FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

اساطیر کی جمالیات

 

 

حصہ دوم

 

 

               شکیل الرّحمٰن

 

 

 

 

اسلام کے  ظہور سے  قبل عرب ممالک  اور  وسط ایشیائی خطّوں  میں  قصّوں  کہانیوں  کی ایک بڑی روایت موجود تھی، خرافات  اور  توہمات سے  بھرے  قصّے  شوق سے  سنے  جاتے۔ یہ قصّے  ایک علاقے  سے  دوسرے  علاقوں  تک پہنچے اور ذہنوں  کو متاثر کیا۔ چونکہ ان قصّوں  میں  عموماً عجیب و غریب باتیں  ہوتیں اور ’bسی‘  کی ایک بڑی دنیا آباد ہوتی اس لیے  دلچسپی سے  سنے  جاتے، مسافر ایک علاقے  سے  دوسرے  علاقے  کا سفر کرتے  تو قصّے  کہانیوں  کے  واقعات و کردار بھی ساتھ ہوتے۔ مختلف علاقوں  کے  اثرات ہوتے  ہوتے  ممکن ہے  بہت سی کہانیوں  کی صورتیں  بھی تبدیل ہو گئی ہوں۔ عربی قصّوں  پر یہودی کلچر کے  بھی گہرے  اثرات ہوئے  جن کی وجہ سے  اس کلچر کے  واقعات نے  عربی قصّوں  کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا۔ محققین کہتے  ہیں  قدیم عرب قصّوں  کہانیوں اور حکایتوں  کا بہت بڑا سرمایہ ضائع ہو چکا ہے۔

اسلام سے  قبل یونانیوں، رومیوں، عیسائیوں اور عربوں  کی قدیم تہذیب میں  اساطیری قصّے  بہت مقبول رہے  ہیں، شعرا بھی اپنے  کلام میں  ان قصّوں  کا رنگ شامل کرتے، خود اساطیری فضاؤں  کی تخلیق کر کے  عوام کو متاثر کر نے  کی کوشش کرتے۔ قصّے  ہوں  یا شاعری جن جناّت، جادو، بھوت پریت سب کردار ادا کرتے۔ جنوں اور فوق الفطری عناصر سے  لوگوں  کو ہمیشہ گہری دلچسپی رہی ہے۔ قدیم عرب اساطیر کے  علاوہ قدیم فارس، مصر، شام، ترکی  اور  شمالی افریقہ کے  اساطیری قصّوں  میں  بھی جن جنات اہم کردار ادا کرتے  ہیں۔ یہ عقیدہ بھی ملتا ہے  کہ تخلیق آدم سے  پہلے  (دو ہزار سال قبل) جن پیدا ہوئے  تھے۔ جنت میں  انھیں  نمایاں  حیثیت حاصل تھی۔ ان کی حیثیت فرشتوں  سے  زیادہ نہیں  تو کم بھی نہ تھی۔ جن آگ  اور  ہَوا سے  پیدا کیے  گئے۔ ایک روایت یہ بھی ہے  کہ آدم کو سجدہ کر نے  کی بات آئی تو ابلیس کے  ساتھ جنوں  نے  بھی سجدہ کر نے  سے  انکار کر دیا۔ قدیم عقیدہ یہ ہے  کہ جن کوہِ قاف میں  رہتے  ہیں، یہ پہاڑی سلسلہ دنیا کا چکّر لگاتا رہتا ہے۔ کوہِ قاف انتہائی پُر اسرار علاقہ ہے  کہ جہاں  انسان کی پہنچ نہیں  ہے۔ صرف جِن ہی اپنی مرضی سے  کسی انسان کو کوہِ قاف لے  جا سکتے  ہیں۔ قدیم کہانیوں  میں  پریوں  کا مسکن بھی کوہِ قاف ہی میں  ملتا ہے۔

قصّوں  کہانیوں  میں  جن بہت طاقتور  اور  ہوشیار کردار نظر آتے  ہیں۔ وہ فائدہ بھی پہنچاتے  ہیں اور نقصان بھی کرتے  ہیں، جن اچھے  بھی ہیں اور بُرے  بھی۔ انسان کبھی جن کے  قبضے  میں  چلے  جاتے  ہیں اور کبھی جن ان کے  قبضے  میں  چلے  آتے  ہیں۔

عرب اساطیر میں  جنّی فوق الفطری روح ہے، ان کا مقام فرشتوں اور عفریتوں  سے  نیچے  ہے۔ جن کے  علاوہ ’غول ‘   اور  عفریت کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ’غول‘  فریب دینے اور نقصان پہنچانے  والی روحیں  ہیں، یہ روحیں  اطمینان سے  اپنے  چہرے  تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ قدیم اساطیر میں  جن کی تخلیق آگ  اور  ہَوا سے  ہوئی ہے  اپنی صورتیں  تبدیل کرتے  رہتے  ہیں، وہ انسان کی صورت بھی اختیار کر سکتے  ہیں اور کسی جانور کی بھی۔ وہ چاہیں  تو درخت پتھر میں  تبدیل ہو سکتے  ہیں، تباہ شدہ عمارتوں  میں  آباد رہتے  ہیں۔ آگ کے  اندر بھی رہ سکتے  ہیں اور زمین کے  اندر بھی۔ من کے  موجی ہیں۔ خواہ مخواہ جب چاہیں  کسی بھی انسان کو سزا دے  دیں، وبا  اور  بیماری پھیلانے  میں  آگے  رہتے  ہیں۔ حادثوں  کے  بھی ذمہ دار ہوتے  ہیں۔ شمالی افریقی، مصری، شامی  اور  فارس  اور  ترکی لوک کہانیوں  میں  جن جناّت کا ذکر بہت زیادہ ملتا ہے۔ قرآن حکم میں  ان کے  وجود کی تصدیق کے  بعد تو کہانیوں  میں  ان کے  کرداروں  کا عمل  اور  تیز ہو گیا۔ ’ہزار راتوں  کی کہانیوں ‘  نے  تو ان کے  کردار  اور  ان کے  عمل کو  اور  مستحکم کر دیا۔

جن جناّت کے  ساتھ ’عفریت‘  کی روح بھی قدیم اساطیری قصّوں  میں  خوب منڈلاتی رہی ہے۔ ان کے  پَردھوئیں  جیسے  ہیں، عموماً زمین کے  اندر رہتے  ہیں۔ پرانے  عرب قبیلوں  کی لوک کہانیوں  میں  ان کے  کردار ملتے  ہیں۔ ان کی باضابطہ حکومتیں  قائم ہیں۔ بادشاہ، ملکہ، وزیر، قبیلہ۔۔۔ سب موجود ہیں۔ وہ چاہیں  تو خوبصورت عورتوں  سے  شادی کر لیں اور کسی کو بھی ان عورتوں  کے  پاس آنے  نہ دیں۔ جادو ٹونا ہی سے  ان پر قابو پایا جا سکتا ہے، ان کی شکست تلوار خنجر سے  نہیں  ہو سکتی صرف جادو ٹونا سے  ہو سکتی ہے۔ عورتوں  پر سوار ہو جاتے  ہیں  تو انھیں  ہٹانے  کا واحد علاج جادو ٹونا ہے۔ یہ بھی جنوں  کی طرح ’صاحبِ ایمان‘  ہوتے  ہیں اور کافر بھی، اچھے  بھی ہوتے  ہیں اور بُرے  بھی۔ لوک کہانیوں  میں  ان کی احمقانہ حرکتوں  کو بھی موضوع بنا کر لطف لیا گیا ہے۔ اساطیری قصوں  میں  ایسے  جن  اور  عفریت ملتے  ہیں  جو اپنے  باغیانہ رجحان سے  پہچانے  جاتے  ہیں۔

عرب میں  ایسے  کاہن بھی تھے  جو مستقبل میں  ہونے  والے  واقعات سے  اپنی واقفیت کا دعویٰ کرتے اور جنوں اور عجیب و غریب مخلوقات کی حکایتیں اور کہانیاں  سنایا کرتے۔ بنیادی مقصد دلوں  میں  خوف پیدا کرنا  اور  استحصال کرنا ہوتا۔ اُس دور کی اساطیری کہانیوں  میں  ’شق‘  سطیح  اور  عفیر وغیرہ کی کہانیاں  مقبول تھیں۔ ’شق‘  نصف مرد  اور  نصف عورت تھا۔ ایک ہاتھ تھا ایک پیر  اور  ایک آنکھ تھی۔ ’سطیح‘  کا سر تھا  اور  نہ ہی اس کی گردن تھی، اس کی چھاتی میں  چہرہ تھا، یہ دونوں  پیش گوئی کرتے اور مستقبل کا حال بتاتے۔ ان کا وجود تو تھا نہیں  محض خیالی پیکر تھے  لیکن قصّوں  حکایتوں  میں  اس طرح پیش کیے  جاتے  جیسے  زندہ کردار ہوں۔ عربی ترکی، مصری  اور  شامی اساطیر میں  ایسے  جنوں  کے  کارناموں  کا ذکر ملتا ہے  جو انسان کو نقصان پہنچاتے  تو ہیں  وقت پر ان کی مدد بھی کرتے  ہیں۔ ہزار راتوں  کی داستان نے  جہاں اور بہت سے  کرداروں  کو مقبول بنایا وہاں  جن جناّت کو بھی قبائلی زندگی کے  اندر اُتار دیا۔ تخیل نے  طرح طرح کی کہانیاں اور حکایتیں  تراشیں، ہندوستان  اور  انڈونیشیا میں  تو جن اس طرح آئے  کہ یہاں  رچ بس گئے اور ابھی تک کم از کم اپنے  ملک میں  ان کے  تعلق سے  نِت نئی کہانیاں  سنتے  رہتے  ہیں۔ قرآن حکیم میں  ان کا ذکر آیا تو یہ  اور  بھی مستحکم ہو گئے، ان کی ’bسی‘ کی دنیا ایک علیحدہ حیثیت رکھتی ہے۔

اسلام کے  ظہور سے  قبل تو اساطیری5 کی ایک بڑی دنیا آباد تو تھی ہی اسلام کے  آنے  کے  بعد جانے  کتنے  5 وجود میں  آ گئے۔ قرآن حکیم نے  جن کا ذکر کیا وہ تو موجود ہیں  لیکن دلچسپ بات یہ ہے  کہ اُن کا ذکر سن کر ایسے  ’5س‘  کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا کہ جن کا اس مقدس کتاب سے  کوئی تعلق نہ تھا۔ مثلاً حضرت فاطمہؓ کا ہاتھ، حضرت فاطمہؓ کی آنکھ، اس کا تعلق یہودی 5 سے  ہے۔ حضرت موسیٰ کی ہمشیرہ مریم کے  تعلق سے  جو 5 ہے  وہ نگہباں  آنکھ  اور  نگہباں  ہاتھ (پنجہ) کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ اسی طرح خدا کے  تخت کو اُٹھائے  ہوئے  سانڈ، عقاب، شیر  اور  انسان کا 5 بھی غیر اسلامی ہے۔ ممکن ہے  تورات میں  اس کا ذکر ہو، نئے  عہد نامے  میں  تو ذکر موجود ہے۔ میخائل، میکائل ہو گئے  ہیں، یہ وہی میکائل ہیں  کہ جن کی نظر جہنم پر پڑی تو ایسے  گم سم ہو گئے  کہ اُنھیں  کبھی ہنسی نہیں  آئی۔ مسلمانوں  کے  5 میں  میکائل  اور  جبریل وہ پہلے  فرشتے  ہیں  کہ جنھوں  نے  اللہ کے  حکم کی تعمیل کرتے  ہوئے  آدم کو سجدہ کیا  اور  ان ہی دونوں  فرشتوں  نے  معراج سے  قبل حضور ا کرمؐ کے  دل کی صفائی کی  اور  اسے  مکمل طور پر پاکیزہ بنایا۔ یہودی میکائل کو بہت ہی بلند درجہ دیتے  ہیں، ان کے  تعلق سے  بہت سی روایتیں اور 5 موجود ہیں۔ یہودی کہتے  ہیں  کہ میکائل خدا کے  بائیں اور جبریل دائیں  بیٹھے  ہیں۔ اسلام سے  قبل یہودیوں اور عیسائیوں  کی روایتوں  میں  میکائل تمام فرشتوں  میں  سب سے  بلند درجہ رکھتے  ہیں۔ میکائل ’’سنٹ میخائیل‘‘  بن گئے۔ کہا گیا اُن کا چہرہ خدا کی طرح ہے  انھیں  ہمیشہ  پر وقار مقام حاصل رہا۔ قصّوں  کہانیوں اور حکایتوں  میں  وہ اکثر مرکزی کردار ادا کرتے  ہیں۔ ’عہد نامہ‘  قدیم (Od Testament)میں  میخائل کا ذکر دوبار آیا ہے۔ اُنھیں  عظیم شہزادہ کہا گیا ہے۔ روایت یہ بھی ہے  کہ یہ میخائل ہی تھے  کہ جنھوں  نے  کوہِ طور پر حضرت موسیٰ سے  گفتگو کی تھی، ان کی انسان دوستی  اور  انسان سے  اُن کی  محبت کا ذکر 5 میں  اس طرح بھی آیا ہے  کہ وہ حضرت آدم سے  بیحد  محبت کرتے  تھے  اس لیے  کہ وہ پہلے  انسان تھے اور ان کی وجہ سے  انسان کی پیدائش کا سلسلہ شروع ہونے  والا تھا۔ یہ 5 بھی توجہ طلب ہے  کہ حضرت آدم کے  انتقال کے  بعد میخائل ہی تھے  کہ جنھوں  نے  ان کے  جسم  اور  روح کو پاکیزہ بنایا  اور  ان کی روح کو احترام کے  ساتھ جنت تک لے  گئے۔ یہودیوں  کا عقیدہ ہے  کہ میخائل اُن پانچ فرشتوں  میں  ایک تھے  جنھوں  نے  حضرت موسیٰ کو دفن کیا  اور  ان کی قبر تیاّر کی۔ میخائل  اور  شیطان کی زبردست جنگ کا بھی ذکر ملتا ہے، میخائل کو روشنی کا پیکر  اور  شیطان کو تاریکی کا پیکر کہا گیا ہے۔ روشنی کی فتح ہوتی ہے۔ تاریکی کو شکست کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ اس جنگ کا ذکر ’نئے  عہد نامے ‘  میں  بھی موجود ہے۔ کیتھولک چرچ کا یہ پرانا عقیدہ رہا کہ میخائل عیسائی فرشتے  ہیں  جن کا سب سے  بڑا کام موت کے  بعد روحوں  کو  جنت تک لے  جانا ہے۔ مسلمانوں  میں  یہ عقیدہ راسخ ہوتا گیا ہے  کہ چار محترم فرشتوں  میں  وہ ایک ہیں، عزرائیل،ؔ اسرائیل، جبریل  اور  میکائل، یہ چاروں  اپنے  سبزپروں  کے  ساتھ اُڑتے  رہتے  ہیں۔ میکائل ساتویں  آسمان پر رہتے  ہیں۔

عزرائیل موت کے  فرشتے  ہیں، روح قبض کر کے  لے  جاتے  ہیں۔ پوری کائنات کے  برابر اُن کا جسم ہے، چار ہزار پر ہیں۔ آنکھوں اور زبانوں  کی تعداد بھی کم نہیں  ہے، ان کا ایک پاؤں  زمین پر ہوتا ہے اور دوسرا ساتویں  آسمان پر۔ وہ  جنت  اور  جہنم کے  درمیان پل صراط سے  گزرتے  رہتے  ہیں۔ ان کے  تعلق سے  بھی جانے  کتنی حکایتیں اور کہانیاں  ہیں۔ ایک حکایت یہ ہے  کہ تخلیقِ آدم سے  قبل اُنھیں  زمین پر بھیجا گیا تاکہ وہ دھرتی کی مٹّی لے  کر آئیں  اس لیے  کہ خدا کو زمین کی مٹّی سے  آدم کو بنانا تھا۔ زمین پر ابلیس کے  ساتھ ٹکراؤ ہوا۔ کامیاب ہوئے اور مٹّی لے  کر آ گئے۔ اس کے  عوض میں  انھیں  موت کا فرشتہ بنا دیا گیا۔ اس حکایت  میں  یہ بھی کہا گیا ہے  کہ روشنی  اور  تاریکی کے  دائروں  میں  گھومتے  گھومتے  اُنھیں  اس بات کی خبر نہیں  ہوتی کہ کس شخص کی روح لے  کر پرواز کرنا ہے، خدا کے  تخت کے  نیچے  ایک پیڑ ہے  اس پیڑسے  پتاّ گرتا ہے  اس پتے ّ پر اُس شخص کا نام لکھا ہوتا ہے  کہ جس کی روح کو لے  جانا ہے۔ وہ ہر دم درخت کے  پتے ّ کے  گر نے  کا انتظار کرتے  رہتے  ہیں۔ اُدھر نام پتے  کے  ساتھ درخت سے  پتاّ گرا  اور  حضرت عزرائیل پتے ّ لے  کر دوڑ پڑے۔ یروشلم کی مقدس پہاڑی پر فرشتہ حضرت اسرافیل قیامت کے  آنے  کی خبر دینے  کے  لیے  ڈنکا لیے  تیاّر کھڑے  ہیں۔ خدا کے  حکم کا انتظار ہے۔ یہودی  اور  عیسائی لٹریچر میں  اسرافیل کی جگہ ’ریفل‘  (Raphael) ہیں، ڈنکے  پر چوٹ مار نے  یا ڈنکا بجانے  کا یہ 5 بہت ہی قدیم ہے۔ ان کا پیکر عموماً اس طرح پیش کیا گیا ہے  پورے  جسم پر بڑے  بڑے  بال، جانے  کتنے  منہ  اور  جانے  کتنی زبانیں، سب بالوں  کی وجہ سے  پوشیدہ، ساتویں  آسمان سے  خدا کے  تخت تک پہنچ ہے۔ ایک بڑے  پَر سے  پورے  جسم کو چھپائے  ہوئے  دوسرے  پَر سے  خدا سے  پردہ کیے  ہوئے، ایک پَر مشرق کی جانب پھیلا ہوا تاحد نظر پَر ہی پَر،  اور  دوسرا پَر مغرب کی جانب پھیلا ہوا، وہ جہنم کو دیکھ دیکھ کر روتے  رہتے  ہیں، کم از کم تین بار دن میں اور تین بار شب میں  اُن کے  آنسو کے  بہنے  کی رفتار اتنی تیز ہو جاتی ہے  لگتا ہے  وہ خود اپنے  آنسوؤں  میں  غرق ہو جائیں  گے۔

قرآن حکیم میں  بہت سے  واقعات، حکایات  اور  کردار تمثیلی حیثیت رکھتے  ہیں، تاریخی نوعیت کے  قصّے  بھی ہیں اور تمثیلی قصّے  بھی۔ گزرتے  وقت کے  ساتھ انھیں  اس طور پر پیش کیا جانے  لگا جیسے  یہ اساطیری ہوں۔ مختلف کتابوں  میں  ان کی صورتیں  اس حد تک بگاڑ دی گئیں  کہ بنیادی باتیں  گم ہو گئیں اور خرافات  اور  توہمات کا ذخیرہ جمع ہو گیا۔ قرآنِ پاک کی حکایتوں  کی تشریح کرتے  ہوئے  اسرائیلی ذہن نے  تورات  اور  اپنی دوسری مذہبی کتابوں  کی باتیں  اس طرح شامل کیں  جیسے  وہ باتیں  ان ہی حکایتوں  میں  شامل تھیں۔ ہم جانتے  ہیں  تورات میں  کائنات  اور  انسان کے  تعلق سے  جو باتیں  ہیں  وہ اساطیر سے  بہت ہی قریب ہیں۔ واقعہ معراج کا ہو یا مختلف پیغمبروں  کی حکایتیں  ہوں  اسرائیلی ذہن نے  ان کی صورتیں  بگاڑ دی ہیں۔

برّاق کو ایک طرف فرسودہ روایت نے  مسخ کیا  اور  دوسری طرف برّاق کی پرانی تصویروں  نے  جو ایران  اور  مختلف علاقوں  میں  بنائی گئیں۔ کہیں  سفید جانور ہے  خچر کے  چہرے  کے  ساتھ، کہیں  اس کا سر عقاب کی طرح ہے، بڑے  دو پر ہیں، جسم شیر کا، کہیں  یونانی اساطیر کے  عفریت (Sphinxes) کی طرح، سرعورت کا جسم شیرنی کا۔ بڑے  بڑے  پَر کے  ساتھ، کہیں  ’سنٹور‘  (Centaurs) یعنی قنطورس نصف انسان، نصف گھوڑا یا کوئی  اور  جانور۔ چودھویں  صدی کے  بعد برّاق  اور  اس کے  ’مِتھ‘  کے  تعلق سے  بہت سی تصویریں  بنی ہیں۔

قرآن پاک میں  پیغمبروں  کے  معجزوں  کے  ذکر  اور  ان کی حکایتوں  کو پا کر خرافات و توہمات سے  بھرے  قصّوں  کہانیوں  کا ایک بازار سا لگ گیا۔ بلاشبہ قرآن کریم کے  معجزات و حکایات کے  گہرے  اثرات ہوئے  ہیں  لیکن اساطیری رنگ کے  بدنما دھبّوں  کے  ساتھ یہ کہانیاں  اُس وقت  اور  زیادہ تکلیف پہنچاتی ہیں  جب مذہبی زندگی کے  واقعات و کردار کو خواہ مخواہ مسخ کر نے  کی کوشش ہوتی ہے۔ مثلاً خدا آدم  اور  حوّا کا نکاح پڑھاتے  ہیں اور انھیں  ایک خاص وقت ایک دوسرے  کے  قریب آنے  سے  روکتے  ہیں۔ (جب تک کہ مہر ادا نہ ہو جائے )، حضرت یوسف  اور  زلیخا کی شادی۔ حضرت یوسف سے  شادی تک زلیخا اپنے  شوہر سے  دور رہتی ہے؟ حضرت سلیمان  اور  ملکہ بلقیس کی من گھڑت کہانیاں، شبِ معراج کا ذکر کچھ اس طرح جیسے  کوئی اساطیری کہانی سن رہے  ہوں۔ ایسے  سیکڑوں  واقعات ہیں  جنھیں  پڑھ کر لطف آتا ہے اور نہ یقین۔ سارے  واقعات و کردار اساطیری  اور  توہماتی ہیں  کہیں  کہیں  الف ولیلہ کے  اثرات تو نظر آتے  ہیں  لیکن ان سے  ان نام نہاد داستانوں  کا معیار کہیں  بھی اُوپر نہیں  اُٹھتا۔

ان توہماتی  اور  خرافاتی قصوں  کی سطح اتنی نیچی ہے  کہ انھیں  اساطیری قصوں  سے  بھی تعبیر کرنا ظلم ہے۔

قیامت کے  آثار  اور  علامات کا جو ذکر ہوا ہے  اس کے  تعلق سے  چند اشارے  اس طرح پیش کیے  جا سکتے  ہیں:

۔۔۔      ابوسفیان کے  قبیلے  کا ایک شخص مسلمانوں  کا قتل کرے  گا  اور  شام  اور  مصر پر قبضہ کر لے  گا۔

۔۔۔      عیسائیوں اور مسلمانوں  کے  درمیان زبردست جنگ ہو گی۔ پھر صلح ہو جائے  گی، لیکن عیسائی مسلمانوں  کے  دشمن بنے  رہیں  گے۔

۔۔۔      استنبول پر عیسائیوں  کا قبضہ ہو جائے  گا۔ پھر مسلمان قابض ہوں  گے۔

۔۔۔      حضرت امام مہدی کے  آنے  کا انتظار ہو گا۔

۔۔۔      اُس وقت سورج گرہن بھی مکمل ہو گا  اور  چاند گرہن بھی۔

۔۔۔      چالیس برس کی عمر میں  حضرت امام مہدی  ّمکہ شریف میں  دِکھائی دیں  گے  اس کے  بعد مدینہ منورہ چلے  جائیں  گے۔

۔۔۔      مسلمانوں  کی فوج میں  حرکت پیدا ہو گی، خراسان کے  منصور کی فوج حضرت امام مہدی کی مدد کے  لیے  آگے  بڑھے  گی۔ مسلمانوں  کی فتح ہو گی۔ وہ سیاہ پرچم لیے  ہوں  گے۔

۔۔۔      سفیانی فوج کو زمین نگل جائے  گی۔

۔۔۔      حضرت امام مہدی مسلمانوں  کی ایک بڑی فوج لے  کر شام جائیں  گے  تاکہ عیسائیوں  کو شکست دے  سکیں۔

۔۔۔      حضرت امام مہدی کی فوج فلسطین پر قابض ہو جائے  گی۔ پھر شام کی فتح ہو گی۔

۔۔۔      تین سال قحط پڑے  گا  اور  پھر دجّال آئے  گا۔

۔۔۔      دجّال کے  ماننے  والے  یہودی ہوں  گے  جن کا لباس قیمتی ریشمی کپڑے  کا ہو گا  اور  جن کے  ہاتھ میں  دو رُخی تلواریں  ہوں  گی۔

۔۔۔      حضرت امام مہدی ہی کے  زمانے  میں  حضرت عیسیٰ آئیں  گے۔ ان کے  ساتھ جنت کے  مردے  ہوں  گے  جنھیں  وہ زندہ کریں  گے۔

۔۔۔      دجّال کا قتل ہو گا!

۔۔۔      پھر ہر طرف امن و امان ہو گا۔

۔۔۔      یاجوج ماجوج کی رہائی ہو گی۔ یہ صرف دو افراد نہیں  جانے  کتنے  ہوں گے، یروشلم پہنچ جائیں  گے۔ اعلان کریں  گے  وہ دنیا پر قابض ہو گئے  ہیں۔

۔۔۔      پھر ان کی موت ہو جائے  گی۔

۔۔۔      پھر چالیس دن بارش ہو گی  اور  دنیا گنا ہوں  سے  دھُل جائے  گی۔ دنیا خوبصورت ہو جائے  گی۔

۔۔۔      حضرت عیسیٰ سات برس زندہ رہیں  گے۔

۔۔۔      اس کے  بعد چالیس روز ہر جانب دھُواں  ہی دھُواں  نظر آئے  گا۔ کچھ بھی دِکھائی نہ دے  گا۔  اور  پھر سورج مغرب سے  طلوع ہو گا۔

۔۔۔      پھر زمین کے  اندر سے  عجیب الخلقت جانور نکلیں  گے، جن کی نظر گنہگاروں  پر ہو گی۔

۔۔۔      یمن میں  زبردست آگ لگے  گی اس کے  بعد ہی صور کی آواز سنائی دے  گی  اور  قیامت کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جائے  گا!

’’یہ غیر معمولی ہونے  والے  واقعات‘‘   قصوں  کہانیوں  کے  موضوع بنے  ہیں، قبیلوں  میں  یہ باتیں  خوب خوب سنائی گئی ہیں  تاکہ سننے  والوں  کے  دلوں  میں  بیٹھ جائیں۔

اساطیری قصّوں کی خصوصیات لیے  یہ سب شعور  اور  لاشعور میں  اس طرح جذب ہیں  کہ انھیں  دور نہیں  کیا جا سکتا۔

 

 

 

 

ایرانی اساطیر کی تاریخ بہت پرانی ہے، ۱۵۰۰ سال قبل مسیح سے  اس کی ارتقائی منزلوں  کی خبر ملتی ہے۔ زرتشتی مذہب سے  قبل جو عقائد  اور  دیوتا تھے اور جو حکایتیں  کہانیاں  تھیں  وہ آہستہ آہستہ اس میں  جذب ہوتی گئیں  لیکن ساتھ ہی نئے  عقائد  اور  ’مِتھ‘  بھی شامل ہوئیں۔ ایرانی اساطیر کی دُنیا روشنی  اور  تاریکی  اور  اچھائی  اور  بُرائی کی کائناتی کشمکش پر قائم ہے۔

ایرانی اساطیر کا رشتہ جنوبی روس  اور  وسط ایشیائی ملکوں  کی روایات سے  بہت گہرا رہا ہے۔ ۱۵۰۰ سے  ۱۰۰۰ سال قبل مسیح ہند یوروپی آبادی کا ایک بڑا حصّہ ترکی، ایران  اور  شمالی ہند کی جانب منتقل ہوا۔ جو لوگ ایران میں  رچ بس گئے  ان کے  اساطیری قصّے  ہندوستانی قصّوں  سے  ملتے  جلتے  ہیں۔

مولانا ابوالکلام آزاد نے  تفسیر سورۂ فاتحہ کے  مقدمے  میں  تحریر فرمایا ہے: ’’زردشت کا جب ظہور ہوا تو اس نے  ایرانیوں  کو ان قدیم عقائد سے  نجات دلائی  اور  ’مزدیسنا۱؂‘  (Mazdayasni) کی تعلیم دی یعنی دیوتاؤں  کی جگہ ایک خدائے  واحد ’ا ہورا مزدا‘  (Ahura Mazda) کی پرستش کی، یہ ا ہورا مزدا یگانہ ہے  بے  ہمتّا ہے، بے  مثال ہے، نور ہے، پاکی ہے، سراسر حکمت  اور  خیر ہے اور تمام کائنات کا خالق ہے۔ اس نے  انسان کے  لیے  دو عالم بنائے۔ ایک عالم دینوی زندگی کا ہے  دوسرا مر نے  کے  بعد کی زندگی کا، مر نے  کے  بعد جسم فنا ہو جاتا ہے  مگر روح باقی رہتی ہے۔  اور  اپنے  اعمال کے  مطابق جزا پاتی ہے۔

دیوتاؤں  کی جگہ اس نے  ’امش پند‘ (Amahraspand) [پہلوی لفظ ہے )  اور  ’یزتا‘  (Yazad) (یہ بھی پہلوی لفظ ہے )کا تصوّر پیدا کیا یعنی فرشتوں  کا۔ یہ فرشتے  ا ہوار مزدا کے  احکام کی تعمیل کرتے  ہیں۔ برائی  اور  تاریکی کی طاقتوں  کی جگہ انگرامے  نیوش (Angrame Niyush) کی ہستی کی خبردی یعنی شیطان کی، یہی انگرامے  نیوش یازند کی زبان میں  اہرمن ہو گیا۔ ۱؂

مولانا آزاد نے  آگے  تحریر کیا ہے  کہ زردشت کی تعلیم میں  ہندوستانی آریاؤں  کے  ویدی عقائد کا ردّ صاف صاف نمایاں  ہے۔ ایک ہی نام ایران  اور  ہندوستان دونوں  جگہ اُبھرتا ہے اور متضاد معنی پیدا کر لیتا ہے۔ اوستا کا ’ا ہورا‘  سام  اور  یجروید میں  ’اسورا‘  ہے اور  اگر چہ رِگ وید میں  اس کا اطلاق اچھے  معنوں  میں  ہوا تھا مگر اب وہ برائی کی شیطانی روح بن گیا ہے۔ ویدوں  کا ’اِندرا‘  اوستا کا ’انگرا‘  ہو گیا۔ ویدوں  میں  وہ آسمان کا خدا تھا، اوستا میں  زمیں  کا شیطان ہے۔ ہندوستان  اور  یورپ میں  ’دیو‘  (Dev)  اور  ’ڈے  یوس‘  (Deus)  اور  تھیوس (Theus) خدا کے  لیے  بولا گیا لیکن ایران میں  ’دیو‘  کے  معنی عفریتوں  کے  ہو گئے۔ گویا دونوں  عقیدے  ایک دوسرے  سے  لڑرہے  تھے۔ ایک کا خدا دوسرے  کا شیطان ہو جاتا تھا  اور  دوسرے  کا شیطان پہلے  کے  لیے  خدا کا کام دیتا تھا۔ اسی طرح ہندوستان میں  ’یم‘  زندگی  اور  انسانیت کی سب سے  بڑی نمود ہوئی  اور  پھر یہی ’یم‘  جم ہو کر جمشید ہو گیا۔

مولانا نے  کہا ہے  ’’لیکن معلوم ہوتا ہے  کہ چند صدیوں  کے  بعد ایران کے  قدیم تصوّرات  اور  بیرونی اثرات پھر غالب آ گئے اور ساسانی عہد میں  جب ’مزدنیا‘  کی تعلیم کی ازسرنو تدوین ہوئی تو قدیم مجوسی، یونانی  اور  زرتشتی عقائد کا ایک مخلوط مرکب تھا  اور  اس کا بیرونی رنگ و روغن تو تمام تر محسوسی تصوّر مجوسی تصوّر ہی نے  فراہم کیا تھا، اسلام کا جب ظہور ہوا تو یہی مخلوط تصوّر ایران کا قومی مذہبی تصوّر تھا، مغربی ہند کے  پارسی مہاجر یہی تصوّر اپنے  ساتھ ہندوستان لائے اور پھر یہاں  کے  مقامی اثرات کی ایک تہہ اس پر  اور  چڑھ گئی۔‘‘

مولانا نے  واضح کیا ہے  کہ مجوسی تصوّر کی بنیاد ثنویت (Duaism) کے  عقیدے  پر تھی یعنی خیر  اور  شر کی دو الگ الگ قوتیں  ہیں۔ ’ا ہورا مزدا‘  جوکچھ کرتا ہے  ’خیر  اور  روشنی ہے۔ ‘  انگرامے  نیوش‘  یعنی اہرمن جو کچھ کرتا ہے  شر  اور  تاریکی ہے۔ عبادت کی بنیاد سورج  اور  آگ کی پرستش پر رکھی گئی کہ روشنی یزدانی صفات کی سب سے  بڑی مظہر ہے۔ کہا جا سکتا ہے  کہ مجوسی تصوّر نے  خیر  اور  شرکی گتھی یوں  سلجھانی چاہی کہ کارخانۂ ہستی کی سربراہی دو متقابل  اور  متعارض قوتوں  میں  تقسیم کر دی۔ (ترجمان القرآن مقدمہ تفسیر فاتحہ)

ایرانی اساطیر کے  تعلق سے  جو ابتدائی معلومات حاصل ہوئی ہیں  وہ ’ژند اوستا‘ ہے، یہ زرتشتی مذہب کی پہلی مقدس کتاب ہے۔ اس کے  بیشتر حصّے  سکندر اعظم کے  حملے  (۳۳۴ قبل مسیح) کی وجہ سے  ضائع ہو گئے۔ سکندر اعظم نے  ۳۳۴ برس قبل ایران پر قبضہ کر لیا تھا۔ ۶۰۰۔ ۲۰۰ء کے  درمیان میں  ’ژند اوستا‘ کو مرتب کیا گیا۔ اس کے  ایک حصّے  میں  وہ ’گا تھائیں ‘  (Gathas) ہیں  جو زرتشت کے  طبع زاد گیتوں اور نغموں  سے  تعبیر کی جاتی ہیں۔ اس کے  ایک دوسرے  حصّے  میں  اساطیری مواد ملتے  ہیں، ان میں  ’یاشت‘  (Yashts) ہیں  یعنی وہ مقدس نغمے  کہ جن کا تعلق فرشتوں  سے  ہے۔ [’یاشت‘  پہلوی لفظ ہے، مفہوم ہے  روحانی پیکروں  کے  لیے  حمدیہ نغمے  (Hymns)] ایرانی اساطیر کی بنیاد خیر  اور  شرر کی کشمکش، خیر کی فتح  اور  پیغمبر کی روحانیت  اور  وجدان پر قائم ہے۔ دو طاقتور دیوتا ہیں  (کہیں  کہیں  جڑواں  بھائی کے  طور بھی پیش ہوئے  ہیں ) ایک ا ہورا مزدا خالق، روشنی کا دیوتا، سچائی  اور  افضل باطنی اوصاف کا عاشق دوسرا اہرمن اس کے  برعکس تاریکی کی علامت، جھوٹ  اور  برائیوں  کا نمائندہ، تباہی و بربادی پسند کر نے  والا، عفریتوں  کا حاکم۔ دنیا ان دونوں  کی جنگ کا میدان ہے۔ شدید تصادم  اور  کشمکش  اور  جنگ کے  بعد ا ہورا مزدا کی فتح!

’ا ہورا مزدا‘  ایرانی اساطیر کا عظیم دیوتا ہے  جو خالق ہے، مقدس آگ اس کی علامت ہے  آگ کی عبادت اس کی عبادت ہے۔

’متھرس‘  (Mthras) جنگ کا دیوتا بھی ہے اور سورج کا بھی، دنیا میں  نظم ضبط وہی قائم کرتے، دنیا کے  قانون کا محافظ ہے۔ (روم میں  بھی اس کی عبادت کی جاتی رہی ہے )

اناہیتا (Anahita) پانی  اور  افزائشِ نسل کی دیوی ہے۔

ویری تھراغنا(Vereithraghna) جنگ و فتح کا دیوتا ہے۔ دھرتی پر دس صورتوں  میں  نمودار ہوتا ہے۔ ان میں  ہوا، سانڈ، گھوڑا  اور  اونٹ کے  علاوہ سؤر، بھیڑ ، جوانی  اور  انسان بھی شامل ہیں۔

ا ہورا مزدہ کے  سامنے  ان کی حیثیت زیادہ نہیں  ہے  اس لیے  کہ اس کی حیثیت خالق کی ہے۔ اس نے  سات فرشتے  (Amesha Spentas)پیدا کیے، جو سچائی، تو انائی،  اور  ہمیشہ زندہ رہنے  والی مخلوق ہیں۔ ان فرشتوں (Archanges)میں  زرتشتی مذہب کی آمد کے  قبل کے  دیوتاؤں  کی کچھ اہم خصوصیات بھی ملتی ہیں۔ کئی ہیرو  اور  بادشاہ بھی اساطیری حیثیت اختیار کیے  ہوئے  ہیں  مثلاً ٹرے  ٹونا (Traetaona) کہ جس نے  ازہی دہاکا (Azhidahaka) سے  جنگ کی تھی جو تین سروں  والا اہرمن تھا۔ جب ٹرے  ٹونا نے  ازہی دہا کا کے  سینے  کو چاک کیا تو اس میں  سے  سانپ  اور  چھپکلیاں  نکلنے  لگیں۔ اس سے  قبل کہ ان سانپوں اور چھپکلیوں  کا زہر دنیا میں  پھیلے  ٹرے  ٹونا نے  اسے  ایک پہاڑ کے  اندر بند کر دیا جہاں  وہ اُس دن تک رہے  گا جب تک کہ قیامت نہیں  آ جاتی۔  اگر  اس کے  بعد بھی دنیا قائم رہتی ہے  تو ایک  اور  ہیرو آئے  گا کہ جس کا نام کرے  ساسپا (Keresaspa) ہو گا۔ وہ اسے  مار ڈالے  گا۔ اسی طرح بہرام گل  اور  رستم (شاہنامہ فردوسی) وغیرہ ایسے  کردار ہیں  جو اساطیری حیثیت رکھتے  ہیں۔

ایران  اور  ایران کی سرحد سے  وسط ایشیائی علاقوں  تک  اور  Back Sea سے  خوتان (چین کی سرحد) تک جو قومیں  لسانیاتی  اور  تہذیبی طور پر ایک دوسرے  سے  قریب تھیں  ان پر اساطیری قصّوں  کہانیوں  کے  صدیوں  اثرات ہوتے  رہے  ہیں۔ روایتی کہانیوں  کا سلسلہ بھی قائم رہا ہے اور قدیم مذاہب کے  پرانے  قصّوں  کا بھی سفر جاری رہا ہے۔ ان میں  جانے  کتنے  5  اور  فوق الفطری افسانے  تھے۔ قدیم ایرانی قصّوں  کی بنیاد روشنی  اور  تاریکی کے  تصادم کو واضح طور نمایاں  کرتی ہے۔ سماج کے  رجحانات بھی موجود ہیں اور دیوتاؤں اور فرشتوں  کے  عمل  اور  ردِّ عمل بھی۔ بہت سے  عجیب الخلقت جانوروں اور پرندوں  کے  کردار بھی ملتے  ہیں  جن سے  اساطیر کی bسی کی سطح بلند ہوتی ہے۔ ایران کے  کلچر  اور  اس کی تاریخ کے  پس منظر میں  بھی قصّے  موجود ہیں۔ ایران کے  پہاڑوں  کے  سلسلے  قصّوں  کہانیوں  میں  بڑی کشش پیدا کرتے  ہیں۔ مذہب کا سب سے  گہرا اثر روشنی  اور  تاریکی  اور  اچھی  اور  بُری اقدار کے  تصوّرات پر ہوا ہے۔ ’اسپین ٹا مینیو‘  (Spenta Mainyu) (اوستی لفظ ہے ) مقدس روح ہے  جو کار آمد تو انائی کی نمائندگی کرتی ہے، اینگرا مینیو (Angra Mainyu) بدروح ہے، تاریکی، تباہی  اور  موت کی نمائندہ ہے۔ ان دونوں  کی کشمکش  اور  تصادم  اور  جنگ کی جانے  کتنی کہانیاں  ہیں۔ ان میں  سب سے  زیادہ مقبول رستم کی کہانی ہے۔ اساطیری قصّوں  میں  سیمرغ،  ہما  اور  قفنس (Phoenix) نمایاں  کردار ادا کرتے  رہے  ہیں۔

اساطیری قصّوں  کا تعلق ستاروں  سے  بھی ہے۔ سائریس (Sirius)ایک ستارہ ہے  جو بارش کی نمائندگی کرتا ہے۔ ٹش تریا(Tishtrya) بارش کا دیوتا ہے  جو قحط کے  دیوتا اپوشا (Apausha) سے  جنگ کرتا ہے۔ ا ہورا مزدہ کی مدد سے  اپوشا کی ہمیشہ شکست ہوتی رہی ہے۔ ٹش تریا  اور  چند دوسرے  دیوتا کھیت کھلیان کی نگہبانی کرتے  ہیں۔ گیومارٹ (Gayomart)یا گیومارڈ پہلا انسان ہے  (آدم)، موت کے  بعد اس کا جسم زمین کے  اندر چاندی سونے  میں  تبدیل ہو جاتا ہے  جس کی وجہ سے  پیڑپودے  بڑھتے  ہیں، اناج پیدا ہوتا ہے، عورت  اور  مرد وجود میں  آتے  ہیں، مرد کو ماشا (Masha) کہا گیا  اور  عورت کو ماشوئی (Mashyoi)۔ ایرانی اساطیر میں  موت دوسری زندگی کا سفر ہے۔ موت کے  بعد انسان کی روح ایک پل صراط سے  گزرتی ہے۔ اس پل کو چن وٹ (Chinvat) کہتے  ہیں۔ اچھی روحوں  کے  لیے  پل پھیل جاتا ہے، جو روحیں  اچھی نہیں  ہوتیں  اُن کے  لیے  پل سکڑجاتا ہے، ایک کے  لیے جنت کا راستہ ہے  دوسرے  کے  لیے  جہنم کا راستہ۔ زرتشتیوں  کا عقیدہ ہے  کہ ہر بارہ ہزار سال بعد چار دَور آتے  ہیں۔ پہلے  دَور میں  اچھی  اور  بُری باتیں  الگ الگ ہو جاتی ہیں۔ دوسرے  دَور میں  اچھی دنیا پر برائی کا حملہ ہوتا ہے، تیسرے  دَور میں  اچھائی  اور  برائی کی جنگ ہوتی ہے۔ جنگ شدّت اختیار کر لیتی ہے  تو اس کے  بعد برائی کی شکست ہوتی ہے۔ اچھائی کی فتح سے  ہر جانب خوشیاں  ہی خوشیاں  ہوتی ہیں اور آخری دَور میں  زرتشت کا وجود مرکزی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ زرتشتیوں  کا عقیدہ یہ بھی ہے  کہ ہر ایک ہزار سال بعد تین محافظ پیدا ہوتے  ہیں۔ پہلے  محافظ اوشے  دار (Aushedar) ہیں  کہ جنھوں  نے  زندگی کو سچائی کی راہ پرگامزن کیا۔ پندرہ برس کی ایک کنواری نے  انھیں  جنم دیا تھا۔ ایک جھیل میں  زرتشت نے  آنے  والی نسل کے  لیے  بیج رکھ چھوڑا تھا کہ جسے  اس کنواری عورت نے  جھیل کے  اندر ہی اپنے  جسم میں  جذب کر لیا۔ جس روز اوشے  دار تیس برس کے  ہوئے  آفتاب دس دن تک ایک ہی پوزیشن پر کھڑا رہا، اس میں  کوئی جنبش نہیں  ہوئی۔ دوسرے  محافظ اوشے  دار ماہ (Aushedar-Mah) ہیں۔ ان کی پیدائش بھی اسی طرح ہوئی۔ اس بار سورج بیس دن ساکت رہا۔ غیر متحرک! تیسرے  محافظ سوشیانت (Soshyant) ہیں۔ ان کا جنم بھی اسی طرح ہوا۔ کنواری عورت نے  زرتشت کے  بیج سے  جنم دیا۔ ان کی رہنمائی میں  دنیا کی ساری مخلوق حشر کے  میدان پہنچے  گی۔ روحوں  کو ان کے  اعمال  اور  کردار کے  پیشِ نظر انصاف ملے  گا۔ اچھی روحوں  کو کائناتی سمندر سے  حیات بخش پانی ملے  گا جسے  پی کر ان کی روح ہمیشہ زندہ رہے  گی۔

ایرانی اساطیر میں  مندر ذیل پیکر اہمیت رکھتے  ہیں:

*          ابان  (Aban)  (فارسی) = پانی، پانی کا فرشتہ۔

*          ادار  (Adar)  (پہلوی) [آتش]  =آگ، آگ کا فرشتہ۔

*          ادار فارن باگ  (Adar Franbag)  =  مقدس آگ۔

*          اہرمن  (Ahriman)  (پہلوی)  =  عفریت، تباہی کا پیکر۔

*          آہو  (Ahu)  (پہلوی)  =  روحانی پیشوا۔

*          آہورا مزدہ  (Ahura Mazda) (اوستی)  =  خدا۔

*          ایریا من  (Airyaman)  =  دوستی کا فرشتہ۔

*          البرز  (Abarz)  =  کائناتی پہاڑ۔

*          اماہ راسپند  (Amahrapasand)  (پہلوی)  =  ہمیشہ رہنے  والی مہربان روحیں۔

*          اناگران  (Anagran)  = کبھی ختم نہ ہونے  والی روشنی، ایک فرشتے  کا بھی نام ہے۔

*          آردوی سورا اناہیتا  (Aredvi Sura Aahita)  =  ایک خاتون فرشتہ۔

*          آسمان  (Asman)  (پہلوی)  =  آسمان، آسمان کا فرشتہ۔

*          استی ویہاد  (Astwihad)  (پہلوی)  =  موت کا عفریت

*          باگا  (Baga)  (فارسی)  =  خدا۔

*          چک ہاست  (Chechast)  (پہلوی)  =  ایک  پراسرار جھیل۔

*          چن ود (پہلوی)  =   پل صراط۔

*          درج  (Draj)  (اوستی)  =  جھوٹ  اور  مکاّری کی فطرت لیے  ایک عفریت۔

*          ہارا  (Hara)  =  ایک   پراسرار پہاڑ۔

*          ہرمزد  (Ohrmazd)  (پہلوی)  =  خدا۔

*          اُرون  (Urvan)  =  روح۔

 

 

 

اساطیر فنونِ لطیفہ کی سب سے  قدیم  پراسرار متحرک روایت ہے۔ انسان کے  نسلی لاشعور (Collective Unconsciousness) میں  سیّال پگھلی ہوئی سرسراتی ہوئی روایت، رقص، مجسمہ سازی، مصوّری  اور  لٹریچر کی اس قدیم   پراسرار روایت نے  عمدہ  اور  عمدہ ترین تخلیقات عطا کی ہے۔ 5 لوک کہانی  اور  ’خالص مِتھ‘  تینوں  اساطیر کی تشکیل میں  شامل  ہیں۔ تمثیل (Aegory) نے  اساطیر کے  ارتقا میں  اہم کردار ادا کیا ہے۔ اشیا و عناصر کو شخصیتیں  ملی ہیں، چاند سورج ستارے، پانی، ریت، قوس قزح، آبشار، سمندر وغیرہ کو شخصیتیں  عطا کی ہیں، ان میں  تحرک پیدا کیا ہے۔ واقعات و کردار کو اجتماعی ’bسی‘  (Collective Fantasy) کی صورت عطا کر نے  میں  تمثیل ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔

۵۳۔ ۱۹۵۲ء میں  پٹنہ یونیورسٹی میں  ایم.اے  کا طالب تھا۔ اُس وقت کرسٹوفر کا ڈوِل (Christopher Caudwell) کی مشہور تصنیف ’’الیوژن اینڈ ریئلیٹی‘‘  (Illusion and Reaity) نظر سے  گزری تھی۔ کاڈوِل نے  مارکسی نقطۂ نظر سے  شاعری کے  تعلق سے  مختلف موضوعات پر گفتگو کی تھی۔ مثلاً ’شاعری کا جنم‘ ، ’جدید شاعری کا ارتقا‘ ، ’انگریزی شعرا  اور  پرانی روایت‘ ، ’انگریزی شعرا  اور  صنعتی انقلاب‘ ، ’انگریزی شعرا  اور  سرمایہ داری کا زوال‘ ، ’شاعری کی خصوصیات‘ ، ’سائیکی  اور  bسی‘ ، ’شاعری  اور  خواب کا عمل‘ ، ’شاعری کا مستقبل‘  وغیرہ۔ ان ہی موضوعات میں  ایک موضوع تھا ’اساطیر کی موت‘  (The Death of Mythology)۔ کرسٹوفر کا ڈوِل نے  مارکسی نقطۂ نظر سے  اساطیر کی موت کا اعلان کیا تھا  اور  کہا تھا کہ شاعری کو اساطیر کی نہیں  مادّی سچائیوں  کے  شعور کی ضرورت ہے۔ اس خیال سے  اتفاق کیا تھا کہ ’مِتھ‘  سچی نہیں  ہوتی، اس میں  صرف فوق الفطری کردار ہوتے  ہیں۔ اس کا جواب اس طرح دیا گیا تھا کہ تخلیق کے  تعلق سے  کوئی نہ کوئی تصوّر موجود ہوتا ہے  جو احساس کی دین ہوتا ہے اور اس تصوّر کی بڑی اہمیت ہے۔ اساطیر ایک خاموش متحرک روایت ہے  کہ جس کا سفر ہمیشہ جاری رہے  گا۔ تخلیقی آرٹ کا باطنی رشتہ کسی نہ کسی سطح پر اساطیر  اور  اس کی روایت سے  قائم رہتا ہے۔ معروف معلم نفسیات جی. سی. یونگ (G.C. Jung) نے  نسلی  اور  اجتماعی لاشعور (Collective Unconsciousness) کا تصوّر پیش کر کے اور اس پر تفصیلی گفتگو کر کے  یہ ثابت کر دیا کہ اساطیری روایات و کردار انسان کے  لاشعور کی گہرائیوں  میں  موجود رہتے  ہیں۔  اور  کوئی بڑا تخلیقی فنکار ان سے  خود کو بچا کر نہیں  جا سکتا۔ اجتماعی یا نسلی شعور سے  اس کی لہریں  نامحسوس طور پر آتی رہتی ہیں  شعور متاثر ہوتا رہتا ہے، اجتماعی لاشعور میں  اس کی آنچ بہت تیز ہوتی ہے۔

’مِتھ‘  (Myths)  اور  آرچ ٹائپس کی علامتوں  (Archetypalllective P Symbols) کو تین دائروں  میں  رکھ کر لٹریچر کے  مطالعے  میں  مدد لیں  تو بہتر ہو گا۔ ایک دائرہ ایسے  مِتھ کا جو خالص ہیں، دیوتاؤں اور عفریتوں  سے  تعلق رکھتے  ہیں۔ دو مختلف دنیاؤں  کی پہچان ہوتی ہے  جو ایک دوسرے  سے  مختلف ہیں  لیکن استعارے  انھیں  ایک دوسرے  سے  منسلک رکھتے  ہیں۔ لٹریچر میں   جنت جہنم کا ذکر ہوتا رہتا ہے اور مذہب ایک سے  زیادہ سطح پر انھیں  ایک دوسرے  سے  قریب رکھتا ہے۔ دوسرا دائرہ رومانی ہے۔ اپنی دنیا میں  اساطیری دنیا کے  نقش اُبھرتے  رہتے  ہیں  جو انسان کے  تجربوں  سے  بہت قریب ہوتے  ہیں، رومانی ذہن انھیں  بہت قریب کر لیتا ہے،  اور  تیسرا دائرہ بہت حد تک حقیقی مادّی دنیا سے  تعلق رکھتا ہے  لیکن اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے  جیسے  فنکار کا تخلیقی ذہن اساطیری فضاؤں  کی جانب لپک رہا ہے  یا لپکنے  کی کوشش کر رہا ہے۔ ایلن پو (Ellen Poe)، ٹھامس ہار ڈی (Thomas Hardy) اور  ورجنیا ولف (Virginia Wolf) کی تخلیقات میں  مثالیں  ملتی ہیں۔ اساطیر میں  جو دنیا آباد ہے  اس میں  پانچ دنیاؤں  کی پہچان مکمل طور پر ہوتی ہے۔ ایک روحانیت کی دنیا، دوسری انسان کی، تیسری جانوروں اور پرندوں  کی، چوتھی نباتات کی  اور  پانچویں  معدنیات کی۔ ان سب کے  پیکر، ان سب کی علامات موجود ہیں۔

لٹریچر میں  اساطیر کی روشنی کہیں  بہت تیز رہی ہے اور کہیں  ہلکی، ادیبوں  کا رشتہ ’مِتھ‘  سے  براہِ راست بھی رہا ہے اور یہ بھی ہوا ہے  کہ کلاسیکی  اور  پرانی ’مِتھ‘  سے  ہلکی روشنی حاصل کر کے  تخلیقی فنکاروں  کے  ’وِژن‘  نے  اپنی ’مِتھ‘  بنا لی ہے۔ یونانی، رومن، چینی، ہندوستانی، مصری  اور  لاطینی امریکی اساطیر کی روایات سے  فائدہ تو اُٹھایا ہے  ساتھ ہی اپنے  تجربوں اور خصوصاً مذہبی تجربوں  کی روشنی میں  اپنی ’مِتھ‘  خلق کر لی ہے۔ ولیم بلیک (William Blake) نے  اساطیر کی جمالیات کے  رنگ و آہنگ سے  اپنی نظموں  میں  جو حرارت  اور  چمک دمک پیدا کی ہے  ہم جانتے  ہیں  لیکن یہ بھی حقیقت ہے  کہ عیسائیت نے  بھی اسے  خوب متاثر کیا ہے اور اپنی ’مِتھ‘  کی تخلیق میں  اس نے  اپنے  مذہب کو بہت قریب رکھا ہے۔ (محمد اقبال کی تخلیق ’جاوید نامہ‘  سے  بھی اسی قسم کی سچائی سامنے  آتی ہے ) بعض شعرا کو اس بات کا احساس تھا کہ وہ اپنی ’مِتھ‘  بھی خلق کر رہے  ہیں۔ ڈبلو.بی.ایٹس(W. B. Yeats) نے  ۱۹۲۶ء میں  ‘A Vision’ میں  اپنی ’مِتھ‘  کی وضاحت کی ہے۔ ہرمین مِلول (Herman Mevie) نے  ’موبی ڈِک‘  (Moby Dick) میں، جیمس جوائس (James Joyce) نے  ’یولائی سس‘   (Ulysses) میں اور ڈی.ایچ.لارنس (D.H. Lawrence) نے  ‘The Plumed Serpent’ میں  جہاں  کلاسیکی اساطیر سے  مواد حاصل کیے  وہاں  اپنی ’مِتھ‘   بھی تخلیق کی ہے۔ ان تخلیقات کے  مطالعے  سے  ایک بات کا احساس بڑی شدّت سے  ہوتا ہے  کہ ان فنکاروں  نے  کلاسیکی اساطیر سے  براہِ راست روشنی بہت کم لی ہے  اُس ’لاشعور‘  کا عمل بہت زیادہ ہے  کہ جسے  یونگ نے  اجتماعی یانسلی لاشعور (Collective Unconsciousness) کہا ہے۔

اس سے  قبل کہ ’سائیکی‘   اور  آرچ ٹائپ (Archetypes) پر کچھ  اور  گفتگو کی جائے۔ خود اساطیر کی ایک گہری  اور  معنی خیز روایت ’لوک کہانی‘  کی بابت کچھ جانکاری حاصل کر لیں  تو بہتر ہے۔ ’لوک کہانی‘  بلاشبہ اساطیر کی گہرائیوں  میں  اپنی جڑیں  پھیلائے  بیٹھی ہے۔ دنیا کے  مختلف علاقوں  کی لوک کہانیوں  نے  اپنے  اپنے  علاقوں  میں  اساطیر کی بنیادیں  مضبوط کی ہیں، کہانیاں  پہلے  زبانی سنائی جاتی تھیں۔ ہر جگہ Oral Traditions کی مثالیں  موجود ہیں۔ ایک علاقے  سے  دوسرے  علاقے  کا سفر کہانیوں  کو مسلسل متاثر کرتا رہا ہے، تبدیلیاں  بھی ہوئی ہیں  لیکن کہانیاں  موجود رہی ہیں۔ سفر کرتے  ہوئے  کہانیوں  میں  جو تبدیلیاں  ہوئیں  وہ عین فطری ہیں۔ ’مِتھ‘   اور  ’ایپک‘  کی روایتوں  کی مددگار کہانیاں  آج بھی موجود  ہیں، ’مہابھارت‘   اور  مقامی اساطیر میں  ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لوک کہانیوں  میں  ’علاء الدین  اور  اس کا چراغ‘ ، ’علی بابا چالیس چور‘ ، ’حضرت سلیمان  اور  جناّت‘ ، ’پری بانو  اور  جادوگر‘ ، ’شرون کمار‘ ، ’ماہی گیر  اور  جن‘ ، ’سندباد جہازی‘ ، ’آبِ حیات  اور  خواجہ خضر‘  کیکاؤس [’اوستا‘  میں  کاوی اوسان (Kavi Us’an) رِگ وید میں  ’کاویہ اوساناس‘  (Kaya Us’anas) ’پورن بھگت‘ ، ’الاودل‘ ، ’ہیرانجھا‘ ، ’سوہنی مہینوال‘ ، ’لیلیٰ مجنوں ‘ ، ’شیریں  فرہاد‘ ، ’مرزا صاحبان‘   اور  جانے  کتنی لوک کہانیاں  صدیوں  صدیوں  سے  احساس  اور  جذبے  سے  قریب ہیں۔ نسل در نسل یہ کہانیاں  چلی آ رہی ہیں، مختلف علاقوں اور مختلف زبانوں اور بولیوں  میں  اَنگنت لوک کہانیاں  موجود ہیں۔ بہت سی لوک کہانیاں  گیتوں اور لوک نغموں  میں  بھی پیش ہوتی رہی ہیں اور آج بھی گاؤں  دیہاتوں  میں  سنائی جاتی ہیں۔ فردوسی کے  ’شاہنامہ‘   اور  مہابھارت میں  پرانی لوک کہانیاں  شامل ہیں  جو جگہ جگہ موضوعات میں  چمک دمک پیدا کرتی ہیں۔

آئیے  اپنے  ملک کے  ایک دُور دراز علاقے  سنتھال پرگنہ کی ایک لوک کہانی سناتے  ہیں  جو اپنی معنی خیزی لیے  توجہ کا مرکز بنتی ہے۔ ہم نے  پچھلے  صفحات میں  دیکھا ہے  کہ دنیا کے  بہت سے  ملکوں  میں  تخلیق کے  تعلق سے  ایک سے  زیادہ کہانیاں  موجود ہیں۔ تخلیقِ کائنات، دنیا کی تخلیق، زندگی کی تخلیق، انسان  اور  اشیا و عناصر کی تخلیق، یونان، روم، مصر، چین، ہندوستان ایسے  ممالک ہیں  کہ جہاں  اجتماعی احساس  اور  اجتماعی فکر نے  ’تخلیق‘  کو بہت اہمیت دی ہے۔ کائنات کی تخلیق کیسے  ہوئی، دنیا کس طرح بنی، انسان کب  اور  کیسے  وجود میں  آیا، اشیا و  lعناصر کی تخلیق کیونکر ہوئی، کہانیوں  کے  ذریعہ سمجھانے  کی کوشش کی گئی ہے۔ سنتھال پرگنہ (جھار کھنڈ) کی یہ لوک کہانی اس طرح ہے  (موضوع ’تخلیق‘  ہے ):

’ابتدا میں  ہر جانب صرف پانی ہی پانی نظر آتا تھا ’ٹھا کر جیو‘ (خالق) نے  سب سے  پہلے  مگرمچھ، کیکڑے، مچھلیاں اور چھوٹے  بڑے  آبی جانور پیدا کیے اور انھیں  پانی میں  ڈال دیا، اس کے  بعد پرندوں  کا ایک جوڑا بنایا جو اس کے  کلیجے  کے  اندر سے  نکلے  پھر اس جوڑے  کو زندہ کر دیا، اس کے  بعد حکم دیا کیکڑوں  کو، مگرمچھوں  کو، مچھلیوں  کو  اور  تمام چھوٹے  بڑے  آبی جانوروں  کو کہ وہ پانی کے  اندر سے  زمین کو باہر نکالیں۔ ان سب نے  مل کر زمین کو اوپر کیا اس کے  بعد ٹھا کر جیو نے  پہاڑپیدا کیے، پھر زمین میں  بیج ڈالے، گھاس لگائی، درخت اُگائے، پرندوں  کو غذا ملی  اور  وہ چہچہانے  لگے، ان پرندوں  نے  اپنا گھونسلہ بنایا، مادہ پرندے  نے  دو انڈے  دیئے، ان سے  ایک لڑکے اور ایک لڑکی نے  جنم لیا، انھوں  نے  کھیتوں  سے  دانے  کھائے، دونوں  اُس وقت تک ننگے  رہے  جب تک کہ ٹھا کر جیو نے  انھیں  لباس کا احساس نہ بخشا، دونوں  نے  پتوّں  سے  اپنا ننگا پن دُور کیا، دونوں  بڑے  ہوئے اور سات اولادیں  ہوئیں  پھر تعداد بڑھتی گئی، اس کے  بعد ٹھا کر جیو کو ایسا لگا جیسے  انسان گمراہ ہو رہا ہے۔ اُنھوں  نے  انھیں  پہاڑوں اور غاروں  کے  اندر جگہیں  دیں، پھر آگ کی بارش کی، سب آگ کی اس بارش میں  نہائے۔ اس کے  بعد افرائشِ نسل کا سلسلہ  اور  تیز ہو گیا۔ ٹھا کر جیو نے  آبادی کو تقسیم کر کے  مختلف علاقوں  میں  آباد کر دیا  اور  وہ آج وہیں  اُن علاقوں  میں  آباد ہیں!!

ایسی لوک کہانیوں  میں  پانی، مٹّی، ہَوا  اور  آگ کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ دنیا، انسان  اور  اشیا و عناصر کی تخلیق میں  ان کا ذکر کم و بیش ہر جگہ ہے۔ دھرتی، بیج، اناج، جنس، رحم مادر، موسم  اور  موسم کی تبدیلی وغیرہ کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ اکثر لوک کہانیوں  میں  مادّی زندگی سے  آگے  بڑھ کر روحانی زندگی کی جہتوں  کو بھی نمایاں  کر نے  کی کوشش کی گئی ہے۔ ہم نے  یونانی اساطیر میں  ایسے  کئی قصّے  پچھلے  صفحات میں  پڑھے  ہیں  کہ جن میں  لہو کے  قطروں  سے  گلِ لالہ  اور  دوسرے  کئی سُرخ پھولوں  نے  جنم لیا ہے اور آنسوؤں  کے  قطروں  سے  سفید پھولوں  کی بہار آ گئی ہے۔ ہندوستان میں  ایسی لوک کہانیاں  بھی ملتی ہیں  کہ جن میں  انسان کا جسم نغموں اور آہنگ کا مرکز ہے، اس کی ہڈّیوں  سے  سریلے  نغمے  نکلنے  لگتے  ہیں۔ اس سلسلے  میں  ایک سنتھال لوک کہانی توجہ طلب ہے  کہ جس میں  اساطیر کا جوہر صاف دکھائی دے  رہا ہے۔

ایک ضعیف جوڑے  کے  سات بیٹے  تھے اور ایک بیٹی تھی، ایک روز ایسا ہوا کہ لڑکی کی انگلی زخمی ہو گئی، جو سبزی کاٹ رہی تھی اس میں  انگلی سے  ٹپکتا لہو جذب ہو گیا۔ سات بھائیوں  نے  سبزی کھائی تو بڑی لذّت ملی، وہ سوچنے  لگے  کہ میری بہن کے  لہو کے  چند قطروں  سے  سبزی اتنی لذید ہو گئی ہے  تو یقیناً اس کے  گوشت میں  بھی بڑی لذّت ہو گی۔ ان بھائیوں  نے  یہ سوچ کر اپنی بہن کو قتل کر دیا۔ گوشت نکال کر ہڈّیاں  لے  کر ایک تالاب کے  پاس آئے۔ ایک مچھلی تالاب سے  اوپر آئی کہا، ان ہڈّیوں  کو تالاب کنارے  دفن کر دو وہاں  جہاں  چیونٹیاں  رینگ رہی ہیں، بھائیوں  نے  مچھلی کی بات مان لی  اور  اپنی بہن کی ہڈّیوں  کو چیونٹیوں  کے  پاس تالاب کے  کنارے  دفن کر دیا۔ ابھی زیادہ دن گزرے  نہ تھے  کہ وہاں  کہ جہاں  ہڈّیاں  دفن تھیں  ایک انتہائی خوبصورت پودا نکل آیا کہ جس میں  نفیس پُر کشش پھول آ گئے، پودا بڑھتے  بڑھتے  درخت ہو گیا۔  اور  پھلوں  سے  جھک گیا۔۔۔ پھر ایسا ہوا درخت سے  ایک انتہائی خوشگوار موسیقی سنائی دینے  لگی۔ ایک بھائی نے  درخت کی ایک چھوٹی سی ڈالی کاٹ لی  اور  اس سے  بنسری بنا لی، بنسری منہ پر رکھتے  ہی سریلی آواز نکلنے  لگی، بجائے  بغیر صرف ہونٹوں  پر رکھنے  سے  اتنی دلفریب آواز سن کر علاقے  کے  تمام لوگ دیوانے  سے  ہو گئے، لگے  رقص کرنے۔

اور  پھر اس کے  بعد اس درخت کی ڈالیوں  سے  بنسریاں  بننے  لگیں!

انسان غور نہیں  کرتا اس کا وجود نغموں  سے  بھرا ہوا ہے، اس کا جسم گنگناتا رہتا ہے۔ اس کی ہڈّیوں  سے  انتہائی لطیف آہنگ پھوٹتا رہتا ہے۔

ٹھا کر جیو (خالقِ کائنات) نے  انسان میں  کائناتی آہنگ (Cosmic Rythm)کو بڑی خوبصورتی کے  ساتھ مرتب کر دیا ہے۔ ذرا سنتے  رہیے  اپنے  وجود کے  آہنگ کو، دیکھئے  پوری کائنات میں  کیسی تبدیلیاں  ہوتی رہتی ہیں!

ہندوستان میں  آریا، یونانی، ہون، عرب، ترک، ایرانی، منگولی، افغانی سب آئے، جنگیں  بھی ہوئیں اور  محبتوں  کے  رشتے  بھی قائم ہوئے۔ صدیوں  میں  تمدنی  اور  تہذیبی آمیزشوں  کی تاریخ پھیلی ہوئی ہے۔ زبانیں  متاثر ہوئیں، مذاہب  اور  تمدنی اقدار متاثر ہوئے، زندگی کو دیکھنے  کا زاویہ نگاہ بھی تبدیل ہوتا رہا۔ قصّوں  کہانیوں  پر بھی گہرے  اثرات ہوئے۔ لوک کہانیوں  میں  نئے  موضوعات شامل ہوتے  گئے، ایک قوم کی کہانیاں  دوسری قوم کی کہانیوں  پر اثر انداز ہوئیں۔ لوک کہانیوں  کے  موضوعات میں  جہاں  فوق الفطری پیکروں، پریوں، روحوں، عفریتوں، دیوؤں اور دیوی دیوتاؤں  کے  کردار موجود رہے  وہاں  پرندوں، جانوروں اور سانپوں  کے  کردار بھی متحرک رہے۔ جنگ و جدل، جادو ٹونا، شاہی خاندانوں  میں  سازشیں اور بادشاہوں  کے  خلاف سازشیں  گاؤں  کی زندگی، چور، ڈاکو، لٹیرے، مذہبی پیشوا، صوفیوں اور سادھو مہاتماؤں  کی عظمت لوک قصّوں  کہانیوں  میں  یہ موضوعات بھی شامل رہے۔ مذہبی  اور  روحانی تجربوں  سے  نئے  تجربوں  تک عوامی ذہن نے  سفر کیا  اور  عام سمجھ بوجھ کی کہانیاں  سامنے  آئیں۔

مختلف علاقوں  میں  گھوم گھوم کر کہانیاں  سنانے  کی روایت بہت ہی قدیم ہے۔ رامائن  اور  مہابھارت کی کہانیاں  بھی اسی طرح سنائی جاتی تھیں۔ پرانے  لوک کہانیاں  سنانے  والوں  کو کتھاکار کہا جاتا تھا۔ کہانیاں  سنانے  والے  تنہا بھی ہوتے اور کئی لوگوں  کے  ساتھ بھی۔ کہانیاں  سنانے  کے  لیے  شاعری، ڈراما، رقص موسیقی سب کا سہارا لیا جاتا، ’پنچ تنتر‘  کی کہانیاں  پیش ہوئیں  تو کردار اکثر خود جانوروں  کا رُوپ دھار لیتے۔ آج بھی گاؤں  دیہات میں  گیتوں  کے  سہارے  کہانیاں  سنا کر بھیک دکشنا لینے  والے  نظر آتے  ہیں۔

اس بات میں  یقیناً بڑی صداقت ہے  کہ جو شخص ’مِتھ‘   اور  لوک کہانیوں  کے  بغیر رہتا ہے  وہ بے  جڑ کا پودا ہے۔ اس کی جڑیں  مضبوط  اور  گہرائیوں  میں  اُتری ہوئی نہیں  ہیں۔ اجتماعی ذات (Collective Self) سے  رشتہ رکھے  بغیر بھلا کون سچائی یا حقیقت کو بخوبی جان سکتا ہے۔ اجتماعی  اور  نسلی شعور ہی سے  حقیقت کی معنویت میں  کشادگی پیدا ہوتی ہے۔ اپنے  وجود کی سچائی کا علم ہوتا ہے۔

’ذہن‘   اور  ’ذہنی عمل‘  کی جگہ یونگ نے  ’سائیکی۱؂‘  اور ’سائیکک‘  (Psychic) کی اصطلاحیں  استعمال کی ہیں  اس لیے  کہ ’ذہن‘   اور  ’ذہنی عمل‘  دونوں  شعور (Consciousness) سے  تعلق رکھتے  ہیں۔ ’سائیکی‘   اور  ’سائیکک‘  کا شعور  اور  لاشعور دونوں  سے  تعلق ہے۔ یونگ کا خیال ہے  کہ شعوری ذہن ’لاشعوری سائیکی‘  سے  اُبھرتا ہے۔  اور  اجتماعی یا نسلی لاشعور (Collective Unconsciousness) ذات کے  شعور سے  کہیں  زیادہ گہرائیوں  میں  ہے۔ ’آرچ ٹائپس‘ (Archetypes)اجتماعی لاشعور میں  جذب ہیں  جو مختلف علامتوں اور پیکروں  میں  ظاہر ہوتے  ہیں اور جو بہت ہی قدیم ہیں۔ ’مِتھ‘   اور  اساطیر کے  گہرے  مطالعے  سے  یونگ نے  یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ انسانی فطرت کے  بنیادی اظہار کے  ذرائع ہیں۔

یونگ نے  ’سائیگی‘  کو پیچیدہ، مرکب  اور  اُلجھا ہوا (Complex) کہا ہے۔ یہ نفسیاتی اُلجھنوں  کا گہوارہ ہے۔ جس طرح انسان کا جسم مختلف حصّوں  سے  جڑا ہوا ہے، ہاتھ پاؤں  گردن، دھڑ وغیرہ اسی طرح ’سائیکی‘  کے  بھی لاشعوری حصّے  میں  ایک دوسرے  سے  جڑے  ہوئے۔ ہم ’سائیکی‘  کی بھی ایک مرکب اُلجھی ہوئی زندگی بسر کرتے  ہیں۔ لاشعور کے  دو واضح حلقے  میں  ایک حصّہ ’ذات‘  کا ہے اور دوسرا نسل کا۔ ذاتی لاشعور میں  پیچیدگی ہوتی ہے، ’سائیکی‘  میں  اس سے  کہیں  زیادہ پیچیدگی ہوتی ہے۔ اجتماعی یا نسلی لاشعور میں  ’آرچ ٹائپس (Archetypes)  ہوتے  ہیں۔ ’سائیکی‘  کا داخلی ماحول لاشعور کا ماحول ہے  جو شعور کے  ماحول سے  قطعی مختلف ہے۔ ’ذات‘  کے  حصّے  کے  پس منظر میں  نسلی لاشعور ہے  کہ جس میں  ’آرچ ٹائپس‘  ہیں۔

’آرچ ٹائپ‘  جو ایک نفسیاتی اصطلاح ہے  اس کی بنیاد یونانی لفظ ’آرچ‘  (Arche) ہے۔ ’آرچ‘  کے  لغوی معنی ہیں  ’خالص، بنیادی، اوّلین، قدیم ترین، قدیمی! ’ٹائپ ٹائپوس‘  (Typos) ہے  یعنی ’صورت‘ ، ’فارم‘  اصطلاحی معنی ہیں۔ بنیادی صورت، اوّلین، قدیم ترین یا خالص فارم، یونگ نے  ’آرچ ٹائپ‘  (آرکی ٹائپ) کی اصطلاح ’نسلی  اور  اجتماعی لاشعور‘  (Collective Unconsciousness) کے  مواد، مضمون یا مافیہ کے  لیے  استعمال کیا  اور  اس کے  بعد یہ اصطلاح ادبی  اور  فنّی تنقید میں  استعمال ہونے  لگی، رفتہ رفتہ یہ ایسی جمالیاتی اصطلاح بن گئی جو تخلیقی فنکار کے  اجتماعی یا نسلی لاشعور کے  اوّلین قدیمی  اور  بنیادی جمالیاتی علامتوں اور استعاروں اور نسلی تجربوں  کو سمجھانے  لگی۔ یونگ سے  قبل بھی ’آرکی ٹائپ‘  کی اصطلاح کے  استعمال ہونے  کی خبر ملتی ہے۔ فیلو جوڈیوز (Philo Judeaus) نے  انسان کے  ذہن میں  خدا کے  پیکر (God Image)کو سمجھانے  کے  لیے  اس اصطلاح کو استعمال کیا تھا، اس طرح آئرنیوس (Irenaeus) نے  اس اصطلاح کو استعمال کرتے  ہوئے  کہا تھا ’’دنیا کے  خالق نے  ساری چیزیں  تمام اشیا و عناصر براہِ راست اپنی ذات یا اپنے  وجود کے  اندر سے  خلق نہیں  کیں  بلکہ اُس کے  وجود کے  باہر جو ’آرکی ٹائپس‘  تھے  اُن کی نقل کی ہے۔‘‘  قدیم یونانی مفکروں  نے  خالقِ کائنات کو نور  اور  روشنی کا ’آرکی ٹائپ‘  کہا تھا  اور  خیال، تصوّر یا ’آئیڈیا‘  میں  اُلوہی خصوصیات کو پانے  کی کوشش کی تھی۔

’آرچ ٹائپ‘  اوّلین، بنیادی، قدیمی، یا خالص تصوّرات کا سرچشمہ ہے، تخلیقی فنکاروں  کی حسی  اور  نفسی کیفیتوں  کی شدّت سے  ’آرچ ٹائپس‘  میں  تحرک پیدا ہوتا ہے اور بنیادی  اور  قدیمی علامات اپنی تہہ داری  اور  معنی خیز جہتوں  کے  ساتھ نمایاں  ہونے  لگتی ہیں۔ خود فنکار ان کے  مسلسل عمل  اور  اظہار کی پہچان بن سکتا یا پہچان نہیں  پاتا۔ نسلی یا اجتماعی لاشعور سے  بعض ایسی بنیادی صورتیں اور تصویریں  سامنے  آ جاتی ہیں  جو اپنی معنویت کو لیے  ہوئے  فنکار کے  تجربوں  کی معنویت میں  وسعت، گہرائی کشادگی پیدا کر دیتی ہیں، تخلیقی فنکار کے  اپنے  تجربے اور پیکر ’آرچ ٹائپس‘  کی شدّت کے  وسیلے  سے  روشن  اور  معنی خیز بن جاتے  ہیں۔ تخلیق کا پُر اسرار عمل ہی ’آرچ ٹائپس‘  کے  سرچشمے  سے  باطنی رشتہ قائم کر کے  اُنھیں  متحرک کرتا ہے۔ بنیادی معاملہ اعلیٰ ترین سطح پر فنکار کے  تخلیقی عمل کا ہے۔ پہلی جہت کی شاعری  اور  دوسری جہت کی شاعری کا تحرک ’آرچ ٹائپس‘  کو متحرک نہیں  کر سکتا، یہی وجہ ہے  کہ صرف بڑے  تخلیقی فنکاروں  کی تخلیقات میں  ’آرچ ٹائپس‘  کا مطالعہ ادبی تنقید میں  اہمیت رکھتا ہے  اس لیے  کہ بڑی تخلیق ایک انتہائی پُر اسرار تخلیقی عمل کا نتیجہ ہوتی ہے  نیز دوسری جہت سے اور آگے  بڑھ کر تیسری  اور  چوتھی جہت تک پہنچ جاتی ہے۔ پہلی  اور  دوسری جہت تک پہنچنے  والے  ادیبوں اور شاعروں  کی تخلیقات میں  بعض لفظوں  یا بعض علامتوں  یا استعاروں  کے  بار بار استعمال سے  اکثر یہ غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے  کہ ’آرچ ٹائپس‘  ہیں  یا ’آرچ ٹائپس‘  کے  تحرک کا نتیجہ ہیں۔ ادبی تنقید میں  تخلیقی فنکار کی شخصیت  اور  اس کے  ذہن کی حیثیت غیر معمولی ہے، شخصیت  اور  ذہن کا بہتر مطالعہ کیا جائے  تو ’سائیکی‘  کو سمجھنے  میں  زیادہ مدد ملے  گی، ’آرچ ٹائپس‘ ، ’سائیکی‘  ہی میں  موجود ہوتے  ہیں، نفسیات کے  علما نے  اسے  اہمیت دیتے  ہوئے  کہا ہے  کہ ’سائیکی‘ ، ’مدر لکوڈ‘  (Mother iquid) ہے، پچھلی نسلوں، قوموں اور قبیلوں  کے  بنیادی تجربوں  کا سفر جاری رہتا ہے اور انسان کے  نسلی لاشعور میں  یہ تجربے  موجود رہتے  ہیں، تخلیقی فنکار کی ’سائیکی‘  میں  جب شدّت پیدا ہوتی ہے  تو ان تجربوں  سے  ایک انتہائی پُر اسرار معنوی رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ ’آرچ ٹائپس‘  کا اظہار عموماً استعاروں اور علامتوں  میں  ہوتا ہے۔ دیومالا  اور  قدیم ترین قصّوں  کہانیوں  کے  کردار  اور  حسی تصوّرات نے  تجربوں  کی معنویت میں  اُبھرتے  ہیں، صرف ایک ’امیج‘  یا پیکر جانے  کتنی سچائیوں  کا مظہر  اور  علامیہ بن جاتا ہے۔ انسان کی پچھلی نسلوں  قوموں اور قبیلوں  میں  آگ، روشنی، سانپ، عورت، مرد، آفتاب، آسمان، رات، لہو، پانی، جادو وغیرہ جو اہمیت رکھتے  ہیں  ہمیں  اس کا علم ہے، یہ سب  اور  ان کے  علاوہ جانے اور کتنے  اشارے اور استعارے  اپنی معنی خیزی کے  ساتھ ’سائیکی‘  میں  موجود رہتے  ہیں، نئے  فنی تجربوں  کا رشتہ ان سے  قائم ہوتا ہے اور ان کی معنی خیزی نئے  تجربوں  میں  جہتیں  پیدا کرتے  ہوئے  جانے  کتنے  جلوؤں  کو کھینچ لیتی ہے، ان کے  تعلق سے  جانے  کتنے  جلوے  سامنے  آ جاتے  ہیں۔ جمالیاتی ’آرچ ٹائپس‘  کی پہچان اُسی منزل پر ہوتی ہے  کہ جہاں  کوئی بڑا فنکار ’سائیکی‘  سے  گہرا معنی خیز باطنی رشتہ کر کے  (جو عموماً لاشعوری ہوتا ہے )اپنی انفرادی اسطوری کیفیتوں اور نقوش کی تخلیق کر دیتا ہے۔ اُردو بوطیقا میں  غالبؔ اس کی سب سے  بڑی مثال ہیں  کہ جنھوں  نے  آتش، نور، خدا، محبوب، لہو۔ پرچھائیں  وغیرہ سے  ایک انفرادی اساطیر کی جمالیات سامنے  رکھ دی ہے۔ دنیا کے  کسی بھی ادب کی تاریخ سامنے  رکھ لیجیے اور کسی بھی ادب کی عمدہ تخلیقات کا مطالعہ کیجیے  ایک سچائی بار بار اُبھرے  گی کہ کسی بھی بڑے  تخلیقی فنکار کے  فن میں  تجربہ  اور  ’مِتھ‘  کا رشتہ حد درجہ گہرا ہے اور ’مِتھ‘  کے  گہرے  رشتے  کی وجہ سے  فن میں  تابناکی  اور  معنی خیزی پیدا ہوئی ہے اور کبھی کبھی اس حد تک کہ خود فنکار کی تخلیق ایک اعلیٰ ’متھ‘  کا جمالیاتی نمونہ بن کر 5 بن گئی ہے۔ شیکسپیئرؔ، غالبؔ، گٹے ؔ، حافظؔ، رومیؔ،کبیرؔ  اور  اقبالؔ سب مِتھ سے  ایک پُر اسرار ذہنی رشتہ رکھتے  ہیں۔ ’آرچ ٹائپس‘  میں  مِتھ کی اہمیت سب سے  زیادہ ہے۔ ’مِتھ‘  سے  ذہنی  اور  جذباتی رشتہ  اور  اس رشتے  کی جمالیاتی صورتیں  ’آرچ ٹائپس‘  کی قدر و قیمت  اور  اہمیت کو  اور  بڑھا دیتی ہیں، اس لیے  کہ حقیقت نگاری  اور  فطرت نگاری کی ایک نئی جہت توجہ طلب بن جاتی ہے۔

’سائیکی‘  کے  ’آرچ ٹائپس‘  کی کئی جہتیں  نمایاں  ہوتی رہتی ہیں۔ سب سے  اہم  اور  معنی خیز جہت علامتوں  کی ہے  جو اکثرتخلیقی فنکاروں  کے  ذاتی ’مِتھ‘  کو نمایاں  کرتی ہے اور نفسی سطح پر ایک آہنگ بخشتی ہے  جس سے  فنکار کے  تخلیقی ذہن تک پہنچنے  میں  آسانی ہوتی ہے۔

یونگ نے  چند اہم ’آرچ ٹائپس‘  کا ذکر کیا ہے  ان میں  ’مدر آرچ ٹائپ‘  (Mother Archetype)، شیڈو (پرچھائیں ) (The Shadow) ’ضعیف دانش مند‘  (Wise Old Man)، منڈل (Mandala) ’ذات‘  (The Self)وغیرہ معنی خیز سرگوشیاں  کرتے  ہیں۔

اُردو کے  جن تخلیقی فنکاروں  کے  تخلیقی وژن میں  ’سائیکی‘  کی لہروں   اور  سائیکو اساطیر (Psycho-mythology) کی چمک دمک کی زیادہ پہچان ہوتی ہے  اُن میں  کبیرؔ، میرؔ، غالبؔ، اقبالؔ، فراقؔ  اور  اخترالایمانؔ وغیرہ کے  نام اہم ہیں۔

کبیرؔ کے  کلام میں  اساطیر کی اپنی ایک ایسی دنیا ملتی ہے  جو شاعر کے  تخلیقی وژن کی تخلیق ہے اور جس کا پُر اسرار رشتہ اُس اساطیر سے  ہے  کہ جسے  عوامی حسیات  اور  ’وژن‘  نے  صدیوں  صدیوں  کی تاریخ میں  خلق کیا ہے۔

کبیر۱؂ کے  کلام میں  اساطیر کی ابتدا کم و بیش اس طرح ہوتی ہے  کہ جس طرح مختلف ملکوں  کے  اساطیری قصّوں  میں  نظر آتی ہے:

پرتھم ایک جو آپے  آپ

نِرکر نرگن نر جاپ

نہیں  تو آد انت مدھ تارا

نہیں  تو اندھ دھندا جیارا

نہیں  تو بھومی پون آکاسا

نہیں  تو پاوک نیر نواسا

نہیں  تو سرمستی جمنا گنگا

نہیں  تو ساگر سمد ترنگا

نہیں  تو پاپ  پن نہیں  وید پرانا

نہیں  تو بھٹے  کیتب ’کرانا‘

کہیں  کبیر وِچار کے  تب کچھ کرپانا ہیں

پرم پرش تہاں  آپ ہی، اگم اگو چرما ہیں

ابتدا میں  وہ تنہا تھا، اس کا وجود ہی اس کے  لیے  کافی تھا، وہ جس کا نہ رنگ ہے اور نہ رُوپ، وہ جو بے  صفات ہے، اس کی نہ کوئی ابتدا ہے اور نہ اس کا ارتقا، نہ انتہا، نہ اندھیرا نہ دھندلکا، نہ اُجالا، زمین بھی نہیں  تھی، ہَوا بھی نہیں  تھی، آسمان بھی موجود نہ تھا، آگ  اور  پانی کسی کا بھی نام و نشان نہ تھا، نہ گنگا نہ جمنا نہ سرسوتی، نہ سمندر نہ اس کی موجیں، نہ گناہ نہ ثواب، نہ وید نہ پران، نہ قرآن۔ کبیر غور و فکر کے  بعد کہتے  ہیں  کہ تب کوئی حرکت  اور  جنبش نہیں  تھی پرم  پرش (خالقِ کائنات، ذاتِ مطلق) اپنے  اندر نامعلوم  اور  لامحدود گہرائیوں  میں  کھویا ہوا تھا!

یونگ نے  ’ذات‘  (Self) کو ایک آرچ ٹائپ کہا ہے۔ ’ذات‘   اور  خودی یا ایغو (Ego) میں  فرق یہ ہے  کہ ’ایغو‘  شعور کا مرکز ہے، یہ شعور (Consciousness) کے  اندر ہی ہے  باہر نہیں  ہے  اس کے  برعکس ’ذات‘  (Self)شعور  اور  لاشعور دونوں  میں  موجود ہے۔ ’ذات‘  شخصیت یا پرسنلیٹی (Personality)  کو خود آگاہ بناتی ہے۔ ’ذات‘  ہی زندگی کی وحدت کا احساس عطا کرتی ہے۔ شخصیت میں  اس کی مرکزی حیثیت ایسی ہے  کہ زندگی  اور  کائنات کا عرفان فرد کو حاصل ہوتا رہتا ہے۔ ’ذات‘  سوچ میں  تازگی، احساس میں  متوازن اُٹھان  اور  وجدان (Intuition)میں  تحرک پیدا کرتی رہتی ہے۔ یونگ نے  لکھا ہے:

"The self is not onll بعضلفطاy the centre, but also the circumferences that encloses consciousness and the unconsciousness; it is the centre of this totality, as the ego is the centre of consciousness.(1)

ہمیں  معلوم ہے  کہ یونگ ہندوستانی فکر و نظر سے  بھی متاثر ہوا تھا، اس نے  پہلے  ’سیلف‘  (Self) یا ’ذات‘  کا ذکر نہیں  کیا تھا، ہندوستانی فلسفے  کے  مطالعے  کے  بعد اس نے  یہ اصطلاح استعمال کی  اور  اسے  نمایاں  حیثیت دیتے  ہوئے  ’آرچ ٹائپ‘  کہا۔ یونگ کی اصطلاح کا تعلق بلاشبہ ’آتم‘  (Atma)، پرش (Purusha)  اور  ’برہمن‘  (Brahman) سے  ہے، مندرجہ ذیل خاکے  سے  ’ذات‘  کے  مقام  اور  اس کی قدرو قیمت کا اندازہ ہو گا:

مندرجہ ذیل خاکے  سے  ’ذات‘  یا ’سیلف‘  (Self) کی اہمیت کی بہتر خبر ملتی ہے۔ ’ذات‘  یا ’سیلف‘  کا تجربہ ’آرچ ٹائپ‘  کا تجربہ ہے۔ اس کی صورتیں، علامتیں  اشارے  خوابوں  میں  بھی آتے  ہیں اور اُن علامتوں اور ’ا4‘  (Images) میں  بھی کہ جو تخلیقی ادب میں  جذب ہوتے  ہیں۔ کبیرؔ کی شاعری میں  ’ذات‘  یا ’سیلف‘  کا ’آرچ ٹائپ‘  بہت متحرک ہے۔

فنکار کے  سائیکو اساطیری تخلیقی ذہن نے  ’سیلف‘  یا ذات کو فنکارانہ سطح پر طرح طرح سے  نمایاں  کیا ہے اور کیا خوب کیا ہے۔ جب کبیرؔ سے  سوال کیا گیا:

کبیرؔ کب سے  بھئے  بیراگی

تمری سرِت کہاں  کو لاگی

یعنی کبیر تم کب سے  بیراگی ہوئے، تم کس کے  عشق میں  گرفتار ہو۔ تو جواب ملتا ہے:

بنئی چتر کا میلاتا ہیں، نہیں  گرو نہیں  چیلا

سکل پسارا جن دن ناہیں، جہہ دن پُر ش اکیلا

اُس وقت سے  جب و چتر کا میلا لگا نہ تھا، جب وحدت میں  کثرت کے  جلوے  دکھانے  والے  نے  اپنا کھیل شروع نہیں  کیا تھا، جب گرو  اور  چیلے  میں  کوئی فرق نہ تھا، جب زمین اتنی پھیلی نہ تھی  اور  آسماں  اتنا پھیلا ہوا نہ تھا، پرش (خالقِ کائنات) تنہا تھا، کبیر تب ہی سے  بیراگی ہے۔ ہم نے  یوگ کا سبق اس وقت لیا تھا جب برہما کے  سرپر تاج نہیں  تھا یعنی کائنات کی تخلیق کا حق انھیں  نہیں  ملا تھا، جب وِشنو کے  ماتھے  پر پٹکا نہ تھا یعنی دنیا کو پالنے  کا انھیں  حق نہیں  ملا تھا، جب شیو کی شکتی پیدا ہی نہیں  ہوئی تھی۔

یہ ’ذات‘  (Self) کی آواز ہے  جو ’سائیکی‘  کی گہرائیوں  سے  سنائی دے  رہی ہے۔ ’ذات‘  موجود تھی جب کچھ بھی نہ تھا۔۔۔ ہاں  صرف سنگیت کی آواز تھی کہ جس کی لہروں  پر ’ذات‘  آگے  بڑھ رہی تھی۔ کبیرؔ کی شاعری میں  وجودِ یا ذات کا باطنی آہنگ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ کہتے  ہیں:

سنتا نہیں  دھُن کی کھبر، اَنہد کا باجا باجتا

رس مندمندر گاجتا باہر سے  سنے  تو کیا ہوا

یعنی دھُن جاری ہے اور تو سنتا ہی نہیں، رس گھولتا یہ نغمہ وجود (مندر) کے  اندر گونج رہا ہے، اس نغمے  کو مندر کے  باہر سننے  سے  بھلا کیا حاصل ہے۔

یہ دلنواز دلکش جمالیاتی تجربہ بھی توجہ چاہتا ہے:

کبرا شبد شریر میں  بن گن باجے  تانت

باہر بھیتر رم رہا تاتیں  چھوٹی بھر انت

میرے  وجود کے  اندر ایک ہی تانت خود بخود بج رہی ہے اور آہنگ پیدا ہو رہا ہے، یہ آہنگ بھیتر بھی ہے اور باہر بھی، یہ بات جیسے  ہی محسوس ہوئی اُلجھن جاتی رہی۔

تصوّف کی جمالیات اسی گہرے  احساس سے  پھوٹتی ہے، ’ذات‘  میں  کائناتی آہنگ (Cosmic rhythm) سنائی دینے  لگتا ہے۔ کبیرؔ کہتے  ہیں  ’اَنہد ڈھول‘  (صوتِ سرحدی) بج رہا ہے اور ہر جانب آنند ہی آنند ہے:

کہے  کبیر آنند بھیو ہے  باجتا اَنہد ڈھول رے

وجود کے  آہنگ کے  عرفان نے  یہ تجربہ پیش کیا ہے، جمالیاتی تخلیقی ’bسی‘  نے  ایک تمثیل سامنے  رکھ دی ہے:

ہم سوں  رہا نہ جائے   مرلیا کے  دھُن  سن کے

نیا بسنت پھول اِک پھولے  بھنور سدا بولائے

گگن گرجے، بجلی چمکے، اُٹہت ہے  ہلور

بگست کنول، میگھ برسانے  چنوت پر بھوکی  اور

تاری لاگی تہاں  من پہنچا، گیب دھجا پہرائے

کہن کبیرؔ آج پران ہمارا جیوت ہی مر جائے

مرلی کی دھن ہے، ہم سے  رہا نہ جا رہا ہے  بسنت نہیں اور پھول کھل رہے  ہیں اور بھنورا دیوانہ ہو رہا ہے، گگن گرج رہا ہے! بجلی چمک رہی ہے اور میرا دل بے  چین ہو رہا ہے، دل میں  لہریں  اُٹھ رہی ہیں، عجیب سی بے  قراری ہے، کنول کھل رہا ہے، بارش ہو رہی ہے اور میرا من پربھو کی جانب ہے، میرا دل وہاں  پہنچ گیا ہے، جہاں  کائنات کی ہر شے  تالی بجا رہی ہے اور غیب کا پرچم لہرا رہا ہے۔ کبیرؔ کہتے  ہیں  آج تو بس جیتے  جی مر جانے  میں  مزا ہے  جیوِت ہی مر جائیں  تو کیا لطف آئے۔

مرلی کی دھن نے  ایک جمالیاتی فضا خلق کر دی ہے، آفاقی میلوڈی سے  ایک انتہائی پُر کشش طلسماتی فضا بن گئی ہے  کہ بسنت کے  پھول کھل رہے  ہیں اور بھنورا اُن پر دیوانہ وار رقص کر رہا ہے۔ مرلی کی سحر انگیزی کا عالم یہ ہے  کہ کائنات کی ہر شے  تالی بجا رہی ہے۔

یہ تخلیقی فنکاری کی دانشورانہ سطح ہے!

کبیرؔ نے  اپنی ’ذات‘ اپنے  وجود میں  نور  اور  نغمے  کی ایک نئی دنیا سجارکھی ہے۔ اُنھوں  نے  نسلی یا اجتماعی لاشعور سے  باطنی طور پر ایک گہرا رشتہ قائم کر رکھا ہے۔ ان کے  بہت سے  پیکروں اور ’ا4‘  (Images) سے  اجتماعی لاشعور سے  ان کے  رشتے  کی خبر ملتی ہے۔ بہت معنی خیز پیکروں  میں  ہنس، کنول، سہس کنول، (ہزاروں  پنکھڑیوں  کا کنول) رِشی، مرلی، گگن، ساگر، ساکھی، جو گی، مِلن، دیوتا، ’گو وِند‘  (کرشن) کملا (لکشمی) ترگن پھانس،سمیر، برہما، سرسوتی، اِندر، شیو، وِشنو، کرشن، رام، ہری، شونیہ، شونیہ کا محل وغیرہ توجہ طلب ہیں۔ ’سائیکی‘  کے  اندر اُتر نے  والے  تخلیقی فنکار ’ذات‘  (Self) کی قدر و قیمت کو جس طرح جانا ہے  اس کی مثالیں  کبیرؔ کے  کلام میں  پھیلی ہوئی ہیں۔ ایک جگہ کہتے  ہیں:

چندا جھلکے  یہ گھٹ مانہی

اندھی آنکھن سوجھت ناہیں

یہ گھٹ چندما یہ گھٹ مور

یہ گھٹ گاجے  انہد تور

یہ گھٹ باجے  طبل نشان

بہرا شبد سنے  نہ کان

یعنی اس جسم یاوجود میں  چاند چمکتا ہے، اندھی آنکھوں  کو بھلا کیا سوجھے، اسی وجود میں  چاند ہے، اسی میں  سورج، اسی میں  لافانی اَنہد کی آواز، اسی میں  طبل  اور  نقاّرے  بجتے  ہیں  لیکن بہرے  کو ایک آواز بھی سنائی نہیں  دیتی:

دوسری جگہ کہتے  ہیں:

پانی بچ زمین پیاسی موہے  سن سن آوت ہانسی

آتم گیان بنا سب سونا کیا متھرا کیا کاسی

گھر میں  وستو دھری نہیں  سوجھے  باہر کھوجت جاسی

مرگ کانا بھی مانہہ کستوری بن بن کھوجت جاسی

کہے  کبیرؔ سنو بھئی سادھو سہج ملے  اوِناسی

یعنی پانی میں  رہ کر بھی مچھلی پیاسی ہے، یہ سن کر مجھے  ہنسی آتی ہے،  اگر  ’آتما‘  (روح، سائیکی، ذہن، دماغ) کا علم نہیں  ہے  تو متھرا جاؤ یا کاشی سب بیکار ہے، گھر میں  رکھی چیز دِکھائی نہیں  دیتی سبھی اسے  تلاش کر نے  باہر جاتے  ہیں، ہرن کے  ناف میں  مشک ہے اور وہ جنگل جنگل اسے  تلاش کر رہا ہے۔ کبیرؔ کہتے  ہیں  کہ اے  سنتو، لافانی ذات آسانی کے  تپ (سہج) سے  ملتے  ہیں۔

ہرن کے  ناف میں  مشک ہے اور وہ جنگل جنگل تلاش کر رہا ہے! کبیرؔ اپنی ’ذات‘  کی خوشبو، اپنی ذات کے  آہنگ  اور  اپنی ’ذات‘  کی روشنی کی جانب بار بار اشارہ کرتے  ہیں۔

کبیرؔ ’ذات‘  کے  سامنے  صفات کا رقص دیکھتے  ہیں:

نرگن آگے  سرگن ناچے

باجے  سوہنگ تورا

صوتِ سرمدی کو ذات کے  اندر پاتے  ہیں، ’اناہت ناد‘  نغمۂ موجود ہے۔ کبیرؔ نے  اسے  ’اَنہد‘  کہہ کر صوتِ سرمدی کے  آہنگ کی لامحدودیت (اَن حد) کی جانب معنی خیز اشارہ کیا ہے  (جہاں  اَنہد باجا بجے  باج!) کبیرؔ نے  ’ذات‘  (Self) کے  ’آرچ ٹائپ‘  کو جس شدّت سے  محسوس کیا ہے اور اپنی ’سائیکی‘  (ذہن، دماغ، روح) کی گہرائیوں  میں  جس طرح اترے  ہیں  اس کی مثال آسانی سے  نہیں  ملے  گی۔ کہتے  ہیں:

اس گھٹ انتر باگ بگیچے، اسی میں  سرجن ہار ا

اس گھٹ انتر سات سمندر، اسی میں  نو لکھ ہار ا

اس گھٹ انتر پارس موتی، اس میں  پرکھن ہار ا

اس گھٹ انتر اَن حد گرجے، اسی میں  اُٹھت پھُہارا

کہت کبیر سنو بھائی سادھو اسی میں  سائیں  ہمارا

وجود کے  اندر باغ اپنے  تمام حسن کو سمیٹے  موجود ہے، اسی میں  باغباں  (سرجن ہار ، خالق) ہے۔ اسی گھٹ میں  سات سمندر ہیں اور اسی میں  نولاکھ ستارے، اسی وجود میں  پارس  اور  موتی ہیں اور اسی میں  پرکھنے  والے، اسی کے  اندر لامحدود ابدیت کے  گرجنے  کی آواز سنائی دے  رہی ہے  جس سے  فوّارے  پھوٹ رہے  ہیں۔ اسی میں  تو اپنا سائیں  ہے!

کبیر نے  ذات یا وجود کے  اندر ساری کائنات  اور  کائنات کا سارا جلال و جمال سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔

کبیرؔ کہتے  ہیں:

باگوں  ناجارے  ناجا، تیری کایا میں   گل جار

سہس کنول پر بیٹھ کے، تو دیکھے  رُوپ اپار

باغوں  میں  کہاں  مارا مارا پھر رہا ہے، خود تیرے  وجود میں  گلزار ہے، ہزار پنکھڑیوں  کے  کنول (دِل) پر بیٹھ کر حسنِ مطلق کا لامتنا ہی جلوہ دیکھ سکتا ہے۔

اپنے  اتنے  خوبصورت تجربے  کو پیش کرتے  ہوئے  کبیرؔ کا ذہن ہندوستانی اساطیر تک پہنچ گیا ہے۔ وِشنو کی ناف سے  برہما ہزاروں  پنکھڑیوں  والے  کنول پر بیٹھ کر اُبھرے  تھے  (اس واقعے  کا ذکر پچھلے  صفحات میں  کیا ہے  کہ جہاں  ہندوستانی اساطیر کی بات کی گئی ہے ) ’سہس کنول‘  یہاں  دل  اور  وجود کی علامت ہے۔

کبیرؔ کی جمالیات کا دائرہ بہت وسیع، گہرا  اور  تہہ دار ہے، اس کے  مختلف پہلو ہیں، ہر پہلو زندگی کے  جلال و جمال کے  تعلق سے  بیدار رکھنا چاہتا ہے۔ جمالیات  اور  ’آرچ ٹائپ‘   اور  ’سائیکی‘  کے  تعلق سے  بیداری کے  وہ بہت بڑے  شاعر ہیں۔ میں  اُنھیں  دنیا کے  بڑے  شاعروں  میں  شمار کرتا ہوں اور اُردو کا پہلا بڑا شاعر تصوّر کرتا ہوں۔ تخیل  اور  ’وژن‘  کا معاملہ یہ ہے  کہ فنکار کا شعور جتنا گہرا  اور  وسیع ہوتا جاتا ہے  اتنا ہی اپنے  وجود کی گہری سطحوں اور تہوں  تک آہنگ کے  تئیں  بیدار ہوتا جاتا ہے۔ فطرت  اور  ماحول دونوں  کے  آہنگ کو شدّت سے  محسوس کرتے  ہوئے  باطن میں  اُترتا ہے اور جب کائناتی نغمے  کے  آہنگ کو پالیتا ہے  تو تخیل  اور  ’وژن‘  دونوں  کے  عمل میں  شدّت پیدا ہو جاتی ہے۔

 

نظیرؔ اکبر آبادی پر میری کتاب ’’نظیر اکبر آبادی کی جمالیات‘‘  جولائی ۲۰۰۳ء میں  شائع ہوئی تھی (قومی کونسل برائے  فروغ اُردو زبان، نئی دہلی)۔ اس میں  میں  نے  نظیر کو جشن زندگی (Celebrations of life) کا ایک بڑا شاعر کہا تھا۔ ان کی جمالیات میں  انسان، اس کی تمدّنی  اور  تہذیبی زندگی، مناظرِ حسن و جمال، مظاہرِ کائنات، رقصِ حیات،  محبتوں  کے  نغمے، قہقہے، مختلف قسم کی خوبصورت آوازوں  کا آہنگ۔۔۔ سب شامل ہیں۔ شاعر نے  پورے  معاشرے  کو گرفت میں  لینے  کی کوشش کی  اور  معاشرے  کے  جمالیاتی نقوش شاعر کی گرفت میں  آ گئے۔

نظیرؔ نے  عوام کے  مختلف طبقوں  کی جمالیاتی تربیت میں  حصّہ لیا ہے۔ شاعری  اور  عوام کی مادّی  اور  روحانی زندگی میں  گہرا رشتہ پیدا کر نے  کی کوشش کی ہے، اس طرح ان کی جمالیات کا دائرہ وسیع ہوتا گیا ہے۔ انھوں  نے  ماضی کے  جمال  اور  اساطیر کے  حسن کو بھی عزیز رکھا ہے۔ میں  نے  لکھا تھا کہ نظیر سات رنگوں  کے  شاعر ہیں، اُنھوں  نے  ایک قوسِ قزح کھینچ کر رکھ دی ہے۔

ایک رنگ زندگی کے  جلال و جمال کا پختہ رنگ ہے، فطرت کی تصویروں اور ان کے  آہنگ کا احساس ہے  جو اس رنگ کو  اور  پختہ کرتا ہے۔ ’پہاڑ‘ ، ’چاندنی‘ ، ’برسات‘   اور  آندھی جیسی نظمیں  اس رنگ کی نمائندگی کرتی ہیں۔

دوسرا رنگ عشق و  محبت کے  جمال کا رنگ ہے۔ ’سوزِ فراق‘ ، ’طلسمِ وصال‘ ، ’ملاقاتِ یار‘ ، ’جوشِ جنوں ‘ ، ’خواب کا طلسم‘  وغیرہ اس خاص رنگ کو نمایاں  کرتی ہیں۔

تیسرا رنگ معاشرے اور سماج کے  جمال کا وہ رنگ ہے  جو روایت سے  گہرا رشتہ رکھتے  ہوئے  ہولی کے  گلال کے  مختلف رنگوں  کی طرح بکھرتا رہتا ہے۔ ’بانسری‘ ، ’شبِ برأت‘ ، ’بسنت‘ ، ’ہولی‘ ، ’دیوالی‘ ، ’راکھی‘  اس رنگ کی نمائندگی کرتی ہیں۔

چوتھا رنگ مذہب  اور  تصوّف کا دلکش  اور  پُر کشش رنگ ہے۔ ’حمد‘ ، ’نعت‘ ، ’منقبت‘ ، ’مدحِ اولیا‘ ، ’فقیروں  کی صدا‘ ، ’بنجارہ نامہ‘ ، ’رہے  نام اللہ کا‘ ، ’توحید‘ ، ’تسلیم و رضا‘ ، ’زندگی  اور  موت‘ ، ’توکل فنا‘ ، ’وجودِ حال‘ ، ’کل  یگ‘   اور  ’چڑیوں  کی تسبیح‘  وغیرہ اس رنگ کی نمائندہ نظمیں  ہیں۔

پانچواں  رنگ ان نظموں  میں  نمایاں  ہے  کہ جن میں  وقت  اور  لمحوں  کو عمر کے  مدارج کے  پیشِ نظر پیش کیا گیا ہے  مثلاً ’طفلی‘ ، ’جوانی‘ ، ’بڑھاپا‘ ، ’موت کا دھڑکا‘  وغیرہ۔

چھٹا رنگ دیومالا  اور  روایتی کہانیوں  سے  اُبھرتا ہے۔ ’جنم کنہیاجی‘ ، ’دُرگاجی کے  درشن‘ ، ’تعریف بھیروں  کی‘ ، ’مہادیوجی کا بیاہ‘ ، ’کنہیاجی کی راس‘  اس رنگ کی نمائندہ نظمیں  ہیں۔

ساتویں  رنگ کی پہچان حکایات میں  ہوتی ہے۔ ’ قصہ ہنس‘ ، ’کوّے اور ہرن کی دوستی‘ ،

’  قصہ لیلیٰ مجنوں ‘  وغیرہ اس رنگ کی عمدہ نظمیں  ہیں۔

سات رنگوں  کی وحدت کا یہ شاعر اُردو ادب میں  اپنا ایک ممتاز مقام رکھتا ہے۔ یہ سات سُر ہیں  جو مختلف آہنگ رکھتے  ہیں اور قاری کے  جمالیاتی شعور کو متاثر کرتے  رہتے  ہیں۔

’نظیر کے  کلام پر تصوّف کا رنگ بھی چڑھا ہوا ہے۔ اُن کا تخلیقی ذہن بھی ’سائیکی‘  کی گہرائیوں  میں  اُترکر خدا کے  ’آرچ ٹائپ‘  کو تلاش کرتا ہے۔ یہ احساس بہت پختہ ہے  کہ انسان کے  باطن میں  جہاں  خدا دل کی دھڑکن بنا ہوا ہے  وہاں  تمام جلال و جمال سمٹ آئے  ہیں۔ تصوّف کی جمالیات کے  اثر سے  شاعر کے  جمالیاتی وژن میں  بڑی کشادگی پیدا ہوئی ہے، اس کی بصیرت متاثر کرتی ہے۔ اس سلسلے  میں  شاعر کی نظم ’آئینہ‘  سامنے  رکھئے  جو اُردو کی خوبصورت نظموں  میں  سے  ایک نظم ہے۔ ایسے  تجربوں  کا ایک انتہائی دلکش دیباچہ یا پیش لفظ ہے۔ اپنی ’سائیکی‘  کے  اندر ہی سب کچھ دیکھنے  کا رجحان متاثر کرتا ہے۔ کہتے  ہیں:

مشک تتار و مشک ختن بھی تجھی میں  ہے

یاقوت سرخ و لعل ویمن بھی تجھی میں  ہے

نسریں  و موتیا و سمن بھی تجھی میں  ہے

ا  لقصہ کیا کہوں  میں  چمن بھی تجھی میں  ہے

ہر لحظہ اپنی چشم کے  نقش و نگار دیکھ

اے  گل تو اپنے  حسن کی آپ ہی بہار دیکھ

یہ خوبصورت نظم ’آئینہ‘  انسان کے  وجود کی اہمیت کا احساس شدّت سے  بخشتی ہے۔ تمام روشنیوں، تمام خوشبوؤں، تمام رنگوں اور تمام آوازوں  کی وحدت انسان کے  وجود کے  اندر ہے۔ انسان کائنات کے  تمام حسن و جمال کی علامت ہے۔

نظیرؔ نے  انسان کو الوہی نغمہ (Divine Melody) بنا دیا ہے۔ نظم کے  استعاروں اور علامتوں  پر نظر رکھیں  تو محسوس ہو گا کہ انسان ایک ایسی قوسِ قزح ہے  جو زندگی کے  تمام رنگوں  کا جمال لیے  ہوئے  ہے۔ اس نظم کی جمالیات پر غور کریں  تو اس سچائی کا علم ہو گا کہ شاعر حسیاتی انبساط (Sensory Pleasures) پا کر جھوم جھوم کر گنگنا رہا ہے۔ ایک سحر انگیز وجد آفریں  کیفیت طاری ہے۔ اسی کیفیت کی وجہ سے  اس نے  انسان کے  باطن میں  الوہی نغمہ یا میلوڈی کو پایا ہے۔ اپنی ’سائیکی‘  میں  اللہ کے  حسن و جمال کے  ’آرچ ٹائپ‘  کو اس شدّت سے  محسوس کیا ہے  کہ ہر شے  میں  وہی نظر آتا ہے۔

ابتدا میں  میں  نے  کہا ہے  کہ نظیرؔ اکبر آبادی جشنِ زندگی کے  شاعر ہیں، تہذیب و تمدّن کے  مظاہر پر فریفتہ ہیں، ہندوستانی اساطیر کے  بعض واقعات و کردار نے  انھیں  اس لیے  بھی متاثر کیا ہے  کہ ان کا تعلق ملک کی تہذیب و تمدّن سے  ہے اور یہ ’فینومنیا‘  کی حیثیت رکھتے  ہیں۔ مسرّتوں  خوشیوں اور شادمانیوں  کی جانب شاعر بے  اختیار لپکتا ہے اور کہانیاں  سنانے  لگتا ہے۔ اساطیری واقعے  کا ہلکا سا اشارہ پا کر جشن منانے  لگتا ہے اور تخلیقی ذہن ایک کے  بعد دوسرا منظر پیش کر نے  لگتا ہے۔ بنیادی مقصد اساطیری واقعے اور کردار سے  لطف اندوز کرنا ہے۔ قاری جمالیاتی انبساط حاصل کر نے  لگتا ہے۔

ایسی نظموں  میں  کہ جن میں  ہندوستانی اساطیر کے  قصّوں  کا رنگ و آہنگ ہے  ’جنم کنہیاجی‘ ، ’بالپن بانسری بجیا‘ ، ’بانسری‘ ،’لہو و لعب کنہیا‘ ، ’کنہیاجی کی شادی‘ ، ’وسم کتھا‘ ، ’بیان سیکشن ونرسی اوتار‘ ، ’درگاجی کے  درشن‘ ، ’بھیروں  جی کی تعریف‘ ، ’مہادیو کا بیاہ‘  وغیرہ کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔

’جنم کنہیا جی‘  میں  کرشن کی پیدائش کی اساطیری کہانی کے  کئی مناظر پیش کیے  گئے  ہیں، اس کہانی کا انداز ہی بنیادی طور پر ڈرامائی ہے اور شاعر نے  بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں  سے  اسے  ایک منظوم ڈراما بنا دیا ہے۔ اس کے  برعکس ’بالپن بانسری بجیا‘  میں  کتھا سنانے  کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔

یوں  بالپن تو ہوتا ہے  ہر طفل کا بھلا

پران کے  بالپن میں  تو کچھ  اور  ہی بھید تھا

اس بھید کی بھلاجی کسی کو خبر ہے  کیا

کیا جانے  اپنے  کھیلنے  آئے  تھے  کیا کلا

ایسا تھا بانسری کے  بجیا کا بالپن

کیا کیا کہوں  میں  کرشن کنہیا کا بالپن

اساطیری واقعات و کردار  اور  عوامی لوک کہانیوں  کا مزاج لیے  ہوئے  دوسری نظمیں  بھی اسی نوعیت کی ہیں، bسی تو موجود ہی ہے  ’مِتھ‘  کے  تجربوں  کو عوامی احساسات و جذبات سے  قریب کر نے  کی نفسیاتی کوشش بھی ہے  کہ جس میں  ڈرامائیت سب سے  بڑی خصوصیت ہے۔

 

اپنی کتاب ’میرشناسی‘  (مئی ۱۹۹۸ء) میں  میں  نے  لکھا تھا۔ میر تقی میرؔ اُردو کی عشقیہ شاعری کے  ایک ممتاز شاعر ہیں، ان کی حیثیت منفرد ہے، اُنھوں  نے  عشقیہ کیفیتوں  کو انسان کے  تمام احساسات  اور  جذبات پر فوقیت دی ہے اور باطن کے  سانحے  کو انتہائی پُر اثر انداز میں  پیش کیا ہے۔ عشقیہ شاعری میں  میرؔ صاحب نے  جو لطیف پُر اثر  اور  دلفریب فضا خلق کی ہے  اس میں  ان کے  مدھم  اور  دلنشیں  لہجے  کی بڑی اہمیت ہے، اس لہجے  میں  کبھی کبھی برق کی سی جو لہر ملتی ہے  وہ شخصیت کے  سوز و گداز کی دین ہے۔ شرنیگار رس لیے  یہ شاعری عشقیہ تجربوں  کا عرفان بخشتی ہے۔ میرؔ کی عشقیہ شاعری میں  فراق کی اذیتیں  ہیں، تمنّاؤں  کے  کچل جانے  کے  احساسات ہیں، سوز و گداز  اور  درون بینی ہے، خود فراموشی کی کیفیت ہے، وارداتِ قلب کا بیان ہے، ایسے  تمام حسی تجربوں  میں  عام انسانی تجربے  ملتے  ہیں۔

میرؔ اپنے  باطن اپنی ’سائیکی‘  میں  بے  اختیار اُترتے  ہیں اور لہو کے  ’آرچ ٹائپ‘  سے  گہرا رشتہ قائم کر لیتے  ہیں۔ میرا خیال یہ ہے  کہ  اگر  جی. سی. یونگ کے  سامنے  میرؔ صاحب کا کلام رکھا جاتا تو وہ یقیناً بے  اختیار یہ کہتا کہ اس شاعری کا بنیادی آرچ ٹائپ ’لہو‘  ہے۔ یہ حقیقت ہے  کہ ’لہو‘  کے  استعارے  پیکر  اور  علامت کے  بغیر میرؔ کی شاعری کی عظمت کی پہچان مشکل ہے۔

مندرجہ ذیل اشعار اس سلسلے  میں  خاص توجہ چاہتے  ہیں:

گو خاک سی اُڑتی ہے  مرے  منہ پہ جنوں  میں

ٹپکے  ہے  لہو دیدۂ نمناک سے  اب تک

۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تو آبلہ پا دشت جنوں  سے  گزرا

ڈُوبا ہی جائے  ہے  لوہو میں  سَرخار ہنوز

۔۔۔۔۔۔۔۔

:سمجھ کے  چنیو کہ گلشن میں  میرؔ کے

لختِ جگر پڑے  ہیں  نہیں  برگ ہائے  گل

۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا دن تھے  کہ خون تھا جگر میں

رو اُٹھتے  تھے  بیٹھ دوپہر رات

۔۔۔۔۔۔۔۔

رنگ یہ ہے  دیدۂ گریاں  ہے  آج

لوہو ٹپکتا ہے  گریباں  سے  آج

۔۔۔۔۔۔۔۔

دل کا، جگر کا، لوہو تو غم نے  سکھا دیا

آنکھیں  رہیں  گی دیکھئے  خوں  بار کب تلک

۔۔۔۔۔۔۔۔

میں  گریۂ خونیں  کو، روکے  ہی رہا، ورنہ

یک دم میں  زمانے  کا، یاں  رنگ بدل جاتا

۔۔۔۔۔۔۔۔

دل، کہ یک قطرۂ خوں  نہیں  ہے  بیش

ایک عالم کے  سر بلا لایا

۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ عیش گہہ نہیں  ہے، یاں  رنگ  اور  کچھ ہے

ہر گل ہے  اس چمن میں، ساغر بھرا لہو کا

۔۔۔۔۔۔۔۔

گزرے  ہے  لہو واں، سرِ  ہر خار سے  اب تک

جس دشت میں  پھوٹا ہے  مرے  پاؤں  کا چھالا

۔۔۔۔۔۔۔۔

دل نہ پہنچا گوشۂ داماں  تلک

قطرۂ خوں  تھا، مژہ پر جم رہا

۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا ہے  خوں  مرا  پامال، یہ سرخی نہ چھوٹے  گی

اگر قاتل، تو اپنے  ہاتھ سو پانی سے  دھووے  گا

۔۔۔۔۔۔۔۔

دل بہت کھینچتی ہے، یار کے  کوچے  کی زمیں

لوہو اس خاک پہ گرنا ہے، مقرر اپنا

۔۔۔۔۔۔۔۔

پلکوں  پہ تھے  پارۂ جگر، رات

ہم آنکھوں  میں  لے  گئے، بسر رات

۔۔۔۔۔۔۔۔

چلّو میں  اس کے  میرا لہو تھا، سوپی چکا

اُڑتا نہیں  ہے  طائرِ رنگ حِنا ہنوز

۔۔۔۔۔۔۔۔

کیونکر ترے  کوچے  سے  اُٹھ کر میں  چلا جاتا

یاں  خاک میں  ملن تھا لوہو میں  نہانا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔

کس بے  گنہ کے  خوں  میں، ترا پڑ گیا ہے  پاؤں

ہوتا نہیں  ہے  سُرخ تو ایسا حنا کا رنگ

۔۔۔۔۔۔۔۔

جہاں  کے  باغ کا یہ عیش ہے  کہ گل کے  رنگ

ہمارے  جام میں  لوہو ہے  سب، شراب نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔

شہادت گاہ ہے، باغِ زمانہ

کہ ہر گل اس میں  اِک خونیں  کفن ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔

جگر سوئے  مژگاں  کھینچا جائے  ہے  کچھ

مگر دیدۂ تر ہیں  لوہو کے  پیاسے

۔۔۔۔۔۔۔۔

لختِ دل کب تک الٰہی، چشم سے  ٹپکا کریں

خاک میں  تا چند، ایسے  لعل پارے  دیکھے

۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت آرزو تھی گلی کی تری

سو یاں  سے  لہو میں  نہا کے  چلے

۔۔۔۔۔۔۔۔

چشمِ خوں  بستہ سے  کل رات لہو پھر ٹپکا

ہم نے  جانا تھا کہ بس اب تو یہ ناسور ہو گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔

دل سے  آنکھوں  میں  لہو آتا ہے  شاید رات کو

کشمکش میں  بے  قراری کی یہ پھوڑا چھل گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔

دامن میں  آج دیکھا پھر لخت میں  لے  آیا

ٹکڑا کوئی جگر کا پلکوں  میں  رہ گیا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔

اشک آنکھوں  میں  کب نہیں  آتا

لوہو آتا ہے  جب نہیں  آتا

۔۔۔۔۔۔۔۔

لیتا ہی نکلتا ہے  مرا لختِ جگر اشک

آنسو نہیں  گویا کہ یہ ہیرے  کی کنی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔

ہر اشک میرا ہے  دُرِ شہوار سے  بہتر

ہر لختِ جگر رشک عقیقِ یمنی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔

وے  دن گئے  کہ آنسو روتے  تھے  میرؔ اب تو

آنکھوں  میں  لختِ دل ہے  یا پارۂ جگر ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔

جگر ہی میں  یک قطرہ ہے  سرشک

پلک تک گیا تو تلاطم کیا

یہ تیس اشعار اُردو شاعری کے  بہت ہی قیمتی اشعار ہیں، لگتا ہے  جیسے  شاعر نے  خود اپنے  کلیجے  میں  ہاتھ ڈالا ہو۔ ’ذات‘   اور  زندگی کے  تجربے  جیسے  ’سائیکی‘  میں  بے  اختیار اُترے  ہوں اور ’لہو‘  کے  آرچ ٹائپ سے  جذب ہو گئے  ہوں، ’لہو‘  کے  استعارے  پیکر یا ’ا4‘  لاشعور کی کیفیتوں  کو بہت حد تک محسوس بناتے  ہیں۔

میرؔ کے  کلام میں  ’لہو‘  کا لاشعوری پیکر شعوری تجربوں  کی معنویت میں  تہہ داری پیدا کرتا ہے۔ شاعر کے  جمالیاتی تجربوں  میں  ’مِتھ‘  کے  آہنگ کو اچھی طرح محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بیشتر اشعار میں  ’مِتھ‘  کی لہریں  موجود ہیں۔ میک بتھ کے  ڈرامے  میں  ’لہو‘  گناہ  اور  تشدّد کی علامت ہے۔ میرؔ کی شاعری میں  یہ وجود کے  المیہ کا ’سمبل‘  ہے۔ بڑی بات یہ ہے  کہ یہ باطن  اور  لاشعور کے  زخم  اور  اضطراب کا بھی پیکر ہے اور وجود  اور  معاشرے  کے  رشتوں  کی ٹریجڈی کا علامیہ بھی ’بلیک ہولز ‘  (Back Hoes) کی بابت کہا جاتا ہے  کہ ان کے  سامنے  سے  جب بھی روشنی یا کوئی شے  بھی گزرتی ہے  وہ اسے  نگل لیتے  ہیں۔ ’آرچ ٹائپس‘  کے  تعلق سے  بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ تخلیقی ذہن جب ’سائیکی‘  کے  قریب آتا ہے  تو وہ اسے  اندر بہت گہرائیوں  میں  ’آرچ ٹائپ‘  تک پہنچا دیتی ہے اور شعور  اور  لاشعور کا ایک گہرا رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ میرؔ کے  لہو کے  تجربے  شعوری ہیں  لیکن ’سائیکی‘  ان تجربوں  کو بڑی گہرائیوں  میں  ’آرچ ٹائپس‘  تک پہنچا دیتی ہے۔

’لہو‘  کے  ’آرچ ٹائپ‘  پر گفتگو کرتے  ہوئے  اپنی کتاب ’غالب کی جمالیات‘  (دسمبر ۱۹۶۹ء) کی تمہید میں  لکھا تھا کہ آدم کا ایک نام ’سرخ زمین‘  (Red Earth) بھی ہے، عہد نامہ قدیم میں  ’روح‘  کو لہو کا پیکر کہا گیا ہے۔ ’لہو‘  تخلیق کے  جوہر کی علامت ہے  یہ بہت قدیم تصوّر ہے۔ ’لہو‘  سے  ایک آدم کے  بعد دوسرے  آدم کی تخلیق ہوئی۔ بائبل میں  کہا گیا ہے  کہ ’روح لہو میں  سفر کرتی ہے ‘ ۔

قدیم فلسفوں  میں  ’لہو‘  یا خون کی تمثیل بہت اہمیت رکھتی ہے، یہ سمجھا گیا ہے  کہ لہو روحانی ارتقا کی عظیم تر منزل کی علامت ہے۔ ’خون‘  (سرخ رنگ) پہلے  آدمی (آدم) کا حسی تصوّر بھی ہے اور عظیم ماں  (Great Mother) کے  لاشعوری احساس کی علامت بھی۔۔۔ فطرت ماں  ہے اور اس کے  لہو سے  تخلیق ہوتی ہے۔ اس بنیادی حسی پیکر سے  ’تخلیق‘   اور  ’نئی زندگی‘  یا نئے  جنم کا تصوّر وابستہ ہے۔

’تِم‘  (Tem) ’آتم‘  (Atim)  اور  ’را‘  (Ra) جیسے  دیوتاؤں  کا لہو اوپر سے  ٹپکتا ہے اور دھرتی پر تخلیق ہوتی ہے۔ قربانی، جنگ، سیکس،  اور  ’روحانی سفر‘  کے  قدیم ترین تصوّرات پر غور کیا جائے  تو معلوم ہو گا کہ ’لہو‘  یا خون کے  ’امیج‘  نے  انسان کے  ذہن میں  کیسے  کیسے  حسیاتی پیکروں  کی تشکیل کی ہے۔ قربانی کی اہمیت یہ ہے  کہ ہر مخلوق کی روح لہو میں  ہے، قربانی روح کی قربانی ہے۔ جسم سے  لہو کا نکلنا دراصل روح کا قربان ہونا ہے۔ عورت کا لہو تخلیق کا جوہر ہے اور ’لہو‘  موت کو نگل جاتا ہے، یہ بہت پرانے  قبائلی حسی تصوّرات ہیں۔

مصر میں  نٹ (Nut) کے  رحم سے  جو نئی تخلیق ہوتی ہے  وہ دراصل رحمِ مادر سے  نئی تخلیق کا اشارہ ہے۔ قدیم ایرانیوں  کے  یہاں  ’لہو‘  عورت کی علامت ہے اور دودھ مرد کی علامت۔

’لوسی فر‘  (Lucifer) جب زمین پر آیا تھا تو ہر جانب گہرا دھواں  پھیل گیا تھا۔ اُس نے  اپنے  وجود کی آگ سے  دریائے  حیات کو لہو کا دریا بنا دیا تھا۔ اس نے  کہا کہ لہو آتش کی سیّال صورت ہے۔ (غالبؔ کا ایک مصرعہ ہے: میں  خار ہوں، آتش میں  چبھوں  رنگ نکالوں )

اسی ساؤ (Esau) کی ٹریجڈی یہ تھی کہ اس نے  اپنی پیدائش سے  قبل اپنی ماں  کا لہو پیا تھا، یہی وجہ ہے  کہ ایک خاص پرندہ اس کی علامت ہے  جس کے  بارے  میں  کہا جاتا ہے  کہ وہ پانی نہیں  پیتا صرف خون پیتا ہے اور اسی سے  اس کی روح زندہ رہتی ہے۔

میکسیکو کی ایک اساطیری روایت کے  مطابق دیوتاؤں  کے  لہو سے  پچھلی نسلوں  کے  مردوں  کی ہڈّیاں  اب تک موجود ہیں۔

گوتم بدھ نے  چیتے  کے بچوں  کو اپنا گوشت کھلایا تو ان کے  لہو سے  زمین ہمیشہ کے  لیے  سرخ ہو گئی، درختوں اور پھولوں  کا ہر رنگ اسی لہو کا رنگ ہے۔

یونانیوں  نے  ایڈونس (Adonis) کے  لہو کی بہتی ہوئی ندی دیکھی تھی۔

ہمیں  معلوم ہے  کہ طوفانِ نوح کو خون کا سیلاب بھی کہتے  ہیں۔ کہا جاتا ہے  کہ خدانے  حضرت نوح سے  کہا تھا کہ لہو کے  اس سیلاب کے  بعد قوسِ قزح کے  ذریعہ قدرت اعلان کرے  گی کہ دھرتی لہو میں  نہیں  نہائے  گی، ہر طوفان کے  بعد قوسِ قزح قدرت کا یہی اعلان ہے۔

قدیم اساطیری قصّوں اور قدیم دعاؤں  میں  سورج کے  جلال سے  خون کی لہریں اور موجیں  پیدا ہوتی ہیں اور اس کے  جمال سے  ان لہروں اور موجوں  سے  نئی تخلیق ہوتی ہے۔ شراب پینے  سے  پہلے  لہو کے  چھینٹے  دیئے  جاتے  تھے  تاکہ روح بیدار رہے۔ لافانی حسن یا حسن مطلق کا آفتاب جب دھرتی کی تاریکیوں  میں  چھپ جاتا ہے  تو دیوتا سخت پریشان ہوتے  ہیں  اس لیے  کہ تخلیق کا عمل رُک جاتا ہے اور پھر جب آفتاب نکلتا ہے  تو ہر جانب مسرّت کی لہریں  ہوتی ہیں  اس لیے  کہ تخلیق کا عمل شروع ہو جاتا ہے، آفتاب کے  جلال و جمال کا احساس حسن کی تخلیق  اور  ہر نئی تخلیق کا احساس ہے۔ سورج کی تپش  اور  روشنی سے  ’لہو‘  میں  گرمی آتی ہے اور نئی تخلیق ہوتی ہے۔ جمال آفتاب سے  روشنیوں  کا جسم بنتا ہے، رحمِ مادر کا لہو آفتاب کے  امیج میں  جذب ہو گیا ہے، زندگی کے  چکّر  اور  نئے  جنم  اور  نئی تخلیق کے  گہرے  لاشعوری احساس سے  لہو کے  دشت میں  نئے  آبلوں  کے  ساتھ چلنے  کا خیال اُبھرتا ہے۔ پھیلے  ہوئے  تہہ دار تاریک لاشعور میں  ہم ان حسی تجربوں  کو نظر انداز نہیں  کر سکتے۔ ہر عہد میں  جذبوں  کو بیدار کر نے  میں  کچھ حسیاتی  اور  ذہنی پیکروں  کی گہری معنویت ہمیشہ موجود رہی ہے۔ ’لہو‘  بھی ایک حسی ذہنی پیکر ہے۔

لاشعور کے  علائم و رموز سے  گہرا رشتہ رکھتے  ہوئے  ایسے  پیکروں  کی جذباتی لہروں  کی اہمیت بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ زمانہ یا معاشرے  کے  بنیادی داخلی سچائیوں  سے  ان کا رشتہ گہرا ہو جاتا ہے، جذباتی لہروں  میں  شدّت آ جاتی ہے۔ ایسے  پیکروں  میں  فنکار لاشعوری طور پر نسلی تجربوں  کی معنویت کو جذب کر لیتا ہے اور قاری کے  لاشعور میں  جانے  کتنی معنی خیز لہروں  کو بیدار کرتا ہے۔ ہوتا یہ ہے  کہ ’آرچ ٹائپس‘  کے  دباؤ  اور  ان کی روشنی سے  عہد  اور  معاشرے  کی سچائیاں  نئے  آہنگ  اور  نئی معنویت کے  ساتھ حسی پیکروں  میں  نمایاں  ہوتی ہیں۔

میرؔ کی زندگی  اور  ان کے  معاشرے  پر ایک نظر ڈالیے اور ان کی آپ بیتی کا مطالعہ کیجیے  تو آپ کو ان کے  ذاتی غم کی گہرائی کا بخوبی اندازہ ہو جائے  گا۔ یہ غم ’لہو‘  کے  ’آرچ ٹائپ‘  سے  قریب ہوتا ہے  تو المناک  اور  مضطرب کر دینے  والے  نغموں  کی تخلیق ہونے  لگتی ہے۔ تخلیقی گہرائیوں  (Creative Depth)کی تہوں  کو کھولتے  جائیے  ’لہو‘  کے  پیکر کی جمالیاتی جہتیں  نمایاں  ہوتی جائیں  گی۔

 

غالبؔ پر میری پہلی کتاب ’غالب کی جمالیات‘  دسمبر ۱۹۶۹ء میں  شائع ہوئی۔ غالباً اُردو میں  یہ پہلی کتاب ہے  جس میں  ابتدا سے  آخر تک ’آرچ ٹائپ‘  (Archetype)کی روشنی میں  غالبؔ کی ’سائیکی‘   اور  ان کے  کلام کا مطالعہ کیا گیا ہے اور جمالیاتِ غالب کی امتیازی جہتوں  کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ جی. سی. یونگ (G. C. Jung) نے  جن چند اہم ترین ’آرچ ٹائپس‘  کی قدرو قیمت کو سمجھانے  کی کوشش کی ہے  اُن کی روشنی میں  مختلف عنوانات قائم کیے  گئے  ہیں اور شاعر کی جمالیات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مثلاً:

۔۔۔      نسلی یا اجتماعی لاشعور (Collective Unconsciousness)

۔۔۔      ذات (Self)

۔۔۔      رنگ  اور  لہو  (Colour and Blood)

۔۔۔      آتش  (Fire)

۔۔۔      ضعیف دانش مند (Wise Old man)

۔۔۔      پرچھائیں  (The Shadow)

۔۔۔      آفتاب (Sun) اور  ’برق‘  وغیرہ۔

غالبؔ پر  میری دوسری کتاب ’مرزا غالبؔ  اور  ہند مغل جمالیات‘  فروری ۱۹۸۷ء میں  شائع ہوئی جن میں  مندرجہ ذیل موضوعات کو اہمیت دی گئی:

۔۔۔      ہند مغل داستانیت کا عرفان  اور  فسوں  و تحیر کے  تجربے،

۔۔۔      صحرا نوردی کے  جمالیاتی تجربے،

۔۔۔      جلوۂ صد رنگ،

۔۔۔      رقص  اور  تحرک، نور  اور  روشنی،

۔۔۔      احساسِ ذات کا وژن  اور  فسونِ نشاط وغیرہ۔

’آتش‘  اجتماعی یا نسلی لاشعور کا ایک قدیم تر حسی پیکر  اور  ’آرچ ٹائپ‘  ہے  کہ جس سے  غالبؔ کا تخلیقی ذہن وابستہ ہے۔ اس حد تک کہ وہ یہ کہتے  ہیں  کہ ’’میں  آذر نفس کے  خاندان سے  ہوں‘‘  ۔۔۔  اور :

عمر ہا چرخ بگردد کہ جگر سوختہ

چوں  من ازدودۂ آذر نفساں  برخیزد

آگ  اور  روشنی کو اُنھوں  نے  اس طرح سمجھانے  کی کوشش کی کہ میرا پیکرمٹی کا ہے، میرے  دل  اور  روح کی تخلیق ’آگ‘  سے  ہوئی ہے، آگ ہی سے  آب و گل کے  اس پیکر میں  روشنی آئی ہے، آگ نہ ہوتی تو یہ نور نہ ہوتا یہ روشنی نہیں  ہوتی:

پیکرم از خاک و دل از آتش است

روشنی آب و گل از آتش است

آتشم آنست کہ دودش نیت

برنمط شعلۂ نمودش نیست

سوختہ ام لیک نہ سوزندہ اَم

آتش بے  درد فروندہ ام

آتشم اَما بفروغ و فراغ

روشنیِ شمعم و نورِ چراغ!

(مثنوی ہشتم)

’ذات‘  جلال و جمال کا جلوہ  اور  مرکزِ حسن بن جاتی ہے!

کہتے  ہیں  بظاہر ندی نظر آتا ہوں  لیکن حقیقت یہ ہے  کہ میں  آتش ہوں، میرے  وجود کی گہرائیوں  میں  کوئی غوطہ لگائے  تو اس کے  ہاتھ میں  مچھلی نہیں  بلکہ آگ کا ایک متحرّک پیکر ’سمندر‘  آئے  گا:

از بروں  سو آبم اما از دروں  سو آتشم

ماہی ار جوئی سمندر یابی از دریا مئے  من

ان سے  غالبؔ کی ’سائیکی‘   اور  اُن کے  ’وژن‘  کو سمجھنے  میں  مدد ملتی ہے۔ ’ذات‘  کی گہرائیوں  کا احساس غیر معمولی نوعیت کا ہے، گہرائی  اور  بلندی کے  ’آرچ ٹائپس‘  کے  تحرک کی پہچان ہوتی رہتی ہے۔ مثلاً:

ماہمای گرم پرواز یم فیض از ما مجوی

سایہ ہم چون دود بالا میرود از بالِ ما

یعنی ہم گرم پرواز ہما کی مانند ہیں، ہم سے  فیض کی امید رکھنا عبث ہے  کیونکہ سایہ ہمارے  پروں  سے  دھوئیں  کی طرح اوپر اوپر ہی نکل جاتا ہے  یعنی سایہ زمین پر پڑتاہی نہیں!

میں  عدم سے  بھی پرے  ہوں  ورنہ غافل بارہا

میری آہِ آتشیں  سے  بالِ عنقا جل گیا!

عرض= جو ہر اندیشہ کی گرمی کہاں

کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔

نگہ کرم سے  اِک آگ ٹپکتی ہے  اسدؔ

ہے  چراغاں  خس و خاشاک گلستاں  مجھ سے!

۔۔۔۔۔۔۔۔

آتش کدہ ہے  سینہ مرا رازِ نہاں  سے

اے  واے   اگر  معرض اظہار میں  آوے!

۔۔۔۔۔۔۔۔

شب کہ برق سوزِ دل سے  زہرہ ابر آب تھا

شعلۂ جوالہ ہریک حلقۂ گرداب تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔

کوہ کے  ہوں  بارِ خاطر گر صدا ہو جائے

بےتکلف اے  شرارِ جستہ کیا ہو جائیے

۔۔۔۔۔۔۔۔

اثر آبلہ سے  جادۂ صحراے  جنوں

صورت رشتہ گوہر ہے  چراغاں  مجھ سے!

۔۔۔۔۔۔۔۔

سایہ میرا مجھ سے  مثل دود بھاگے  ہے  اسدؔ

پاس مجھ آتش بجاں  کے  کس سے  ٹھہرا جائے  ہے!

اکثر آتش، برق  اور  آفتاب کے  پیکروں  میں  اپنی ’ذات‘  کو شدّت سے  نمایاں  کرتے  ہیں، یہ تینوں  پیکر آگ، رنگ  اور  روشنی کی علامتیں  ہیں۔ ’رگِ اندیشہ‘  میں  اضطراب کا محرک بھی باطن ہے، موت کے  بعد بھی رگِ اندیشہ میں  اضطراب باقی ہے  یہی وجہ ہے  کہ مزار کے  قریب ہر طرف غبار پیچ و تاب کھا رہے  ہیں:

غبارِ طرفِ مزارم بہ پیچ و تابی ہست

ہنوز در رگِ اندیشۂ اضطرابی ہست!

غالبؔ نے  ’پس کوچہ‘  سے  غیر شعوری طور پر اپنی ’سائیکی‘  کی جانب اشارہ کیا ہے:

مرادیست بہ پس کوچۂ گرفتاری

کشادہ روے  تراز شاہدانِ بازاری

(قصیدہ دوم ونعت کلیات ص۴۷۳)

دل کی عام شاہراہ کے  پیچھے  ایک ’پس کوچہ‘  بھی ہے،شعور کی سطح پر المناک تجربوں اور معاشرے  کی ’میکانیت‘  کا اثر شاعر کے  دل پر بہت گہرا ہوتا ہے  اذیتوں  کا شکار رہتا ہے  لیکن اس بات کا احساس ہے  کہ دل سے  الگ کر ایک پس کوچہ بھی ہے، باطن کا پس کوچہ اتنا کشادہ ہے  کہ یہاں  رنگ و نور کی دنیا آباد ہو گئی ہے۔ غالبؔ کی حسن شناسی کی یہ بہت ہی عمدہ مثال ہے۔ شاعر کے  گہرے  جمالیاتی وجدان کی ایک پُر اسرار دلکش تصویر اُبھرتی ہے۔ غالبؔ کا جمالیاتی رجحان پھیلتا ہے  تو محسوس ہوتا ہے  جیسے  یہ ’پس کوچہ‘  پھیل کر کائنات کے  حسن و جمال کو جذب کر لینا چاہتا ہے۔ صرف یہی نہیں  شاعر یہ محسوس کر نے  لگتا ہے:

گل جداناشد از شاخ بدامانِ من است

کائنات کے  تمام حسن کو سمیٹ لینے  کی خواہش بلاشبہ لاشعور یا ’سائیکی‘  کے  پھیلاؤ کی آرزو کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ غالبیات کا مطالعہ کرتے  ہوئے  اس صداقت پر ہم نے  بہت کم غور کیا ہے  کہ شعور، لاشعور کے  سمندر میں  ایک  ننھا سا جزیرہ ہے۔

غالبؔ اپنے  باطن میں  شدّت سے  محسوس کرتے  ہیں  کہ ان کے  وجود میں  آتشِ زرتشت کے  شرارچھپے  ہوئے  ہیں:

شرارِ آتشِ زرتشت درنہادم پود!

غالبیات میں  ’آتش‘  ایک معنی خیز جہت دار ’آرچ ٹائپ‘  ہے  جس سے  جانے  کتنے  استعارات و علامات خلق ہوئے  ہیں  (تفصیل کے  لیے  دیکھئے: ’غالب کی جمالیات‘   اور  ’مرزا غالب  اور  ہند مغل جمالیات‘ ) یہ آرچ ٹائپ ایک ایسے  Psychic Force ہے  جس سے  ’فینومینن‘  خلق ہوتے  رہتے  ہیں۔ غالبؔ کی شاعری جب ڈراما بن جاتی ہے  تو کئی زندہ  اور  متحرک کردار وجود میں  آ جاتے  ہیں۔ ’سائیکی‘  متحرک ہو جاتی ہے  تو جمالیاتی بصیرت  اور  ’وژن‘  کے  عمدہ تجربے  ملنے  لگتے  ہیں۔ ’غالبیات‘  میں  ’ذات‘  (Self) کا آرچ ٹائپ غیر معمولی حیثیت رکھتا ہے۔ کہتے  ہیں:

بینم از گدازِ دل درجگر آتشے  چوسیل

غالبؔ  اگر  دمِ سخن رہ بہ ضمیر من بری

یعنی تخلیقِ فن کے  لمحوں  میں   اگر  تم باطن میں  میری حالت دیکھو تو معلوم ہو گا کہ آگ کا ایک سیلاب دل سے  جگر تک بہہ رہا ہے۔ آگ کا یہ سیلاب شاعر کی حسی  اور  اضطراری کیفیتوں اور تخلیق کے  پُر اسرار عمل کو سمجھا رہا ہے۔ دل سے  جگر تک آگ کا یہ سیلاب جمالیاتی تجربوں اور Depth Perception کے  تئیں  بیدار کر دیتا ہے۔ کہتے  ہیں:

آتش چکد زہر بن مویم  اگر  بفرض

ذوقم بخود قرار گل و گلستاں  دید

رونگٹے  سے  چنگاریاں اور شعلے  نکلیں  تو وژن ان سے  گلستاں  بنا لے  گا!  اور  واقعی گلستاں  بن جاتا ہے:

نگہ گرم ہے  اِک آگ ٹپکتی ہے  اسدؔ

ہے  چراغاں  خس و خاشاکِ گلستاں  مجھ سے

’ذات‘  کے  ’آرچ ٹائپ‘  کے  پیشِ نظر یہ خیال توجہ طلب ہے  کہ شاعر کے  احساسِ جمال  اور  نشاطِ جمال کو سمجھنے  کے  لیے  اتنا کافی ہے  کہ دل سے  جو آگ نکلتی ہے  اس سے  حسن کی تخلیق ہوتی ہے، وجود کی آگ سے  حسن کی تخلیق کا عمل جاری ہے۔

غالبؔ کے  ’پس کوچے ‘  میں  عجم کا آتش کدہ روشن ہے، ہم اسے  شعلہ نوائی کی صورت میں  پہچانتے  ہیں:

سوخت آتش کدہ زآتش تقسیم بخشیدند

ریخت بتخانہ ز ناقوس فغانم دادند

کہتے  ہیں  آتش کدہ جل بجھ گیا تو کیا میری تقدیر نے  مجھے  جو شعلہ نوائی بخشی ہے  وہ کیا کم ہے۔ بت خانہ ٹوٹ گیا تو کیا میرے  حصّے  میں  ناقوس کی سی فریاد و فغاں  تو آئی شاہانِ ایران کے  علم کے  جواہرات ٹوٹے، توڑ لیے  گئے  تو اس کے  عوض مجھے  گوہر بار قلم تو ملا۔

غالبؔ ایک ہمہ گیر تہہ دار، آریائی لاشعور کے  مالک ہیں  جس کی وجہ سے  اُن کی فارسی  اور  اُردو شاعری میں  کئی ’سائیکو ڈرامے ‘  (Psycho-drama) متاثر کرتے  ہیں، ان کے  کردار گہرا نقش چھوڑ جاتے  ہیں۔ ایسا ہی ایک کردار ہرمزد/ عبدالصمد کا ہے  جس کے  متعلق ۱۹۶۹ء میں  میں  نے  لکھا تھا:

’’ہرمزد/عبدالصمد کے  پیکر کی تشکیل علم کی روشنی کی نئی دریافت تھی، آئین معنی آفرینی سیکھنے  کے  لیے  غالبؔ نے  اپنی ’سائیکی‘  کے  آئینۂ آتشیں  سے  گفتگو کی تھی۔‘‘

(غالبؔ کی جمالیات)

جی. سی.یونگ نے  تحریر کیا ہے  کہ ’ضعیف دانش مند‘  (Wise Old Man) کا آرچ ٹائپ اُس وقت زیادہ متحرک ہو جاتا ہے اور اس میں  اُس وقت اُٹھان آتی ہے  جب فرد اپنی عظمت  اور  وقار کا احساس دلانا چاہتا ہے۔ Self-gorification کی ضرورت پیش آتی ہے۔ تو ’سائیکی‘  اس ’آرچ ٹائپ‘  کی گہرائیوں  کو چھونے  لگتی ہے۔ اعلیٰ  اور  بہت عمدہ تخلیقی سطح پر اس کی پہچان اُس وقت ہوتی ہے  جب نٹشے  (Nietzche)، زرتشت کو خود میں  جذب کر لیتا ہے۔ ’ڈیوائن کامیڈی‘  میں  ڈانٹے  کے  ساتھ ورجل ’ایک ضعیف دانش مند‘  کا کردار ادا کرتا ہے۔ ’جاوید نامہ‘  میں  مولانا رومی اس کردار کی نمائندگی کرتے  ہیں۔ غالبؔ نے  ایک خاص ماحول میں  ذات کی تابندگی کا احساس دلانے  یا Self-glorification کے  لیے  ہرمزد/ عبدالصمد کے  حسی کردار کو اپنی سائیکی سے  باہر نکالا ہے اور ہم ’ایک ضعیف دانش مند‘  کے  ’آرچ ٹائپ‘  کو پہچان لیتے  ہیں، بلاشبہ ہرمزد/ عبدالصمد غالبؔ کی اپنی ’سائیکی‘  کی گہرائیوں  سے  نکلا ایک ایسا کردار ہے  جو ’سائیکو ڈرامے ‘  (Psycho-drama) کا خالق بن جاتا ہے۔

جی.سی.یونگ نے  Psychologicall سے  لوntre of consciousness.(1 Types (۱۹۲۱ء) میں  لکھا ہے:

"The hero is guided by the WISE OLD MAN. He is form of animus, and reveals to the hero the nature of the Collective unconsciousness.” (Page 181)

ہرمزد (عبدالصمد) غالبؔ کی ’سائیکی‘  کا ایک آتشیں  پیکر تھا کہ جس کی ایک خارجی صورت نمایاں  ہوئی تھی۔ آتش  اور  بلندی یا رفعت کے  ’آرچ ٹائپ‘  نے  اس کی تخلیق کی تھی۔ ہرمزد غالبؔ کے  ہمہ گیر لاشعور  اور  ان کے  احساس و جذبے  کی تصویر تھا۔ ان کی شخصیت کا ایک آئینہ۔۔۔ نرگسی مزاج  اور  مجرّد جمالیاتی رجحان نے  اس پیکر کی تشکیل میں  نمایاں  حصّہ لیا تھا۔ فنکار بعض حالات میں  جب زیادہ دباؤ محسوس کرتا ہے  یا احساسِ کمتری کا شکار ہونے  لگتا ہے  تو وہ اکثر ’بلندی‘  یا رفعت کے  ’آرچ ٹائپ‘  کو لاشعوری طور پر شدّت سے  اُبھارتا ہے۔ غالبؔ کے  بنیادی ’آرچ ٹائپ‘  آتش نے  اس صورت کی تخلیق میں  زیادہ مدد کی ہے۔

ہرمزد، زرتشتی، ایران، آتش پرستی، تیمسار، اروند بندہ، پارسی نژاد پارسیوں  کے  مذہبی خیالات  اور  اسرار، پارسی  اور  سنسکرت، ان تمام لفظوں  کے  پیچھے  نسلی شعور  اور  بنیادی ’آرچ ٹائپ‘  آتش  اور  نور کا عمل محسوس ہوتا ہے۔ ملاّ عبدالصمد، اسلام، علمائے  عرب و بغداد سے  تعلیم و تربیت یا علوم عربیہ۔۔۔ یہ وہ لباس ہے  جسے  غالبؔ نے  شعوری طور پر اس پیکر کو پہنایا ہے، اس کی اہمیت  اور  معنویت کو سمجھنا مشکل نہیں  ہے۔ غالبؔ تو سچے  کفر کی ایسی پیغمبرانہ شان سے  پہچانے  جاتے  ہیں، آریائی مزاج (ایرانی۔ ہندی) عربی عقائد  اور  ہندوستانی تہذیب و تربیت سے  اس حسیاتی پیکر کی تخلیق ہوتی ہے۔

اس ’شعوری عمل‘  کے  پیچھے  ایک فعال  اور  تہہ دار ’سائیکی‘  کو کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا ہے  جس میں  ’دانش مند ضعیف آدمی‘  کا حسی ’آرچ ٹائپ‘  موجود تھا!

غالبؔ کی شاعری میں  ’عورت‘  کا ’آرچ ٹائپ‘  کہ جسے  یونگ نے  ’سول امیج‘  (Sou Image) کہا ہے  موجود ہے۔ نسلی یا اجتماعی لاشعور کا یہ ’امیج‘  بار بار ظاہر ہوتا ہے۔ یونگ نے  کہا ہے  کہ ’سول امیج‘  شخصیت کے  نہایت ہی گہرے  باطنی احساس کی تخلیق ہے  اس لیے  اسے  شخصیت یا روح کا   حصہ سمجھنا چاہیے۔ اس کا یہ جملہ غور طلب ہے:

‘She is chaotic urge of ife’

غالبؔ کے  محبوب کے  پیکر کی تخلیق و تشکیل میں  ان کی ’سائیکی‘  کا عمل شدّت سے  محسوس ہوتا ہے۔ آتش  اور  نور کے  بنیادی ’آرچ ٹائپ‘  سے  محبوب (سول امیج) کا نسلی ’آرچ ٹائپ‘  بیدار ہوا ہے ۱؂۔

اپنی کتاب ’غالبؔ کی جمالیات‘  میں  ’پرچھائیں ‘  (The Shadow)،’آفتاب‘   اور  ’برق‘  کے  ’آرچ ٹائپس‘  پر مفصل گفتگو کی ہے۔

کلامِ غالبؔ میں  ان تینوں  حسی پیکروں  کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ ’آفتاب‘  قدیم ترین قبائلی شعور کا ہیرو ہے، ایک ’مِتھ‘  کے  مطابق یہ ہیرو ایک بار  چھپ گیا تو کائنات صدیوں  تاریکی میں  کسمساتی رہی۔ قبائلی شعور نے  لاشعور کی تاریکیوں  سے  اسے  پھر پیدا کیا، ایک آتشیں  پیکر کی صورت پھر اس کی عبادت شروع ہو گئی، جمالیاتِ غالب میں  آفتاب بھی ایک محبوب حسی پیکر ہے۔ ’آفتاب‘   اور  ’برق‘  سے  شاعر نے  جانے  کتنے  ’ا4‘  خلق کیے  ہیں۔ اسی طرح ’پرچھائیں ‘  جلال و جمال کا ایک حسی پیکر بن کر سامنے  آیا ہے۔ اس پیکر پر ’غالب کی جمالیات‘  میں  مفصل گفتگو کی گئی ہے۔ (دیکھئے  صفحہ ۲۰۷۔ ۲۲۶) ۱؂

’پرچھائیں ‘ (The Shadow) فطری  اور  جبلّی پیکر ہے  کہ جس سے  پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب انسان پہلی بار زمین پر کھڑا ہوا۔ پہلے  آدمی کی پرچھائیں  اس دھرتی پر اس کے  ساتھ ہی اُبھری، پہلا آدمی جدھر گیا وہ اس کے  ساتھ رہی، اس کے  وجود کا ایک حصّہ بن کر۔ ذاتی  اور  انفرادی لاشعور پر پرچھائیں  کے  پیکر نے  بہت سے  حسی تاثرات کو اُبھارا  اور  رفتہ رفتہ اجتماعی یا نسلی لاشعور میں  یہ پیکر ایک ’آرچ ٹائپ‘  بن گیا، ایک قوّت، طاقت، ایک بہاؤ، برقی لہر، ایک دباؤ! یونگ نے  اس ’آرچ ٹائپ‘  کو ’سیاہ فام بھائی‘  (Dark Brother) کہا ہے۔ لیکن یہ صرف منفی لہروں  کا استعارہ نہیں  ہے، تخلیقی آرٹ میں  پرچھائیں  ایک مثبت رجحان بھی بن جاتی ہے۔ شعور ’وحشی، سیاہ فام بھائی‘ کو راہنما  اور  دوست بھی بنا لیتا ہے۔ اس ’آرچ ٹائپ‘  سے  تیز خوبصورت شعاعیں  بھی نکلنے  لگتی ہیں۔ محمد اقبال کے  ’جاوید نامہ‘  میں  مولانا رومی  اور  ’ڈیوائن کامیڈی‘  میں  ڈانٹے  کے  دوست ورجل کو یاد کیجیے، یہ دونوں  پرچھائیں  ہیں۔ خود غالبؔ نے  اپنی پرچھائیں  کو ہرمزد/ عبدالصمد کے  پیکر میں  ڈھالا ہے۔ خود غالبؔ کو اپنی پرچھائیں  کا شدید احساس تھا، ان کا ایک خوبصورت  اور  انتہائی دلفریب شعر ہے:

غالبؔ چو شخص و عکس در آئینہ خیال

باخویشتن یکی و دو و چار خودیم ما

یعنی آئینۂ خیال میں  میری مثال شخص و عکس کی ہے، میں  واحد شخص ہوں  لیکن آئینے  میں  میرے  عکس نے  دوئی پیدا کر دی ہے۔ ایک دوسرے  کے  آمنے  سامنے  میں  ایک دوسرے  سے  دو چار، یہی وجہ ہے  کہ مصائب کا شکار ہیں۔

یونگ کے  نظریے  کے  مطابق ’لاشعور‘  میں  اس پیکر کی خصوصیات وہی ہیں  جنھیں  انسان عموماً اپنے  دشمنوں اور شعرا رقیب میں  دیکھتے  ہیں۔ یہ انسان کی اپنی خصوصیات ہیں  کہ جن کا وہ اعتراف نہیں  کرتا۔ شعوری طور پر اپنی فطرت  اور  اپنے  وجود  اور  عمل سے  علاحدہ دیکھتا ہے اور دیکھنا چاہتا ہے اور اس پیکر کو اپنے  وجود، اپنی فطرت  اور  اپنے  عمل سے  علاحدہ کر نے  کی خواہش بہت ہی دلچسپ صورتوں  کی تخلیق کرتی ہے۔ اس ’آرچ ٹائپ‘  سے  بہت سی تہہ دار متحرک معنی خیز تصویریں  اُبھرتی رہتی ہیں۔ ’جاوید نامہ‘   اور  ’ڈیوائن کامیڈی‘  کی مثال دی ہے۔ ملٹن کے  شیطان  اور  اقبال کے  ابلیس کو بھی سامنے  رکھئے۔ رقیب کے  کردار سے  بھی معنی خیز صورتیں  بنتی ہیں۔ رشک، تشکیک، آزاد پسندی  اور  بت شکتی کے  جمالیاتی تجربوں  میں  اس ’آرچ ٹائپ‘  کی روشنی ملتی ہے۔ ذہنی  اور  جذباتی کشمکش کی پہچان بھی ہوتی ہے۔ یہ تو واضح صورتیں  ہیں، غیر واضح، مبہم  اور  تجریدی صورتوں  کی بھی کمی نہیں  ہے۔ جی.سی. یونگ نے  تحریر کیا ہے:

"The shadow is an archetypal figure which among. Primitive peoples still makes its appearance in a wide range of personifications. It is a part of the individual, a split-off portion of his being which nevertheless remains attached to him like a shadow.”

(G. C. Jung: Memoires Dreams Refection, Page 79)

غالبؔ کا ’سیاہ فام بھائی‘  کئی جہتوں  کے  ساتھ نمایاں  ہوا ہے  لیکن پرچھائیں  کی صورت ایک رہنما بھی ہے، وجود کی گہرائیوں  میں  ایک تو انائی بھی۔ اُردو شاعری میں  کوئی رقیب ’سیاہ فام بھائی‘  نہیں  بن سکا ہے!!

 

اقبالؔ پر میری کتاب ’محمد اقبال‘  ۱۹۹۳ء میں  شائع ہوئی تھی کہ جس میں  فنونِ لطیفہ کے  جمالیاتی تصوّر، استعارہ، امیج  اور  علامت، روشنی کی جمالیات، خطیبانہ شاعری کی جمالیات، تصوّف  اور  تصوّف کی رومانیت، زبورِ عجم کی ایک غزل (ایں  جہاں  چیست؟ صنم خانۂ پندار من است) اقبالؔ کی مذہبی حسیت، جبریل و ابلیس، حلقۂ افسوں  و تسخیر کا حسیاتی پیکر وغیرہ جیسے  موضوعات پر گفتگو کی گئی تھی۔ اس سے  قبل ’اقبال۔۔ روشنی کی جمالیات‘  مقبول ہو چکی تھی۔

مطالعۂ اقبالؔ میں  میں  نے  کئی ’آرچ ٹائپس‘  کو موضوع بنایا تھا کہ جس میں  ’روشنی‘  کے  ’آرچ ٹائپ‘  کو زیادہ اہمیت دی تھی۔

اقبالؔ کی جمالیات میں  روشنی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اس کے  کئی پہلو شعری تجربوں  میں  نمایاں  ہوئے  ہیں۔ اقبالؔ نگاہ  اور  نظر کی تیزی، شوخیِ روشنی  اور  اُس کی لطیف چبھن کو حرکت  اور  بیداریِ قلب کے  لیے  ضروری سمجھتے  ہیں۔ نگاہ، نگاہِ شوق  اور  نظر کے  پیچھے  ’روشنی‘  کا ’آرچ ٹائپ‘  حد درجہ متحرک ہے۔ یہ اقبالیات کا کلیدی پیکر ہے  جس سے  جانے  کتنے  علامات و استعارات پھوٹے  ہیں۔ پیہم جستجو  اور  تسخیرِ کائنات کے  شعری تجربوں اور باطن  اور  خارج میں۔ دور تک روشنیوں اور سچائیوں  کو پانے  کے  لیے  باطنی لاشعوری تخلیقی ہیجانات میں  انھیں  اہمیت حاصل ہے۔ عشق، خودی  اور  ذوق و شوق کا اُن سے  گہرا معنوی رشتہ ہے۔ معنوی استعارہ بن کر کبھی ان میں  سے  کوئی استعارہ یا پیکر شعری تجربے  میں  یہ رنگ پیدا کرتا ہے:

کچھ  اور  ہی نظر آتا ہے  کاروبارِ جہاں

نگاہِ شوق  اگر  ہو شریکِ بینائی

اور  کبھی جاں  پرور جمالیاتی رومانی استعارہ بن کر لامکاں  کی فضاؤں اور حریم ناز  اور  خدا کی تجلّیوں  تک پہنچ جاتا ہے اور شعری تجربے  کو حد درجہ معنی خیز بنا دیتا ہے:

حور و فرشتہ ہیں  اسیر میرے  تخیلات میں

میری نگاہ سے  خلل تیری تجلیات میں

یہ نگاہ  اور  نظر کی تیز روشنی کا احساس ہے  جس کا اثر کائنات سے  دُور سچائیوں  پر ہوتا ہے۔ نگاہ  اور  نظر باطنی روشنیوں  کی علامتیں  ہیں۔ باطنی روشنی یا لاشعوری تخلیقی نور کی کرنوں  نے  ایسے  شعری تجربے  بھی روشن کیے  ہیں:

گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود

گاہ اُلجھ کے  رہ گئی میرے  توہمات میں

۔۔۔۔۔۔۔۔

دل  اگر  اس خاک میں  زندہ و بیدار ہو

تیری نگہ توڑ دے  آئینۂ مہر و ماہ

۔۔۔۔۔۔۔۔

دلوں  میں  ولولے  آفاق گیری کے  نہیں  اُٹھتے

نگاہوں  میں   اگر  پیدا نہ ہو اندازِ آفاقی

۔۔۔۔۔۔۔۔

خرد کے  پاس خبر کے  سوا کچھ  اور  نہیں

ترا علاج نظر کے  سوا کچھ  اور  نہیں

’بانگِ درا‘  کی نظموں  کے  عنوانات پر ایک سرسری نظر ڈالیے  تو روشنی کے  حسیاتی پیکر کے  تحرک کا  اور  احساس ہو گا۔

’آفتاب‘ ، ’صبحِ آفتاب‘ ، ’ماہِ نو‘ ، ’پیامِ صبح‘ ، ’چاند‘ ، ’جگنو‘ ، ’صبح کا ستارہ‘ ، ’ایک پرندہ  اور  جگنو‘ ، ’بچہ  اور  شاعر‘ ، ’اختر صبح‘ ، ’بزم انجم‘ ، ’شمع  اور  شاعر‘ ، ’نویدِ صبح‘ ، ’شعاعِ اُمید‘ ۔

’بانگِ درا‘  کی کم و بیش تمام اچھی نظموں  میں  روشنی کا شدید تر احساس موجود ہے اور تخیل کی نوری لکیریں  پھیلی ہوئی ہیں۔

’ابرِ کوہسار‘  میں  درافشاں، لبِ جو، گرداب، زادۂ بحر، پروردۂ خورشید، شورش قلزم، شبستاں۔

’آفتابِ صبح‘  میں  ’سحاب‘ ، اُفق، کوکب،نیرِ اعظم، نورِمسجود ملک۔

’ انسان  اور  بزم قدرت‘  میں  پرتوِ مہر، سیم سیّال، سورۃ الشمس۔

’نالۂ فراق‘  میں  خورشید آشنا، عالم نما۔

اسی طرح دوسری نظموں  میں  ’ضوگستری‘  چشمۂ حیواں، کشتیِ سیمیں، جلوہ آشام، ’ضو آفتابِ دوام، کوہِ نور، بزمِ انجم، فلک فردزی، فکر فلک رس، فلک تاب  اور  دوسرے  الفاظ و تراکیب موجود ہیں۔

اقبالؔ نے  تلمیحوں  کو بھی اپنے  شعری اظہار کا ذریعہ بنایا ہے، ان تلمیحوں  میں  کئی معنی خیز p روشنی سے  وابستہ ہیں۔ مثلاً:

جلوۂ طور و کلیم، آسمانِ فارس کے  ستارے، چشمِ خلیل  اور  غروبِ آفتاب، آتشِ نمرود، والنجم، صاحبِ مازاع،شقِ قمر، دستِ سفید، جلوۂ او، جمالِ زہرہ، شبِ معراج وغیرہ۔

ان میں  تین p ان کے  بنیادی تصوّرات سے  اس طرح جذب ہو گئی ہیں  کہ ان کی کرنیں  مختلف شعری تجربوں  میں  جذب ہو گئی ہیں۔ جلوۂ طور و کلیم،جلوۂ او،  اور  شبِ معراج، عشق، جستجو  اور  آرزو، جلوۂ لامکاں، خودی، نورِ الٰہی، آئینۂ ادراک  اور  کائنات کے  سفر کے  تجربوں  میں  ان کی روشنی پگھل گئی ہے۔

کلامِ اقبال میں  ان جمالیاتی تصویروں  کی امتیازی صفات، تابناکی، حرارت، وسعت و تہہ داری، بصیرت  اور  حرارت کے  پیکر روشنی کے  ’آرچ ٹائپ‘  کی متحرک  اور  فعال کیفیت کو سمجھتاتے  ہیں۔ اُردو شاعری میں  ذوقِ دیدہ وری  اور  روشن  اور  تابناک ذہنی تصویروں  کی ایسی مثالیں  نہیں  ملتی ہیں۔ ان نوری پیکروں  کے  پیچھے  حرکت کا احساس زندہ  اور  بیدار ہے۔

اقبالؔ کے  تمام بنیادی پیکروں  مثلاً چاند، ستارے، آسمان، آفتاب، صبح، برق، دریا، چشمہ، سمندر وغیرہ قدیم انسان کے  ذہنی پیکروں  کی طرح جانے  پہچانے  ہیں۔ اجتماعی لاشعور کے  یہ جانے  کتنے  تجربوں  کی علامتیں  ہیں۔ یہ قدیم ترین حسی پیکر ہیں۔ ان پیکروں  کا تعلق افسانوی مذہبی رجحان یعنی قبائلی زندگی کے  اُس رجحان سے  بھی گہرا ہے  جو ’مِتھ‘  (Myth)  اور  مذہب کا عطا کیا ہوا رجحان ہے۔ اقبالؔ کی جمالیات میں  ان تاب کار  اور  روشن پیکروں اور اُن سے  خلق کی ہوئی ترکیبوں اور اُن کی شعاعوں  میں  بنی ہوئی صورتوں  سے  قدیم انسان کے  ذہنی  اور  حسی پیکروں  کی طرف بھی ذہن جاتا ہے  جن میں  خاص سیاروں، ستاروں اور درختوں  کی اہمیت ہے، جو اپنے  تحرک کے  باوجود ذہن میں  ٹھہرے  ہوئے  جمے  ہوئے  ہیں اور حسیاتی بن گئے۔  اور  قدیم قبائلی تجربوں  کی طرف بھی جاتا ہے  جن میں  ’متھ‘   اور  مذہب کے  عطا کیے  رجحان (Mythical Religious Attitude) نے  ایسے  پیکر کو بے  حد محبوب رکھا ہے۔ ان پیکروں  سے  جانے  کتنے  تاثرات، تصوّرات  اور  تجربات وابستہ ہیں۔

اقبالؔ کی شعری علامتوں  کے  دو بڑے  سرچشمے  ہیں، ایک اُردو  اور  فارسی شاعری کی کلاسیکی روایات کا  اور  دوسرا اسطور  اور  مذاہب کا۔ استعارات، تمثال، تراکیب تلمیحات  اور  اسطور کی دنیا میں  شاعری کی جمالیاتی فکر نے  ایک بڑا سفر کیا ہے۔ شاعر کی ’سائیکی‘  نے  ماضی کے  جانے  کتنے  ’امیج‘   اور  پیکر کو متحرک  اور  معنی خیز بنا دیا ہے  کہ جن سے  ’ا4‘  (Images) کی ایک بڑی دنیا سامنے  آ جاتی ہے اور قاری کے  ذہن میں  انگت حسی پیکر (Psychic Images)اُبھر آتے  ہیں۔ غالبؔ کی طرح اقبالؔ نے  بھی حسی پیکروں  کی ایک کائنات سجادی ہے  جس سے  شاعر کی اپنی اساطیر کی ایک دنیا وجود میں  آ گئی ہے۔ اقبالؔ کا نیا استعاراتی نظام ’آرچ ٹائپس‘  کے  تحرک کو حد درجہ محسوس بناتا ہے ۱؂۔ ’سائیکی‘ ، ’آرچ ٹائپس‘  کی گہرائیوں  میں  اُترتی ہے  تو ایسی جہتیں  نمایاں  ہوتی ہیں۔ چشمِ حیواں، دیوارِ یتیم، سحرِ قدیم، باغِ بہشت، چشمۂ آفتاب، خضر بے  برگ و ساماں، میراثِ خلیل، ضربِ کلیم، سوز و سازِ روی، شوکتِ تیموری، صورِ اسرافیل، متاعِ تیموری، چوبِ کلیم، حیرتِ فارابی، خونِ اسرافیل، جبریل کی چاک قبا، مثلِ کلیم، جامِ جمشید، قصۂ فرعون و کلیم،نغمۂ جبریل، قافلۂ حجاز کا حسینؓ، خوابِ اسکندر، طلسمِ افلاطون، صدقِ سلمانی، مآلِ سکندری، خانۂ فرہاد، بتخانۂ بہزاد، نوائے  حلاج، اولادِ ابراہیم، سینۂ بلالؓ، بانگِ اسرافیل، ساحرِ الموطہ، آتشِ نمرود، جذبِ کلیمانہ، طلسمِ سامری، محمود و ایاز، شمشیرِ سکندر، کلیمِ بوذر، ترکانِ تیموری، مقامِ شبیری، زورِ حیدری، کلیمِ الٰہی وغیرہ۔

کلامِ اقبالؔ کی جمالیات سے  استعاروں، پیکروں، ترکیبوں، کنایوں، تلمیحوں اور اسطوری اشاروں  کی ایک حیرت انگیز دنیا سامنے  آ جاتی ہے۔ کلاسیکی  اور  رومانی دونوں  مزاج موجود ہیں۔  اور  کلاسیکی  اور  رومانی کیفیتوں  کی آمیزش  اور  ان کے  امتزاج سے  اکثر استعارے اور پیکر بے  حد روشن بن گئے  ہیں۔ غالبؔ کے  بعد لفظوں  کی ایسی دیومالا  اور  کہیں  نظر نہیں  آتی، ایک بڑے  خلاّق ذہن کے  تراشے  ہوئے  پیکر  اور  استعارے  مفاہیم کے  دائرے  کو پھیلاتے  ہیں اور علامتوں  کی صورتوں اور ذیلی علامتوں  کی شکلوں  میں  بھی ذہن  اور  احساس و جذبے  سے  رشتہ قائم کر لیتے  ہیں۔

اقبالؔ کی جمالیات میں  جہاں  روشنی کی جمالیات جمالیاتی جذبے  کی صورت متاثر کرتی ہے  وہاں  جمالیاتی شعری تجربہ بہت قیمتی ہو گیا ہے، محسوس ہوتا ہے  جیسے  خارجی کیفیت نے  ’سائیکی‘  پر باطنی ہیجانات سے  ایک معنی خیز رشتہ قائم کر لیا ہے۔

ہندوستانی علمائے  جمالیات نے  کہا ہے  کہ ’رس‘  یا جمالیاتی جذبہ پہلے  موجود نہیں  ہوتا تخلیقی عمل میں  پیدا ہوتا ہے اور پیکروں  کی صورتیں  اختیار کرتا ہے۔ ’رَس‘  (Rasa) بنایا نہیں  جاتا، شعوری طور پر اس کی تخلیق نہیں  ہوتی خارج  اور  باطن کی پُر اسرار آمیزش سے  جنم لیتا ہے۔ تخلیقی عمل میں  لاشعور میں  پوشیدہ جمالیاتی تجربوں  سے  جب کسی خارجی کیفیت کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے  تو یہ کیفیت اپنی صورت میں  موجود نہیں  رہتی پُر اسرار داخلی عمل سے  اس کی صورت جمالیاتی ہو جاتی ہے۔ ایک سے  زیادہ جذبے  اپنے  رنگوں  کے  ساتھ گھل مل جاتے  ہیں اور ’رس‘  کی صورت اختیار کر لیتے  ہیں، آہنگ تبدیل ہو جاتا ہے اور اسی پُر اسرار آہنگ سے  ہمیں  جمالیاتی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ اقبالؔ کے  خوبصورت شعری تجربوں  میں  ’رس‘  موجود ہے۔ عموماً ’آرچ ٹائپس‘  کے  تحرک سے  ’سائیکی‘  میں  ’رس‘  گھلتا ہے۔

باطن میں  اُتری ہوئی ’نگاہ‘  کے  حسیاتی جمالیاتی تجربے  توجہ طلب ہیں:

عالمِ نو ہے  ابھی پردۂ تقدیر میں

میری نگاہوں  میں  ہے  اس کی سحر بے  حجاب

۔۔۔۔۔۔۔۔

تری نگاہ میں  ہے  معجزات کی دنیا

مری نگاہ میں  ہے  حادثات کی دنیا

عجب نہیں  کہ بدل دے  اسے  نگاہ تری

بلا رہی ہے  تجھے  ممکنات کی دنیا

۔۔۔۔۔۔۔۔

حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں  ہے

عکس اس کا مرے  آئینۂ ادراک میں  ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔

نظر آئے  گا اسی کو یہ جہاں  دوش و فردا

جسے  آ گئی میسّر مری شوخیِ نظارہ

۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کائنات چھپاتی نہیں  ضمیر اپنا

کہ ذرّہ ذرّہ میں  ہے  ذوقِ آشکارائی

۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ  اور  ہی نظر آتا ہے  کہ کاروبارِ جہاں

نگاہِ شوق  اگر  ہو شریکِ بینائی

’منڈل‘  (Mandalala) سنسکرت لفظ ہے۔ یونگ نے  اسے  ایک بنیادی حسی لاشعوری پیکر  اور  ایک نہایت ہی اہم ’آرچ ٹائپ‘  کہا ہے۔ ’منڈل‘  کو ہم نسلی  اور  اجتماعی لاشعور کا ’حلقۂ افسوں  و حلقۂ تسخیر‘  کہہ سکتے  ہیں۔ بڑے  فنکاروں  کے حسیاتی  اور  معنی خیز جذباتی تجربوں  میں  جہاں  کئی ’آرچ ٹائپس‘  اُبھرتے  ہیں  وہاں  ’منڈل‘  کا لاشعوری پیکر بھی اُبھرتا ہے۔

اقبالؔ نے  حلقۂ افسوں  یا ’منڈل‘  میں  ’موت‘  کو باطن کے  موجِ نور میں  بہا دیا ہے:

فرشتہ موت کا چھوتا ہے  گو بدن تیرا

ترے  وجود کے  مرکز سے  دُور رہتا ہے

’منڈل‘  ایک نہایت ہی قدیم حسی جمالیاتی تجربہ ہے، یہ دائرہ صدیوں  سے  موجود ہے اور انسان کے  لاشعور میں  متحرّک ہے۔ انسان کے  اجتماعی یا نسلی لاشعور میں  تخلیق کا ایک اہم سرچشمہ ہے۔ ذہن اسے  کسی نہ کسی صورت میں  اُبھارتا رہتا ہے۔ بڑے  فنکاروں  کے  یہاں  یہ ’آرچ ٹائپ‘  زیادہ اُبھر جاتا ہے۔ ممکن ہے  ’سورج‘  اس جمالیاتی تجربے  کی بنیاد ہو۔ دنیا کے  ہر ملک میں  ’منڈل‘  کی علامتیں  ملتی ہیں۔ ’تانتر یوگ‘  میں  اس کی بڑی اہمیت ہے۔ ’مسیحی حلقہ افسوں ‘  کو بھی ذہن میں  رکھئے۔ حضرت عیسیٰ کی وہ تصویریں  توجہ چاہتی ہیں  جن میں  مسیح کے  سر کے  پیچھے  ایک دائرہ ہے۔ ہندو  اور  بدھ آرٹ میں  یہ ’منڈل‘  موجود ہے۔ رام، کرشن  اور  بدھ کی تصویروں اور مجسّموں  میں  یہ دائرہ ملتا ہے۔ قدیم رقص میں  بھی ’منڈل‘  کی علامتیں  ملتی ہیں۔ اس ’آرچ ٹائپ‘  کی بہت سی علامتیں  ملتی ہیں۔ دائرے اور مربعے  جن میں  مرکزی نقطے  ہوتے  ہیں۔ ایسے  مرتب کیے  ہوئے  پیکر جن میں  ارتکاز کا احساس ہو بہت سی بنیادی  اور  کائناتی ترتیبیں  یہ منڈل کی علامتیں  ہیں۔ یونگ نے  ان علامتوں  کو خوابوں  میں  پایا ہے۔ بلاشبہ انسانی فکر  اور  فنکاروں  کے  تخیل  اور  احساس  اور  اس کے  جمالیاتی تجربوں  میں  ’وژن‘  کا مطالعہ کرتے  ہوئے  ’منڈل‘  کے  لاشعوری پیکر کو نظر انداز نہیں  کر سکتے۔ اقبال نے  اس دائرہ یا حلقۂ افسوں  و تسخیر کو انتہائی متحرک  اور  سیّال بنا دیا ہے۔ ان کی فکر و نظر کے  جلال و جمال  اور  تصوّرات کی ڈرامائیت کے  پیشِ نظر ان کی جمالیات میں  ’منڈل‘  کے  حسی پیکر کو ایک خاص جگہ دینا چا ہوں  گا۔

’منڈل‘  کو سمجھاتے  ہوئے  یونگ نے  لکھا ہے  کہ قدیم انسان نے  جب خدا کی ذات کو شدّت سے  محسوس کرنا چاہا تو اس نے  اپنے  خیال کے  انتشار کے  پیشِ نظر ایک حسی دائرے  کو اُبھارا  اور  اسی دائرے  میں  خدا کو محسوس کیا، رفتہ رفتہ یہ حلقہ بہت اہم ہو گیا۔ شعور  اور  لاشعور میں  اس نے  ایک نمایاں  جگہ حاصل کر لی۔ صدیوں  بعد نسلی  اور  اجتماعی لاشعور میں  یہ دائرہ ایک ’آرچ ٹائپ‘  بن گیا۔ اس حلقے  میں  خدا کی جگہ ’شخصیت‘  فرد کی ذات  اور  فرد کی خودی نے  لے  لی۔ خدا  اور  فرد کی شخصیت  اور  ’خودی‘  کے  علاوہ دوسرے  حسیاتی پیکر اُبھرے۔ آرٹ  اور  خصوصاً شاعری میں  کوئی حسیاتی، وجدانی اور جمالیاتی تصوّر اس وقت تک اپنے  طور پر کسی نہ کسی طرح جمالیاتی تکمیل کا احساس نہیں  دلاتا، اپنے  خد و خال نہیں  اُبھارتا جب تک کہ فنکار اس ’آرچ ٹائپ‘  کو شدّت سے  نہیں  اُبھارتا  اور  اس تصوّر کے  گرد سحر  اور  افسوں  کا دائرہ تسخیر کے  شدید احساس کے  ساتھ نہیں  ڈال دیتا۔

اقبالؔ کے  حلقۂ افسوں  و حلقۂ تسخیر میں  ان کے  ’وژن‘  کا مطالعہ ان کی شاعری میں  تخلیقی ’bسی‘  کا مطالعہ ہے۔ اقبالؔ کے  چند بنیادی حسیاتی تصوّرات شدّت سے  متاثر کرتے  ہیں  تو اس کی وجہ یہی ہے  کہ قاری اپنے  احساس  اور  جذبے  کے  ساتھ اس دائرے  یا چکر کو اپنی نگاہوں  کا مرکز بنا لیتا ہے اور جیسے  جیسے  یہ چکر گھومتا ہے  قاری کا احساس زیادہ متحرک  اور  بیدار ہوتا جاتا ہے۔ اُردو شاعری میں  غالبؔ کے  بعد (غالبؔ کے  آتش کو یاد کیجیے ) اقبالؔ کے  علاوہ کسی دوسرے  شاعر نے  اتنی شدّت سے  اس حسیاتی پیکر یا ’آرچ ٹائپ‘  کو متحرک نہیں  کیا تھا۔ خدا، آدم، خودی، عشق، فقر، زندگی، موت، روح، شاہین، ابلیس  اور  دوسرے  حسیاتی  اور  جمالیاتی پیکر اسی حلقۂ افسوں اور حلقۂ تسخیر کو سمجھاتے  ہیں۔ ’منڈل‘  کے  اندر ان کی ڈرامائی خصوصیات بھی توجّہ چاہتی ہیں۔ اقبالؔ کے  اس ’وژن‘  میں  متحرک تخیل  اور  احساس کی شدّت سے  ہم متاثر ہوتے  ہیں۔ اس لاشعوری دائرے  سے  جو حلقۂ افسوں  اقبالیات سے  اُبھرا ہے  اس میں  شاعر کے  ’وژن‘  کا کرشمہ یہ ہے  کہ اتنی علامتوں  میں کوئی علامت دوسری علامت سے  علیحدہ نہیں  ہے، تمام علامتیں  ایک دوسرے  میں  جذب ہیں۔ ایک پیکر کا مطالعہ دوسرے  پیکر کا مطالعہ بن جاتا ہے۔ ان کے  باطنی رشتوں  کا احساس ہوتا ہے۔ تمام خوبصورت شیشے  حلقۂ افسوں  میں  تخیل، احساس  اور  جذبے  کے  رنگوں  کا دھُواں  پھیلا دیتے  ہیں  جیسے  اقبالیات کا موضوع   کل زندگی ہے۔

’جاوید نامہ‘  میں  مولانا رومیؒ، ’پرچھائیں ‘  (The Shadow) اور  ’ضعیف دانش مند‘  دونوں  کے  ’آرچ ٹائپ‘  ہیں۔

’جاوید نامہ‘  کی پوری فضا ڈرامائی ہے، اکثر مقامات پر کشمکش  اور  تصادم کی شدّت بھی ہے، داخلی اضطراب  اور  بے  چینی بھی، کرداروں  کا عمل بھی ہے، علامتی کرداروں  کی معنویت بھی، مکالمہ نگاری بھی ہے اور اُلجھاؤ  اور  سلجھاؤ بھی ہے اور ڈرامائی آہنگ بھی ہے۔ کچھ حصّے  شاعری کا کلائمکس بھی بن گئے  ہیں، آہنگ کا سحر قاری کو اپنی گرفت میں  لیے  رہتا ہے اور اس حد تک کہ اسی آہنگ سے  قاری کے  جذبات وابستہ ہو جاتے  ہیں، اسی پر جذبے  کے  اُتار چڑھاؤ کا انحصار ہے۔ ’جاوید نامہ‘  کے  اچھے  اشعار کے  آہنگ کی تاثیر کم و بیش وہی ہے  جو کلاسیکی پکّے  گانوں  کے  آہنگ کی تاثیر ہے۔ ’جاوید نامہ‘  کا ابتدائی حصّہ ایسا ہے  جو عمدہ ڈراما بن گیا ہے اور ساتھ ہی آہنگ کا جادو پکّے  گانوں  کے  آہنگ کا جادو محسوس ہونے  لگتا ہے۔

’مناجات‘  کے  بعد ڈرامائی اثرات کی ابتدا ہو جاتی ہے، ہم خود کو صبحِ ازل میں  پاتے  ہیں۔ ’آسمان‘ ، ’زمین‘   اور  ’آوازِ غیب‘  یہ تین کردار اُبھرتے  ہیں اور ان کے  مکالموں  کے  بعد نغمہ ملائک کی گونج سے  ایک نئی ڈرامائی فضا بنتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے  جیسے  ایک ڈراما اپنے  طور پر مکمل ہو گیا۔

’آوازِ غیب‘   اور  ’نغمۂ ملائک‘  سے  ایسے  کردار کی شخصیت محسوس ہوتی ہے  جو اسٹیج پر تو نہیں  ہے  لیکن روشنی کے  پیکر میں  زمین کی تاریکی کو دُور کر رہا ہے۔ ’آوازِغیب‘   میں  اس کے  وجود میں  آنے  کا خوبصورت اشارہ ہے اور ’نغمۂ ملائک‘  میں  اس کی آمد  اور  عظمت کا احساس گہرا ہے۔ ’صبحِ ازل‘  کی منظر نگاری اُردو کی عام نظموں  کی منظر نگاری نہیں  ہے۔ دنیا کی ویرانی کا یہ منظر اُداسی، سنّاٹا، خاموشی  اور  ویرانی کی ایسی تصویر ہے  جسے  دریا، باغ، سبزہ، صحرا، نغمہ، رمِ آہو، سرودِ طائر، شورِ سلاسل سب کو سمیٹ کر کوئی اچانک لے  گیا ہو۔ جب زمین پر زندگی نہیں  تھی تو ’کچھ نہیں ‘  کا ماحول یہ تھا کہ کسی پہاڑ میں  کوئی ندی سرگرم سفر دکھائی دے  رہی ہے اور نہ اس طرف کے  صحراؤں  میں  بادل کے  ٹکڑے  آپس میں ٹکرا رہے  ہیں۔ درختوں  کی ٹہنیوں  پر پرندوں  کی آوازیں اور نہ سبزہ زاروں  میں  ہرنوں  کی محوِ خرامی، اس کا پورا وجود دھوئیں  کی چادر میں  لپٹا پڑا ہے۔ اس خطے  کے  سبزے  پر تہہ در تہہ یخ جمی ہوئی ہے اور اُس نے  ابھی تک بادِ بہاری کا کوئی جھونکا محسوس نہیں  کیا ہے۔ سبزہ زمین کی گہرائیوں  میں  دفن لگتا ہے  ’کچھ نہیں ‘  کا یہ ماحول ایسا بن گیا ہے  جیسے  کوئی سب کچھ لوٹ کر لے  گیا ہو، زمین کی یہ صورت دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے  جیسے  آئینہ میں  اپنا پنجر دیکھ رہے  ہیں، ’کل‘  ایسا تھا لیکن ہمیں  ایسا محسوس ہوتا ہے  جیسے  یہ ’آج‘  ہی ہوا ہے!

آسمان زمین پر طنز کرتا ہے  کہ اے  زمین میرے  نور سے  تیری روشنی ہے۔ حقیقت یہ ہے  کہ تو خاک ہے، تاریکی کا پیکر ہے، مٹّی  اگر  کوہِ الوند بھی ہو جائے  پھر بھی مٹّی ہی رہے  گی۔ آسمانوں  کی طرح روشنی و پائندہ نہیں  رہے  گی۔ آسمان ایک مغرور کردار کی طرح اُبھرتا ہے اور طنزیہ لب و لہجے  کے  ساتھ مخاطب ہوتا ہے، زمین کو اپنی بے  نوری کا احساس ہوتا ہے اور وہ بے  چین ہو جاتی ہے۔ اسی لمحے  غیب سے  آواز آتی ہے  کہ پریشان نہ ہو۔

روزہا روشن زغوغائے  حیات

نے  ازاں  نورے  کہ بینی درجہات

کی آواز گونجتی ہے اور انسان کی آمد کی طرف اشارہ کرتی ہے:

نورِ جاں  از خاکِ تو آمد پدید!

اس آواز کے  بعد فرشتوں  کا خوبصورت نغمہ گونجتا ہے اور ڈراما اپنے  طور پر مکمل ہو جاتا ہے۔ روشنی  اور  تاریکی کے  تصادم میں  روشنی کی فتح کا احساس شدّت سے  متاثر کرتا ہے،ذوق و شوق، ماہِ و اختر، صد چراغ، آفتاب، خیمہ زربفت، سیمیں  طنات، اُفقِ صبح، تجلّی، نور، روشن، نورِ صبح، نورِ جاں، شعاع مہرومہ، چشم، جمالِ ذات، کوکب وغیرہ اقبالؔ کے  بنیادی رجحان  اور  اُن کے  تجربوں  کے  آئینے  بن گئے  ہیں، نور  اور  روشنی کے  یہ الفاظ  اور  پیکر روشنی  اور  تاریکی کی کشمکش  اور  روشنی کی فتح  اور  صبحِ ازل کے  منظر  اور  غیب کی آواز کی استعارے اور فرشتوں  کے  نغمے  کا آہنگ بن گئے  ہیں۔

رومیؔ کی روح ظاہر ہوتی ہے  تو ’سائیکی‘  پر پیکرِ نور متحرک ہو جاتا ہے۔ رومیؔ کا چہرہ ’آفتاب‘  کی طرح روشن نظر آتا ہے اور پیکر نورِ سرمدی سے  منوّر، اُن کی گفتگو ’آئینہ‘  کی مانند ہے، ’نورِ صفات‘   اور  ’نورِ ذات‘   اور  ’عشق‘  کی روشنی ہی موضوع ہے۔ ’چیست معراج؟‘ ، ’انقلاب اندر شعور‘  کی آواز باطن کی تیز تر روشنی کا شدید تر احساس ہے۔ رومیؔ، اقبالؔ کے  وجود کی روشنی کی لہر بن کر آتے  ہیں، وہ شاعر کے  وجود کا ایک حصّہ ہیں۔ رومیؔ جب ایسی دنیا کا ذکر کرتے  ہیں  جو صبح و شام کی گرفت سے  آزاد ہے  تو ’مناجات‘  میں  اقبالؔ کی آرزو کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ ایسی دنیا جہاں  صبح و شام میں اور جہاں  کوئی بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ’’زرداں  کہ روحِ زماں  و مکاں  است مسافر را‘‘  میں  ’’بسیاحت عالم علوی می برد‘‘  کا  حصہ تمثیل کا ایک خوبصورت نمونہ ہے، التباسِ حسن کی ایک اچھی مثال ہے۔ جمالیاتی نقطۂ نظر سے  نور کا بادل  اور  اس بادل سے  زردان کا ظہور دراصل شاعر کی سیمابی کیفیت کی تمثیلی صورت ہے۔ رومیؔ کی گفتگو سن کر شاعر کی بے  تابی  اور  اس کی سیمابیت اس صورت میں  جلوہ گر ہوتی ہے۔ جمالیاتی خودعکسی (Aesthetic Self Projection) کی یہ عمدہ مثال ہے۔ اقبالؔ نے  اپنے  لمحاتی احساس  اور  اپنی بے  تابی  اور  لمحاتی سیمابی کیفیت کی یہ لاشعوری جمالیاتی تصویر پیش کی ہے، ایسی تصویریں  آرٹ  اور  ادب میں  ’خواب آلود شعور‘  کی تصویریں  نظر آتی ہیں۔ وقت کے  میکانکی تصوّر کے  ٹوٹ جانے  کے  بعد ہی ایسے  جمالیاتی تجربے  حاصل ہوتے  ہیں، صرف ایک شعر میں  اپنی بے  تابی  اور  سیمابی کیفیت کا اس طرح ذکر کرتے  ہیں:

از کلاش جانِ من بیتاب  شد

در تنم ہر ذرّۂ چوں  سیماب شد

اور  فوراً ’الیوژن‘  یا التباس کا حسن ظاہر ہوتا ہے

ناگہاں  دیدم میانِ غرب و شرق

آسماں  در یک سحابِ ثور غرق

نور کا ایک بادل سامنے  آتا ہے اور اس سے  ایک پیکر نمودار ہوتا ہے، اس کے  دو چہرے  ہیں، ایک چہرہ آتشیں اور روشن ہے اور دوسرا تاریک! آتشیں اور روشن چہرے  کی آنکھیں  کھلی ہوئی ہیں اور تاریک چہرے  کی آنکھیں  بند ہیں۔ پروں  کے  رنگ مختلف ہیں، تخیل کی پرواز غضب کی ہے، زمین سے  کہکشاں  پرواز کر سکتا ہے۔ یہ اقبالؔ کی ’پرچھائیں ‘  (Shadow) ہے۔ یونگ نے  ’پرچھائیں ‘  کے  تاریک  اور  روشن پہلوؤں  کی جو تعریف کی ہے  وہ اقبالؔ کے  ایسے  پیکروں  پر صادق آتی ہے۔ اقبالؔ کے  اجتماعی لاشعور نے  اسے  اساطیری پیکر بنا دیا ہے۔ اس پیکر کی جمالیاتی تخلیق ذاتی لاشعور  اور  اجتماعی لاشعور دونوں  کے  گہرے  باطنی رشتے  سے  ہوئی ہے۔

یونگ نے  ’پرچھائیں ‘  کے  مثبت  اور  روشن پہلو پر بھی زور دیا ہے۔ کہا ہے  کہ اس کے  باطن میں  روشنی متحرک رہتی ہے۔ رومیؔ کا پیکر خود ایک پرچھائیں  ہے۔ شاعر نے  اپنی پرچھائیں  کی روشنی کو رومیؔ کا پیکر بنا دیا ہے، رومیؔ کی گفتگو میں  بہتر تجربوں  کی روشنی، لب و لہجے  میں  خود اعتمادی، معلّمانہ شخصیت۔۔۔ یہ ’پرچھائیں ‘  کے  ’آرچ ٹائپ‘  کی وہی صورت ہے  جسے  یونگ نے  دانش مند ضعیف (Wise Od Man) کہا ہے۔ یہ پیکر فنکار کے  باطن کا آئینہ ہوتا ہے۔ زردان اسی کا ایک پہلو ہے  جو اساطیری شخصیت کے  ساتھ سامنے  آیا ہے۔ ’جاوید نامہ‘  کے  اس باب کو پڑھتے  ہوئے  اکثر احباب یہ سوچتے  ہیں  کہ سفر تو رومیؔ کے  ساتھ ہوتا ہے  اچانک زردان ہم سفر کیسے  بن جاتا ہے۔ دراصل ایک ہی پرچھائیں  کے  یہ دو پہلو ہیں، یہ خود فنکار کی شخصیت کے  جلوے  ہیں، یہ سفر بظاہر عالم بالا کا سفر ہے  لیکن سچائی یہ ہے  کہ اس کے  بہتر حصّے  لاشعور کی گہرائیوں  کا سفر ہے اور لاشعور کے  سفر میں  ’پرچھائیں ‘  کی ایک سے  زیادہ صورتیں  اُبھرتی رہتی ہیں، دانش مند ضعیف (Wise Od Man) قدم قدم پر روشنی عطا کر نے  والا ہوتا ہے۔ دراصل وہ ’معنویت‘  کا ’آرچ ٹائپ‘  ہے۔ اسی لیے  یونگ نے  اسے  ’روحانی باپ‘  کہا ہے۔ ایسے  حسی پیکروں  کو نفسیات کے  علماء لاشعور کی گہرائیوں  سے  اُبھرتے  ہوئے  دیکھتے  ہیں اور صوفی اعلیٰ روحانی قدروں  کی سیّال کیفیتوں  سے  ایسی صورتوں  کو پیدا ہوتے  دیکھتے  ہیں۔ یونگ نے  ایسی علامتوں  کو کیمیا گر قوّت کی تخلیق کہا ہے۔ اس پیکر کو اپنا آئینہ بنا کر اقبالؔ نے  خود کو اس طرح دیکھا ہے  کہ اس کے  مزاج میں  خیال کی سی تیز رفتاری پائی جاتی ہے، چنانچہ اس سریع رفتاری کی بدولت زمین سے  کہکشاں  تک کا سفر محض ایک قدم ہے۔ اُس کی سیمابی طبیعت کا عالم یہ ہے  کہ ہر لمحہ اُس میں  نئی دھن رہتی ہے اور وہ ہر پل نئی فضا میں  پرواز کر نے  کی بات سوچتا رہتا ہے۔ پوری نظم میں  روشنی کا ’آرچ ٹائپ‘  متحرک ہے۔ منوّر الفاظ جمالیاتی تجربوں  کے  اظہار کا وسیلہ بن گئے  ہیں۔ سیماب، سیمابِ نور، فرشتہ، آتش، روشن شہاب، چشم، سیمیں، کہکشاں، نگہ، فردوس، چشمِ دل یہ سب روشنی کے  پیکر ہیں۔ اقبالؔ نے  محسوسات کا جو عالم پیش کیا ہے  وہ ’پرچھائیں ‘  کی نگاہ کا کرشمہ ہے۔

’جاوید نامہ‘  میں  روشنیوں  میں  روشنی کا سفر دراصل اپنی نفسیاتی تکمیل کا احساس ہے۔ جمالیاتی نقطۂ نظر سے  یہ ایک پُر اسرار نفسیاتی سفر ہے۔ لاشعور میں  روشنیوں  کے  پیکروں  کی تلاش سے  سفر حد درجہ مشکل ہے  لیکن جذبے  کی روشنی  اور  گرمی سے  تمام مشکلوں  کو آسان کر دیا گیا ہے۔ یونگ نے  کہا ہے  کہ ایسے  سفر میں  پہلی ملاقات اپنی ’پرچھائیں ‘  سے  ہوتی ہے۔ یہاں  مولانا رومیؔ کا پیکر ضعیف دانش مند کا حسیاتی پیکر ہے، یہ اقبالؔ کی پرچھائیں  ہے۔ زردانؔ جو ڈرامائی طور پر نمودار ہوتا ہے  وہ اسی پرچھائیں  کا ایک معنی خیز پہلو ہے۔ نفسیاتی تکمیل کا احساس اسی وقت زیادہ ہوتا ہے  جب اپنی پرچھائیں  کی پہچان ہو جاتی ہے۔ ابتدا میں  ویران زمیں  کی تصویر نور کا بادل، زردان کی صورت  اور  فلک قمر کے  آتشیں اور ویران پہاڑ اور  پُر اسرار غار۔۔۔ سب اجتماعی لاشعور کے  مختلف ’آرچ ٹائپس‘  کے  استعارے  ہیں۔ اقبالؔ نے  انھیں  اپنے  احساسِ جمال سے  فنی صورتیں  عطا کی ہیں۔ ایسے  نفسیاتی سفر میں  جو قیمتی تجربے  حاصل ہوتے  ہیں  وہ نفسیات کی اصطلاح میں  ’سونے  کے  پھول‘  ہیں، احساسِ جمال کا یہ چکر اپنے  وجود کا چکر ہے۔

’فلک قمر‘  کے  تیسرے  بند میں  بہت سے  پہاڑ ہیں۔ کوہ ہائے  آتش فشاں  کے  پیکر سفر کی پُر اسراریت  اور  پیچیدگی کا احساس گہرا کرتے  ہیں، سنّاٹے اور خاموشی کی فضا ہے  جہاں  نہ کوئی پرندہ ہے اور نہ سبزہ جیسے  ساری زندگی کوئی سمیٹ کر لے  گیا۔ چوتھے  بند میں  رومیؔ کی آواز باطن کی آواز بن جاتی ہے، اپنے  وجود کے  اندر جانے  کتنے  غار ہیں، یہ پرچھائیں  ایک غار کے  اندر داخل ہونے  کا اشارہ کرتی ہے۔ دونوں  غار کے  اندر داخل ہوتے  ہیں۔ اقبالؔ نے  باطن کے  اس غار کی فضا کو انتہائی فنکارانہ انداز میں  پیش کیا ہے۔ تاریکی، اندھیرا  اور  اس کے  بعد روشنی! آفتاب کا وجود نہیں  ہے  لیکن صبح کی روشنی ہے! پتھروں  پر دھاریاں  جیسے  زُنّار پہنے  ہوئے  ہوں، یہ پتھر، دیوزاد د رخت جیسے  یہاں  دیو رہتے  ہوں!  اور  ایک درخت کے  نیچے  ایک ہندی عارف، ننگے  بدن، بال سر کے  اوپر بندھے  ہوئے اور ایک سفید سانپ حلقہ زن!

وہ منظر بھی توجہ طلب ہے  جب عارف ہندی جلوۂ ذات میں  غرق ہو جاتا ہے، اسی لمحے  روشنی کا ایک  اور  پیکر ’نازنین‘  کی صورت نمودار ہوتا ہے۔ یہ حسن  اور  نغمے  کا لذّت کا آمیز ’امیج‘  ہے۔

اقبالؔ کی ’سائیکی‘  نے  ’آرچ ٹائپس‘  کو جس طرح متحرک کیا ہے  اس کی عمدہ مثالیں  اُن کے  کلام میں  موجود ہیں ۱؂۔

 

فراقؔ گورکھپوری مشترکہ ہندوستانی تہذیب و تمدّن کے  تمام ’رسوں ‘  کو لیے  اپنی جمالیاتی فکر و نظر کے  ساتھ سامنے  آتے  ہیں۔ اپنے  ملک کی مٹّی کی جو خوشبو ان کے  کلام میں  ملتی ہے  وہ اُردو کے  کسی بھی شاعر کے  کلام میں  نہیں  ملتی۔ ان کی ذہنی تربیت اسی زمین کی باس سے  ہوئی ہے  جس کی وجہ سے  اُن کے  کلام میں  پوری اُردو شاعری کے  پیشِ نظر ایک منفرد جمالیاتی شعور  اور  مزاج ملتا ہے:

ہر نقش اجنتا کا وہ چلتا جادو

وہ حسن و جمال کے  بدلتے  پہلو

وہ بت سازی کہ جان پتھر میں  پڑے

ہے  تاج کہ رخسارِ قضا پر آنسو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چڑھتی جمنا کا تیز ریلا ہے  زلف

بل کھایا ہوا سیاہ کوندا ہے  زلف

گوکل کی اندھیری رات دیتی ہوئی لو

گھنشیام کی بانسری کا لہرا ہے  کہ زلف

ہندوستانی اساطیر سے  مشترکہ تمدّن تک اُن کا تخلیقی ’وژن‘  ایک سفر کرتا ہے اور رس بھرے  تجربوں  کی ایک منفرد فضا خلق ہوتی ہے۔ فراقؔ حسن کے  شیدائی ہیں، ان کا احساسِ جمال حد درجہ متحرک ہے، زندگی کے  جلال و جمال کے  آہنگ سے  رشتہ اس طرح قائم کیا ہے  کہ اس کی مثال اُردو شاعری میں  نہیں  ملتی۔ اس سچائی کا احساس اُنھیں  خود بھی ہے  کہتے  ہیں:

ہر جلوے  سے  اِک درسِ نمو لیتا ہوں

لبریز کئی جام و سبو لیتا ہوں

پڑتی ہے  جب آنکھ تجھ پہ اے  جانِ بہار

سنگیت کی سرحدوں  کو چھو لیتا ہوں

فراقؔ ہندوستانی اساطیر کی رومانیت  اور  اس کی جمالیات کو تہذیب کی ایک بہت بڑی نعمت تصوّر کرتے  ہیں۔ اس کی پہچان کئی مقامات پر ہوتی ہے۔ ایک جگہ تحریر کیا ہے۔

’’کالی داس نے  میگھ دوت میں  ایک عاشقِ مہجور کی آنکھوں  سے  ہمیں  اس مسلسل مرقعے  (Panorama) کی سیر کرائی ہے  کہ ہماری آنکھیں  کھل جاتی ہیں۔ شیو  اور  پاروتی کی داستانِ  محبت میں  عمل، ایثار پاکدامنی کی جگمگاہٹ، رامائن کے اور واقعات کے  گردو پیش (Setting)، رام  اور  سیتا کی داستانِ  محبت، بال  اور  تارا کی  محبت، میگھناتھ  اور  سلوچنا کی  محبت، مہابھارت میں  گارگی  اور  دھرتراشٹر کی داستانِ وفا، پانڈوؤں اور دروپدی کی وہ بیکراں  داستانِ  محبت جس سے  ویر رس، شرنگار رس، کرونڑرس،زندگی،  محبت، عشقیہ  اور  غیر عشقیہ شاعری کے  تمام رس  اور  جسم چھلکے  پڑتے  ہیں۔ نل دمن، شکنتلا، ساوتری ستیہ وان کے  افسانے  کائنات و حیات کے  کن پہلوؤں  کو مسائل پر حاوی نہیں  ہیں،  محبت یہاں  دنیا سے  آنکھ نہیں  چراتی، عمل سے  منہ نہیں  موڑتی ہمارے  سامنے  چھوٹی چیز بن کر نہیں  آتی، یہ عشقیہ شاعری بیک وقت ایک آہ  اور  ایک للکار ہے، بیک وقت دعوتِ عشق و  محبت و دعوتِ عمل دیتی ہے۔‘‘

(اُردو کی عشقیہ شاعری۔۔ فراق، پہلا ایڈیشن جنوری ۱۹۴۵ء صفحہ ۲۱)

فراقؔ جیسے  لمسیاتی و حسیاتی شاعر نے  عشق کو روح کا جوہر سمجھتے  ہوئے  ہندوستانی تہذیب و تمدّن  اور  ہندوستانی ادب کے  باطن میں  اُتر نے  کی کوشش کی ہے  تاکہ اس ملک کی سائیکی  اور  جمالیاتی فکر و نظر کی بہتر پہچان ہو سکے۔ عشق کی قدر و قیمت کا اندازہ کرتے  ہوئے  وہ اساطیر  اور  ادب کی گہرائیوں  میں  اُتر جاتے  ہیں۔ کاویہ لٹریچر کے  ساتھ انگریزی، سنسکرت  اور  فارسی ادب نے  بھی اپنی ایک نظر بخشی ہے۔

فراقؔ نے  گیٹے  (فاؤسٹ)، شیکسپیئر، ڈانٹے، فردوسی وغیرہ کا ذکر کرتے  ہوئے  کہا ہے  کہ ان فنکاروں  نے  حسن و  محبت کے  خوبصورت ڈرامے  کائنات و حیات  اور  تاریخِ انسانی کے  گرد و پیش میں  پیش کیے  ہیں۔ اچھے  ادب کی تلاش میں  وہ سنسکرت کلچر  اور  سنسکرت  ادب تک پہنچتے  ہیں اور اساطیری کرداروں  کا ذکر کرتے  ہیں، مثلاً ایک جگہ تحریر کیا ہے:

’’سادگی و   پرکاری خیر و برکت  اور  سلامتی کا وہ مانوس انداز  اور  وہ رس جسے  ہم آبِ حیات یا امرت کہیں  پیدا نہیں  ہو سکتا جو سنسکرت ادب  اور  سنسکرت کلچر کو نصیب ہے۔ سنسکرت ادب حیات نما  اور  حیات آمد دونوں  ہے  اس سے  جو غزلیت رام  اور  کرشن، سیتا  اور  رادھا  اور  شکنتلا کے  تصوّر میں  موجود ہے  وہ غزلیت نہ قیس میں  ہے  نہ فرہاد میں، نہ لیلیٰ میں  نہ شیریں  میں،  اور  کون کہہ سکتا ہے  کہ رامؔ کرشن، سیتا، رادھا، شکنتلا، ساوتری  اور  پاروتی کی زندگی میں  جانگداز  اور  استخواں  سوز آزمائشیں  نہیں  تھیں  لیکن سنسکرت وجدان نے  غم کے  ان عناصر کو کیا بنا دیا۔‘‘

(اُردو کی عشقیہ شاعری۔ ص ۱۲۰۔ ۱۲۰)

فراقؔ صاحب نے  ہندوستانی اساطیر سے  جو تخلیقی رشتہ قائم کیا ہے  اس سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ اُنھوں  نے  تشبیہوں، استعاروں اور کنایوں اور اشاروں  کے  لیے  کرداروں  کی شخصیتوں  کے  حسن کو احساس  اور  جذبے  کے  قریب کیا ہے۔ مثلاً:

کرونڑا رس۱؂ کی سریلی کوتا ہے  بدن

اُٹھتے  ہوئے  درد کا ترانا ہے  بدن

رادھا کے  آنسوؤں  کے  ہلتے  ہوئے  تار

کل گوپیوں  کے  برہ کی پیڑا ہے  بدن

۔۔۔۔۔۔۔۔

آ جا کہ کھڑی ہے  شام پردا گھیرے

مدّت ہوئی جب ہوئے  تھے  درشن تیرے

مغرب سے  سنہری گرد اُٹھی سوئے  قاف

سورج نے  اگنی رتھ کے  گھوڑے  پھیرے!

۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ نبض کی موجِ درد، وہ سوزِ دروں

نرم اُلٹی سانسیں اور وہ حالِ زبوں

ہے  شیو کا رقص حسن کا عالمِ نزع

رگ رگ میں  موجِ کرب، چہرہ پہ سکوں

۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ رُوپ کہ کامدیو جس کا ہو شکار

وہ رنگ اوشا نے  جیسے  چھیڑا ہوستار

وہ ہونٹوں  کا رس جانِ طراوت ہر بوند

وہ گات کہ سر سے  ایڑیوں  تک چمکار

۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ہونٹ ڈرے  ڈرے  نگاروں  سے  دُعا

معصوم آنکھوں  میں  اشک چھلکا چھلکا

زہرابِ وفا کو حسن کرتا ہے  قبول

یا بس کا پیالہ شیو نے  ہاتھوں  میں  لیا

۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ہلکے  سلونے  سانولے  پن کا سماں

جمنا جل میں اور آسمانوں  میں  کہاں

سیتا پہ سوئمبر میں  پڑا رام کا عکس

یا چاند سے  مکھڑے  پہ ہے  زلفوں  کا دھُواں

۔۔۔۔۔۔۔۔

مدھوبن کے  بسنت سا سجیلا ہے  وہ رُوپ

برکھا رُت کی طرح رسیلا ہے  وہ رُوپ

رادھا کی جھپک کرشن کی برزوری ہے

گوکل نگری کی راس لیلا ہے  وہ رُوپ

۔۔۔۔۔۔۔۔

چوکے  کی سہانی آنچ، مکھڑا روشن

ہے  گھر کی لکشمی پکاتی بھوجن

دیتے  ہیں   کرچھلی کے  چلنے  کا پتہ

سیتا کی رسوئی کے  کھنکتے  برتن

۔۔۔۔۔۔۔۔

چہرے  پہ ہوائیاں  نگاہوں  میں  ہراس

ساجن کے  برہ میں  رُوپ کتنا ہے  اُداس

مکھڑے  پہ دھُواں  دھُواں  لتاؤں  کی طرح

بکھرے  ہوئے  بال ہیں  کہ سیتا بن باس

۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ رُوپ مدن۱؂ کے  بھی خطا ہوں  اوسان

یہ سج جو توڑ دے  رتی۲؂ کا ابھمان

پھیکی پڑتی ہے  دھُوپ یہ جوبن جوت

یہ رنگ کہ آنکھ کھول دے  جیون گان۳؂

رادھا، گوپی، اگنی رتھ، شیو کارقص، (نٹ راج)، کامدیو، اوشا، شیو  اور  بس کا پیالہ، سیتا کا سوئمبر، رام کا عکس، کرشن  اور  رادھا، گوکل کی نگری، راس لیلا، سیتا کی رسوئی، سیتا بن باس، رُوپ مدن، رتی، گاتی ہوئی اپسرا، (یہ چندر کرن میں  سات رنگوں  کی جھلک گاتی ہوئی اپسرا گگن سے  اُتری) سلوچنا، ارجن، سدھارتھ، رام کا بن باس، کام دیو، شیو کی جٹا  اور  گنگا کا وجود، کیکئی کا فتنہ یہ سب اساطیر سے  فراقؔ کی ذہنی وابستگی  اور  تخلیقی رشتے  کی خبر دیتے  ہیں۔ استعاروں، اشاروں  علامتوں، تلمیحوں  میں  اساطیری فکر و نظر سے  بڑی بلاغت پیدا ہو گئی ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار پر بھی نظر ڈالیے:

شیو کا وِش پان تو سنا ہو گا

میں  بھی اے  دوست پی گیا آنسو

ہر لیا ہے  کسی نے  سیتا کو

زندگی کیا ہے، رام کا بن باس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہنگام خرام وہ غزال بدست

نقشِ کفِ پا کی شوخیاں  شعلہ بدست

دو پاؤں  سے  چوکڑی بھرے  ہر ڈگ میں

ارجن کی کمان سے  چھوٹے  نارک کی جست

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رشک دل کیکئی کا فتنہ ہے  بدن

سیتا کے  برہ کا کوئی شعلہ ہے  بدن

رادھا کی نگاہ کا چھلاوا ہے  کوئی

یا کرشن کی بنسری کا لہرا ہے  بدن

اپنی نظم ’ہنڈولہ‘  میں  اُنھوں  نے  اساطیری کرداروں  کا جو ذکر کیا ہے  وہ بھی قابلِ توجہ ہے۔ رام، کرشن (کرشن لیلا)، سیتا، سلوچنا، رادھا، سدھارتھ، بھرت، کپل، ویاس، منو، والمیک، وشوامتر، گوتم، وغیرہ کا ذکر ہے۔ اساطیر کی دُنیا سے  اپنے  دَور تک تہذیبی تمدّنی اقدار کے  سفر پر ایک شاعر کی حیثیت سے  اظہارِ خیال کیا ہے۔

مندرجہ ذیل دو اقتباسات سے  فراقؔ کے  تخلیقی ذہن  اور  ان کی گہری بلیغ فکر و نظر کی بہتر پہچان ہو جائے  گی۔ اُن کی سائیکی ’آرچ ٹائپس‘  کو کیوں  متحرک  اور  بیدار کرتی ہے  اس کا بہت حد تک اندازہ ہو جائے  گا:

’’اس تہذیب (ہندوستانی تہذیب) کی قدروں  کو جاننے، سمجھنے اور محسوس کر نے  کے  لیے  یہاں  کی لوک کتھائیں، لوک گیت، تیوہار، کئی رسوم، روزانہ زندگی کے  جذبات، کچھ علائم، یہاں  کی سنگیت کلا  اور  دوسری کلائیں  مثلاً فن بت گری، فن تعمیر، چتر کلا رقاصی  اور  گھریلو صنعتوں  میں  جو لوچ و نزاکت و نرمی جو سگھڑپن  اور  سہانا پن ہے، جو شانت رس ہے، ہندوستانی تہذیب میں  بچپن کا تصوّر، عورت کا تصوّر ان سب چیزوں  نے  مل کر صدیوں  میں  ایک مزاج و کردار کی تخلیق و تعمیر کی ہے۔‘‘                                                              (گل بانگ، صفحہ ۳۵۔ ۳۴)

’’میں  نے  اپنی غزلوں  میں  چاہا ہے  کہ اپنے  ہر اہلِ وطن کو ہندوستان کا  اور  ہندوستان کے  مزاج  اور  روحِ عصر کا صحت مند تصوّر دے  سکوں۔ میں  نے  چاہا ہے  کہ میری شاعری اس دھرتی کی شاعری رہے۔ یعنی اس میں  یہ دھرتی بولتی ہوئی  اور  رقص کرتی ہوئی سنائی  اور  دکھائی دے  جو کروڑوں  سال پرانی ہوتے  ہوئے  بھی ہمیشہ اپنے  آپ کو نیا کرتی رہتی ہے، یہ دھرتی جو سدا بہار  اور  سدا سہاگن ہے۔‘‘  (پچھلی رات کے  دیباچے  سے )

فراقؔ کے  کلام کا مطالعہ کرتے  ہوئے  یہ بات بہت واضح ہو جاتی ہے  کہ ’عورت‘  ان کی شاعری میں  ایک بنیادی ’آرچ ٹائپ‘  (Archetype)کی حیثیت رکھتی ہے۔ اُردو شاعری میں  صرف میرؔ  اور  فراقؔ دو ایسے  بڑے  شاعر ہیں  کہ جن کی تخلیق میں  ’عورت‘  ایک بہت ہی واضح متحرک ’آرچ ٹائپ‘  کی طرح سامنے  آئی ہے۔ گوشت پوست کا یہ جمالیاتی پیکر سلطان قلی قطب شاہ کی گوشت پوست کی عورتوں  کے  ہجوم سے  علیحدہ ہے۔ یونانی اساطیر کی وہ کہانی یاد کیجیے  کہ جس میں  عظیم دیوتا انسان کی تخلیق کرتے  ہیں، تخلیق کے  بعد احساس ہوتا ہے  کہ یہ بہت بڑی تو انائی ہے، بہت ہی بڑی طاقت، انسان دیوتاؤں  سے  بھی ٹکرا سکتا ہے اور انھیں  شکست دے  سکتا ہے۔ بڑے  دیوتا نے  اپنی اس طاقتور تخلیق کو دو حصّوں  میں  تقسیم کر دیا، مرد  اور  عورت یہی دو حصّے  ہیں  جو ایک دوسرے  کی تلاش میں  سرگرداں  رہتے  ہیں، عورت کو اس کا حصّہ مل جاتا ہے اور مرد کو اس کا حصّہ تو ایک بہت بڑی طاقت پیدا ہو جاتی ہے، زندگی  اور  تو انائی کی تخلیق کا ایک سلسلہ قائم ہو جاتا ہے، آج بھی اپنے  نصف حصّے  کی تلاش جاری ہے، مرد کے  لیے  عورت  اور  عورت کے  لیے  مرد ایک قدیم تر ’آرچ ٹائپ‘  ہے۔ ’سائیکی‘  کی گہرائیوں  میں  اُترکر اس ’آرچ ٹائپ‘  سے  رشتہ قائم ہوتا ہے۔ تلاش کا یہ عمل جانے  کب سے  جاری ہے۔ تلاش کرتے  کرتے  اپنے  وجود کے  دوسرے  حصّے  کی پہچان ہونے  لگتی ہے، ایک دوسری الوہی خوشبو ملنے  لگتی ہے، وجود کے  آہنگ کا احساس ملنے  لگتا ہے  تو بہت گہرے  تہہ دار جمالیاتی تاثرات اُبھر نے  لگتے  ہیں۔ میرؔ کہنے  لگتے  ہیں:

گل ہو، مہتاب ہو، آئینہ ہو، خورشید ہو میرؔ

اپنا محبوب وہی ہے  جو ادا رکھتا ہو!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرؔ کیا بات اس کے  ہونٹوں  کی

جینا دوبھر ہوا مسیحا پر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گل و آئینہ کیا خورشید و مہ کیا

جدھر دیکھا تدھر تیرا ہی رو تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گل کو محبوب ہم نے  قیاس کیا

فرق نکلا بہت جو باس کیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس گلِ ترکی قبا کے  کہیں  کھولے  تھے  بند

رنگ و گلِ برگ سے  ناخن ہے  معطر اپنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جی پھٹ گیا ہے  رشک سے  چسپاں  لباس کے

کیا تنگ جامہ لپٹا ہے  اس کے  بدن کے  ساتھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتنی سڈول دیہی دیکھی نہ ہم سنی نے  ہے

ترکیب اس کی گویا سانچے  میں  گئی ہے  ڈھال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گوندھ کے  گویا پتی گل کی وہ ترکیب نہائی ہے

رنگ بدن کا تب دیکھو جب چولی بھیگے  پسینے  میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ستھرائی  اور  نازکی گلبرگ کی درست

پر ویسی بو کہاں  کہ جو ہے  اس بدن کے  بیچ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا لطف تن  چھپا ہے  مرے  تنگ پوش کا

اُگلا پڑے  ہے  جامے  سے  اس کا بدن تمام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نازکی اس کے  لب کی کیا کہیے

پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے

اور  فراقؔ کے حسیاتی، لمسیاتی، رومانی، جمالیاتی تجربے  اپنی لذّت آمیز تہہ داریوں  کے  ساتھ اس طرح تخلیقی صورتوں اور پیکروں  میں  نمایاں  ہونے  لگتے  ہیں۔ دماغ میں  ’خیال کی خوشبو‘  لیے  محبوب پر نظر پڑتی ہے:

اُس الاپ کا یہ شعلہ جسے  سازِ زیست کھینچے

تجھے  کیا بتاؤں  کیا ہے  تری قامتِ کشیدہ

تبسّم کی یاد آتی ہے  تو لگتا ہے  جیسے  مندروں  میں  چراغ جھلملا رہے  ہیں، تاروں  کی آنکھوں  سے  چھپ کر وہ پاؤں  دھرتا ہے  تو نقش پا سے  چراغ جل اُٹھتے  ہیں۔ سر سے  پا تک بدن گلستاں  گلستاں  ہے:

دم بہ دم شبنم و شعلہ کی یہ لویں

سر سے  پا تک بدن گلستاں  گلستاں

محبوب قریب آتا ہے  تو فضا کا رنگ و آہنگ تبدیل ہو جاتا ہے:

مہتاب میں  سرخ انار جیسے  چھوٹے

یا قوسِ قزح لچک کے  جیسے  ٹوٹے

وہ قد ہے  کی بھیرویں  سنائے  جب صبح

گلزارِ شفق سے  نرم کونپل پھوٹے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لرزش میں  بدن کی باغ جنت کی لہک

وجدانِ سیاہ کار گیسو کی لٹک

ہر عضو کے  لوچ کا کچھ ایسا انداز

ست رنگے  دھنش میں  جیسے  آ جائے  لچک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تلوے  سے  بھری ہوئی گلابی چھلکی

نقشِ کفِ پا سے  کوسی لہرا کے  اُٹھی

ہر نقشِ قدم سے  نکلے  جاتے  ہیں  کنول

وہ چال میں  لوچ جیسے  مڑتی ہو ندی

ہونٹوں  کے  رس کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے:

ہونٹوں  میں  وہ رس کہ جس پہ بھنورا منڈلائے

سانسوں  کی وہ سیج جس پہ خوشبو سوجائے

چہرے  کی دمک پہ جیسے  شبنم کی ردا

مد آنکھوں  کامدیو کو بھی چھلکائے

فراقؔ نے  عورت کے  ہر عضو کے  نقشِ جمال کو تخلیقی سطح پر اُجاگر کرتے  ہوئے  جمالیات  اور  جنسیت کے  حسن و تقدس کا جو عرفان بخشا ہے  اس کی مثال نہیں  ملتی۔

عورت کی پیکر تراشی میں  ایسی سحر انگیز کیفیتیں  ہمیں  کب حاصل ہوئی تھیں۔ یونگ نے  عورت کے  ’آرچ ٹائپ‘  کو ’سول امیج‘  (Sou Image)کہا ہے، بلاشبہ فراقؔ نے  عورت کے  پیکر کے  حسن سے  لے  کر جنسی آرزو مندی  اور  جنسی لذّت کی سحر انگیزی تک جو جمالیاتی نقش اُبھارے  ہیں  وہ ’سول امیج‘  کے  سچے ّ عرفان کی گواہی دیتے  ہیں۔ تخلیقی گہرائی کی تہوں  تک شاعر اپنے  ساتھ لے  جاتا ہے اور نفسیاتی جمالیاتی آسودگی عطا کرتا ہے۔ فنکار کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے  کہ اُسے  آہنگ  اور  آہنگ کی وحدت کا حد درجہ شدید احساس ہے، کائناتی آہنگ  اور  انسان کے  وجود کے  آہنگ کی وحدت کا احساس بہت ہی کم شاعروں  کے  کلام میں  ملتا ہے۔ فراقؔ نے  رقص  اور  نغمہ موسیقی  اور  اس کے  نشیب و فراز سے  اپنے  تخلیقی تخیل کو اس طرح وابستہ کیا ہے  یا یہ کہیے  کہ جذب کیا ہے  کہ آہنگ  اور  آہنگ کی وحدت کا احساس ملنے  لگتا ہے۔ عورت  اور  اس کے  حسن و جمال تک پہنچنے  کے  لیے  راگ راگنیوں  کے  مختلف آہنگ کو بڑے  فنکارانہ طور پر ذریعہ بنایا ہے۔ مثلاً:

اسے  جانِ بہار تجھ پہ پڑتی ہے  جب آنکھ

سنگیت کی سرحدوں کو چھو لیتا ہوں

قیامت ہے  کہ انگڑائیاں  لیتی سرگم

ہو رقص میں  جیسے  رنگ دیو کا عالم

ہر عضو کی نرم لَو میں  مدھم جھنکار

پو پھٹتے  ہی بھیرویں  کی آنے  لگی لے

یا نور کی اُنگلیوں  سے  دیوی کوئی

جیسے  شبِ ماہ میں  بجاتی ہو ستار

خاموش نگاہ کے  تکلّم کی قسیم

اس سازِ جمال کے  ترنّم کی قسیم

امرت کی پھوار ہے  کہ نورس آواز

یا پگھلی ہوئی صبح چھلک جاتی ہے

یہ نقرئی آواز! یہ مترنّم خواب

تاروں  پر پڑ رہی ہو جیسے  مضراب

لہجے  میں  یہ کھنک یہ رس یہ جھنکار

چاندی کی گھنٹیوں  کا بجنا تہہ آب

آواز پہ سنگیتکا ہوتا ہے  بھرم

کروٹ لیتی ہے  نرم لے  میں  سرگم

یہ بول سُریلے  تھرتھراتی ہے  فضا

اَن دیکھے  ساز کا کھنکنا پیہم

وہ قد ہے  کہ بھیرویں  سنائے  جب صبح

گلزارِ شفق سے  نرم کونپل پھوٹے

جیسے  تہہِ آب ہو چراغاں  کا سماں

یہ راگنیوں  کے  دل کی چوٹیں  ہیں  کہ رنگ

رنگت ہے  کہ گھنگروں کی مدھم جھنکار

جو بن ہے  کہ پچھلی رات بجتا ہے  ستار

یہ رُوپ کے  گرد سات رنگوں  کی پھوار

جیسے  مدھم سروں  میں  خودگائے  ملہار

وہ بادِ سمر کا رس میں  ڈوبا ہوا راگ

نغمے  کی الاپ ہے  کہ قامت کا تناؤ

کہتا ہے  ہر عفو پینگ شعلوں  کی چڑھاؤ

آ آکے  راگنی کھڑی ہوئی ہے

دیکھے  کوئی سجل بدن کا یہ رچاؤ

یہ شعلۂ حسن جیسے  بجتا ہو ستار

ہر خطِ بدن کیَلو میں  مدھم جھنکار

سنگیت کی کوئی نرم لے  ہے  کہ سکوت!

 

گوکل کی اندھیری رات دیتی ہوئی لو

گھنشام کی بانسری کا لہرا ہے  کہ زلف

رگ رگ میں  تھرتھرائے  روحِ نغمات

 

گنگا میں  چوڑیوں  کے  بجنے  کا یہ رنگ

یہ راگ، یہ جل ترنگ، یہ رَو، یہ اُمنگ

بھیگی ہوئی ساڑیوں  سے  کوندے  لپکے

ہر پیکرِ نازنین کھنکتی ہوئی چنگ

یہ رات! فلک پہ تھرتھراتا سا غبار

شیشے  پر نرم نرم پڑتی ہے  پھوار

یا بیٹھ کے  ماہِ نو میں  دیوی کوئی

چھیڑے  ہوئے  راگنی بجاتی ہے  ستار

گیسو کے  بناؤ میں  لہکتے  ہیں  بھجنگ

پیکر کے  رچاؤ میں کھنکتی ہوئی چنگ

آنکھوں  کے  جھکاؤ میں  ہے  حکومت کی اُمنگ

سینے  کے  تناؤ میں  پکھاوج کی ترنگ

انگ انگ کی لوچ میں  وہ شانِ تسخیر

چھم چھم بجتی ہوئی کمر کی زنجیر

ہنگامِ وصال پینگ لیتا ہوا جسم

بے  لاگ ہنڈول راگ کی ہے  تصویر

عورت خود کائنات کا آہنگ ہے، اپنے  وجود کا دلفریب نغمہ ہے، روح ہے، ’سول امیج‘  (Soul Image) ہے، ’ذات‘  (Self) اس کو خوب جانتی پہچانتی ہے، اسے  اپنے  وجود میں  جذب کر لینا چاہتی ہے۔ ’ذات‘  کو معلوم ہے  کہ اس کے  ہونٹ کو چوسنے  کے  لیے  ساگر ترستا ہے  (وہ ہونٹ کہ چوسنے  کو ساگر ترسے!) اُس کا تجربہ ہے  کہ ہنگامِ وصال جسم پینگ لیتا ہے  تو ’ہنڈول راگ‘  کی تصویر اُبھر آتی ہے اور آنچل کے  تلے  پستانوں  (کچوَ) کے  دیپک جلتے  ہیں، وصل کے  لمحوں  میں  سوسوہاتھوں  سے  تھامنا  اور  سنبھالنا پڑتا ہے اور جب صبح ہوتی ہے  تو دوشیزگیِ جمال بڑھ جاتی ہے  نکھر جاتی ہے:

کٹتے  ہی شب وصال، ہر صبح کچھ  اور

دوشیزگیِ جمال بڑھ جاتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔

ذرا وصال کے  بعد آئینہ تو دیکھ اے  دوست

ترے  جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

’سول امیج‘  (Soul Image) ذات (Self) کا ایک انتہائی دلفریب حد درجہ پُر اسرار تجربہ بن جاتا ہے۔ اپنے  ’نصف وجود‘  کے  حسن و جمال کو اتنے  پاس سے  دیکھنے اور پھر اسے  جذب کر کے  ایک دلنواز وحدت کا اتنا شدید احساس اُردو کے  کسی شاعر نے  اب تک نہیں  بخشا ہے۔ فراقؔ کے  ’سول امیج‘  نے  ’سیکس‘  (Sex) کے  جمال  اور  اس کی پاکیزگی کی منتہا (Cimax)کو جس طرح اُجاگر کیا ہے  اس کی مثال کہیں اور نہیں  ملتی، ہر بار کے  لذّت آمیز تجربے  کا بیان آسان نہیں  ہے :

کچھ ہجر و وصال کا معمہ نہ  کھلا

جل میں  کب بھیگے  کنول کو دیکھا

بیتی ہوں  گی سہاگ راتیں  کتنی

لیکن ہے  آج تک کنوارا ناتا

’سول امیج‘  کی ہم آہنگی سے  باطن کی دنیا روشن ہوتی ہے  تو اسی قسم کے  ارفع خیالات شعری تجربے  بن جاتے  ہیں۔ یونگ نے  تخیلی  اور  تخلیقی عمل میں  حسیاتی  اور  جنسیاتی  اور  لذّت آمیز کیفیتوں  کے  پیچھے  باطن کی دنیا کی روشنی کو ہی اہم تصوّر کیا ہے۔ "Illumination of the inner cosmos” کو بہت اہم جانا ہے۔

اس سے  قبل کہ یونگ کے  اہم تصوّر ’اینیما‘  (Anima)  اور  ’اینی مس‘  (Animus) کا ذکر کروں  چین کے  ایک قدیم تصوّر ’ین‘  (Yin)  اور  ’یانگ‘  (Yang) کی بابت کچھ عرض کرنا چا ہوں  گا۔

 

یانگ (Yang)                                                ین  (Yin)

 

’ین‘  (Yin) عورت کی تو انائی ہے اور یانگ (Yang) مرد کی۔ کہا جاتا ہے  یہ تصوّر ۷۰۰ قبل مسیح پیدا ہوا تھا، بنیادی طور پر یہ روایتی چینی طریقۂ علاج کا تصوّر ہے۔ مرض کی پہچان  اور  اس کا علاج۔ رفتہ رفتہ اس تصوّر کی معنویت پھیلتی گئی۔

’ین‘  (Yin) نسوانی تو انائی ہے، فطرت کا منفی اصول ہے۔ چاند اس کی علامت ہے، ندی کے  بہاؤ سے  اس کی پہچان ہوتی ہے۔ اس کے  برعکس یانگ (Yang) مثبت اصول ہے۔ مرد کی تو انائی، اس میں  تحرک ہے، سورج اس کی علامت ہے، برف سے  اس کی پہچان ہوتی ہے۔ یہ دونوں  اپنی جگہ منفرد تو انائی ہیں، ایک دوسرے  سے  مختلف یہ دونوں  ہمیشہ متحرک ہیں، دونوں  کا ایک دوسرے  پر انحصار ہے۔ یانگ روشنی  اور  ’ین‘  تاریکی۔۔۔ گہری تاریکی کا چمکتا جوہر۔ ’ین‘  دھرتی ہے اور یانگ آسمان لیکن دونوں  ایک دوسرے  کے  بغیر نہیں  رہ سکتے، دونوں  ایک دوسرے  میں  جذب ہو جاتے  ہیں۔ ایک وحدت بن جاتے  ہیں، ’تاؤ ازم‘  نے  اسے  اپنا بنیادی تصوّر بنایا تھا، ’ین‘   اور  ’یانگ‘  دونوں  کائنات کے  تمام مخالف اصولوں  کی نمائندگی کرتے  ہیں۔ ’یانگ‘  (مرد) سورج، گرمی  اور  روشنی کی نمائندگی کرتا ہے اور ’ین‘  (عورت) چاند، ٹھنڈک  اور  پُر اسرار تاریکی کی نمائندہ ہے۔ دونوں  کے  ملاپ سے  تخلیق کا سلسلہ جاری ہے۔

’ین‘   اور  ’یانگ‘  فنونِ لطیفہ کی روح ہے، لاشعور  اور  خصوصاً نسلی یا اجتماعی لاشعور میں  یہ دونوں  ایک دوسرے  کو تلاش کرتے  کرتے  کامیابی کے  بعد ایک دوسرے  میں  جذب ہو جاتے  ہیں۔ آرٹ  اور  خصوصاً شاعری میں  تلاش کا عمل بھی ملتا ہے اور ہم آہنگی کے  حسی  اور  جمالیاتی تجربے  بھی ملتے  ہیں۔ فراقؔ کی شاعری میں  ’ین‘   اور  ’یانگ‘  کی ہم آہنگی کی آرزو سے  ہم آہنگی کی منزل تک کے  حسی جمالیاتی تجربے  ملتے  ہیں  جو اپنی مثال آپ ہیں:

شامیں  کسی کو مانگتی ہیں  آج اے  فراقؔ

گو زندگی میں  یوں  مجھے  کوئی کمی نہیں!

۔۔۔۔۔۔۔۔

ترے  پہلو میں  کیوں  ہوتا ہے  محسوس

کہ تجھ سے  دُور ہوتا جا رہا ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔

ستارے  جاگتے  ہیں  رات لٹ چھٹکائے  سوتی ہے

دبے  پاؤں  کسی نے  آ کے  خوابِ زندگی بدلا

۔۔۔۔۔۔۔۔

درد بھی کم ہے  تم بھی ہو لیکن

دل بہت بے  قرار ہے  اے  دوست

۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ نرم نرم ہَوا جھلملا رہے  ہیں  چراغ

ترے  خیال کی خوشبو سے  بس رہے  ہیں  دماغ

۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بزمِ بے  خودی میں  وجود و عدم کہاں

چلتی نہیں  ہے  سانس حیات و ممات کی

فراقؔ کی شاعری میں  حسن  اور  عورت کی تلاش سے  حسن  اور  عورت کی قربت تک کے  حسی جمالیاتی تجربے  ہیں  جو ’ین‘  (Yin) کے  پیکر  اور  اس کی باطنی تو انائی کا گہرا احساس دیتے  ہیں۔ ’ین‘  کے  حسن و جمال راگ راگنیوں  میں  تبدیل کر دینے  کا جو عمل ملتا ہے  اس سے  شاعر کی تخیلی  اور  تخلیقی فکر کی عظمت کی پہچان ہوتی ہے:

اے  جانِ بہا ر، تجھ پہ پڑتی ہے  جب آنکھ

سنگیت کی سرحدوں  کو چھو لیتا ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔

لہراتے  ہوئے  بدن پہ پڑتی ہے  جب آنکھ

رَس کے  ساگر میں  ڈوب جاتی ہے  نگاہ

۔۔۔۔۔۔۔۔

ہر عضو کی نرم لَو میں  مدھم جھنکار

پو پھٹتے  ہی بھیرویں  کی آنے  لگی لے

۔۔۔۔۔۔۔۔

چہرہ دیکھے  تو رات غم کی کٹ جائے

سینہ دیکھے  تو اُمنڈا ساگر ہٹ جائے

۔۔۔۔۔۔۔۔

سانچے  میں  ڈھلا ہوا یہ شانہ، یہ بغل

جیسے  گلِ تازہ کھلتے  کھلتے  پھٹ جائے

۔۔۔۔۔۔۔۔

ہنگام وصال پینگ لیتا ہوا جسم

سانسوں  کی شمیم  اور  چہرہ گلنار

’رُوپ‘  کی رُباعیوں  میں  ’ین‘  کے  تعلق سے  ’یانگ‘  کے  جو جمالیاتی تجربے  پیش کیے  ہیں  وہ اُردو شاعری کے  لیے  ایک بڑی نعمت ہیں۔

’یونگ‘  (Jung) نے  دو اہم نفسیاتی  اور  حسی تجربوں  کا ذکر کیا ہے۔ ’اینیما‘  (Anima)  اور  ’اینی مس‘  (Animus) ’اینیما‘  مرد کا حسی تجربہ ہے  جس کی وضاحت اس طرح کی ہے  کہ ہر مرد اپنی حوّا کو اپنے  باطن میں  لیے  ہوتا ہے اور ’اینی مس‘  عورت کا حسی تجربہ ہے  جس کی وضاحت اس نے  اس طرح کی ہے  کہ ہر عورت اپنے  آدم کو باطن میں  لیے  ہوئی ہے۔

دونوں  کے  لاشعور میں  حسی سطح پر یہ پیکر ہوتے  ہیں  ان کا اظہار عموماً خوابوں  میں  ہوتا ہے، فنونِ لطیفہ میں  یہ پیکر زیادہ شدّت سے  نمایاں اور ظاہر ہوتے  ہیں۔ عورت، پری، دو شیزہ، شہزادی، دیوی  اور  دوسرے  پیکروں  میں  نظر آتی ہے، کبھی ڈائن، بوڑھی عورت، خوفناک ماں  بھی بن جاتی ہے۔ عورتوں  کے  خوابوں اور ان کی تخلیقات میں  مرد کو خوبصورت پیکروں  میں  ہوتا ہے اور کبھی بدصورت  اور  خوفناک پیکروں  میں، کبھی خونخوار بھیڑیا  اور  ظالم بن جاتا ہے اور کبھی جادوگر، بہت سی عورتوں  نے  ایسے  خواب دیکھے  ہیں  جن میں  ان کی شادی حضرت عیسیٰ سے  ہوتی ہے۔ یہ ’اینی مس‘  (Animus) ہے، یہ لاشعوری حسی سطح خالص جنسی سطح ہے۔ ہوتا یہ ہے  کہ حسی سطح پر دوسرا پیکر ’سول امیج ہوتا ہے  یعنی مرد کا نسوانی پیکر خود اس کے  باطن کا پیکر ہوتا ہے  اسی طرح عورت کا وہ پیکر جو مرد کا ہوتا ہے  خود اس کے  باطن کا ’امیج‘  ہوتا ہے۔

ایسے  حسی پیکر اساطیری  اور  فوق الفطری بن جاتے  ہیں اور ان کی پہچان مشکل ہو جاتی ہے۔ تانتر ہندو ازم  اور  بدھ ازم میں  ایسے  پیکر موجود ہیں۔ شیو کے  ساتھ پاروتی  اور  دُرگا کے  پیکر توجّہ طلب ہیں، کالی ماں  بھی سوچنے  کی دعوت دیتی ہے۔ بڑے  فنکاروں  کی تخلیقات میں  یہ حسی پیکر دلچسپ صورتوں  میں  موجود ہیں۔ گیٹے  کے  فاؤٹ‘ ، ’ورجن‘  (Virgin)  اور  رائیڈرہیگارڈ کی ’شی‘  (She) اس کی عمدہ مثالیں  ہیں۔ ٹیگور نے  اپنی تخلیقات میں  اسے  زندگی کی دیوی کے  نام سے  یاد کیا ہے اور کہا ہے  کہ یہ میرے  خوابوں  کی روح ہے۔ قدیم ترین قصّوں  داستانوں  میں  ایسے  جانے  کتنے  کردار موجود ہیں۔ آرٹ یا فنونِ لطیفہ کی بہتر تشریحوں  میں  ایک تشریح یہ بھی ہے  کہ فنکار خود اپنی نفسیاتی کیفیتوں اور اپنے  نفسیاتی تجربوں  کو علامتوں، ڈرامائی حادثوں اور تجربوں اور ڈرامائی کرداروں  میں  پیش کرتا ہے، ان کی ارتفاعی صورتیں  سامنے  آتی ہیں۔

فراقؔ کی شاعری میں  ’اینیما‘  (Anima) کے  حسی جمالیاتی تجربے  ایک مستقل باب کی حیثیت رکھتے  ہیں۔ ’عورت‘  کے  آرچ ٹائپ سے  ’سائیکی‘  کا رشتہ غیر معمولی نوعیت کا ہے۔ عورت کو حواسِ خمسہ سے  اتنی شدّت سے  شاید ہی کسی دوسرے  شاعر نے  محسوس کیا ہو۔ دیکھا ہے، سنا ہے  سونگھا ہے، محسوس کیا ہے، لذّت حاصل کی ہے، جنسی انبساط پایا ہے۔ اپنی ’سائیکی‘  میں  ’عورت‘  کے  ’آرچ ٹائپ‘  کو اتنی شدّت سے  محسوس کیا ہے  کہ گوشت پوست کی عورت اپنے  تمام حسن کے  ساتھ سامنے  آن کھڑی ہوئی ہے، یہ بڑا خوبصورت تخلیقی کارنامہ ہے:

رس میں  ڈوبا ہوا لہراتا بدن کیا کہنا

کروٹیں  لیتی ہوئی صبح چمن کیا کہنا

مدبھری آنکھوں  کی السائی نظر پچھلی رات

نیند میں  ڈوبی ہوئی چندر کرن کیا کہنا

باغِ جنت پہ گھٹا جیسے  برس کر  کھل جائے

سوندھی سوندھی تری خوشبوئے  بدن کیا کہنا

روپ سنگیت نے  دھارا ہے  بدن کا یہ رچاؤ

تجھ پہ لہلوٹ ہے  بے  ساختہ پن کیا کہنا

۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ نوبہار ناز اُٹھا فضائے  صبح جاگ اُٹھی

وہ تازگی، وہ حسن وہ نکھار وہ صباحتیں

۔۔۔۔۔۔۔۔

جو   چھپ کے  تاروں  کی آنکھوں  سے  پاؤں  دھرتا ہے

اسی کے  نقشِ کفِ پا سے  جل اُٹھے  ہیں  چراغ

۔۔۔۔۔۔۔۔

ذرا وصال کے  بعد آئینہ تو دیکھ اے  دوست

ترے  جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلے  وہ نگاہ اِک کرن تھی

اب یک جہان ہو گئی ہے

ترغیبِ گناہ لحظہ لحظہ

اب رات جوان ہو گئی ہے

دیکھئے  فراقؔ اپنی ’سائیکی‘ اپنی روح کی گہرائیوں  میں  کس حد تک اُترے  ہیں۔

 

اخترالایمان۱؂ کی نظموں  میں  لاشعور کی عکس ریزی کا مطالعہ کیجیے  تو رومانی جمالیاتی خصوصیات کا احساس  اور  زیادہ ہو گا۔ لاشعور میں  فرد کے  ذاتی تجربوں  کے  ساتھ پوری نسل انسانی کے  تجربے  بھی ہوتے  ہیں  وقت ماضی، حال  اور  مستقبل میں  تقسیم نہیں  ہوتا، جذبات  اور  حسیات میں  وقت کی حد قائم نہیں  ہوتی، اجتماعی لاشعور وراثتی سرمایہ کا نام ہے، یہاں  تجربات، توہمات  اور  تحیرات کی وہ کائنات ہے  کہ جس میں  پوری نسلِ انسانی سانس لے  رہی ہے۔

’آرچ ٹائپ‘  (Archetype) کا کردار بہت جذباتی  اور حسیاتی ہوتا ہے  اس کردار کی تشکیل میں  جانے  کتنی نفسی کیفیتوں  کا دخل ہوتا ہے، نفسی کیفیت کی پہچان مشکل  اور  بہت حد تک ناممکن ہے۔ ایک ’آرچ ٹائپ‘  سے  بہت سے  حسی  اور  نفسیاتی تصوّرات  اور  پیکر وابستہ ہوتے  ہیں  اس کا کردار متحرک ہوتا ہے۔ انسان کی تاریخ  اور  انسانی شعور کی ارتقائی منزلوں اور کیفیتوں  میں  اس کی پہچان ہوتی ہے۔ پوری شخصیت ’آرچ ٹائپس‘  کا اظہار ہے، مختلف رجحانات میں  اس کی سچائی ظاہر ہوتی ہے۔ انسانی شعور پسند کرے  یا نہ کرے، اس بنیادی کردار کا عمل جاری رہتا ہے اور اس کے  اثرات ہوتے  رہتے  ہیں، لاشعور میں  ان کی ایک دنیا آباد ہے۔ نظامِ نفسی کے  پیچیدہ عمل سے  شعور  اور  لاشعور میں  بہت سے  حسی  اور  نفسی پیکر بنتے  رہتے  ہیں، ان کی صورتیں  بدلتی رہتی ہیں۔ فنکار کی شخصیت میں  ’آرچ ٹائپس‘  کی تو انائی موجود رہتی ہے، رجحانات میں  اس کی پہچان ہوتی رہتی ہے۔ اکثر اس سچائی کا پتہ ہی نہیں  چلتا کہ فنکار کے  تصوّرات میں  حسی پیکروں  کی کون سی صورتیں  موجود ہیں اور عمل کر رہی ہیں۔ فنکار خود بھی اپنے  لاشعوری حسی پیکروں  سے  بے  خبر رہتا ہے، وہ نہیں  جانتا وہ چند خاص تصوّرات کیوں  پیش کر رہا ہے اور تجربوں  کے  لیے  بعض خاص علامتوں  کا انتخاب کیوں  کر رہا ہے۔ علامتوں  کے  پیچھے  حسی پیکروں  یا ’آرچ ٹائپس‘  کی تو انائی کام کرتی رہتی ہے۔ ’راستہ‘  ایک قدیم ’آرچ ٹائپ‘  ہے، ممکن ہے  ماقبل تاریخ برف کے  زمانے  میں  اُبھرا ہو۔ ’راستے ‘  نے  قدیم انسان کو پہاڑوں  تک پہنچایا، غاروں  تک راہ دِکھائی پھر قدیم عبادت گا ہوں  کی تعمیر ہوئی، جانور قربان کیے  گئے۔ قربانی کی اہمیت کا احساس اتنا بڑھا کہ اس کے  بغیر زندگی کا تصوّر موت کا تصوّر بن گیا۔ غاروں  میں  مصوّری نے  جنم لیا، ’راستہ‘  مشکل بھی تھا  اور  خطرناک بھی، غاروں  تک پہنچنا آسان نہ تھا۔ آ ج تک اس ’آرچ ٹائپ‘  کا عمل جاری ہے۔ پہاڑوں  پر مندروں اور عبادت گا ہوں  کی تعمیر ان عبادت گا ہوں  تک پہنچنے  کا عزم، دُشوار  اور  مشکل راستوں  سے  راہبوں، سادھوؤں اور عقیدت مندوں  کا جانا، مذہبی عقیدوں  میں  شامل ہے، یہ بھی عبادت ہے۔ اس پورے  شعوری عمل کے  پیچھے  راستے  کا قدیم ’آرچ ٹائپ ‘  موجود ہے۔ قدیم حسی پیکر عمل کر رہا ہے، اس شعوری عمل کی تاریخ مصر، جاوا  اور  ہندوستان سے  شروع ہوتی ہے۔ کشمیر میں  امرناتھ یاترا اِس کی عمدہ مثال ہے۔ امرناتھ یاتر  اور  Christ Cavalry اس ’آرچ ٹائپ‘  کی ترقی یافتہ صورتیں  ہیں۔ ان راستوں  پر چلتے  ہوئے اور منزلِ مقصود تک پہنچتے  ہوئے  گنا ہوں  سے  نجات ملتی ہے، ہر قدم پر ایک گناہ معاف ہو جاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ نے  کہا تھا ’میں  راستہ ہوں!‘  اس عہد میں  اس ’آرچ ٹائپ‘  کی ایک نئی صورت پیدا ہو گئی ہے اور اس کی ایک نئی علامتی سطح اُبھر آئی ہے۔ اس کی آفاقی حیثیت سے  انکار ممکن نہیں۔ اس عہد کے  شعور میں  اس آرچ ٹائپ کی آفاقیت کی پہچان مشکل نہیں، ’آرچ ٹائپ‘  یا حسیاتی پیکر کا اظہار فطری اظہار ہوتا ہے  ’عظیم ماں ‘  کا حسی پیکر بھی ایک قدیم ’آرچ ٹائپ‘  ہے۔ اس کی تشکیل میں  بھی جانے  کتنی جبلّتوں اور حسی  اور  نفسی کیفیتوں  کو دخل ہے اور اچھی بری قدروں  کا احساس بھی ہر وقت موجود ہے۔ ’ماں ‘  ممتا کی علامت ہے اور غصّے اور تباہی  اور  نفرت کی علامت بھی۔ ’ماں ‘  ماں  بھی ہے اور ڈائن بھی۔ ’عظیم ماں ‘  (Great Mother)مرکزی حسی پیکر ہے اور اس کے  گرد بہت سے  نسوانی پیکر ہیں، دیویوں  کے  پیکر، پریوں، سمندری شہزادیوں، جادو گرنیوں  کے  پیکر مرکزی پیکر سے لاشعوری طور پر رشتہ قائم کر نے  کی نفسیاتی خواہش موجود رہتی ہے، انسان کی نفسی زندگی پر اس ’آرچ ٹائپ‘  کے  اثرات بہت گہرے  ہیں، ’عظیم ماں ‘  بنیادی قوّت یا ’انرجی‘  ہے۔

انسان کی ابتدائی زندگی کی تشکیل میں  شعور سے  زیادہ لاشعور کو دخل ہے۔ تصوّرات سے  زیادہ حسی کیفیتوں اور پیکروں  سے  حقائقِ زندگی کو سمجھنے  کی کوشش ہوئی ہے۔ قدیم انسانی زندگی کی تشکیل میں  حسیاتی کیفیتیں  زیاد کام کرتی نظر آتی ہیں۔ ’ایغو‘  سے  زیادہ جبلّتوں  کا عمل قدیم ہے۔ لاشعور کے  تجربے  شعور کے  تجربوں  سے  زیادہ اہم تھے۔ لاشعوری طور پر دنیا کو جس طرح محسوس کیا گیا اسی کی اہمیت زیادہ ہے، قدیم ترین انسان کی دنیا شعور کی روشنی میں  دیکھی ہوئی کم  اور  لاشعور سے  محسوس کی ہوئی زیادہ ہے۔ اس طور  اور  حسی تصویروں  کے  ذریعے  کائنات کو سمجھنے  کی کوشش ہوئی ہے۔ لاشعور کے  بیساختہ اظہار سے  حقیقتوں  کو پہچانا گیا، اس طرح علامتوں  میں  صرف فرد کی ذہنی کیفیتیں  نہیں  ہوتیں  اجتماعی لاشعور کی بھی کیفیتیں  ہوتی ہیں۔ جب ہم نفسی نظام کہتے  ہیں  تو دراصل پورے  اجتماعی شعور  اور  لاشعور کی جانب اشارہ کرتے  ہیں، آرٹ  اور  شاعری کی علامتوں  کا مطالعہ اس طرح زیادہ دلچسپ ہو جاتا ہے:

تمھاری معیت، رفاقت، تگ و دو کا انداز مانگوں

یہ جمِ غفیر ایک سیلِ رواں  زندگی کا جو ’لا‘  سے  نکل کر

اسی ’لا‘  میں  پھر ڈوب جاتا ہے، یہ ریت ہے  یوں  ہی جاری

سمندر جو پھیلا ہے  ہر سمت اُفق سے  اُفق تک

سمندر، جو سفّاک ہے اور طوفاں  سے  لبریز ہے   پر جنوں  ہے

سمندر جو بیباک ہے، جنم داتا ہے اور موت کا نغمۂ سرمدی ہے

یہ سیلِ رواں  جو یوں  بہتا رہتا ہے، اس سیل میں  ڈوب جاؤں

میں  جو ایک قطرہ ہوں، گہرائی، گیرائی کا حجم کا اس کے  بن جاؤں  حصّہ

مجھے  کوئی مکتی نہیں  چاہیے، کوئی نروان کی آرزو، کوئی خواہش تمنّا

کوئی سبیل  اور  کوثر ، نجات و جزا، پرسکوں  کوئی لمحہ

نہیں  یہ صرف امواج کی شورش رائیگاں  چاہیے  یہ  اگر  رائیگاں  ہے

(لوگو اے  لوگو)

وقت  اور  لمحوں  کا یہ تصوّر اس عہد کے  مزاج کو سمجھاتا ہے۔ یہ ’نیا صوفیانہ مزاج‘  ہے۔ نئے  تصوّف کی رومانیت ہے۔ زمانہ  اور  وقت کا رومانی تصوّر سمندر کی علامت میں  اُبھرا ہے۔ سمندر ایک قدیم ’آرچ ٹائپ‘  ہے۔ جدید شعراء نے  اس صدی کی معنویت کو سمجھنے  میں  اس علامت سے  بھی بہت مدد لی ہے۔ سمندر، رحم زندگی بھی ہے  لہٰذا ’ماں ‘  کے  ’آرچ ٹائپ‘  میں  یہ حسی پیکر بھی جذب ہو جاتا ہے۔ زندگی نے  اسی سے  جنم لیا ہے۔ اس کی پرورش اسی سے  ہوتی ہے، زمین کا وجود اسی سے  قائم ہے  سمندر تخلیق کا سرچشمہ ہے۔ مصر کا ایک سب سے  قدیم پیکر ’تن‘  بھی ہے  جسے  ’نو‘  (Nu) بھی کہتے  ہیں۔ سمندر، دریا، چشمہ کا حسیاتی نسوانی پیکر جس نے  غالباً ’پہلی دیوی‘  کی صورت اختیار کر لی۔ (دریائے  نیل کے  انڈے  سے  سورج پیدا ہوا ہے ) سمندر  مردوں  کو اپنے  بچوّں  کی طرح اپنے  بازؤں  میں  چھپالیتا ہے۔ زندگی  اور  موت، وقت، زمانہ، ارتقا، ماں، تخلیق، تباہی، تاریکی  اور  روشنی (روشنی کے  دیوتاؤں  کی کشتیاں  سمندر کے  نیچے  چلتی ہیں ) کی یہ معنی خیز علامت ہے۔ ماں  باپ کے  تمام تصوّرات کے  ٹوٹ جانے  کے  بعد ’ماں ‘  کے  حسیاتی پیکر کی تلاش  اور  بڑھ گئی ہے۔ داخلی طور پر ایک رشتہ قائم کر نے  کی کوشش جاری ہے  تاکہ زندگی کا توازن قائم رہے اور نفسی تکمیل ہو سکے۔ اس بنیادی خواہش کا اظہار مختلف انداز سے  ہو رہا ہے، سمندر ’ماں ‘  کا پیکر بھی ہے  تخلیق کا سرچشمہ بھی، وقت  اور  زمانے  کی علامت بھی۔ شاعر پھیلی ہوئی زنجیر سے  ایک کڑی کی طرح ٹوٹ کر رہ جانا نہیں  چاہتا، زندگی کی میکانیت کو توڑ کر سمندر میں  مل جانا چاہتا ہے۔ شاعر زندگی  اور  زمانے  کو پہچانتا ہے۔ اس طرح اُفق سے  اُفق تک ہر سمت پھیلا ہوا ہے، جہاد مسلسل  اور  کشاکش کا نام زندگی  اور  زمانہ ہے۔ وقت سفّاک بھی ہے اور پرجنوں  بھی، بیباک جنم داتا بھی ہے اور موت کا نغمۂ سرمدی بھی، یہ سیلِ رواں  ہے، اس سیل میں  ڈوب جانا چاہتا ہے۔ اس کا المیہ یہ ہے  کہ تمام سہارے  ٹوٹ گئے  ہیں، اس سمندر کو شاعر نے  اندرونی ذہنی لاشعوری  اور  نفسی زندگی میں  پہچاننے  کی کوشش کی ہے۔ اس رومانی کشمکش  اور  ذہنی تصادم کی پہچان نئے  مزاج  اور  نئی شاعری کے  بنیادی رجحان کی پہچان ہے۔

اخترالایمان کے  تجربوں  میں  انفرادی  اور  اجتماعی لاشعور کے  نقوش ہیں، مختلف حسی پیکروں اور ا4 اور  ’آرچ ٹائپس‘  کا اظہار مختلف انداز سے  ہوا ہے۔ تاریکی  اور  گہری تاریکی پُر اسرار آوازیں اور آہیں، کھنڈرات، یادوں  کے  سلسلے، جن میں  وقت کا عام تصوّر پگھل جاتا ہے۔۔۔ ’اخترالایمان‘  کی نظموں  میں  یہ باتیں  موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے  اجتماعی یا نسلی لاشعور اپنے  اظہار کے  لیے  بے  چین رہتا ہے۔ تخلیقی آرٹ کا یہ ایک بہت بڑا سرچشمہ ہے۔۔۔ ’اخترالایمان‘  اس طرح ایک بنیادی اساطیری رومانی رجحان کے  ساتھ سامنے  آئے  ہیں:

کوئی دروازہ پہ دستک ہے  نہ قدموں  کے  نشاں

چند پرہول سے  اسرار تہہ سایہ دار

 

گہرے  سائے  اندھیرے  دیپک ناچ رہے  ہیں، جاگ رہے  ہیں!

رنگوں  کا چشمہ سا چھوٹا ماضی کے  اندھیرے  غاروں  سے

سرگوشی کے  گھنگھرو کھنکے  گردو پیش کی دیواروں  سے

 

وہ تری گود ہو یا قبر کی تاریکی ہو

اب مجھے  نیند کی خواہش ہے  سو آ جائے  گی

 

 

ان پپوٹوں  میں  یہ پتھرائی ہوئی سی آنکھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جن میں  فردا کا کوئی خواب اُجاگر ہی نہیں

 

ناچتا رہتا ہے  دروازوں  کے  باہر یہ ہجوم

اپنے  ہاتھوں  میں  لیے  مشعل بے  شعلہ ودود

 

جیسے  صدیوں  کے  چٹاّنوں  پہ تراشے  ہوئے  بت

ایک دیوانے  مصوّر کی طبیعت کا اُبال

ناچتے  ناچتے  غاروں  سے  نکل آئے  ہوں

اور  واپس انھیں  غاروں  میں  ہو جانے  کا خیال!

غار کا تصوّر

لاشعور اِک اندھیرا

لاشعور کا اظہار

چٹاّنوں  پر تراشے  بت

غاروں  سے  رقص کرتے  ہوئے  نکلنے  کا تصوّر

اور  پھر اندھیرے  میں  جانے  کا خیال

یا کہیں  گوشۂ اہرام کے  سنّاٹے  میں

جا کے  خوابیدہ فراعین سے  اتنا پوچھوں

ہر زمانے  میں  کئی تھے  کہ خدا ایک ہی تھا

اب تو اتنے  ہیں  کہ حیران ہوں  کس کو پوجوں

جذبۂ پرستش

گوشۂ اہرام کا سنّاٹا

خوابیدہ فراعین

یوں  ہی چند پرانی قبریں  کھود رہا ہوں  چپکا بیٹھا

کہیں  کسی کا ماس نہ ہڈّی کہیں  کسی کا روپ نہ چھایا

کچھ کتبوں  پر دھُندلے  دھندلے  نام کھدے  ہیں، میں  جیون بھر

ان کتبوں، ان قبروں  ہی کو اپنے  من کا بھید بنا کر

مستقبل  اور  حال کو چھوڑے  دُکھ سکھ سب میں  لیے  پھرا ہوں

 

قبروں  کی تاریکی کا احساس

کتبوں  پر دھندلے  نام

وقت سے  الگ ہونے  کا احساس

لاشعور میں  گم ہو جانے  کی

خواہش

 

دروازوں  پہ دے  رہا ہوں  آواز

خاموش ہے  گنگ ہے، سیہ پوشی

ماضی کے  محل کی کہنہ دیوار

پھیلائے  ہوئے  زمیں  ہے  آغوش

 

تاریکی میں  ڈھونڈتا ہوں  راہیں

سورج کو ترس گئیں  نگاہیں

 

دروازہ، گہری تاریکی، قبر، کفن، گوشۂ اہرام کے  سنّاٹے، جنازہ، ماضی کے  اندھیرے  سے، غار پر  پراسرار دستک، سائے  کا رقص، دیواروں  کی سرگوشیاں، دھندلے، کتبے، لاشعور کی تاریکی  اور  کئی حسّی پیکر  اور  کئی اہم بنیادی آرچ ٹائپس سامنے  آتے  ہیں، لاشعوری علامتیں  ہر جگہ موجود ہیں۔ یہ بھی سنئے:

ہر مرکزِ نگاہ پر چٹاّن سی کھڑی ہوئی

ادھر چٹاّن سے  پرے  وسیع تر ہے  تیرگی

اسے  پھلانگ بھی گیا تو اس طرف خبر نہیں

عدم خراب تر ملے  نہ  محبت ہو نہ زندگی!

چٹاّن

سے        موت

پرے      اور

وسیع     زندگی

اور         دونوں

پھیلی     سے

ہوئی     الگ

تاریکی   کئی

اس تاریکی سے       اور شے، جستجو، لاشعور کے  اندھیرے  میں  رومانی ذہن

بے  خبری

 

یہ فطری (Spontaneous) اظہار ہے، لاشعوری کیفیات کو شعوری طور پر پیش کر نے  کی کوشش نہیں  ہے، انفرادی  اور  اجتماعی لاشعور کی یہ تصویریں  ذہن کی ا تھاہ گہرائیوں  سے  اُبھری ہیں، ایسی تصویریں  کیوں  متشکل ہوتی ہیں اور تخیلی فکر کے  ذریعہ کیوں  اُبھرتی ہیں، خود شاعر کو اس کا علم  اور  احساس نہیں  ہوتا، شخصیت  اور  ذہن کی خلش  اور  بے  چینی  اور  درد  اور  اضطراب سے  لاشعوری کیفیتوں  کا اظہار ہوتا ہے، مختلف پیکروں  میں  ذہنی تصویروں  میں  ’آرچ ٹائپس‘  میں  کچھ بنیادی رجحانات لاشعور کی تاریکیوں  میں  چھپے  ہوتے  ہیں اور جب ان کے  اُبھر نے اور ظاہر ہونے  کے  مواقع نہیں  ملتے  تو علامتوں، یادوں اور خوابوں  کی صورتوں  میں  سامنے  آتے  ہیں، ’اخترالایمان‘  کی شاعری میں  یادوں اور خوابوں  کی علامتوں  میں  لاشعور کے  رجحانات بھی ظاہر ہوئے  ہیں، اس طرح شعور  اور  لاشعور کا رشتہ گہرا ہوا ہے اور تخیلیِ فکر میں  زندگی  اور  حرارت پیدا ہوئی ہے۔ شاعری میں  یہ بنیادی رجحانات معاشرتی ہیجانات تضادات  اور  اقدار کی کشمکش میں  نمایاں  ہوتے  ہیں۔

کشتی، سمندر، دروازہ، دیوار، غار، ستون، قبر، کفن، عبادت گاہ، مندر گرجا، اُڑتے  ہوئے  باز، استوپ، اہرام، چاند، مچھلی، گائے، یہ سب نفسی  اور  لاشعوری نسوانی پیکر  اور  بنیادی ’آرچ ٹائپس‘  میں  قدیم ترین انساں  اس کی زندگی  اور  اس کے  شعور کا مطالعہ نفسیاتی حقائق کے  پیشِ نظر ہو گا۔ ان حقائق کی قوّتوں  کی پہچان آج کے  انسان کی نفسی گہرائیوں  میں  ہوتی ہے۔ یہ قوّتیں  نفسی زندگی میں  بھی زندہ ہیں، تخلیقی عمل کا انحصار اس حقیقت پر ہے  کہ شعور کس حد تک لاشعور کے  بہاؤ سے  متحرک ہے۔ یہ ساری علامتیں  (غار، وادی مزار وغیرہ) داخلی زندگی، اندرونی کیفیات  اور  زمین کے  اندر کی دُنیا  اور  رحم مادر کی علامتیں  ہیں، ان کا فطری اظہار ہوتا رہتا ہے۔ تاریکی، رات  اور  پُر اسرار خاموشی کے  تصوّرات بنیادی طور پر ان ہی علامتوں  سے  وابستہ ہیں۔ پہاڑ اور  غار قدیم زندگی کے  عنوانات ہیں، نفسی زندگی میں  یہ دونوں  ’مدر آرچ ٹائپس‘  بن گئے  ہیں، پہاڑ کے  قریب زمین، کشتی  اور  ندی کی لہریں  سب رُک جاتی ہیں، اس کے  پتھروں اور چٹاّنوں  کی پرستش عظیم ماں  کی پرستش ہے، نفسی زندگی میں  پہاڑوں  کی طاقت کا احساس غیر معمولی ہے، آج بھی ان کی پرستش ہو رہی ہے، قدیم قصّوں  کہانیوں اور مذہبی خیالات میں  ان کی اہمیت پر غور کیا جا سکتا ہے۔ تحفظ  اور  حفاظت کا تصوّر اس سے  وابستہ ہے۔ ’ماں ‘  کی طرح یہ سب کی حفاظت کرتے  ہیں۔ تحفظ کے  گہرے  احساس نے  اسی پیکر کو نفسی زندگی میں  ’مدرآرچ ٹائپ‘  بنا دیا ہے۔ کالے  سفید انڈوں  کا تصوّر بھی قابلِ غور ہے۔ ان علامتوں  سے  زمین  اور  جنت رات  اور  دن  اور  موت  اور  زندگی کے  گہرے  رشتے  کی وضاحت ہوتی ہے۔ غار تخلیق کا سرچشمہ بھی ہے اور داخل زندگی، پاتال  اور  قبر کی علامت بھی حفاظت کا خیال ’ماں ‘  کے  تصوّر کو جنم دیتا ہے۔ غار میں  جو تخلیق ہو رہی ہے  اس کی حفاظت بھی ہو رہی ہے۔ آندھی  اور  طوفان سے  بچنے  کی جگہ بھی ہے۔ آگ پہلی بار یہیں  روشن ہوئی، یہ تمام علامتیں  چونکہ ثقافتی علامتیں  ہیں  اس انسان کے  لاشعور میں  محفوظ ہیں، درخت بھی ایک قدیم حسیاتی پیکر ہے۔ پھل پھول دینے اور زندگی کے  تسلسل کا تصوّر اس سے  وابستہ ہے۔ یہ بھی ایک نسوانی پیکر ہے۔ درخت کے  اوپر پرندوں  کے  گھونسلوں  سے  حفاظت کا تصوّر پیدا ہوتا ہے۔ درخت سے  پیدائش کا تصوّر بھی وابستہ ہے، یہ پناہ لینے  کی جگہ بھی ہے۔ اسطور، فلسفہ، مذہب  اور  آرٹ میں  ان تمام حسی پیکروں  کی اہمیت اسی لیے  ہے  کہ یہ نفسیاتی سچائیوں  کو نمایاں  کرتے  ہیں، زمین بھی ماں  کی علامت ہے۔ افلاطون نے  کہا تھا زمین ہی تخلیق کا سرچشمہ بن کر عورت کے  سامنے  مثال بن جاتی ہے، زندگی اس کے  تسلسل  اور  اس کے  عمل  اور  تمام رنگوں  کا تصوّر زمین کا تصوّر ہے۔ شاعری کا مطالعہ کرتے  ہوئے  اس حقیقت پر نظر رکھی جائے  کہ وہ کس قسم کے  ’آرچ ٹائپس‘   اور  کس قسم کے  حسی پیکروں  کو پیش کر رہی ہے  تو زیادہ سے  زیادہ جمالیاتی انبساط حاصل ہو گا۔ شاعری میں  یہ حسی پیکر اپنے  عہد کے  تجربوں  کے  ساتھ نمایاں  ہوتے  ہیں۔

غار، دروازہ، کھنڈر، ستون، یہ سب قدیم تہذیبی  اور  نفسیاتی علامتیں  ہیں، ماں  کا حسی پیکر بھی ان میں  جذب ہو گیا ہے۔ مختلف عہد میں  ان کی معنویت کی نئی جہتیں  پیدا ہوتی رہی ہیں، تحفظ  اور  غذا کے  ساتھ زندگی کے  انتشار  اور  بحران، اچھی قدروں  کے  ٹوٹنے  کے  احساس، اَنا  اور  ایغو کی شکست، تنہائی، محرومی  اور  ناکامی کے  احساسات سے  ان علامتوں  کا رشتہ قائم رہا ہے، آج بھی ان علامتوں  کی اہمیت ہے۔ نئی شاعری میں  یہ علامتیں  اندھیرے  کے  سفر کا احساس دلاتی رہتی ہیں۔ اندھیرے  کا سفر روشنی کے  لیے  ہے۔ داخلی طور پر یہ روشنی کی تلاش ہے  سمندر کے  نیچے  روشنیوں  کے  دیوتاؤں  کی کشتیاں  چلتی ہیں، چاند کی روشنی تاریک را ہوں  پر رہنمائی کرتی ہے۔ غار  اور  کھنڈروں  میں  جلتی ہوئی روشنی آگ برفیلی ہواؤں  سے  محفوظ رکھتی ہے اور یہی آگ مشعل بن جاتی ہے۔ داخلی طور پر ایک نئی صبح کی تلاش بھی ہے، روشنی حسی  اور  روحانی علامت ہے، ماں  روشنی کو جنم دیتی ہے، اسطور میں  عظیم ماں  سورج کو جنم دیتی ہے۔ کنواری مریم نے  بھی جس بچے ّ کو جنم دیا تھا وہ روشنی کی علامت تھا، ہندوستانی اساطیر میں  چاند کے  اوپر ماں اور بچے ّ ایک تخت پر بیٹھے  نظر آتے  ہیں، ماں  کا تصوّر ہی موجود کے  تمام رموز و اسرار کا مرکز ہے، زندگی کی شکست و ریخت  اور  میکانیت سے  یہ رومانی تجربے  پیدا ہوئے  ہیں۔

غار، گود، قبر، دروازہ، نیند، تاریکی، کفن  اور  اس قسم کی دوسری علامتیں  ’اخترالایمان‘  کی شاعری میں  اہمیت رکھتی ہیں:

وہ تری گود ہو یا قبر کی تاریکی ہو

اب مجھے  نیند کی خواہش ہے  سو آ جائے  گی

یوں  ہی چند پرانی قبریں  کھود رہا ہوں  چپکا بیٹھا

زمیں  کے  تاریک گہرے  سینے  میں  پھینک دو اس کا جسم خاکی

موت کی وادیوں  میں  گم ہو گئی ہے  پھر وہ نغمگی

گرد برسوں  کی   چھپا دے  گی مرا جسم نزار

جاگتے  جاگتے  تھک جاؤں  گا، سوجاؤں  گا

ادھر چٹاّن سے  پرے  وسیع تر ہے  تیرگی

پکارتا ہے  دھندلکوں  سے  اس طرف کوئی

کتنا تاریک ہے  فردا کا خیال

گرد آلود چراغوں  کو ہَوا کے  جھونکے

روز مٹّی کی نئی تہہ میں  دبا جاتے  ہیں

زندگی! آہ موہوم تمنّا کا مزار

سرد ہاتھوں  سے  مری جان مرے  ہونٹ نہ سی

پھر وہی تاریک ماضی، پھر وہی بے  کیف حال

اور  یہ میری  محبت بھی تجھے  جو ہے  عزیز

کل یہ ماضی کے  گھنے  بوجھ میں  دب جائے  گی

توڑ ڈالے  گا یہ کمبخت مکاں  کی دیوار

اور  میں  دب کے  اسی ڈھیر میں  رہ جاؤں  گا

میں  اندھیروں  میں  ابھی تک ایستادہ ہوں

ناچتے  ناچتے  غاروں  سے  نکل آئے  ہوں

اور  واپس انھیں  غاروں  میں  ہو جانے  کا خیال

’اخترالایمان‘  نے  اس طرح احساس کو نیا لہجہ  اور  نیا آہنگ دیا ہے، بنیادی اساطیری رجحان موجود ہے۔ ’مدر آرچ ٹائپ‘  کی پہچان بھی مشکل نہیں  ہے، معاشرتی ہیجانات کا احساس بھی ہو جاتا ہے۔ لاشعوری سطح کی بے  چینی کا اندازہ ہوتا ہے۔ سطح کے  نیچے  جو تیز لہریں  ہیں  ان سے  قدروں  کی کشمکش  اور  جبلی روحانی نفسی  اور  جذباتی تصادم کا احساس ملتا ہے۔

یہ تمام تجربے  ایک اہم رجحان کو نمایاں  کرتے  ہیں، اسی رجحان سے  ’امیجری‘  کا ایک معیار بنتا ہے۔ علامتوں اور پیکروں  کی نئی تشکیل ہوتی ہے، ماضی  اور  حال احساسات میں  جذب ہیں، حیات و موت کے  درمیان شاعر کا رومانی مزاج توجہ طلب ہے۔

 

 

اُردو زبان و ادب پر اساطیر  اور  اساطیری عناصر کے  جو اثرات ہوئے، شعرا کی فکر و نظر  اور  حواس  اور  تخیل پر اساطیری واقعات و کردار جس طرح اثر انداز ہوئے  اس کی تاریخ طویل ہے۔ اس کے  چند پہلوؤں  کو اس طرح دیکھیں  تو بہتر ہے۔

(۱)       رامائن، مہابھارت  اور  بھگوت گیتا وغیرہ کے  ترجموں  سے  بھی شعرا  اور  ڈراما نگار متاثر ہوئے  ہیں۔ ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں  تو کم بھی نہیں  ہے۔

ڈاکٹر نامی کی بلیو گرافی کے  مطابق اُردو میں  ۷۵ ڈرامے  مہابھارت کے  موضوع پر ہیں اور ۳۵ ڈرامے  رامائن کے  موضوع پر۔

رام، سیتا  اور  کرشن فنکاروں  کے  موضوعات رہے  ہیں، آغا حشر نے  ’سیتا بن باس‘  لکھ کر اسٹیج کیا

رادھا  اور  کرشن کئی ڈراموں  کے  موضوعات رہے  ہیں۔

واجد علی شاہ کے  عہد میں  رادھا  اور  کرشن محبوب موضوع بنے  رہے  ہیں۔

اقبالؔ (رام) چکبستؔ (رامائن کا ایک سین) سرور جہان آبادی، سیماب اکبر آبادی وغیرہ نے  رام، سیتا  اور  کرشن کو موضوع بنایا۔ ڈراموں  میں  تو واقعات و کردار  اور  کرداروں  کے  عمل  اور  ردِّ عمل کو پیش کیا گیا جبکہ شاعری میں  کرداروں  کی عظمت  اور  عمدہ اقدار کو موضوع بنایا گیا۔

(۲)      رام بھگتی  اور  کرشن بھگتی وغیرہ کے  گیتوں، بھجنوں، دوہوں  کے  بھی گہرے  اثرات ہوئے  ہیں۔ مذہبی کتابوں اور لوک قصّوں  کہانیوں  نے  عوامی شاعروں اور گیت کاروں  کو متاثر کیا  اور  اساطیری قصّوں  کے  مختلف پہلوؤں  کی منظوم صورتیں  سامنے  آئیں۔ سادھوؤں، فقیروں اور عوامی جذبات کو متاثر کر نے  والے  گیت کاروں  نے  واقعات  اور  کرداروں  کو گھر گھر پہنچایا۔ ان کے  سادہ نرم  اور  دل کو چھولینے  والے  الفاظ نے  اس سلسلے  میں  بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔

(۳)     بھگتوں اور صوفیوں  کے  کلام نے  اساطیری واقعات و کردار کو اہمیت دی۔ گرونانک، کبیر، داؤد، نام دیو، جائسی، تلسی داس، شیخ فریدالدین وغیرہ کے  نام اس سلسلے  میں  لیے  جا سکتے  ہیں۔

(۴)     اُردو کے  بہت سے  شعرا ہند اسلامی تہذیب کی آمیزشوں  کے  تحت اُبھرتے  ہیں۔ ان کے  کلام پر ہندوستانی  اور  عجمی اساطیر کے  اثرات جابجا ملتے  ہیں، اس سلسلے  میں  سلطان قلی قطب شاہ، ملاّوجہی، شاہ مبارک، نظامی دکنی، غوّاصی  اور  ابراہیم عادل شاہ کے  نام اہم ہیں۔

(۵)     اس دور میں  ایسے  شعرا کی تعداد بہت زیادہ ہے  کہ جنھوں  نے  اساطیری واقعات و کردار کو تشبیہوں، استعاروں، کنایوں، علامتوں اور تمثیلوں  کے  ذریعہ پیش کیا ہے۔

(۶)      ’’ماضی کی حسیت‘‘  (Sensibility of the Past) اس عہد کی ایک اہم  اور  معنی خیز حسیت ہے  جو نئی جمالیات کی مختلف جہتوں  کو سمجھاتی ہے۔ یہ حسیت محمد اقبالؔ میں  بہت بیدار ہے۔ میراجیؔ ن.م.راشد، عبدالعزیز خالد، منیر نیازی، اخترالایمان، کمار پاشی (ولاس یاترا)، جعفر طاہر، ظفر اقبال، ستیہ پال آنند، اختر احسن (ہے  ہنومان) عنبر بہرائچی، سلیم شہزاد وغیرہ کے  کلام میں  ماضی کی حسیت کے  ساتھ بیشتر تجربے  ملتے  ہیں۔

تہذیبی بحران، تناؤ، صنعتی زندگی کی بھیڑ بھاڑ، روایات کی شکستگی، طبقوں  کی تقسیم، فسادات وغیرہ کے  گہرے  اثرات ہوئے  ہیں۔ ماضی کی عظمت  اور  وقار  اور  اس کی رومانیت کے  احساس کے  ساتھ ’حال‘  کے  تجربوں  کا تجزیہ اثر انداز ہوا ہے۔ یہ حسیت زندہ  اور  متحرک ہے۔ میراجیؔ کے  حسی پیکروں  میں  ماضی کی حسیت کا عمل موجود ہے، ’جنگل‘ ، ’غار‘ ، ’سمندر، ’ماں ‘ ، ’وِشنو‘ ، ’رادھا‘ ، ’کرشن‘ ، ’کالی‘  شیو لنگ۔ ان سے  میراجی نے  تاثرات کو گہرا کر نے  کی کوشش کی ہے اور ماضی کے  پیکروں اور علامتوں  سے  کئی جہتوں  کا احساس عطا کیا ہے۔ میراجیؔ ماضی سے  باطنی  اور  ذہنی رشتہ قائم کر نے  کی کوشش کرتے  ہیں۔ ماضی میں  واپس چلے  جانے  کی آرزو بھی ملتی ہے۔ باطن کی آگ کو ماضی کے  سایے  میں  لے  جانے اور آسودگی حاصل کر نے  کا یہ رجحان توجہ طلب ہے۔ ماضی کی حسیت نے  میراجی کے  کرب  اور  اُن کی بے  چینی کو بڑھایا بھی ہے اور اسے  سکون بھی دیا ہے۔ اُداسی، بے  حسی  اور  خوف کے  شدید احساس  اور  جذبے  کو ماضی  اور  اساطیری کرداروں  نے  سہارا دیا ہے۔ ان کی شاعری میں  نفسیاتی تصادم کے  پیچھے  ماضی  اور  اساطیر کا سایہ ہے۔ شاعر کا باطن ’ماضی‘  ہے۔ جنگل ہے، اندھیرا ہے،کھنڈر ہے، ساحل پر سمندر کی لہریں  خوفناک صورتوں  میں  ظاہر ہو رہی ہیں۔ اس باطن میں  غار ہے، کالی ہے اور اسی باطن میں  دھرتی ماں  کا لمس  اور  کل کی مٹّی کی بھینی بھینی خوشبو ہے۔ اکثر لوگوں  میں  ماضی میں  جذب ہو جانے  کی خواہش  اور  ماضی کی تاریکیوں  میں  گم ہو جانے  کی آرزو ملتی ہے۔ رادھا  اور  کرشن میراجی کے  محبوب کردار ہیں۔ ان کے  اپنے  گیتوں  میں  بھی  اور  اُن گیتوں  میں  بھی کہ جنھیں  اُنھوں  نے  ترجمے  کے  صورت پیش کیا ہے۔ یہ دونوں  اساطیری کردار عشق  اور  جنس کی نمائندگی کرتے  ہیں:

گن گاؤں  شیام منوہر کے

پنگھٹ سے  چلی گاگر بھر کے

مرا قدم قدم پر دل دھڑکے

کہیں  لوگ نہ دیکھ پائیں  گھر کے

بنسی کی تان سنی میں  نے

کبھی دھندلا دھندلا سویرا ہے

کبھی کاجل جیسا اندھیرا ہے

کیسے  چنچل بھاؤ ہیں  نٹور کے

جو سکھی ملے  وہ یہی کہے

اب جانے  وہی جو دل پہ سہے

من نیّا پریم کھویّا کی

داسی براند کے  بسیّا کی

اب کھائے  جھکولے  ساگر کے

(گیت ۱۳۶، کلیاتِ میراجی، مرتب: ڈاکٹر جمیل جالبی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج، کھلی من کی پھلواری، سندر، پیاری پیاری

راج بھون اب رنگ محل ہے

یا برندا بن کا جنگل ہے

جس میں  رانی بنی رادھیکا  اور  راجہ ہے  شیام بہاری

آج کھِلی من کی پھلواری

رُل مل سکھیاں  ناچیں  گائیں

سکھ سنگت میں  دھوم مچائیں

پھلواری سے   چن  چن لائیں  پھول سے  سیج سجائیں  ساری

آج کھِلی من کی پھلواری

 

جھن من جھن من جھن جھنکاریں

تم جیتو بازی ہم ہار یں

پریم کی بازی سب سے  نرالی کس نے  جیتی کس نے  ہار ی

آج کھِلی من کی پھلواری

(گیت ہی گیت/ کلیاتِ میراجی، مرتب: جمیل جالبی، ص۶۲۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہنگامۂ لذّت کا سماں  چھایا ہوا تھا یکدم

رادھا بولی مجھے  تم اپنا سہارا دو گے

عمر بھر کے  لیے  کیا اپنا سہارا دو گے

سن کے  یہ شیام چلے  بن میں  کہیں  کھو ہی گئے

رادھا مبہوت تھی جیسے  پل میں

کسی ساحر نے  بنا ڈالا ہو سنگیں  مورت

(کلیاتِ میراجی، مرتب: جمیل جالبی، ص۴۹۴)

میراجی کی شاعری میں  جو باطنی کیفیات ہیں  اُن سے  ماضی کی حسیت کی زیادہ پہچان ہوتی ہے۔ دھرتی ماں  کے  پیکر میں  اُبھرتی ہے، اساطیری کردار خصوصاً رادھا  اور  کرشن ہمیشہ قائم رہنے  والے  عشق کی علامت بن جاتے  ہیں۔ ماضی ایک پناہ گاہ بھی ہے، کشمکشِ زندگی سے  نفسیاتی گریز کرتے  ہوئے  شاعر اسی پناہ گاہ میں  آتا ہے  جہاں  اندھیرا ہے، تاریکی ہے، جنگل ہے، تاریک غار ہیں، ڈائن ہے، جہاں   پراسرار سایے  منڈلا رہے  ہیں۔۔۔  اور  جہاں  کالی ہے! زندگی کا خوف بھی ہے اور موت کا خوف بھی۔ ذہنی کشمکش  اور  نفسیاتی تصادم انہی سے  عبارت ہے۔ رادھا  اور  کرشن ہندوستان کے  قدیم ’آرچ ٹائپس‘  ہیں  عشق و  محبت کے  تصوّر کے  ساتھ ان کا تصوّر پیدا ہوتا ہے۔ میراجی بھی عشق  اور  جنس کے  تعلق سے  ان دونوں  علامتوں  کے  پاس آتے  ہیں  لیکن اپنی سائیکی کی گہرائیوں  میں  اُتر نہیں  پاتے۔ ان دونوں  ’آرچ ٹائپس‘  کے  تحرک  اور  ان کی اُٹھان کی پہچان نہیں  ہوتی۔ شاعر گیت لکھ رہا ہو یا نظمیں  اس کا ذہن رومانی روایت تک ہی پہنچ پاتا ہے۔ گیتوں  میں  تازگی بھی ہے اور گھلاوٹ بھی، رمانی فضا آفرینی بھی ہے  لیکن رادھا  اور  کرشن ان کے  احساس  اور  جذبے  سے  ہم آہنگ نہیں  ہیں۔ گیتوں  کی تخلیق کے  لمحوں  میں  ان کا ظہور ہوتا ہے  لیکن قاری کے  احساس  اور  جذبے  کو گرفت میں  نہیں  لے  پاتے۔ جہاں  بھی ان دونوں  کا ذکر آیا ہے  سرشاری  اور  لذّت آمیز کیفیتوں اورلذتوں  کی کمی محسوس ہوئی ہے۔ میراجیؔ نے  غالباً عورت کو کبھی چکھا نہیں  تھا!

اس بات سے  انکار نہیں  کہ ’عورت‘  میراجی کے  کلام میں  ایک نمایاں  پیکر کی حیثیت رکھتی ہے  لیکن یہ کہیں  محسوس نہیں  ہوتا کہ ان کی سائیکی انھیں  عورت کے  ’آرچ ٹائپ‘  تک لے  گئی ہو۔ ماضی کی حسیت کے  تحرک سے  عورت اُبھرتی ہے  لیکن یہ عورت اس بات کے  باوجود کہ وہ اپنی بعض جہتوں  کو نمایاں  کرتی ہے  انسان کے  نسلی لاشعور سے  کوئی گہرا رشتہ نہیں  رکھتی۔ کالی، ڈائن، رادھا، ماں  وغیرہ ’عورت‘  کے  اجتماعی لاشعور کی جہتیں  ضرور ہیں  لیکن اپنی بھرپور تہہ دار معنی خیز پہلوؤں  کے  ساتھ! یوں  عورت میراجی کا وہ تجربہ بھی نہیں  بن سکی جو میرؔ  اور  فراقؔ کی شاعری میں  نظر آتی ہے۔ پہلی عورت کا تجربہ ایک کم عمر لڑکے  کا پہلا جنسی تجربہ لگتا ہے، اس نظم میں  شاعر کا تجربہ ایک ابھی ابھی جوان ہوئے  ’بالک‘  کا ہی تجربہ دِکھائی دیتا ہے:

تم نے  مجھے  قوّت دے  دی ہے

تم نے  مجھے  ہمّت دے  دی ہے  اس دُنیا میں  جینے  کی

اس لمحے  سے  پہلے  میری زیست سفیدی تھی، بے  داغ

تم ہو پہلا نشاں، تم زینت، میرے  دل کے  نگینے  کی

تم نے  کم کی ہے، ہاں  تم نے، خونیں  اذیت سینے  کی

تم نے  مجھے  دے  دی ہے  طبیعت پریم کی مے  کے  پینے  کی

اس لمحے  سے  ہے  آغاز

ہر لمحے  میں  نیا ایک راز جانوں  گا

دُنیا کالی کالی، اندھیری، میرے  لیے  تھی اِک پاتال

اب دیکھوں  گا، اب دیکھوں  گا رنگ برنگا حسن کا باغ

اب دوڑیں  گے  اِک وسعت میں  بے  بس  اور  کم زور خیال

اب ہو گی میری پرواز!

اور  میں  انوکھے  وحشی ساز سن لوں  گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    (بیاض میراجی، کلیاتِ مارجی، مرتبہ: جمیل جالبی، ص۴۲۶۔ ۴۲۵)

میراجی بس اپنے  تصوّر ہی میں  جنسی ملاپ  اور  ہم آہنگی کا تاثر پیدا کر کے  لطف اندوز ہوتے  ہیں۔ انھوں  نے  عورت کے  تعلق سے  جو سوچا وہ بس دُور سے  سوچا، ملاپ رادھا  اور  کرشن کا ہو یا شیو  اور  پاروتی کا، آدم  اور  حوّا کی تخلیق ہو یا ’آخری عورت‘  ہو! جن حضرات نے  میراجی کی نظم ’لبِ جوئبار‘  پڑھی ہے  وہ جانتے  ہیں  کہ شاعر کے  ذہن میں  جنس  اور  عورت کی حیثیت کیا ہے۔

پھر بھی ماضی کی  حسیت ان کے  تخلیقی ذہن کو بہت حد تک متحرک کرتی ہے۔

 

ہم تصوّف کے  خوابوں  کے  مکیں

وقت کے  طولِ المناک کے  پروردہ ہیں

ایک تاریک ازل، نورِ ابد سے  خالی

ہم جو صدیوں  سے  چلے  ہیں

تو سمجھتے  ہیں  کہ ساحل پایا

اپنی دن رات کی پاکوبی کا حاصل پایا

ہم تصوّف کے  نہاں  خانوں  میں  بسنے  والے

اپنی پامالی کے  انسانوں  پہ ہنسنے  والے

ہم سمجھتے  ہیں  نشانِ منزل پایا

(ن.م.راشد، تصوّف، کلیاتِ راشد، ص۵۵۰)

راشدؔ کی شاعری میں  ماضی کی حسیت بہت بیدار  اور  متحرک تو نہیں  ہے  ا  لبتہ ان کے  جمالیاتی رجحان میں  ماضی کی حسیت موجود ہے اور اس حسیت کے  تجربے  متاثر کرتے  ہیں، شاعر ماضی کو ایک بوسیدہ قبر تصوّر کرتا ہے  اس کی جانب مڑ کر دیکھنا نہیں  چاہتا، ماضی کے  کنویں  میں  زہریلی ہوا بھری ہوئی ہے:

مگر اب ہمارے  نئے  خوابوں  کا بوس ماضی نہیں  ہیں

ہمارے  نئے  خواب میں، آدمِ نو کے  خواب

جہانِ تگ و دو کے  خواب!

جہانِ تگ و در مدائن نہیں

کاخِ فغفور و کسریٰ نہیں

یہ آس آدمِ نو کا ماویٰ نہیں

نئی بستیاں اور نئے  شہریار

تماشا گہہ لالہ زار!

(تماشا گہہ لالہ زار، کلیاتِ راشد، ص۲۴۷)

اس نظم میں  شاعر نے  یہ کہنے  کی کوشش کی ہے  کہ ایک وقت تھا جب ہم بھی عرب  اور  عجم کے  غموں  کا شمار کرتے  تھے، اب ایران کہاں  ہے؟:

اب ایراں  ہے  اِک نوحہ گر پیرِ زال

مدائن کی ویرانیوں  پر عجم اشک ریز

وہ نوشیرواں اور زردشت اد۔ دار۔ یوش،

وہ فرہاد شیریں، وہ کخسیر و کیقباد

ہم اِک داستان ہیں  وہ کردار تھے  داستاں  کے!

ہم اِک کارواں  ہیں  وہ سالار تھے  کارواں  کے!

تہہِ خاک جن کے  مزار

تماشہ گہہ لالہ زار!

جاہ و جلالِ قدیم کی تمام کہانیاں  ماضی میں  گم ہو چکی ہیں۔ آدمِ نو پر نظر رکھنے  کی ضرورت ہے۔ راشدؔ ماضی پرست ہیں اور نہ ماضی پسند، روایت پسندی کے  مخالف ہیں۔ اُن کا تخلیقی رویّہ مختلف ہے۔ تخلیقی سطح پر وہ ایک نئی دُنیا کا خواب دیکھتے  ہوئے  ملتے  ہیں  جہاں  ماضی کی فکر و نظر، فلسفے، زاویۂ نگاہ وغیرہ کی کوئی جگہ نہیں  ہے۔ تصوّف یا کسی بھی رُوحانی روایت کی اہمیت باقی نہیں  رہی۔ بنیادی رجحان یہ ہے:

’’زندگی تو اپنے  ماضی کے  کنویں  میں  جھانک کر کیا پائے  گی

اس پرانے اور زہریلی ہواؤں  سے  بھرے   سونے  کنویں  میں

جھانک کر اس کی خبر کیا لائے  گی؟

اس کی تہہ میں  سنگ ریزوں  کے  سوا کچھ بھی نہیں

جز صدا کچھ بھی نہیں‘‘                                          (زندگی ایک پیرزن، لا=انسان)

پچھلے  صفحات پر میں  نے  اس بات پر اصرار کیا ہے  کہ ’سائیکو اسطورسازی‘  (Psycho- Mythology) کی جبلت ہی تخلیقی فنکاروں  کو عمدہ  اور  بڑی تخلیقات کے  لیے  اُکساتی ہے۔ نئے  عہد کی سائیکی کے  ا4 (Images) کا تعلق جب قدیم سائیکی کے  ’مِتھ‘  سے  قائم ہو جاتا ہے  تو تخلیقی تخیل میں  بہت ہی   پرکشش تحرک پیدا ہو جاتا ہے۔ معنوی گہرائی کا زیادہ سے  زیادہ احساس ملنے  لگتا ہے۔ ’مِتھ‘  کا رنگ وآہنگ لیے  جمالیاتی تجربہ سامنے  آ جاتا ہے۔ راشدؔ ایک بہت ہی عمدہ تخلیقی ذہن کے  مالک ہیں، ’متھ‘   اور  ’آرچ ٹائپس‘  ایسے  ذہن کو ہمیشہ کھینچتے  رہے  ہیں۔ راشدؔ بھلا بچ کر کیسے  جا سکتے  تھے، ’بلیک ہولز‘  کی طرح ’آرچ ٹائپس‘  اچھے  تخلیقی ذہن کو کھینچتے  رہتے  ہیں۔ راشدؔ کی شاعری میں  بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ماضی سے  ایک فطری نفسیاتی رشتہ قائم ہوا ہے، ’سائیکو اسطور سازی‘  کی پہچان اس طرح ہوتی ہے:

دل، مرے  صحرا نوردِ پیر دل

یہ تمنّاؤں  کا بے  پایاں  الاؤ

راہ گم کر دوں  کی مشعل، ان کے  لب پر’ آؤ، آؤ!‘

تیرے  ماضی کے  خزف ریزوں  سے  جاگی ہے  یہ آگ

آگ کی قرمز زباں  پر انبساطِ نو کے  راگ

دل، مرے  صحرا نوردِ پیر دل،

سرگرانی کی شب رفتہ سے  جاگ!

اور  کچھ زینہ بہ زینہ شعلوں  کے  مینار پر چڑھتے  ہوے

اور  کچھ تہہ میں  الاؤ کی ابھی

مضطرب، لیکن مذبذبِ طفل کمسن کی طرح!

آگ زینہ، آگ رنگوں  کا خزینہ

آگ اُن لذّات کا سرچشمہ ہے

جس سے  لیتا ہے  غذا   عشاق کے  دل کا تپاک

چوبِ خشک، انگور اس کی مے  ہے  آگ

سرسراتی ہے  رگوں  میں  عید کے  دن کی طرح!

آگ کا ہن، یاد سے  اُتری ہوئی صدیوں  کی یہ افسانہ خواں

آنے  والے  قرنہا کی داستانیں  لب پہ ہیں

دل، مرا صحرا نوردِ پیر دل سن کر جواں!

 

آگ آزادی کا، دلشادی کا نام

آگ پیدائش کا، افزائش کا نام

آگ کے  پھولوں  میں  نسریں، یاسمن، سنبل، شقیق و نسترن

آگ آرائش کا، زیبائش کا نام

آگ وہ تقدیس، دھُل جاتے  ہیں  جس سے  سب گناہ

آگ انسانوں  کی پہلی سانس کے  مانند اِک ایسا کرم

عمر کا اِک طول بھی جس کا نہیں  کافی جواب!

یہ تمنّاؤں  کا بے  پایاں  الاؤ گر نہ ہو

اس لق و دق میں  نکل آئیں  کہیں  بھیڑیے

اس الاؤ کو سدا روشن رکھو!

(ریگِ صحرا کو بشارت ہو کہ زندہ ہے  الاؤ،

بھیڑیوں  کی چاپ تک نہیں  ہیں!)

آگ سے  صحرا کا رشتہ ہے  قدیم

آگ سے  صحرا کے  ٹیڑھے، رینگنے  والے

گرہ آلود، ژولیدہ درخت

جاگتے  ہیں  نغمہ در جاں، رقص برپا، خندہ بر لب

اور  منا لیتے  ہیں  تنہائی میں  جشن ماہتاب

ان کی شاخیں  غیر مرئی طبل کی آواز پر دیتی ہیں  تال

بیخ و بن سے  آنے  لگتی ہے  خداوندی جلاجل کی صدا!

 

آگ سے  صحرا کا رشتہ ہے  قدیم

رہروؤں، صحرا نوردوں  کے  لیے  ہے  رہنما

کاروانوں  کا سہارا بھی ہے  آگ

اور  صحراؤں  کی تنہائی کو کم کرتی ہے  آگ!

 

آگ کے  چاروں  طرف پشمینہ و دستار میں  لپٹے  ہوئے

افسانہ گو

جیسے  گرد چشمِ مژگاں  کا ہجوم

ان کے  حیرتناک، دلکش تجربوں  سے

جب دمک اُٹھتی ہے  ریت

ذرّہ ذرّہ بجنے  لگتا ہے  مثالِ سازجاں

گوش بر آواز رہتے  ہیں  درخت

اور  ہنس دیتے  ہیں  اپنی عارفانہ بے  نیازی سے  کبھی!

یہ تمنّاؤں  کا بے  پایاں  الاؤ گر نہ ہو

ریگ اپنی خلوتِ بے  نور و خودبیں  میں  رہے

اپنی یکتائی کی ت حسیں  میں  رہے

اس الاؤ کو سدا روشن رکھو!                (دل، مرے  صحرا نوردِ پیر دل، کلیاتِ راشد، ص۲۷۱)

’دل، مرے  صحرا نوردِ پیر دل‘  راشدؔ کی ایک عمدہ نظم ہے، جس میں  تخلیقی ذہن نے  ایک قدیم ترین ’آرچ ٹائپ‘  ’آگ‘  سے  رشتہ قائم کیا ہے۔ اس تخلیقی رشتے  کی نوعیت وہ نہیں  ہے  جو غالبؔ  اور  آتش کے  رشتے  کی ہے۔ غالبؔ کا پیکر غیر معمولی نوعیت کا ہے۔ اُردو شاعری میں  ’آتش‘  کا ’آرچ ٹائپ‘  کسی فنکار میں  اتنا بیدار  اور  متحرک نظر نہیں  آتا۔ راشدؔ کے  اس تجربے  میں  ماضی کی حسیت کچھ دیر کے  لیے  اچانک بیدار ہو گئی ہے۔ ’آگ‘  کی علامت ماضی کے  صحرا میں  دُور تک لے  جاتی ہے۔ ’آتش‘  کے  ’آرچ ٹائپ‘  کے  تعلق سے  میں  نے  اپنی کتاب ’غالبؔ کی جمالیات‘  میں  غالبؔ کے  نسلی لاشعور کو آریائی لاشعور کہا تھا۔ یہاں  بھی راشدؔ کے  ذہنی پس منظر میں  آریائی لاشعور ہی کا عکس ہے  جو ہند عجمی تہذیب و تمدّن کی دین ہے۔ راشدؔ نے  صرف آتش یا آگ سے  اپنی فکر  اور  اپنے  تخلیقی ذہن کی کیفیتوں  کو سمجھانے  کی کوشش نہیں  کی ہے، صحرا  اور  ریگ کے  استعاروں اور تلازموں  سے  خوب کام لیا ہے۔ غور فرمائیے  ماضی کی حسیت کیسے  جمالیاتی تاثرات اُبھارتی ہے:

دل، مرے  صحرا نوردِ پیر دل

ریگ کے  دلشاد شہری، ریگ تو

اور  ریگ ہی تیری طلب

ریگ کی نکہت ترے  پیکر میں، تیری جاں  میں  ہے!

ریگ صبحِ عید کے  مانند زر تاب و جلیل،

ریگ صدیوں  کا جمال،

جشنِ آدم پر بچھڑ کر ملنے  والوں  کا وصال

شوق کے  لمحات آزاد و عظیم!

 

ریگ نغمہ زن

کہ ذرّے  ریگ زاروں  کی وہ پازیبِ قدیم

جس پہ پڑ سکتا نہیں  دستِ لئیم،

ریگ صحرا زرگری کی ریگ کی لہروں  سے  دُور

چشمۂ مکر و ریا شہروں  سے  دُور!

ریگ شب بیدار، سنتی ہے  ہر جابر کی چاپ

ریگ شب بیدار ہے، نگراں  ہے  مانندِ نقیب

دیکھتی ہے  سایۂ آمر کی چاپ

ریگ ہر عیّار، غارت گر کی موت

ریگ استبداد کے  طغیاں  کے  شور و شر کی موت

ریگ جب اُٹھتی ہے، اُڑ جاتی ہے  ہر فاتح کی نیند

ریگ کے  نیزوں  سے  زخمی، سب شہنشاہوں  کے  خواب

(ریگ، اے  صحرا کی ریگ

مجھ کو اپنے  جاگتے  ذرّوں  کے  خوابوں  کی

نئی تعبیر دے!)

ریگ کے  ذرّو، اُبھرتی صبحِ نو،

آؤ صحرا کی حدوں  تک آ گیا روزِ طرب

دل، مرے  صحرا نوردِ پیر دل

آ چوم ریگ

ہے  خیالوں  کے  پری زادوں  سے  بھی معصوم ریگ!

ریگ رقصاں، ماہ و سالِ نور تک رقصاں  رہے

اس کا ابریشم ملائم، نرم خو خنداں  رہے!                             (دل، مرے  صحرا نوردِ پیر دل)

راشد کے  کلام میں  ماضی کی حسیت (Sensibility of the Past) کا مطالعہ کرتے  ہوئے  آگ، ریگ، صحرا۔۔۔  اور  سبا، سمرقند، بخارا، ایران، بغداد، شہر کی فصیل، جنگل، کاخ و کوہ، گنبد و مینار، شمع، قندیل، عہدِ تاتار کے  خرابے، اقلیم شیر و شہر و شراب و خرمہ، یاجوج ماجوج، مدائن، کاہن، اسرافیل، الوند، ابولہب، سلیمان، کیقباد، سایۂ آمر کی چاپ، الاؤ، بوئے  آدم زاد، راہب، راہبہ،سراب، ہیکل تراش، سحرِ عظیم، اساطیرِ قدیم، سنگین تاریکی، ناگ، نمرود، سایہ، کتبہ، جسم کی راکھ، بوئے  آدم زاد، پیڑ پر بوم کا سایہ وغیرہ کا تصوّر کیجیے  تو ایک عجیب جمالیاتی رومانی فضا خلق ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ راشدؔ نے  کہا تھا ’’زندگی تو اپنے  ماضی کے  کنویں  میں  جھانک کر کیا پائے  گی، اس سونے  کنویں  میں تو زہریلی ہوائیں  بھری ہوئی ہیں۔‘‘  غور کیجیے  راشد نے  ماضی کے  کنویں  سے  کتنے  الف لیلوی فسانے، کتنے  دھُند میں  پوشیدہ پیکر و کردار ، کتنے  قدیم تہذیبی تمدّنی تجربات کے  تئیں  تاریخی اشارے اور کتنے  جمالیاتی رومانی ماحول کے  پراسرار نقوش عطا کر دیئے  ہیں۔ ان کی شاعری کی جمالیات کا جب بھی مطالعہ ہو گا انھیں  نظر انداز نہیں  کیا جا سکے  گا۔

ماضی کی حسیت  اور  جمالیاتی تجربوں  کے  پیشِ نظر اُن کی مندرجہ ذیل خوبصورت نظمیں  خاص توجہ چاہتی ہیں:

۔۔۔      ’حسنِ کوزہ گر‘  (۱،۲،۳،۴)

۔۔۔      ’اس پیڑ پر ہے  بوم کا سایہ‘

۔۔۔      ’اسرافیل کی موت‘

۔۔۔      ’ابولہب کی شادی‘

۔۔۔      بوئے  آدم زاد‘

 

چلا آ رہا ہوں  سمندروں  کے  وصال سے

کتنی لذّتوں  کا ستم لیے

جو سمندروں  کے  فسوں  میں  ہیں

مرا ذہن وہ صنم لیے

 

ہے  ہزار رنگ سے  خواب ہائے  خنک لیے

چلا آ رہا ہوں سمندروں  کا نمک لیے

 

وہ سرور و سوز صدف ابھی مجھے  یاد ہے

ابھی چاٹتی ہے  سمندروں  کی زباں  مجھے

مرے  پاؤں  چھو کے  نکل گئی کوئی موج ساز بکف ابھی

وہ حلاوتیں  مرے  ہست و بود میں  بھر گئی!!

ابھی ذہن ہے  وہ صنم لیے

جو سمندروں  کے  فسوں  میں  ہیں

چلا آ رہا ہوں  سمندروں  کے  جمال سے

صدف و کنار کا غم لیے                  (ن.م.راشدؔ)

 

شفیق فاطمہ شعری اس دَور کی ایک ممتاز شاعرہ ہیں  کہ جن کے  فن کا مطالعہ ہنوز باقی ہے۔ اُن کی تخلیقی فکر و نظر  اور  اُن کے  کلاسیکی لب و لہجے اور کلاسیکی رومانی اسلوب کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ ماضی کے  حسن و جمال سے  تخلیقی سطح پر جو رشتہ قائم ہے  اس کا اثر ان کی حسیت پر بھی گہرا ہوا ہے۔ ماضی کی حسیت بیدار  اور  متحرک ہے۔ تاریخ  اور  ماضی کے  قصّوں اور کرداروں  نے  بھی ان کی تخلیقی فکر کو متاثر کیا ہے۔ ماضی کے  جلال و جمال  اور  ماضی کی روشنیوں اور تاریکیوں  سے  وہ جس قدر متاثر ہوئی ہیں  اُن کی مثالیں  ان کے  شعری مجموعوں  میں  جا بجا موجود ہیں۔ نئے  تجربے  حسیتِ ماضی کو بیدار  اور  متحرک کرتے  ہیں۔ ماضی  اور  حال کے  تجربوں  کی ہم آہنگی سے  خوبصورت شعری تجربے  سامنے  آتے  ہیں۔ ایک خوبصورت مختصر نظم ’زود پشیماں ‘  سنئے:

خوب روئے مدتوں  وہ زار زار

آدم و حوّا

بہشتِ جاوداں  سے  دَورِ مہجور۔۔۔

ٹھیک ہے  پتوں  سے  ڈھک لیں  گے

یہاں  بھی اپنے  تن

پھر دوبارہ دورِ وحشت میں  پہنچ کر

رہ نہ پائیں  گے  مگر تجھ بن یہاں

ویسے  ہی بے  فکر و مگن

جیسے  وہاں  تھے

اے  خدائے  ذوالمتن

ہم پہ القا کر وہ کلماتِ اتم

جن کے  طفیل

ظلم اپنی جان پر پیمان پر

پھر کبھی ڈھائیں  نہ ہم                                (سلسلۂ مکالمات، ص۲۲۹)

ماضی کی حسیت نے  اس عہد کے  انسان کی ٹریجڈی کو جس شدّت سے  محسوس کر نے  پر مجبور کیا ہے  اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔۔۔ یا یہ کہیے  کہ اس عہد کے  انسان کی ٹریجڈی نے  ماضی کی حسیت کو کتنی شدّت سے  بیدار کیا ہے  اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

اپنے  تجربوں  کی ترسیل کے  لیے  ماضی کی حسیت جس طرح بیدار ہوئی ہے  اس کی دو مثالیں  ملاحظہ فرمائیے:

*          دور کہیں  تاریک ڈھلانوں  میں  جادوگر زہر پکاتے

کالی پرانی دیگوں  میں

میں ہی ایسے  کانٹوں  والی ڈھانچہ ڈھانچہ شبیہیں

غاروں  میں  جنبش کرتی

ان کے  آگے  جلتی نیلی پیلی آگ

دیکھ کے  جس کو ہم دہشت میں  پڑے                        (رُت مالا، سلسلۂ مکالمات، ص۳۹)

 

*          گپھا گپھا یگوں  کے  دائرے

گپھا گپھا یگوں  کے  دائروں  میں

جن گھنے  کہ جن میں  جھٹپٹا

تپسّیویوں  کے  ساتھ ساتھ تھا سدا مقیم

جل رہے  ہیں

جل رہا ہے  فجر کا الاؤ

سگندھ اس کی اتنی گھائل اتنی تیز ہے

کہ سیلی سیلی یہ سگندھ ہے  لہو لہو                                           (فجر کا الاؤ، ایضاً، ص۷۷)

شفیق فاطمہ شعری کی نظمیں  مثلاً ’خلد آباد کی سر زمیں ‘ ، ’رُت مالا‘ ، ’فصیل  اور  نگ آباد‘ ، ’ایلورہ‘  وغیرہ ماضی کی حسیت  اور  ماضی کے  تعلق سے  فنکار کے  رویّہ  اور  رجحان کو سمجھاتی ہیں۔

 

آج کی اُردو شاعری میں  اساطیر، اساطیری واقعات و کردار  اور  ماضی کی حسیت کا تصوّر کیجیے  تو سب سے  نمایاں  نام ڈاکٹر ستیہ پال آنند کا سامنے  آئے  گا۔ ستیہ پال آنند نے  ہندوستانی  اور  یونانی اساطیر سے  تخلیقی سطح پر ایک مستحکم رشتہ قائم کر رکھا ہے۔ تجربوں  کے  تخلیقی اظہار میں  اساطیر  اور  ’متھ‘  سے  بڑی مدد لی ہے۔ علامتوں  کو نئی معنویت دی ہے، مثلاً:

مرے  خدا، مجھے  بتا

میں  کیا کروں؟

کہ میں  مسیح تھا، نہ ہوں

تو کیا سبب ہے

میں  ہر ایک شب کسی صلیب پر چڑھا ہوا

لہو چشیدہ کیلوں  سے   جڑا ہوا

مسیح سا

ہزار بار کی شہادتوں  کے  جاں  گسل عذاب

سہہ رہا ہوں  آج تک!

ستیہ پال آنند کے  اندر ایک کہانی کار چھپا ہوا ہے، ساتھ ہی ان کی اسطوری جبلت کا اظہار بھی بار بار ہوا ہے۔ شاعری کی جمالیاتی رومانی حسیت نے  اساطیر  اور  فکشن سے  جو ذہنی  اور  جذباتی رشتہ قائم کر رکھا ہے  اس سے  جمالیاتی تجربے اور زیادہ روشن ہوئے  ہیں، جلال و جمال کے  دلکش مناظر سامنے  آئے  ہیں۔

اسطوری جبلت  اور  ماضی کی حسیت کے  پیشِ نظر اُن کی مندرجہ ذیل نظمیں  بہت اہم ہو جاتی ہیں:

’کالا جادو‘  (۱،۲،۳)        ’پیڑ پر سوت کی

’Adam’s Apple (1,2,3)‘         ’الوداع‘

’ایڈ یپس ایک سوچ میں  گم ہے ‘       ’آخری چٹاّن تک‘

’دو بھائی‘           ’کھوئی ہوئی پری‘

’یسوع‘              ’نٹ راج‘

’ایک پینٹنگ کو دیکھ کر     ’پری کہانی‘

ستیہ پال آنند کی تتھا گت نظمیں  جن کی تعداد نو ہیں  ’وقت لا وقت‘  میں  شامل ہیں۔ یہ نظمیں  بھی اُن کی اسطوری جبلت کے  اظہار کی عمدہ مثالیں  ہیں۔

 

عنبرؔبہرائچی نے  بدھ  اور  بدھ اساطیر سے  تخلیقی سطح پر جو رشتہ قائم کیا ہے  وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ’مہابھنشکرمن‘  ایک عمدہ تخلیق ہے  جس نے  ماضی کی حسیت کو فنکارانہ سطح پر عروج بخشا ہے۔ پوری نظم میں  ماضی کا جمال بکھرا ہوا ہے۔ بدھ کی عظیم شخصیت کے  پہلو شعری تجربوں  میں  اس طرح اُجاگر ہوتے  گئے  ہیں  جیسے  کسی عمدہ ڈرامے  کے  پرکشش مناظر ہوں۔ اس طویل نظم کی ڈرامائی خصوصیات شعری تجربوں  کی روح بن گئی ہیں۔ نظم کی اُٹھان ایسی ہے  کہ موضوع فوراً قاری کے  ذہن کو اپنی گرفت میں  لے  لیتا ہے۔ اس دَور میں  ایسی طویل نظمیں  بہت کم لکھی گئی ہوں  گی جن میں  وجدان کو متاثر کر نے  کی اتنی صلاحیت ہو۔ ایک تو بدھ کی زندگی  اور  ان کی پراسرار شخصیت کا ظاہری  اور  باطنی ارتقا  اور  پھر عنبرؔ بہرائچی کا شعری وجدان، ان سے  اس طویل نظم میں  روح پرور کیفیتیں  پیدا ہو گئی ہیں۔ اساطیری ماحول  اور  کئی مقامات پر شاعر کے  جذب و کیف کا عالم۔۔۔ ان سے  ماضی کی حسیت میں  پرکشش تحرک پیدا ہو گیا ہے۔ اس نظم کی فکری، معنوی  اور  جمالیاتی سطح دعوتِ غور و فکر دیتی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:

اللہ اللہ سوختہ جانوں  کی وہ وارفتگی

پائے  استقلال میں  جن کے  نہیں  کوئی کمی

آسماں  در آسماں  پردے  ہزاروں  تھے  مگر

چیر کر اُن کو نگاہِ جستجو بڑھتی رہی

دیدنی ہے  جذبۂ شوریدہ سر کی ہر تڑپ

رقص میں  ہیں  جس کی بانہوں  میں  رموز و آگہی

گردشوں  کی قید سے  آزاد شوقِ معتبر

دے  رہا ہے  ہر نظر کو دعوتِ نظارگی

اب یہیں  پر ختم ہیں  تاریکیوں  کے  سلسلے

چارسو ہے  روشنی، رخشندگی، تابندگی

(مہابھنشکرمن، ص۱۹۳)

 

مطالعہ کے  لیے

 

(1)     G.C. Jung ——- The Psychology of the Unconscious

(2)     G.C. Jung ——- Psychological Types

(3)     G.C. Jung ——- Two Essays on Analytical Psychology

(4)     G.C. Jung ——- Modern Man in Search of Soul

(5)     G.C. Jung ——- Psychology and Religion (Vo. II)

(6)     G.C. Jung ——- The Integration of the Personality

(7)     G.C. Jung ——- Introduction to the Science of Mythology

(8)     G.C. Jung —– The Archetype and the Collective Unconsciousness  (Vo.9)

(9)     Ann Swinfen ——- In Defense of Fantasy

(10)I. Roset ——- The Psychology of Fantasy

(11)S. Freud ——- Totem And Taboo

(12).G. Morgan ——- Ancient Society

(13)Lenin ——- Collected Works (Vo. 1 & IV)

(14)John Drinkwater ——– The Outline of Literature

(15)Vioet Staub De aszo ——- The Basic Writings of C.G. Jung (Edited)

(16)Richard Woods ——- Understanding Mysticism (Edited)

(17)Karle Werner ——- Symbols in Art and Religion

(18)Jawahar lal Handoo ——- Folklore in Modern India (Edited)

(19)A. D. Pisaker ——- Studies in Epics and Puranas of India

(20)Joarde Jacobi ——- The Psychology of C. G. Jung

(21). Spence ——- An Introduction to Mythology

(22). Spence ——- Myths and Legends of Ancient Egypt

(23)H. A. Gueraber ——- The Myths of Greece and Rome

(24)Sister Nivedita and Dr. A. Coomaraswamy ——- Myths of the Hindus

and Buddhism

(25)Rhys Davids ——- Buddhism

(26)Thomas Bufinich ——- The Age of Fable or Beauties of Mythology

(27)Ai A. Jafarey ——- An Outline of the Zarathushtrian Religion and

Zoroastrianism

(28)Arther Cotere ——- Mythology of Greece and Rome

(29)F. T. C. Werner ———– Myths and Legends of China

(30)H. J. Rose  ———– A Handbook of Greek Mythology

 

 

 

٭٭٭

مصنف کی اجازت سے اور ان کے تشکر کے ساتھ

اردو تحریر میں تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید