FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

آنکھ میں لکنت

 

 

حصہ دوم: نظمیں

 

                   غضنفر

 

 

 

 

 

 

 

نظمیں

 

 

 

 

ہجرت

 

وہ آغوش جس میں پلے

اور پل کر جواں ہم ہوئے ہیں

اسے چھوڑنے کی تدابیر کرنے میں مصروف ایسے ہوئے ہیں

کہ زنداں سے قیدی رہائی کی راہوں کی

تعمیر کرنے میں مشغول ہوتے ہیں جیسے

وہ آغوش جس میں جواں ہم ہوئے ہیں

اسے چھوڑ کر دور جانے کے احساس سے

جو خوشی مل رہی ہے

کسی بھی طرح اس سے کمتر نہیں ہے

جو زنداں سے باہر نکلنے میں محسوس ہوتی ہے زندانیوں کو

خوشی کا یہ احساس

ایسا نہیں کہ فقط ایک ہم تک ہی محدود ہو

یہ خوشی گھر کے دیوار و در میں بھی گھر کر گئی ہے

ماں، بہن، باپ بھائی بھی گردن اٹھائے ہوئے

اپنے ہمسایوں سے کہتے پھرتے نظر آ رہے ہیں

کہ میرا قمر بھی عرب جا رہا ہے

شریک سفر کی رگوں میں بھی خوشیاں اچھلنے لگی ہیں

وہ راتوں کی سب لذّتیں بھول کر

جانے والے کی تیاریوں میں

بڑے چاؤ سے منہمک ہو گئی ہے

عجب جاں فزا ہے یہ ہجرت کا منظر

مگر یہ روایت ہے

مکّے سے یثرب کو جاتے ہوئے

مصطفیٰ اور سارے صحابی بہت رو رہے تھے

وطن کی محبت انھیں روکتی تھی

جدائی جگر میں تبر بھونکتی تھی

وہ ہجرت کا منظر بڑا جاں گسل تھا

مگر آج ہجرت کا منظر بدل سا گیا ہے

یہ منظر تو سچ مچ بڑا جاں فزا ہے

مگر ایسا کیوں ہو گیا ہے

یہاں تو مظالم کی وہ سختیاں بھی نہیں ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

نئے آدمی کا کنفیشن

 

کبھی یہ بھی خواہش پریشان کرتی ہے مجھ کو

کہ میں اپنے بھیتر کے ’’میں ‘‘ کو نکالوں

مگر میرے میں کی تو صورت بہت ہی بری ہے

خباثت کا انبار جس میں نہاں ہے

سراپے سے جس کی کراہت عیاں ہے

جبیں پر خطر ناک سوچوں کے جنگل اُگے ہیں

بھیانک ارادوں کے وحشی چھپے ہیں

نگاہوں میں جس کی ہوسناکیوں کے مناظر بھرے ہیں

مناظر بھی ایسے کہ جن میں

زنا ایسے لوگوں کے ہمراہ کرنے کو سوچا گیا ہے

بدن جن کے جنسی بلوغت کو پہنچے نہیں ہیں

یا وہ جو بلوغت کی ساری کشش کھو چکے ہیں

یا وہ جن سے کوئی مقدس سا رشتہ جڑا ہے

مرے ’’میں ‘‘کی صورت بری ہے

کہ دنداں، درندوں کی صورت

کسی سہمے سمٹے کنوارے بدن میں گڑے ہیں

کہ ماتم کدے میں بھی آنکھیں کسی جسم کی برجیوں پر ٹکی ہیں

کہ بیوی بغل میں مگر ذہن میں اور ہی کوئی تن من کھلا ہے

کہ پگلی بھکارن کے تن اور اندھے بھکاری کے کشکول پربھی نظر ہے

بری ہے بہت ہی بری ہے

کہ دل میں اعزّا کی اموات کی خواہشیں بھی دبی ہیں

کئی بے گنہ گرد نیں انگلیوں میں پھنسی ہیں

کہ لفظ عیادت میں بیمار کی موت کی بھی دعا ہے

بری ہے بری ہے

کہ احباب کی جیت پر دل دکھی ہے

کہ اولاد کی بر تری سے چبھن ہے

کہ بھائی کے روشن جہاں سے جبیں پر شکن ہے

بری ہے بری ہے

کہ جو پالتا ہے اسی کی نفی ہے

کہ جو پوجتا ہے اسی سے دغا ہے

عجب اوبڑ کھابڑ سی میں کی زمیں ہے

کہ اس میں کہیں بھی توازن نہیں ہے

کسی بھی طرح کا تناسب نہیں ہے

جہاں چاہیے حوصلہ، بزدلی ہے

جہاں راستی کی ضرورت، کجی ہے

جہاں چاہیے امن، غارت گری ہے

جہاں چاہیے قرب، واں فاصلہ ہے

جہاں صلح کل چاہیے، گر میاں ہیں

جہاں چاہیے گرمیاں، سردیاں ہیں

اگر میرے میں کی یہ صورت مرے خول کی باہر سطح پر آ گئی

تو زمانہ مجھے کیا کہے گا

یہی سوچ کر اپنی اس آرزو کے بدن میں

تبر بھونک دیتا ہوں اکثر

مگر یہ تمنّا

کہ میں اپنے بھیتر کے ’’میں ‘‘ کو نکالوں

مرے دل میں رہ رہ کے کیوں جاگتی ہے ؟

سبب اس کا یہ تو نہیں ہے

کہ میں اپنے اندر کی شفّاف مکر وہ صورت دکھا کر

زمانے کی آنکھوں میں خود کو پڑا دیکھنا چاہتا ہوں

یا یہ کہ مسلسل شرافت کے ناٹک سے، تنگ آ چکا ہوں

یا پھر یہ کہ اب

باہری شکل و صورت میں میری

کشش کوئی

باقی

نہیں

ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 روزنامچہ

 

زندگی کا تو اپنی یہ معمول ہے

صبح کودیرسے جاگنا

اور بیٖڑی کا بنڈل لیے ٹوآئلیٹ میں بہت دیر تک کش پہ کش کھیچنا

اور پھر، کچھ نئے فیشن کے لباسوں سے ننگا بدن ڈھانپ کر

ایک کیفے میں جاب بیٹھنا

کاوئنٹر پر پڑے ایک کھاتے میں کچھ ہند سے ڈال کر

پستکالیہ کی جانب قدم موڑنا

لمبی میزوں پہ بکھرے ہوئے تازہ اخباروں سے جوجھنا

گہرے کالے سمندرکی گہرائی میں ڈوب کر

روشنی کی کرن ڈھونڈنا

تھک کے بیٖڑی لبوں سے لگا کر

فضا میں دھوئیں  کو اڑانا

اڑا کراسے غورسے دیکھنا، سوچنا

پھر کتابوں کی الماریاں کھول کر

موٹی موٹی کتابیں لیے ایک سنسان گوشے میں جاتے ہوئے

نوکری سے لگے آدمی سے بڑاخودکومحسوسنا

 

شام کو لوٹ کر

کافی ہاؤس کا چکّر لگاتے ہوئے ایک ایک شخص کوغورسے دیکھنا

دیکھ کر کوئی ساتھی وہاں، یوں لپکنا کہ برسوں سے جیسے ملے ہی نہ ہوں

میز پر رکھے پیکٹ سے سگریٹ یوں بے نیازی سے لے کر لبوں سے لگا

کہ اپنا ہی پیکٹ ہو وہ

اور پھر بات سے بات کاسلسلہ

شام سے شب ڈھلے تک ہزاروں مسائل کا حل ڈھونڈنا

دفتروں اور مکانوں میں سمٹی ہوئی

دوست احباب کی بدمزہ زندگی پر

عجب شان سے مسکراتے ہوئے

فلسفی کی طرح روز گھر لوٹنا

زندگی کا یہی اپنی معمول ہے

 

زندگی کا تو اپنی یہ معمول ہے

صبح سے پیشتر جاگنا

اور ڈبّا لیے دودھ کا

دودھ والی سڑک کی طرف بھاگنا

لمبی لائن میں لگ کر بہت دیر تک ڈیری فارم کی لاری کی رہ دیکھنا

اور پھر کرنا طے دودھ کے مرحلے سے بڑا ایک اور مرحلہ آب کا

برتنوں کی کی قطاروں میں رکھ اپنی بھی بالٹی

نل تلے دیر تک بیٹھنا

اور پانی کی ڈھلتی جوانی پہ سرپیٹنا

کر کے سرآب کا معرکہ

اپنی کمزور بیوی کے مضبوط کاموں کے کچھ بھاگ کو بانٹنا

ضدّی بچّوں کے بپھرے ہوئے سرکشی جسم میں مکتبی وردیاں ڈالنا

یاکسی بگڑے اسٹووکے تیز تیور کو قابو میں لانا

یا پھر گانٹھ والی کئی ادھ جلی لکڑیاں پھاڑنا

اور پھر پیٹ میں

ریل کے انجنوں کی طرح کوئلہ جھونک کر دفتری روڈ پر دوڑنا

رک کے اسٹاپ پر

آنے والی ہر ایک بس کے ماتھے پہ لکھے ہوئے نمبروں پر نظر ڈالنا

گویا تقدیر کی اپنی تحریر کو بانچنا

پھرکسی بس کے پادان سے اپنے کو ٹانگ کر اک بریدہ پتنگ کی طرح جھولنا

جھولتے جھالتے ایک لمباسفرکاٹ کر اپنے اسٹاپ پر کودنا

کود کر اپنے آفس میں جاتے ہوئے بھیتری گیٹ تک ہانپنا

اور صاحب کی نظروں سے بچتے ہوئے اپنی کرسی پہ چپ چاپ جا بیٹھنا

اپنی ٹیبل پہ ابھری ہوئی ایک دیوارِ چیں کو بنا دم لیے چاٹنا

بیشتر بھاگ دیوار کا چاٹ کر

اِک پہر شب ڈھلے اپنے گھر لوٹنا

اوربسترپہ جاتے ہوئے نوکری ہین، بے کار لوگوں کی

آزاد، بے فکر

مستی بھری زندگی پر

عجب طور سے سوچنا

زندگی کا یہی اپنی معمول ہے

 

زندگی کا تو اپنی یہ معمول ہے

رات میں بھی بہت دیر تک جاگنا

اورسورج نکلنے سے پہلے ہی گھر چھوڑنا

کارخانوں کی جلتی ہوئی بھٹّیوں میں پگھلتے ہوئے سرخ فولاد سے جوجھنا

آگ کی گرمیوں سے جھلستے ہوئے

دوسروں کی چھتوں کے لیے

پگھلے فولاد سے چمچماتی ہوئی

چادریں ڈھالنا

یا کہیں پر کسی چلچلاتی ہوئی دھوپ میں

کنکریلی زمیں کھود کر

عشرتی بلڈنگوں کی بنا ڈالنا

یا کسی کوہ کی چوٹیوں پر چٹانوں کا بے ڈول سر کاٹ کر

اپنی بے گوشت کی پیٹھ پر باندھنا

پتھّروں کی طرح چوٹیوں سے لڑھکتا ہوا فرش پر آن کر دیر تک ہانپنا

یا کسی کوئلے کے بھیانک اندھیرے سے پُر کان میں کود کر

شام تک کوئلوں کی پرت توڑنا

تیرگی کی گھنی گھور تیرہ کڑی کوکھ سے روشنی کی کرن کھیچنا

 

رات کو لوٹ کر

بھوک سے تلملاتے ہوئے پیٹ میں

سرد، سوکھی ہوئی بد مزہ روٹیاں ڈال کر

ایک تاریک ٹوٹی ہوئی جھونپڑی کے پھٹے فرش پر لیٹنا

لیٹ کر دیر تک جاگنا، کھانسنا

زندگی کا یہی اپنی معمول ہے

 

زندگی کا تو اپنی یہ معمول ہے

وقت سے جاگنا

اور حمّام میں دیر تک

موسمی آب سے جسم کو تاب دے کر سجانا

سجا کر بدن ناشتے سے سجی ڈائننگ میز پر

مرغ کی ہڈّیاں توڑنا

اور پھر چمچماتی ہوئی کار سے

اپنے آفس کے جنّت نما روم میں جا کے تشریفنا

فون پر اپنے ہم مرتبہ افسروں کو ہلو بولنا

تو کبھی اپنے احباب کو گدگداتی ہوئی بات سے چھیڑ نا

کبھی کوئی میٹنگ بلا کر کسی بات پر اپنے ما تحت لوگوں کے آگے گرجتی ہوئی افسری جھاڑنا

کبھی اپنی ماڈرن، جواں سال سیکریٹری کو بلا کر

بہت دیر تک دفترانہ کوئی اس سے گپ مارنا

کبھی کوئی لیٹر لکھانے کے حیلے سے اس کا بدن گھورنا

کبھی اپنے نزدیک اس کو بلا کر دکھانا

کہ ٹائپ کی کیا خامیاں ہیں

اور بس اس بہانے سے اس کے جھکے جسم سے جھلملاتے ہوئے جھانکتے انگ کو دیکھنا

اور تن پر کھلے نرم و نازک حسیں پھول کو توڑنے کا کوئی راستہ سوچنا

 

شام کو لوٹ کر شمپین کھولنا

اپنی مینٹینڈ بیوی کے ہمراہ ماحول میں مستیاں گھولنا

ڈولنا، بولنا

اور پھر ویڈیو پر کسی نیلی سی فلم سے

دیر تک چشم و لب، دست و پا، جسم و جاں سینکنا

زندگی کا یہی اپنی معمول ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ٹھرکی

 

عمر میری ساٹھ سے اوپر ہوئی

بال سارے سر کے اجلے ہو گئے

ہو گیا ڈھیلا بدن کا ہر کساؤ

اب نہیں باقی نسوں میں کچھ تناؤ

ذہن و دل کا بھی ہوا اللہ کی جانب جھکاؤ

شخصیت میری کسی معصوم سی لگنے لگی

سر سے پاتک زندگانی بے ضر رسی ہو گئی

لڑکیاں اپنی پرائی بے دھڑک آتی ہیں اب

بے تکلف ہوکے گھنٹوں بیٹھتی ہیں پاس اب

میرے شانوں سے ٹکا دیتی ہیں اپنی کہنیاں

بعض اپنا سر بھی رکھ دیتی ہیں میری گود میں

بعض مجھ سے لگ کے ایسے بیٹھتی ہیں جیسے میں

اپنی بیٹھک کی کوئی دیوار ہوں

یا سہیلی ان کی کوئی راز دار

پوچھتی ہیں بے جھجھک ایسے سوال

عام صورت میں نہیں آسان ہے دینا جواب

بے خطر سنتی ہیں مجھ سے داستانِ حسن و عشق

وصل کی باتوں کے قصّے

ہجر کی راتوں کا ذکر

درمیانِ داستانِ حسن و عشق

در بیانِ قصۂ وصل و فراق

بے تکلف میں بھی ہو جاتا ہوں خوب

دستِ شفقت بڑھنے لگتا ہے مرا

پھرنے لگتی ہیں مری بالوں میں ان کے، انگلیاں

تھپتھپا دیتا ہوں ان کی پیٹھ میں

بزرگانہ طور سے بازو دبا دیتا ہوں میں

پیار سے چٹکی میں بھر لیتا ہوں ان کی ٹھڈیاں

پیارسے گالوں کو بھی سہلادیا کرتا ہوں میں

اپنے پہلو سے لگا لیتا ہوں ان کے جسم کو

بے جھجھک آغوش میں ان کو بٹھا لیتا ہوں میں

پاس ان کا بیٹھنا

کہنی ٹکانا

ران پر رخسار رکھنا

اور میرا بزرگانہ ہاتھ بڑھنا

اک عجب احساس سے دو چار کرتا ہے مجھے

اک عجب انداز سے بیدار کرتا ہے مجھے

دستِ شفقت کے بہانے

ایسا لگتا ہے کہ اب

اپنے اندر کی خباثت

ایک بوڑھے کا ابال

ڈالتا ہوں ان کے

جسم و جان میں میں بے خطر

٭٭٭

 

 

 

زوال

 

کل تلک جو دھرتی پر

سر بلند پرچم تھا

آفتاب کی صورت

رنگ جس کے چہرے کا

دور تک چمکتا تھا

آج اس سے لپٹی ہیں

ٹڈیاں ہواؤں کی

سرخیوں کے شعلوں کو

لے رہی ہیں نرغے میں

بدلیاں فضاؤں کی

مارکس جی کے پتلے پر

بیٹھا کالا کوّا ایک

بیٹ کرنے والا ہے

پاس ہی میں نعرہ ایک

انقلاب زندہ باد

گونجتا ہے رہ رہ کر

٭٭٭

 

 

 

 

پتھّر

 

میں اک معصوم شہری تھا

شرافت سے سبھی کے ساتھ رہتا تھا

مہذب طور سے جیتا تھا

سب کے کام آتا تھا

کبھی میں نے کسی کا دل نہیں توڑا

کسی کا سر نہیں پھوڑا

کسی ترکش سے کوئی تیر کیا، تنکا نہیں چھوڑا

کسی کی پیٹھ میں خنجر نہیں بھونکا

کسی کے جسم پر بارود کا گولا نہیں پھینکا

کسی کو آگ میں میں نے نہیں جھونکا

کسی کا حق نہیں مارا

کسی کا زر نہیں لوٹا

کوئی خرمن نہیں پھونکا

کسی بلڈنگ، کسی گاڑی، کسی محفل میں کوئی بم نہیں رکھّا

مرے ہاتھوں کسی کا گھر نہیں اجڑا

کسی کا در نہیں اکھڑا

کوئی کنبہ نہیں بکھرا

کوئی ما تھا نہیں سکڑا

کسی کی راہ میں روڑا نہیں اٹکا

کسی کے کام میں میں نے کبھی رخنہ نہیں ڈالا

کسی کے واسطے دل میں کبھی کینہ نہیں پالا

کوئی فرمان حاکم کا کبھی میں نے نہیں ٹالا

کوئی گھیرا نہیں لانگھا

کوئی آنگن نہیں پھاندا

مگر پھر بھی قیامت مجھ پہ ٹوٹی ہے

عجب غارت گری کا قہر برسا ہے

عجب سفّاک خنجر دل میں اترا ہے

کہ میری روح اب تک تلملاتی ہے

کہ میرا ذہن اب بھی جھنجھنا تا ہے

کہ میری سانس اب بھی لڑکھڑا تی ہے

سمجھ میں کچھ نہیں آتا

کہ میں نے کیا بگاڑا ہے

مرے کس جرم کی مجھ کو ملی ہے

یہ سزا آخر؟

یہ گتھّی کس طرح کھولوں ؟

سبب کس سے یہاں پوچھوں ؟

کدھر جاؤں ؟

کسے روکوں ؟

سبھی چہرے یہاں پتھر

سبھی آنکھیں یہاں پتھر

بصارت میں بھرا پتھر

سماعت میں بسا پتھر

زبانوں میں گڑا پتھّر

عدالت میں کھڑا پتھر

ہر اک قانون میں پتھر

ہر اک آئین میں پتھّر

ہر اک انصاف میں پتھّر

ہر اک آواز میں پتھّر

ہر اک احساس میں پتھّر

یہ پتھّر یگ کے پتھر سے بھی بھاری ہے

نگینے کی طرح ترشا ہوا ہے

اور ہیرے کی اَنی کی طرح اِس کی تیز نوکیں ہیں

بہت شفّاف ہے یہ اوراس میں اک تمدن ہے

میں اس پتھر سے سر پھوڑوں

کہ اپنی زندگی چھوڑوں

کہ اپنا راستہ موڑوں

کہ بن جاؤں میں خود پتھر

سمجھ میں کچھ نہیں آتا؟؟؟

٭٭٭

 

 

 

 

مگر میں شعر کہتا ہوں

 

مری تنخواہ ایسی ہے

کہ میں موٹر میں چلتا ہوں

کشادہ گھر میں رہتا ہوں

بہت آرام دہ بستر پہ سوتا ہوں

مگر میں شعر کہتا ہوں

مگر میں گیت لکھتا ہوں

مری تنخواہ اتنی ہے

کہ بچّے دون میں تعلیم پاتے ہیں

کبھی تعطیل میں بنگلور جاتے ہیں

کبھی شملہ، کبھی کشمیر میں تفریح کرتے ہیں

مگر میں شعر کہتا ہوں

مگر میں گیت لکھتا ہوں

مجھے اپنی ضرورت کی سبھی چیز یں میّسر ہیں

مجھے تفریح کے ساماں بھی حاصل ہیں

کمی کوئی نہیں ہے زندگانی میں

مگر میں شعر کہتا ہوں

مگر میں گیت لکھتا ہوں

مرا رتبہ بھی ایسا ہے

کہ میرے سامنے کچھ لوگ جھکتے ہیں

مجھے سیلوٹ کرتے ہیں

مری راہوں میں، بچھتے ہیں

مگر میں شعر کہتا ہوں

مگر میں گیت لکھتا ہوں

کہیں کچھ ہے جو مجھ سے گیت لکھواتا ہے رہ رہ کر

کہیں کچھ ہے جو مجھ کو شعر گوئی کے لیے مجبور کرتا ہے

مگر وہ کیا ہے ’’کچھ ‘‘جو رات میں مجھ کو جگاتا ہے

مجھے بے چین کرتا ہے

مری نیندیں اڑا تا ہے

وہ کیا ہے جو مری موٹر میں گھس کر بیٹھ جاتا ہے

مجھے بے ربط سا منظر دکھاتا ہے

عجب الجھے ہوئے پیکر دکھاتا ہے

کہیں پہ پھول میں خنجر دکھاتا ہے

کہیں شفّاف شیشے میں کوئی پتھّر دکھاتا ہے

کہیں شبنم کے ہونٹوں پر کوئی شعلہ دکھاتا ہے

کسی گلشن میں کوئی آگ کا گولہ دکھاتا ہے

کہیں پہ ٹاٹ میں مخمل دکھاتا ہے

کہیں ممتا کے آنچل میں کوئی مقتل دکھاتا ہے

کہیں دریا کے دامن میں کوئی صحرا دکھاتا ہے

کسی صحرا میں پانی کا کوئی چشمہ دکھاتا ہے

وہ کیا ہے جو مرے بستر سے اٹھ کر میری آنکھوں میں سماتا ہے

مرے بستر کے پھولوں کو مسلتا ہے

انھیں کانٹا بناتا ہے

مرے دل میں چبھوتا ہے

وہ کیا ہے جو مری تفریح گاہوں میں بھی

میرے ساتھ چلتا ہے

کہیں پر روک لیتا ہے

کہیں پر ٹوک دیتا ہے

کسی احساسِ نازک میں

کوئی سنگین بڑھ کر

بھونک دیتا ہے

کبھی میری توجہ کو

کسی پر لطف منظر سے ہٹا کر

آگ کے شعلوں کے اندر جھونک دیتا ہے

وہ کوئی خوف ہے

یا خوبصورت خواب ہے کوئی

کہ جس سے مجھ کو ڈرنا ہے

کہ تعبیروں سے جس کی

مجھ پہ کوئی راز کھلنا ہے

کوئی خواہش

کہ جواب تک ادھوری ہے

کوئی چہرہ

جسے پانا ضروری ہے

کوئی لمحہ

جسے مٹھّی میں اپنی

قید کرنا ہے

کوئی دیوانگی

جس سے کوئی دانش نکلنی ہے

یا کوئی درد

جو شعروں میں ڈھل کر

دور کرنا چاہتا ہے اپنی شدّت کو

یا کوئی آہ

جو میرے حوالوں سے

لبوں پہ واہ سن کر

بھول جانا چاہتی ہے

اپنی پیڑا کو

وہ کیا ہے

جو مجھے حیران کرتا ہے ؟

مرے سینے میں برپا

نِت نئے طوفان کرتا ہے

مرے جذبات میں پیدا

عجب ہیجان کرتا ہے

وہ کیا ہے

جو مرے شعروں میں آتا ہے

مرے گیتوں میں ڈھلتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اضطراب

 

طبیعت مری گھر میں لگتی نہیں ہے

کوئی شکل آنکھوں کو جچتی نہیں ہے

کسی طور بھی جی بہلتا نہیں ہے

کوئی بات کانوں کو بھاتی نہیں ہے

کوئی رات دل کو لبھاتی نہیں ہے

کلب، ہوٹلوں کے تعیش سے پر زندگی میں بھی

اب جان باقی نہیں ہے

مری روح کی مضمحل  کیفیت

علم و دانش سے بھی دور ہوتی نہیں ہے

تکبر بھری افسری بھی میرے واسطے بے کشش ہو چکی ہے

مقدس صحیفوں میں بھی معجزہ کوئی ایسا نہیں

جو مری عقل سرکش کو مسحور کر کے کسی راستے پر لگا دے

کوئی فلسفہ بھی نہیں

جو مرے دل کی پارہ نمن کیفیت کو بدل دے

کوئی ایسی آغوش بھی تو نہیں ہے

کہ جس کی حرارت مجھے کوئی شعلہ دکھا دے

مری روح کی تشنگی کو بچھا دے

کوئی تجزیہ کر کے میرا بتائے

کہ میری طبیعت کو کیا ہو گیا ہے

مرے دل میں پارہ نمن کیفیت کس لیے ہے

مری روح کی تشنگی کا سبب بھی بتائے

بتائے کہ آخر میں کیا چاہتا ہوں

مجھے جستجو کس کی رہتی ہے ہر دم

میں اپنے میں کس کی کمی دیکھتا ہوں

بتائے کوئی مجھ کو اتنا بتائے ؟

کہ اس کا مداوا زمانے میں کیا ہے

کہاں ہے ؟

٭٭٭

 

 

 

 

نیاسال

 

 

نیاسال آیا

گیا

پھر سے آیا

رہا

پھر گیا

سال نکلے کئی

سال کے ساتھ نکلے کئی خواب بھی

آنکھ سے، ذہن سے، جان سے

آرزو کی زمیں اور بنجر ہوئی

زندگی کا سفر اور بے رس ہوا

اور بھی کچھ رکاوٹ ہوئی سانس میں

اور بھی جسم کا رنگ پھیکا ہوا

اور بھی کچھ اداسی گھلی آنکھ میں

اور بھی دل کی دھڑکن میں آئی کمی

اور بھی خون پانی ہوا

میں نے ہر بار چاہا

کہ اس سال تو

ایسا موسم ملے

خواب کا در کھلے

پھول کوئی کھلے

سانس میں کوئی خو شبوبسے

جسم پر کوئی رنگت چڑھے

آنکھ میں کوئی دیپک جلے

قلب میں خون گردش کرے

دھڑکنوں کی حرارت بڑھے

جان میں جاں پڑے

میں نے ہر بار آنکھیں بچھا کر سواگت کیا

اس کی آمد پہ جشنِ چراغاں کیا

اس کی راہوں کو روشن کیا

اس کی آنکھوں میں خود کو نمایاں کیا

اس کو سو سو طرح سے رجھایا

مگر مجھ سے غافل رہا

مجھ کو دیکھے بنا

میرے اطراف میں سال بھر تک رہا

پھر گیا

آج پھر آ گیا

پھر سے آنکھیں مری راہ میں بچھ گئیں

پھر سے پلنے لگی آرزو

خواب کی

پھر سے بیدار ہونے لگیں

رنگ کی، نور کی، خون کی خواہشیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

لکھنؤ تیرا میرا زیاں

 

لکھنؤ خواب کا شہر تھا

خواب کے شہر میں

رنگ تھا

نور تھا

اک عجب لمس تھا

رنگ میں ایک قوسِ قزح، گلستاں، تتلیاں

نور میں کہکشاں، چاندنی، بجلیاں

لمس میں گد گدی، شوق، مستی، مزا

لطفِ جاں

خواب کے شہر میں

روپ کا ایک گلشن بھی تھا

جس میں گالوں کے گل تھے کھلے

جس میں ہونٹوں کے غنچے تھے چٹکے ہوئے

جس میں جسموں کی خوشبو تھی پھیلی ہوئی

جس میں بانہوں کی شاخیں لچکتی ہوئی

جس میں سینوں کے طائر چہکتے ہوئے

جس میں زلفوں کا سایہ گھنا

شہر کیا تھا سراپاوہ محبوب تھا

ہر ادا پر کشش، ہر سرا خوب تھا

سیکڑوں جس میں محبوبیاں

ان گنت جس میں غمّازیاں

بے طرح حشر سامانیاں

جس کے چتون سے جادو عیاں

جس کی ترچھی نظر میں سناں

جس کے ابرو کماں

جس کی بان کی ادا میں فسوں سازیاں

جس کی گفتار سحرالبیاں

جس کے اظہار میں جاں فزائی سماں

جس کی باتوں میں شعر و ادب

جس کے لہجے میں موسیقیت

چال میں رقص جیسی لچک

بھاؤ میں طائرِ خوش گلو کی چہک

جس کے انداز میں اک عجب بانکپن

جس کی چھوٹی سی محفل بھی اک انجمن

شہر کیا تھا، وہ گہوارۂ علم و فن

جس کے دامن میں تہذیب کا ایک دریا رواں

تیرتے تھے نفاست، نزاکت کے منظر جہاں

جس کے کوٹھے حسنیوں سے آباد تھے

جس کی محفل میں رقصاں پری زاد تھے

جس کا اک اک مکاں اک پر ستان سا

جس میں فیروز بخت اور نجم النسا

جس کے ماحول میں خوشبوؤں کی لپک

گوشے گوشے میں جس کے دھنک

چپّے چپّے میں جس کی چمک

فرش پر جس کے شمس و قمر

ٹھیکروں میں بھی جس کے گہر

جس کی شب رات رانی سے پُر

جس کے دن میں بھی گیتوں کے سُر

شام جس کی ضیاؤں سے معمور تھی

شام جس کی زمانے میں مشہور تھی

جس کی گلیوں میں گھنگھرو کی جھنکار تھی

جس کی سڑکوں پہ کبک جیسی رفتار تھی

جس کے پانی میں آب بقا

نار بھی جس کا گلزار سا

جس میں آغوش کی گرمیاں

جس میں نازک بدن کی حسیں مخملی نرمیاں

جس میں چاروں طرف روشنی کا سماں

دھند کوئی نہ کوئی دھواں

جس میں اک اک بدن پُرسکوں

جس کی ہر آنکھ میں منظر پُر فسوں

امن و آرام کی اک فضا چارسو

چین کی بانسری بجتی تھی کو، بکو،

دشمنی، بغض، کینہ، نہ کد

چال بازی، نہ حرص و حسد

لب پہ صوت و صدا کا سمندر رواں

ہر زباں پہ جہاں صرف اردو زباں

جس کا دیوانہ اک اک بشر

جس کے دیدار کی منتظر ہر نظر

شوقِ دیدار میں

میں بھی داخل ہوا اس نگر میں مگر

پاؤں فالج زدہ ہو گئے

آنکھیں پتھر ا گئیں

خار دیدوں میں اندر تلک گڑ گئے

پتلیاں بجھ گئیں

لکھنؤ جو عجب شہرِ رومان تھا

جس کا برسوں سے آنکھوں کو ارمان تھا

آن میں مٹ گیا

لکھنؤ جو تصّور میں آباد تھا

جس سے دِل کا نگر شاد تھا

وہ بھی پلکوں سے جاتا رہا

٭٭٭

 

 

 

 

فیل ہائے زمانہ

 

میں اکثر یہ منظر یہاں دیکھتا ہوں

کہ شانوں پہ سبز رنگ پرچم اُٹھائے ہوئے چند ہاتھی

اُدھر سے اِدھر آ رہے ہیں

اِدھر سے اُدھرجا رہے ہیں

نہایت سدھی اور ٹھہری ہوئی

چال سے چل رہے ہیں

مگر ان کے پائے گراں کے تلے

سیکڑوں، نرم، شاداب پودے

کچل کر زمیں دوز ہوتے چلے جا رہے ہیں

نگاہیں کئی ان کے پائے گراں اور پودوں کے رشتے میں

الجھی ہوئی ہیں

کئی ان زمیں دوز پودوں پہ نمناک بھی ہیں

مگر ہاتھیوں کے دماغوں پہ انکش لگائیں تو کیوں کر

کہ ان میں سے کوئی بھی پاگل نہیں ہے

مناسب دشا میں سبھی ہوش کی چال سے چل رہے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

مِٹّی

 

میں اوروں سے جدا ہوں

یہ حقیقت ہے

مرے دل میں بھی وسعت ہے

جگہ اس میں تمھارے واسطے بھی ہے

مری آنکھیں تمھاری حالتِ خستہ پہ روتی ہیں

تمھارا دکھ مجھے بے چین کرتا ہے

تمھارا درد مجھ میں بھی سِسکتا ہے

یہ تم بھی جانتے ہو

اور شاید مانتے بھی ہو

توقع مجھ سے کرتے ہو

کہ میں بالکل بدل جاؤں

میں اپنے خول سے باہر نِکل آؤں

تمھاری طرح ہو جاؤں

تمھارے ذہن کے سانچے میں ڈھل جاؤں

اسی انداز سے سوچوں

کہ جس انداز سے تم سوچتے ہو اپنے بارے میں

تمھارے واسطے بھی میں وہی سب کچھ کروں

جو اپنی خاطر چاہتا ہوں

اور کرتا ہوں

مگر کیوں کر یہ ممکن ہے

کہ میں انسان ہوں

مِٹّی سے جنما ہوں

مجھے مِٹّی نے گوندھا ہے

مجھے ایک جسم میں

مِٹّی نے ڈھالا ہے

مرے ڈھانچے میں

اپنا گوشت ڈالا ہے

مرا نقشہ اُبھارا ہے

مرا چہرہ بنا یا ہے

مری آنکھوں میں

بینائی اُتاری ہے

مرے احساس کو گھٹّی

رگوں کو خوں پلایا ہے

مجھے بچپن سے اپنے پالنے میں

اس نے پالا ہے

مجھے جھولا جھلایا ہے

تمھیں معلوم ہے

مٹی کی اک فطرت بھی ہوتی ہے

جو اپنے طور سے

تخلیق کی تہذیب کرتی ہے

جو اپنے طور سے

تصویر کے خاکوں میں اپنا رنگ بھرتی ہے

اُسی کی تھاپ پر

تخلیق کے اعضا تھر کتے ہیں

اسی کے بول پہ

تصویر اپنے لب ہلاتی ہے

اسی کی تال پر

آنکھوں کے اندر بھاؤ بھرتے ہیں

اسی سے پتلیاں جنبش میں آتی ہیں

اسی سے رنگ چہرے کا بدلتا ہے

اسی سے کام ہوتا ہے

اسی سے نام ہوتا ہے

اسی سے صبح ہوتی

اسی سے شام ہوتی ہے

اسی سے گردش ایّام ہوتی ہے

مرے اندر بھی مِٹّی کی وہ فطرت رقص کرتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

منظر خواہش آنکھیں

 

رات دن یہ سنتا ہوں

زندگی کے رستے میں

آدمی کے حصّے میں

بے شمار منظر ہیں

بے حساب پیکر ہیں

دلکشی کا چشمہ ہے

دلبری کا دریا ہے

نور کا نظارہ ہے

رنگ کا تماشا ہے

نکہتوں کا میلا ہے

لذّتوں کا ریلا ہے

پُر بہار اعضا ہیں

گل صفات چہرے ہیں

خواب بخش شانے ہیں

سحر ساز سینے ہیں

غم شناس رانیں ہیں

چاندنی ہے چھٹکی سی

روشنی ہے بکھری سی

رہ نما ستارے ہیں

دور تک کنارے ہیں

لہر لیتے دریا ہیں

رقص کرتے ساگر ہیں

جھلملاتی جھیلیں ہیں

گلشنوں کا دامن ہے

جنگلوں کا جوبن ہے

تتلیوں کا جھرمٹ ہے

جگنوؤں کا جمگھٹ ہے

 

دور تک فضاؤں میں

گونجتی ہواؤں میں

یہ سنائی دیتا ہے

گل حسین چہروں کے

جسم کے مساموں کو

خوشبوؤں سے بھرتے ہیں

مشکبار کرتے ہیں

 

پھل بدن کے تن من میں

شہد گھول دیتے ہیں

رنگ شوخ انگوں کے

بے نگاہ آنکھوں میں

تیز سات رنگوں کی

قوس تان دیتے ہیں

 

عارضوں کی رعنائی

مضمحل مزاجوں میں

پھلجھڑی سی رکھتی ہے

رس گلاب ہونٹوں کے

بے مزا طبیعت کو

ذائقہ چکھاتے ہیں

سادگی کے پتلے کو

شوخیاں سِکھاتے ہیں

آدمی بناتے ہیں

 

خواب بخش شانوں کے

بال و پر دماغوں کو

عرش پر اڑاتے ہیں

فرش کے مکینوں کو

شمس و ماہ و اختر کا

ہمسفر بناتے ہیں

سحر ساز سینوں کی

برجیاں طلسماتی

ہفت آسمانوں کی

سیر تک کراتی ہیں

سادہ لوح آنکھوں کو

پُر فسوں بہاروں کی

منزلیں دکھاتی ہیں

 

گاؤ نرم رانوں کے

سودا نفع نقصاں کا

سر سے دور کرتے ہیں

ذہن کے خرابے میں

خواب زار بھرتے ہیں

تاجری زمینوں کو

لالہ زار کرتے ہیں

 

یہ صدا بھی سنتا ہوں

آسمان کرنوں کی

بین جب بجاتا ہے

کالے ناگ ظلمت کے

لعلِ سرخ سینوں سے

منہ پہ لانے لگتے ہیں

تیرگی کے دامن میں

نور بھرنے لگتے ہیں

تانتا ہے جب بھی چاند

چاندنی فضاؤں میں

جسم سے تمازت کی

سوئیاں نکلتی ہیں

فصل جب بھی تاروں کی

آسمان بوتا ہے

نور کے حسیں خوشے

جھلملانے لگتے ہیں

روشنی کے خوشوں سے

خوشبوئیں نکلتی ہیں

خوشبوؤں سے سینے کے

زخم سلنے لگتے ہیں

درد کے دہانے سب

بند ہونے لگتے ہیں

 

آبشار گرتے ہیں

جب کسی بلندی سے

گیت پھوٹ پڑتے ہیں

بے زبان مٹّی سے

نرم پڑنے لگتا ہے

سنگ کا کلیجہ بھی

رقص کرنے لگتا ہے

سخت جان منظر بھی

 

موج بہتے دریا کی

پانیوں کے مرہم کے

ٹھنڈے ٹھنڈے پھاہوں کو

زخم کے دہانوں پر

مسکرا کے رکھتی ہے

گھاؤ سوکھ جاتے ہیں

ٹیس بیٹھ جاتی ہے

 

ہلچلیں سمندر کی

آب کی سلائی سے

ٹھنڈکوں کے سرمے کو

کم ضیا نِگاہوں میں

جب کبھی لگاتی ہیں

برگ و بر بصارت کے

ٹھنٹھ منڈ پلکوں پر

پھر سے آ دھمکتے ہیں

ظلمتی منڈیروں پر

دیپ جلنے لگتے ہیں

تیرگی کے دریا میں

چاند اگنے لگتے ہیں

ساگروں کی لہریں جب

پاس آ کے پیروں کو

انگلیوں کے پوروں سے

ہنس کے گدگداتی ہیں

لہر لینے لگتا ہے

پور پور تن من کا

گیت بجنے لگتا ہے

جسم و جاں میں چھن چھن سا

 

جھیل کی ترنگوں سے

جل پری نکلتی ہے

جسم میں سماتی ہے

دل کا گھر سجاتی ہے

جل ترن بجاتی ہے

جھممجھماتی بوندوں کی

شعلہ زن پھوہاریں جب

چھمچھماتی انگوں میں

جسم کے اترتی ہیں

دہن کھلنے لگتے ہیں

زنگ زدہ ساموں کے

گرم ہونے لگتا ہے

سرد ریشہ ریشہ بھی

 

یہ خبر بھی سنتا ہوں

گرمیاں گلستاں کی

زرد زرد جذبوں کو

سرخ سبز کرتی ہیں

چوٹیاں پہاڑوں کی

خاکسار خواہش کو

سربلند کرتی ہیں

آسماں پہ رکھتی ہیں

جنگلوں کا فطری پن

شہر کے تمدن کا

جال توڑ دیتا ہے

نفس کے تقاضوں کے

سرنگوں پرندے کا

رُخ کھُلے جہانوں کی

سمت موڑ دیتا ہے

 

رنگ شوخ تتلی کے

سادگی کے پتلے سے

چھیڑ کرنے لگتے ہیں

خامشی کے ہونٹوں کو

لفظ دینے لگتے ہیں

سادہ دل پتنگے کے

جسم بے حرارت سے

پر نکلنے لگتے ہیں

جگنوؤں کی جیبوں سے

رات دن نکلتے ہیں

روشنی اندھیرے کا

کھیل ہونے لگتا ہے

کان یہ بھی سنتے ہیں

جب حسین رقّاصہ

بزم میں تھرکتی ہے

جسم کے کمانوں سے

تیر چلنے لگتے ہیں

عاشقوں کے سینے سے

دل نکلنے لگتے ہیں

بھاؤ اس کے چہرے کے

گل عجب کھلاتے ہیں

آندھیاں اٹھاتے ہیں

بجلیاں گراتے ہیں

عارضوں کے پھولوں پر

تتلیاں بٹھاتے ہیں

ہونٹ کے کناروں سے

اک کلی بناتے ہیں

جیٖب کے اشاروں سے

پھر اسے کھِلاتے ہیں

رات کے اندھیرے سے

دن نکلنے لگتا ہے

دن بھی اس کے جادو سے

شب میں ڈھلنے لگتا ہے

 

حبشنیں نگاہوں کی

دل نکال لیتی ہیں

اور مرنے والوں میں

روح ڈال دیتی ہیں

بھاؤ بھاری بھاروں کو

پھول میں بدلتے ہیں

آنکھ کی اداؤں سے

خار سب نکلتے ہیں

گرد باد ٹھمکوں کے

ذہن کے سکو توں کو

پاش پاش کرتے ہیں

لوچ کھول دیتا ہے

جسم کے طنابوں کو

پتلیوں کے غمزوں سے

غم فرار ہوتے ہیں

چارہ ساز عشووں سے

اشک سوکھ جاتے ہیں

کیف پھوٹ پڑتا ہے

مطربہ کے نغموں سے

سرگراں دماغوں سے

بوجھ گرنے لگتا ہے

جسم بے حرارت میں

جان پڑنے لگتی ہے

راکھ کی انگیٹھی میں

آگ جلنے لگتی ہے

سرد سرد خواہش سے

بھاپ اٹھنے لگتی ہے

 

میں بھی ان نظاروں کو

جاں فزا بہاروں کو

گل صفات چہروں کو

خواب بخش شانوں کو

سحر ساز سینوں کو

غم شناس رانوں کو

پانیوں کے مرہم کو

ٹھنڈکوں کے سرمے کو

روشنی کے خوشوں کو

جگنوؤں کی جیبوں کو

غم گسار غمزوں کو

چارہ ساز عشووں کو

دیکھنے کی خواہش میں

مضطرب سا رہتا ہوں

دل مرا تڑپتا ہے

جاں مری مچلتی ہے

پر مری نگاہیں تو

جسم کی ضرورت میں

جان کی حفاظت میں

ذہن کی اذیت میں

روح کی مصیبت میں

وقت کی نزاکت میں

راستوں کی وحشت میں

بے امان دہشت میں

داغ دار چہروں میں

اشکبار آنکھوں میں

بے گلاب گالوں میں

بے سواد ہونٹوں میں

بد حواس بانہوں میں

جسم کی کراہوں میں

ماتمی سبھاؤں میں

چیختی فضاؤں میں

پیٹ کی صداؤں میں

جسم و جاں کے گھاووں میں

درد کے پڑاوؤں میں

رات دن شرابی سی

دھت پڑی سی رہتی ہیں

٭٭٭

 

 

 

کہیں کچھ ہے

 

کہیں کچھ ہے

جو اُس کو روک دیتا ہے

کہیں کچھ ہے

جو اُس کو ٹوک دیتا ہے

کہیں کچھ ہے

جو اس کے جسم کو بیدار کرتا ہے

کہیں کچھ ہے

جو اُس کی روح کر سر شار کرتا ہے

کہیں کچھ ہے

جو اُس کے ذہن کو ہوشیار کرتا ہے

کہیں کچھ ہے

جو اُس کی عقل کو مسمار کرتا ہے

کہیں کچھ ہے

جو اس کو مے پلاتا ہے، اُسے میخوار کرتا ہے

کہیں کچھ ہے

جو اس کے جسم و جاں میں درد کی شمعیں جلاتا ہے

کہیں کچھ ہے

جو اُس کے چشم و دل سے اشک کا دریا بہاتا ہے

کہیں کچھ ہے

جو میرے واسطے اُس کو رُلا تا ہے

کہیں کچھ ہے

جو اُس کے ہاتھ میں اکثر

کبھی چوں گا، کبھی خامہ تھما تا ہے

لبوں کے ہاتھ سے الفاظ کے مرہم لگاتا ہے

کہیں کچھ ہے

جو اس کو رات دن بے چین رکھتا ہے

کبھی پارہ صفت اوپر اُٹھاتا ہے

کبھی پانی کے جھاگوں کی طرح نیچے بٹھاتا ہے

کبھی شعلہ بناتا ہے، کبھی شبنم بناتا ہے

بنا کر گُل کبھی اُس کو مرے دل میں کھلاتا ہے

کبھی کانٹا بنا کر میرے سینے میں چبھوتا ہے

کہیں کچھ ہے

جو اکسا تا ہے اس کو نظم لکھنے پر، کبھی کچھ شعر کہنے پر

کہیں کچھ ہے

کہ اس سے روز ہی ایک نظم ہو جاتی

کہیں کچھ ہے

کہ نظموں میں زباں ہر راز کہہ جاتی

کہیں کچھ ہے

کہ شعروں میں کبھی ایسی صدائیں بھی چلی آتیں

کسی صورت کسی حالت میں جو لب پر نہیں آتیں

کہیں کچھ ہے

جو افسانہ بھی لکھواتا ہے راتوں میں

کہیں کچھ ہے

جو افسانے میں لاتا ہے حقیقت کو

کہیں کچھ ہے

جو اس کو بھی بہت بے چین رکھتا ہے

کہیں کچھ ہے

جو احساسات میں گرمی سموتا ہے

کہیں کچھ ہے

جوجسم و جان میں خنجر چبھوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

میری آنکھ خالی ہے

 

(استاد محترم شہریار صاحب کی پہلی برسی پر)

 

اک شخص اِن آنکھوں میں رہتا تھا

مِری ان پتلیوں کے طاقچوں میں دیپ رکھتا تھا

مرے بے رنگ دیدوں میں گلوں کے رنگ بھرتا تھا

رگوں میں اس کے ہونے سے عجب نشّہ سا رہتا تھا

عجب مستی کے عالم میں مرے دن رات کٹتے تھے

کئی صورت سے میرے ذہن و دل میں وہ اتر تا تھا

کئی انداز سے صحرا مرا، سیراب کرتا تھا

مری اک اک خبر پہ کان دھرتا تھا

مرے بننے بگڑنے کا اثر وہ دل پہ لیتا تھا

مری اک اک خوشی پر مجھ سے زیادہ وہ مچلتا تھا

مری خوش بختیوں کے عکس کا آئینہ بنتا تھا

مری محرومیوں کے خار اُس کے دل میں چبھتے تھے

مری خاطر بھی اکثر دُکھ اُٹھا تا تھا

مری مایوسیوں کی دھوپ سے وہ تلملا تا تھا

جو مجھ کو ٹوکتا تھا، روکتا تھا

اور اکثر پیٹھ میری تھپتھپا تا تھا

مرے ابّا سے بھی زیادہ کہیں شفقت وہ رکھتا تھا

مجھے کیا میرے بچّوں سے بھی بے حد پیار کرتا تھا

کبھی جب ڈانٹتا تھا تو یہ لگتا تھا

وہ سایہ آج بھی سر پر سلامت ہے

بہت پہلے جو ایک دن اُٹھ گیا تھا

اور غموں کی دھوپ جھلسانے لگی تھی میری ہستی کو

وہ پیپل کی طرح مجھ کو گھنی چھاؤں میں رکھتا تھا

وہ گوتم کی طرح مجھ کو مے عرفاں پلاتا تھا

وہ پتلی کی طرح آنکھوں میں رہتا تھا

مرے دل میں سما تا تھا

محبت کا، مسّرت کا

رگ و پے میں عجب دریا بہاتا تھا

مگر جو دیکھتا ہوں اب تو میری آنکھ خالی ہے

٭٭٭

 

 

 

مکالمہ

 

ہمیں جو کہتے ہو تم کہ ہم نے

لباس اپنا بدل لیا ہے

عجیب چولا پہن لیا ہے

کہ جس سے تم میں ہر اس پھیلا

تمھارا جس سے وجود لرزا

ہمارا بدلا ہوا ہیؤلا

تمھیں بہت ہی ڈرا رہا ہے

تمھاری آنکھوں کو دہشتوں کا

سیاہ منظر دکھا رہا ہے

ہمیں بھی اس کی خبر ہے لیکن

تم ہی بتاؤ کہ کب تلک ہم

دبائے سینے میں آگ رکھتے

پگھلتے لاوؤں کا زور سہتے

تمھیں بھی اس کا تو علم ہو گا

کہ ہم نے برسوں دباؤ جھیلا

بدن پے اپنے تناؤ جھیلا

تمھاری آمد کا دور جھیلا

تمھارے ماضی کا طور جھیلا

کہ ہم نے ہیموں کی ہار دیکھی

تمھارے بابر کی مار دیکھی

کہ ہم نے غوری و غزنوی کے

سپاہیوں کو سروں پہ اپنے

بہت دنوں تک سوار دیکھا

تمھارے ہاتھی، تمھارے گھوڑوں

تمھاری فوجوں کے قافلوں کا

زمیں پہ گردو غبار دیکھا

کہ اپنے گلشن میں ہم نے تم کو

گلاب بنتے، مہکتے دیکھا

ہمارے پیڑوں کی ڈالیوں پر

پرند صورت چہکتے دیکھا

ہمارے ہاتھوں کا جام لے کر

نشے میں تم کو بہکتے دیکھا

تمھارے قدموں کے آگمن پر

زمیں کو اپنی سمٹتے دیکھا

فلک کو اپنے بکھرتے دیکھا

تمھاری طاقت کا زور دیکھا

تمھاری شہرت کا شور دیکھا

تمھارے شاہوں کا عیش دیکھا

تمھارے تیور کا طیش دیکھا

تمھاری حشمت بھی ہم نے دیکھی

تمھاری حکمت بھی ہم نے دیکھی

تمھارے ذہنوں کا حال دیکھا

تمھارے دل کا ابال دیکھا

تمھاری سوچوں کا حال دیکھا

تمھارا اک اک خیال دیکھا

تمھارا اک اک سوال دیکھا

بتاؤ ایسے میں کب تلک ہم

بدن میں صبرو قرار رکھتے

دبا کے اپنا شرار رکھتے

جو چاہتے ہو بدن سے چولا

تمھاری خاطر ہمارا اترے

ہمارے غصّے کی آگ بیٹھے

ہماری نفرت کا ناگ سوئے

ہمارے سینے کا شور ٹھہرے

ہمارے اندر کا زور ٹوٹے

تو تم بھی اپنا سوال بدلو

تو تم بھی اپنا خیال بدلو

تو تم بھی سوچوں کا جال بدلو

تو تم بھی ذہنوں کا حال بدلو

تم نے جو بھی دیکھا ہے

چند حکمرانوں کی

صرف اک لڑائی تھی

اپنی اپنی طاقت کی

زور آزمائی تھی

ایک بادشاہت نے

دوسری حکومت کی

تخت کو اجاڑا تھا

ایک کے سپاہی نے

دوسرے کی فوجوں کے

کھیل کو بگاڑا تھا

جیسے ایک وحشی نے

دوسرے درندے کو

دشت میں پچھاڑا ہو

تم نے جو کچھ سمجھا ہے

یہ بھی تو سیاست کا

ایک شاخسانہ ہے

کام جس کا دنیا میں

دل کو ورغلا نہ ہے

جذبۂ عداوت کا

حوصلہ بڑھانا ہے

آدمی کے بچّوں کو

جانور بنانا ہے

تم نے شاہ بابر کو

ایک حملہ آور کے

روپ میں تو دیکھا ہے

اور اس کی طاقت کو

ظلم و جور سمجھا ہے

پر اسی کے باطن نے

اس جہاں کی دھرتی میں

بیج آدمیت کا

ایسا ایک بویا تھا

جس سے پیار پھوٹا تھا

امن جس سے نکلا تھا

جس سے عدل پھیلا تھا

تم نے یہ بھی دیکھا کیا

بابری زمینوں سے

اکبری اخوت کی

فصل لہلہائی تھی

شاخِ شہہ جہانی پہ

اک کلی محبت کی

کیسے مسکرائی تھی

یہ بھی تم نے دیکھا کیا

بہن سے محبت کا

اک گلاب ایسا بھی

گندھ جس کی سانسوں میں

آج بھی مہکتی ہے

رنگ جس کا آنکھوں میں

آج بھی چمکتا ہے

لمس جس کا جسموں میں

آج بھی مچلتا ہے

جاں عزیز ملکہ کے

جرم نا گہانی پر

قتل کی سزا کا حکم

کس زباں سے نکلا تھا

کس مکاں میں گونجا تھا

تم نے یہ بھی دیکھا کیا

ہم انھیں زمینوں کے

باطنی شگوفے ہیں

ہم میں بھی اخوت کا

امن کا، محبت کا

عدل کا، شرافت کا

اک خمیر شامل ہے

اک ضمیر شامل ہے

ہم نے تو ہمیشہ ہی

ذہن صاف رکھا ہے

دل کو پاک رکھا ہے

سب کو ایک جانا ہے

سب کو ایک سمجھا ہے

ایک خواب دیکھا ہے

اک خیال پالا ہے

شر یہاں سے ہٹ جائے

خیر سب میں بٹ جائے

نور کتنا پھیلا تھا

تیرگی کے گوشوں میں

سبز آستانوں سے

ہاتھ کس کے اٹھتے تھے

آستاں کے خانوں میں

روز و شب دعاؤں کو

کون گڑ گڑاتا تھا

صبح تک اندھیرے میں

واسطے اجالوں کے

تم نے یہ بھی دیکھا کیا

ہم نے کس عقیدت سے

خون دے کے جسموں کا

اس زمیں کو سینچا ہے

اور اک اک ذرّے کو

دل بنا کے سینے میں

کس جتن سے رکھّا ہے

تم نے یہ بھی دیکھا کیا

ہم نے کس محبت سے

اس چمن کی شاخوں پر

برگ و بر اگائے ہیں

رنگ و بو بسائیں ہیں

رنگ و بو کی رکشا میں

جسم و جاں جلائے ہیں

رنج و غم اٹھائے ہیں

داغ کتنے جھیلے ہیں

زخم کتنے کھائے ہیں

 

تم نے یہ بھی دیکھا کیا

ہم نے کس مشقت سے

ہم نے کتنی محنت سے

پتھروں کے سینے سے

تاج کو نکالا ہے

سنگ کے کٹورے میں

چاندنی کو ڈھالا ہے

چاندنی کی کرنوں کو

دور تک فضاؤں میں

کس طرح اچھالا ہے

 

تم نے یہ بھی دیکھا کیا

ہم نے کس ریاضت سے

ساز اک بنایا تھا

اور اس کے تاروں سے

راگ اک نکالا تھا

راگ جو مسرّت کا

راگ جو محبت کا

بے شمار جسموں کو

ایک جاں بنایا تھا

جسم سے تمھارے بھی

سوئیاں اذیت کی

ہم نے اپنی پلکوں سے

بارہا نکالی ہیں

عزّتیں تمھاری بھی

زخم کھا کے چھاتی پہ

کب نہیں سنبھالی ہیں

 

تم نے یہ بھی دیکھا کیا

تم ذرا اکے لیے میں

اک ذرا مروّت سے

ہو سکے تو الفت سے

سوچنا کبھی اس پر

برف یہ سیاست کی

ذہن سے پگھل جائے

تیرگی حقارت کی

آنکھ سے نکل جائے

گانٹھ بھی عداوت کی

کیا پتا کہ کھل جائے

دل کے آبگینوں سے

میل سارا دھل جائے

باغِ بادشاہی ہو

گلشنِ سیاست ہو

شاخ و تن سے دونوں کے

سانپ لپٹے رہتے ہیں

برگ و بر میں دونوں کے

زہر بنتا رہتا ہے

صرف دل کی آوازیں

نفرتوں کے کانٹوں کو

پھول میں بدلتی ہیں

٭٭٭

 

 

 

اخبار بینی

 

’’پھر فلسطین پر بم گرا

ان گنت لوگ مارے گئے ‘‘

’’کو شی ندّی کے سیلاب میں

سیکڑوں بے مکاں ہو گئے ‘‘

’’پھر بنارس میں سو کھا پڑا

بھوک کی آگ میں جسم و جاں جل گئے ‘‘

’’شہرِ شملہ میں بس حادثہ

یاتری سب کے سب موت کے غار میں ‘‘

’’شر پسندوں کی گولی سے پھر

درجنوں بے گنہ چل بسے ‘‘

’’خوف و دہشت کی پھر ایک آندھی اٹھی

کتنے معصوم دنیا سے پھر اٹھ گئے ‘‘

’’کل زباں نام کا اک تماشا ہوا

لفظ لوگوں کے گھر کھا گئے ‘‘

’’پھر کسی سونی مسجد سے غوغا اُٹھا

شور کے شوخ شعلوں میں پھر بستیاں جل گئیں ‘‘

’’ایک مندر کے گرنے کی افواہ سے

آن کی آن میں گھر کے گھر گر گئے ‘‘

’’پھر تحفظ کے دفتر میں گھپلا ہوا

راز کتنے ہی دشمن کے ہاتھ آ گئے ‘‘

’’اک محافظ نے اپنے ہی مالک کے سینے پہ کل

گولیاں داغ دیں ‘‘

’’باپ نے اپنی بیٹی کے ہمراہ

منہ اپنا کالا کیا‘‘

’’ایک عورت کسی گاؤں میں

اپنے بیٹے کے بچّے کی ماں بن گئی‘‘

’’ایک بیٹے نے پیسوں کی خاطر فقط

اپنے ماں باپ کی گردنیں کاٹ دیں ‘‘

’’ماں کوئی اپنے بچّے کو

ڈسٹ بین میں پھنک کر آ گئی‘‘

’’ایک عاشق نے معشوق کو

بیچ ڈالا کہیں ‘‘

’’ایک بیوی نے شوہر کا

سودا کیا‘‘

’’ایک شوہر کئی سال تک

اپنی بیوی سے دھندا کراتا رہا‘‘

’’اک جواری نے جورو کو بھی

داؤ پر رکھ دیا‘‘

’’اک پجاری تو بھگوان کو

بیچ کر کھا گیا‘‘

اور بھی اس طرح کی کئی سرخیوں سے

ہمارا تعلق فقط اس قدر

کہ ہمیں صبح کی چائے کی طرح اخبار بینی کی عادت بھی ہے

٭٭٭

 

 

 

وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے

 

علی گڑھ میں وہ بھی زمانہ تھا کیا

مسرت میں ماحول لپٹا ہوا

عجب کیف و مستی، عجب ولولہ

عجب عیش و عشرت کا تھا سلسلہ

مہک علم و دانش کی تھی کو بکو

چہک طائرِ فن کی تھی چارسو

فضائے معطّر میں اک قافلہ

دلوں میں لیے ہمت و حوصلہ

چہکتا ہوا سوئے منزل رواں

بناتا ہوا اپنا نام و نشاں

جواں سال سارے ہی جس میں ادیب

سبھی خوش بیاں، خوبرو خوش نصیب

تعلق ہر اک کا تھا اشراف سے

مزیّن سبھی اعلیٰ اوصاف سے

کوئی فنِّ تقریر میں طاق تھا

کوئی شعر گوئی میں مشّاق تھا

کہانی کا ماہر کوئی نوجواں

مضامین میں تھا کوئی نکتہ داں

کسی کو تھا حاصل غزل میں کمال

کوئی نظم گوئی میں تھا بے مثال

زمانے میں بدلاؤ کے واسطے

سلیقے سے سارے ہی بیدار تھے

سبھی اپنے اپنے تئیں لیس تھے

عزائم میں فرہاد تھے، قیس تھے

کئی ان میں ایسے بھی تھے جینیس

ہر اک علم پر جن کی تھی دسترس

انھیں میں تھا وہ ایک لڑکا عجیب

سبھی میں تھا مقبول، سب کا حبیبؔ

کوئی اس کو جاویدؔ سے جانتا

کوئی صدرِ طلبہ سے پہچانتا

مقر ر تھا وہ ایک جادو بیاں

جگاتا تھا سوئے دلوں کا جہاں

دکھاتا تھا ذرّات میں ماہتاب

بناتا تھا ذرّے کو بھی آفتاب

انھیں میں سے تھا ایک شارقؔ ادیب

سبھی سے جدا اور سب کے قریب

کلب تھے کئی جس کے دم سے جواں

کہ تھا محفلوں کا وہ روحِ رواں

ادب کی مجالس سجاتا تھا وہ

ادیبوں کی جمگھٹ لگاتا تھا وہ

کہانی کے میداں کا تھا شہسوار

مگر شاعری پر بھی تھا اختیار

کوئی ان میں مرزا قمر بیگ تھا

حقیقت میں وہ تو شر ر بیگ تھا

طبیعت میں اس کی تھی شوخی بھری

زباں اس کی ایسی کہ جیسے چھری

تعارف سبھی پہ تھا اس کا عیاں

وہ آشفتہؔ چنگیزی ابن خزاں

کوئی ان میں اک فرحت احساس تھا

نہایت ذکی اور حسّاس تھا

بظاہر زمانے سے تھا بے نیاز

مگر تھے عیاں اس پہ سارے ہی راز

اکٹھّا تھے اس طرح اس میں علوم

کہ مہتاب کے پاس جیسے نجوم

تھا خورشید بھی ان میں اک دلپسند

سخنور، سخن پرور و ہوش مند

جہانِ کتب جس کا آواس تھا

ہنر کے سمندر کا غوّاص تھا

نظر میں تھی جس کی ادب کی اساس

نکاتِ سخن سے جو تھا روشناس

انھیں میں تھا ایسا بھی اک قاسمی

نفاست سے پُر جس کی تھی زندگی

ذہانت میں جس کا نہیں تھا جواب

لیاقت میں بھی تھا وہ اک آفتاب

ادب سے ادب پیش کرتا تھا جو

روایت کا بھی پاس رکھتا تھا جو

کوئی ان میں شامل تھا مہتاب بھی

چمکتا تھا اس کا حسیں خواب بھی

خموشی سے کرتا تھا جو شاعری

نہیں تھی تمنا اسے نام کی

سخن میں نزاکت دکھاتا تھا جو

زمینیں نئی روز لاتا تھا جو

عجب ایک لڑکا تھا ان میں نظیر

کہ جیسے کوئی نیم پاگل فقیر

کبھی غرق رہتا تھا تخلیق میں

کبھی ڈوب جاتا تھا تحقیق میں

ملا تھا نرالا لقب بوم کا

کہ فن کے لیے رات بھر جاگتا

انھیں میں سے اک اپنا پیغام تھا

ادب واسطے جو کہ بدنام تھا

ہمہ وقت اس کا ادب مشغلہ

ہمیشہ ادب ہی سے تھا واسطہ

اکیلا وہ ناول کا تھا شہسوار

نہیں ایک پل بھی اسے کچھ قرار

کوئی ان میں طارق بھی تھا خوش خصال

نہایت حسیں اور صاحب جمال

محبت میں جس کا نہیں تھا جواب

محبت لٹاتا تھا جو بے حساب

ادیبوں کو اکثر بلاتا تھا جو

محبت کا شربت پلاتا تھا جو

انھیں میں مساعد بھی اک نوجواں

بہت خوبرو اور جادوں بیاں

نہاں جس کے اندر کئی خوبیاں

عیاں جس کے چہرے سے محبوبیاں

سلیقے سے اشعار پڑھتا تھا جو

سماعت کو مسحور کرتا تھا جو

جسے نام دیتے تھے اظہار کا

بڑا سخت بندہ تھا کردار کا

انھیں میں سے تھا نوجواں اک نسیمؔ

ملی تھی جسے حق سے عقل سلیم

دواؤں کے شعبے میں پڑھتا تھا جو

مگر اس سے رغبت نہیں نام کو

انھیں میں سے اظہرؔ بھی تھا اک نفس

نگاہیں تھیں جس کی بہت دور رس

سیاست کے میدان کا مرد تھا

صحافت کی دنیا کا بھی فرد تھا

انھیں میں سے تھا ایک پرویز بھی

بہت ہی ترقی پسند آدمی

سناتا تھا وہ شاعری بے حجاب

ہر اک بات میں اس کی تھا انقلاب

انھیں میں غضنفر بھی اک فرد تھا

جسے مٹتی اقدار کا درد تھا

مرّبی سبھی کے تھے اک شہریار

پلاتے تھے جو معرفت کا سگار

مزاج مبارک میں تھی سادگی

مگر شخصیت میں بڑی دل کشی

بتاتے تھے جو سب کو رازِ نہاں

دکھاتے تھے جو منزلوں کے نشاں

کہانی میں قاضی کی اصلاح تھی

ہر اک بات قاضی کی مفتاح تھی

خیالات جن کے بہت قیمتی

تجربات میں وسعتِ زندگی

تواریخ عالم سے تھے آشنا

تمدن کی راہوں کا اک رہنما

وحید اخترؔ ایک ایسے استاد تھے

دماغوں کے گھر جن سے آباد تھے

پڑھاتے تھے جو فلسفے کی کتاب

کہ وا زیست کے جس سے ہوتے تھے باب

عجب ایک استاد تھے سورتیؔ

ارسطو کی جیسے کوئی مورتی

چمک ان کے چہرے پہ تھی علم کی

جبیں پہ ذہانت کی تھی روشنی

تھا افکار کا جن کے آگے ہجوم

سدا سجدہ کرتے تھے جن کو علوم

سکھاتے تھے سب کو سبق سرمدی

بناتے تھے بے خوف ان کو وہی

تھا مقصد سبھی کا بدلنا مزاج

زمیں پر بنانا نیا اک سماج

اُگے ایسا سورج نیا عرش پر

ملے ہر بشر کو ضیا فرش پر

رہے بول بالا مساوات کا

نہ ہو ڈر کسی کو کسی بات کا

مگر وقت کی ایسی آندھی چلی

ہر اک شاخ اپنی جگہ سے ہلی

ہوائے زمانہ بہا لے گئی

جڑوں سے سبھی کو اُڑا لے گئی

کوئی ریگ زارِ عرب میں گرا

کوئی پتھروں کے نگر سے لگا

کوئی شہر کی بھیڑ میں کھو گیا

کوئی گاؤں میں گرکے گم ہو گیا

کوئی منصبی کے بھنور میں گھرا

مراتب کے دلدل میں کوئی دھنسا

سیاست کے چنگل میں کوئی پڑا

صحافت کے جنگل میں کوئی گھرا

کوئی گھر گیا گھور طوفان میں

کوئی آ گیا دامِ رومان میں

کسی کو کسی ناگ نے ڈس لیا

کسی کو نصابات نے کس لیا

کوئی چوٹ کھا کر کہیں مرگیا

کسی کا بدن زخم سے بھر گیا

غرض قافلہ راہ میں لُٹ گیا

ہر اک کی تمنا کا دم گھُٹ گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

 

فولادی بے جان نگر میں

جیون کے سنسان سفر میں

بے کیفی کے گھور اثر میں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

سنجیدہ پُر فکر مکاں میں

دفتر کے بے رنگ جہاں میں

رستے کے پُر ہول سماں میں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

آندھی جیسی تیز ہوا میں

سورج جیسی گرم فضا میں

محشر سی پُر شور صدا میں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

ہنگاموں کی کسرت میں

بے تابی و کلفت میں

عیش و طرب کی حسرت میں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

بوجھل کالی راتوں میں

الجھی الجھی باتوں میں

اپنی ساری ماتوں میں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

محفل کی رنگینی میں

مجلس کی سنگینی میں

اپنی خاک نشینی میں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

بے بس گوں گی دھرتی پر

بھوکی ننگی بستی پر

کلجگ کی بد مستی پر

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

جیون کی جنجالی پر

تن من کی کنگالی پر

خوابوں کی پامالی پر

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

معصوموں کی ٹولی پر

بندوقوں کی گولی پر

شہر کی خونی ہولی پر

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

خوابوں کی تعبیروں پر

بے رونق تصویروں پر

لوگوں کی تقدیروں پر

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

ہم سائے کے کتے پر

اپنے گھر کے بچے پر

اس کے اپنے حصے پر

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

کم پانی کے پنگھٹ پر

نل کے نیچے جمگھٹ پر

چھینا جھپٹی کھٹ پٹ پر

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

راشن کی سودائی پر

لائن کی لمبائی پر

چیزوں کی مہنگائی پر

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

اپنے راج سنگھاسن پر

ایک انوکھے ساسن پر

سندر کومل بھاشن پر

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

ٹوٹی چار دیواری پر

آنگن کی ناداری پر

لوگوں کی ہشیاری پر

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

انساں کی بیداری پر

اس کی خود مختاری پر

مارکس کی کارگزاری پر

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

ذہنوں کی من مانی پر

آنکھوں کی حیرانی پر

باتوں کی بے معنی پر

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

امریکہ کی حکمت پر

روس کی گھٹتی طاقت پر

اپنے دیس کی حالت پر

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

جگ کی چیرہ دستی پر

ملکوں کی بد بختی پر

یو۔ این۔ او کی ہستی پر

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

دنیا اتنی میلی کیوں

اس کی گندھ وشیلی کیوں

دور دور تک پھیلی کیوں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

اک اک شخص پریشاں کیوں

اپنے حال پے حیراں کیوں

جیون سب کا ویراں کیوں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

باہر گھور اندھیرا کیوں

بھیتر بھوت کا ڈیرا کیوں

ایسا سرخ سویرا کیوں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

لنگڑا دوڑ لگائے کیوں

لولا تیر چلائے کیوں

اندھا راہ دکھائے کیوں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

پنڈت مرغا کھائے کیوں

ملّا بھنگ چبائے کیوں

دھرم دھرا رہ جائے کیوں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

پیپل رستہ تکتا کیوں

گوتم گھر میں بیٹھا کیوں

آج کا منظر ایسا کیوں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

راون مر کر زندہ کیوں

اک اک اس کا بندہ کیوں

گھر گھر اس کا دھندا کیوں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

پاپا باہر رہتا کیوں

سنڈے سنڈے آتا کیوں

انکل جیسا لگتا کیوں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

بچے حیرت کرتے کیوں

دیکھ کے اس کو ڈرتے کیوں

ماں سے اپنی لڑتے کیوں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

بیوی اپنی صابر کیوں

ہر حالت میں شاکر کیوں

اللہ تیری ذاکر کیوں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

اس کی کرسی اونچی کیوں

اپنی کرسی نیچی کیوں

اس میں سب کی روچی کیوں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

کس کے گھر میں صوفا ہے

کس کے بیڈ پر گدّا ہے

گدّا کتنا موٹا ہے

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

کس کا ٹی وی کیسا ہے

رنگیں ہے یا سادہ ہے

سائز کس کا کتنا ہے

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

کس کھڑکی پر پردہ ہے

پردے کا رنگ کیسا ہے

کپڑا کتنا مہنگا ہے

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

کس کس کے گھر چولھا ہے

گیس کا ہے یا سادہ ہے

ریفل کب تک چلتا ہے

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

کب کب مرغا پکتا ہے

کتنے ٹائم چلتا ہے

ہم سایہ کیا جلتا ہے

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

کس کا بچہ کیسا ہے

دبلا ہے یا موٹا ہے

کس مکتب میں پڑھتا ہے

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

کس کی لڑکی کیسی ہے

باہر کب تک رہتی ہے

کس کس کے سنگ پھرتی ہے

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

کس آنگن میں جھگڑا ہے

جھگڑا کتنا تگڑا ہے

جھگڑا ہے یا رگڑا ہے

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

کس گھر میں بد حالی ہے

پھوٹی کس کی تھالی ہے

ہانڈی کس کی خالی ہے

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

گھر سے باہر چلتے ہیں

سیر جہاں کی کرتے ہیں

دنیا سے پھر ملتے ہیں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

سر پر سرخ گھٹائیں ہیں

دہشت ناک ہوائیں ہیں

ایسی تلخ فضائیں ہیں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

راہی لولے لنگڑے ہیں

رہبر گونگے بہرے ہیں

رہزن موٹے تگڑے ہیں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

زخم بدن پر کاری ہیں

آنکھیں نیند سے عاری ہیں

راتیں کتنی بھاری ہیں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

منظر سرخ سنہرے ہیں

رنگ بھی کافی گہرے ہیں

لیکن ان پر پہرے ہیں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

حال سے چل کر ماضی میں

بیٹھ کے نیک اراضی میں

تنہائی کی وادی میں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

شنکر نے کیوں زہر پیا

رام نے کیوں بنواس لیا

گاندھی نے کیوں ظلم سہا

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

عیسیٰ دار پے کیوں لٹکا

گوتم نے گھر کیوں چھوڑا

جنگل جنگل کیوں دوڑا

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

تلسی نے کیوں کاویہ رچا

خسرو نے کیوں گیت لکھا

غالب نے کیوں شعر کہا

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

حضرت نے کیوں ہجرت کی

دشمن سے بھی الفت کی

کیوں نہ ان سے نفرت کی

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

مسلم ہو کر اکبر نے

دیش کی ہندو جنتا سے

پیار کے رشتے کیوں جوڑے

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

آج مگر یہ نفرت کیوں

دل میں صرف کدورت کیوں

بے معنی ہے الفت کیوں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

ہندوستان کے ٹکڑے کیوں

الگ الگ یہ حصے کیوں

بات بات میں جھگڑے کیوں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

خالصتان کی مانگیں کیوں

روز ہیں جاتی جانیں کیوں

اکڑی اتنی آنیں کیوں

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

کیوں ہوتی ہے سلطانی

کیوں ہوتی ہے منمانی

کیوں ہوتی ہے حیوانی

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

چہرہ بشرہ انسانی

سادھو جیسی پیشانی

من میں لیکن شیطانی

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

دیکھ کے قہرِ شیطانی

لرزے نوعِ انسانی

کوئی صورت امکانی

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

٭٭٭

 

 

 

گندم کی بالیاں

 

بھوک سے بھری آنکھیں

آسمان کی جانب

تک رہی ہیں دھرتی سے

اک حسین راکٹ کو

جس کے سرخ پرچم پر

بالیاں ہیں گندم کی

بھوک سے بھری آنکھیں

جانتی نہیں لیکن

بالیاں تو گیہوں کی

خوش نما بہانے ہیں

چمچماتے خوشوں میں

زہر ناک دانے ہیں

سرخ سرخ دانوں میں

ایٹمی بلائیں ہیں

جاں گسل دوائیں ہیں

٭٭٭

 

 

 

پس منظر

 

بہت کچھ میرے سینے میں امنڈتا ہے

دل و جاں سے نکلتا ہے

ہر ایک گوشے سے اٹھتا ہے

مجھے بے چین کرتا ہے

لبوں کی سمت بڑھتا ہے

مگر میں روک دیتا ہوں

 

مگر میں روک دیتا ہوں

کہ سن کر لوگ سوچیں گے

کہ نسل و قوم، مذہب، ملک سے اوپر اٹھا یہ شخص بھی

اندر سے بونا ہے

بہت ہی پستہ قد ہے

تنگ داماں ہے

جسے مسلم سے نفرت ہے

جسے سکھ سے عداوت ہے

جسے عیسائیوں سے، جینیوں سے، پارسیوں سے رقابت ہے

اسے بھی آدمی آدم کی صورت میں نہیں دکھتا

اسے بھی دوسرے کا خون کوئی خوں نہیں لگتا

مگر میں روک دیتا ہوں

 

مگر میں روک دیتا ہوں

کہ سن کر لوگ سوچیں گے

کہ اس کی جان بھی گنبد میں، میناروں میں بستی ہے

کہ اس کی آتما میں بھی کوئی ایک سایہ رہتا ہے

نظر کے سامنے اس کی بھی مظلوموں کی چیخوں میں

کوئی چہرہ ابھرتا ہے

کوئی تصویر بنتی ہے

کسی کے درد میں دیوار اٹھتی ہے

کسی کے کرب میں انصاف کی ساری فصیلیں ٹوٹ جاتی ہیں

مگر میں روک دیتا ہوں

 

مگر میں روک دیتا ہوں

کہ سن کر لوگ سوچیں گے

اسے بھی موت اب اخبار کی سرخی سی لگتی ہے

بھیانک حادثہ بھی اس کی آنکھوں میں

کبھی آنسوں نہیں لاتا

کسی بھی ضرب سے اس میں کوئی

ہلچل نہیں ہوتی

کسی بھی مار سے اس میں

کبھی ممتا نہیں روتی

مگر میں روک دیتا ہوں

 

مگر میں روک دیتا ہوں

کہ سن کر لوگ سوچیں گے

یہ اخلاق و مروّت کا مبلغ

آدمیت کا نمائندہ

خیال و خواب کے پر پیچ منصوبوں میں کیا کیا گل کھلاتا ہے

یہ کس کس طرح سے رمز و علامت میں مروّت کو مسلتا، آدمیت کو کچلتا ہے

بدن کے واسطے بے تاب رہتا ہے

بدی کے بیج بوتا ہے

مگر میں روک دیتا ہوں

 

مگر میں روک دیتا ہوں

کہ سن کر لوگ سوچیں گے

یہ عصری آگہی والا

یہ اہلِ علم و دانش بھی

کسی جاہل، کسی بے عقل جیساسوچتا ہے

اوراس پر ایکٹ کرتا ہے

یہ گوتم اور گاندھی کی زمیں والا

کسی لادین کی مانند منصوبے بناتا ہے

کسی بش کی طرح آنکھوں میں اپنی خواب بنتا ہے

کسی ٹونی کی صورت اپنی سیرت میں بساتا ہے

مگر میں روک دیتا ہوں

 

مگر میں روک دیتا ہوں

کہ سن کر لوگ سوچیں گے

یہ شاعر بھی تو حرف و صوت کے معصوم سپنوں میں

فسادوفسق و شر بھر کر

مٹانا چاہتا ہے لفظ و معنی کے تقدس کو

اگانا چاہتا ہے آگ کے شعلے گلابوں کی جگہ دل میں

مگر میں روک دیتا ہوں

 

مجھے معلوم ہے مجھ میں یہ سب

یوں ہی نہیں ہوتا

ہر اک منظر کا پس منظر بھی ہوتا ہے

ہر اک پیکر کے پیچھے علتِ پیکر بھی ہے صاحب

مگر میں روک دیتا ہوں

کہ سن کر لوگ سوچیں گے

کہ مجھ کو بھی محرّک موڑ دیتا ہے

کہ پس منظر مجھے بھی توڑ دیتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

مشورہ

 

میں تم میں سے نہیں

پھر بھی تمھارا درد ہے مجھ میں

تمھاری عظمتوں کا بھی میں قائل ہوں

بہت مجبور ہوں میں بھی

مگر اپنی طبیعت سے

کبھی بھی راستے سے میں تمھارے ہٹ نہیں سکتا

کہنا مانو مرا

آگے بڑھو

بڑھ کر مری گردن اڑا دو

خون پی جاؤ

رگوں میں سرخیاں بھر لو

کوئی بوڑھا

سڑک پر

نوجوانوں سے مخاطب تھا

٭٭٭

 

 

 

سمندر کی تنہائی

 

سمندر چاہتا ہے

کوئی اس کا بھی جگر دیکھے

کوئی گہرائیوں کے بیچ اترے

اور سینے کا بھنور دیکھے

کوئی دیکھے سمندر کس طرح خاموش رہتا ہے

کوئی دیکھے سمندر کس طرح طغیانیوں کا زور سہتا ہے

کوئی دیکھے کہ اس میں کس طرح گرداب اٹھتے ہیں ؟

کوئی دیکھے کہ کیسی ہلچلیں سینے میں ہوتی ہیں ؟

کوئی دیکھے کہ اس میں کس طرح کا شور مچتا ہے ؟

کوئی دیکھے کہ اس پر کس طرح کا زور پڑتا ہے ؟

کوئی دیکھے کہ جب طوفان اٹھتا ہے

تو لہریں کیا اٹھاتی ہیں ؟

کہاں پہ درد بوتی ہیں کہاں پیڑا اگاتی ہیں ؟

کہاں خنجر چبھوتی ہیں کہاں نشتر لگاتی ہیں ؟

سمندر چاہتا ہے تہہ کے بھیتر بھی کوئی اترے

کوئی اس میں پڑے لعل و جواہر کو ذرا دیکھے

صدف دیکھے

صدف کے موتیوں کی تاب و تب دیکھے

کوئی دیکھے سمندر کس طرح

طغیانیوں کے درمیاں نغمے سنا تا ہے

کوئی دیکھے کہ کیسے پانیوں کے شور میں

سنگیت بجتا ہے

کوئی دیکھے سمندر

آب میں بھی کس طرح بے آب رہتا ہے

کوئی دیکھے سمندر

تشنگی سے کس قدر بے تاب رہتا ہے

کوئی دیکھے کہ پانی میں بھی

کوئی آگ جلتی ہے

کوئی دیکھے کہ ٹھنڈک میں بھی

کوئی دل سلگتا ہے

کوئی یہ بھی تو جانے

کیا تمنّا ہے سمندر کی

کوئی پوچھے سمندر چاہتا ہے کیا زمانے سے ؟

کوئی سوچے سمندر کس طرح محسوس کرتا ہے ؟

کوئی سوچے سمندر کو بھی کیا چاہت کسی کی ہے ؟

اسے بھی کیا کسی شے کی ضرورت ہے ؟

مجھے محسوس ہوتا ہے

سمندر چاہتا ہے

کوئی اس کے حلقۂ گرداب میں آئے

تھپیڑے اس کی موجوں کے ذرا وہ بھی تو کچھ کھائے

کوئی طغیانیوں میں ساتھ دے

لہروں پہ لہرائے

سمندر کو بھی تو کچھ دیر

جینے کا مزا آئے

سمندر کے بدن میں بھی تو

کوئی پھول کھل جائے

کبھی وہ بھی تو لہرائے

کبھی وہ بھی تو اٹھلائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

روبوٹ

 

عجب ایک احساس دل میں جگا تھا

عجب ایک جذبہ بدن میں اٹھا تھا

عجب جوش میری رگوں میں رواں تھا

عجب حشر سینے کے اندر بپا تھا

عجب ولولہ تھا

زمیں پر بھی میں اڑ رہ تھا

کہ میرا سفر جو خلائی سفر تھا

خلائی سفر جو تصور میں کب سے

حسیں ایک دنیا بسائے ہوئے تھا

نگاہوں میں میری

عجب ایک عالم بنائے ہوئے تھا

عجب ایک جنّت سجائے ہوئے تھا

عجب ایک صورت تھی رقصاں

کہ جس کی جبیں پہ تھا سورج درخشاں

کہ عارض پہ جس کے معطر گلستاں

کہ لب پر شگفتہ گلابوں کا غنچہ

کہ جس کا عمل تتلیوں سے مشابہ

وہ صورت کہ جس کے لبوں سے

ہنسی ایک پل کو بھی ہٹتی نہیں تھی

وہ تتلی کہ رنگوں سے جس کے

بڑھا پا پہنچ جائے بچپن کے دن میں

جوانی بھی سدھ بدھ گنوا دے ذرا میں

وہ صورت کہ جس کا بدن بولتا تھا

بندھے بند بھی اپنی خاموش آواز سے کھولتا تھا

مگر میں زمیں سے خلا کی طرف جب چلا تو

یہ دیکھا کہ کچھ بھی نہیں تھا

فقط ایک روبوٹ سج دھج کے در پہ کھڑا تھا

جو میری طرف دیکھ کر ہنس رہا تھا

مری حیرتوں پہ کوئی کہہ رہا تھا

خلا میں تمھارا یہ پہلا سفر ہے

٭٭٭

 

 

 

ایک ننھّا شجر

 

ایک ننھّا شجر

اپنے اندر چھپائے ہوئے برگ و بر

لمحہ لمحہ جواں ہو رہا ہے مگر

کتنا ہے بے خبر

اس کے سر پر ہے

بجلی کے تاروں کا اک سلسلہ

٭٭٭

 

 

 

 

ایسا بھی ہوتا ہے

 

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے

بنا مقصد، بنا سوچے، بنا چاہے

کوئی چہرہ اچانک ذہن و دل کے آئینے میں آ دھمکتا ہے

کبھی چپ چاپ یوں ہی دیر تک آنکھوں میں رہتا ہے

بنا بولے، زباں کھولے، بہت کچھ کہتا جاتا ہے

کئی قصّے سناتا ہے

کبھی قصّے کی پریوں کے پروں پر آسمانوں میں اڑاتا ہے

زمیں کی سطح سے اوپر اُٹھاتا ہے

نظر میں نیلگوں منظر بسا تا ہے

دھنک پیکر سجاتا ہے

کبھی تن من کے بھاری بوجھ کو ہلکا بناتا ہے

کبھی اپنی زمینوں کے حقائق سے کوئی پر دہ اٹھا تا ہے

کوئی روداد اپنی خوں چکا ں، کھل کرسناتا ہے

کوئی ناسور سینے کا دکھاتا ہے

کبھی باتوں کا دریا کھولتا ہے

اور میٹھے پانیوں میں دور تک بہتا بہاتا ہے

عجب دل کھول کر ہنستا ہنساتا ہے

سماعت میں مدھر سنگیت بھرتا ہے

نفس کے راستوں میں سر سموتا ہے

بدن کے ریشے ریشے میں کوئی نشّہ چڑھا تا ہے

رگوں میں رقص کرتا ہے

طنابِ تن کو کستا ہے

کبھی یادوں کی گٹھری کھول کر

آنسو، تبسم، نور، ظلمت، رنگ، خوشبو کا کوئی میلہ لگاتا ہے

کہیں پر سبز رنگوں کا کوئی منظر سجاتا ہے

کہیں پر زرد کالے رنگ کا پیکر بچھاتا ہے

کبھی رخ پر توجہ ڈال کر قلب و جگر کا حال پڑھتا ہے

کھبی لہجے سے اپنا حال ورقِ دل پہ لکھتا ہے

کبھی بے ربط سی باتیں بھی کرتا ہے

کبھی بکواس سنتا ہے

مگر بے ربطیوں میں بھی کوئی مضمون ہوتا ہے

کسی بیمار دل کے واسطے معجون ہوتا ہے

کہانی کا مزا گپ شپ سے ملتا ہے

ہر ایک جملے کے ٹان کے سے دلوں کا زخم سلتا ہے

نری بکواس بھی شاداب کرتی ہے

رگ و پے میں نشاط و کیف بھرتی ہے

عجب سرشار کرتی ہے

عجب بیدار کرتی ہے

لبوں پے قہقہوں کے زمزمے پل پل سجا تی ہے

صدا میں نقرئی سی گھنٹیاں ٹن ٹن بجا تی ہے

عجب بے خود بناتی ہے، عجب بے باک کرتی ہے

عجب فکرِ دو عالم سے ذرا آزاد کرتی ہے

یہ چہرہ جو اچانک ذہن و دل کے آئینے میں آ دھمکتا ہے

کسی طائر کی صورت دل کی وادی میں چہکتا ہے

کسی گل کی طرح احساس کے اندر مہکتا ہے

کہ جس کو دیکھ کر آنکھوں میں جگنو جگمگاتے ہیں

کہ جس کو دیکھ کر پلکوں پہ تتلی بیٹھ جاتی ہے

کہ جس کو دیکھ کر اک مور من میں ناچ اٹھتا ہے

کوئی ہرنی بھی دل میں چوکڑی سی بھرنے لگتی ہے

کہ جس سے بات کر کے شاعری کا لطف ملتا ہے

کہ جس کی صوت سے دل جھوم اٹھتا ہے

کہ جس کی بات سن کر

لذّتِ قصہ رگ و ریشے میں گھلتی ہے

عجب مستی سی ملتی ہے

کہ جس کے دم سے دل میں دیپ جلتے ہیں

کہ جس سے بیہڑوں میں پھول کھلتے ہیں

کہ جس سے یاس میں بھی آس جگتی ہے

کہ جس کے پاس آتے ہی لبوں کی پیاس مٹتی ہے

کہ جس کے قرب سے کانوں میں جیسے ساز بجتا ہے

کہ جس کی روشنی سے بے دلی کا ابر چھٹتا ہے

ضروری تو نہیں اس سے کوئی نازک سا رشتہ ہو

کوئی گہری لگاوٹ ہو

کوئی مخفی قرابت ہو

٭٭٭

 

 

 

 

نثری نظمیں

 

 

مہابھارت

 

بن لادن

ٹورا بورا میں ہوتا

تو ایسی محشری مار

جس سے

پہاڑ سرمہ بن گئے

زمین راکھ ہو گئی

آسمان سیاہ پڑ گیا

کب کا ختم ہو چکا ہوتا

مگر کرۂ ارض پر جگہ جگہ

ہیبت ناک آتشیں پھنکاریں

کربناک دلدوز چیخیں

اس حقیقت کی غماز ہیں

کہ بن لادن

مرا نہیں

زندہ ہے

یہ پھنکاریں اور چیخیں

اس بات کی بھی دلیل ہیں

کہ لادن

ٹورابورا کے علاوہ

دوسرے خطوں میں بھی موجود ہے

سوال یہ ہے کہ

لادن ختم کیوں نہیں ہوا؟

کیا وہ واقعی اتنا زبردست ہے

کہ سارے جہان کی مجموعی طاقت بھی

اس کے آگے ہیچ ہے ؟

کیا اس نے آب حیات پی لی ہے

کہ کبھی مر نہیں سکتا ؟

کیا وہ ققنس بن گیا ہے

کہ اپنی خاکستر سے پھر پیدا ہو جاتا ہے ؟

کیا وہ سد سکندری ہے

کہ یا جوج ما جوج کی زبانیں

اسے پوری طرح چاٹ نہیں پاتیں ؟

کیا وہ راون ہے

کہ اس کا ایک سر افغانستان میں

تو باقی نو دوسرے جہان میں

اور کیا اس نے کوئی وردان پا لیا ہے

کہ سرکٹ کر پھر دھڑسے آ لگتا ہے ؟

کیا وہ بھیشم پتا ما ہے

کہ اپنی اِچھا کے بغیر مر نہیں سکتا

کیا اس نے اپنا کلون بنا لیا ہے

کہ اس کا خاتمہ ناممکن ہو گیا ہے ؟

سوال یہ بھی ہے

کہ میزائلوں کا نشانہ چوک کیوں جاتا ہے ؟

کیا ان کے پرزے ڈھیلے ہیں

کہ وہ اپنا توازن کھو بیٹھتی ہیں

بے سمتی کا شکار ہو جاتی ہیں

کیا وہ اندھی ہیں

کہ بن لادن کو دیکھ نہیں پاتیں ؟

کیا ان کی بینائی کمزور ہے

کہ وہ لادن اور غیر لادن میں تمیز نہیں کر پاتیں ؟

بن لادن کو ئی ’’سچ‘‘ تو نہیں

کہ شکونی کی چال اس کے آگے ناکام ہو جائے

وہ لاکشا گرہ سے بچ کر نکل جائے

ا گیات باس سے واپس آ جائے

اس کا چیر ہرن نہ ہو سکے

تیروں کی شیا پر زندہ رہ جائے

کہیں ایسا تو نہیں

کہ میزائلیں اسے مارنا ہی نہیں چاہتیں ؟

اگر ایسا ہے

تو یہ محشری مار

کس کے لیے ؟

یہ مسلسل یلغار

کیوں ؟

حیران و پریشان ارجن

کروک شیتر میں چیختا پھر رہا ہے

مگر آج کی مہابھارت میں

ان سوالوں کا جواب دینے والا

کوئی کرشن نہیں

کوئی کرشن نہیں

٭٭٭

 

 

 

نارسائی

 

ہر طرف

پھڑپھڑاہٹ

اور جھنجھلاہٹ بھی

لگتا ہے کہیں کچھ چبھ کر ٹوٹ گیا ہے

معائنہ کرنے والی نگاہیں حیران ہیں

اکسرے کی آنکھیں اپنی برقی بینائی پر شرمندہ ہیں

حکمتیں ہانپ رہی ہیں

مراقبے میں گہری تاریکی ہے

سادھنائیں اسمرتھ ہو چکی ہیں

یوگ کے ایک ایک آسن آلتی پالتی مار کر بیٹھ چکے ہیں

کمپیوٹر بھی آنکھیں پھاڑے کھڑا ہے

کہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا

کہاں چبھا ہے ؟

کدھر ٹوٹا ہے ؟؟

٭٭٭

 

 

 

 

خواہش

 

بہت جی چاہتا ہے

کہ اپنی آنکھیں

اپنے اندھے پوتے کو دے دوں

مگر یہ نہیں چاہتا کہ

میرا پوتا

بینائی پا کر

دیوا رمیں پھپھوندی

چھت میں چھید

اور آنگن میں بنا

راستہ دیکھے

اور گھرمیں گھناؤنی ماں

مریل باپ

اوربد رونق بہنوں کو دیکھ کر

خود کشی کر لے

یا گھر سے باہر

خوبصورت عمارتوں

سنگِ مرمر کی دیواروں

اور خوش نما چہروں کو

دیکھ کر بغاوت پر اُتر آئے

اور اپنی جوانی جیل کی سلاخوں کے پیچھے بتا دے

٭٭٭

 

 

 

 

پرزہ

 

ہم گاڑی کا وہ پرزہ ہیں

جو اپنی جگہ سے اکھڑ گیا ہے

ہمیں ہماری جگہ پر کس دو

ہم چکّر کھانے سے بچ جائیں گے

اور تمہاری سماعت بھی شو رو شر کی ضرب سے محفوظ ہو جائے گی

مٹی سے رشتہ

’’ایک بات تو ماننی پڑے گی ‘‘

’’کون سی بات‘‘؟

’’انھیں بھی اس مٹّی سے لگاؤ ہے ‘‘

’’یہی تو اصل چنتا کا کارن ہے ‘‘

جوکر

کوئی ہمیں اپنے ساتھ ملا کر

دو ہی پتّوں میں ٹریل بنا لیتا ہے

اور کوئی تین ہی پتّوں میں چار کا سکوینس بنا کر

جیت جاتا ہے

مگر ہم ٹریل اور سکوینس بنا کر بھی

جو کر ہی رہتے ہیں

کھلونا

یار ! تمھارا کھلونا ہم سے ٹوٹ گیا

اس کا بے حد افسوس ہے

کہو تو تمہارے لیے دوسرا کھلونا لادیں

نہیں، تمھیں احساس ہے، یہی بہت ہے

بعد میں اسی دوست کے منہ سے سنا

اسے تو ٹو ٹنا ہی تھا

ہمارے کھلونے کو توڑ کر جو بنا یا گیا تھا

دہشت گردی

مانا ہم دہشت گرد نہیں

مگر دہشت گردی تو ہے

کون کرتا ہے ؟

کیوں کرتا ہے ؟

ہمیں بھی سوچنا ہے

بھیڑ/ بھیڑیے

سبھی ہمیں بھیڑ سمجھتے ہیں

کبھی گیدڑ اپنی بھپکیوں سے دھمکاتے ہیں

کبھی سانپ پھنکاروں سے ڈراتے ہیں

کبھی بھالو پنجے لہرا کر دہشت زدہ کرتے ہیں

کبھی شیر غرّاہٹوں سے دہلاتے ہیں

اور ہم ہیں کہ ہمیشہ اپنے پیروں پر بھروسہ کرتے ہیں

کبھی اُدھر جاتے ہیں

کبھی اِدھر آتے ہیں

حالانکہ ہمارے پاس سر بھی ہیں

سبب

ہمارے پاس نہ دولت ہے

اور نہ ہی طاقت

پھر بھی لوگ ہم سے عداوت رکھتے ہیں

وجہ سمجھ میں نہیں آتی

کہیں اس کا سبب یہ تو نہیں

کہ ہمارے پاس کچھ ایسا ضرور ہے

جو دوسروں کو تو دکھائی دیتا ہے، ہمیں نہیں

ان کاؤنٹر

اخبار میں اپنے بچوں کا اچھا رزلٹ دیکھ کر اچھا لگتا ہے

مگر ڈر بھی محسوس ہوتا ہے

کہ ہمارے ذہین بچّے

ذہنوں میں آ جاتے ہیں

اور ان کا انکاؤنٹر ہو جاتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہم

 

ہم ایک ایسی جگہ رہتے ہیں

جہاں سبھی ہمارے لیے لڑتے ہیں

مگر عجیب بات ہے

کہ مر تے بھی ہمیں ہیں

شناخت

ماں باپ نے ہماری شناخت

قائم نہ رکھی

کہ ہم بچ جائیں گے

مگر ان کے اسی عمل نے

ہماری جان لے لی

کہ ہمارے اپنے

ہمیں پہچان نہ سکے

٭٭٭

 

 

 

 

اگر مگر

 

کائنات کے تضادات

اور ناہموار یوں سے

انسانی ذہن میں

جو یہ ’’ اگر مگر‘‘ کے انکھوئے پھوٹتے ہیں

ان پر پالا مت ڈالو

انھیں پھوٹنے دو

کہ ان کے پھوٹنے سے

ظلمتیں پھٹتی ہیں

شعاعیں پھوٹتی ہیں

بلندیاں نیچے اترتی ہیں

پستیاں اوپر اٹھتی ہیں

سمتیں سمٹتی ہیں

کھائیاں پٹتی ہیں

دوریاں مٹتی ہیں

ہوا شکل و صورت اختیار کرتی ہے

آگ اپنا کرشماتی روپ دکھاتی ہے

پانی کی پوشیدہ تصویر یں سامنے آتی ہیں

سنو

انھیں انکرت ہونے دو

کہ ان سے راستہ نکلتا ہے

مارگ ملتا ہے

منزلِ مقصود تک رسائی ہوتی ہے

انھیں اکسنے اور بکسنے دو

کہ ان سے تجسّس مٹتا ہے

خواہش کی پیاس بجھتی ہے

تشنگی آسود گی حاصل کرتی ہے

سنو

کہ ان سے ہوا میں اڑنے

پانی پر چلنے

اور آگ میں نہ جلنے کا

راز کھلتا ہے

انھیں کھِلنے دو

کہ ان سے بہت کچھ کھُلتا ہے

بہت کچھ کھِلتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تم جی سکتے ہو

 

جب سارا سنسار بازار بن جائے

سب کچھ کاروبار ہو جائے

تو دلوں کے درمیان دیواروں کا اٹھنا

کھڑکیوں کا بند ہونا

ہواؤں کا رکنا

سانسوں کا گھٹنا

روحوں کا جھلسنا

آنکھوں کا جلنا

اعصاب کا تننا

نسوں کا ٹوٹنا

اور جسم و جاں کا دکھنا

طے ہے

گھٹن

جلن

چبھن

بھاری پن

تناؤ

دباؤ

کساؤ

الجھاؤ

بکھراؤ

درد

کرب

اضطراب

یاس

حراس

حیرانی

جب حد سے بڑھ جائے

تو حواس کو حرکت دو

گیان اندریوں کو جگاؤ

اُنھیں اکساؤ

ان میں حرارت بھرو

کہ حواس ہی

ہوش کی دوا جانتے ہیں

وہی سنجیونی کو پہچانتے ہیں

وہی دشتِ غم میں

آہوئے صیّاد دیدہ کو

آرمیدہ کر سکتے ہیں

باصرہ کو کسی پھول پر ٹکادو

پھول،

اپنا رنگ

اپنا نور

اپنی خوشبو

اپنا لمس

تمھاری طرف بڑھا دے گا

رنگ

چہرے کی زردی میں سرخی

نور

آنکھوں کی ویرانی میں روشنی

خوشبو

پر تعفن سانسوں میں مہک

اور لمس

جسم و جان کی سختی میں نرمی

گھول دے گا

شادابی روح میں اتر جائے گی

شگفتگی رگ و پے میں بھر جائے گی

 

سامعہ کو سنگیت سے لگا دو

صوت و صدا کا چشمہ

سرابوں کو سیراب کر دے گا

تال

تناؤ اور طنابوں کو توازن بخش دے گا

سُر

درد و کرب کے دہانوں پہ مرہم رکھ دے گا

لے

زہر آلود لہروں میں ٹھنڈک اور مٹھاس بھر دے گا

شامّہ کو

مِٹّی کی مہک

اور

پھولوں کی خوشبو

تک پہنچا دو

سانسوں کی گھٹن

نسوں کی اینٹھن

اور سینے کی جلن

دور ہو جائے گی

لامسہ کو حسّاس کر دو

سخت سے نرم

سرد سے گرم

تک کا سفر آسان ہو جائے گا

ذائقے کو تزکیے کے عمل سے گزار دو

تلخ، ترش، کسیلا

شیریں لگنے لگے گا

برا، اچھا محسوس ہونے لگے گا

بد ذائقہ، خوش ذائقہ میں بدل جائے گا

کریلا، قند بن جائے گا

زہر، امرت میں بدل جائے گا

کسی اُداس ویران آنکھ سے

زرد رخسار پر

ڈھلکے ہوئے مٹ میلے آنسوکو

اپنی انگلی کے پور پر اُٹھا لو

اُداس ویران آنکھوں میں جگنو چمک اُٹھے گا

زرد رخساروں پر گلاب کھِل جائے گا

جگنو اور گلاب

تمھاری آنکھوں میں بھی چمک لادیں گے

تمھارے گالوں پر بھی پھول کھلا دیں گے

 

کسی بلکتے ہوئے بچے کی پیشانی پر

ایک بوسہ ثبت کر دو

اس کا تبسّم

تمھارے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دے گا

تمھاری اداسی کا فور ہو جائے گی

 

ایک ایسے شخص کے پاس چلے جاؤ

جو تمھیں پیارا ہو

اس سے ملو

اس کو سنو

اس کا لمس لو

اس کی ذات سے روشنی کشید کرو

اپنے پن کی نرمی سے

سختی نرم پڑ جائے گی

قرب کی گرمی سے دکھ پگھل جائے گا

حرفِ دل نواز حوصلہ بخش دے گا

لمس کے مس سے سارے کانٹے نکل جائیں گے

ساری گانٹھیں کھل جائیں گی

 

کسی ایسے آدمی پر نظریں جماؤ

جس کے چہرے کے بھاؤ

تم سے زیادہ بھاری ہوں

لکیریں زیادہ گہری ہوں

جس کی کراہ زیادہ جاں گسل ہو

جس کی آہ زیادہ تیز ہو

جس کے آنسو زیادہ گاڑھے ہوں

تمھارا درد خود بخود تھم جائے گا

دکھ اپنے آپ کم ہو جائے گا

 

کسی پیاسے کی پیاس

اور بھوکے کی بھوک

مٹا کر دیکھو

اپنی بھوک پیاس کا احساس

جاتا رہے گا

 

شاعری کی کوئی کتاب کھول لو

لطیف جذبوں کی طلسمی انگلیاں

جسم و جان سے کثافت کی سوئیاں نکال دیں گی

تخئیل کی کرشمہ سازیاں

رنج و الم کے سیاہ بادلوں کو دور اڑا لے جائیں گی

لطف وانبساط کا احساس

زخموں پر

مر ہم کے ایسے پھا ہے رکھ دے گا

کہ زخم اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھیں گے

 

کوئی کہانی سننے بیٹھ جاؤ

کہانی کی پُر فریب پر یاں

اپنے سحر آگیں پروں سے

ایسی ہوا دیں گی

کہ درد ہمیشہ کے لیے سوجائے گا

وہ تمھیں کل کے گھوڑے پر بٹھا کر

کسی باغ میں پہنچا دیں گی

جہاں تم کسی شہزادی سے مل کر

خود کو بھول جاؤ گے

کسی گل بکاؤلی کو پا کر

اپنی آنکھوں کی جلن کو

سدا کے لیے دور کر لو گے

 

کسی دریا کے کنارے چلے جاؤ

دریا کا پانی تمھیں

پتھروں سے ٹکرانا

پہاڑوں سے الجھنا

چٹانوں کو توڑ کر

آگے بڑھنا

مسلسل بہتے رہنا

اور پتھروں کے درمیان بھی

اچھلنا کودنا سکھادے گا

تمھارے کرب کو بہا دے گا

تمھیں شفّاف بنا دے گا

 

کسی برگد کے نیچے بیٹھ جاؤ

دھیان اور گیان کی چھاؤں کے نیچے

مکتی اور موکش کا ایسا سبق ملے گا

کہ سکھ بے معنی ہو جائے گا

دکھ میں آنند کا آبھاس ہونے لگے گا

راج مکٹ کانٹوں کا تاج محسوس ہونے لگے گا

 

مدھر بانی سناؤ

کہ مدھر آواز پر

سانپ جیسے زہریلے جانور بھی لہرانے لگتے ہیں

اپنا بیش قیمت لعل بھی اگل دیتے ہیں

 

کسی کی بگڑی بنا دو

بناؤ کا احساس

تمھارے بگاڑ کے احساس

کی شدّت کو کم کر دے گا

 

 

کبھی تنہائی میں بیٹھ جاؤ

فِطرت کو تصّور میں لاؤ

آسمان کو دیکھو

کبھی کالے بادلوں سے ڈھک جاتا ہے

کبھی چاند سورج ستاروں سے جگمگا اٹھتا ہے

زمین پر نظر گڑاؤ

خشک مٹی سے

ہریالی پھوٹتی ہوئی دکھائی دے گی

دریا میں جھانکو

موتی والے

اور بے موتی والے سیپ

دونوں تیرتے ہوئے نظر آئیں گے

فضاؤں پر نگاہ ڈالو

سماعت کو چیر نے والے شور

اور جسم و جان کو ہلا اور دہلا دینے والے گردباد

تھم کر فضا کو ایسا پُر سکون کر دیتے ہیں

جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو

آگ

آب

باد

خاک

ایک ایک پر غور کرو

ان کے آغاز اور انجام کو دیکھو

تم پر حیات و کائنات کے اسراروشن ہو جائیں گے

تمھیں ایسا منظر

اور پس منظر

نظر آئے گا

کہ تم

اپنے وجود کے بہت سارے نشیب و فراز سے

بے پروا ہو جاؤ گے

تمھاری زندگی کا بوجھ

ہلکا ہو جائے گا۔

٭٭٭

 

 

 

جھنجھلاہٹ

 

ہرسوال

ہر مانگ

اور ہر ضرور رت

کا ایک ہی جواب:

جھنجھلاہٹ

اور اس جھنجھلاہٹ کے پیچھے ہیں

خالی دماغ

خالی دل

اور خالی مٹھّیاں

اور ان سب کے خالی پن کا سبب

خالی خالی سا ماحول

سنتے ہیں

جب کہیں دھرتی ہوا سے خالی ہو جاتی ہے

تو وہاں بگولے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں

ہمارا خالی خالی سا ماحول

ان بگولوں کے انتظار میں نہ جانے کب سے کھڑا ہے

اور جھنجھلا رہا ہے

کیا فطرت نے اپنا اصول بدل دیا ہے ؟

٭٭٭

 

 

 

 

کرکٹ

 

منتخب گراؤنڈ میں

تیار کیے گئے پچ پر

اندھا دھند بالنگ کی جا رہی ہے

دھواں دھار بیٹنگ ہو رہی ہے

چوکے چھکّے لگ رہے ہیں

دنادن رن بن رہے ہیں

دھڑادھڑ وکٹ گر رہے ہیں

امپائر کاؤنٹنگ میں مصروف ہیں

کپتان ہار جیت کے انومان میں لگے ہیں

خوبصورت الفاظ اور پر زور انداز میں

کمینٹری دی جا رہی ہے

ریڈیو، اخبار اور ٹیلی وژن منہ پھاڑ ے، آنکھیں کھولے

کھیل کے منظر کو دور دور تک پہچانے میں مشغول ہیں

تمام سمتوں میں

تمام کان

تمام آنکھیں

لطف اندوزی میں منہمک ہیں

وکٹوں پر کیا گزرتی ہے

آؤٹ ہوئے کھلاڑی تھکن کی کس منزل پر پہنچ چکے ہیں

گراؤنڈ کی کیا حالت ہے

پچ پرکیا بیت رہی ہے ؟

کوئی نہیں دیکھتا

کوئی نہیں سوچتا

ہمیں تو اسکور کی فکر ہے

تمام وکٹوں کے گر جانے

اور سنچری پوری ہونے کا انتظار ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

آگ بجھانے والی گاڑی

 

فائر بریگیڈ پکی سڑک پہ دوڑ رہا ہے

اور آتش زدہ مکان

سڑک سے کافی دور ایک گہرے کھڈ میں واقع ہے

جہاں

صرف

ایک

پگڈنڈی

جاتی

ہے

٭٭٭

 

 

 

یوکلپٹس

 

دریا انڈیل دیں

یا

یوریا کے کارخانوں کے منہ کھول دیں

فصل اگنے والی نہیں

جب تک کھیتوں کے منڈیروں پر یوکلپٹس کھڑے ہیں

یہ کٹیں گے بھی نہیں

کہ انہیں ابھی اور توانا ہونا ہے

اور یوں بھی ان کے کٹنے کے امکانات کم ہیں

کہ پیڑوں کے کاٹنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے

شاید آندھیاں کچھ کر سکیں

لیکن وہ تو گہری نیند سو رہی ہیں

اور ان کے سرہانے لوریاں جاگ رہی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

بے اعتمادی

 

میں نے

خون بہایا

باپ کو قربان کیا

ماں کو بیوہ بنایا

خود یتیم ہوا

کہ آپ شکنجوں سے آزاد ہو سکیں

کھلی ہوا میں سانس لے سکیں

مگر آپ خوش نہیں ہوئے

 

دھوپ میں جسم کو جلایا

روح کو جھلسایا

رنگت کو سیاہ کیا

خون کو پسینہ بنایا

کہ آپ تو انا

ترو تازہ

اور سرسبزو شاداب رہ سکیں

مگر آپ خوش نہیں ہوئے

 

شب و روز شعلوں میں سلگا

شراروں میں الجھا

پھیپھڑوں کو دھول اور دھوئیں سے بھرا

کہ آپ نقشین کٹوروں میں پانی پی سکیں

بلّو ری پیالوں میں مے نوشی فرما سکیں

کانچ کی شیشیوں میں اپنے لیے ٹانک بھرسکیں

مگر آپ خوش نہیں ہوئے

 

دہکتی ہوئی بھٹیوں کے بیچ

فولاد سے ٹکرایا

اسے گلایا

پگھلایا

طرح طرح کے سانچوں میں ڈھالا

کہ آپ کا گھر

اور آپ کی تجوریاں مضبوط اور محفوظ رہ سکیں

آپ صبرو سکون اور بے فکری سے جی سکیں

مگر آپ خوش نہیں ہوئے

 

رات دن ایک کر کے

بھیڑوں سے اون

کھیتوں سے کپاس

اور کیڑوں سے ریشم نکالا

سوت کاتا

تانے بانے بنائے

کپڑے بنے

کہ آپ موسم کی مار سے بچ سکیں

سڈول اور پرکشش لگ سکیں

اونی اور ریشمی عیش کر سکیں

مگر آپ خوش نہیں ہوئے

 

جانور کی کھالوں کی گندگی صاف کی

چمڑے کی بساند کے بھبکے سہے

اپنے بے داغ ہاتھوں کو کھردرا کیا

کہ آپ کے پاؤں کنکر اور کانٹوں کی چبھن سے

نجات پا سکیں

اور آپ کا قد بھی اونچا ہو سکے

مگر آپ خوش نہیں ہوئے

 

مسلسل ریاضت اور تنفّسی مشقّت سے

میں نے راگ ایجاد کیے

ستار بنایا

سرود کے تار چھیڑے

طبلے کھنکائے

شہنائی بجائی

کہ آپ کے رگ و پے میں رس گھل جائے

آپ کے ذہن و دل میں پھول کھل جائیں

مگر آپ خوش نہیں ہوئے

 

میں نے اپنے خونِ جگر سے

کاویہ رچا

شاعری کی

گیت لکھے

دوہے کہے

آواز کا جادو جگایا

ترنم کا دریا بہایا

کہ حرف و صوت کا سُر آپ کو سر شار کر دے

آپ کے اندر لطف و انبساط بھر دے

مگر آپ خوش نہیں ہوئے

 

میں نے تن من دھن لگا کر

فلمیں بنائیں

ڈرامے کیے

اداکاری کی

مسخرہ بنا

کہ آپ حظ اُٹھا سکیں

مسکرا اور کھلکھلا سکیں

مگر آپ خوش نہیں ہوئے

 

میں نے تاج محل بنایا

لال قلعہ تعمیر کیا

قطب مینار کھڑا کیا

چار مینار بلند کیے

کہ آپ ساری دنیا میں ممتاز نظر آ سکیں

اپنے قد پر اترا سکیں

اپنا پرچم لہرا سکیں

خود کو آسمان پر پا سکیں

مگر آپ خوش نہیں ہوئے

 

میں نے جی جان لگا کر

ہاکی

کرکٹ

فٹ بال

کشتی

تیر اندازی

لان ٹینس

سب میں حصہ لیا

اپنا جوہر دکھا کر

آپ کو کامیابی سے ہمکنار کیا

کہ آپ اپنا سر بلند کر سکیں

فتح کامرانی کے نشے میں جھوم سکیں

مگر آپ خوش نہیں ہوئے

 

میں نے مصّوری کی

پوٹریٹ بنائے

خاکوں میں خونِ جگر سے

رنگ بھرا

کہ آپ کی آنکھوں میں نور

اور دل میں سرور بھر جائے

مگر آپ خوش نہیں ہوئے

 

میں نے تجربہ گاہوں میں سر کھپا کر

میزائلیں بنائیں

کہ دشمن آپ کی جانب نظر نہ اُٹھا سکے

مگر آپ خوش نہیں ہوئے

 

میں نے خود کو جوکھم میں ڈال کر

چاقو، چھری تیر، تلوار اور ترشول تیار کیے

کہ آپ اپنے بھیتر کا خوف نکال سکیں

مگر آپ خوش نہیں ہوئے

 

میں نے آپ کے تیرو تبر کا وار سہا

بندوق کی گولیوں کا شکار ہوا

نوکِ خنجر پر ٹنگا

ترشول میں گتھا

شِکم مادر میں لہولہان ہوا

کہ آپ کو میری وفاداری پر اعتبار آ جائے

آپ کو صبر و قرار آ جائے

مگر آپ خوش نہیں ہوئے

٭٭٭

 

 

 

مراقبہ

 

جب من مضطرب ہو جائے

اعصاب کی رسّیاں تننے لگیں

تفکرات کے دھاگے جالے اور جال میں تبدیل ہونے لگیں

تو مراقبے میں بیٹھ جاؤ

فطرت اپنے پٹ کھول دے گی

کوئی چڑیا کہیں سے آ کر

پتّوں کے پتلے دھاگوں سے

گھونسلہ بن دے گی

ایسا گھونسلہ

جسے بارش، بجلی اور آندھیاں بھی اجاڑ نہ پائیں گی

شہد کی ایک مکھی

کسی کونے میں بیٹھے گی

اور لاکھوں مکھّیوں کا تانتا لگ جائے گا

چھتّا بن جائے گا

چھتّے سے گیان کا شہد ٹپکنے لگے گا

یہ انکشاف ہونے لگے گا

دودھ،  دہی میں

دہی، مکھن میں

اور مکھن گھی میں تبدیل ہو جاتا ہے

 

پانی سے بھاپ

بھاپ سے توانائی

اور توانائی سے رفتار حاصل ہوتی ہے

 

آگ ہمیشہ نہیں جلتی

ایک دن بجھ جاتی ہے

 

چوس کر پھینکی ہوئی گٹھلی

ایک دن

پیڑ کا روپ لے لیتی ہے

 

بجھی ہوئی آگ بھی

بار بار پھونک مارنے سے

سلگ اٹھتی ہے

 

تل جب گرم ہو جاتا ہے

تو لاوا اگل دیتا ہے

اور لاوا جم کر پہاڑ بن جاتا ہے

 

کھلے جنگل میں

آزاد پھرنے والا شیر بھی

ایک دن پنجرے میں آ جاتا ہے

 

نقطہ جیسی چیونٹی

پہاڑ صورت ہاتھی

کو پچھاڑ دیتی ہے

 

پہاڑ بھی کٹتا ہے

پتھّر بھی ٹوٹتا ہے

ہیرا بھی گھستا ہے

 

شہد کی یہ بوندیں

شریانوں میں

شیرینی بھر دیں گی

اضطراب کے زہر کو

زائل کر دیں گی

٭٭٭

 

 

 

 

مَن

 

سنا ہے کہ سکھ

تن کے توازن پر

منحصر ہے

تن کا توازن

من سے قائم ہے

کہ تن کا تار

من سے تنتا ہے

تن کا تیر

من کی تانت میں کستا ہے

تن کا بھار

من کے ترازو میں تلتا ہے

من ہی پیمانہ ہے

حرارت کا

توانائی کا

من ہی تن کی حرارت کو

نظم و ضبط میں رکھتا ہے

من ہی حرکت کی رفتار

کو طے کرتا ہے

من ہی توانائی کو

کار آمد بناتا ہے

من کو مون رکھنے سے

من ماند پڑ جاتا ہے

من مارنے سے

من مر جاتا ہے

من کو مَون مت رکھو

من کو مرنے مت دو

من کادر کھلا رکھو

من کا پھول کھِلا رکھو

مگر من یوں نہیں کھِلتا

کھِلنے کے لیے

اسے کھولنا پڑتا ہے

من کیسے کھُلتا ہے

جاننا پڑتا ہے

جاننے کے لیے جاگنا پڑتا ہے

لیکن جاگنا آسان نہیں ہے

جاگنا کٹھن ہے

اذیت ناک ہے

کہ اس عمل میں

آنکھیں جلتی ہیں

پلکیں دکھتی ہیں

پتلی میں چبھن ہوتی ہے

نسیں پھٹتی ہیں

پر جاگنے پر

جگنو جگمگاتے ہیں

جگمگاہٹ میں

بہت کچھ دکھتا ہے

بہت کچھ ملتا ہے

وہ بھی

جس سے من مرتا ہے

اور وہ بھی

جس سے

من زندہ ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

بچّوں کی نظمیں

 

 

 

 

 

جادو کی ڈِبیا

 

سنوچنّو ،منّو مرے پاس آؤ

شکیلہ جمیلہ کو بھی ساتھ لاؤ

یہ دیکھو مرے پاس کیا آ گئی ہے

یہ چھوٹی سی ڈِ بیا بڑے کام کی ہے

یہ ڈِبیا نہیں منتروں کی چھڑی ہے

سنو اس میں جادو کی پڑیا پڑی ہے

اسے جب گھماؤ تو دنیا گھمائے

یہ گھر بیٹھے بیٹھے سیاحت کرائے

اسے کھٹکھٹا ؤ تو گھونگھٹ اٹھائے

ہمیں چاندسی اپنی صورت دکھائے

اسے جب دباؤ تو یہ گنگنائے

انو کھے نرالے دھُنوں کو سنائے

بنا کچھ دبائے بھی یہ بولتی ہے

بنا کچھ ہلائے بھی تو ڈولتی ہے

ضرورت ہو جس کی اسے یہ بلا دے

بلا کر اسے ہم سے باتیں کرا دے

ہمیں اپنے بچھڑوں سے ہم کو ملا دے

ہمارے دلوں میں محبت جگا دے

یہ چاہے تو جس سے بھی جس کو ملا دے

کسی کو کسی سے بھی چاہے بھڑا دے

کبھی اجنبی کو بھی ساتھی بنا دے

کبھی دوست کو بھی یہ دشمن بنا دے

کبھی جو شرارت یہ کرنے پہ آئے

تو چاہے جسے رات دن یہ ستائے

طلسمی فضائیں بھی اس میں چھپی ہیں

ہزاروں بلائیں بھی اس میں دبی ہیں

کبھی تو یہ دنیا کا نقشہ ابھارے

کبھی آسماں کو زمیں پر اتارے

کہاں کیا ہوا سارا قصّہ سنائے

یہاں کا وہاں کا تماشہ دکھائے

یہ مشرق کو مغرب سے پل میں ملائے

بس اک آن میں دوریوں کو مٹائے

یہ فوٹو بھی تو بیٹھے بیٹھے اتارے

ہمارے بھی چہرے کا نقشہ ابھارے

یہ دیکھو تمہارا بھی فوٹو کھِنچا ہے

تمہارے بھی چہروں کا نقشہ بنا ہے

نہیں وقت کا صرف چکّر چلائے

یہ ڈِبیا تو تاریخ دن بھی بتائے

الارم بھی تو رات میں یہ بجائے

ہمیں وقت پر غفلتوں سے جگائے

مرے دل میں کیا ہے اسے یہ خبر ہے

مرے دل کے اندر بھی اس کی نظر ہے

الہ دین کا یہ دیا تو نہیں ہے

کہ اس میں بھی تو کوئی جن سا بسا ہے

کہ جب بھی بلاؤ تو دیکھو کھڑا ہے

جو شے چاہیے اس نے حاضر کیا ہے

چھڑی کی جھڑی دیکھ بچّے یہ بولے

بہت دیر کے بعد منھ اپنا کھولے

یہ ڈِبیا تو سچ مچ بڑے کام کی ہے

ہمیں بھی بتاؤ کہاں سے ملی ہے

بتاؤ کہ اس کا کوئی نام بھی ہے

فری میں ملی ہے یا کچھ دام بھی ہے

٭٭٭

 

 

 

بطّخ کا بچّہ

 

بطّخ کا اک بچّہ پکڑے

آنگن سے اک بلّی بھاگی

بلّی پیچھے کتّا دوڑا

چنّو منّو، گڈّو، پپّو

کلّو سلّو، سارے بچّے

بلّا لے کر پیچھے دوڑے

ساتھ میں دوڑیں شنّو اپّی

گڈّا گڈّی لے کر اپنے

ننھّی منّی چنّی دوڑی

ابّا دوڑے، امّی دوڑیں

دوڑے ڈبّو چچّا بھی

اچھّن بھائی، کلّن بھائی

چھٹّن بھائی منّن بھائی

پیچھے پیچھے وہ بھی دوڑے

بلّی رک کر غرّ ائی

شیر کی خالہ لہرائی

آنکھیں اپنی چمکائیں

نیلی توپیں دمکائیں

ہمّت سب کی تھرّائی

صورت اک اک مرجھائی

کتّا دم دبا کر بھاگا

بلّی سے گھبرا کر بھاگا

دیکھ یہ منظر سب گھبرائے

بطّخ کو اب کون بچائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

مائشہ

 

چین ہے، خواب ہے، کہانی ہے

مائشہ میری زندگانی ہے

ہر طرف اس سے شادمانی ہے

ہر نظارے کا رنگ دھانی ہے

رنگ میں، روپ میں، نزاکت میں

سب میں پریوں کی وہ تو رانی ہے

اس کی آنکھوں سے نور چھنتا ہے

اس کے ہونٹوں پر گلفشانی ہے

ایسی نازک کہ پنکھڑی بھی نہیں

پھول کوئی وہ داستانی ہے

مستقل بام و در مہکتے ہیں

وہ مرے گھر کی رات رانی ہے

اس کی معصوم مُسکراہٹ میں

کچھ فرشتوں کی بھی نشانی ہے

نغمگی جسم و جاں میں گھل جائے

ایسی ہونٹوں پہ خوش بیانی ہے

ایسا گل کاریوں میں جادو ہے

آگ بھی جس کے دم سے پانی ہے

ہیچ مخمل ہے جلد کے آگے

رنگ بھی رشکِ ارغوانی ہے

اس کے تلوؤں کے لمس میں بھی عجب

نشۂ کیفِ جاودانی ہے

اس سے ہر آنکھ میں بصارت ہے

اس سے ہر دل میں شادمانی ہے

اس کے ہونے سے میرے آنگن میں

تپشِ دھوپ بھی سہانی ہے

بے ضر ر، بے زبان ہے لیکن

ہر طرف اس کی حکمرانی ہے

باپ قربان، ماں فدا اس پر

اور نانی تو بس دیوانی ہے

دادا دادی کے دل کی دھڑکن ہے

سنّی ماموں کی جانِ جانی ہے

شاہدہ ہوں کہ بے بی باجی ہوں

ہر کوئی اس پری کی نانی ہے

فخرِ انعام کی چہیتی ہے

سلّو شاداب کی بھی رانی ہے

دل مَہک کا چہک رہا اس سے

لب پہ صفیہ کے لن ترانی ہے

بن بلائے ہمیں بلاتی ہے

وہ تو گڑ یا عجب سیانی ہے

اے غضنفر بتا کہ محفل میں

کیا کوئی مائشہ کا ثانی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سوانحی کوائف

 

نام             غضنفر علی

قلمی نام          غضنفر

جائے پیدائش   چوراؤں، تھاوے، گوپال گنج، بہار

تعلیم           ایم۔ اے (اردو) پی۔ ایچ۔ ڈی

پیشہ            سرکاری ملازمت

عہدہ           ڈائریکٹر، اکادمی برائے فروغ استعدادِ اردو میڈیم اساتذہ

جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

تصانیف:

۱۔        کوئلے سے ہیرا          (ڈراما)         1971

۲۔      مشرقی معیار نقد          (تنقید) 1978

۳۔      پانی             (ناول) 1989

۴۔      کینچلی            (ناول)         1993

۵۔      کہانی انکل                (ناول)         1997

۶۔      دویہ بانی                (ناول)         2000

۷۔      زبان و ادب کے تدریسی پہلو                (تنقید)         2001

۸۔      فسوں            (ناول)         2003

۹۔      وش منتھن                (ناول)         2004

۱۰۔     تدریسِ شعرو شاعری             (تنقید)         2005

۱۱۔      حیرت فروش              (افسانوی مجموعہ)        2005

۱۲۔     مم              (ناول)         2007

۱۳۔     لسانی کھیل             (درس و تدریس)        2007

۱۴۔     شوراب         (ناول)         2009

۱۵۔     سرخ رو        (خاکوں کا مجموعہ)       2010

۱۶۔    مانجھی           (ناول) 2012

۱۷۔     فکشن سے الگ           (تنقید) 2013

۱۸۔     روئے خوش رنگ                (خاکے )        2015

۱۹۔     آنکھ میں لکنت           شعری مجموعہ    2015

کتابیں (ہندی میں ):

دویہ بانی        (ناول)                 نیرا سدن، الہ آباد

کہانی انکل        (ناول)         وانی پرکاشن، نئی دہلی

 

زیر طبع تصانیف:

۱۔       شبلی نعمانی کے تنقیدی نظریات            (تحقیقی مقالہ)

۲۔      پارکنگ ایریا                     (افسانوی مجموعہ)

۳۔      جدید طریقۂ تدریس                      (درس و تدریس)

 

رابطہ :

ڈائریکٹر/پروفیسرغضنفرعلی، اکادمی برائے فروغِ استعدادِ اردو میڈیم اساتذہ،

نوم چومسکی کمپلیکس، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی۔ 25

بشریٰ، حمزہ کالونی، نزد اقرا کالونی، نیوسرسیدنگر، علی گڑھ

B-29 اسٹریٹ نمبر 7، شاہین باغ، ابوالفضل انکلو، فیز۔ II، نئی دہلی، 25

فون نمبر:

موبائل                 :       09990237388

آفس           :       011-26922601

گھر، علی گڑھ     :       09411979684

09557417244

گھر، دہلی        :       011-29948560

٭٭٭

تشکر: نسترن احسن فتیحی جنہوں نے اس کتاب کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید