FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

نقد دل و جاں کا حساب

 

شرافت عباس ناز


 

کلاہ مانگے کی، دستار بھی ادھار کی ہے

مری کمر میں تو تلوار بھی ادھار کی ہے

یہ بانکپن بھی مرا مستعارِ بے جا ہے

یہ تیری سرخی رُخسار بھی ادھار کی ہے

جو لُٹ گئی وہ متاعِ نظر کب اپنی تھی

اور اب یہ دولتِ پِندار بھی ادھار کی ہے

جو گر گئی وہ فصیلِ بلند قرض کی تھی

جو اب اٹھی ہے یہ دیوار بھی ادھار کی ہے

حضور! سبزۂ بیگانہ کا گلہ کیسا

یہاں تو پھولوں کی مہکار بھی ادھار کی ہے

یہی نہیں کہ گرو ہے خرامِ کبک دری

یہ بوئے نافۂ تاتار بھی ادھار کی ہے

مرے قصیدہ نگاروں کو یہ خبر ہی نہیں

کہ میری جرأتِ گفتار بھی ادھار کی ہے

***

کتاب میں پھر رکھا ہی کیا ہے

کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں

کہ اس سے ملنا ہو یا بچھڑنا

مرے لئے سب ہے ایک جیسا

وہ میری نس نس میں،  میری رگ رگ میں

میری سانسوں میں موجزن ہے

وہ میری فطرت میں جذب ایسے

کہ جیسے خو شبو گلاب میں ہو

کہ جیسے مستی شراب میں ہو

یا جیسے کوئی اچھوتا قصہ

بہت ہی دلکش، بہت ہی پیارا

یا جیسے کوئی غزل مرصّع کتاب میں ہو

وہ میری فطرت میں، میری رگ رگ میں

میری نس نس میں یوں رچی ہے

وہ میری سانسوں میں یوں بسی ہے

کہ وہ نہ ہو تو یہ شاخ جاں ایک سوکھی ٹہنی

یہ جسم کاغذ کا پھول ٹھہرے

کہ وہ نہ ہو تو یہ دل کی مستی ، یہ میری ہستی

فضول ٹھہرے

غزل سے گر کوئی ذکر اس کا نکال دے تو

کتاب میں پھر رکھا ہی کیا ہے

کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں

کہ اس سے ملنا ہو یا بچھڑنا

مرے لئے سب ہے ایک جیسا

تسلی

ابھی کچھ دیر ٹھہرو

ابھی کچھ دیر مت جاؤ

ابھی لمحوں کے رستے میں

کئی صدیوں کی یخ بستہ ہوا نے

برف کی دیوار، یوں کھینچی ہے

جیسے

وہ بھی اس بوجھل زمستانی شبِ نا مختتم کے

گنبدِ بے در میں

قرنوں سے کسی ہمدم کی خواہاں تھی

اور اس نے آج کی شب

گوہرِ مقصود پایا ہے

وفورِ شوق کی جاں بخش یادو!

کوئی رخنہ، کوئی روزن،کوئی رستہ

یا کوئی چور دروازہ

نہیں اس گنبدِ بے در میں

اور تم بھی چلی جاؤ گی

تو یہ سرد یخ بستہ ہوا اور میں!

کہ اس میں سانس لے سکتا ہوں

لیکن جی نہیں سکتا

مجھے معلوم ہے پیوستہ اس سے اور اک شب ہے

شبِ نا مختتم اور گنبدِ بے در

مگر پھر بھی

ابھی کچھ دیر ٹھہرو

ابھی کچھ دیر مت جاؤ

جدائیوں کی فضا اس طرح سے راس آئی

کہ اب تو اپنی بھی قربت ہمیں گوارا نہیں

جِلا وطن کبھی لوٹیں تو کس جگہ ٹھہریں

کہ اپنے شہر میں بھی کوئی گھر ہمارا نہیں

***

کیا جانے کیا خیال دلِ مہرباں میں تھا

میں ساری زندگی اسی وہم و گماں میں تھا

کل رات دل کے پاس بڑی آہٹیں رہیں

بیچارہ دل عجیب کسی امتحاں میں تھا

پت جھڑ کا زہر اب کے جڑوں تک اتر گیا

وقفہ بڑا طویل بہار و خزاں میں تھا

گھاؤ کا غم نہیں ، مَیں تعجب سے گنگ ہوں

مجھ پر چلا وہ تیر جو میری کماں میں تھا

میں ہوں نڈر تو وہ بھی بلا کا ذہین ہے

میں رات اپنے دشمنِ جاں کی اماں میں تھا

***

کوئی خوش ہو کے بلاتا ہے تو ڈر لگتا ہے

کوئی ملنے چلا آتا ہے تو ڈر لگتا ہے

اس قدر زخم لگے دستِ رفیقاں سے ہمیں

اب کوئی ہاتھ بڑھاتا ہے تو ڈر لگتا ہے

کوئے جاناں ترے ٹھکرائے ہوئے لوگوں کو

کوئی عزت سے بلاتا ہے تو ڈر لگتا ہے

جانے کس لفظ میں پنہاں ہو تری یاد کا درد

اب کوئی شعر سناتا ہے تو ڈر لگتا ہے

***

گلوں کی چاہ میں اندیشۂ قفس نہ کیا

سفر کڑا تھا مگر ہم نے پیش و پس نہ کیا

اسی پہ آج یہ افتادِ سنگ ہے جس نے

کبھی نظر کو بھی آلودۂ ہوس نہ کیا

وہ زخم کیا تھا جو پچھلے برس نہیں مہکا

وہ چاک کیا تھا رفو جس کو اس برس نہ کیا

نشاں بہت سے سجے سینکڑوں عَلَم اٹھے

ترے پھریرے کو ہم نے کسی سے مس نہ کیا

پھر اس کے بعد مری لاش کو کیا پامال

عدو نے صرف مرے قتل ہی پہ بس نہ کیا

وہ کیا جری تھا کہ چوبِ صلیب کہتی ہے

مجھے کسی نے بھی یوں مسکرا کے مس نہ کیا

***

نہ خامشی میں تھا نہ ضربِ ہاؤ ہو میں تھا

جو لطف اُس سے حریفانہ گفتگو میں تھا

یہ غم نہیں کہ مجھے دشمنوں نے قتل کیا

ستم تو یہ ہے کہ تو بھی صف عدو میں تھا

وہ خوش گماں تھا کہ میں اس کو ڈھونڈنے آیا

اُسے خبر نہیں میں اپنی جستجو میں تھا

اُدھر وہ اپنے ہی پندار کے حصار میں بند

اِدھر انا کا سمندر مرے لہو میں تھا

***

ہجرتوں کی دھن میں احساسِ سفر جاتا رہا

حسنِ دل ، حسنِ وفا ، حسنِ نظر جاتا رہا

دم بدم حالات کی نیرنگیاں بڑھتی گئیں

رفتہ رفتہ اعتبارِ چارہ گر جاتا رہا

تم سے پہلے ہم بڑے جادو بیاں مشہور تھے

تم سے مل کر بات کرنے کا ہنر جاتا رہا

موسموں کے رنگ تو احساس پر تحریر تھے

وہ مٹا تو نشۂ شام و سحر جاتا رہا

ایک طلسم آرزو میں قید ہیں سب اہلِ فن

اور یہ نظارہ بھی آنکھوں سے اگر جاتا رہا !

***

ایک تتلی اور بھونرے کی کہانی

جانے پہلے لکھنے والے

کیوں یہ قصہ بھول گئے

اک تتلی اور اک بھونرے کی بڑی عجیب کہانی ہے

تتلی ، رنگ برنگی تتلی

نازک سندر بھولی بھالی

اُس کے حسن کے آگے سب پھولوں کا حسن بھی ماند پڑا

اُس کے رنگوں کے اک چھینٹے کا نام زمین پر چاند پڑا

اُس کی روش سے بادِ صبا نے چلنے کا انداز لیا

مشک و عبیر و عطر و حنا نے اس خوشبو کا راز لیا

تتلی ،رنگ برنگی تتلی

نازک سندر بھولی بھالی

گلشن کی پُر نور فضا کو اور منور کرنے والی

اک بھونرے کی چالاکی سے دامِ وفا کی اسیر ہوئی

بھونرا چمن چمن گھوما تھا

سرد و گرم چشیدہ تھا

دلداری کے سب حربوں سے سب گھاتوں سے واقف تھا

لفظوں کے دلکش دھاگوں سے جادو جال بچھاتا تھا

حرفوں کے تانے بانے سے

رنگیں خواب سجاتا تھا

اور تتلی سندر نازک معصوم تھی بھولی بھالی تھی

اس بھونرے کی چالاکی سے دامِ وفا کی اسیر ہوئی

جانے پہلے لکھنے والے

کیوں یہ قصہ بھول گئے

شاید وہ سب اس قصے کے آخر سے نا واقف تھے

بالکل ایسے

جیسے میں اور تم دونوں

ناواقف ہیں !

