FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

سہ ماہی

 

ادب سلسلہ

 

اردو زبان و ادب کا عالمی سلسلہ

کتابی سلسلہ (۲)

جلد :۱       جنوری تا مارچ۲۰۱۶       شمارہ: ۲

 

حصہ اول

 

مدیر

محمد سلیم (علیگ)

مدیر اعزازی

تبسم فاطمہ

 

مجلس مشاورت: پروفیسر اصغر علی انصاری، سہیل انجم، ساحر داؤد نگری،محمد عمران، حشمت اللہ عادل، یوسف رانا، مظہر عالم،   ڈاکٹر تنویر فریدی، ڈاکٹر مشتاق خان، ڈاکٹر شمس العارفین، اخلاق احمد، نسیم اللہ خاں ، زوبینہ سلیم

E-mail: adabsilsila@gmail.com Contact : 8588840266


 

 

اداریہ۔1

 

ادب اور احتجاج

 

یہ شمارہ ادب اور احتجاج کے نام ہے — حیرت اس بات کی ہے کہ حکومت ابھی تک احتجاج کو لے کر سنجیدہ نہیں — جب کہ ایک حقیقت اور بھی ہے — احتجاج کے نتائج کے طور پر مودی حکومت عالمی دباؤ سے بھی واقف ہے — اور یہ بھی جانتی ہے کہ تشدد اور عدم تحمل کے نتیجے میں غیر ملکی اسفار سے بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا— مودی نے پڑوسی ملک نیپال سے بھی سبق نہیں لیا، جواب ہندو راشٹر یہ سے نکل کر جمہوریت کی طرف قدم بڑھا چکی ہے — مودی نے پاکستان سے بھی سبق نہیں سیکھا— جہاں اسلام کے بہانے انتہا پسندوں نے عام انسانوں کا جینا مشکل کر رکھا ہے — ہندوستان میں جمہوریت سے ہندو راشٹر اور فسطائیت کی طرف قدم بڑھانا مودی کی ایسی بھول ہے ، جس کی بڑی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے — حیرانی کی بات یہ ہے کہ ایک طرف مودی ملک کو سپر پاور کی طرح لے جانے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف ہندوتو کے فروغ کی کوشش ملک کو ذہنی غلامی، تقسیم اور فرقہ واریت کی طرف لے جا رہی ہے — ملک بڑے چیلنج سے دوچار ہے — اور اس کا خدشہ بے بنیاد نہیں کہ بڑھتی ہوئی فسطائی طاقت احتجاج کی آواز کو دبانے کے لئے بھی کوئی خطرناک قدم اٹھا سکتی ہے — مگر اس کے باوجود احتجاج جاری ہے اور جاری رہے گا۔

 

دادری سے انعام واپسی تک

 

ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ ادیبوں کی انعام واپسی کو لے کر اے بی پی نیوز چینل پر سبمت پاترا ایک سوال پوچھتے ہیں کہ کیا واقعی ماحول اتنا خراب ہے کہ سانس لینا مشکل ہو گیا ہے ؟ پچھلے 18 ماہ میں اس ملک میں جو کچھ ہوا، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اب ایک دنیا مودی حکومت کے کھوکھلے نعروں کو دیکھ رہی ہے اور بڑھتی فرقہ واریت پر دنیا بھر کے اخبارات ہندوستان کی موجودہ خوفناک فضا کو لے کر سوال قائم کر رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی این ڈی اے کی حکومت بنی ہے ، لیکن یہ ماحول جو مودی حکومت نے ان 18 مہینوں میں قائم کیا، وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ اس لئے یہ سوچنا ضروری ہو جاتا ہے کہ جو کچھ وقوع پذیر ہو رہا ہے اُس کے پیچھے کہیں سوچی سمجھی سازش اور خطرناک منصوبہ تو پوشیدہ نہیں ہے ؟

آر ایس ایس کو احساس ہے کہ ابھی حالت سازگار اور اُس کے حق میں ہیں اور اس لئے مودی کی رہنمائی میں حالات کا فائدہ اٹھا کر ہندو راشٹریہ کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا جا سکتا ہے — گوولکر، شیاما پرساد مکھرجی اور دین دیال اپادھیائے اب اس ملک کے نئے ہیرو ہیں۔ گوولکر کی نظر میں مسلمانوں کی ہلاکت کوئی گناہ نہیں۔ شیاما پرساد نے جن سنگھ کی بنیاد رکھی اور دین دیال اپادھیائے کے مطابق ہندوستان میں رہنے والا ہر شخص ہندو ہے — 2014 میں زبردست اکثریت ملنے کے ساتھ ہی مودی نے اپنا ’مشن ہندو راشٹر‘ شروع کر دیا— مشن کی کامیابی کے لئے ابھی ان صوبوں کو فتح کرنا باقی رہ گیا ہے ، جہاں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے۔ در اصل راجیہ سبھا میں کم ممبران کے ہونے کی وجہ سے مودی کے خواب تکمیل سے پہلے ہی ناکامی کا منہ تکنے لگتے ہیں۔ بہار یوپی اور ملک کے تمام صوبوں پر زعفرانیپرچم لہراتے ہی موہن بھاگوت اور مودی کو ہندو راشٹریہ کا خفیہ خزانہ مل جائے گا— اقلیتوں اور مسلمانوں کو ہلاک کر کے دباؤ قائم کرنا، رہنے ، کھانے اور جینے کے اپنے طریقے اپنانے پر زور دینا، ایسی وحشت قائم کرنا کہ اقلیتیں سر اٹھانے کی سوچ بھی نہیں سکیں ،یہ حکمت عملی اپنائی جا رہی ہے۔ لیکن ملک کے سیکولر مزاج لوگوں کی وجہ سے کئی جگہ اس حکمت عملی کو منہ کی کھانی پڑ رہی ہے — ججوں کا انتخاب کرنے والے کولیجیم نظام کو برقرار رکھنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے سے بھی حکومت کی نیند اڑ گئی۔ کیوں کہ فیصلہ اگر مودی حکومت کے حق میں آیا ہوتا تو انصاف اور قانون پر بھی پوری طرح مودی حکومت کا قبضہ ہو جاتا۔ اور اس قبضہ کے بعد سنجیو بھٹ، روہنی والیان، تیستا سیتلواڈ جیسے لوگوں کو کبھی سامنے آنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ 18 ماہ کی حکومت میں مودی حکومت نے گجرات کے تمام قاتلوں کو رہائی دے دی۔ زعفرانی آتنک واد کو خارج کر کے اسلامی آتنک واد کو مہرہ بنایا۔ سوریہ نمسکار، یوگا جیسی پابندیوں کے ساتھ ایک مخصوص تہذیب کو مسلط کرنے کی جو تیاری ہوئی، اُس نے اس ملک کے سیکولر عوام کو بھی اندیشہ میں مبتلا کر دیا اور بالخصوص ادب سے تعلق رکھنے والوں کو خوفزدہ کر دیا۔ سچ بولنے کے نام پر جب پروفیسر کلبرگی، پانسرے اور دابھولکر کا قتل سامنے آیا تو خاموشی، شعلوں میں تبدیل ہو گئی۔ اور جب دادری کا حادثہ پیش آیا تو صبر کا باندھ اس لئے بھی ٹوٹ گیا کہ 18برسوں کی منصوبہ بندی اور سازش کا پردہ پوری طرح فاش ہو گیا۔ اس حقیقت کو سب سے پہلے ہندی ادیب ادئے پرکاش نے محسوس کیا اور ساہتیہ اکادمی انعام واپس کر کے ایک جرأت مندانہ قدم اٹھایا۔ اور اس کے فوراً بعد انگریزی ناول نگار نین تارا سہگل نے یہ کہہ کر ایوارڈ واپس کر دیا کہ اب یہ ملک ان جیسے ادیبوں کے لئے نہیں رہ گیا۔ جب حکومت فسطائیت کا راستہ اپنا لے تو ادب اور ادیبوں کی ذمہ داری پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ احتجاج کے یہ طریقے کوئی پہلی بار سامنے نہیں آئے۔ 1964میں ژاں پال سارترے نے نابل انعام واپس کر ایک دنیا کو چونکا دیا تھا۔ سارترے نے اپنے خط میں لکھا، وینجیولا کے انقلابیوں کے ساتھ خود کو جوڑ کر میری ذمہ داری بنتی ہے کہ میں کسی طرح کے سرکاری ایوارڈ کو نہ لوں۔ الجیریا کے فریڈم موومنٹ کے وقت اگر مجھے یہ انعام دیا جاتا تو شاید میں اس کو قبول کرنے کے بارے میں سوچتا۔ مولیئر نے فرانس، سروانٹس نے اسپین میں احتجاج کا نیا تجربہ کیا اور طنز کے تیر چلائے۔ روس میں سامنتی عہد کے انحطاط اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف گوگول، تالستائے ، دوستوفسکی نے آواز اٹھائی۔ انگلستان میں رسکن اور کارلائیل نے مشینوں کے خلاف آواز بلند کی۔ انقلاب سے قبل فرانس اور روس کے ادیب زندگی کی بدعنوانی اور نظام کے خلاف کھل کر سامنے آئے۔ فاشزم کے خلاف اقبال نے بھی آواز اٹھائی۔ طبقاتی تصادم کو لے کر پریم چند سامنے آئے۔ سکھ دنگوں کی مخالفت میں خوشونت سنگھ نے پدم بھوشن لوٹایا۔ ایمرجنسی کی مخالفت میں فرینشور ناتھ رینو نے پدم شری کا اعزاز واپس کیا۔ رویندر ناتھ ٹیگور نے جالیاں والا قتل عام کے خلاف نائٹ ہوڈ کا خطاب برٹش حکمرانوں کو لوٹا دیا۔

ایوارڈ واپسی کا یہ احتجاج ایسے موقع پر ہو رہا ہے ، جب ہندو راشٹریہ کے قیام کی عجلت میں مودی حکومت نے سیکولر، لبرل، جمہوریت پسند آوازوں پر پابندی لگا دی ہے۔ ایف ٹی آئی سے چلڈرن فلم سو سائیٹی تک، نصاب کی کتابوں میں زعفرانی فرضی تاریخ کے حوالہ سے وہ سب کچھ انجام دیا جا رہا ہے ، جو فسطائیت کی حیثیت کو مضبوط کرتے ہیں — نئے ہندو راشٹریہ کے لئے ساری دنیا میں اپنی جگہ بنانا ضروری ہے۔ اور اس لئے مودی نے آر ایس ایس اور اپنے بے لگام ساتھیوں کو ہوا دے کر غیر ممالک کا دورہ کر ہندوستان کو ایک سپر پاور کے طور پر پیش کرنے کا سلسلہ شروع کیا— موہن بھاگوت کا یہ بیان دیکھئے کہ ہم ہندوستان کو اسرائیل بنانا چاہتے ہیں ، اس حکمت عملی پر غور کریں تو مسلمانوں کے لئے اس ملک میں کہیں کوئی جگہ نہیں ہے — قیاس ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اس وقت ایک بڑے خطرے سے دو چار ہیں۔ قیاس ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے ایک ایک عمل اور سوشل میڈیا میں اُن کی گفتگو اور پیغامات تک پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ فاشزم کا ایک راستہ تشدد سے ہو کر جاتا ہے۔ غلامی کے ایام میں جب تک انگریزوں نے تشدد کا مظاہرہ کیا، انگریز خوش ہوتے رہے۔ جب گاندھی جی عدم تشدد کا علامتی پیغام لے کر آئے — انگریزوں کے ہوش اڑ گئے۔ ملک کی تازہ صورتحال کو لے کر جب ملک کے ادیبوں نے خاموشی سے ایوارڈ واپسی کا علامتی انداز اپنایا تو آر ایسایس اور مودی حکومت کے بھی ہوش فاختہ ہو گئے۔ کیوں کہ حکومت لفظوں کی خاموش طاقت سے واقف ہے۔یہی ایک راستہ تھا جہاں عالمی انسانی حقوق اور عالمی دباؤ قائم کر مودی حکومت کی سازش کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جا سکتا تھا۔

بیف تنازعہ کو لیں تو مختار عباس نقوی نے ایک بیان دیا کہ جو بیف کھاتے ہیں وہ پاکستان چلے جائیں۔ 27 مئی 2015 کو مملکتی وزیر داخلہ کرن رجیجو کا بیان آ گیا۔ میں بیف کھاتا ہوں۔ میں اروناچل پردیش کا ہوں۔ دیکھتا ہوں۔ کون مجھے پاکستان بھیجتا ہے۔ راکیش سنہا، سمبت پاترا، شیو سینکوں کو کیا یہ بیان نظر نہیں آیا؟ اخلاق، نعمان کے قتل اور انجینئر رشید کے منہ پر کالک پوتنے سے کہیں زیادہ ضروری تھا کہ وہ اپنے گھر میں کرن رجیجو کی خبر لیتے۔ فسطائی حکومتیں اپنے مشن کے لئے گوں گی بہری اور اندھی ہو جاتی ہیں۔ ہندوستان کی تازہ صورتحال پر غور کریں تو منصوبہ بند طریقے سے کی جانے والی سازش کی شروعات ہو چکی ہے۔ 22 اکتوبر ناگپور کے اجلاس میں موہن بھاگوت نے اشاروں اشاروں میں اپنے دل کی بات کہہ دی کہ اب وہ اپنے مشن سے قریب ہیں۔ فرید آباد میں دلت کنبہ کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ قومی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ میں محمد اخلاق کی موت کو منصوبہ بند سازش قرار دیا جاتا ہے۔ ایسے ہر کارنامے کو جائز قرار دیتے ہوئے بی جے پی، شیو سینا، آر ایس ایس اور دیگر فسطائی تنظیمیں حب الوطنی کی ریس میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی تیاری کر رہی ہیں۔یہ سوچنا ضروری ہے کہ حب الوطنی کی تعریف کیا ہے اور یہ ملک کہاں جا رہا ہے ؟ آر ایس ایس ہندو راشٹریہ کے مشن کے ذریعہ دلتوں ، بالخصوص ہندوستان کے مسلمانوں کا خاموشی سے صفایا کرنا چاہتی ہے تو ہم کب تک آنکھیں بند کئے ان خونی نظاروں کو دیکھیں گے ؟ ملک میں اس وقت قانون اور آئین کی دھجیاں اڑ چکی ہیں۔ سیکولرزم اور جمہوریت کی لاشوں پر کھڑے ہو کر بے شرمی سے مودی حکومت آنکھیں بند کئے عالمی دباؤ کو بھی نظر انداز کر رہی ہے تو یہ فکر ناگزیر کہ کون سا لائحہ عمل اختیار کیا جائے ؟ ان حالات میں ہندوستان کے 40 سے زیادہ ادیبوں نے ایوارڈ واپسی کا جو تخلیقی اور علامتی کردار ادا کیا ہے ، اس کی طاقت سے حکومت واقف ہے۔ عدم تشدد کے انہیں راستوں سے ہندوستان غلامی سے آزاد ہوا تھا— اور انہی راستوں سے ہم فسطائی طاقتوں کو دور بھگائیں گے —

                                        —تبسم فاطمہ

tabassumfatima2020@gmail.com

٭٭٭


 

 

اداریہ۔ 2

 

ادب سلسلہ صرف ایک رسالہ نہیں ہے ، بلکہ تحریک ہے۔ اس وقت ملک کے حالات اچھے نہیں ہیں۔ دلتوں اور مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا سلوک ہو رہا ہے۔ مشہور ادیبہ اور کالم نگار تبسم فاطمہ نے ادب سلسلہ کی ذمہ داری کو قبول کرتے ہوئے مجھ سے کہا تھا کہ یہ رسالہ عام اردو ادبی رسائل کی بھیڑ سے الگ ہونا چاہئے۔ میں اس وقت اس حقیقت کو سمجھ نہیں سکا تھا۔ لیکن اس شمارہ کی تیاری کے دوران مجھے احساس ہوا کہ واقعی ادب رسالہ نکالنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ یہ شمارہ ادب اور احتجاج کے نام ہے۔ اس شمارہ کا آدھے سے زیادہ حصہ اس سیاست کے نام ہے ، جو ہمیں تقسیم کر رہی ہے۔ مجھے ادب کی ذمہ داریوں کا احساس ہے۔ ادب کا مطلب صرف قصہ کہانی یا شاعری نہیں ہے۔ ادب زندگی کا آئینہ ہے۔ اور اس لیے اس وقت ہم جن حالات سے دوچار ہیں ، ان کا محاسبہ کرنا یا تجزیہ کرنا بھی ضروری ہے۔

آئندہ شمارے سے ہم غزلوں ، نظموں اور تنقیدی مضامین پر خصوصی توجہ دیں گے۔ آپ سے گزارش ہے کہ عام روش سے ہٹ کر مضامین، شہ پارے اور غزلیں / نظمیں ہمیں روانہ کریں۔ اگر آپ کی تخلیقات فیس بک پر آ چکی ہیں تو پھر ہمیں مت بھیجئے۔ ادب سلسلہ کے لیے آپ کی تحریروں کا استقبال ہے۔ اس شمارہ میں خطوط کا کالم بھی نہیں ہے۔ ہم رسمی نوعیت کے خطوط شائع کرنا نہیں چاہتے۔ اس کالم کو دلچسپ بنانے کے لیے ادارہ کو آپ کے تعاون کی سخت ضرورت ہے۔ آپ تفصیل سے لکھیں گے تو ہمیں زیادہ خوشی ہو گی۔

آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ ادب سلسلہ کے اولین شمارہ سے لے کر میں نے کم و بیش پورے ملک کا دورہ کیا۔ ہر جگہ پذیرائی ہوئی۔ ہر جگہ ادب سلسلہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اگلے شمارہ میں اس کی مکمل روداد ہم شائع کریں گے۔

آپ کا علمی اور عملی دونوں طرح کا تعاون ہمیں درکار ہے۔

محمد سلیم انصاری (علیگ)


 

خصوصی گوشہ

انتظار حسین


 

 

کہانی کا پت جھڑ—آصف فرخی

انتظار حسین کے افسانوں کی ایک ادھوری یاترا

 

 

انتظار حسین کے افسانوی ادب کے جائزہ لینا بظاہر جس قدر آسان اور سہل ہوتا ہے ، در اصل اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ آسان اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پڑھنے میں دلچسپ اور سہل ہے۔ لیکن خواندگی کی یہ دل کشی عام پڑھنے والوں کے لیے ہے۔ نقادوں کے لیے آسانی کا سراب خود افسانہ نگار نے طلسم کی طرح باندھ رکھا ہے۔ انتظار حسین کا افسانہ اس دور کی طرح معلوم ہوتا ہے جو دستک دیتے ہی کھل جاتا ہے۔ نقاد اگر ہمارے اردو نقادوں کی طرح ہے اور ہر جگہ درّانہ کھس جانے کا قائل ہے تو پھونک پھونک کر قدم نہیں بڑھائے گا۔ انتظار حسین کے افسانوں کی پر اسرار حویلی میں داخل ہونے کے بعد اس کا جو حشر ہونے والا ہے اس کا اسے ذرا بھی اندازہ نہیں ہے۔ وہ چونکنا جب ہے ، جس وقت پیچھے سے دروازہ بند ہونے کی آواز آتی ہے۔ مگر جب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ وہ اب پوری طرح اس افسانے کی گرفت میں ہے۔

ہمارے نقادوں کی بے خبری تو خیر ضرب المثل بننے کے لائق ہے۔ بیش تر نقادوں کو یہ خبر ہی نہیں ہوتی کہ افسانے کے تانے بانے نے انہیں کس طرح جکڑ لیا ہے۔ جیسے افسانہ مکڑی کا جالا اور نقاد بھنبھناتی اٹھلاتی مکھی۔ نقادوں کے لیے راہِ فرار خود انتظار حسین نے فراہم کی ہے۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو آ سکر وائلڈ کے بقول اپنا چہرہ اتار کر نقاب ساری دنیا کو دکھاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دلچسپ فقرے ، شوشے اور رویے سطح پر بکھیر رکھے ہیں۔ نقاد آتے ہی ان میں الجھ جاتا ہے۔ اور ان ہی پر رد عمل ظاہر کیے چلا جاتا ہے۔ ہجرت ماضی کا توللجیا، گزری باتیں ، حافظے کا عذاب، اساطیر کی گردان، اور دیومالاسے جاتک کتھاؤں تک پرانے قصوں کی بازیافت اور آج کی عصری آگہی کے لیے ان کے برمحل ہونے پر اصرار، زبان و بیان کی ستائش یا اس کا خوف———- انتظار حسین کے نقادان ہی چند باتوں کی گردان کیے جاتے ہیں۔ بار بار ان باتوں کو پھیٹتے ہیں اور تاش کے پرانے پتوں سے کاغذی محل بنائے چلے جاتے ہیں۔ محل کھڑا تو ہو جاتا ہے لیکن ہوا کے جھونکے کا بھی وار نہیں سہہ سکتے۔ آن کی آن میں ڈھیر ہو جاتا ہے۔ نقادوں کو اسی میں عافیت محسوس ہوتی ہے۔ اور افسانے کے اندر مضمر تخلیقی چیلنجاس پہیلی کی طرح رہ جاتا ہے جسے پھر کسی نے نہ بوجھا ہو۔ انتظار حسین کو ان کے نقادوں نے اردو افسانے کا وہ ابوالہول بنا کر رکھ دیا ہے جسے انگریزی والے Sphinx کہتے ہیں ، جو ہر مسافر کے سامنے اپنے پہیلی رکھ کر بدلے میں اس کاسر مانگ لیتی ہے۔

اپنے افسانوں کو اوپر انتظار صاحب نے اپنے تنقیدی عمل اور مجلسی گفتگو کے کانٹوں کی باڑھ اس طرح باندھ رکھی ہے کہ ہنکائے ہنک جانے والے نقاد اس کی گہرائی سے واقف ہی نہیں ہونے پاتے۔ چونکہ انتظار صاحب نے اپنی آراء میں شدت کے ساتھ روشِ زمانہ کے خلاف چلنے کا عمل بہت باقاعدہ طور پر اختیار کیا ہے ، اس لئے ان سے مجھے برا بھلا کہنے میں نقاد کو اپنی عافیت کوشی کے ساتھ ساتھ فیشن ایبل داد بھی مل جاتی ہے۔یہ داد اور اس کے ساتھ اڑنے والی گؤ دھول ہمارے موجودہ ادبی منظر کو گدلا اور دھندلا کرنے لیے بہت ہے۔ فیشن ایبل اخباروں ، رسالوں ، میں یہ خاک اڑتی نظر آتی ہے اور دور تک جاتی ہے کہ خاک سامری کی سی تاثیر رکھتی ہے۔

جو ایک دفعہ اس کو سونگھ لے سانس بھی نہ لے پائے اور فوراً بے ہوش ہو جائے۔ نیند میں بڑبڑانے والے بچوں کی طرح ہمارے نقاد اسی بے ہوشی کے عالم میں بولتے اور لکھتے چلے جاتے ہیں۔ اس پورے سلسلے میں اگر نقصان ہوتا ہے تو یہ کہ انتظار حسین کے افسانوی عمل کی گہرائی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ سطح پر بکھری آراء سے آگے بڑھیں تو وقت کے پر اسرار اور گردش وار مکمل، انسانی تقدیر کی مجبوری،نیرنگی، سیاست دوران، موجودہ سیاسی و معاشرتی تفاعل کی بے شری، بلکہ بے وقعتی، انسانی رشتے ناتوں کی نا پائداری، خاص طور پر مرد عورت کے باہمی تعلق کا اجھلاپن جو حیوانیت کی حدوں کو چھو لیتا ہے ، انسان کے اندر پنہاں حیوانیت، تقدیر کے جبر اور کروڑوں برس کے تہذیبی تسلسل کے باوجود انسان کے بے چارگی اور مجبوری—— یہ وہ چند موضوعات ہیں ،جو انتظار حسین کے افسانوں میں بار بار نظر فریب روپ بھر کر سامنے آتے ہیں۔ مگر یہ موضوعات بھی ایک دفعہ کی ملاقات پر نہیں کھلتے۔ زبان و بیان کی لذت سے آگے بڑھیے تو افسانوں کی ہیئت اس درجہ دل کش ہے کہ اپنی طرف بڑھتے مسافر کے قدم روک لیتی ہے۔ انتظار صاحب نہ تو ان موضوعات کو کیش کرانے کے لیے نمود و نمایش کے قائل ہیں نہ سستے صفے کی طرح ان کے بارے میں اپنے کو بولنے دینے کے قائل ہیں۔ اس لیے ان کے ہاں افسانے کی ہیئت نہ صرف اہم ہے بلکہ افسانے کے مکمل معنی کا جزو لاینفک۔ افسانے کے موضوع کے برخلاف وہ موضوع کے ٹریٹ مینٹ کو اہمیت دیتے ہیں اور اسی اعتبار سے افسانے کی بنیاد اٹھاتے ہیں۔ جا تک کتھاؤں کی باز گوئی ہو یا صوفی فقرا کے ملفوظات مجرا لعقول موضوعات کا کرشماتی بیان، افسانے کی فضا زبان و اسلوب سے قائم ہوتی ہے اور اسیہیئت کی شکل میں ڈھل جاتی ہے۔ اسی لئے ’زرد کتا‘ ہستی اسلوب روایتی قصوں جیسا ہے اور کچھوے کا انداز جاتک کتھاؤں سے لگا کھاتا ہے۔ ’ساتواں دور‘ میں وہ نفسیاتی دروں بینی اور واقعیت نگاری کی وہ اہمیت اختیار کرتے ہیں ، جو مغرب کے بہت سے ماہرِ فن افسانہ نگاروں نے برتی ہے اور آخری آدمی میں وہ انجیل اور قصص الانبیا کا پیرایہ اختیار کرتے ہیں۔ اس طرح اسالیب اور بیتوں کے برتاؤ میں تنوع اور ان جانے پہچانے اسالیب کے استعمال میں مہارت ان کے اندر کی وہ خصوصیات ہیں کہ نقاد اور قاری دونوں ہی فوراً اپنا تاثر قائم کرتی ہیں۔ انتظار صاحب ان ہستیوں کے استعمال میں اس قدر چابک دست ہیں کہ افسانے کی تہہ میں چھپے ہوئے موضوعاتی معنی کے حصول کو ناممکن بلکہ غیر ضروری بنا دیتے ہیں۔ وہ پورخیں کی طرح بھول بھلیاں یعنیLabyrinths بنانے کے قائل ہیں۔ حالانکہ ایسا لگتا ہے کہ وہ غیر نظریاتی اور صاف شفاف صراطِ مستقیم پر چلتے ہیں۔

جیسے انتظار صاحب کا قصہ زمانے سے شروع کرتے ہیں۔ وہی زمانہ جس کی قسم کھا کر ہمیں انسان کے خسارے میں ہونے کا یقین دلایا گیا ہے۔ انسان کا خسارہ اور زمانے کا احوال وہ متحد الخیال موضوعات ہے جو انتظار حسین کے ہاں شروع سے چلے آ رہے ہیں۔ زمانہ ان کی افسانویدنیا میں بڑے واشگاف انداز میں داخل ہوتا ہے۔ سنہ ۴۷ء ہے اور دنیا اتھل پتھل ہو رہی ہے۔ انتظار حسین کے ابتدائی افسانے اسی دنیا کے اکھڑنے کے افسانے ہیں۔ ان میں محزونی کا انداز اور یا ہیئت کی فضا حاوی ہے۔ لیکن نہ تو کردار اتنے شوخ و شنگ ہیں نہ واقعات اتنے نکے لیے کٹیلے جی جس طرح اس زمانے کے افسانے میں عروج تھے۔ اس طرح انتظار حسین نے شروع ہی ایک نا محسوس نقطۂ انحراف سے کیا۔ ان کے کرداروں کے نہ تو محض معاشی مسائل ہیں جنسی و نفسیاتی۔ بلکہ ان کے اندار کوئی چیز ایسی ٹوٹ رہی ہے چٹخ رہی ہے جو خود ان سے بڑی ہے۔ اس وقت ان افسانوں نے نقادوں کو برہم اور بر افروختہ کیا تھا لیکن آج بڑھ کر دیکھیں تو یہ افسانے Displacement  کے اس احساسِ زیاں سے معمور نظر آتے ہیں ، جس کی چھاپ آج عالمی ادب کے بڑے ناموں میں نمایاں نظر آتی ہے۔

اگر گلی کوچے میں جگہ سے بے جگہ ہونے پر زور ہے تو ’کنکری‘ میں بچپن کی اس گم شدہ جنت کا تذکرہ جہاں زندگی کے مظاہر ایک دوسرے میں (Integrated )ہیں اور شجر جاں میں نت نئے شگوفے پھوٹ رہے ہیں۔یہ اکھوے ممنوعہ راستوں پر چلنے کی ترغیب دیتے ہیں اور آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے بند آنکھوں کے پیچھے سے ہاتھ لگا کر اندھیرے میں غائب ہو جاتے ہیں۔ طویل کہانی یا ناولٹ ’دن‘ اس تخلیقی رو کا نقطۂ انتہا ہے۔ لیکن یہ وہ عروج ہے جس کے بعد زوال کا منظر کھلنے گتا ہے۔ ۶۵ء کی جنگ کے آس پاس واقعیت نگاری کا رنگ دھیما پڑ نے لگا جیسے زندگی اپنی حقیقت سے خود ہی پھسل نکلتی کا رہی ہو ریشمی رو مال کی طرح ’سیکنڈ راؤنڈ‘ اکتیس ’مارچ ‘اور ’آخری خندق ‘ جیسے افسانے ایک اسلوب کی شکست و ریخت کے ساتھ ساتھ قومی امنگ کے خاتمہ اور اجتماعی مرگ آرزو کے نوحے ہیں۔ ان کے فوراً بعد ’آخری آدمی’ کے وہ افسانے ہیں جو میرے خیال میں پاکستانی افسانے کی اہم تر شناخت ہیں۔ پرانے قصوں اور روایتوں سے ایک نا آسودگی چلی آ رہی ہے اور وہ پر کار کے دائرے کی طرح ماضی کو دائرہ وار گھما کر ہمارے سامنے کھڑا کر دیتی ہے کہ اب جو ہونے والا ہے وہ پہلے ہو چکا ہے۔ آنے والا کل پہلے سے ہی گزر چکا ہے۔

ماضی برا ہو یا بھلا، بہر حال ایک شناخت تھا۔ بہر افسوس تک آتے آتے یہ شناخت بھی نا قابل اعتبار ٹھری۔ کرداروں کے نام اور تاریخی تسلسل میں ایک واضح مقام پر پاؤں ٹکائے ہونے کے احساس کی جگہ اب زخمی سر والا اور فلاں جینے والا یا کسی مخصوص آواز والا ہی رہ گئے ہیں۔علامت نگاری کا اسلوب بہت سے معاصر افسانے نگاروں کو تخلیقی بند گلی میں لے آیا اور انہیں اس نقطے پر لا کر چھوڑ گیا جہاں وہ اپنی بکھری آوازوں کی باز گشت اور آئینے کی کرچیوں میں اپنے ٹوٹے ہوئے چہرے کے سواکچھ نہیں دیکھ پاتے۔ انتظار حسین کی مہارت فن اور تخلیقی ویژن انہیں اس سے بچا کر ایک اور ہیسمت میں لے گئے۔ بخشی جیسے افسانے میں افیوں نے مختلف تہذیبوں اور ان کے مخصوص پیرایہ ہائے بیان میں مشترکہ حقیقتیں تلاش کیں۔ سیاسی بحران کو اخلاقی بحران سمجھ کر عافیت اور نجات کے امکان کی طرف اشارہ کیا۔ مانا کہ پانی ہمارے گھٹنوں تک آ گیا ہے ، تیزی سے امڈتا جا رہا ہے ، لیکن افق میں ایک کشتی ابھر رہی ہے ، نجات کا یہ امکان انہیں دیومالا سے بھی پیچھے جا تک کتھاؤں تک لے گیا۔ ’کچھوے ‘اور ’زناری‘ جیسے افسانے باز گوئی کے ذریعہ اپنا افسانوی استعارہ خلق کرتے ہیں۔ پراچین زمانوں کا پر چھانواں ان کی تازہ کہانی ’مور نامہ‘ میں بھی سامنے آتا ہے۔ لیکن اب کی بار مصنف پردہ اٹھا کر خود ہی سامنے آ جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ کسی نئے رویے کی ابتدا ہو۔ افسانے کے اختتام میں مصنف خود اپنی زبان سے کہتا ہے کہ میں اپنا مور نامہ کب لکھوں گا۔ اس خواہش میں اس کی جھنجھلاہٹ یا وقت کے گزرتے چلے جانے پر احساس زیاں اتنا حاوی ہے کہ مور نامہ تو اس نے لکھ ہی دیا، ابھی ابھی چند صفحے پہلے ، ہماری آنکھوں کے سامنے۔ مصنف پر اعتبار کرنا غیر ضروری ہے اس لیے کہ کہانی کا دائرہ مکمل ہو چکا ہے۔

٭٭٭


 

 

 

بے جڑ لوگوں کی بستی—ڈاکٹر سلیم اختر

 

 ’’جانتے ہو کہ بابا فریدؒ نے کلیر والے خواجہ سے کیا فرمایا تھا؟ نہیں جانتے ہو تو سنو، خواجہ نے بابا کو شہر کے مکر وہ لوگوں کا حال لکھ کر بھیجا۔ بابا نے کہلا بھیجا کہ صابر کلیر تیری بکری ہے ہم نے اجازت دی کہ چاہے تو اس کا دودھ پی چاہے اس کا گوشت کھا۔ تب خواجہ نے مسجد کے سامنے کھڑے ہو کر کہا کہ اے مسجد سجدہ کر، مسجد حکم بجا لائی اور ایسا سجدہ کیا کہ سینکڑوں ملبے کے نیچے دب کر مر گئے … پھر وباء پھیلی، ایک ایک گھر سے ایک ایک وقت کئی کئی جنازے نکلے۔ ‘‘

انتظارحسین کی دنیا میں آنا ہو تو اس کے لئے ان بہت سے مسلمات اور معیاروں سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے جن کے ہم عادی ہیں۔ اس کے کردار، اس کے افسانوں کی زبان، وہاں کی فضا اور سب سے بڑھ کر زندگی کے بارے میں اس مخصوص رویہ اور اس رویہ سے جنم لینے والی وژن۔ یہ سب ہماری یوں ”Deconditioning” کرتے ہیں کہ ہم چونک اٹھتے ہیں ، ہم غضبناک ہو جاتے ہیں۔ ہم چلّانے لگتے ہیں اور اسی میں انتظار حسین کے متنازعہ ہونے کا راز مضمر ہے۔

’’بستی‘‘ کی اشاعت نے نئے سرے سے اس کے فن سے وابستہ نزاعات کے در وا کر دیئے۔ جس جوش و خروش سے ’’بستی‘‘ موضوع بحث بنا اس سے تو یوں محسوس ہوتا کہ اس کی چھان پھٹک جدید ناول کا ایک اہم مبحث ثابت ہو گی۔ میں نے ’’بستی‘‘ اور حقیقت نگاری کی روایت میں لکھے گئے دیگر ناولوں میں خطِ امتیاز کھینچنے کے لئے ’’جدید ناول‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے گویا ڈپٹی نذیر احمد سے ناول نے جس سفر کا آغاز کیا تھا، وہ موضوعات اور اسالیب کے تنوع کے باوجود بنیادی طور پر یکسانیت کا حامل تھا کہ ہر نوع کے ناول کردار اور واقعات کے ناول تھے۔ صرف قرۃ العین حیدر کا ’’آگ کا دریا‘‘ تکنیک کا ایسا تجربہ تھا جس سے قارئین کو یہ احساس ہوا کہ حقیقت نگاری سے ہٹ کر ناول کا کوئی اور انداز بھی ہو سکتا ہے جب کہ ’’بستی‘‘ سے اردو ناول جدید ناول کے عہد میں داخل ہو گیا ہے۔ ’’بستی‘‘ پر جو اعتراضات کئے گئے ہیں ان میں یہ دو زیادہ اہم ہیں کہ ’’بستی‘‘ میں نہ تو کوئی کہانی ہے اور نہ واضح اور دو ٹوک قسم کی کردار نگاری جب کہ مجھے ان ہی دو چیزوں کے نہ ہونے کی بنا پر ’’بستی‘‘ اچھا لگا۔ ہمارے جدید افسانہ نے مغرب میں افسانوی تکنیک کے تجربات سے بہت کچھ حاصل کیا لیکن ابھی تک ناول کے انداز میں تبدیلی نہ آئی تھی۔ حالانکہ فرانس اور دیگر یورپی ممالک میں ناول کے ضمن میں بھی بہت سے اہم تجربات کئے جا چکے ہیں۔ ’’بستی‘‘ کے معترضین کو میں صرف ایک ناول پڑھنے کا مشورہ دوں گا، البر کامو کا ’’پلیگ‘‘، ’’بستی‘‘ کی مانند ’’پلیگ‘‘ کا موضوع بھی ایک بستی ہی ہے۔ ایسی بستی جو وبا کے عذاب سے گرفتار ہے۔ کامو کے ’’پلیگ‘‘ کو بالعموم فرانس پر جرمن تسلط کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن اس کی علامتی حیثیت کو ایک لمحہ کے لئے فراموش کر دیں اور اسے واقعی پلیگ کا مطالعہ ہی سمجھیں تو بھی ناول کی گہرائی اور تاثر میں کسی طرح کی کمی نہیں ہوتی۔ کامو نے پلیگ میں نہ تو کہانی تعمیر کی ہے اور نہ ہی کردار نگاری کی۔ چند چھوٹے چھوٹے کردار حسب ضرورت آتے ہیں اپنی جھلک دکھاتے ہیں اور پلیگ کے سیلاب میں ڈوب جاتے ہیں۔ کیا انتظار حسین کی بستی بھی پلیگ کی عفریت کے پنجوں میں گرفتار نظر نہیں آتی؟

 ’’مولانا قیامت کب آئے گی؟‘‘

 ’’جب مچھر مر جانے گا اور گائے بے خوف ہو جائے گی۔ ‘‘

 ’’مچھر کب مرے گا اور گائے کب بے خوف ہو جائے گی؟‘‘

 ’’جب سورج مغرب سے نکلے گا۔ ‘‘

 ’’سورج مغرب سے کب نکلے گا؟‘‘

 ’’جب مرغی بانگ دے گی اور مرغا گوں گا ہو جائے گا۔ ‘‘

 ’’مرغی کب بانگ دے گی اور مرغا کب گوں گا ہو جائے گا۔ ‘‘

 ’’جب کلام کرنے والے چپ ہو جائیں گے اور جوتے کے تسمے باتیں کریں گے۔ ‘‘

 ’’کلام کرنے والے کب چپ ہو جائیں گے اور جوتے کے تسمے کب باتیں کریں گے ؟‘‘

 ’’جب حاکم ظالم ہو جائیں گے اور رعایا خاک چاٹے گی۔ ‘‘

یہ اسلوب ہم عصر ناول نگار کا نہیں۔یہ تو صحائف کی زبان ہے اور ملفوظات کا اسلوب۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے Nemesis تباہی کی نشانیاں گنوا رہی ہو۔ لیکن انتظار حسین نے منتقم کا روپ کیوں دھارا؟ کیا وہ بستی کو آباد دیکھ کر خوش نہیں ؟یا پھر واقعی اس نے جوتے کے تسمے کی باتیں سن لی ہیں ؟

انتظار حسین کے فن کے مطالعہ میں ایک بنیادی حقیقت ہمیشہ ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ وہ کبھی بھی خارجیت، حقیقت نگاری اور اجتماعی شعور کا افسانہ نگار نہیں رہا۔ کمال ہے کہ اس کے بیشتر مشہور افسانے اجتماع اور اجتماع صورت حال کے بارے میں ہی ملتے ہیں۔ پھر بھی اسے رجعت پسند کہا جاتا ہے۔ انتظار حسین نے در اصل خارجیت کو باطن کے حوالہ سے دیکھا ہے۔ دروں بینی اس کا شعار سہی لیکن ذات کی بھول بھلیاں میں اترنے سے پہلے وہ ہاتھ میں واپس لانے والی ڈور کا سرا تھامنا نہیں بھولتا۔ ’’بستی‘‘ بھی اجتماعی صورت حال کے بارے میں ہے اور اسے اس نے اپنے مخصوص انداز میں باطن کے استعارو سے اُجاگر کیا ہے۔ انتظار حسینن اس انداز کو چھپانے کی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ ابتدائی صفحات میں ہی ذات کے اندر پناہ لینے کی خواہش کا اظہار کر دیا ہے۔ چنانچہ ’’بستی‘‘ کا ذاکر (جو کہ تاریخ کا پروفیسر ہے ) باہر کے ہنگاموں سے منہ موڑ کر ذات کے نہاں خانے میں پناہ گزین ہوتا ہے۔

 ’’مگر کمال ہے وہ اپنے آپ پر حیران ہونے لگا۔ باہر جتنا ہنگامہ بڑھتا جاتا ہے میں اندر سمٹتا جاتا ہوں۔ کب کب کی یادیں آ رہی ہیں۔ اگلے پچھلے قصے ، بھولی بسری باتیں یادیں ایک کے ساتھ دوسری کے ساتھ تیسری الجھی ہوئی جیسے آدمی جنگل میں چل رہا ہو۔ میری یادیں میرا جنگل ہیں۔ آخر یہ جنگل شروع کہاں سے ہوتا ہے۔ نہیں ، میں کہاں سے شروع ہوتا ہوں۔ ‘‘

انتظار حسین کے نزدیک فرد مجموعہ ہے اس کی یادوں کا اور یادیں ثمر ہیں ماضی کا۔ اسی لئے انتظار حسین ماضی کو فراموش نہیں کر سکتا اور بار بارناسٹولجیا کا شکار ہوتا ہے لیکن انتظارحسین کے لئے ماضی محض ایک فرد کا ماضی نہیں کہ وہ تو زماں کے تسلسل میں ایک لہر جتنی بھی اہمیت نہیں رکھتا۔ اُسے اجتماعی ماضی سے دلچسپی ہے ، وہ ماضی جو ایک قوم کا ہے۔ ایک ملک کا ہے اور جس کا تحریری روپ تاریخ کہلاتا ہے۔ شاید اسی لئے ’’بستی‘‘ میں تاریخ کا پروفیسر سیاسی جلوسوں کے شور شرابے اور ہنگامے سے گھبرا کر اپنے ماضی کے جنگل میں یادوں کی تلاش کے سفر کا آغاز کر دیتا ہے۔ اندھیرے میں چلتے چلتے کوئی منور منطقہ آتا تو ٹھٹھکتا مگر پھر آگے بڑھ جاتا کہ وہ تو ایسی ساعت تک پہنچنا چاہتا ہے۔ جب اس کے شعور نے آنکھ کھولی تھی ’’…چنانچہ جب طلبا نعرے لگاتے اور توڑ پھوڑ کرتے کالج سے چلے جاتے ہیں تو تاریخ کے پروفیسر کو سمجھ نہیں آتا کہ وہ اب کیا کرے۔ ‘‘ اپنے کمرے میں گیا،بیٹھا یاد کیا کہ آج اسے کیا لیکچر دینا تھا؟ مگر اب اُسے کون سا لیکچر دیتا تھا۔ بلاوجہ، بلا سبب دراز کھول کر کچھ کاغذ الٹ پلٹ کئے۔ میز پر لگی کتابیں ادھر اُدھر سے کھول کر دیکھیں ، پھر بند کر کے رکھ دیں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ گھر سے یادوں سے شاداب چلا تھا، اپنے آپ میں مگن، باہر سے بے تعلق مگر یہاں تک پہنچتے پہنچتے باہر کی دنیا میں پھر سے مفہوم پیدا ہوتا چلا گیا۔ ‘‘

در اصل یہ خارج اور باطن کا بُعد ہے اور اس سے جنم لینے والی جذباتی خلیج، جس پر پُل باندھنا مشکل ہے۔ ذاکر صرف تاریخ کا استاد ہے ، نہ وہ تاریخ ساز ہے اور نہ ہی مورخ۔ اسی لئے تاریخ کے بحران میں اسے اپنے کرنے کو کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ خود بے جڑ ہے۔ اس لئے بحران پیدا کرنے والے فریقین میں سے کسی ایک کی طرفداری بھی نہیں کر پاتا۔ اپنی کومٹمنٹ سے یہ فرار ہی اُسے کرائسس کے موقع پر اپنی ذات کے نہاں خانہ میں اترنے اور ماضی کی شاداب یادوں کی برکھا میں سرشار ہونے پر مجبور کر دیتا ہے لیکن یوں وہ حقیقت سے کب تک فرار اختیار کر سکتا ہے کہ تاریخ اور کچھ ہو یا نہ ہو مگر اس کا پیشہ تو یقیناً ہے۔ جبھی تو اس کا تھکا ذہن یہ سوچتا ہے ’’کم بخت تاریخ‘‘ لڑکوں کو تاریخ پڑھانا کتنا بور کام ہے اور تاریخ پڑھنا؟ دوسروں کی تاریخ اطمینان سے پڑھی جا سکتی ہے جیسے اطمینان سے پڑھا جا سکتا ہے مگر اپنی تاریخ؟ میں اپنی تاریخ سے بھاگا ہوا ہوں اور زمانہ حال میں سانس لے رہا ہوں۔ فراریت پسند مگر بے رحم زمانہ پھر ہمیں تاریخ کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ ‘‘

بستی بے جڑ لوگوں سے آباد ہے۔ اس لئے وہ سب بے یقینی، لاتعلقی، تشکیک اور ناسٹولجیا کے مریض ہیں۔ بزرگوں کی نسل کا ماضی، ان کے شجرۂ نسب، بوسیدہ مخطوطوں ، دیمک لگے پیلے ورقوں والی کتابوں ، پرانے رقعوں ، پرچوں ، نسخوں ، دعاؤں ، تعویذوں اور چابیوں کی صورت میں ہے۔ نئے ملک اور بدلے ہوئے حالات میں یہ بے کار اشیاء تو ثابت ہو سکتی ہیں۔ لیکن بے معنی نہیں کہ یہ ماضی کے استعارے ہیں۔ جبھی تو چابیوں کے بارے میں باپ فخریہ کہہ سکتا ہے۔

 ’’ہم نے تو انہیں زنگ لگنے نہیں دیا، آگے ذاکر میاں جانیں۔ ‘‘

اور ماں کہتی ہے

 ’’ہاں بیٹے یہی باپ دادا کی امانت ہے۔ اسے حفاظت سے رکھنا۔ ‘‘

 ’’باپ دادا کی امانت‘‘ وہ بڑبڑایا‘‘ بیٹے یہ اس گھر کی چابیاں ہیں جس پر اب تمہارا کوئی حق نہیں ہے۔ اس گھر کی اور اس زمین کی روپ نگر کی چابیاں۔ چابیاں یہاں میرے پاس ہیں اور وہاں ایک پورا زمانہ بند ہے۔ گزرا زمانہ۔ مگر زمانہ گزرتا کہاں ہے۔گزر جاتا ہے پر نہیں گزرتا، آس پاس منڈلاتا رہتا ہے۔ ‘‘

 ’’بستی‘‘ میں شجر اور قبر کے حوالے سے ماضی کو جس طرح یاد کیا گیا ہے اس سے قبل انتظار حسین اسی موضوع پر ایک افسانہ ’’ہندوستان سے ایک خط‘‘ میں قلم بند کر چکا ہے۔ اپنے مزاج اور اسلوب کے لحاظ سے مجھے تو یہ افاسانہ ’’بستی‘‘ کا ایک باب معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ ’’بستی‘‘ کی قبر کی مانند اس افسانہ میں بزرگوں کی قبروں اور حویلیوں کے ساتھ ساتھ کئے درختوں کا ماتم کیا گیا ہے۔ خاندان ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں منقسم ہو جاتا ہے۔ افسانہ ’’ہندوستان سے ایک خط‘‘ کی اہمیت اس تیز طنز میں پوشیدہ ہے جو انتظار حسین نے پاکستانیوں کے لئے بطور خاص محفوظ رکھا ہے۔ حتیٰ کہ بنگلہ دیش بننے پر وہاں سے فرار ہو کر آنے والے پاکستانی دلّی میں بھارتی فلمیں بھی دیکھتا ہے۔ الغرض یوں محسوس ہوتا ہے گویا یہ افسانہ ’’بستی‘‘ کا ابتدائی خاکہ ہو یا پھر بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ہندوستان سے ایک خط‘‘ کا تقابلی مطالعہ دلچسپ نتائج کا حامل ہو سکتا ہے مثلاً یہ سطریں جو اس افسانہ کی ہیں :

 ’’جاننا چاہئے کہ زمین جب مہربان ہوتی ہے تو محبوبہ کے آغوش کی طرح نرم اور ماں کی گود سمان کشادہ ہو جاتی ہے۔ جب نامہربان ہوتی ہے تو جابر حاکم کی مثال سخت اور حاسد کے دل کی طرح تنگ ہو جاتی ہے۔ ‘‘

 ’’بستی‘‘ میں ذاکر کے باپ کی گفتگو محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ فقرے تو ’’بستی‘‘ کا سرنامہ بن سکتے ہیں :

 ’’اب میں ہوا میں اڑتے پتوں کا ماتم دار ہوں۔ ان دنو کو جب یہ خاندان برگ وثمر سے سے لدا پھندا درخت تھا یاد کرتا ہوں اور آوارہ پتوں کا شمار کرتا ہوں۔ ‘‘

جاننا چاہئے کہ ’’بستی‘‘ اسی زمین کا ناول ہے جس سے ماں کی گود جیسی کشادگی اور محبوبہ کی آغوش جیسی نرمی کی توقع میں جڑ سے اکھڑے پودے تناور درخت بننے کی تمنا لئے آئے انہیں عبادت برق کی کرنی پڑی اور یوں افسوس حاصل کا ان کا مقدر قرار پایا۔ انتظار حسین کے سب کردار اسی صورت حال کے شکار ہیں۔ وہ بوڑھا، جس کے بقول ’’میں جب گھر سے چلا تھا تو میرے سارے بال سیاہ تھے۔ اس وقت میری عمر ہی کیا تھی۔ بیس اکیس کے پیٹے میں تھا۔ جب پاکستان میں پہنچا اور نہانے کے بعد آئینہ دیکھا تو میرے سر کے سارے بال سفید ہو چکے تھے۔یہ پاکستان میں میرا پہلا دن تھا۔ ‘‘ اور اس سفید سر والے بوڑھے کو حوالہ بنا کر اپنے اپنے باپوں کو جاہل قرار دے کر انہیں اپنے باپ نہ ماننے اولے سلامت اور اجمل بھی اسی صورت کا رد عمل ہیں کہ وہ حالات کے رخ کو درست سمت کی طرف رکھنے سے قاصر ہیں اور اسی لئے دانت کچکچا کر سلامتیہ اعلان کرتا ہے۔

 ’’میں حرام زادہ ہوں۔ ‘‘

در اصل اپنے باپوں کو مسترد کر کے وہ اتھارٹی اور اس کے حوالہ سے ماضی کی ان اقدار کو مسترد کر رہے ہیں جنہوں نے پاکستان کو یکے بعد دیگر بحران پر بحران دیئے۔ ان کے لئے عوام کی آواز روشنی اور ہوا کے مترادف ہے مگر ساتھ ہی بھپرے جلوس سے خوفزدہ لوگ بھی تو ہیں جو دروازے بند رکھنے ہی میں عافیت جانتے ہیں۔

انتظار حسین نے ناول کے ’’ایکشن‘‘ کے لئے شیراز کی صورت میں ٹی ہاؤس کو منتخب کیا تو اکثر معترضین کے برعکس مجھے یہ انداز اچھا لگا اس لئے کہ یہ ٹی ہاؤس ملک بھر میں دانشوروں کی ہانٹ کے طور پر مشہور ہے۔ ہر نئی فصل کی مانند شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں کی نئی کھیپ آتی ہے۔ کچھ دیر چائے کی پیالیوں میں طوفان برپا کرتی ہے۔ اس کے بعد اپنے شعر و ادب کی فروخت سے یا نظریاتی سمجھوتہ سے ورنہ پھر دھونس اور دھاندلی سے یہ لوگ ملکی زندگی میں اپنے لئے مقام بنا لیتے ہیں۔ چنانچہ انفارمیشن، ریڈیو اور ٹی وی کے افسران کی اکثریت اسی باغیچہ کی قلمیں ہیں۔ اسی لئے انتظار حسین نے دانشوروں کی بے چارگی، خود فراموشی اور خود فروشی سے پاکستان کے ذہین ترین طبقہ کی تصویر کشی کی ہے۔ زوّارسی ایس پی افسر بن جاتا ہے۔ سلامت امریکہ جانے کے لئے امریکی مرکز اطلاعات کے چکر لگاتا ہے۔ اجمل بنیادی جمہوریتوں میں کھپ جاتا ہے۔ عرفان اخبار میں ملازم ہو جاتا ہے یہ چھوٹے لوگ اور غیر اہم کردار ہیں اور سی ایس پی افسر بننے یا امریکہ چلے جانے سے ان کے قد اونچے نہیں ہوں گے لیکن اتنا ہے کہ ایسے لاتعداد چھوٹے اور ذہین لوگ ہی اپنی سعئی مسلسل سے پاکستان کو ’’موجودہ‘‘ پاکستان بنانے والے ہیں۔ ’’بستی‘‘ کے تمام کرداروں میں سے ذاکر اور افضال قدرے ابھرے کردار ہیں لیکن دونوں میں ایک خاص طرح کی انفعالیت ہے۔ افضال باتیں خوبصورت کرتا ہے لیکن عملی نہیں۔ اس کا وقت پیڑوں اور چڑیوں کی سنگت میں بسر ہوتا ہے۔ اس لئے اس کے پاس عشق کرنے کو وقت نہیں۔ وہ طیب اور برعکس لوگوں کی فہرست بناتا ہے اور کرتوتوں کے لحاظ سے آدمیوں کو چوہے بتاتا ہے۔ اس کی دردمندی وطن سے محبت، دوستوں سے پیار اور انسانی اقدار کی عظمت کا احساس سب شیراز میں چائے کی میز تک محدود ہے اور بس!

ذاکر وہ واحد دریچہ ہے جس سے اس ناول میں عورت کی خوشبو آئی ہے۔ صابرہ، تسنیم اور انیسہ۔ ان میں سے صابرہ کا کردار ابھرتا ہے لیکن یوں کہ وہ عورت کم اور بچپن کی سندرتا اور روپ نگر کی جوانی کی علامت بن کر رہ جاتی ہے۔ وہ چاندنی ایسی شیتل ہے جسے صرف یاد کیا جا سکتا ہے مگر حاصل نہیں۔ شاید اسی لئے ذاکر اس کے بارے میں سوچتا تو بہت ہے مگر اسے خط تک نہیں لکھ پاتا اس لئے کہ اس کے تحت الشعور میں بھی یہی احساس کارفرما ہے کہ صابرہ محض ایک عورت نہیں ہے۔یوں ذاکر اور صابرہ کی ’’مساوات‘‘مرد اور عورت کی مساوات بننے کے برعکس تصوراتی سطح پر لہراتی رہتی ہے۔ چنانچہ اسے اپنے بارے میں مغموم جان کر ذاکر کا رد عملیوں ہے … ’’پہلے وہ میری یاد میں زندہ ہوئی اور اب ایک گم شدہ دوست ظاہر ہوتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ وہ میری یاد سے الگ اپنے طور موجود ہے۔ اپنی یاد کے ساتھ جس میں میں ہنوز زندہ ہوں۔ میں اس کی اُداسی اور کڑھن میں زندہ ہوں۔ ‘‘

انتظار حسین کے افسانوں میں عورت بس تبرکاً ہی ملتی ہے۔ اس کے بیشتر افسانوں سے عورت جلاوطن کر دی گئی ہے اور جب کبھی آتی ہے تو وہ عورت جنسی نہیں ہوتی اور اسی لئے بیشتر صورتوں میں وہ مسٹ فٹ سی محسوس ہوتی ہے یا پھر وہ مرد پر حاوی نظر آتی ہے وہ اسے مکھی تو بناسکتی ہے لیکن اس کے بستر کی رفیق بن کر اسے جنسی لذت سے سیراب نہیں کر سکتی۔ کیا یہ محض اس کے افسانوں کے موضوعات اور ان کی مخصوص فضا کے باعث ہے یا اس کے پیچھے عورت کے بارے میں خود انتظار حسین کا اپنا کوئی کمپلیکس ہے ؟ (یہ سوال دلچسپ ہے مگر ’’بستی‘‘ کے موجودہ مطالعہ کی حدود سے خارج ہے ، پھر کبھی اس موضوع پر لکھوں گا)۔

 ’’بستی‘‘ کی عورتوں میں صرف انیسہ ہی ایک زندہ عورت نظر آتی ہے۔ اسے ناول میں صرف 5صفحات اور ذاکر کی زندگی میں چند گھنٹے گزارنے کا موقع دیا گیا ہے۔ انیسہ بھرپور جنسی لڑکی ہے لیکن کیا کیا جائے کہ ذاکر اپنی انفعالیت کا شکار ہے۔ جرأت مردانہ سے کام لیتا بھی ہے لیکن ابھی اتنا مرد نہیں کہ اس کے اشارے کو سمجھ سکے۔ ناچار کنوئیں پر سے پیاسا چلا آتا ہے اور بیچ سڑک میں گاڑی کھڑی کر کے سوچتا ہے کہ وہ اسے کیوں روک رہی تھی؟

تویہ ہیں ’’بستی‘‘ کے کردار شکستہ سے ، اُداس سے اور دل گرفتہ سے۔ ان میں سے کوئی بڑا کردار نہیں ہے۔ بلکہ مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ٹوٹے شیشے کی کرچیوں کی مانند یہ سب ایک بڑے کردار کی کلّیت کے مختلف اجزاء ہیں۔یوں سمجھئے کہ انتظار حسین نے بہت سے کرداروں کو سانچے میں ڈھالنے کے لئے ان چھوٹے بڑے آڑے ترچھے اور مختلف رنگوں کے لوگوں کو ملا کر Mosaic کی مانند ان سے ایک شبیہ تیار کر ڈالی۔

انتظار حسین نے ’’بستی‘‘ میں موت اور قبر کو بہت گہری معنویت سے استعمال کیا ہے۔ چنانچہ ہر ذاتی پریشانی اور اجتماعی بحران کے پس منظر میں موت اور قبر ضرور ملتی ہیں۔ صرف ابتداء میں جہاں ذاکر اور صابرہ بچپن میں قبریں بناتے ہیں تو یہاں قبر کو جنسی علامت بنا دیا گیا ہے۔

 ’’میری قبر اچھی ہے۔ ‘‘

 ’’ہوں بڑی اچھی ہے۔ ‘‘ اس نے صابرہ کا منہ چڑایا۔

 ’’پاؤں ڈال کے دیکھ لے۔ ‘‘

 ’’اس تجویز پر وہ ٹھٹھکا، کچھ سوچا، پھر دھیرے دھیرے کر کے اس نے اپنا پاؤں بڑھایا اور صابرہ کی قبر میں کھسکا دیا اور پھر دل ہی دل میں قائل ہوا کہ بسو سچ کہتی ہے اور اپنا پاؤں دیر تک اس نرم گرم قبر میں رکھے رہا۔ ‘‘ (لاشعوری طور پر انتظار حسین کو بھی یہاں قبر کی جنسی علامت کا احساس ہو گا جبھی تو اس نے نرم گرم لکھا ہے حالانکہ ریت ٹھنڈی ہوتی ہے ) اس واقعہ کے بعد سے ذاکر کے صابرہ سے تعلقات ٹھیک ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد سے وہ صابرہ کے سامنے دولہا دولہن کھیلنے کی تجویز رکھتا ہے۔ جس پر وہ گھبرا کر کہتی ہے ’’کوئی دیکھ لے گا۔ ‘‘

یوں دیکھیں تو قبر جنسی علامت کے طور پر آغاز پاتی ہے لیکن ناول کے عروج کے ساتھ ساتھ یہ جذباتی المیہ اور قومی بحران کے لئے پس منظر کی صورت اختیار کرتی جاتی ہے۔ جب گولی چلنے سے محلہ کا لڑکا مارا جاتا ہے تو اس وقت ذاکر، صابرہ کی قبر میں پاؤں ڈالنے کے تصورات میں مگن ملتا ہے۔ آخری منظر میں افضال اور ذاکر قبرستان میں ملتے ہیں۔

 ’’یار ذاکر تجھے یہ بات عجب نہیں لگتی؟‘‘

 ’’کیا؟‘‘

 ’’آج کے آشوب میں ہماری ملاقات قبر کے درمیان‘‘

شاید وہ قبرستان ہی میں مل سکتے تھے کہ زندوں کی بستی سے تو کچھ پانہ سکے۔ مُردوں کی بستی اگر کچھ دے گی نہیں تو چھینے گی بھی تو نہیں۔

٭٭٭


 

 

آخری موم بتی—انتظار حسین

 

ہماری پھوپی جان کو تو بڑھاپے نے ایسے آلیا جیسے قسمت کے ماروں کو بیٹھے بٹھائے مرض آ دبوچتا ہے … میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ بعض لوگ اچانک کیسے بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ آندھی دھاندھی جوانی آتی ہے ، بڑھاپا تو دھیرے دھیرے سنبھل کر آیا کرتا ہے۔ لیکن پھوپھی جان بوڑھی نہیں ہوئیں بڑھاپے نے انہیں آناً فاناً آن دبوچا۔ جوانی، جوانی سے بڑھاپا۔ ہم جس وقت وہاں سے چلے ہیں تو اس وقت وہ اچھی خاصی تھیں ، گوری چٹی، کالے کالے چمکے لیے گھنے بال، گٹھا ہوا وہ ہرا بدن، بھری بھری کلائیوں میں شیشے کی چوڑیاں ، پنڈلیوں میں تنگ پائجامے کا یہ حال کہ اب مسکا۔ لباس انہوں نے ہمیشہ اُجلا پہنا۔ وصلی کی جوتیاں بھی زیادہ پرانی نہیں ہو پاتی تھیں کہ بدل جاتی تھیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ نئی جوتی کی ایڑی دوسرے تیسرے دن ہی پٹخ جاتی تھی بے تحاشا پان کھاتی تھیں اور بے تحاشا باتیں کرتی تھیں۔ محلے کی لڑنے والیوں کی صفِ اول میں ان کا شمار تھا۔ لڑنے۔ یہ تو بس ادھار کھائے بیٹھے رہتی تھیں اور ادھار انہیں خوب ملتا تھا، ذرا سی بات ہوئی اور بکھر پڑیں۔ طبیعت میں رنگینی تھی۔ لیکن نہ ایسی کہ اچھال چھکا کہلائیں۔ بس یہی تھا کہ کھل کر بات کرتی تھیں اور بے ساختہ ہنستی تھیں۔ ہاں میں ایک بات اور بتاتا چلوں۔ پھوپھی جان میری سگی پھوپھی نہیں ہیں۔ اپنی والدہ کا فقرہ اگر مجھے غلط یاد نہیں ہے تو وہ میرے مرحوم والد کے چچا زاد… یا خالہ زاد… یا شاید پھوپھی زاد بھائی کی بیٹی ہیں۔ ہمارے خاندان میں سب چھوٹے انہیں پھوپھی جان ہی کہتے ہیں اور شاید میری طرح کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ ان سے ان کا کیا رشتہ ہے۔ ویسے خاندان میں سب ان کا پاس بھی کرتے ہیں اور ان سے ڈرتے بھی ہیں۔ فسادات کے ماروں کی گنور دل کے ساتھ ساتھ ہم چلنے لگے تو پھوپھی جان سے خاندان کے ایک شخص نے اصرار کیا کہ پاکستان چلی چلو۔ مگر ان کے دماغ میں تو یہ سما گئی تھی کہ اگر وہ چلی گئیں تو امام باڑے میں تالا پڑ جائے گا۔ خیر،یہ بات ٹھیک ہی ہے۔ عزاداری کی ساری ذمہ داری اب تو ان کے سر ہے ہی لیکن پہلے بھی اس کا انتظار وہ ہی کرتی تھیں۔ در اصل ہمارا جدّی امام باڑہ اس گھر کا ایک حصہ ہے جہاں پھوپھی جان رہتی ہیں۔ محرم کے دنوں میں امام باڑے میں عزاداری ہوتی تھی اور پھوپھی جان کے گھر میں مہمانی۔ خاندان کے جو لوگ سرکاری ملازمتوں پر قریب و دور کے شہروں میں گئے ہوتے تھے ان دنوں ضرور گھر کا پھیرا لگاتے تھ اور جس کو کہیں ٹھہرنے کی جگہ نہ ملتی تھی وہ پھوپھی جان کے ہاں جا کر ڈیرے ڈال دیتا تھا۔ ہاں میرے لئے یہ پہلا موقعہ تھا کہ میں ان کے گھر جا کر ٹھہرا۔ بات یہ ہے کہ میری خالائیں اور مامیاں اتنی تھیں کہ مجھے یہ طے کرنا دشوار ہو جاتا تھا کہ کس کے یہاں جا کر ٹھہروں جس کے نہ ٹھہرو اسی کے بُرے بنو۔ میں نے تنگ آ کر یہ دعا مانگنی شروع کر دی تھی کہ اللہ میاں میری خالاؤں ، ماموں اور چاچیوں کی تعداد میں تھوڑی سی کمی کر دے۔ وہ کم تو نہ ہوئیں ، تتر بتر ہو گئیں۔ بہر حال دعا قبول ہوئی لیکن مسئلہ پھر بھی جہاں کا تہاں رہا مجھے یہاں سے چلتے وقت ایک مرتبہ پھر یہ سوچنا پڑا کہ ٹھہرنا کہاں ہے اور اس دفعہ سوائے پھوپھی جان کے گھر کے اور کوئی ٹھکانا ہی ذہن میں نہ آیا۔ میں ابھی کیا کہہ رہا تھا کہ پھوپھی جان بوڑھی ہو گئی ہیں۔ میں انہیں دیکھ کے چکرا سا گیا۔ بالکل ڈھل گئی ہیں۔ بال کھچڑی، چہرے پہ جھریاں ، نیچے کے دو دانت جھڑ گئے ہیں ، سفید دوپٹہ اور ننگی کلائیاں رنڈا پے کے طفیل ہیں ، ورنہ پہلے تو وہ رنگا چنا دوپٹہ اوڑھے رہا کرتی تھیں اور شیشے کی رنگین پھنسی پھنسی چوڑیاں ان کی کلائیوں میں کھنکھنایا کرتی تھیں۔ سروطہ پہ مجھے یاد آیا کہ پھوپھی جان کا پان چھالیا کا خرچ اب بہت کم ہو گیا ہے۔ ان کے گھر بیبیوں کا وہ جمگھٹا بھی تو نہیں رہتا۔ پان چھالیا کا خرچ آپ سے آپ کم ہو گا۔ اب ان کا سروطہ بھی کم چلتا ہے اور زبان بھی کم چلتی ہے۔

میں ہنس کے کہنے لگا۔ ’’پھوپھی جان آپ تو بالکل ہی بدل گئیں۔ کسی سے اب لڑائی بھی نہیں ہوتی۔ ‘‘

پھوپھی جان تو کچھ نہ بولیں۔ ان کے نہ بولنے پہ بھی مجھے خاصی حیرانی ہوئی۔ ہاش شمیم بول اٹھی۔ ’’لڑیں کس سے بھنڈیلیاں تو پاکستان چلی گئیں۔ ‘‘

شمیم سچ کہتی تھی۔ اب تواڑوس پڑوس میں شرنارتھی ہی شرنارتھی نظر آتے ہیں۔ برابر کے مکان میں پہلے پنڈراول والی رہتی تھی۔ پھوپھی جان کی یا تو اس سے لڑائی ٹھنی رہتی یا گاڑھی چھنتی تھی۔ اب وہاں ایک سردارنی ٹھیٹھ پنجابی بولتی ہے اور پھوپھی جان اردو محاورے سے انحراف نہیں کرتیں۔ کبھی کبھی حق ہمسائے گی ادا کرتے ہوئے سردارنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں بات کر لیتی ہے اور پھوپھی جان ایک آدھ لفظ پنجابی کا بھی استعمال کر لیتی ہیں لیکن یہ تو سمجھوتے کی بات ہوئی اور لڑائی سمجھوتوں سے نہیں لڑی جاتی۔ سردارنی کا جسم ڈھل گیا ہے لیکن لَو اب تک دیتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ سردارنی کے لونڈے کو یہ چمک دمک ذرا بھی ورثہ میں نہیں ملی ہے۔ وہ گورا چٹا ضرور ہے ، مٹی میں بھی نہیں کھیلتا لیکن اس کے چہرے پہ وہ شادابی پھر بھی نظر نہیں آتی جو اس عمر کے بچوں کے چہرے پہ کھیلتی نظر آیا کرتی ہے۔ شاید یہ شادابی اور چمک دمک کا سارا قصہ مٹی ہی کا قصہ ہو۔ سردارنی کا بچہ اس مٹی کی بوباس سے غالباً ابھی مانوس نہیں ہوا ہے۔

ویسے یہ مانوس اور نامانوس کا سوال ہے ٹیڑھا۔ اب میں ہی ہوں مجھے یہ محلہ مانوس بھی نظر آتا ہے اور اجنبیت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ اصل میں اپنے محلے کا رنگ ڈھنگ عجیب ڈھب سے بدلا ہے اس کے قصّے سے نیندیں نہ اڑیں مگر ہے وہ عجب طور ہی کی کہانی۔ پہلی نظر میں تو تبدیلی کا احساس خود مجھے بھی نہیں ہوا تھا۔ میں صبح منہ اندھیرے گھر پہنچ گیا تھا۔ اسے بھی عجب بات ہی کہنا چاہئے کہ دنیا بدل گئی، ہمارے محلے کا بلکہ ہمارے پورے نگر کا طور بدل گیا۔ لیکن ریل کا وقت اب بھی وہی ہے۔ ریل اب بھی وہاں تڑکے پہنچتی ہے۔ ریل کا وقت نہیں بدلا اور اسٹیشن والی سڑک نہیں بدلی۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے۔ دونوں کو ایک ہی وضع پہ دیکھا اور اب بھی دونوں کی وہی وضع نظر آئی۔ سڑک خستہ پہلے ہی تھی، اب اور خستہ ہو گئی ہے کئی مرتبہ توبہ ہوا کہ یہ پتہ ہی نہ چلا کہ یکّہ آگے بڑھ رہا ہے یا پیچھے ہٹ رہا ہے۔ سامنے کئی یکّے اور بھی چلے جا رہے تھے۔ صبح کے دھند لکے اور اڑتی ہوئی گرد میں وہ بھی بس یوں نظر آتے تھے۔ کہ چل نہیں رہے ہیں بلکہ چرخ کھا رہے ہیں۔ کبھی کبھی ہموار سڑک آ جاتی اور سب یکّے پوری رفتار سے دوڑنے لگتے۔ ان کے پہیوں کے شور سے بے ہنگم اور میٹھا میٹھا ترنم پیدا ہوتا اور پوری فضا  پہ چھا جاتا۔ پھر پہیہ اچانک دھم سے کسی گڑھے میں گر پڑتا اور یوں معلوم ہوتا کہ یکّہ اب الٹا اور اب اُلٹا۔ سڑک سے ہٹ کر ٹیلی گراف کے تار ایک شاما چڑیا اس کیفیت سے اپنی ننھی سی دم کو گردش دے رہی تھی گویا اس میں کسی نے پارہ بھر دیا ہے۔ لبِ سڑک ایک شیشم کا گھنا پیڑ کھڑا تھا۔ جس کے سارے پتے چڑیوں کے مٹھاس بھرے شور سے بج رہے تھے لیکن چڑیا کہیں نظر نہ آتی تھی۔ یکہّ پھر تیزی سے چلنے لگا۔ مٹھاس بھرا شور دھیما پڑتا گیا اور صبح کے امنڈتے ہوئے دھیمے راگ میں حل ہو گیا۔ ہوا میں ایک مہک پیدا ہو چلی تھی۔ سڑک سے لگی ہوئی مٹھن لال کی بغیچی تھی جہاں بیلا چنبیلی کے درخت سفید سفید پھولوں سے لدے کھڑے تھے۔ ان سے ورے ایک نیم کے نیچے رہٹ چل رہی تھی۔ چبوترے پہ لالہ مٹھن لال کھڑے تھے۔ ننگے پیر، ننگے سر، بدن پہ لباس کے نام ایک بد رنگ دھوتی، گلے میں سفید ڈورا، ایک ہاتھ میں پیتل کی گڑہئی، دوسرے میں نیم کی دنتون لالہ مٹھن لال کے طور اطوار میں ذرا بھی تو فرق نہیں آیا ہے۔ اسی انداز سے سویرے منہ اندھیرے ٹٹی اور اشنان کو گھر سے نکل بغیچی پہنچتے ہیں۔ جنگل سے واپسی پر رہٹ پہ بیٹھ کر پیلی مٹی سے گڑئی مانجھتے ہیں ، نیم کی دنتون کرتے ہیں اور جتنی دنتون کرتے ہیں ، اتنا ہی تھوکتے ہیں۔ لالہ مٹھن لال کی بغیچی سے بس ذرا آگے بڑھ کر آبادی شروع ہو جاتی ہے۔

بازار ابھی بند تھا۔ ہاں موتی حلوائی کی دکان کھل گئی تھی لیکن چولھا ابھی گرم نہیں ہوا تھا۔ جلیبیوں اور کچوریوں کے ابتدائی انتظامات ہو رہے تھے۔ دکان کے سامنے جھوٹے دونوں ، کلھڑوں اور الابلا کا ایک ڈھیر پڑا تھا۔ جس پہ ایک دو کتّے بڑی بے دلی سے منڈلا رہے تھے۔ مہتروں نے جھاڑو کا سلسلہ ابھی بند نہیں کیا تھا۔ سڑک پہ جا بجا گرد اُڑ رہی تھی اور اپنی گلی کی نکڑ پہ تو اتنی گرد تھی کہ تھوڑی دیر تک کچھ نظر ہی نہ آیا۔ بس ایک دھندلا سا سایہ حرکت کرتا دکھائی دیتا تھا۔ یکّہ جب بالکل فریب پہنچ گیا۔ تب مجھے پتہ چلا کہ یہ جھالو مہترانی ہے۔ اس نے مجھے بڑی رعونت سے دیکھا اور پھر جھاڑو دینے میں مصروف ہو گئی مجھے اس کی اس رعونت پہ پانچ چھ سال پہلے والا زمانہ یاد آ گیا۔ میں اور وحید اکثر علی گڑھ سے اسی گاڑی سے آیا کرتے تھے اور ہر مرتبہ جھالو مہترانی اسی انداز سے جھاڑو دیتی نظر آتی۔ رعونت سے ہمیں دیکھتی اور پھر جھاڑو دینے لگتی۔ وحید آج کل کراچی میں ہے۔ لیکن کراچی جا کر اس نے تو ایسا چولا بدلا ہے کہ ٹھیٹھ پاکستانی نظر آتا ہے۔ ایکسپورٹ امپورٹ کا کام کرتا ہے اور گلچھڑے اڑاتا ہے۔ پچھلے سال اتفاقاً اس سے ملاقات ہو گئی تھی۔ بڑی گرمی میں باتیں کرتا تھا۔ کراچی کی رونق کے قصیدے ، تجارت کی نیرنگیوں کا احوال۔ وہ کہتا رہا، میں سنتا رہا۔ اس کے نئے رنگ کو دیکھ کر میں تو ہکّا بکّا رہ گیا۔ موٹر کی سواری پر منحصر نہیں ، وحید کا تو پہلا چولا ہی بدل گیا ہے۔ امریکی طرز کی بشرٹ اور پنٹ تو ظاہری ٹھاٹ باٹ ہوئے ، اس کا تو بات کرنے کا لہجہ تک بدل گیا ہے۔ بندرگاہ کراچی کی ہوا کی تاثیرسے میں ناواقف ہوں۔ وہاں مہاجر اسی طرح چولا بدلتا ہے۔ وہ یا تو کسی فٹ پاتھ پہ ڈیرا ڈال دیتا ہے اور سمندر کی نم ہواؤں کے سہارے جیتا ہے یا پھر چھیلا بن کر موٹروں میں گھومتا ہے لیکن وحید کی نئی وضع قطع دیکھ کر مجھے واقعی بہت تعجب ہوتا ہے میرا یہ عقیدہ رہا تھا کہ جسے علی گڑھ نہیں بگاڑ سکتا اسے دنیا کی کوئی برائی نہیں بگاڑ سکتی۔ میں اور وہ علی گڑھ ایک سال کے فرق سے پہنچے تھے۔ بات یہ ہوئی کہ میں میٹرک میں ایک سال لڑھک گیا تھا۔ ایک سال بعد جب میں علی گڑھ پہنچا تو وحید میں مجھے ذرا بھی تبدیلی نظر نہ آئی۔ ایک میلی کالیا چکن کے سوا اور کوئی نئی چیز اسے علی گڑھ سے تحفے میں نہیں ملی تھی۔ اب بھی اسی محنت، اسی ذوق و شوق سے پڑھتا تھا۔ وحید کو ہماری پھوپھی جان ہی نے پڑھایا لکھایا ہے۔ قصہ اصل میں یہ تھا کہ وحید کی شمیم سے منگنی ہو گئی تھی۔ اسے معمولی منگنی بھی نہیں کہنا چاہئے۔ یوں اب مجھے یہ لفظ استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ پھر بھی میں یہی کہوں گا کہ کمبخت کو شمیم سے عشق تھا۔ اس کے لئے میری دلیل یہ ہے کہ اگر یہ معمولی لگاؤ ہوتا تو علی گڑھ میں جا کر اس کا زور ٹوٹ جاتا۔ علی گڑھ میں یاروں کا عجب طور تھا۔ جس لڑکے نے امتحان کے ڈیڑھ دو مہینے کسی لڑکی کو ٹیوشن پڑھا دیا، اُس سے اپنی لگاوٹ کا اعلان کر دیا۔ جو لڑکا کسی نئے طالب علم کے ساتھ تین دن میرس روڈ پر گھوم لیا۔ اس کی خبر مشتہر کر دی۔ علی گڑھ میں عشق کم، عشق کا چرچا زیادہ تھا۔ لیکن وحید نے لڑکیوں کے ٹیوشن کئے اور مسلسل کئے لیکن اپنی آن قائم رکھی ہفتے کی چھٹی آئی اور وہ علی گڑھ سے رسہ تڑا کر بھاگا۔ ادھر شمیم بھی شاید اس کی باٹ ہی دیکھتی رہتی تھی۔ میں تو جب بھی وحید کے ساتھ گیا اس گلی سے گزرتے وقت یہی دیکھا کہ اوپر کی کھڑکی سے کوئی جھانک رہا ہے۔ شمیم اتنی حسینو جمیل تو نہ تھی کہ اسے حور اور پری کہا جائے لیکن اس میں ایک عجب سی کشش ضرور تھی۔ چھریرا بدن، لمبا قد، کھلتا ہوا رنگ، آنکھیں … مجھے ان آنکھوں کا ذکر ذرا زیادہ جوش سے کرنا چاہئے۔ اگر اس کی آنکھیں ایسی نہ ہوتیں تو وہ معمولی شکل و صورت والی لڑکیوں میں شمار ہوتی۔ شعر اور افسانہ قسم کی چیزوں سے مجھے چونکہ کوئی ربط نہیں ہے۔ اس لئے میرے ذہن میں کوئی خوبصورت تشبیہ نہیں آ رہی۔ بس کچھ ایسا تاثر پیدا ہوتا تھا۔ کہ کیوڑے سے بھری ہوئی دو پیالیاں ہیں جو چھلک جانے کو ہیں۔ اس کی پتلیاں گردش کرتی ہوئی نہیں بلکہ تیرتی نظر آتی تھیں۔ میں نے اسے کئی مرتبہ شلوار پہنے بھی دیکھا ہے۔ لیکن شلوار تو وہ شوقیہ پہن لیا کرتی تھی اس کا روزمرہ کا لباس ڈھیلا پائجامہ تھا اور واقعہ یہ ہے کہ ڈھیلا پائجامہ اس کے چھریرے بدن اور لمبے قد پہ خوب پھبتا تھا۔ پھولوں کی بڑی شوقین تھی۔ گرمیوں میں صبح کے وقت میں جب پھوپھی جان کے گیا یہی دیکھ کہ شمیم بیٹھی بیلے کے پھول گو رہی ہے۔ جتنے پھول کانوں میں پہن سکتی تھی کانوں میں پہن لیتی تھی، باقی کے گجرے پرو کر کورے کورے گھڑوں پہ پھیلا دیتی تھی۔

میں نے اگر ماضی کا صیغہ استعمال کیا ہے تو اس سے کوئی غلط فہمی پیدا نہیں ہونی چاہئے۔ شمیم زندہ ہے۔ اصل بات یوں ہے کہ مجھے اپنا یہ پورا محلہ ہی ماضی کا صیغہ نظر آتا ہے۔ اب شمیم کو میں اس سے کیسے علیحدہ سمجھوں اور پھر اب شمیم میں وہ بات بھی تو نہیں رہی۔ اس میں جو ایک عجب قسم کی امک تھی اس نے ایک دھیمی دھیمی حزینہ کیفیت کی شکل اختیار کر لی ہے۔ شمیم اب خاصی جھٹک گئی ہے اس کا چھریرا جسم کچھ اور زیادہ چھریرا نظر آنے لگا ہے چہرہ بھی سونت گیا ہے اور اس کی آنکھوں کی شادابی سے وہ کیوڑے والی کیفیت اب پیدا نہیں ہوتی،یہ الگ بات ہے کہ اس کے جسم کی مہک کم نہیں ہوئی ہے اس کی آنکھوں سے اب کچھ اور ہی کیفیت پیدا ہوتی ہے میں اس کے لئے ’’افسردگی‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کروں گا۔ اس کی آنکھوں کی اس نئی کیفیت کے سلسلے میں مجھ یہ لفظ کچھ عامیانہ سا نظر آتا ہے لیکن کیا ضرور ہے کہ میں کوئی ترشا ترشا یا لفظ استعمال ہی کروں۔ در اصل اس گھر کی پوری فضا میں ہی اب ایک عجیب سی کیفیت رچ گئی ہے جسے میں لفظوں میں ٹھیک طور سے بیان نہیں کر سکتا۔ پھوپھا کا انتقال ہمارے جانے کے تھوڑے دن بعد ہی ہوا تھا۔ شاید اس گھر کا طور اسی وجہ سے بدل گیا ہے۔ ہمارے پھوپھا اچھے خاصے زمیندار تھے۔ ان کے زمانے میں گھر میں ترکاریوں کی وہ ریل پیل رہتی تھی کہ پھوپھی جان محلے والیوں پہ خوب خوب عنایت کرتی تھیں اور پھر بھی ترکاری بہت سی سوکھ جاتی تھی۔ خربوزوں کی فصل پہ یہ عالم ہوتا کہ پھوپھی جان کے گھر کا آنگن بسنتی ہو جاتا اور ادھر مینہ کا چھینٹا پڑا، ادھر خربوزوں کی آمد بند اور آموں کے ٹوکروں کی آمد شروع۔ بوندا باندی کا عالم ہے ، صحن میں پانی سے بھری ٹب رکھی ہے اور اس میں آم پڑے ہیں۔ لیکن اب تو پھوپھی جان کے آنگن میں جھاڑوسی ڈلی رہتی ہے نہ خربوزوں ک چھلکے نظر آتے ہیں ، نہ آموں کی گٹھلیاں دکھائی دیتی ہیں ، نہ گوبھی اور مولی کے پتے بکھرے ہوتے ہیں۔ صبح کے وقت پھولوں کے آنے کا دستور بھی بند ہو گیا ہے۔ شمیم کے کانوں میں بس دو ہلکے پھلکے رو پہلی بُندے ہلکورے کھاتے رہتے ہیں۔ پھوپھی جان کے لباس میں تو خیر نمایاں فرق پیدا ہوہی گیا ہے ، لیکن شمیم بھی اب اتنی اُجلی نہیں رہتی۔ اس تبدیلی سے قطع نظر مجھے تو شمیم کو وہاں دیکھ کر ہی تعجب سا ہو رہا تھا میرے ذہن میں یہی بات تھی کہ شمیم کی شادی ہو گئی ہے اور وحید کے ساتھ کراچی میں ہے۔ میں یہی تصور کر لیتا کہ شمیم کی شادی ہو گئی ہے اور وحید کے ساتھ کراچی میں ہے۔ میں یہی تصور کر لیتا کہ شمیم کراچی سے آئی ہوئی ہے مگر اس کے چہرے یہ بھی تو اس آسودگی کا نشان نظر نہ آتا تھا جو شادی کے بعد لڑکیوں کے چہروں پہ پیدا ہو جایا کرتی ہے۔

میں نے موقعہ پا کر بات چھیڑ ہی دی۔ ’’پھوپھی جان، وحید تو آج کل کراچی میں ہے نا؟‘‘

پھوپھی جان اس وقت گیہوں صاف کر رہی تھیں۔ صحن میں چھوٹا سا ٹاٹ بچھا تھا۔ اس پہ گیہوں کا ایک ڈھیر پڑا تھا اور پھوپھی جان چھاج میں تھوڑے تھوڑے گیہوں ڈال کر پھٹکتیں بینتیں اور الگ ایک ڈھیر لگاتی جاتی میرے فقرے کا ان پہ کوئی شدید ردّ عمل تو نہیں ہوا وہ اسی طرح کنکریاں بینتی رہیں۔ ہاں لہجے میں فرق ضرور پڑ گیا۔ لہجے کی یہ کیفیت غصے اور افسردگی کے بین بین تھی۔ کہنے لگیں ’’خاک ڈالو کم بخت پہ… ہماری بلا سے وہ کہیں ہو۔ ‘‘

میں اور چکرایا۔ پہلے تو میں چپ رہا کہ پھوپھی جان خود ہی کھلیں گی لیکن وہ تو اسی طرح گیہوں کے ڈھیر پر جھکی رہیں۔ پھر میں نے ہی بات چلائی ’’تو شمیم…‘‘

پھوپھی جان میری بات کاٹتے ہوئے بولیں۔ ’’ارے بھیّا! اس نے تو کرانچی جا کے طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیں۔ کوئی چلتی پھرتی مل گئی اس سے بیاہ کر لیا۔ ‘‘ انہوں نے چھاج اٹھایا اور آہستہ سے دو دفعہ گیہوں پھٹک کر پھر کنکریاں بیننی شروع کر دیں۔ کنکریاں بینتے بینتے اسی طرح چھاج پہ نظریں جمائے ہوئے وہ پھر بولیں۔ ’’ڈوبا ہمارا تو لہنا ہی ایسا ہے مٹے کو پڑھایا لکھایا پالا پرورش کیا اور اس نے ہمارے ساتھ یہ دغا کی…یاں سے کہہ کے گیا کہ کرانچی جاتے ہی خط بھیجوں گا۔ لے بھیّا اس نے تو واں جا کے ایسی کینچلی بدلی۔ دنیا بھر کے فیل کرنے لگا۔ ‘‘

پھوپھی جان چپ ہو گئیں۔ ان کی نظریں اسی طرح گیہوں کی ڈھیری پر جمی ہوئی تھیں۔ ڈھیری کے دانوں کو آہستہ آہستہ پھیلاتیں ، کریدتیں اور کنکریاں چن کے ایک طرف پھینکتی جاتیں۔ کنکریاں چنتے چنتے وہ پھر آہستہ سے ٹھنڈا سا سانس بھرتے ہوئے بولیں۔ ’’خیر ہم نے جیسا کیا ہمارے آگے آئے گا‘‘ اور انہوں ن چھاج میں گیہوں ڈالے اور زور سے پھٹکنے شروع کر دیئے ’’کمبخت گیہوں میں نرا کوڑا ہے۔ آدھے جَو ملے ہوئے ہیں۔ ‘‘اور انہوں نے زور زور سے گیہوں پھٹکنے شروع کر دیئے۔

میرا وہاں ایک ہفتے قیام رہا۔ مگر پھر کبھی یہ ذکر نہیں نکلا۔ دکھتے ہوئے گھاؤ پہ ایک مرتبہ میں انگلی رکھ چکا تھا۔ دوبارہ اس کی جرأت نہ ہوئی۔ پھوپھی جان نے خود یہ ذکر چھیڑا نہیں مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ اسے بھول بسر گئی ہوں۔ ان کی چپ چاپ، ان کے پورے طرزِ عمل سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ پھوڑا ہر وقت دکھتا ہے ، درد کرتا ہے۔ شمیم اس حد تک تو متاثر نہیں معلوم ہوتی تھی، لیکن ایک دھیمے ، نیم محسوسدکھ کی کیفیت تو اس کی چال ڈھال سے بھی پیدا ہوتی تھی۔ اس گھر کی چہل پہل نہ جانے کہاں رخصت ہو گئی تھی۔ گھر میں سارے دن خاموشی سی چھائی رہتی۔ باتیں ہوتیں تو خاموشی کا تاثر اور گہرا ہو جاتا۔ پھوپھی جان اکثر بے معنی طور پر باورچی خانے سے صحن میں اور صحن سے کسی کمرے میں جاتیں اور خواہ مخواہ کی مصر دفتی یں پیدا کرتیں اور یوں معلوم ہوتا کہ یہ پھوپھی جان نہیں ہیں ، پھوپھی جان کا سایہ اس گھر پہ منڈلا رہا ہے۔ مجھے خفقان ہونے لگتا اور میں باہر نکل جاتا۔ باہر گلی میں شرنارتھیوں کے سائے چلتے پھرتے نظر آتے اور خاموش گلی بدستور خاموش رہتی۔

اسے پر مٹ سسٹم کی ستم ظریفی سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ویسے میں اسے اتفاق ہی کہوں گا کہ وہاں سے میری روانگی ٹھیک یکم محرم کو ہوئی۔ یہ پچھلے سال کی بات ہے پچھلے سال چاند 29 کا ہوا تھا۔ 29کو سارے دن پھوپھی جان اور شمیم امام باڑے کی جھاڑ پونچھ میں مصروف رہیں۔ شمیم کو مجلسوں ، زیارتوں اور نوحے مرثیے سے پہلے بھی بڑا لگاؤ تھا۔ لیکن اب تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو عزاداری ہی کے لئے وقف کر دیا ہے۔ کس انہماک سے وہ سارے کام کر رہی تھی۔ پھوپھی جان تو بس واجبی واجبی کام کیا۔ باقی امام باڑے کو پوتنے علموں کے دھونے ، پاک کرنے ، سجانے اور جھاڑ فانوس کے جھاڑنے صاف کرنے کے سارے کام شمیم ہی نے کئے۔ میں حیران رہ گیا۔ اس کام میں نہ جانے کون کون پھوپھی جان کا ہاتھ بٹاتا تھا اور آج سارا کام شمیم کر رہی تھی۔

میں تیسرے پہر کو باہر نکل گیا۔ قدم خواہ مخواہ اسٹیشن کی طرف اٹھ گئے۔ پلیٹ فارم پہ خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ پٹڑی کے ورے درختوں پہ کہیں کہیں مرجھائی ہوئی دھوپ پھیلی دکھائی دیتی تھی۔ ایک درخت پہ بہت سے کوّے بیٹھ تھے جو مسلسل شور کئے چلے جا رہے تھے۔ کبھی کبھی کوئی کوّا گھبراہٹ کے عالم میں شاخوں سے نکل کر فضا میں بلند ہوتا اور بیٹھے ہوئے کوّوں کی مزاحمت کے باوجود پھر اسی شاخ پہ بیٹھنے کی کوشش کرتا اور کامیاب رہتا۔ مجھے خیال آیا کہ آج غالباً چاند رات ہو جائے ، محرم کی تقریب سے لوگوں کو آنا چاہئے۔ پہلے تو ہر سال یہی ہوتا تھا کہ چاند رات ہوئی، پردیس میں گئے ہوئے لوگوں کے آنے کا تانتا بندھ گیا۔ اتنی دیر میں ریل کے آنے کی گھنٹی بجی۔ تھوڑی دیر کے لئے پلیٹ فارم کی خاموش فضا میں ایک گہما گہمی پیدا ہو گئی۔ گاڑی آئی، چند منٹ ٹھہری، آنے والے اترے ، جانے والے سوار ہوئے ، جانی پہچانی صورت براجنے والوں میں دکھائی دی نہ سدھارنے والوں میں۔ گاڑی روانہ ہو گئی۔ پلیٹ فارم خالی ہونے لگا۔ میں پلیٹ فارم سے باہر نکل کر گھر کی طرف ہولیا۔

شام ہو چلی تھی۔ دن کا اُجالا مدھم پڑتا جا رہا تھا۔ تاشوں کی آواز نے گلی کی فضا میں ہلکی سی گرمی پیدا کر دی تھی۔ کلّو اور شرافت تاشہ بجا رہے تھے۔ کلّو جوتے بنانے کا کام کرتا ہے اور شرافت آج کل چنگی کی چوکی پہ منشی لگا ہوا ہے۔ بر میں سیہ قمیصیں ، گلے میں تاشے ہاتھوں میں قمچیاں۔ تیسرا تاشہ شرافت کے چھوٹے بھائی کے گلے میں تھا۔ مگر اس کی قمچی بار بار غلط پڑتی تھی اور تاشے کی بنی بنائی گت بگڑ جاتی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ ابھی تاشہ بجنا شروع ہوا ہے۔ گھر سے اور لوگ نکلیں گے ، کسی کے گلے میں تاشہ ہو گا، کوئی محض دیکھنے والا ہو گا اور پھر ایک لمبا جلوس بن جائے گا جو گلیوں اور محلوں میں گشت کرتا ہوا سارے امام باڑوں میں پہنچے گا اور محرم کی آمد کا اعلان کرے گا۔ ہر سال یہی ہوا کرتا تھا۔ مگر بہت دیر ہو گئی اور سوائے چند بچوں کے اس مختصر گروہ میں کوئی اضافہ نہ ہوا۔ ایک بڑے میاں کہیں باہر سے لاٹھی ٹیکتے ہوئے آ رہے تھے۔ تاشوں کو سن کے رکے ، پوچھا۔ ’’بھائی محرم کا چاند دیکھ گیا؟‘‘

 ’’ہاں جی دیکھ گیا۔ ‘‘ ایک چھوٹے سے لڑکے نے جواب دیا۔

بڑے میاں نے عینک ماتھے پر بلند کی، چند منٹ تک تاشے والوں کو تکتے رہے اور پھر لاٹھی ٹیکتے ہوئے آگے بڑھ گئے اور گھر میں داخل ہو گئے۔

رفتہ رفتہ کلو اور شرافت کے ہاتھ دھیمے پڑنے لگے۔ وہ آگے بڑھ لئے آگے آگے شرافت اور کلّو پیچھے چند بچے اور یہ جلوس گلی سے نکل کر کسی دوسری طرف مڑ گیا۔ گلی میں پھر خاموشی چھا گئی۔

میں جب گھر میں داخل ہوا تو اندھیرا ہو چکا تھا۔ امام باڑے میں روشنی ہو رہی تھی۔ جھاڑ فانوس اپنے اسی پرانے اہتمام سے جگر جگر کر رہے تھے۔ فرش پہ جاجم بچھی تھی۔ جس پہ جا بجا سوراخ ہو رہے تھے۔ میز پر چڑھا ہوا سیہ غلاف بھی خاصا بوسیدہ نظر آ رہا تھا۔ اس کے بائیں سمت جو قالین بچھا ہوا تھا وہ بوسیدہ تو نہیں میلا ضرور ہو گیا تھا۔ شمیم اگر کی بتیاں جلا جلا کر طاقوں کے سوراخوں میں اڑس رہی تھی۔ سر سے پیر تک سیہ لباس پہن رکھا تھا، سیہ ڈھیلا پائجامہ، سیہ قمیص، سیہ جارجٹ کا دوپٹہ۔ شیشے کی نازک آسمانی چوڑیاں اتار دی تھیں۔ لیکن وہ روپہلی بندے اسی طرح کانوں میں لہرا رہے تھے۔

مجھے دیکھ کر اس نے آواز دی۔ ’’بھائی جان علموں کی زیارت کر لو۔ ‘‘

دروازے میں جوتے اتار کر میں اندر داخل ہوا۔ علم اندر عزا خانے میں سجے ہوئے تھے جس کا دروازہ منبر کے برابر کھلتا ہے۔ میں نے کالا پردہ اٹھایا اور اندر چلا گیا مجھے ایسا لگا کہ گیلی زمین پہ چل رہا ہوں۔ عزا خانے کا فرش کچّا ہے ، وہ آج ہی لیپا گیا تھا۔ وہاں اندھیرا تو نہیں تھا۔ چند ایک موم بتیاں طاقوں میں جل رہی تھیں۔ دو زرد سرخ موم بتیاں علموں کی چوکی پہ بھی جمی ہوئی تھیں ، لیکن ان کی روشنی کو اُجالا تو نہیں کہا جا سکتا تھا۔ علموں کی چوکی پہ موم بتیوں کے برابر مٹی کی پیالی میں لوبان سلگ رہا تھا۔ چوکی پہ ایک قطار میں علم سجے رکھے تھے۔ مختلف قد کی چھڑیں ، مختلف رنگ کے ٹپکے ، مختلف دھاتوں کے بنے ہوئے مختلف شکلوں کے پنجے۔ کئی ایک علموں پہ پھولوں کے گجرے پڑے تھے۔ ایک سونے کا چھوٹا سا علم سب سے زیادہ چمک رہا تھا۔ سونے کا پنجہ، سرخ ریشمیں ، ململ کا پٹکا، چنبیلی کے پھولوں کے پھولوں کا نازک پتلا سا ہار۔ الگ ایک کونے میں لکڑی کا ایک کاجو بوجھو جھولا رکھا تھا۔ یہ جھولا چھ کی شب کو ہمارے امام باڑے سے نکلتا ہے۔ سبز سرخ اور سیہ پٹکوں میں لپٹے ہوئے جگمگاتے ہوئے علم، موم بتیوں کی ہلکی دھیمی روشنی، لپی ہوئی گیلی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو، لوبان سے اٹھتا ہوا ہلکا ہلکا خوشبودار دھواں ، ان سب چیزوں نے مل کر ایک پُراسرار سی فضا پیدا کر دی تھی۔ ایک عجیب سی کیفیت میرے حواس پر چھاتی جا رہی تھی۔ میں نے جلدی سے علموں کی زیارت کی اور باہر جانے کے لئے مڑا۔ لیکن شمیم نے ٹوک دیا۔ ’’بھائی جان، دعا تو مانگ لیجئے۔ ‘‘

اس وقت میرے جی میں نہ جانے کیا آئی۔ میں بے اختیار اس کے قریب پہنچ گیا اور آہستہ سے بولا۔ ’’ان علموں نے جب تمہاری دعا قبول نہ کی تو میری دعا کیا قبول کریں گے۔ ‘‘

شمیم ایک دم سے سر سے پیر تک کانپ گئی۔ اس نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے غور سے دیکھا اور سہمی ہوئی آواز میں بولی۔ ’’بھائی جان، آپ تو بالکل وہابی ہو گئے۔ ‘‘

وہ تیزی سے باہر نکل گئی۔

عزا خانے سے باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ شمیم منبر کے دوسری طرف ایک طاق پہ جھکی کھڑی ہے ، پشت میری طرف ہے اور چہرہ تقریباً آدھا طاق کے اندر، … ایک ہاتھ میں جلی ہوئی موم بتی جسے غالباًاس لئے جھکا رکھا ہے کہ موم کے گرم قطرے طاق میں ٹپکا کر ان پہ موم بتی کو جما دیا جائے ، لیکن موم بتی کی گرم گرم بوندیں طاق پہ گرنے کی بجائے آہستہ آہستہ جاجم پہ گر رہی تھیں۔

امام باڑے سے میں آہستہ سے نکل آیا۔ اوپر پہنچا تو شاید پھوپھی جان میرا انتظار ہی کر رہی تھیں کہ فوراً ہی کھانا لا کے چُن دیا۔ میں کھانا کھا رہا تھا اور وہ برابر آ بیٹھی تھیں۔ اگر وہ اس وقت بہت چپ چپ تھیں تو اس میں میرے چونکنے کی ایسیکیا بات تھی۔ میں نے انہیں ان سات دنوں میں چہکتے کس دن دیکھا تھا۔ جو ان کی خاموشی پہ چونکتا۔ میں نے دھیان نہیں دیا اور کھانے میں مصروف رہا۔ تھوڑی دیر میں کیا دیکھتا ہوں کہ پھوپھی جان گھٹنے پہ سر رکھے رو رہی ہیں۔

 ’’پھوپھی جان کیا ہو گیا؟‘‘ میں واقعی گھبرا گیا اور کھانا وانا سب بھول گیا۔

وہ ہچکیاں لیتے ہوئے بولیں۔ ’’بھیّا اب تمہارے امام باڑے میں تالا پڑے گا۔ ‘‘

 ’’آخر کیوں تالا پڑے گا۔ آپ جو یہاں ہیں۔ ‘‘

 ’’میں رانڈ دکھیا کیا کروں۔ ‘‘ پھوپھی جان بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگیں۔

 ’’مردانی مجلس بند ہو گئی نہ کوئی انتظام کرنے والا تھا نہ کوئی مجلس میں آتا تھا… اور بھیا بُرا ماننے کی بات نہیں ہے۔ پاکستان والوں نے ایسا غضب کیا ہے کہ جب سے سکہ بدلا ہے کسی نے پھوٹی کوڑی جو محرموں کے لئے بھیجی ہو۔ ‘‘

پھوپھی جان نے دو پٹے سے آنسو پونچھے۔ ان کی رقّت ختم ہو گئی تھی۔ اب وہ سنبھلے ہوئے انداز میں باتیں کر رہی تھیں ، اگرچہ اس میں ہلکا ہلکا دکھ اب بھی جھلک رہا تھا۔ ’’تمہارے پھوپھا زندہ ہوتے تو کوئی بات نہ تھی مگر اب تو خود ہمارا ہاتھ تنگ ہے۔ ہاتھ پیروں سے حاضر ہوں ‘‘وہ ذرا چپ ہوئیں ، ٹھنڈا سانس لیا اور بولیں۔ ’’اب تو بھیا میرے ہاتھ پیر بھی تھک گئے۔ شمیم کا دم ہے کہ اتنا وتنا انتظام ہو جاوے ہے مگر شمیم ہمیشہ میرے کولہے سے لگی تھوڑا ہی بیٹھی رہے گی…‘‘ پھوپھی جان بات کرتے کرتے رُک گئیں۔

وہ پھر کسی خیال میں کھو گئی تھیں۔ لیکن چند ہی لمحوں بعد وہ پھر بولیں۔ ان کی آواز اب اور دھیمی پڑ گئی تھی اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ مجھ سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے کہہ رہی ہیں۔ ’’جوان لونڈیا کو کب تک لئے بیٹھی رہوں ، کوئی بُرا بھلا لڑکا ملے تو وہیں آ جاؤں گی، اور کیا کروں۔ ‘‘

پھوپھی جان پھر اسی کیفیت میں کھو گئیں۔ میں کیا بولتا، چپ بیٹھا رہا۔ اتنے میں شمیم آ گئی وہ اتنے دبے پاؤں آئی تھی کہ مجھے اس کی آہٹ بھی تو نہ ہوئی۔ بس وہ اچانک آہستہ سے پھوپھی جان کے پاس آ کھڑی ہوئی۔ شاید وہ مجھ سے آنکھ بھی بچا رہی تھی۔ وہ آہستہ سے پھوپھی جان سے بولی۔ ’’امی جی بیبئیں آ گئیں۔ چل کے مجلس شروع کرا دیجئے۔ ‘‘ اور اس فقرے کے ساتھ ساتھ اس نے ایکا ایکی اڑتی سی نظر سے مجھے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں اداسی کا رنگ اور گہرا ہو گیا تھا۔

صبح رخصت ہونا تھا۔ صبح کی رخصت بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ سفر کی فکر میں رات بھر نیند نہیں آتی۔ میں سویرے ہی سو گیا تھا۔ لیکن بارہ بجے کے قریب پھر آنکھ کھل گئی۔ نیچے امام باڑے میں مجلس جاری تھی اور تو کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا مگر تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک مصرعہ ضرور سنائی دے جاتا تھا ؎

عالم میں جو تھے فیض کے دریا وہ کہاں ہیں

کئی عورتیں مل کر پڑھ رہی تھیں لیکن شمیم کی آواز الگ پہچانی جاتی تھی۔ یہ مرثیہ وہ پہلے بھی بڑی خوش گلوئی سے پڑھتی تھی۔ اب اس کی آواز میں زیادہ سوز پیدا ہو گیا ہے ایک غنودگی کی کیفیت پھر مجھ پہ چھاتی چلی گئی۔

میں نہ جانے کتنی دیر سویا، شاید زیادہ دیر نہیں کیونکہ جب دوبارہ آنکھ کھلی ہے تو مجلس ابھی بھی ختم نہیں ہوئی تھی، ہاں ختم ہو رہی تھی۔ کہیں بہت دور سے ، شاید خواب کی وادی سے ، سوز میں ڈوبی ہوئی ایک نرم اور شیریں آواز آ رہی تھی۔

عالم میں جو تھے فیض کے دریا وہ کہاں ہیں

آواز میں اب وہ اٹھان نہیں تھی۔ وہ ڈوبتی جا رہی تھی، پھر وہ آہستگی سے خاموشی میں گھلتی چلی گئی۔ رات خاموش تھی۔ ہاں تھوڑی تھوڑی دیر بعد زور سے کسی نوحے کی آواز ہوا کی لہروں کے ساتھ بہکتی ہوئی آ جاتی اور پھر کہیں کھو جاتی۔ البتہ تاشوں کی مدھم آواز مسلسل آ رہی تھی۔ شاید کسی امام باڑے میں ماتم ہو رہا تھا۔ نیچے ہمارے امام باڑے میں بھیسکوت ٹوٹ چکا تھا اور عورتوں کے آہستہ آہستہ ماتم کرنے اور آنسوؤں سے دھُلی ہوئی مدھم آوازوں میں ’حسین حسین‘ کا سلسلہ شروع ہو چلا تھا۔

٭٭٭


 

وارد ہونا شہزادہ تورج کا شہر کاغذآباد میں اور عاشق ہونا ملکہ قرطاس جادو پر—انتظار حسین

 

شہزادہ تورج نے اس بستی میں قدم رکھا تھا کہ ایک نئی حیرت سے دو چار ہوا۔ حیرتوں کے مرحلے تو اس سے پہلے بھی آئے تھے۔ ابھی جس شہر طلسم کو فتح کر کے آ رہا تھا اس نے کیا کم حیران کیا تھا۔ اس دیار میں قدم رکھتے ہی ایسی آندھی چلی تھی کہ خدا کی پناہ۔ اور قریب و دور سے وحشت ناک آوازیں آنی شروع ہوئیں کہ پکڑو پکڑو۔ ابھی یہ شور مچا تھا کہ ایک ساحر نمودار ہوا۔ کالا بھجنگ، ڈھوہ کاڈھوہ۔ اسے دیکھ کر قہقہہ لگایا۔ ساتھ ہی میں تلوار کا وار کیا۔ اس نے وار خالی دیا اور پھر ایسا وار کیا کہ تلوار سر میں اتر کر کمر تک گئی۔ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ سیاہی چھا گئی۔ چیخ وحشت بھری بلند ہوئی۔ ’’میں آہند جادو مارا گیا۔ جان رہا گیا۔ ‘‘ چیخ کی گونج دور دور تک گئی۔ فوراً ہی ایک اور ساحر نمودار ہوا۔ کاندھے پہ گرز رکھے ہوئے کہ گرز نریمان سے بڑھ کر بھاری تھا۔ چلایا کہ میں گرداب جادو، ملکہ حیرت کا خالو۔ کیوں جان گنواتا ہے۔ ابھی وقت ہے۔ واپس چلا جا، ورنہ یہ گرز… اور ابھی اس نے گرز اٹھایا تھا کہ تورج نے بڑھ کر اس کے بازو کو جھٹکا دیا کہ گرز گر پڑا۔ فوراً ہی اس پہ پل پڑا۔ کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے ایک ہاتھ سے اس طرح اٹھایا جیسے پھول اٹھاتے ہیں۔ پھر کہا کہ خدا کی وحدانیت کا اقرار کرتا ہے یا پٹخ کر واصل جہنم کروں۔ ساحر نے خدا کی وحدانیت کا اقرار کیا، کلمہ پڑھا اور مشرف بہ اسلام ہوا۔ بس اسی دم باقی ساحروں نے بھی کہ اس کے لشکر میں شامل تھے کلمہ پڑھا اور مشرف بہ اسلام ہو گئے۔

تب اس نے فاتحانہ قدم آگے بڑھایا اور قلعہ کی سمت بڑھا جس کے کنگرے آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔ مگر اس نے پھاٹک میں قدم رکھا ہی تھا کہ کنیزیں چلائیں ’’نادان کیا کرتا ہے۔یہ ملکہ مہتاب جادو کی محل سرا ہے۔ جو قدم رکھ لیا سورکھ لیا۔ آگے حد ادب ہے۔ مقامات سحر ہیں۔پچھتائے گا، جان سے ہاتھ دھوئے گا۔ ‘‘ وہ یہ کہتی تھیں کہ ایک ڈھڈو، چھمّک چھلّو اندر سے بھاگی ہوئی آئی ’’مال زادیو، ملکہ کے مہمان کی شان میں گستاخی کرتی ہو۔ اس پہ گل پاشی کرو، راہ میں آنکھیں بچھاؤ۔ ‘‘ پھر شہزادے کا ہاتھ پکڑا اور اٹھلاتی ہوئی اندر چلی۔

شہزادے نے اندر حرم سرا میں قدم رکھا تو کیا دیکھا کہ ایک مہ لقا، گورا مکھڑا، آفت کا ٹکڑا، بال گھٹا سے ، نین کٹیلے ، ہونٹ رسیلے ، گردن مورنی کی سی، گات ہری بھری، تھسے سے مسند پر بیٹھی ہے۔ تورج فوراً ہی دل و جان سے فدا ہوا۔ مشکل سے اپنے آپ کو سنبھالا۔ ملکہ مسکرائی۔ اٹھ کر شہزادے کا ہاتھ پکڑا اور اپنے قریب مسند پر بٹھایا۔ پھر ساغر مئے ارغوانی سے لبریز پیش کیا۔ تورج غٹا غٹ پی گیا۔ مے اندر اتری تو جان میں جان آئی۔ دست درازی کی ہمت پیدا ہوئی۔ بوس و کنار کی نوبت آئی۔ آخر کے تئیں وصل کی گھڑی آئی۔ تب تورج کو ہوش آیا۔ اپنے آپ کو قابو میں کیا اور کہا، ’’اے دشمن ایمان، اس کام سے پہلے ایک کام ضروری ہے۔ ‘‘

 ’’وہ کون سا کام ہے۔ ‘‘ ملکہ نے حیران ہو کر پوچھا ’’کیا اس کام سے مقدم کام بھی کوئی ہو سکتا ہے۔ ‘‘

 ’’ہاں ہو سکتا ہے اور ہے۔ ‘‘

 ’’وہ کون سا کام ہے۔ ‘‘

 ’’خدائے بزرگ و برتر کی وحدانیت کا اقرار۔ ‘‘

 ’’خدائے بزرگ و برتر کی وحدانیت کا اقرار؟ ملکہ نے کسی قدر طنزیہ لہجہ میں دہرایا، تامل کیا۔ پھر بولی ’’ظالم تو نے عین وصل کی گھڑی میں یہ کیا عجب سوال بیچ میں لا ڈالا۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ ع

جب عین مزے کا وقت آیا اس وقت وہ مرغا بول پڑا

ارے نادان، میرے بھولے شہزادے ، خدائے بزرگ و برتر کی وحدانیت اپنی جگہ، معاملات وصل اپنی جگہ۔ دونوں کو گڈ مڈ کرنا نادانی ہے۔ باعث پریشانی ہے۔ حاصل اس کا پشیمانی ہے۔ ‘‘

یہ سن کر تورج دلگیر ہوا اور بولا ’’اے مہ لقا، کافر ادا، تیرا بیان کفر کا کلام ہے۔ دوزخ کی آگ اس کا انجام ہے۔ میرے خدا کو مان اور کلمہ توحید پڑھ کر اپنے نفس کو پاک کر۔ ‘‘

ملکہ بولی ’’اے جان من، مجھے تیرے حال پر افسوس ہے۔ میں پوچھتی ہوں کہ کیا ہم بستر ہونے کے لئے ہم مشرب ہونا ضروری ہے ؟‘‘

 ’’ہاں ، ہمارا دین یہی کہتا ہے ، ‘‘ تورج نے فخر اور اعتماد سے کہا۔ ’’ورنہ یہ فعل سراسر گناہ ہے۔ سو میں نے سوچا ہے کہ یارِ جانی سے کلمہ توحید پڑھواؤں۔ پھر اسے نکاح میں لا کر وظیفہ زوجیت ادا کروں۔ ‘‘

ملکہ نے زہر خند کہا اور بولی ’’عجب معشوق سے پالا پڑا ہے کہ شربت وصل کو وظیفۂ زوجیت کہتا ہے۔ ‘‘ پھر رک کر بولی ’’جانم، مبادا یہ مزے کی گھڑی قیل و قال میں ضائع ہو جائے۔ سو میں نے سوچا کہ تیری مرضی کو پورا کروں۔ جلدی سے تیرا خدا کی وحدانیت کا اقرار کروں ، کلمہ پڑھوں اور وہ کام کہ جس میں میرا اور تیرا دل اٹکا ہوا ہے شروع کروں۔ ‘‘

بس پھر فوراً ہی ملکہ نے خدا کی وحدانیت کا اقرار کیا اور کلمہ پڑھا۔ تورج نے اس طور عشق کی مہم سر کی۔ جلدی سے ملکہ کو اپنے رشتہ مناکحت میں لایا اور فی الفور اس شہر خوبی کو آغوش میں سمیٹا۔ شربت وصل سے سیراب ہوا، سیراب کیا۔

صبح جب پو پھٹی، تورج بستر راحت سے اٹھا۔ غسل کیا۔ پھر وضو کر کے فریضہ سحری ادا کیا۔ ساتھ میں دو رکعت نماز شکرانے کی پڑھی کہ فریضۂ محبت اور فریضۂ دینی دونوں بخیر و خوبی انجام پائے۔ پھر ملکہ کے دست نازک سے جام مئے ارغوانی لے کر پیا طبیعت میں سرور آیا۔ ملکہ کو آغوش میں لے کر خوب پیار کیا۔ پھر فوراً ہی اٹھ کھڑا ہوا۔ اگلی مہم کے لئے مستعد ہوا۔

ملکہ یہ دیکھ کر آنکھوں میں آنسو بھر لائی اور دامن پکڑ کر بولی ’’اے ستم شعار، یہ کیسی محبت تھی کہ ایک رات میں تمام ہو گئی۔ سوچ کہ آگے تو کہاں جائے گا۔ مجھے ایسا دلدار کہاں پائے گا۔ ‘‘

تورج جذبات سے مغلوب ہو کر بولا ’’جاناں ، رخصت کی یہ گھڑی مجھ پر بھاری ہے۔ تیری فرقت مجھے بہت تڑپائے گی۔ مگر کیا کروں ، فرض سے مجبور ہوں۔ طلسم کشائی کا فریضہ مجھے پکار رہا ہے۔ جس طلسم میں قدم رکھا ہے اسے تسخیر کر لوں۔ پھر واپس تیرے شبستانِ محبت میں آؤں گا اور وصل کے مزے لوٹوں گا۔ ‘‘

ملکہ بولی ’’نادان، یہ کیسا خیال خام تیرے دل میں سمایا ہے۔ طلسم کشائی کا حق تو ادا ہو چکا ہے۔ اس اقلیم طلسمات کا بڑا طلسم تو میں ہوں۔ مجھے تو نے تسخیر کیا۔ اب کس طلسم کی جستجو ہے اور کون سی اقلیم کی فتح کی آرزو ہے۔ ‘‘

مگر تورج پر محبت کی ان باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ ملکہ کو روتا ہوا چھوڑ وہ آگے روانہ ہوا۔ اور اب وہ اس بستی میں تھا جہاں اس کے لئے حیرت ہی حیرت تھی۔ ویسے تو یہاں کوئی ساحر مقابلے میں نہیں آیا۔ نہ کوئی عیار دکھائی دیا۔ نہ کوئی گولہ پھٹا، نہ کسی پنجہ نے اسے دبوچا۔ کس اطمینان سے وہ بستی میں داخل ہوا اور آرام سے کوچہ و بازار کی سیر کرنے لگا۔ کوچوں میں گہما گہمی تھی۔ سقّے مشکیں بھر بھر لا رہے تھے ، چھڑکاؤ کر رہے تھے۔ بچے بالے کھیل کود رہے تھے۔ بڑے بوڑھوں میں کوئی لاٹھی ٹیکتا چلا جاتا ہے ، کوئی چھیل چھبیلا چھڑی گھماتا مٹر گشت کر رہا ہے۔ کوئی مونچھوں پہ تاؤ دیتا اکڑتا پھر رہا ہے۔ وہ کہاروں نے ایک ڈولی کاندھے پہ اٹھائی ہے اور تیزی سے گزرتے چلے جا رہے ہیں۔ کوئی بگھی میں ٹھسّے سے بیٹھا گویا ہوا کے گھوڑے پہ سوار اڑا چلا جا رہا ہے۔ بازار میں گزر ہوا۔ دیکھا کٹورا بجتا ہے ؂، سقّے آواز لگاتے ہیں ’’میاں آب حیات پلاؤں ‘‘ کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ آدمی پہ آدمی گرتا ہے۔ ہزاری بزاری۔ دکانداروں کی موج ہے۔ سینکڑوں کا سودادم کے دم میں ہوتا ہے۔

یہ ساری رونق برحق۔ پھر بھی تورج شک میں پڑا ہوا تھا۔ ہر صورت کو غور سے دیکھتا تھا، سمجھ نہیں پاتا تھا کہ کیسے یہ آدمی ہیں ، کیسی ان کی صورتیں ہیں۔ ابھی وہ یہ سوچتا تھا کہ ایک شخص تیزی سے اس کے قریب سے کچھ اس رنگ سے گزرا کہ اس کی چال سے کھرڑ برڑ کا شور پیدا ہوتا تھا۔ یہ آدمی ہے یا لفافہ، اس نے دل ہی دل میں سوچا اور ہنس پڑا۔ مگر وہ چند قدم چلا تھا کہ کتنے ہی لوگ اسے اسی طرح کھڑبڑکھڑبڑ کے شور کے ساتھ چلتے پھرتے نظر آئے۔ اب تو واقعی اسے ایک حیرت نے آ لیا۔ اب جب اس نے غور سے دیکھا تو اسے لگا کہ یہ آدمی تو سب کاغذ کے پتلے ہیں۔ وہ حیرت سے اردگرد نظر ڈالتا بڑھا چلا جا رہا تھا کہ ایک نانبائی کی دکان نظر آئی۔ دیکھا کہ ایک چٹائی پہ بیٹھے کچھ لوگ کھانا کھا رہے ہیں۔ ان کے مانگنے پر نانبائی نانوں سے بھری تھال سے نان نکال نکال کر دے رہا ہے اور وہ ذوق و شوق سے کھا رہے ہیں۔ اسے بھی بھوک لگ آئی۔ بڑھ کر وہ بھی کھانے والوں میں شامل ہو گیا۔ مگر جب نان ہاتھ میں آیا اور اس نے نوالہ توڑا تو وہ سخت پریشان ہوا کہ یہ تو کاغذ کا نان تھا۔ اس نے غصّے سے نانبائی کو دیکھا اور کہا ’’اے شعبدہ باز تو نے روٹیوں کا یہ کیا جعلی کاروبار شروع کیا ہے۔‘‘

نانبائی نے تعجب سے دیکھا۔ پھر کھانے والوں کو مخاطب کیا، ’’صاحبو، دیکھتے ہو یہ اجنبی مجھ پر کیا تہمت لگا رہا ہے۔ روٹیاں تمہارے سامنے ہیں۔ سامری کو گواہ جان کر کہو کہ کیا یہ روٹیاں گندم کی نہیں ہیں۔ ‘‘

سب نے بیک آواز کہا کہ ’’بیشک یہ روٹیاں گندم ہی کی ہیں۔ ‘‘ اور پھر وہ تورج کو لعنت ملامت کرنے لگتے کہ ’’اے اجنبی، تو عجیب آدمی ہے کہ گندم کی ایسی سوندھی سوندھی روٹیوں کو کاغذ کی روٹیاں بتاتا ہے اور غریب نانبائی پر کاغذ کی ملاوٹ کی تہمت لگاتا ہے۔ ‘‘

تورج سخت حیرانو پریشان ہوا کہ یہ کیسے لوگ ہیں کہ کاغذ کی روٹیوں کو گندم کی روٹیاں جان کر کھا رہے ہیں۔ انہیں ذرا احساس نہیں کہ نانبائی ان کے ساتھ کیا دھوکہ کر رہا ہے۔ پھر اس نے سوچا کہ شاید کاغذ کی روٹیاں کھا کھا کر ہی وہ ایسے ہو گئے ہیں کہ اب کاغذ کے پتلے دکھائی دیتے ہیں اور ان کی سمجھ پر پتھر پڑ گئے ہیں کہ بے ایمان نانبائی کی بے ایمانی انہیں نظر ہی نہیں آتی۔ پھر اچانک اسے سوجھی کہ یہ نانبائی ضرور کوئی ساحر ہے۔ لوگوں پر ایسا سحر کیا ہے کہ انہی کاغذ کی روٹی اب گندم کی روٹی نظر آتی ہے۔ سوچا کہ اس ساحر کو کیفر کردار کو پہنچاؤ اور ان لوگوں کو اس کے سحر سے نجات دلا کر خدا کی وحدانیت کا قائل کرو۔ وہ بلند و بالا دریچہ سے ایک نازنین جلوہ دکھاتی ہے ۰۔ چہرہ چندے آفتاب چندے ماہتاب۔ تورج پر تو جیسے کسی نے جادو کر دیا ہو۔ باقی معاملات بھولا۔ فوراً گھوڑے پہ سوار ہو کر محل کی سمت میں چلا۔

محل کی ڈیوڑھی میں ایک ساحر کھڑا نگہبانی کرتا تھا۔ اس نے تورج کو آتے دیکھا تو پکار کر کہا ’’اے شہسوار کیا تو عقل سے پیدل ہے کہ اس طرف کا رخ کیا ہے۔ اس ڈیوڑھی میں قدم رکھنا موت کو دعوت دینا ہے۔ ‘‘

تورج تھا کہ محبت کے نشہ میں بڑھے چلا جا رہا تھا۔ ڈیوڑھی میں قدم رکھا تھا کہ قیامت آئی۔ ساحر نے کہ دیو کا دیو تھا گرز اٹھایا اور تورج پر حملہ آور ہوا۔ تورج نے اس کے وار کو خالی دیا اور فوراً ہی شمشیر کا ایسا وار کیا کہ ساحر کے سر سے گزری اور قدموں تک گئی۔ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ فوراً ہی اندھیرا چھا گیا اور ایک چیلنج بلند ہوئی۔ ’’میں مارا گیا۔ نام میرا اوراق جادو۔ ‘‘

جب اندھیرا دور ہوا تو تورج یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ ساحر کی لاش غائب ہے۔ اس کی جگہ کاغذوں کا ایک ڈھیر پڑا ہے۔ حیران کہ لاش کہاں گئی، کاغذوں کا یہ انبار کہاں سے آ گیا۔ ابھی وہ یہ سوچتا تھا کہ اندر سے ایک خادمہ دوڑی ہوئی آئی۔ بولی ’’اے جوان تجھے مبارک ہو۔ ہماری ملکہ قرطاس جادو تیری منتظر ہے۔ ‘‘

تورج لپک جھپک اندر گیا ایوان میں قدم رکھا تو ملکہ جو ٹھسّے سے بیٹھی تھی، کھڑی ہوئی۔ شہزادے کا ہاتھ تھاما اور مسند پرساتھ بیٹھایا۔ شراب انگوری سے جام بھرا اور اسے پیش کیا۔ تورج کو اس آن یاد آیا کہ کس طرح اس نے نانبائی سے روٹی لی تھی اور وہ کاغذ کی نکلی۔ مذبذب تھا کہ کہیں یہاں بھی ایسی واردات نہ ہو جائے۔ ملکہ نے اس کے تذبذب کو دیکھا اور کہا ’’شہزادے میں تیرے تذبذب کو سمجھی۔ شاید تیرا دین تجھے اس لذت سے روکتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو عرق ماء اللحم حاضر ہے۔ ہر چند کہ وہ مئے ناب کا بدل نہیں ہے۔ ‘‘

شہزادے نے بلاتا مل جواب دیا ’’عرق ماء اللحم کو تو ہمارے جدا میر صاحب قرآن شراب کا بدل جانتے ہیں۔ میرے لئے اس دست نازک سے مشروب ناب کا جام نہ لینا کفرانِ نعمت ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر جام اس کے ہاتھ سے لے کر پیا اور اس کے لب شیریں کو بوسہ دیا اور یہ بوسہ تو صرف آغاز تھا۔ پھر چل سو چل۔

ملکہ نے آخر اسے پیار بھرے انداز میں پرے ڈھکیلا ’’شہزادے تو تو بہت ندیدا نکلا۔ ارے میں کوئی بھاگی تھوڑا ہی جا رہی ہوں۔یہیں ہوں۔یہ کہا کہ نہ دعا نہ سلام۔ چھوٹتے ہی بوس و کنار۔ ذرا پرے ہٹ کے بیٹھو۔ کچھ اپنی کہو، کچھ ہماری سنو۔ ‘‘

سو پھر باتیں ہونے لگیں۔ تورج نے باتوں باتوں میں کہا ’’اے ملکہ تیرا شہر عجب ہے۔ حیران ہوں کہ اس شہر سے آدمی کہاں غائب ہو گیا اور یہ کاغذ کے پتلے کہاں سے آ گئے اور اگر یہ آدمی ہیں تو ان پر کیا افتاد پڑی کہ آدمی سے کاغذ کے پتلے بن گئے۔ ‘‘

ملکہ مسکرائی اور بولی کہ ’’اے شہزادے ، میں جانتی ہوں کہ تیرا دینیہ کہتا ہے کہ آدمی مٹی کا پتلا ہے۔ مگر یہ تو سوچ کہ دل تو ہر جسد میں دھڑکتا ہے ، وہ مٹی کا ہو یا کاغذ کا ہو اور وصل کے لئے دل تڑپتا ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ تڑپنے والا مٹی کا پتلا ہے یا کاغذ کا آدمی۔ ‘‘

تورج ملکہ کے منہ سے ایسے دانشمندی کی بات سن کر تڑپ گیا اسے ٹوٹ کر پیار کیا کہ چھوٹے کپڑے مسک گئے۔ آخر رہا نہ گیا بیتابانہ بولا ’’شراب ناب بہت ہو گئی۔ اب شربت وصل کا سوال ہے۔ ‘‘

ملکہ شرمائی اور بولی ’’بندی کو اس سے انکار کب ہے۔ ‘‘

مگر تورج نے عین اس گھڑی اپنا پرانا مطالبہ دہرایا ’’مگر پہلے خداوند عالم کی وحدانیت کا اقرار کر اور کلمہ پڑھ۔ ‘‘

ملکہ نے قہقہہ لگایا اور کہا ’’جیسا سنا تھا ویسا ہی پایا۔ ‘‘

 ’’کیا مطلب؟‘‘

 ’’میں نے یہ سن رکھا تھا کہ توعین وصل کی گھڑی میں کلمہ کا سوال اٹھاتا ہے اور وصل کا سارالطف غارت کر دیتا ہے ‘‘ اور پھر اس نے قہقہہ لگایا اور قہقہے کے ساتھ جیسے کورے کاغذ کا تھان کھلتا چلا جا رہا ہو۔

تورج اس کے کاغذ آلودہ قہقہے سے دہشت زدہ ہوا۔ غصہ بھی آیا۔ بولا ’’اب میں سمجھا۔ یہ رسیلے ہونٹ، یہ سخت کچیں ،یہ ہری بھری گات، یہ سب دھوکا ہیں۔ تو بھی کاغذ کی نکلی۔ ‘‘ تامل کیا، پھر بولا ’’ہاں مزید سمجھا۔ یہ تیرا کاغذی سحر ہے کہ اس شہر میں آدمی اب آدمی نہیں رہے۔ کاغذ کے پتلے بن گئے۔ ‘‘ یہ کہتے کہتے اٹھ کھڑا ہوا۔

ملکہ جو اب تک مسکرارہی تھی کسی قدر پریشان ہوئی، ’’شہزادے ، یہ کون سی ادا ہے کہ اپنی بندی کا پہلو چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ ایسی بے مروّتی۔ ‘‘

 ’’میں اس کاغذی پہلو میں تھوڑا اور بیٹھا رہا تو میں بھی کاغذ کا بن جاؤ گا۔ ‘‘

 ’’وہ تو تو بن چکا ہے۔ ‘ ‘ملکہ نے زہر خند کہا ’’ورنہ کوئی بھلا چنگا مرد اس طرح عین وصل کی گھڑی میں محبوبہ کے پہلو سے اٹھ کر راہِ فرار اختیار کرتا ہے۔

اس کلام نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ کیا وہ واقعی کاغذی پتلا بن چکا ہے ، یہ سوچ کر وہ سخت خوفزدہ ہوا اور تیزی سے محل سے نکلا۔ جب ڈیوڑھی سے نکل رہا تھا تو اسے کنیزوں کے قہقہوں کی آوازیں سنائی دیں۔ کیا یہ مجھ پر ہنس رہی ہیں۔ کیا ان کا بھی یہی گمان ہے کہ میں کاغذ کا بن چکا ہوں۔ باہر آ کر جلدی جلدی اس نے اپنا جائزہ لیا، نیام سے نکال کر اپنی شمشیر کو دیکھا، اپنے گھوڑے کو تھپتھپایا۔ پھر اطمینان کا سانس لیا کہ نہیں ، میں کاغذ کا نہیں بنا ہوں۔ میں ہنوز آدمی ہوں۔

کس پھرتی سے وہ گھوڑے پہ سوار ہوا۔ سوار ہوتے ہی مرکب کو چمکارا، اور ایڑ دی۔ وہ جلدی سے جلدی اس سحرزدہ شہر سے نکل جانا چاہتا تھا کہ جب تک شہر میں ہے کاغذی پتلا بن جانے کا اندیشہ ہے۔

شہر سے جب دور نکل آیا تب اس نے گھوڑے کی باگیں کھنچیں۔ اب اس نے اطمینان کے ساتھ سر سے پیر تک اپنا جائزہ لیا کہ کہیں میں کاغذ کا تو نہیں بن گیا ہوں۔ ہر طرح سے اطمینان کر لینے کے بعد اس نے لمبا سانس لیا۔ شکر ہے اس پاک پروردگار کا جس نے مجھے اس ساحرہ کی قید سے چھٹکارا دلایا۔ کاغذی پتلا بننے سے بال بال بچا ہوں اور اس آن اسے گمشدہ لوح یاد آئی۔ ایک پچھتاوے نے اسے آ لیا۔ میں مردِ غازی ہو کر کتنا سادہ لوح ہوں کہ ساحراؤں کے دام میں پھنس جاتا ہوں۔ ان کی کافر ادائی مجھ پر عجب سحر کرتی ہے کہ میں اپنے تبلیغی فریضے کو بھول جاتا ہوں۔ شوق وصل میں کھو جاتا ہوں۔ میری اس کمزوری سے اس کمبخت ساحرہ نے فائدہ اٹھایا اور عین وصل میں مجھے غافل پا کر لوح اتار لی۔ اپنے اس کمزور لہجہ کو یاد کر کے وہ کتنا پچھتایا، کتنی اپنے آپ کو نفرین کی۔ آج وہ لوح میرے پاس ہوتی تو میں بھلا اس طرح منہ چھپا کر وہاں سے بھاگتا۔ مردانہ وار اس ساحرہ سے مقابلہ کرتا، اسے زیر کر کے اس سے خدا کی وحدانیت کا اقرار کراتا۔ پوریبستی کو اس کاغذی سحر سے نجات دلاتا اور ان گمراہ لوگوں کو صراط مستقیم پر لاتا۔ مگر حیف کہ لوح میں عشق و عاشقی کے چکر میں گم کر بیٹھا، سو اب مجھے اس رسوائی کا سامنا ہے کہ اس بستی کو میں ساحری اور کافری کے جال سے نہ نکال سکا اور ایک ساحرہ کے مقابلے کی تاب نہ لا کر میں نے وہاں سے راہ فرار اختیار کی۔ مگر خیر میں تو اس دم سے بچ کر نکل آیا، اس نے اپنے آپ کو دلاسا دیا۔ مگر فوراً ہی اسے ایک مرتبہ پھر کچھ شک گزرا۔ سو ایک مرتبہ پھر اس نے اپنا جائزہ لینا شروع کیا۔

از سر نو جائزہ لینے کے بعد اس نے طے کیا کہ نہیں اس کا کچھ نہیں بگڑا ہے۔ وہ اپنی اس غازیانہ شان کے ساتھ گوشت پوست والا آدمی ہے۔ پھر اس نے فخر کے ساتھ سوچا کہ اس کافر ملکہ نے کتنے شہزادوں کتن شہسواروں کو اپنے حسن کے جال میں پھنسایا اور کاغذ کا پتلا بن کر اپنی دہلیز کا قیدی بنا لیا۔ ایک میں ہوں کہ بچ کر نکل آیا۔ پھر اس نے قریب بہتی ندی پر جا کر ہاتھ منہ دھویا، وضو کیا اور شکرانے کی دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر گھوڑے پر سوار ہوا اور آگے بڑھا۔

گھوڑا اب طرارے بھر رہا تھا اور اگلی مہم کے تصور نے اس کی طبیعت میں جولائی پیدا کر دی تھی۔ اسی ہنگام اچانک اسے وہ شیریں لمحہ یاد آیا جب وصل کی گھڑی آن پہنچی تھی۔ خاصی دیر وہ اس لمحہ کے سحر میں رہا۔ مگر جلد ہی اس نے اس تصور کو جھٹک کر دفع کیا۔ اچھا ہی ہوا ورنہ میں بھی کاغذی بن چکا ہوتا اور پھر اس نے گھوڑے کو ایڑ دی اور اگلی مہم کے تصور میں گم ہو گیا۔

مگر پھر بھی بیچ بیچ میں اسے لگتا کہ وہ شیریں لمحہ اس کے آس پاس منڈرا رہا ہے اور جیسے اس کے اندر کاغذ ایسی کوئی شئے لڑھک رہی ہے اور اسے گمان ہوا کہ ملکہ کا کاغذی سحر ہنوز اس کے تعاقب میں ہے۔ اس نے ایک مرتبہ پھر گھوڑے کو ایڑ دی۔ اب وہ گھوڑا دم کے دم میں ہوا سے باتیں کرنے لگا۔

٭٭٭


 

 

لکھا، تو کہانی بن گئی۔۔۔

 

عہد ساز فکشن نگار، انتظار حسین سے خصوصی مکالمہ—اقبال خورشید

 

 

کہنے والے کہتے ہیں : ’’غالب، غالب ہے ، باقی سب مغلوب ہیں !‘‘

یہ شعر ملاحظہ فرمائیں :

ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا

بن گیا رقیب آخر، تھا جو راز داں اپنا

خیال کا برتاؤ تو دیکھیے۔ ویسے غالب کا انداز بیاں تو راز داں کو رقیب بنا سکتا ہے ، ہمارا یہ معاملہ نہیں۔ اگر ہمارے بیاں میں کچھ دم خم ہوا، تو سمجھیے ، اُسی فسوں گر کے دم سے ہو گا، جو تحریر کا ماخذ بھی ہے ، اور محرک بھی۔ قصّہ کچھ یوں ہے کہ گذشتہ دنوں ، ساحل پر واقع ایک سرائے میں ، جہاں بحیرہ عرب کے پانی آتے تھے ، جن پر سمندری پنچھی پرواز کرتے ، اور تارڑ کے ناولوں کی یاد تازہ کر دیتے ، ملاقات ہماری فکشن کے ایک فسوں گر سے ہوئی، جنھیں دنیا انتظار حسین کے نام سے جانتی ہے۔

ویسے تو بزرگ دعووں سے اجتناب کی نصیحت کرتے ہیں کہ اِس معاملے میں سبکی کا امکان قوی ہوتا ہے ، مگر ایک دعوے کی جسارت کرنا چاہیں گے کہ آنے والے ، اِس عہد کو ’’انتظار حسین کا عہد‘‘ کہہ کر یاد کریں گے۔

ایک آزاد روح پائی اُنھوں نے ، اپنی راہ خود بنائی۔ بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے والا اردو کا پہلا ادیب انھیں کہا جائے ، تو غلط نہیں ہو گا۔ ویسے انتظار صاحب کی بابت لکھتے سمے اپنی کم مائے گی کا احساس بڑا ستاتا ہے۔ ان کا قد ہی اتنا بڑا ہے۔ فکشن پر اُن کی گرفت سے متعلق ثقہ اہل دانش کی رائے دست یاب ہے۔ ترجمہ نگار وہ منفرد ہیں۔ کالم نگار بہ کمال۔ خاکسار کے نزدیک اگر اردو کی ہر دل عزیز شخصیت کا کوئی ایوارڈ ہوتا، تو انتظار صاحب کے حصے میں آتا۔ ویسے شہرت مسائل کو بھی ہوا دیتی ہے۔ سکّے کے دو رُخوں کے مانند، مداح اور ناقد ساتھ ساتھ ملتے ہیں ، مگر ماننا پڑے گا کہ ناقدین بھی تذکرہ ان کا بڑے احترام سے کرتے ہیں۔

اُن کے ہاں ثقافتوں کا سنجوگ ملتا ہے۔ اِسی سمبندھ سے اساطیری روایات در آتی ہیں۔ کچھ ناقدین کا موقف ہے کہ اِس مشق سے تحریر گنجلک ہو جاتی ہے۔ ہمیں تو ہندی اساطیر بھاتی ہے۔ اور جب انتظار صاحب کو ادبی کانفرنسوں میں چلتا پھرتا دیکھتے ہیں ، تو یوں لگتا، جیسے ایک اساطیری کردار چل پھر رہا ہے۔ اچھا لگتا ہے۔

اعزازات یوں تو ڈھیروں ملے ، مگر جس کا تذکرہ ضروری ہے ، وہ مین بکر انٹرنیشنل پرائز کے لیے اُن کی نام زدگی ہے۔ اُن کی نام زدگی پر ہم نے جشن منایا۔ ارادہ باندھ لیا کہ جُوں ہی اعلان ہو گا، قلم لے کر بیٹھ جائیں گے ، ایک بَڑھیا سا مضمون لکھیں گے۔ افسوس، یہ ہو نہ سکا۔

یہاں وضاحت کر دیں کہ ہم اُسے قبیلے سے نہیں ، جو مُصر ہے کہ ہم نے بین الاقوامی معیار کا ادب تخلیق کیا۔ خوب جانتے ہیں کہ نہ تو اردو میں ٹالسٹائی اور ڈکنز جیسے ناول نگار گزرے ، نہ ہی موپساں اور چیخوف جیسے کہانی نویس۔ بین الاقوامی ادب میں ہمارا سراغ کہیں نہیں۔ البتہ مدعا کچھ اور ہے۔ ہم تو اِن بین الاقوامی اعزازات کے باب میں پریشان ہیں۔ اب نوبیل ہی کو لیجیے ، جن درجنوں عزت مآب تخلیق کاروں کو اِس اعزاز کے لیے چُنا گیا، اُن میں نہ تو ٹالسٹائی کا نام ملتا ہے ، نہ ہی چیخوف کا۔ مارک ٹوین، جیمز جوائس اور بورخیس بھی محروم رہے۔ سارتر نے ایوارڈ لوٹا دیا۔ انتخاب کی کسٹوٹی پر شک و شبہات کا اظہار اوائل سے کیا جا رہا ہے۔ کچھ ایسے بھی فاتح ٹھہرے ، جنھیں حق دار کے بجائے اِن اعزازات کے لیے تشکیل کردہ کمیٹیوں کی ’’دریافت‘‘ قرار دیا گیا۔ پھر یہ معاملہ بھی عجب ہے کہ اِس خطے کی کچی پکی کہانیاں بیان کرنے والے ، اِس خطے کے انگریز لکھاری بین الاقوامی اعزازات کے حق دار، اور اردو کے تجربے کار فکشن نگار نام زدگی تک محدود۔

قصّے کو طول دینے کے بجائے ہم روسی اس کالر، ڈاکٹر لڈمیلا کا ایک جملہ نقل کیے دیتے ہیں۔ بھری محفل میں اُنھوں نے کہا تھا: ’’انتظار حسین کو مین بُکر پرائز نہ ملنا سراسر نا انصافی ہے !‘‘

خیر، اُس سہ پہر ملاقات ہوئی، طویل مکالمہ ہوا۔ مگر یہ اتنا سہل نہیں تھا، سرائے میں ایک ادبی تقریب جاری تھی، سیشنز اور چاہنے والوں میں وہ گھرے تھے۔ خیر، ہم نے بھی تعاقب جاری رکھا۔ بالآخر کامراں ٹھہرے۔ ہمارے دوست، رانا محمد آصف ساتھ تھے ، اُن کی کاوش کا تذکرہ نہ کریں ، تو زیادتی ہو گی۔ لاہور میں بیٹھے میرے متر، حیران کن مطالعے کے حامل، محمود الحسن وسیلہ بنے۔ انھوں نے ہی تو انٹرویو کی ہماری درخواست انتظار صاحب تک پہنچائی۔

انتظار حسین کے حالات زندگی اور ادبی سفر کا تذکرہ کیا جائے ، تو دفتر کے دفتر سیاہ ہو جائیں ، سو اختصار کا دامن تھامے رکھنا لازم ہے۔ سوال جواب کا میلہ سجانے سے قبل ذرا اِس ٹکڑے پر نظر ڈال لیں :

سن پیدائش؛ 1925۔ جائے پیدائش؛ ڈبائی، ضلع بلند شہر۔ اُس بستی کی یادوں نے فکشن پر اُن کے گہرا اثرات مرتب کیے۔ 46 ء میں میرٹھ سے اردو میں ایم اے کیا۔ اسی زمانے میں پروفیسر کرار حسین اور محمد حسن عسکری سے تعلق استوار ہوا۔ پاکستان آ کر بھی مذکورہ شخصیات سے رابطہ رہا۔ ادبی اور صحافتی مسافت لاہور میں طے ہوئی۔ اِس شہر کے تذکرے کو ’’چراغوں کا دھواں ‘‘ میں بیان کیا۔ ’’قیوما کی دکان‘‘ پہلا افسانہ۔ 48ء میں ’’ادب لطیف‘‘ میں شایع ہوا۔ پہلا افسانوی مجموعہ ’’گلی کوچے ‘‘ 52ء میں سامنے آیا۔ دوسرا تین برس بعد ’’کنکری‘‘ کے نام سے چھپا۔ ’’دن اور داستان‘‘، ’’آخری آدمی‘‘، ’’شہر افسوس‘‘، ’’کچھوے ‘‘، ’’خیمے سے دور‘‘، ’’خالی پنجرہ‘‘، ’’شہرزاد کے نام‘‘، ’’نئی پرانی کہانیاں ‘‘ دیگر مجموعے ہیں۔ افسانے کلیات میں سموئے جا چکے ہیں۔

چار ناول لکھے ؛ ’’چاند گہن‘‘، ’’بستی‘‘، ’’آگے سمندر ہے ‘‘ اور ’’تذکرہ‘‘۔ یوں تو چاروں ہی کا چرچا ہوا، مگر 80ء میں شایع ہونے والا ’’بستی‘‘ نمایاں قرار پایا۔ فرانسس پریچٹ نے اسے انگریزی روپ دیا۔ آغاز میں اُنھیں انگریزی قارئین میں متعارف کرانے کا سہرا ممتاز مترجم، محمد عمر میمن کے سر ہے۔

 ’’علامتوں کازوال‘‘ اور ’’نظریے سے آگے ‘‘ تنقیدی مضامین کے مجموعے۔ سفر نامے بھی لکھے۔ آپ بیتی ’’جستجو کیا ہے ‘‘ کے زیرعنوان شایع ہوئی۔ چیخوف، ترگنیف، ایمل حبیبی، اسٹیفن کرین اور عطیہ سید کی تخلیقات کو اردو روپ دیا۔ صحافت سے مستقل وابستگی رہی۔ ’’امروز‘‘، ’’آفاق‘‘ اور ’’ادب لطیف‘‘ سے جڑے رہے۔ ناصر کاظمی کے ساتھ ’’خیال‘‘ نکالا۔ حلقۂ ارباب ذوق کے سیکریٹری منتخب ہوئے۔ کالم نویسی ایک مستند حوالہ ہے۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھا۔ ’’ذرے ‘‘، ’’بوند بوند ‘‘ اور ’’قطرے میں دریا‘‘ کالموں کے مجموعے۔ بچوں کے لیے بھی لکھا۔ کئی کتابوں مرتب کیں۔

چلیے ، اب مکالمے کا آغاز کرتے ہیں :

اقبال: ’’جب دنیا ابھی نئی نئی تھی، جب آسمان تازہ تھا، اور زمین ابھی میلی نہیں ہوئی تھی۔۔۔ ‘‘ اِن سطروں کے ساتھ اردو کے ایک اہم ناول ’’بستی‘‘ کا آغاز ہوتا ہے۔ کہانی تقسیم کے مراحل سے گزرتی ہوئی سقوط ڈھاکا تک پہنچتی ہے۔یہ فرمائیں ،یہ ناول کب لکھنا شروع کیا؟

انتظار حسین: یہ میں نے سن 70 میں شروع کیا تھا۔ ابھی سانحہ نہیں ہوا تھا۔ مشرقی پاکستان میں بہت شورش برپا تھی۔ ہنگام کی خبریں آ رہی تھیں۔ کچھ وارداتیں بھی ہوئیں۔ جو خبریں مل رہی تھیں ، اُنھیں سن کر میں نے کہا کہ یہ عجیب صورت حال ہے ، پہلے تو جب (سن 47 میں ) ایسی خبریں سنتے تھے ، تو سمجھتے تھے کہ ہندو اور مسلمانوں کا جھگڑا ہے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہندو الگ ہیں ، مسلمان الگ ہیں ؛ یہ دو قومیں ہیں۔ مگر یہ تو (مشرقی پاکستان کے باسی) ایک قوم ہیں۔ مگر خبروں سے یوں لگتا تھا، دو ایسی قومیں آپس میں نبرد آزما ہیں ، جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ جس ’’آئیڈیلزم‘‘ کے تحت پاکستان بنا تھا، یعنی بنگالی، پنجابی، بہاری،یوپی والے ؛ ہندوستان کے سب مسلمان بھائی بھائی اور ایک قوم ہیں ، وہ شکست و ریخت کا شکار ہوتا معلوم ہوا۔ مسلمان دو قوموں میں بٹے ہوئے نظر آئے۔ پاکستان کا جو آدرش تھا، وہ کہاں گیا؟ جب وہ واقعہ گزرا، جسے ’’ڈھاکا فال‘‘ کہا جاتا ہے ، تو میں نے کہا؛ یہ ’’ڈھاکا فال‘‘ عجب ہے۔ ڈھاکے ہی میں تو مسلمانوں کی الگ تنظیم قائم ہوئی تھی۔ اور اِس نے جو سفر طے کیا، اس کا انجام بھی ڈھاکے ہی میں ہوا۔ وہ جمعیت، جسے ایک قوم کہا جاتا تھا، الگ ہو گئی۔ اگر کسی نے کہا کہ ہم نے دو قومی نظریے کو سمندر میں ڈبو دیا، تو میرے نزدیک غلط نہیں کہا۔

اقبال: ’’بستی‘‘ کی تکمیل میں کتنے برس لگے ؟

انتظار حسین: سمجھ لیں کہ یہی کوئی پانچ چھے سال۔

اقبال: تکمیل کے سمے کیا احساس تھا کہ جس المیے کی چاپ سن کر لکھنا شروع کیا، لکھت کے دوران ہی وہ دہلیز پر آ گیا؟

انتظار حسین: ناول کی شکل تو اُسی وقت بنی۔ ایک زمانے میں تو میں نے لکھنا چھوڑ دیا تھا۔ سن 47 ء کی فضا دوبارہ زندہ ہو گئی، تو پھر لکھنا شروع کیا۔ جب یہ واقعہ گزر گیا، تو میں نے فوری طور پر دو تین کہانیاں ؛ ’’شہر افسوس‘‘، ’’اندھی گلی‘‘، ’’ہندوستان سے ایک خط‘‘ لکھیں ، اُسی رو میں یہ ناول لکھا گیا۔ تو یہ کہانیاں اور ’’بستی‘‘ ایک طریقے سے سانحۂ مشرقی پاکستان کا سوگ ہیں۔

اقبال: مسلمان ایک قوم ہیں ، اِسی نظریے کے تحت پاکستان وجود میں آیا۔ آپ کے نزدیک وہ کون سا احساس تھا، جس نے اِس ’’ایک قوم‘‘ کو دو حصوں میں بانٹ دیا؟

انتظار حسین: پاکستان بننے کے بعد جو سیاست شروع ہوئی، اس کا محور یہ نہیں تھا کہ نیا ملک کیسے سنبھالا جائے ، بلکہ یہ تھا کہ ہم اپنا اقتدار کیسے قائم رکھیں۔ بنگالی اکثریت میں تھے۔یہاں والوں کے لیے اُن کی اکثریت مسئلہ بن گئی۔ تو یہاں یہ سیاست شروع ہو گئی۔ بیوروکریسی یہاں ، فوج یہاں۔ بجائے اس کے کہ اکثریت آپ سے کہتی، آپ جدا ہو جائیں ، وہ خود ہی آپ سے الگ ہو گئے۔

اقبال: آپ کے پہلے ناول ’’چاند گہن‘‘ کی اشاعت 53ء میں عمل میں آئی، لگ بھگ چھے عشرے بیت چکے ہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ تخلیق کار اپنی بعد کی تخلیقات کو زیادہ اہم گردانتے ہیں۔ تو اُس ناول کی بابت آپ کی کیا رائے ہے ؟

انتظار حسین: وہ تو ٹھیک ہے۔ ناول لکھا گیا۔ سب میری ہی تحریریں ہیں۔

اقبال: ’’چاند گہن‘‘ کے بعد ناول نگاری کے سفر میں ایک وقفہ آ گیا تھا، اس دوران کہانیاں لکھتے رہے۔

انتظار حسین: دو ناولوں کے درمیان وقفہ تو آتا ہے۔ اگر میں کہانیاں نہیں لکھتا، تب بھی وقفہ آتا۔ بڑے ناول نگاروں کا یہی معاملہ رہا کہ ایک ناول لکھا، پھر وقفہ لے لیا۔ ناول تسلسل میں نہیں لکھا جاتا۔ اِس کے لیے ایک پوری دنیا بسانی پڑتی ہے۔ وقت لگتا ہے۔ جو اچھے ناول نگار گزرے ، وہ یوں کرتے کہ ایک مسودہ لکھا، پھاڑ دیا۔ دوسرا لکھا، پھاڑ دیا۔ کئی کئی سال لگ جاتے ہیں۔

اقبال: تو آپ کا طریق کیا ہے ، لکھنے کے بعد کتنی کاٹ چھانٹ کرتے ہیں ؟

انتظار حسین: میں کئی حصے دوبارہ لکھتا ہوں۔ ’’بستی‘‘ کے کئی حصے دوبارہ لکھے۔ اس کے شروع کے حصے میں تو تبدیلی نہیں کرنی پڑی، مگر بعد کے حصوں میں خاصی تبدیلی ہوئی۔

اقبال: تقسیم کے بعد آپ نے لاہور کو مسکن بنایا۔ آپ ہی کے مانند ہجرت کے تجربے سے گزرنے والوں کی بڑی تعداد نے کراچی میں ڈیرے ڈالے۔ اِس شہر کو آپ نے ’’آگے سمندر ہے ‘‘ میں موضوع بنایا۔ کیا ہجرت کے مشترکہ تجربے نے اِس ناول کی زمین تیار کی؟

انتظار حسین: ٹرینوں کے ذریعے آنے والے مہاجرین کا راستہ تو لاہو رہی تھا۔ وہ یہاں اترتے ، پھر آگے کا سوچتے۔ لاہور پہلے ہی بھر چکا تھا۔ مشرقی پنجاب کے فسادات کے بعد لٹے پٹے پنجابی مسلمان یہاں آ کر آباد ہو گئے۔ انھیں کہیں نہیں جانا تھا، اپنا ہی صوبہ تھا۔ ایک حصہ کٹ گیا۔ دوسرے میں آ کر بس گئے۔ تو لاہور بھرا ہوا تھا۔ بعد میں آنے والے کچھ روز بھٹکتے۔ پھر کراچی چلے جاتے۔ کچھ براہ راست کراچی پہنچتے۔ کراچی میں گنجایش بہت تھی۔ اِس لیے یہ شہر زیادہ مناسب نظر آیا۔ دھیرے دھیرے وہ مہاجرین کا مرکز بن گیا۔ وقت گزرتا رہا۔ پھر ایک صورت حال پیدا ہوئی۔ کراچی میں آپریشن ہو رہا تھا۔ مار کاٹ ہو رہی تھی۔ بوریوں میں لاشیں مل رہی تھیں۔ سوال یہ تھا کہ یہ سب کون کر رہا ہے ؟ پولیس کر رہی ہے یا کوئی اور گروہ؟ تو یہ ساری صورت حال میرے لیے بہت تکلیف دہ تھی۔ اُسی نے ناول لکھنے کی تحریک دی۔

اقبال: اس ناول پر کراچی کے چند حلقوں کی جانب اعتراض بھی کیا گیا؟

انتظار حسین: مجھ تک کوئی اعتراض یا کسی کی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں پہنچا۔ ہاں ، اسلام آباد کے ایک دوست نے کہا تھا؛ اس ناول کر پڑھ کر بعض لوگ برہم ہیں ، وہ اعتراض کریں گے۔ میں نے کہا؛ خوشی سے اعتراض کریں۔ زبانی باتیں ہوئی ہوں گی، مگر کسی نے کچھ لکھا نہیں۔

اقبال: آپ کے چاروں ہی ناولز میں ہجرت کا المیہ کلیدی رہا، پہلو مختلف تھے۔ آپ کے ہاں ہجرت کا واقعہ مارکیز کی بستی ’’ماکوندا‘‘ کی طرح ہے ، یعنی حالات و واقعات کو پرکھنے کے لیے ایک آلہ، ایک نقطۂ نگاہ؟

انتظار حسین: ہو سکتا ہے۔ جب لکھنے والا لکھ رہا ہوتا ہے ، تو وہ پہلے سے کوئی نظریہ نہیں بناتا کہ میں اِس نقطۂ نظر کے تحت لکھوں گا۔ نقطۂ نظر تو اُس کے اندر ہوتا ہے ، یا لکھتے ہوئے بنتا ہے ، مگر اُسے شعور نہیں ہوتا کہ میں کس نقطۂ نظر کے تحت لکھ رہا ہے۔

اقبال: تو ہجرت کا تجربہ ایک نقطۂ نظر کے طور پر آپ کے اندر موجود رہا؟

انتظار حسین: ناول لکھنے سے پہلے مجھ میں احساس موجود تھا کہ آبادی کی بڑے پیمانے پر جو منتقلی ہوئی ہے ، اُسے ہجرت ہی کہنا چاہیے۔ ہمارا اسلامی کیلینڈر ہجرت ہی سے شروع ہوتا ہے۔ تو یہ مسلمانوں کا ایک بنیادی تجربہ ہے۔ ہر قوم، ہر نسل کا ایکBehavioral pattern بن جاتا ہے ، جسے وہ دہراتی رہتی ہے۔ شاید ہجرت ہماری تقدیر ہے۔ جب رسول کریمﷺ نے پہلی ہجرت کی، تو ہماری تقدیر میں لکھ دیا گیا کہ اب یہ عمل بار بار دہرایا جائے گا۔

اقبال: تو آپ کی نظر کیا دیکھتی ہے ، آگے بھی ہجرت ہے یا پھر۔۔۔ آگے سمندر ہے ؟

انتظار حسین: (ہنستے ہوئے ) اب ’’آگے سمندر ہے ‘‘ کہ معنی میں نہیں بتاؤں گا۔ اس وقت کسی کا کہا ہوا جملہ میرے ذہن میں تھا۔ میں نے کہا؛ اِس کے تو بہت معنی بن رہے ہیں۔ میں نے اُسے عنوان بنا لیا۔

اقبال: آپ نے کہا تھا کہ ایک وقت کشتیاں بنانے کا ہوتا ہے ، ایک کشتیاں جلانے کا؟

انتظار حسین: اِس کے پیچھے روایات بھی ہیں۔ جب طارق بن زیاد ساحل پر اترا، تو اس نے کشتیاں جلا دیں کہ اب واپسی کہیں نہیں ہے۔ ہمیں آگے ہی بڑھنا ہے۔ پیچھے نہیں جانا۔ تو میں نے یہی لکھا کہ ایک وقت کشتیاں بنانے کا ہوتا ہے ، اور ایک وقت کشتیاں جلانے کا۔ ہم جلا کر تو ہندوستان آ گئے ہیں ، اب بنا سکیں گے یا نہیں۔یہ دیکھنا ہو گا۔

اقبال: ’’بستی‘‘ کی طرف پلٹے ہیں۔ اِس ناول کے کردار ذاکر کے لیے بچپن میں دنیا نئی نئی تھی۔ تازگی کا یہ احساس بچپن کی دَین تھا؟

انتظار حسین: بچپن ہوتا ہی ایسا ہے کہ ہمیں ہر شے نئی نظر آتی ہے۔ پرندے نئے لگتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے ، جیسے ہمارے ساتھ ہی پیدا ہوئے۔ بڑے ہو کر وہ سنگت نہیں رہتی۔

اقبال: تو پرندوں سے سنگت اب تک ہے ؟ آپ نے لکھا بھی تھا کہ آپ درختوں اور چڑیاؤں کے لیے کہانیاں لکھتے ہیں۔

انتظار حسین: وہ سنگت تو ہے۔ بالکل ٹھیک ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اُس کے اندر جو بچہ ہے ، اُسے زندہ رکھے۔

اقبال: کچھ لوگ لکھنے کے عمل کو ’’کتھارس‘‘ کی ایک شکل قرار دیتے ہیں۔ آپ کئی برس سے لکھ رہے ہیں۔ شاہ کار تخلیق کیے۔ ماضی کی تمام تر یادیں برتی جا چکی ہیں ،یا یہ اب بھی مزید لکھنے کی تحریک دیتی ہیں ؟

انتظار حسین: وہ یادیں تو ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ اب تو خاصا اظہار ہو چکا ہے۔یہ ادیب کی تخلیقی صلاحیتوں پر منحصر ہوتا ہے۔ کوئی چھوٹا سا تجربہ بھی بہت کچھ لکھوا سکتا ہے۔ کبھی کبھار کوئی بڑا تجربہ بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔یہ لکھنے والی کی نظر ہے کہ وہ تجربے میں سے کیا کچھ برآمد کرتا ہے۔

اقبال: میرٹھ میں آپ کے ایک دوست تھے ؛ ریوتیسرن شرما۔ آپ نے اور انھوں نے ساتھ لکھنا شروع کیا۔ اگر اُن سے ملاقات نہ ہوئی ہوتی، تب بھی کیا اِسی طرز پر، اِسی تسلسل سے لکھ رہے ہوتے ؟

انتظار حسین: یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ تقسیم اگر نہیں ہوتی، تو کیا ہوتا۔ میں افسانہ نگار بنتا بھی یا نہیں ،یا ہجرت کے تجربے نے مجھے افسانہ نگار بنایا۔ جب میں نے ہجرت کی، تب احساس ہوا کہ میرا اُس زمین سے رشتہ کٹ گیا، جہاں میں پیدا ہوا، جہاں ہوش سنبھالا۔ تقسیم سے پہلے تو ہوش ہی نہیں تھا کہ اردگرد کیا ہو رہا ہے۔ پاکستان آنے کے بعد احساس ہوا کہ اُس زمین سے ہمارا کتنا گہرا رشتہ ہے۔ پاکستان آ کر بستی کی یادیں آنا شروع ہوئیں۔ کہانی لکھنی شروع کی، تو رفتہ رفتہ اس زمین سے جڑے رشتے کا احساس ہوا، جسے کاٹنا، گویا اپنی ذات کاٹ دینا تھا۔

اقبال: ریوتی سرن  شرما سے دوبارہ ملاقات ہوئی؟

انتظار حسین: ہاں ہاں۔ جب دلی جانا ہوتا ہے ، تو ملاقات ہوتی ہے۔

اقبال: جب دوبارہ اپنی بستی کی جانب گئے ، تو کیا احساس تھا؟

انتظار حسین: بڑے عجیب احساسات تھے۔ پریم چند کی صدی منائی جا رہی تھی۔ ہمیں مدعو کیا گیا۔ دلی میں سیمینار ہوا۔ پھر علی گڑھ یونیورسٹی والوں نے مدعو کر لیا۔ میں نے کہا؛ میری بستی تو یہاں سے قریب ہی ہے۔ تو میں ایک دوست کے ساتھ نکلا۔ مگر مجھے واپس آنا پڑا۔ یوں لگ رہا تھا، جیسے بستی مجھے راستہ نہیں دی رہی۔ ناراض ہو گئی ہے۔ میرے ساتھی نے کہا کہ کسی سے پتا پوچھ لو۔ میں نے کہا، اب میں اپنے گھر کا پتا غیروں سے پوچھوں (ہنسے ہوئے )۔ خیر، تو اس قسم کا رد عمل ہوا۔ بڑا پریشانی ہوئی۔ ہم واپس آ گئے۔ بعد میں بہت پچھتایا۔ سوچا، پھر کبھی موقع ملے گا یا نہیں۔ خیر، پھر موقع ملا، اور میں وہاں گیا۔

اقبال: ’’قیوما کی دکان‘‘ آپ کی پہلی کہانی تھی۔ وہ کون سا احساس تھا، جس نے یہ کہانی لکھنے کی جوت جگائی؟

انتظار حسین: سن 47ء کا وسط تھا۔ مسلمان ملازمین کو Opt کرنے کا کہا گیا۔ اُنھوں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے دیکھا کہ مسلمانوں کے جو جمے جمائے گھرانے تھے ، وہ سامان باندھ رہے ہیں۔ جو دیگر تھے ، وہ بھی سوچ رہے تھے کہ اب ہم ہندوستان میں کیسے رہیں گے ، فضا بدل گئی ہے ، یہاں تو جینا دشوار ہو جائے گا۔ جب فسادات نے زور پکڑا، تو اُس احساس نے شدت اختیار کی۔ میں اُس زمانے میں میرٹھ میں تھا۔ خیال آیا کہ اس پر کچھ لکھنا چاہیے۔ جب لکھا، تو احساس ہوا کہ یہ تو کہانی بن گئی۔ وہاں سے یہ خیال ہوا کہ میں اصل میں کہانی نگار ہوں۔

اقبال: جس زمانے میں آپ نے لکھنے کا آغاز کیا، ترقی پسند تحریک کا شہرہ تھا۔ تو اس کے اثر سے نکل کر اپنی الگ راہ بنانے کا فیصلہ شعوری تھا یا یہ فیصلہ قلم نے خود کیا؟

انتظار حسین: شعوری نہیں تھا۔ دیکھیے ، سن 47ء سے پہلے جن نئے ادیبوں کو ہم پڑھ رہے تھے ، اُن سے متعلق یہ پتا نہیں تھا کہ اُن میں بھی دو گروہ ہیں۔ ہم تو راشد اور فیض کو ایک ہی تناظر میں پڑھتے تھے۔یہ تو بعد میں پتا چلا کہ فیض ترقی پسند ہیں ، اور راشد، ترقی پسندوں کے نقطۂ نگاہ سے ، رجعت پسند۔ ہمیں پتا نہیں تھا کہ کرشن چندر ترقی پسندوں میں گنے جاتے ہیں۔ ہم تو بس پڑھ رہے تھے ، اور اچھا لگ رہا تھا۔ وہ تو جب میں لاہور آ گیا، تب مجھے اُن گروہوں کے اختلافات کا ادراک ہوا۔

اقبال: عسکری صاحب کے اعتراض نے اِس تقسیم کو واضح کیا؟

انتظار حسین: در اصل اُنھیں یہ اعتراض ہوا کہ ترقی پسندوں کے جو افسانے آ رہے ہیں ، اُنھیں پڑھ کر معلوم ہوتا ہے ، جیسے اِس سارے خون خرابے کا ذمے دار پاکستان ہے ، محمد علی جناح ہیں کہ انھوں نے تقسیم کا مطالبہ کیا۔ تو اُنھوں نے کہا؛ یہ تو سارا ہندوستان نقطۂ نظر ہے۔ انھوں نے پاکستانی ادب کا نعرہ لگایا۔ اس وقت یہ تقسیم واضح ہوئی کہ کون ترقی پسند ہے ، کون رجعت پسند۔

اقبال: عسکری صاحب نے پاکستانی ادب کا نعرہ لگایا، آج ہم 2014 میں موجود ہیں۔ کیا ان برسوں میں پاکستانی ادب جیسی کوئی شے تشکیل ہو سکی؟

انتظار حسین: پاکستانی ادب میرے نزدیک ایک وقتی نعرہ تھا۔ اُس وقت مقصد یہ تھا کہ لوگوں میں شعور اجاگر کیا جائے۔ البتہ رفتہ رفتہ یہ تقسیم واضح ہو گئی۔ کچھ تخلیقات متنازع بن گئیں۔ فیض صاحب کی نظم ’’یہ داغ داغ اجالا‘‘ اس زمانے میں نئی نئی تھی۔ اُس کے بارے میں یہ تنازع شروع ہو گیا کہ یہ تو پاکستان کے خلاف ہے ، وہ کہہ رہے ہیں ؛ ’’داغ داغ اجالا‘‘، اور ہم کہہ رہے ہیں کہ ہماری زندگی کا نیا دور شروع ہو رہا ہے۔ ادھر ترقی پسندوں سے آواز اٹھی کہ اس میں کوئیCommitment ہی نہیں۔یہ تو تذبذب میں ڈالتی ہے۔ فیض صاحب پر علی سردار جعفری نے یہ اعتراض کیا۔ مگر رفتہ رفتہ چیزیں نارمل ہو گئیں۔ پھر یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہی کہ یہ پاکستانی ادب ہے یا ہندوستانی ادب۔ پھر ہم نے یہ کہنا شروع کیا کہ دو ملک تو بن گئے ، مگر اردو مشترکہ زبان ہے ، ادب کی روایت دونوں جگہ پھلی پھولی۔ نئے ادب میں جو لوگ پیدا ہوئے ، وہ سب تو پنجاب کے تھے۔ میرا جی، راشد اور فیض؛ اُن کے درجے کا شاعر اُس زمانے میں کوئی نہیں تھا۔ اسی طرح منٹو اور کرشن چندر کے درجے کا کوئی افسانہ نگار نہیں تھا۔ عصمت کو آپ کہہ لیں کہ وہ وہاں کی تھیں۔ مگر مجموعی طور پر نئے اردو ادب کی روایت پنجاب کے خطے میں پروان چڑھی۔ ہم نے کہا، روایت ہماری ایک ہے۔ اب ہم نے میرٹھ میں بیٹھ کر یہ کبھی نہیں سوچا کہ فیض صاحب یوپی کے ہیں یا پنجاب کے۔یہ نہیں کہا کہ ہمارا شاعر فراق گورکھپوری ہے ، کیوں کہ وہ یوپی کا ہے ، اور راشد صاحب پنجاب کے ہیں۔یہ تو یہاں آ کر سنا کہ فلاں یوپی کا ہے ، اور فلاں پنجاب کا۔

اقبال: اِن تضادات سے خود کو کیسے ہم آہنگ کیا؟

انتظار حسین: میں نے ساری زندگی لاہور میں گزاری۔ اور کبھی پڑھتے ہوئے یہ محسوس نہیں کیا کہ لکھنے والا پنجابی ہے ، اور میں مہاجر۔ یا پھر یہ دیکھوں کہ کراچی میں کون اچھا لکھ رہا ہے۔ میرے لیے ناصر کاظمی نہ تو پنجابی تھا، نہ ہی یوپی والا۔ وہ تو میرے لیے شاعر تھا۔ یا پھر احمد مشتاق، جو امرتسر سے ہجرت کر کے آیا تھا۔۔۔ میرے لیے وہ فقط شاعر تھا، اور میرا دوست تھا۔

اقبال: آپ نے ایک انٹرویو میں جدیدیت کو اردو ادب کی اہم تحریک قرار دیا۔ کیا یہ فروغ ادب میں اتنا Contribute کر سکی، جتنا ترقی پسند تحریک نے کیا؟

انتظار حسین: Contribute تو اس تحریک نے کیا۔ اُس وقت اس کی ضرورت بھی تھی۔ ترقی پسند تحریک کیRange بہت تھی۔ اس کے ساتھ سماجی اور سیاسی پروگرام لگا تھا۔ نظام کو بدلنے کی کوشش تھی۔ اس میں اپیل بہت تھی۔ وہ بین الاقوامی تحریک تھی۔ بہت سے ممالک اس سے وابستہ تھے ، جو بعد میں مایوس ہو کر الگ بھی ہو گئے۔ ایک زمانہ وہ تھا، جب یورپ کا دانش وَر طبقہ اِس تحریک سے وابستہ تھا۔ پھر اسٹالن آ گیا۔ اُس کے طرز حکومت کی وجہ سے یورپی ادیب، جو آزاد فکر رکھتا تھا، اُس سے ٹوٹنا شروع ہو گیا۔ ہمارا ہاں ترقی پسندوں نے پہلے ٹھپے لگائے۔کہا؛ راشد جو کچھ لکھ رہا ہے ، وہ ترقی پسندی نہیں۔ اب راشد نے تو نہیں کہا تھا کہ میرا ترقی پسندی سے کوئی تعلق نہیں۔ انھوں نے کہا؛ میرا جی کی مریضانہ ذہنیت ہے ، یہ رجعت پسندی ہے۔ تو یوں اُنھوں نے مہریں لگانا شروع کیں۔ پھر ایک نئی تحریک شروع ہوئی۔

اقبال: جدیدیت کے بعد اردو ادب میں کوئی بڑی تحریک پیدا نہیں ہو سکی۔

انتظار حسین: یہ ضروری نہیں کہ ایک تحریک ختم ہو، اور دوسری آ جائے۔ خاص قسم کے حالات ہوتے ہیں ، جن سے بغاوت جنم لیتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ پہلی بغاوت ہوئی۔ بغاوت کرنے والوں نے کہا؛ شاعری کو قافیے اور ردیف میں باندھ رکھا ہے۔ غزل پر حملے ہوئے۔یہ بغاوت حالی اور مولانا آزاد نے شروع کی تھی۔ اُس وقت اِس کی ضرورت تھی۔ تو اس لحاظ سے ترقی پسندوں نے بھی دُرست کیا، اور نم راشد نے بھی درست کیا۔ ترقی پسند تحریک اِن زاویے سے ہمارے لیے بامعنی تھی کہ معاشرہ جس فرسودگی میں گرفتار تھا، اس کے پیش نظر ایسے افراد کی ضرورت تھی، جو کہیں کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ دُرست نہیں۔ سرسید کے زمانے ہی سے اصلاحی تحریک شروع ہو گئی تھی۔ ترقی پسند تحریک ایک اصلاحی تحریک بھی تھی، اور انقلابی تحریک بھی تھی۔ یہ ایک قسم کی بغاوت تھی۔

اقبال: اردو ادب میں ایک اور بغاوت کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ؟

انتظار حسین: بغاوت کی تو ضرورت ہے ، لیکن اب معاشرے میں اتنی سکت نظر نہیں آتی کہ کوئی تحریک شروع ہو سکے۔

اقبال: اِس کا سبب؟

انتظار حسین: در اصل مخالف عناصر اتنے طاقت وَر ہیں کہ اُن کے سامنے لبرل حلقے خود کو بے بس محسوس کر رہے ہیں۔ وہ اسلحے سے لیس ہیں۔ اب تشدد کا دور آ گیا ہے۔ جب ترقی پسند تحریک شروع ہوئی تھی، اُس وقت تشدد کا دور نہیں تھا۔ زیادہ سے زیادہ کتاب ضبط کر لیتے۔ ’’انگارے ‘‘ ضبط ہو گئی، مگر کسی نے یہ تو نہیں کہا کہ ہم تمھیں قتل کر دیں گے۔

اقبال: آج تشدد کا دور ہے ، قتل تک بات پہنچ چکی ہے ، ایسے میں ادبی کانفرنسیں اور سیمینار کیا کردار ادا کر سکتے ہیں ؟

انتظار حسین: میرے خیال میں اِن کا اثر پڑے گا۔ اِن کی آج بہت ضرورت ہے۔ ’’وہ‘‘ اپنا کھیل تو کھیل رہے ہیں ، مگر ہماری سرگرمیوں پر انھیں فی الحال اعتراض نہیں۔ ممکن ہے ، مستقبل میں وہ اِس پر بھی اعتراض کریں ، لیکن فی الحال ایسا نہیں۔ در اصل ہم براہ راست انھیں چیلینج نہیں کر رہے۔ اور اچھا کر رہے ہیں۔ اگر براہ راست چیلینج کریں ، تو یہ سارا سلسلہ ابھی ختم ہو جائے گا۔

سوال: ادیب کو لکھنے کی تحریک کہاں سے ملتی ہے ، معاشرے سے یا اندرون سے ؟

انتظار حسین: دونوں ہی طریقے ہیں۔ سب کچھ باہر نہیں ہوتا، آدمی کے اندر بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ آدمی فقط خارجی سطح پر زندہ نہیں رہتا۔ جدید نفسیات بتاتی ہے کہ آدمی کے اندر کتنا کچھ ہے۔ آدمی جتنا باہر پھیلا ہے ، اتنا ہی اندر گہرا ہے۔ انسانی تخیل میں پوری کائنات آباد ہے۔ لکھنا، خارجی اور داخلی، دونوں سطحوں پر رد عمل کا نام ہے۔

سوال: اِس ’’رد عمل‘‘ میں آپ مقصد کی مخالفت کیوں کرتے ہیں ؟

انتظار حسین: نہیں ، جس طریقے سے مقصدیت کا پرچار کیا جاتا ہے کہ افسانے کا ایک مقصد ہونا چاہیے ، میں اُس کے خلاف ہوں۔ ہم مقصد پیش نظر رکھ کر نہیں لکھتے۔ ہم تو کہانی لکھ رہے ہیں ، مقصد اُس میں خود بہ خود برآمد ہوتا ہے۔ کہانی پر مقصد مسلط نہیں کرنا چاہیے۔ لکھتے ہوئے ہمارا شعور اس میں Contribute کرتا جاتا ہے۔ جو کچھ ہم سوچتے ہیں ، وہ کسی نہ کسی طرح اظہار پاتا ہے۔ تو مقصد از خود آئے گا۔

سوال: کیا فقط تفریح طبع کے لیے لکھا جا سکتا ہے ، کیا ادیب کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ صرف ذاتی خوشی کے لیے لکھے ؟

انتظار حسین: یہ بھی ہوتا ہے۔ لکھنے والے کا مزاج ہے۔ آدمی کہتا ہے کہ مجھے کسی کے معاملات سے مطلب نہیں۔ اچھا لگتا ہے ، اِس لیے لکھ رہا ہوں۔ تفریح طبع سے مطلب یہ ہے کہ انسان میں لکھنے کی خواہش ہے۔ وہ خوشی کے لیے لکھ رہا ہے۔ ہم قافیے ردیف میں کھیل رہے ہیں کہ ایک شعر ہو گیا۔ ہمیں وہ اچھا لگا۔ انسان اپنے بچپن کے اثرات قبول کرتا ہے۔ ہم بچپن میں دیکھتے ہیں کہ مشاعرہ ہو رہا ہے ، شاعر کو داد مل رہی ہے۔ خواہش ہوتی ہے کہ ہم بھی لکھیں۔ تو انسان کا جی چاہتا ہے ، کوئی مقصد پیش نظر نہیں ہوتا۔

اقبال: آپ کے نزدیک قاری، لکھاری سے کیا تقاضا کرتا ہے ؟ کیا وہ فقط ادبی ذوق کی تسکین کے لیے پڑھتا ہے یا کچھ سیکھنے کا بھی آرزو مند ہوتا ہے ؟

انتظار حسین: ادب پڑھنے کا معاملہ بھی لکھنے کے ابتدائی تجربے جیسا ہے۔ آپ کو شاعری اچھی لگتی ہے ، تو آپ اُسے پڑھتے ہیں۔ کہانیوں سے آپ محظوظ ہوتے ہیں۔ پڑھتے پڑھتے آپ کا ادبی شعور پختہ ہوتا جاتا ہے۔ آپ اچھے برے میں تمیز کرنے لگتے ہیں۔یہ عمل از خود ہوتا چلا جاتا ہے۔ آپ ادبی ذوق کی تسکین کے لیے پڑھتے ہیں ، اور اِس سے آپ کا شعور بھی بلند ہوتا ہے۔

اقبال: عسکری صاحب کے ساتھ آپ کا خاصا وقت گزرا۔ ’’بستی‘‘ کا انتساب بھی اُن ہی کے نام ہے۔ اُن کے نظریات میں جو تبدیلی آئی، آپ اُسے کیسے دیکھتے ہیں ؟

انتظار حسین: ہمارے ہاں صحیح معنوں میں اگر کوئی نقاد گزرا ہے ، تو وہ محمد حسن عسکری تھے۔ آپ اُس تنقید کو پڑھ کر دیکھیں ، جو 40 اور 50 کی دہائی میں لکھی گئی، پھر عہد حاضر کی تنقید دیکھیں۔ گوپی چند نارنگ، شمیم حنفی، شمس الرحمان فاروقی، وارث علوی کی تنقید پڑھیں ، اور جو کچھ احتشام الحق اور آل احمد سرور نے لکھا ہے ، اُسے پڑھیں۔ اور دیکھیں کہ اِس تنقید اور اُس تنقید میں کتنا فرق ہے۔ وہ ابتدائی زمانہ تھا۔ مولانا حالی کی کتاب ’’شعر و شاعری‘‘ اِس لحاظ سے اہم ہے کہ اُس سے اردو تنقید کا آغاز ہوتا ہے ، وہ ’’لینڈ مارک‘‘ ہے۔وہ نہیں ہوتی، تو ہمیں کتنے ہی عرصے انتظار کرنا پڑتا، مگر یہ بھی یاد رکھیں کہ وہ کتاب تنقید کے اعتبار سے کوئی اعلیٰ معیار پیش نہیں کرتی۔ یہی معاملہ ابتدائی ناقدین کا ہے۔ اُنھوں نے زمین ہم وار کی، اُن میں چند اچھے نقاد بھی مل جائیں گے ، مگر جو پہلا نقاد ابھر کر آیا، وہ محمد حسن عسکری ہی تھے۔

اقبال: کیا اردو تنقید میں پاکستانی سیکشن کچھ کم زور رہا؟

انتظار حسین: شروع میں ہمارے ہاں بہت اچھے نقاد تھے ، مگر وہ ایک ایک کر کے جوانی ہی میں گزر گئے۔ سلیم احمد تھا۔ پھر سجاد باقر رضوی، سہیل احمد اور سراج منیر تھے۔یہ سب بہت ہونہار تھے۔ پتا نہیں آگے چل کر کیا رنگ نکلتا۔ اُس کھیپ میں مجھے سہیل احمد کی شکل میں ایک بڑا نقاد نظر آ رہا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ یہ عسکری کی ٹکر کا نقاد بنے گا، مگر زندگی نے وفا نہیں کی۔ تو وہی پرانے نقاد رہ گئے۔ ہندوستان میں تنقید کا عمل شروع ہو گیا تھا۔ شاعری کا عمل تو وہاں بالکل پٹ گیا۔ سارے شاعر یہاں آ گئے۔ اگر قرۃ العین حیدر ہندوستان نہ جاتیں ، تو وہاں کوئی بڑا افسانہ نگار نہیں ہوتا۔ ایک قرۃ العین کے جانے سے ہندوستان میں اردو افسانے کی تھوڑی ساکھ بنی۔

اقبال: کچھ نقاد فکشن میں پاکستانی برتری کی بات کرتے ہیں۔ آپ کی کیا رائے ہے ؟

انتظار حسین: ہندوستان میں بھی اچھی کہانیاں لکھی گئیں ، لیکن شاید ہمارا ریکارڈ بہتر ہے۔ البتہ میں اِس بحث میں نہیں جاؤں گا۔ میں کہہ چکا ہوں کہ یہ ایک روایت ہے۔ مثلاً جب تجریدی اور علامتی افسانہ لکھا جا رہا تھا، تو ہمارے ہاں یہ توجیہہ دی جاتی کہ حقیقت نگاری ممکن نہیں ، کیوں کہ مارشل لا لگا ہوا ہے۔ اظہار پر پابندی ہے۔ مگر اُسی رنگ میں ہندوستان میں بھی افسانے لکھنے جانے لگے۔ بلراج مین را، سریندر پرکاش پیدا ہو گئے۔ تو تقسیم نے اِس رجحان کو روکا نہیں۔یہ ایک ہی وقت میں ہندوستان اور پاکستان میں آیا، کیوں کہ روایت ایک تھی۔

اقبال: آپ نے ایک بار کہا تھا کہ آپ کی کہانی علامتوں تک تو گئی، مگر تجرید تک نہیں گئی۔ البتہ یہاں تجریدیت کا بھی تجربہ ہوا۔ اور کچھ کو شکایت ہے کہ اِس سے قاری بھاگ گیا۔

انتظار حسین: تجریدیت کا تجربہ بھی ہونا چاہیے تھا۔ ممکن ہے ، مجھے اپنا کوئی ایسا افسانہ نظر آ جائے ، جس میں تجرید کا رنگ غالب آ گیا ہو۔ البتہ یہ میرا کام نہیں ہے کہ اپنی تخلیق کو اس زاویے سے دیکھو۔ یہ نقادوں کا کام ہے۔

اقبال: تو یہ رنگ آنا چاہیے تھا؟

انتظار حسین: بالکل۔ در اصل حقیقت نگاری ایک پورا سفر کر چکی تھی۔ پریم چند سے یہ تحریک شروع ہوتی ہے۔ وہاں سے سن 50 تک آ جائیں۔ لمبا سفر ہے۔ اتنے عرصے بعد تبدیلی نہیں آتی، کوئی رد عمل نہیں ہوتا، تو جمود آ جاتا۔ ہمارا افسانہ ٹھہر جاتا۔ تو ایک بغاوت ہوئی، ایک نئی طرز پر افسانہ لکھنے کی کوشش ہوئی۔

اقبال: انورسجاد نے جو تجریدی ڈھنگ اپنایا اُسے آپ کیسے دیکھتے ہیں ؟

انتظار حسین: انور سجاد کو کریڈٹ یہ جاتا ہے کہ اُس نے اُس اسلوب سے ، جو روایت بن چکا تھا، بغاوت کی۔ اُس کا افسانہ کیسا ہے ؟یہ بعد کی بات ہے ، مگر بغاوت کا، ایک نئے اسلوب کی نشان دہی کا کریڈٹ اُسے ہر صورت جاتا ہے۔ حالاں کہ وہ ترقی پسند تھا، لیکن ایک باغی کی حیثیت سے اپنے لیے وہ اسلوب چنا، جسے ترقی پسند تحریک نے منظور نہیں کیا تھا۔

اقبال: اِس اسلوب کا مستقبل آپ کو نظر آتا ہے ؟

انتظار حسین: اُس کے بعد اچھے افسانے بھی لکھے گئے۔ ہندوستان میں اچھے افسانہ نگار پیدا ہوئے۔

اقبال: آپ کے ہاں ہمیں گنگا جمنی کلچر ملتا ہے۔ اس خطے کی اساطیر، جاتک کتھائیں ، دیومالائی قصّے آپ نے بازیافت کیے ، اِس تجربے کا کیا سبب رہا؟

انتظار حسین: دیکھیں ، تقسیم ہند کے بعد تاریخ ہمارے لیے مسئلہ بن گئی۔ فوراً یہ سوال کھڑا ہو گیا کہ نیا ملک بن گیا ہے ، آگرہ اور دلی وہیں رہ گئے ، اب اُن سے ہمارا کیا تعلق۔ ادبی حلقوں میں پہلے یہ سوال کھڑا ہوا۔ ایک گروہ نے کہا؛ ہماری تاریخ موئن جودڑو سے شروع ہوتی ہے۔ وہ گروہ، جو مذہبی انداز میں سوچتا تھا، اُس نے کہا؛ ہماری تاریخ تو محمد بن قاسم سے شروع ہوتی ہے۔ تو یہ تنازع چلا۔ ہماری شناخت گنگا جنمی تہذیب بنی، جس کا یہاں آ کر عسکری صاحب نے نام تھوڑا بدل دیا، اور اِسے ہند اسلامی تہذیب کہا۔ در اصل جب مختلف خطوں سے عربی، فارسی اور تُرکی بولنے والے فاتحین کی حیثیت سے اِس علاقے میں آئے ، تو شروع میں انھیں یہاں کی تہذیب اجنبی لگی۔ سنکھ کی آواز، بھجن، مندر کا گھنٹا، بت؛ یہ سب اُن کے لیے نیا تھا۔ ایک جانب میدان جنگ میں مقابلہ، دوسری جانب تہذیبی سطح پر چپقلش۔ مگر جب آپ ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں ، تو بیرونی سطح پر جہاں چپقلش ہوتی ہے ، وہیں اندرونی طور پر ایک تہذیبی مکالمہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ آپ اُن سے ، وہ آپ سے اثرات لیتے ہیں۔ بہ ظاہر تو یہاں آنے والے فاتحین ہندوستانی تہذیب پر اثر انداز ہو رہے تھے ، اور اِس موضوع پر ڈاکٹر تارا چند نے ’’ہندو تہذیب پر اسلام کا اثر‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی، جسے دستاویزی حیثیت حاصل ہے ، البتہ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اُنھوں نے (ہندوستانی کلچر نے ) بھی ہم پر اثر ڈالا ہے۔ (ہنستے ہوئے ) ہاں ، اِس کی نشان دہی ہمارے ہاں مُلاؤں نے کی کہ فلاں رسم کافرانہ ہے ، ہندوؤں سے آئی ہے۔ تو یہاں ڈاکٹر تارا چند کا کردار مُلا نے ادا کیا۔ ہم نے یہ کہا کہ یہ تو تہذیبی عمل ہے۔ سوال یہ ہے کہ خالص اسلامی تہذیب کہاں ہے ؟ مصر میں؟ ترکی میں؟یا سعودی عرب میں؟ خطۂ عرب میں جنھیں عہد جاہلیت کی رسمیں قرار دیا گیا، کیا اُنھیں مکمل طور پر رد کر دیا گیا؟ نہیں ، بلکہ انھیں غسل دے کر اپنا لیا گیا۔ اِس طرح ہم نے یہاں کیا۔ بہت سی ہندو رسومات پر چھڑکاؤ کر اُنھیں اپنا لیا۔

اقبال: آپ جاتک کتھاؤں ، رامائین اور مہابھارت کو اپنی تہذیب کا حصہ سمجھتے ہیں ؟

انتظار حسین: میں تو سمجھتا ہوں۔ فکشن رائٹر کی حیثیت سے پہلے ہم خیال کرتے تھے کہ جو مغرب سے اصناف آئی ہیں ،یعنی افسانہ اور ناول، ان ہی میں اظہار ہو گا۔ ہمارے اکابرین نے داستانوں کو خرافات کہہ کر رد کر دیا۔ ’’ریشنل ازم‘‘ کی تحریک بھی ساتھ میں آئی۔ سرسید بہت بڑے ریشنلسٹ تھے۔ پریوں ، جن، دیو؛ اُنھیں قبول نہیں کیا جاتا تھا۔ پھر حقیقت پسندی کی تحریک کے نتیجے میں ہمیں ٹالسٹائی، دوستوفسکی اور فلائبر جیسے دیو قامت ادیب ملے۔ مغرب بہت عرصے تک جن پریوں کی اساطیر سے لاعلم رہا۔ وہاں یہ بہت بعد میں آیا، جب اُنھوں نے ’’میجک رئیل ازم‘‘ کی تحریک شروع کی۔ میں نے اُس زمانے میں لکھنا شروع کیا، جب ترقی پسند تحریک عروج پر تھی۔ میں اپنی بستی کو یاد کر رہا تھا۔ یادوں میں یہ ذکر بھی آیا کہ ہمارے گھر میں ایک ایسا کمرہ تھا، جس کے متعلق کہا جاتا کہ وہاں سایہ ہے۔ کوئی عورت کہتی، جب میں محلے سے گزر رہی تھی، مجھے وہاں چڑیل دکھائی دی۔ لوگوں پر جن آ جاتے تھے۔ میں نے ’’الف لیلہ‘‘ بھی بچپن میں پڑھی تھی۔ تو جب میں نے اپنی یادداشتوں کے تحت افسانہ لکھا، تو یہ چیزیں اُس میں آئیں۔ ترقی پسندوں نے کہا؛ یہ رجعت پسندی ہے۔ اب میں نے یہ سوچ کر نہیں لکھنا شروع کیا تھا کہ میں ترقی پسندوں کے خلاف افسانہ لکھ رہا ہوں۔ مگر جب اُنھوں نے ٹھپا لگا دیا، تو مجھے بھی سوچنا پڑا۔ میں نے کہا؛ اگر یہ رجعت پسندی ہے ، تو میں رجعت پسند ہوں۔ کہانی تو میں ایسی لکھ سکتا ہوں ، اور ایسی ہی لکھوں گا۔

اقبال: آپ کے اِس رویے پر خاصی تنقید کی گئی۔ ترقی پسند نقاد، ڈاکٹر محمد علی صدیقی مرحوم نے بھری محافل میں آپ پر تنقید کی۔ تنقید برداشت کرنے کے لیے کتنا حوصلہ چاہیے ؟

انتظار حسین: جو اچھے اور بڑے ترقی پسند نقاد تھے ، جب میں نے اُن کی تنقید قبول کر لی، تو محمد علی صدیقی کی تنقید کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ تقابل کیا جائے ، تو آل احمد سرور اور احتشام حسین کی تنقید ان سے بہت بلند تھی۔ یہاں سلیم احمد جیسے نقاد بھی گزرے۔ محمد علی صدیقی ایسی تنقید لکھ رہے ہیں ، جو تقسیم سے پہلے طالب علم لکھا کرتے تھے۔

 اقبال: اردو فکشن کا مستقبل آپ کو کیسا دکھائی دیتا ہے ؟

انتظار حسین: سوال یہ ہے کہ مجھے اپنے ملک کا مستقبل کیسا دکھائی دے رہا ہے۔ جب مجھے اپنے ملک کے مستقبل کا نہیں پتا، تو ادب کے مستقبل کے بارے میں کیا بتا سکتا ہوں۔ آپ یہی لکھ دیجیے۔

اقبال: اردو زبان محدود ہوتی جا رہی ہے ، رسم الخط کا مسئلہ جنم لے رہا ہے ، ایسے میں موجودہ ادیب کے لیے اپنا Impact پیدا کرنا، شناخت کا حصول بڑا چیلینج نہیں ؟

انتظار حسین: ادب میں جان ہو گی، تو اس کا اثر ہو کر ہی رہے گا۔ Impact ضرور ہو گا۔ اتنا بڑا برصغیر تھا، کیا آپ اعتبار کریں گے کہ اردو ترقی پسند تحریک تمام تحریکوں پر غالب تھی۔ ہمارا ترقی پسند ادیب، دیگر زبانوں کے ادیبوں کو کمانڈ کرتا تھا۔ پورا ہندوستان ان کے زیر نگیں تھا۔ پھر تقسیم ہوئی، تو ہم نے دیکھا کہ ہندی والوں میں منٹو کا چرچا بہت ہے۔ وہاں منٹو پر سیمینارز ہوتے ہیں ، کتابیں چھپتی ہیں۔ ہم تو سجھتے تھے کہ برصغیر میں سب سے معروف شخصیت فیض صاحب ہیں ، مگر پھر اندازہ ہوا کہ منٹو تو ان سے آگے نکل گئے۔ تو ہمیں اس پر رشک ہونا چاہیے کہ اردو کا کوئی ادیب مقبولیت کی اِس انتہا کو بھی چھو سکتا ہے۔ منٹو صاحب تو ہجرت کر کے یہاں آ گئے ، اور عسکری صاحب نے یہ بھی کہہ دیا کہ پاکستانی ادب کا سب سے بڑا نمونہ منٹو کے افسانے ہیں ، اِس کے باوجود اُنھیں اِس قدر قبولیت ملی کہ کرشن چندر جو میرے زمانۂ طالب علمی میں ہندوستان کے سب سے بڑے افسانہ نگار تھے ، ان سے پیچھے رہ گئے۔ پریم چند ہمارا افسانہ نگار تھا۔ جب اردو میں یافت نہیں ہوئی، تو گزر بسر کے لیے ہندی میں لکھنے لگا۔ ورنہ ہندی لکھنے کی اُسے کیا ضرورت تھی۔ اب بھی اگر یہاں (پاکستان) سے ایسا ادب پیدا ہو گیا، تو اُسے قبول کیا جائے گا۔ میں تو یہاں بیٹھ کر لکھ رہا ہوں ، میرے افسانہ وہاں ہندی اور دیگر زبانوں میں چھپتے ہیں۔ حالاں کہ میری ابتدائی شناخت تو یہ تھی کہ پاکستانی یا اسلامی ادیب ہے۔ (قہقہہ!)

اقبال: ’’مین بکر انٹرنیشنل پرائز‘‘ کے لیے آپ کی نام زدگی اردو داں طبقے کے لیے ایک اعزاز ہے۔ آپ جیسی چند اور روشن مثالیں بھی ہوں گی، مگر مجموعی طور پر آپ کیا دیکھتے ہیں ، اردو فکشن کیا بین الاقوامی ادب کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے ؟

انتظار حسین: اردو ادب کا بین الاقوامی دور اب شروع ہوا ہے۔ پہلے ہم بین الاقوامی ادبی دنیا کا حصہ نہیں تھے۔ محکومی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ نوآبادیاتی دور میں تھے۔ جب ہم نے انگریزی سیکھی، تو فقط ڈکنز اور ہارڈی کو نہیں پڑھا، بلکہ فلائبر اور ٹالسٹائی کو بھی پڑھ لیا، کیوں کہ اُن کا انگریزی میں ترجمہ ہو رہا تھا۔ انگریزی کے ذریعے ہمارے ادب کی بین الاقوامی ادب کی جانب کھڑکی کھلی۔ پھر ہم آزاد ہو گئے۔ وہ معاشرے جو پہلے ہمیں نوآبادیات کے طور پر Treat کر رہے تھے ، اب ہمیں ترقی پذیر ممالک کہنے لگے۔ اُنھوں نے رفتہ رفتہ ہمیں قبول کیا۔ انگریزوں نے یہ سوچ کر ہم انگریزی میں ادب تخلیق کر رہے ہیں ، اعزازات کا سلسلہ شروع کیا۔ اِس پر ہم نے اعتراض کیا کہ افرو ایشیائی ادب کیا فقط وہ ہے ، جو انگریزی میں لکھا جاتا ہے ؟ نہیں۔ اس خطے کی دیگر زبانیں بھی تو ہیں۔ تب اُنھوں نے یہ گنجائش پیدا کی کہ ایسا انعام رکھ دو، جس میں دیگر زبانوں میں لکھنے والوں کو بھی نام زد کیا جائے۔ اور اتفاق سے اردو کے جس پہلے ادیب کو منتخب کیا گیا، وہ میں ہی تھا۔

اقبال: تو آپ اِسے ایک نئے سفر کے آغاز کے طور پر دیکھتے ہیں ؟

انتظار حسین: میرے نزدیک جب یہ منزل آ گئی کہ ایک اردو ادیب کو اُنھوں نے بین الاقوامی سطح پر قبول کر لیا، ایوارڈ نہیں ملا، یہ الگ بات ہے ، لیکن اگر قبول کر لیا، تو وہ مستقبل میں بھی دیکھیں گے کہ اردو میں کون کون لکھ رہا ہے۔ کیسا لکھ رہا ہے۔ اگر اچھا لکھنے والا یہاں نہیں ہوا، ہندوستان میں ہوا، تو وہ نام زد ہو گا۔

اقبال: نوجوانوں ادیبوں کو کوئی مشورہ؟

انتظار حسین: یہی مشورہ ہے کہ دیکھیں دنیا میں کیا لکھا جا رہا ہے۔ کھڑکی کھلی رکھیں۔ ہم نے جو سیکھا، اپنی نانی اماں کو بعد میں یاد کیا، پہلے تو ہم نے چیخوف سے سیکھا۔ انگریزی کی شدبد ہوئی، تو ڈکنز اور ہارڈی کو پڑھا۔ اِس کے وسیلے انگریزیفرانسیسی، جرمن اور روسی ادیبوں کو پڑھا۔ تو ہمیں کھڑکیاں کھلی رکھنی چاہی یں۔ مشرق کی بے شک ایک روایت ہے ، مگر جو مرکز ہے ، وہ مغرب میں ہے۔ ان کی طرف سے ہم آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔

اقبال: اِس عمر میں اتنے متحرک، کیا راز ہے ؟

انتظار حسین: پتا نہیں کیا راز ہے (ہنستے ہوئے )۔ یہ تو خود بہ خود ہوتا ہے۔ میری کسی اور شے میں Involvement نہیں رہی۔ ہاں اخبار نویسی کرتا رہا ہوں ، وہ میری مجبور تھی۔ میں اخبار نویس نہیں بننا چاہتا تھا، مگر میرے لیے کوئی دوسرا پیشہ نہیں تھا۔ ایم اے اِس نقطۂ نگاہ سے کیا تھا کہ تدریس کے پیشے میں چلا جاؤں ، مگر کسی انٹرویو میں کام یاب نہیں ہوا۔ اخبار نویسی کی جانب آ گیا۔ البتہ میں نے اخبار نویسی کو افسانہ نویسی سے بالکل الگ رکھا۔ آج جو سیاسی تجزیہ کار ہیں ، کالم نگار ہیں ، وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ ان کی یافت اور رسائی بہت ہے۔ ہم تو سماج پر اور ادب پر کالم لکھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔

اقبال: آپ بیتی آ چکی ہے ، اب مزید جستجو کیا ہے ؟ مستقبل کا کوئی خاص منصوبہ؟

انتظار حسین: مستقبل کا کسے معلوم۔ میں تو اپنے بکھرے کام سمیٹ رہا ہوں۔ کوشش ہے کہ جو تحریریں بکھری پڑی ہیں ، جو تنقیدی مضامین ہیں ، انھیں یک جا کیا جائے۔ افسانہ کیسے لکھیں ، سیمینار آ جاتے ہیں ، مضمون لکھنا پڑتا ہے۔ کچھ ڈرامے لکھے تھے ، وہ جمع کر رہا تھا۔ کچھ خاکے لکھے تھے ، اُنھیں اکٹھا کر رہا ہوں۔ بس، اب یہی معاملہ ہے۔

فکشن کے اِس فسوں گر سے ملاقات کے بعد جب ہم دھواں دیتی چائے کا کپ لیے بحیرہ عرب کے کنارے کھڑے تھے ، تو عجیب لمحہ اترا۔ پنچھیوں کے جھنڈ میں ایک پکھیرو نے پر پھیلائے ، اور وسعتوں کی سمت اڑان بھری۔ وہ اوروں سے الگ تھا کہ اُس کی روح آزاد تھی۔۔۔

وہ نئے آسمانوں کی تلاش میں تھا۔۔۔

٭٭٭


 

 

وارد ہونا داستان گو کا شہر ہجرت میں اور خائف ہونا الیاسف کے قبیلے کے بندروں سے —مشرف عالم ذوقی

 

 ’’جزیرے میں سمندر کا پانی امنڈا چلا آ رہا تھا— الیاسف نے درد سے صدا کی۔ کہ اے بنت الاخضر، اے وہ جس کے لیے میرا جی چاہتا ہے ، تجھے میں اونچی چھت پر، بچھے ہوئے چھپر کھٹ پر اور بڑے درختوں کی گھنی شاخوں میں اور بلند برجیوں میں ڈھونڈھوں گا۔ تجھے سر پٹ دوڑتی دودھیا گھوڑیوں کی قسم ہے۔ قسم ہے کبوتروں کی جب وہ بلندیوں پر پرواز کرے۔ قسم ہے تجھے رات کی، جب وہ بھیگ جائے۔ قسم ہے تجھے رات کے اندھیروں کی جب وہ جسم میں اترنے لگے۔ قسم ہے تجھے اندھیرے اور نیند کی اور پلکوں کی، جب وہ نیند سے بوجھل ہو جائیں۔ تو مجھے آن مل۔ کہ تیرے لیے میرا جی چاہتا ہے۔ اور جب اس نے صدا کی تو بہت سے لفظ آپس میں گڈمڈ ہو گئے۔ جیسے زنجیر الجھ گئی ہو۔ جیسے لفظ مٹ رہے ہوں۔ الیاسف نے اپنی بدلتی ہوئی آواز پر غور کیا، کاش وہ اپنا چہرہ دیکھ سکتا۔ ‘‘

        —آخری آدمی

 

الیاسف، قبیلے کا آخری آدمی تھا جو آدمی کی جون میں پیدا ہوا، اور جس نے آدمی کی جون میں ہی مرنے کی قسم کھائی تھی— مگر ایسی قسموں کا حاصل ہی کیا کہ جب قریہ میں خوف پھیلا ہو، صورتیں گم ہو رہی ہوں۔ خد و خال مسخ ہو رہے ہوں۔ بازار ویران اور دیوڑھیاں سونی ہو رہی ہوں۔ عالی شان چھتوں اور اونچے اونچے برجوں پر بندر چھائے ہوں۔ نفرت کی شدت نے آدمی کی کایا پلٹ دی ہو— ایسے میں الیاسف سڑکوں ، دروں اور صنوبر کی کڑیوں والے مکان سے ہوتا ہوا ماضی کا رخ کرتا ہے — جب نیم شب کے ’چھید‘ کیے ہوئے جسم سے قطرہ قطرہ لہو ٹپک رہا تھا۔ جب میرٹھ، بلند شہر سے لے کرسارے ہندوستان میں حکومت برطانیہ نے توپوں کے منہ کھول دیے تھے۔ سونے کی چڑیا کہے جانے والے ملک کا الف لیلوی حسن غارت ہو چکا تھا— آزادی اپنے ساتھ تقسیم کی سوغات اور ہجرتوں کا زخم لے کر آئی تھی۔ ہزار برسوں کا ماضی اساطیری اور دیومالائی قصے ، کہانیوں سے کم نہ تھا۔

۷ دسمبر ۱۹۲۳ کو بلند شہر، میرٹھ میں پیدا ہونے والے انتظار حسین نے خوفناک بندروں کے اس میلے کو اتنے قریب سے دیکھا کہ ہجرت کے بعد بھی ماضی کی گٹھری اور پوٹلی سے خود کو آزاد نہ کر سکے۔ وہ ایک ایسے داستان گو تھے جس کا مکمل اثاثہ ماضی کی وہ داستانیں تھیں ، جسے عمر کے آخری دور میں بھی، آخری ناول ’سنگھاسن بتیسی‘ کی تخلیق تک وہ خود سے الگ نہیں کر سکے — برسوں پہلے دوردرشن ٹی وی چینل پر گلزار کا ایک سیریئل آتا تھا، ’پوٹلی بابا کی کہانی‘—انتظار حسین کی داستانی شخصیت اس پوٹلی بابا سے مشابہت رکھتی تھی جو ماضی پرستی، ماضی پر نوحہ خوانی اور ماضی سے وابستہ داستانوں کی تلاش میں ، عمر کے آخری حصے تک بھٹکتا رہا۔ کبھی جاتک کتھاؤں کا سہارا، کبھی پنج تنتر، دیومالائی اور اساطیری، قصے کہانیوں میں پناہ تلاش کرنا— خارج سے باطن کے سفر تک حقیقت سے فرار اور تاریخ کے بے رحم زمانوں اور ماضی کی بھول بھلیاں میں خود کو گم کرنا— یہ راستے آسان نہیں تھے۔ لیکن شاعری سے فکشن کی دنیا میں قدم رکھنے تک انتظار حسین نے اسی راستہ کو اپنایا۔ اور فکشن کے موجودہ فارمیٹ اور Conditioning کو توڑتے ہوئے اس اجنبی راستے کو اپنایا، جس پر چلنے والے پہلے مسافر وہ خود تھے۔ بقول انتظار حسین۔

 ’’حقیقت نگاری کا اسلوب اپنی آخری عمر پوری کر چکا تھا۔ یکایک میں نے ایک افسانہ لکھا۔ آخری آدمی۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ میں جو افسانہ لکھ رہا ہوں ، وہ ان افسانوں سے مختلف ہے ، جو میں دس سال سے لکھ رہا تھا۔ یہ میں نے اُنسٹھ میں لکھا تھا۔ ‘‘

منٹو بھی پاکستان جا کر ہندوستان اور بالخصوص ممبئی کو نہیں بھول سکے۔ لیکن منٹو کا رنگ و آہنگ، طرز بیان اور اسلوب مختلف تھا۔ وہ ماضی سے زیادہ حال اور مستقبل سے قریب تھا۔ اس کے یہاں حقیقت نگاری اور کہیں کہیں خود فریبی کے رنگ نمایاں ہیں۔ خود فریبی یہ کہ واقعات و حادثات کے خوفناک بہاؤ میں بھی وہ زندگی اور تسلی کا سامان کر لیتا ہے۔ انتظار حسین نے ماضی کی سرنگوں کے علاوہ کچھ بھی دیکھنا مناسب نہیں سمجھا۔ ’آخری آدمی‘ میں ، جزیرے میں سمندر کے پانی کا امنڈا چلا آنا تاریخ کے خطرناک پڑاؤ، دو قومی نظریہ، تقسیم اور ہجرت کے المیہ کو سامنے رکھتا ہے۔ الیاسف کی درد سے بھیگی ہوئی آواز بھی مصنف کی ہے ، جہاں وہ اونچی چھت، چھپر کھٹ کا مکان، گھنے درختوں کی شاخوں ، اور بلند برجوں میں اپنے گمشدہ ماضی کی تلاش کر رہا ہے۔ ایک ایسا ماضی جہاں خونخوار بندروں کی زد میں ایک ملک آ گیا تھا، جہاں زنجیریں الجھ گئی تھیں۔ لفظ مٹ گئے تھے — اپنا چہرہ بھی گم ہو گیا تھا۔

’خالی پنجرہ‘ میں اسی درد کی چیخ صاف صاف سنائی دیتی ہے —

’یار امان اللہ، طوطا کہاں گیا؟‘

’اڑ گیا۔ ‘

’کیسے ؟‘

’کھڑکی کھلی رہ گئی، اڑ گیا۔ ‘

’کوئی دوسرا طوطا مٹھو کی جگہ نہیں لے سکتا۔ ‘

’نہیں یار۔ ‘

’کیوں؟‘

’میں نے بتایا، قریب والے امرود کے پیڑ میں طوطے کی ڈاریں بہت اتری ہیں۔ کیا پتہ کسی دن ڈار کے ساتھ وہ بھی چلا آئے۔ پنجرے کو دیکھے تو شاید اسے اپنا چھوڑا ہوا گھر یاد آ جائے۔ ‘

—خالی پنجرہ۔

 

ماضی کے دریچوں سے پرکھوں کی داستان گوئی کی بازیافت کا راستہ کوئی آسان راستہ نہ تھا۔ پریم چند سے اب تک کے افسانوں میں اس داستان گوئی کا فقدان تھا، جس کا دامن مضبوطی سے انتظار حسین نے تھام لیا تھا— اس فن پر انہیں ملکہ حاصل تھا۔ یہ رنگ جب سامنے آیا تو اردو فکشن کی دنیا ایک نئے ذائقہ سے مانوس ہوئی۔ یہ لہجہ نیا تھا، اسلوب منفرد، اس میں پرکھوں کے سنے سنائے قصوں ، جاتک کتھاؤں ، داستانوں ، اساطیر، دیو مالا، بوڑھی نانی اماں اور دادی اماں کے ہونٹوں سے نکلے ہوئے قصوں ، کہانیوں کی مہک شامل تھی۔ ترقی پسندی اور جدیدیت سے الگ یہ منفرد رنگ تھا جو داستانوں کی واپسی کا اعلان کر رہا تھا— یہ رنگ ان کے افسانوی مجموعے گلی کوچے ، کنکری، آخری آدمی، شہر افسوس، کچھوے ، خیمے سے دور، خالی پنجرہ، شہزاد کے نام، نئی پرانی کہانیاں ، سمندر اجنبی ہے ، ہندوستان سے آخری خط، جاتک کہانیاں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے ناول آگے سمندر ہے ، بستی، چاند گہن میں بھی شکستہ اور تاریخی عمارتوں کے حوالے سے ، سمندر کی گھن گرج، بستی سے بلند ہونے والی مبہم چیخیں ، تاریخ کے نقوش، ہجرت کے زخم اور ماضی کی گپھاؤں میں قید شب و روز کا سراغ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایک اقتباس دیکھیے۔

 ’’ہمارا خاندان ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بٹ کر بکھر گیا ہے اور میں اب لب گور بیٹھا ہوں سوچتا ہوں کہ میرے پاس جو امانت ہے اسے تم تک منتقل کر دوں کہ اب تم ہی خاندان کے بڑے ہو، مگر اب حافظے کے واسطے ہی سے منتقل کی جا سکتی ہے — خاندان کی یادیں مع شجرہ نسب قبیلہ بھائی صاحب اپنے ہمراہ ڈھاکہ لے گئے تھے — جہاں افراد خانہ ضائع ہوئے وہاں وہ یادگاریں بھی ضائع ہو گئیں۔ ‘‘

                        —ہندوستان سے ایک خط— انتظار حسین

وہ ایک ایسے وقائع نگار ہیں جس کی نگاہوں سے کچھ بھی اوجھل نہیں۔ جو یادگاریں ضائع ہو گئیں ، ان کے نقوش ان کی کتابوں میں زندہ ہیں — چراغوں کا دھواں ، لکھا تو گزرے شب و روز کا نگار خانہ سجا دیا۔ انتظار حسین کی پہلی تحریر بھی تقسیم اور ہجرت سے متعلق تھی اور اس کا موضوع لسانیات تھا۔ ابتدائی دنوں میں محمد حسن عسکری کا سا تھا ملا اور ان کے بلاوے پر انہوں نے پاکستان جانا قبول کیا۔ لیکن قیاس ہے کہ وہ ارادہ پہلے ہی کر چکے تھے۔ اس لیے کہ ان کی کہانیوں میں ہجرت، تقسیم اور ماضی کے بوسیدہ اوراق سے جو کولاژ بنتا نظر آتا ہے وہ کہیں نہ کہیں قاری کو ایک ایسا شاک دیتا ہے جس سے باہر نکلنا مشکل ہو جاتا ہے — آخری آدمی سے شہر افسوس، زرد کتا، نر ناری کے علامتی اور استعاراتی نظام میں اس چیخ کی گونج پوشیدہ ہے ، جسے سینے سے لگائے ہوئے انتظار حسین نے زندگی کے ۹۳ سال کا عرصہ گزار دیا۔ آخری آدمی میں بندروں میں تبدیل ہوتے انسانوں میں الیاسف اکیلا تھا جو اپنا چہرہ، بچانے میں آخر تک کامیاب رہا تھا۔ پروفیسرگوپی چند نارنگ نے اس افسانے کے بارے میں لکھا— ’اخلاقی اقدار کی شکست اور اجتماعی اطمینان کے فقدان کے نتیجے میں ایسا نفسی انتشار ہے کہ انسان بحیثیت انسان اپنی جون کو بھی برقرار نہیں رکھ پا رہا۔ انتظار حسین کی ایک اور کہانی ’وارد ہونا شہزادہ تورج کا شہر کاغذ آباد میں اور عاشق ہونا ملکہ قرطاس جادو‘ پر اسی فکر کو آگے بڑھاتی ہے۔ شہزادہ تو رج نے بستی میں قدم رکھا تو نئی حیرت سے دوچار ہوا۔

 ’’وہ چند قدم چلا تھا کہ کئی لوگ کھڑبڑ، کھڑبڑ کے شور کے ساتھ چلتے نظر آئے۔ اس نے غور کیا تو اسے لگا، یہ آدمی تو سب کاغذ کے پتلے ہیں۔ وہ حیرت سے ارد گرد نظر ڈالتا ہوا بڑھا چلا جا رہا تھا کہ ایک نانبائی کی دکان نظر آئی۔ دیکھا کہ ایک چٹائی پر بیٹھ کر کچھ لوگ کھانا کھا رہے ہیں۔ اسے بھی بھوک لگی— بڑھ کر وہ بھی کھانے والوں میں شامل ہو گیا۔ مگر جب نان ہاتھ میں آیا اور اس نے نوالہ توڑا تو وہ سخت پریشان ہوا کہ یہ تو کاغذ کا نان تھا۔ اس نے غصے سے نانبائی کو دیکھا اور کہا، اے شعبدہ باز! تو نے روٹیوں کا یہ جعلی کاروبار کیوں شروع کیا؟

سب نے چیخ کر کہا۔ یہ گندم کی روٹیاں ہیں۔ تو غریب نانبائی پر کاغذ کی ملاوٹ کی تہمت لگاتا ہے۔

تورج کی ملکہ سے ملاقات ہوتی ہے۔ وصل کا لمحہ آتا ہے تو جیسے کورے کاغذ کا تھان کھلتا چلا جاتا ہے۔ تورج غصہ ہو کر کہتا ہے۔ اب میں سمجھا۔ یہ سیلے ہونٹ… سب دھوکہ۔ تو بھی کاغذ کی نکلی۔ یہ تیرا کاغذی سحر ہے کہ اس شہر میں آدمی اب آدمی نہیں رہے۔ کاغذ کے پتلے بن گئے ہیں۔ اس نے گھوڑا دوڑایا ہے۔ مگر گمان ہوا کہ کاغذی سحر ہنوز اس کے تعاقب میں ہے۔ ‘

آخری آدمی کے بندر سے کاغذی سحر تک جدید عہد کی مادیت پرستی کی ایسی مثالیں سامنے آتی ہیں جسے قبول کرنے کے لیے انتظار حسین تیار نہیں تھے۔ آدمی کی جون کا تبدیل ہونا انہیں گوارہ نہیں تھا۔ اعلیٰ اخلاقی قدروں سے محرومی کی فضا انہیں راس نہیں آئی۔ معاشرتی رشتوں کیشکست، منافقت، ریاکاری، تہذیبوں کے زوال نے ان کے اندر ایک ایسے افسانہ نگار کو بیدار کیا تھا جو حال سے مایوس اور مستقبل سے خوفزدہ تھا۔ اور اس لیے ماضی کے برجوں ، فصیلوں ، شاخوں ، درختوں اور ان پر بیٹھنے والے پرندوں کی کہانیاں سناتے ہوئے انہیں اس بات کا اطمینان تھا کہ پرندے ڈار سے بچھڑتے کہاں ہیں۔ وہ لوٹ آتے ہیں۔ اسی تلاش میں وہ ہندوستان بار بار آیا کرتے تھے۔ اور ایسے آیا کرتے تھے جیسے وہ یہاں سے کبھی گئے ہی نہ ہوں۔ وہ یہاں کے تمام راستوں ، گلی کوچوں ، ندیوں ، پہاڑوں اور طلسم سے آگاہ ہوں۔ اورل اہور جانے کے بعد بھی علی بابا کی طرح طلسم کی چابی ان کے پاس رہ گئی ہو۔ اور اس چابی سے جب بھی انہیں وقت ملتا، وہ چالیس چوروں کے خزانہ والا، طلسمی دروازہ کھول لیا کرتے تھے — وہ پاکستان بس گئے تھے لیکن ان کے دل کی دھڑکنوں میں ہندوستان ہمیشہ آباد رہا۔ شہزادہ تورج سے الیاسف تک اپنے ہر کردار اور واقعات کے پس پردہ انہیں ہجرت کا درد ستاتا رہا۔ وہ Loud کبھی نہیں ہوئے۔ انہوں نے اپنے ہم عصروں سے مختلف راستہ اپنایا۔ قیاس ہے کہ یہ راستہ بہت حد تک جلال الدین رومی، رسول حمزہ توف اور خلیل جبران کا راستہ تھا۔ عشق کے اپنے پڑاؤ اور اپنے مقام ہیں۔ سب سے بہتر مقام وہ کہ جہاں صحرا کی ویرانی اور سناٹے میں بھی اپنے محبوب کو یاد کیا جا سکے۔ ایک مقام یہ کہ کسی نے اپنے باطن کو ترک کیا اور محبوب کی لازوال سلطنت حاصل ہو گئی۔ حضرت سلطان ابو بن ادھم کو ترک سلطنت کے بعد جو دولت ملی، وہ محلوں میں حاصل نہ ہو سکی۔

 ہندوستان کو عشق کہا جائے تو ترک وطن نے انتظار حسین کی تحریروں کو آتش محبت کی نذر کر دیا۔ اپنی کہانی ’آخری موم بتی‘میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں۔ ’اگر میں نے ماضی کا صیغہ استعمال کیا ہے تو اس سے کسی کو کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے۔ مجھے یہ پورا محلہ ہی ماضی کا صیغہ نظر آتا ہے۔ ‘‘ محلہ کی جگہ پاکستان رکھ دیجئے تو پاکستان میں زندگی بسر کرنے کے باوجود وہ کبھی ماضی کی گپھاؤں سے باہر نکلے ہی نہیں۔ ’آخری موم بتی‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔

 ’’سڑک سے لگی ہوئی مٹھن لال کی بغیچی تھی۔ جہاں بیلا چنبیلی کے درخت سفید سفید پھولوں سے لدے کھڑے تھے۔ ان سے دور نیم کے نیچے رہٹ چل رہی تھی۔ چبوترے پر لالہ مٹھن کھڑے تھے ، ننگے پیر، ننگے سر، بدن پر لباس کے نام ایک بد رنگ دھوتی۔ گلے میں سفید ڈورا۔ ایک ہاتھ میں پتیلی کی گڑہٹھ۔ دوسرے میں نیم کی دتون۔ لالہ کے طور طریقوں میں ذرا بھی فرق نہیں آیا۔ سویرے منہ اندھیرٹٹی اور اشنان کو گھر سے نکل بغیچی پہنچتے ہیں جنگل سے واپسی پر رہٹ پر بیٹھ کر پیلی مٹی سے گڑئی مانجھتے ہیں۔ نیم کی دتون کرتے ہیں۔ جتنی دنتون کرتے ہیں ، اتنا ہی تھوکتے ہیں۔ بازار ابھی بند تھا۔ موتی حلوائی کی دکان کھل گئی تھی۔ چولہا ابھی گرم نہیں ہوا تھا… میرا عقیدہ ہے کہ جسے علی گڑھ نہیں بگاڑ سکتا، اسے دنیا کی کوئی برائی نہیں بگاڑسکتی۔ ‘‘

        —آخری موم بتی

یہاں علی گڑھ کی یادیں ہیں۔ لالہ مٹھن لال اور موتی حلوائی کا ذکر ہے۔ اور ان کا مشاہدہ اس قدر گہرا تھا کہ پرانی، چھوٹی چھوٹی باتیں بھی ان کے حافظہ کا حصہ بن گئی تھیں انتظار حسین کے انتقال کے دوسرے دن پاکستان کے روزنامہ ایکسپریس نے ان کا آخری کالم ’بندگی نامہ‘ شائع کیا۔ عربی زبان کا شناور خورشید رضوی—یہ کالم پاکستان کے مشہور ادیب خورشید رضوی پر ہے لیکن اس کا آخری کالم میں بھی انتظار حسین کے مخصوص رنگ و آہنگ کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔یہ اقتباس دیکھئے۔

 ’’جب صحن میں داخل ہوا تو میری نگاہوں کو کولابیری کی تلاش تھی— لیکن کولا بیری ہی کیوں؟ اس صحن میں تین بیریاں تھیں۔ جن کے بیروں کی شکل و صورت اور ہر ایک کا الگ الگ ذائقہ اب تک یاد تھا۔ دو کے بیچ جو تیسری بیری تھی وہ کولابیری تھی۔ اس کی جڑ میں سیڑھیوں سے لگی ہوئی ایک کیاری تھی۔ جس میں ۶ برس کی عمر میں ، میں نے گندم کے کچھ دانے بوئے تھے۔ اور ان کے انکھوئے پھوٹنے کا مجھے انتظار تھا۔ مگر اب نہ صحن میں بیری تھی، نہ کھٹی بیری نہ کو لا بیری۔ نہ اس کے برابر دیوار سے لگی ہوئی مہکار بکھیرتی جو ہی— لیکن مٹی کے انبار کے نیچے وہ کیاری اب بھی وہیں تھی، وہ انکھوئے بھی جو ساٹھ برس بعد بھی مرجھائے نہیں تھے۔ ‘‘

٭٭٭

 

’آج گزشتہ کی راکھ میں انگلیاں پھیرتے ہوئے جس چنگاری کی تپش میں میری پوریں جل اٹھی ہیں۔ وہ ان زبانوں ، روایتوں ، تلمیحوں اور علامتوں کا افسوسناک زوال ہے جو ہمارے ادب کو ماضی سے مربوط رکھتے ہوئے اسے آئندہ کے سفر پر روانہ ہونے کا حوصلہ بخشتی تھیں …‘‘

یہ انتظار حسین کی آخری تحریر ہے۔ غور کیجئے تو ایسا لگتا ہے ، جیسے انہیں اپنی موت کی مہک لگ چکی تھی۔ خورشید رضوی کے بہانے سے انہوں نے اپنے دل کی بات رکھ دی۔ داستان گو رخصت ہوا۔ لیکن رخصتی سے قبل بھی، اس کی خواہش تھی کہ سیدھے سادے الفاظ میں دل کی بات بتا دی جائے۔ ’انکھوئے ساٹھ سال بعد بھی مرجھائے نہیں۔ کیاریوں میں دبے رہے ، ماضی کی شدت اور مہک کیسے گم ہو سکتی ہے ؟یہ اشارہ کافی ہے کہ وہ ماضی کے صیغہ سے باہر نہیں آ سکے۔ پرانی داستانوں کی آمیزش سے حقیقت کے پتھریلے راستوں پر چلتے ہوئے بھی ان کی نگاہیں کھٹی میٹھی گولا بیری، اور مہکار بکھیرتی جو ہی کو تلاش کر رہی تھیں۔یہ ماضی انتظار حسین نے اپنی کہانیوں میں اس طرح بکھیر دیا کہ پرانی داستانوں کا رس بھی باقی رہا، اور ایک ایسا داستانی رنگ اختیار کیا جہاں ماضی کے ساتھ ساتھ حقیقت کے افسانوں کے رنگ بھی شامل ہو گئے تھے۔ لیکن جاتے جاتے ہمارے اس آخری داستان گو کو اس بات کا ملال رہا کہ روایتوں ، تلمیحوں اور علامتوں کا افسوسناک زوال شروع ہو چکا ہے۔یہ حقیقت ہے — اور اس سے انکار ممکن نہیں ، ادب کو ماضی سے مربوط رکھنے والے سفر پر روانہ ہو گئے۔ اب خاموشی ہے ، سناٹا ہے ، اور یادیں ہیں۔ وہ اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ گئے ہیں۔ ان سوالوں کا جواب دینا ابھی آسان نہیں۔ کیا ہمارا ادب مردہ ہو چکا ہے ؟ کیا ماضی کی روایتوں کو گلے لگائے بغیر عمدہ ادب تحریر نہیں کیا جا سکتا—؟ کیا حال اور مستقبل کو نظرانداز کرنا ضروری ہے ؟ کیا اردو فکشن کا زوال شروع ہو چکا ہے ؟

’چونکہ گل رفت و گلستاں شد خراب

بوئے گل را از کہ جوئیم از گلاب‘

جب پھولوں کا موسم گزر گیا۔ گلستاں تباہ ہو گیا تو ہم پھول کی خوشبو کس سے تلاش کریں۔ عرقِ گلاب سے ؟ داستانوں کا موسم گزر گیا۔ کچھ باتیں یاد آتی ہیں۔ جن کا تذکرہ یہاں ضروری سمجھتا ہوں۔۱۹۸۰ کا زمانہ تھا۔ اردو افسانے میں انتظار حسین کی گونج کچھ اتنی زیادہ تھی کہ میں ان کے تمام افسانوں کا مطالعہ کرنا چاہتا تھا۔ علی گڑھ سے اطہر پرویز کی ادارت میں ایک رسالہ نکلتا تھا ’الفاظ‘— الفاظ نے انتظار حسین پر گوشہ شائع کیا۔ پہلی بار ان کہانیوں کا پڑھنے کا اتفاق ہوا تو سر چکرا کر رہ گیا۔ کیا کہانیاں اس طرح بھی لکھی جا سکتی ہیں۔ ’الفاظ‘ میں انتظار حسین کے حوالہ سے جو مضامین تھے ، ان میں خوب خوب قصیدے پڑھے گئے تھے۔ میں متاثر تو ہوا لیکن دل اس وقت یہ ماننے کے لیے قطعی طور پر تیار نہیں تھا کہ ان افسانوں کی ضرورت کیا ہے ؟ جب ہمارے پاس پہلے سے ہی جاتک کتھائیں ، پنج تنتر اور داستانیں موجود ہیں ، تو ان افسانوں کے مطالعہ کا حاصل کیا ہے۔؟ انکار و اختلاف کا رویہ ایک عمر گزر جانے تک میرے ساتھ رہا۔ اب غور کرتا ہوں تو احساس ہوتا ہے انتظار حسین وہ کر گئے ، جو کوئی دوسرا نہ کر سکا۔ داستان ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں۔ وہ اس راز سے واقف تھے۔ اور اسی لیے قصے کہانیوں کے راستہ سے وہ گمشدہ داستانوں کی پوٹلی لے کر ہمارے سامنے آ گئے۔یہ بات بھی قابل رشک ہے کہ جب جدیدیت کا آغاز ہوا تو اس وقت کے بیشتر ادیبوں نے انتظار حسین کے رنگ و آہنگ اور اسلوب کو اپنانے کی کوشش شروع کی۔ یہ سلسلہ ہنوز قائم ہے۔ مگر انتظار حسین کے معیار تک پہنچنا آسان نہ تھا۔ ایسے کئی افسانہ نگار گمنامی کی آغوش میں چلے گئے۔ جبکہ انتظار حسین کا جلوہ آج بھی برقرار ہے۔

فکشن کے منظرنامہ سے گلزار کا پوٹلی بابا اب بہت دور جا چکا ہے۔ چالیس چوروں کی کہانی ابھی بھی زندہ ہے اور علی بابا کا خزانہ بھی۔ انتظار حسین نے داستان گوئی کی جو روایت شروع کی، وہ کسی انمول خزانہ سے کم نہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ داستانیں گم کہاں ہوتی ہیں … گزشتہ کی راکھ میں انگلیاں پھیرتے ہوئے ، چنگاری کی تپش سے ہم انہیں ہر بار زندہ کر لیتے ہیں۔

٭٭٭

تشکر: تبسم فاطمہ، مدیر اعزازی، جنہوں نے جریدے کی مکمل فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید