FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اردو کی ابتدائی نثری تصنیف معراج العاشقین:تحقیق و تنقید کے آئینے میں

               ڈاکٹر روبینہ ترین

Abstract

            This research paper is divided into three main sections. The first part introduces the book titled Meraj-ul-Ashiqeen, analyses the subject and content with special emphasis on the terminology of mysticism used by the author. In the second part, excerpts and examples which are often quoted in the books of early history of literature are reproduced so as to enable a serious reader to sample Deccani language and literature; salient features of the prose style of the author are also highlighted and discussed here. In the last section, an attempt has been made to establish Kh. Banda Nawaz as the author of Meraj-ul-Ashiqeen, repudiating the arguments of Dr. Hafeez Qateel.

            اردو کے آغاز  و ارتقا ء میں دکن کو اہم مقام حاصل ہے نہ صرف لسانی حوالے سے بلکہ ادبی لحاظ سے بھی یہ خطہ اردو زبان و ادب کی تشکیل اور ارتقاء میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔ اس سلسلے میں ان صوفیائے کرام کی کاوشیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو دکن کے علاقے میں مقیم تھے یا آ کر  آباد ہوئے۔ خصوصاً نویں صدی ہجری کے آغاز میں جب دکن میں بہمنیہ حکومت تھی اس دور میں صوفیائے کرام نے عوام میں دعوت  و تبلیغ کے سلسلے کو تقویت دی۔ دینی و اخلاقی ہدایت کی پذیرائی بالعموم ان عام لوگوں میں ہوتی ہے جو دنیوی و مادی آسائشات سے محروم ہوتے اور امیدوار جنت ہوتے ہیں ، تعلیم یافتہ نہیں ہوتے یا جن کی دینی معلومات بہت کم ہوتی ہیں ۔

            اردو زبان کی ابتدا کے حوالے سے تو اب تک کئی دعوے دلائل کے ساتھ سامنے آ چکے ہیں اور اس کے مولد و منشاء کے حوالے سے کئی خطوں یا علاقوں کے بارے میں بھی بہت دعوے ہو چکے ہیں لیکن یہ اب تک کے شواہد سے طے ہے کہ اردو شعر و ادب کی ابتدا کا خطہ جنوبی ہند ہے۔ اس سلسلے میں خاص طور پر وہ محققین قابلِ ذکر ہیں جنہوں نے اس حوالے سے قابلِ قدر کام کیا حکیم شمس اﷲ قادری ، ڈاکٹر مولوی عبدالحق، ڈاکٹر نصیر الدین ہاشمی،         ڈاکٹر محی الدین قادری زور، ڈاکٹر رفیعہ  سلطانہ، ڈاکٹر فہمیدہ بیگم، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر حفیظ قتیل، ڈاکٹر گیان چند جین، ڈاکٹر سیّدہ جعفر، ڈاکٹر حمیرا جلیلی، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر وہاب اشرفی، ڈاکٹر جاوید وسشٹ، عبدالقادر سروری اور میر سعادت علی رضوی وغیرہ اردو ادب کے ایسے مؤرخ و محقق ہیں جنہوں نے دکن کے حوالے سے اردو ادب کے سرمائے میں گراں قدر اضافے کئے۔ بہمنیہ دور، عادل شاہی و قطب شاہی دور کے ادب کے باکمال کارنامے جو مرورِ زمانہ کے غبار میں ہماری نظر سے اوجھل ہو چکے تھے ،انہی محققین کی کاوشوں سے تاریخِ ادب کا مستقل جزو بن گئے ہیں ۔ ان محققین نے اردو ادب کی تاریخ کو ماضی میں صدیوں آگے بڑھا دیا ہے۔ انہوں نے دکنی عہد کے نامور شعرا  ا ور نثر نگاروں کی نثری و شعری تخلیقات کو روشناس کروا کر نہ صرف ادب میں گراں قدر سرمائے کا اضافہ کیا بلکہ لسانی تحقیق کے نئے در وا کر دئیے ہیں ۔ اب تک ہمارے ادب کی تاریخ لکھنے والوں نے فورٹ ولیم کالج سے آغاز کرتے ہوئے اس سے قبل کے چند نثری نمونوں کی تعداد اور نام گنوا دئیے، بلکہ اس میں بھی اختلاف رہا کہ پہلی نثری تصنیف کونسی ہے۔(۱)

            اردو ادب کے ماضی کے بہترین ورثہ کے مطالعہ سے پہلے ہمیں یہ بات یاد رکھنی ہو گی کہ ہر عہد اور سماج کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں تہذیب و روایات اور پسند وناپسند کے معیار ہوتے ہیں جو قوموں کے مزاج کی تشکیل کے اہم عنصر کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہی کا اظہار ادب میں بھی ہوتا ہے۔ موضوعات،اصناف اور زبان کا تعلق بھی اسی معاشرے سے ہوتا ہے۔ دکنی تصانیف کے مطالعے سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زبان نے کس زمانے میں کس کس طور پر جنوب کی کس کس زبان سے اثرات قبول کئے۔ خیالات، مضامین، اصناف اور اوزان و بحور میں   جنوب و شمال سے کیا کیا اثرات قبول کئے۔

            دکن کے صوفی شعرا اور صوفی مزاج نثرنگاروں نے بھگتی اور صوفیانہ تجربوں کی آمیزش سے جو تخلیقی و فکری چراغ روشن کئے تھے، اس کے گہرے اثرات اردو زبان و ادب کے شیدائیوں کے حِسّی تجربات اور ذخیرۂ  الفاظ پر ہیں ان صوفیاء کے انداز بیان، محاورات، علامتوں اور استعاروں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہندمسلم تہذیب کی بنیاد کو وسیع القلبی اور رواداری کے اوصاف کے ساتھ مضبوط اور مستحکم بنانے میں یہی صوفیاء پیش پیش رہے ہیں ۔

            یہ امر مسلمہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں اسلام کا فروغ اولیائے کرام کی خدمات کا ثمر ہے۔ یہ اولیاء ہر علاقے میں وہاں کی زبان اور سادہ و عوامی لہجے میں لوگوں کو نیکی، اخلاق اور مذہب کے بارے میں درس دیتے تھے ان صوفیائے کرام کے برصغیر کے مختلف حصوں کے صوفیاء کے ساتھ رابطے بھی تھے۔صوفیائے کرام کی تعلیم کسی خاص فرقے سے مخصوص نہیں ہوتی، ان کا فیض عام ہوتا ہے، چنانچہ ہر طبقے کے لوگ ان کے پاس آتے تھے، جنہیں سمجھانے کے لئے انہی کی زبان میں باتیں کرنی پڑتی تھیں بقول مولوی عبدالحق:

’’دلوں کو ہاتھ میں لانے کے لیے سب سے پہلے ہم زبانی لازم ہے ہم زبانی کے بعد ہم خیالی پیدا ہوتی ہے درویش کا تکیہ سب کے لئے کھلا تھا۔ بلا امتیاز ہر قوم و ملت کے لوگ ان کے پاس آئے اور ان کی زیارت اور صحبت کو موجب برکت سمجھتے عام و خاص کی کوئی تفریق نہ تھی۔ خواص سے زیادہ عوام ان کی طرف جھکتے تھے اس لئے تلقین کے لئے انہوں نے جہاں اور ڈھنگ اختیار کیے ان میں سب سے مقدم یہ تھا کہ اس خطّے کی زبان سیکھیں تاکہ وہ یہ پیغام عوام تک پہنچا سکیں ۔‘‘(۲)

            آٹھویں صدی ہجری کے صوفیاء میں اہم نام سید یوسف معروف بہ شاہ راجو قتال کے صاحبزادے سید محمد حسینی بندہ نواز گیسودراز (پ:۷۲۵ھ،و :۸۲۵ھ) کا ہے۔ آپ پانچ سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ دولت آباد (دکن) آئے ابتدائی تعلیم حاصل کی، پندرہ برس کے ہوئے تو آپ کے والد کا انتقال ہوا تو والدہ ماجدہ کے ہمراہ دہلی واپس تشریف لے گئے۔ سولہ سال کی عمر میں نصیر الدین محمود چراغ دہلوی کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کی، طویل عرصے تک وہیں قیام کیا اور اس دوران میں آپ نے چندر سالے تصنیف کئے۔ ۸۰۱ھ میں تیمور نے دہلی پر حملہ کیا اور فتح کے بعد قیامت برپا کی تو آپ بد دل ہو کر اسی فساد کے عالم میں دوبارہ دکن آ گئے اور آخری وقت تک و ہیں رہے، ۸۲۵ھ میں آپ کی وفات ہوئی۔(۳)

            آپ نے عربی ، فارسی اور دکنی زبان میں رسائل و کتب لکھیں اور کئی کتابوں کے تراجم بھی کئے، ان جملہ رسائل وکتب کی تعداد مختلف محققین نے مختلف بتائی ہے، لیکن ان سب کا موضوع تصوف، مذہب اور احکامِ شریعت سے ہے۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں کہ

’’حضرت صاحب علم وفضل اور صاحب تصانیف بھی ہیں ۔ آپ کا معمول تھا کہ نمازِ ظہر کے بعد طلبہ اور مریدوں کو حدیث اور تصوف اور سلوک کا درس دیا کرتے اور گاہے گاہے درس میں کلام  و فقہ کی تعلیم بھی ہوتی تھی۔ جو لوگ عربی فارسی سے واقف نہ تھے، ان کے سمجھانے کے لئے ہندی زبان میں تقریر فرماتے تھے۔‘‘(۴)

اسی طرح نصیر الدین ہاشمی لکھتے ہیں کہ

’’ جو لوگ عربی اور فارسی سے ناواقف تھے ان کے لئے آپ دکھنی میں تقریر فرماتے تھے اور انہیں (انہی)کے لئے آپ نے اپنی تصانیف مرتب فرمائیں آپ کی چند تصانیف کا پتہ چلتا ہے یعنی معراج العاشقین، ہدایت نامہ اور رسالہ سہ بارہ ۔۔۔۔۔عبارت کا نمونہ حسب ذیل ہے بنی کہے تحقیق خدا کے درمیان تے ستر ہزار پردے اوجیالے کے ہور  اندھیار کے اگر اس میں تے یک پردہ اٹھ جاوے تو اس کی آنچ تے میں جلوں ‘‘(۵)

خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی تمام تصانیف میں سے سب سے زیادہ شہرت ’’معراج العاشقین‘‘ کو ملی ۔ اس رسالے میں قرآن و حدیث کے ذریعے مسلک تصوف کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے، بتایا گیا ہے کہ تصوف کے ایک مخصوص نظریہ پنجتن وجود کے ذریعے انسانی زندگی کی معراج یعنی ذات واحد الوجود تک کس طرح رسائی ہوسکتی ہے، ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کے مطابق

’’ یہ تصوف کے نکات اور رموز پر مشتمل ہے قرآن اور حدیث کی مدد سے اس رسالے کے ذریعے متصوفانہ مسلک سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے پانچ تن۔ واجب الوجود، ممکن الوجود، عارف الوجود اور ذکر جلی ، ذکرِ خفی، ذکر سری کے ذریعے انسانی زندگی کی معراج یعنے ذاتِ وحدت الوجود تک کس طرح رسائی حاصل ہو سکتی ہے۔اس کو سمجھا یا ہے عروج صوفیا کی اصطلاح میں مقام وحدت تک پہنچنے سے مراد ہے۔ یہاں سالک عالم ’’اجساد‘‘ کو مٹا کر عالم’’ مثال‘‘ تک جا پہنچتا ہے پھر وہ عالم مثال سے بھی آگے عالم ارواح میں جاتا ہے۔ اس کی آخری منزل عالم ’’اعیان‘‘ ہے جس کے بعد وہ ’’واحدیت‘‘ اور وحدت کے مرتبہ تک پہنچ جاتا ہے عروج کی آخری حد تک ’ نور ِمحمدؐ   ہے اور سالک کی رسائی وہیں تک ہے۔‘‘ (۶)

 کتاب کے آغاز میں ہی خواجہ بندہ نواز گیسو دراز لکھتے ہیں کہ

’’انسان کے بوجنے کوں پانچہ تن ہرایک تن کوں پانچ دروازے ہیں ، ہور پانچ دربان ہیں ، پیلا تن واجب الوجود، مقام اُس کا شیطانی، نفس اُس کا اماّرہ، یعنی واجب کے آنک سوں غیر نہ دیکھنا سو، حرص کے کان سوں غیر نہ سننا سو۔ حسد نک سوں بدبوئی نہ لینا سو، بغض کے زباں سوں بدبوئی نہ لینا سو۔‘‘(معراج العاشقین، تاج جلد ۲، نمبر۴،۰،۶،ص۱۱)

’’دوسراتن ممکن الوجود، اس کا نگہبان اسرافیل-نفس لوامہ، حواس خمسہ ممکن کے آنک سوں غیر نہ دیکھنا سو۔ غفلت کے کان سوں غیر نہ سننا سو۔ وسواس کے نک سوں بدبوئی نہ لیناسو۔‘‘ (معراج العاشقین، ص۱۲)

’’تیسرا تن ممتنع الوجود اس کا قابض کرنے ہارا عزرائیل‘‘ خواجہ بندہ نواز اس کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ

’’ممتنع کے آنک سوں خدا طرف نا دیکھنا سو۔ سر  کا  در د  دونوں کانوں سوں خدا کا کلام ناسنا سو۔ تہنڈ ناک سوں خدا کی بوئی نا لینا سو۔ ‘‘ ( معراج العاشقین، ص۱۲)

’’چوتہا تن عارف الوجود اسے جبرائیل دینے ہارا‘‘(ص-۱۲)

            عارف الوجود کی وضاحت کرتے ہوئے خواجہ بندہ نواز بتاتے ہیں کہ

’’عارف کے آنک سوں جبرائیل کوں دیکھنا۔ کانوں سوں جبرائیل کی باتاں سننا۔ ناک سوں جبرائیل کی بوئی لینا۔ زبان سوں جبرائیل کی باتاں بولنا ۔۔۔۔پانچہ عناصراں کا عارف الوجود بوجیا، تو معریفت تمام ہوا۔‘‘ (معراج العاشقین ، ص۱۳)

            آخری اور پانچواں عنصر ان کے نزدیک واحد الوجود ہے وہ لکھتے ہیں :

’’ پانچواں تن واحد الوجود، اس کا فرشتہ ابلیس او خدا کے دروازے پر رہتا ہے۔۔۔۔ واحد الوجود کے انک سوں عشق کے کان سوں ۔ محبت کی ناک سوں ۔ یاد کا دم اس کی زبان سوں ۔ ذکر  لسان الغیب اُسے الہام بولتے ہیں اس کا شہوت سوں صبر، اس پانچہ خواص کا مراقبہ باند نا۔ پیر کے واحد الوجود کا مشاہدہ کرنا، توحید کے دریا میں ٹھہرنا ذکر خفی کے محل میں وحدہ لا شریک لہ کی نیند لینا، اس جاگا کا حال پیغمبر علیہ اسلام کے سو معلوم کرنا۔‘‘ (معراج العاشقین ،ص۱۳)

            خواجہ بندہ نواز گیسو دراز نے کتاب میں جگہ جگہ قرآنی آیات اور احادیث کے حوالے سے ان متصوفانہ نکات کی وضاحت کی ہے مثلاً

            ’’اوّل ماخلق اﷲ نوری‘‘ کو خواجہ صاحب نے یوں لکھا ہے

’’اس کا معنی اے محمدؐ سب خلق کوں تیرے نورسوں پیدا کیا ہوں بعد اس کے نور کے دیوے روشن کیا ہوں ۔ اس روشنائی میں اپنی تصویر دیکہا سو دونوں عالم نورانی ہور روحانی۔ یعنی نورانی سو ابو الارواح۔ ہور روحانی سوا بوالا جساد۔‘‘ (ص۱۵)

’’  ’ولٰکن اﷲ یھدی من یشاء‘ اس کا معنی جسے اپنی ہدایت کرتا ہے اُسے فراق پیدا ہوتا ہے ملنے کیتیئں ‘‘(ص۱۵)

’’  ’یخرجھم من الظلمات الیٰ النور‘  اے محمدؐ اس ظلمات اندہارے میں تیرا نور اجیالا ہے۔‘‘ (ص۱۶)

’’  ’الخناس الذی یوسوس فی صدورالناس‘ اس کا معناء ابلیس سوں نہیں جانتے سولوگاں کوں وسواس دیتا ہے‘‘ (ص۱۷)

            ایک اور جگہ لکھا ہے کہ

’’  ’وماوسعتنی الارض ولا السماء العبدہ قلب المومن‘  اس کا معنی نیں سمایا زمین میں ۔نیں سمایا اسمان میں ، مگر سمایاہوں مومناں کے دلمیں ۔‘‘ (ص۲۶)

            بلاشبہ دین حکمت کا منبع قرآن اور حدیث ہے مگر نکتہ رس عالم کا ترجمہ اور پراز معنی وضاحت ہی عوامی سطح پر نقش ہدایت کو اس طرح راسخ کرتی ہے کہ کسی کلچر کی بنیاد بننے والا دینی احساس اجتماعی زندگی اور اس کی امنگوں میں رنگ بکھیرتا رہتا ہے۔

            مثلاً

’’  ’حدیث قدسی کنت کنزاً مخفیافاجبت ان عرف فخلقت الخلق‘  اس کا معنا دریائے قدیم سے برابر اُٹھیا۔ اسے محمد کا نور بولتے ہیں ۔ اس میں آپکو دیکہیاسو خالق میں تے خلق کوں اظہار کیا۔ ‘‘(معرا ج العاشقین، ص ۱۴)

’’  ’من لم یبایع علی الاسلام فھو مشرک ‘   اس کا معناجیکوئی محمد کی امت بیعت ناہوئیگاسو مشرک ہے۔‘‘ (ص۲۳)

            احادیث کا انہوں نے نہ صرف ترجمہ کیا بلکہ وضاحت بھی کی مثلاً ایک جگہ بتاتے ہیں کہ

حدیث نبوی ’’   ’اللھم انی اسالک المغفرۃ والعافیۃ‘   اس کا معنا نبی کہے تحقیق منگتا ہوں خدا تیرے پاس بخش مجہے تیرا دیدار ہور قرب۔ یوں میری امت کوں بھی دیدار دے۔ یو نماز مومناں پر واجب ہے۔‘‘(ص۲۴)

            گویا ’معراج العاشقین‘کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حقیقتِ شریعت کا رمز، تمثیل اور تفسیر حضرت محمدؐ  کی ذات ہے، انہی کی ذات اور سیرت کی محبت ہی ہمیں خداوند تعالیٰ کی حقیقت کو محسوس کرنے کے قابل بنا سکتی ہے، ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ ’’معراج العاشقین‘‘ کے موضوع کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ

 ’’پانی سے مراد البحرالمسجور‘   وہ دریا ہے جو عرش سے پرے ہے’’ آگ‘‘ سے مراد وہ نور یا روشنی جو قلوب کو منور کرتی ہے۔ یعنی مرید کو اس درجہ استغراق ہونا چاہیے کہ وہ اپنے عناصر کو بھول کر ان عناصر میں مل جائے۔‘‘(۷)

جن واعظوں کو زعمِ پارسائی ہوتا ہے وہ خطابت سے مرعوب کرتے ہیں ، اپنی آواز سے محبت کرتے ہیں اور اپنی علمیت کی نمائش سے لطف اندوز ہوتے ہیں ، جب کہ یہاں دیکھئیے کہ ہم کلامی علمی اصطلاحات و مشکلات کو کتنی سہولت کے ساتھ حسنِ اظہار سے آراستہ کرتی ہے۔

’’اے عزیز!او فرشتیاں کے معنی سن، دودھ جبرائیل، پانی میکائیل ، شہد اسرافیل، شراب عزرائیل۔ دوسرے معنی جبرائیل عقل کوں بولتے، میکائیل دل کوں بولتے ہیں ، اسرافیل دم کوں ۔ عزرائیل روح کوں بولتے۔ یوتمام نصیحت حضرت نے قطرے میں لیاتے، بعدزاں ملنے کا شوق ہوا اﷲکوں محبت ہورمحمدؐ  کوں ذوق ہوا وصل کا۔ یو سات صفتاں کیاں کی سرپوش اوڑا کر ذاتی سات صفتاں کے طبق میں یو پانچہ پوشک جبرائیل لیکو صدق، عدل، حیا، شجاعت، عنایت یو صدق کاپے جامہ،  عدل کا جامہ، حیاکا کمر بند، شجاعت کا دستار۔ عنایت کا ڈوپٹہ اوڑا کر میرے معشوق کوں لیاؤ‘‘(ص۱۸،۱۹)

آگے چل کر پھر لکھتے ہیں کہ

’’بندیاں کوں خبر دینا، صدق نبوت ہے، عدل ولایت ہے، حیا قدرت ہے، شجاعت شہد ہے، عنایت بخشش رب کی ہے۔ اے محمدؐ!صدق شریعت کی بندگی ہے جس میں صدق ہے اومسلمان ہے‘‘ (ص۱۹)

            اس میں شک نہیں کہ ایسے ملفوظات و تصانیف کا بنیادی مقصد ادبیت نہیں اور نہ ہی ان کے مضامین میں منطقی ارتباط کو تلاش کرنا چاہیے۔مگر یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ اگر ’معراج العاشقین‘ کے بلند پایہ مصنف اپنی تماثیل میں مطابقت اور ربط بھی پیدا کر لیتے ، تو انہی محولہ بالا عبارات کا رتبہ اور بلند ہو جاتا، مثلاً پانی کو میکائیل ، شہد کو اسرافیل اور شراب کو عزرائیل کا مترادف قرار دے کر دل، دم اور روح کو پھر ان فرشتوں سے منسوب کرتے ہوئے اور پھر اوصاف (عدل، ولایت، شجاعت اور حیا) کا ذکر کرتے ہوئے وہ تلازمے اور مطابقت کو بھی پیش نظر رکھتے تو ان کی عبارت کا تخلیقی و ادبی ، اعتبار بڑھ جاتا ۔

            معراج العاشقین کی زبان فارسی اور عربی سے آراستہ کھڑی بولی ہے، مگراس کی بنیادی خوبی یہی ہے کہ ادق مضامین کو پیش کرنے کے لئے خواجہ صاحب نے دلنشین انداز اپنایا ہے اپنی بات کو مخاطب کے حافظے میں زیادہ بہتر طریقے سے محفوظ کرنے کے لئے انہوں نے فارسی اشعار کا سہارا بھی لیا ہے جو تاریخی اور ثقافتی حوالے سے مجلس میں گرمی ہی نہیں حِسّی و ذہنی ارتباط کا موجب بھی رہے ہیں مثلاً پیر کو مجازاً طبیب کا مل سے تعبیر کرتے ہیں ۔

’’          طبیب عشق را دکّان کدام است                              علاج جاں کند اُو راچہ نام است

پیر طبیب کامل ہونا، نبض کوں پچھان کر دوا دینا‘‘ (ص۱۱)

ایک جگہ لکھتے ہیں

’’          من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی  تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری

اس کا معنا توں میرا ہوا ، تو جیو ہو،ا میں تن ہوا۔ تن کوں بول کسکوں توں جدا ہوا یا میں جدا‘‘(ص ۲۴)

’’          لباس زہد و تقویٰ تا نہ پوشی                                    شراب معرفت را کے بنوشی

اس کا معنا جیکوئی لباس تن کا پاک نہ رکہیگا اور پچہانت کا شراب نہ پی سکیگا۔‘‘(ص۱۸)

’’          مردان خدا خدا نہ باشند                               ولیکن زخدا جدانہ باشند ‘‘(ص ۲۴)

فارسی اشعار کا جگہ جگہ استعمال اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ نہ صرف اُس زمانے کا رواج تھا بلکہ خود خواجہ بندہ نواز بھی فارسی کا ذوق رکھتے تھے۔ جہاں تک معراج العاشقین کی زبان کا تعلق ہے۔ اس میں جملوں کی ساخت کے لحاظ سے وہ خصوصیات موجود ہیں جو قدیم دکنی اردو میں یا اردو کی ابتدائی نشوونما کے دور میں تھیں مثلاً

 ’نیت بند کر نماز پڑہے‘  ’اﷲ کی ذات سیوائے‘ ،  ’دیکہیا ہوں ‘  ’کہیا‘،  ’جیکوئی پہچانیا خدا کوں ‘،  ’خدا کا ناوں لیا، اپنڑانے کوں ‘

ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔ وہ جملوں کو ڈائریکٹ یا براہ راست ساخت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے جملے میں فعل متعدی کی خاص صورتوں کے موقع پر جبکہ موجودہ ادبی اردو میں جملے کے فاعل کے ساتھ علامت فاعل ’نے‘ لائی جاتی ہے، جس کے نتیجے کے طور پر جملے کی ساخت مجہول ہو جاتی ہے اور فعل کی مطابقت فاعل کے ساتھ نہیں ہوتی بلکہ مفعول کے ساتھ ہوتی ہے، وہ اکثر حرف ربط کو بھی حذف کر دئیے ہیں لفظوں کی قدیم شکلیں وہی ہیں جو اکثر دکنی نثر نگاروں کے یہاں ملتی ہیں ۔

                        مثلاً

                                    فاعل                                          غیر فاعلی

                                    میں                                            منج (مجھے)

                                    ھمنا، ہمن ، ہمیں (ہم )                 ھمنا، ہمن ہمیں

                                    انوں (انہوں )                           انوں

اعداد  وہی ہیں جو آج کل ہیں لیکن لکھتے ہوئے پیلا،دسرا، تسرا، چوتہا، پانچوان، استعمال کرتے ہیں ۔اس طرح کچھ الفاظ ایسے ہیں جواب متروک ہو چکے ہیں یا وہ تصریف وتسہیل کی صورت سے گزرچکے ہیں ، جیسے انٹپرنا، دسنا، رکہنا، ہوئیگا، چلیا، جیکوئی، کوں ،  اپنڑے، کہیا، بندکر ،جیوں پچہانت، فعلاں ، دلیان، انپڑسکے، ہور  وغیرہ

’معراج العاشقین‘کی منشائے تصنیف اور مطالب و موضوع پر تو تمام محققین متفق ہیں ، لیکن یہ امر متنازع بنا دیا گیا ہے کہ کیا معراج العاشقین واقعی اردو کی پہلی نثری تصنیف ہے اور کیا خواجہ بندہ نواز گیسو دراز اس کے اصل مصنف ہیں ؟ مولوی عبدالحق کے علاوہ حکیم شمس اﷲ قادری نے اسے اردو کی پہلی تصنیف قرار دیتے ہوئے لکھا کہ

’’خواجہ صاحب نمازِ ظہر کے بعد طلبہ اور مریدوں کو علم تصوف اور حدیث وسلوک کا درس دیا کرتے تھے۔۔۔۔ جو لوگ عربی وفارسی سے ناواقف تھے، اُن کے سمجھانے کے لئے آپ دکنی میں تقریر فرماتے اور ایسے مریدوں کی فرمائش پر آپ نے چھوٹے چھوٹے متعدد رسالے دکنی میں تصنیف فرمائے تھے، منجملہ اُن کے معراج العاشقین اور ہدایت نامہ زیادہ مشہور ہیں ۔‘‘(۸)

            اسی طرح ڈاکٹر خلیق انجم اور ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے بھی اسے اردو کی پہلی تصنیف مانتے ہوئے اسے مرتب کر کے اپنے اپنے مقدموں کے ساتھ شائع کیا لیکن 1968ء میں ڈاکٹر حفیظ قتیل نے اپنی تصنیف ’’معراج العاشقین کا مصنف‘‘ میں یہ دعویٰ کیا کہ نہ تو اس کے مصنف خواجہ بندہ نواز گیسودراز ہیں اور نہ ہی یہ اردو کی پہلی تصنیف ہے۔ بلکہ یہ کتاب گیارھویں صدی عیسوی کے اواخر اور بارھویں صدی عیسوی کے ابتدائی دور کے ایک بزرگ شاہ مخدوم حسینی بلکا نوری کی تصنیف ہے ،ڈاکٹر حفیظ کے نزدیک بیجاپوری تصوف کے قلمی سرمائے(۹) میں مخدوم شاہ حسنین بلکانوری کے تین رسالے شامل ہیں ؛  جن میں ایک رسالے کے نسخے کم اور دو کے زیادہ ہیں اس رسالے کا نام تلاوۃ الوجود ہے انہوں نے ان تینوں رسالوں کے فرق کو واضح کرتے ہوئے نسخوں کے مطابق ان کا نام الف، ب اور ج رکھ دیا۔ ان کا خیال ہے کہ معراج العاشقین کا تعلق ’الف‘ اور’ ب‘ نسخے کے ساتھ زیادہ ہے، الف کے نسخے تو بہت کم ملتے ہیں البتہ ب اور ج کا فی مقدار میں ملتے ہیں چنانچہ ڈاکٹر حفیظ قتیل وضاحت کرتے ہیں کہ

’’معراج العاشقین کا تعلق رسالہ (الف) سے نہیں بلکہ رسالہ (ب) سے ہے اس لئے کہ

۱-        رسالہ (ب) کا آغاز رسالہ (الف) کے تیسویں باب سے ہوتا ہے اور اپنے نو ابواب میں رسالہ (الف) کے آخری بارہ ابواب کو سمیٹ لیتا ہے، اس کے پانچ ابواب رسالہ (الف) کے ابتدائی ابواب میں سے لئے گئے ہیں ۔ اگرچہ معراج العاشقین میں ابواب کی سرخیاں نہیں ہیں لیکن مباحث کی ترتیب وہی ہے جو رسالہ(ب) کی ہے۔‘‘(۹)

ان رسائل سے ڈاکٹر حفیظ قتیل یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ

i-         مطبوعہ معراج العاشقین تلاوۃ الوجود کا خلاصہ ہے۔

ii-       معراج العاشقین بنیادی رسالہ ہے اور تلاوۃ الوجود اس کی شرح ہے۔

            لیکن متن کا موازنہ کرتے ہوئے ڈاکٹر حفیظ قتیل اپنے دوسرے خیال کو رد کر دیتے ہیں ،اور پھر نئے اور پیچیدہ دلائل کے ذریعے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں کہ

            ’’راقم الحروف کو ایسے صرف چار رسالے دستیاب ہوسکے ہیں جن کا نام معراج العاشقین ہے ان میں سے پہلے دو رسالہ (ب) تلاوۃ الوجود کے نسخے ہیں تیسرا رسالہ معراج العاشقین ہی ہے۔ابتدائی حصہ مختلف ہے چوتھا رسالہ من و عن مطبوعہ معراج العاشقین کا نسخہ ہے ان رسالوں کے ضمن میں ایک اور رسالہ کا ذکر ضروری ہے جس کا نام معراج العاشقین تو نہیں لیکن مطبوعہ معراج العاشقین کی طرح یہ بھی رسالہ (ب) تلاوۃ الوجود کا ایک علیحدہ خلاصہ ہے۔‘‘(۱۰)

            ڈاکٹر حفیظ قتیل ان رسالوں کے حوالے سے موضوعات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ان کا فرق واضح کرتے ہیں پھر معراج العاشقین کے موضوع پر تفصیلی بحث کرنے کے بعد اس کا تعلق حضرت امین الدین اعلیٰ کے سلسلہ تصوف سے جوڑتے ہوئے واضح کرتے ہیں کہ اس کی تصنیف کا زمانہ گیارہویں صدی ہجری کا ہے،  ان کا موقف ہے کہ

’’معراج العاشقین کے مضامین یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ رسالہ حضرت امین کی تعلیمات سے متضاد ہی نہیں بلکہ ان پر اضافہ بھی ہیں اس رسالہ کا عہد تصنیف یقینا حضرت امین (وفات 1085ھ)کے بعد کا زمانہ ہے۔‘‘(۱۱)

            ڈاکٹر حفیظ قتیل کی اس بات کی تائید ڈاکٹر سیدہ جعفر نے دکنی نثر کا انتخاب کرتے ہوئے اس طرح کی کہ

’’اُس انتخاب میں ابتدا اس لئے برہان الدین جانم کی تحریروں سے کی گئی ہے کہ وہی دکن کے پہلے مصنف تھے اور تحقیق سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ  ’ معراج العاشقین‘   خواجہ بندہ نواز کی تصنیف نہیں بلکہ مخدوم شاہ حسینی کی نثری کاوش ہے، جو گیارہویں صدی کے آخر اور بارہویں صدی کے اوائل کے مصنف تھے، خود مخدوم شاہ حسینی کی تلاوت الوجود کا انتخاب بھی اس کتاب میں شامل ہے۔‘‘(۱۲)

            ڈاکٹر حفیظ قتیل کی اس بات کی تائید ڈاکٹر ہاشم علی بھی کرتے ہیں

’’عادل شاہی دور کی دو اہم نثری تصانیف ’’کلمۃالحقائق‘‘ اور’’کلمۃ الاسرار‘‘ کے بعد قطب شاہی دور کی شاہکار نثری تخلیق ’سب رس‘ کا ذکر ضرور ی ہے حضرت بندہ نواز ؒ سے معراج العاشقین کا انتساب مشتبہ ہے اس لئے حضرت برہان الدین جانم  ؒ کا نثری رسالہ ’کلمۃ الحقائق‘ ہی پہلا نثری کارنامہ مانا جاتا ہے‘‘(۱۳)

            جہاں تک معراج العاشقین کی زبان کا تعلق ہے ڈاکٹر حفیظ قتیل اس پر بھی شک کرتے ہیں اس بارے میں بھی وہ مولوی عبدالحق کی مرتب کردہ معراج العاشقین کی زبان اور تلاوۃ الوجود کی زبان کا موازنہ بھی کرتے ہیں اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ

’’ کسی کتاب کے عہد تصنیف کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لئے کتاب کا لسانی مطالعہ بھی ممد و معاون ثابت ہوسکتا ہے لیکن معراج العاشقین کی عبارت اس قدر غلط اور اُلجھی ہوئی ہے کہ اس کے مطالعے سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہے تاہم موجود متن میں جو صوتی اور صرفی شکلیں ملتی ہیں وہ وہی ہیں جو گیارہویں صدی کی نصف آخر اور بارہویں صدی کے نثر میں ملتی ہیں اس اعتبار سے رسالہ معراج العاشقین شرح تمہید ہمدانی اور شرح مرغوب القلوب (مصنف میراں جی خدا نما متوفی 1074ء) ’رسالہ وجودیہ‘ اور’ ذکر نامہ‘ (مصنف شاہ محمد نور دریا متوفی  985ھ) ترجمہ شمائل الاتقیا (مترجم میراں یعقوب متوفی ۱۰۷۸ھ) خلاصۃ الرویا (مصنف سید میراں حسینی۔ متوفی 1115ء) کی صف میں آتا ہے بلکہ اپنی بعض خصوصیات کی وجہ سے اس کو اس سلسلہ کی آخری کڑی سمجھنا چاہیے‘‘(۱۴)

            اگرچہ ڈاکٹر حفیظ قتیل ۱۰۷ صفحے کی کتاب میں جگہ جگہ اس بات پر مصر ہیں کہ معراج العاشقین دراصل  ’ تلاوۃ الوجود‘   ہے۔ اور مولوی عبدالحق کی مرتب کردہ کتاب پر اعتراض کرتے رہے ہیں تاہم ایک بات انہوں نے یہ کہہ کر قبول کی کہ

’’البتہ عشق نامہ مصنفہ محمد عبد اﷲ بن محمد عبدالرحمن چشتی میں خواجہ صاحب کی تصانیف کے سلسلے میں ’’معراج العاشقین‘‘ اور ’’ہدایت نامہ‘‘ کے ذکر سے مولوی صاحب کا یہ قیاس کسی حد تک درست ہوسکتا ہے کہ معراج العاشقین کے نام سے انہیں جو دکنی رسالہ ملا ہے وہ خواجہ صاحب کا وہی رسالہ ہے جس کا ذکر ’’عشق نامہ ‘‘ میں ملا ہے۔‘‘(۱۵)

            ساتھ ہی انہوں نے اعتراف بھی کیا کہ ’’عشق نامہ‘‘ انہیں دستیاب نہیں ہوسکی یہیں ان کے دلائل کمزور ہو جاتے ہیں کہ جس کتاب کو وہ خود  دیکھ نہیں سکے اس پر شک کس طرح کر سکتے ہیں ؟لیکن پھر بھی کتاب کے آخر میں لکھتے ہیں کہ دو مختلف داخلی اور خارجی شہادتوں کی بنیاد پر واضح کیا گیا ہے کہ’ معراج العاشقین‘ مخدوم سید محمد حسینی   بندہ نواز کی تصنیف نہیں بلکہ گیارھویں صدی کے آخر اور بارہویں صدی کے آغا ز کے عہد کے ایک بزرگ مخدوم شاہ حسینی کی تصنیف ہے رہا906 ھ کا سوال تواس تعلق سے یہ اعتراف کیا جاچکا ہے کہ ڈاکٹر محمد قاسم کا نسخہ راقم الحروف کو دستیاب نہیں ہوسکااورنہ تو معراج العاشقین کا کوئی دوسرا ایسا نسخہ ملا جو اس سند کی تصدیق یا تردید کر سکتا لیکن چونکہ مطبوعہ معراج العاشقین تلاوۃ الوجود(ب) تلاوۃ الوجود(الف)کا خلاصہ ہے اور رسالہ (الف) اور رسالہ (ب) دونوں مخدوم شاہ حسینی کی تصنیف ہیں اور ان رسالوں کا موضوع خانوادہ کا اجتہادی تصوف ہے اس لئے عقل سلیم ڈاکٹر محمد قاسم کا نسخہ جس نسخہ سے نقل کیا کیا گیا ہے اس کے سنہ کتاب 906ھ کو غلط سمجھے پر مجبور ہے۔ (معراج العاشقین کا مصنف ص۱۰۳-۱۰۴) ڈاکٹر جمیل جالبی نے بھی اپنی تحقیق کی بنیاد ڈاکٹر حفیظ قتیل کے مضمون پر رکھی اور انہوں نے بھی کہا کہ معراج العاشقین خواجہ بندہ نواز کی کتاب نہیں ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے حفیظ قتیل کے مضمون کو بنیاد بنا کر دلائل دئے کہ

۱-        معراج العاشقین جس اردو میں لکھی گئی ہے وہ ساخت کے اعتبار سے واضح اردو ہے جبکہ اُس وقت یعنی نویں صدی ہجری میں اتنی صاف اردو نہیں تھی۔

۲-       معراج العاشقین کی زبان برج بھاشا اور کھڑی بولی ہے کھڑی بولی دہلی کی زبان ہے جبکہ خواجہ صاحب کا تعلق گلبرکہ سے تھا۔(۱۶)

            اس طرح ڈاکٹر جمیل جالبی کے اعتراضات صرف اسلوب اور زبان و بیان پر ہیں ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نے ڈاکٹر حفیظ قتیل کی تحقیق پر اعتراضات کرتے ہوئے کہا ہے کہ

            ۱-        انہوں نے تلاوۃ الوجود کا صحیح زمانہ نہیں بتایا۔

            ۲-       معراج العاشقین اور تلاوۃ والوجود کے متن کا موازنہ نہیں کیا۔

            ۳-       معراج العاشقین کے سن کتابت کے بارے میں بھی شک میں مبتلا ہیں ۔

ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نے اپنے دعویٰ کے ثبوت کے طور پر درج ذیل دلائل دئیے ہیں ۔

۱-        خواجہ صاحب کے اسلاف دوسوسال سے دہلی میں بس رہے تھے لہذا ان کی دلی کی مقامی زبان سے واقفیت لازمی تھی۔ ان کے خاندان کے اکثر افراد مثلاً راجو قتال، مخدوم جہانیاں جہاں گشت، قطب عالم، شاہ عالم وغیرہ ہندوستانی عوام کی رشد و ہدایت کے لئے اردو استعمال کرتے تھے،سو خواجہ صاحب نے بھی اس سلسلے میں اپنے اجداد کی پیروی کی ہو گی۔

۲-       خواجہ صاحب کا زمانہ آٹھویں صدی ہجری ہے اس سے پہلے کی صدیوں میں اردو نثر کا ارتقاء مستقل ہوتا رہا۔ خواجہ صاحب کے زمانے تک زبان ارتقاء کے اتنے مراحل طے کر چکی تھی کہ اس میں تحریر و تقریر کی جا سکتی تھی۔

۳-       اکثر رسالے جو دستیاب ہوئے ہیں وہ خواجہ صاحب کے سلسلے کے بزرگوں کے ملفوظات میں دستیاب ہوئے ہیں اور جس حالت میں اور جس طریقے پروہ دستیاب ہوئے، اُسے دیکھتے ہوئے انہیں غلط طور پر خواجہ صاحب کے رسالوں سے منسوب کیے جانے یا کسی قسم کی تحریف کی ضرورت اور گنجائش محسوس نہیں ہوتی۔(۱۷)

            ’’معراج العاشقین‘‘ کو اردو نثر کی پہلی کتاب اور خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی تصنیف ماننے سے انکار کرنے والوں کے دلائل اتنے مضبوط و مستند نہیں ہیں کہ ان کی بات کوتسلیم کر لیا جائے جبکہ خود اس کا موضوع اور کتاب کی زبان اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کتاب نویں صدی ہجری میں لکھی گئی ہو گئی،  نصیر الدین ہاشمی نے اپنی کتاب ’’دکن میں اردو‘‘ سید محی الدین قادری زور نے اپنی کتاب’’ اردو شہ پارے ‘‘حکیم شمس اﷲ قادری نے ’’اردوئے قدیم ‘‘ میں اس بات کا اعتراف کیا کہ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی معراج العاشقین اردو نثر کی پہلی مربوط کتاب ہے جبکہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے بھی ’’تاریخ ادب اردو‘‘ جلد اول میں اس خاندان کے حوالے سے اور ان سے بھی پہلے صوفیائے کرام کے زبان اردو کے جملے درج کئے ہیں ۔

            دراصل دکنی ادب بہت حد تک صوفیائے کرام کا مرہون منت ہے اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ ان صوفیا نے اپنے مریدوں اور ارادت مندوں کو جو باتیں بتائی تھیں وہ انہوں نے یا ان کے خلفاء نے اکٹھی کی تھیں پھر ان صوفیا کی لکھی ہوئی کتب کو ان کے مریدوں نے آگے پھیلانے کے لئے دوبارہ لکھا جس میں کچھ ترمیم و اضافہ ہوسکتا ہے۔ لکھنے والے اکثر آخر میں اپنا نام اور سنہ کتابت بھی لکھ دیا کرتے تھے۔ یہ چھوٹے چھوٹے رسائل بعض اوقات اکٹھے ملتے ہیں ۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نے اپنی تحقیق کے دوران دو قدیم رسالے تلاش کئے جو ابتدائی اردو کے نمونے ہیں اور ایک رسالہ ’’شاہ راجو‘‘ کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ خواجہ بندہ نواز گیسودراز کے والد شاہ راجو کا ہوسکتا ہے۔(۱۸)

            مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو ’’معراج العاشقین‘‘ کا موضوع اور اس کی زبان اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کتاب اردو کی پہلی باقاعدہ نثری تصنیف ہے اور خواجہ بندہ نواز گیسو دراز اس کے مصنف ہیں رسالہ میں بہت سے ایسے الفاظ ہیں جو قدیم دکنی کے ہیں جو آج متروک ہو چکے ہیں یا صوتی تصریف یا تسہیلِ املا کے مرحلے سے گزر کر اپنی صورتیں بدل چکے ہیں ۔

٭٭٭

 

حواشی و حوالہ جات

۱-        اب تک اردو کی نثری کتابوں کی تعداد کے حوالے سے دیکھیں تو ’اردوئے قدیم‘ میں حکیم شمس اﷲ قادری نے گیارہ،’تاریخ ادب اردو‘ میں رام بابو سکینہ نے نو، ’داستان تاریخ اردو، میں پروفیسر حامد حسن قادری نے پچیس، ’تاریخ نثر اردو‘ میں پروفیسر احسن مارہروی نے دس،’ تاریخ ادب اردو‘ میں ڈاکٹر ملک حسن اختر نے اور ’مختصر تاریخ ادب اردو‘ میں ڈاکٹر اعجاز حسین نے آٹھ کتابوں کے نام گنوائے ہیں ۔

۲-       مولوی عبدالحق-ڈاکٹر، ’’اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا حصہ‘‘، انجمن ترقی اردو پاکستان، تیسرا ایڈیشن1953ص8

۳-       –  –  –             ایضاً      –  –  –             ،ص29

۴-       –  –  –             ایضاً      –  –  –             ،ص22

۵-       نصیر الدین ہاشمی-ڈاکٹر، ’’دکن میں اردو‘‘، ترقی اردو بیورو نئی دہلی1985ء، ص26-25

۶-       رفیعہ سلطانہ-ڈاکٹر، ’’اردو نثر کا آغاز و ارتقاء، (19ویں صدی کے اوائل تک) کریم سنزپبلیکیشنز،کراچی1978 ص87-86

۷-       –  –  –             ایضاً      –  –  –             ،ص89

۸-       شمس اﷲ قادری-حکیم، ’’اردوئے قدیم‘‘، تاج پریس حیدرآباد، 1930ء، ص41

۹-        حفیظ قتیل-ڈاکٹر، ’’معراج العاشقین ‘‘، نیشنل پرنٹنگ پریس چار کمان ، باراوّل1968،ص23

۱۰-      –  –  –             ایضاً      –  –  –             ،ص34

۱۱-       –  –  –             ایضاً      –  –  –             ،ص63

۱۲-      سیدہ جعفر، ’’دکنی نثر کا انتخاب‘‘، ترقی اردو بیورو1983،ص6

۱۳-      فکر و تحقیق (دکنی ادب نمبر) ’’دکنی نثر کی تدریس طریق کار اور مسائل‘‘، جلد1، شمارہ1، ص51، جنوری تا جون 1989ترقی اردو بیورو نئی دہلی۔

۱۴-      حفیظ قتیل-ڈاکٹر، ’’معراج العاشقین کا مصنف‘‘،ص67-66

۱۵-                  –  –  –             ایضاً      –  –  –             ،ص4-3

            لیکن مولوی عبدالحق نے خود اعتراف کیا کہ انہیں بھی اس کتاب کے بارے میں شبہ رہا ہے لیکن جب انہیں یقین ہو گیا تو پھر انہوں نے اسے مرتب کیا۔ مولوی عبدالحق دیباچے میں لکھتے ہیں کہ

’’غلام محمدؐ صاحب انصاری وفاؔ مدیر تاج نے ایک رسالے (معراج العاشقین) کا پتہ ڈاکٹر محمد قاسم صاحب کے کتب خانے سے لگایا اور جب انہوں نے مجھے یہ نسخہ دکہا یا تو چند سطریں پڑہنے کے بعد ہی مجھے یہ خیال آیا کہ اس کا ایک نسخہ میرے پاس بھی موجود ہے نکال کے دیکھا تو ایک ہی کتاب کی دو نقلیں تھیں البتہ کہیں کہیں الفاظ اور عبارت کا اختلاف تھا جو قلمی نسخوں میں اکثر پایا جاتا ہے۔ مگر ڈاکٹر صاحب کے نسخے میں ایک بات کام کی نظر آئی کہ اس کے آخر میں یہ تحریر ہے کہ یہ ایک قدیم نسخے سے جس کا سنہ کتابت ۹۰۶ھ تھا نقل کیا گیا ہے اصل عبارت یہ ہے ۔

’’ایں نسخہ شریف را فقیر حقیر سراپا تقصیرسید محمدؐنصیر در قلعہ نصرت آباد ساگر من مضافات داراالظفر بیجا پور بتاریخ ہفتم ماہ رمضان المبارک ۱۱۷۶ ایک ہزار و یک صد و ہفتا د و شش ہجری ازنسخہء متبرکہ قدیم کہ مکتوبہء ۹۰۶ نہ صد و شش ہجری بود نقل نمود‘‘

اس سے مجھے بہت کچھ اطمینان ہوا اور ایک حد تک اس بات کا یقین ہو گیا کہ یہ حضرت بندہ نواز ہی کی تصنیف ہے زبان بھی قدیم ہے اس کے علاوہ عشق نامہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ یہ تصوف کی ایک ضخیم کتاب ہے جو حضرت خواجہ صاحب کے مرید محمد عبد اﷲ بن محمد عبدالرحمن چشتی نے احمد شاہ بہمنی (۸۲۸-۸۶۲) کے زمانے میں تصنیف کی۔ اس میں حضرت کی تصانیف معراج العاشقین اور ہدایت نامہ کا کئی جگہ تذکرہ آیا ہے۔ اسمیں کثرت سے خواجہ صاحب کے ملفوظات اور آ کے وعظ و تذکار کے حالات درج ہیں ۔‘‘(دیباچہ:معراج العاشقین،ص۶-۷)

۱۶-      تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیے:’’تاریخ ادب اردو‘‘، جلد اوّل، مجلس ترقی ادب لاہور 1984، ص159

۱۷/۱۸-مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیے:’’اردو نثر کا آغاز و ارتقاء‘‘ ،ص83تا85

٭٭٭

ماخذ: بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی جرنل سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید