FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

آگ کا پرندہ

               رفیع رضا

 

کبھی آتش کبھی مٹی کبھی پانی سے نکل

بے نشاں بھی کوئی آتا ہے نشانی سے نکل

وُہی مٹی ہے وُہی چاک وُہی تُو وُہی مَیں

جانے کیا جاتا ہے پھر میری روانی سے نکل

تُو نے کیوں وقت سے پہلے یہاں ڈیرہ ڈالا

اے تھکن چھوڑ مُجھے میری جوانی سے نکل

گھیر لیتا ہے کسی رُوح ِ مُعطر کی طرح

مَیں نے جانا ہے مگر عالمِ فانی سے نکل

اے مرے عشق بنا ایک ٹھکانہ کوئی

اب نکلنا ہے تو اس نقل مکانی سے نکل

***

 

بہت بُرا ہُوں! کسی کا بُرا نہ کر پایا

وُہ اس لئے کہ کبھی بد دُعا نہ کر پایا

وُہ میرے دل میں رہے میرے دوستوں کی طرح

مَیں دُشمنوں سے بھی خُود کو جُدا نہ کر پایا

مَیں کائنات کے دل سے بندھا ہُوا سُر تھا

خلا کا حبس مُجھے بے صدا نہ کر پایا

اگر چہ پھُونک لیا اپنے جسم پر اس کو

مَیں اسم ِ خاک سے رد ِ بلا نہ کر پایا

اگرچہ جان گیا تھا خُود اپنی زد پر ہُوں

مگر مَیں اپنا نشانا خطا نہ کر پایا

وُہ لوگ ذکر ِ محمد سے روکنے لگے تھے

مَیں شہر میں کہیں صل ِ علیٰ نہ کر پایا

قصور وار ہُوں آگے نکل گیا ہُوں کہیں

مَیں لامکاں پہ رضاؔ ، اکتفا نہ کر پایا

***

 

کرتا رہُوں گا حمد و ثناء سخت کافرم

"گر کُفر ایں َبَود بخُدا سخت کافرم”

سنگسار کر رہے ہیں مُسلمان میرا دل

سنگسار ہو رہا ہے خُدا سخت کافرم

باہر مَیں جب صلیب سے جا کر گلے مِلا

اندر سے ایک شور اُٹھا سخت کافرم

کوہِ ندا کے سامنے کس کو مجال تھی

سب چُپ رہے تو مَیں نے کہا سخت کافرم

مَیں نے کہا کہ "نرم دلی” کُچھ دکھائیے

مُفتی نے سُن کے فتویٰ دیا سخت کافرم

لوگوں نے بے دریغ لُغت ساری لُوٹ لی

جو بچ گیا تھا اُس سے بنا سخت کافرم

آخر مُجھے بچانا بھی تھی رسمِ اولیاء

سو مَیں نے خود پہ پھونک لیا سخت کافرم

مٹنی نہیں لکیر یہ میری کھنچی ہُوئی

پتھر پہ لکھ چُکا ہُوں رضاؔ سخت کافرم

***

 

غیب کا ہاتھ مرے ہاتھ میں آ سکتا ہے

کُوزہ گر چاک سے اب مُجھ کو اُٹھا سکتا ہے

تُو نے سوچا نہیں طائف سے گُزرتے ہُوئے شخص

کوئی پتھر تُجھے ادراک میں لا سکتا ہے

وقت سے آگے نکلتے ہوئے سوچا بھی نہ تھا

وُہ مرے ساتھ یہ دیوار چلا سکتا ہے

کیا مَیں امداد کو آیا ہُوا آنسو روکوں

یا فرشتہ یہ مری آنکھ سے جا سکتا ہے

حیرتی ہُوں سو مری کون ضمانت دے گا

کوئی منظر ہو ، مُجھے وجد میں لا سکتا ہے

پھڑپھڑاتے ہُوئے شُعلے سے بندھی جان بھی ہے

اس پرندے کو دیا کیسے اُڑا سکتا ہے

پھول کے جسم کو دیکھوں کہ مہک کو سمجھوں

یہ تعلق تو کسی سمت بھی جا سکتا ہے

اب مرے لوگ مرے مدِ مقابل ہیں رضاؔ

اب یہ آسیب مرے مُلک کو کھا سکتا ہے

***

 

زمیں کا بوجھ اور اُس پر یہ آسمان کا بوجھ

اُتار پھینک دُوں کاندھوں سے دو جہان کا بوجھ

پڑا ہُوا ہُوں مَیں سجدے میں کہہ نہیں پاتا

وُہ بات جس سے کہ ہلکا ہو کُچھ زُبان کا بوجھ

پھر اس کے بعد اُٹھاؤں گا اپنے آپ کو مَیں

اُٹھا رہا ہُوں ابھی اپنے خاندان کا بوجھ

دبی تھی آنکھ کبھی جس مکانِ حیرت سے

اب اُس مکاں سے زیادہ ہے لامکان کا بوجھ

اگر دماغ ستارہ ہے ، ٹوٹ جائے گا

چمک چمک کے اُٹھاتا ہے آسمان کا بوجھ

تو جھُرّیوں نے لکھا اور کیا اُٹھاؤ گے؟

اُٹھایا جاتا نہیں تُم سے جسم و جان کا بوجھ

پلٹ کے آئی جو غفلت کے اُس کُرے سے نگہ

تو سلوٹوں میں پڑا تھا مری تھکان کا بوجھ

جو عُمر بیت گئی اُس کو بھُول جاؤں رضاؔ

پرِ خیال سے جھٹکُوں گئی اُڑان کا بوجھ

***

ایک دیوار ہے دیوار سے اُونچا ہونا

میرے ” معیار” کا معیار سے اُونچا ہونا

یہ مرا وقت ہے اور یُوں بھی مشیّت ہے میاں

نئے سُورج کا شبِ تار سے اُونچا ہونا

یہ جو دستار ہے یہ طفل تسلی ہے تُمھیں

مُجھ کو خُوش آتا ہے کردار سے اُونچا ہونا

اُسی رفتار سے نیچے بھی مَیں گِر سکتا ہُوں

اتنا آساں نہیں رفتار سے اُونچا ہونا

ورنہ کیوں برق مرے سر کا سہارا لیتی

کام آیا میرا مینار سے اُونچا ہونا

کون اب دے گا گھنی چھاؤں مُجھے، کوئی نہیں

خُود ہی چاہا تھا ان اشجار سے اُونچا ہونا

سوچ اے قصرِ مذلّت میں سسکتے ہُوئے شخص

تُو نے چاہا نہیں ایثار سے اُونچا ہونا

تیری مٹی ۔ میری مٹی ۔ یہ ہماری مٹی

ایک بے کار کا بیکار سے اُونچا ہونا

***

 

جانے یہ صرف مری کور نگاہی کوئی ہے

یا حقیقت میں اُفق پر بھی سیاہی کوئی ہے

یہ کھنڈر  یُونہی نہیں چھوڑ ے گئے ہیں، ان میں

خلق کے واسطے پیغامِ الہی کوئی ہے

روز دی جاتی ہے منبر سے جو ترغیبِ فساد

اس سے بڑھ کر بھی زمانے کی تباہی کوئی ہے؟

مَیں نہیں مانتا مذہب کی عقیدے کی دلیل

کیا محبت کے خلاف اور گواہی کوئی ہے

آپ شاعر بھی ہیں نقاد بھی فرعون بھی آپ

آپ نے بات بھلا میری سراہی کوئی ہے

مَیں نہیں مانتا پانی پہ بنے نقش و نگار

آپ کے ہاتھ میں جو فتویِ شاہی کوئی ہے

کیا اسے آپ خُود اپنے لئے کرتے ہیں پسند ؟

آپ نے بات مرے حق میں جو چاہی کوئی ہے

امن کی راہ پہ جاتا ہُوں قدم مارتا مَیں

ساتھ آ جائے گر اِس راہ کا راہی کوئی ہے

***

رات مَیں شانۂ ادراک سے لگ کر سویا

بند کی آنکھ ، تو افلاک سے لگ کر سویا

اُونگھتا تھا کہیں محراب کی سرشاری میں

اک دِیا سا کسی چقماق سے لگ کر سویا

ایک جلتا ہُوا آنسو جو نہیں سوتا تھا

دیر تک دیدۂ نمناک سے لگ کر سویا

ان گنت آنکھیں مرے جسم پہ چُندھیائی رہِیں

بُقعۂ نُور مری خاک سے لگ کر سویا

کُوزہ گر نے مرے بارے میں یہ دفتر میں لکھا

چاک سے اُترا مگر چاک سے لگ کر سویا

نیند کی شرط تھی تنہا نہیں سونا مُجھ کو

ہجر تھا سو اسی سفّاک سے لگ کر سویا

رات کانٹوں پہ گُزاری تو سویرے سوچا

کس لئے خیمۂ عُشاق سے لگ کر سویا

نیند سُولی پہ چلی آئی سو زخمِ عُریاں

اپنی اِک خواہشِ پوشاک سے لگ کر سویا

***

 

وُسعتِ شرم کو اندوہِ ندامت لکھا

مَیں نے یک چشم کو یک راہِ بصارت لکھا

مَیں نے لکھا کہ صفِ دل میری زریون ہُوئی

یعنی اس واسطے یہ اسمِ ندامت لکھا

کیا ہنومان ابھی تک وہیں لاہور میں ہے؟

ظفر اقبال نے جس حُسن کو قامت لکھا

یہ سفر دُم کو ہلانے کا نہیں ہے مخدوم

جُنبشِ دُم کو ہی کیا تُو نے مُسافت لکھا

تُرک بھائی سے لڑی کشمکشِ بخیہ گری

بے اجازت کو سلیقے سے اجازت لکھا

لکھنے والوں نے قلم ہاتھ میں اُلٹے پکڑے

اور ہونے کو نہ ہونے کی وضاحت لکھا

اشک اوروں نے لکھے مَیں نے غبارے چھوڑے

باعثِ یار علیؔ حرفِ شرارت لکھا

کوئی بہتان لگانا بھی کبھی چھوڑتا ہے؟

گُل و گُلناز کو مائل بہ رقابت لکھا

حدِ بستر پہ سرکتی ہُوئی پرواز لکھی

اور بے بال چُڑیلوں کو کہاوت لکھا

چال دُلکی کی چلی جھنگ کی گھوڑی ہر سمت

تُرک و بہزاد و علی سب کو مہاوت لکھا

ناقدِ سخت نے تضمین جو لکھی ہے حضور

پانچ منٹوں میں یہاں حرفِ بشارت لکھا

اتنے دعووں سے گُزر کر یہ خیال آتا ہے

اپنے یاروں کے لئے لفظ "محبت” لکھا

***

پناہ مانیے خُود ساختہ "بزرگوں "سے

کبھی حساب تو لے گا خُدا "بزرگوں "سے

کُچھ ایسی جنگ ہُوئی نوجواں "فرشتوں” میں

گلہ نہیں کوئی باقی رہا”بزرگوں "سے

جو چاہیئے وُہ بصارت نہیں بصیرت تھی

پڑھا گیا نہ ہمارا لکھا "بزرگوں "سے

اگر چہ عشق کی گردان کرنے والے تھے

کبھی نہ کلمۂ حیرت سُنا "بزرگوں "سے

نظر کو دُور سے آ کر ملی وُہ ریشِ دراز

مگر وُہ نُورِ خُدا کب ملا "بزرگوں "سے

مَیں ٹمٹماتا رہا اُن کی بُجھتی آنکھوں میں

بُجھایا جا نہ سکا اک دیا” بزرگوں” سے

حدیثِ کون و مکاں بھی پڑھا رہے ہیں مُجھے

اگرچہ عُمر میں ہُوں مَیں بڑا” بزرگوں” سے

وُہی ہیں بھیس میں اب صُوفیوں کے پیروں کے

عطا ہُوا جنہیں بُغض و ریا” بزرگوں "سے

اُتاری غیب سے جیسے مری غزل کی ردیف

اسی طرح مُجھے مالک! بچا "بزرگوں” سے

***

 

مرا گُمان مرا پہلا دین ہونے لگا

جو دیکھتا گیا اُسکا یقین ہونے لگا

مُجھے نکال کے اُس دشتِ بے توجہ سے

ہر ایک شخص مرا جانشین ہونے لگا

وُہ جسکو مَیں نے بُلا کر بٹھایا پہلو میں

مُجھے دھکیل کے مسند نشین ہونے لگا

جو سر ہلانے لگا دوستوں کی مرضی سے

اُسے بتایا گیا وُہ ذہین ہونے لگا

یہ کائنات مری آنکھ میں رُکی کیسے

یہ آسمان کہاں بے زمین ہونے لگا

سُخن میں آگ لگاتے رہے مرے نمرود

سو حرف حرف مرا بہترین ہونے لگا

تو یہ بھی نام ِ محمد کی اک کرامت ہے

کہ لامکاں مرے دل میں مکین ہونے لگا

***

 

اگرچہ وقت مناجات کرنے والا تھا

مرا مزاج سوالات کرنے والا تھا

مُجھے سلیقہ نہ تھا روشنی سے ملنے کا

مَیں ہجر میں گُزر اوقات کرنے والا تھا

مَیں سامنے سے اُٹھا اور لوَ لرزنے لگی

چراغ جیسے کوئی بات کرنے والا تھا

کھُلی ہوئی تھیں بدن پر رُواں رُواں آنکھیں

نجانے کون مُلاقات کرنے والا تھا

وُہ میرے کعبۂ دل میں ذرا سی دیر رُکا

یہ حج ادا وُہ مرے ساتھ کرنے والا تھا

کہاں یہ خاک کے تودے تلے دبا ہوا جسم

کہاں میَں سیرِ سماوات کرنے والا تھا

***

 

آنا جانا ہے تو قامت سے تُم آؤ جاؤ

درِ اظہارِ مروت سے تُم آؤ۔۔جاؤ

وُہ تحیّر جو تُمھیں لے کے یہاں آیا تھا

اُس تحیّر کی وساطت سے تُم آؤ جاؤ

ہم کسی سمت بگولوں کو نہیں روکتے ہیں

گرمیِ ذوقِ  شرارت سے تُم آؤ جاؤ

کف اُڑانے پہ بھی پابندی نہیں ہے کوئی

ہاں مگر تھوڑی نفاست سے تُم آؤجاؤ

ہمیں اُمیدِ بلاغت تو نہیں ہے تُم سے

بس ذرا تھوڑی بلوغت سے تُم آؤ جاؤ

کس نے روکا ہے سرِ راہِ محبت تُم کو

تُمھیں نفرت ہے تو نفرت سے تُم آؤ ۔۔جاؤ

تُم کہ طفلانِ ادب ساتھ لگائے ہُوئے ہو

کسی منقول شریعت سے تُم آؤ جاؤ

ہم نے اشعار کا دروازہ کھُلا رکھا ہے

جب بھی جی چاہے سہولت سے تُم آؤ جاؤ

***

وُہ تھک نہ جائے کہیں اُس کا ڈر لگا ہوا ہے

مُجھے تھکانے میں جو ہم سفر لگا ہوا ہے

مُجھے ہٹا کے بھلا تُم کہاں سے گُزرو گے

اگر یہاں مرے ہونے  سے ڈر لگا ہوا ہے

یہ روشنی کا شجر ہے کوئی چراغ نہیں

یہ لوَ نہیں ہے یہ اس پر ثمر لگا ہوا ہے

یہ اور بات کہ ڈھنڈورا پیٹتا نہیں مَیں

اگرچہ دھیان مرا بھی اُدھر لگا ہوا ہے

لہو پروں میں کسی اور کا نہیں پیارے

مری اُڑان میں میرا ہُنر لگا ہوا ہے

یہ لوگ ایسے مرے شعر کو کُریدتے ہیں

کہ جیسے کوئی تماشائے زَر لگا ہوا ہے

اک آخری یہی صُورت بچی علاج کی تھی

سو عزرَئیل یہاں چارہ گر لگا ہوا ہے

***

 

دیوار ہی نہیں ہے تو در دیکھتا ہے کیا

پاگل ہوا ہے دشت میں گھر دیکھتا ہے کیا

پتھرا گئی زُبان بھی کیا آنکھ کی طرح

منظر سے کوئی بات بھی کر دیکھتا ہے کیا!

وُہ شہرِ بے اماں تو کہیں راکھ ہو گیا

پلکوں سے اب یہ آنسو اُتر دیکھتا ہے کیا

اے آسمان! پہلے مُجھے کُچھ جواب دے

میں تو اِدھر کھڑا ہوں، اُدھر دیکھتا ہے کیا

مٹی سے تُو بنا، تیری مٹی سی تھی اُڑان

اب ٹوٹ کر گریں ہیں تو پر دیکھتا ہے کیا

کیا پوچھتا ہے راہرووں کو تُو روک روک

رستہ کسی کی راہ گُزر دیکھتا ہے کیا

کس ڈور سے بندھا ہے کہ کھنچتا ہے بار بار

مُڑ مُڑ کے رہ کو شہر بدر دیکھتا ہے کیا

موجیں بدن کو چھوڑ کے یہ دیکھنے لگیں

اتنا اُبھر اُبھر کے یہ سر ، دیکھتا ہے کیا

مُرجھا گیا ہے شاخ پہ کب سے کھلا ہوا

اب اپنے گُل بدن کو شجر دیکھتا ہے کیا

وُہ دیکھنے کی چیز نہیں ماننے کی ہے

پروردگار کو بھی بشر دیکھتا ہے کیا

کیا تُو بھی مِل گیا ہے رضا آسمان سے

اتنے سُکوں سے رقصِ شرر دیکھتا ہے کیا

***

مشغلہ گھر کو بنانا نہیں، گھر توڑنا ہے

اب مرے شہر کے لوگوں کا ہُنر، توڑنا ہے

دن نکلتا ہے فقط فیصلہ کرنے کے لئے

موت کے ہاتھ نے کس شاخ سے سر توڑنا ہے

کون شہروں پہ مرے،گھات لگائے ہُوئے ہے

کس نے آسیب کا مکروہ ثمر توڑنا ہے

خالی توڑوں تو چھنک مُجھ میں رہے گی میرے دل

ساغرِ درد کو اب درد سے بَھر، توڑنا ہے

کھینچتی رہتی ہے اب بھی مُجھے تیری جانب

یار ! میں نے تری مٹی کا اثر توڑنا ہے !

جذب میں تُو نہیں کامل تو مرا شعر نہ پڑھ

تُو نے کیا میرا تراشیدہ گُہر توڑنا ہے!!!

یہ جو سجدے سے اُٹھا کر لئے جاتا ہے رضاؔ

یہ کمر کسنا نہیں پیارے ! کمر توڑنا ہے !!

***

 

مَیں اپنی آنکھ کو اس کا جہان دے دُوں کیا

زمین کھینچ لُوں اور آسمان دے دُوں کیا!!

مَیں دُنیا زاد نہیں ہوں مُجھے نہیں منظور

مکان لے کے تُمھیں لامکان دے دُوں کیا

کہ ایک روز کِھلا رہ گیا تھا آئینہ

اگر گواہ بنوں تو بیان دے دُوں کیا!!

اُڑے کُچھ ایسے کہ میرا نشان تک نہ رہے

مَیں اپنی خاک کو اتنی اُڑان دے دُوں کیا

یہ لگ رہا ہے کہ نا خُوش ہو دوستی میں تُم

تُمھارے ہاتھ میں تیر و کمان دے دُوں کیا

سمجھ نہیں رہے بے رنگ آنسووں کا کہا

انہیں مَیں سُرخ لہو کی زُبان دے دُوں کیا

سُنا ہے زندگی کوئی تہِ سمندر ہے

بھنور کے ہاتھ میں یہ بادبان دے دُوں کیا

یہ فیصلہ مُجھے کرنا ہے ٹھنڈے دل سے رضاؔ

نہیں بدلتا زمانہ تو جان دے دُوں کیا

***

 

پیڑ سُوکھا حرف کا اور فاختائیں مر گئیں

لب نہ کھولے تو گھُٹن سے سب دُعائیں مر گئیں

ایک دن اپنا صحیفہ مُجھ پہ نازل ہو گیا

اُس کو پڑھتے ہی مری ساری خطائیں مر گئیں

یاد کی گُدڑی کو میں نے ایک دن پہنا نہیں

ایک دن کے ہجر میں ساری بَلائیں مر گئیں

مَیں نے مُستقبل میں جا کر ایک لمبی سانس لی

پھر مرے ماضی کی سب حاسد ہوائیں مر گئیں

مَیں نے کیا سوچا تھا اُن کے واسطے اور کیا ہوا

میرے چُپ ہونے  سے اندر کی صدائیں مر گئیں

اِس طرف مٹی تھی میرے اُس طرف اک نُور تھا

مَیں جیا !، میرے لئے دو انتہائیں مر گئیں۔!!۔

***

 

کھنکھناتی ہوئی ہنسی نہ رہی

رہ گیا شہر بَس خُوشی نہ رہی

کوئی چیخا مدد! مدد !! اور پھر

کوئی کھڑکی کہیں کھُلی نہ رہی

صحن اتنے بڑھا لئے سب نے

شہر بھر میں کوئی گلی نہ رہی

قتلِ عالَم اسی کو کہتے ہیں

خواب کی شاخ بھی ہری نہ رہی

تودۂ خاک جتنا پیاسا تھا

اُس قدر آنکھ میں نمی نہ رہی

چل پڑا مَیں بھی قافلے کی طرح

کمر اتنی مگر کَسی نہ رہی

وَ ار اُس نے کِیا ہتھیلی پر

خُود کُشی کی لکیر بھی نہ رہی

***

سکۂ ہجر کہیں اور چلاؤجاؤ!

اور معلوم کرو عشق کا بھاؤ جاؤ!

خیمۂ خواب تعلق سے بندھا ہوتا ہے

کھول کر اس کو کہیں اور لگاؤ جاؤ

شوق ہے تُم کو چراغ اپنا جلانے کا بہت

لَو ہماری ہی سہی یار!۔۔ جلاؤ جاؤ!

تُمھیں معلوم نہیں؟ کیسے مسیحا ہو تُم

وقت بھر دیتا ہے رِستے ہُوئے گھاؤ جاؤ!

طعن و تشنیع یہاں پر تو نہیں بکنے کے

بیچنے والے! دُکان اپنی بڑھاؤ جاؤ !

کارِ دُشوار نہیں کارِ عبث ہے یہ میاں

بھُول سکتے ہو اگر ہم کو بھُلاؤ جاؤ

***

کبھی جو خاک کی تقریبِ رُو نُمائی ہوئی

بہت اُڑے گی وہاں بھی مری اُڑائی ہوئی

خُدا کا شُکر سُخن مُجھ پہ مہربان ہوا

بہت دنوں سے تھی لُکنت زُباں میں آئی ہوئی

یہی ہے غضِّ بصر یہ ہے دیکھنا میرا

رہے گی آنکھ تحیر میں ڈبڈبائی ہوئی

تُمھارا میرا تعلق ہے جو رہے سو رہے

تُمھارے ہجر نے کیوں ٹانگ ہے اڑائی ہوئی

پکڑ لیا گیا، جیسے کہ مَیں لگاتا ہوں

بُجھا رہا تھا کسی اور کی لگائی ہوئی

لہو لہو ہوا سجدے میں دل اگرچہ رضاؔ

شبِ شکست بڑے زور کی لڑائی ہوئی

***

 

خُداؤں کے درمیان

اُس نے اپنی تنہائی میں

اک بے انت خلا کے اندر باہر

اک بے انت جہاں ترتیب دیا

اس بے انت جہاں میں

اور کئی بے انت جہاں ترتیب دیئے

پھر اک آہستہ سے گھومتے سیارے پر

وقت اور نا وقتی کے بیچوں بیچ

اپنے رازِ ازل کو

خُوشبوؤں رنگوں اور تصویروں میں

منشور کیا ۔۔آئینے کو پُر نور کیا۔۔۔

یہ سب کر کے اُس نے کُچھ تو

اپنے پاس ہی رکھا اور

باقی خُود سے دُور کیا۔۔

اس دُور کے اک بھُورے سیارے پر

اور کسی نے قبضہ کر کے

مذہب کا زہریلا جال بچھایا

ہر کوئی اُس کی چال میں آیا

شاید اب بھی وقت پڑا ہے

کیوں نہ ہم سب مِل کر اس بھُورے سیارے پر

کُچھ شور مچائیں۔۔

اپنے اصلی کُوزہ گر کو

روئیں پیٹیں اور بُلائیں

اس دھرتی کو

واپس اُس کے بس میں لائیں

وُہ جس نے

اپنی تنہائی میں

اک بے انت خلا کے اندر باہر

اک بے انت جہاں ترتیب دیا تھا

***

 

سُن اے فلک مَیں تری خامشی سے ڈرتا ہوں

زمیں کے شور میں پھر ہر کسی سے ڈرتا ہوں

یہ آنکھ شہر کی بُنیاد میں لگی ہوئی ہے

مَیں رونا چاہتا ہوں اور نمی سے ڈرتا ہوں

یہ حادثے بھی عجب ہیں سمجھ نہیں پاتے

یہاں مَیں موت نہیں، زندگی سے ڈرتا ہوں

تُو آئینے کی طرح ہے مرے غنیم مُجھے

ترے بغیر مَیں بے چہرگی سے ڈرتا ہوں

نہا گیا ہوں خُود اپنے لہو میں اور ابھی

یہ سُن رہا ہوں کہ اِس روشنی سے ڈرتا ہوں

اسے تو کوئی بھی حیرت لگا کے لے جائے

مَیں اپنی آنکھ کی بے رہروی سے ڈرتا ہوں

وُہ کس کا خوف تھا جس نے مُجھے دلیر کیا

کسی سے ڈرتا نہیں، بُزدلی سے ڈرتا ہوں

 

دُعائیں پڑھتے ہُوئے اس بَدن سے نکلوں گا

پھر اس زمین کے بھُورے کفن سے نکلوں گا

اُتار پھینکوں گا خاکستری لبادے کو

مَیں ایک عُمر کی لمبی تھکن سے نکلوں گا

مُجھے نکلنا ہے آگے اور اس سے آگے بھی

زمیں کے بعد مَیں نیلے گگن سے نکلوں گا

نہ روک پائے مُجھے کوئی روکنے والا

ستارہ تھام کے اس بانکپن سے نکلوں گا

حروف کشف سے آگے کی بات لائیں گے

ضرور مَیں کسی شیریں دَہَن سے نکلوں گا

مُجھے اُتار لیا تُو نے اپنے شیشے میں

مَیں جان ہوں ترے شیشے کی، چَھن سے نکلوں گا

پھر اس کے بعد مَیں روشن رہوں کہ بجھ جاؤں

پر ایک بار تو پُوری اگن سے نکلوں گا

یہ بیکرانی مُجھے روکنے لگی ہے مگر

مَیں اس کے پار رضا اپنے فن سے نکلوں گا

***

تُمھارے ہجر کی ساعت نکال پھینکوں گا

مَیں عشق سے یہ روایت نکال پھینکوں گا

کوئی ستارہ اگر میری راہ میں آیا

تو مَیں یہ مالِ وراثت نکال پھینکوں گا

پروں میں کشف کہاں سے سمیٹ لائی ہے

مَیں آئینے سے یہ صُورت نکال پھینکوں گا

فسادِ خلق مری خانقاہ تک پہنچا

تو مَیں بھی کوئی ولایت نکال پھینکوں گا

سُن اے دریدہ دہن ! میرے پیرہن پہ نہ جا

ابھی میں خاک سے آیت نکال پھینکوں گا

 

تُو نقدِ جان کا طعنہ نہ دے مُجھے پیارے

ترے وصال کی قیمت نکال پھینکوں گا

بُجھا ہوا کوئی منظر مُجھے قبول نہیں

مَیں اپنی آنکھ سے حیرت نکال پھینکوں گا

جو آسمان سے آگے نہ سُن سکے کُچھ بھی

مَیں ایسا ذوقِ سماعت نکال پھینکوں گا

تُم اپنے سانپ بچا لو وگرنہ مَیں بھی رضاؔ

مقابلے میں محبت نکال پھینکوں گا

***

 

ہمارے نام سے مشہور ہو رہے ہیں میاں

کئی پہاڑ یہاں طُور ہو رہے ہیں میاں

تو کیا زمین کی خاطر ہلاک ہو جائیں

کہ سانحے تو بدستور ہو رہے ہیں میاں

ہمارے یار بس اچھے دنوں کے ساتھی تھے

سو ان دنوں کہیں مفرور ہو رہے ہیں میاں

تُمھارے سیم بدن کی قسم اُٹھاتے ہیں

ہم اپنی خاک پہ مغرور ہو رہے ہیں میاں

ہمارا عکس کہاں پُتلیوں میں رکھیں گے

جو آئینوں کی طرح چُور ہو رہے ہیں میاں

ضرور دیں گے تُمھیں مشورہ محبت کا

تُمھارے عشق میں مجبور ہو رہے ہیں میاں

تُمھارے وصل کی خواہش ابھی ادھُوری ہے

تُمھارے ہجر میں بھر پُور ہو رہے ہیں میاں

ہم اپنے جسم پہ نشتر چلا کے چھوڑیں گے

تُمھارے زخم تو ناسُور ہو رہے ہیں میاں

ہمیں ضرور کسی نے چراغ سمجھا ہے

جو سائے ہم سے لگے دُور ہو رہے ہیں میاں

ہمیں خُدائے سُخن نے بتا دیا ہے رضاؔ

غزل میں ہم ابھی مامور ہو رہے ہیں میاں

***

 

مَیں جیتنے سے نہیں ہارنے سے ڈرتا تھا

اسی لئے مَیں کسی معرکے سے ڈرتا تھا

تُجھے پتہ ہے تُجھے کیسے یاد رکھوں گا

دِیا شناس نہیں تھا دیئے سے ڈرتا تھا

مُجھے نکال دیا تُو نے دل کے مکّے سے

یہ اب کھُلا تُو مُجھے ماننے سے ڈرتا تھا

ڈرانے والا تُو پہلا نہیں ہے ، یاد رہے

مَیں تُجھ سے پہلے کسی دُوسرے سے ڈرتا تھا

یہ میرا عکس نہیں ہے یہ تیرا چہرہ ہے

مَیں آئینے کے اِسی زاویئے سے ڈرتا تھا

قریب آ کے بھی صُورت وُہی ہے ڈرنے کی

مَیں پہلے پہل ذرا فاصلے سے ڈرتا تھا

گلے مِلا ہے تو پہچان بھی نکل آئی

پتہ چلا مَیں اِسی حادثے سے ڈرتا تھا

بہا دیا ہے وُہ آنسو بھی آنکھ سے مَیں نے

کہ جس میں عکس ترا ڈُوبنے سے ڈرتا تھا

مَیں کیسے کھیلنے دیتا تُجھے شرارے سے

مَیں سچ کہوں مَیں ترے بچپنے سے ڈرتا تھا

***

کوئی آفت ہے،مُصیبت ہے تو آؤ آؤ

ہم فقیروں کی ضرورت ہے تو آؤ آؤ

آؤ پڑھتے ہیں اُٹھا کے کسی منظر کی حدیث

مسلکِ فقۂ حیرت ہے تو آؤ آؤ

چاہیئے کیا کوئی پرچم کو اُٹھانے والا

یہ اگر عہدِ بغاوت ہے تو آؤ آؤ

لُوٹنے آئے ہو تُم شہرِ محبت ، لُوٹو !

کم اگر مالِ غنیمت ہے تو آؤ آؤ

ہم کو شمشیرِ برہنہ سے ڈرانے والو

یہ اگر عشق کی قیمت ہے تو آؤ آؤ

سنگ اُٹھاؤ، چلو آؤ ہمیں سنگسار کرو !

جسم اک جھُوٹی شریعت ہے تو آؤ آؤ

یہ مشیت کا لکھا ماننے والے نہیں ہم

ہاں اگر وقتِ شہادت ہے تو آؤ آؤ

***

آنکھ سہمی ہوئی ڈرتی ہوئی دیکھی گئی ہے

امن کی فاختہ مَرتی ہوئی دیکھی گئی ہے

کیا ۔۔۔ بچا ۔۔۔ کتنا ۔۔۔۔بچا ۔۔ تاب کسے ہے دیکھے

موجِ خُوں سر سے گُزرتی ہوئی دیکھی گئی ہے

ایسے لگتا ہے یہاں سے نہیں جانے والی

جو سیہ رات ٹھہرتی ہوئی دیکھی گئی ہے

دُوسری بار ہوا ہے کہ یہی دوست ہوا

پَر پرندوں کے کُترتی ہوئی دیکھی گئی ہے

ایک اُجڑی ہوئی حسرت ہے کہ پاگل ہو کر

بَین ہر شہر میں کرتی ہوئی دیکھی گئی ہے

موت چمکی کسی شمشیرِ برہنہ کی طرح

روشنی دل میں اُترتی ہوئی دیکھی گئی ہے

پھر کنارے پہ وُہی شور وُہی لوگ رضاؔ

پھر کوئی لاش اُبھرتی ہوئی دیکھی گئی ہے

***

خواب میں یا خیال میں مُجھے مِل

تُو کبھی خدّوخال میں مُجھے مِل

میرے دل کی دھمال میں مُجھے دیکھ

میرے سُر میری تال میں مُجھے مِل

میری مٹی کو آنکھ دی ہے تو پھر

کسی موجِ وصال میں مُجھے مِل

مُجھے کیوں عرصۂ حیات دیا

اب انہیں ماہ و سال میں مُجھے مِل

کسی صبحِ فراق میں مُجھے چھوڑ

کسی شامِ ملال میں مُجھے مِل

تُو خُود اپنی مثال ہے , وُہ تو ہے

اُسی اپنی مثال میں مُجھے مِل

تیرے شایانِ شاں ہے وصف یہی

کسی وقتِ محال میں مُجھے مِل

میرے کل کا پتہ نہیں میری جاں

تُو ابھی میرے حال میں مُجھے مِل

مُجھے مِل کر عروج دے یا نہ دے

میرے وقتِ زوال میں مُجھے مِل

***

گُل دان میں سجائے ہیں کانٹے بطورِ خاص

وُہ گُل بدن جب آئے تو دیکھے بطورِ خاص

مہنگی سی اک دُکان سے روغن کئے ہُوئے

لایا ہوں مَیں خرید کے تنکے بطورِ خاص

اتنے سیاہ ہجر کا ۔۔۔۔ انعام ۔۔۔ یہ ۔۔۔۔۔ مِلا

آنکھوں کے گرد پڑ گئے حلقے بطورِ خاص

مَیں محوِ آسمان زیادہ ہوں اس لئے

مُجھ کو پڑے ہیں جان کے لالے بطورِ خاص

لائے گئے خرید کے پنجرے بروزِ عدل

پھر مُجرموں نے چھوڑے پرندے بطورِ خاص

ہاتھوں کے اُس ہجوم میں جو دے رہے تھے جان

دو ہاتھ سُوئے آسماں اُٹھّے بطورِ خاص

عُرفی کی طرح رزق مرا کم نہیں ہوا

مُجھ پر بھی کُتے راہ میں بھونکے بطورِ خاص

***

 

سمجھ رہی ہے جو دُنیا، نہیں سمجھتا مَیں

مگر کسی کو بھی جھوٹا نہیں سمجھتا مَیں

جہاد کرتا ہوں اپنے قلم کے ساتھ مگر

کسی دلیل کو جھگڑا نہیں سمجھتا مَیں

یہ درمیان کا پردہ ہے جب اُٹھے سو اُٹھے

اسے بس آنکھ کا پردہ نہیں سمجھتا مَیں

بس ایک بات تُمھاری مُجھے پسند نہیں

تُمھارے ہجر کو اچھا نہیں سمجھتا مَیں

تُمھارے جانے سے کُچھ اور تو نہیں ہوتا

بس اپنے آپ کو پُورا نہیں سمجھتا مَیں

دُعائے وصل کو پڑھ پھُونکتا ہوں آنکھوں پر

کہاں ہے کونسا موقع، نہیں سمجھتا مَیں

جلا ہوں آپ تو پھر یہ زُبان سیکھی ہے

کسی چراغ کو گُونگا نہیں سمجھتا مَیں

لہولہان ہو اندر سے کیا پتہ کوئی عکس

اس آئینے کو بھی سچا نہیں سمجھتا مَیں

مُصر ہوں اپنی دُعاؤں کی کامیابی پر

یہ سَر جھُکانے کو سجدہ نہیں سمجھتا مَیں

***

 

جو کائنات مری کُچھ دنوں سے روشن ہے

تو کُچھ فقیروں سے کُچھ سادھوؤں سے روشن ہے

عطا ہوا ہے مُجھے حیرتوں کا شمسِ مُنیر

مری نگاہ نئے منظروں سے روشن ہے

وُہ سب جو قریۂ حیرت میں ہو گئے پتھر

یہ منطقہ میرے اُن دوستوں سے روشن ہے

میں فاضلانِ محبت کو درس دیتا ہوں

یہ خانقاہِ غزل آئینوں سے روشن ہے

طلسمِ خاک نے باندھا ہے جن پرندوں کو

یہ آسمان اُنہیں کے پروں سے روشن ہے

سلام کرتے ہیں ہم دُور سے جنہیں ہر سال

یہ باغِ زہد اُنہیں برگدوں سے روشن ہے

الاؤ عشقِ مسلسل میں ہو چُکا تقسیم

تمام راستہ اب مشعلوں سے روشن ہے

عظیم نظم لکھی جا رہی ہے اور رضاؔ

نئی ردیفوں نئے قافیوں سے روشن ہے

***

 

تنِ تنہا کسی سے لڑنا ہے

اب نہتا کسی سے لڑنا ہے

پہلے جس کی کوئی مثال نہ ہو

مَیں نے ایسا کسی سے لڑنا ہے

وجہ کوئی نہیں ہے لڑنے کی

یُونہی سوچا کسی سے لڑنا ہے

دیکھنا بھی نہیں اُسے مَیں نے

ہو کے اندھا کسی سے لڑنا ہے

دائرے توڑ پھوڑ دینے ہیں

آڑا ترچھا کسی سے لڑنا ہے

وُہ شکایت نہ کر سکے مُجھ سے

کر کے نشہ کسی سے لڑنا ہے

پہلے خُود کو سمیٹ لینا ہے

پھر اکٹھا کسی سے لڑنا ہے

دعوتِ عام ہے چراغوں کو

ایک شُعلہ کسی سے لڑنا ہے

ایک آدھا تو خُود سے اُلجھے گا

باقی آدھا کسی سے لڑنا ہے

لڑ کے آیا ہوں اس لئے کہ مُجھے

اب دوبارہ کسی سے لڑنا ہے

اس لئے بھی مَیں لڑتا رہتا ہوں

سب سے سستا کسی سے لڑنا ہے

آ ج مسجد کو جا  رہا ہوں مَیں

کر کے سجدہ کسی سے لڑنا ہے

مَیں نے خُود کو شکست دے دی رضاؔ

مَیں نے اب کیا کسی سے لڑنا ہے

***

 

لگتے ہی زخم اگرچہ مَیں بھرنے میں لگے گیا

کُچھ لال رنگ ، وقت کے جھرنے میں لگ گیا

ہو گا کسی سبب کہیں سِمٹا پڑا ہوا

کیسے یہ سب نظام بکھرنے میں لگ گیا

کُچھ میرا سانس ٹُوٹ گیا بحرِ عشق میں

کُچھ وقت بھی زیادہ اُبھرنے میں لگ گیا

مَیں وقت کا غلام بھی ، ابنِ غلام بھی

جینے میں لگ گیا کبھی مرنے میں لگ گیا

سُوجھے گا کیا جواب بھلا کائنات کو

کیوں عرصہ میرے دل سے گُزرنے میں لگ گیا

جاری تھا احتجاج رکوع و سجود میں

مَیں زور و شور سے اُسی دھرنے میں لگ گیا

***

 

بچی کھُچی ہوئی اپنی صدا اُٹھاتا ہوں

سُنا نہیں گیا کوہِ ندا کو جاتا ہوں

لہو میں بھیگے بدن نے بڑا سُرور دیا

مُجھے لگا کہ کسی نُور میں نہاتا ہوں

مَیں بن رہا ہوں کسی حرفِ کُن کے بعد مگر

اب اپنے چاک کو مَیں آپ ہی گھُماتا ہوں

یہ بے بسی ہے کہیں جو اُتر نہیں سکتی

کہ بے پری ہے جسے دُور تک اُڑاتا ہوں

بنا بنایا وُہ دن مُجھ سے ٹُوٹ جاتا ہے

تمام۔۔۔۔ رات جسے جاگ کر بناتا ہوں

بندھا ہوا ہوں رضا مَیں چراغ کی لَو سے

سو ٹمٹماتا نہیں ہوں مَیں پھڑپھڑاتا ہوں

کیا کُچھ یہاں راضی بہ رضا چھوڑنا پڑ جائے

معلوم نہیں اب مُجھے کیا چھوڑنا پڑ جائے

ہوسکتا ہے بند آنکھ میں لے جاؤں اسے بھی

ہو سکتا ہے یہ دشت کھُلا چھوڑنا پڑ جائے

بےنام نہ ہو جاؤں مَیں نیچے کہیں جا کر

اُوپر کسی پتھر پہ پَتا چھوڑنا پڑ جائے

ہو سکتا ہے بگڑا ہوا لے جانا پڑے اور

جو کُچھ ہے یہاں اچھا بھلا، چھوڑنا پڑ جائے

یہ کیسا تعلق ہے سمجھ میں نہیں آیا

کیوں بیچ میں بے انت خلا چھوڑنا پڑ جائے

یہ سوچ کے اک بیل اُسے زور سے لپٹی

یہ پیڑ اگر اتنا ہرا چھوڑنا پڑ جائے

اے دوست تُجھے چھوڑنا ایسے ہے کہ جیسے

شُعلے کو خُود اپنا ہی دِیا چھوڑنا پڑ جائے

ہر گز میرے جینے کا جواز اور نہیں ہے

اِک روز اگر مُجھ کو خُدا چھوڑنا پڑ جائے

***

 

کیا وقت سے پہلے ہی ثمر کاٹ کے دے دُوں

کافی نہ ثمر ہو تو شجر کاٹ کے دے دُوں

منظر سے مَیں کہتا ہوں کہ حیرت مُجھے دے دے

منظر مُجھے کہتا ہے نظر کاٹ کے دے دُوں

اس واسطے صدیوں کا سفر مَیں نے کیا ہے

یہ جان، تُمھیں اتنا سفر کاٹ کے دے دُوں

سب کاٹنے آتے ہیں مرے نام و نشاں کو

مَیں ایک دیئے کا اُنہیں سر کاٹ کے دے دُوں

لو باندھ لو مٹی کی روایت سے مُجھے بھی

لو ایک ۔۔ پرندہ تُمھیں پَر کاٹ کے دے دُوں

اخبار میں پڑھنے کے لئے بچنا نہیں کُچھ

مَیں تُم کو اگر اپنی خبر کاٹ کے دے دُوں

اک شرط پہ کاٹوں گا چلو ۔۔۔۔ہجر تُمھارا

واپس نہ مُجھے کرنا اگر کاٹ کے دے دُوں

***

 

اوڑھ کر خاک پہ کُچھ آب و ہوا پھرتا ہوں

یہ جو مَیں زرد علاقوں میں ہَرا پھرتا ہوں

لوگ سُنتے ہی نہیں ٹالتے رہتے ہیں مُجھے

وُہ نہیں ہوں جو یہاں پر مَیں بَنا پھرتا ہوں

ڈھُونڈتی پھرتی ہے رُخصت کی شبِ تار مُجھے

اور مَیں ہوں کہ چراغوں میں جَلا  پِھرتا ہوں

تنگ ہوتے ہیں مری آنکھ میں پھرنے والے

وُہ یہ کہتے ہیں زیادہ مَیں کھُلا پِھرتا ہوں

ایک منظر ہے کہ چِمٹا ہے مری آنکھوں سے

ایک حیرت ہے کہ مَیں جس سے لگا  پِھرتا ہوں

ہر جگہ ایک زمیں ایک فلک ایک ہی مَیں

مُجھے لگتا ہے کہ مَیں ایک جگہ پِھرتا ہوں

اور اب ساتھ نہیں دیتے مِرا ، یار مِرے،،،

وُہ یہ کہتے ہیں مَیں پہلے ہی بڑا پِھرتا ہوں

***

 

اور اب سنوارنے آئے اُجاڑنے والے

مرے شجر سے مرے برگ جھاڑنے والے

یہ سنگ باز مُجھے جو گھسیٹتے لائے

اُگانے والے نہیں ہیں یہ گاڑنے والے

عجب نہیں کہ بکھر جائیں کرچیوں کی طرح

یہ آئینے میں کھڑے ہو کے دھاڑنے والے

گُرو جی! آپ کو مَیں نے یہ گُر سکھایا تھا

جسے لگا کے ہیں مُجھ کو پچھاڑنے والے

سُدھارنے چلے آئے ہیں عاقبت میری

زمیں سے۔۔۔ میرا تعلق بگاڑنے والے

تُو اب جو سَر بہ گریباں ہے اے مرے ہمزاد

تو موقع تاڑ رہے ہیں یہ تاڑنے والے

عجیب لوگ تھے آنکھوں پہ ہاتھ رکھتے رہے

کہاں گئے ۔۔مرے ناخن۔۔۔ اُکھاڑنے والے

بہت دنوں سے رضا مَیں نے موڑ رکھے ہیں

کتابِ یاراں سے کُچھ صفحے پھاڑنے والے

***

 

قطعہ

عجیب لوگ ہیں نام و نسب کماتے ہیں

جو بے ادب ہیں زیادہ ادب کماتے ہیں

مَیں پُوچھ بیٹھا کسی صاحبِ طریقت سے

وُہ جھٹ سے بولے خُدا کو تو سب کماتے ہیں

 

غزل کو یاروں نے حُجرہ بنا لیا ہوا ہے

اور اپنے شعر کو خُطبہ بنا لیا ہوا ہے

پتہ نہیں یہاں بہروپئے زیادہ ہیں

یا صُوفیوں نے یہ حُلیہ بنا لیا ہوا ہے

عجیب لوگ ہیں خُود سوچنے سے عاری ہیں

روایتوں  کو  عقیدہ  بنا لیا ہوا ہے

خریدنے چلا آیا  ہے آفتاب مرا

کسی نے برف کا سکہ بنا لیا ہوا ہے

ضرور یہ کوئی ناپاک سا تعلق ہے

جو شیخ و شاہ نے رشتہ بنا لیا ہوا ہے

وُہ رنگ و نُور ہے لیکن بنانے والوں نے

یہاں تو اُس کا بھی چہرہ بنا لیا ہوا ہے

مرا طواف زمیں سے ہے آسمان تلک

اسی کو حج، یہی عُمرہ بنا لیا ہوا ہے

پرندے کُچھ بھی ہو جھُوٹی خبر نہیں لاتے

فقیہِ شہر نے پنجرہ بنا لیا ہوا ہے

زمین والے نے اُجڑی زمین کے اُوپر

نئی زمین کا نقشہ بنا لیا ہوا ہے

اب آنسوؤں کی یہ دیوار بھی نہ گر جائے

لہو نے آنکھ میں رستہ بنا لیا ہوا ہے

***

 

وحشت میں نکل آیا ہوں ادراک سے آگے

اب ڈھونڈ مُجھے مجمعِ عُشاق سے آگے

اک سُرخ سمندر میں ترا ذکر بہت ہے

اے شخص گُزر ! دیدۂ نمناک سے آگے

اُس پار سے آتا کوئی دیکھوں تو یہ پُوچھوں

افلاک سے پیچھے ہوں کہ افلاک سے آگے

دم توڑ نہ دے اب کہیں خواہش کی ہوا بھی

یہ خاک تو اُڑتی نہیں خاشاک سے آگے

جو نقش اُبھارے تھے مٹانے بھی ہیں اُسنے

در پیش پھر اک چاک ہےاس چاک سے آگے

آئینے کو توڑا ہے تو معلوم ہوا ہے

گُزرا ہوں کسی دشتِ خطرناک سے آگے

ہم زاد کی صُورت ہے مرے یار کی صُورت

مَیں کیسے نکل سکتا ہوں چالاک سے آگے

***

 

عظیم نظم ابھی نہیں لکھی گئی!

عظیم نظم میرے سامنے

پڑی ہوئی ہے دیر سے

کھلی ہوئی زمین پر

اُڑی ہوئی ہے آنکھ میں

کھڑی ہوئی ہے پانیوں کے درمیان

آسماں کے اس طرف سے اُس طرف

جلی ہوئی ، کٹی ہوئی، نُچی ہوئی

مری ہوئی ہے بے بسی کے ہاتھ میں

مُڑی تڑی ، پڑی ہوئی

دماغ کی لکیر میں گڑی ہوئی

یا ساری کائنات پر

بنی ہوئی

ہے

روشنی کی اک

ردا تنی ہوئی

عظیم نظم ہر طرف سے آ رہی ہے

ہر طرف کو جا رہی ہے

میرے اس طرف سے اُس طرف

رواں دواں

یقیں یقیں، گُماں گُماں

قدیم اور جدید کے نصاب میں

کھُلی اور ان کھُلی کتاب میں

کسی بہت بڑے سیاہ پھول کی طرح سے

کہکشاں سے کہکشاں

تک آ رہی ہے

جا رہی ہے

میرے سامنے کے آتشیں غُبار میں

ہمیشگی کے اس سکون میں

فنا کے اس فشار میں

شمار و بے شمار میں

گُزرتے وقت کے حصار میں

نہ اعتبار میں نہ اختیار میں

تمام مُمکنہ خطوط کی پہنچ سے دُور

زاویوں کے میل سے پرے پرے

ردیفوں قافیوں کے کھیل سے

پرے پرے

بکھر رہی ہے ہر طرف

بعید سے قریب تک

قریب سے بعید تک

کسی سُراغ سے مرے سُراغ تک

کسی دماغ سے مرے دماغ تک

کبھی نہیں لکھی گئی

عظیم نظم ابھی نہیں لکھی گئی

خُدائے لم یزل

زوال کی گھڑی کہاں سے آ گئی؟

یہ بے حساب میں حساب کیسے آگیا

عذاب کیسے آگیا

یہ ماہ و سال کی گھڑی کہاں سے آ گئی

جواب کیسے آگیا

اور اب سوال کی گھڑی کہاں سے آ گئی

عتاب کیسے آگیا

نُچی ہوئی زمیں نے کیا یہ حال کر دیا

مری نگاہ کو نڈھال کر دیا

زمین و آسمان کے درمیان

میرا خواب کیسے آگیا

تری عظیم نظم ! کا

جو آخری تھا باب کیسے آگیا

یہ دیکھ میری خُشک آنکھ کا

علاقہ زیر آب آگیا

خُدائے لم یزل

کمال کر دیا!!

خطا معاف مَیں نے کیا سوال کر دیا

زوال کی گھڑی کہاں سے آ گئی؟

خُدائے لم یزل

***

 

سویا تو مَیں زماں سے بھی آگے نکل گیا

جاگا تو پھر وہاں سے بھی آگے نکل گیا

خاموش ہو گئی ہے لُغَت لامکاں کے بعد

اور مَیں تو لا مکاں سے بھی آگے نکل گیا

وُہ آسماں تھا قوس کی صُورت کھنچا ہوا

مَیں تیر سا کماں سے بھی آگے نکل گیا

اک چرخِ با زمین تھا اک چرخِ بے زمین

مَیں دونوں ہمرہاں سے بھی آگے نکل گیا

پُوچھا خُدا سے کیسا لگا تیسرا جہان

مَیں فکرِ دو جہاں سے بھی آگے نکل گیا

صدیوں کے قافلے مُجھے جاتے ہُوئے مِلے

مَیں اپنے رفتگاں سے بھی آگے نکل گیا

کُچھ دیر دشتِ جاں میں رہا اُس کے ساتھ مَیں

پھر جسمِ ناتواں سے بھی آگے نکل گیا

آواز ۔۔گُونجتی ۔۔ درِ توفیق ۔۔ پر ۔۔رہی

یہ شخص تو زیاں سے بھی آگے نکل گیا

پکڑا گیا تو پُوچھوں گا مَیں اُس سے ایک بات

کیا مَیں تری اماں سے بھی آگے نکل گیا

مَیں لفظ ڈھونڈتا رہا اور وُہ ٹپک پڑا

آنسو مری زُباں سے بھی آگے نکل گیا

پھر کیا ہوا؟ رضا مُجھے اس کی خبر نہیں

مَیں اپنی داستاں سے بھی آگے نکل گیا

 

نقدیِ نُور سے پائی نہیں دیتا سائیں

ہر چراغ اپنی کمائی نہیں دیتا سائیں

جوڑتا رہتا ہوں ٹُوٹی ہوئی آوازوں کو

شور اتنا ہے ۔۔سُنائی نہیں دیتا سائیں

تُو بُلاتا ہے مگر بیچ میں رستہ تو لگا

کوئی جاتا بھی دکھائی نہیں دیتا سائیں

باہر اک دشت بتاتا ہے کہ آزاد ہوں مَیں

کوئی اندر سے رہائی نہیں دیتا سائیں

بچ نکلتا ہوں کہیں اور ہی پھنسنے کے لئے

موت مُجھ کو مری آئی نہیں دیتا سائیں

کسی منظر سے نکل آتی ہے حیرت تیری

تُو مُجھے پُوری جُدائی نہیں دیتا سائیں

مَیں کسی پھُول پہ رکھ دیتا ہوں آنکھیں اپنی

مُجھے کُچھ اور سُجھائی نہیں دیتا سائیں

تھک گئی مُجھ کو اُڑاتی ہوئی بے چین ہوا

کوئی مٹی کو رسائی نہیں دیتا سائیں

میرا کیا کام ترے کارِ جہاں گِیری سے

مَیں تو تیری بھی دُہائی نہیں دیتا سائیں

***

کون کہتا ہے کہ مقدار سے باندھا ہوا ہوں

ناقدِ سخت ہوں معیار سے باندھا ہوا ہوں

آپ ٹھہرے ہُوئے منظر سے نکل کر دیکھیں

مَیں یہاں وقت کی رفتار سے باندھا ہوا ہوں

یہ جو ہر سمت میں لکھی ہوئی اک نظم سی ہے

اسکے حیرت بھرے اشعار سے باندھا ہوا ہوں

نیند آئے تو کہیں خواب سے آنکھیں کھولوں

مَیں تو معراجِ لگاتار سے باندھا ہوا ہوں

صفِ اوّل میں نہیں ہوں صفِ آخر میں نہیں

میری سرکار ! مَیں سرکار سے باندھا ہوا ہوں

ایسے لگتا ہے کوئی کھول نہیں پایا مُجھے

ایسے لگتا ہے بڑے پیار سے باندھا ہوا ہوں

سبز ہوتی ہوئی خواہش کی کسی بیل سا مَیں

زرد ہوتے ہُوئے اشجار سے باندھا ہوا ہوں

لوگ اُدھر ڈھُونڈ رہے ہیں مرے سائے کا پتہ

مَیں جدھر سایۂ دیوار سے باندھا ہوا ہوں

وُہ جو ہجرت کے سفر میں کہیں اُترے ہی نہیں

مَیں پرندوں کی اُسی ڈار سے باندھا ہوا ہوں

لَو بچاتے ہیں جہاں نیم رضا مند چراغ

مَیں مُسلسل وہاں اظہار سے باندھا ہوا ہوں

سوچئیے! رات قیامت تھی ! مگر بیت گئی

دیکھئے ! صُبح کے اخبار سے باندھا ہوا ہوں

آسمان اور زمیں دونوں کنارے ہیں رضاؔ

مَیں جہاں ہوں اُسی منجدھار سے باندھا ہوا ہوں

***

یہ میری لَو ہے جو سب کو دِکھا رہا ہے تُو

عجب چراغ ہے ! مُجھ کو چُرا رہا ہے تُو!!

تُو میری فکر نہ کر اپنی کشمکش سے نکل

جلا رہا ہے مُجھے یا بُجھا رہا ہے تُو

"ہمارا ایک قبیلہ ہے” کیا کہا اے دوست

مگر یہ کیا ہے کہ مُجھ کو ہَرا رہا ہے تُو

مَیں سچ کہوں تو ترا دل نہ ٹُوٹ جائے کہیں

کٹی پتنگ ہے جس کو اُڑا رہا ہے تُو

میں پار دیکھ رہا ہوں بڑی سہولت سے

اور آئینے کو یہاں سے ہٹا رہا ہے تُو

یہ جھلملائی ہوئی سی تھکی تھکی آنکھیں

یہ کہہ رہی ہیں کسی سے خفا رہا ہے تُو

***

اپنی آواز گنوانے کی ضرورت نہیں ہے

شور میں شور مچانے کی ضرورت نہیں ہے

بیٹھ جانا ہے کسی دن اسی مٹی کی طرح

اسقدر خاک اُڑانے کی ضرورت نہیں ہے

آن پہنچے گی لگائی ہوئی ھمسائے میں

گھر کو خُود آگ لگانے کی ضرورت نہیں ہے

دِن بنایا ہے تو معلوم ہوا ہے مُجھ کو

یہ ہُنر میرے گھرانے کی ضرورت نہیں ہے

مَیں ٹھہرنے کے ارادے سے ہی آیا ہوں یہاں

مُجھے باتوں میں لگانے کی ضرورت نہیں ہے

ایسے کرتا ہوں کہ مَیں آنکھیں بُجھا لیتا ہوں

یار رُک جا! ترے جانے کی ضرورت نہیں ہے

آسماں سے مُجھے لانی پڑے مٹی کی خبر

بات کو اتنا بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے

اے تحیر! لے مری نیند بھی اب تُجھ پہ نثار

اب تُجھے خواب میں آنے کی ضرورت نہیں ہے

چکھتی رہتی ہے لہو میری خراشوں سے زمیں

مُجھے دوزخ سے ڈرانے کی ضرورت نہیں ہے

گلی کُوچوں میں یہ اعلان کیا جائے رضاؔ

ہمیں پتھر کے زمانے کی ضرورت نہیں ہے

***

بڑی نازک ہے محبت کی لڑی رہنے دے

درمیان ایک تعلق کی کڑی رہنے دے

ساعتِ وصل کو لے آ مری آنکھوں کی طرف

ساعتِ ہجر مرے دل میں گڑی رہنے دے

رنگ و روغن نہ کھُرچ اب مُجھے ایسے نہ کُرید

میرے پتھر پہ کوئی یاد جڑی رہنے دے

آ گِرا دیتے ہیں امکان کی چھت کو لیکن

ایک دیوار یقیں کی تو کھڑی رہنے دے

روک لے ایک گُزرتے ہُوئے لمحے کو یہیں

شے کوئی جیسے پڑی ہے وُہ پڑی رہنے دے

پتے واپس نہ لگا ایسے کہاں لگتے ہیں

شاخ کی بات نہ سُن شاخ جھڑی رہنے دے

تُو نے جانا ہے تو جا ایسے بہانے نہ بنا

نہ دِکھا اپنی کلائی پہ گھڑی رہنے دے

تیز رفتاری سے ہلکان تو پہلے بھی ہوں

نہ اُٹھا اور قیامت کی چھڑی رہنے دے

***

اسے مَیں کیا کروں مَیں اس سے بہتر چھوڑ آیا ہوں

یہی کہتا ہوا سارے مناظر چھوڑ آ یا ہوں

جزیرہ ہوں اور اپنے آپ اُبھرا ہوں مَیں پانی پر

سمندر کون ہوتا ہے سمندر چھوڑ آیا ہوں

میں پہچانا نہیں جاتا تھا اتنے سارے لوگوں میں

اکیلا آ گیا ہوں اور لشکر چھوڑ آیا ہوں

مری آنکھوں میں رستہ ہے مرے بالوں میں مٹی ہے

جو پیروں کو پکڑتے تھے وُہ پتھر چھوڑ آیا ہوں

سرِ میداں مَیں دُشمن کی لُغت میں مُنفرد ٹھہرا

جو بازی جیت سکتا تھا برابر چھوڑ آیا ہوں

***

 

تیری خاطر ترے اسباب کو چھوڑ آیا ہوں

یہ جو مَیں منبر و محراب کو چھوڑ آیا ہوں

لوٹنے کی کوئی صُورت ہی نہیں ہے اب تو

َمیں ترے خواب میں ہر خواب کو چھوڑ آیا ہوں

اُس کی لَو کیسے مرے ساتھ لگی چلتی ہے

جو دِیا پچھلے کسی باب میں چھوڑ آیا ہوں

اے ستارے تُو خسارے میں اکیلا تو نہیں

تُجھ سے پہلے کسی مہتاب کو چھوڑ آیا ہوں

مُجھے زرخیز بنانی تھی وُہ بنجر مٹّی

اپنے اندر ترے سیلاب کو چھوڑ آیا ہوں

اس سے پہلے کہ کوئی اور نکالے مُجھ کو

خُود ہی مَیں حلقہ احباب کو چھوڑ آیا ہوں

اب مُجھے حُکم ہے وحشت کی امامت کا رضاؔ

صف لپیٹی ہے اور آداب کو چھوڑ آیا ہوں

٭**

تُجھ الاؤ سے جو باہر کو لپکنے لگا ہوں

یہ مَیں بُجھنے  لگا ہوں یا کہ بھڑکنے لگا ہوں

سر پہ سامان زیادہ نہیں رکھنا مُجھ کو

میں مہ و سال کی یہ خاک جھٹکنے لگا ہوں

جاگتی آنکھ سے چھوڑا تھا مدارِ ھستی

اور اب خواب میں ہر سمت بھٹکنے لگا ہوں

زیر و بم آن مِلے اور کہیں کے مُجھ میں

اپنی ھستی سے زیادہ مّیں دھڑکنے لگا ہوں

پہلے دیوار کی صُورت تھا یہ آئینہ  مُجھے

اب مَیں اِس پار سے اُس پار بھی تکنے لگا ہوں

میں نہیں ڈال سکا وقت کی کھڑکی پہ کمند

اب اسی رسّی کے پھندے سے لٹکنے لگا ہوں

پَر کہیں مار کے پُہنچا تھا مَیں مرنے کے لئے

اور اب جان بچانے کو پھڑکنے لگا ہوں

میں محبت کے کسی سبز ستارے کی طرح

راکھ ہو جانے سے کُچھ پہلے چمکنے لگا ہوں

شل نہ ہو جائے کہیں دیدۂ حیران رضاؔ

دل میں کھولی ہوئی یہ آنکھ جھپکنے لگا ہوں

***إ

مُستند نُسخۂ قُرآن میں تحریف نہ کر

تُو مرے دیدۂ حیران میں تحریف نہ کر

مسلک و فرقہ و تقلید کو اب چھوڑ پرے

ایسی باتوں سے تو ایمان میں تحریف نہ کر

اپنے اثبات و نفی کو تُو بدل سکتا ہے

اُس کے مابین کے امکان میں تحریف نہ کر

صرف باہر نہیں اندر بھی یہی پھیلا ہے

دُور تک پھیلے بیابان میں تحریف نہ کر

آئینہ ارض سما کا مَیں لئے پھرتا ہوں

اس لئے میرے گریبان میں تحریف نہ کر

خاک ہوں خاک پہ بیٹھا ہوں پڑا رہنے دے

اے ہوا چھوڑ مری شان میں تحریف نہ کر

 

لڑائی زور کی تھی جھنڈا گاڑ کر نکلا

میں سب کے سامنے خُود کو پچھاڑ کر نکلا

بہت دنوں کی خموشی تھی چیخ کر ٹُوٹی

جو خوف تھا میرے اندر سے دھاڑ کر نکلا

بہت سے لوگ تھے جو مُجھ کو یاد آنے تھے

سو میں کتاب کے کُچھ صفحے پھاڑ کر نکلا

گڑا ہوا بھی نہیں تھا زمیں میں ٹھیک سے میں

ہوا کا زور بھی مُجھ کو اُکھاڑ کر نکلا

وُہ زور و شور سے آباد کرنے آیا تھا

مگر وُہ بستیاں میری اُجاڑ کر نکلا

وُہ سب نمائش_ ظاہر پہ فخر کرتے تھے

میں جان بُوجھ کے حُلیہ بگاڑ کر نکلا

وُہ ماہ سال تو پیچھے ہی پڑ گئے تھے رضاؔ

سو ایک روز میں دامن کو جھاڑ کر نکلا

****

 

زمین روک رہی ہے اُکھڑ رہا ہے کوئی

اور آسماں میں کہیں جڑ پکڑ رہا ہے کوئی

یہ تار تار بکھرتا ہوا مرا دن ہے

کہ روشنی کا یہ گولہ اُدھڑ رہا ہے کوئی

بُجھے گی پیاس خراشوں سے کیسے مٹی کی

زمیں سے ایڑیاں کاہے رگڑ رہا ہے کوئی

وُہ اپنی ذات کی حیرت میں ہے مگن اتنا

اُسے پتہ بھی نہیں ، پاؤں پڑ رہا ہے کوئی

یہ ایک بات تو دُشمن بھی سوچ سکتا ہے

بدن کی ڈھال سے کیوں جنگ لڑ رہا ہے کوئی

حدِ سفر کوئی سنگم ہے ھہسنے رونے کا

کہ مِل رہا ہے کوئی اور بچھڑ رہا ہے کوئی

وُہ بات اُس سے سمیٹی نہ جا سکی تو لگا

کہ جیسے پھُول پہ اک پھُول جھڑ رہا ہے کوئی

سنور رہی ہے غزل جو یہ دن بدن میری

ضرور کام کہیں پر بگڑ رہا ہے کوئی

میں اُس کے ملبے تلے دبتا جا رہا ہوں  رضاؔ

جو شہر آنکھ کے اندر اُجڑ رہا ہے کوئی

 

دُور تک ہاتھ ہلاتے ہُوئے لوگوں سے ملے

ہم ترے شہر کو جاتے ہُوئے لوگوں سے ملے

کیا خبر کون کہاں پر ہے اکیلا کتنا

ہم تو تنہا نظر آتے ہُوئے لوگوں سے ملے

ایک دن ہم نے خُود اپنے سے بھی کُچھ بات نہ کی

ایک دن شور مچاتے ہُوئے لوگوں سے ملے

اتنے لوگوں سے ملے پھر بھی کسی پر نہ کھُلا

ہم کسے دھیان میں لاتے ہُوئے لوگوں سے ملے

حال معلوم ہوا خُود سے بچھڑنے کا جب

لوگ دیوار گراتے ہُوئے لوگوں سے ملے

کیسا غُصہ تھا یہ غیروں کا کہ خُود پر نکلا

اپنے ہی گھر کو جلاتے ہُوئے لوگوں سے ملے

ہم اُسی رات کا حصہ تھے سو اوروں کی طرح

صُبحِ بے نُور بناتے ہُوئے لوگوں سے ملے

***

 

کوئی عذاب کوئی سانحہ ملاتا ہے

دُکھوں کی سانجھ سے ہم کو خُدا ملاتا ہے

یہ خُوب ہے کہ ہم اک دُوسرے سے ملتے ہیں

مگر یہ کیا کہ ہمیں تیسرا ملاتا ہے

جو ساتھ رہتے ہُوئے بھی بچھڑنے لگتے ہیں

تو اُن دلوں کو کوئی فاصلہ ملاتا ہے

یہ ہوش مند بھی کیا ہیں کہ کھوئے رہتے ہیں

پھر اِن کو اِن سے کوئی سر پھرا ملاتا ہے

خمار اُس کی مُلاقات کا نہیں جاتا

ضرور اس میں وُہ کوئی نشہ ملا تا ہے

میں اپنی خاک اُڑاتا ہوں آسمان تلک

وگرنہ کون سِرے سے سِرا ملاتا ہے

بغیر لوَ کے تو مٹی ہے مُجھ دیئے کا وجود

مُجھے یہ شُعلہ الاؤ سے جا ملاتا ہے

***

 

لایا ہوں بھرا آنکھ کا کاسہ ترے آگے

اک عُمرِ گُزشتہ کا خُلاصہ ترے آگے

دو چھید جو آنکھیں تھیں،دراڑیں جو نہیں تھیں

چہرہ وُہی کھولا ہے شناسا ترے آگے

تسبیح کی دھڑکن ہے کہ آہٹ ہے مُسلسل

دل ہے کہ کوئی غار، حرا سا ترے آگے

اے آگ مُجھے تیرے تقدس کی قسم ہے

بیٹھا ہوں ترے لمس کا پیاسا ترے آگے

کیا نُور کی یہ بھی ہے معطر کوئی صُورت

خُوشبو مُجھے دیتی ہے دلاسا ترے آگے

یہ دیکھ یہ بے انت یہ خاموش یہ کیا ہے

آئینہ ہی سرکا دُوں ذرا سا ترے آگے

***

 

بڑھتی ہوئی ہر روز کی وحشت سے گِرے گا

لگتا ہے ولی اپنی ولایت سے گِرے گا

ہم تین ہیں مَیں ہوں یہ زمیں ہے وُہ فلک ہے

ہم میں سے کوئی ٹُوٹ کے شدّت سے گِرے گا

اے سبز شجر! بول!! تجھے کتنا ہلاؤں!!!

یہ جسم کا پھل کتنی عبادت سے گِرے گا

آنسو ہے، پرندہ ہے، ستارہ ہے، فلک ہے

کیا کُچھ نہ تری آنکھ کی غفلت سے گِرے گا

کیوں سَر کو اُٹھا کر تری جانب کوئی دیکھے

گِرنا ہے تو پھر کون اجازت سے گِرے گا

گرتے ہُوئے مُشکل مُجھے پیش آئی تو سوچا

بے جان بدن کتنی سہولت سے گِرے گا

اس شہر کی بُنیاد میں پہلے بھی لہو تھا

یہ شہر اسی اپنی نحوست سے گِرے گا

دُشمن بھی اسی تاک میں مدت سے ہے لیکن

یہ گھر میرے اپنوں کی وساطت سے گِرے گا

طاقت کی یہاں کوئی ضرورت ہی نہیں ہے

نفرت کا درندہ ہے محبت سے گِرے گا

***

یہ خُود کشی سے کوئی ماورا پرندہ ہے

جو زرد ہوتا ہوا اک ہرا پرندہ ہے

اُڑاتا رہتا ہوں زخمی پروں کے ساتھ اِسے

مرے لئے مرا حرفِ دُعا پرندہ ہے

یہ پھڑپھڑاتا ہوا شُعلہ کھول دے کوئی

بندھا چراغ سے کیوں آگ کا پرندہ ہے

یہ بے پری ، یہ لہو ، یہ کراہتی آواز

یہ آئینے میں کوئی دُوسرا پرندہ ہے

ہوا تھمی ہے مگر شاخ کس طرح لرزی

شجر کے دل میں کوئی جاگتا پرندہ ہے

مری تو جاں پہ بنی ہے، مگر پرندے خُوش

کہ اُن کے ساتھ کوئی رہنُما پرندہ ہے

عجب نہیں کہ کہیں اس کا سانس ٹوٹ گِرے

یہ میرا دھیان فضا میں نیا پرندہ ہے

مرے لئے گُلِ حیرت کِھلا ہوا رکھنا

رضا ابھی مرے پاس آنکھ کا پرندہ ہے

***

ایک مجذوب اُداسی میرے اندر گُم ہے

اس سمندر میں کوئی اور سمندر گُم ہے

بے بسی کیسا پرندہ ہے تُمھیں کیا معلوم

اُسے معلوم ہے جو میرے برابر گُم ہے

چرخِ سو رنگ کو فُرصت ہو تو ڈھونڈے اُس کو

نیلگوں سوچ میں جو مست قلندر گُم ہے

دھُوپ چھاؤں کا کوئی کھیل ہے بینائی بھی

آنکھ کو ڈھونڈ کے لایا ہوں تو منظر گُم ہے

سنگریزوں میں مہکتا ہے کوئی سُرخ گُلاب

وُہ جو ماتھے پہ لگا تھا وُہی پتھر گُم ہے

ایک مدفون دفینہ اِنہیں اطراف میں تھا

خاک اُڑتی ہے یہاں اور وُہ گوہر گُم ہے

***

 

زمیں کے ساتھ مرا دل جھگڑتا رہتا ہے

اور آسمان کا نقشہ بگڑتا رہتا ہے

یہ روشنی اُسی مجذوب کے لئے تو نہیں

جو آ تی جاتی شُعاعیں پکڑتا رہتا ہے

لگا ہوا ہے بدن میں جو سانس کا پودا

یہ بار بار یہاں سے اُکھڑتا رہتا ہے

سفر میں دھیان کی جانب سے ہے کُچھ آسانی

بدن کا رستہ تو پاؤں پکڑتا رہتا ہے

چمک دمک یہیں رہتی ہے میرے ہونے  کی

اُدھر خلا پہ مرا سایہ پڑتا رہتا ہے

وُہ قد سُخن کے شجر کا نکال بیٹھا ہوں

کہ بُور اور درختوں پہ جھڑتا رہتا ہے

مرے مزاج کو بخیہ گری نہیں آتی

تعلقات کا دھاگا اُدھڑتا رہتا ہے

کھنڈر کو آنکھ کی ویرانی میں بکھرنا تھا

وُہ کم پڑی ہے سو دل میں اُجڑتا رہتا ہے

تھکا دیا مرے ہمزاد نے رضا مُجھ کو

میں مِلتا رہتا ہوں اور وُہ بچھڑتا رہتا ہے

***

دشتِ طلب میں پھول کھلانے لگی ہو تُم

قوسِ قزح کے رنگ بڑھانے لگی ہو تُم

تُم نے اُلٹ دئیے ہیں محبت کے دو جہان

مَیں آ نہیں رہا تو بلانے لگی ہو تُم

نمناکی  ردائے محبت کو کھول کر

وحشت کی الگنی پہ سُکھانے لگی ہو تُم

یہ رحلِ دل پہ کون سا قُرآن لا دھرا

پڑھنے لگا ہوں مَیں جو پڑھانے لگی ہو تُم

کھڑکی سےدیکھتی ہوئی کیوں پیچھے ہٹ گئی

کیا روشنی گلی کی بُجھانے لگی ہو تُم

گرتے ہُوئے جہانِ تمنّا کی خیر ہو

جھُکتی ہوئی نگہ سے اُٹھانے لگی ہو تُم

دھُندلا رہا ہے عکس تُمھارا اب آنکھ میں

ٹھہرو یہ کس غُبار میں آنے لگی ہو تُم

***

نہ کُچھ کر کے جو مَر جانا ضروری ہو گیا ہے

تو جی میں جو ہے کر جانا ضروری ہو گیا ہے

اجازت دے مُجھے دشتِ طلب میں لَوٹنے کی

کہ مُجھ بے گھر کا گھر جانا ضروری ہو گیا ہے

کسی کی کم نگاہی سے جب آنکھیں بُجھ گئی ہیں

تو چہرہ بھی اُتر جانا ضروری ہو گیا ہے

اگر یُونہی رہا حَد پر رُکے رہنے کا عالم

تو پھر حَد سے گُزر جانا ضروری ہو گیا ہے

سمٹنے کی کوئی حَد پار کر آیا ہوں کیا مَیں

جو اب میرا بکھر جانا ضروری ہو گیا ہے

کہیں کوئی خلا میرے نہ ہونے  کا بھی ہوگا

جسے اب مُجھ سے بھر جانا ضروری ہو گیا ہے

ستارے ہیں کہ دروازے کھُلے ہیں آسماں کے

مجھے اب دَر بَدر جا نا ضروری ہو گیا ہے

پُرانے چاند کی تھکتی ہوئی اس چاندنی سے

اُصولاً دل کا بھر جانا ضروری ہو گیا ہے

جدھر سے آ رہا ہے وقت کا خاموش دھارا

رضا میرا اُدھر جانا ضروری ہو گیا ہے

***

سُورج سا کوئی شام سے پہلے ہی گر گیا

میں اپنے اختتام سے پہلے ہی گر گیا

روتی ہوئی ہوا نے خبر دیر تک پڑھی

اک چاند اپنے بام سے پہلے ہی گر گیا

اے رابطے کو توڑنے والے ستارہ زاد

یہ گھر ترے قیام سے پہلے ہی گر گیا

حُجرے میں لا چھُپایا ہے تُو نے چراغِ راہ

تُو یا ر کے مقام سے پہلے ہی گر گیا

یکتا کے سامنے مری یکتائی جا پڑی

سجدے میں مَیں امام سے پہلے ہی گر گیا

کہنا تو تھا کہ خُوش ہوں تُمھارے بغیر بھی

آنسو مگر کلام سے پہلے ہی گر گیا

اک ہاتھ تھا دراز رضا سُوئے آسمان

جو میرے انہدام سے پہلے ہی گر گیا

***

حد کوئی توڑ کے وحشت نے نکل جانا ہے

مُجھ کو پھر لے کے محبت نے نکل جانا ہے

میرے جانے سے وُہی رہنی ہے صُورت لیکن

عشق سے خاک کی برکت نے نکل جانا ہے

دل کو دھڑکا کوئی رُکنے نہیں دیتا جیسے

ہاتھ آئی ہوئی دولت نے نکل جانا ہے

ایسے لگتا ہے کہ اب وقت کی سرحد پہ پڑے

اِس مرے ہاتھ سے ساعت نے نکل جانا ہے

دائم آباد نہیں رہنا عقوبت خانہ

جان کے ساتھ اذیت نے نکل جانا ہے

سوچتے رہنے میں اندازہ نہیں تھا مُجھ کو

سوچتے رہنے میں مُہلت نے نکل جانا ہے

پردہ اُٹھنے سے قیامت تو نہیں آ جانی

بس مری آنکھ سےحیرت نے نکل جانا ہے

لبِِ گِریہ ابھی کھولا نہیں تا مَیں دیکھوں

آنکھ سے کتنی کثافت نے نکل جانا ہے

روکنے والو بھلا لفظ بھی رُکتے ہیں کبھی

دیکھ لینا میری شُہرت نے نکل جانا ہے

***

 

مُجھے جانا ہے مَیں تاخیر نہیں کر سکتا

جسم ہرگز مُجھے زنجیر نہیں کرسکتا

میں گِرا سکتا ہوں دیوارِ بدن کو لیکن

پھر اکیلا اِسے تعمیر نہیں کر سکتا

میری جُرأت کہ مَیں حیرت کی کہانی لکھوں

مَیں الف کی ابھی تفسیر نہیں کر سکتا

مَیں بتا سکتا ہوں وُہ آگ مقدس ہے مگر

اپنے جلنے کی مَیں تشہیر نہیں کرسکتا

عشق حُجرے کے بیابان سے کیسے نکلے

صُورتِ حال کو گمبھیر نہیں کر سکتا

پھر مرے دیدہ و دل نے کسے دیکھا ہے بھلا

جب تصور اُسے تصویر نہیں کر سکتا

اے الاؤ مُجھے لکھنے کی اجازت دے دے

ورنہ مَیں روشنی تحریر نہیں کر سکتا

کیسے دُوں آگ کو پانی کو ہوا کو مَیں شکست

اپنی مٹی کو تو تسخیر نہیں کر سکتا

چُپ بھی رَہ جاتا ہے آنسو کبھی کہتے کہتے

دُکھ ہمیشہ  یہی تقریر نہیں کر سکتا

ٹوٹ جاؤں ، پہ سُلوک ایسا ، ابھی سوچا ہے

گھر کی چھت سے کوئی شہتیر نہیں کر سکتا

دیکھ سکتا ہوں کہ حق ہے مرا اُس پر لیکن

دیکھ کر خواب کی تعبیر نہیں کر سکتا

***

 

بس آنکھ لایا ہوں اور وُہ بھی تَر نہیں لایا

حوالہ دھیان کا مَیں مُعتبر نہیں لایا

سوائے اسکے تعارف کوئی نہیں میرا

میں وُہ پرندہ ہوں جو اپنے پر نہیں لایا

نجانے کس کو ضرورت پڑے اندھیرے میں

چراغ راہ میں دیکھا تھا گھر نہیں لایا

مُجھے اکیلا حدِ وقت سے گُزرنا ہے

میں اپنے ساتھ کوئی ہم سفر نہیں لایا

گُلِ سیاہ کھِلا ہے تو رو پڑا ہوں میں

کہ روشنی کا شجر بھی ثمر نہیں لایا

شُمار کر ابھی چنگاریاں مرے ناقد

کہ مَیں الاؤ اُٹھا کے اِدھر نہیں لایا

مری روانی کی اب خیر ہو مرے مالک

ستارہ ٹُوٹ کے اچھی خبر نہیں لایا!

بھنور نکال کے لایا ہوں میں کنارے پر

مُجھے نکال کے کوئی بھنور نہیں لایا

***

 

کس کو درکار ہوں مٹی کی طرح

یہ جو تیار ہوں مٹی کی طرح

بھید کھولے کوئی میرا تو کھُلے

میں پُراِسرارہوں مٹی کی طرح

مُجھ میں بھی شوقِ نمو تھا لیکن

اب میں بے کار ہوں مٹی کی طرح

سر اُٹھاتا ہوں تو ڈھے جاتا ہُوں

کوئی دیوار ہوں مٹی کی طرح

چھید آنکھوں کے نہیں بھر سکتا

میں بھی لاچار ہوں مٹی کی طرح

لئے پھرتے ہیں مُجھے آب و ہوا

میں گُنہ گار ہوں مٹی کی طرح

نہ مرے دیدۂ نمناک پہ جا

میں اداکار ہوں مٹی کی طرح

خواب مٹی میں مِلا دیتا ہوں

میں مددگار ہوں مٹی کی طرح

***

***

تشکر: شاعر جنہوں نے ’کتاب چہرہ‘ سے کاپی کرنے کی اجازت دی،

 تدوین اور ای بک: اعجاز عبید