زندگی

 

 

 

 

امتحان دینے کے پیچھے اور اس کا نتیجہ نکلنے کے پہلے دن کس بری طرح بیتتے ہیں، یہ انہیں کو معلوم ہے جنہیں انہیں گننے کا احساس ہوا ہے۔  صبح اٹھتے ہی امتحان سے آج تک کتنے دن گئے، یہ گنتے ہیں اور پھر ‘کہاوتی آٹھ ہفتے’ میں کتنے دن گھٹتے ہیں، یہ گنتے ہیں۔  کبھی کبھی ان آٹھ ہفتوں پر کتنے دن چڑھ گئے، یہ بھی گننا پڑتا ہے۔  کھانے بیٹھے ہیں اور ڈاکیے کے پیر کی آہٹ آئی۔ کلیجہ منھ کو آیا۔  محلے میں تار کا چپراسی آیا کہ ہاتھ پاؤں کانپنے لگے۔  نہ جاگتے چین، نہ سوتے۔ سپنے میں بھی یہ نظر آتا ہے کہ ممتحن  صاحب ایک آٹھ ہفتے کی لمبی چھری لے کر چھاتی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔

میرا بھی برا حال تھا۔  ایل ایل بی کا ریزلٹ اب کی اور بھی دیر سے نکلنے کو تھا۔ نہ معلوم کیا ہو گیا تھا، یا تو کوئی ممتحن مر گیا تھا، یا اس کو پلیگ ہو گیا تھا۔  اس کے پرچے کسی دوسرے کے پاس بھیجے جانے کو تھے۔  بار بار یہی سوچتا تھا کہ پیپروں کی جانچ کے برد سارے ممتحنوں اور رجسٹراروں کو بھلے ہی پلیگ ہو جائے، ابھی تو دو ہفتے معاف کریں۔  نہیں تو امتحانات سے پہلے ہی ان سب کو پلیگ کیوں نہ ہو گیا؟ رات بھر نیند نہیں آئی تھی، سر گھوم رہا تھا، اخبار پڑھنے بیٹھا کہ دیکھتا کیا ہوں لنوٹائپ کی مشین نے چار پانچ  سطریں الٹی چھاپ دی ہیں۔  بس، اب نہیں سہا گیا۔ سوچا کہ گھر سے نکل چلو؛ باہر ہی کچھ جی بہلے گا۔  لوہے کا گھوڑا اٹھایا کہ چل دیئے۔

تین چار میل جانے پر سکون ملا۔  ہرے ہرے کھیتوں کی ہوا، کہیں پر چڑیوں کی چوں چوں اور کہیں کنوؤں پر کھیتوں کو سینچتے ہوئے کسانوں کا سریلا گانا، کہیں دیودار کے پتوں کی سوندھی باس اور کہیں ان میں ہوا کا سی سی کر کے بجنا۔ سب نے میرے امتحان  کے بھوت کی سواری کو ہٹا لیا۔  بائسکل بھی غضب کی چیز ہے۔  نہ دانا مانگے، نہ پانی، چلائے جائیے جہاں تک پیروں میں دم ہو۔  سڑک میں کوئی تھا ہی نہیں، کہیں کہیں کسانوں کے لڑکے اور گاؤں کے کتے پیچھے لگ جاتے تھے۔  میں نے بائسکل کو اور بھی ہوا کر دیا۔  سوچا تھا کہ میرے گھر ستار پور سے پندرہ میل پر کالا نگر ہیں۔ وہاں کی ملائی کی برف اچھی ہوتی ہے اور وہیں میرے ایک دوست رہتے ہیں، وہ کچھ سنکی ہیں۔  کہتے ہے کہ جسے پہلے دیکھ لیں گے، اس سے بیاہ کریں گے۔  ان سے کوئی بیاہ کی چرچا کرتا ہے، تو اپنے اصولوں کے بارے میں تقریر کرنے لگ جاتے ہیں۔  چلو، انہی سے سر خالی کریں۔

خیال پر خیال بندھنے لگا۔  ان کی شادی کا قصہ یاد آیا۔  ان کے پتاجی  کہتے تھے کہ سیٹھ گنیش لال کی اکلوتی بیٹی سے اب کی چھٹیوں میں تمہارا بیاہ کر دیں گے۔  پڑوسی کہتے تھے کہ سیٹھ جی کی لڑکی کانی اور موٹی ہے اور آٹھ سال کی ہی ہے۔  پتاجی کہتے تھے کہ لوگ جل کر ایسی باتیں اڑاتے ہیں؛ اور لڑکی ویسی بھی ہو تو کیا، سیٹھ جی کے کوئی لڑکا ہے نہیں؛ بیس تیس ہزار کے  گہنے دیں گے۔  جناب دوست میرے ساتھ ساتھ ڈبیٹنگ کلبوں میں بچہ شادی اور ماں باپ کی زبردستی پر اتنی تقریریں جھاڑ چکے تھے کہ اب مارے شرم  کے ساتھیوں میں منھ نہیں دکھاتے تھے۔  کیونکہ پتاجی کے سامنے چیں کرنے کی ہمت نہیں تھی۔  اپنی حالت پر سماج کے حالات کا سوچنے لگے۔  ہندو سماج ہی اتنا سڑا ہوا ہے کہ ہمارے اونچے خیالات چل نہیں سکتے۔  اکیلا چنا بھاڑ نہیں جھونک سکتا۔  ہمارے خیالات ایک طرح کے وہ جانور ہیں جن کی قربانی ماں باپ کی ضد کی ویدی پر چڑھائی جاتی ہے۔ ۔۔۔ہندوستان   کا بھلا تب تک نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔

پھس۔س ۔۔س۔۔! ایک دم عرش سے فرش پر گر پڑے۔  بائسکل کی پھونک نکل گئی۔  کبھی گاڑی ناؤ پر، کبھی ناؤ گاڑی پر۔  پمپ ساتھ نہیں تھا اور نیچے دیکھا تو جان پڑا کہ گاؤں کے لڑکوں نے سڑک پر ہی کانٹوں کی باڑ لگائی ہے۔  انہیں بھی دو گالیاں دیں پر اس سے تو پنکچر سدھرا نہیں۔  کہاں تو دیش کی فلاح ہو رہی تھی اور کہاں اب کالا نگر تک اس چرخے کو کھینچ لے جانے کی مصیبت سے کوئی  علاج نظر نہیں آتا۔  پاس کے میل کے پتھر پر دیکھا کہ کالانگر یہاں سے سات میل ہے۔  دوسرے پتھر کے آتے آتے میں بے دم ہو لیا تھا۔  دھوپ جیٹھ کی، اور پتھریلی سڑک، جس میں لدی ہوئی بیل گاڑیوں کی مار سے چھ چھ انچ شکر کی سی باریک پسی ہوئی سفید مٹی بچھی ہوئی! کالے پیٹینٹ لیدر کے جوتوں پر ایک ایک انچ سفید پالش چڑھ گئی۔  لال منھ کو پونچھتے پونچھتے رومال بھیگ گیا اور میری ساری شکل ایک تہذیب یافتہ شخص کی سی نہیں، بلکہ سڑک کوٹنے والے مزدور کی سی ہو گئی۔  سواریوں کے ہم لوگ اتنے غلام ہو گئے ہیں کہ دو تین میل چلتے ہی چھٹی کا دودھ یاد آنے لگتا ہے!

 

2

 

‘بابو جی کیا بائسکل میں پنکچر ہو گیا؟’

ایک تو چشمہ، اس پر ریت کی تہہ جمی ہوئی، اس پر ماتھے سے ٹپکتے ہوئے پسینے کی بوندیں، گرمی کی مصیبت اور کالی رات سی لمبی سڑک۔ میں نے دیکھا ہی نہیں تھا کہ دونوں طرف کیا ہے۔  یہ آواز سنتے ہی سر اٹھایا، تو دیکھا کہ ایک سولہ سترہ سال عمر کی لڑکی سڑک کے کنارے کھڑی ہے۔

‘ہاں، ہوا نکل گئی ہے اور پنکچر بھی ہو گیا ہے۔  پمپ میرے پاس ہے نہیں۔  کالا نگر بہت دور تو ہے نہیں۔ ابھی جا پہنچتا ہوں۔ ‘

آخری جملہ میں نے صرف اینٹھ دکھانے کے لئے کہا تھا۔  میرا جی جانتا تھا کہ پانچ میل پانچ سو میل کےبرابرمحسوس ہو  رہے تھے۔

‘اس صورت میں  تو آپ کالا نگر کیا کلکتے پہنچ جائیں گے۔  ذرا اندر چلیے، کچھ پانی پیجئے۔  آپ کی زبان سوکھ کر تالو سے چپک گئی ہوگی۔  چاچا جی کی بائسکل میں پمپ ہے اور ہمارا نوکر گوبند پنکچر سدھارنا بھی جانتا ہے۔ ‘

‘نہیں، نہیں۔ ‘

‘نہیں، نہیں، کیا، ہاں، ہاں!’

یوں کہہ کر لڑکی نے میرے ہاتھ سے بائسکل چھین لی اور سڑک کے ایک طرف ہو لی۔  میں بھی اس کے پیچھے چلا۔  دیکھا کہ ایک کنٹیلی باڑ سے گھرا باغیچہ ہے جس میں ایک بنگلہ ہے۔  یہیں پر کوئی ‘چاچا جی’ رہتے ہوں گے، لیکن یہ لڑکی کیسی!!

میں نے چشمہ رومال سے پونچھا اور اس کا منھ دیکھا۔  پارسی طرز کی ایک گلابی ساڑی کے نیچے چکنے کالے بالوں سے گھرا ہوا اس کا چہرہ دمکتا تھا اور اس کی آنکھیں میری اور کچھ رحم، کچھ ہنسی اور کچھ تعجب سے دیکھ رہی تھیں۔  بس، ایسی آنکھیں میں نے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔جیسے  وہ میرے کلیجے کو گھول کر پی گئیں۔  ایک عجیب سی کومل، پر سکون روشنی ان میں سے نکل رہی تھی۔  کبھی ایک تیر میں مارا جانا سنا ہے؟ کبھی ایک نگاہ میں دل بیچنا پڑا ہے؟  میں نے ایک سیکنڈ میں سوچا اور فیصلہ کر لیا کہ ایسی سندر آنکھیں تینوں لوکوں میں نہ ہوں گی اور اگر کسی عورت کی آنکھوں کو پیار کے خیال سے کبھی دیکھوں گا تو انھیں کو۔

‘آپ ستار پور سے آئے ہیں۔  آپ کا نام کیا ہے؟’

‘میں جے دیوشرن ورما ہوں۔  آپ کے چاچا جی۔۔۔ ‘

‘او ہو، بابو جے دیوشرن ورما، بی۔اے ؛ جنہوں نے ‘خوش گوار زندگی’ لکھی ہے! میری بڑی خوش قسمتی ہے کہ آپ کے درشن ہوئے! میں نے آپ کی کتاب پڑھی ہے اور چاچا جی تو اس کی تعریف کئے بغیر ایک دن بھی نہیں جانے دیتے۔  وہ آپ سے مل کر بہت خوش ہوں گے۔  بنا کھانا کھائے آپ کو نہ جانے دیں گے اور آپ کی کتاب پڑھنے سے ہمارا خاندان کتنی مسرت سے ہم کنار ہوا ہے، اس پر کم سے کم دو گھنٹے تک تقریر کریں گے۔ ‘

بیوی  کے سامنے اس کے مائیکے کی تعریف کی جائے اور مصنف کے سامنے اس کی کتاب کی۔  یہ بڑا جادوئی منتر ہے ہر دل عزیز بننے کا۔  جس سال میں نے بی۔  پاس کیا تھا اس سال کچھ دن لکھنے کی دھن اٹھی تھی۔  آل کالج کے فرسٹ ایر میں سیکشن اور کوڈ کی پرواہ نہ کر کے ایک ‘خوش گوار زندگی’  نامی کتاب  لکھ چکا تھا۔  نقادوں نے آڑے ہاتھوں لیا تھا اور سال بھر میں کل سترہ کتابیں بکی تھیں۔  آج میری قدر ہوئی کہ کوئی اس کا سراہنے والا تو ملا۔

اتنے میں ہم لوگ برامدے میں پہنچے، جہاں پر کن ٹوپ پہنے، پنجابی ڈھنگ کی داڑھی رکھے ایک ادھیڑ  آدمی کرسی پر بیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے۔

لڑکی بولی۔

‘چاچا جی، آج آپ کے بابو جے دیوشرن ورما بی۔اے   کو ساتھ لائی ہوں۔  ان کی بائسکل بے کار ہو گئی ہے۔  اپنے پسندیدہ مصنف سے ملانے کے لئے کملا کا شکریہ مت ادا کیجیے، دعا دیجیے ان کے پمپ بھول آنے کو!’

بڑے میاں نے جلدی ہی چشمہ اتارا اور دونوں ہاتھ بڑھا کر مجھ سے ملنے کے لئے پیر بڑھائے۔

‘کملا، ذرا اپنی ماتا جی کو بلا لا۔  آئیے بابو صاحب، آئیے۔  مجھے آپ سے ملنے کی بڑی خواہش  تھی۔  میں گلاب رائے ورما ہوں۔  پہلے کمسیریٹ میں ہیڈ کلرک تھا۔  اب پینشن لے کر اس تنہا مقام پر رہتا ہوں۔  دو گائیں رکھتا ہوں اور کملا اور اس کے بھائی پربودھ کو پڑھاتا ہوں۔  میں برہم سماجی ہوں؛ میرے یہاں پردہ نہیں ہے۔  کملا نے ہندی مڈل پاس کر لیا ہے۔  ہمارا وقت شاستروں کے پڑھنے میں بیتتا ہے۔  میری دھرم پتنی  بھوجن بناتی اور کپڑے سی لیتی ہیں،  میں اپنشد اور یوگ واسشٹھ کا ترجمہ پڑھا کرتا ہوں۔  سکول میں لڑکے بگڑ جاتے ہیں، پربودھ کو اس لئے گھر پر پڑھاتا ہوں۔ ‘

اتنا تعارف دے چکنے کے بعد بڑے میاں نے سانس لی۔  مجھے اتنا پتہ چلا کہ کملا کے پتا میری ذات کے ہی ہیں۔  جو کچھ انہوں نے کہا تھا، اس کی طرف  میرے کان متوجہ نہیں تھے۔ میرے کان ادھر تھے، جدھر سے ماں کو لے کر کملا آ رہی تھی۔

‘آپ کی کتاب اپنی قسم کی پہلی ہی  کتاب ہے۔  ازدواجی سکھ چاہنے والوں کے لئے لاکھ روپئے سے بھی انمول ہے۔  مبارک باد کے قابل ہیں آپ! عورتوں کو کیسے خوش رکھنا، گھر میں کیسے جھگڑا نہیں ہونے دینا، بال بچوں کو کیونکر بہتر کردار کا مالک بنانا، ان سب باتوں میں آپ کے مشوروں پر عمل کرنے والا زمین پر ہی جنت کا لطف اٹھا سکتا ہے۔  پہلے کملا کی ماں اور میری کبھی کبھی کھٹ پٹ ہو جایا کرتی تھی۔  اس کے خیال ابھی پرانے ڈھنگ کے ہیں۔  پر جب سے میں روز کھانے کے بعد اسے آدھ گھنٹے تک آپ کی کتاب سنانے لگا ہوں، تب سے ہمارا جیون ہنڈولے کی طرح جھولتے جھولتے بیتتا ہے۔

مجھے کملا کی ماں پر ترس آیا، جس کو وہ کوڑا کرکٹ روز سننا پڑتا ہوگا۔  میں نے سوچا کہ ہندی کے رسائل کے مدیران میں یہ بوڑھا کیوں نہ ہوا؟ اگر ایسا ہوتا تو آج میری طوطی بولنے لگتی۔

‘آپ کو خوش گوار زندگی کا کتنا تجربہ ہے! آپ سب کچھ جانتے ہیں! بھلا، اتنا علم کبھی کتابوں میں ملتا ہے؟ کملا کی ماں کہا کرتی تھی کہ آپ صرف کتابوں کے کیڑے ہیں، سنی سنائی باتیں لکھ رہے ہیں۔  میں بار بار یہ کہتا تھا کہ اس کتاب کے لکھنے والے کو خاندان کا خوب تجربہ ہے۔  مبارک ہیں ہے آپ کی شریک حیات ! آپ کی اور ان کی زندگی کتنی اچھی گزرتی ہوگی! اور جن بچوں کے آپ والد  ہیں، وہ کیسے اچھے مقدر والے ہیں کہ سدا آپ کی تربیت میں رہتے ہیں؛ آپ جیسے والد کی مثال دیکھتے ہیں۔

کہاوت ہے کہ طوائف اپنی حالت کا اظہار کم سے کم کرنا چاہتی ہے جب کہ  سادھو اپنی حالت کو زیادہ سے زیادہ دکھانا چاہتا ہے۔  بھلا، مصنف کا عہدہ ان دونوں میں کس کے برابر ہے؟ میرے من میں آئی کہ کہوں دوں کہ ابھی میری پچیسواں سال چل رہا ہے، کہاں کا تجربہ اور کہاں کا خاندان؟ پھر سوچا کہ ایسا کہنے سے ہی میں بڑے میاں کی نگاہوں سے اتر جاؤں گا اور کملا کی ماں سچی ہو جائے گی کہ بنا تجربے کے چھوکرے نے گھر گرستھی والوں کے لئے کتاب لکھ ماری ہے۔  یہ سوچ کر میں مسکرا دیا اور ایسی طرح منھ بنانے لگا کہ بڑے میاں نے سمجھا کہ ضرور میں سنسار کے سمندر میں غوطے مار کر نہایا ہوا ہوں۔

 

3

 

بڑے میاں نے اس دن مجھے جانے نہیں دیا۔  کملا کی ماتا نے یار سے کھانا کھلایا اور کملا نے پان لا کر دیا۔  نہ مجھے اب کالا نگر کی ملائی کی برف یاد رہی نہ سنکی دوست کی۔  چاچا جی کی باتوں میں ستر فی صدی تو میری کتاب اور ان کے رام کے بانوں کی  قسم کے فوائد کی تعریف تھی، جس کو سنتے سنتے میرے کان دکھ گئے۔  فی سیکڑے پچیس وہ میری تعریف اور میرے بطور شوہر اور بطور والد بڑائی کر  رہے تھے۔  کام کی بات بیسواں حصہ تھی جس سے معلوم پڑا کہ ابھی کملا کا بیاہ نہیں ہوا ہے۔ اسے اپنے پھولوں کی کیاری کو سنبھالنے میں بہت دل چسپی ہے۔ ’سکھی‘ کے نام سے ’مہیلا منوہرُ نامی رسالے میں مضامین بھی لکھا کرتی ہے۔

شام کو میں باغیچے میں ٹہلنے نکلا۔  دیکھتا کیا ہوں کہ ایک کونے میں کیلے کے جھاڑوں کے نیچے موتیے اور رجنی گندھا کی کیاریاں ہیں اور کملا ان میں پانی دے رہی ہے۔  میں نے سوچا کہ یہی موقعہ ہے۔  آج مرنا ہے یا جینا ہے۔  اس کو دیکھتے ہی میرے دل  میں پیار کی آگ بھڑک اٹھی تھی اور دن بھر وہاں رہنے سے وہ دہکنے لگ گئی تھی۔  میں دو ہی پہر میں میں  لڑکے سے نوجوان بن گیا تھا۔  انگریزی ایپکس  میں، پیار محبت کے ناولوں میں اور کورس کے سنسکرت ناٹکوں میں جہاں جہاں عاشق  معشوقہ کی  گفتگو پڑھی تھی، وہاں وہاں کا منظر یاد کر کے وہاں وہاں کے واقعوں کو  کھنگال رہا تھا، پر یہ طے نہیں کر سکا کہ اتنے تھوڑے تعارف پر بھی بات کیسی کرنی چاہئیے۔آخر  میں انگریزی پڑھنے والے کی بے تکلفی نے آریہ کمار کے رکھ رکھاؤ پر فتح پائی اور چالاکی کہئے یا   نا سمجھی، ڈھیٹ پن کہئے،یا پاگل پن کہئے، میں نے دوڑ کر کملا ہاتھ پکڑ لیا۔  اس کے چہرے پر سرخی دوڑ گئی اور ڈولچی اس کے ہاتھ سے

‘کیا؟ یہاں کہنے کی کون سی بات ہے؟’

‘جب سے آپ کو دیکھا ہے تب سے۔’

‘بس چپ کرو۔  ایسی بے تکلفی! ‘

اب میرا گفتگو کا دریا امڈ چکا تھا۔  میں خود نہیں جانتا تھا کہ میں کیا کر رہا ہوں، پر لگا بکنے۔

‘پیاری کملا، تم مجھے جان سے بڑھ کر پیاری ہو؛ پیاری کملا، مجھے اپنا  بھنورا بننے دو۔  میری زندگی تمہارے بغیر ریگستان کی طرح ہے، اس میں ندی بن کر بہو۔  میرے جلتے ہوئے دل میں امرت کی پٹّی بن جاؤ۔  جب سے تمہیں دیکھا ہے، میرا من میرے قابو میں نہیں ہے۔  میں تب تک چین نہ پاؤں گا جب تک تم۔۔۔۔۔ ‘

کملا زور سے چیخ اٹھی اور بولی۔

‘آپ کو ایسی باتیں کہتے شرم  نہیں آتی؟ لعنت ہے آپ کی تعلیم پر اور تف ہے آپ کی تہذیب پر! اسی کو آپ نے تہذیب مان رکھا ہے کہ انجانی لڑکی سے تنہائی ڈھونڈ کر ایسا  قابل نفریں  منصوبہ رکھیں۔  تمہاری یہ ہمت کیسے ہو گئی؟ تم نے مجھے کیا سمجھ رکھا ہے؟ ‘خوش گوار زندگی’ کا مصنف اور ایسا قابل نفرت کردار! چلو بھر پانی میں ڈوب مرو۔  اپنا کالا منھ مت دکھاؤ۔  ابھی چاچا جی کو بلاتی ہوں۔ ‘

میں سنتا جا رہا تھا کیا میں خواب  دیکھ رہا ہوں؟ یہ شعلوں کی بارش میرے کس جرم پر؟ تو بھی میں نے ہاتھ نہیں چھوڑا۔  کہنے لگا، ‘سنو کملا، اگر تمہاری مہربانی ہو جائے، تو خوش گوار زندگی۔ ‘

‘دیکھی تیری خوش گوار زندگی ! آستین کے سانپ! گناہوں کی پوٹلی!! میں نے ادب کا آدمی جان کر اور ایسے اونچے خیالات کا مصنف سمجھ کر تجھے اپنے گھر میں گھسنے دیا اور تیرا احترام کیا تھا۔’

‘لچے! کمینے! میں نے تیری ساری باتیں سن لی ہیں۔ ‘ چاچا جی آ کر لالہ لال آنکھیں دکھاتے ہوئے، غصے سے کانپتے ہوئے کہنے لگے۔ ‘شیطان، تجھے یہیں آ کر مایا جال پھیلانے کی جگہ ملی!  اف! میں تیری کتاب سے دھوکے میں آ گیا۔  پاک زندگی کی تعریف میں کاغذوں کے ورق کالے کرنے والے، تیرا ایسا دل ہے! کمینے ! زہر کے گھڑے۔ ‘

ان کی گالیوں کی دھارا بند ہی  نہیں ہوتی تھی، پر کملا کی گالیاں اور تھیں اور چاچا جی کی الگ۔

میں نے بھی غصے میں آ کر کہا، ‘بابو صاحب، زبان سنبھال کر بولئے۔  آپ نے اپنی بیٹی کو تعلیم دی ہے اور تہذیب سکھائی ہے، میں نے بھی تعلیم حاصل کی ہے اور کچھ تہذیب سیکھی ہے۔  آپ دھرم سدھارک ہیں۔  اگر میں اس کی خوبیوں پر عاشق ہو گیا، تو اپنا پاک ارادہ اسے کیوں نہ بتاؤں؟ پرانے ڈھرے کے والد محض ناراض ہی ہوتے سنے گئے ہیں۔  آپ نے تو سدھار کے نام  کو شرمندہ کیا ہے؟’

‘تم سدھار کا نام مت لو۔  تم تو پاپی ہو۔  ‘خوش گوار زندگی’ کے مصنف ہو کر۔ ‘

بھاڑ میں جائے ‘خوش گوار زندگی’! اسی کے مارے ناکوں دم ہے!! ‘خوش گوار زندگی’ کے مصنف نے کیا یہ قسم کھا لی ہے کہ جنم بھر کنوارا ہی رہے؟ کیا اسے عشق نہیں ہو سکتا؟ کیا اسکے  دل نہیں ہوتا؟’

‘ہیں، جنم بھر کنوارا؟’

‘ہیں کاہے کی؟ میں تو آپ کی بیٹی  سے گزارش  کر رہا تھا کہ جیسے اس نے میرا دل چرا لیا ہے ویسے اگر اپنا ہاتھ مجھے دے دے، تو اس کے ساتھ ‘خوش گوار زندگی’ کے ان آدرشوں کا بذات خود تجربہ کروں، جو ابھی تک میرے تصور میں ہیں۔  بعد ہم دونوں آپ کی اجازت مانگنے آتے۔  آپ تو پہلے ہی  کہانیوں کے راکشس بن گئے۔ ‘

‘تو آپ کا بیاہ نہیں ہوا؟ آپ کی کتاب سے تو جان پڑتا ہے کہ آپ کئی سالوں کی گرستھی کی زندگی کا تجربہ رکھتے ہیں۔  تو کملا کی ماتا ہی سچی تھیں۔ ‘

اتنی باتیں ہوئی تھیں، پر نہ معلوم کیوں میں نے کملا کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔  اتنی گرما گرمی کے ساتھ چل رہی تھی لیکن وہ ہاتھ جو غصے کی وجہ سے لال ہو گیا تھا، میرے ہاتھ میں ہی پکڑا ہوا تھا۔  اب اس میں پسینہ آ گیا تھا اور کملا نے شرم سے آنکھیں نیچی کر لی تھیں۔   (شادی کے بعد کملا کہا کرتی ہے کہ نہ معلوم خدا کے کس ہنر کے باعث اس وقت میں نے تمہیں جھٹک کر اپنا ہاتھ نہیں کھینچ لیا۔  )

میں نے کملا کے دونوں ہاتھ کھینچ کر اپنے ہاتھوں میں لے لئے (اور اس نے انہیں ہٹایا نہیں!) اور اس طرح چاروں ہاتھ جوڑ کر بڑے میاں سے کہا۔

‘چاچا جی، اس نکمی پوتھی کا نام مت لیجیے۔  بیشک، کملا کی ماں سچی ہیں۔  مردوں کی بہ نسبت عورتیں  زیادہ بہتر پہچان سکتی ہیں کہ کون تجربے کی باتیں کہہ رہا ہے اور کون ہانک رہا ہے۔  آپ کی اجازت ہو، تو کملا اور میں دونوں سچی خوش گوار زندگی کی ابتدا کریں۔  دس سال بعد میں جو کتاب لکھوں گا، اس میں کتابی باتیں نہ ہوں گی، اصل تجربوں کا نچوڑ ہوگا۔ ‘

چاچا جی نے جیب سے رومال نکال کر چشمہ پونچھا اور اپنی آنکھیں پونچھیں۔  آنکھوں پر کملا کی ماں کی فتح یاب ہونے کے غم کے آنسو تھے، یا گھر بیٹھی بیٹی کو اچھا رشتہ ملنے کے خوشی کے آنسو، خدا جانے۔

انہوں نے مسکرا کر کملا سے کہا، ‘دونوں میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ۔  کملا! تیری ماں ہی سچ کہتی تھی۔ ‘

بڑے میاں بنگلے کی سمت چلنے لگے۔  ان کی پیٹھ پھرتے ہی کملا نے آنکھیں موند کر میرے کندھے پر سر رکھ دیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

اس نے کہا تھا

 

 

 

بڑے بڑے شہروں کے اکے گاڑی  والوں کی زبان کے کوڑوں سے جن کی پیٹھ چھل گئی ہے، اور کان پک گئے ہیں، ان سے ہماری استدعا ہے کہ امرتسر کے بمبو کارٹ والوں کی بولی کا مرہم لگاویں۔  جب بڑے بڑے شہروں کی چوڑی سڑکوں پر گھوڑے کی پیٹھ چابک سے دھنتے ہوئے، اکے والے کبھی گھوڑے کی نانی سے اپنا قریبی تعلق قائم کرتے ہیں، کبھی راہ چلتے پیدل چلنے والے لوگوں کی آنکھوں کے نہ ہونے پر ترس کھاتے ہیں، کبھی ان کے پیروں کی انگلیوں کے پوروں کو کچل کر اپنے ہی کو ستایا ہوا بتاتے ہیں، اور سنسار بھر کی بے عزتی اور نا امیدی کے اوتار بنے، ناک کی سیدھ میں چلے جاتے ہیں، تب امرتسر میں ان کی برادری والے تنگ چکر دار گلیوں میں، ہر ایک لڈھے والے کے لئے ٹھہر کر صبر کا سمندر امڈ کر بچو خالصہ جی۔  ہٹو بھائی جی۔  ٹھہرنا بھائی۔  آنے دو لالہ جی۔  ہٹو باچھا، کہتے ہوئے گاڑیوں، خچروں اور بطخوں، گنے کے رس اور خوانچے والوں کے جنگل میں سے راہ کھیتے ہیں۔  کیا مجال ہے کہ جی اور صاحب بنا سنے کسی کو ہٹنا پڑے۔  یہ بات نہیں کہ ان کی زبان چلتی نہیں؛ پر میٹھی چھری کی طرح مہین مار کرتی ہوئی۔  اگر کوئی بڑھیا بار بار دینے پر بھی لیک سے نہیں ہٹتی، تو ان کی زبان کے یہ نمونے ہیں۔ ہٹ جا جینے جو گئے؛ ہٹ جا کرماں والئے؛ ہٹ جا پتاں پیاریئے؛ بچ جا لمبی والئے۔  ان کا مطلب ہے کہ تو جینے کے قابل ہے، تو قسمت والی ہے، اپنے بیٹوں کو پیاری ہے، لمبی عمر تیرے سامنے ہے، تو کیوں میرے پہیے کے نیچے آنا چاہتی ہے؟ بچ جا۔

ایسے بمبو کارٹ والوں کے بیچ میں ہو کر ایک لڑکا اور ایک لڑکی چوک کی ایک دوکان پر آ ملے۔  اُس کے بالوں اور اِس کے ڈھیلے کپڑوں سے جان پڑتا تھا کہ دونوں سکھ ہیں۔  وہ اپنے ماما کے کیش دھونے کے لئے دہی لینے آیا تھا، اور یہ باورچی خانے کے لئے بڑیاں۔  دوکاندار ایک پردیسی کے ساتھ مصروف رہا تھا، جو سیر بھر گیلے پاپڑوں کی گڈی کو گنے بنا ہٹتا نہ تھا۔

‘تیرے گھر کہاں ہے؟’

‘مگرے میں؛ اور تیرے؟’

‘مانجھے میں؛ یہاں کہاں رہتی ہے؟’

‘اتر سنگھ کی بیٹھک میں؛ وہ میرے ماما ہوتے ہیں۔ ‘

‘میں بھی ماما کے یہاں آیا ہوں، ان کا گھر گرو بازار میں ہیں۔ ‘

اتنے میں دوکاندار نبٹا، اور ان کا سودا دینے لگا۔  سودا لے کر دونوں ساتھ ساتھ چلے۔  کچھ دور جا کر لڑکے نے مسکرا کر پوچھا،۔ ‘تیری کڑمائی (شادی) ہو گئی؟’ اس پر لڑکی کچھ آنکھیں چڑھا کر دھت کہہ کر دوڑ گئی، اور لڑکا منھ دیکھتا رہ گیا۔

دوسرے تیسرے دن سبزی والے کے یہاں، دودھ والے کے یہاں اچانک دونوں مل جاتے۔  مہینہ بھر یہی حال رہا۔  دو تین بار لڑکے نے پھر پوچھا، تیری کڑمائی ہو گئی؟ اور اتر میں وہی ‘دھت’ ملا۔  ایک دن جب پھر لڑکے نے ویسے ہی ہنسی میں چڑھانے کے لئے پوچھا تو لڑکی، لڑکے کی امید کے خلاف بولی۔ ‘ہاں ہو گئی۔ ‘

‘کب؟’

‘کل، دیکھتے نہیں، یہ ریشم سے کڑھا ہوا سالو۔ ‘ لڑکی بھاگ گئی۔  لڑکے نے گھر کی راہ لی۔  راستے میں ایک لڑکے کو موری میں ڈھکیل دیا، ایک چھابڑی والے کی دن بھر کی کمائی کھوئی، ایک کتے پر پتھر مارا اور ایک گوبھی والے کے ٹھیلے میں دودھ انڈیل دیا۔  سامنے نہا کر آتی ہوئی کسی ویشنوی سے ٹکرا کر اندھے کا خطاب پایا۔  تب کہیں گھر پہنچا۔

 

2

 

‘رام رام، یہ بھی کوئی لڑائی ہے۔  دن رات خندقوں میں بیٹھے ہڈیاں اکڑ گئیں۔  لدھیانہ سے دس گنا جاڑا اور مینہ اور برف اوپر سے۔  پنڈلیوں تک کیچڑ میں دھنسے ہوئے ہیں۔  زمین کہیں نظر آتی نہیں۔ گھنٹے دو گھنٹے میں کان کے پردے پھاڑنے والے دھماکے کے ساتھ ساری خندق ہل جاتی ہے اور سو سو گز دھرتی اچھل پڑتی ہے۔  اس غیبی گولے سے بچے تو کوئی لڑے۔  نگر کوٹ کا زلزلہ  سنا تھا، یہاں دن میں پچیس زلزلے ہوتے ہیں۔  جو کہیں خندق سے باہر صافہ یا کہنی نکل گئی، تو چٹاک سے گولی لگتی ہے۔  نہ معلوم بے ایمان مٹی میں لیٹے ہوئے ہیں یا گھاس کی پتیوں میں چھپے رہتے ہیں۔ ‘

‘ لہنا سنگھ ، اور تین دن ہیں۔  چار تو خندق میں بتا ہی دیئے۔  پرسوں ریلیف آ جائے گی اور پھر سات دن کی چھٹی۔  اپنے ہاتھوں جھٹکا کریں گے اور پیٹ بھر کھا کر سو رہیں گے۔  اسی فرنگی میم کے باغ میں۔ مخمل کا سا ہرا گھاس ہے۔  پھل اور دودھ کی بارش  کر دیتی ہے۔  لاکھ کہتے ہیں، دام نہیں لیتی۔  کہتی ہے، تم راجا ہو، میرے ملک کو بچانے آئے ہو۔ ‘

‘چار دن تک ایک پلک نیند نہیں ملی۔  بنا پھیرے گھوڑا بگڑتا ہے اور بنا لڑے سپاہی۔  مجھے تو سنگین چڑھا کر مارچ کا حکم مل جائے۔  پھر سات جرمنوں کو اکیلا مار کر نہ لوٹوں، تو مجھے دربار صاحب کی دہلی پر متھا ٹیکنا نصیب نہ ہو۔  پاجی کہیں کے، کلوں کے گھوڑے۔ سنگین دیکھتے ہی منھ پھاڑ دیتے ہیں، اور پیر پکڑنے لگتے ہیں۔  یوں اندھیرے میں تیس تیس من کا گولہ پھینکتے ہیں۔  اس دن دھاوا کیا تھا۔ چار میل تک ایک جرمن نہیں چھوڑا تھا۔  پیچھے جنرل نے ہٹ جانے کا کمان دیا، نہیں تو۔ ‘

‘نہیں تو سیدھے برلن پہنچ جاتے! کیوں؟’ صوبیدار ہزارا سنگھ نے مسکرا کر کہا۔’لڑائی کے معاملے جمعدار یا نائک کے چلائے نہیں چلتے۔  بڑے افسر دور کی سوچتے ہیں۔  تین سو میل کا سامنا ہے۔  ایک طرف بڑھ گئے تو کیا ہوگا؟’

‘صوبیدار جی، سچ ہے،’ لہنا سنگھ بولا۔ ‘پر کریں کیا؟ ہڈیوں ہڈیوں میں تو جاڑا دھنس گیا ہے۔  سوریہ نکلتا نہیں، اور کھائیں میں دونوں طرف سے چمبے کی باولیوں کے سے سوتے جھر رہے ہیں۔  ایک دھاوا ہو جائے، تو گرمی آ جائے۔ ‘

‘بدماش! اٹھ، سگڑی میں کوئلے ڈال۔  وزیرا، تم چار جنے بالٹیاں لے کر کھائی کا پانی باہر پھینکو۔  مہاسنگھ، شام ہو گئی ہے، کھائی کے دروازے کا پہرہ بدل لے۔ ‘۔ یہ کہتے ہوئے صوبیدار ساری خندق میں چکر لگانے لگے۔

وزیرا سنگھ پلٹن کا  مہتر تھا۔  بالٹی میں گندا پانی بھر کر کھائی کے باہر پھینکتا ہوا بولا۔ ‘میں پادھا بن گیا ہوں۔  کرو جرمنی کے بادشاہ کا ترپن !’ اس پر سب کھلکھلا پڑے اور اداسی کے بادل پھٹ گئے۔

لہنا سنگھ نے دوسری بالٹی بھر کر اس کے ہاتھ میں دے کر کہا۔ ‘اپنی باڑی کے خربوزوں میں پانی دو۔  ایسا کھاد کا پانی پنجاب بھر میں نہیں ملے گا۔ ‘

‘ہاں، دیش کیا ہے، سورگ ہے۔  میں تو لڑائی کے بعد سرکار سے دس گھما زمین یہاں مانگ لوں گا اور پھلوں کے بوٹے لگاؤں گا۔ ‘

‘لاڑی ہوراں کو بھی یہاں بلا لو گے؟ یا وہی دودھ پلانے والی فرنگی میم۔ ‘

‘چپ کر۔  یہاں والوں کو شرم نہیں۔ ‘

‘دیش دیش کی چال ہے۔  آج تک میں اسے سمجھا نہ سکا کہ سکھ تمباکو نہیں پیتے۔  وہ سگریٹ دینے میں ضد کرتی ہے، ہونٹوں میں لگانا چاہتی ہے،اور میں پیچھے ہٹتا ہوں تو سمجھتی ہے کہ راجا برا مان گیا، اب میرے ملک کے لئے لڑے گا نہیں۔ ‘

‘اچھا، اب بودھا سنگھ کیسا ہے؟’

‘اچھا ہے۔ ‘

‘جیسے میں جانتا ہی نہ ہوؤں ! رات بھر تم اپنے کمبل اسے اڑھاتے ہو اور آپ سگڑی کے سہارے گزر کرتے ہو۔  اس کے پہرے پر آپ پہرہ دے آتے ہو۔  اپنے سوکھے لکڑی کے تختوں پر اسے سلاتے ہو، آپ کیچڑ میں پڑے رہتے ہو۔  کہیں تم نہ ماندے پڑ جانا۔  جاڑا کیا ہے، موت ہے، اور نمونیا سے مرنے والوں کو مربے نہیں ملا کرتے۔ ‘

‘میرا ڈر مت کرو۔  میں تو بُلیل کی کھڈ کے کنارے مروں گا۔  بھائی کیرت سنگھ کی گودی پر میرا سر ہوگا اور میرے ہاتھ کے لگائے ہوئے آنگن کے آم کے پیڑ کی چھاؤں ہوگی۔ ‘

وزیرا سنگھ نے تیوری چڑھا کر کہا۔ ‘کیا مرنے مارنے کی بات لگائی ہے؟ مریں جرمنی اور ترک! ہاں بھائیو، کیسے۔

دہلی شہر تیں پشور نوں جاندئے،

کر لینا لونگاں دا بپار مڑئے؛

کر لینا ناڑیدا سودا اڑئے۔

(اویہ) لانا چٹاکا کدوئے نوں۔

کدو بنایا وہ مزیدار گورئے،

ہن لانا چٹاکا کدوئے نوں۔۔

کون جانتا تھا کہ داڑھیوں والے، گھر باری سکھ ایسا لچوں کا گیت گائیں گے، پر ساری خندق اس گیت سے گونج اٹھی اور سپاہی پھر تازے ہو گئے، مانو چار دن سے سوتے اور موج ہی کرتے رہے ہوں۔

 

3

 

دوپہر رات میں بدل گئی ہے۔  اندھیرا ہے۔  سناٹا چھایا ہوا ہے۔  بودھا سنگھ خالی بسکٹوں کے تین ٹنوں پر اپنے دونوں کمبل بچھا کر اور لہنا سنگھ کے دو کمبل اور ایک کوٹ اوڑھ کر سو رہا ہے۔  لہنا سنگھ پہرے پر کھڑا ہوا ہے۔  ایک آنکھ کھائی کے منھ پر ہے اور ایک بودھا سنگھ کے دبلے شریر پر۔  بودھا سنگھ کراہا۔

‘کیوں بودھا بھائی، کیا ہے؟’

‘پانی پلا دو۔ ‘

لہنا سنگھ نے کٹورا اس کے منھ سے لگا کر پوچھا۔ ‘کہو کیسے ہو؟’ پانی پی کر بودھا بولا۔ ‘کپکپاہٹ ہو رہی ہے۔  رگ رگ میں تار دوڑ رہے ہیں۔  دانت بج رہے ہیں۔ ‘

‘اچھا، میری جرسی پہن لو !’

‘اور تم؟’

‘میرے پاس سگڑی ہے اور مجھے گرمی لگتی ہے۔  پسینہ آ رہا ہے۔ ‘

‘نا، میں نہیں پہنتا۔  چار دن سے تم میرے لئے۔ ‘

‘ہاں، یاد آئی۔  میرے پاس دوسری گرم جرسی ہے۔  آج سویرے ہی آئی ہے۔  ولایت سے بن بن کر بھیج رہی ہیں میمیں، گرو ان کا بھلا کریں۔ ‘ یوں کہہ کر لہنا اپنا کوٹ اتار کر جرسی اتارنے لگا۔

‘سچ کہتے ہو؟’

‘اور نہیں جھوٹ؟’ یوں کہہ کر نا نا کرتے بودھا کو اس نے زبردستی جرسی پہنا دی اور آپ خاکی کوٹ اور جین کا کرتہ بھر پہن کر پہرے پر آ کھڑا ہوا۔  میم کی جرسی کی بات صرف کہانی تھی۔

آدھا گھنٹہ بیتا۔  اتنے میں کھائی کے منھ سے آواز آئی۔ ‘صوبیدار ہزاراسنگھ۔ ‘

‘کون لپٹن  (لفٹنینٹ) صاحب؟ حکم حضور!’۔ کہہ کر صوبیدار تن کر فوجی سلام کر کے سامنے ہوا۔

‘دیکھو، اسی دم دھاوا کرنا ہوگا۔  میل بھر کی دوری پر پورب کے کونے میں ایک جرمن کھائی ہے۔  اس میں پچاس سے زیادہ جرمن نہیں ہیں۔  ان پیڑوں کے نیچے نیچے دو کھیت کاٹ کر راستہ ہے۔  تین چار گھماؤ  ہیں۔  جہاں موڑ ہے وہاں پندرہ جوان کھڑے کر آیا ہوں۔  تم یہاں دس آدمی چھوڑ کر سب کو ساتھ لے ان سے جا ملو۔  خندق چھین کر وہیں، جب تک دوسرا حکم نہ ملے، ڈٹے رہو۔  ہم یہاں رہے گا۔ ‘

‘جو حکم۔ ‘

چپ چاپ سب تیار ہو گئے۔  بودھا بھی کمبل اتار کر چلنے لگا۔  تب لہنا سنگھ نے اسے روکا۔  لہنا سنگھ آگے ہوا تو بودھا کے باپ صوبیدار نے انگلی سے بودھا کی اور اشارہ کیا۔  لہنا سنگھ سمجھ کر چپ ہو گیا۔  پیچھے دس آدمی کون رہیں، اس پر بڑی حجت ہوئی۔  کوئی رہنا نہ چاہتا تھا۔  سمجھا بجھا کر صوبیدار نے مارچ کیا۔  لپٹن صاحب لہنا کی سگڑی کے پاس منھ پھیر کر کھڑے ہو گئے اور جیب سے سگریٹ نکال کر سلگانے لگے۔  دس منٹ بعد انہوں نے لہنا کی اور ہاتھ بڑھا کر کہا۔ ‘لو تم بھی پیو۔ ‘

آنکھ مارتے مارتے لہنا سنگھ سب سمجھ گیا۔  چہرے کے جذبات  چھپا کر بولا۔ ‘لاؤ صاحب۔ ‘ ہاتھ آگے کرتے ہی اس نے سگڑی کے اجالے میں صاحب کا منھ دیکھا۔  بال دیکھے۔  تب اس کا ماتھا ٹھنکا۔  لپٹن صاحب کے پٹیوں والے بال ایک دن میں ہی کہاں اڑ گئے اور ان کی جگہ قیدیوں سے کٹے بال کہاں سے آ گئے؟’ شائد صاحب شراب پئے ہوئے ہیں اور انہیں بال کٹوانے کا موقع مل گیا ہے؟ لہنا سنگھ نے جانچنا چاہا۔  لپٹن صاحب پانچ سال سے اس کی ریجمینٹ میں تھے۔

‘کیوں صاحب، ہم لوگ ہندستان کب جائیں گے؟’

‘لڑائی ختم ہونے پر۔  کیوں، کیا یہ ملک پسند نہیں ؟’

‘نہیں صاحب، شکار کے وہ مزے یہاں کہاں؟ یاد ہے، پارسال نقلی لڑائی کے پیچھے ہم آپ جگادھری ضلعے میں شکار کرنے گئے تھے۔’

‘ہاں، ہاں۔ ‘

‘وہیں جب آپ کھوتے پر سوار تھے اور اور آپ کا خانساماں عبداللہ راستے کے ایک مندر میں جل چڑھانے کو رہ گیا تھا؟ بیشک پاجی کہیں کا۔ سامنے سے وہ نیل گائے نکلی کہ ایسی بڑی میں نے کبھی نہ دیکھی تھیں۔  اور آپ کی ایک گولی کندھے میں لگی اور پٹھے میں نکلی۔  ایسے افسر کے ساتھ شکار کھیلنے میں مزہ ہے۔  کیوں صاحب، شملے سے تیار ہو کر اس نیل گائے کا سر آ گیا تھا نا؟ آپ نے کہا تھا کہ ریجمینٹ کی میس میں لگائیں گے۔ ‘

‘ہاں پر میں نے وہ ولایت بھیج دیا۔ ‘

‘ایسے بڑے بڑے سینگ! دو دو فٹ کے تو ہوں گے؟’

‘ہاں،  لہنا سنگھ ، دو فٹ چار انچ کے تھے۔  تم نے سگریٹ نہیں پیا؟’

‘پیتا ہوں صاحب، دیاسلائی لے آتا ہوں’۔ کہہ کر لہنا سنگھ خندق میں گھسا۔  اب اسے شبہ نہیں رہا تھا۔  اس نے جھٹ پٹ فیصلہ کر لیا کہ کیا کرنا چاہئیے۔

اندھیرے میں کسی سونے والے سے وہ ٹکرایا۔

‘کون؟ وزیراسنگھ؟’

‘ہاں، کیوں لہنا؟ کیا قیامت آ گئی؟ ذرا تو آنکھ لگنے دی ہوتی؟’

 

4

 

‘ہوش میں آؤ۔  قیامت آئی ہے اور لپٹن صاحب کی وردی پہن کر آئی ہے۔ ‘

‘کیا؟’

‘لپٹن صاحب یا تو مارے گئے ہے یا قید ہو گئے ہیں۔  ان کی وردی پہن کر یہ کوئی جرمن آیا ہے۔  صوبیدار نے اس کا منھ نہیں دیکھا۔  میں نے دیکھا اور باتیں کی ہے۔  صاف اردو بولتا ہے، پر کتابی اردو۔  اور مجھے پینے کو سگریٹ دیا ہے؟’

‘تو اب!’

‘اب مارے گئے۔  دھوکا ہے۔  صوبیدار ہوراں، کیچڑ میں چکر کاٹتے پھریں گے اور یہاں کھائی پر دھاوا ہوگا۔  اٹھو، ایک کام کرو۔  پلٹن کے پیروں کے نشان دیکھتے دیکھتے دوڑ جاؤ۔  ابھی بہت دور نہ گئے ہوں گے۔

صوبیدار سے کہو ایک دم لوٹ آئیں۔  خندق کی بات جھوٹ ہے۔  چلے جاؤ، خندق کے پیچھے سے نکل جاؤ۔  پتّہ تک نہ کھڑکے۔  دیر مت کرو۔ ‘

‘حکم تو یہ ہے کہ یہیں۔ ‘

‘ایسی تیسی حکم کی! میرا حکم۔ جمعدار لہنا سنگھ جو اس وقت یہاں سب سے بڑا افسر ہے، اس کا حکم ہے۔  میں لپٹن صاحب کی خبر لیتا ہوں۔ ‘

‘پر یہاں تو تم آٹھ ہو۔ ‘

‘آٹھ نہیں، دس لاکھ۔  ایک ایک اکالیا سکھ سوا لاکھ کے برابر ہوتا ہے۔  چلے جاؤ۔ ‘

لوٹ کر کھائی کے مہانے پر لہنا سنگھ دیوار سے چپک گیا۔  اس نے دیکھا کہ لپٹن صاحب نے جیب سے بیل کے برابر تین گولے نکالے۔  تینوں کو جگہ جگہ خندق کی دیواروں میں گھسیڑ دیا اور تینوں میں ایک تار سا باندھ دیا۔  تار کے آگے سوت کی ایک گتھی تھی، جسے سگڑی کے پاس رکھا۔  باہر کی طرف جا کر ایک دیاسلائی جلا کر گتھی پر رکھنے۔۔۔۔

اتنے میں بجلی کی طرح دونوں ہاتھوں سے الٹی بندوق کو اٹھا کر لہنا سنگھ نے صاحب کی کہنی پر تان کر دے مارا۔  دھماکے کے ساتھ صاحب کے ہاتھ سے دیاسلائی گر پڑی۔  لہنا سنگھ نے ایک کندہ صاحب کی گردن پر مارا اور صاحب ‘آکھ! مین گوٹ’ کہتے ہوئے چت ہو گئے۔  لہنا سنگھ نے تینوں گولے چُن کر خندق کے باہر پھینکے اور صاحب کو گھسیٹ کر سگڑی کے پاس لٹایا۔  جیبوں کی تلاشی لی۔  تین چار لفافے اور ایک ڈائری نکال کر انہیں اپنی جیب کے حوالے کیا۔

صاحب کی بے پوشی ختم ہوئی ۔  لہنا سنگھ ہنس کر بولا۔ ‘کیوں لپٹن صاحب؟ مزاج کیسا ہے؟ آج میں نے بہت باتیں سیکھیں۔  یہ سیکھا کہ سکھ سگریٹ پیتے ہیں۔  یہ سیکھا کہ جگادھری ضلعے میں نیل گائیں ہوتی ہیں اور ان کے دو فٹ چار انچ کے سینگ ہوتے ہیں۔  یہ سیکھا کہ مسلمان خانساماں مورتیوں پر جل چڑھاتے ہیں اور لپٹن صاحب کھوتے پر چڑھتے ہیں۔  پر یہ تو کہو، ایسی صاف اردو کہاں سے سیکھ آئے؟ ہمارے لپٹن صاحب تو بنا ڈیم کے پانچ الفاظ  بھی نہیں بولا کرتے تھے۔ ‘

لہنا نے پتلون کے جیبوں کی تلاشی نہیں لی تھی۔  صاحب نے مانو جاڑے سے بچنے کے لئے، دونوں ہاتھ جیبوں میں ڈالے۔

لہنا سنگھ کہتا گیا۔ ‘چالاک تو بڑے ہو پر مانجھے کا لہنا اتنے برس لپٹن صاحب کے ساتھ رہا ہے۔  اسے چکما دینے کے لئے چار آنکھیں چاہئیے۔  تین مہینے ہوئے ایک ترکی مولوی میرے گاؤں آیا تھا۔  عورتوں کو بچے ہونے کے تعویذ بانٹتا تھا اور بچوں کو دوائی دیتا تھا۔  چودھری کے بڑ کے نیچے منجہ بچھا کر حقہ پیتا رہتا تھا اور کہتا تھا کہ جرمنی والے بڑے پنڈت ہیں۔  وید پڑھ پڑھ کر اس میں سےجہاز  چلانے کا علم جان گئے ہیں۔  گائے کو نہیں مارتے۔  ہندستان میں آ جائیں گے تو گوہتیا بند کر دیں گے۔  منڈی کے بنیوں کو بہکاتا کہ ڈاک خانے سے روپیہ نکال لو۔  سرکار کا راج جانے والا ہے۔  ڈاک بابو پولہورام بھی ڈر گیا تھا۔  میں نے ملاجی کی داڑھی موڑ دی تھی۔  اور گاؤں سے باہر نکال کر کہا تھا کہ جو میرے گاؤں میں اب پیر رکھا تو۔ ‘

صاحب کی جیب میں سے پستول چلا اور لہنا کی جانگھ میں گولی لگی۔  ادھر لہنا کی ہینری مارٹن کے دو فایروں نے صاحب کی کپال کریا کر دی۔  دھڑاکا سن کر سب دوڑ آئے۔

بودھا چلایا۔ ‘کیا ہے؟’

لہنا سنگھ نے اسے یہ کہہ کر سلا دیا کہ ایک ہڑکا ہوا کتا آیا تھا، مار دیا اور، اوروں سے سب حال کہہ دیا۔  سب بندوقیں لے کر تیار ہو گئے۔  لہنا نے صافہ پھاڑ کر گھاؤ کے دونوں طرف پٹیاں کس کر باندھیں۔  زخم  گوشت میں ہی تھا۔  پٹیوں کے کسنے سے لہو نکلنا بند ہو گیا۔

اتنے میں ستر جرمن چلا کر کھائی میں گھس پڑے۔  سکھّوں کی بندوقوں کی باڑھ نے پہلے دھاوے کو روکا۔  دوسرے کو روکا۔  پر یہاں تھے آٹھ (لہنا سنگھ تاک تاک کر مار رہا تھا۔ وہ کھڑا تھا، اور، وہ لیٹے ہوئے تھے) اور وہ ستر۔  اپنے مردہ بھائیوں کے جسموں پر چڑھ کر جرمن آگے گھسے آتے تھے۔  تھوڑے سے منٹوں میں ہی وہ۔۔۔۔ اچانک آواز آئی، ‘واہ گروجی دی فتح؟ واہ گروجی دا خالصہ!! اور دھڑادھڑ بندوقوں کے فائر جرمنوں کی پیٹھ پر پڑنے لگے۔  عین موقعے پر جرمن دو چکی کے پاٹوں کے بیچ میں آ گئے۔  پیچھے سے صوبیدار ہزارا سنگھ کے جوان آگ برساتے تھے اور سامنے لہنا سنگھ کے ساتھیوں کے سنگین چل رہے تھے۔  پاس آنے پر پیچھے والوں نے بھی سنگین پرونا شروع کر دیا۔

ایک کلکاری اور۔ اکال سکھاں دی فوج آئی! واہ گروجی دی فتح! واہ گروجی دا خالصہ ! ست شری اکال پرکھ!!! اور لڑائی ختم ہو گئی۔  تریسٹھ جرمن یا تو کھیت رہے تھے یا کراہ رہے تھے۔  سکھّوں میں پندرہ کی جانیں گئیں۔  صوبیدار کے داہنے کندھے میں سے گولی آر پار نکل گئی۔  لہنا سنگھ کی پسلی میں ایک گولی لگی۔  اس نے گھاؤ کو خندق کی گیلی مٹی سے بھر لیا اور باقی کا صافہ کس کر کمربند کی طرح لپیٹ لیا۔  کسی کو خبر نہ ہوئی کہ لہنا کو دوسرا گھاؤ۔ بھاری گھاؤ لگا ہے۔

لڑائی کے وقت چاند نکل آیا تھا، ایسا چاند، جس کی روشنی سے سنسکرت شاعروں کا دیا ہوا ’شیی‘ نام  درست ثابت ہوتا ہے۔  اور ہوا ایسی چل رہی تھی جیسی وانا بھٹ کی زبان میں ‘دنتوینوپدیشاچاریہ’ کہلاتی۔  وزیرا سنگھ کہہ رہا تھا کہ کیسے من من بھر فرانس کی مٹی میرے بوٹوں سے چپک رہی تھی، جب میں دوڑا دوڑا صوبیدار کے پیچھے گیا تھا۔  صوبیدار لہنا سنگھ سے سارا حال سن کر  اور کاغذات پا کر وہ اس کی  حاضر دماغی کو سراہ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تو نہ ہوتا تو آج سب مارے جاتے۔

اس لڑائی کی آواز تین میل داہنی اور کی کھائی والوں نے سن لی تھی۔  انہوں نے پیچھے ٹیلیفون کر دیا تھا۔  وہاں سے جھٹ پٹ دو ڈاکٹر اور دو بیمار ڈھونے کی گاڑیاں چلیں، جو کوئی ڈیڑھ گھنٹے کے اندر اندر آ پہنچیں۔  فیلڈ اسپتال نزدیک تھا۔  صبح ہوتے ہوتے وہاں پہنچ جائیں گے، اسلئے معمولی پٹّی باندھ کر ایک گاڑی میں گھائل لٹائے گئے اور دوسری میں لاشیں رکھی گئیں۔  صوبیدار نے لہنا سنگھ کی جانگھ میں پٹّی بندھوانی چاہی۔  پر اس نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ تھوڑا گھاؤ ہے سویرے دیکھا جائے گا۔  بودھا سنگھ بخار میں برّا رہا تھا۔  وہ گاڑی میں لٹایا گیا۔  لہنا کو چھوڑ کر صوبیدار جاتے نہیں تھے۔  یہ دیکھ کر لہنا نے کہا۔ ‘تمہیں بودھا کی قسم ہے، اور صوبیدارنی جی کی سوگندھ ہے جو اس گاڑی میں نہ چلے جاؤ۔ ‘

‘اور تم؟’

‘میرے لئے وہاں پہنچ کر گاڑی بھیج دینا، اور جرمن مردوں کے لئے بھی تو گاڑیاں آتی ہوں گی۔  میرا حال برا نہیں ہے۔  دیکھتے نہیں، میں کھڑا ہوں؟ وزیرا سنگھ میرے پاس ہے ہی۔ ‘

‘اچھا، پر۔ ‘

‘بودھا گاڑی پر لیٹ گیا؟ بھلا۔  آپ بھی چڑھ جاؤ۔  سنئے تو، صوبیدارنی ہوراں کو چٹھی لکھو، تو میرا متھا ٹیکنا لکھ دینا۔  اور جب گھر جاؤ تو کہہ دینا کہ مجھ سے جو اس نے کہا تھا وہ میں نے کر دیا۔ ‘

گاڑیاں چل پڑی تھیں۔  صوبیدار نے چڑھتے چڑھتے لہنا کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ ‘تینے میرے اور بودھا کے پران بچائے ہیں۔  لکھنا کیسا؟ ساتھ ہی گھر چلیں گے۔  اپنی صوبیدارنی کو تو ہی کہہ دینا۔  اس نے کیا کہا تھا؟’

‘اب آپ گاڑی پر چڑھ جاؤ۔  میں نے جو کہا، وہ لکھ دینا، اور کہہ بھی دینا۔ ‘

گاڑی کے جاتے لہنا لیٹ گیا۔  ‘وزیرا پانی پلا دے، اور میرا کمربند کھول دے۔  تر ہو رہا ہے۔ ‘

 

5

 

موت سے کچھ دیر پہلے یاد داشت بہت صاف ہو جاتی ہے۔  جنم بھر کے واقعات ایک ایک کر کے سامنے آتے ہیں۔  سارے مناظر کے رنگ صاف ہوتے ہیں۔  وقت کی دھند بالکل ان پر سے ہٹ جاتی ہے۔

٭٭ ٭

 

 

لہنا سنگھ بارہ سال کا ہے۔  امرتسر میں ماما کے یہاں آیا ہوا ہے۔  دہی والے کے یہاں، سبزی والے کے یہاں، ہر کہیں، اسے ایک آٹھ سال  کی لڑکی مل جاتی ہے۔  جب وہ پوچھتا ہے، تیری کڑمائی ہو گئی؟ تب دھت کہہ کر وہ بھاگ جاتی ہے۔  ایک دن اس نے ویسے ہی پوچھا، تو اس نے کہا۔ ‘ہاں، کل ہو گئی، دیکھتے نہیں یہ ریشم کے پھولوں والا سالو؟ سنتے ہی لہنا سنگھ کو دکھ ہوا۔  غصہ آیا۔  کیوں ہوا؟

 

‘وزیراسنگھ، پانی پلا دے۔ ‘

٭٭ ٭

 

 

پچیس سال بیت گئے۔  اب لہنا سنگھ نمبر 77 رایئفلس میں جمعدار ہو گیا ہے۔  اس آٹھ سال کی لڑکی کا دھیان ہی نہ رہا۔  نہ معلوم وہ کبھی ملی تھی، یا نہیں۔  سات دن کی چھٹی لے کر زمین کے مقدمے کی پیروی کرنے وہ اپنے گھر گیا۔  وہاں ریجمینٹ کے افسر کی چٹھی ملی کہ فوج لام پر جاتی ہے، فوراً چلے آؤ۔  ساتھ ہی صوبیدار ہزارا سنگھ کی چٹھی ملی کہ میں اور بودھا سنگھ بھی لام پر جاتے ہیں۔  لوٹتے ہوئے ہمارے گھر ہوتے جانا۔  ساتھ ہی چلیں گے۔  صوبیدار کا گاؤں راستے میں پڑتا تھا اور صوبیدار اسے بہت چاہتا تھا۔  لہنا سنگھ صوبیدار کے یہاں پہنچا۔

جب چلنے لگے، تب صوبیدار بیڈھے میں سے نکل کر آیا۔  بولا۔ ‘لہنا، صوبیدارنی تم کو جانتی ہیں، بلاتی ہیں۔  جا مل آ۔ ‘ لہنا سنگھ اندر پہنچا۔  صوبیدارنی مجھے جانتی ہیں؟ کب سے؟ ریجمینٹ کے کوارٹروں میں تو کبھی صوبیدار کے گھر کے لوگ رہے نہیں۔  دروازے پر جا کر ماتھا ٹیکنا کہا۔  لہنا سنگھ چپ۔

‘مجھے پہچانا؟’

‘نہیں۔ ‘

‘تیری کڑمائی ہو گئی۔ دھت۔ کل ہو گئی۔ دیکھتے نہیں، ریشمی بوٹوں والا سالو۔امرتسر میں۔’

جذبات کی ٹکر سے ہوش آیا۔  کروٹ بدلی۔  پسلی کا زخم بہہ نکلا۔

‘وزیرا، پانی پلا’۔ ‘اس نے کہا تھا۔ ‘

٭٭ ٭

 

خواب چل رہا ہے۔  صوبیدارنی کہہ رہی ہے۔

‘میں نے تیرے کو آتے ہی پہچان لیا۔  ایک کام کہتی ہوں۔  میرے تو بھاگ پھوٹ گئے۔  سرکار نے بہادری کا خطاب دیا ہے، لایل پور میں زمین دی ہے، آج نمک حلالی کا موقع آیا ہے۔  پر سرکار نے ہم تیمیوں کی ایک گھنگھریا پلٹن کیوں نہ بنا دی، جو میں بھی صوبیدار جی کے ساتھ چلی جاتی؟ ایک بیٹا ہے۔  فوج میں بھرتی ہوئے اسے ایک ہی برس ہوا۔  اس کے پیچھے چار اور ہوئے، پر ایک بھی نہیں جیا۔  صوبیدارنی رونے لگی۔  اب دونوں جاتے ہیں۔  میرے بھاگ! تمہیں یاد ہے، ایک دن تانگے والے کا گھوڑا دہی والے کی دوکان کے پاس بگڑ گیا تھا۔  تم نے اس دن میری جان بچائی تھی، خود گھوڑے کی لاتوں کی زد میں چلے گئے تھے، اور مجھے اٹھا کر دوکان کے تختے پر کھڑا کر دیا تھا۔  ایسے ہی ان دونوں کو بچانا۔  یہ میری بھیک ہے۔  تمہارے آگے آنچل پسارتی ہوں۔ ‘

روتی روتی سوبیدارنی اندر چلی گئی۔  لہنا بھی آنسو پونچھتا ہوا باہر آیا۔

‘وزیراسنگھ، پانی پلا’۔’اس نے کہا تھا۔ ‘

٭ ٭٭

 

 

لہنا کا سر اپنی گود میں رکھے وزیرا سنگھ بیٹھا ہے۔  جب مانگتا ہے، تب پانی پلا دیتا ہے۔  آدھ گھنٹے تک لہنا چپ رہا، پھر بولا۔ ‘کون ! کیرت سنگھ؟’

وزیرا نے کچھ سمجھ کر کہا۔ ‘ہاں۔ ‘

‘بھیا، مجھے اور اونچا کر لے۔  اپنی پیٹھ پر میرا سر رکھ لے۔ ‘ وزیرا نے ویسے ہی کیا۔

‘ہاں، اب ٹھیک ہے۔  پانی پلا دے۔  بس، اب کے ہاڑ میں یہ آم خوب پھلے گا۔  چچا بھتیجا دونوں یہیں بیٹھ کر آم کھانا۔  جتنا بڑا تیرا بھتیجا ہے، اتنا ہی یہ آم ہے۔  جس مہینے اس کا جنم ہوا تھا، اسی مہینے میں میں نے اسے لگایا تھا۔ ‘ وزیرا سنگھ کے آنسو ٹپ ٹپ ٹپک رہے تھے۔

٭٭ ٭

 

کچھ دن بعد لوگوں نے اخباروں میں پڑھا۔

فرانس اور بیلجیم۔ 68 ویں فہرست۔ میدان میں گھاؤوں سے مرا۔ نمبر 77 سکھ رائفلس جمعدار  لہنا سنگھ

٭٭٭

 

 

 

 

ہیرے کا ہیرا

 

آج سویرے ہی سے گلاب دئی کام میں لگی ہوئی ہے۔  اس نے اپنے مٹی کے گھر کے آنگن کو گوبر سے لیپا ہے، اس پر پیسے ہوئے چاول سے منڈن مانڈے ہیں۔  گھر کی دہلیز پر اسی چاول کے آٹے سے لیکیں کھینچی ہیں اور ان پر اکشت اور پیپل کے پتے رکھے ہیں۔  دوب کی نو ڈالیاں چن کر ان میں لال ڈورا باندھ کر اس کی کل دیوی بنائی ہے اور ہر ایک پتے کے دونے میں چاول بھر کر اسے اندر کے گھر میں، بھینت کے سہارے ایک لکڑی کے  خانے میں رکھا ہے۔  کل پڑوسی سے مانگ کر گلابی رنگ لائی تھی اس سے رنگی ہوئی چادر بے چاری کو آج نصیب ہوئی ہے۔  لٹھیا ٹیکتی ہوئی بڑھیا ماتا کی آنکھیں، اگر تین سال کی غریبی اور بیٹے کی جدائی سے اور ڈیڑھ سال کی بیماری کی دکھیا کے کچھ آنکھیں اور ان میں روشنی باقی رہی ہو تو، دروازے پر لگی ہوئی ہیں۔  تین سال کی بیوگی اور غریبی کے سائے  سے رات دن کے رونے سے پتھرائی اور سفید ہوئی گلاب دئی کی آنکھوں پر آج پھر جوانی کی روشنی اور مسرت کے لال ڈورے آ گئے ہیں۔  اور سات سال کا لڑکا ہیرا، جس کا اکلوتا کرتا کھار سے دھو کر کل ہی اجلا کر دیا گیا ہے، کل ہی سے پڑوسیوں سے کہتا پھر رہا ہے کہ میرا چاچا آوے گا۔

باہر کھیتوں کے پاس لکڑی کی دھمادھم سنائی پڑنے لگی۔  لگتا ہے کہ کوئی لنگڑا آدمی چلا آ رہا ہے جس کے ایک لکڑی کی ٹانگ ہے۔  دس مہینے پہلے ایک چٹھی آئی تھی جسے پاس کے گاؤں کے پٹواری نے پڑھ کر گلاب دئی اور اس کی ساس کو سنایا تھا۔  اس میں لکھا تھا کہ لہنا سنگھ کی ٹانگ چین کی لڑائی میں گھائل ہو گئی ہے اور ہانگ کانگ کے اسپتال میں اس کی ٹانگ کاٹ دی گئی ہے۔  ماں کی ممتا  اور بیوی کے  پیار بھرے دل پر اس کا اثر ایسا پڑا کہ بیچاریوں نے چار دن روٹی نہیں کھائی تھی۔  تو بھی۔ اپنے اوپر سچ مچ آتی ہوئی اور آئی ہوئی مصیبت جان کر بھی ہم لوگ کیسے آنکھیں میچ لیتے ہیں اور امید کی چھدری جالی میں اپنے کو چھپا کر محفوظ غلاف سے ڈھکا ہوا سمجھتے ہیں!۔ وہ کبھی کبھی امید کیا کرتی تھیں کہ دونوں پیر صحیح سلامت لے کر لہنا سنگھ گھر آ جائے تو کیسا رہے! اور ماں اپنی بیماری سے اٹھتے ہی پیپل کے نیچے کے ناگ کے یہاں پنچ پکوان چڑھانے گئی تھی کہ ‘ناگ بابا! میرا بیٹا دونوں پیروں چلتا ہوا راضی خوشی میرے پاس آوے۔ ‘ اسی دن لوٹتے ہوئے اسے ایک سفید ناگ بھی دیکھا تھا جس سے اسےامید  ہو گئی تھی کہ میری دعا سن لی گئی۔  پہلے پہلے تو سکھ دئی کو بخار کی بےچینی میں شوہر کی ٹانگ۔ کبھی دہنی اور کبھی بائیں۔ کسی دن کمر کے پاس سے اور کسی دن پنڈلی کے پاس سے اور پھر کبھی ٹخنے کے پاس سے کٹی ہوئی دکھائی دیتی لیکن پھر جب اسے عام سے خواب آنے لگے تو وہ اپنے شوہر کو دونوں جانگھوں پر کھڑا دیکھنے لگی۔  اسے یہ نہ جان پڑا کہ میرے صحت مند دماغ کی صحت مند یاد داشت کو اپنے شوہر کا وہی روپ یاد ہے جو سدا دیکھا ہے، لیکن وہ سمجھی کہ کسی کرامات سے دونوں پیر چنگے ہو گئے ہیں۔

 

2

 

لیکن اب ان کے خوش کن تصورات  کے بادلوں کو مٹا دینے والی وہ خوفناک حقیقت،  لکڑی کی آواز  آنے لگی جس نے ان کے دلوں کو دہلا دیا۔  لکڑی کی ٹانگ کی ہر ایک کھٹ کھٹ جیسے ان کی چھاتی پر ہو رہی تھی اور جوں جوں وہ آہٹ پاس آتی جا رہی تھی،  توں توں اپنے اسی عزیز کے ملنے کے لئے انہیں خوف معلوم ہوتے جاتے تھے کہ جس کے انتظار میں اس نے تین سال کوئے اڑاتے اور پل پل گنتے کاٹے تھے۔ وہ اپنے دل کے کسی اندرونی کونے میں یہ بھی خواہش کرنے لگیں کہ جتنے پل مزید تاخیر سے اس سے ملیں اتنا ہی اچھا، اور دل کی آواز پر وہ دو جانگھوں والے لہنا سنگھ کے بدن کا تصور کرنے لگیں اور اس اب پھر کبھی نہ نظر نہ آ سکنے والے منظر میں اتنی مشغول  ہو گئیں کہ ایک ٹانگ والا سچا جیتا جاگتا لہنا سنگھ آنگن میں آ کر کھڑا ہو گیا اور اس کے اس ہنستے ہوئے جملوں سے وہ اپنی بلائی نیند سے ہوشیار ہوئیں کہ۔

 

‘اماں! کیا انبالے کی چھاونی سے میں نے جو چٹھی لکھوائی تھی وہ نہیں پہنچی؟’

ماں نے جھٹ پٹ دیا جلایا اور سکھ دئی منھ پر گھونگھٹ لے کر کلش لے کر اندر کے گھر کی داہنی چوکھٹ پر کھڑی ہو گئی۔  لہنا سنگھ نے اندر  آ کر گھر کی چوکھٹ کے سامنے سر جھکایا اور اپنی پیٹھ پر کی گٹھری ایک کونے میں رکھ دی۔  اس نے ماں کے پیر ہاتھوں سے چھو کر ہاتھ سر کو لگایا اور ماں نے اس کے سر کو اپنی چھاتی کے پاس لے کر اس کے چہرے  کو آنسوؤں کی بارش سے دھو دیا جس پر بکتروں کی گولیوں کی برسات کے  کم سے کم تین نشان واضح دکھائی دے رہے تھے۔

اب ماں اس کو دیکھ سکی۔  چہرے پر داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور اس کے بیچ بیچ میں تین گھاؤوں کے گڑھے تھے۔  بچپن میں جہاں سورج، چاند، منگل وغیرہ  گرہوں کی بری نظر کو بچانے والا تانبے چاندی کی پتریوں اور مونگے کا کٹھلا تھا وہاں اب لال فیتے سے چار چاندی کے گول گول تمغے لٹک رہے تھے۔  اور جن ٹانگوں نے بچپن میں ماں کی رضائی کو پچاس پچاس دفعہ ادھیڑ دیا ان میں سے ایک کی جگہ چمڑے کے تسموں سے بندھا ہوا ڈنڈا تھا۔  دھوپ سے سیاہ پڑے ہوئے اور محنت سے کمہلانے ہوئے چہرے  پر اور مہینوں تک کھٹیا سینے کی تھکاوٹ سے پلِائی ہوئی آنکھوں پر بھی ایک طرح کی خود اعتمادی کی روشنی تھی جو اپنے باپ، دادا کے گھر اور ان کے پشتینی گاؤں کو پھر دیکھ کر کھلنے لگتی تھی۔

ماں رندھے ہوئے گلے سے نہ کچھ کہہ سکی اور نہ کچھ پوچھ سکی۔  چپ چاپ اٹھ کر کچھ سوچ سمجھ کر باہر چلی گئی۔  گلاب دئی جس کے سارے جسم میں بجلی کی لہریں دوڑ رہی تھیں اور جس کی آنکھیں پلکوں کو دھکیل دیتی تھیں اس بات کا انتظار نہ کر سکیں کہ شوہر کی کھلی ہوئی بانہیں اسے سمیٹ کر سینے سے لگا لیں لیکن اس کے پہلے ہی اس کا سر جو دورِ جدائی  کے اختتام اور ایک نئی مسرت کی ابتدا سے چکرا گیا تھا، شوہر کی چھاتی پر گر گیا اور ہندستانی عورتوں کے جذبات کے اکلوتے  اظہار۔ آنسو۔ کے ذریعے ان کی تین سالوںسے قید ہوئی جذبات کی رو بہنے لگی۔

وہ روتی گئی اور روتی گئی۔  کیا یہ تعجب کی بات ہے؟ جہاں کی عورتیں خط لکھنا پڑھنا نہیں جانتیں اور درست بھاشا میں اپنے جذبات  ظاہر نہیں کر سکتیں اور جہاں انہیں اپنے شوہروں سے بات کرنے کا موقع بھی چوری سے ہی ملتا ہے، وہاں ان کے پیار کا بہاؤ کیوں نہیں آنسوؤں کی دھارا کی بھاشا میں۔۔۔  (گلیری جی اس کہانی کو یہیں تک لکھ پائے تھے۔  آگے کی کہانی ڈاکٹر  سشیل کمار پھل نے پوری کی ہے) ۔۔۔۔  امڈے گا۔ پیار کا امر نام آنند ہے۔  اس کا وقت جنم جنمانتر تک چلتا ہے۔  گلاب دئی کو تین برس کے بعد شوہر کا لمس ملا تھا۔  پہلے تو وہ لاجونتی سی چھوئی موئی ہوئی، پھر وہ پھولی ہوئی بنیئے کی لڑکی سی شوہر میں ہی دھسنتی چلی گئی۔  پہاڑی ندی کے باندھ ٹوٹنا ہی چاہتے تھے کہ لہنا سنگھ لڑکھڑا گیا اور گرتے گرتے بچا۔  لجاتے شرماتے ہوئے  گلاب دئی نے لہنا سنگھ کو چکٹی کاٹتے ہوئے کہا۔ بس۔۔۔  اور آنکھوں ہی آنکھوں میں بہاری کی ہیروئن کی طرح  بھرے مان میں جیسے کہا۔ کباڑی کے سامنے بھی کوئی لہنگا پسارے گی؟

‘ہارے کو ہر نام، گلاب دئی۔  میری پران پیا ری۔  میں ہارا نہیں ہوں۔  سنو۔۔۔  مرد اور کرد کبھی کھوٹا نہیں ہوتے گلابو۔۔۔  اور چین کی لڑائی نے تو میری دھار اور تیز کر دی ہے۔ ‘ لہنا سنگھ تن کر کھڑا ہو گیا تھا! گلاب دئی سرسوں سی کھل آئی۔  اسے لگا جیسے لہنا سنگھ اسے کل ہی بیاہ کر لایا ہو۔

ماں رسوئی کرنے چلی گئی تھی۔  تین سال بعد بیٹا آیا تھا۔  اس کے کانوں میں بیساکھیوں کی کھڑکھڑاہٹ اب بھی سنائی دے رہی تھی۔  بھگوتی سے کتنی منتیں مانی تھیں۔  وہ شیوجی کے مندر میں بھی ہو آئی تھی! آخر دیوی دیوتا چاہیں تو وہ صحیح سلامت بھی آ سکتا تھا لیکن اب تو وہ قد آدم سامنے موجود تھا۔  پھر بھی ماں کو کسی چمتکار کی امید تھی، وہ سیڈوں بابا سےتعویذ لینے جائے گی۔  پھر دیگچی میں کڑچھی ہلاتے ہوئے سوچنے لگی۔۔۔  دیش کے لئے ایک ٹانگ گنوا دی تو کیا ہوا۔  اس کی چھاتی پھول گئی۔  بیٹے نے ماں کے دودھ کی لاج رکھی تھی۔

‘چاچا، تم آ گئے!’

‘ہاں بیٹا۔ ‘ لہنا سنگھ نے اسے انگ میں بھرتے ہوئے کہا۔

‘چاچا۔۔۔  اتنے دن کہاں تھے؟’

‘بیٹا میں لام پر تھا۔  چین سے جنگ ہو رہی تھی نا۔۔۔ ‘

‘چین کہاں ہے؟’ معصومیت سے بچے نے پوچھا!

‘ہمالیہ کے اس پار۔ ‘

‘مجھے بھی لے چلو گے نا؟’

‘اب میں نہیں جاؤں گا۔  فوج سے میری چھٹی ہو گئی!’ کچھ سوچ کر اس نے پھر کہا۔ ‘بیٹا، تم بڑے ہو جاؤ گے تو فوج میں بھرتی ہو جانا۔ ‘

‘میں بھی چینیوں کو مار گراؤں گا! لیکن چاچا کیا میری بھی ٹانگ کٹ جائے گی؟’

‘دھت تیری! ایسا نہیں بولتے۔  ٹانگ کٹے دشمنوں کی۔ ‘ پھر ہیرے نے جیب میں آم کی گٹھلی سے بنائی پی پنی نکالی اور بجانے لگا۔  برسات میں آم کی گٹھلیاں اگ آتی ہیں، تو بچے اس کے پودوں کو اکھاڑ کر گٹھلی میں سے گٹک نکال کر بجانے لگتے ہیں۔  بڑے بوڑھے خوف دکھاتے ہیں  کہ گٹھلیوں میں سانپ کے بچے ہوتے ہیں لیکن ان بندروں کو کون سمجھائے۔۔۔  آدمی کے آباء و اجداد جو ٹھہرے !

‘تم مدرسے جاتے ہو؟’

‘ہوں۔۔۔  لیکن مولوی کی لمبی داڑھی سے ڈر لگتا ہے۔۔۔ ‘

‘کیوں’ ؟’

‘داڑھی میں اس کا منھ ہی دکھائی نہیں دیتا۔۔۔ ‘

‘تمہیں منھ سے کیا لینا ہے۔  اچھے بچے گروؤں کے بارے میں ایسی بات نہیں کرتے۔ ‘

‘میرا نام تو ابھی کچا ہے۔۔۔ ‘

‘نام کچا ہے یا کچی میں ہی۔۔۔ ‘

‘میں پکے میں ہو جاؤں گا لیکن بڑی ماں نے ادھنی نہیں دی۔۔۔  فیس لگتی ہے چاچا۔ ‘ اور وہ پیپنی بجاتا ہوا غائب ہو گیا۔

لہنا سنگھ سوچنے لگا۔۔۔  عمر کیسے ڈھل جاتی ہے۔۔۔  پہاڑی ندی نالے میدان تک پہنچتے پہنچتے پر سکون ہو جاتے ہیں۔۔۔  ڈھلتی ہوئی عمر میں حال کے کھسکنے اور مستقبل کے اندیشے گھیر لیتے ہیں۔  چین کی لڑائی میں زخمی ہونے پر جب اسپتال میں تھا۔۔۔  تو ہر نرس اسے آٹھ نو سال کی صوبیدارنی دکھائی دیتی۔۔۔  سسٹیر نینسی سے ایک دن اس نے پوچھا بھی تھا۔ ‘سسٹر کیا کبھی تم آٹھ سال کی تھیں؟’

‘ارے بنا آٹھ کی عمر پار کئے میں بائیس کی کیسے ہو سکتی ہوں۔۔۔  تمہیں کوئی یاد آ رہا ہے۔۔۔

‘ہاں۔۔۔  وہ آٹھ سال کی چھوکری۔۔۔  دہی میں نہائی ہوئی۔۔۔  بہار کے پھولوں سی مسکراتی ہوئی میری زندگی میں آئی تھی۔۔۔  اور پھر ایک ایک غائب ہو گئی۔۔۔  صوبیدارنی بن گئی۔۔۔  کہتے کہتے وہ کھو گیا تھا!

‘حولدار۔۔۔  تم پریوں کی کہانیوں  میں وشواس رکھتے ہو ؟’

‘پریوں کے پنکھ ہوتے ہیں نا۔۔۔  وہ اڑ کر جہاں چاہیں چلی جائیں۔۔۔  کلپنا ہی تو جیون ہے۔ ‘

‘لیکن تمہیں تو بہادری کا میڈل ملا ہے۔ ‘

‘اگر میری کلپنا میں وہ آٹھ سالہ لڑکی نہ ہوتی تو مجھے کبھی وہ بہادری کا میڈل نہ ملتا۔۔۔  میرا حوصلہ وہی تھی۔۔۔

‘تم نے بیاہ نہیں بنایا۔ ‘ نینسی نے پوچھا !

‘بیاہ تو بنایا۔۔۔  کنیر کے پھول سی لہلہاتی میری بیوی ے۔۔۔  ایک بیٹا ہے۔۔۔  اور میری بوڑھی ماں ہے۔۔۔ ‘

‘تو پھر پریوں کی کلپنا۔۔۔  آٹھ سال کی لڑکی کا تصور۔۔۔ ‘

‘ہاں، سسٹر۔۔۔  میں نے 35 سال پہلے اس لڑکی کو دیکھا تھا۔۔۔  پھر وہ ایسے غائب ہوئی جیسے کرلی برسات کے بعد کہیں نظر نہیں آتی ہے۔۔۔  اور میں ۔۔۔  اکیلا۔۔۔  نینسی چلی گئی تھی۔  وہ سوچتا رہا تھا۔ خواب میں سفید کوؤں کا دکھائی دینا اچھی علامت ہے یا منحوس شگون۔۔۔  اسپنتال میں ادھ کھلی آنکھوں میں بہت سے دیوتا آتے۔۔۔  کبھی اسے لگتا کہ پھن والے ناگ نے اسے کمر سے کس لیا ہے۔۔۔  یہ نا مردی کا اشارہ نہ ہو۔۔۔  وہ دہل جاتا۔۔۔  ماں۔۔۔  بیوی۔۔۔  اور ہیرا۔۔۔  کیسے ہوں گے۔۔۔  گاؤں میں ویسے تو ایسا کچھ نہیں جو ڈر خوف پیدا کرے۔۔۔  لیکن تین سال تو بہت ہوتے ہیں۔۔۔  وہ کیسے رہتی ہوں گی۔۔۔  جنگ میں تو تنخواہ بھی نہیں پہنچتی ہوگی۔۔۔  پھر اسے دھیان آیا کہ جب وہ چلنے لگا تھا تو ماں نے کہا تھا۔ بیٹا۔۔۔  ہماری چنتا نہیں کرنا۔  آنگن میں پہاڑیئے کا دیو ہماری حفاظت کرے گا۔۔۔  پھر اسے دھیان آیا۔۔۔  کئی بار پہاڑیا ناراض ہو جائے تو گھر کو الٹا پلٹا کر دیتا ہے۔  آپ چاول کی بوری کو رکھیں۔۔۔  وہ اچانک کھل جائے گی اور چاولوں کا ڈھیر لگ جائے گا۔  کبھی پہاڑیا مویشیوں کو کھول دے گا۔۔۔  ارے نہیں۔۔۔  پہاڑیا تو دیوتا ہوتا ہے، جو گھر  اور خاندان کی حفاظت کرتا ہے۔  وہ مطمئن ہو گیا تھا۔

‘مُنوا، تو کتھے چلا گیا تھا؟’

‘ماں فوجی تو حکم کا غلام ہوتا ہے۔ ‘

‘پھرکو تاں جرمن کی لڑائی سے واپس آ گیا تھا۔۔۔  اس کا تو کوئی انگ بھنگ وی نئیں ہوا تھا۔۔۔  تو پتہ نہیں کہاں کہاں بھٹکتا رہا۔۔۔  تجھے گھرے دی وی یاد نی آئی۔ ‘

‘اماں۔۔۔  پھرکو تو پھرکی کی طرح گھوم گیا ہوگا لیکن میں تو بہادر ماں کا سپوت ہوں۔۔۔  اس پہاڑی ماں کا جو خود ہی بیٹے کو میدان جنگ میں تلک لگا کر بھیجتی ہے۔۔۔  بہانہ بنا کر لوٹنا راجپوت کو شوبھا نہیں دیتا۔۔۔ ‘

‘ہاں، سو تو تمغے سے دیکھ ریئی ہوں لیکن۔۔۔ ‘

‘لیکن کیا اماں۔۔۔  تم چپ کیوں ہو گئی۔ ‘

‘گلاب دئی تو بہادر عورت ہے۔۔۔  اسے تو  فخر ہونا چاہئیے۔۔۔ ‘

‘ہاں بیٹا۔۔۔  فوجی کی عورت تو تمغوں کے سہارے ہی جیتی ہے لیکن۔۔۔ ‘

‘لیکن کیا اماں۔۔۔  کچھ تو بولو!’

‘اس کا حال تو بےحال رہا۔۔۔  آدمی کے بنا عورت ادھوری ہے۔۔۔  اور فوجی کی عورت پر تو کتنی انگلیاں اٹھتی ہیں۔۔۔  تم کیا جانو۔ ‘ تم تو نول کے نولائی رئے۔

‘ہوں !’

‘کیا تمغے تمہاری دوسری ٹانگ واپس لا سکتے ہیں؟ اور تین سال سے سرکار نے سدھ بدھ ہی کہاں لی۔۔۔ ‘

لہنا سنگھ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔  صوبیدارنی نے کس پیار سے اسے گرفتار کر لیا تھا۔۔۔  ہزارا سنگھ اور بودھا سنگھ کی حفاظت کر کے اس نے کون سا مورچہ مار لیا تھا۔۔۔  وہ میدان جنگ میں تڑپ رہا تھا اور ریڈ کراس وین باپ بیٹے کو لے کر چلی گئی تھی۔۔۔  اس نے جو کہا تھا میں نے کر دیا۔۔۔  سوچ کر پھول اٹھا لیکن گلاب دئی  کی جوانی  کی آندھی کیسے گزری ہو گی۔۔۔  لوگ کہتے ہوں گے۔۔۔  برساتی نالے سا طوفان آیا اور وہ جھر بیری کی طرح بچھ گئی تھی۔۔۔  طوفان میں دبی۔۔۔  سہمی سی لنگڑے خرگوش سی۔۔۔  نہیں۔۔۔  لنگڑی وہ کہاں ہے۔۔۔  لنگڑا تو لہنا سنگھ آیا ہے۔۔۔  چین میں نینسی  سے بتیاتا۔۔۔  کھلکھلاتا۔۔۔۔

اماں پھر رسوئی میں چلی گئی تھی! گلاب دئی اس کی لکڑی کی ٹانگ کو سہلا رہی تھی۔۔۔  شائد اس میں حرکت  پیدا ہو جائے۔۔۔  شاید وہ پھر دہاڑنے لگے۔۔۔  تبھی لہنا سنگھ نے کہا تھا، ‘گلابو۔۔۔  یہ نہیں دوسری ٹانگ۔۔۔ ‘

وہ دونوں ٹانگوں کو دبانے لگی تھی۔۔۔  اور آنسوؤں کی دھار اس کے چہرے کو دھو رہی تھی۔۔۔  وہ پھر بولا۔ ‘گلابو۔۔۔  تمہیں میرے اپاہج  ہونے کا دکھ ہے؟’

‘نہیں تو!’

‘پھر رو کیوں رہی ہو۔۔۔ ‘

‘فوجی کی بی بی روئے تو بھی لوگ ہنستے ہیں اور اگر ہنسے تو بھی ظنز کے تیر چھوڑتے ہیں۔۔۔  وہ تو جیسے لاوارث عورت ہو۔۔۔  وہ پھوٹ پڑی تھی !’

‘میں تو سدا تمہارے پاس تھا!’

‘اچھا!’ اب ذرا وہ کھلکھلائی۔

‘ہیرے کا ہیرا پا کر بھی تم بےبس رہیں۔ ‘

‘اور تمہا رے پاس کیا تھا؟’

‘تم!’

‘نہیں۔۔۔  کوئی میم تمہیں سلاتی ہوگی۔۔۔  اور تم موم سے پگھل جاتے ہوؤ گے۔۔۔  مرد ہوتے ہی ایسے ہیں !’

‘ذرا کھل کر کہو ن۔۔۔ ‘

‘گوری چٹی میم دیکھی نہیں کہ لٹو ہو گئے۔۔۔ ‘

‘تمہیں شک ہے ؟’

‘ہوں۔۔۔  تبھی تو اتنے سال  خبرنہیں لی۔۔۔ ‘

‘میں تو تمہارے پاس تھا ہمیشہ۔۔۔  ہمیشہ۔۔۔ ‘

‘اور وہ صوبیدارنی کون تھی؟’

‘کیا مطلب؟’

‘تم اب بھی ماں سے کہہ رہے تھے۔۔۔  اس نے کہا تھا۔۔۔  جو کہا تھا۔۔۔  میں نے پورا کر دیا۔۔۔ ‘

‘ہاں۔۔۔  میں جو کر سکتا تھا۔۔۔  وہ کر دیا۔۔۔ ‘

‘لیکن یدھ جنگ میں صوبیدارنی کہاں سے آ گئی؟’

‘وہ کلپنا تھی۔ ‘

‘تو کیا گلابو مر گئی تھی۔۔۔  میں کلپنا میں بھی یاد نہیں آئی۔ ‘

‘میں تمہیں اس سے ملانے لے چلوں گا۔ ‘

‘ہوں۔۔۔  ملو گے خود اور بہانہ میرا۔۔۔  فوجیا تجھے گھرے نی آنا تھا !’

‘میں اب چلا جاتا ہوں۔۔۔ ‘

‘میرے لئے تو تم کب کے جا چکے تھے۔۔۔  اور آ کر بھی کہاں آ پائے۔۔۔ ‘

‘گلابو۔۔۔  تم بھول کر رہی ہو۔۔۔  میں نے کہا تھا نا۔۔۔  مرد اور کرد کبھی کھوٹے  نہیں ہوتے۔۔۔  انہیں چلانا آنا چاہئیے۔۔۔ ‘

‘اچھا۔۔۔  اچھا۔۔۔  چھوڑو بھی نہ اب۔۔۔  ہیرا آ جائے گا۔۔۔ ‘

اور دونوں اندر لے گئے۔  صدیوں بعد جو ملے تھے۔  چھوٹے چھوٹے سکھ دلوں کی کدورت کو دھو ڈالتے ہیں اور ایک دوسرے کے تئیں بھروسے زندگی کی بنیاد ہوتی ہے۔۔۔۔  گلاب دئی لہلہانے لگی تھی۔۔۔  اور آنگن میں اچانک دھوپ کھل آئی تھی۔