***

تسلسل

دیکھے بغیر محبت کرنا، کتنا عجیب تجربہ ہے

ایسا جیسے گئے دنوں میں

دور دیس کے جری جیالے

کسی مسافر یا جوگی سے

اُس شہزادی کا قصہ سن کر

جس کے منہ سے پھول جھڑتے تھے

اور جو آدھے دن روتی تھی

اور باقی سب دن ہنستی تھی

اور دل والے

بن دیکھے

بے سوچے سمجھے

اپنا تن من دھن سارا کچھ

اک موہوم اُمید پہ، اک امکانِ وفا کے ناتے سے

اُس کے وصال کی خواہش میں

ہر چین سکوں تج دیتے تھے

بن دیکھے

بے سوچے سمجھے

دیکھے بغیر محبت کرنا ، کتنا عجیب تجربہ ہے

***

حُسنِ مُستعار

کہ اُس نے مجھ سے وہ بات بھی

آج کہہ ہی ڈالی

جو اُس کے دل میں ، جو میرے دل میں

بہت دنوں سے کھٹک رہی تھی

مجھے خبر تھی ، اُسے خبر تھی

کہ یہ تو ایسی اٹل حقیقت ہے

جس کا اظہار

تلخ باتوں کا اک نیا باب کھول دے گا

کہ اِس میں گر ، میں نے پہل کی تو

مرا مقابل

(جو مجھ کو جاں سے عزیز تر ہے)

ملامتوں کا ، وضاحتوں کا نا مختتم باب کھول دے گا

مگر حقیقت کہ ہجرِ جاناں سے تلخ تر ہے

کہ وصل سے بڑھ کے معتبر ہے

بھلا کوئی اُس کو کب تلک راز رکھ سکا ہے

یہی سبب تھا کہ اُس نے مجھ سے

وہ بات بھی آج کہہ ہی ڈالی

مجھے نہ دیکھو کہ اب میری آنکھیں مری نہیں ہیں

مجھے نہ سوچو کہ

اب تمہیں اِس کا حق نہیں ہے

مجھے نہ دیکھو ، مجھے نہ سوچو

***

فضائے کوئے دلبر ساتھ رکھنا

سجا ہے سر تو پتھر ساتھ رکھنا

سرابِ دشتِ جاں کا سامنا ہے

سفر میں دل ، سمندر ساتھ رکھنا

امیرِ شہر کی نظریں لگی ہیں

خطیبِ شہر ، منبر ساتھ رکھنا

نباتِ زندگی چکھنے سے پہلے

کوئی قندِ مکرر ساتھ رکھنا

ہوائے کوچۂ دل کے اسیرو!

تمناؤں کے شہپر ساتھ رکھنا

نہ جانے کب خیال آ جائے اپنا

اُسے خود سے بھی بڑھ کر ساتھ رکھنا

ہمیں بھی وقت نے سکھلا دیا ہے

کفن کاندھے پہ ، خنجر ساتھ رکھنا

ہجومِ نا خدا یاں بڑھ رہا ہے

مناجاتوں کے لنگر ساتھ رکھنا

ابھی پھوٹی نہیں دھرتی سے خوشبو

ابھی ہجرت کے منظر ساتھ رکھنا

***

یوسف اگر تھے ہم تو خریدار کون تھا

اپنے سوا ہمارا طلب گار کون تھا

ناصح نہ تھا ، رقیب نہ تھا اور تم نہ تھے

آخر یہ ہم سے برسرِ پیکار کون تھا

یہ سچ ہے تم نے چارۂ زخمِ جگر کیا

لیکن وہ شخص جس نے کیا وار ، کون تھا

اب پوچھتے ہو اجڑی ہوئی بزم دیکھ کر

وہ جانِ انجمن ، وہ طرحدار کون تھا

***

فراقِ یار کا موسم گزر نہ جائے کہیں

یہ آرزو کا نشہ بھی اتر نہ جائے کہیں

ہر ایک لمحہ یہی احتمال رہتا ہے

جو خواب دیکھ رہا ہوں بکھر نہ جائے کہیں

اسے سنبھال کے رکھنا امانتوں کی طرح

یہ زخم تحفۂ یاراں ہے ، بھر نہ جائے کہیں

کبھی کبھی تری خواہش بہت ستاتی ہے

کبھی کبھی کی یہ خواہش بھی مر نہ جائے کہیں

یہ شہرِ کم نظراں ہے ذرا خیال رہے

یہاں یہ آہ تری بے اثر نہ جائے کہیں

***

کبھی بیاں ، کبھی طرزِ بیاں بدلتے ہوئے

وہ دیر ہی نہیں کرتا زباں بدلتے ہوئے

چلو کہ آج نشانہ بدل کے دیکھتے ہیں

اک عمر ہو گئی تیر و کماں بدلتے ہوئے

***

خواب سے کوئی تعرض ہے نہ تعبیر کے ساتھ

گفتگو اپنی ہے بس حلقۂ زنجیر کے ساتھ

نشۂ عشق میں جاں دینے پہ تُل جاتے ہیں

اہلِ دل یوں ہی الجھتے نہیں شمشیر کے ساتھ

تو وہی ہے کہ جسے دیکھ کے ہم جیتے تھے

تیری صورت نہیں ملتی تری تصویر کے ساتھ

تو بھی اُس شوخِ ستم پیشہ کا گھائل تو نہیں

دل کھچا جاتا ہے واعظ تری تقریر کے ساتھ

ہم تو خود اپنی تن آسانی کے مجرم ٹھہرے

ورنہ سورج کبھی نکلا نہیں تاخیر کے ساتھ

دل دھڑکتا ہے تو لگتا ہے کہ تُو آتا ہے

میری خواہش نہیں بدلی مری تقدیر کے ساتھ

تم نے دیکھا ہی نہیں جلوۂ جاناں یارو

دل چلا جاتا ہے بس زلفِ گرہ گیر کے ساتھ

رحم اُس شخص کی بے ذوقی پہ آتا ہے مجھے

جس کا غالبؔ سے تعلق نہ کوئی میرؔ کے ساتھ

***

یہ نظارہ بدلتا کیوں نہیں ہے

وہ میرے ساتھ چلتا کیوں نہیں ہے

سنا ہے کٹ چکی ہے رات اپنی

تو پھر یہ دن نکلتا کیوں نہیں ہے

جو مثلِ شمع رو دیتا ہے اکثر

وہ اندر سے پگھلتا کیوں نہیں ہے

اگر آتش ہی آتش ہے یہ سورج

تو پھر خود بھی یہ جلتا کیوں نہیں ہے

تری آنکھوں کا دل آویز نغمہ

سرِ مژگاں مچلتا کیوں نہیں ہے

مُجسّم گُل ہے تو اس کا سراپا

مرے شعروں میں ڈھلتا کیوں نہیں ہے

شجر الفت کا ہے کتنا تناور

مگر بروقت پھلتا کیوں نہیں ہے

***

کر رہے تھے رات ہم نقد دل و جاں کا حساب

جانے کیا یاد آ گیا پھر تا سحر سوئے نہیں

کیا غضب کی نیند آئی دشمنوں کے درمیاں

ہم تو ویرانوں میں بھی یوں بے خبر سوئے نہیں

***

میں حسن چاند جوانی کنول نہیں لکھتا

بغیر خونِ جگر مَیں غزل نہیں لکھتا

چراغ پا ہے اسی پر تو ملکِ شب کا سفیر!

میں رات کو کبھی دن کا بدل نہیں لکھتا

مجھے بھی ضم کرو سقراط کے قبیلے میں

میں زہر کو کبھی قند و عَسل نہیں لکھتا

مجھے بھی سولی پہ کھینچو کہ میرا خامۂ فن

اَنا کو دار کا نعم البدل نہیں لکھتا

مری زباں نہیں کرتی ثنائے تاجِ شہی

مرا قلم صفتِ مبتذل نہیں لکھتا

میں لے کے آتا ہوں ہر روز اک نیا مضمون

جو آج لکھتا ہوں وہ بات کل نہیں لکھتا

***

بصارت ہے اگر ، جانی تو جائے

مری آنکھوں کی حیرانی تو جائے

ہمارا ذکر بھی آئے گا اک دن

ترے جلوؤں کی ارزانی تو جائے

یہ دل ترکِ وفا کب چاہتا ہے

پر اِس کی ضد کبھی مانی تو جائے

سوا نیزے پہ سورج نصب کر دو

یہ راتوں کی پریشانی تو جائے

ہمیں بھی خاکساری کی طلب ہے

مگر یہ دل کی سلطانی تو جائے

جواب آں غزل کس کو سنائیں

کوئی آواز پہچانی تو جائے

***

صبا کا جھونکا تھا، ظلِ سحاب تھا کیا تھا

وہ شخص پھول تھا، خوشبو تھا، خواب تھا، کیا تھا

کسی کو کچھ نہ بتایا کسی سے کچھ نہ کہا

تمام عمر ہمیں اضطراب تھا کیا تھا

وہ آرزو تھی کہ حسرت تھی، خوف تھا کہ ملال

ہر اک سفر میں کوئی ہم رکاب تھا کیا تھا

بس ایک نور کا دریا سجا تھا حدِ نظر

رُخِ سحر تھا کہ تو تھا حجاب تھا کیا تھا

سوادِ کوچۂ جاناں کا لطف آنے لگا

صبا کے ہاتھ میں جامِ شراب تھا کیا تھا

سلگتی شام تھی، یادوں کی راکھ تھی، ہم تھے

پھر اُس کے بعد مسلسل عذاب تھا کیا تھا

***

غبارِ راہ کو حدِ نظر نہ سمجھا جائے

ہمیں خبر ہے ، ہمیں بے خبر نہ سمجھا جائے

یہ دل کہ خو گرِ آدابِ عشق ہے اِس کو

کبھی ہواؤں کے زیرِ اثر نہ سمجھا جائے

بجا کہ چشمِ تغافل بھی ہے بنائے فراق

رقیب کو بھی مگر بے ہنر نہ سمجھا جائے

وہ میکدہ جہاں ساقی بھی مستِ صہبا ہو

وہ میکشوں کے لئے معتبر نہ سمجھا جائے

شبِ ستم ہو ، شبِ ہجر ہو ، شبِ یلدا

کسی بھی رات کو یاں بے سحر نہ سمجھا جائے

وہ جن کے دم سے تری بزمِ ناز قائم ہے

انھیں گدائے سرِ رہگزر نہ سمجھا جائے

سنا ہے اور بھی اہلِ سخن ہیں محفل میں

ابھی سے بزم کو زیر و زبر نہ سمجھا جائے

***

کہ تیرا غم تو کجا اب تری طلب بھی نہیں

اس حادثے کا بظاہر کوئی سبب بھی نہیں

اسے ملے بھی، بچھڑ بھی چکے، مگر یہ دل

کہ خوش تو جب بھی نہیں تھا ملول اب بھی نہیں

***

سمندر تم بھی دیکھو ، ہم بھی دیکھیں

ابھر کر تم بھی دیکھو ، ہم بھی دیکھیں

کِیا داغوں نے پھر سروِ چراغاں

یہ منظر تم بھی دیکھو ، ہم بھی دیکھیں

سرابِ جاں سے دشتِ آرزو تک

مقدّر تم بھی دیکھو ، ہم بھی دیکھیں

مبارز چاہتی ہے تیغِ قاتل

سُو بڑھ کر تم بھی دیکھو ، ہم بھی دیکھیں

غبارِ راہ میں چھُپنے سے پہلے

پلٹ کر تم بھی دیکھو ، ہم بھی دیکھیں

***

وہ شاید دل میں اب رہتا نہیں ہے

کہ آنکھوں سے لہو بہتا نہیں ہے

تغافل اور اس درجہ تغافل!

کہ سنتا سب ہے، کچھ کہتا نہیں ہے

یہ دل مندر نہیں اے غزنوی سُن!

کسی لشکر سے یہ ڈھہتا نہیں ہے

اگر غم ہو تو پتھراتی ہے آنکھیں

یہ وہ چشمہ ہے جو بہتا نہیں ہے

اسے دل کی حقیقت کی خبر کیا

جو رو دیتا ہے غم سہتا نہیں ہے

چلو اب چل کے قبروں پر صدا دیں

یہاں شاید کوئی رہتا نہیں ہے

عجیب ہیں یہ دِلوں کے رشتے

کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں

عجیب ہیں یہ دلوں کے رشتے

نہ خون دیکھیں ، نہ رنگ جانیں

نہ یہ عقیدوں کی بات مانیں

نہ دین دیکھیں ، نہ ذات مانیں

عجیب ہیں یہ دلوں کے رشتے

اور ان سے منسوب ہر حکایت ، ہر ایک قصہ

عجیب تر ہے

نہ یہ زمین و زماں کے قیدی

نہ استخواں نہ زباں کے قیدی

یہ اپنے رسم و رواج میں سب سے منفرد ہیں

یہ اپنے کل اور آج میں سب سے منفرد ہیں

***

وہ کب کا جا چکا ہے مگر بھولتا نہیں

منزل پہ آ کے پچھلا سفر بھولتا نہیں

اربابِ فن کی نقد و ملامت درست ہے

ہم کیا کریں کہ اپنا ہنر بھولتا نہیں

***

راستے کے پیچ و خم کا ہم سفر سے کیا گلہ

شب کی بے کیفی کا تنویرِ سحر سے کیا گلہ

ساغرِ جم سے سفالی جام کو ٹکرا دیا

اپنی مٹی خشک تھی اب کوزہ گر سے کیا گلہ

موسمِ گُل میں تو اپنے دل سے فرصت ہی نہ تھی

اب جو رُت بدلی ہے تو ذوقِ نظر سے کیا گلہ

رہن جب مقتل میں خود کو رکھ دیا تو دوستو

شکوۂ شمشیر کیا ، تیغ و تبر سے کیا گلہ

لا دوا ہو درد تو اس میں کسی کا کیا قصور

زخم کاری ہو تو دستِ چارہ گر سے کیا گلہ

کشورِ فن مانگتی ہے خونِ شاعر کا خراج

ہم نہ دے پائیں تو پھر نقد و نظر سے کیا گلہ

***

مطالبہ تو کوئی اور بانکپن کا تھا

لکھا ہے ہم نے وہی اقتضا جو فن کا تھا

وہاں بھی لاج رکھی اپنی کج کلاہی کی

اگرچہ ہوش وہاں کس کو تن بدن کا تھا

ہم اپنی در بدری کیوں کسی کے نام لکھیں

یہ سب مآل تو خود اپنے ہی چلن کا تھا

رہِ وصال کسی ہفت خواں سے کم تو نہ تھی

پڑاؤ رن میں تھا رختِ سفر کفن کا تھا

وہ کہہ رہے تھے کہ یوسف تو نذرِ گرگ ہوا

مگر پیام جدا بوئے پیرہن کا تھا

***

زمیں پہ شاد نہیں دل زدہ بہشت میں تھا

کہ اختلاف تو گویا مری سرشت میں تھا

ابھی سے کر دیا مجھ کو سپردِ دیر و حرم

کب امتیاز ابھی مجھ کو خوب و زشت میں تھا

کھڑی تھی فصل کہ آ پہنچے کامدار اس کے

اٹھا کے لے گئے جو کچھ ردائے کِشت میں تھا

ستم یہ ہے مجھے اُس گھر نے بھی پناہ نہ دی

مرے بزرگوں کا خوں جس کے سنگ و خشت میں تھا

***

نفرتوں کے درمیاں مارے گئے

ہم جہاں پہنچے وہاں مارے گئے

کر رہا تھا آج وہ مشقِ ستم

ہم بطورِ امتحاں مارے گئے

گفتگو کرنے کے سنگیں جرم میں

کیسے کیسے بے زباں مارے گئے

کچھ کو آنے والی نسلوں سے تھا پیار

کچھ برائے حفظِ جاں مارے گئے

کچھ کو لے ڈوبا عقیدوں کا بھنور

کچھ نہیں تھے ہم زباں ، مارے گئے

اُس طرف جاں دی فقط اک نام پر

یاں پہ بے نام و نشاں مارے گئے

آشیانہ چھوڑنا اک جرم تھا

ہم قفس دیکھا ، کہاں مارے گئے

کس نے بوئی فصل اور کاٹے گا کون

ہم تو یونہی رائیگاں مارے گئے

***

ابھی سے ترک وفا کا خیال دل میں ہے

جواب مل بھی چکا ہے سوال دل میں ہے

بس ایک حرف تھا جس کو کبھی بھلا نہ سکے

بس ایک بات تھی جس کا ملال دل میں ہے

بساطِ زیست پہ ہم کب سے شہ کی زد پہ ہیں

کہ تم بھی چل دو ، اگر کوئی چال دل میں ہے

نظر مقیدِ تاریکیِ شبِ فرقت

مگر تجلیِ شمعِ وصال دل میں ہے

نہ جانے وقت نے کتنا بدل دیا ہو اسے

جو ماورائے مہ و روز و سال دل میں ہے

ابھی تو صرف ادا ہو سکا ہے قرضِ عدو

حسابِ دوستاں اب تک بحال دل میں ہے

***

مناسب تو نہ تھی پر بات دل کی مان لی ہم نے

سرِ منزل پہنچ کر پھر سفر کی ٹھان لی ہم نے

چلو کچھ تو بھرم ٹوٹا کسی کے دستِ نازک کا

اگرچہ جاں سے گزرے پر حقیقت جان لی ہم نے

بگولوں کے سفر میں کون اپنا ہم سفر بنتا

یہ خاکِ راہِ غربت تھی اکیلے چھان لی ہم نے

جو پھیلی زلفِ شب تو درد کی شمعیں منّور کیں

جلا سورج تو پھر یادوں کی چادر تان لی ہم نے

کچھ اس انداز سے اس نے کہا ترکِ تعلق کو

کہ یہ نہ ماننے کی بات یونہی مان لے لی ہم نے

***

رائیگاں

اک مدت سے میں سیلاب کے آگے

صبر کے بند اور ضبط کے پُشتے باندھ رہا تھا

اور سیلاب کی طغیانی کو

وقت سے پیدا ہونے والے ، ندی نالوں میں

بانٹ رہا تھا

پر سیلاب کی سر کش موجیں

کبھی تو پُشتوں کو ڈھا دیتیں

کبھی وہ بند بہا لے جاتیں

اور میں کم ہمت ٹوٹے اوزاروں سے

اُن بندوں کو باندھنے لگتا ، اُن کے رخنے بھرنے لگتا

لیکن اک شب چاند چڑھا تو

درد سمندر جوش میں آیا

اور سیلاب کی سر کش موجیں ، بپھر کے اُبھریں

عارضی بند اور کچے پُشتے ، کب تک اُن کو روکے رکھتے

بھلا سمندر بھی لیپا پوتی سے کوئی روک سکا ہے؟

میں اپنے اِس بھولے پن کو کیا بولوں

اور کیا لکھوں؟

***

تجھے بھی میری طرح دردِ دل دکھائی دے

حصارِ ذات سے خود کو اگر رہائی دے

یہ آرزو ہے اُسے دیکھوں جب تلک دیکھوں

اُسی کو سنتا رہوں جب تلک سُنائی دے

یہ دل عجیب ہے ہر رُت میں روتا رہتا ہے

کوئی تو ہو جو اسے پندِ خوش نوائی دے

میں اس خیال سے ہر روز قتل ہوتا ہوں

مبادا وہ مجھے الزامِ نارسائی دے

ہر ایک شخص کو سنتا ہوں احتیاط کے ساتھ

کہ تُو کبھی کسی لہجے ہی میں دکھائی دے

ہجومِ شوق میں گھل مل گئے ہیں وہم و یقیں

چھٹے یہ دھند تو ہم کو بھی کچھ سُجھائی دے

بہت عجیب ہے وصل و فراق کی دنیا

گدا کو تاجِ شہی ، شاہ کو گدائی دے

متاعِ حرف کو اے نازؔ یوں نہ عام کرو

نہ جانے کب وہ تمہیں حکمِ لب کشائی دے

***

٭٭٭

ماخذ:

http://www.hallagulla.com/urdu/شرافت-عباس-ناز-2555/

، تدوین اور ای بک: اعجاز عبید