FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

پسِ دیوارِ گریہ

 

 

 

 

 

شہناز نبیؔ

 

 

 

 

انتساب

 

 

ثقلین
کے نام

 

 

 

 

 

اے عنایت کی نظر

 

 

نہ مجھ میں ڈھونڈھ میرا دل

کہوں کیسے کہاں ہو گا

ترے ٹوٹے کھلونوں میں پڑا یہ سوچتا ہو گا

وہ جس کا مشغلہ ہے

کاغذی پیراہنوں میں پیکرِ تصویر رکھنا

خار و خس میں پھول بننا

کورے ماتھے پر نئی تحریر لکھنا

خواب چننا

جس نے اک پھٹکی لہو سے رنگ دیا ہے سارا گلشن

ایک مٹھی خاک میں جس نے لگایا میرا پودا

وہ اگر اک بار پھر سے

دیکھ لے میری طرف تو

منتشر اجزاء میں ہو اک نظم پیدا

ہاں یہی ہو گا کہ بس رہ جائیں گی

چند اک خراشیں

٭٭٭

کچھ ایسی راتیں

 

یہ سچ نہیں ہے کہ رات بھر ہم

تمہاری یادوں کی کہکشاں سے گذر رہے ہیں

تمہارا لہجہ تو گونجتا ہے سماعتوں میں

تمہاری سانسیں بھٹکتی رہتی ہیں چار جانب

تمہاری آنکھوں کی گرمیاں ہیں نسوں میں رقصاں

مگر نہ جانے

یہ کس کی چیخیں تمہارے لہجے کی نرمیوں پر ہوئی ہیں حاوی

یہ کس کی آہیں تمہاری سانسوں کے زیر و بم سے الجھ رہی ہیں

یہ خوف و دہشت بھری نگاہیں

یہ خاک و خوں کا عجیب میلہ

یہ سر سے چھنتی ہوئیں ردائیں

یہ پارہ دل

یہ جسم ریزہ

ہر ایک لیلیٰ سے جا کے کہہ دو

کہ لام پر جا چکا ہے مجنوں

ہر ایک شیریں کو یہ بتا دو

کہ بیستوں سے چھلکتا ہے خوں

ہمارے گھر کے سنہرے نقشے نگل رہے ہیں کٹھور صحرا

ہمارے سجدے مٹا رہا ہے سمندروں کا سیاہ پانی

شکست و ذلت

نہ فتح و نصرت

ہاں ، رزم اول

کہ رزم آخر

تمہاری یادوں کے درمیاں اب

کچھ ایسی راتیں بھی آ گئی ہیں

جو سوچتی ہیں سوا تمہارے

٭٭٭

 

 

 

میں کیوں مانوں

 

 

میں کیوں مانوں

میرے سارے تیر ہوا میں رستہ بھولے

آسمان پر جگمگ کرتے

تارے اک اک کر کے ٹوٹے

نرمیلی مٹی کی خوشبو

پتھر میں پتھرا سی گئی ہے

میں کیوں مانوں

میرے کھیتوں کو اک آندھی چاٹ رہی ہے

میرے پاؤں کے نیچے دلدل

میرے سر پر کالا سایہ

میرے سورج چاند ہیں جھوٹے

میرا سیارہ گہنایا

میری بستی گونگی بہری

چوپالوں کا راج ہے چوپٹ

میرا قبیلہ نا مردوں کا

میرا اک اک آنگن مرگھٹ

میں کیوں مانوں ایسا ویسا

میں کیوں ہاروں کھیل سے پہلے

میری رگوں میں گرم لہو کا رقص

ابھی تک تابندہ ہے

میرے ذہن میں سوچ کی لہریں

اب بھی لیتی رہتیں کروٹ

میرے دل میں دھڑکن زندہ

٭٭٭

 

 

 

منتظم

 

 

ہمارے جیسے عجیب لوگوں کی رنجشوں کا

ملال کس کو

زمین کرتی ہے بین

آنسو فلک بہاتا ہے چپکے چپکے

فضا میں سسکی سی تیرتی ہے

ہیں سر بہ زانوں تمام منظر

کہیں چھنی ہے کسی کی گڑیا

کہیں پھٹی ہیں نئی کتابیں

کسی کی شہ رگ پہ کوئی جھپٹا

کسی کی گلیوں میں خون بکھرا

سنا ہے ہم نے

کہ اس شجاعت پہ تمغہ ملے گا اس کو

بڑی نفاست سے اس نے چھانٹے ہیں اپنے ریوڑ

مویشی سارے بٹے ہوئے ہیں

بہ رنگ و ذات و نسل ان کے بنے طویلے

سب اپنی خوشیوں غموں کو بانٹیں گے اپنی حد میں

کہ بھیڑ بکری سے مل نہ پائے

نہ گائے بھینسوں میں ہوں کلیلیں

سنا ہے اس کے نظامِ ملکی پہ سب ہیں نازاں

اسے ہی بخشیں گے پھر سے وہ منصبِ ہزاری

ہمارے جیسے عجیب لوگوں کی آنکھوں میں

کیوں ہے اتنا پانی

٭٭٭

 

 

 

مجاہد

 

اسے سوچنے کو ذہن چاہئے

جس نے پورے چاند کی رات کو

کھجور کے لرزتے سایوں پر

اپنا آخری بوسہ چھوڑا

اور نکل گیا قہر آلود سورج کی تلاش میں

جس نے تپتے ہوئے ریگستانوں میں

سرابوں سے کنارہ کیا

دریاؤں پہ لگے پہرے کو نظر انداز کیا

مشکیزوں کی پروا نہ کی

قطرہ قطرہ زندگی جیتا رہا اپنے اندر

لمحہ لمحہ مرتا رہا لوہے کی نالیوں پر

جس نے بھیڑوں کو راہ دی

بھیڑیوں پر نشانہ کسا

پہاڑوں کی سردی اور گرمی جھیلی

دریاؤں کے بدلتے تیور برداشت کئے

موسموں کے مزاج پوچھتا رہا

سفید کبوتروں کی نمائش کرنے والے

صحراؤں میں ببول بوتے رہے

خاردار جھاڑیاں آپس میں اُلجھتی رہیں

پگھلا ہوا سونا سرنگ کے راستے محل تک جا پہنچا

اسے جاننے کو زندگی چاہئے

جس نے صفوں میں گھس کر تہلکہ مچایا

پیدل اور شہسوار

سپاہی اور سپہ سالار

سبھوں سے گذر آیا

جس نے بے گھری کو ترجیح دی

امام ضامن سے احتراز کیا

عصر کی اذان سے پہلے

دشمن کی قمیص اتروانے کے بجائے

تاریخ سے گواہی لی

غروبِ آفتاب سے پہلے اسے زیر کیا

جو بشارت کی آڑ میں آخری سپاہی کی گردن

سجدے میں اتار لینا چاہتا تھا

٭٭٭

 

 

 

پاپ

 

برا نہ مانو

نمازیں اب بھی یہیں پڑی ہیں

پہ سجدہ گاہیں اٹھا کے جانے کدھر چلے تھے

وہ صبح تم کو بھی یاد ہو گی

الگ تھے گھر اور علیحدہ چولہے

تمہارے پرچم کا رنگ الگ تھا

وطن تمہارا نیا نیا تھا

سبھی تو بانٹا تھا آدھا آدھا

مگر پڑی ہیں وہاں پہ اب تک

ہماری رادھا کی ایک پائل

ہمارے کرشنا کی ایک بنسی

پہ ہیرؔ کیسے اٹھا کے دے دیں

کہاں سے لائیں تمہارا رانجھاؔ

کہ ہم سے پاگل

حساب رکھتے نہیں دنوں کا

ہمیں تو یہ بھی پتہ نہیں ہے

کہ آریائی سے بابری ہم بنے تو کیسے

ہمیں تو شنکھ اور اذاں ہے یکساں

ہماری تاریخ کے کتنے صفحے

چرائے تم نے؟

کہاں کہاں سے نشاں ہمارے

مٹائے تم نے؟

ہماری ہولی تمہارے بن ہے اداس کتنی

تمہیں پتہ کیا

ہماری عیدوں کو تم سے ملنے کی پیاس کتنی

کہاں چلے تھے اٹھا کے منبر

کہاں سجائی دکان تم نے

کہاں پہ بیچے ہیں مال کتنے

کہو منافع کمایا کتنا

ہمارے جیسے

تمہارے جیسے

خدا کے بندے

جو اپنے حصے کا پانی

کھودیں کنواں تو پائیں

جو اپنے تن کو دھواں بنائیں تو روٹی کھائیں

ہمیں لکیروں کے کھیل سے کیا

ہمیں تجارت سے واسطہ کب

جنہیں تھا سود و زیاں سے مطلب

وہ کاروبارِ جہاں سے رخصت

پہ آگ اب بھی بھڑک رہی ہے

چلو بزرگوں کا پاپ دھوئیں

ہمارے مندر سنبھالو تم سب

تمہاری مسجد کے ہم نگہباں

٭٭٭

 

 

 

شہرِ آشوب

 

وہ کیسے گڈّے گڑیاں ہیں

بیاہ دینے سے پہلے ہی

کفن دے کر انہیں بچّے

سلا دیتے ہیں قبروں میں

وہ کیسا بچپنا ہے جو

بھٹکتا ہے دھوئیں میں

نور کے تڑکے

وہ جن پر بند ہیں دروازے کب سے

درسگاہوں کے

مہد میں ہی اٹھا لیتا ہے بندوقیں کھلونوں کی

وہ کیسی لوریاں ہیں جو

رجز میں ڈھلتی جاتی ہیں

وہ جن کی گنگناہٹ میں اچٹتی نیند کی تلخی

کبوتر آتے جاتے ہیں

غٹر غوں ان کی

ہنستے شہروں کو ویران کرتی ہے

سمندر کے سمندر سوکھتے جاتے ہیں

مرجھانے کو ہیں زیتون کی قلمیں

ہزاروں لاکھوں ہاتھوں میں

فقط اک دستخط لیکن

ابھی تک طے نہ ہو پایا

کہ کن شرطوں پہ جینے کی اجازت ہو بنی نوع کو

٭٭٭

 

 

 

 

مرے دوست مجھ سے خفا ہو گئے ہیں

 

 

سورج پہ کوئی کمند ڈال سکا ہے بھلا

لیکن حرارت تو نچوڑی جا ہی سکتی ہے

کھلے ہوئے گلابوں سے لگے کانٹوں پر بھی

ایک نگاہِ غلط انداز ڈال لی جائے

تو کیا برا ہے

جنہوں نے آنسو پٹائے

نامرادیوں کی فصل کاٹی

ہم نے یادیں دفنا دیں

اور نئے چہروں کی کاشت کا بیڑہ اٹھایا

ٹھہرے ہوئے قدموں کے نیچے زمین چلنے لگی

لاوے سے بھری پہاڑیاں میٹھے تال میں بدل گئیں

وہ اب تک سوکھے ہوئے پتوں کی مردہ نسیں ٹٹولتے ہیں

یہاں ہری کونپلوں سے سارا جنگل مہک اٹھا ہے

چڑیاں آسما ن سر پر اٹھائے گھوم رہی ہیں

سنگ بستہ پیکروں سے گفتگو کا عمل جاری ہے

کوئی رابطہ انہیں بھی تراشے گا

براہ راست گفتگو سے دوست ناراض ہو جاتے ہیں

ہم نے دشمنوں سے مکالمہ کیا

اور خوش گمانی سے نکلنے کا راستہ سامنے تھا

٭٭٭

 

 

حسینؓ! تومی کوتھائے

 

 

کھنڈر سا شہر

گھپ تاریک راتوں میں

حسین ابن علی ؓکی یاد میں ماتم کناں

رو رو کے کہتا ہے

حسین! تومی کوتھائے؟

مہابت جنگ کی یہ سر زمیں

مرشد کی یہ بستی

ترستی ہے سراج الدولہ کو ہر پل

مساجد میں نمازی چڑیاں پابندی سے آتی ہیں

شکستہ ہیں بھی تو ایماں کا محرابوں سے کیا مطلب

عقیدوں کو ہے منبر کیا

اب ان ویران طاقوں میں دیوں کی کون سوچے گا

چلو، لنگر اٹھاؤ

کوچ کرنا ہے ادھر کو اب

جہاں کوئی اندھیرے میں یونہی ماتم کناں ہو گا

نہ جانے کب گریں لاشیں

لٹے خیمے

اڑی چادر

نہ جانے کب کسی نے رکھ دئیے ہتھیار

کس نے ضد میں دے دی جاں

یہ نوحے پھر کسی دن کے لئے رکھ دو

کہ تاریخیں رلاتی ہیں

چلو پاٹ آئیں خندق

موڑ دیں توپیں

اٹھا کر پھینک دیں جنسِ تجارت گہرے پانی میں

وہ شرطیں آج منوا لیں

کبھی جن پر سیاہی پھیر دی تھی میر جعفر ؔ نے

٭٭٭

 

 

 

 

ٹوٹ رہی ہیں سب دیواریں

 

اب

میرے اس کے بیچ کوئی دیوار کہاں

میں نے اس کو جی بھر دیکھا

اس نے بھی یوں مجھ کو بھینچا

میرے سینے کی سب آہیں

اک دم سے باہر آ نکلیں

میرے آنسو دریا بن گئے

خاموشی صحرا در صحرا

تنہائی پاتال تلک ہے

میرے اندر میرا کیا تھا

میرے باہر بھی میرا کیا

جس سے میرے زخم ہرے تھے

اس نے میرے درد ہرے ہیں

میری ٹوٹی پیالی میں اک جرعہ اس کی مدرا کا

میرے جھوٹے باسن میں

اک لقمہ اس کے درشن کا

اس سے پوچھو

کب کب کیا کیا اور گذرنے والا ہے

میں تو بس اتنا ہی جانوں

میرے ٹوٹے سپنے وہ پلکوں سے چننے والا ہے

میری تنہائی پہ

صدیوں تک وہ جگنے والا ہے

میری خاموشی کو لفظوں کے معنی پہنائے گا

اک نہ اک دن مجھ سا بن کر وہ کتنا اترائے گا

٭٭٭

 

 

مرا دل نہ روئے

 

 

سفر میں یونہی

بادلوں سے جدا ہو کے بکھری ہے بارش

بن کھلے پھول مرجھا کے

گرتے رہے ہیں زمیں پر

ہوائیں بنادستکوں کے گذرتی رہی ہیں

کہاسے میں لپٹے ہوئے آنگنوں سے

چاند

پچھلے پہر

یونہی مدقوق سی اک ہنسی پھینکتا ہے

خوابگاہوں کے عریاں دریچے تلک

قطرہ قطرہ ٹپکتی ہے شبنم

چٹانوں کی بے حس سطح پر

گرد میں اٹ کے بھی

کوئی پتہ

شعاعوں کو بانہوں میں لینے سے

ہرگز جھجکتا نہیں ہے

سفر میں عجب حادثے پیش آتے ہیں

لیکن کوئی کتنا سوچے

یہ مانا گذرتے چلے جا رہے ہیں سبھی

منظروں کی طرح

اک صدی ایک لمحہ بنے

یا کہ لمحہ صدی

یا اکارت ہی جائے

یہ ہستی

مگر دل سے کہہ دو نہ روئے

٭٭٭

 

 

 

خموشی

 

 

خیال اس کے

زبان اس کی

نگاہوں پر بھی لگے تھے پہرے

اگر کھلو تو حرم کے اندر

جیو مروتو  زنانیوں میں

زبان اس کی

خیال میرے( مگر ادھورے)

حدوں کے اندر ہو گفتگو سب

نپے تلے ہوں تمام جملے

اک ایک مصرع حجاب آگیں

زبان میری خیال میرے

مگر ابھی تک وہی اندھیرے

علامتوں کو زوال نہ ہو

نہ بدلے جائیں گے استعارے

کہ بحر و بر ہیں نگین اس کے

کہ صرف و نحو ہیں اجارہ اس کا

وہی سناتا ہے فیصلے سب

اسی نے سانچے بنائے سارے

وہ حرفِ اول

وہ حرفِ آخر

چلو کچھ ایسا کریں

قفس کی اک ایک تیلی بکھیر ڈالیں

بے چارہ آدم

اسیرِ نطق و زباں ہے کب سے

اسے خموشی کے گر سکھائیں

٭٭٭

 

 

 

جو کوئے یارسے نکلے

 

 

ہماری خواب گاہوں سے چرا کر لے گیا کوئی

طلسمی نیند کے جھونکے

وہ نقشِ پا

سفر کی کوئی شد بد بھی نہ تھی جن کو

نئے رستوں کی متلاشی

گریباں کی طلب

گردِ رہِ منزل

کہ دامن چاک کے خواہاں

ابھی تک ریشم و اطلس کے پردے سرسراتے ہیں

گلِ داؤدی بھینی خوشبوؤں سے گھر سجاتا ہے

مگر شوقِ طوافِ کوچۂ جاناں کی یورش میں

بکھرتے جاتے ہیں زنداں

سمٹتی جاتی ہے سیڑھی

صحن کچھ گھٹتا جاتا ہے

٭٭٭

 

 

 

ہم پتھر نہیں ہیں

 

جب وہ اپنے گھروں سے نکلے

ان کے سروں پہ کفن بندھا تھا

دلوں میں جوش

آنکھوں میں بے خوفی

قبیلے کی بزرگ ترین ہستی نے پکارنا چاہا

اپنی تلواریں لیتے جاؤ

لیکن ان کے پتھر ہونے کا ڈر تھا

جب وہ اپنی بستیوں سے نکلے

ان کے سینوں میں دبی ہوئی آہیں تھیں

ہونٹوں پہ لرزشیں

ہاتھ دعاؤں کے لئے دراز

اس نے پکارنا چاہا

اپنے رزم نامے لیتے جاؤ

لیکن خاموش رہی

جب وہ سرحدوں پہ پہنچے

ان کی آنکھوں میں تصویریں تھیں

دلوں میں حسرتیں

قدموں میں لغزشیں

اس نے بہت چاہا کہ انہیں نہ پکارے

اپنی لوریاں لیتے جاؤ

سبھوں نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا

اور کہا

ہم پتھر نہیں ہیں

٭٭٭

 

 

 

کنواں اور ڈول

 

کنوئیں بڑھتے ہیں

بڑھتی جاتی ہے پیاس

من ڈولتا ہے

ڈول ڈالنے والوں کا

پہلے رسی چرا لیں

پھر ڈول

پھر کنواں

سب ایک دوسرے سے پوچھا کریں گے

کنواں دیکھا

پھر بھول جائیں گے

کنواں اس کا جس کی رسی اور ڈول

قاضی اس کا

جس کے پاس درہم و دینار

گواہوں نے اپنی آنکھیں پھوڑ لی ہیں

ہونٹ سی لئے ہیں

محض شک کی بنیاد پر

فرد جرم عائد نہیں کیا جاتا

انہیں با عزت بری کر دو

٭٭٭

 

 

 

نیند کی ماتی

 

 

وہ نیند کی ماتی جس کی آنکھیں

شام ڈھلے نارنجی ہوتیں

آتے جاتے خواب انوکھے

پلکیں جس کی چھوتے رہتے

جس کی کھڑکی کے پردوں پر

چاند کا بھی نہ سایہ پڑتا

جس کے کمرے سے بچ بچ کر

سورج اپنا رستہ چلتا

جس کے آنگن چنچل چڑیاں

سرگوشی میں باتیں کرتیں

جس کے ذہن میں سوچ کی گرہیں پڑتیں

اور کھل جاتی تھیں

جس کے دل پر یاس کے بادل چھاتے

اور اڑ جاتے تھے

اس کی آنکھیں پھٹی پھٹی سی

اس کا چہرہ بجھا بجھا

٭٭٭

 

 

 

مجھے مت اس طرح دیکھو

 

 

مجھے مت اس طرح دیکھو

کہ جیسے کوئی دیمک سے اٹی لکڑی کو تکتا ہے

کسی سنسان کمرے کے در و دیوار پر لکھی ہوئی تنہائی

پڑھتا ہے

کھنڈر سے تارِ عنکبوت کا رشتہ سمجھنے کے لئے

خود سے الجھتا ہے

مجھے مت اس طرح روؤ

اچانک موت پر جس طرح روتے ہیں عزیزوں کو

فلک پر ٹوٹتے تاروں کو جیسے چاند روتا ہے

سمندر خالی سیپی کے لئے جیسے تڑپتا ہے

وہ رستے

جو کہ کترا کر گذر جاتے ہیں منزل سے

وہ صحرا جن کی وسعت پر گلستاں ناز کرتا ہے

وہ سپنے جو کہ شرمندہ نہ ہوں تعبیر کے ہاتھوں

انہیں رویا نہیں کرتے

٭٭٭

 

 

 

 

تاریخ کے مردہ خانے سے

 

 

 

ناری اور شودر کو سمان سمجھنے والے’ مہا پرش ‘

اتہاس کے پنوں میں کھو گئے ہیں

ہونٹ آج بھی تھر تھراتے ہیں

لفظ میلے نہ ہو جائیں

زمین تھی تو پتھریلی

لیکن اپنا کنواں کھودا

تو پانی میٹھا نکلا

پھنکارتے آبھوشن

صندوقوں میں بند کر کے

چابی بزرگوں کے حوالے کر دی گئی

اڑتے ہوئے لفظوں کو مٹھیوں میں پکڑتے ہی

چاند شرمانے لگا

روشنی کا سودا کرنے والوں نے

گہرے گڑھے کھود کر

کرنوں کو دفنانا چاہا

لیکن وہ زندہ شریانوں میں

لہو بن کر دوڑ گئیں

مساموں سے پھوٹتے اجالوں کی یورش میں

بہہ نکلے جانے کتنے میر و سودا

کتنے کالیداس

الٹی پوتھی پکڑے پکڑے

جانے کب ڈھائی اکھشر سیدھے

ڈھائی الٹے پڑھے

اور دریا میں ڈبکی لگانے سے پہلے

سرسوتی کو کہتے سنا

دشینت کی انگشتری لہروں کے حوالے کر دو

مچھلیاں چغل خور ہوتی ہیں

بھرت کو اپنے اندر تھامے رہو

تا ابد

٭٭٭

 

 

وراثت

 

تمہیں تمہارے گھر سے

بنا نوٹس کے نکال دیا گیا

مقدس کتاب کی بولی لگائی گئی

تسبیح کے دانے بکھیر دئیے گئے

جا نمازیں ہمیشہ کے لئے تہہ کر دی گئیں

جانے اتنے برسوں اک پرائے گھر میں

کیوں پڑے رہے تم

تمہیں تو اس دم ہی چل دینا تھا

جب راتوں رات اک چور نے

تمہارے آنگن میں سیندھ لگائی تھی

جب تمہارے گھر کی اینٹوں پر سے

تمہارا نام مٹایا جا رہا تھا

تمہارے منبر کے نیچے

قبلِ مسیح کے بیج تلاشے جا رہے تھے

تمہارے دروازے کے باہر کھڑا

کوئی اور

تمہارے گھر میں اپنا گھر دیکھ رہا تھا

اس نے اپنے باپ کے واسطے

راج محل چھوڑ دیا تھا

تم نے اپنے بچّوں کی خاطر

اپنا گھر کیوں نہیں تیاگ دیا

جو تمہارے گھر کے ملبے پر

اپنے اپنے نام کی تختی لگانا چاہتے ہیں

ان سے کہہ دو

کہ تم اور اس سوریہ ونشی نے

انہیں اپنی وراثت سے

کب کا عاق کر دیا ہے

٭٭٭

 

 

ڈرائنگ روم بوائز

 

 

اب کے موسم کچھ زیاد ہ ہی خراب ہے

قسطوں میں برف باری ہو رہی ہے

درجۂ حرارت نچلی سطح کے اس پار

دور دور تک کوئی سبزہ

سر اٹھانے کی ہمت نہیں کرسکتا

پھولوں کی ہنسی کو ژالہ مار چکا ہے

سورج کی کرنوں پر پہرے لگے ہیں

جب آتش دان میں آگ

ذخیرے میں لکڑیاں

اور اندرون خانہ شطرنج کی بساط بچھی ہو

جب بازی گاہ میں اترے بغیر

پینترے دکھانے کی آزادی ہو

باہر کا جوکھم اٹھانا

کھلاڑی کے نا پختہ ہونے کی دلیل ہے

شاہ کے پٹنے تک

پیادوں کو خانوں میں بانٹتے رہو

گھوڑے ریس میں جوتے جا چکے ہیں

ہاتھیوں کا انقلاب سے کیا واسطہ

دوسری بازی تک شاید سورج نکل آئے

٭٭٭

 

 

 

نظامِ شمسی

 

اس نے اپنے سفید پپوٹے جھپکائے

مٹیالی آنکھوں سے پورے آسمان کو تاکا

اور سورج کو گود میں بھر کر بولا

بڑی آگ ہے تجھ میں

چل تجھے قطب شمالی میں دفن کرتے ہیں

چھوٹے چھوٹے سیاروں کی بھی اپنی زندگی ہوتی ہے

انہیں اپنے اپنے کرے پر گھومنے دے

کس میں پانی ہے ، کس میں ہوا

یہ دیکھنا تیرا کام نہیں

اپنے سیارے پہ زندگی کی علامتیں ڈھونڈنا

تلاش کا پہلا نکتہ ہے

تیری دوری فرحت بخش، قربت اندوہ گیں

تجھے گود میں لے کر میری آغوش میں چھالے پڑ گئے

تخلیق کے پہلے مرحلے میں

نظامِ شمسی ترتیب دیتے ہوئے

تجھے مرکز میں رہنے دینا میری بھول تو نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

نئی روشنائی،پرانی تاریخ

 

تلواریں اور ڈھال

دیواروں پر سجے سجے تھک چکی ہیں

زنگ آلود، متعفن، بے آب

کلائیوں کی لچک ختم نہیں ہوئی

اور ترشول کی تقسیم شروع

کسرتی جسم اور متعصب ذہن

صحت مند ہندوستانی کی پہچان

ناسور اندر اندر رستا ہے

کتابوں کے ورق سے دورِ متوسط الگ کر دو

شراب و شباب، جنگ و جدال، رقص و سرود

کھنڈرات کی تاریخی جھلکیوں تک محدود ہیں

نالہ و بکا صرف دیوانِ عام تک

گھوڑے کی ہنہناہٹ

غالب و مغلوب کی آویزش کا استعارہ

مینا بازاروں میں چوڑیاں آج بھی کھنکتی ہیں

اور تہذیب محوِ خواب

مردہ قوموں کا رزم نامہ

فقط ماتم سراؤں کے لئے ہے

قلم دانوں میں تازہ روشنائی

خامے کو نیا قط

اس کے بعد ہر دور سنہرا ہو گا

یہ تاریخ داں کا وعدہ ہے

٭٭٭

 

 

کلید

 

یہ کیسا سفر ہے

کہ جس میں ترے گھر کی چوکھٹ نہ گذری

مرے بے نوا پاؤں کے آگے پیچھے

ترے گھر کی دیواروں میں سمٹا سمٹا

مرے حصے کا ایک بے مہر سایہ

کبھی اپنے حجرے سے باہر نہ نکلا

یہ کن راستوں سے گذرنا ہوا ہے

ہر اک موڑ پر استفہامِ مکرر

یہ مانا کہ ہم سب کی سانسیں ہیں گروی

کہ یہ وقت تیرا ہی تابع نہ میرا

مگر جانے کیوں اک یقیں سا ہے مجھ کو

تو چاہے تو ٹوٹے طلسمِ زمانہ

٭٭٭

 

 

 

 

عبرت

 

خطِ مستقیم بننے کی کوشش

کہاں لے آئی تمھیں

کس نے کہا تھا اپنے قدموں پر استوار رہنے کو

پہلے ہی بیساکھیاں پکڑ لی ہوتیں

کتوں کے نتھنے پھڑکنے سے پہلے

ڈال دی ہوتی اپنی روٹی ان کے سامنے

اب بھگتو

سفید چوہوں نے مہمان نوازی کے بہانے

تمہاری کھلیان ہڑپ لئے

سڑپ گئے تمہارے کنوئیں

تمہارا فرمانروا پتلوں کی دکان میں سجا

کسی گاہک کا منتظر

فوجی عیاش عورتوں کے رکھیل

پیشوا فرقہ بندی میں مصروف

محل در محل چڑیلوں کا ڈیرا

کھیتوں میں بھوک کا پہرا

تمہارے متعفن زخم

پٹیوں کے اندر سڑرہے ہیں

جراحتوں کے اسرار پہ اصرار کرنے والے

نئے زخموں کے لئے نشتر سا ن پر رگڑ رہے ہیں

جو اپنے قدموں پر کھڑے ہیں ان سے کہو

بیساکھیاں پکڑنے کا وقت آگیا ہے!

٭٭٭

 

 

امن

 

 

اسے ہم ڈھونڈنے تو نکلے ہیں

مگر پہچانیں گے کیسے

جنگِ بدر واحد سے

واقعۂ کربلا تک

ہیروشیما

ناگاساکی

فلسطین و عراق تک

سفید کبوتروں کے جھنڈ میں

زیتون کی شاخوں میں

علمِ ابیض میں

کہیں تو ہے وہ

ذائقہ دار کھانوں میں

عالیشان ایوانوں میں

پھولوں کے دستوں میں

کاغذ کے بستوں میں

قلم کی روشنائی میں

لفظوں کی تنہائی میں

کہیں بھٹک رہا ہے وہ

نسلوں کے جھگڑے

زبانوں کے قضیے

رنگوں کے کھیل

سرحد کے فعل

اس کے آڑے آرہے ہیں

اب سے دنیا کی ہر حسین شئے کو

جس کا ہم نام نہیں جانتے

روکیں گے اور پوچھیں گے

تمہارا نام امن تو نہیں

٭٭٭

 

 

 

اوندھے منہ گرنے سے پہلے

 

 

کب تک یونہی برستا رہے گا چابک

میری تھکی ہوئی پیٹھ پر

سرپٹ بھاگتے بھاگتے

میری سانسیں اکھڑ چکی ہیں

آنکھیں حلقوں سے باہر

میرے ساتھ پہلا قدم مارنے والے

جانے کہاں تھم گئے ہیں

اور تیز اور تیز کی صدا

خون کی روانی میں لاوے انڈیل رہی ہے

میں ہر ضرب کو مات دے کر

اپنی کسر کی پرواہ نہ کرتے ہوئے

شاید ایک دم سے ر ک جاؤں

تماشا دیکھوں

اپنے پرزوں کے اڑنے کا

لیکن ان کا کیا ہو گا

جنہوں نے مجھ پر داؤ لگا رکھے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

میں کیا دیکھنا چاہتی ہوں

 

 

میں جو نہیں دیکھنا چاہتی

مجھے وہی دیکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے

میں نے کب چا ہا تھا

میرا گھر دھوئیں سے بھر جائے

گلیاریں لہو میں لتھڑ جائیں

روشن کلائیاں بجھ جائیں

سیتیوں میں راکھ

آنچلوں میں داغ

نیزے اور بچّے

خوشحالی ،قصے

منظر بدلنے تک میرا مذاق نہ بدل جائے

دیکھنا چاہوں وہی کچھ

جو دیکھنا نہیں چاہتی تھی میں

اس منظر سے پیشتر

٭٭٭

 

 

 

کٹھ پتلی

 

 

جانے کیا کیا سوچ رہا تھا پگلا من

لیکن سورج چمک رہا ہے جوں کا توں

تاروں سے آکاش چھلکتا جاتا ہے

ہوا بھی اپنی دھن میں بہتی جاتی ہے

دھنک کے سارے رنگ عجب سا ہنستے ہیں

اک میں چاہوں یا نہ چاہوں

پھول یونہی ہر روز کھلیں گے شاخوں پر

مرجھا کر پھر گر جائیں گے

چڑیاں پر پھیلائے خوب سا گھومیں گی

بادل، بجلی،بارش — سب ہیں من موجی

میرے چاہنے سے کب موسم بدلے گا

نوچ بھی لوں آکاش تو تارے کم ہوں گے؟

میری مرضی سے سورج چھپ سکتا ہے؟

میرے رونے پر بادل رو سکتا ہے؟

اتنا بے بس کوئی نہیں ہے

رنگ اور خوشبو

دھوپ اور چھاؤں

کٹھ پتلی کی حد سے باہر رہتے ہیں

اتنے سارے کچے دھاگے

چاروں اور سے جس کو گھیرے رہتے ہیں

اس کی منڈیا ’نہ ‘کہنے کو

کب ڈولے گی

٭٭٭

 

 

 

وہ ہم سے ڈرتے ہیں

 

 

وہ کذب و ریا بوتے ہیں

اور جھوٹ کی فصل اگاتے ہیں

ان کے ہاتھوں پر لہو

سینے میں زہریلی پھنکار

وہ کمزوروں پر گھات لگاتے اور

پیچھے سے حملہ کرتے ہیں

بے ایمانی ان کاایمان

بد دیانتی ان کا شیوہ

پھر بھی

ہم سر اٹھائے گذرتے ہیں

تو ان کی نگاہیں جھک جاتی ہیں

ہم لفظوں کو تولتے ہیں

تو ان کی زبان لڑکھڑا جاتی ہے

وہ ہم جیسے ہیں اور ہم سے ڈرتے ہیں

وہ تخت نشیں

ہم نمدہ پوش

پھر بھی وہ ہم سے گھبراتے ہیں

٭٭٭

 

 

خاموش دھماکے

 

 

جانے کتنی دیوالیاں اور شب براتیں گذر گئیں

بچّوں نے پٹاخے نہیں چھوڑے

وہ اب دھماکوں سے ڈرنے لگے ہیں

دیکھتے دیکھتے ہماہمی سے بھرے شہر کا ویران ہو جانا

ہنستے بولتے مسافروں کا لاشوں میں بدل جانا

درسگاہوں کا سنسان ہو جانا

کتنے عجیب تجربے ہیں

انہیں اب صرف پھلجھڑیاں چھوڑنے کی اجازت ہے

یا پھر انار اور آتش بازی

آگ کا کھیل جاری ہے

صرف دھماکے خاموش کر دئیے گئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

انصاف

 

 

میں نے کچھ بولنے کی کوشش کی تو

مجھے اک کٹہرا فراہم کر دیا گیا

میں گواہ ہوں

لیکن چشم دید نہیں

مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاؤ

جو بھی کہوں گی سچ کہوں گی

سچ کے سواکچھ بھی نہیں

میں نے قسم کھائی

اور گواہی دی

میری ہلاکت چشم دید نہ تھی

سوقاتل آج بھی گھومتا ہے — آزادانہ

مگر میں قید ہوں

جھوٹی گواہی کے الزام میں

اب بھی

٭٭٭

 

 

 

 

کالی کھیتر

 

 

اکاون ٹکڑوں میں سے ایک انگوٹھا

یہاں گرتا نہ تو نقصان کس کا تھا

کہ سانپوں ،کژدموں کی پہلے بھی مسکن تھی یہ دھرتی

یہاں دریا نشیبی تھے

زمینیں خندقوں سے پر

سروں کی بھینٹ سے

اک قہر ساماں دیوتا کو رام رکھنا تھا

اندھیری وادیوں اورسرسراتے جنگلوں میں

خون کی ندیاں

یونہی خاموش بہنی تھیں

اگر وہ چکر وشنو کا

نہ چلتا تو غضب ایسا بھی کیا ہوتا

یہی ہوتا کہ یہ دنیا

زمیں تا آسماں زیر و زبر ہوتی

مگر اک وحشیانہ رقص پہ قدغن ضروری تھا

سو وشنو نے چلایا چکر

اک ٹکڑا ستی ؔ کا اِس طرف

نورانی

پاکیزہ

اگر اس شہر کی بنیاد نہ پڑتی تو کیا ہوتا

یہاں یوں بھی

بسیرا اژدہوں اور کژدموں کا ہی ہوا ہوتا

مثلث پہلے جیسا ہے

برہما

وشنو

اور مہا دیو

اپنے اپنے نقطوں پر

ستیؔ لیکن

بھٹکتی پھرتی ہے

مرکز سے اپنی دور

چاروں سمت بڑھتی جاتی ہے گنتی اسوروں کی

٭٭٭

 

 

 

 

جاب چارنک سے

 

 

اس شہر کو بسانے کا الزام

تمہارے سر مڑھا گیا

پوتھیاں بتاتی ہیں

یہ تم سے پہلے بھی موجود تھا

اپنی مرطوب آب و ہوا

اور سوت کی نوٹیوں کے ساتھ

لنگر انداز ہونے سے پہلے کبھی سوچا بھی تھا

اس کی دلدلی مٹی میں پاؤں دھنس جاتے ہیں

تین گاؤں کا ایک شہر

تین سو سال بعد بھی

پراسرار

عبادت گاہیں اپنے آپ میں مصروف

بازار سراسیمہ

کارخانے گم صم

رات رہتے سڑکیں جاگ اٹھتی ہیں

دن بھر

چیونٹیوں کی قطار رینگتی رہتی ہے

اس کے چاروں اُور

شام، بھاگتے قدموں کی دھول سے اٹ جاتی ہے

کھجور گڑ کی سوندھی خوشبو تم تک ضرور پہنچی ہو گی

یا کمہار ٹولی کی مورتیوں نے پکارا تھا

کٹھل ،جامن اور آم کے باغوں نے

کوئی سندیسہ تو نہیں بھیجا تھا تمہیں

چراغ کب کے گل ہوئے

قمقموں نے بدن پر نیل ڈال دئیے ہیں

کھلا کھلا آسمان سر اٹھاتی عمارتوں کے قبضے میں

زمین ، تالاب چرانے والوں کو گروی

تعفن نے پھیپھڑوں کو پتھرا دیا ہے

ٹوٹتی ہوئی رگوں میں

زندہ رہنے کی للک انگڑائی لیتی ہے

ہر بار نئے وعدے ہوتے ہیں

حیات بخش دواؤں کی فہرست تیار کی جاتی ہے

قسطوں میں ملتی سانسیں

قرضوں میں ڈھلتی زندگی

قحبہ خانوں سے گذر کر

کالی گھاٹ کی سیڑھیاں طے کرتی ہے

اور رویندر سروور میں اتر جاتی ہے

اگلی سالگرہ منانے سے پہلے

اس کے لئے نئے کپڑے ضرور بنوا دینا

٭٭٭

 

 

سنڈریلا

 

 

 

ذہن جیسے طلسماتی ہرنی کے پیچھے

کوئی شاہزادہ

گھنے جنگلوں سے الجھتا ہوا

جا گرے ایک اندھے کنوئیں میں

یہ دوزخ کہ جس میں لپکتے ہیں شعلے

اسے سردکرنے کی خاطر کہاں تک

پڑھے جائیں گے معرفت کے رسالے

کھنکتی ہوئی چوڑیوں سے براہِ تعصب

رہیں گی خفا کب تلک

ٹاٹ کی بے تکی چندیاں

برتنوں پر کہاں تک خموشی کی لیپ

کبھی ٹن کے زنگ خوردہ چھپروں پر

رکے کوئی سورج

کبھی آنگنوں میں ہنسے اک اجالا

پتیلی سے اڑتی ہوئی راکھ

بالوں پہ جمنے لگی ہے

وظائف کے نسخوں کی تعداد

جھکتے ہوئے طاق پر

دن بدن بڑھ رہی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

بھول

 

 

جس نے مجھے لوہے کے جوتے پہنائے

وہ سر کی گرفت کرنا بھول گیا تھا

مجھے اس کا غم نہیں کہ آلاتِ حرب کے بغیر

لڑنا تھا ہر پل

وار بچانا پڑا ڈھال نہ ہوتے ہوئے بھی

بیک وقت پیادہ اور سوار

زمیں سخت تھی

گھوڑا منہ زور

مگر میدان مارنے کا جنون

قلعے پر کارزار کی فوقیت کا قائل تھا

زمیں لہو سے گندھ کر نرم ہو گئی

مرکبِ وقت بے بس

جب تک فتح کا پرچم لہرائے گا

تب تک نئی جوتیاں تلاش کر لی جائیں گی

لیکن سر کو قید نہ کرنے کی بھول سرزدہوتی رہے گی

٭٭٭

 

 

 

آتشیں لمحہ

 

 

مجھے لکھنا تھا ان کے لئے

جن کے ہاتھ اپلے تھوپنے میں مصروف ہیں

جن کی مرچیں ہاون دستے میں کوٹنے کو پڑی ہیں

گیہوں پھٹکنے کو باقی ہیں

دھان ڈھینکلی کی راہ تک رہے ہیں

جو گدلے شیشوں والی عینک کے پیچھے سے

بلاؤز کے بخیے اٹھاتی ہیں

جنہیں ہر مہینے کی دسویں تاریخ کو

بیٹے کے دروازے پر اپنا خرچہ مانگنے

بیسیوں دفعہ جانا پڑتا ہے

پسرے ہاتھوں کی معدوم ہوتی لکیریں

کسی تحریر کو روشن نہیں کرتیں

میں لکھنا چاہتی تھی

ان ٹوٹتے ہوئے موتیوں کا رزم نامہ

جن کے وارث ریگزاروں میں مسکن بنا چکے ہیں

مجھے ڈر ہے

تھرکتی ہوئی بہاروں کے گیت

اٹھلاتی ہوئی دھوپ کی غزل

سونے پت جھڑ کی روداد کو

نذرِ آتش کرنے کا وقت گذر نہ جائے

٭٭٭

 

 

 

اخبار

 

 

میں اب خبریں نہیں پڑھتی

اخبار کھولتی ہوں محض یہ دیکھنے کے لئے

کہ ہوا میں نمی کتنی فیصد رہے گی

بارش ہو گی یا نہیں

سورج کس زاویے پر کتنی دیر تک رہے گا

جاننا چاہتی ہوں مصنوعات کے نام

کہاں کون سا میلہ لگا ہے

کون سی فلم

تازہ خبریں باسی معلوم ہوتی ہیں

پتہ ہے کیا کیا ہوا ہو گا

دنیا کے کسی نہ کسی گوشے میں اک دھماکہ

دو چار دس لاشیں

سرحدوں پر گولہ باری

نیو کلیائی ہتھیاروں کی خرید و فروخت

منشیات کی تسکری

رفیوجیوں کا اجڑنا اور بسنا

غیر ملکی کمپنیاں

زرِ مبادلہ

سونے کا بھاؤ

پٹرول کی قیمت ۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

نظم مجھے پکارتی ہے

 

آدھی رات کو

کمرے کی دم گھوٹتی فضا

جب نیند سے جگاتی ہے

نظم مجھے پکارتی ہے

صبحدم

چائے کی پیالی سے

اخبار کی سرخی سے

بسوں کے شور سے

فٹ پاتھ کے جھگڑوں سے

نظم مجھے پکارتی ہے

نعروں،  جھنڈوں

سیاسی ہتھکنڈوں

راشن کی قطار

بے ہنگم بازار

گرتی ہوئی چھتوں

شکستہ آنگنوں سے

نظم مجھے پکارتی ہے

مڑ مڑ کر دیکھتی ہوں

ابھی آئی کہتے کہتے

رات ہو جاتی ہے

پھر صبح

پھر رات

نظم مجھے مت کھونا

میں لوٹوں گی

٭٭٭

 

 

 

 

مرد عورت

 

 

کب کہاں سے چلی تھی پتہ نہیں

جنت نے ٹھکرایا

کہ آدم نے پکارا

چاروں اور گھنا جنگل

ہر شاخ ہاتھ بڑھاتے ہی

خود میں سمٹ جاتی تھی

جانے کب بے ستر ہوئی

کس نے شرم گاہ کی لاج رکھی

پاؤں کے نیچے انگنت راہیں

بے حساب نشیب و فراز

دونوں طرف سوال و جواب کی اٹوٹ خواہشیں

الزامات کے تبادلے کی تیاریاں

برسہا برس کی کھوج کا بس ایک ہی انجام

فاعل/مفعول

قدرت/فطرت

اثبات/نفی

٭٭٭

 

 

بیوہ کی مناجات

 

مساجدگریزاں

منادر پریشاں

نکیتن ہیں بے ڈھب

تو چکلے لبالب

چتاؤں پہ پہرے

گھروں میں اندھیرے

نہ تو گھاٹ تل بھر

نہ چھت کوئی سرپر

یہی رہ گذر

ہاں

یہی رہ گذربس

٭٭٭

 

 

 

 

فطرت

 

 

عجب سی ہنسی ہے زمانے کی لیکن

نہ جانے کوئی ٹھیس لگتی نہیں کیوں

یہ دل اپنی کرنی پہ شرمندہ کیوں ہو

ضرورت تھی تازہ ہواؤں کی اس کو

کہ زندوں کو یوں دفن کرتے نہیں ہیں

وہ چیخیں اگر ڈھل رہی ہیں سر’وں میں

اندھیرے اجالوں سے گر مل رہے ہیں

اگر میٹھے پانی کا مغرور چشمہ

نکل آیا ہے ریگ زاروں کی جانب

تو کیسا تعجب

جہاں میں تو قائم و دائم نہیں کچھ

یہ تبدیلیاں ہیں تقاضائے فطرت

مگر وہ کیا سمجھیں

جنھیں وقت کی جبریت سے ہے مطلب

٭٭٭

 

 

 

زمیں تھم گئی ہے

 

 

بدن میں نہ پہلی سی حدت

نہ دھڑکن ہے دل میں

جئے جانے کی ایک بے شرم عادت

ادھر کچھ دنوں سے

نگاہوں میں اپنی سبک کر رہی ہے

ہزاروں بکھیڑوں میں بھی جانے کب

بے ستر آ کھڑی ہوتی ہے یہ حقیقت

تو کیا میں بھی ان انگنت لوگوں میں ہوں

جنھیں زندگی اک سزا ہے

کوئی بددعا ہے

مگر جی رہے ہیں

ابھی کچھ دھواں سا نظر آ رہا ہے

ذرا دھونکنی سے ہوا دے کے دیکھیں

برا کیا ہے چنگاری دو ایک نکلے

بھبھک اٹھیں پھر

سردپڑتے انگارے

٭٭٭

 

 

انہونی

 

 

مجھے یقین ہے

میری گمشدہ پیزار

تمہاری رقص گاہ کے کسی کونے میں

چپ چاپ پڑی ہو گی

تمہارے کاندھے مری زلفوں کا لمس

بھلا چکے ہوں گے

تمہارے بازوؤں کے حلقے میں

کوئی نیا جسم تھرک رہا ہو گا

ہر صبح اک انتظار

ہر شام مایوسی

میں وقت مقررہ پر پہنچ تو گئی

لیکن میرے سفید گھوڑے

چوہوں میں تبدیل ہو چکے تھے

میرے ہاتھوں سے جادوئی چھڑی

نکل چکی تھی

میں پیوند پوش

خاک بسر

وقت سے ہار جانے کو ہوں

تمہارا ہرکارہ پاؤں ناپنے کب آئے گا

٭٭٭

 

 

 

سراسراتے جنگل

 

چاروں جانب آج بھی

وہی گنگنی دھوپ

وہی گدرائے پھل

پتوں کی کسیلی بو

میٹھے پانی کے جھرنے

لیکن کسی چٹان سے ٹک کر

تکان اتارنے کی خواہش

بہت پہلے

اندر کہیں دم توڑ چکی ہے

پرندوں کی چہکار

کسی حمد پہ آمادہ نہیں کرتی

درندوں کی دھاڑ

کسی خوف کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہوتی

بھربھری مٹی کی سہم ناک سرگوشیاں ہیں

اورسرسراتاہواجنگل

سرخ چیونٹیوں نے مجھے اپنا گھروندہ سمجھ لیا ہے

سمادھی پہ بٹھا کر بھول جانے والے کو پتہ ہی نہیں کہ

میری جلد کے نیچے

خون کی ننھی ننھی بوندیں رواں ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

جھیل اور دائرے

 

وہ آیا ہے گذرنے کے لئے

اس کو گذرنے دیں

کہ وہ جھونکا ہوا کا

پھول ٹانکے

خاک اڑائے

شیشے توڑے

یابنا دستک دئیے ہی لوٹ جائے

اس کی مرضی ہے

یہاں پہلے کہ جب تھا حبس اتنا

ہونٹ کیا سارابدن نیلا پڑاتھا

تب کسی بھی سمت سے

خیرات سانسوں کی نہ چاہی

اب تو کچھ موسم شناسی کا ہنر بھی آگیا ہے

اورکچھ عادت تلون جھیلنے کی پڑگئی ہے

اب کسی کے آنے جانے سے کوئی ہلچل بھی ہے تو

جھیل میں اک کنکری گرنے کی حد تک

٭٭٭

 

 

 

پہچان

 

گذرتی ہوئی عمر

چہرے پہ بنتی چلی جا رہی ہے

لکیروں کا جال

عجب سی تھکن

ان پپوٹوں میں ڈیرے جمانے لگی ہے

نہ وہ کندنی رنگ باقی بچا ہے

نہ آنکھوں میں اب جاگتے ہیں ستارے

کبھی پیشِ آئینہ یوں بھی ہوا ہے

بہت پوچھنے پر

مجھے نام یاد آیا اپنا

نہ چہرہ

٭٭٭

 

 

 

سنسان ہم آغوشیاں

 

 

ملے تھے یوں تو پہلے بھی کسی سے

مگر تب موجِ خوں میں تھا تلاطم

وصال و ہجر بے معنی نہیں تھے

سلگتی تھی رگوں میں آگ ہر دم

وہیں ہوتے تھے ہم رہتے تھے جس جا

اور اب یہ عالمِ تفریط ہے کہ

ملا کوئی کہاں بچھڑا تو کیسے

عذابِ جسم و جاں کس منطقے پر

وفا داری نہ شرطِ استواری

عجب سنسان ہم آغوشیاں ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

سوگندھی سے

 

(۱)

 

محبت کو مرہم بنا کر

مساموں پہ میں نے

لپیٹا تھا لیکن

پرت در پرت

روح تک

آبلے پڑ گئے

 

 

(۲)

 

پھول کی پنکھڑی

ایک اک کر کے بکھری

ہزاروں قدم

روند کر بڑھ گئے

چاند پوچھے نہ پوچھے

ہوا روٹھے

یا

اوس منہ پھیر لے

کون خوشبو سے انکار کرنے کی جرأت کرے

 

 

(۳)

 

چلو ہم بھی لے آئیں بازار سے

ایک دل ایسا

جس میں محبت نہ ہو

آنکھ ایسی کہ جس میں نہ ہو خواب کوئی

وہ جاں

سانسیں جس پر نہ ہوں بوجھ ہرگز

کھنکھناتے ہیں اس کے اگر درمیاں

کیوں نہ اپنے لئے خود سے سوداکریں

بیچ دیں سب پرانا

نیا مول لیں

ہم بھی خود کو سجائیں

الگ ڈھنگ سے

 

 

(۴)

 

ان کو رخصت کرو

جو تمھیں

شام کی ملگجی روشنی میں

بجھانے چلے آتے ہیں

پر تعفن یہ سانسیں

اگر اور لوبان کی خوشبوئیں مار دیتی ہیں

کھلنے نہیں دیتی ہیں چاند تارے

یہ بے نور آنکھیں

کھلی رکھوسب کھڑکیاں

پردے سرکادو

جلنے دو سب بتیاں

نیم تاریک گلیوں میں یہ لڑکھڑاتے بدن

لوٹ جائیں گے واپس

اگر روشنی دور سے ہی دکھائی پڑی       ٭٭٭

 

 

 

دردِزہ

 

 

وہ تھا اک لمحۂ تخلیق

جس نے آگ روشن کی

تڑپتی تھی صفورہ ؔدردِ زہ سے

اور موسیٰ کو

سر وادیِ سینا نور کا لپکا نظر آیا

خدائے عز و جل سے

ہم کلامی کی سعادت ہو گئی حاصل

ملا عہدہ پیغمبر کا

مگر وہ کوکھ میں جس نے

مہینوں تھام کر رکھا

محبت کا منزہ لمحہ

جس نے غنچۂ نورس کو چٹکایا

سر شاخِ رفاقت

جس نے لوری کے بنے ہیں بول

ولی ہے وہ

نبی ہے

اور نہ پیغمبر

٭٭٭


 

 

کولاژ

 

 

ساری چلمنیں

تیلیوں کی شکل میں بکھر چکی ہیں

کمزور دھاگے

کہانیاں بننے سے عاری

مومی شمعیں پگھل پگھل کر زمیں بوس

پروانے راستہ بھٹک چکے ہیں

بے رنگ اوس کے دھبے

جا بجا آنگنوں میں پھیلے ہیں

سورج نے آنکھیں نہیں کھولیں

قطرہ قطرہ پی رہی ہے گھاس

چاند کی جھوٹی شراب

خاکستری یادوں کی بارہ دری میں

ان چاہے قدموں کی بازگشت

ابھرتی ڈوبتی رہتی ہے

زبان کی نوک پر زہر کی چند بوندیں

میدانِ حرب سے

خبر آنے تک

یا پھراس انگشتری کے کھو جانے تک

٭٭٭

 

 

تمہارے لئے

 

دھول میں اٹے اس کمرے کو

برسوں بعد کھولا ہے تمہارے لئے

دیکھو نا

ساری آرزوؤں پر جالے لگ چکے ہیں

خواہشیں دیمک زدہ

چاہنے اور چاہے جانے کی عادت بھی

زنگ آلود

دل—دماغ—جسم

تین اکائیاں

تمہیں کہاں بٹھاؤں

کہاں سجاؤں

مجھے تذبذب میں دیکھ کر

تم چلے تو نہ جاؤ گے     ٭٭٭

 

 

نیااستعارہ

 

 

اسے دیکھتے ہی

تمازت کا احساس بڑھنے لگا ہے

یہ دیواریں کیسی اٹھائی گئی تھیں

کہ جن کی بلندی

ہمارے سروں سے چرا لے گئی چھت

یہ دہلیز کن پتھروں سے بنی تھی

کہ جس کو کبھی پار کرنے کی ہمت نہیں تھی کسی میں

یہ گھر کیسا گھر ہے

کہ دیوار و در اس میں بے انتہا ہیں

پہ باہر کا رستہ نہیں شرط کوئی

نہ سایہ ہے اس کے مقدر کا لکھا

فقط چلچلاتی ہوئی دھوپ دیتی ہے پہرا

یہ بے سائباں گھر

کہ جس سے کبھی کچھ شکایت نہیں تھی

اسے کیوں ملامت سے تکنے لگے ہیں

کوئی ابر پارہ

کوئی شاخِ زیتوں

اگر ہے بھی سر پر تو بس ایک لمحہ

تمازت کا جیسے نیا استعارہ

٭٭٭

 

 

خوش گمانی

 

برسات آنے سے بہت پہلے

جھولے ڈال دئیے گئے ہیں

بوندیں پڑیں نہ پڑیں

پینگیں ضرور لی جائیں گی

دھرتی کسمساتی رہے

بپھرتے رہیں سمندر

سنسناتے رہیں بگولے صحرا در صحرا

اس بار آسمان میری زخمی ایڑیوں سے

کانٹے چننے والا ہے

٭٭٭

 

 

 

ایبسرڈ

 

 

وہ متکلم اور مخاطب کے بیچ

غائب ہوتے ہوئے بھی

ہمیشہ موجود رہتا ہے

میں اس کا ذکر کئے بغیر

گفتگو کرنا چاہتی ہوں

لیکن وہ بے ارادہ ہی

میری کہانی کا مرکزی کردار بنتا جاتا ہے

منظر سے جانے کو کہوں تو

پس منظر بن جاتا ہے

خاموش ہونے کو کہوں تو

بازگشت ہو جاتا ہے

وہ میری ہدایت کی حد سے باہر

ایک ایسا کردار ہے

جو اپنی مرضی سے

رنگ منچ پر نمودار ہوتا رہتا ہے

پردہ گرنے کے بعد

وہ ناظرین کی پہلی صف میں بیٹھا

میرے المیے پر آنسو بہا رہا ہو گا

٭٭٭

 

 

گلشن ناآفریدہ

 

بدن کے جھروکے میں جتنی نگاہیں لگی ہیں

مری ہیں

کوئی اور کب سوچتا ہے

کہ غم خانۂ میرؔ کے اس طرف

ایک ہنستا مہکتا باغیچہ بھی ہے

کتنی ان چھوئی کلیاں

جواں تتلیاں

رس بھری جھومتی ڈالیاں

سوندھی مٹی کی ہم جنس خوشبو

لبالب سی اک باؤلی

جانے کیا کچھ

مگر وہ جھروکہ

کہ جس کا مرے دل سے اک واسطہ ہے

ابھی بند ہے

کام نازک ہے آفاق کی کارگہ کا           ٭٭٭

 

 

 

 

عبادت

 

اک طلائی پیشانی پر

اپنے حصے کی بے ربط تحریریں

سجا آنے سے پیشتر

کوئی دعا نہیں مانگی تھی

مزاروں پر دھاگہ باندھنے سے پہلے

ہاتھ لرز جاتے ہیں

بزرگوں کی آزمائش بجا نہیں

معدوم ہوتی ہوئی مرادوں کو

غیب سے مانگنا

خدا کی توہین ہے

ان بے بضاعت آرزوؤں کا ٹھکانہ

عرش کے کسی کونے

فرش کے کسی گوشے میں نہیں ہے

ایک طلائی پیشانی سے جواب آنے تک

اپنی تحریر کے زر فشاں ہونے کا یقین رکھنا

میری عبادت ہے

٭٭٭

 

 

مسافت اور ہم

 

ہم ایسے لوگ ہیں

جن کے سروں پر

دھوپ کا ٹکڑا نہیں چلتا

ہمارے واسطے شاخیں ہمیشہ سایہ بنتی ہیں

ہماری آنکھ میں عفریتِ تنہائی نہیں ہنستا

سفر کرتا ہے گھر بھی

جس گھڑی گھر سے نکلتے ہیں

سبھی کے آنسوؤں کو

قہقہوں کو صاف سنتے ہیں

اٹھا کر اِس طرف سے اس طرف

بس رکھا کرتی ہے

مسافت سے ڈریں کیا ہم

مسافت ہم سے ڈرتی ہے       ٭٭٭

 

 

 

تماشہ

 

ریڑھ کی ہڈی کو محسوس کرتے رہنا

کتنا خوش آئند ہے

رینگنے والوں نے

اپنی برادری سے باہر رکھا

اور یہ نہ سوچا

مجھے دیکھنے کے لئے

انہیں اپنی گردن اونچی کرنی پڑے گی

میری باتیں ان کے سروں پر سے

گذر جائیں گی

میرے قدموں کی دھمک

انہیں دہلا دیا کرے گی

وہ پٹاریوں میں بند کر لئے جائیں گے

اور تماشہ دکھانے کے کام آئیں گے

میں تماشہ بازوں کے زہریلے دانت

ان کی ہتھیلی پہ رکھ سکتی ہوں

ریڑھ کی ہڈی کے ہونے کا تصور

کتنا خوش آئند ہے

٭٭٭

 

 

 

اے کشتۂ ستم۔۔۔

 

 

پھیکے، بے رنگ نعرے

مدقوق سینوں سے نکلتی ہوئی کھوکھلی آوازیں

زنگ آلود تالے

چابی کے لمس کو ترس رہے ہیں

پھیلے ہوئے سنسان آنگنوں میں

اونگھتے ہوئے لوگ

ہر آہٹ پر چونک پڑتے ہیں

’ انقلاب‘

دیواروں پر لکھی تحریریں مٹنے کو ہیں

پرچموں کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے

کچھ نئے ہاتھ

نئی آوازیں

نئے کندھے

اس منتقلی میں

کہیں کچھ چھوٹ نہ جائے

یہ اثاثہ

دھیرے دھیرے

آہستہ

سنبھال کے

٭٭٭

 

 

 

گلِ خودرو

 

 

نہ جانے یہ گلِ خود رو

زمیں کی سخت پرتیں چیر کر

کب کھل اٹھا ایسے

کہ سارا باغ اس کی سرکشی پر

دم بخود سا ہے

کسی مشاق ہاتھوں نے نہ بویا ہے

نہ سینچا ہے

کسی نے پرورش کی ہے

نہ نگرانی میں رکھا ہے

یہ گہرے چیختے رنگوں میں

اپنے ہونے کا اعلان

کچھ ایسے کئے جاتا ہے کہ

نظریں بچانا بھی بہت مشکل

ابھی زیرِ زمیں کیا جانے کتنے کسمساتے ہیں

درختوں میں ہے سرگوشی

مشوّش لالۂ رنگیں

٭٭٭

 

 

 

 

گمشدگی

 

 

وہ شفاف راہیں

کہ جن پر نفاست سے رکھتے تھے پاؤں

خزف ریزوں سے یوں اٹی جارہی ہیں

سوالوں کا اک سلسلہ ذہن میں

خودسے خود کے لئے

نگاہوں کی وہ گفتگو

اب تو پارینہ قصہ ہے کوئی

دھڑکتے ہیں دل

سنسناتا کہاں ہے بدن

خواب کی ساری ان چھوئی کلیاں

مسل کر کوئی رکھ گیا

زیرِ بالش کہیں

جس نے پگھلے ہوئے چاند کو

موریوں میں بہایا

اسے شکوۂ تیرگی ہے تو کس سے

ستاروں سے اپنی قبا تم سجاؤ

کہ سورج کو بانہوں میں بھر لو

سمندر کی تہہ میں

جو پتھر کی صورت کہیں گر پڑا ہے

اسے کون ڈھونڈے۔۔۔؟

٭٭٭

 

 

گھوڑے کی پیٹھ ،تم اور میں

 

بھری سبھا میں انتظار رہے گا تمہارا

مجھے یقین ہے تم آؤ گے

ہزاروں شاطر نگاہوں

پر پیچ گھاتوں کے درمیان سے

صاف نکل جائیں گے ہم

چاند ہمارے کانوں میں سرگوشیاں کرے گا

ہوائیں آنچل میں گرہیں ڈالیں گی

جانتی ہوں

اک پیاسا اگنی کنڈ میرا منتظر ہے

اور پدمنی شعلوں کو سیراب کرے گی

لیکن بس ایک بار

گھوڑے کی پیٹھ

پرتھوی راج اور میں    ٭٭٭

 

 

 

 

ابھی تک

 

 

ابھی تک بارشوں میں بھیگنے کا شوق باقی ہے

کوئی اڑتا ہوا جگنو توجہہ کھینچ سکتا ہے

ابھی تک سوندھی مٹی کی مہک

سانسوں میں بھرنے کی للک باقی ہے

ست رنگی دھنک کو اوڑھ لینے کی تمنا ہے

تعاقب میں ابھی تک تتلیوں کے

اک جنوں آمیز لذت ہے

کوئی کیا جانے

کب ان موسموں کا رمز کھو جائے

کوئی لمحہ نگاہوں پر کفن

احساس پر مٹی گرا کر یوں نکل جائے

کہ یہ دنیا ہماری پتلیوں پر

منعکس ہونے کی ہمت ہی نہ کر پائے

جہاں جو بھی حسیں ہے

وہ ہماری آنکھ میں گم ہے

خوشا بچپن

کہ جس نے حیرتی رکھا ہے اب تک آئینہ اتنا

٭٭٭

 

 

ناستلجیا

 

کئی گرہیں کہ جن کو کھولنے کی ضد میں

اپنے ناخنوں کو ہم گنوا بیٹھے

کئی باتیں کہ جن کو باندھنے کی کوششوں میں

موچ آئی تھی کلائی میں

کئی چہرے کہ جن کے خال و خط کو ہم

مٹانے کے جتن میں

دھوتے رہتے تھے برابر اپنے لوحِ چشم

اب بھی گھیر لیتے ہیں

گزرتے وقت نے ہر تجربے کو کہہ کے بچکانہ

ہمیں قائل کیا لیکن

ابھی تک انگلیوں کی ٹیس تڑپاتی ہے رہ رہ کر

لرزتی ہے کلائی اب بھی

لوحِ چشم پر ہر نقش واضح تر ہے پہلے سے                   ٭٭٭

 

 

منصوبہ

 

چلو بھول جائیں

کہ کس کس نے دل پر

لگائے ہیں چرکے

کہاں کس نے تنہا کیا ہم کو کتنا

کہ دھوکے دئیے وقت نے کیسے کیسے

ملا کیا لٹا کیا

بنے دوست کتنے

ہوئے کون دشمن

یہ گنتی گنی جائے آخر کہاں تک

بھلا ہے اسی میں کہ سب بھول جائیں

یہ اک مٹھی جیون جو باقی بچا ہے

اسے ہم گذاریں گے خوش خوابیوں میں

٭٭٭

 

 

خود سے الگ

 

خود سے الگ کوئی کچھ سوچے تو کیسے

جب دنیا کی بات ہوتی ہے

اپنے آنسودرمیان آ جاتے ہیں

اپنی آہوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے

ہجر و وصال

زیاں وسود

نشاط و غم

گوشوارہ کھلا نہیں کہ دنیا حاضر

اجتماعیت و انفرادیت کے خانے بے سود

خود کو کہاں کہاں رکھیں

دنیا کو کہاں کہاں

گردن نہوڑائے پڑیں رہیں چپ چاپ

جب تک کوئی نیا درد نہ ستائے ٭٭٭

 

 

موجودات

 

زہابِ چشم کی جانب

کوئی گر دیکھ بھی لیتا

تو کیا کرتا

ہتھیلی میں شگاف اتنے

کہ بوندیں چھن گئی ہوتیں

تری کی بات کیا کرتے

کہ دامن بھی ذرا تنگ تھا

ہمیں اپنے نشیبوں میں ٹھہرنا تھا

گذرنا تھا فرازوں سے

تو خود میں جذب ہونا تھا

چٹانیں آب و گل میں ہو گئیں تقسیم کچھ ایسے

کہیں پر ایک مٹھی بھی نہیں تھے ہم جو پہلے تھے

یہ موجوداتِ عالم تو یونہی بنتی بگڑتی ہیں

ہمارا کیا؟

٭٭٭

 

 

 

مرگِ مفاجات

 

کبھی زندگی کے کسی موڑ پر

اپنی آنکھوں کی حرمت بچانے کی خاطر

بڑے ضبط سے طے کیا تھا

نہیں اب کوئی اور سپنا نہیں

آج عالم یہ ہے

دونوں ہاتھوں لٹاتے ہیں تعبیریں

اور

دیکھتی ہیں یہ آنکھیں

عجب حسرتوں سے

٭٭٭

 

 

 

کشت

 

ہم نے سینے میں بوئے تھے آنسو کبھی

آج بھی ان نگاہوں میں آتا ہے بار

سینچتے تھے مگر

یہ نہ سوچا ذرا

دور تک پھیل جائیں گی ظالم جڑیں

غم کی نشو و نما

کیا کوئی کھیل ہے

اپنی مٹّی سے یہ چھیڑ

اچھی نہیں

٭٭٭

 

 

 

بے بضاعت

 

یہ دروازہ کھلا رہتا ہے یونہی

آنے جانے پر نہیں پابندیاں لیکن

دبے پاؤں گذر جاتے ہیں خود سے

اور آہٹ تک نہیں ہوتی

نہ سانسوں میں کوئی لرزش

نہ آنکھوں میں کوئی حیرت

ٹھٹھک کر ایک پل تو سوچتے

یہ بے بضاعت کون ہے

جس کی طرف

ہم بھی نہیں تکتے

٭٭٭

 

 

 سادیت

 

 

اگر عمر بھر کا حاصل

اک ہولناک سناٹا ہے

تو ملال کیسا

پہلی ملاقات میں

مخاطب کی آنکھوں کا رنگ

ہونٹوں کے زاویے

طبیعت کی کجی

کوئی نہیں دیکھتا

جسے نرگس کے پھول دیکھتے ہی

مرگھٹ کی یاد آتی ہو

تہواریں تنہا کر دیتی ہوں

میلوں میں دم گھٹتا ہو

جسے گیتوں کا تسلسل تھکا دے

باتوں کی لڑی الجھا دے

جسے چہرے پڑھنے

خود سے لڑنے

زمانے پر ہنسنے کی عادت ہو

اسے ایسے سناٹوں کے استقبال کے لئے

تیار رہنا چاہیے

٭٭٭

 

 

 

 

ریفارمیٹری

 

 

تمہاری محبت

اک ایسی ریفارمیٹری ہے

جس میں گذشتہ بے اعتدالیوں کی سزا کے طور پر

میں نے خود کو قید کر دیا ہے

میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا

دوسری بار نہ دیکھنے کے لئے

شدت سے سوچا

کسی اور کو نہ سوچنے کے لئے

تم نے چھوا نہیں

اور میں تمہیں محسوس کرتی رہتی ہوں

تمہیں سنے بغیر

تم سے گفتگو کرتی رہتی ہوں

تم کہیں دور بہتوں میں تقسیم ہوتے رہتے ہو

یہاں میں تمہیں

اپنے کاسے میں سمیٹتی رہتی ہوں

میں ہر آتی جاتی لہر سے

تمہارا پتہ پوچھتی رہتی ہوں

یہ جانتے ہوئے بھی کہ

ہگلی نے میرے پاؤں باندھ دئیے ہیں

سرسوتی تم میں لپت ہو گئی ہے

اس دنیا کے کسی کونے میں

کہیں کوئی ایسا گھر نہیں

جس میں ہم ساتھ رہیں گے

تمہاری محبت کی اس ریفارمیٹری میں

تمہارے بغیر

تمہارے ساتھ جینے میں کتنا سکھ ہے

میں نہیں جانتی موکش کیا ہے

لیکن یہ جانے بغیر

کہ تم مجھے سوچتے بھی ہو یا نہیں

تمہیں سوچتے جانے میں میری نجات ہے

٭٭٭

 

 

 

 

مان سروور

 

 

برسوں گذرے

کسی جھیل میں پنکھ ڈبوئے ہوئے

صدیاں بیتیں

سرِ ساحل بانہہ پسارے ہوئے

وہ مان سروور

جس میں سحر کی ہلکی میٹھی دھوپ بھی ہے

پیڑوں کا گھنیرا سایہ بھی

اور قل قل کرتی خاموشی

وہ جس کی راہیں درگم سی

یہ ہنس اسے پا جائے اگر

سب گرد وہیں دھو آئے گا

سب درد ڈبو آئے گا وہیں

وہ جس کی تمنا میں دن دن

یہ پنکھ بکھرتے جاتے ہیں

یہ سانس الجھتی رہتی ہے

٭٭٭

 

 

خودکشی

 

میں خوش ہوں

کھارے پانی اور سنگریزوں کا مصرف نکل آیا

اپنے اندر اک ٹاپو تعمیر کر لینا ضروری تھا

خود میں تھکنے اور سستانے کی کشادگی کو

صرف وہی سمجھ سکتا ہے

جس نے اپنی کشتیاں جلادی ہوں

ساحل پر نشانات بنتے اور مٹتے رہتے ہیں

ان کے ثبات کے لئے

متحرک قدموں کو دفن نہیں کرتے

ہوا سرگوشیوں میں جانے کیا کیا کہتی ہے

بدن سوتے سوتے جاگ اٹھتا ہے

پھر سو جاتا ہے

خود کو لوریاں سناتے گلا رندھ چکا ہے

تھپکیاں دیتے بازو شل

جب تک بیہوش کرنے والی نیند نہیں آتی

پیاس گلے میں کانٹے بکھیرتی رہے گی

مساموں پر پہرہ دیتا رہے گا بے خواب سناٹا

عقربی خواہشیں اپنے ڈنک سے

آپ لہولہان ہوتی رہیں گی

یہ جانتے ہوئے بھی

کہ خودکشی جرم ہے

٭٭٭

 

 

اک لجلجا لفظ

 

تم اتنے صاف اور شفاف

جیسے گلِ نورس پہ شبنم کا قطرہ

سورج کی کرن

تمھیں نگلنے سے پہلے

رنگوں کی بازیافت کے لئے

ایک بار

تم میں ضرور اترنا چاہے گی

لیکن اسے

محبت کا نام نہ دینا

٭٭٭

 

 

کسی سے ملنا تھا

 

 

راستے پوچھتے ہیں

کسی سے ملنا تھا

د یر تک منہ تکتے ہیں شجر و حجر

پاؤں کی گرد سر چڑھ کر بولنے لگتی ہے

تلا ش کا حاصل

لوٹنے پر در و دیوار اک سوالیہ نشان

گھر کی دولت لٹانے چلی تھیں

اپنی ضد کہ کوئی تو بانٹے گا

اس دھن پر

ناگ پہرہ دینے لگے ہیں

اکیلے نہیں سنبھلتی یہ وراثت

٭٭٭

 

 

 قید با مشقت

 

یونہی کبھی کبھی

سنگلاخ چٹانوں سے گذرتے ہوئے

اک لہراتا ہوا دریا سوچ میں اتر آئے تو

مجھے کمزور نہ سمجھنا

زندگی اب تو تقریباً عادی ہو چکی ہے

دیواروں سے بات کرنے کی

ان کے بیچ اگر کبھی کوئی چہرہ دکھائی پڑ جائے

تو مجھے وہمی نہ سمجھنا

چھوٹی چھوٹی رفاقتیں سنبھال کر رکھنے والے

جب رشتوں کے نام پر پیلے پڑ جائیں

تو انہیں معاف کر دینا چاہئے

تنہا رہنے کی اچھی عادت بنانے میں

ڈھیر ساری بری عادتوں کو تیاگنا پڑتا ہے

میٹھے شبدوں کی تہہ میں اتر کر

زہر کی بوندیں تلاش کرنی پڑتی ہیں

سارے چہروں کو الٹ پلٹ کر پڑھنا پڑتا ہے

سچائی سے بھاگتے ہوئے

الٹے قدموں اسے چھو کر

آگ سے گذرنے کا آنند لینا پڑتا ہے

اتنی محنت کے بعد

اگر کوئی بھرپور جی رہا ہو

تو اس کی سانسیں گننے کے بجائے

اس کی عمر ناپ لینا

٭٭٭

 

 

 

جاں نشیں

 

 

اب وقت سمٹ کر اک نقطہ

سانسوں کی اگن چنگاری بھر

اب جسم بکھرتے بالو سا

اب روح بدن میں اک ریزہ

کن آنکھوں میں رکھ جاؤں میں

یہ خواب، یہ آنسو، یہ شبہے

کن قدموں کو دے جاؤں میں

یہ کھوج ، یہ بھٹکن، یہ رستے

کوئی تو سنبھالے نس نس میں

یہ آگ دہکتے سینے کی

کوئی تو پروئے دھڑکن میں

یہ طرز ہمارے جینے کی

کوئی تو ملے کہ مر کر بھی

ہم جس میں جئیں لمحہ لمحہ

کوئی تو سبک کر جائے ہمیں

کوئی تو سنبھالے یہ ورثہ

٭٭٭

 

 

 

تم،میں اور وہ

 

 

 

میں وہ ساری جگہیں دیکھنا چاہتی ہوں

جنہیں تمہاری موجودگی نے مرتعش کر دیا

میں ان تمام راستوں سے گذرنا چاہتی ہوں

جن پر تمہارے قدموں نے منزلیں تراشیں

میں ان ہواؤں کو پینا چاہتی ہوں

جنہیں تمہاری خوشبو نے سیراب کیا

میں وہ ساری کتابیں پڑھنا چاہتی ہوں

جن کے حروف تمہارے مطالعے سے روشن ہیں

میں ان ساری چیزوں کو چھونا چاہتی ہوں

جنہیں تمہارے لمس نے جاوداں کر دیا

میں تمہیں بالواسطہ یا بلا واسطہ

ایک لمحے کو بھی پا سکوں

تو صدیاں اسے دان کر دوں

جس نے میرے اور تمہارے درمیان

یہ فاصلے رکھے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ہم سائیگی

 

 

پھیلی ہوئی بانہیں

اور کشادہ آغوش

مجھ میں میری تشکیل کا یہی تصور تھا

شاید اس چھاؤں میں کوئی سدھارت

گوتم نہ بن سکا

تو کیا ہوا

میں امر بیلوں سے حسد کرنے کے بجائے

سینے سے لگائے رکھنے میں

طمانیت محسوس کرتی ہوں

ان کے ساتھ اپنا رزق بانٹ کر کھاتے ہوئے

مسرت ہوتی ہے

کسی کے ساتھ جینا کتنا خوش کن تجربہ ہے

چاہے آپ کا وجود

ہر پل خطروں سے دوچار ہوتا رہے

٭٭٭

 

 

 

ناقد سے

 

 

نہ جانے کیسی ساعت تھی

لگا کر اپنے سینے سے کہا تھا تم نے جب اقراء

سو میں نے اب تلک جو کچھ پڑھا سیکھا

تمہارے لمس کی محسوس گرمی کا نتیجہ ہے

الجھتی تھیں مری سانسیں

اندھیرا کتنا گہرا تھا

اکیلا پن الگ پھن کاڑھے بیٹھا تھا

مگر تم ایسے جادو گر

سیاہی روشنی سے یوں بدلتے ہو

کہ قطرہ قطرہ اک اک لفظ روشن ہے مرے اندر

تمہیں شاید پتہ نہ ہو

تمہاری فکر نے کیسے کھنڈر آباد رکھے ہیں

قلم تھکنے لگا

بجھنے لگی تحریر تو سمجھو

زمینوں پر اندھیرے کا تسلط بڑھتا جائے گا

اور ایسی سازشوں میں تم نہ شامل ہو تو اچھا ہے

٭٭٭

 

 

آخری لمحے کی سوچ

 

 

مرنا چاہتی ہوں ایسے موسم میں

جب پھول کھلے ہوں چاروں اور

اور ترس رہے ہوں کچھ لوگ

کسی کے ساتھ بہار کا رنگ بانٹنے کو

مرنا چاہتی ہوں اس وقت

جب ہوا شانت ہو

بھنور السائے ہوئے سے

کشتی کنارے پر لگنے کو بے قرار

ساحل بس اک بالشت کی دوری پر

مرنا چاہتی ہوں اس لمحہ

جب دل میں جینے کی اک چٹکی خواہش

بدن میں قطرہ بھر افسوس باقی نہ ہو

جب وہ پانا چاہیں

جنھوں نے کم مایہ سمجھا اور کھو دیا

جنھوں نے پایا پر تخمینے سے چوک گئے

مرنا چاہتی ہوں اس گھڑی

جب

پیچھے مڑ کر دیکھنے کی للک باقی نہ ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 یوتھینزیا

 

 

جب آنکھوں میں

پگھلتے ہوئے سورج کو جذب کرنے کی

صلاحیت باقی نہ رہے

جب بارشوں میں

ننگے پاؤں چلنے پر پابندی لگا دی جائے

جب دھنک کے رنگ پھیکے پڑ جائیں

چاند مستقل گہنا جائے

باؤل گیت کی تھرکن روٹھ جائے

وقت کی مسافت کا احساس مر جائے

جسم سے پرانی مٹّی کی باس آئے

جب موت پربس نہ چلے

زندگی پکڑ میں نہ آئے

عمر کے اس سفّاک تعطل میں

مجھے بے عزّت جینے سے

با عزت مرنے دینا

٭٭٭

 

 

 

بگولہ

 

 

رمادِ زیست کا انجام اور کیا ہوتا

اڑی دیار سے تو کوئے یار جا پہنچی

بدل بدل کے بہت روپ ہم نے جانا ہے

نہ خاک ہو تو گلِ تر کہاں سے آئے گا

کہ کون لپٹے گا قدموں سے رہ نوازی میں

کہ کون دامنِ صد چاک کو بسائے گا

جبیں پہ کون تلک بن کے جگمگائے گا

مسافرت میں تیمم کے کام آئے گی

کبھی سلیقۂ عشقِ دروں سکھائے گی

کہ دور بیٹھے گی معشوق سے براہِ ادب

کبھی جنوں میں یہ صحراؤں کو تھکائے گی

ہمیں خلش ہے یہی کیوں نہ آگ سے جنمے

کہ آب و باد بھی ایسے برے نہیں تھے مگر

ہمیں اٹھانا ملانا تھا خاک میں اس کو

پہ زندگی کو بگولہ بنانا

چہ معنی؟

٭٭٭

 

 

نئے موسم کی آہٹ

 

 

چلو خالی کرو جگہیں

برائے برگِ تازہ چھوڑ دو شاخیں

زمیں سے جڑ کے رہنے پر بھی کچھ حاصل نہیں ہو گا

نسوں میں اب نہیں بالیدگی کی اک رمق باقی

یہ دل تو ریزہ ریزہ غم کا لقمہ بن گیا کب کا

کہ ذہنِ تازہ کو گھن کھا گیا بے درد یادوں کا

بدن میں پڑ گئی ناآسودگی کی اک بنا ایسی

اگر تعمیر کچھ ہو گا بھی تو احساسِ تنہائی

بہت سوچا

بہت ڈھونڈا

کہیں پر ایک ریزہ وصل کا جھلمل نہیں کرتا

رفاقت کا کوئی نقطہ

ستارہ سا نہیں د ِ کھتا

فلک تا بہ فلک ہے ہجر کا گھنگھور اندھیرا

ہزیمت بے ثمر

سعی، لا حاصلی کا کرب

ریاضت بے اثر

گردِ ملامت- کارناموں کا اجر

نشانِ امتیازی ہے نہ تمغۂ طلائی ہے

ہمارے کاندھوں پہ بس اپنا سر ہی اک کمائی ہے

ہماری سوچ کا دریا کبھی پایاب نہ ہو گا

بدن مرتا ہے

مر جائے

٭٭٭

 

 

 

پس و پیش

 

 

محبت کو پنجرہ بنانے میں میرا یقیں تو نہیں ہے

مگر جانے کیوں جب سے دیکھا ہے تم کو

مری سوچ کی تیلیاں دن بدن

ایک پنجرے کی تعمیر میں منہمک ہیں

مسافر پرندے

اٹھو بھی کہ موسم بدلنے لگا ہے

مرے گھر کا آنگن

اسارے کی چوکی

کنویں کا رہٹ

کچی مٹی کے کوزے

ہرے نیم کی یہ نبولی

تمہیں یاد آئیں تو کیا ہے

انہیں اپنے قدموں کی زنجیر بننے نہ دینا

اگر رک گئے تم

تو مجھ پر تمہاری گرفتاری الزام بن کر

کسی کنج میں مجھ کو جینے نہ دے گی

٭٭٭

 

 

نشاۃ الثانیہ

 

یہ مانا کہ سارے مظاہر ہیں فطری

مگر کوئی پوچھے ہواؤں سے

بے مہر کیوں توڑ لاتی ہے پتے

ہری ڈالیوں سے

زمیں کروٹیں کیوں بدلتی ہے

لاوے اگلتی ہے کیوں

بستیاں راکھ ہوتی ہیں

بہہ جاتے ہیں گاؤں کے گاؤں

جب طیش میں دوڑتا ہے سمندر حدیں بھول کر

بجلیاں ٹوٹ پڑتی ہیں کیوں خرمنوں پر

گہن چاند سورج پہ چھاتا ہے کیوں

روبرو ہونے کو کیوں مچل اٹھتے ہیں

فاصلوں میں بٹے

دور افتادہ سیارے

تارے زمیں چوم لیتے ہیں کیوں

اسی کرۂ ارض پر

چند مٹی کے تودے

بڑی دیر سے منتظر ہیں

کسی ایسے برتاؤ کے

جو بدل دے سراپا

وہ افعال جن سے عبارت تحرک

وہ آثار جن سے قیامت ہویدا

پئے قہر یا مہر

اس پل

اسی ایک پل میں

مچل جائے فطرت

٭٭٭

 

 

پھر مت کہنا

 

 

پھر مت کہنا

سائبانوں نے پکارا نہیں تھا

وہ

جن کے پاؤں

گھر کی چوکھٹ پھلانگ جاتے ہیں

انہیں نہ تو لرزتی ہوئی شمعیں پکارتی ہیں

نہ ٹوٹی ہوئی چلمنیں

دیوار کی کھسکتی اینٹیں

اپنی جگہ خالی کر جاتی ہیں

جنگلی پودے

ان میں پاؤں پسارتے جاتے ہیں

سانپوں کے بل میں کون ہاتھ ڈالنا چاہتا ہے

مدفون ہڈیاں بولنے لگتی ہیں

آوارہ آتماؤں کی سرگوشیوں سے

فضا تھرتھرانے لگتی ہے

نیند کا ذائقہ پہلے زبان پر

پھرنسوں میں

پھر آنکھوں میں اُتر آتا ہے

ذہن سوتا ہی نہیں

سائبان بولتے رہتے ہیں

آنگن شور سے چھلکتا جاتا ہے

دیر تک سیڑھیوں پر

زندہ آہٹیں چیختی رہتی ہیں

نکل تو جاؤں بے سمت

لیکن یہ صدائے سمع خراش

پھر مت کہنا

٭٭٭

 

 

 

جوئے آبِ رواں

 

 

کبھی تو روئے بہت

کہ غم کی حقیقتوں کا پتہ نہیں تھا

نہ رمزِ عیش و نشاط سے دل ہوا تھا واقف

جدائی آنکھوں کی کرکری سی

بھگوتی رہتی پلک پلک کو

کہ وصل ٹھنڈی ہوا کا جھونکا

نمی کا کارن بنا تھا اکثر

وہ لمحہ لمحہ بدلتا موسم

کبھی نشہ سا رفاقتوں کا

اداس راتوں کے وسوسے بھی

کسی نے سوچا نہیں تھا اک پل

کہ شدتیں روٹھ جائیں گی ایسے

فراق شب کا کوئی بھی لمحہ

بھگو نہ پائے گا آستینیں

خوشی کے لمحے قریب آ کر

چھوئیں گے اور گدگدی نہ ہو گی

یہ کس تعطل میں ذہن و دل ہیں

یہ کس پڑاؤ پہ جاں رکی ہے

ہیں کس کے ہاتھوں میں فیصلے اب

ہمیں تو خود بھی پتہ نہیں ہے

وہ جوئے آبِ رواں ہے گم سی

یہ کشت جس سے ہری ہوئی تھی

٭٭٭

 

 

 

تمہیں نہ سوچوں تو

 

 

تمہیں نہ سوچوں تو

رات کے سیاہ گربھ میں

مر جاتا ہے سورج

اپنی پہلی مسکان بکھیرنے سے پیشتر

سہم جاتی ہیں چڑیوں کی کلکاریاں

شاخوں پر مچلنے سے پہلے

ڈھلک جاتی ہیں پھولوں کی گردنیں

خواب دیکھے بغیر

 

تمہیں نہ سوچوں تو

ہوائیں لنگر ڈال کر بیٹھ جاتی ہیں

دیوں کو سانس نہیں آتی

چاند پہن لیتا ہے ماتمی لباس

ایک ایک کر کے گر پڑتے ہیں ستارے

آسمان کی پھٹی ہوئی اوڑھنی سے

 

تمہیں نہ سوچوں تو

گماں اور یقین کے بیچ

توازن برقرار رکھنے کی اذیت جھیلتا ہے دل

اپنے نہ ہونے کے کرب سے گذرتا ہے وجود

الفاظ نظم ہونے سے انکار کر دیتے ہیں

مشتبہ نظر آتا ہے

خدا۔!

٭٭٭

 

 

 

بہت ناراض ہوں خود سے

 

 

بہت ناراض ہوں خود سے

نہ جانے کتنے برسوں میں

ریاضت کر کے اس دل نے

بڑی مشکل سے سیکھا تھا

ہوا کی دستکوں پہ اپنے دروازے کو بند رکھنا

پہ شاید اک دریچے کی شرارت کا یہ خمیازہ

لویں سب جھلملا اٹھیں

کہ پھر فانوس بھی پگھلا

کہیں پر اب اندھیرے کا نہیں ہے ایک بھی ریزہ

بہت ناراض ہوں خود سے

٭٭٭

 

 

 

بغداد

 

عبادت گاہ میں داخل ہونے سے پہلے

ان کی تلاشی لی گئی

اپنی اپنی آستینیں الٹ دو

پتھر کی مورتیوں کا خدا کے گھر میں کیا کام

تم ملحد ہو

عراق کی سر زمین پر قدم رکھنے والے

بنا کسی تلاشی کے بغداد کے سینے تک جا پہنچے

اپنی اپنی آستینیں الٹ دو

کسی کی آستینوں میں نہ کوئی بم

نہ بارود

ہاں ۔ ایک بہانہ تھا دنیا کی سلامتی کا

آستین کی آخری پرت میں

پروانہ تھا عراق کی تباہی کا

لہلہاتے کھیتوں پر قحط کی بارش ہونے لگی

عجائب گھروں سے تہذیب کی علامتیں غائب

شہروں سے ہما ہمی رخصت

قبرستان کا سناٹا بڑھتا ہی جا رہا ہے

معصوم مسکراہٹوں پہ پھپھوندی جم گئی ہے

ٹھہری ہوئی نگاہوں پر مکڑی کے جالے

دجلہ و فرات، احمر و اسود

سارے دریاؤں کا پانی ایک ہو گیا ہے

گہرا سیاہ – نمکین

کبھی شدادؔ نے ایک جنت بنائی تھی

اور اس میں قدم نہ رکھ پایا تھا

جس نے بغداد کو جہنم بنایا

اس سے کہہ دو

وہ یہاں قدم رکھے نہ رکھے

اس کی آگ

اس تک ضرور پہنچے گی

٭٭٭

 

 

پھانسی

 

 

بہت بھلا تھا وہ شخص جس نے

زمیں پہ کھینچیں عجب لکیریں

تمام دریا ،پہاڑ، جنگل

سلگتے صحرا

برستے آنگن

ہزار ٹکڑوں میں بٹ گئے ہیں

بہت بھلا ہے وہ شخص جس نے

کلامِ اللہ

عدالتوں میں پرکھنا چاہا

کہ رتھ پہ ایسا دھوج پھرایا

زمیں لہو سے نہا گئی ہے

دھوئیں سے گھٹتا ہے دم فضا کا

چلو کہ اب وہ گھڑی ہے آئی

تمام اچھے

عظیم لوگوں کو ڈھونڈھ کر ہم

وہ جن کے دل میں

امڈتے رہتے ہیں حبّ قومی کے تند دریا

جنہیں دلوں کے

زبانوں کے

ذہن کے

وبھاجن نے سرخرو کیا ہے

انہیں پکڑ کر لگا دیں پھانسی

٭٭٭

 

 

ہمیں تو یوں بھی ۔۔۔

 

 

ہمیں تو یوں بھی بہت دور تک نہ جانا تھا

مگر نہ جانے کسے خوف تھا مسافت سے

اندھیرے کاڑھ دئے ایسے

مہر و ماہ و نجوم

خلا میں گم ہوئے

منزل نے پھیر لی صورت

سفر میں ساتھ نکلنا تو اتفاقی تھا

کہیں پہنچنے کی کچھ شرط بھی نہیں تھی مگر

ہمارے پاؤں سے رستے چرانے والے کو

ہماری سوچ کے صحرا کو ناپ لینا تھا

٭٭٭

 

 

 

تینتیس فیصد

 

 

 

بہت پہلے کسی نے چاہا تھا

پرچم بنے آنچل

سواب تینتیس فیصد پرچموں سے

آسماں روشن

مگرکس سمت مڑنا ہے

کہاں پہ کتنا اڑنا ہے

یہ ایسا راز ہے

جس کو سمجھ نہ پائے گا کوئی

کسی کھمبے سے لگ جاؤ

کسی چھت پر ٹھہر جاؤ

تو شاید کوچۂ آفات کے کچھ بھید کھل پائیں

ابھی لا مرکزی ہونے میں باقی ہیں کئی صدیاں

جنہیں اپنے لئے

اپنی طرح طے کرنی ہیں سمتیں

نگلنے کو انہیں بیتاب ہیں کچھ خشمگیں شعلے

سرِراہے۔!

٭٭٭

 

 

 

 

نازک ہے بہت کام

 

 

ہمارے لہو میں دمکتی ہوئی سرخ چنگاریاں

اب تو بجھنے چلی ہیں

بہت زعم تھا

اک چراغاں سا ہو گا

یہ ننھی سی لو

جانے کتنی لووں کو

نئی تابکاری سے مانوس کر کے

کسی راکھ کے ڈھیر میں سو رہے گی

مگر کام اب تک ادھورا پڑا ہے

عجب کم نصیبی ہے شہرِ جنوں کی

کہ سارے دئیے اب بھی اوندھے رکھے ہیں

ستم کی یہ راتیں گذر جائیں گی پر

کسی کو یہ کہنے میں ہو گا تامّل

کہ مقتل میں ابکے اجالا نہیں تھا۔!

٭٭٭

 

 

 

 

چانکیہ کے بعد

 

 

بالآخر چانکیہ ؔ کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہو گئیں

ارتھ شاستر کے ماہروں نے اس کی موت کا خوب سوگ منایا

شہر بھر میں پرچم سر نگوں کر دئے گئے

سینے پر چپکیں سیاہ پٹیاں

جلوس میں ہر آنکھ پر نم تھی

ہر دل ماتم کناں

جس دن تعزیت پر اس کی پیاری جنتا اکٹھی ہوئی

انہیں برہمن، چھتریہ، ویش، شودر میں بانٹ دیا گیا

عورتوں کے لئے الگ خانے بنائے گئے

بچّوں کوتو کوئی پوچھتا ہی نہ تھا

صدر دروازے پر اپنے ہی لوگوں کی تلاشی لی گئی

تصویر کی گل پوشی کا اعزاز انہیں بخشا گیا

جو چانکیہؔ کے اہالیان میں سے تھے

ایک بڑے سے تنبو کے اندر

طبقوں میں بٹے سوگوار لوگ

دروازے پر خونخوار پہریدار

باہرسڑکوں پر بکھری جنتا کے ہاتھوں میں

شردھانجلی کے پھول مرجھا رہے تھے

تصویر میں قید چانکیہؔ

اپنے ارتھ شاستر پر شرمندہ نظر آ رہا تھا

٭٭٭

 

 

ناجائز

 

جامد ہونٹوں کی جنبش

یخ بستہ زبان کی کسمساہٹ

کسی سے سہن نہیں ہوتی

سبھی اپنی اپنی پسند کے الفاظ سجانا چاہتے ہیں

اپنے اپنے خیالات ذہن میں بونے کے خواہشمند

خود کے لئے بولنا

کبھی گالی، کبھی چیخ، کبھی آنسو

ذائقہ بدلنے کے لئے عالمی مسائل

قحط، سیلاب، فرقہ وارانہ فسادات، تیسری دنیا، تارکِ وطن

اور بھی بہت کچھ

خود سے کتنی باہر

کتنی اندر

کتنی پاس / کتنی دور

کس سے کتنا شکوہ

کتنی محبت

کتنی بالواسطہ/ بلاواسطہ

کتنی ننگی /ڈھکی چھپی

کہاں کون سی تشبیہ / استعارہ

یہ وہ طے کریں گے

جنہوں نے آج تک لفظوں سے کھیلا

اور زبان کا زنا بالجبر کیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جدلیاتی مادیّت

 

 

ترقی

تیز رفتار

برق آسا

فلسفہ سمجھنا چاہا

تو تحریریں گڈ مڈ ہو گئیں

کس سے پوچھوں

تاریک بستیاں خاموش

مہا نگرم ٹیالا

گاؤں خاک بر سر

زمین پر رینگنے والے کیڑے

دیو پیکر حیوانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں

نئے قحبہ خانوں کے کھلنے تک

دنیا کے مزدور ایک ہوتے رہیں گے

کسی بند ہوتے ہوئے کارخانے کے باہر

تازہ لڑائی کو

٭٭٭

 

 

 

 

توازن

 

 

یہ سب لکڑی کے گھوڑے

ٹن کی تلواریں

وہ کاغذ کے سپاہی

اچھے لگتے ہیں

لڑائی یوں تو اب لمبی چلے گی

اس لئے طے ہے

ہمیں بھی اپنی جانب سے

نئے دستوں کی ایسی تربیت کرنی ہے

جو اپنی حمایت میں لڑیں لیکن

کہیں بھی ایک قطرہ خون کا ٹپکے نہیں

پھر بھی

شکست کچھ اس طرف

کچھ فتح اس جانب

رہے اندھیر نگری یا کہ چوپٹ راج

طاقت کے توازن کو بدلتے رہنے دینا ہے

٭٭٭

 

 

کہیں کچھ نہیں بدلے گا

 

 

 

کبھی کتنا رجائی تھا نظریہ

کتنی امیدیں تھیں وابستہ زمانے سے

خود اپنے سے

بھروسہ وقت پر تھا اتنا مستحکم

کبھی تدبیر کے ذریعہ

کبھی تقدیر کے بل پر

مسائل سے نمٹنے اور حل کرنے کی چاہت تھی

کبھی کمزور لمحوں میں

کسی غیبی مدد کی بھی توقع سر اٹھاتی تھی

بہر صورت سبھوں کے واسطے

کچھ کر گذر نے کی تمنا تھی

خوشی کی اک کرن

اک بوند راحت

ایک مٹھی رزق

کیسے ڈھونڈ کر لائیں

زمانے کے تئیں کچھ ذمہ داری تو نہیں اپنی

پہ ہر لمحہ ہماری نظروں میں ہم گرتے جاتے ہیں

٭٭٭

 

 

وردان

 

 

عجب یہ عالمِ ترکِ علائق ہے

کہ سارے گمشدہ رستے

ابھر آتے ہیں نقشے پر

کہ سب ٹھہرے ہوئے دریا

سمندر بننے لگتے ہیں

سفینہ تو جلا آئے مگر

ان بادبانوں کی زباں بندی ضروری تھی

ہواؤں سے جنہیں تکرار کرنے کی رہی عادت

صدائیں ہی صدائیں گھیرتی جاتی ہیں جب

جنگل کے اندر شور بڑھتا جاتا ہے اتنا

کہ خود سے گفتگو کرنا بہت دشوار ہوتا ہے

سمادھ ہم نے لگائی تھی پہ اندازہ نہ کر پائے

کہ سب دریا

کہ سب رستے

بدل کر اپنا اپنا رخ

ہمیں چھو کر یوں گزریں گے

کہ ہم پتھرانے کی منزل سے پہلے ایک لمحے کو

کسی پنچھی میں خود کو مائلِ پرواز دیکھیں گے

٭٭٭

 

 

 

یکسوئی

 

تنہائی کا بٹنا ہمیشہ تو اچھا نہیں لگتا

ساتھ نباہتے

زندگی کی ضرورت معلوم ہوتے لوگ

اس پل بوجھ لگتے ہیں

جب اپنے آپ سے سچ بولنے

اپنی کمزوریوں کی گرفت کرنے

اپنے دشمنوں کی خوبیاں گننے

اپنی زندگی پر ہنسنے

اپنی موت پر رونے کے لئے

یکسوئی درکار ہوتی ہے

اور ملتی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

بس اک لمحہ ضروری ہے

 

 

یہ دو راہا عجب سا ہے

اندھیرے اور اجالے میں ابھی تکرار ہے باقی

نہ دن ہی بانہہ پکڑائے

نہ رات آتی ہے قابو میں

شفق ہے سرخ اک جانب

غبار اک سرمئی سابھی

چھناکا ٹوٹتے رشتوں کاہے کچھ کچھ سماعت میں

نئے قدموں کی آہٹ سے فضائیں گونجتی بھی ہیں

گذشت و رفت کی یورش میں مٹتی ہیں شبیہیں کچھ

کہیں تازہ خطوں میں اک نیا پیکر ابھرتا ہے

یہ دو راہا عجب سا ہے

کہ جس پر فیصلہ کرنا بہت دشوار ہے لیکن

یہ دل یونہی تذبذب میں رہے گا مبتلا کب تک

کوئی منظر نہ ہو تو آنکھ ہی بے رنگ ہو جائے

بس اک لمحہ ضروری ہے ابد کی رہنمائی کو

٭٭٭

 

 

اسمِ نفی

 

یہ صبحوں کی شورش

یہ شاموں کی ہلچل

جئے جا رہے ہیں بڑی شد و مد سے

کہ جیسے جہاں زیر کر کے تھمیں گے

مگر رات کی بے کراں خامشی میں

بدن کا اک اک بند جب بولتا ہے

تھکن ریشے ریشے میں جب تیرتی ہے

کہ جب قطرۂ نیند کو آنکھ ترسے

صفر در صفر ہو ستاروں کی گنتی

ہوا سنسناتی ہے جب بازوؤں میں

کوئی قہقہہ مار کر پوچھتا ہے

یہ سب کس کی خاطر

یہ کب تک

کہاں تک       ٭٭٭

 

 

 

بھوک

 

 

ایک کھاؤں

دو کھاؤں

یا تین کھاؤں

سننے والے شیخ چلیؔ کی یہ بات ہنسی میں ٹال گئے

تاہم اس نے دجلہ و فرات کا پانی پیا

اور عباسیوں کے اگائے ہوئے اناج سے بنی روٹی کھائی

ایک ایک لقمہ حلق سے اتارتے ہوئے

دوسری روٹی پر جھپٹا

ایک کھاؤں

دو کھاؤں

یا تین کھاؤں

ساری دنیا چوکنی تھی لیکن خاموش

چند بلیاں غرائیں

تو ان کے سامنے کچھ ٹکڑے ڈال دئے گئے

امنِ عالم کی بقا کے لئے

شیخ چلی ؔکی نظر اب تیسری روٹی پر ہے

اس کا اناج کہاں سے آیا

کن دریاؤں نے اسے گوندھا

آنچ کس چولہے کی لگتی ہے

توا کس لوہے کا بنا ہے

شیخ چلی کی بھوک بڑھتی ہی جا رہی ہے

سننے والے اس کی بات اب ہنسی میں نہیں ٹالتے

بلکہ سہم جاتے ہیں اور سوچتے ہیں

وہ چوتھی روٹی کون سی ہے

جو شیخ چلی ؔ کا لقمہ بننے والی ہے

٭٭٭

 

 

 

اپدیش

 

 

سنو اے بائیس کروڑ بیوقوفو

یہ ہمارا جزیرہ نما ہے

ہم نے سمندروں سے ناویں

اور درّوں سے مویشی

اس لئے نہیں گذارے

کہ تم اناجوں کے ڈھیر میں

گھن کی صورت ہمارا حصہ چپ چاپ نگلتے رہو

اور ہمیں پتہ بھی نہ چلے

ہمیں معلوم ہے

تمہاری تلواریں زنگ آلود ہو چکی ہیں

گھوڑے بیمار

حرم سراؤں کی قرقی سے پہلے

تم نے جن نقابوں کو سمیٹ لیا تھا

ننھی فاختاؤں کو بوڑھے عقابوں کے ہاتھ بیچنے والے

اونٹ کی پیٹھ پر چیختے ہوئے میمنے

تمہیں یاد آتے ہیں یا نہیں

تمہارے پیٹ کی مکروہ آگ

جلتے ہوئے صحراؤں کی تپش کو شرمندہ کئے دیتی ہے

تم نے ہمارے دھاگے چرا کر

اپنے موتی پرو لئے

ہمارے دیوتاؤں کو گھر بدر کر دیا

تمہاری غلام گردشوں میں پوشیدہ چراغوں نے

ہمارے راج محلوں کو پھونک الا

پرکھوں کی جائداد کو بٹوارہ بھی

تمہاری حرص و ہوس کوسیراب نہ کر سکا

ہمارے حصوں کے مزید حصے کرنے سے پہلے

اتنا سوچ لو

ہم نے ان ساری نو آبادیات پہ کڑے پہرے لگا دئے ہیں

کڑے پہرے لگا دئے ہیں

جہاں نوجوانوں کو جغرافیہ

اور بچوں کو تاریخ کی تعلیم نہیں دی جاتی ہے

جہاں مائیں خواب دیکھنے اور بہنیں حوصلے بڑھانے لگتی ہیں

اپنی حدوں پہ اصرار کرنے سے پہلے

اپنے کمپاس کی سوئی درست کر لو

٭٭٭

 

 

 

کہاں ہیں وہ

 

 

کسی نے احمریں پرچم تھما کر

جانے کس لمحے عوام الناس کا حصہ بنایا اور سمجھایا

زمانے کو بدلنا ہے

گرانی ہیں وہ دیواریں

جو انساں کو جدا کرتی ہیں انساں سے

چلو کہ اب ستم پیشہ زمیں داروں کی جاگیریں

کسانوں میں ذرا تقسیم کرنی ہیں

چلو کل کارخانوں میں

کہ اب مزدور کی محنت کا سچا مول دینا ہے

پسینے کا ایک ایک قطرہ

مشقت کی اک اک ساعت

نہ جائے رائیگاں ہر گز

ہمیں انصاف کی حد میں

ہر اک شئے کا مقدر کھینچ لانا ہے

نہیں ، دیکھی نہیں جاتی ہے بچوں کی زبوں حالی

انہیں تعلیم کی خو بو سے کچھ واقف کرانا ہے

ہمیں تو عورتوں کو بھی مناسب حق دلانا ہے

ہر اک چھوٹے بڑے کا اشتراکی بن کے جینا ہے

کہ اب سے انقلابِ وقت کی رفتار گننا ہے

وہ دھن سنتے

وہ لے بنتے

مسافت تنی طے کر لی

کہاں تک آن پہنچے ہم

فضا میں تو سلاسل کی وہی جھنکار باقی ہے

ابھی بچوں کی چیخوں سے نہیں آزاد یہ نگری

ابھی تو رقصِ مجنونانہ کو پاؤں ترستے ہیں

چڑیلیں آج بھی ننگی گھمائی جاتی ہیں دن میں

ابھی تک عورتیں راتوں میں آدھی نیند سوتی ہیں

ابھی تک بستیوں میں نفرتوں کی آگ جلتی ہے

دھواں اٹھتا ہے اب بھی محفلوں میں گرم بحثوں سے

چلے تھے جس گھڑی اس دم سمندر ہم پہ ہنستا تھا

ہوئیں جنگلوں میں سرسراتی تھیں

درختوں سے پرندے جھانک لیتے تھے

کہاں سے ہم چلے تھے اور کہاں پہ آن پہنچے ہیں

کہیں کس کس سے کیا کیا ہم

سوالی بوسنیا کی کنواری ماؤں کی آنکھیں

سوالی اجتماعی قبر ہے گجرات کی اب تک

سوالوں سے اٹا بغداد تکتا ہے حقارت سے

سوالوں میں گھرا ایران کچھ ہمت جٹاتا ہے

ابھی سوڈان میں بھی کوئی فتنہ سر اٹھاتا ہے

ابھی تک گاؤں کے گاؤں ترستے ہیں اجالے کو

چٹختے کھیت کے سینے مرے جاتے ہیں پانی کو

کھڑی فصلیں کبھی جل جاتی ہیں اندھی تمازت میں

کبھی سیلاب کھا جا تا ہے کھلیانوں کو پل بھر میں

کبھی بوڑھی نگاہیں دور تک کرتی رہیں پیچھا

کہیں اسناد کے ٹکڑے کبھی اسلاف پر غصہ

کہاں تک احمریں پرچم کے سائے میں بنیں سپنے

یہ دنیا جانے کب بدلے

یہ رسمیں جانے کب ٹوٹیں

نہ جانے کب سوالوں کے جوابوں کا زمانہ ہو

سمندر کتنے دیکھ آئے

کہ چھان آئے سبھی صحرا

یہ دنیا اس کنارے

اس کنارے ایک جیسی ہے

بدلنے کے لئے عمروں کا اک عرصہ بچانا ہے

کہاں ہیں وہ

ہمیں جن ہاتھوں میں پرچم تھمانا ہے

٭٭٭

 

 

قرض

 

ان دنوں کو ترستا ہے دل

جب کہ نیندوں سے تھا سلسلہ رات کا

جب سرِ شام ہنستے تھے سپنے نئے

دن کی ساری تھکن

گھر کی دہلیز پر ہی اتر جاتی تھی

جب گھنی بارشوں میں کہیں

جھریوں سے بھرے ہاتھ چھتری لئے

رہتے تھے منتظر موڑ پر

صبح دم وہ تلاوت

وہ یٰسین کا ورد

چائے کی خوشبو

کھنک چوڑیوں کی

وہ بوڑھی نگاہیں

مرے واسطے تھیں ستاروں سی روشن

وہ آنچل میں کچے مصالحے کی خوشبو

پسینے کی لپٹیں

وہ اک ناتواں جسم کی گود کا لمس

ابھری ہوئی ہڈیوں کی چبھن

وہ مضبوط پائے

کہ جن پر ٹکی تھیں دیواریں ، یہ چھت

شجر وہ گھنیرے

تمازت سے محفوظ رکھا جنہوں نے

وہ خاموش، گونگے کنویں

ہم پہ امرت لٹاتے رہے

بے غرض ،بے ریا

یوں اٹھے ، چل دئے

اصل اور سود سارا دھرا رہ گیا

اتنے شرمندہ خود سے کبھی نہ ہوئے

جتنے اب، آج ہیں

لاکھ بخشو مگر دودھ کا قرض سر سے اترتا نہیں

لاکھ چاہو مگر ولدیت کا یہ رشتہ بکھرتا نہیں

ایک موقعہ تو دو

نام دینے کا شاید صلہ دے سکوں

لوریوں کے عوض

ایک لمحہ فراغت کا تحفے میں دوں

لوٹ آؤ

٭٭٭

 

 

دمِ تحریر

 

جن ناپاک گندی عورتوں سے

کوثر و تسنیم کترا کے گذریں گی

جن پر دودھ اور شہد کے پیالے حرام کر دئے جائیں گے

جن کو ملائک دزدیدہ نگاہوں سے بھی دیکھنا نہیں چاہیں گے

جن کا ٹھکانہ جہنم میں ہو گا

جنہیں دوزخ کی آگ روز جلائے گی

جن پر غیض و غضب کے کوڑے ہر ساعت برسائے جائیں گے

ان میں ایک میں بھی ہوں

میرے پاؤں میں بیڑیاں پہنانے

اور محبوس خانے میں اس وقت تک رکھنے کا حکم دیا گیا تھا

جب تک کہ میں اپنی شرارتوں سے باز نہ آ جاؤں

مجھے ہر روز بال سے باریک راستے پر چلنا پڑتا ہے

تلوار کی دھار مجھے زخمی کئے دیتی ہے

میرے بدن پر روز نئے آبلے پڑتے ہیں

میری آنکھیں گرم سلاخوں سے داغی جاتی ہیں

مجھ پر روز سنگ باری ہوتی ہے

جنہوں نے ایک دوسرے سے بات بند کر دی

ایک دوسرے کے ساتھ کھانا اور سونا چھوڑ دیا

ان کی دراڑیں اور بھی گہری ہوتی گئیں

محبت کو زنا کہنے کی رسم پرانی ہے

اور عہد و پیماں کا بھرم قائم رکھنا دشوار

جانے کیوں

جنت کی ہوائیں بے جھجھک آتی ہیں

اور گنہگار عورتوں کو چھو کر گذر جاتی ہیں

کنویں میں آزوقہ پہنچانے والوں کی رسیاں چھوٹی پڑ گئی ہیں

اپنے پسینے میں تر روٹی کا ایک ایک لقمہ

من و سلویٰ سے بھی زیادہ خوش ذائقہ ہوتا جا رہا ہے

بائیں کندھے پر یہ بوجھ کیسا

آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا

٭٭٭

 

 

فرہنگ

 

 

اپنے آپ سے کوئی کب تک

جھوٹ بول سکتا ہے

اس نے سیاہ کو سفید

رنج کو راحت

درد کو دوا لکھنا چاہا تو

لغات کھلکھلا کر ہنس پڑے

سورج کی طرف پیٹھ کئے

اس نے ایک عمر گذار دی

اپنی فرہنگ تیار کرنے کی کوشش بری تو نہیں

لیکن معنی روٹھ جاتے ہیں

چاروں جانب ٹھاٹھیں مارتا سمندر

اور بیچ میں ایک جزیرہ

نہتا

کمزور

اندر اندر کتنے گھنے پیڑ اگے

کتنے مفرد و مرکب پتے

کیسے کیسے گل بوٹے

چڑیوں کی چہکار

سوندھی مٹی کی مہک

لہریں کنارہ چھوڑ کر آگے نکل جاتی ہیں

غیر آباد سر زمینوں سے سرگوشی کے لئے

ایک زبان درکار ہوتی ہے

سبزی اور خوشحالی

دو الگ اصطلاحات

چاند اور سورج کی روشنی

ہر کونا منور نہیں کرتی

پر اسرار

بھید بھرے سکوت میں

ایک قطرہ آواز اور لامتناہی حدود و اربعہ

اس نے ریاست کو دہشت

سیاست کو سعادت

حکومت کو کراہت

لکھنا چاہا

تو تاریخ دانوں نے اس کے ہاتھ سے قلم چھین کر

مہر تھما دی

اس نے ہر کھوٹے کو کھرا

ارذل کو اشرف

دعا کو دغا بتانا چاہا

لیکن روشنائی روٹھ گئی

اس مہر کو عجائب گھر میں رکھنے کے بعد

وہ اپنی زبان کی تفہیم میں جٹ جائے گی

ہو سکتا ہے

تت سم اور تت بھو کے بیچ

اسے ناخواندہ قرار دیا جائے

یا پھر اس کی فرہنگ

کسی ایسی نمائش میں سجے

جہاں مری ہوئی زبانوں کے نمونے رکھے جاتے ہیں

اور ماہرینِ لسانیا سے مطالبہ کیا جاتا ہے

کہ وہ معنی دریافت کئے جائیں

جو لفظوں میں نہیں ہیں

لیکن تب تک دیر ہو چکے گی

٭٭٭

 

 

شاعرہ کے تشکر کے ساتھ جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید