FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

آنند نرائن ملّاؔ کی شاعری

 

 

 

                اختر علی تلہری

 

 

 

 

 

 

کچھ بات ہے ملا میں کہ نقادوں کے با وصف

وہ انجمنِ شعر میں گمنام نہیں ہے

 

 

 

 

 

 

اردو ادب میں تنقیدی سرمایہ خاصی مقدار میں جمع ہو چکا ہے۔ چھوٹے بڑے شاعروں اور ادیبوں پر مختلف حجم و ضخامت کے بہت سے اچھے برے مقالے لکھے جا چکے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں بیشتر جانب داری اور ذاتی تعلقات کے اثرات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں ان میں وہ بے لوثی نہیں ملتی جو فنِ ادب و شعر اور اس کی تنقید سے خلوص رکھنے والوں کا طغرائے امتیاز ہونا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ ملا صاحب کی شاعری محترم جماعتِ ناقدین کی دقیقہ سنج نگاہوں کو اپنی طرف قرار واقعی طور سے جذب نہیں کر سکی ہے اور اس کی قلمی نگارشیں اس کے محور پر جیسا چاہئے گردش نہیں کر سکی ہیں۔

ملا صاحب لکھنؤ کے ایک معزز تعلیم یافتہ کشمیری خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ ان کے والد پنڈت جگت نرائن ملا صوبہ کی مشہور قانون داں ہستیوں میں سے تھے۔ ۱۹۰۱ء یعنی انیسویں صدی کے آغاز کو آپ کی پیدائش کا شرف حاصل ہوا ہے۔ جوبلی اسکول لکھنؤ (موجودہ گورنمنٹ جوبلی انٹر میڈیٹ کالج لکھنؤ) اور کیننگ کالج (موجودہ لکھنؤ یونیورسٹی) میں آپ نے انگریزی کی تکمیل کی اور اس مضمون میں ایم اے کیا اردو فارسی باقاعدہ مکان پر مولوی برکت اللہ صاحب رضا فرنگی محلی سے پڑھی۔ انگریزی شعر و ادب کا شوق انھیں ابتداء ہی سے تھا۔ بائرن، کیٹس اور بالخصوص شیلی ان کے پسندیدہ شاعر تھے۔ وہ خود بھی انگریزی میں شاعری کرتے تھے۔ چناں چہ اس دور میں اقبالؔ ، انیسؔ اور غالبؔ کے منظومات کے کچھ ترجمے بھی انگریزی نظم میں کئے تھے اور وہ ترجمے پسند بھی کئے گئے تھے لیکن اس زمانہ میں جبکہ وہ ۲۶ سال کی عمر کی حد میں داخل ہو چکے تھے اردو انگریزی کے مشہور ادیب اور ماہر تعلیمات پنڈت منوہر لال زتشی کی جوہر شناس نگاہوں نے ان کی شعری صلاحیتوں کو تاڑ لیا اور انھیں مشورہ دیا کہ وہ انگریزی کے بجائے اردو میں شعر کہنا شروع کر دیں۔ اردو کی یہ خوش قسمتی تھی کہ ملا صاحب نے اپنے بزرگ کے اس دانش مندانہ مشورے کو قبول کر لیا اور انگریزی میں شعر گوئی کو یک لخت ترک کر کے اردو شاعری کی طرف متوجہ ہو گئے۔ چناں چہ اردو میں ملا کی پہلی شعری کوشش کا نتیجہ ان کی نظم ’’پرستا رحسن‘‘ ہے جو ان کے پہلے مجموعے ’’ جوئے شیر‘‘ میں شامل ہے۔ جیسا ابھی عرض کیا ہے ملا اس وقت ۲۶ سال کی عمر کی حد میں قدم رکھ چکے تھے اور یہ عمر خاصے دماغی بلوغ اور فکری شعور کی عمر ہوتی ہے۔ ظاہر ہے ایسی حالت میں ایک باقاعدہ تعلیمی تربیت پائے ہوئے اپنے فکر و ذوق پر اعتماد رکھنے والا سنجیدہ اور مہذب شخص اپنی فکر شعر کے لئے عام فرسودہ، عامیانہ جذباتی جادہ پسند نہیں کر سکتا۔ وہ آخر ان سستے شعری کھلونوں کو بازار سخن میں پیش کرنے کی جرأت کیوں کر سکے جن سے ان کے بالغ دماغ کی فکری شعور کی رسوائی کا سامان ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کے ابتدائی نقوش میں بھی تفکر کا عنصر ابھر اہوا نظر آتا ہے۔ یاد رکھئے غور فکر کے خوگر ذوق کی نظر اس نرم و نازک تانے بانے پر مشکل ہی سے پڑ سکتی ہے جس سے صرف ایک ہلکا پھلکا خوب صورت گیت ہی بنا جا سکے۔

ملا صاحب نے اردو شاعری میں باقاعدہ کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ بھی تہ نہیں کیا ہے۔ ان کی شاعری تمام فطرت کی دین ہے۔ انھوں نے اپنی فکر سخن کا جادہ خود تراشا ہے اور اس پر چلے ہیں، وہ صحیح معنوں میں ’’نابغۂ عصر‘‘ ہیں اردو میں انھیں تین شاعروں اقبالؔ ، غالبؔ اور انیس سے بہت زیادہ انس رہا ہے اور ان کا کلام متعدد مرتبہ پڑھا بھی ہے۔ ان سے ملا کو غیر شعوری طور سے شعر کے رموز و نکات پر قوت اور شعر گوئی کے سلیقہ کی تربیت ضرور حاصل ہوئی ہو گی۔

 

 

 

 

ملا کی شاعری اور حسن و عشق

 

ملا فطری طور پر بھاری بھرکم انسان ہیں۔ مشرقی تہذیب و ادب و اخلاق کی پاکیزہ خصوصیتیں ان کی رگ و پے میں پیوست ہیں ان کے جذبات میں ہلکا توازن ہے۔ عشق و عاشقی کی دنیا میں حرص و ہوس کے پیدا کئے ہوئے چونچلوں اور ناز و غمزوں کے کانٹوں میں اپنا دامن فکر بہت ہی کم الجھاتے ہیں۔ ان کے شعر کے لہجے میں دل کھینچ لینے والے نسائی عشووں کا لچکیلا پن اور لوچ شاید ہی کسی جگہ مل سکے۔ ’’کچھ ذرے، کچھ تارے ‘‘ تو خیر وہ ان کے ۱۹۴۹ء کے بعد کے کلام کا مجموعہ ہے جس میں سنجیدگی، تفکر، گہرائی، گیرائی، حقیقت نگاہی، باریک خیالی سب پورے شباب پر ہیں۔ لیکن جوئے شیر، تو ۱۹۴۶ء سے ۱۹۴۹ء تک کے کلام کا مجموعہ ہے۔ اس میں بھی آپ کو مشکل ہی سے کوئی ایسا مقام ملے گا جہاں ملا نے دل کو تنہا چھوڑ دیا ہو بلکہ تقریباً ً ہر جگہ ’’پاسبانِ عقل ‘‘اس پر مسلط دکھائے دے گا۔ عشق و حسن کے باہمی راز و نیاز کی محاکات میں اچھے اچھے ثقہ شاعر بہک جاتے ہیں مگر ملا کا بالعموم یہ انداز رہتا ہے :

کوئی نا مہرباں اب مہرباں ہے

کہاں ہے عمر رفتہ تو کہاں ہے

 

اتنا بھی شک نہ میری محبت پہ کیجئے

یہ میں بھی جانتا ہوں زمانہ خراب ہے

 

حسن کے بازار میں ہوتی نہیں کچھ اس کی قدر

سکۂ الفت پہ جب تک مہر رسوائی نہیں

 

کچھ اپنی کشش کی بھی تجھے حسن خبر ہے

یا یوں ہی ہر اک آنکھ پہ الزام نظر ہے

 

عشق میں کیا سوالِ خود داری

جانے کے بار اپنی بات گئی

 

نگاہوں سے ہیں میری جانب اشارے

اشارے نہیں ہیں مسیحائیاں ہیں

 

ان آنکھوں نے دل کو بہت گدگدایا

ہمیں بھولے بیٹھے ہیں کچھ مسکرانا

 

بس ایک پھول نمایاں ہے دل کے داغوں میں

یہاں رکی تھی تری چشم التفات کبھی

 

دو مری گستاخ نظروں کو سزا

پھر وہ ناگفتہ سوال آ ہی گیا

 

نہیں کرنے والے ترا مسکرانا

محبت کو ہے اور اک تازیانا

 

ہاں تم نے اعتراف محبت نہیں کیا

نیچی کئے ہوئے ہیں نظر کیا حیا سے ہم

 

حد یہ ہے کہ ردیف کی شوخی کی گدگداہٹ بھی ان سے بس اتنا ہی کہلوا سکی ہے ؎

قہر کی کیوں نگاہ ہے پیارے

کیا محبت گناہ ہے پیارے

 

دل کو اپنی ہی جلوہ گاہ سمجھ

آ، نظر فرشِ راہ ہے پیارے

 

سچ بتا کچھ خفا ہے تو مجھ سے

یا حیا سدّ راہ ہے پیارے

 


 

 

 

 

ملا ؔ کی غزل

 

غزل کے حق میں یہ بہت اچھا ہوا کہ ملا ؔ نے غزل کو حسن و عشق کی باہمی لطیف مکالماتی دل چسپیوں اور ان سے وابستہ جذباتی لذت آگیں کیفیتوں کی ترجمانی کے دائرے میں غزل کے لغوی مفہوم کا سہارا لیتے ہوئے محدود رکھنے کی کوشش نہیں کی ورنہ مجھے اس میں شک ہے کہ ان کی غزل موجودہ رفعت کی منزل تک پہنچ سکتی۔ ان کی عقل و دانش کا یہ عملی فیصلہ بالکل صحیح ہے کہ غزل اپنی ہیئت و صلاحیت کے لحاظ سے سنگین سے سنگین تر حقیقتوں کی دل کش زبان بن سکتی ہے البتہ فن کار میں اس کی اہلیت ہونا چاہئے کہ وہ غزل کی رمزیت کو برت کر حقائق کی تصویروں میں صالح تخیل کے مو قلم سے رنگ بھر سکے خواہ اس کوشش میں اسے جگر کو خون ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ حقیقتاً فن کاری یہی ہے ؎

اسی کا نام جینا ہے، جگر خوں ہو تو ہو جائے

نقوشِ دہر میں اک خاص اپنا رنگ بھر جانا

اب اگر بہت سے ارباب ذوق و صاحبان نقد اسی پہ اصرار کریں کہ غزل سنگین حقائق کا بار نہیں سنبھال سکتی ہے۔ وہ ایک بہت ہی ہلکی پھلی نازک سی شے ہے۔ اس پر جہاں ایسی حقیقتوں کا بوجھ پڑتا ہے وہ دب کر رہ جاتی ہے اور اس کا چہرہ مہرہ بگڑ جاتا ہے تو ذیل میں ملاؔ کے چند شعر ان کے غور و فکر کے لئے درج کئے جا رہے ہیں کہ وہ اس پر نظر کر سکیں کہ وہ گیسو و رخسار یار کی سرشاری پیدا کرنے والی حکایتوں کی دنیا سے الگ ہٹ کر بھی ایک سنجیدہ خوش ذوق شاعر سنگین اور ٹھوس حقیقتوں کے بیان کے لئے کتنے اچھے دلآویز پیرائے اختیار کر سکتا ہے :

وہی ہے مردِ رہر و خار زار زیست میں جس نے

ذرا آسان تر پہلے سے راہ کارواں کر دی

 

زندگی امید سے خالی کبھی ہوتی نہیں

روشنی بجھ کر بھی دل میں تیرگی ہوتی نہیں

 

پیش نظر ہے ایک گروہ شکستہ پا

پوچھیں گے راہ اب نہ کسی رہنما سے ہم

 

ثبات پا نہ سکے گا کوئی نظام چمن

فسردہ غنچوں کو جس میں شگفتگی نہ ملی

 

فلک کے تاروں سے کیا دور ہو گی ظلمت شب

جب اپنے گھر کے چراغوں سے روشنی نہ ملی

 

آنکھوں میں کچھ نمی سی ہے ماضی کی یاد گار

گذرا تھا اس مقام سے اک کارواں کبھی

 

نظامِ دہر کی بنیاد اس اصول پہ ہے

کہ اس میں فرد تو فانی ہے انجمن باقی

 

نہ پوچھ دورِ حقیقت کی سختیوں کو نہ پوچھ

ترس گئے لبِ افسانہ گو کو افسانے

 

اب رہِ زیست میں یہ ہے مرے دل کا عالم

جیسے کچھ چھوٹتا جاتا ہے ہر اک گام کے ساتھ

 

یہ تبسم ہی تیرے لب کا کہیں

راز تخلیقِ کائنات نہ ہو

 

خصومتوں میں خرد کی جہاں سنے نہ سنے

مرے سرودِ محبت کو رائگاں نہ کہو

 

نہیں ہے صید بھی معصوم صیادی کی دنیا میں

جب اس کا داؤں چلتا ہے یہی صیاد ہوتا ہے

 

بشر کی سادہ لوحی تجربوں سے بھی نہیں جاتی

ذرا شب مسکرائی اور یہ سمجھا سحر آئی

 

تاریخ بشر بس اتنی ہے ہر دور میں پوجے اس نے صنم

جب آئے نئے بت پیشِ نظر اصنام پرانے توڑ دئے

 

نام اس کا مگر ہے زندہ دلی

رات بھی آئے جب تو رات نہ ہو

 

بشر کے ذوق پرستش نے خود کئے تخلیق

خدا و کعبہ کہیں اور کہیں صنم خانے

 

سمجھ میں کچھ نہیں آتا بھلا کیا ہے برا کیا ہے

بدل اے دور نو قدریں مگر پہچان رہنے دے

 

 

 

 

ملا ؔ کی غزل اور سیاسی تصورات

 

 

ملا ؔ کا شعری ذوق اس ماحول میں پروان چڑھا ہے جب کہ ملک میں حاکم و محکوم انگریز و ہندوستانی کے درمیان سیاسی کش مکش جزر و مد کی منزلوں میں تھی اور ملک کی آزادی کے نقشے بن اور بگڑ رہے تھے اور بالآخر ایک مرشد کامل پیر طریقت کی کامیاب رہنمائی میں ملک کے پیروں سے غلامی کی زنجیریں کٹیں اور اسے آزادی نصیب ہوئی۔ مگر آزادی کے ساتھ ہی ملک کی تقسیم کے نتیجے میں ہمیں لہو اور آگ کے دریا سے گزرنا پڑا اور ہماری ایک پوری نسل قتل و غارت، لوٹ مار، سفا کی و درندگی کے بہیمانہ کھیل میں مشغول ہو گئی اور وہ دل دہلانے والے مناظر آنکھوں کے سامنے آئے جن پر آج تک انسانیت آٹھ آٹھ آنسو رو رہی ہے۔ ملا بھر پور سماجی شعور رکھتے تھے۔ ان کے دل میں نوع انسانی کا درد پورے طور سے موجود تھا۔ وہ ان کے دل دوز موثرات سے اثر پذیر ہوئے اور کافی اثر پذیر ہوئے۔ وہ اس سے پہلے غیر مشروط  وطنیت کے صنم دیدہ زیب کے پرستاروں میں تھے۔ یہاں تک کہ اقبال ؔ کو اس راہ سے ہٹتا ہوا دیکھ کر اس کی شاعری سے گرویدگی کے باوجود وہ ایک نظم کے ذریعے سے تیز و تند لہجے میں اس سے شکوہ کر گئے اور اس کے ’جام دل کی صہبا ‘کا، ’کوثر‘ میں تبدیل ہو جانا ان کے طنز کا نشانہ بن گیا۔ لیکن واقعات کی بے رحم رفتار نے ان کی وطنیت کے تصور میں ترمیم کرا ہی لی اور اب وہی وطنیت ان کی نگاہ میں محبوب رہ گئی جو انسان دوستی کے بلند بام کے لئے نردبان کا کام دے سکے۔ وہ وطن دوست اب بھی ہیں مگر ہر صحیح الفکر انسان کی طرح وہ ایسی وطن پرستی سے ہوا خواہ نہیں ہیں جو انسان دوستی کے تقاضے یک لخت نگاہوں سے اوجھل کر دے اور اپنے نظریہ اور عمل سے بے گناہ انسانوں کا خون بہانے کے لئے تیغ بکف رہے۔ ان کے سیاسی تصورات کی ان منزلوں کے اثرات ’’جوئے شیر‘‘ کی نظموں اور غزلوں میں صاف طور سے نمایاں نظر آتے ہیں۔ مگر دوسرے مجموعہ ’’کچھ ذرے، کچھ تارے ‘‘ میں ’’انسان دوستی‘‘ ملا کا مستقل نظریۂ حیات بن گئی ہے اور اس نے ان کی فکر و نظر کے لئے مرکز کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ اس حد تک کہ اگر ملا ؔ کو خوش قسمتی سے توازن فکر و ذوق عمل کا غیر معمولی حصہ نہ ملا ہوتا تو بہت ممکن تھا کہ وہ اس ’’انسان دوستی‘‘ کے سرگرم بلند بانگ جوشیلے نقیب (پروپگنڈسٹ) ہو جاتے اور ان کی شاعری اس خصوص میں ایک آتش آہنگ شرارہ بار نعرے بازی کے جلالی تیوروں کی نمائندہ بن کر رہ جاتی۔ مگر ملا ؔ کا متوازن فلسفۂ شعر شعر کو شعر کی حدوں میں رکھتے ہوئے اس میں مقصدیت پیدا کرنے کا طرف دار ہے۔ وہ شعر کے ذریعہ اس پیام بری کے قائل نہیں جو شعر سے شعریت کی روح سلب کر کے اسے افادیت کے بازار میں بے جان لاشے کی طرح خریداروں کے سامنے پیش کرے۔ ذیل کے اشعار سے ملا ؔ کی انسان دوستی کی عروسِ زیبا کے رخسار کے مختلف خط و خال کی تصویر کسی حد تک نگاہوں کے سامنے آ سکے گی:

مے سب کو نہ ہو تقسیم اگر، اپنا بھی الٹ دے پیمانہ

یہ کفر ہے کیشِ رندی میں ساقی سے اکے لیے جام نہ لے

 

کرم کرم ہے تو ہو فیض عام اس کا شعار

یہ دشت ہے وہ گلستاں سحاب کیا جانے

 

خونِ دل ضائع نہ ہو بس مجھ کو اتنی فکر ہے

اپنے کام آیا تو کیا غیروں کے کام آیا تو کیا

 

نسیم و سبزۂ و گل کے سنہرے خواب دکھلا کر

یہ برقِ باد و باراں ہی نصیب آشیاں کب تک

 

کمزور کے لئے کوئی جائے اماں نہیں

گلشن میں ناتواں کے لئے آشیاں نہیں

 

ہماری جا بھی کہیں ہے خدائے دیر و حرم

حرم میں غیر ہیں اور بت کدے میں بیگانے

 

نکل کر کبھی شہر سود و زیاں سے

محبت کے اجڑے دیاروں کو دیکھو

 

مجھے اے خالقِ نطق و زباں خاموش کر دینا

مرے لب پر نہ جس دن درد انساں کی پکار آئے

 

محرومیِ تقدیر کی شکلیں ہیں ہزاروں

اب شام جو آئی تو مے و جام نہیں ہے

 

پائے کیا تسکیں مریضِ غم تری آنکھیں ہیں خشک

نرم گفتاری فقط اے چارہ گر کافی نہیں

 

عشق اک وہ ہے جو ہے نغمۂ خاموش حیات

اور اک وہ ہے جو افسانوں کے کام آتا ہے

 

 

 

 

ملّا کی شاعرانہ انفرادیت

 

 

ملّا کے شعری سرمایے پر سرسری نظر ڈالنے سے بھی یہ امر روشن ہو جاتا ہے کہ ان کا عمیق تفکر، ان کی نفسیاتی ژرف نگاہی ان کی فلسفیانہ حقیقت پسندی ان کے شعروں کو بوجھل نہیں بناتی۔ ان کی صاف ستھری تخئیل ان گراں بار حقائق کے نیچے دب کر غیر معتدل نہیں ہو جاتی بلکہ حقیقتاً ان سب کے اجتماع سے ان کے سخنہائے دلآویز حسنِ معنی و حسنِ بیان کا ایسا آمیزہ بن جاتے ہیں جس سے دل و دماغ دونوں کو روحانی نشاط حاصل ہوتا ہے۔

ملّا عام روایتی راستوں سے ہٹ کر سوچتے ہیں اور پھر اپنے ان نادر و تازہ نتائج فکر کو شعریت کے بادۂ ناب میں ڈوب دے دیتے ہیں۔ یہیں سے ان کی شعری انفرادیت کا مزاج بنتا ہے اور وہ اپنے تمام معاصر شعراء کی صف سے الگ نظر آتے ہیں ؎

برق و شبنم باد و باراں، خار و گل سب آئے کام

رفتہ رفتہ اک مزاجِ گلستاں بنتا گیا

ملّا کی غزل میں ’’فاسقانہ شاعری‘‘، ’’قنوطی شاعری‘‘، ’’متصوفانہ شاعری اور رندانہ شاعری کی نیرنگیاں تو نہیں ملیں گی مگر ایسے کچھ جلوے ضرور ملیں گے جن کی خنک ضو سے دل و دماغ جگمگا اٹھیں گے۔

 

 

 

 

 

ملّا کی غزل اور ترقی پسندی

 

ملّا کو اپنے بارے میں بعض مستند ترقی پسندوں کی اس رائے پر کہ ’’وہ ترقی پسند ہیں ‘‘ خواہ کتنی ہی حیرت ہو لیکن صحیح معنوں میں ترقی پسند کہے جانے کا استحاق رکھتی ہے۔ اس میں توانائی بھی ہے اور توانائی کے ساتھ رعنائی بھی۔ ان کی غزل میں حقیقتاً وہ تمام صحت مندانہ رجحان موجود ہیں جو بنی نوع انسان کی زندگی اس کی سود و بہبود اور اس کی آسائش سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی نگاہ عرش اور اس کے متعلقات میں نہیں الجھتی بلکہ اس زمین پر اور اس پر بسنے والی مخلوق سے وابستہ رہتی ہے اور اس میں سے اپنے آسمانوں کی تخلیق کرتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ان کے خیالات و افکار پر کٹر اشترا کی نظریوں کی مہر نہیں لگی ہوئی ہے اور سچ پوچھئے تو گاندھی جی کے فلسفۂ امن و آشتی پر ایمان لے آنے والا سرخ آندھیوں کے اڑائے ہوئے غبار کو سرمۂ چشم اعتقاد بنا بھی کیوں کر سکتا ہے۔ اس کے ماسوا انسانیت کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے اثر لئے ہوئے دل کے نالوں کو کسی مخصوص ’’نے ‘‘ کی پابندی کی آخر ضرورت ہی کیا ہے۔ ذرا سوچنے کی بات ہے کہ جس دماغ کے یہ رشحات فکر ہوں اسے ترقی پسند نہیں تو پھر کیا کہا جائے گا۔

اٹھو گھر کے دیوں ہی کو جلا کر روشنی کر لو

ستاروں سے تجلی کا سوالِ رائگاں کب تک

 

اور دنیا میں کوئی جرم نہیں

بس کوئی ناتواں نہ ہو جائے

 

مظلوم کو ملی ہے مصافِ حیات میں

اپنے لہو کو چاٹ کے طاقت کبھی کبھی

 

طاقت کے دوش پر ہے ازل سے بشر کی لاش

بس تھوڑی تھوڑی دور پہ شانہ بدل گیا

 

کسی میں دم نہیں اہل ستم سے کچھ بھی کہے

ستم زدوں کو ہر اک آ رہا ہے سمجھانے

 

میں نے تو اندھیرے میں بھی ڈھونڈھے ہیں اجالے

ڈھونڈیں جنھیں ملتی ہے اجالوں میں سیاہی

 

اس فضا میں تجھ کو جینا ہے تو اے طائر ذرا

تیز رکھ منقار و ناخن بال و پر کافی نہیں

 

نہ لاؤ یا تو زباں پر حدیثِ ناکامی

نہیں تو اپنی تمنا کو پھر جواں نہ کہو

 

قدم رکھ راہِ الفت میں اکیلا ہے تو ڈر کیا ہے

تلاشِ کارواں تجھ کو امیرِ کارواں کب تک

 

 

 

 

 

ملّا کی غزل میں مجازاتی علامات

 

جیسا سابق میں عرض کیا جا چکا ہے ملّا کا فن حکیمانہ حقیقت نگاری ہے وہ اس دنیائے ہزار جلوہ وہزار شیوہ کے گوشے گوشے سے باریک بینی کے ساتھ نازک حقیقتیں چنتے ہیں اور پھر ان میں فن کارانہ چابک دستی سے رنگ شعر بھرتے ہیں۔ اس دشوار تصویر کشی کے لئے انھیں موقع و محل کے لحاظ سے مختلف مجازاتی علامات و اشارات سے کام لینا ہوتا ہے ؎

مقصد ہے ناز و غمزہ ولے گفتگو میں کام

بنتا نہیں ہے دشنۂ و خنجر کہے بغیر

گلچیں و صیاد۔ عندلیب و قفس۔ چمن و آشیاں۔ گل و گلزار۔ برق و نشیمن۔ خار و رہرو، دشت وسراب۔ بادۂ و ساغر۔ سبو و جام کہکشاں سے انھوں نے بھی زیادہ تر اپنی بزم سخن سجائی ہے مگر ان کی طبع رسا کے دست تصرف نے ان کو ابلاغ خیالات کا کامیاب حسین و سبک وسیلہ بنا دیا ہے۔ ان کے پردے میں اقبالؔ کی طرح ملا بھی گہری سیاسی و نفسیاتی حقیقتوں کے دلآویز نقشے نگاہوں کے سامنے لائے ہیں بلکہ نگاہوں کے سامنے ہی نہیں لائے ہیں، دلوں میں اتار دئیے ہیں۔

مغربی سانچوں میں ڈھلے ہوئے ادیب و نقاد ہمارے گل و بلبل، قفس و نشیمن پر ان کی علاماتی وسعتوں کو نظر انداز کر کے برابر طنز کرتے رہتے ہیں۔ ذیل کے شعر اس سلسلے میں پڑھئیے اور دیکھیے کہ ان نقادوں کی طعن و تشنیع ان علامات و اشارات پر کس قدر بے محل و بے جان ہے :

برق ناحق چمن میں ہے بدنام

آگ پھولوں نے خود لگائی ہے

 

طائر کے لئے دشوار نہیں صیاد و قفس سے دور رہے

لیکن جو شکل نشیمن ہے اس دام سے بچنا مشکل ہے

 

ہر اک طائر کا حق ہے آشیاں پرواز اور نغمے

کوئی میری طرف سے یہ گلستاں میں پکار آئے

 

میں نالہ بہ لب اجڑے نشیمن پہ نہیں ہوں

دیکھی نہیں جاتی ہے گلستاں کی تباہی

 

یہ فصلِ گل تو سب کی ہے کوئی افسردہ دل کیوں ہو

نہیں ممکن چمن کے ایک گوشے میں بہار آئے

 

نظام مے کدہ ساقی چلے گا یوں کب تک

چھلک رہے ہیں سبو اور تہی ہیں پیمانے

 

پرند پر شکستہ کو قفس میں کوئی رکھتا ہے

اسیری جب بھی آئی ہے بفیضِ بال و پر آئی

 

موت اس سے بھلی کوئی طائر

خوگرِ آشیاں نہ ہو جائے

 

نہ ہو جائے کہیں محفل پہ ظاہر اپنی محرومی

تہی ہیں پھر بھی ہونٹوں سے لگا لیتا ہوں جام اکثر

 

تاریخ ہے گواہ گلستاں ہوئے تباہ

اک خوش دمیدہ گل کی بدولت کبھی کبھی

 

یہ ریگِ رواں ہے آب نہیں منزل ہے مسافر دور تری

اس راہ میں نہ جانیں دشت ابھی ہم رنگ گلستاں کتنے ہیں

 

ان چراغوں سے تو اٹھتے ہیں دھوئیں کے بادل

اک اندھیرا ہی اندھیرا سر بام آیا ہے

 

قدم رکھ شوق سے تپتی ہوئی راہ حقیقت پر

مگر اک کہکشاں بھی سامنے نظروں کے رہنے دے

 

 

 

 

ملّا کی غزل کی زبان

 

میں نے بار بار ملا کی حقیقت نگاری پر زور دیا ہے اور بار بار یہ کہا ہے کہ وہ فلسفۂ معاشرت و سیاست و انسانیت کے کامیاب مفسر ہیں۔ ان کے دقیق حقائق کو زبانِ شعر سے ادا کرتے ہیں، اس سے کہیں یہ خیال نہ پیدا ہو جائے کہ وہ زبان کی حلاوتوں کے ذائقہ شناس نہیں ہیں۔ سو ایسا نہیں ہے۔ ان کی شاعری کے بولوں میں زبان کا رس موجود ہے۔ ان کے شعر کے نغموں میں بیان کی مٹھاس پائی جاتی ہے۔ مگر یہ سب سنجیدگی کے حدود کے اندر ہے۔ ایک متوازن خیال و ذوق، ایک متوازن فکر و نظر کے مالک شاعر سے اس سے زیادہ کی توقع بھی آپ نہیں کر سکتے۔ مندرجہ ذیل شعر کیا سہل ممتنع کی حدوں میں داخل نہیں ہوتے ؟

تب کہیں لب تک آئی دل کی بات

جب ذرا آسرا دیا تو نے

 

تکلف، تکلم، تبسم، توجہ

مزے پہ اب آنے لگا ہے فسانہ

 

ہو گئی گم کہاں سحر اپنی

رات جا کر بھی رات آئی ہے

 

نہیں ممکن ملیں نگاہیں دو

ادراک داستاں نہ ہو جائے

 

حسن کی رہ گزرِ جور میں بھی

ہو ہی جاتے ہیں سانحاتِ کرم

 

میں چپ اور وہ بھی چپ اے انجمن لے

ترے ہاتھ اور اک افسانہ آیا

 

قدم نظروں سے آگے پڑ رہے ہیں

سوادِ کوچۂ جانا نہ آیا

 

ہیں اشارے ہر آستانے سے

داغ کوئی نہیں جبیں پہ ابھی

 

بات شیریں لبی میں گم ہو جائے

اس قدر تہ بہ تہ نبات نہ ہو

 

ساقی کی نگاہوں میں تو مجرم نہ بنوں گا

ٹوٹیں گے تو ٹوٹیں مرے توبہ کے ارادے

 

مے کشوں نے پی کے توڑے جام مے

ہائے وہ ساغر جو رکھے رہ گئے

 

آتا رہا غموں میں بھی لب پر سرودِ زیست

اک جوئے آب دشت میں گاتی چلی گئی

 

ستم پر ستم کر رہے ہیں وہ مجھ پر

مجھے شاید اپنا سمجھنے لگے ہیں

 

دل کہیں کامراں نہ ہو جائے

زندگی رائگاں نہ ہو جائے

 

 

 

 

 

ملّا کی فارسی ترکیبوں میں ندرت

 

ملّا کے کام و دہانِ ذوق قندِ پارسی کی حلاوتوں سے آشنا ہیں اور پھر حکیمانہ حقیقتوں کی ترجمانی ان کے پیشِ نظر ہے انھیں اس دشوار فریضہ سے عہدہ بر آ ہونے کے لئے نئی نئی ترکیبیں تراشنا پڑیں اور سچ تو یہ ہے کہ انھوں نے فارسی کے رچے ہوئے ذوق کی مدد سے بیشتر ان ترکیبوں کو بڑے ہی حسن کے ساتھ تراشا ہے۔

تجھے مرد یقیں یہ ساحل آسائی مبارک ہو

مجھے شک ہی کی ہمت آزما موجوں میں رہنے دے

 

ممکن ہے کہ ہونٹوں کو تو میں سی بھی لوں لیکن

لے جاؤں کہاں آنکھوں کی افسانہ نگاہی

 

طوفانِ دل ہے اب آرمیدہ

ایودائے فصل مژگان و دیدہ

 

کیا تجھ پہ گزری بامِ فلک پر

اے ماہتابِ خاک آفریدہ

 

چمن کو برق و باراں سے خطرا تنا نہیں ملّا

قیامت ہے وہ شعلہ جو نشیمن زاد ہوتا ہے

 

’ساحل آسائی‘، ’افسانہ نگاہی‘، ’فصل مژگاں و دیدہ‘، ’ماہتاب خاک آفریدہ‘، ’نشیمن زاد‘، شب انجام‘، ’قسم کی معنی آفریں ترکیبوں کی ندرت و لطافت اور ان کی معنوی وسعت کا اعتراف ہر شائستہ ذوق کو کرنا ہی پڑے گا، اب اگر اسی ذیل میں ’سلیمان گستری‘ کی ترکیب ؎

کہیں حق اور دلیلوں پر ہوئے ہیں فیصلے دل کے

جہانِ حسن و الفت میں سلیماں گستری کب تھی

تو اسے اہمیت دینے کی ضرورت نہیں۔ میری ناقص رائے میں ’سلیمان گستری‘ کی ترکیب بظاہر شان دار ہے لیکن ’عدالت گستری‘ کے دوش بدوش ’پیمبرگستری‘ کی مرادف بھی ہو جاتی ہے اور اس لئے حضرت سلیمان کو پیغمبر سمجھنے والوں کے کانوں کے لئے خوش آئند نہ ہو گی۔ لیکن ملا کا مقصد شاید مغربی ادب کے زاویۂ نگاہ سے محض عدالت گستری ہے۔ ’پیمبر گستری‘ ان کے حاشیۂ خیال میں بھی نہ ہو گی۔ لہٰذا کوئی وجۂ شکایت پیدا نہیں ہو سکتی۔

ملّا لکھنوی ہیں اور لکھنو کی زبان کے رموز و نکات سے واقف ہیں۔ ان کی زبان ٹکسالی ہوتی ہے۔ ان کے قدم اس میدان میں کم ہی لڑکھڑائے ہیں۔ اس لئے مندرجہ ذیل مسامح ذرا بھی قابلِ التفات نہیں قرار پاتے اور بالخصوص ایسی صورت میں جبکہ بڑے سے بڑے شاعر کے یہاں خواہ وہ اردو کا شاعر ہو، فارسی کا شاعر ہو، عربی کا شاعر ہو یا کسی اور زبان کا شاعر ہو ایسے مسامح (Slipsbuds)ملتے ہیں

رندانِ خوش عقیدہ میں ملّا نہیں مگر

کی ہے مغاں کے ہاتھ پہ بیعت کبھی کبھی

 

کچھ تو رکھ لو اس مغاں کی آبروئے چشم و لب

جس کی مے سے آج تک اونچا ہے مے خانے کا نام

’مغاں ‘، ’مغ‘ کی جمع ہے۔ واحد نہیں ہے۔ ’حور‘ کی طرح ’مغاں ‘ واحد کے معنی میں ’مہند‘ بھی نہیں بنا ہے۔

نگاہوں میں فسانے آ چلے ہیں

حقیقت باز ہوتی جا رہی ہے

’حقیقت باز‘ ہونا بظاہر اردو کا محاورہ نہیں ہے۔

ہر ایک آئینہ جگر پر غلاف شک کی چڑھی ہوئی ہے

ہر ایک راہِ حیات پر اک فصیلِ نفرت کھڑی ہوئی ہے

ہر ایک راہِ حیات پر اک فصیلِ نفرت کھڑی ہوئی ہے جہاں تک مجھے معلوم ہے ’غلاف‘ مؤنث استعمال نہیں کیا جاتا۔

 

 

 

 

ملّا کے منظومات

 

ملّا کے منظوماتی کارنامے بھی نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ ملا کو نظم اور غزل دونوں پر یکساں قدرت حاصل ہے۔ نظموں کی کافی تعداد ’جوئے شیر‘ میں ملتی ہے اور ’کچھ ذرے کچھ ستارے ‘ میں تقریباً چھوٹی بڑی بیس نظمیں درج ہیں۔ اس میں ’میری دنیا‘، ’زمین وطن‘، ’’موتی لال نہرو‘، ’جواہر لال نہرو جیسی بیانیہ نظمیں ہیں۔

چکبست کے رنگ کی بھی ہیں اور روحِ اضطراب، شاعر انقلاب زندہ باد، جام حیات، اقبال کے انداز کی بھی۔ ملا کے یہاں ایک مخصوص نوعیت کا تفکر پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے آگے چل کر ان کی نظم چکبست سے بالکل ہی اور اقبال سے بھی تھوڑی بہت علیحدہ ہو جاتی ہے۔ ان کی وطن پرستی، ان کی ہندوستانیت کے پرکشش نقوش ان کی ابتدا کی تمام نظموں کے چہرے پر ابھرے ہوئے ہیں۔ بعد کی نظموں میں انسان دوستی کا جذبہ تیز سے تیز تر ہوتا چلا گیا ہے اور مذہب قوم و وطن کے محدود جارحانہ تصور سے وہ بیزار نظر آنے لگے ہیں۔ اس مجموعے میں ان کی نظم ’ٹھنڈی کافی‘ خاصا رومانی رنگ رکھتی ہے۔ نظم کی بناوٹ میں بھی موسیقیت پائی جاتی ہے۔ اس سے اس میں تعمیری حسن پیدا ہو گیا ہے۔ اس نظم کا آغاز یوں ہوا ہے :

اس میں خوبی سی کچھ آئینِ مکافات کی تھی

کچھ جنوں خیز بغاوت سی بھی جذبات کی تھی

اک فسوں ساز شرافت سی بھی کچھ رات کی تھی

ورنہ اس کو نہ مجھی کو خبر اس بات کی تھی

کہ یہی رات مقدر میں ملاقات کی تھی

اس نظم کا مختصرطور سے پلاٹ یہ ہے کہ شاعر اپنے ایک دوست کو پہچانے اسٹیشن گیا ہے۔ ٹرین تاخیر سے آتی ہے۔ وقت نا وقت ہو جاتا ہے۔ شاعر دوست کو رخصت کر کے جب اسٹیشن سے باہر نکلتا ہے تو اسے اتفاق سے محبوبۂ دل نواز مل جاتی ہے۔ جس کی محبت میں وہ عرصہ سے اسیر تھا لیکن مدت سے ملاقات رسمی حدود کے اندر ہی تھی۔ صورت حال کچھ ایسی ہوئی کہ کسی جگہ دونوں معصومانہ ارادوں سے بظاہر وقت گزاری کے لئے بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ گرمی کاموسم ختم ہو رہا تھا۔ برسات کے آثار شروع ہو چکے تھے۔ دونوں جوان دلوں پر ماحول کا غیر شعوری طور پر اثر ہونے لگا اور بالآخر ع ٹوٹے بوسیدہ تمدن کے کگارے آخر ملّانے یہ لطیف حکایت بہت سنبھل سنبھل کر بیان کی ہے۔ ان کی محتاط متانت زبان کو روکے ہوئے ہے۔ مہذب سنجیدگی لبوں کو بند کئے ہوئے ہے۔ مگر ان غیر معمولی حالات میں جذبات کے اتار چڑھاؤ کی جو کیفیت آہستہ آہستہ ہوتی جاتی ہے اس کی تصویر کشی اشارات و کنایات سے کر دی ہے اور پھر نہ زبان بگڑی نہ منھ بگڑا۔ اس قسم کی رومانی نظموں میں یہ رکھ رکھاؤ شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ یقیناً ملا کی یہ ٹھنڈی کافی گرم بھی ہے، لطیف بھی ہے اور لذیذ بھی۔

ان کے دوسرے مجموعے ’کچھ ذرے کچھ تارے ‘ میں متعدد چھوٹی خوبصورت سڈول نظمیں ’شبیہ دارا‘، ’سردار پٹیل‘، ’شرنارتھی‘، نقادوں سے ‘ شامل ہیں۔ اسی ذیل میں ایک نظم ’سوغات ‘ بھی ہے۔ اس کی شانِ نزول ملا کا پاکستان جانا ہے۔ پاکستانیوں کے لئے بطور تحفہ اسے تیار کیا گیا ہے۔ اس پر اثر و پر خلوص نظم کے تین چار شعر پڑھے بغیر آگے بڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔

پھر اک تجدید الفت کا ترانہ لے کے آیا ہوں

میں کیا آیا ہوں اک گزرا زمانہ لے کے آیا ہوں

بہ نام خطّہ اقبالؔ خاکِ میرؔ و غالبؔ سے

سلامِ شوق و نذرِ دوستانہ لے کے آیا ہوں

بہ نام ساقیِ دوشیں بہ یادِ بزمِ مے خانہ

حرم میں دیر سے جامِ شبانہ لے کے آیا ہوں

فقط تھوڑا سا زمزم اس کے بدلے میں مجھے دے دو

میں گنگا کے دہانے کا دہانہ لے کے آیا ہوں

اگر ملا کی اس مخلصانہ نظم ’سوغات‘ کا جواب اسی خلوص سے عمل کی دنیا میں دیا جا سکے تو انسانیت کے حق میں کس قدر مفید ہو۔

اس مجموعے میں ملاؔ کی ایک آزاد طولانی نظم ’مریم ثانی‘ بھی ہے۔ اس سے پہلے جتنی آزاد نظمیں میں نے مختلف شعراء کی پڑھی تھیں ان سے متاثر نہ ہو سکا تھا۔ ان کی حیثیت ایک نئے تجربہ سے زیادہ مجھے محسوس نہیں ہوئی تھی لیکن ملا کی ’مریم ثانی‘ نے خاصا متاثر کیا۔ اس کے تاروں پر ایک مدھم سی موسیقی دوڑتی ہوئی نظم میں تسلسل ہے۔ روانی ہے اور پھر ملّا کے دماغ و دل کے افکار و محسوسات برافگندہ نقاب نظر آ رہے ہیں۔ اس کا ایک ٹکڑا ذیل میں درج کیا جا رہا ہے :

شاید احساس ہوا پہلے پہل تب یہ تمہیں

تم نے برتاؤ مرے ساتھ کچھ اچھا نہ کیا

اور کچھ اپنی جفاؤں پہ پشیماں ہو کر

تم نے چاہا کہ مرے غم کی کسک دور کرو

اور پھر آ کے مرے پاس بڑی نرمی سے

میری وارفتگیِ ہوش سجھائی مجھ کو

میری دیوانگیِ شوق بتائی مجھکو

اور ایّام جہالت کی وہ بوسیدہ کتاب

دھرم کہتے ہیں جسے

اس کی ہدایتِ فرسودہ پڑھائی مجھ کو… الخ

یہ سلسلہ اسی سبک رفتاری کے ساتھ آگے بڑھتا اور ایک خیال دوسرے خیال سے پیدا ہوتے چلا گیا۔ مختصر لفظوں میں ملا کی نظمیں موجودہ سماجی و سیاسی شعور کی حامل ہیں۔ ان کے پس منظر میں بشریت کے دکھ و درد کا سچا احساس موجود ہے۔ ان کے زمین و آسمان پرانے نہیں ہیں اور اس جدے دیت کے باوجود ان کی نظمیں قدیم سے بے گانہ نہیں ہیں۔ یہاں بھی ان کی زبان اور طرزِ بیان میں نادر شگفتگی ہے جس کی آبیاری ان کا مستحکم تفکر اور پاکیزہ ذوق شعر کرتا رہتا ہے۔

ملّا کو اپنے نکتہ سنج احباب سے بے التفاتی کی شکایت ہے۔ تو اس کے متعلق آخر میں عرض کروں گا کہ ان کی متاعِ سخن اس دور میں یقیناً نایاب ہے لیکن اگر عیار طبع خریدار‘‘ کم یاب ہے اور ان کی شاعری کے ’لعل ہائے شب چراغ‘ پر عام نظریں نہیں پڑتیں تو اس میں نہ تعجب کا مقام ہے نہ شکایت کا محل۔ ملا نے شاعری کے دسترخوان پر جو کھانے چنے ہیں وہ عوامی پسند کے کب ہیں۔ ان میں رندانہ بیباکیوں  اور لا اُبالیانہ سرمستیوں کا چٹ پٹا پن کہاں ہے۔ اندھیروں میں اجالوں کی تلاش کرنے کی سعی اور انسانیت کے چہرے کو اجانے کی کوشش میں وہ رنگ و روپ نہیں آ سکتا جو عوامی ذوق کو اپنی طرف دعوتِ نگاہ دے۔

میں تو ملّا کو مخاطب کر کے انھیں کا یہ شعر پڑھوں گا

دئے جا خاص اپنا رنگ ہر تخلیق کو ملّا

نہ اس کی فکر کر دنیا کو جو چاہے وہ کہنے دے

٭٭٭

کتاب ’آنند نرائن ملاؔ : حیات اور فن‘ : مرتبہ: عزیز نبیؔل، آصف اعظمی کا ایک حصہ

تشکر: عزیز نبیلؔ جنہوں نے مکمل کتاب کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید