FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

اسماء اللہ الحسنیٰ

               الوجیز فی شرح اسماء اللہ الحسنیٰ

               جمع و اعداد = محمد الکوسی

 

۱۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 اور اللہ تعالیٰ کے اچھے اچھے نام ہیں تو تم اسے انہیں ناموں کے ساتھ پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اللہ تعالیٰ کے ناموں میں الحاد کرتے ہیں وہ عنقریب اپنے اعمال کے بدلے دیئے جائیں گے۔(الاعراف: ۰۸۱)

۲۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ کے ننانوے یعنی ایک کم سو‘ نام ہیں ان کو جو بھی شمار کر لے وہ جنت میں داخل ہو گا اور وہ (اللہ )طاق ہے۔ طاق کو پسند کرتا ہے۔(اسے بخار ی نے روایت کیا)

مالک بن دینار رحمۃ اللہ نے کہا: اہل دنیا، دنیا سے چلے گئے لیکن انہوں نے دنیا کی لذیذ ترین چیز نہ چکھی۔ سامعین نے پوچھا: اے ابو یحییٰ وہ کیا ہے ؟ مالک نے کہا: وہ اللہ عزوجل کی معرفت ہے۔

اسے ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں روایت کیا ہے۔( ج ۲ ص ۸۵۳)

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقدمہ

تمام تعریفات اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو عظمت اور کبریائی والا تعریف کیا ہوا اور بزرگی والا ہے الوہیت جس کا ایسا ہی وصف ہے۔ جس طرح عبودیت بندے کا وصف ہے۔ وہ اکمل و عالی اوصاف سے متصف ہے۔ اسے اس کے اچھے اچھے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک کے علاوہ کوئی الہ حق نہیں۔ بادشاہی اسی کے لئے ہے۔ تمام تعریفات اسی کے لئے ہیں وہی زندہ کرتا ہے وہی موت دیتا ہے۔ وہ (ہمیشہ) زندہ ہے۔ وہ کبھی نہیں مرے گا۔ تمام بھلائی اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ ‘ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے۔ جس کی تائید اس (اللہ تعالیٰ نے ) اپنی آیات اور معجزات کے ذریعے کی وہ (محمد ﷺ ) اللہ کی جنت اور اس کی رضائ کی طرف رہنمائی کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ (محمدﷺ) پر اس کی امت اور اس کی بیویوں پر رحمتیں بھیجے اور ان پر مکمل سلامتی نازل کرے۔

بعد ازیں :

اللہ تعالیٰ کے اچھے ناموں کا علم اور ان کے معانی کی معرفت دین کا بنیادی اور عظیم اصول ہے۔ اور سب علوم سے زیادہ عزت والا ہے۔

امام ابن قیم الجوزیہ رحمۃ اللہ نے اللہ تعالیٰ کے اچھے ناموں کی معرفت کی وضاحت میں لکھا۔

درحقیقت یہ دروازہ اللہ تعالیٰ کے محبین مخلصین کے لئے ہے ان کے علاوہ کوئی اور اس میں سے داخل نہیں ہو گا۔ ان میں سے کوئی بھی اللہ کی معرفت سے سیر نہیں ہوتا۔ بلکہ جب بھی محب کے لئے اللہ تعالیٰ کے ناموں سے کوئی نیا معنی ظاہر ہوا اس کی محبت ‘ شوق اور پیاس دو آتشہ ہو گئی ان کے درجات اور مراتب اسی نسبت سے مختلف ہیں جس نسبت سے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور علم کی ان میں کمی بیشی ہے۔ لہذا ان میں سے جس کو اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ معرفت حاصل ہو گی اسے ہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ زیادہ محبت ہو گی۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا کہ وہ اسے ا س کے اچھے ناموں سے پکاریں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (الاعراف ۰۸۱)

ترجمہ:اللہ تعالیٰ کے اچھے اچھے نام ہیں اسے تم انہیں ناموں سے پکارو۔

اور رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو جنت کی بشارت دی جس نے اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ شمار کیے۔ آپ نے فرمایا:

بے شک اللہ تعالیٰ کے ننانوے یعنی ایک کم سو اسمائے حسنیٰ ہیں جس نے یہ شمار کئے وہ جنت میں داخل ہوا۔ اسے بخاری اور مسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔

شمار کرنے سے کیا مراد ہے ؟

اللہ تعالیٰ کے اسماء شمار کرنے کا یہ مفہوم ہے کہ ان کے الفاظ کی گنتی کرنا‘ ان کے معانی سمجھنا۔ اور ان کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا اور اللہ کے لئے ان ناموں کے تقاضوں کو ثواب سمجھ کر پورا کرنا۔

اسی لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ گنے گا۔ اور ان کے معانی پر غور و فکر کرے گا۔ اور اس پر عمل کرے گا جس کا وہ تقاضا کرتے ہیں تو اس کا نفس پاک ہو جائے گا۔ اور اس کے اعمال درست ہو جائیں گے تب وہ اپنے آقا و مولا کی کثرت سے اطاعت کرے گا۔ اور اس کے شکر میں اضافہ کر دے گا۔ اور اللہ کے لئے اس کی توصیف اور تعظیم بہت زیادہ کرے گا۔ نیز اپنے آپ کو ہر وقت اس کی نگرانی میں سمجھے گا اور یہ سب کچھ وہ ا سکی محبت اور اس سے حیائ کی وجہ سے کرے گا۔ اگر آپ اس کے بندے سے متعلق تحقیق کریں گے تو فسق و فجور کے میدانوں میں اس کا نشان تک نہیں پائیں گے۔

بہر حال اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی کے علم کا اثر نہ صرف فرد واحد اور ایک خاندان پر ہوتا ہے بلکہ پوری امت کے لئے بہت عظیم ہے۔

ہمیں کتنی سخت ضرورت ہے کہ ہم اپنی اولاد کو اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی کی تعلیم دیں اور ہم ان کی تربیت اسمائے حسنیٰ کے معانی کے مطابق کریں۔ تاکہ انہیں یقین ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ تمام حالات میں ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ کسی حیثیت میں اور کہیں بھی ہوں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں کے سانس چلنے کا علم رکھتا ہے اور جو الفاظ ان کی زبانوں سے ادا ہوں۔ ان کو بھی جانتا ہے۔ تاکہ ہماری اولاد کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی مراقبت کا عقیدہ راسخ ہو جائے اور ان سے کبھی جدا نہ ہو۔ اور جب ان کا نفس ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی معصیت کا وسوسہ ڈالے تو وہ اللہ سبحانہ کو یاد کر لیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 (الاعراف: ۱۰۲)

بے شک جب اہل تقویٰ کو شیطانی وسوسہ چھوتا ہے۔ تو وہ (اللہ کو) یاد کرتے ہیں تب انہیں بصیرت حاصل ہو جاتی ہے۔

اے قاریِ محترم تیرے سامنے اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کی مختصر شرح ہے۔ جس کو میں نے اپنے علماء اسلاف رحمہم اللہ کے کلام سے منتخب کیا۔ اور میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ اس شرح کی وجہ سے اس کے کاتب اور قاری کو نفع دے۔ اور اسے اپنے معزز چہرے کے لئے خالص کر دے اور تمام تعریفات اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔

 

اللہ تعالیٰ کے نام لاتعداد ہیں

جمہور علماء کی رائے میں اللہ تعالیٰ کے اسماء ننانوے تک ہی محدود نہیں۔ امام نووی رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں جس میں آپ نے فرمایا۔

”بے شک اللہ تعالیٰ کے لئے ننانوے یعنی ایک کم سو نام ہیں جس نے یہ شمار کئے وہ جنت میں داخل ہوا‘ وہ طاق ہے۔ اور طاق کو پسند کرتا ہے۔“ (متفق علیہ)

امام نووی نے لکھا: یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی کی تحدید کے لئے نہیں ہے اس حدیث کا یہ مفہوم قطعاً نہیں ہے کہ نناوے ناموں کے علاوہ اللہ سبحانہ کے مزید نام نہیں ہیں۔ بلکہ حدیث کا مقصد یہ ہے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کے یہ ننانوے نام گنے گا۔ وہ جنت میں داخل ہو گا۔ لہٰذا حدیث سے مراد ننانوے ناموں کی گنتی ہے۔ نہ کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے متعلق ننانوے کی حد بندی کرنا ہے۔ (شرح صحیح مسلم للنووی)

 امام نووی کے درج بالا تحریر کی تاکید رسول اللہ ﷺ کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے۔ جو آپ ﷺ نے دعائے حزن میں فرمائے : (اے اللہ) میں تیرے ہر نام کے ذریعے تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ جو نام تو نے اپنے لئے چنا یا کسی کتاب میں نازل کیا یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو تو نے ا س کی تعلیم دی۔ یا اسے تو نے علم غیب میں اپنے لئے خاص کر لیا۔ اسے احمد نے روایت کیا اور یہ حدیث صحیح ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ننانوے ناموں کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے لامحدود نام ہیں۔ اسی پہلو سے ہم نے یہ رسالہ تحریر کیا اور حقیقت کا علم اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔

 

اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی کی معرفت کے ثمرات

اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی کی معرفت کے متعدد ثمرات ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں۔

۱۔ لذت ایمان کا حصول

۲۔ لذت عبادت

۳۔ بندے کی اللہ کے ساتھ محبت اور اس سے حیائ میں اضافہ۔

۴۔ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی شوق

۵۔ اللہ کی خشیت اوراس کی مراقبت میں اضافہ

۶۔ اللہ کی رحمت سے مایوسی اور ناامیدی کا خاتمہ ہونا۔

۷۔ اللہ جل وعلا کی تعظیم میں اضافہ

۸۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن اور ا س پر اعتماد کا یقین

۹۔خود پسندی اور تکبر سے چھٹکارا۔

۰۱۔ اللہ تعالیٰ کے علو اور اس کے قہر وجبروت کا احساس ہونا۔

 

اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ عظمت والا نام

               اسم اعظم

رسول اللہ ﷺ سے صریح نصوص ثابت ہونے کی وجہ سے جمہور علماء،  اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم کے اثبات کے قائل ہیں۔ مثلاً

عبداللہ بن بریدہ اسلمی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو یوں دعا کرتے ہوئے سنا:۔

 اے اللہ بے شک میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کیونکہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو ہی اللہ ہے تیرے بغیر کوئی سچا معبود نہیں۔ جو ایک ہے بے نیاز ہے جس نے نہ کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا اور کوئی ایک اس کے برابر نہیں۔ راوی نے کہا:

کہ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تحقیق اس نے اللہ تعالیٰ سے اس کے اسم اعظم کے وسیلے سے سوال کیا اور جب اسم اعظم کے ساتھ سوال کیا جائے تو قبول کیا جاتا ہے اور جب اس کے ذریعے کچھ طلب کیا جائے تو عطا ہوتا ہے۔ (اسے ابوداؤد نے روایت کیا)

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ جبکہ ایک شخص نماز ادا کر رہا تھا۔ پھر اس نے یوں دعا کی۔

’اے اللہ بے شک میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کیونکہ تمام تعریفات بلا شک تیرے لئے ہیں تیرے علاوہ کوئی سچا الٰہ نہیں کثرت سے احسان کرنے والا ارض و سماء کو پہلی بار پیدا کرنے والا اے بزرگی و عزت والے اے زندہ و قائم کرنے والے ‘

تو یہ الفاظ سن کر رسول اللہ نے فرمایا:

تحقیق اس شخص نے اللہ کو اسم عظیم اور ایک روایت کے مطابق اسم اعظم کے ساتھ پکارا کہ جب اس نام سے پکارا جائے تو وہ قبول کرتا ہے اور جب اس نام کے ذریعے سوال کیا جائے تو وہ عطا کرتا ہے۔

اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

 (البقرہ : ۳۶۱)

اور سورہ آل عمران کی ابتدائی آیات :۔

(آل عمران : ۱۔۲)

اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم درج ذیل دو آیات میں ہے۔

۱۔ اور تمہار ا الہ اللہ واحد ہے جس کے علاوہ کوئی سچا الہ نہیں وہ نہایت مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

۲۔ الم (حروف مقطعات) اللہ کے علاوہ کوئی سچا الہ نہیں وہ زندہ ہے اور (زمین وآسمان) قائم رکھنے والا ہے۔(اسے ابوداؤد نے روایت کیا۔)

ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

بے شک اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم قرآن کریم کی تین سورتوں میں ہے۔ البقرہ۔ آل عمران اور طہ

اسے ابن ماجہ نے روایت کیا اور علامہ البانی نے اسے حسن کہا

               اسم اعظم کیا ہے ؟

 جو نام اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کمال اور قوت جلال و جمال کی طرف رہنمائی کرے۔ مثلاً: اللہ الصمد الحئی القیوم ‘ ذوالجلال و الاکرام اور اللہ تعالیٰ سب سے بہتر جانتا ہے۔ لہٰذا جو شخص اللہ عزوجل سے ان ناموں میں کسی ایک کے ذریعے سوال کرے بشرطیکہ اسے اس پر یقین ہو اور حضور قلب کے ساتھ اس کے سامنے آہ و فغاں اور گریہ و زاری کرے تو شاید کوئی دعا بھی رد نہ کی جائے۔

 

اس کتاب میں آنے والے اسمائے حسنی کی فہرست

               اللہ

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (البقرہ :۵۵۲)

اللہ کے علاوہ کوئی سچا الٰہ نہیں

یہ خوبصورت نام رب تبارک و تعالیٰ کا تعارفی نام ہے۔ جو سچا معبود ہے۔ اس کے علاوہ ہر معبود باطل ہے۔ یہ نام اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور کے لئے یہ نام رکھنا جائز نہیں ہے۔ اور یہ نام اللہ تعالیٰ کے سب ناموں سے زیادہ عظیم ہے۔ قرآن کریم میں یہ نام (۲۰۶۲) بار آیا ہے۔

               الالٰہ: معبود

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (الانعام۔۹۱)

(اے محمدﷺ)آپ کہہ دیں بلاشبہ اللہ واحد الہ ہے

الہ بمعنی معبود ہے لہذا بندے پر لازم ہے کہ وہ غیر اللہ کے لئے کسی قسم کی عبادت ادا نہ کرے جیسے۔ دعا ‘ ذبح‘ نذر وغیرہ

 

               الرب: پالنے والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’الْحَمْدُ للّه رَبِّ الْعَالَمِينَ‘‘(الفاتحہ۔۲)تمام تعریفات اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ رب تمام جہانوں کے مربی ّ کو کہتے ہیں۔ اسی نے ان کو پیدا کیا وہی ان پر اپنی نعمتوں کی شکل میں انعام کرتا ہے۔ جو بے شمار اور لاتعداد ہیں وہی تمام جہانوں کی اصلاح کی تدبیر کرتا ہے۔ وہی ان کا مالک ہے ‘ اسی کی اطاعت تمام جہانوں پر واجب ہے۔ وہ تمام جہانوں کو پیدا کرنے میں منفرد ہے۔ اور وہ تمام جہانوں سے بے پرواہ ہے اور جہانوں سے کوئی بھی پلک جھپکنے تک بھی اس سے بے پرواہ نہیں ہو سکتا۔ رب تعالیٰ اپنے دوستوں کی ایمانی تربیت کرتا ہے لہٰذا مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اللہ کو اپنا رب تسلیم کر لیں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کہا: میں نے بخوشی اللہ کو رب تسلیم کر لیا اور اسلام کو دین تسلیم کر لیا اور محمدﷺ کو نبی مان لیا۔ اس کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیا)

               الرحمن ، الرحیم: دنیا میں مومنوں اور کافروں پر اور آخرت میں صرف مؤمنوں پر رحم کرنے والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 (البقرہ : ۳۶۱)

ترجمہ: اور تمہارا الہ ایک ہی الہ ہے اس کے علاوہ کوئی (سچا) الہ نہیں وہ (دنیا و آخرت میں ) رحم کرنے والا ہے۔

رحمن اور رحیم: دونوں نام رحمت سے مشتق ہیں دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں لیکن رحمن میں مبالغہ شدید ہے۔ اور دونوں کے درمیان معنوی فرق یہ ہے کہ رحمن وہ ہے جس کی رحمت ہر چیز کو اپنے احاطے میں لئے ہوئے ہے۔ اور اسی لئے دنیا میں اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات‘ اطاعت گزار اور نافرمان پر رحم کرتے ہیں۔ وہ اگر مومنوں کو فتح و نصرت علم ‘ ایمان اور اولاد و ازواج سے نوازتا ہے۔ تو کفار پر بڑا ہی رحم کرتا ہے۔ ان کو ساری عمر اولاد کی کثرت اور اموال، زر و جواہر اور ظاہری شان و شوکت بھی دیتا ہے۔

لیکن رحیم سے مراد: اس کی رحمت صرف اسی کو ملے گی جس پر وہ رحم کرنا چاہے گا۔ اور وہ اہل ایمان ہوں گے اس لئے علماء کہتے ہیں۔ھُوَرحمن الدنیا اور رحیم الاخرۃ ہے

ہم اہل ایمان پر جنت جتنی بھی نعمتیں ظاہری و باطنی ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی رحمت کی دلیل ہیں۔ مثلاً امن و سلامتی صحت و اموال ،اولاد، خورد و نوش وغیرہ لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت صرف اہل توحید کے ساتھ خاص ہو گی۔ لہٰذا جو بندہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار ہو اسے اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان خالص لانا چاہئے اور اللہ جل و علا اور اس کے آخری رسول محمد ﷺ کی اطاعت کرنی چاہئے۔

               المھیمن: نگہبان

اللہ تعالیٰ نے فرمایا (الحشر : ۳۲)

امن دینے والا اور نگہبان

یعنی جو اپنی مخلوقات کے تمام اعمال کی نگرانی کر رہا ہے۔

وہ ان پر نگران اعلی ہے ان کے ظاہری اعمال اور ان کے مخفی اعمال اس سے پوشیدہ نہیں بلکہ جو ان کے سینے کے پوشیدہ راز ہیں ان کو بھی وہ جانتا ہے۔اس کا علم ہر شئی پر محیط ہے۔

               القدوس: تقدیس والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (الحشر: ۳۲)

ترجمہ: وہ اللہ وہی ہے جس کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں وہ بادشاہ ہے تقدیس والا ہے۔

القدوس سے مراد۔ بابرکت۔ طاہر‘ ہر عیب سے پاک اور جس کا کوئی ہمسر‘ حصہ دار‘ مشابہ‘ اس کی مانند یا اس کی طرح کوئی نہ ہو۔

               الکبیر: بڑائی والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(’غافر: ۲۱)

ترجمہ: یہ تمہیں (اس لئے کہا جا رہا ہے ) کہ جب وہ اللہ اکیلا پکارا گیا تم نے کفر کیا۔ اور اگر اس کے ساتھ شرک کیا جاتا تو تم ایمان لاتے۔ پس حکم اللہ ہی کے لئے ہے۔ جو بلند شان والا بڑائی والا ہے۔

الکبیر لغت میں اسے کہتے ہیں جو سب سے بڑا ہو۔ اور اس سے بھی بڑا ہو کہ اس کی کبریائی اور عظمت کا کوئی احاطہ کر سکے۔ اور وہ اپنی مخلوق کی مشابہت سے بھی بڑا ہو۔ ارض و سماء اور جو کچھ ان کے درمیان ہے وہ سب اشیاء اللہ کے ہاتھ میں ا س طرح ہیں جس طرح ہم میں سے کسی کے ہاتھ میں رائی کا دانہ ہو۔

               الباری: پیدا کرنے والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(الحشر: ۴۲)

الباری : وہ ہے جس نے تمام مخلوقات کو کسی نقص یا عیب یا فرق کے بغیر پیدا کیا۔ اس کے باوجود اس کی پیدا کردہ تمام مخلوقات ایک دوسری سے علیحدہ علیحدہ ہیں اور ہر فرد مخصوص پہچان رکھتا ہے۔

               الخالق۔ الخلاَّق: پہلی بار پیدا کرنے والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “ (الحشر ۴۲)

ترجمہ: وہ اللہ ہی خالق ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (الحجر: ۶۸)

ترجمہ: بے شک تیرا رب ہی ایک مخلوق کے بعد دوسری مخلوق پیدا کرتا ہے۔ اور وہ مکمل علم رکھتا ہے۔

 الخالق: جو مخلوق کو عدم سے وجود میں لاتا ہے اور وہی ایجاد کرتا ہے۔ جس کی سابقہ کوئی مثال نہ ہو اور الخلاق: اس خالق کو کہتے ہیں جو پے درپے مخلوقات پیدا کرے۔

               المتکبر: تکبر والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “ (الحشر: ۳۲)

(وہ اللہ) تمام جابروں پر غالب اور متکبّر ہے۔

اللہ ہر برائی، نقص ، عیب اور ظلم سے اعلیٰ ہے۔ وہ مخلوقات کی صفات سے بھی اعلیٰ ہے۔ نیز متکبر، کبریائی والے اور عظمت والے کو کہتے ہیں۔ یہ وصف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔ کسی اور کے لئے جائز نہیں کہ وہ یہ وصف اللہ سے چھیننے کی کوشش کرے لہذا جو بندہ بھی تکبر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے دنیا و آخرت میں ذلیل کرتا ہے۔

               الجبار: سب پر غالب

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (الحشر : ۳۲)

وہ (اللہ) زبردست ، غالب آنے والا اور کبریائی والا ہے۔ الجبار سے مراد سب پر غلبہ پا لینے والا نیز جو اپنے زور اور قوت و عظمت کے ذریعے سب طاقتوروں پر غلبہ حاصل کر لے۔ خواہ کوئی کتنا ہی زبردست اور طاقتور کیوں نہ ہو وہ اللہ کی عظمت اور غلبہ سے مغلوب رہتا ہے۔

الجبار اسے بھی کہتے ہیں جو شکستہ دل والوں اور کمزوروں ، عاجزوں کے دلوں کو تقویت دے بلکہ جو بھی اللہ کی پناہ طلب کرے اور اس کی امان میں آنا چاہے۔ اللہ تعالیٰ اسے بھی سکون دل عطا کرتا ہے۔ الجبار کا مفہوم یہ بھی ہے کہ جو ہر برائی، عیب ، اور نقص سے مبرا ہو۔ نیز جو اپنے حصہ دار، ہمسر اور مشابہ سے بھی بڑا ہو۔ لہذا بندے کو ہمیشہ جابروں اور ظالموں کی اطاعت سے گریز کرنا ضروری ہے۔

               المصور: (رحم مادر میں ) تصویر بنانے والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (الحشر : ۳۲)

اللہ نے سب سے پہلے مخلوق کی (رحم مادر)میں تصویر بنائی اور ان کو پیدا کیا۔

المصور سے مراد اشیاء کی تصویر بنانے والا، ان کو ترکیب دینے والا اور مخلوق کو پہلی بار پیدا کرنے والا۔

المصور سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مختلف حالات کے مطابق مخلوقات پیدا کرتا ہے۔ کبھی طویل ، کبھی پست کبھی حسین، کبھی قبیح، کوئی مذکر ، تو کوئی مونث، اور اللہ ہی ہے جس نے ماؤں کے رحموں میں اجسام پیدا کئے اور ان میں روح پھونکی۔

               الخبیر: خبر رکھنے والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (الفتح : ۱۱)

ترجمہ: بلکہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے با خبر ہے۔

الخبیر سے مراد وہ ہے جو معاملات کی خفیہ اور اندرونی تہوں سے واقف ہو اور جو ہو چکا ہو اور جو ہونے والا ہو اسے اس کا علم ہو۔ وہ کسی کام کے ہونے سے پہلے ہی اس کے نتائج اور مقاصد سے آگاہ ہو۔ اور ہر معاملے کے انجام کار سے بخوبی آگاہ ہو۔

الخبیر وہی ہو سکتا ہے۔ جو اشیاء کے منافع اور ان کی مضرّات کو جانتا ہو۔

               الحلیم: بردبار

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”، ( الاحزاب: ۱۵)

اور اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کے خیالات جانتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا، بردبار ہے۔ الحلیم وہ ہوتا ہے جو نا فرمانوں کو سزا دینے میں جلدی نہ کرتا ہو۔ بلکہ وہ انہیں مہلت دیتا ہے تاکہ وہ توبہ کر لیں۔ بلکہ نا فرمانوں اور گناہگاروں کو ان کی نافرمانیوں اور گناہوں کے باوجود رزق دیتا ہے۔ وہ درگزر کرنے والا اور بردبار ہے۔

               المجید:  بزرگی والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”(البروج : ۵۱)

وہ عرش والا بزرگی والا ہے

المجید سے مراد عظمت والا، کبریائی والا ہے۔ جو ازلی طور پر مجدو شرف ، کبریائی، عظمت اور جلالت جیسی صفات سے متصف ہو۔ جو ہر چیز سے بڑا، بزرگ، بلند شان والا، اور زیادہ عظمت والا ہو۔ اس کے دوستوں کے دلوں میں اس کی تعظیم اور بزرگی راسخ ہو، جو نہایت شرف والا ہو۔ جس کے تمام افعال جمیل ہوں۔ اور جس کی عطاء اور ثواب نہایت کثیر ہو۔

               الحق:  سچا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (المومنون: ۶۱۱)

پس بلند شان ولا ہے اللہ ،جو سچا بادشاہ ہے۔ اللہ اپنے اسماء اور صفات میں سچا ہے۔ وہ واجب الوجود ہے۔اس کی صفات ، تعریفات کامل و مکمل ہیں اور وہ ایسا حق ہے کہ کسی کو اس کی انکار کی جرات نہیں اس کے وجود پر صریح اور واضح ثبوت دلالت کرتے ہیں۔

               المقیت: نگران، غذا بہم پہنچانے والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (النساء : ۵۸)

اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر نگرانی کرتا ہے۔

اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو غذا دیتا ہے

المقیت : اصل میں اس کو کہتے ہیں جو مخلوقات کو خورد و نوش کی اشیاء پہنچائے اپنی حکمت اور مرضی سے جس کو جس قدر چاہے رزق پہنچائے۔

نیز مقیت بمعنی محاسب اور جزا دینے والا بھی ہے

               الحسیب:  حساب لینے والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (النساء:۶۸)

بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔

اس کے جو بندے اسی پر توکل کرتے ہیں وہ ان کے لئے کافی ہے۔ وہ اپنی حکمت اور اپنے علم کے مطابق بندوں کے نیک و بد اعمال کی ان کو پوری پوری جزا دے گا۔ وہ اعمال چاہے کتنے ہی حقیر ہوں یا کتنے ہی کبیر ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے ذرہ برابر یا اس سے بھی کم کوئی چیز غائب نہیں ہو سکتی۔

               المبین: واضح

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(النور : ۵۲)

ترجمہ: جس دن اللہ تعالیٰ ان کو ان کے دین حق کا پورا پورا بدلہ دے گا تو انہیں یقین ہو جائے گا کہ بے شک اللہ تعالیٰ واضح حق ہے

المبین سے مراد وہ ہستی ہے۔ جو اپنی مخلوق سے مخفی نہیں۔ بلکہ وہ اپنے افعال کے ذریعے ان پر ظاہر ہے۔ اور اس کی واضح آیات اس کے وجود پر دلالت کرتی ہیں۔ ربوبیت اور الوہیت میں اس کا وجود واضح ہے جس نے اپنے بندوں کے لئے نیکی کا رستہ واضح کر دیا جو نجات کا رستہ بھی ہے اور ان کے لئے وہی دین واضح کیا جو خود اس کو پسند ہے یعنی اسلام ہی عند اللہ دین مقبول ہے۔

               الوکیل: محافظ

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (الزمر: ۲۶)

اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز کا محافظ ہے۔

الوکیل سے مراد جو اپنے بندوں کو رزق دینے کا ذمہ دار ہو۔ جو ان کی حفاظت بھی کرے۔ بندے اپنے آپ کو جس کے حوالے کر دیں بلکہ وہ اپنے سارے معاملات بھی اسی کے سپرد کریں۔ نیز وکیل: محافظ اور کفایت کرنے والے کو بھی کہتے ہیں۔

               الرقیب: نگران

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(النساء ۱۱)

بے شک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے۔ الرقیب وہ ہوتا ہے۔ جو اپنی سماعت کے ذریعے تمام مسموعات اور اس کی بصارت تمام دکھائی دینے والی اشیاء کا احاطہ کرے اس کا علم اتنا وسیع ہو کہ وہ جلی وخفی ہر قسم کی معلومات کا احاطہ کرے بلکہ دلوں میں جو وسوسے پیدا ہوتے ہیں جن کو ابھی تک زبان تک نہ لایا گیا ہو وہ ان کو بھی جانتا ہو۔ وہ صرف اور صرف اللہ ہے۔

 

               الودود: محبوب

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:“ (البروج : ۴۱)

اور وہ مغفرت کرنے والا ،محبت کرنے والا ہے۔

الودود وہ کہلاتا ہے۔ جس سے اس کے نیک بندے محبت کریں اور وہ بھی اپنے نیک بندوں سے محبت کرے۔

اسی لئے نیک بندوں کی پاک زبانیں اس کی ثناء میں مگن رہتی ہیں اور ان کے دل اس کی طرف کھنچے جاتے ہیں یہ ان کی محبت اور اخلاص کا ادنیٰ مظہر ہے۔ اپنے دلوں سے اس کے دیدار سے کے پیاسے ہیں۔ اور ہر وقت اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

               القوی: طاقتور

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”،(ھود ۶۶)

بے شک (اے محمدﷺ)تیرا رب ہی طاقتور اور غالب ہے

القوی وہ ہوتا ہے جو ایسا طاقتور اور ایسا زور آور ہو کہ کسی لمحے میں بھی اس پر عجز غالب نہ آئے اور نہ کوئی غالب آنے والا اس پر غلبہ حاصل کر سکے اور رد کرنے والا اس کا فیصلہ رد نہ کر سکیں۔

               المولی:   آقا  و مددگار

اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ” (الحج: ۸۷)

او تم اللہ (کا دین) مضبوطی سے تھام لو وہ تمہارا آقا و مدد گار ہے۔پس وہ بہترین آقا اور بہترین مددگار ہے۔ المولی وہ ہوتا ہے جو مدد اور معاونت میں سب کا مقصود ہو اور وہ اللہ ہی ہے۔ جو اہل ایمان کی مدد کرتا ہے۔ اور ہمیشہ ان کی رہنمائی بھلائی کی طرف کرتا ہے۔ جس طرح یوم حساب ،اہل ایمان کے ثواب اور جزاء کا مالک وہ خود ہو گا۔

               الحمید:   جس کی تعریف کی جائے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” (البقرہ : ۷۶۲)

تم یقین کرو کہ اللہ تعالیٰ (تمام مخلوقات سے )غنی ہے۔ تعریف والا ہے۔

اللہ ہی الحمید ہے کیونکہ سب مخلوقات اسی کی حمد بیان کرتی ہیں اور وہی حمد کا مستحق ہے کیونکہ مخلوقات پر انعام و اکرام صرف وہی کرتا ہے۔ وہ اپنے افعال ، اقوال، اسماء، صفات، شریعت اور اپنے فیصلوں میں محمود ہے۔

               اَلحَیُّ : دائمی زندہ قائم رکھنے والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (آل عمران: ۲)

اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں وہ ہمیشہ زندہ اور قائم رکھنے والا ہے۔

اللہ ایسا زندہ ہے جس کی زندگی دائمی اور ہر طرح مکمل ہے۔ جو ازل سے زندہ ہے۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ رہے گا۔ اسے موت کے بعد زندگی نہیں ملی۔ اور نہ ہی اس کو موت آئے گی۔ اللہ تعالیٰ ایسے عیب اور نقص سے بہت ہی بلند و برتر ہے۔

               اَلمَلِک المَالِک اَلمَلِیک

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (المومنون۔ ۶۱۱)

ترجمہ: پس اللہ تعالیٰ بلند و برتر ہے وہ سچا بادشاہ ہے۔ اس کے علاوہ کوئی سچا بادشاہ نہیں۔ اس کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں۔ وہ عرش کریم کا رب ہے۔

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (آل عمران:۶۲)

(اے محمد ﷺ) آپ کہہ دیں :اے اللہ تو ہی شہنشاہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”(القمر ۵۵)

وہ (روز قیامت) قدرت والے بادشاہ کے پاس سچی نشست گاہ میں ہوں گے۔

اور اللہ تعالیٰ اپنی سلطنت میں اپنے احکام نافذ کرتا ہے۔ وہی اس میں تصرف مطلق کا مالک و مختار ہے وہ اپنی مخلوقات اپنے احکامات، اور جزاء  و سزاء کے معاملے میں ہر طرح کے تصرف کا مالک ہے۔ عالم بالا ہو یا عالم اسفل۔ سب کا مالک وہی ہے تمام مخلوقات اس کی غلام اور ا س کی نوکر ہیں۔ وہ سب اس کے محتاج ہیں۔جب کوئی حرکت کرنے والی چیز حرکت کرتی ہے تو ا س کے ارادے اور اس کی مشیئت کے ساتھ ہی حرکت کرتے ہیں اور جب کوئی چیز ساکن ہوتی ہے تو اس کے علم اور ارادے سے ہی ساکن ہوتی ہے۔

قیامت کے دن اللہ سبحانہ کی بادشاہت سب کے سامنے واضح ہو جائے گی اور تمام مخلوقات اس کی معترف ہو جائیں گی۔

               السلام: سلامتی دینے والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(الحشر: ۳۲)

اللہ مقدس، سلامتی والا بادشاہ ہے۔

السلام وہ ہے جس کی صفات، افعال، اقوال ، قضا و قدر اور شریعت محفوظ ہیں۔ بلکہ اس کی ساری شریعت حکمت، رحمت ، مصلحت، عدل اور سلامتی سے پر ہے۔ السلام: وہ ہے جو جنت میں اپنے بندوں پر سلامتی نازل فرمائے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

، (یس : ۸۵)

رب رحیم کی طرف سے کہا جائے گا تم پر سلامتی ہو، نیز ا س لئے بھی اللہ تعالیٰ السلام ہے کہ اس نے بندوں کو اپنے ظلم سے محفوظ و سالم  بنا دیا۔

               المومن: امن دینے والا

 اللہ تعالیٰ نے فرمایا:، (الحشر: ۳۲)

(اللہ) سلامتی دینے والا، امن دینے والا اور نگہبان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنے عذاب سے امن دیا اور قیامت کے روز فزع اکبر سے امن دے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے دلوں پر اطمینان و سکینت نازل کرتا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنے ظلم سے بھی امن دیا۔

المومن کا مطلب مصدق یعنی تصدیق کرنے والا بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ، اپنے دین کی اور اپنے رسولوں پر ہونے والی وحی کی تصدیق کرتا ہے ۔

               العزیز: غالب

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:“ (ھود:۶۶)

وہ (اللہ) طاقتور اور غالب ہے۔

اللہ ایسا غالب ہے۔ جس کو کوئی عاجز نہیں کر سکتا۔ اور اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کے لئے وہ بہت طاقتور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اپنے قہر اور غلبے کے ذریعے مغلوب کر لیا۔ اور اس کی بلندی تک کوئی پہنچ سکتا ہے اور نہ اس پر کوئی غالب ہو سکتا ہے۔ بڑے بڑے بہادر اس کے سامنے سرنگوں ہو گئے۔ اور اس کی قوت کے مقابلہ میں پہلوان اور بہادروں کی ہمتیں پست ہو گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا غلبہ اور اپنی عزت اپنے رسول محمد ﷺ اور امت محمدیہ کو عطا کی۔ لہذا جو بندہ عزت اور غلبہ کا متمنی ہو۔ اسے اللہ سبحانہ کی اطاعت ضرور کرنی چاہئے اور کتاب و سنت پر تمسک کرنا چاہئے۔

 

               الغافر۔ الغفور۔ الغفّار: مغفرت کرنے والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(غافر: ۳)

(اللہ) گناہ معاف کرنے والا۔ توبہ قبول کرنے والا اور سخت سزا دینے والا بھی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “ خبردار بے شک اللہ ہی بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ (الشوری: ۵)

اللہ جل و علا نے فرمایا:“ (الزمر: ۵)

خبردار وہ (اللہ) غالب ہے مغفرت کرنے والا ہے۔

الغفار وہ ہے جو گناہگار کے عیوب پر پردہ ڈالے اور الغفار: پردہ پوشی میں مبالغہ کرنے والا۔ تاکہ گناہگار کی شہرت نہ ہو۔ اللہ اسے رسوا بھی نہیں کرتا۔

غفور وہ ہے۔ جو اپنے گناہگار بندوں پر بے حد و حساب مغفرت نازل کرتا ہے اور اگر وہ مواخذہ کر بھی لے توجلد ہی ان کو معاف کرتا ہے۔

               القاھر: القھار: قہر والا،غالب

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وہ (اللہ) بندوں سے اوپر ہے اور ان پر غالب ہے اور وہ حکمت و دانائی والا ہے۔ اور (ہر چیز )کی خبر رکھنے والا ہے۔

وہ قہار ہی ہے۔ تبھی گردنیں اس کے لئے جھک گئیں اور بڑے بڑے دنیاوی ظالم ذلیل و رسوا ہو گئے۔ اور بڑے ہی (با وقار) چہرے اس کے سامنے بجھ جاتے ہیں تمام مخلوقات اس کے سامنے پست ہو گئیں۔ اور تمام اشیاء نے اس کے جلال و عظمت و کبریائی اور اس کی قدرت کو مان لیا۔ اور اس کے سامنے تمام اشیاء کمزور اور ساکن ہو گئیں اور اللہ کی حکمتوں اور اس کے غلبہ کی وجہ سے دب گئیں۔

               الوھاب : عطا کرنے والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:ص :۹

کیا ان کے پاس تیرے رب کی رحمت کے خزانے ہیں جو غالب، عطا کرنے والا ہے۔ الوہاب سے مراد ایسی سخاوت والا ہے۔ جس کے احسانات جاری رہتے ہیں۔ اس کا فضل متواتر ہو۔ ازل سے لے کر ابد تک مخلوقات پر احسانات کرنا ا س کی صفت ہو۔ اس کے عطایا دائمی ہوں۔ اس کی خیر کثیر ہو۔ وہ جس کو عطا کرے بے حد و حساب عطا کرے کوئی بھی مخلوق اس کی رحمت اور اس کے احسان سے لحظہ بھر جدا نہ ہو۔ اہالیان ارض و سماء اس کی سخاوت اور اس کے احسانات سے کبھی بھی جدا نہ ہوں۔ اس کی عطا بحر بیکراں کی طرح لامحدود ہو۔

               الرازق: الرزّاق:کثرت سے رزق دینے والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(الذاریات : ۸۵)

ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا، طاقت والا ، زبردست ہے۔

رسول اللہ نے فرمایا (ترجمہ:) بے شک اللہ تعالیٰ ہی پیدا کرنے والا، تنگی لانے والا، خوشحالی لانے والا، رزق دینے والا اور قیمتیں مقرر کرنے والا ہے۔

اسے امام امام احمد نے روایت کیا:

الرازق اسے کہتے ہیں جو ہر جاندار کو اس کا رزق وہاں پہنچائے جہاں وہ ہو۔ چاہے وہ سمندر کے اندھیروں میں ہو یا زمین کی تہہ میں اور چٹان کے اندر ہو۔ بلکہ وہ جاندار چاہے عالم بالا میں ہو یا عالم زیریں میں ہو، الرازق وہ ہے جو اپنے پیاروں یعنی اہل ایمان کے دلوں کو علم اور ایمان کا رزق پہنچاتا ہے

لہذا بندے پر لازم ہے کہ وہ رزق اپنے رب کے علاوہ کسی کے پاس تلاش نہ کرے۔ اور بندے پر لازم ہے کہ وہ اللہ کا تقوی اختیار کرے اور اس کی اطاعت کرے۔ اور ہمیشہ کتاب اللہ اور سنت نبی ﷺ کے ساتھ تمسک کرے۔ کیونکہ رزق کی فراوانی کے یہی اسباب ہیں۔

               الفتاح: فتح دینے والا،مشکل کشا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

”(سبا: ۶۲)

ترجمہ: (اے محمدﷺ) تو کہہ دے ہمارا رب ہمیں اکٹھا کرے گا پھر ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرے گا۔ اور وہ مشکل کشا، جاننے والا ہے۔

الفتاح: وہ ہے جو اپنے بندوں کے درمیان اپنی شریعت اور اپنی تقدیر کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور وہ وہی ہے جس نے اپنے لطف و مہربانی سے سچ بولنے والوں کی بصیرت و بصارت کھول دی۔ اور اپنی معرفت اور محبت کے لئے ان کے دلوں کو کھول دیا اور  اپنے بندوں کے لئے اپنی رحمت اور انواع و اقسام کے دروازے کھول دیئے۔ اور وہی اہل باطل کے خلاف اہل حق اور ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کرتا ہے۔

               العلیم :ہر چیز کا علم رکھنے والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 ”(الروم : ۴۵)

وہ (اللہ) جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ اور وہ جاننے والا اور قدرت والا ہے۔

 العلیم اس کو کہتے جو ظواہر و باطن ، مخفی اور اعلانیہ ،عالم بالا اور عالم زیریں پر ، ماضی حاضر اور زمانہ مستقبل کا علم رکھتا ہو اور غیب اور موجود کا علم بھی اسے ہو،

اللہ سبحانہ ملحدوں کے لایعنی اقوال سے پاک ہے۔ جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اشیاء کے واقع ہونے سے پہلے ان کا علم نہیں رکھتا۔ اور جب کوئی چیز وجود میں آتی ہے۔ تب اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہوتا ہے۔ کسی چیز کے وجود میں آنے سے پہلے وہ اس کے متعلق کچھ نہیں جانتا۔

اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کی آواز سے کہا۔

ترجمہ میرا رب نہ بھولتا ہے اور نہ ہی صراط مستقیم سے پھر تا ہے۔ (طہ ۴۵)

 

               السمیع:   سننے والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا   (المائدہ: ۶۷)

(اے محمدﷺ) تو کہہ دے (اے مشرکو! )کیا تم اللہ کے علاوہ ان کی عبادت کرتے ہو جو تمہارے نقصان کے مالک ہیں نہ تمہارے نفع کے مالک ہیں اور اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے۔

السمیع وہ ہوتا ہے۔ جس کی سمع تمام مسموعات کا احاطہ کرے پھر عالم علوی ہو یا عالم سفلی ہو ان میں بسنے والی تمام مخلوقات کی آوازیں خواہ بلند ہوں یا پست ہوں وہ سن لے متعدد آوازوں کے اختلاط سے ا س کی صفت سمع متاثر نہ ہو۔ اور نہ ہی متعدد زبانیں اور بکثرت لہجات اس کو متاثر کریں۔

وہ وہی ہے جو پکارنے والوں کی سرگوشیاں سن لیتا ہے اور آہ و زاری کرنے والوں اور فریادیوں کی فریادوں کا جواب دیتا ہے۔ پھر وہ ان کے مصائب اور آزمائشیں دور کرتا ہے۔ لہذا بندے پر لازم ہے کہ وہ بات کرتے وقت اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی نگرانی کا یقین کرے۔ اور وہ اپنی زبان سے کوئی گندہ جملہ ادا نہ کرے اور نہ ہی بے حیائی یا فضول قسم کی بات کرے۔ اور نہ ہی کسی کو گالی دے اور نہ ہی بد گوئی کرے۔ اور نہ نیکوکار لوگوں سے ٹھٹھہ کرے نیز بندے پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ پورے خلوص قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے۔

               البصیر: دیکھنے والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(غافر: ۰۲)

ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ حق کے ساتھ فیصلے کرتا ہے۔ اور یہ (مشرک) لوگ جن کو اللہ کے علاوہ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کا بھی فیصلہ نہیں کرتے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہی سننے والا ، دیکھنے والا ہے۔

 البصیر: وہ ہوتا ہے جو ارض و سماء کے اطراف و اکناف میں دکھائی دینے والی ہرچیز کا احاطہ کرے۔ وہ سات زمینوں کے نیچے اشیاء کو اسی طرح دیکھ سکتا ہے۔ جس طرح وہ سات آسمانوں کے اوپر والی اشیاء بخوبی دیکھ سکتا ہے۔ وہ اپنے بندو ں کے اعمال کو دیکھتا ہے چاہے وہ کتنے ہی مخفی ہوں لہذا بندے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے تمام حالات اپنے افعال اور اپنی حرکات و سکنات کا اللہ تعالیٰ کو قوی نگران سمجھے اور وہ شرمسار ہو یہ سوچ کر کہ وہ جب معصیت کا ارتکاب کر رہا ہو تا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔

               الحکیم :الحَکم : دانا و فیصل

اللہ سبحانہ نے فرمایا:

(الانعام: ۴۱۱)

پس کیا میں اللہ کے علاوہ کسی کو فیصل بنا لوں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

“ (الانعام: ۸۱)

اور وہ دانا ہے اور خبریں رکھنے والا ہے۔

اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ بے شک اللہ تعالیٰ ہی فیصل ہے۔ اور حکم بھی صرف اسی کا حق ہے۔‘‘

 اسے ابوداؤد نے روایت کیا۔

الحکم سے مراد ایسا حاکم ہے جو اپنے بندوں کے درمیان دنیا اور آخرت میں فیصلہ کرے گا۔ دنیا میں وحی کے ذریعے اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہے۔ جو وہ اپنے انبیاء پر نازل کرتا ہے۔ اور آخرت میں اپنے بندوں کے دنیاوی اختلاف کے متعلق اللہ تعالیٰ اپنے علم کے مطابق فیصلے کرے گا۔ پھر وہ اہل باطل اور مشرکوں کے خلاف اہل حق اور اہل توحید کی حمایت کا فیصلہ کرے گا۔ اور ہر مظلوم کے لئے انصاف کے ذریعے ظالم سے اس کا حق دلائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے اقوال ، افعال اور اپنے فیصلوں میں عادل حکمران ہے۔

الحکیم سے مراد: دانائی والا اور جو کوئی کام عبث اور بے فائدہ نہ کرے۔ اور نہ ہی کوئی حکم بلا فائدہ جاری کرے۔ اللہ سبحانہ ایسا دانا ہے کہ اس نے اپنی مخلوق کو نہایت محکم کر کے پیدا کیا ہے۔ لہذا رحمن کی تخلیق میں کوئی عیب نہیں۔ اور نہ کسی قسم کی کمی ہے۔ اور نہ ہی اس کی شریعت میں کسی قسم کا تضاد اور تناقض ہے۔ اسی لئے بندوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے باہمی جھگڑوں کے فیصلے اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مطابق کروائیں اور اپنے تمام باہمی معاملات میں شریعت الہی کے مطابق ہی فیصلے کیا کریں۔

               اللطیف: مہربان

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (الملک : ۴۱)

کیا وہ (انسان) نہیں جانتا (اسے ) کس نے پیدا کیا۔ اور وہ (پیدا کرنے والا) نہایت نرم خو اور مکمل خبر رکھنے والا ہے۔

اللطیف وہ ہوتا ہے۔ جس کا علم اسرار و رموز اور مخفی امور اور معاملات کے منطقی انجام سے واقف ہو وہ اپنے ایماندار بندوں پر بڑا ہی مہربان ہو۔ ان تک ان کی مصلحتیں بڑے ہی لطیف انداز میں اور اپنے احسان کے ساتھ ایسے رستوں سے پہنچا دیتا ہے جن کا علم بندوں کو نہیں ہوتا اور نہ ہی انہیں یہ امید ہوتی ہے۔ نیز اللطیف اسے بھی کہتے ہیں جو اپنے بندوں کے ساتھ ہمیشہ بھلائی اور آسانی کا ارادہ کرتا ہے۔ اور ان کے لئے صلاح وبر کے تمام اسباب مہیا کرتا ہے۔

               العظیم:عظمت والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

“ (الحاقۃ : ۳۳)

ترجمہ: بے شک وہ(شخص) اللہ عظمت والے پر ایمان نہ لاتا تھا۔

اللہ تعالیٰ اپنی صفات و اسماء  و افعال میں عظیم ہے۔ جس کی قدرت جلیلہ عقل کی حدود سے متجاوز ہے حتی کہ اس کے وجود کا احاطہ ناممکن ہے۔ وہ، اللہ مستحق ہے کہ اس کے بندے خلوص دل و زبان کے ساتھ اس کی تعظیم کریں۔ اور یہ کہ اس کی شریعت اور اس کے احکام پر کسی قسم کا اعتراض نہ کریں۔ مخلوقات اپنے خالق کی کما حقہ ثناء کرنے کی استطاعت نہیں رکھتیں۔ اور اگر بندوں کو اللہ کی عظمت کا ملہ کا علم ہو جائے تو وہ اس کی موجودگی میں گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیونکر کر پائیں۔ یا اس کے دین اور شریعت کا مذاق کیسے اڑائیں۔

               الشکور : الشاکر: قدردان

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(البقرہ : ۸۵۱)

جو اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے نیک عمل کرے تو اللہ تعالیٰ جاننے والا اور قدر کرنے والا ہے۔

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

æ(الشوریٰ : ۳۲)

اور جو شخص نیکی کمائے گا ہم اس کے اجر میں اضافہ کر دیں گے۔ بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا قدر دان ہے۔

شاکر اور شکور وہ ہوتا ہے جو ان لوگوں کے عمل کو ضائع نہیں کرتا جو ا سکی رضائ کے لئے عمل کرتے ہیں بلکہ کئی گنا بڑھا چڑھا کر ان کو اجر عطا فرماتا ہے۔ وہ تھوڑے عمل کی بھی قدر کرتا ہے۔ اور زیادہ خطائیں معاف کر دیتا ہے۔ وہ اپنی نعمتوں کا شکر کرنے والوں کی قدر کرتا ہے اور جو اسے یاد کرتا ہے وہ بھی اسے یاد کرتا ہے۔ اور جو تھوڑے سے نیک اعمال کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو بہت زیادہ اپنا قرب عطائ فرماتا ہے۔ جو بندہ اس کی اطاعت کرے اور اس کی ثناء بیان کرے اللہ اس کی تعریف کر دیتا ہے۔

               العلی۔ الاعلی۔ المتعال:  بلند شان والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 (غافر: ۲۱)

پس حکم اللہ ہی کے لئے ہے جو بلند شان والا اور کبریائی والا ہے

 اور اللہ عزوجل نے فرمایا:

(الاعلی: ۱)

تو اپنے بلند شان والے رب کی تسبیح کر۔

اور اللہ سبحانہ نے فرمایا:

 ”“(الرعد:۹)

وہ (اللہ ) مخفی اور موجود اشیاء کا عالم ہے۔ وہ بہت بڑا اور عالی مرتبت ہے۔ ان اسماء کا مفہوم یہ ہے علو اللہ تعالیٰ کا وصف ہے یعنی وہ اوپر ہوا اور بلند ہو گیا۔ کیونکہ وہ سب مخلوقات سے اوپر عرش پر مستوی ہے۔ وہ اپنی صفات اور اپنی تقدیر کے لحاظ سے بھی عالیشان ہے تبھی اس کا کوئی مماثل نہیں وہ اپنے قہر کے اعتبار سے بھی عالی ہے۔ کہ جو اپنی عزت اور علو کے ذریعے تمام مخلوقات پر غالب ہے۔

               البَرّ: نیکی کرنے والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

“ (الطور: ۸۲)

اللہ سبحانہ رحم کرنے والے اور نیکوکار ہیں

اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے جس کے اوصاف جود، کرم اور کثرت عطاء ہیں وہ اللہ ایسا محسن ہے جو اپنے بندوں پر طرح طرح کے انعامات کرتا ہے اور انواع و اقسام کے احسانات سے ان کو نوازتا ہے۔ اور ان سے ہر قسم کی ذلتیں رسوائیاں دور کرتا ہے۔

               التواب: بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

’البقرہ:۷۳)

پس آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے کچھ الفاظ سیکھ لئے تب اللہ تعالیٰ نے اس کی توبہ قبول کر لی بے شک وہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا ہے جو ازل سے توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کر رہا ہے۔ اور انہیں توبہ کی توفیق دیتا ہے اور اپنی طرف رجوع کرنے والوں کی مغفرت کرتا ہے۔ بندوں کی توبہ قبول کرنے میں وہ متفرد ہے۔ اس صفت میں کوئی غیر اس کا شریک نہیں۔

               العفو: معاف کرنے والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

Å (النساء۔ ۳۴)

بے شک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، مغفرت کرنے والا ہے۔

 العفو سے مراد گناہوں سے درگزر کرنے والا ہے۔ جو گناہوں کی سزا ترک کر دیتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ معاف نہ کرتا تو زمین پر کوئی چلنے والا نہ رہتا۔ اور وہی اللہ ہے جو بد اعمال کو مٹاتا ہے۔ اور خطاؤں سے درگذر کرتا ہے۔

               الرؤف: نرم سلوک والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(النحل۔ ۷)

بے شک تمہارا رب نرم سلوک والا رحم کرنے والا ہے۔

الرؤف: اپنے بندوں پر شفقت اور رحم کرنے والے کو کہتے ہیں جو ان پر بہت ہی مہربان ہو اور اپنی شفقت اور محبت ہر وقت ان پر نازل کرتا ہو۔

               ذوالجلال و الاکرام: بزرگی اور عزت والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(الرحمن : ۸۷)

تیرے رب کا نام بابرکت ہے۔ جو بزرگی اور عزت والا ہے۔ اللہ بزرگی اور عزت دینے والا ہے۔

یعنی عظمت اور کبریائی اسی کی صفت ہے اور اپنے بندوں پر رحمت اور سخاوت اس کی پہچان ہے۔ جو بندہ اس کی اطاعت کرے گا وہ اس کو عزت دے گا۔ اور ان کے درجات اور ان کا ذکر بلند کرے گا۔ اللہ ہی بزرگی اور عظمت کے لائق ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں۔

               الغنی: غیر محتاج

اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ (فاطر: ۵۱)

اور اللہ تعالیٰ (تمام مخلوقات سے ) بے پرواہ ہے اور اسی کی تعریفات کی جاتی ہیں۔

اللہ ہی غنی ہے یعنی وہ مخلوق کا ذرہ بھر محتاج نہیں لیکن مخلوقات لمحہ بھر بھی اس سے غیر محتاج نہیں ہو سکتیں اللہ ہی کے ہاتھ میں ارض و سماوات کے خزانے ہیں نیز دنیا و آخرت کے خزانے بھی اسی کے پاس ہیں اس کے غیر محتاج ہونے کی اس سے زیادہ واضح مثال کیا ہو گی؟ کہ نہ اس کی بیوی ہے اور نہ ہی اولاد ہے۔ یہود و نصاریٰ جو تہمتیں اس پر لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسی بن مریم اللہ کا بیٹا ہے۔ وہ یہ باتیں کر کے تا قیامت اللہ کی لعنت کے موجب بن گئے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی شان انتہائی بلند ہے۔

               الھادی: ہدایت دینے والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:“ کافی ہے کہ تیرا رب ہدایت دینے والا اور مددگار ہے۔(الفرقان:۱۳)

الھادی وہ ہوتا ہے۔ جو اپنے بندوں میں سے جس پر احسان کرنا چاہے اسے ہدایت دے دیتا ہے۔ اور ان میں سے اپنے اولیاء کو اپنی ربوبیت، الوہیت اور اپنے اسماء و صفات کے ذریعے اپنی معرفت پر دلالت کرتا ہے۔ اور انہیں نجات کا رستہ سمجھاتا ہے۔ جو اسلام ہے اور وہ اتباع الرسول ﷺ پر مبنی ہے۔

               المحیط: احاطہ کرنے والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (النساء : ۶۲۱)

 اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے

اللہ تعالیٰ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہیں جیسا کہ اس کو لائق ہے یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اپنے علم یا قدرت رحمت یا قہر سے گھیرا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت احاطہ کی تاویل فاسد ہے۔ اللہ تعالیٰ سے کوئی بھی بچ کر فرار نہیں ہو سکتا۔

               القریب: نزدیک ہونا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 (البقرۃ:۶۸۱)

اور جب کوئی میرے متعلق (اے نبی) تجھ سے پوچھے تو بے شک میں قریب ہوں۔

اللہ اپنی مخلوقات کے قریب ہے جیسا اس کو لائق ہے۔ یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے قریب اپنے علم، اپنی قدرت یا اپنی نگرانی اور مشاہدہ کے ذریعے ہے۔ کیونکہ یہ تاویل فاسد ہے اللہ تعالیٰ اپنے اطاعت گزاروں ، اللہ سے سوال کرنے والوں سے قریب ہے لیکن اس کے قرب کی کیفیت کسی کو معلوم نہیں۔ جس طرح اس کی کبریائی اور عظمت کے لائق ہے۔ اسی طرح وہ مخلوقات سے قریب ہے۔

               النصیر:  مددگار

اللہ جل و علا نے فرمایا:

 (النساء: ۵۴)

اللہ کا آقا ہونا کافی ہے اور اللہ ہی کا مددگار ہونا کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کی نصرت کرتا ہے۔ دشمن کے خلاف ہمیشہ ان کے پاؤں ثابت قدم رکھتا ہے۔ اور دشمنوں کے دلوں میں ان کا رعب ڈال دیتا ہے۔ اور اہل ایمان کی مدد صرف اللہ ہی کرتا ہے۔

               المستعان: معاونت کرنے والا

اور اللہ ہی مددگار ہے۔ یعنی تم جو تہمتیں اللہ پر لگاتے رہتے ہو۔ اللہ ان سے کلی طور پر مبر ّا و منزّہ ہے۔ اللہ مددگار ہے۔ یعنی وہ تمام معاملات میں اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے۔ چاہے برائی کو ہٹانا ہو۔ یا منافع کا حصول یا رزق کی فراہمی وغیرہ ہو

               الرفیق:  نرمی کرنے والا

رسول اللہ ﷺ نے ام المومنین عائشہ بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما کو فرمایا: ” اِن َّ اللَّہ رَفَیق یُحِبُّ الرِّفیقَ…. “ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا۔

”بے شک اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے اور وہ ہر معاملہ میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔

اللہ اتنا نرم سلوک والا ہے کہ نا فرمانوں کو سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ وہ اپنے تمام افعال میں نرمی کرتا ہے۔ اس نے تمام مخلوقات کو آہستہ آہستہ اور نرمی سے اپنی حکمت کے مطابق پیدا کیا۔ اگرچہ وہ تمام مخلوقات کو یکبارگی پیدا کرنے پر قادر ہے اور ایک لمحے میں پیدا کر سکتا ہے۔

               السبوح: ہر عیب سے پاک

رسول اللہ اپنے رکوع اور سجدوں میں یوں کہتے اسے مسلم نے روایت کیا

وہ پاک ہے اور مقدس ہے جو فرشتوں اور روح القدس کا رب ہے۔

السبوح سے مراد وہ اللہ ہے جو تمام نقائص و عیوب مثلاً، بیوی، اولاد اور حصہ داروں سے پاک ہے۔ ارض و سماء میں جو کچھ ہے وہ سب اس کی تسبیح کرتے ہیں۔

               الشافی: شفاء دینے الا

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 (اسے بخاری نے روایت کیا)

اے اللہ! لوگوں کے رب ،بیماری کو لے جانے والے۔ تو شفا دینے والا ہے۔ تو ہی شافی ہے تیرے بغیر کوئی شفائ نہیں دے سکتا تو ایسی شفائ دے جو کسی بیماری کو نہ چھوڑے۔

اللہ ایسا ہی شافی ہے جو بدنی اور نفسانی امراض سے شفا دیتا ہے۔جیسے شہوات اور شبہات کے مرض ہوں۔

اللہ جس کو شفا دینا چاہے اسے شفائ مل جاتی ہے۔ اور جس کو وہ شفا نہ دینا چاہے کوئی اور اس کو شفا ئ نہیں دے سکتا۔

               الجمیل: خوبصورت

رسول اللہ نے فرمایا:

اسے مسلم نے روایت کیا:

بے شک اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے خوبصورتی کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور اپنی صفات میں خوبصورت ہے نیز وہ اپنے افعال و اسماء میں بھی خوبصورت ہے۔ لہذا کسی مخلوق کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خوبصورتی کی کوئی ادنیٰ سی بھی مثال پیش کر سکے۔ بلکہ کائنات میں جتنی خوبصورتی بھی ہے سب اللہ تعالیٰ کی خوبصورتی کی علامت اور دلیل ہے اور اہل جنت جب اللہ تعالیٰ کے نورانی چہرہ کا دیدار کریں گے تو اس کی خوبصورتی سے انہیں دلی لذت و سرور حاصل ہو گا اور وہ جنت میں جن نعمتوں میں رہ رہے ہوں گے۔وہ بھول جائیں گے۔ نیز وہ اللہ تعالیٰ کی خوبصورتی کا دیدار کر کے پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت بن جائیں گے۔

               الوتر: طاق

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

”بے شک اللہ تعالیٰ طاق ہے۔ طاق کو پسند کرتا ہے یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ الوتر: ایک اکیلے کو کہتے ہیں جس کا کوئی شریک نہ ہوا نہ ہی کوئی مماثل و مشابہ ہو۔

               مقدم: المؤخر : سب سے اول ،سب سے آخر

رسول اللہ ﷺ درج ذیل الفاظ کے ساتھ دعا کیا کرتے تھے۔

ترجمہ: اے اللہ میری مغفرت فرما۔ میں جو گناہ کر چکا ہوں اور جو گناہ ابھی نہیں کئے اور میں نے جو گناہ چھپ کر کئے اور میں نے جو گناہ اعلانیہ کئے اور میں نے ( اپنی جان کے اوپر) جو اسراف و زیادتی کی ہے۔ اور جس کا مجھ سے زیادہ تجھے علم ہے تو ہی آگے کرنے والا ہے اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے۔ تیرے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں۔ اسے مسلم نے روایت کیا۔

ان دونوں ناموں کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں میں سے جس کو آگے بڑھانا چاہے اور ان کے درجات بلند کرنا چاہے وہی کر سکتا ہے جیسے انبیاء و شہداء و صدیقین وغیرہ اور اپنے دشمنوں کو جب چاہتا ہے پیچھے کر دیتا ہے۔ یعنی ان کو شکست دیتا ہے۔ اس کے دشمن چاہے کافر ہوں یا فاسق و فاجر ہوں۔

               الدَیّانُ: بدلہ دینے والا

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

اسے احمد نے روایت کیا

اللہ تعالی قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا…. پھر ان کو ایسی آواز میں پکارے گا جس کو دور والے اسی طرح سنیں گے جس طرح اس کو نزدیک والے سنیں گے : میں ہی بادشاہ ہوں۔ میں ہی بدلہ دینے والا ہوں۔

اللہ تعالیٰ بدلہ دینے والا ہے۔ یعنی قیامت کے روز بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ ان کا حساب لے گا۔ وہ مظلوم کے لئے ظالم سے قصاص لے گا۔ اور مالک سے اس کے غلام کا قصاص لے گا جو نیکیوں اور برائیوں میں ہو گا۔

               المَنّانُ: بہت زیادہ احسان کرنے والا

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں مسجد میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اور ایک آدمی نماز ادا کر رہا تھا۔ اس نے یوں دعا کی :

 اسے احمد نے روایت کیا اور یہ صحیح حدیث ہے

اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں بے شک ساری تعریفات تیرے لئے ہیں۔ تیرے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں۔ تو منان ہے آسمان و زمین تو نے ہی پہلی بار پیدا کئے۔ اے بزرگی اور عزت والے اے زندہ و قائم۔ تو رسول اللہ ﷺ نے کہا۔ اس شخص نے اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم کے ساتھ سوال کیا۔ کہ جو اس کے ساتھ دعا کرے وہ قبول کرتا ہے اور جب اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کا سوال کیا جائے تو اللہ وہ عطائ کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ منان ہے۔ یعنی اس کی عطائ وجود بہت عظیم ہے یقیناً اسی نے بندوں کو زندگی، عقل اور بولنے کی نعمتیں دی ہیں۔ اور اس نے رحم مادر میں مخلوقات کی تصویریں بنائیں اور بہت ہی اچھی بنائیں۔ وہی جس نے رسولوں کو مبعوث کر کے اپنے بندوں پر احسان عظیم کیا رسولوں کا سلسلہ خاتم الانبیاء والرسل سیدنا محمد ﷺ کے ساتھ ختم کر کے اپنے اس احسان کو مکمل کر دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کے ذریعے لوگوں کو کفر و شرک کے اندھیاروں سے نکال کر توحید واسلام کے نور سے منور کیا۔

               الحَیِیُّ: شرم کرنے والا

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اسے ابوداؤد نے روایت کیا اور یہ حدیث صحیح ہے۔

ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ شرم والا اور پردہ پوشی کرنے والا ہے لہذا جب تم غسل کرو تو اپنے ستر ڈھانپ لو۔

اللہ تعالیٰ صفت حیاء کے ساتھ متصف ہے۔ لیکن انسانی فہم و ذکاء اللہ تعالیٰ کی شرم و حیاء والی صفت کا احاطہ و ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ اور نہ ہی عقل میں اس کی کیفیت آسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ شرم و حیاء والا۔ سخاوت و عزت والا نیکی کی توفیق دینے والا اور بزرگی دینے والا ہے۔ اللہ اپنے بندے کی بے آبروئی اور رسوائی سے شرم کرتا ہے۔

               السِتیِّرُ:ستر پوشی کو پسند کرنے ولا

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔

بے شک اللہ تعالیٰ شرم کرنے والا اور ستر پوشی کرنے والا ہے اور جب تم غسل کرو تو اپنے ستر ڈھانپ لو۔

اللہ ایسا ستر پوش ہے کہ اپنے بندوں کے بے شمار برے اعمال اور رسو اکن نافرمانیوں پر پردہ ڈالتا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ بندے آپس میں بھی شرم و حیاء پیدا کریں۔ اللہ اعلانیہ اور کھلے بندوں معصیت اور بے حیائی پر فخر و انبساط کو ناپسند کرتا ہے۔

               القابض :الباسط: تنگدستی دینے والا، خوشحالی دینے والا

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 اسے احمد نے روایت کیا اور یہ صحیح حدیث ہے۔

بے شک اللہ تعالیٰ خالق بھی ہیں القابض بھی ہیں اور الباسط بھی ہیں۔

اللہ تعالیٰ مخلوق کی موت کے وقت ان کی ارواح قبض کر لیتا ہے۔ اور مخلوق میں سے جس کا رزق تنگ کرنا چاہے تنگ کر دیتا ہے اور مشرکین و کفار کے دلوں کو بند کر دیتا ہے۔ اور قیامت کے دن زمین و آسمانوں کو لپیٹ دے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے جس بندے کا رزق چاہے کشادہ کر دے۔ اور جس بندے کے دل پر چاہے اپنی رحمت کو وسیع کر دے۔ اور جس بندے کو چاہے وسعت علَمی دے دے۔

               السید: سردار

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

”السید اللہ تبارک و تعالی“

اسے احمد نے روایت کیا اور یہ حدیث صحیح ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ السید ہیں۔ اللہ ہی اصل سید ہے کیونکہ اصل سیادت اور علو مرتبت و شرف، مجد ، عظمت و حکمت، علم اور جبروت، غنی، حلم اور ملک، اللہ ہی کے لئے ثابت ہیں۔

اسی لئے مخلوق پر واجب ہے۔ کہ وہ صرف اللہ ہی کو سید کہیں اور غیر اللہ کو اس صفت سے متصف نہ کریں۔

               الکریم   الاکرم: عزت و شرف والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”،(الانفطار:۶)

اے انسان تجھے تیرے رب کریم سے کس چیز نے دھوکہ دیا

اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کہا: (العلق:۳)

(اے محمدﷺ) تو پڑھ ، تیرے عزت و توقیر والے رب کی قسم اللہ عزت والا، سخی ، عطا کرنے والا ہے جس کی عطا کبھی ختم ہونے والی نہیں جو بکثرت احسان کرتا ہے۔ وہ جب بندے کو عطا کرتا ہے اور بندہ زیادہ کی تمنا کرے تو وہ اپنی عطائ میں اضافہ کر دیتا ہے۔ وہ سوال کرنے سے پہلے عطا کرتا ہے۔ الکریم سے مراد مقدار عظیم والا رب ہے۔ جو شریف الوجہ، کامل الصفات ہے اور ہر قسم کے نقائص و آفات سے منزہ ہے۔ وہ سب سے بڑا معزز ہے کوئی عزت والا اس کے برابر نہیں اور نہ ہی کوئی ا سکا مقابل ہے۔

               الحفیظ:  محافظ، نگران

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(الشوری :۶)

اور ان لوگوں نے اس (اللہ) کے علاوہ دوست بنا لیئے اللہ تعالیٰ ان پر نگران ہے اور (اے نبیﷺ) تو ان پر داروغہ نہیں۔ الحفیظ سے مراد وہ ہے جو اپنی مخلوقات کی حفاظت کرتا ہے اور اپنی ایجادات کا اپنے علم کے ذریعے احاطہ کرتا ہے اور  گناہوں سے اپنے اولیاء کی حفاظت کرتا ہے اور ان کو لغزشوں سے بچاتا ہے۔ اور ان کو ان کی تمام حرکات و سکنات میں اپنے الطاف سے بہرہ ور کرتا ہے اور ان کے سب اعمال اور ان کی جزاء شمار کرتا ہے۔اور وہی ارض و سماوات کو گرنے سے بچائے ہوئے ہے۔

               الشہید: گواہ

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(الحج : ۷۱)

بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر گواہ ہے۔

الشہید سے مراد حاضر گواہ ہے۔ جوہر چیز کی اطلاع رکھتا ہو۔ آوازیں خواہ مخفی ہوں یا بلند، وہ سنتا ہے۔ تمام ظاہری و باطنی اشیاء کو وہ دیکھتا ہے۔ وہ بڑی ہوں یا چھوٹی، باریک ہوں یا موٹی ہوں۔ جو قیامت کے دن بندوں کے حق میں اور ان کے بد اعمال کی وجہ سے ان کے خلاف گواہی دے گا۔ الشہید کا معنی یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق گواہی دی کہ وہ عدل کے ساتھ قائم ہے اور اس نے اپنی وحدانیت کی گواہی بھی دی۔

               الواسع: وسعت دینے والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

”، (النساء : ۰۳۱)

اور اللہ تعالیٰ وسعت دینے والا ، دانا ہے۔

اس کی صفات اور تعریفات وسیع ہیں اس کی عظمت بادشاہت اور سلطنت وسیع ہے۔ اس کا فضل واحسان بہت ہی وسیع ہے۔ اس کا علم، حکمت اور رحمت وسیع ہے اس کی مغفرت بڑی ہی وسیع ہے۔ وہ اپنے بندوں کو دین میں اتنے ہی احکامات کا مکلف بناتا ہے۔ جو ان کی وسعت میں ہوں۔

               الکفیل: کفالت کرنے والا ،ضامن

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔ (النحل: ۱۹)

اور تم جب اللہ کے نام پر وعدہ کرو تو اسے پورا کرو۔ اور اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو جب کہ تم نے اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کو ضامن بنا لیا ہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے افعال کو جانتا ہے۔

الکفیل وہ ہوتا ہے جو اپنے بندوں کے رزق کا ضامن ہو۔ جس نے ہر مخلوق کے رزق کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔ چاہے وہ انسان ہوں یا چوپائے اور ماؤں کے رحموں میں پرورش پانے والے بچے یا پرندے اور حشرات الارض ہوں یا ویرانوں میں رہنے والے درندے ہوں۔

الکفیل کے معانی: نگران، ضامن ، محافظ، اور نفع دینے والا

               الوَلِیُّ: آقا، دوست

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(الشوریٰ: ۹)

یا انہوں نے اللہ کے علاوہ آقا  و سر پرست بنا لئے۔ تو حقیقی ولی اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہی مردے زندہ کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

اللہ ایسا ولی ہے کہ جس نے اپنے بندوں کو اپنی عبادت اور اطاعت پر لگا دیا ہے۔ اللہ کا تقرب، نفلی عبادات کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ وہ عام طور پر اپنی تدابیر اور بندوں میں اپنے فیصلے نافذ کر کے ان کو دوست بناتا ہے۔ لیکن اپنے بندوں میں سے مخلص، مومن بندوں کو خصوصی دوست بناتا ہے۔ حتی کہ ان کو کفر وفسق وفجور کے اندھیاروں سے نور توحید و ایمان کی طرف لے آتا ہے۔ اور اپنے الطاف و انوار کے ذریعے ان کی تربیت کرتا ہے اور ان کے سارے معاملات میں ان کی معاونت کرتا ہے۔

               القیومُ:  معاملات کی دیکھ بھال کرنے والا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

۔ (طہ : ۱۱۱)

ترجمہ: اور زندہ اور دیکھ بھال کرنے والے کے لئے چہرے جھک جائیں گے۔

اللہ ، القیوم ہے یعنی ہر مخلوق کی تخلیق، تربیت، رزق، ان کی حفاظت، ان کے آخرت میں حساب و کتاب کی ذمہ داری صرف اور صرف اللہ سبحانہ کے پاس ہے وہ اللہ ہی یہ سارے کام سر انجام دے گا اور ان کاموں کو کرنے کے لئے وہ کسی کا محتاج نہیں زمین اور ساتوں آسمان اور ان کے اندر رہنے والی سب مخلوقات اسی کے سہارے قائم ہیں۔

               الوَاحِد ُ ، الا َحَد ُ:  یکتا و تنہا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

،(ص۔۵۶)

اللہ کے لئے علاوہ کوئی سچا الہ نہیں ہے وہ واحد ہے غالب ہے

 اور اللہ عزوجل نے فرمایا:“ (الاخلاص:۱) (اے محمد ﷺ ) آپ کہہ دیں وہ اللہ ایک ہے۔

اللہ تعالیٰ الواحد الاحد ہے۔ جو اپنے تمام کمالات میں احد ہے۔ حتی کہ اس کا کوئی شریک نہیں وہ اپنی الوہیت، اپنے اسماء، اپنی صفات اور اپنی ربوبیت میں بھی منفرد ہے۔ اس کی مانند کوئی چیز نہیں۔۔ نہ اس کی کوئی بیوی ہے اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے۔

               الصمد : سردار،ر ب،بے نیاز، غیر محتاج

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (الاخلاص:۲)

الصمد: وہ ہوتا ہے۔ جو نہ کسی کی اولاد ہو اور نہ جس کی کوئی اولاد ہو

الصمد، وہ ہوتا ہے۔ جو کسی کا محتاج نہ ہو اور ہر چیز اس کی محتاج ہو،

الصمد: عظمت والے سردار کو کہتے ہیں جو اپنے علم، حکمت و حلم ، قدرت ، عزت اور سب صفات میں با کمال ہو۔ تمام مخلوقات جس کی محتاج ہوں۔ اور کائنات میں بسنے والی تمام اشیاء اپنے تمام معاملات میں اس کی کلی محتاج ہوں۔ مصائب و آفات میں اسی کو پکارتی ہوں۔ اور جب غم و اندوہ کی کرب ناکیاں ان کو گھیر لیں تو وہی ان کا مقصود و مطلوب ہوتا ہے۔ اور جب حزن و ملال کے گھٹا ٹوپ اندھیرے ان پر چھا جاتے ہیں تو اللہ ہی سے وہ فریاد کرتے ہیں کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ وہی ان کا حاجت روا اور مشکل کشا ہے اور وہی ان کی پریشانیاں اور کرب والم کھول سکتا ہے۔ کیونکہ اس کا علم، کامل و اکمل ہے اور اس کی رحمت واسع ہے۔ اس کی شفقت ، مخلوق کے ساتھ محبت، لطافت اور رحم و کرم بیکراں و لامحدود ہے۔ نیز اس کی قدرت و سلطنت عظیم ترین ہے۔

الصمد اسے بھی کہتے ہیں جو مخلوقات کے فنا ہو جانے کے بعد بھی قائم و دائم رہے۔

الصمد وہ بھی ہوتا ہے جو خورد و  نوش نہیں کرتا

               القادر، القدیر، المقتدر: قدرت والا ،حکمران حقیقی

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’ (الانعام: ۵۶)

(اے محمد ﷺ ) آپ کہہ دیں وہ (اللہ) اس کی بھی قدرت رکھتا ہے۔ کہ تمہارے اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے تم پر عذاب مسلط کر دے۔ یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر دے اور تمہیں باہمی جنگ کا مزا چکھا دے۔

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (المائدۃ:۰۴)

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (القمر : ۲۴)

انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیاتو ہم نے انہیں پکڑ لیا ایک غالب قدرت والے کی پکڑ۔

اللہ، القادر ہے۔ بمعنی وہ ہر چیز کو ایک اندازے سے پیدا کرتا ہے۔ اور اس کے فیصلے کرتا ہے۔

القادر اس معنی میں بھی ہے کہ اسے کوئی چیز عاجز نہیں کر سکتی۔ اور نہ ہی اس کی طلب کردہ کوئی مخلوق اس سے فرار ہو سکتی ہے۔ وہ ایسا قدیر ہے کہ اس کی قدرت کامل ہے۔ جب وہ کسی چیز کو ایجاد کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو صرف ”کن“۔ہو جا۔ کہتا ہے اور وہ ہو جاتی ہے۔

وہ مقتدر ہے۔ یعنی اس کی قدرت تمام و مکمل ہے۔ جس کے لئے کوئی کام یا کوئی چیز ناممکن نہیں۔

               الاول، الآخر ،الظاھر ،الباطن

ہر چیز سے اول۔ ہر چیز پر غالب ہر چیز کے  بعد والا۔ ہر چیز کے باطن کو جاننے والا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 (الحدید: ۳)

وہ (اللہ) اول بھی ہے آخر بھی ہے ظاہر بھی ہے باطن بھی ہے اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

اللہ اس معنی میں اول ہے کہ اس سے پہلے کوئی مخلوق نہیں تھی۔ وہ ہر چیز پر مقدم ہے اس کے ساتھ کچھ بھی نہ تھا۔

اللہ آخر اس معنی میں ہے کہ جب سب مخلوقات فنا ہو جائیں گی تو صرف اللہ تعالیٰ ہی باقی رہے گا۔

اللہ ظاہر ہے کہ اس کے اوپر کوئی چیز نہیں کیونکہ وہ سب اونچی شان والوں سے بھی اونچا اور اعلی ہے۔

اللہ باطن ہے کہ ا س نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ حتی کہ ہر چیز کے ،اپنی ذات سے بھی زیادہ قریب ہے۔ تمام مخلوقات اس کی مٹھی میں ہیں ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں اس کے ہاتھ میں رائی کے دانے کے برابر ہیں۔

               المحسن: احسان کرنے والا

رسول اللہ ﷺنے فرمایا: (اسے ابن ابی عاصم نے روایت کیا ) جب تم فیصلے کرو تو انصاف کرو۔ اور جب کوئی جانور ذبح کرو تو احسان کرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ المحسن ہے احسان سے محبت کرتا ہے۔

المحسن: اللہ تعالیٰ ایسا محسن ہے کہ اس نے تمام مخلوقات کو اپنے احسانات سے ڈھانپ رکھا ہے۔ نیز اس کے انعامات اس کا فضل، سخاوت اور اس کی رحمت فراواں ہے۔ بندوں پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں احسان کریں۔ اور اللہ کے بندوں کے ساتھ احسان کریں چاہے وہ مال میں ہو۔ تعلیم و تربیت میں ہویا وعظ ونصیحت میں ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اہل احسان کے ساتھ حسنی یعنی جنت اور اس سے بھی زیادہ یعنی اپنے دیدار کا وعدہ کر رکھا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(یونس: ۶۲)

احسان کرنے والوں کے لئے حسنی (جنت) اور زیادہ یعنی رب کا دیدار ہو گا۔

               الطیب:پاک

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 اسے مسلم نے روایت کیا۔

اے لوگو! بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے وہ صرف پاک عمل اور پاک مال ہی قبول کرتا ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ تمام نقائص و عیوب سے پاک ہے۔ یعنی وہ قدوس ہے۔ لہذا بندوں پر فرض ہے کہ وہ (کفر و شرک ) سے پاک اعمال اور (حرام اور ریاکاری) سے پاک اموال کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کریں اور ان پر لازم ہے کہ وہ خبیث اقوال و اعمال اور اموال سے اجتناب کریں۔

               المُسَعِّرُ : قیمتیں مقرر کرنے والا

لوگوں نے رسول اللہ کے پاس مہنگائی کی شکایت کی اور تجویز پیش کی کہ آپ ﷺ قیمتیں مقرر کر دیں تب آپ ﷺ نے فرمایا : “ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا۔ بے شک اللہ تعالیٰ قیمتیں مقرر کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ قیمتیں مقرر کرتا ہے۔ یعنی وہی اشیاء سستی کرتا ہے یا مہنگائی لاتا ہے۔ لہذا اس پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں

               الجو ّادُ: سخاوت کرنے والا

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (اسے ابونعیم نے حلیۃ الاولیاء میں روایت کیا۔ ترجمہ): بے شک اللہ تعالیٰ سخی ہے سخاوت سے محبت کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سخی مطلق ہے کہ جس کی سخاوت زمین و آسمان میں بسنے والی تمام مخلوقات پر ہوتی ہے۔ اس کی سخاوت خصوصی طور پر ان کے لئے ہوتی ہے جو منہ زبانی یا بزبان حال اس سے سخاوت کا سوال کرتے ہیں وہ چاہے نیک ہوں یا فاسق و فاجر ہوں مسلمان ہوں یا کافر ہوں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی حکمت عالیہ کے مطابق ہر کسی پر سخاوت کرتا ہے۔

اس کی سخاوت واسعہ کی مثال وہ ہے کہ جو اس نے اپنے دوست بندوں کے لئے جنت میں نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ ہی کسی دل میں ان کا خیال گزرا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی سخاوت کی ایک مثال یہ ہے کہ وہ نا فرمانوں کو معاف کرتا ہے۔ اور ان کو سزا دینے میں نہایت بردبار ہے۔

               اَلمُجِیبُ: دعا قبول کرنے والا، جواب دینے والا

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صالح علیہ السلام کی حکایت بیا ن کرتے ہوئے ان کی طرف سے فرمایا ہے۔

” (ھود : ۱۶)

بے شک میرا رب قریب ہے دعائیں قبول کرنے والا ہے

اللہ تعالیٰ مجیب ہے وہ دعائیں کرنے والوں کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں بھی ہوں۔ وہ مجبور وں ، مظلوموں ، بے کسوں اور بے سہاروں کی فریادیں قبول کرتا ہے۔ خصوصاً جن کی امیدیں مخلوقات سے کٹ جاتی ہیں وہ فریادیوں کی فریاد رسی کرتا ہے جب مظلوم اسے پکاریں تو وہ ان کی مشکل کشائی کرتا ہے۔

               المعطی: عطا کرنے والا

معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اسے امام بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ دیتا ہے۔ اور اللہ عطائ کرنے والا ہے اور میں تقسیم کرنے ولا ہوں اور ہمیشہ ہمیشہ یہ امت اپنے مخالفین پر غالب رہے گی حتی کہ قیامت قائم ہو جائے گی۔

اللہ عطا کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و احسان سے عطا کرتا ہے۔ نہ کہ بندے کے سوال یا کسی واسطے کے آگے آنے کی وجہ سے وہ فضل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کو ہر چیز عطا کر دی۔

اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کی زبانی فرمایا:

(طہ: ۵۰)

اس نے کہا۔ ہمارا رب وہ ہے جس نے اپنی مخلوق کو ہر چیز(شکل و صورت) عطا کی پھر اسے ہدایت بھی دی۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کو قوت سماعت، قوت بصارت اور ہاتھ، پاؤں ، عقل، اموال اور اولاد جیسی اشیاء بن مانگے عطا کر دیں۔ لیکن اللہ کی عطا کردہ وہ اشیاء میں سب سے بڑی عطائ ہدایت اسلام ہے اور دولت ایما ن ہے اور اعمال صالحہ کی توفیق ہے۔

               الحفی: رحیم و شفیق

اللہ تعالیٰ نے ابراہیم خلیل اللہ کی زبانی فرمایا:

(مریم: ۷۴)

(اے میرے باپ ) تجھ پر سلامتی ہو میں ضرور اپنے رب سے تیری مغفرت کا سوال کروں گا۔ بے شک وہ مجھ پر بڑا شفیق و رحیم ہے۔

اللہ تعالیٰ کے جو اسماء حسنی ثابت نہیں۔

٭٭٭

تدوین اور ای بک: اعجاز عبید