FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

’’آبِ حیات‘‘ کی تحقیقی و تنقیدی اہمیت

               ڈاکٹر امتیاز احمد

 

               دیباچہ

            ہمارا مقصد اردو تنقید کی ایک بے مثال اور غیر معمولی کتاب ’’آبِ حیات‘‘ سے آپ کو واقف کرانا ہے۔ اس کے مصنف کی حیات و خدمات سے آپ کو واقف کرانا ہے۔ اس کتاب نے بعد کے ادبی سفر پر کیا اور کیسے اثرات مرتب کیے ؟ آج اس کتاب اور اس کے مصنف کا ادبی مرتبہ کیا ہے ؟ بہت سی کمیوں اور خامیوں کے باوجود آج بھی یہ کتاب اردو کی سب سے زیادہ حوالے کی کتاب کیوں بنی ہوئی ہے ؟ اس کے جملے کے جملے لوگوں کے حافظہ میں کیوں محفوظ ہیں ؟ اور بالآخر ہر آنے والی نسل کو بار بار اس کتاب کو کیوں پڑھنا چاہیے ؟ ہر آنے والی نسل اسے حرز جاں کیوں بنائے ہوئی ہے ؟ یہ اور اس طرح کے دوسرے سوالات پر غور کرنا ہے۔

                 تمہید

            محمد حسین آزاد (1830-1910) کا شمار اردو کے ممتاز ترین لکھنے والوں میں ہوتا ہے۔ وہ سرسید احمد خاں (1817-1898)، حالی (1837-1914)، نذیر احمد (1826-1912) اور شبلی نعمانی (1857-1914) کے ساتھ اردو نثر کے عناصر خمسہ میں شمار ہوتے ہیں۔ مہدی اِفادی نے جہاں انھیں اردوئے معلی کا ہیرو قرار دیا ہے ، وہیں شبلی کی یہ رائے بھی ان کے بارے میں بے حد اہم ہے کہ وہ غپیں بھی ہانکتا ہے تو وحی معلوم ہوتی ہے اور مالک رام کے خیال میں اُن کی ’’تحریروں کو خزاں کا اندیشہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ ‘‘ بقول مظفر حنفی

’’اردو ادب پر مولانا آزاد (محمدحسین آزاد) کے بے شمار احسانات ہیں۔ وہ نہ صرف اردو کے سب سے بڑے اور صاحبِ طرز انشاپرداز و نثرنگار ہیں بلکہ نئی نظم کے بانی اور موجد بھی ہیں۔ پیامیہ اور نیچرل شاعری کی تحریک، انجمن پنجاب اور نظم اردو کے مشاعروں کے ذریعے آزاد نے ہی چلائی تھی جس کی تبلیغ مولانا حالی نے بھی کی۔

            دنیائے ادب میں انھیں کئی میدانوں میں اوّلیت کا شرف حاصل ہے۔ اردو میں درسی کتابوں کی تیاری اور ادب اطفال کی تخلیق کا رواج ان سے پڑا۔ تذکرہ نگاری کی جگہ باقاعدہ تنقید کی روایت انھوں نے قائم کی، لسانی مباحث اور تاریخ ادب کی داغ بیل انھوں نے ڈالی۔ پہلا ڈراما انھوں نے لکھا اور خا کہ نگاری کے ابتدائی نقوش اُن کی تصنیفات میں ہی ملتے ہیں۔ تمثیل نگاری، انشائیہ نگاری اور تاریخ نویسی میں ان کا نام امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ اُس پُر آشوب دور میں بھی آزاد نے ہندوستانی قوم کو اپنے ماضی کی شاندار روایات سے روشناس کرایا اور مشرقی ادب و اخلاق کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ ‘‘

                   محمد حسین آزاد کا تعارف

            محمد حسین آزاد ۱۰؍ جون ۱۸۳۰ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی محمد باقر اردو کے مشہور صحافی تھے۔ انھوں نے ۱۸۳۶ء میں ’’دہلی اردو اخبار‘‘ کے نام سے اردو میں ایک اخبار جاری کیا۔ اس سے پہلے مطبع جعفریہ قائم کیا جو آگے چل کر اردو اخبار پریس کہلایا۔ ۱۸۵۷ء میں ملک کی آزادی کے لیے اپنی جان نثار کرنے والوں میں مولوی محمد باقر بھی تھے ، انھیں گولی مارکر شہید کر دیا گیا۔ مظفر حنفی کے الفاظ میں :

’’مولوی محمد باقر کو شاہ ظفر کا تقرب بھی حاصل تھا، اور انھوں نے اپنے اخبار میں ایسے مضمون بھی شائع کیے تھے جن میں مسلمانوں کو بادشاہ کی مدد کرنے کی تاکید تھی۔ یہ فتویٰ بھی اخبار میں چھپا کہ بادشاہ اور ملک کو غیر قوم کے تسلط سے بچانا فرض عین ہے اور انگریزوں سے جنگ جہاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایسے دستاویزی ثبوت بھی ملے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ مولوی محمد باقر کا براہِ راست تعلق شاہی فوج سے تھا جو انگریزوں سے لڑ رہی تھی اور خود مولوی باقر کئی بار جنگ میں شامل ہوئے تھے۔ ان تمام امور کی روشنی میں ۱۶؍ ستمبر ۱۸۵۷ء کو حاکمانِ وقت نے انھیں انگریزی حکومت کا باغی اور سزائے موت کا مستحق قرار دیا اور اُن کی تمام املاک ضبط کر لی۔ ‘‘

            اس حادثہ کے بعد آزاد اور اُن کے خاندان پر جو کچھ گزری اس کا ذکر آزاد نے بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ دہلی سے لکھنؤ، مدراس، ممبئی اور مالوہ ہوتے ہوئے آزاد پنجاب پہنچے اور محکمۂ فوج داری میں ملازم ہو گئے۔ دس مہینے بعد یہاں سے استعفیٰ دے دیا اور اخبار ’’مجمع البحرین‘‘ میں کام کرنے لگے۔ ۱۸۶۱ء میں وہ لاہور آ گئے اور پوسٹ ماسٹر جنرل کے دفتر میں کام کرنے لگے۔ دسمبر ۱۸۶۲ء میں انھوں نے اس سے بھی استعفیٰ دے دیا، اور پرانی کتابوں کی تجارت کرنے لگے۔ یکم فروری ۱۸۶۴ء کو محکمۂ تعلیمات میں اہل مد کے عہدے پر ان کا تقرر ہو گیا۔ پھر سرکاری اخبار اتالیق پنجاب کے ’نائب مدیر‘ مقرر ہوئے۔ بعد ازاں جب ’’پنجاب میگزین‘‘ نکلنا شروع ہوا تو وہ اس کے بھی نائب مدیر مقرر ہوئے۔ ۱۸۶۴ء میں ان کی پہلی باقاعدہ تصنیف ’’نصیحت کا کرن پھول‘‘ وجود میں آئی جو عورتوں کی تعلیم سے متعلق تھی۔ ۱۸۶۵ء میں جب انجمن پنجاب قائم ہوئی تو آزاد نے اس کے جلسوں میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ اس انجمن کے سکریٹری مقرر ہو گئے۔ ۱۸۶۹ء میں وہ گورنمنٹ کالج، لاہور میں عربی کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہو گئے۔ ۱۸۷۴ء میں کرنل ہالرائڈ کے ساتھ مل کر انھوں نے اردو میں نظم جدید کی تحریک شروع کی۔ انجمن پنجاب کے انہی جلسوں میں آزاد نے نظم جدید پر اپنا مشہور لکچر دیا اور وہ مناظمہ شروع کیا جس میں آزاد کے علاوہ الطاف حسین حالی اور بعض دوسرے شاعروں نے بھی شرکت کی اور خاصی قابلِ قدر نظمیں پیش کیں۔ اکتوبر ۱۸۸۴ء میں انھیں اورینٹل کالج لاہور میں اردو کا پروفیسر مقرر کر دیا گیا۔ ۱۸۸۵ء میں وہ ایران کے سفر پر روانہ ہوئے جہاں سے ۲۴؍ جولائی ۱۸۸۶ء کو واپس آئے۔ ۱۸۸۷ء میں ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انھیں شمس العلما کے خطاب سے نوازا گیا، لیکن دربارِ اکبری، آبِ حیات اور سخن داں فارس کی محنتوں اور ذاتی صدموں نے انھیں توڑ کر رکھ دیا۔ اُن کا ذہنی توازن جاتا رہا اور آہستہ آہستہ انھیں دیوانگی کے دورے پڑنے لگے۔ نتیجہ کے طور پر انھیں کالج کی ملازمت سے سبک دوش ہونا پڑا۔ جون ۱۸۹۰ء سے انھیں پنشن ملنے لگی، ۱۸۹۲ء سے انھیں وزیر ہند کی طرف سے خصوصی پنشن بھی دی گئی۔ ۱۹۰۵ء میں ان کی اہلیہ کا بھی انتقال ہو گیا۔ بالآخر لگ بھگ بیس سال جنون کے عالم میں زندگی گزار کر ۲۲؍ جنوری ۱۹۱۰ء کو آزاد کا انتقال ہو گیا۔

                  تصانیف

            لگ بھگ اسّی سالہ طویل زندگی میں محمد حسین آزاد نے بہ کثرت کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔ ان میں ممتاز ترین کتابیں تو بلاشبہ مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔         آبِ حیات

۲۔        دربارِ اکبری

۳۔        نیرنگِ خیال

۴۔        سخن دانِ فارس

۵۔        دیوانِ ذوق (تدوین)

۶۔        نظم آزاد

            لیکن ان تصانیف کے علاوہ بھی آزاد کی بہ کثرت تدریسی اور غیرتدریسی کتابیں ملتی ہیں جن میں (۱) نگارستانِ فارس (۲) سیرایران (۳) خم کدۂ آزاد (۴) قصصِ ہند (۵) نصیحت کا کرن پھول (۶) مکتوباتِ آزاد (۷) اردو کی پہلی کتاب (۸) اردو کی دوسری کتاب (۹) اردو کی تیسری کتاب (۱۰) اردو کی چوتھی کتاب (۱۱) فارسی پہلی کتاب (۱۲) فارسی کی دوسری کتاب اور (۱۳) سنین اسلام (بہ اشتراک ڈاکٹر لائٹز) خاص طورسے اہم ہیں۔

                  آبِ حیات

            ۱۸۸۰ء میں آبِ حیات کا پہلا ایڈیشن شائع ہوا۔ دوسرا ایڈیشن ۱۸۸۳ء میں اور تیسرا ایڈیشن ۱۸۸۷ء میں چوتھا ایڈیشن ۱۸۹۰ء اور پانچواں ایڈیشن ۱۸۹۶ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد آبِ حیات کے بہ کثرت ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔

            کتاب کے شروع میں ایک دیباچہ اور مقدمہ ہے جس میں زبان اردو اور نظم اردو کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ اس کے بعد پوری کتاب کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔

                  ادوار کی تقسیم

            ٭       پہلے دور میں ولیؔ اور نگ آبادی اور اُن کے ہم عصروں کا ذکر کیا گیا ہے ، اس میں شاہ مبارک آبروؔ، شیخ شرف الدین ممنونؔ، محمد شاکرناجیؔ، محمد احسن احسنؔ، غلام مصطفی خاں یک رنگؔ شامل ہیں۔

            ٭       دوسرے دور میں شاہ حاتمؔ، سراج الدین علی خاں آرزوؔ اور اشرف علی خاں فغاںؔ  کو شامل کیا گیا ہے۔

            ٭       تیسرے دور کو اس کتاب میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس باب میں مرزا مظہر جان جانان، میر عبدالحئی تاباںؔ ، مرزا محمد رفیع سوداؔ، میر ضاحک، خواجہ میر دردؔ، سیدمحمد میرسوزؔ اور میر محمد تقی میرؔ شامل ہیں۔

            ٭       چوتھے دور میں شیخ قلندر بخش جرأتؔ، میرحسن، سیدانشاء اﷲ خاں انشاؔ اور شیخ غلام ہمدانی مصحفیؔ شامل ہیں۔

            ٭       پانچویں دور میں شیخ امام بخش ناسخؔ، میرمستحسن خلیقؔ، خواجہ حیدر علی آتشؔ، شاہ نصیر، مومن خاں مومن، شیخ ابراہیم ذوقؔ، اسداﷲ خاں غالبؔ، مرزا دبیرؔ اور میرانیسؔ شامل ہیں۔

                  آبِ حیات پر اعتراضات

            آبِ حیات کی اشاعت اوّل کے بعد سے لے کر اب تک آبِ حیات پر اعتراضات کا سلسلہ بند نہیں ہوا ہے۔ پہلے ایڈیشن میں مومن کا حال درج نہیں تھا اس پر اعتراضات کے نتیجے کے طور پر دوسرے ایڈیشن میں مومن کے ذکر کا اضافہ کیا گیا۔

            ٭  یہ اعتراض کیا گیا کہ اس میں کسی شاعرہ کا ذکر موجود نہیں ہے۔

            ٭  یہ اعتراض ہوا کہ اس میں کسی اردو گو غیرمسلم شاعر کا ذکر نہیں ہے۔

            ٭  عظیم آباد اور کلکتہ وغیرہ کے دبستانوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

            ٭ بہت سے اہم شاعروں کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔

            ٭ ولیؔ کو اردو کا پہلا شاعر قرار دیا گیا ہے جب کہ اُن سے بہت پہلے قلی قطب شاہ اردو میں شاعری کا بڑا سرمایہ جمع کر چکے تھے۔

            ٭       نظام الدین ممنونؔ کا حال بھی شامل نہیں کیا گیا۔ حالیؔ کے اعتراض کے باوجود بعد کے ایڈیشن میں بھی یہ اضافہ آزاد نے نہیں کیا۔

            ٭       قائمؔ کا ذکر آزاد نے حاشیہ میں کیا ہے جب کہ وہ اصل متن میں جگہ پانے کے حق دار تھے۔

                 تضادات

            اسی طرح آزاد کے یہاں بہت سے تضادات کی بھی محققین نے نشان دہی کی ہے ، مثال کے طور پر وہ

            ٭         میرسوز اور میر تقی دونوں کو اردو کا سعدی قرار دیتے ہیں۔

            ٭         امیرخسرو اور ولیؔ دونوں کو اردو غزل کا ایجاد دہندہ کہتے ہیں۔

            قاضی عبدالودود نے اپنی کتاب آزاد بحیثیت محقق اور حافظ محمود خاں شیرانی نے مقالات شیرانی جلدسوم میں آزاد کی ان غلطیوں کی بہت تفصیل سے نشان دہی کی ہے۔

                 تاریخی پہلو

            یہ فیصلہ کرنا خاصا مشکل ہے کہ آبِ حیات کو اردو ادب کی کس صنف کا نمونہ قرار دیا جائے۔ بعض ناقدین اسے تاریخ ادب کی کتاب مانتے ہیں تو بعض اسے تنقید کی تو بعض دوسرے اسے تذکرہ کہہ کر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ جن لوگوں نے اس کے تاریخی پہلو پر اصرار کیا ہے وہ اس کے اُس بنیادی ڈھانچے کو نظر میں رکھتے ہیں جس میں پہلی بار اردو شاعری کی تاریخ کو مختلف ادوار میں تقسیم کر کے ، ان ادوار کی خصوصیات کو متعین کر کے ، اس دور کے نمائندہ شاعروں کی خصوصیات کو پیش کرنے ، ان ادوار اور شعرا کے کلام میں زبان و بیان کی تبدیلیوں کو، طرزِ معاشرت کی تبدیلیوں کو، مضامین شاعری کے بدلاؤ کو پیش کرتے ہیں کہ آزاد نے پہلی بار تذکروں کی روایت سے آگے بڑھ کر تاریخ نگاری کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے آبِ حیات کا مطالعہ کرنے والوں نے اس کی تاریخی غلطیوں کی بڑی تعداد میں نشان دہی کی ہے ، اور تاریخ کی کتاب کی حیثیت سے اسے ناقابلِ اعتبار بتایا ہے۔ انھوں نے اس کی تقسیم ادوار میں بھی بہ کثرت غلطیوں کی نشان دہی کی ہے۔ مثال کے طور پر ابرار عبدالسلام اپنی مرتب کردہ آبِ حیات کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :

’’دوسرے دور کی خصوصیت بھی وہی ہے جو پہلے دور کی ہے۔ وہی سادگی، بے تکلفی، صفائی کلام اور اصلیت۔ اس دور میں فرق صرف یہ ہے کہ ’’ان کی اصلاح نے بہت سے لفظ ولیؔ کے عہد کے نکال ڈالے ‘‘ دونوں ادوار میں فرق یہ ہے کہ پہلا دور ایہام گو شعرا کا ہے اور دوسرا اس کے خلاف عملی قدم اٹھانے والے شعرا کا۔ لیکن آزاد نے اس کی طرف اشارہ نہیں کیا۔ پہلے اور دوسرے دور میں فرق سوائے بعض الفاظ کے متروک قرار دینے کے اور کوئی نہیں۔ ‘‘

                                                 (مقدمہ۔ آبِ حیات، مرتبہ ابرار عبدالسلام، ص:۲۲)

اسی طرح پانچویں دور کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں :

’’پانچویں دور میں آزاد نے دو قسم کے شعرا کی نشان دہی کی ہے۔ پہلی قسم اُن شعرا کی ہے جنھوں نے پرانی ڈگر کو اپنائے رکھا، اور دوسری اُن شعرا کی جنھوں نے اپنے لیے نیا راستہ تلاش کیا۔ آزاد لکھتے ہیں : اس میں دو قسم کے باکمال نظر آئیں گے۔ ایک وہ کہ جنھوں نے اپنے بزرگوں کی پیروی کو دین آئین سمجھا۔ یہ اُن کے باغوں میں پھریں گے۔ پرانی شاخیں ، زرد پتّے کاٹیں چھاٹیں گے اور نئے رنگ اور نئے ڈھنگ کے گلدستے بنا بنا کر گل دانوں سے طاق و ایوان سجائیں گے۔ دوسرے وہ عالی دماغ جو فکر کے دخان سے ایجاد ہوائیں اُڑائیں گے اور برج آتش بازی کی طرح اس سے رتبۂ عالی پائیں گے۔ ‘‘

’’یہ خصوصیت دورِ دوم، دورِ رسوم اور دورِ چہارم میں بھی ملتی ہے۔ سلف کی پیروی کو حرز جاں بنانے والے اور اپنا راستہ الگ نکالنے والے ہر دور ہر زمانے میں پائے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں دورِ چہارم سے مصحفی و انشا کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ مصحفی قدیم انداز فکر کے حامل اور انشا فکر کے دخان سے ایجاد ہوائیں اڑانے والے۔ اس سلسلے میں رنگین کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘

                                                                                     (ایضاً۔ ص:۲۳۔ ۲۴)

پانچوں ادوار کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے ابرار عبدالسلام نے بالکل ٹھیک لکھا ہے کہ:

’’آبِ حیات کے پانچوں ادوار کا تقابلی مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان ادوار میں کوئی ایسا واضح اختلاف موجود نہیں جو ان ادوار کو علیٰحدہ اور منفرد شناخت کروا سکے۔ آزاد نے ان ادوار کی جو خصوصیات بیان کی ہیں وہ دوسرے ادوار میں بھی بخوبی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ‘‘

                                                                                                 (ایضاً۔ ص:۲۴)

            اسی طرح آبِ حیات کے ماخذ کے سلسلہ میں بھی بار بار یہ اعتراض کیا جا چکا ہے کہ آزاد نے جن تذکروں سے استفادہ کیا یا جن لوگوں سے خطوط لکھ لکھ کر یہ حالات منگوائے ، یا جن لوگوں کے لکھے ہوئے حالات پوری طرح اپنی تحریر میں شامل کر لیے کہیں ان کی نشان دہی نہیں کی۔ بعض واقعات کے سلسلہ میں ترمیم و تنسیخ کا بھی ان پر الزام لگایا گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ باتیں تحقیقی اعتبار سے آبِ حیات کے مرتبے پر سوالیہ نشان قائم کرتیں اور اسے مشتبہ بناتی ہیں۔

                 تذکرہ

            جو لوگ اردو شاعروں کے تذکرہ کی حیثیت سے اس کا مطالعہ کرتے ہیں وہ آزاد کی ماضی پسندی اور ماضی سے اُن کے عشق پر اصرار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ:

’’آزاد قدیم تہذیب کا ثنا خواں بھی ہے اور مرثیہ گو بھی۔ اُسے اپنے ماضی اور تہذیب سے جذباتی لگاؤ ہے۔ بالخصوص دہلوی تہذیب اس کے لیے ایک ایسی ’یوٹوپیا‘ ہے جس میں وہ زندگی گزار رہا ہے ، جس میں اس نے آنکھیں کھولی، پلا، بڑھا، جن معرکوں ، محفلوں اور مجلسوں میں اس کی ادبی و تہذیبی نشوونما ہوئی۔ آزاد چاہتا ہے کہ وہ ان تمام تہذیبی و ادبی نقوش کو ایک بار پھر سے زندہ کر سکے ، اور انھیں حیاتِ دوام بخش سکے۔ ‘‘ (آبِ حیات۔ مرتبہ ابرار عبدالسلام، ص:۲۰)

اُن کے مطابق:

’’آزاد کو اپنے ماضی سے حد درجہ لگاؤ ہے۔ وہ اس سے محبت کرتے ہیں ، اس کی یادوں کے سہارے جینا چاہتے ہیں۔ ماضی کی شکست و ریخت اور حال کی تبدیلیاں اگرچہ اُسے افسردہ کرتی ہیں لیکن ماضی سے اس کی وابستگی ایک کمٹیڈ عاشق کی سی ہے جو اُسے اس کی خوبیوں ، خامیوں سمیت قبول کرتا ہے ، اور اپنی کمٹ منٹ پر کسی طرح بھی سمجھوتا نہیں کرنا چاہتا۔ انھیں اپنا ماضی ایک درخشندہ ستارے کی مانند چمکتا نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر محمد صادق نے درست لکھا ہے : ’’آزاد آپ کو ہر جگہ ماضی کے محاسن میں رطب اللسان نظر آئیں گے ، اور اگر لامحالہ کبھی ماضی کی خامیوں سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے تو جھٹ اس کا کوئی خوش آئند پہلو نکال لیتے ہیں۔ اس کے برعکس عہد جدید کہیں بھی ان کی نظر میں جچتا نظر نہیں آتا، اور موقع بے موقع اس کی تنقیص پر اُتر آتے ہیں اور یہ سب کچھ جذبہ کی وجہ سے ہے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۲۰)

یہ پورا دور شس و پنج میں جی رہا ہے۔ ایک کش مکش ہے جس کی ترجمانی غالب نے ان الفاظ میں کی ہے :

کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

چنانچہ کبھی تو وہ اپنے انگریزی داں ہم وطنوں پر رشک کرتے نظر آتے ہیں کہ:

            ’’اس کی چابی ہمارے انگریزی داں ہم وطنوں کے ہاتھ میں ہے۔ ‘‘

اور کبھی اپنے ماضی کو زندہ کرنے کی کوشش میں اپنی ساری صلاحیتیں صَرف کر دیتے ہیں کہ:

’’جس مرنے پر اُن (اہلِ کمال) کے اہل و عیال روئے وہ مرنا نہ تھا۔ مرنا حقیقت میں اُن باتوں کا مٹنا ہے جس سے اُن کے کمال مٹ جائیں گے ، اور یہ مرنا حقیقت میں سخت غم ناک حادثہ ہے۔ ‘‘

                                                             (آبِ حیات۔ مرتبہ ابرار عبدالسلام، ص:۲)

چنانچہ وہ نئے مضامین بھی باندھتے ہیں اور اُن مرحومین کی خوبیوں کو زندہ کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ انہی کے الفاظ میں :

’’میرے دوستو! زندگی کے معنی کھانا پینا، چلنا پھرنا، سورہنا اور منھ سے بولے جانا نہیں ہے۔ زندگی کے معنی یہ ہیں کہ صفت خاص کے ساتھ نام کو شہرت عام ہو اور اُسے بقائے دوام ہو۔ ‘‘

                                                                                                 (ایضاً۔ ص:۲)

اس اعتبار سے آبِ حیات کا مطالعہ کرنے والوں میں پروفیسر کلیم الدین احمد سب سے ممتاز اور نمایاں ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ میں بہت واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ:

’’آبِ حیات ‘ تنقیدی کارنامہ نہیں ، ایک تذکرہ ہے۔ ‘‘ (اردو تنقید پر ایک نظر۔ ص:۴۸)

اپنے اس جملے کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں :

’’آزاد میں نقد کا مادّہ مطلق نہ تھا۔ نظر مشرقی حدود میں پابند تھی۔ وہ لکیر کے فقیر تھے۔ باریک بینی اور آزادیِ خیال سے مبر ّا، انگریزی لالٹینوں کی روشنی ان کے دماغ تک نہیں پہنچی تھی۔ ‘‘

کلیم الدین احمد لکھتے ہیں :

’’ آزاد زور تخیل سے مجبور ہو کر ایسی تصویریں مرتب کرتے ہیں جو دلچسپ تو ضرور ہوتی ہیں لیکن حقیقت اور واقعیت سے مناسبت نہیں رکھتیں۔

            میر خوددار اور نازک مزاج واقع ہوئے تھے لیکن آزاد نے ان کی شخصیت کو بہت ناگوار بنادیا ہے۔ ان کی خودپسندی، خود بینی، بد مزاجی، غرور کو اپنے تخیل کے زور سے اس قدر اُچھالا ہے کہ میر کی شخصیت ناگوار اور بدنما ہو گئی ہے۔ یہ تصویر حقیقت سے پرے ہے۔ اس نقص کی وجہ سے آبِ حیات کی اہمیت کم سے کمتر ہو جاتی ہے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۵۸)

            اس کے بعد وہ میر کی وہ تصویر پیش کرتے ہیں جو مولوی عبدالحق نے پیش کی ہے اور دونوں کے مقابلہ سے آزاد کی زیادتی کو واضح کرتے ہیں۔ ان باتوں کے بعد کلیم الدین احمد نے ایک ایسی بات لکھی ہے جو آزادؔ کے پورے کام پر، پوری محنت پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے۔ لکھتے ہیں :

’’اگر دوسرے بیانات سے آزاد کے بیانات کی تصدیق ہو تو اچھا ہے ورنہ ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۵۸)

وہ آزاد کے بعض اقتباسات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

’’ان جملوں کا مقصد سبحان اﷲ ہے۔ ہرسمجھنے والا جانتا ہے کہ اس عبارت میں مغز کم ہے اور اس کو اختصار اور جامعیت کے ساتھ سیدھے سادے لفظوں میں بیان کیا جا سکتا تھا۔ چند صاف اور معمولی باتوں کو حسین لفظوں اور چمکتے ہوئے نقوش سے آراستہ کیا گیا ہے۔ چمک تو بڑھ گئی ہے ، لیکن ان حسین لفظوں اور چمکیلے نقوش نے معانی کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ الفاظ اور نقوش اپنی رنگینی اور چمک کے ساتھ عام، مبہم اور غیر متعین بھی ہیں۔ عبارت آرائی کی جستجو میں مقصد فراموش ہو جاتا ہے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۵۰)

لیکن وہ اس کی خوبیوں کو بھی نہیں بھولتے ، چنانچہ آبِ حیات کی مرقع نگاری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’آبِ حیات میں نئے نئے قسم کے مرقعے ملتے ہیں جن سے اس کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ ان حسین بوقلموں تصویروں نے اس کو اہم بنا دیا ہے۔ انشاؔ اور عظیم بیگ کا واقعہ، انشاؔ اور مصحفیؔ کے معرکے ، ناسخؔ اور آتشؔ کی نوک جھونک، جرأتؔ اور کربلا بھانڈ کی نقلیں غرض ہرقسم کی تصویریں ہیں۔ عموماً ان موقعوں میں ظرافت اور طنز کا مادہ جزو اعظم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے آبِ حیات گویا زعفران زار بن گئی ہے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۵۱۔ ۵۲)

اسی طرح آبِ حیات کی ڈرامہ نگاری کا ذکر کرتے ہوئے کلیم الدین احمد لکھتے ہیں :

’’آزادؔ ڈرامہ نگاری کی قوت رکھتے تھے۔ اس لیے وہ کسی سین، انسانی دنیا کے کسی منظر کو صفائی اور کامیابی کے ساتھ پیش کر سکتے تھے۔ یہ تصویریں مردہ نہیں زندہ ہیں ، جیتی جاگتی، چلتی پھرتی، بولتی چالتی تصویریں ہیں۔ مبالغہ یہاں بھی ہے اور ان تصویروں کے حسن میں اضافہ کرتا ہے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۵۳)

اسی طرح شخصیت کی تعمیر کا ذکر بھی مثبت انداز میں کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں :

’’شخصیت کی تعمیر کا بھی یہی حال ہے۔ ’آبِ حیات‘ پرانے تذکروں سے بہتر ہے۔ آزادؔ شاعروں کے نام نہیں گناتے ، متفرق اوصاف و نقائص کی فہرست مرتب نہیں کرتے ، ہر شاعر کی زندہ تصویر کھینچتے ہیں۔ میرؔ، سوداؔ، دردؔ، انشاؔ، مصحفیؔ، آتشؔ، ناسخؔ غرض ہر شاعر کی الگ الگ تصویر ہے۔ اس کے علاوہ ماحول کا بھی کسی حد تک بیان ہے ، اس لیے شخصیت کچھ زیادہ اجاگر ہو جاتی ہے۔ یہاں بھی افتاد طبیعت رنگ لاتی ہے۔ تصویریں اکثر خیالی ہوتی ہیں۔ حقیقت سے مبر ّا، مبالغہ کی زیادتی سے ان کی صورت بدل جاتی ہے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۵۳)

                 تنقیدی پہلو

            جن لوگوں نے تنقید نگاری کی حیثیت سے آزادؔ کا ذکر کیا ہے وہ انھیں تاثراتی تنقید میں خاصا اونچا مقام دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں انھوں نے محض الفاظ کے توتا مینا نہیں بنائے ہیں بلکہ قدیم مشرقی شعریات (عربی، فارسی) کے معیاروں کو سامنے رکھتے ہوئے شاعروں کے کلام پر اپنے Original تاثرات کو ظاہر کیا ہے۔ یہ تنقیدی جملے دیکھیے جو گلزار نسیم کے بارے میں ہیں :

’’مضمون کو تشبیہ کے پردہ اور استعارہ کے پیچ میں ادا کیا، اور وہ ادا معشوقانہ خوش ادائی نظر آئی۔ اس کے پیچ، وہی بانکپن کی مروڑ ہیں جو پری زادیں بانکا دو پٹہ اوڑھ کر دکھاتی ہیں اور اکثر مطالب کو بھی اشاروں اور کنایوں کے رنگ میں دکھایا ہے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۷۰)

’’اختصار بھی اس مثنوی کا ایک خاص وصف ہے جس کا ذکر کرنا واجب ہے ، کیوں کہ ہر معاملہ کو اس قدر مختصر کر کے ادا کیا ہے جس سے زیادہ ہو نہیں سکتا، اور ایک شعر بیچ میں سے نکال لو تو داستان برہم ہو جاتی ہے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۷۰)

اسی طرح سحرالبیان کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’بے نظیر اور بدر منیر کا قصہ بے نظیر لکھا اور اس مثنوی کا نام سحرالبیان رکھا ہے۔ زمانہ نے اس کی سحرالبیانی پر تمام شعرا اور تذکرہ نویسوں سے محضر شہادت لکھوایا۔ اس کی صفائی بیان اور لطف محاور ہ اور شوخی مضمون اور طرزِ ادا اور ادا کی نزاکت اور سوال و جواب کی نوک جھونک حد توصیف سے باہر ہے۔ اُس کی فصاحت کے کانوں میں قدرت نے کیسی سناوٹ رکھی تھی! کیا اُسے سوبرس آگے والوں کی باتیں سنائی دیتی تھیں ؟ کہ جو کچھ اُس وقت کہا صاف وہی محاور ہ اور وہی گفتگو ہے جو الفاظ آج ہم تم بول رہے ہیں۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۶۹۔ ۱۷۰)

اسی طرح ناسخؔ کی شاعری کے بارے میں یہ جملہ ان کی شاعری کا عطر نچوڑ کر رکھ دیتا ہے کہ:

’’غزلوں میں شوکت الفاظ اور بلند پروازی اور نازک خیالی بہت ہے اور تاثیر کم۔ صائب کی تشبیہ و تمثیل کو اپنی صنعت میں ترکیب دے کر ایسی دستکاری اور مینا کاری فرمائی کہ بعض موقع پر بیدلؔ اور ناصرؔ علی کی حد میں جا پڑے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۲۳۸۔ ۲۳۹)

میر مستحسن خلیق کے مراثی کے بارے میں یہ تنقیدی فیصلہ کیسی بے پناہ تنقیدی بصیرت اور ذوق پر مبنی ہے کہ:

’’فضائل اور معجزات کی روایتیں اس سلاست اور سادگی کے ساتھ نظم کرتے تھے کہ واقعات کی صورت سامنے تصویر ہو جاتی تھی، اور دل کا درد آنکھوں سے آنسو ہو کر ٹپک پڑتا تھا۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۲۵۷)

’’وہ مضمون آفرینی کی ہوس کم کرتے تھے اور ہمیشہ محاور ہ اور لطف زبان کو خیالات درد انگیز کے ساتھ ترکیب دے کر مطلب حاصل کرتے تھے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۲۵۸)

            کہنا یہ ہے کہ وہ تلاش مضمون تازہ نہیں کرتے ، یا انھوں نے راہ مضمون تازہ اپنے لیے بند کر رکھے ہیں۔ یا یہ کہ اُن کے مراثی میں کوئی نئی بات، کوئی نیا پہلو، کوئی نئی روایت نہیں ہوتی بلکہ انہی پرانی باتوں کو زبان و بیان کے لطف کے ساتھ ادا کرتے ہیں ، یا پرانی شراب کو نئے بوتل میں پیش کر دیتے ہیں۔ اس ذرا سی بات کو کیسے خوب صورت انداز میں پیش کرتے ہیں کہ لطف آ جاتا ہے اور اس نکتہ کا جو منفی پہلو تھا وہ بیان کرنے کے انداز کی وجہ سے مثبت پہلو میں بدل جاتا ہے۔

شاہ نصیر کی شاعری کے بارے میں دیکھیے کیسی جنچی تلی رائے دی ہے :

’’زبان، شکوہ الفاظ اور چستی ترکیب میں سودا کی زبان تھی اور گرمی و لذت اس میں خداداد تھی۔ انھیں اپنی نئی تشبیہوں اور استعاروں کا دعویٰ تھا اور یہ دعویٰ بجا تھا۔ نئی نئی زمینیں نہایت برجستہ اور پسندیدہ نکالتے تھے ، مگر ایسی سنگلاخ ہوتی تھیں جن میں بڑے بڑے شہ سوار قدم نہ مار سکتے تھے۔ ‘‘

                                                                                                 (ایضاً۔ ص:۲۷۴)

            شبلی کی طرح آزادؔ بھی شاعر کو ایک مصور خیال کرتے ہیں جو الفاظ کے ذریعے سے تصویریں کھینچتا اور تخیل کے زور پر مضامین استقبالی کو مضامین حالی بنا دیتا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں :

’’شاعر گویا ایک مصور ہے کہ معنی کی تصویر دل پر کھینچتا ہے اور بسااوقات اپنی رنگینی فصاحت سے عکس نقش کو اصل سے بھی زیادہ زیبائش دیتا ہے۔ وہ اشیا جن کی تصویر قلم مصور سے نہ کھنچے یہ زبان سے کھینچ دیتا ہے۔ چنانچہ ہزاروں صفحے کاغذ بھیگ کر فنا ہو گئے مگر صدہا سال سے آج تک اُن کی تصویریں ویسی کی ویسی ہی ہیں۔ ‘‘

’’شاعر اگر چاہے تو امورات عادیہ کو نیا کر دکھائے ، پتھر کو گویا کرے ، درختان پا در گل کو رواں کر دکھائے ، ماضی کو حال، حال کو استقبال کر دے ، دور کو نزدیک، زمین کو آسمان، خاک کو طلا، اندھیرے کو اجالا کر دے۔ ‘‘

            پروفیسرابوالکلام قاسمی کے خیال میں آزاد کے ان نظریاتی مباحث کے پیچھے ایک طرف تو فارسی کی قدیم روایتی تنقید کے اثرات نظر آتے ہیں تو دوسری طرف قدیم یونانی تنقید کا پرتو بھی جھلکتا نظر آتا ہے۔ پروفیسرقاسمی کے خیال میں :

’’ ان تصو ّرات کے ذکر میں وہ افلاطون یا ارسطو کا ذکر تو نہیں کرتے مگر کلاسیکی یونان کے حوالے کے سبب ہمارا ذہن بلا توقف یونان کے ان اوّلین نظریہ سازوں کی طرف ہی جاتا ہے۔ ویسے آزاد کے بیانات کی تفصیل میں جائیے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے اپنے تصو ّرات کی پوری عمارت افلاطون اور ارسطو سے ناکافی واقفیت کی بنیاد پر تعمیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ‘‘

                                                                                     (کثرتِ تعبیر۔ ص:۲۰۶)

ان کی عملی تنقید کے بارے میں بھی پروفیسرقاسمی کی یہ رائے بہت جنچی تلی ہے کہ:

’’ آزاد کی عملی تنقید بعض تجزیوں اور موازنوں کی بنیاد پر اردو تنقید کی آگے کی منزلوں کا سراغ دیتی ہے۔ وہ خود کو تذکروں کی محض چند گنی چنی اصطلاحوں میں اسیر نہیں رکھتے۔۔۔۔ ایک شاعر کو دوسرے سے الگ کرنے کی خاطر اس کی انفرادی پہچان کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔۔۔۔ تذکروں کی نام نہاد تنقیدی رایوں پر اضافے کا انداز اپناتے ہیں اور اپنے زمانی سیاق و سباق میں الطاف حسین حالی کے مربوط اور منضبط تنقیدی تصو ّرات کی تمہید ضرور بن جاتے ہیں۔ ‘‘

                                                                                     (ایضاً۔ ص:۲۰۹۔ ۲۱۰)

            پروفیسرقاسمی کے خیال میں آزاد قرآن کی اس آیت سے اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جس میں شعرا کو جھوٹے اور گمراہ لوگوں کی رہنمائی کرنے والا قرار دیا گیا ہے۔ وہ حالیؔ کی طرح واضح الفاظ میں تو بیان نہیں کرتے لیکن اُن کا بین السطور شاعری کے اخلاقی عناصر پر حالیؔ کی طرح ہی زور دیتا ہے اور وہ شاعری کا نکتۂ کمال پاکیزہ اور عمدہ خیالات کو ہی قرار دیتے ہیں۔

            ان تمام باتوں کے باوجود یہ بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ:

’’آزاد کی تنقید بیشتر وجدانی اور تاثراتی ہے۔ وہ شاعری پر تنقید کرتے ہوئے تحقیق اور تجزیے کے عادی نہیں بلکہ اپنے ذوق اور پسند کو معیار بنا کر چند جملوں میں اپنی رائے کا اظہار کر دیتے ہیں … وہ اپنی پسند اور ناپسند میں فوری طور پر اپنی جانب داری کا اعلان کر دیتے ہیں۔ ‘‘

 (آبِ حیات: شہرت عام اور بقائے دوام، از انیس ناگی، مشمولہ آب حیات کا تنقیدی و تحقیقی مطالعہ، مرتبہ سیدسجاد، ص:۸۸)

’’آزاد کی تنقیدی لغت بہت محدود ہے۔ عام بیان میں تو نئے نئے امیجز اور تراکیب کو مخترع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، لیکن تجزیے میں پرانی تنقیدی لغت پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ مطالب کی دقت، مضامین کی بلند پروازی، الفاظ کی شان و شکوہ، بندش کی چستی، صاف زبان، فصیح محاور ے ، شوخی مضمون اور طرزِ ادا کی نزاکت وغیرہ آزاد کی کل تنقیدی کائنات ہے ، وہ ہر شاعر کے تجزیے کے لیے انہی تراکیب کو استعمال کرتے ہیں۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۸۹)

                 نوآبادیاتی مقاصد میں تعاون

            الطاف حسین حالیؔ کی طرح وہ بھی شعوری یا غیر شعوری طور پر انگریزی اور انگریزوں کا حوالہ دیتے۔ اُن کی تحریر، تقریر، طرز معاشرت، ادب، شاعری وغیرہ کے حوالے دیتے اور شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے ہم وطنوں کو ایک خاص طرح کی احساسِ کمتری میں مبتلا کر دیتے اور اس وقت کے حکمراں طبقے کے مقاصد حکمرانی یا نوآبادیاتی مقاصد کو پورا کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے یہ جملے دیکھیے :

’’انگریزی میں بہت خیالات اور مضامین ایسے ہیں کہ ہماری زبان نہیں ادا کر سکتی ہے۔ یعنی جو لطف اُن کا انگریزی زبان میں ہے وہ اردو میں پورا ادا نہیں ہوسکتا جو کہ حقیقت میں زبان کی نا طاقتی کا نتیجہ ہے اور یہ اہلِ زبان کے لیے نہایت شرم کا مقام ہے۔ ‘‘ (آبِ حیات۔ مرتبہ ابرار عبدالسلالم، ص:۳۹)

’’انگریزی تحریر کے عام اصول یہ ہیں کہ جس شے کا حال یا دل کا خیال لکھیے تو اسے اس طرح ادا کیجیے کہ خود وہ حالت گزرنے سے یا اس کے مشاہدہ کرنے سے جو خوشی، یا غم، یا غصہ، یا رحم، یا خوف، یا جوش دل پر طاری ہوتا یہ بیان وہی عالم اور وہی سما دل پر چھا دیوے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۳۸)

’’یہی سبب ہے کہ آج انگریزی ڈھنگ پر لکھنے میں یا اُن کے مضامین کا پورا پورا ترجمہ کرنے میں ہم بہت قاصر ہیں۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۳۸)

’’زبان انگریزی بھی مضامین عاشقانہ، قصہ و افسانہ اور مضامین خیالی سے مالا مال ہے مگر اور ڈھنگ سے۔ اس کا اصل اصول یہ ہے کہ جو سرگزشت بیان کرے اس طرح ادا کرے کہ سامنے تصویر کھینچ دے اور نشتر اس کا دل پر کھٹکے۔ اسی واسطے خیالی پھول پتّے اتنے ہی لگاتے ہیں جتنے اصل ٹہنیوں پر سجتے ہوں ، نہ کہ شاخ و شجر سب غائب ہو جائیں فقط پتّوں کا ڈھیر ہی رہ جائے۔ ‘‘

                                                             (نیرنگ خیال۔ از محمدحسین آزاد، ص:۱۳۔ ۱۴)

’’اہلِ فرنگ نے جس طرح ہر امر کی بنیاد ایک منفعت پر رکھی ہے اسی طرح اس میں بھی موقع موقع سے مختلف منافع مد نظر رکھے ہیں۔ زبان انگریزی میں نظم کا طور کچھ اور ہی ہے مگر نثر میں بھی خیالی داستانیں یا اکثر مضامین خاص خاص مقاصد پر لکھے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی وسعت خیال اور پرواز فکر اور تازگی مضامین اور طرزِ بیان کا انداز قابل دیکھنے کے ہے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۴)

ان باتوں کے پیش نظر پروفیسر ابوالکلام قاسمی کی یہ بات بالکل درست معلوم ہوتی ہے کہ:

’’ نوآبادیاتی ایجنڈے کے مطابق مغرب کی تہذیبی برتری کو تسلیم کرانے کا جو منصوبہ زیرِ عمل تھا اس کا پہلا مرحلہ اردو والوں کو ان کے اپنے ادب، اپنی تہذیب اور اپنے ماضیِ قریب کی ثقافت سے برگشتہ کرنا اور اپنے ادب و کلچر کی بے وقعتی کا احساس دلانا تھا۔ ‘‘ (کثرتِ تعبیر، ص:۲۱۱)

اور اپنے دوسرے ہم عصروں کی طرح محمدحسین آزاد بھی اس عمل میں ان کے معاون ثابت ہوئے ، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اپنی عملی تنقید کو اس کے اثر سے انھوں نے محفوظ بھی رکھا۔

                جادو اثری

            آبِ حیات کی مذکورہ تمام حیثیتیں اپنی جگہ مسلّم ہیں۔ ان سے اتفاق اور اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے لیکن محمدحسین آزاد کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ ان کے جادو نگار قلم نے جو کچھ لکھ دیا وہ تحقیقی اور تاریخی اعتبار سے صحیح ہو یا غلط لیکن لگ بھگ سواسو سال بعد آج بھی اسی طرح مقبول اور مشہور ہے جیسے اُن کے زمانے میں تھا۔ مثلاً میر کی بد دماغی کے جو قصے محمدحسین آزاد نے لکھے ہیں وہ قاضی عبدالودود وغیرہ محققین کی نظر میں کتنے ہی غلط کیوں نہ ہوں لیکن اردو کے ایک عام قاری اور طالب علم کی نظر میں وہ آج بھی اسی طرح استناد کا درجہ رکھتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ:

دلّی کی تباہی کی وجہ سے مجبور ہو کر میر صاحب لکھنؤ کا سفر اختیار کرتے ہیں ، لیکن جیب میں کرایہ ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ ایک ہمراہی اُن کا کرایہ ادا کر دیتا ہے۔ اس کے بدلے میں وہ اُن سے کچھ بات کرنے کی خواہش کرتا ہے ، لیکن حضرت اس کی طرف سے منھ پھیر لیتے ہیں۔ وہ اصرار کرتا اور کہتا ہے کہ بات چیت میں راستہ کٹ جاتا ہے اور اس میں مضائقہ بھی کیا ہے تو میر صاحب اُسے کھرا سا جواب دیتے ہیں :

            ’’آپ کا تو کچھ نہیں بگڑتا لیکن میری زبان خراب ہوتی ہے۔

            اسی طرح ایک مرتبہ آصف الدولہ مچھلیوں سے کھیلتے جاتے ہیں اور میرؔ صاحب سے شعر کی درخواست کرتے جاتے ہیں۔ میرؔ صاحب کہتے ہیں : آپ سنیں تب تو سناؤں۔ آپ تو مچھلیوں سے کھیل رہے ہیں۔ نواب صاحب جواب دیتے ہیں : جو شعر ہو گا وہ خود اپنی طرف توجہ مبذول کرالے گا۔ بس اتنی سی بات پر میرؔ صاحب دربار سے قطع تعلق کر کے گھر بیٹھ رہتے ہیں۔

            یا وہ تصویر جب میرؔ صاحب پہلی پہلی بار لکھنؤ میں وارد ہوتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے ایک جگہ مشاعرہ ہے۔ اپنی دہلوی وضع قطع کے ساتھ شامل مشاعرہ ہوتے ہیں۔ لکھنؤ کے نئی فیشن کے لوگ کچھ طنز کرتے کچھ مذاق اڑاتے ہیں۔ کچھ سنجیدگی سے میرؔ صاحب کا احوال پوچھتے ہیں۔ اس پر وہیں بیٹھے بیٹھے ایک قطعہ کہتے اور پڑھ کر چلے آتے ہیں :

کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو

ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب

رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

اُس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا

ہم رہنے والے ہیں اُسی اُجڑے دیار کے

            یا یہ کہ میرؔ صاحب کو تکلیف میں دیکھ کر لکھنؤ کے ایک نواب صاحب انھیں مع اہل و عیال اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ ایک خوب صورت مکان مع پائیں باغ رہنے کو دیتے ہیں۔ برسوں بعد پھر ملاقات کو آتے ہیں تو اندر حبس کا عالم ہے کھڑکیاں ویسے ہی بند ہیں ، میرؔ صاحب کو پتہ ہی نہیں باہر کیسے خوب صورت پھول کھلے ہیں ، کیسا سنہرا موسم ہے۔ نواب صاحب کے سوال پر جواب دیتے ہیں کہ ان باغوں سے (شاعری کے ) فرصت ملے تو اُدھر بھی دیکھوں۔

            اس طرح انشاؔ کے بارے میں اُن کا یہ جملہ بھی Quotable Quote ہو گیا ہے کہ:

’’سید انشا کے فضل و کمال کو شاعری نے کھویا اور شاعری کو سعادت علی خاں کی مصاحبت نے ڈبویا۔ ‘‘

مصحفی کے بارے میں ان کا یہ جملہ آج تک مشہور ہے کہ:

            ’’طبیعت کا امروہہ پن نہیں جاتا۔ ‘‘

اسی طرح ناسخؔ کی خوش خوراکی کے بارے میں جو کچھ لکھ دیا وہ آج تک مشہور ہے۔ یہی حال ان کی پہلوانی کے ذکر کا بھی ہے۔

            اپنے زمانے کے مشاعروں کے بارے میں میر تقی میرؔ کا یہ بیان بھی آزاد کی تخلیق ہے کہ:

’’لکھنؤ میں کسی نے پوچھا کہ کیوں حضرت آج کل شاعر کون کون ہے ؟ کہا ایک تو سوداؔ، دوسرا یہ خاکسار اور کچھ تامل کر کے کہا: آدھے خواجہ میر درد۔ کوئی شخص بولا کہ حضرت اور میرسوز؟ چیں بہ جبیں ہو کر کہا کہ میرسوز صاحب بھی شاعر ہیں ؟ انھوں نے کہا کہ آخر استاد نواب آصف الدولہ کے ہیں۔ کہا کہ خیر یہ ہے تو پونے تین سہی مگر شرفا میں ایسے تخلص ہم نے کبھی نہیں سنے۔ ‘‘

یا جرأت کی شاعری کے بارے میں میر صاحب کی یہ رائے بھی اسی طرح مشہور ہوئی:

            ’’تم شعر تو کہنا نہیں جانتے ہو اپنی چوما چاٹی کہہ لیا کرو۔ ‘‘

اسی طرح قمر الدین منت سے یہ کہنا کہ ’’اردوئے معلی خاص دلّی کی زبان ہے۔ آپ اس میں تکلیف نہ کیجیے ، اپنی فارسی وارسی کہہ لیا کیجیے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۴۲)

            آبِ حیات کے اقوال زرّیں Quotable Quote کی اگر فہرست بنائی جائے تو خاصی طویل اور دل کش ہو گی۔ مثلاً یہ کہ:

’’بد نظر زمانہ کا دستور ہے کہ جب کسی نیک نام کے دامن شہرت کو ہوا میں اڑتے دیکھتا ہے تو ایک داغ لگا دیتا ہے۔ ‘‘ (آبِ حیات۔ مرتبہ ابرار عبدالسلام، ص:۱۳۳)

’’اُن کی (میرؔ کی) مسکینی و غربت اور صبر و قناعت، تقویٰ و طہارت محضر بنا کر ادائے شہادت کرتے ہیں۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۳۴)

’’گنجفۂ سخن کی بازی میں آفتاب ہو کر چمکے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۳۴)

’’قدردانی نے ان کے کلام کو جواہر اور موتیوں کی نگاہوں سے دیکھا اور نام کو پھولوں کی مہک بنا کر اُڑایا۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۳۴)

’’نحوست و فلاکت قدیم سے اہل کمال کے سرپر سایہ کیے ہیں۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۳۴)

’’عظمت و اعزاز جوہر کمال کے خادم ہیں۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۳۵)

’’بد دماغی اور نازک مزاجی کو جو اِن کے ذاتی مصاحب تھے اپنے دم کے ساتھ ہی رکھا۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۳۵)

’’اپنے سرمایۂ فصاحت کو دولت لازوال سمجھ کر امیر غریب کسی کی پروا نہ کرتے تھے بلکہ فقر کو دین کی نعمت تصور کرتے تھے اور اسی عالم میں معرفت الٰہی پر دل لگاتے تھے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۴۱)

’’اپنی بے نیازی اور بے پروائی کے ساتھ دنیائے فانی کی مصیبتیں جھیلیں اور جو اپنی آن تان تھی اُسے لیے دنیا سے چلے گئے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۴۱)

’’جس گردن کو خدا نے بلند پیدا کیا تھا سیدھا خدا کے ہاں لے گئے۔ چند روزہ عیش کے لالچ سے یا مفلسی کے دکھ سے اسے دنیا کے نااہلوں کے سامنے ہرگز نہ جھکایا۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۴۱۔ ۱۴۲)

’’ان کا کلام کہے دیتا ہے کہ دل کی کلی اور تیوری کی گرہ کبھی کھلی نہیں۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۴۲)

’’یہ بے دماغیاں اُن کے جوہر کمال پر زیور معلوم ہوتی ہیں۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۴۲)

’’اُن کے اشعار غزل کے اصول میں گلاب کے پھول ہیں اور محاور ات کی خوش بیانی مضامین عاشقانہ کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۶۹)

’’ہمت عالی کا عقاب ہمیشہ اپنے پروں کو دیکھتا رہتا تھا۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۷۷۔ ۱۷۸)

’’خود بھی مزاج شناسی کے ارسطو تھے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۷۸)

’’آج کل لوگ پڑھتے بھی ہیں تو اس طرح صفحوں سے عبور کر جاتے ہیں گویا بکریاں ہیں کہ باغ میں گھس گئی ہیں۔ جہاں منھ پڑ گیا ایک بُکٹا بھی بھر لیا، باقی کچھ خبر نہیں۔ ہوس کا چرواہا ان کی گردن پر سوار ہے۔ وہ دبائے لیے جاتا ہے یعنی امتحان پاس کر کے ایک سند لو اور نوکری لے کر بیٹھ رہو۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۲۰۷)

’’اُن کی شوخی بڑھاپے کا ناز بے نمک معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۲۰۹)

’’نظم حیات عنقریب نثر ہوا چاہتی ہے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۲۱۱)

’’وہ دسترخوان کا شیر اکیلا تھا مگر سب کو فنا کر دیا۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۲۳۵)

’’زمانہ کی زبان کون پکڑ سکتا ہے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۲۳۵)

’’بھلے چنگے آدمی کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر خودپسندی کے ناہموار میدانوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ ‘‘

                                                                                                 (ایضاً۔ ص:۲۴۰)

’’بعض طبیعتیں ابتدا ہی سے پُر زور ہوتی ہیں۔ فکر ان کے تیز اور خیالات بلند ہوتے ہیں۔ مگر استاد نہیں ہوتا جو اس ہونہار بچھیڑے کو روک کر نکالے اور اصول کی باگوں پر لگائے۔ ‘‘

                                                                                                 (ایضاً۔ ص:۲۴۰)

            مرزا غالبؔ کی قید و بند کا حال جس طرح آزاد نے لکھا ہے ، غالب کے عزیز ترین شاگرد حالی بھی نہ لکھ سکے۔ یہ جملہ دیکھیے اور اس میں استعمال ہونے والی تشبیہ کی داد دیجیے :

’’مرزا صاحب کو ایک آفت ناگہانی کے سبب چند روز جیل خانہ میں اس طرح رہنا پڑا کہ جیسے یوسفؑ کو زندان مصر میں۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۳۴۸)

’’متانت، سلامت روی اور مسکینی اُن کی سیادت کے لیے محضر شہادت دیتے تھے۔ ‘‘

                         (میرمستحسن خلیق کے ذکر میں۔ ایضاً۔ ص:۲۵۶)

’’نازک خیالیوں میں ذہن لڑا رہے تھے کہ باپ کی موت نے شیشہ پتھر پر مارا۔ ‘‘

                                                             (ایضاً۔ ص:۲۵۶)

’’عیال کا بوجھ پہاڑ ہو کر سرپر گرا جس نے آمد کے چشمے خاک ریز کر دیے مگر ہمت کی پیشانی پر ذرا بل نہ آیا۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۲۵۶)

’’انھوں نے بھی اپنی دنیا کو آخرت کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۲۵۷)

’’آہوں کا دھواں ابر کی طرح چھا گیا اور نالہ و زاری نے آنسو برسانے شروع کیے۔ ‘‘

                                                             (ایضاً۔ ص:۲۵۸)

            ایک جگہ یہ بیان کرنا ہے کہ میرانیسؔ کی مرثیہ خوانی کی ابتدا تھی، یا انیسؔ کی مرثیہ خوانی کا ابتدائی زمانہ تھا، یا انیسؔ بھی مرثیہ خوانی کے کوچہ میں قدم رکھنے لگے تھے یا انیسؔ نے مرثیہ خوانی ابھی شروع ہی کی تھی۔ اسے یوں کہتے ہیں :

            ’’میرانیس کی مرثیہ خوانی مشرقِ منبر سے طلوع ہونے لگی تھی۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۲۵۹)

            بغیر کسی کوشش کے آفتاب عالم تاب کا استعارہ استعمال کر لیا اور اس کی رعایت سے طلوع اور مشرق اور مرثیہ خوانی کی رعایت سے منبر بھی لے آئے اور کسی کو احساس بھی نہ ہوا کہ آزاد نے کون سا آبِ حیات پلا دیا۔

مرزا دبیر کے ذکر میں لکھتے ہیں :

            ’’ذوق و شوق کے پھول ہمیشہ شبنم تعریف کے پیاسے ہیں۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۳۵۶)

کہیں کہیں قوافی کا بھی بہت خوب صورت استعمال ملتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ جملے دیکھیے :

’’متاع عشق کے بازار تھے تو تمہارے دم سے تھے ، نگارحسن کے سنگار تھے تو تمہارے قلم سے۔ ‘‘

                                                                                                 (ایضاً۔ ص:۳۶۲)

’’تم ہی قیس و کوہکن کے نام لینے والے تھے اور تم ہی لیلیٰ و مجنوں کے جوبن کو جلوہ دینے والے۔ ‘‘

                                                                                                 (ایضاً۔ ص:۳۶۲)

’’تمہاری تصنیفیں ، تالیفیں ، حکایتیں اور روایتیں جب تک موجود ہیں تم آپ موجود ہو۔ ‘‘

                                                                                                 (ایضاً۔ ص:۳۶۲)

            ظاہر ہے یہ جملے کبھی ماند پڑنے والے نہیں ہیں اور آزاد اور آب حیات کی اصل اہمیت انہی جواہرات کی وجہ سے ہے جو انھیں اردوئے معلی کا ہیرو بناتے ہیں۔ ان کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے انیس ناگی لکھتے ہیں :

’’وہ چھوٹے چھوٹے جملوں اور جزئیات نگاری سے مؤثر مرقعے تیار کرتے ہیں۔ ‘‘

                                     (آب حیات کا تنقیدی تحقیقی مطالعہ۔ مرتبہ سیدسجاد، ص:۹۰)

’’آزاد بیان واقعہ میں بیان محض، مکالمہ نویسی، داستان طرازی اور ڈرامائی عناصر سے کام لیتے ہیں۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۹۰۔ ۹۱)

’’اُن کے جملوں کی تنظیم (میں ) تشبیہ و استعارہ اور امیجز کا استعمال اُن سے مختص ہے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۹۲)

’’وہ امیجز اور استعاروں میں سوچتے ہیں۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۹۵)

’’تشبیہ استعارہ اور امیجز آزاد کے اسلوب تحریر کے بنیادی لوازمات ہیں۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۹۶)

’’آزاد آب حیات میں جہاں تشبیہ و استعارہ کو استعمال نہیں کرتے وہاں ان کی عبارت میں بے پناہ روانی اور تاثیر ہے۔ آزاد چھوٹے چھوٹے جملے بے تکان لکھتے جاتے ہیں اور جب پیراگراف مکمل ہوتا ہے تو یہ جملے خود بخود ایک تاثراتی وحدت میں ڈھل جاتے ہیں۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۹۷۔ ۹۸)

            وہ جزئیات نگاری، الفاظ کی آوازوں اور ان کے مجموعی اثر کا خاص طورسے خیال رکھتے ہیں۔ ان کے جملے منطقی ہونے کے بجائے تاثراتی ہوتے ہیں۔ وہ مختلف واقعات کے بیان میں دنیوی دانش اور مذہب یا اخلاق سے متعلق رموز بھی بیان کرتے جاتے ہیں جس سے ان کے بیان کو تقویت ملتی ہے۔

                  خلاصہ

            مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ محمدحسین آزاد اور ان کی کتاب ’’آبِ حیات‘‘ اردو نثر کا وہ قیمتی سرمایہ ہے جس پر کبھی خزاں کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ یہ ہماری اُن سدا بہار کتابوں میں سے ہے جس کی تمام تاریخی اور تنقیدی حیثیتوں سے انکار کے باوجود ایک صاحبِ اسلوب نثرنگار اور اس کے اسلوب نگارش کے بہترین نمونے کی حیثیت سے اس کی اہمیت ہمیشہ برقرار رہے گی۔ اس کے علاوہ ہماری ادبی تاریخ کے نمائندہ ناموں کے خوب صورت خاکوں اور ملک کی تاریخ کی ذہنی اور فکری کش مکش کے ایک خاص دور کی یادگار کے طور پر بھی اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جب کبھی اسالیب نثر کی بات ہو گی تو اُس ’’آزاد ہندی نہاد‘‘ کو ضرور یاد کیا جائے گا۔ ’’جس کے بزرگ فارسی کو اپنی تیغ زباں کا جوہر گردانتے تھے۔ ‘‘ اور اس کے اسلوب کی پہچان بھی یہی قرار پائے گی کہ جس کے یہاں غیر ضروری الفاظ ضروری بن جاتے ہیں ، ایجاز کے بجائے اطناب حسن بن جاتا ہے اور جس کے جملے ہمیں خوب صورت اشعار کی طرح یاد ہو جاتے ہیں۔

               کتابیات

۱۔         محمدحسین آزاد                 از مظفر حنفی، ساہتیہ اکیڈمی، نئی دہلی ۱۹۹۶ء

۲۔        آبِ حیات                     از محمد حسین آزاد

۳۔        محمدحسین آزاد: احوال و آثار        از ڈاکٹر محمد صادق

۴۔        محمد حسین آزاد                از ڈاکٹر اسلم فرخی

۵۔        آزاد صدی مقالات          مرتبہ ڈاکٹر تحسین فراقی/ ناصر عباس نیّر

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید