FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

دم چھلا

اور دوسرے افسانے

 

 

 

               رمزی آثم

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

دم چھلا

 

 

 

بڑی بی بی جی کی چھوٹی بیٹی ہمیشہ مجھے ایک ہی طعنہ مارتی ” دم چھلا "ہر وقت ہماری ماں کے پیچھے لگا رہتا ہے۔۔۔۔لیکن مجھے کبھی اس کے اس طنزیہ جملے پر غصہ نہیں آیا بالکل میں اس کے اس طنزیہ جملے کے جواب میں ایک حقارت بھری نظر اس کے مسخ شدہ چہرے پر ڈالتا اور آگے بڑھ جاتا.

 

میں واقعی بڑی بی بی جی کا دم چھلا ہوں اور اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ وہ مجھے زیادہ تنخواہ دیتی ہیں یا کھانے کو کچھ زیادہ مل جاتا ہے بالکل اس کا سبب یہ ہے کہ بی بی جی اذیت ناک حد تک خوبصورت ہیں اتنی خوبصورت کہ ان کو دیکھ کر پتھر پگھل جائیں اور میں تو ایک انسان ہوں۔

 

میرے باپ نے چوہدری صاحب سے کچھ پیسے ادھار لئے تھے جسے وہ ساری عمر نہ چکا سکا اور مر گیا باپ کے مرنے کے بعد چوہدری نے اپنا سارا پیسہ سود سمیت واپس لے لیا۔ مجھے تین وقت کی روٹی اور عید تہوار پر کپڑوں کے عوض اپنے گھر ملازم رکھ لیا جب میں یہاں آیا تھا اس وقت میری عمر سولہ سال تھی میں ایک سیدھا سدھا نوجوان تھا اب میں گزشتہ پانچ سال سےچودہری عاشق کی اس عظیم الشان حویلی کے سرونٹ کواٹر میں رہائش پذیر ہوں میرے علاوہ اس گھر میں چند اور بھی ملازم اور ملازمائیں ہیں اندر کے سب کام ملازمائیں کرتی اور باہر کے کام ملازم۔میرے علاوہ کسی ملازم کو اجازت نہیں کہ حویلی کے اندر داخل ہو سکے یہ عنایت خاص صرف مجھی پر ہے کہ میں جب چاہوں حویلی کے اندر باہر آ جا سکتا ہوں اس کا سبب کیا ہے یہ مجھے خود نہیں معلوم۔ ۔۔۔لیکن میں بھی ایک خاص وقت تک حویلی کے اندر رہ سکتا ہوں جب تک بی بی جی چاہیں چوہدری صاحب شہر والے بنگلے میں اپنی نئی شہری بیگم کے ساتھ رہتے ہیں مہینے میں صرف ایک دو بار ہی ان کا ادھر آنا ہوتا اور ان کی زیادہ تر مصروفیات زمینوں کی دیکھ لیکھ سے جڑی ہوئی ہوتی وہ کچھ دن حویلی میں رہتے اور پھر واپس اپنی شہر والی بیگم صاحبہ کے پاس چلے جاتے لیکن اس بار تو انھوں نے حد ہی کر دی تین مہینے سے ادھر کا رخ نہیں گیا۔

 

بی بی جی سے چوہدری صاحب کی دو بیٹیاں ہیں جو اپنی باپ پر گئی ہیں بد شکل اور بد تمیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ایک آنکھ اچھی نہیں لگتی تھیں سارا دن اپنے باپ کی طرح مجھ پر حکم چلاتی رہتی لیکن میں ان پر زیادہ دھیان نہیں دیتا اور اپنا زیادہ سے زیادہ وقت بڑی بی بی جی کے ساتھ لگا رہتا انھیں کے کام کرتا اس سے مجھے خوشی ملتی ہے یہی وجہ ہے کہ چوہدری کی بیٹی مجھے دم چھلے کا طعنہ مارتی اگر وہ بھی اپنی ماں کی طرح خ

پوری حویلی میں بی بی جی ہی ایک ایسا نگینہ ہیں جن کی وجہ سے میں یہاں ٹکا ہوا ہوں ورنہ کب کا یہاں سے بھاگ گیا ہوتا۔ بی بی جی غصب کی خوبصورت ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن چوہدری صاحب پر تو آج کل شہری بیگم کا نشہ چڑھا ہوا ہے یہ بوتل تو انھوں نے کھولی چھوڑی ہوئی ہے میرا دل چاہتا ہے کہ کھلی شراب کی اس بوتل میں سے کچھ گھونٹ پی لوں لیکن میں اس شراب کو چکھنے کا بھی متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس جرم کی سزا صرف موت ہے بعض اوقات کسی لمحے میں بی بی جی میرے اتنے قریب آ جاتی ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں ناگ کی طرح ان سے لپٹ جاؤں میرا جسم جہنم کی آگ کی طرح دھکنے لگتاجس سے شعلے نکلنے لگتے اور پھر سرد ہو جاتے ہیں میں نے اپنے ارادوں پر جبر کا تالہ ڈالا ہوا ہے۔

 

بی بی جی کسی نرم ہوا کے جھونکے کی ماند میرے قریب سے گزر جاتی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ۔۔۔۔۔۔۔ان کے ریشمی لباس سے اٹھنے والی مہک نے میری نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔دن تو خیر کسی طرح گزر جاتا ہے لیکن کالی رات میرے وجود پر کوڑے برساتی میں جسم کو ننگی چارپائی کے پنڈے سے اتنی بے دردی سے رگڑتا کہ ساری کمر چھل جاتی لیکن نیند میری وحشت زدہ آنکھوں پر پھر بھی دستک نہ دیتی میں صبح سویرے اٹھ کر نہر کے ساتھ بنی پکی سڑک پر اتنی تیز بھاگتا ہ کہ سردیوں کی بھیگی ہوئی اس صبح میں بھی مجھے پسنیہ آ جاتا۔ ۔۔۔۔۔۔لیکن وحشت کم نہیں ہوتی میں تھک کر زمیں پر گرتا ہوں اور بے اختیار منہ سے نکلتا بی بی جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

بی بی جی چپ چاپ سارا دن اپنے کام میں لگی رہتی ہیں یا اپنی بچیوں کے ساتھ باتیں کر تی رہتی یا بناو سنگار۔۔۔۔۔۔جس دن وہ دل سے تیار ہو جاتی اسی دن مجھے بخار چڑھ جاتا مجھ سے ان کا سجنا سنورانا نہیں دیکھتا جاتا وہ تیار ہو کر ایسی نکھر جاتی جیسے رات کی رانی کی خوشبو رات کو مہکا دیتی ہے میں نے اپنے ارادوں پر جبر کا تالا ڈالا ہوا ہے لیکن یہ تالا کسی دن کھل بھی سکتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ہم ملازموں کے ساتھ تو ان کا رویہ ملازموں جیسا ہی ہے انھیں نے کبھی مجھے اپنے پاس بلا کر یہ نہیں پوچھا کہ تجھے کسی شے کی ضرورت تو نہیں تو میں بے اختیار کہہ دیتا۔ ۔۔ہاں۔ ۔۔

آپ کی۔

 

جیسے ہی شام کا سورج غروب ہوتا بی بی جی انگلی کے اشارہ سے مجھے حوالی سے جانے کا اشارہ کر دیتی اور میں پالتو کتے کی طرح چپ چاپ حولی سے باہر نکل جاتا اور صبح ہوتے ہی کسی غلام کی طرح ان کی خدمت میں حاضر ہو جاتا میرے دن ایسے ہی جلتے سلگتے گزر رہے ہیں کہ غلاموں کی زندگی ایسے ہی گزر جاتی ہے جس میں کبھی خوشی کا کوئی لمحہ نہیں آتا۔

 

رات بڑے زور کی سردی پڑی میں ساری رات اپنے کواٹر کی دیوار کے ساتھ چمٹ کر پڑا رہا رات میرے پنڈے پر پرچیاں چلاتی رہی کورا پڑتا رہا میں چاہتا تھا یہ رات جلدی گزر جائے لیکن آج تو سویر ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی میں کئی بار اٹھ کر باہر دیکھ چکا تھا ہر طرف دھند ہی دھند تھی ہر طرف خاموشی ہی خاموشی تھی حویلی کی لالٹینیں ویسے ہی جل رہی تھیں جیسے رات میں جلتی تھی لیکن شاید دن نکل آیا تھا لیکن شاید سورج نے آنکھ نہیں کھولی تھی میں آنکھیں ملتا ہوا کواٹر سے باہر نکل آیا نلکے کے ٹھنڈے پانی سے منہ پر چھٹے مارے اور حویلی کی طرف چل پڑا میں جیسے ہی حولی میں داخل ہوا بی بی جی کی آوازیں سن کر دروازے میں ہی رک گیا بی بی جی چھوٹی بی بی جی بری طرح مار رہی تھیں ایسا منظر میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا بی بی جی کو غصہ نہیں آتا تھا لیکن تو وہ آگ کا گولہ بنی جیسے ہی نظر مجھ پر پڑی بی بی جی کو چھوڑ کر مجھ پر برس پڑی خوب گالیاں دیں حالانکہ میرا تو کوئی قصور بھی نہیں تھا میرا دل چاہا میں وہاں سے بھاگ جاؤں لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا میرے پاؤں جیسے زمین میں گڑ گئے تھے میں چپ چاپ گالیاں سنتا رہا۔ بی بی جی تھوڑی دے مجھے گالیاں دیتی رہیں پھر اپنے کمرے چلی گئی بی بی کی دونوں بیٹیاں بھی ڈر کر اپنے کمرے میں چلی گئی میں وہی دیوار سے لگ کر بیٹھ گیا سار دن اسی طرح گزر نا کوئی کسی سے بولا نہ چودھری کی لڑکیوں نے کوئی شرارت نہ کی کوئی حکم چلایا اور نہ ہی بی بی جی نے کوئی کام بتایا۔

 

دبے پاؤں رات نے حویلی کی دہلیز پر دستک دی اور سب کواڑ سو گئے۔میں وہی دیوار سے لگا چپ چاپ بیٹھا رہا بی بی جی کے کمرے کا دروازہ کھلا ایک نظر انھوں نے میری طرف دیکھا اور صوفے پر لیٹ گئی۔۔۔۔۔۔۔میں چپ چاپ دیوار سے ٹیگ لگائے مٹی کے مجمسہ کی طرح بیٹھ رہا۔۔بی بی چھت کو گھورتی رہیں ان کی سانس تیز تیز چل رہی تھی اور ان کا خوبصورت بدن ریشمی لباس سے چھلک رہا تھا۔۔۔۔بی بی جی گرم سانسوں کی گرماہٹ مجھے اپنے بدن میں اتری ہوئی محسوس ہو رہی تھی بی بی ایک دم صوفے پر سےاٹھیں اور مجھے گھسٹتے ہوئے اپنے کمرے میں لے گئیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

بد ذات

 

 

دل گزارش کر رہا ہے کہ میں اسے نئے غم کا تحفہ عنایت کروں۔ ۔۔۔۔۔۔۔مگر میرے پاس آنسو ہیں جن سے پیاس نہیں بجھائی جا سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔صرف رویا جا سکتا ہے اور رونے کی فرصت کسے ہیں۔۔۔۔۔آگے سے ہٹو مجھے جانے دو مجھے ایک لاش پر بیٹھ کر گریہ کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔یہ لاش کس کی ہے یہ کہانی ابھی رہنے دو۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی فرصت سے آنا میں اس کی گلی سڑی ہڈیاں دکھاؤں گا تو شاید تم پہچان جاؤ گے۔۔۔۔۔۔یہ کون شخص ہے۔

 

اپنا سامان اٹھاؤ اور چلتے بنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے گھر میں تمھارے لئے کوئی جگہ نہیں تم ایک بد بو دار شخص ہو جس کی نحوست سے سارا انگن مہک رہا رہا ہے۔جب تم پہلی بار یہاں آئے تھے تمھاری انگلیوں کے ناخنوں میں میل بھرا ہوا تھا اور تم روٹی کے ایک نوالے کی خاطر اپنا ضمیر بیچنے کے لئے تیار تھے۔۔۔لیکن میں نے تم پر ترس کھایا اور تمھیں کھانے کے لئے روٹی اور سونے کے لئے بستر دیا۔۔۔لیکن شاید تم اس رحم کے قابل نہیں تھے۔۔اب کھڑے میری شکل کیا دیکھ رہے ہو۔ ۔۔۔دفعہ ہو جاؤ۔۔کمینے۔ ۔۔۔۔۔بد ذات۔

 

مجھے اس شخص سے نفرت ہے میں اسے اپنے گھر سے نکال چکا ہوں۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس بد ذات نے میرے گھر کے سامنے جھونپڑی ڈال لی ہے۔۔اب آتے جاتے یہ اپنے پیروں سے مجھ پر لعنت بھیجتا ہے یہ وہی شخص ہے جس کا میرے گھر میں قیام تھا۔ ۔۔میرے ٹکڑوں پر پلنے ولا کتا اب مجھ پر بھونکتا ہے اس نے گلی کے آوارہ بد معاش لوگوں کی جماعت بنا لی ہے جس کے ساتھ بیٹھ کر یہ روز شام کو شراب پیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور با آواز بلند مجھے گالیاں دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔میں اس کمینے کا کیا کروں۔

 

خدا بھی شاید اس سازش میں برابر کا شریک ہے ورنہ پورے ملک میں خوب بارش ہوئی اور اس بارش میں لوگوں کے گھر بار تک بہہ گئے لیکن اس شہر پر خدا کا عذاب نازل ہوا بارش کا ایک قطرہ نہ گرا۔ ۔۔کاش کہ یہاں بھی بارش ہوتی جو اس کی جھونپڑی بہہ کر لے جاتی یہی ایک راستہ تھا اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کا لیکن شاید خدا بھی سازش میں شریک تھا میری تمام دعائیں بے کار گئی بارش نہ ہوئی اور باہر بیٹھا وہ خبیث میری بندگی پر قہقہے لگاتا رہا۔

 

اب مجھے نیند آ رہی ہے میں کچھ دیر کے لئے سونا چاہتا ہوں یہی وہ ایک لمحہ ہے جو مجھے اس خبیث سے نجات دلاتا ہے جب میں سو جاتا ہوں تو اس کا مکروہ چہرہ کچھ دیر کے لئے میری آنکھوں کے آگے سے ہٹ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔اور میں کچھ خواب دیکھ سکتا ہوں۔۔۔۔۔

 

میں نے اپنی روشن آنکھوں کے لئے کیا کیا خواب نہ سوچے تھے۔۔۔لیکن میں اپنی آنکھوں کو جاگنے کی اذیت ہی دے سکا جن میں نیند کا گذر ایک مہمان کی طرح ہوتا ہے۔میں اب کبھی کبھار ہی سوتا ہوں وگرنہ زیادہ تر میرا سامنا فٹ پاتھ پر بیٹھے اس ننگے شخص سے رہتا ہے جو لمحہ لمحہ مجھے برباد ہوتا دیکھنا چاہتا ہے مجھے بر قرار و بے چین دیکھ کر اسے خوشی ملتی ہے اور میں دن بہ دن اس کی مسرت میں اضافہ کرتا رہتا ہوں۔

 

میں نے اپنے ساتھ زندگی میں دو بار ظلم کیا۔ ۔۔ ایک بار اسے اپنے گھر میں رکھ کر اور دوسری بار اسے گھر سے نکال کر کیونکہ جب سے میں نے اسے گھر سے نکالا ہے یہ میری وحشتوں میں مزید اضافہ کا باعث بنا ہے۔۔۔۔۔۔۔یہ مجھے دیکھ کر آوازیں کستا ہے۔ اسے میرے سب دکھوں کا پتا ہے۔ ۔۔۔۔کون سا آنسو کہاں رکھا ہے اسے سب خبر ہے۔اس نے میرے دل کی سب کھڑکیوں پر خود تالے لگائے ہیں۔۔۔جس کی چابی اس کے پاس ہے میں جب بھی اس سے چابی مانگتا ہوں تو وہ زور زور سے قہقہے لگاتا ہے تو میرا دل چاہتا ہے کہ اپنی یادوں کا تیزاب اس کے پیلے نوکیلے دانتوں پر چھڑک دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر میں بے بس ہوں۔

 

بے دھیانی میں میں اپنے کچھ راز اس کے سپرد کر چکا ہوں جسے دھرا کر وہ میرا مذاق اڑاتا ہے۔۔ میں نے ہی اسے بتایا تھا کہ اپنی پہلی محبت کے منہ پر خود میں نے ہی تھوکا تھا۔۔۔۔جس کی نجاست سے میرے جسم پر نیل پر گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔پہلی بار میں نے اپنے باپ کی جیب سے سکے نکال کر سگریٹ کا پیکٹ خریدا تھا جس کا دھواں میری آنکھوں میں بھر گیا ہے اور ایسے ہی کئی بے ہودہ راز۔ ۔۔۔میں خود اسے بتا چکا ہوں اور اب یہ کمینہ میری کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر مجھے بلیک میل کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔میرے باس اب ایک ہی راستہ ہے میں اس بد ذات کا خون کر دوں یا اسے یونہی فٹ پاتھ پر پڑا رہنا دوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا اس کمبخت کے ساتھ سمجھوتا کر لو اور دوبارہ اسے اپنے گھر لے آؤں۔۔۔تاکہ اس کی زبان بند رہے۔۔۔۔۔۔اور میرے عیبوں پر پردہ پڑا رہے۔ میں روز کوئی نیا فیصلہ کرتا ہوں لیکن عمل کرنا شاید میرے اختیار میں نہیں رہا۔میں اس بد ذات کے ہاتھوں مجبور ہو چکا ہوں میرا دل مجھ سے نئے غم کی گزارش کر رہا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔اور میرے پاس صرف آنسو ہیں جن سے پیاس نہیں بجھائی جا سکتی میرے سامنے ایک لاش پر پڑی ہے جس پر بیٹھ کر مجھے گریہ کرنا ہے۔یہ لاش اسی بد ذات کی ہے۔ ۔۔۔۔۔جو گزشتہ رات ٹھنڈ لگنے سے مر گیا ہےَ

٭٭٭

 

 

 

 

گدھے کی آواز

 

 

 

” جنگل میں اتنا شور کیوں ہے یہ کیا ہو رہا ہے” جنگل کےسبھی جانور ایک کتے کے بادشاہ بنائے جانے پر احتجاج کر رہے ہیں ایک گدھے نے جواب دیا۔۔۔۔کیوں کیا جنگل کے سارے شیر اور چیتے مر گئے ہیں جو ایک کتے کو جنگل کا بادشاہ بنا دیا گیا ہے نہیں جناب مر ے نہیں ہیں بلکہ بک گئے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کتا بہت مالدار ہے اس کے پاس اتنی دولت ہے کہ اس نے اپنی بے پناہ دولت کے سبب سب شیروں اور چیتوں کو خرید لیا ہے۔اور اب خود جنگل کا بادشاہ بن گیا ہے۔گدھے نے جواب دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔او اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس کتے کہ پاس اتنی دولت کہاں سے آئی۔ ۔۔۔۔ یہ ایک بہت لمبی داستان ہے لیکن میں آپ کو مختصر بتا دیتا ہوں۔۔۔۔۔۔گدھے نے جواب دیا۔۔۔۔۔۔۔اس کتے نے جنگل کی ایک ہرن سےشادی کی جو بہت خوبصورت اور ذہین تھی یہ ساری دولت اور تعلقات سب اسی وجہ سے بنے ہیں اور جب ہرن جنگل کی بادشاہ بنی تو اس مکار کتے نے جنگل کے غریب جانوروں پر ٹیکس لگایا بڑے بڑے ٹھیکے دئے اور ان کے عیوض بھاری کمیشن وصول کیا۔جس سے اس کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوا یہ ساری رقم وہ ایک بڑے جنگل کے بینک میں جمع کرتا رہا۔اور مال دار بن گیا۔۔۔اس مکار کتے نے ایک جلسہ عام میں ذہین ہرن کو مروا دیا اور خود جنگل کا بادشاہ بن گیا۔۔۔۔۔۔۔روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والا یہ کتا جنگل کے جانوروں کو بنیادی حقوق سے محروم کر رہا ہے بس اسی وجہ سے جنگل کے سب جانور اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔گدھے نے اتنا کہا اور ڈھی چوں دھی چوں کرنے لگا پورے مجمع میں اس کی آواز سب سے بلند تھی لیکن ایک گدھے کی بات بھلا کون سنتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

جنگل میں سوگ کا سا سماں ہے۔۔۔جب سے یہ کتا جنگل کا بادشاہ بنا دیا گیا ہے جنگل کے سارے جانور اداس اور پریشان ہیں۔۔۔۔ان کی زندگی عذاب بن گئی تھی مہنگائی اور بے روزگاری نے جنگل کے جانوروں سے ایک وقت کا چارہ تک چھین لیا ہے۔ ۔۔۔۔۔جنگل میں شہر کا قانون نافذ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب جانور ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے ہیں جنگل میں چوری اور ڈکیتی عام ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔خوف اور دہشت کے مارے جانوروں نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔سب ظالم کتے سے تنگ ہیں لیکن کسی کی مجال نہیں کہ اس کتے کے خلاف آواز بلند کر سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کتا مکار ہے اپنے اقتدار کو جمائے رکھنے کے لئے اس نے سب طاقتور جانوروں کو اپنے ساتھ ملا رکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب وہ جنگل کا بادشاہ تھا اور سب اس کی رعایا۔

 

جنگل کے بادشاہ کتے کو یقین ہے کہ کوئی اس کے اقدار کو ختم نہیں کر سکتا اور یہ کہ وہ اپنی مدت پوری کرے گا۔۔۔۔۔۔۔لیکن اسے ایک گیڈر سے خطرہ ہے جو کئی برس پہلے ایک حملے میں اپنی ایک آنکھ گنوا چکا ہے۔۔۔اب وہ ایک آنکھ سے سب کو دیکھ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔گیڈر نے عدل کا ترازو اپنے ہاتھ میں پکڑ ہوا ہے۔۔۔۔اور وہ سب کو انصاف مہیا کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کتے کی بے پناہ دولت کے سامنے وہ بھی بے بس نظر آتا ہے۔ ۔۔گیدڑ نے بہت زور لگایا کہ وہ کسی طرح مکار کتے سے جنگل کی لوٹی ہوئی رقم نکلوا سکے لیکن اس کی ساری کوشش ناکام جا رہی ہیں مکار کتے کے سرفروش بھیڑیئے اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔۔۔۔۔۔گیدڑ پریشان ہے اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے وہ کیا کرئے جس سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکے۔۔۔ایک دن گیدڑ نے جنگلی ریچھ کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی اور اس سے مشورہ کیا کہ وہ کس طرح اس ظالم کتے سے لوٹی ہوئی رقم نکلوا سکتا ہے جنگلی ریچھ جو اپنے سارے بال ہوا کی نذر کر چکا تھا کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا اسے گیدڑ کی ذہنی حالت پر شبہ ہونے لگا ہے گیڈر کو خاموش رہنے کا مشورہ دیا۔۔۔۔اور جنگل میں نئے ایلکشن کروانے کا مشورہ دیا۔ ۔۔۔۔لیکن گیدڑ کا پتا ہے کہ الیکشن کروانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔کیونکہ وہ جانتا ہے اس طرح شاید کتا تو چلا جائے گا لیکن اس کی جگہ ریجھ یا کوئی اور مگرمچھ حکمران بن جائے گا۔

 

گیدڑ کی نیت ٹھیک ہے اور اسے جنگل کے مظلوم جانوروں کی حمایت بھی حاصل ہے لیکن وہ بے بس ہے اسی جنگل میں ایک چیونٹی بھی رہتی ہے یہ کمزور اور ادنی سے چیونٹی سارا دن انقلاب کے نعرہ لگتی تو جنگل کا بڑا ہاتھی اس پر اس زور سے ہنستا کہ اس کے لمبے لمبے کان اس کے منہ پر لگتے۔۔۔ہاتھی کو ہنستا دیکھ کر چیونٹی کو بہت غصہ آتا۔۔۔۔۔۔وہ اپنی کمزور سی آواز میں اور زور زور سے نعرے لگاتی انقلاب انقلاب انقلاب۔

 

چیونٹی کمزور ہے لیکن اس نے جنگل کے چند گیدوں کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے جو جنگل کے مختلف حصوں میں جلسے منعقد کرتے ہیں اور یہ بتا نے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر کتے سے جلد نجات حاصل نہیں کی گئی تو سارا جنگل جل کر رکھ ہو جائے چیونٹی اپنی کوششوں میں مصروف ہے

 

لیکن جہاں کوئی گدھے کی آواز نہیں سنتا وہاں بچاری چیونٹی کی فریاد کون سنے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

گلی کا کتا

 

 

 

گلی کی نکڑ پر بیٹھے اس آوارہ بد چلن بد ذوق کتے سے مجھے شدید نفرت ہے۔۔میں جب بھی گھر سے نکل کر کہیں جانے کا ارادہ باندھتا ہوں یہ کمبخت دور سے ہی دیکھ کر بھونکنا شروع کر دیتا ہے۔اور جب تک میں گھر نہ پلٹ جاؤں مسلسل بھونکتا رہتا ہے۔میں کئی بار اس کے ظالمانہ رویہ کی شکایت محلہ کمیٹی میں کر چکا ہوں۔ ۔لیکن سبھی اس ذلیل کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ محلے کے اس اکلوتے بدمعاش پر کسی کا زور نہیں چلتا وہ تو شکر ہو کہ یہ انسان نہیں ہے۔ ورنہ اس کی جانب سے بھیجی جانے والی بھتے کی پرچیوں پر بھی کسی کو اعتراض نہ ہوتا اور لوگ چپ چاپ اس کا ہر مطالبہ مان لیتے۔ تاکہ کسی طرح اس سے جان چھوٹ سکے۔۔کئی بار محلہ کمیٹی میں اسے بے دخل کرنے کی سازشیش تیار ہوئی کئی بار گوشت پر زہر لگا کر اس کے سامنے رکھا گیا لیکن حرام ہو جو کبھی اس نے منہ لگایا ہو۔۔ کئی بار اس پر گولیاں برسائی گئی لیکن یہ کمبخت ہر بار بچ نکلتا۔ ۔۔۔تھک ہار کر لوگوں نے اپنی کوشش ترک کر دی۔ لیکن اس بےحیا کو کبھی حیا نہ آئی۔اس نے اپنی سرگرمیوں میں کمی کرنے کی بجائے اور اضافہ کر دیا تھا۔

 

پچھلے ہفتے تو اس نے انتہا کر دی محلے کی اکلوتی حسینہ پر عین اس وقت حملہ آور ہو گیا جب وہ کالج جا رہی تھی وہ تو اچھا ہوا کہ اس کا ڈوپٹہ اس کے منہ لگا بوکھلاہٹ اور خوف کے مارے وہ خود زمیں پر آن گئی اور اس کی ساری جوانی زمیں پر انڈل گئی۔ ۔۔۔۔کتے کا شور حسینہ کی چیخیں سن کر کئی منچلے گھر سے نکل آئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ مگر وہ کتا ہی کیا جو ہاتھ جائے۔اس ایک کی سزا سارے محلے کو بھگتنی پڑی۔ ڈر اور خوف کے مارے حسینہ نے گھر سے نکلنا ترک کر دیا یوں آنکھوں کی رونق بڑھانے کا یہ آخری موقع بھی ہاتھ سے گیا سب اس بد ذوق کتے کو کوس رہے تھے اور ادھر وہ کسی فاتح کی طرح گردن اکڑے گھوم رہا تھا۔

 

سب اس کالے منہ بھورے دھڑ اور سفید دم والے کتے سے بیزار تھے جسے وہ ہر وقت انڈیلنے کی طرح کھڑا رکھتا تھا محلے کی بڑی اماں کی تو اس نے نیندیں حرام کی ہوئی تھیں بڑی اماں بے خوابی کا شکار تھیں رات کے کسی پہر جیسے ہی ذرا سی دیر کے لئے ان کی آنکھ لگتی یہ موصوف زور زور سے بھونکنا شروع کر دیتا بڑی اماں نیند کو بھول کر باہر نکل آتی اور اسے خوب خوب گالیوں سے نوازتی لیکن اس کھیل میں شاید اب اسے مزا آنے لگا تھا اب یہ اس کا روز کا معمول بن گیا تھا ادھر اماں کی آنکھ لگی ادھر اس کا بھونکنا شروع۔۔۔کوئی نہیں تھا جو اس کتے کا منہ بند کر سکے صرف محلے کے قصائی کے ساتھ اس کا یارانہ تھا دونوں ایک دوسرے کے خیر خواہ تھے۔۔صبح کے وقت جیسے ہی اچھو قصائی اپنی دوکان کھولتا یہ دم ہلاتا ہوا اسے کے پٹے کے پاس پاس پہنچ جاتا۔۔اور گوشت کی جانب لپکنے والی بلیوں کا تعاقب کرتا اس مشقت کے عوض اچھو قصائی چربی اور چند ہڈیاں ناشتے کے لئے پیش کر دیتا یوں دونوں کا کام خوب چل رہا تھا۔

 

کسی کو نہیں پتا یہ آفت کب اور کیسے یہاں نازل ہوئی تھی۔۔۔محلے میں اس کی دادا گیری تھی اسی کا راج تھا سب اس کی آمد سے تنگ تھے اور جلد از جلد اس سے چھٹکارا چاہتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی کے گھر غمی ہوتی یا خوشی یہ رنگ میں بھنگ ضرور ڈالتا احمد علی کے بیٹے کی شادی میں اس نے وہ حشر برپا کیا کہ سب کو خدا کی یاد آ گئی۔۔۔سب خوش تھے جھوم رہے تھے گا رہے تھے بس یہی بات اسے پسند نہیں آئی جیسے ہی شادی کا کھانا کھلا یہ قناعت کو چیرتا ہوا اندر داخل ہوا اور باراتیوں پر حملہ کر دیا سب اس اچانک حملے سے بوکھلا گئے اور ادھر ادھر بھاگنے لگے منٹوں سیکنڈوں میں شادی والا گھر ماتم کدہ بن گیا کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھاسب ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے چند نوجوان ڈنڈے لے کر اس کے پیچھے بھاگے لیکن وہ کہاں کسی کے ہاتھ آنے والا تھا لیکن فضلو اور اکرم نے قسم ہی کھا لی تھی کہ اسے زندہ نہیں چھوڑے گے لیکن دونوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔۔فضلو کتے کے پیچھے بھاگتے بھاگتے نالے میں جا پڑا اور اکرم کی سانس نے اس کا ساتھ نہ دیا تھوڑی دور بھاگ زمیں پر بیٹھ گیا اور کتے کو بد دعائیں دینے لگا کتے کا تو کچھ نہیں گیا احمد علی کے بیٹے کی شادی برباد ہو گئی اور فضلو بچارہ نالے میں جا پڑا۔

 

محلے میں کوئی گھر ایسا نہیں تھا جو اس ظالم کتے کے ظالم شکار نہ ہوا ہو سب ہی تنگ تھے لیکن کوئی کچھ نہیں کر پا رہا تھا مسجد کے امام صاحب نے تو انتہا ہی کر دی جمعہ کی نماز کے بعد کتے سے چھٹکارے کی دعا کرا دی اس پر الگ ایک تماشا کھڑا ہو گیا کچھ لوگوں کا خیال تھا یہ خلاف شرع ہے کتے کے مارنے کی دعا مسجد میں نہیں کرانی چاہیے تھی اس پر خوب ہنگامہ ہوا نتیجہ یہ نکلا کہ امام صاحب کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا جبکہ کتا اپنی ڈیوٹی پر بادستور موجود تھا۔۔۔لیکن امام صاحب کی دعا یا بد دعا رنگ لے آئی تھی آخر کار ایک دن یہ بد چلن کتا اچانک کہیں غائب ہو گیا اس پر الگ قیاس آرائیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ شاید وہ کسی اور محلے میں چلا گیا ہے کچھ کا خیال تھا کہ اسے کارپوریشن والے اٹھا کر لے گئے ہیں کچھ کا خیال تھا کہ کتا مر گیا ہے یا کسی نے اسے مار دیا ہے غرض کتا کہیں نظر نہیں آ رہا تھا جس پر سب محلے والے خوش تھے کچھ نے تو مٹھائیاں تک بانٹ دی تھی محلے کی اکلوتی حسینہ بھی گھر سے باہر آ گئی تھی بڑی اماں کی شکایت بھی دور ہو گئی تھی اب وہ جب چاہیں آرام سے سو سکتی تھیں کیونکہ وہ بد بخت کتا کہیں چلا گیا تھا کہاں چلا گیا اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں تھی کوئی آخر کیوں اس کے لئے پریشان ہوتا اس نے کون سا کسی کے ساتھ کبھی اچھا کیا تھا سب مطمئن تھے اور خوش بھی۔

 

پھر ایک دن محلے کے ایک بچے نے آ کر خبر دی کہ محلے کا اکلوتا بد معاش کتا مر گیا ہے اور اس کی لاش نالے پر پڑی ہے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے محلے میں پھیل گئی سب اس آوارہ کتے کی لاش اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے تھے۔۔دیکھتے دیکھتے لوگوں کا ہجوم لگ گیا سب کو نالے پر پہنچنے کی جلدی تھی کچھ نے تو باقاعدہ دوڑنا شروع کر دیا ہر کوئی سب سے پہلے پہنچانا چاہتا تھا تاکہ سب سے پہلے مرے ہوئے کتے کا آخری دیدار کر سکے یہ وہی کتا تھا جس کے پاس سے گزرنے کا تصور بھی کوئی نہیں کر سکتا تھا آج سب اس کی لاش کو حقارت سے دیکھ رہے تھے اور اس مردار پر تھوک رہے تھے جلد ہی سب لوگ اس تماشے سے اکتا گئے اور خاموشی سے گھر پلٹ آئے۔۔۔

 

شام کے سائے آہستہ آہستہ بڑھ رہے ہر طرف خاموشی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عجیب نامانوس سی خاموشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس میں آوارہ بد چلن بد ذوق کتے کے بھونکنے کا شور شامل نہیں تھا۔

٭٭٭

 

 

 

رس بھری

 

میرا دل چاہتا ہے میں اس کے کھلے گریبان میں ہاتھ ڈال کر  لیموں کو اس زور سے دباؤں کہ ان کا رس بہہ نکلے۔وہ کئی بار کئی بار میرے ہاتھ کی گرفت میں آ کر نکل چکی ہے۔ کئی بار اسے چھونے کی آرزو میں میرے ہاتھ زخمی ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں اس آدھ کھلی نوخیز کلی کو اپنے کھردرے جسم سے لہولہان کر دینا چاہتا ہوں اور شاید وہ بھی ایسا ہی چاہتی ہے۔تبھی تو اس نے میرے اس غیر اخلاقی عمل کی شکایت کسی سے نہیں کی۔مجھ سے دور ہونے کی بجائے وہ میرے آس پاس منڈلاتی رہتی ہے۔ وہ جان بوجھ کر میری ناکام حسرتوں کے ساتھ الجھتی ہے وہ میرے قریب رہنا چاہتی ہے۔ بعض اوقات تو وہ میرے اتنے قریب آ جاتی ہے کہ میں ہاتھ بڑھا کر اسے جکڑ لوں۔ لیکن جیسے ہی میں اسے اپنے بازوؤں کے گھیرے میں قید کرنا چاہتا ہوں، وہ میری گرفت سے نکل جاتی ہے۔

یہ سلسلہ گزشتہ تین ماہ سے چل رہا ہے وہ مجھے دیکھتی ہے دیکھ کر مسکراتی ہے اور میں جیسے ہی اسے پکڑنے کے لئے آگے بڑھتا ہوں وہ بھاگ کر اپنے گھر میں جا گھستی ہے اور اندر سے کنڈی لگا کر زور زور سے قہقہے لگاتی  ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یہ  لوگ ابھی کچھ ماہ پہلے ہی یہاں آئے ہیں اور آتے ہی اس آدھ کھلی نوخیز کلی نے مجھے اپنا دیوانہ بنا لیا ہے ۔مجھےاس سےعشق نہیں ہے میں تو اس کے خوبصورت سراپے کا پرستار ہوں اور اس کی بے داغ جوانی سے فیض یاب ہونا چاہتا ہوں۔ اور شاید اس نے بھی مجھے اپنے منتخب کر لیا ہے

ہمارے درمیان حجاب کی دیوار حائل ہے ورنہ ابھی تک ہمارے معاملے کی کسی کو خبر نہیں ہے جیسے ہی شام کے سائے بڑھتے ہیں وہ گھر سے نکل کر گلی کی نکڑ تک آ جاتی ہے جہاں میں کسی بھوکے شیر کی طرح اس پر جھپٹ پڑتا ہوں۔ وہ کچھ دیر زخمی ہرن کے طرح میرے شکنجے میں کسمساتی ہے اور پھر ہرن کی طرح چوکڑیاں بھرتی ہوئی اپنے گھر کو پلٹ جاتی ہے میں میں اس کی گردن دبوچنے کے لئے کسی مناسب موقع کی تلاش میں ہوں۔

وہ خوبصورت ہے اور بے باک بھی۔ سلیم نلکے والے کے بیٹے کی شادی میں وہ خوب تیار ہو کر آئی ۔مہندی کی رسم ہو رہی تھی ہر طرف مہندی کی خوشبو   تھی اور وہ کسی بلا کی طرح ہر منظر پر چھائی ہوئی تھی۔ وہ بار بار میرے جسم سے رگڑ کھا کر گزر رہی تھی۔اور میں بے اختیار ہو ہو جا رہا تھا۔ میں اس کے خوبصورت جسم میں اپنے دانت گاڑھ دینا چاہتا تھا میں اس کے مرمریں جسم کو نیل سے داغ دار کرنے کے لئے بے چین تھا۔

ہر ہفتہ پندرہ دن کے بعد اماں کو اپنے میکے کی یاد آ جاتی ہے اور اپنے پانچ عدد بچوں کا بوجھ لاد کر میکے کی راہ لیتی ہیں۔ گھر کی چوکیداری کے لئے انھوں نے مجھے رکھا ہوا ہے۔  ابا کو اپنی دکان سے فرصت نہیں ہے۔ وہ ساردن دکان پر بیٹھ کر جھوٹ بیچتے ہیں اور ہونے والی آمدن سے ہمارے گھر کا چولہا جلتا ہے ۔۔۔میں ابا کے ساتھ کام پر جانا چاہتا ہوں لیکن میرے لئے انھوں نے سنہرے مستقبل کے خواب دیکھے ہیں۔ مجھے جب بھی موقع ملتا ہے مین ان کا ہاتھ بٹانے دوکان پر چلا جاتا ہوں۔ کبھی ابا خوش ہو جاتے ہیں اور کبھی نصیحتوں کی پنڈ میرے سر پر رکھ کر مجھے واپسی کی راہ دکھا دیتے ہیں۔ میں نے اپنے ابا کے خواب اپنی آنکھوں میں سنبھال رکھے ہیں۔

مجھے پڑھنے کا بہت شوق ہے میں پڑھ لکھ کر کچھ بننا چاہتا ہوں ڈاکٹر یا انجینئر  اگر کچھ نا بن پایا تو وکیل ضرور بن جانا چاہتا ہوں تاکہ جھوٹ بیچ کر اپنے گھرکا چولہا جلا سکوں۔ لیکن جب سے یہ آدھ کھلی نوخیز کلی آئی تھی،  کتابوں سے مجھے چڑ ہونے لگی تھی میں اپنا سارا وقت گلی میں بیٹھ کر دھوپ سیکھنے میں بتانے لگا تھا۔

ابا کو مجھ میں رونما ہونے والی اس نئی تبدیلی کا علم نہیں  ورنہ وہ مجھے کچا چبا جائیں۔ میری کالج کی فیس بھرنے کے لئے انھوں نے اپنی پرانی موٹر سائیکل کی نئی نئی قربانی دی ہے۔ اگر انھیں اس بات کا علم جائے تو شاید وہ میرا خون کر دیں ۔میں بھی اس نئے عذاب سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن مجھ میں رونما ہونے والی اس تبدیلی نے اپنا محتاج بنا لیا ہے وہ مجھے اس آدھ کھلی نوخیز کلی کے بدن کی خوشبو اپنی طرف بلاتی ہے۔

اماں کو میکے گئے آج دوسرا دن ہیں اور ان دو دنوں میں  میں اسے یہ بتا پایا ہوں کہ گھر میں میرے علاوہ کوئی نہیں ہے ۔اگر وہ پسند کرے تو ہم دونوں ایک نئی لذت سے آشنا ہو سکتے ہیں ۔ وہ کسی مناسب بہانے کے عوض یہ لذت کشید کر سکتی ہے۔ اس نے مجھے یقین دلایا ہے کہ وہ بہت جلد خود کو میرے سپرد کر دے گی۔۔ اور میں اس پل کا سوچ کر نہال ہو رہا ہوں۔ گزشتہ دو دن سے میں نے دروازہ کھلا چھوڑا ہوا ہے تاکہ گھر میں داخل ہونے کے لئے اسے کسی دستک کا محتاج نہ ہونے پڑے۔ وہ کسی پل بھی آ سکتی ہے۔۔۔۔ میں اس پل کے انتظار میں ہوں۔ نئے نئے اندیشے مجھے گھیرے ہوئے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اماں اپنے پانچ عدد بچوں کے ساتھ واپس پلٹ آئی تو میرا سارا پروگرام نشٹ ہو جائے گا۔ حالانکہ میں فون کر کے بتا چکا ہوں کہ جب سے وہ کئی ہیں مجھے اپنا سبق یاد کرنے میں سہولت ہو رہی ہے گھر میں بچوں کا شور نہیں ہے ۔۔۔۔لیکن اب میرے کانوں میں رس بھری کے قہقہہ کی صدا مسلسل گونج رہی ہے۔

کئی بار  دروازے سے  منڈی نکال کر بار دیکھ چکا ہوں۔ گلی میں صرف سناٹا ہے۔ رس بھری کہیں نظر نہیں آ رہی اس کے قدموں کی چاپ سے گلی کا چہرہ ابھی تک منور نہیں ہوا ہے۔۔۔۔۔کئی بار میں اس کے گھر کے سامنے سے گزر آیا ہوں۔ یہاں خاموشی کا تالا پڑا ہوا ہے۔ کئی بار میرے دل میں آیا کہ اس کے گھر کا دروازہ بجا کر کہوں کہ اب آ جائے مجھ سے اور انتظار نہیں ہوتا۔ لیکن میں ایسا نہیں کر سکا اور ہر بار چپ چاپ واپس پلٹ آتا۔

رس بھری کب آؤ گی؟ آؤ گی بھی یا نہیں میں آخری خط ہوا کے سپرد کر رہا ہوں جلد جواب دو۔

رس بھری کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا البتہ اماں واپس پلٹ آئی اور بچوں کا شور بھی۔۔۔۔۔۔

رس بھری کی طرف سے میں مایوس ہو چکا ہوں۔ خود کو میرے  سپرد کرنے کا وعدہ بے وفائی کے ربن سے بندھا ہے۔ وہ نہیں آئے گی۔ وہ صرف  مجھے جلتے سلگتے دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ اب روز شام کو گلی کی نکڑ تک آتی ہے اور میں بھوکے شیر کی طرح اس پر جھپٹ پڑتا ہوں۔ و ہ کچھ دیر میرے بازوؤں میں کسمساتی ہے اور واپس پلٹ جاتی ہے۔

رس بھری کے انتظار میں میرے جسم کا آدھا خون خشک ہو چکا ہے میرے بدن کی ہڈیاں چٹخنے لگی ہیں۔ رس بھری پہلے سے بھی زیادہ بے باک اور خوبصورت ہو گئی ہے میں اسے پانے کی حسرت میں پاگل ہو رہا ہوں اور آج تو میں نے طے کر لیا ہے اسے کسی قیمت پر حاصل کر  کے رہوں گا۔ ابھی کچھ ہی دیر پہلے میں نے اس کے گھر والوں کو کہیں جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ گھر میں رس بھری اکیلی ہے۔ اس ہرن کے شکار کا اس سے نادر موقع پھر نہیں ملے گا۔  میں اس کے گھر کی دیوار پھلاند کر اندر جانے کا ارادہ کر چکا ہوں۔۔۔میں نے اپنے حوصلے کو یکجا کیا اور گھر کے اندر کود گیا۔  دبے پاؤں میں اس کے کمرے تک جانا چاہتا ہوں تاکہ اچانک اسے اپنے بازوؤں میں بھر سکوں۔ میں نے لرزتے ہاتھوں سے رس بھری کے کمرے کا دروازہ کھولا۔ میرا جسم ریت کی دیوار کی طرح بیٹھ گیا۔

مجھ سے پہلے کوئی بھنورا رس بھری کا رس جوس چکا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

الو کا پٹھا

 

 

میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی ایک جملہ مسلسل میرا تعاقب کر رہا ہے۔۔ابا نے تو جیسے اسے اپنا تکیہ کلام بنا لیا ہے۔۔۔۔۔دن میں کوئی وہ سینکڑوں بار اس ایک جملے کو دہراتے بات بے بات  مجھے اس لقب سے بلاتے "الو کے پٹھے ” یہ جملہ میں کوئی اتنی بار سن چکا ہوں کہ اب مجھے گمان ہونے لگا ہے کہ یہی میرا نام ہے۔

بچپن میں ایک بار بہت ہی عجیب واقعہ پیش آیا۔

ہماری کلاس میں ایک نئے ماسٹر صاحب  آئے۔۔اور میری طرف اشارہ کر کے بولے تمھارا کیا نام ہے ؟

بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔”الو کا پٹھا ” بس پھر کیا تھا ماسٹر صاحب نے مرغا بنا کر وہ چھترول کی کہ آج تک یاد ہے۔

ابا جی کی اس بری عادت کا مجھ پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ مجھے یہ یقین ہونے لگا کہ جیسے میں واقعی الو کا پٹھا ہوں وہ جب بھی مجھے الو کا پٹھا کہ کر بلاتے مجھے بہت برا لگتا جب میں چھوٹا تھا تو ابا کے اس جملے پر شدید احتجاج کرتا اور اپنی توتلی زبان میں کہتا نئیں میں الو پٹھا نی اوں ۔۔۔۔۔۔اس پر ابا اور چلا کر کہتے نہیں تو الو کا پٹھا ہی ہے۔۔اماں کبھی کبھار احتجاج میں میرے ساتھ شریک ہو جاتی لیکن اس کا بھی  ابا پر کوئی اثر نہ ہوتا  وہ لگاتار مجھے میرے اسی لقب سے بلاتے ۔۔۔ کبھی کبھی میرا دل چاہتا کہ کوئی بھاری پتھر اٹھا کر ان کے سر دے مارو۔۔۔۔۔اور ان کے ماتھے سے خون رستا ہوا دیکھو اور انھیں بتاؤ ایسے ہوتے ہیں الو کے پٹھے ۔۔۔۔۔۔۔ابا کو تو میرا شکر گزار ہونا چاہیے تھا کہ انھیں میرے جیسا فرمانبردار بیٹا ملا تھا لیکن شکر تو کجا انھیں میری شکل ایک آنکھ نہ بھاتی تھی انھوں نے تو بس ایک رٹ ہی پکڑ رکھی تھی الو کا پٹھا۔

پہلے میں اس نام سے اسکول میں مشہور ہوا پھر میری شہرت سفر کرتی ہوئی محلے اور پھر پورے شہر میں پھیل گئی ۔۔۔گلی کے بچے مجھے میرے اصل نام  کی بجائے میرے باپ کے عطا کرتے لقب سے  بلانے لگے۔۔۔۔۔۔میرا اصل نام کیا ہے میں خود بھولنے لگا تھا تو دوسروں کو کیا پڑی کہ اسے یاد رکھتے میں اسی نام کے ساتھ سمجھوتا کر لیتا۔۔۔۔۔۔مگر مجھے اس الو کے پھٹے سے شدید نفرت ہو گئی تھی۔ جب بھی کوئی مجھے  اس نام سے بولتا میرا دل چاہتا میں اس کا خون پی جاؤں۔ کئی بار اس بات کو لے کر میرا جھگڑا ہو چکا تھا اپنی جنونی کیفیت میں کئی سر پھروں کے سر کھول چکا تھا۔میری اس جنونی روش کے سبب محلے اور اسکول کے لڑکوں نے مجھ سے کنارا کر لیا تھا کوئی مجھ سے دوستی کو تیار نہیں اور میں بھی کسی ایسے شخص کی دوستی کا روادار نہیں تھا جو مجھے الو کا پٹھا سمجھتا ہو۔

پتا نہیں ابا کو مجھ سے کیا دشمنی تھی ۔۔۔۔۔حالانکہ مجھ میں تو کوئی ایسی بات بھی نہیں تھی کہ وہ مجھے اس نام سے مخاطب کر کے بلاتے۔خوبصورت ،ذہین سمجھدار  فرمابنردار۔۔۔۔۔۔مجھے میں وہ سب خوبیاں تھی جو ایک لائق اور ہونہار بیٹے میں ہونی چاہیے۔ میرے علاوہ ابا کی کی کوئی اور اولاد بھی نہیں تھی کہ ابا اسے مجھ پر فوقیت دیتے اور میرے علاوہ انھوں نے کھبی کسی کو الو کا پٹھا کہ کر نہیں بلایا تھا گھر میں میرے علاوہ اماں بھی تھیں ان کے ساتھ ابا کے تعلقات کچھ زیادہ اچھے نہیں تھے۔ابا نے انھیں تو کبھی غصہ میں بھی الو کی پٹھی نہیں کہا تھا اور مجھے وہ پیار میں بھی لتاڑتے رہتے تھے۔

بچپن سے نکل کر جب میں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو میرا رنگ روپ دیکھنے والا تھا۔۔۔گلی محلے کی جوان خوبرو لڑکیاں بھی مجھے دیکھ کر رک جاتی اور مجھ سے بے تکلف ہونے کی کوشش کرتی۔۔۔مگر میں کبھی کسی کو منہ نہ لگا تا اور صرف اپنے کام سے کام رکھتا ۔۔۔۔۔ لڑکیوں سے دور رہنے کا سبب یہ نہیں تھا کہ مجھے لڑکیوں میں کشش محسوس نہ ہوتی تھی۔ بلکہ مجھے اس بات کا خوف ستاتا تھا کہیں بے داغ جوانی پر لگا الو کے پٹھے کا داغ نہ کہیں انھیں نظر آ جائے۔۔۔۔۔۔۔یہی وجہ تھی کہ میں کبھی لڑکیوں سے بے تکلف ہونے کی کوشش نہ کرتا تھا۔ میں اپنے روز و شب میں تنہا جی رہا تھا۔ میں اپنی تعلیم مکمل کر چکا تو ایک سرکاری ادارے میں مجھے ایک مناسب سی ملازمت  مل گئی اور میں دلجمعی سے اپنا کام کرنے لگا۔۔۔میں خوش تھا کیوں کہ اب ان لوگوں کی تعداد کچھ کم ہو گئی تھی جو مجھے بحیثیت الو کا پٹھا جانتے تھے۔۔۔۔۔۔لیکن ایک خوف تھا جو میرے اندر کہیں قیام کئے ہوئے تھا پرانے محلہ کا کوئی شخص مجھے دور سے نظر آ جاتا تو میں خاموشی سے راستہ بدل لیتا۔۔کہ کہیں سر راہ مجھے میرے نام سے نہ بلا لے۔۔۔۔۔۔

پھر ایک دن میری قدرے پر سکون زندگی میں بھونچال آ گیا۔ اچانک ابا نے میری شادی کا اعلان کر دیا۔ لڑکی بھی خود پسند کر لی اور دن تاریخ بھی طے کر دی اور مجھے پیغام بھجوایا گیا کہ اس الو کے پٹھے سے کہہ دو میں انکار نہیں سنو گا۔۔۔۔۔اس حکم نامے کے بعد کسے مجال تھی کہ انکار کر سکے اور اگر میں اتنا ہی خود سر ہوتا تو اب تک جو ظلم مجھ پر  ہوتا آ رہا ہے ،اس کے جواب میں گھر چھوڑ کر نہ بھاگ جاتا۔۔۔۔۔۔۔سو چپ چاپ ابا کی ہاں میں ہاں ملی دی اور الو کے پٹھوں کی طرح دلہا بن کر بیٹھ گیا۔  شادی ہو گئی۔ ایک سال بعد ایک عدد بیٹے کا تحفہ بھی مل گیا۔۔۔۔۔۔اور بیوی نے بھی مجھ الو کے پٹھے کو قبول کر لیا۔ لیکن اب گھر میں ایک نہیں دو الو کے پٹھے جمع ہو گئے تھے ایک میں اور ایک میرا بیٹا۔

میرا بیٹا میری طرح خوبصورت  سعادت مند اور فرمانبردار ہے وہ اب بڑا ہو رہا ہے۔ مجھے اپنے بیٹے سے بے پناہ محبت ہے۔ لیکن میں نے اسے کبھی اس بے ہودہ غلیظ لفظ سے نہیں بلایا۔  وہ میرے ساتھ کھیلتا ہے اور خوش رہتا ہے۔ہم ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے ۔۔۔۔۔دن بھر گھر میں ہمارے قہقہوں کی آوازیں گونجتی رہتی ہیں لیکن جیسے ہی ابا گھر میں داخل ہوتے ہیں ہم دونوں ایک دوسرے سے نظریں چرانے لگتے ہیں۔۔۔اس کی روشن آنکھیں ویسے ہی بے نور ہو جاتی ہیں جیسے کبھی بچپن میں میری۔۔۔۔۔۔

٭٭٭

 

ماخذ:

مصنف کے کتاب چہرہ کے نوٹس اور مختلف کتاب چہرہ گروہوں سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید