فہرست مضامین
تخلیقات پطرس
حصۂ نثر
پطرس بخاری
اخبار میں ضرورت ہے
یہ ایک اشتہار ہے لیکن چونکہ عام اشتہار بازوں سے بہت زیادہ طویل ہے اس لئے شروع میں یہ بتا دینا مناسب معلوم ہوا ورنہ شاید آپ پہچاننے نہ پاتے۔ میں اشتہار دینے والا ایک روزنامہ اخبار کا ایڈیٹر ہوں۔ چند دن سے ہمارا ایک چھوٹا سا اشتہار اس مضمون کا اخباروں میں یہ نکل رہا ہے کہ ہمیں مترجم اور سب ایڈیٹر کی ضرورت ہے یہ غالباً آپ کی نظر سے بھی گزرا ہو گا اس کے جواب میں کئی ایک امیدوار ہمارے پاس پہنچے اور بعض کو تنخواہ وغیرہ چکانے کے بعد ملازم بھی رکھ لیا گیا لیکن ان میں سے کوئی بھی ہفتے دو ہفتے سے زیادہ ٹھہرنے نہ پایا آتے کے ساتھ ہی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اشتہار کا مطلب وہ کچھ اور سمجھے تھے۔ ہمارا مطلب کچھ اور تھا، مختصر سے اشتہار میں سب باتیں وضاحت کے ساتھ بیان کرنا مشکل تھا۔ جب رفتہ رفتہ ہمارا اصل مفہوم ان پر واضح ہوا یا ان کی غلط توقعات ہم پر روشن ہوئیں تو تعلقات کشیدہ ہوئے تلخ کلامی اور بعض اوقات دست درازی تک نوبت پہنچی۔ اس کے بعد یا تو وہ خود ہی ناشائستہ باتیں ہمارے منہ پر کہہ کر چائے والے کا بل ادا کئے بغیر چل دیئے یا ہم نے ان کو دھکے مار کر باہر نکال دیا۔ اور وہ باہر کھڑے نعرے لگایا کئے۔ جس پر ہماری اہلیہ نے ہم کو احتیاطاً دوسرے دن دفتر جانے سے روک دیا اور اخبار بغیر لیڈر ہی کے شائع کرنا پڑا، چونکہ اس قسم کی غلط فہمیوں کا سلسلہ ابھی تک بند نہیں ہوا اس لئے ضروری معلوم ہوا کہ ہم اپنے مختصر اور مجمل اشتہار کے مفہوم کو وضاحت کے ساتھ بیان کریں کہ ہم کس قسم کے آدمی کی تلاش ہے اس کے بعد جس کا دل چاہے ہماری طرف رجوع کرے جس کا دل نہ چاہے وہ بے شک کوئی پریس الاٹ کرا کے ہمارے مقابلے میں اپنا اخبار نکال لے۔
امیدوار کے لئے سب سے بڑھ کر ضروری یہ ہے کہ وہ کام چور نہ ہو، ایک نوجوان کو ہم نے شرع میں ترجمے کا کام دیا۔ چار دن کے بعد اس سے ایک نوٹ لکھنے کو کہا تو بپھر کر بولے کہ میں مترجم ہوں سب ایڈیٹر نہیں ہوں۔ ایک دوسرے صاحب کو ترجمے کے لئے کہا تو بولے میں سب ایڈیٹر ہوں ، مترجم نہیں ہوں ہم سمجھ گئے کہ یہ ناتجربے کار لوگ مترجم اور سب ایڈیٹر کو الگ الگ دو آدمی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے اخبار میں یہ قاعدہ نہیں ، ہم سے بحثنے لگے کہ آپ نے ہمیں دھوکا دیا ہے۔ دوسرے صاحب کہنے لگے کہ آپ کے اشتہار میں عطف کا استعمال غلط ہے ایک تیسرے صاحب ہمارے ایمان اور ہمارے صرف و نحو دونوں کی آڑ لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو ملازم ہوں گے انہیں تو وقتاً فوقتاً ساتھ کی دکان سے پان بھی لانے پڑیں گے اور اگر انہیں بحث ہی کرنے کی عادت ہے تو ہم ابھی سے کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے نزدیک سب ایڈیٹر کے معنے یہ ہیں ایڈیٹر کا اسم مخفف اخبار میں ایک عہدہ دار کا نام جو ایڈیٹر کو پان وغیرہ لا کر دیتا ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ ہمارا اخبار زنانہ اخبار نہیں لہٰذا کوئی خاتون ملازمت کی کوشش نہ فرمائیں پہلے خیال تھا کہ اشتہار میں اس بات کو صاف کر دیا جائے۔ اور لکھ دیا جائے کہ مترجم اور سب ایڈیٹر کی ضرورت ہے جو مرد ہو لیکن پھر خیال آیا کہ لوگ مرد کے معنے شاید جوانمرد سمجھیں اور اہل قلم کی بجائے طرح طرح کے پہلوان نیشنل گارڈ والے اور مجاہد پٹھان ہمارے دفتر کا رخ کریں پھر یہ بھی خیال آیا کہ آخر عورتیں آئیں گی مردوں کی ایسی بھی کیا قلت ہے لیکن ایک دن ایک خاتون آ ہی گئیں۔ پرزے پر نام لکھ کر بھیجا ہمیں معلوم ہوتا کہ عورت ہے تو بلاتے ہی کیوں ؟ لیکن آج کل کم بخت نام سے تو پتہ ہی نہیں چلتا۔ فاطمہ زبیدہ، عائشہ کچھ ایسا نام ہوتا تو میں غسل خانے کے راستے باہر نکل جاتا لیکن وہاں تو ناز جھانجھردی یا عندلیب گلستانی یا کچھ ایسا فینسی نام تھا۔ آج کل لوگ نام بھی تو عجیب عجیب رکھ لیتے ہیں غلام رسول، احمد دین، مولا داد ایسے لوگ تو ناپید ہی ہو گئے ہیں جسے دیکھئے نظامی گنجوی اور سعیدی شیرازی بنا پھرتا ہے۔ اب تو اس پر بھی شبہ ہونے لگا کہ حرارت عزیزی،نزلہ کھانسی، ثعلب مصری، ادیبوں ہی کے نام نہ ہوں عورت مرد کی تمیز تو کوئی کیا کرے گا۔ بہرحال ہم نے اندر بلایا تو دیکھا کہ عورت ہے دیکھا کے یہ معنی ہیں کہ ان کا برقعہ دیکھا اور حسنِ ظن سے کام لے کر اندازہ لگایا کہ اس کے اندر عورت ہے ہم نے بصد ادب و احترام کہا کہ ہم خواتین کو ملازم نہیں رکھتے انہوں نے وجہ پوچھی ہم نے کہا پیچیدگیاں ، کہنے لگیں آگے بولنے ہم نے کہا پیدا ہوتی ہیں۔ بھڑک کر بولیں کہ آپ بھی تو عورت کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے کیونکہ اس امر کا ہماری سوانح عمری میں کہیں ذکر نہیں اس لئے ہم تائید تردید کچھ نہ کر سکے۔ میری ولادت کو انہوں نے اپنا تکیہ کلام بنا لیا، بہتیرا سمجھایا کہ جو ہونا تھا وہ ہو گیا اور بہرحال میری ولادت کو آپ کی ملازمت سے کیا تعلق؟ اور یہ تو آپ مجھ سے کہہ رہی ہیں اگر ہمارے پروپرائٹر سے کہیں تو وہ آپ کی اور میری ہم دونوں کی ولادت کے متعلق وہ وہ نظریئے بیان کریں گے کہ آپ ہکا بکا رہ جائیں گی۔ خدا خدا کر کے پیچھا چھوٹا۔ ہمارے اخبار میں پروپرائٹر کا احترام سب سے مقدم ہے وہ شہر کے ایک معزز ڈپو ہولڈر ہیں اخبار انہوں نے محض خدمتِ خلق اور رفاہ عام کے لئے جاری کیا ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ پبلک ان کی شخصیت اور مشاغل سے ہر وقت باخبر رہے چنانچہ ان کے پوتے کا ختنہ، ان کے ماموں کا انتقال ان کے صاحبزادے کی میٹریکولیشن میں حیرت انگیز کامیابی (حیرت انگیز اس معنوں میں کہ پہلے ہی ریلے میں پاس ہو گئے )ایسے واقعات سے پبلک کو مطلع کرنا ہر سب ایڈیٹر کا فرض ہو گا نیز ہر اس پریس کانفرنس میں جہاں خورد و نوش کا انتظام بھی ہو ہمارے پروپرائٹر مع اپنے دو چھوٹے بچوں کے جن میں سے لڑکے کی عمر سال اور لڑکی کی پانچ سال ہے شریک ہوں گے اور بچے فوٹو میں بھی شامل ہوں گے اور اس پر کسی سب ایڈیٹر کو لب فقرے کسنے کی اجازت نہ ہو گی ہر بجے ہت ہی ہونہار ہیں اور حالات میں غیر معمولی دلچسپی لیتے ہیں کشمیر کے متعلق پریس کانفرنس ہوئی تو چھوٹی بچی ہندوستانیوں کی ریشہ دوانیوں کا حال سن کر اتنے زور سے روئی کہ خود سردار ابراہیم اسے گود میں لئے لئے پھرتے تو کہیں اس کی طبیعت سنبھلی۔ ہمارے اخبار کا نام ”آسمان“ ہے پیشانی پر یہ مصرعہ مندرج ہے کہ آسمان بادل کا پہلے خرقہ دیرینہ ہے اس فقرے کو ہٹا کر کوئی سب ایڈیٹر کوشش نہ فرمائیں کیونکہ یہ خود ہمارے پروپرائٹر صاحب کا انتخاب ہے ہم نے شروع شروع میں ان سے پوچھا بھی تھا کہ صاحب اس مصرعے کا اخبار سے کیا تعلق ہے کہنے لگے اخبار کا نام آسمان ہے اور اس مصرعے میں بھی آسمان آتا ہے۔ ہم نے کہا بجا لیکن خاص اس مصرعے میں کیا خوبی ہے کہنے لگے علامہ اقبال کا مصرعہ ہے۔ اور علامہ اقبال سے بڑھ کر شاعر اور کون ہے اس پر ہم چپ ہو گئے پیشانی پر اردو کا سب سے کثیر الاشاعت اخبار لکھا ہے۔ میرا تجویز کیا ہوا ہے اسے بھی بدلنے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ عمر بھر کی عادت ہے ہم نے جہاں جہاں ایڈیٹری کی اپنے اخبار کی پیشانی پر یہ ضرور لکھا۔ بعض امیدوار ایسے بھی آتے ہیں کہ ساتھ ہی ہمیں سے سوالات پوچھنے لگتے ہیں ایک سوال بار بار دہراتے ہیں کہ آپ کے اخبار کی پالیسی کیا ہے کوئی پوچھے کہ آپ کی ذات کیا ہے ہماری پالیسی میں چند باتیں تو مستقل طور پر شامل ہیں مثلاً ہم عربوں کے حامی ہیں اور امریکہ سے ہرگز نہیں ڈرتے چنانچہ ایک دن تو ہم نے پریزیڈنٹ ٹرومین کے نام اپنے اخبار میں ایک کھلی چٹھی بھی شائع کر دی لیکن عام طور پر ہم پالیسی میں جمود کے قائل ہیں اسی لئے سب ایڈیٹر کو مسلسل ہم سے ہدایات لینی پڑیں گی۔ ہفتہ رواں میں ہماری پالیسی یہ ہے کہ پنڈی گھیپ کے ہیڈ ماسٹر کو موسم سرما سے پہلے پہل یا ترقی دلوائی جائے یا ان کا تبادلہ لاہور کرایا جائے (ان کے لڑکے کی شادی ہمارے پروپرائٹر کی لڑکی سے طے پا چکی ہے اور خیال رہے کہ موسم سرما میں شادی کر دی جائے )۔ انشا کے متعلق ہمارا خاص طرز عمل ہے اور ہر سب ایڈیٹر اور مترجم کو اس کی مشق بہم پہنچانی پڑے گی۔ مثلاً پاکستان بنا نہیں معرض وجود میں آیا ہے ، ہوائی جہاز اڑتا نہیں محو پرواز ہوتا ہے۔ مترجموں کو اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا پڑے گا۔ ایک مترجم نے لکھا کہ کل مال روڈ پر دو موٹروں کی ٹکر ہوئی اور تین آدمی مر گئے۔ حالانکہ انہیں کہنا چاہئے تھے کہ دو موٹروں کے تصادم کا حادثہ رونما ہوا جس کے نتیجے کے طور پر چند اشخاص جن کی تعداد تین بتائی جاتی ہے مہلک طور پر مجروح ہوئے۔ لاہور کارپوریشن نے اعلان کیا کہ فلاں تاریخ سے ہم پالتو کتے کے گلے میں پیتل کی ایک ٹکیہ لٹکانی ضروری ہے جس پر کمیٹی کا نمبر لکھا ہو گا ایک مترجم نے یہ ترجمہ یوں کیا کہ ہر کتے کے گلے میں بلّا ہونا چاہئے حالانکہ کارپوریشن کا مطلب ہر گز یہ نہ تھا کہ ایک جانور کے گلے میں ایک دوسرا جانور لٹکا دیا جائے۔ سینما کے فری پاس سب ایڈٹر کے مشاہرے میں شامل نہیں۔ یہ پاس ایڈیٹر کے نام آتے ہیں اور وہی ان کو استعمال کرنے کا مجاز ہے ، فی الحال یہ پروپرائٹر اور ان کے اہل خانہ کے کام آتے ہیں لیکن عنقریب اس بارے میں سینما والوں سے ایک نیا سمجھوتہ ہونے والا ہے اگر کوئی سب ایڈیٹر اپنی تحریر کے زور سے کسی سینما والے سے پاس حاصل کرے تو وہ اس کا اپنا حق ہے لیکن اس بارے میں ایڈیٹر کے ساتھ کوئی مفاہمت کر لی جائے تو بہتر ہو گا، علی ہذا جو اشیاء ریویو کے لئے آتی ہیں مثلاً بالوں کا تیل، عطریات، صابن، ہاضم دوائیاں وغیرہ وغیرہ ان کے بارے میں ایڈیٹر سے تصفیہ کر لینا ہر سب ایڈیٹر کا اخلاقی فرض ہو گا۔ ممکن ہے ان شرائط کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد کوئی شخص بھی ہمارے ہاں ملازمت کرنے کو تیار نہ ہو اس کا امکان ضرور موجود ہے لیکن ہمارے لئے یہ چنداں پریشانی کا باعث نہ ہو گا ہمارے پروپرائٹر آگے ہی دو تین مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ اسٹاف بہت بڑھ رہا ہے۔ اور اسی وجہ سے انہوں نے ہماری ترقی بھی روک دی ہے عجب نہیں کہ جب ہم دفتر میں اکیلے رہ جائیں تو بات باہر نکل جاتی ہے۔ یہ معلوم کبھی نہیں ہو ا کہ بات؟ کون سی بات؟ اپنے ڈپو پر بھی وہ اکیلے ہی کام کرتے ہیں اور اس کی وجہ بھی یہی بتاتے ہیں کہ ورنہ بات باہر نکل جاتی ہے۔
دوست کے نام
از لاہور اے میرے کراچی کے دوست! چند دن ہوئے میں نے اخبار میں یہ خبر پڑھی کہ کراچی میں فنون لطیفہ کی ایک انجمن قائم ہوئی ہے جو وقتاً فوقتاً تصویروں کی نمائشوں کا اہتمام کرے گی۔ واضح طور پر معلوم نہ ہو سکا کہ اس کے کرتا دھرتا کون اہل جنون ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ آپ کو ایسی باتوں کا بے انتہا شوق ہے اور مدت سے ہے اور آپ ادب اور آرٹ کا ذوق صحیح رکھتے ہیں اس لئے مجھے یقین ہے کہ آپ اس میں ضرور شریک ہوں گے۔ بلکہ عجب نہیں کہ یہ انجمن آپ ہی کی مساعی کا نتیجہ ہو اور آپ ہی نے اپنی جاذبیت سے ایسے خوش مذاق لوگوں کو ایک نقطے پر جمع کر لیا ہو جنہیں شوق تو ہے لیکن آپ کا سا شغف نہیں۔ یہ سوچ کر بہت اطمینان ہوا کیونکہ اپنے ہم خیالوں کی ایک انجمن بنا کر آپ کو ضرور ایک گونہ تقویت قلب نصیب ہو گی ورنہ تن تنہا کتابوں اور تصویروں سے راز ونیاز کی باتیں کرتے کرتے انسان تھک جاتا ہے۔ ذوقِ سلیم کی تازگی پر تنہائی کی وحشت اور تلخی غالب آنے لگتی ہے۔ انسان دیوانہ نہیں تو علیل دماغ ضرور ہو جاتا ہے اور غالب کا ایک مصرعہ قافیہ بدل کر پڑھنے کو جی چاہتا ہے کہ:
”مقدور ہو تو ساتھ رکھوں راز داں کو میں “
لیکن اے دوست! کیا اس کام میں کسی نے آپ کی مزاحمت نہیں کی؟ کیا کسی مقامی اخبار نے جل کر نہیں لکھا کہ پاکستان پر ابتلا کا زمانہ آیا ہوا ہے اور آپ جیسے خوش فکروں کو مصوری اور نقاشی کا شوق چرایا ہے ؟ کسی نے جلتے ہوئے شہر روما اور نیرو کی سارنگی کا فقرہ نہیں کسا؟ کسی ”ستوں چشم بد دور ہیں آپ دیں کے “ نے مسجد میں وعظ کرتے ہوئے آپ کے لہو و لعب اور تفریح کو شی پر نفرین نہیں کہی؟ اور آپ پر کفر اور شرک اور الحاد کا فتویٰ لگا کر لوگوں کو آپ کے خلاف نہیں اکسایا؟ اور کچھ نہیں تو کیا کسی گھاگس مصلحت بین افسر نے ہمدردی اور تہذیب کے رکھ رکھاؤ کے ساتھ آپ کو یہ مشورہ نہیں دیا کہ برخوردار
ببانگ چنگ مخمور مے کہ مستحب تیز است؟
اور بالفرض ا ن باتوں سے بچ نکلے تو کیا ضیافت کے موقع پر کسی نیم تعلیم یافتہ ہمعصر نے جو تنخواہ میں آپ سے برتری کا دعوے دار ہے آپ کی آزاد منشی کا مضحکہ اُڑایا؟ اور جب آپ پٹے ہوئے نظر آئے تو آپ پر قہقہے بلند نہیں ہوئے ؟ اگر آپ کو ایسی منزلیں پیش نہیں آئیں تو کراچی سب سے الگ تھلگ کوئی جگہ ہو گی یا پھر بیزاری اور بد دلی پک رہی ہو گی اور آپ کو ابھی دکھائی یا سنائی نہ دی ہو گی ورنہ جس حسنِ مذاق پر آپ کو غرّہ ہے وہ تو آج کل ایک مہاجر یتیم کی طرف بھوکا اور ننگا کسی کھنڈر کے کونے میں سر بزانو دبکا بیٹھا ہے اور باہر پڑا پڑ مینہ برس رہا ہے۔ اور آندھیاں چل رہی ہیں۔ پچھلے سال قائد اعظم یہاں تشریف لائے۔ اور وہ باغ جس کو لارنس گارڈن کہا کرتے تھے اس میں جو قطعہ ”روز گارڈن“ کہلاتا تھا وہاں ایک عظیم الشان پارٹی ہوئی۔ اس دن جو پاکستانی لاہور کا پہلا جشن کا دن تھا ”روز گارڈن“ کا نام ”گلستان فاطمہ“ رکھا گیا۔ اور یہ نام ایک بورڈ پر لکھ کر باغ میں جو چھوٹی سی سرخ اینٹوں کی خوب صورت محراب استادہ ہے اس کی پیشانی پر نصب کیا گیا لیکن اس کی کتابت ایسی کریہہ اور طفلانہ تھی کہ مدرسہ کے لڑکوں کو بھی کسی انسپکٹر کی تشریف آوری پر ایسا قطعہ لٹکاتے ہوئے شرم آتی۔ ”گلستان فاطمہ“ کی بے ذوق ترکیب سے قطع نظر کیجئے اور اس کے مصنوعی پن کو جانے دیجئے جس کی بدولت نہ وہ غریب ہی اس نام سے مانوس ہوں گے جو دوپہر کے وقت درختوں کے سایے میں اپنا گرد آلود جوتا سر کے نیچے رکھ کر اس باغ میں سو جاتے ہیں۔ نہ وہ پتلون پوش ہی اس میں کوئی کشش پائیں گے جو شام کے وقت موٹروں میں سوار ہو کر یہاں ٹینس کھیلنے آتے ہیں۔ لیکن جب ان جلوے کی پیاسی گنہگار آنکھوں نے اسے یوں ایک نمایاں جگہ پر منقوش دیکھا تو نظر اور دل دونوں مجروح ہوئے ، کیونکہ ایسے شان دار موقع کے لئے اس سے بدصورت کتابت کی نمائش ذہن میں نہ آ سکتی تھی۔ مسلمان کی قوم، وہ قوم جو کئی پشتوں سے فن خوشنویسی کی علمبردار ہے جس نے قرآن پاک کے ہزاروں نسخے اور صناعی اور ہنر مندی سے لکھے کہ کاتب قدرت نے بھی ان کو آفرین کہا ہو گا۔ پنجاب کا خطہ، وہ خطہ جسے نستعلیق کی ایک جدید اور جمیل طرز کے موجو ہونے کا فخر حاصل ہے۔ لاہور کا شہر وہ شہر جہاں ہر گلی میں ایک خوش نویس رہتا ہے اور جہاں حکیم فقیر محمد مرحوم جیسے استاد فن پیدا ہوئے جن کے سامنے ہندوستان بھر کے جادو رقم زانوئے قلم تہہ کرتے تھے اور اس پر یہ حال کہ اس تقریب سعید پر اس شہر میں ، مسلم قوم کی طرف سے عقیدت اور محبت کے صرف دو لفظ لکھنے پڑیں اور ان کے بھی دائرے غلط ہوں اور نشست بے ڈھنگی ہو۔ آپ دیکھتے تو یقیناً آپ کو اس کی تہہ میں بد مذاقی کا عروج نظر آتا۔ اور آپ پژمردہ ہو جاتے اور ڈھونڈتے پھرتے کہ کس کے پاس جا کر شکایت کروں۔ اور لوگ آپ کو دیوانہ سمجھتے اور بعض ایسے بھی ہوتے کہ ایسی خردہ گیری پر آپ کو بدتمیز کہتے یا آپ سے توقع رکھتے کہ آپ ہر قباحت کو حسن سمجھیں یا حسن کہیں۔ ورنہ آپ پر پاکستان میں کیڑے ڈالنے کا الزام لگتا اور آپ کی وفا شعاری پر حرف آتا۔ اب آپ اس انجمن کے چکر میں اپنے آپ کو کسی منبر پر پائیں اور آپ کے سامنے آپ کے ہم قوم جمع ہوں اور وہ آپ کو زبان کھولنے کی اجازت دیں تو آپ جو سینے میں دردمند دل رکھتے ہیں یہ کہنے سے کیوں کر باز آئیں گے کہ اے مسلمانو! تمہارے آبا و اجداد خط اور دائرے اور خم اور زاویے کا وہ ذوق رکھتے تھے کہ دنیا میں اس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ کوئی اور طغری ٰ، نستعلیق اور نسخ، کس کس نہج سے انہوں نے ابجد سے عشق کیا ہے۔ ان کے ایوانوں میں آویزاں وصلیوں کو دیکھو، ان کے مطلّا اور مذہب نسخوں کو دیکھو ، ان کے روضوں اور محلوں ، ان کی مسجدوں اور خانقاہوں ، ان کے فرامین اور سکوں اور مہروں ، ان کی قبروں اور ان کے کتبوں کو دیکھو۔ مرگ یا زیست کا کوئی مقام، سطوت یا افلاس، مسرت یا ماتم، جشن یا یکسوئی، خلوت یا جلوت کا کوئی مقام ایسا ہے جہاں انہوں نے قلم اٹھایا ہو اور ان کے قلم نے حسین و جمیل حروف کے لافانی نقوش چوب و قرطاس و سنگ پر ثبت نہ کر دیئے ہوں۔ اب جب کہ خدا نے تمہیں اپنے کلچر کے احیا اور تحفظ کے لئے سب قوتیں تمہارے ہاتھ دے دی ہیں قسمیں کھا لو کہ اس ورثہ کو ہاتھ سے جانے نہ دو گے اور عہد کر لو کہ آج سے تمہاری دکانوں ، تمہارے مکانوں ، تمہارے دفتروں ، تمہاری کتابوں اور اخباروں اور رسالوں ، تمہاری مسجدوں اور تمہارے مزاروں ، تمہارے سر ناموں اور تمہارے نوٹس بورڈوں پر جہاں جہاں تمہارے ہاتھ ابجد کے خط کھینچیں گے ، اسلاف کا نام روشن کریں گے۔ اور جو نزاکتیں اور لطافتیں اور رعنائیاں انہوں نے صدیوں میں پیدا کی ہیں انہیں مسخ نہ ہونے دیں گے تاکہ جہاں کسی کو تمہاری تحریر نظر آئے وہ جان لے کہ یہ مسلمان کا لکھا ہوا ہے ، اس قوم کا لکھا ہوا ہے جس نے دنیا میں خوش خطی کا مرتبہ بلند کیا اور جو اب بھی اپنی حسن آفرینی پر ناز کرتی ہے۔ یہ کہنے سے آپ کیونکر باز آئیں گے ؟ لیکن کیا آپ کی بات کوئی سنے گا؟ کیا کراچی میں ہیں ایسے لوگ؟ فنون لطیفہ کی انجمن تو آپ نے بنا لی ہے۔ اور پھر خوش نویسی تک تو عافیت رہے گی لیکن کیا آگے بھی بڑھئے گا؟ تصویروں کا ذکر بھی کیجئے گا؟ اخبار میں لکھا تھا کہ آپ تصویروں کی نمائش کا اہتمام کر رہے ہیں۔ یہ سچ ہے تو اے دوست وقتاً فوقتاً مجھے اپنی خیریت سے مطلع کرتے رہئے گا۔ کیونکہ اگر کراچی سب سے الگ تھلگ کوئی جگہ نہیں تو آپ کو بے انتہا جسارت سے کام لینا پڑے گا اور عجب نہیں کہ لوگ آپ کا حال دیکھ کر عبرت پکڑا کریں۔ ہمارے ملک میں اس وقت کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں جسے صحیح معنوں میں آرٹ آ سکول کہہ سکیں۔ لاہور یونیورسٹی کے نصاب میں آرٹ بحیثیت ایک مضمون کے شامل تھا لیکن یہ ایک مخلوط سا شغل تھا جس میں تھوڑی سی موسیقی، تھوڑی سی مصوری اور کچھ صنعت اور دستکاری سب چٹکی چٹکی بھر پھینک دی گئی تھیں اور اس معجون کو ایک زنانہ مشغلہ سمجھ کر صرف لڑکیوں کے لئے مخصوص کردیا گیا۔ یہ مضمون اب بھی نصاب میں موجود ہے۔ لیکن کب تک؟ فی الحال تو ایک یورپین خاتون میسر ہیں جو یہ مضمون پڑھاتی ہیں وہ کہیں ادھر اُدھر ہو گئیں اور کوئی عورت ان کی جگہ دستیاب نہ ہوئی تو یہ قصہ بھی پاک ہو جائے گا کیونکہ لڑکیوں کو پڑھانے کا کام خدانخواستہ کسی مرد کے سپرد ہوا تو زلزلے نہ آ جائیں گے ؟ اور پھر اس مضمون کا حلیہ بھی سرعت کے ساتھ بدل رہا ہے۔ موسیقی تو تہہ کر کے رکھ دی گئی ہے کیونکہ ہو تو بھلا کسی کی مجال کہ اس کی بیٹی اس کے دستخط سے یہ لکھوا بھیجے کہ ہمیں گانے کا شوق ہے ؟ باقی رہی تصویر کشی تو ایک ملنے والے اگلے دن سنا گئے کہ ایک کالج نے کہلوا بھیجا ہے کہ ہماری لڑکیاں جان داروں کی شکلیں نہ بنائیں گی۔ چنانچہ تجویز ہو رہی ہے کہ تصویر کشی کی مشق صرف سیب، ناشپاتی، مرتبان یا پہاڑوں ، دریاؤں ، جنگل پر کی جائے۔ اس پر ایک آدھ جگہ بحث ہوئی۔ شریعت کا قدم درمیان میں آیا۔ ایک روشن خیال مولوی صاحب نے صرف اتنی ڈھیل دی کہ ہاتھ کی بنی ہوئی تصویریں تو ہرگز جائز نہیں ، فوٹو البتہ جائز ہے۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ فوٹو میں انسان کی شبیہ ہو بہو ویسی ہی ہوتی ہے۔ ہاتھ سے تصویر بنائی جائے تو اس میں جھوٹ ضرور سرایت کر جاتا ہے کسی نے کہا فوٹو بھی تو کئی حرفتوں سے لی جاتی ہے اور بعض فوٹو گرافر بھی تو بڑے فن کار ہوتے ہیں جواب ملا کہ چابکدستی اور تکلف سے کام لیا جائے تو فوٹو بھی جائز نہیں رہتا۔ غرض یہ کہ ان کے نزدیک اسی ایک فوٹوگرافر کا کام حق و راستی کا آئینہ دار ہے جو لاہور کے چڑیا گھر کے باہر چار آنے میں تصویر کھینچتا ہے۔ یہ حال تو جان دار اشیاء کا ہے باقی رہے جنگل، پہاڑ، دریا تو وہاں بھی ایک نہ ایک دن کوئی کوتوال حق بین مصوروں کے ”جھوٹ“ کو گردن سے جا دبوچے گا۔ اور آپ چیختے اور سسکتے رہ جائیں گے کہ یہ وین گوگ ہے ! یہ تو بہت بڑا آرٹسٹ ہے ! اور آپ کے ہاتھوں سے تصویر نوچ کر پھاڑ دی جائے گی۔ ان حالات میں چغتائی کے جینے کا امکان بہت کم ہے۔ کوئی بات ”سچ“ بھی ہوتی ہے اس کی تصویروں میں ؟ درخت تک تو مجنوں کی انگلیاں معلوم ہوتے ہیں۔ اور پھر انسانوں کی تصویریں بنانے سے بھی تو وہ نہیں چوکتا اور صرف مرد ہی نہیں بلکہ عورتیں بھی۔ غزال، چشم، سینہ چاک اور بعض اوقات محرم کے بند تک دکھائی دے جاتے ہیں۔ گو یقین سے کچھ کہنا مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ چغتائی کی تصویروں میں تسمے ، ڈوریاں ، پھندنے بہت ہوتے ہیں ، اور سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ تکمہ یا ڈوری لیلیٰ کے لباس کا حصہ ہے یا ناقہ کے ساز و سامان کا۔ لیکن چغتائی کی وجہ سے ایک سہولت ضرور نظر آتی ہے وہ یہ کہ لے دے کر یہی ایک ہمارا مصور ہے اسے دفن کر دیا تو یہ وبا فوراً تھم جائے گی۔ اور ہماری مصوری ایک ہی ضرب سے ہمیشہ کے لئے پاک ہو جائے گی۔ باقی رہی مغلوں کی قدیم تصویریں یا ایرانی مصوروں کے قدیم نمونے جو چند لوگوں کے پاس بطور تبرک محفوظ ہیں یا جن کی انڈیا آفس کے عجائب خانے کی تقسیم کے بعد پاکستان کو مل جانے کی امید ہے تو ان کو کسی اور ملک کے ہاتھ بیچ کر دام وصول کئے جا سکتے ہیں۔ کیا کراچی میں لوگوں کا یہ خیال نہیں ؟ اگر نہیں تو کراچی سب سے الگ تھلگ کوئی جگہ ہو گی۔ لیکن یہ کیونکر ہو سکتا ہے ؟ کراچی کون سا ایسا جزیرہ ہے اور کون سے گم شدہ براعظم میں واقع ہے کہ اردگرد کے سمندر کی کوئی لہر وہاں تک نہ پہنچ سکے گی؟ آپ کو تعمیر اور تخلیق کی سوجھ رہی ہے لیکن یہاں تو تخریب کا دور دورہ ہے۔ ہاتھوں سے لٹھ چھین کر اس کی جگہ قلم اور موقلم آپ کیونکر رکھ دیں گے ؟ آپ کوئی سا ہیجان پیدا کیجئے۔ آپ کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ تخریب کی راہ اختیار کر لیتا ہے۔ لوگ جس چیز کا نعرہ لگا کر اٹھتے ہیں سب سے پہلے اسی چیز کا خون کر لیتے ہیں۔ آپ کہئے کہ رمضان کا احترام واجب ہے تو لوگ ٹولیاں بنا بنا کر بازاروں میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ کس کا منہ کالا کریں۔ آپ اسلام کی دعوت دیجئے تو تلاشی شروع ہو جاتی ہے کہ کس کے درّے لگائیں ؟ کسے سنگسار کریں ؟ آپ حیا کی تلقین کیجئے تو لوگ سر بازار عورتوں کے منہ پر تھوکنے لگتے ہیں اور بچیوں پر اپنا بہیمانہ زور آزماتے ہیں :
مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی اس دور کے ملّا ہیں کیوں ننگ مسلمانی؟
ایسے غیظ و غضب کی فضا میں بھی آج تک کہیں آرٹ پنپا ہے ؟ آرٹ کے لئے تو ضبط اور نسق اور استحکام اور اخلاق اور فروغ لازم ہیں یا پھر کوئی ولولہ کوئی امنگ کوئی عشق جو دلوں کے دروازے کھول دے اور ان میں سے شعر و سخن، نغمہ و رنگ کے طوفان اچھل اچھل کر باہر نکل پڑیں۔ کیا کبھی آرٹ ایسے میں بھی پنپتا ہے ؟ کہ ہر بڑے کو دولت اور اقتدار کی ہوس نے اندھا اور بہرہ کر رکھا ہے اور ہر چھوٹا اپنی بے بضاعتی کا بدلہ ہر ہمسائے اور راہگیر سے لینے پر تُلا ہو، نہ کوئی اقتصادی نظام ایسا ہو کہ ہر چیز کی پوری قیمت اور ہر قیمت کی پوری چیز نصیب ہو اور لوگ فاقے کے ڈر سے نجات پا کر قناعت کی گود میں ذرا آنکھ جھپک لیں نہ کوئی اخلاقی نظام ایسا ہو کہ لوگوں کو اس دنیا یا اس دنیا میں کہیں بھی جزا و سزا کی امید یا خوف ہو نہ مسرت کا کوئی ایسا جھونکا آئے کہ درختوں کی ٹہنیاں مست ہو کر جھومیں اور پتوں کی سرسراہٹ سے آپ ہی آپ نغمے پیدا ہوں۔ نہ عافیت کا کوئی گوشہ ایسا ہو جہاں آپ کا شکار معتکف ہو کر بیٹھ جائے اور آپ کے لئے تصویریں بناتا رہے۔ نہ آس پاس کوئی ایسی نرالی بستی ہو جہاں شاعر غریب شہر بن کر گھومتا پھرے اور لوگ اسے دیوانہ اجنبی سمجھ کر اسے بک لینے دیں۔ فنون لطیفہ کی انجمن تو آپ نے بنا لی ہے لیکن ڈرتا ہوں کہ کہیں پہلا کام اس انجمن کا یہ نہ ہو کہ چند تصویروں کو مخرب اخلاق اور عریاں کہہ کر جلا دیا جائے۔ چند مصوروں پر اوباشی اور بے دینی کی تہمت لگا کر انہیں ذلیل کیا جائے۔ یا پھر ان پر ایسے لوگ مسلط کر دیئے جائیں جو ان کے ہنر کو کھردری سے کھردری کسوٹیوں پر پرکھیں اور ان پر واضح کر دیں کہ جس برتری کا انہیں دعویٰ تھا اس کا دور اب گزر گیا:
ہیں اہل خرد کس روشِ خاص پہ نازاں پابستگیٴ رسم و رہِ عام بہت ہے
میں جانتا ہوں کہ آپ آرٹ کو عشرت نہیں سمجھتے ، اسے محض امارت کا دل بہلاوا نہیں سمجھتے۔ آپ ایسے نہیں کہ آپ کو جاندار ہی کی تصویر پر اصرار ہو یا محض تصویر ہی پر اصرار ہو۔ حسن کو اختیار ہے جہاں چاہے رہے جو شکل چاہے اختیار کرے صرف یہ ہے کہ زندہ رہے اور امیر غریب، چھوٹے ، بڑے ، ادنیٰ، اعلیٰ سب پر اپنی بخششیں ارزانی فرمائے۔ ایک زمانہ تھا کہ آرٹ اور صنعت و حرفت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ تھا۔ آپ تو اس عہدِ زریں کو واپس لانا چاہتے ہوں گے۔ تاکہ آرٹ کا جلوہ بچوں کے کھلونوں میں ، کسانوں کے تہمد میں ، سیلانی کے ہاتھ کی چھڑی میں ، پنہاری کے مٹی کے گھڑوں میں ، غرض زندگی کے ہر گوشے میں نور پاش ہو لیکن جو ننھی ننھی شمعیں یہاں وہاں ٹمٹما رہی ہیں انہیں ہی بجھا دیا گیا تو لاکھوں انسانوں کی زندگیاں جو ابھی تک تاریک پڑی ہیں وہ کیسے جگمگائیں گی؟ کیا کراچی میں جو آپ کے ہم جلیس ہیں انہیں اس بات کا احساس ہے ؟ اگر ہے تو انہیں بتا دیجئے کہ آرٹ کی ایک مسکراہٹ کے لئے انہیں س ب یگانۂ تبسم ماحول میں کئی صحرا چھاننے پڑیں گے۔
فرحتے نیت کہ در پہلوئے آں صد غم نیست روز مولود جہاں کم ز شب ماتم نیست
اگر یہ محض میرا وہم ہے تو اے میرے دوست پھر کراچی سب سے الگ تھلگ کوئی جگہ ہو گی تو پھر اے دوست ہم سب کو وہاں بلا لیجئے یا کراچی کو اتنا وسیع کیجئے کہ ہم سب اس میں سما جائیں۔ کراچی میں آپ نے بہت کچھ رسوخ پیدا کر لیا ہو گا۔ آپ کے اخلاص اور اصابت رائے کے سب لوگ قائل ہوں گے۔ بڑے بڑے افسروں سے آپ کی ملاقات ہو گی، بڑے بڑے ارباب حل و عقد کا قرب نصیب ہو گا۔ ان سے کہئے کہ:
منزل راہرواں دور بھی دشوار بھی ہے کوئی اس قافلہ میں قافلہ سالار بھی ہے ؟
(نقوش جشنِ آزادی نمبر ۱۹۴۸ء) * *
بچے
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ بچوں کی کئی قسمیں ہیں مثلاً بلی کے بچے ، فاختہ کے بچے وغیرہ۔ مگر میری مراد صرف انسان کے بچوں سے ہے ، جن کی ظاہرہ تو کئی قسمیں ہیں ، کوئی پیارا بچہ ہے اور کوئی ننھا سا بچہ ہے۔ کوئی پھول سا بچہ ہے اور کوئی چاند سا بچہ ہے۔ لیکن یہ سب اس وقت تک کی باتیں ہیں۔ جب تک برخوردار پنگوڑے میں سویا پڑا ہے۔ جہاں بیدار ہونے پر بچے کے پانچوں حواس کام کرنے لگے ، بچے نے ان سب خطابات سے بے نیاز ہو کر ایک الارم کلاک کی شکل اختیار کر لی۔ یہ جو میں نے اوپر لکھا ہے کہ بیدار ہونے پر بچے کے پانچوں حواس کام کرنے لگتے ہیں یہ میں نے اور حکماء کے تجربات کی بنا پر لکھا ہے ورنہ حاشا و کلاء میں اس بات کا قائل نہیں۔ کہتے ہیں بچہ سنتا بھی ہے اور دیکھتا بھی ہے لیکن مجھے آج تک سوائے اس کی قوت ناطقہ کے اور کسی قوت کا ثبوت نہیں ملا۔ کئی دفعہ ایسا اتفاق ہوا ہے کہ روتا ہوا بچہ میرے حوالے کر دیا گیا ہے کہ ذرا اسے چپ کرانا، میں نے جناب اس بچے کے سامنے گانے گائے ہیں ، شعر پڑھے ہیں ، ناچ ناچے ہیں ، تالیاں بجائی ہیں ، گھٹنوں کے بل چل کر گھوڑے کی نقلیں اتاری ہیں ، بھیڑ بکری کی سی آوازیں نکالی ہیں ، سر کے بل کھڑے ہو کر ہوا میں بائیسکل چلانے کے نمونے پیش کئے ہیں۔ لیکن کیا مجال جو اس بچے کی یکسوئی میں ذرا بھی فرق آیا ہو یا جس سُر پر اس نے شروع کیا تھا اس سے ذرا بھی نیچے اُترا ہو اور خدا جانے ایسا بچہ دیکھتا ہے اور سنتا ہے تو کس وقت؟ بچے کی زندگی کا شاید ہی کوئی لمحہ ایسا گزرتا ہو جب اس کے لئے کسی نہ کسی قسم کا شور ضروری نہ ہو۔ اکثر اوقات تو وہ خود ہی سامعہ نوازی کرتے رہتے ہیں ورنہ یہ فرض ان کے لواحقین پر عائد ہوتا ہے۔ ان کو سلانا ہو تو لوری دیجئے۔ ہنسانا ہو تو مہمل سے فقرے بے معنی سے بے معنی منہ بنا کر بلند سے بلند آواز میں ان کے سامنے دہرائیے اور کچھ نہ ہو تو شغل بے کاری کے طور پر ان کے ہاتھ میں ایک جھنجھنا دے دیجئے۔ یہ جھنجھنا بھی کم بخت کسی بے کار کی ایسی ایجاد ہے کہ کیا عرض کروں یعنی ذرا سا آپ ہلا دیجئے لڑھکتا چلا جاتا ہے اور جب تک دم میں دم ہے اس میں سے ایک ایسی بے سری، کرخت آواز متواتر نکلتی رہتی ہے کہ دنیا میں شاید اس کی مثال محال ہے اور جو آپ نے مامتا یا ”باپتا“ کے جوش میں آ کر برخوردار کو ایک عدد وہ ربڑ کی گڑیا منگوا دی جس میں ایک بہت ہی تیز آواز کی سیٹی لگی ہوتی ہے تو بس پھر خدا حافظ۔ اس سے بڑھ کر میری صحت کے لئے مضر چیز دنیا میں اور کوئی نہیں۔ سوائے شاید اس ربڑ کے تھیلے کے جس کے منہ پر ایک سیٹی دار نالی لگی ہوتی ہے اور جس میں منہ سے ہوا بھری جاتی ہے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو والدین کہلاتے ہیں۔ بدقسمت ہیں تو وہ بے چارے جو قدرت کی طرف سے اس ڈیوٹی پر مقرر ہوئے ہیں کہ جب کسی عزیز یا دوست کے بچے کو دیکھیں تو ایسے موقع پر ان کے ذاتی جذبات کچھ ہی کیوں نہ ہوں وہ یہ ضرور کہیں کہ کیا پیارا بچہ ہے۔ میرے ساتھ کے گھر ایک مرزا صاحب رہتے ہیں۔ خدا کے فضل سے چھ بچوں کے والد ہیں۔ بڑے بچے کی عمر نو سال ہے۔ بہت شریف آدمی ہیں۔ ان کے بچے بھی بے چارے بہت ہی بے زبان ہیں۔ جب ان میں سے ایک روتا ہے تو باقی کے سب چپکے بیٹھے سنتے رہتے ہیں۔ جب وہ روتے روتے تھک جاتا ہے تو ان کا دوسرا برخوردار شروع ہو جاتا ہے۔ وہ ہار جاتا ہے تو تیسرے کی باری آتی ہے ، رات کی دیوٹی والے بچے الگ ہیں۔ ان کا سُر ذرا باریک ہے۔ آپ انگلیاں چٹخوا کر، سر کی کھال میں تیل جھسوا کر، کانوں میں روئی دے کر، لحاف میں سر لپیٹ کر سوئیے ، ایک لمحے کے اندر آپ کو جگا کے اُٹھا کے بٹھا نہ دیں تو میرا ذمہ۔ ان ہی مرزا صاحب کے گھر پہ جب میں جاتا ہوں تو ایک ایک بچہ کو بلا کر پیار کرتا ہوں۔ اب آپ ہی بتائیے میں کیا کروں۔ کئی دفعہ دل میں آیا مرزا صاحب سے کہوں حضرت آپ کی ان نغمہ سرائیوں نے میری زندگی حرام کر دی ہے ، نہ دن کو کام کر سکتا ہوں نہ رات کو سو سکتا ہوں۔ لیکن یہ میں کہنے ہی کو ہوتا ہوں کہ ان کا ایک بچہ کمرے میں آ جاتا ہے اور مرزا صاحب ایک والدانہ تبسم سے کہتے ہیں۔ اختر بیٹا!ان کو سلام کرو، سلام کرو بیٹا، ان کا نام اختر ہے۔ صاحب بڑا اچھا بیٹا ہے۔ کبھی ضد نہیں کرتا، کبھی نہیں روتا، کبھی ماں کو دق نہیں کرتا۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ وہی نالائق ہے جو رات کو دو بجے گلا پھاڑ پھاڑ کے روتا ہے۔ مرزا صاحب قبلہ تو شاید اپنے خراٹوں کے زور شور میں کچھ نہیں سنتے ، بدبختی ہماری ہوتی ہے لیکن کہتا یہی ہوں کہ ”یہاں آؤ بیٹا“ گھٹنے پر بٹھا کر اس کا منہ بھی چومتا ہوں۔ خدا جانے آج کل کے بچے کس قسم کے بچے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہم بقر عید کو تھوڑا سا رو لیا کرتے تھے اور کبھی کبھار کوئی مہمان آ نکلا تو نمونے کے طور پر تھوڑی سی ضد کر لی، کیونکہ ایسے موقعہ پر ضد کارآمد ہوا کرتی تھی۔ لیکن یہ کہ چوبیس گھنٹے متواتر روتے رہیں۔ ایسی مشق ہم نے کبھی بہم نہ پہنچائی تھی۔
* *
اب اور تب
جب مرض بہت پرانا ہو جائے اور صحت یابی کی کوئی امید باقی نہ رہے تو زندگی کی تمام مسرتیں محدود ہو کر بس یہیں تک رہ جاتی ہیں کہ چارپائی کے سرہانے میز پر جو انگور کا خوشا رکھا ہے اس کے چند دانے کھا لئے ، مہینے دو مہینے کے بعد کوٹھے پر غسل کر لیا یا گاہے گاہے ناخن ترشوا لئے۔ مجھے کالج کا مرض لاحق ہوئے اب کئی برس ہو چکے ہیں۔ شباب کا رنگین زمانہ امتحانوں میں جوابات لکھتے لکھتے گزر گیا۔ اور اب زندگی کے جو دو چار دن باقی ہیں وہ سوالات مرتب کرتے کرتے گزر جائیں گے۔ ایم اے کا امتحان گویا مرض کا بحران تھا۔ یقین تھا کہ اس کے بعد یا مرض نہ رہے گا یا ہم نہ رہیں گے۔ سو مرض تو بدستور باقی ہے اور ہم… ہر چند کہیں کہ ہیں …نہیں ہیں۔ طالب علمی کا زمانہ بے فکری کا زمانہ تھا۔ نرم نرم گدیلوں پر گزرا ،گویا بستر عیش پر دراز تھا۔ اب تو صاحبِ فراش ہوں۔ اب عیش صرف اس قدر نصیب ہے کہ انگور کھا لیا۔ غسل کر لیا۔ ناخن ترشوا لئے۔ تمام تگ و دو لائبریری کے ایک کمرے اور اسٹاف کے ایک ڈربے تک محدود ہے اور دونوں کے عین درمیان کا ہر موڑ ایک کمین گاہ معلوم ہوتا ہے۔ کبھی راوی سے بہت دلچسپی تھی۔ روزانہ علی الصباح اس کی تلاوت کیا کرتا تھا اب اس کے ایڈیٹر صاحب سے ملتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ کہیں نہ کہیں سلام روستائی کھینچ ماریں گے۔ ہال میں سے گزرنا قیامت ہے۔ وہم کا یہ حال ہے کہ ہر ستون کے پیچھے ایک ایڈیٹر چھپا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ کالج کے جلسوں میں اپنی دریدہ دہنی سے بہت ہنگامہ آرائیاں کیں۔ صدر جلسہ بننے سے ہمیشہ گھبرایا کرتا ہوں کہ یہ ”دہن سگ بہ لقمہ دوختہ بہ“ والا معاملہ ہے۔ اب جب کبھی جلسہ کا سن پاتا ہوں ایک خنک سا ضعف بدن پر طاری ہو جاتا ہے۔ جانتا ہوں کہ کرسیِ صدارت کی سولی پر چڑھنا ہو گا اور سولی بھی ایسی کہ انا الحق کا نعرہ نہیں لگا سکتا۔ قاضی صاحب قبلہ نے اگلے دن کالج میں ایک مشاعرہ کیا۔ مجھ سے بدگمانی اتنی کہ مجھے اپنے عین مقابل ایک نمایاں اور بلند مقام پر بٹھا دیا اور میری ہر حرکت پر نگاہ رکھی۔ میرے اردگرد محفل گرم تھی اور میں اس میں کنچن چنگا کر طرح اپنی بلندی پر جما بیٹھا تھا۔ جس دن کالج میں تعطیل ہوا کرتی مجھ پر اداسی سی چھا جاتی۔ جانتا کہ آج کے دن تہمد پوش، تولیہ بردار، صابن نواز ہستیاں دن کے بارہ ایک بجے تک نظر آتی رہیں گی۔ دن بھر لوگ گنے چوس چوس کر جا بجا پھوگ کے ڈھیر لگا دیں گے۔ جو رفتہ رفتہ آثار صنادید کا سا مٹیالا رنگ اختیار کر لیں گے۔ جہاں کسی کو ایک کرسی اور اسٹول میسر آگیا وہیں کھانا منگوا لے گا اور کھانا کھا چکنے پر کوؤں اور چیلوں کی ایک بستی آباد کرتا جائے گا تاکہ دنیا میں نام برقرار رہے۔ اب یہ حال ہے کہ مہینوں سے چھٹی کی تاک میں رہتا ہوں۔ جانتا ہوں کہ اگر اس چھٹی کے دن بال نہ کٹوائے تو پھر بات گرمی تعطیلات پر جا پڑے گی۔ مرزا صاحب سے اپنی کتاب واپس نہ لایا تو وہ بلا تکلف ہضم کر جائیں گے۔ مچھلی کے شکار کو نہ گیا تو پھر عمر بھر زندہ مچھلی دیکھنی نصیب نہ ہو گی۔ اب تو دلچسپی کے لئے صرف یہ باتیں رہ گئی ہیں کہ فورتھ ائیر کی حاضری لگانے لگتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اس دروازے کے پاس جو نوجوان سیاہ ٹوپی پہنے بیٹھے ہیں اور اس دروازے کے پاس جو نوجوان سفید پگڑی پہنے بیٹھے ہیں۔ حاضری ختم ہونے تک یہ دونوں جادو کی کرامات سے غائب ہو جائیں گے اور پھر ان میں سے ایک صاحب تو ہال میں نمودار ہوں گے اور دوسرے بھگت کی دکان میں دودھ پیتے دکھائی دیں گے۔ آج کل کے زمانے میں ایسی نظر بندی کا کھیل کم دیکھنے میں آتا ہے۔ یا صاحبِ کمال کے کرتب کا تماشا کرتا ہوں جو عین لیکچر کے دوران میں کھانستا کھانستا یک لخت اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور بیماروں کی طرح دروازے تک چل کر وہاں سے پھر ایسا بھاگتا ہے کہ پھر ہفتوں سراغ نہیں ملتا۔ یا ان اہل فن کی داد دیتا ہوں جو روزانہ دیر سے آتے ہیں اور یہ کہہ کر اپنی حاضری لگوا لیتے ہیں کہ صاحب غریب خانہ بہت دور ہے۔ جانتا ہوں کہ دولت خانہ ہاسٹل کی پہلی منزل پر ہے لیکن منہ سے کچھ نہیں کہتا۔ میری بات پر یقین انہیں بھلا کیسے آئے گا اور کبھی ایک دو منٹ کو فرصت نصیب ہو تو دل بہلانے کے لئے یہ سوال کافی ہے کہ ہال کی گھڑی مینار کی گھڑی سے تین منٹ پیچھے ہے۔ دفتر کی گھڑی ہال کی گھڑی سے سات منٹ آگے ہے۔ چپڑاسی نے صبح دوسری گھنٹی مینار کے گھڑیال سے پانچ منٹ پہلے بجائی اور تیسری گھنٹی ہال کی گھڑی سے نو منٹ پہلے تو مرکب سود کے قاعدے سے حساب لگا کر بتاؤ کہ کس کا سر پھوڑا جائے۔ وہی میں نے کہا نا کہ انگور کھا لیا، غسل کر لیا، ناخن ترشوا لئے۔
دل نے دنیا نئی بنا ڈالی اور۔ ۔ ہمیں آج تک خبر نہ ہوئی
پطرس نے اس جگہ یہی کرنے کی کوشش کی ہے۔ (راوی ۱۹۲۹ء)
سر محمد اقبال
"وہ انسان جس نے اردو شاعری کو مردانہ پن بخشا”۔
اقبال کی وفات سے ہندوستان ایک جلیل القدر شاعر سے کہیں زیادہ با عظمت ہستی سے محروم ہو گیا۔ وہ بطور ایک عالم اور تاریخ، فلسفہ اور مذہب کے سرگرم طالب علم بھی ان لوگوں کے لئے جو اپنی محدود قابلیت کے سبب اس کی اعلیٰ شاعری تک رسائی سے قاصر تھے، منبع فیض وجود تھا۔ بطور شاعر اگرچہ اس کا مقام نہایت بلند تھا لیکن ادبی اور عمرانی دنیا میں اثر و نفوذ کے لحاظ سے اس کا مقام اس سے بھی بلند تر تھا۔ اس کی وفات سے جہاں مسلمانوں سے ایک فصیح اللسان پیغامبر اور ان کی تہذیب کا ایک بہت بڑا شارح چھن گیا ہے وہاں اردو شاعری سے خدا معلوم کتنی دراز مدت کے لئے اہمیت اور منزلِ مقصود چھن گئی۔
کم و بیش چالیس سال گزرے جب اقبال کی شاعرانہ زندگی کا آغاز ہوا۔ اس وقت اردو شاعری اگرچہ لوگوں میں مقبول تھی اور ہر کس و نا کس اس سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ اس کا مقصد خود زندگی نہیں بلکہ محض زندگی کے حاشیہ کی تزئین سمجھا جاتا تھا۔ اگرچہ یہ مقبول عام فن تھا مگر یہ فن محض فن کی خاطر اختیار کیا جاتا تھا۔ اس وقت شاعری کیا تھی؟ محض جذبات انگیز عیاشی، نرم و نازک، دل خوش کن، مزاحیہ یا ہجویہ، لیکن سراسر بے ربط۔ اسی لئے اس کے اختیار کرنے میں سنجیدگی اور متانت سے کام لینے کی ضرورت نہ سمجھی جاتی۔
لیکن مسلمانوں کے دلوں میں ایک نیا احساس کروٹیں لے رہا تھا۔ اور لوگوں کی زبان پر تعمیرات ملت اور ترقی کے الفاظ آنے شروع ہو گئے تھے۔ ان میں جو زیادہ ذکی الحس واقع ہوئے تھے۔ انہوں نے آرٹ کو پھر ڈھونڈ نکالا کہ یہ بھی انسان کے زیادہ اہم مشاغل میں سے ایک ہے اور اس کو اعلیٰ سنجیدگی اور مقصد و مدعا سے معمور کرنے کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ حالی ایسا غزل گو عہد شباب کی ہوس کاریوں سے تائب ہو کر مشہور زمانہ مسدّس کا مصنف بن گیا۔ جس نے خوابِ غفلت کے متوالے ہندوستانی مسلمانوں کو اس طرح جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگایا کہ کوئی ایک نظم نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد ایسا کر سکی۔ ان ہی حالات میں اقبال جس نے اسی فرسودہ ڈگر پر اپنی شاعری شروع کی تھی، محسوس کرنے لگا کہ اس کا دل مسلمانوں کے احیا اور ان کی نئی زندگی کے خواب سے مضطرب اور بےقرار ہے۔
ہندوستان ہمارا
اقبال کی ابتدائی نظموں سے ہی جو اس رجحان کے ماتحت لکھی گئیں۔ اس کے ولولہ، عمل سے بےتاب دل اور اپنے وطن کے لئے جذباتِ محبت کا پتہ لگتا ہے اس کی نظم:
”سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے“
اب تک فرقہ وارانہ اتحاد کی سب سے زیادہ پُر اثر اپیل ہے جو کسی محب وطن کے قلم سے نکلی ہو۔ اور اس کا شہرہ آفاق گیت ”ہندوستان ہمارا“ میرے خیال میں بہترین قومی گیت ہے جس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا اور جس سے بہتر گیت کی شاید مدت مدید تک بننے کی امید نہیں ہو سکتی۔ لیکن مذہب اسلام کے غائر مطالعہ نے جو اقبال نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک مسلسل جاری رکھا۔ اس کے افق خیال کو وسعت بخشی۔ وطن اور ملک کی نسبت سے قوموں کا تصور اس کی فطرت کے خلاف تھا۔ اپنی شاعری اور اپنی گفتگو میں وہ ہمیشہ یورپ کی مثال دے کر انسانوں کو ملکوں اور وطنوں کے تنگ دائروں میں تقسیم کرنے کی بیہودگی ثابت کیا کرتا۔ وہ ایک ایسے تمدنی نصب العین کا قائل تھا جو انسانوں کو وطنوں اور قوموں کے اختلافات کی سطح سے بلند کر دے اور جو زندگی کو ایک مقصود مدعا بخشے کیونکہ اس کے نزدیک آرٹ کا با مقصد ہونا محض زندگی کے اصول علت العلل کا جزو لاینفک تھا۔ اسی قسم کی ہمہ گیری اور با مقصدیت انہیں نظر آئی تو اسلام میں یا چند جرمن فلسفیوں کی تعلیمات میں جن سے وہ بے دریغ اپنی شاعری میں استفادہ کرتا رہا۔
مجازی خیالی دنیا
جس دور سے ہم ہندوستان میں گزر رہے ہیں اگرچہ اس میں بڑے بڑے امکانات پوشیدہ ہیں تاہم اس میں ایک خاص غم ناک کیفیت موجود ہے۔ ہم میں شاید ہی کوئی فن کار ایسا ہو جس کے فن میں گھر کے لئے اداسی بطور مرض کے موجود ہو۔ ہم دور دراز خیالی دنیاؤں کے آرزومند ہیں۔ اور خواہ وہ دنیائیں خیالی ہوں یا حقیقی۔ ان کی زمانی یا مکانی دوری ہی ان کے اندر ایک بے پناہ دلکشی پیدا کر دیتی ہے۔ اقبال نے اسلام کے ابتدائی زمانے پر پُر شوق نظر ڈالی۔ اس کی آرزو تھی کہ وہ اس عہد کے مسلمانوں کی سادگی، بلند ہمتی، ایمان اور عزم و استقلال کو دوبارہ پیدا کر سکے۔ ایک عالمگیر تمدن کے لئے اس کی دلی خواہش انسان کی تقدیر میں اس کا زبردست ایمان، انسان کے ارتقا میں اس کا پختہ یقین کہ وہ مقصد کی بلندیوں کو منزل بمنزل طے کرتا ہوا کمال کی چوٹیوں پر پہنچ سکتا ہے ان شرائط کے مطابق جو مسلم گھرانے میں پیدائش کے سبب اور اسلامی تعلیمات اس کے ذہن نشین ہو چکی تھیں۔ ان سب باتوں نے اس کی شاعری کو اسلامی رنگ دے دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان میں اس کے بعض قدر دان اس سے چھن گئے۔
کسی شاعر کے کلام کی قدر اور اس کے اعتقاد کے باہمی تعلق کی بحث پرانی چیز ہے اور میں اس کے متعلق یہاں کچھ نہ کہوں گا۔ مگر اس میں شک نہیں کہ کچھ نہ کچھ ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں جو صرف اس لئے ملٹن کی شاعری سے لطف اندوز نہ ہوں کہ وہ اس کے مذہبی عقائد سے متفق نہیں یا جو شیکسپیئر کا کلام محض اس لئے پڑھنا گوارا نہ کریں کہ وہ اس کی شاہ پرستانہ خیالات کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن دوسرے لوگوں کے لئے جو کولرج کے لفظوں میں کسی شاعر کے کلام کا مطالعہ کرتے وقت ”انکار کو عمداً معطل کر دیتے ہیں“ اقبال رہتی دنیا تک مشرق کا سب سے زیادہ ولولہ خیز شاعر رہے گا۔
فارسی اور اردو
اس کے بعض ہم وطنوں کی بدقسمتی ہے کہ اقبال کے بہترین کلام کا زیادہ تر حصہ فارسی میں ہے اور اس کی صرف ایک طویل نظم اسرارِ خودی کا ترجمہ جو پروفیسر نکلسن نے کیا ہے، انگریزی زبان میں ملتا ہے۔ تاہم اس کا ابتدائی کلام جو اردو میں ہے وہی اس کی ہندوستانی شاعروں میں ایک بلند مقام دینے کے لئے کافی ہے۔ لیکن خواہ اس نے اپنی نظمیں اردو میں لکھی، خواہ فارسی میں، اس کا اردو شاعری پر گہرا اور مسلسل اثر پڑتا رہا۔ پیدائش کے لحاظ سے وہ پنجابی تھا (اصل میں اقبال کشمیری اور ذات کا سپرو تھا) اسی لئے اس کے یوپی کے نکتہ چیں اس کو ہمیشہ یہ حقیقت ایسے لفظوں میں یاد دلاتے رہے جن میں انصاف کم اور تلخی زیادہ ہوتی تھی اور اس کی شاعری کی زبان کو ٹکسال باہر ہونے کا طعنہ دیتے رہتے۔ اور یہ باوجود اس حقیقت کے کہ وہ داغ کا معنوی فرزند تھا۔ جو اردو زبان کا مسلمہ بادشاہ ہوا ہے لیکن اس کی غیر معمولی قابلیت نے اس کے نکتہ چینوں کو جلدی خاموش کر دیا۔ اور اس کی طرز شاعری کے بےشمار پہلو ملک کے طول و عرض میں پیدا ہو گئے۔ اگر افراد کی وسیع اثرات کا تذکرہ کرنا اندیشناک نہ ہو تو اس ضمن میں تین ہستیوں کا نام لیا جا سکتا ہے جنہوں نے اپنے اپنے رنگ میں اردو ادب کو نئی اور مختار صورت بخشی ہے۔ مولانا ظفر علی خان نے زمیندار کے ابتدائی ایام میں اس میں مضمون لکھ لکھ کے اردو صحافت کو ایک ایسی زور دار اور لچکیلی زبان سے مالامال کیا جس سے وہ پہلے قطعاً ناواقف تھی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اردو نثر کو وہ شوکت، فراوانی اور شیرنی بخشی جس کا راز انہوں نے عربی زبان کے مطالعہ کرتے وقت پا لیا تھا لیکن چٹپٹے مضامین یا پُر اثر وعظوں کی نسبت شاعری لوگوں کے دلوں میں زیادہ دیرپا اثر رکھتی ہے اور شاعر زبان پر زیادہ گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ جدید اردو کے بنانے والوں میں اقبال (اور اسی طرح اس کا پیش رو غالب) ابھی تک سب سے نمایاں اور زبردست اثر ڈال رہا ہے۔ ہزاروں ترکیبیں اور الفاظ جو ان دونوں استادان فن نے گڑھے یا اپنے فارسی کے پیشرو استادوں سے مستعار لئے آج بھی اردو تحریر اور تقریر میں ان کی گونج سنائی دے رہی ہے۔
(پطرس کے انگریزی مضمون کا ترجمہ از صوفی ریاض حسین)
کچھ عصمت چغتائی کے بارے میں
عصمت چغتائی کے افسانہ میں ایک لڑکی دوسری کے متعلق کہتی ہے کہ ”سعیدہ موٹی تھی تو کیا، کمزور تو حد سے زیادہ تھی بےچاری۔ لوگ جسم دیکھتے ہیں یہ نہیں دیکھتے جی کیسا ہر وقت خراب رہتا ہے“۔ جب میں نے عصمت کی کلیاں اور چوٹیں دونوں مجموعے ختم کر لئے اور جو چند دیباچے اور مضامین ان کے مداحین اور معترضین نے ان پر از رہ تنقید و تعارف لکھے ہیں ان سے بہرہ یاب ہو چکا تو استعارے کے رنگ میں یہ فقرہ پھر یاد آیا۔ ”لوگ جسم دیکھتے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ جی کیسا ہر وقت خراب رہتا ہے“۔
اس فقرے کے معانی کو کھینچ تان کر پھیلا لیجئے، اور اس پر تھوڑا سا فلسفیانہ رنگ پھیر لیجئے تو عصمت کے بعض کمالات اور نقادوں کی بعض کوتاہیوں کو بیان کرنے کا اچھا خاص بہانہ ہاتھ آ جاتا ہے جو حال فربہی کا ہے وہی حال کئی اور معروف اور متداول اور لیبلوں کا ہے جو مستعمل الفاظ اور عادات مستمرہ کی شکل میں قسم قسم کی اشیاء پر چپکے نظر آتے ہیں۔ ذہنی کسالت اور خوف اور بزدلی کے مارے ہم اکثر فیصلے لیبلوں ہی کو دیکھ کر صادر کر دیتے ہیں۔ ان سے آگے نکل کر اصل چیز کو جانچنے اور تولنے کی ہمت اپنے آپ میں نہیں پاتے۔ مامتا اور عشق پر دل گدازی کا لیبل مدت سے لگا ہوا ہے اس لئے جہاں ان کا ذکر آئے کہنے اور سننے والے دونوں ایک علّو اور ایک پاکیزہ رقت کے لئے پہلے ہی سے تیار ہو بیٹھتے ہیں۔ جنسی مشاغل تحقیق کہ پستی کی طرف لے جاتے ہیں۔ چنانچہ ان کا بیان بغیر کراہت یا اخلاقی غیظ کے ہو تو لوگ برہم ہو جاتے ہیں۔ بہن بھائیوں کا سا پیار جاننا چاہئے کہ پاک محبت کا سب سے اونچا درجہ ہے لہٰذا بہن بھائی کے درمیان بجز اس جذبۂ عالیہ کے کسی اور تعلق کی گنجائش ناممکن یا کم از کم نامناسب ضرور سمجھی جاتی ہے۔ عصمت چغتائی کے رہنما بھی اندھا دھند ایسے ہی کلیئے ہوتے تو ادب ان کی بہترین انشا سے محروم رہ جاتا لیکن ان کی بصیرت اس سے کہیں زیادہ دوررس ہے۔ وہ لیبلوں کے فریب میں نہیں آتیں اور جسم اور دل اور دماغ کی کئی کنیتیں ایسی ہیں جن سے وہ اکیلے میں دوچار ہوتے نہیں گھبراتیں۔ ایسے انشا پرداز کا بغیر حوصلہ مشاہدہ، وقت نظر اور جرأت بیان کے گزارہ نہیں۔ اور یہ ادیب کی خوش قسمتی ہے کہ عصمت کو یہ تینوں نعمتیں میسر ہیں۔
برخلاف اس کے احساس محرومی کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس جرأت اور وقت نظر میں سے عصمت کے نقادوں کو حصہ وافر نہیں ملا۔ فی الحال ان کا ذکر جانے دیجئے جن کو عصمت کی تحریروں میں اپنے اخلاق اور ادب دونوں کی تباہی نظر آتی ہے وہ تو ان لوگوں میں سے ہیں جن کے لیبل گوند سے چپکے ہوئے نہیں میخوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ جنہوں نے ذہنوں میں ایک موٹی موٹی لکیروں والی جدول بنا رکھی ہے کہ ان چیزوں کا ذکر حلال ہے ان کا حرام ہے نامحرم کا ذکر ہم مقرر کر چکے ہیں کہ فحش ہے۔ محرم کا ذکر معاملہ بندی ہے یعنی جائز ہے۔ حرام کا بچہ فطرت کو منظور ہے تو ہوا کرے، ہمارے ادب کو منظور نہیں۔ اور یہ فطرت کا مطالعہ؟ محض ایک ڈھونگ! آوارہ مزاجوں کا عذر آوارگی! ہمیں بچپن میں مطالعہ پر کوئی مجبور نہ کر سکا تو اب کسی کی کیا مجال ہے؟ ہم جب بھی کھلونے سے دل بہلاتے تھے اب بھی کھلونوں سے دل بہلائیں گے… ایسے لوگوں سے اس وقت بحث نہیں کیونکہ
وہ وہاں ہیں جہاں سے ان کو بھی ::کوئی ان کی خبر نہیں آتی
شکایت ان سے ہے اور اپنوں کی شکایت ہے، بیگانوں کی سی نہیں۔ جو عصمت چغتائی کے قدر دان اور مداح ہیں ان لیبلوں کے مضامین کو پڑھ کر روح میں ایک بالیدگی محسوس کرتے ہیں جس سے دل میں امنگیں پیدا ہوتی ہیں۔ اور نئی نئی راہیں کھلتی ہیں۔ گلہ ہے کہ وہ بھی ہر پھر کر لیبلوں ہی کے چکر میں پھنس جاتے ہیں۔ افسوس کہ عصمت مرد نہیں اور افسوس کہ لیبلوں میں سے سب سے بڑا اور گمراہ کن لیبل عورت ہے۔ مرد ذات کے قرنوں کے خرابوں اور محرومیوں سے چپکا ہوا۔ عورت دلفریب ہے، مکار ہے، صنف نازک ہے، ایک معمہ ہے، کمزور ہے، کم عقل ہے، مجموعۂ اضداد ہے۔ جہاں آپ نے عورت کا نام لیا، ان میں سے دو چار گھڑے گھڑائے معنی ذہن اُگل کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ چنانچہ اسی فریب میں آ کر ہونہار اور ذہین دیباچہ نویس فرماتے ہیں: ”عصمت کے افسانے گویا عورت کے دل کی طرح پُر پیچ اور دشوار گزار نظر آتے ہیں۔ میں شاعری نہیں کر رہا اور اگر اس بات میں شاعری ہے تو اسی حد تک جہاں تک شاعری کو سچی بات میں دخل ہوتا ہے۔ مجھے یہ افسانے اس جوہر سے متشابہ معلوم ہوتے ہیں جو عورت میں ہے۔ اس کی روح میں ہے۔ اس کے دل میں ہے۔ اس کے ظاہر میں ہے۔ اس کے باطن میں ہے۔ “ اب نہ معلوم اس نوجوان نقاد کے تصور نے عورت کا لیبل کس قسم کی چیزوں پر لگا رکھا ہے۔ یہ معلوم ہوتا تو وہ جوہر بھی کھلتا جو بہ قول ان کے عصمت کے افسانوں میں ہے لیکن ان کے رنگین تصورات و مفروضات کے خلوت کدہ میں ہمیں کیونکر باریابی ہو سکتی ہے اور کوئی ایسی ڈکشنری بھی نہیں جس میں عورت کے وہ معنی مل جائیں جو اس تنقید کی تہہ میں کام کر رہے ہیں۔ دیباچے کا مقطع ہے: ”عصمت کا نام آتے ہی مرد افسانہ نگار کو دورے پڑنے لگتے ہیں۔ شرمندہ ہو رہے ہیں آپ ہی آپ خفیف ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ دیباچہ بھی اسی خفت کو مٹانے کا ایک نتیجہ ہے۔ “ لیجئے۔ عورت کے ایک دوسرے تصور سے پھر میرے عزیز کی ناقدانہ نظر بہک گئی۔ دکھانے تو چلے تھے عصمت کے افسانوں کا جوہر لیکن آخر کہہ گئے کہ یہ عورت ناقص العقل جانور ہے ڈاکٹر جانسن کے کتے کی طرح کہ دو ٹانگوں کے بل کھڑا ہو جائے تو تعجب و تحسین ہی کا نہیں بلکہ ہم انسانوں (یعنی مردوں) کے لئے شرم و ندامت کا موجب ہے۔ ایک اور مقتدر و پختہ کار دیباچہ نویس نے بھی معلوم ہوتا ہے انشا پردازوں کے ریوڑ میں نر اور مادہ الگ الگ کر رکھے ہیں۔ عصمت کے متعلق فرماتے ہیں کہ ”اپنی جنس کے اعتبار سے اردو میں کم و بیش انہیں وہی مرتبہ حاصل ہے جو ایک زمانہ میں اردو ادب میں جارج ایلیٹ کو نصیب ہوا“۔ گویا ادب بھی کوئی ٹینس کا ٹورنامنٹ ہے جس میں عورت اور مردوں کے میچ علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں۔ جارج ایلیٹ کا رتبہ مسلم۔ لیکن یوں اس کا نام لے دینے سے تک ہی ملا اور بوجھوں تو کوئی کیا مرے گا۔ اب یہ امر ایک علیحدہ بحث کا محتاج ہے کہ کیا کوئی مابہ الامتیاز ایسا ہے۔ خارجی اور ہنگامی اور اتفاقی نہیں بلکہ داخلی اور جبلّی اور بنیادی جو انشا پرداز عورتوں کے ادب کو انشا پرداز مردوں کے ادب سے ممیز کرتا ہے اور اگر ہے تو وہ کیا ہے؟ ان سوالوں کا جواب کچھ بھی ہو، بہرحال اس نوع کا ہرگز نہیں کہ اس کی بنا پر مصنفین کو ”جنس کے اعتبار سے“ الگ الگ دو قطاروں میں کھڑا کر دیا جائے۔ اسی طرح جہاں کسی افسانے میں خاندان، گھر بار، اعزا و اقربا کا ذکر آگیا۔ یا کسی متمول لڑکے نے کسی مفلس لڑکی پر ہاتھ ڈالا، جوشیلے اور دردمند دل رکھنے والے نقادوں نے مسرت کا نعرہ لگایا اور بغلیں بجائیں کہ سماج کی خبر لی جا رہی ہے۔ اب غور سے دیکھئے تو معلوم ہو گا کہ عصمت کے اچھے افسانوں میں ماحول محض اس لئے شامل فسانہ ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں۔ کردار کہیں تو رہیں گے۔ کسی سے تو ملیں گے افسانہ کا جو ڈھانچہ ہے اس کا کوئی گوشت پوست تو ہو گا پھر اس کے بغیر بھی چارہ نہیں کہ وہ ماحول ایک نہ ایک معروف طبقے کا ماحول ہو۔ بود و باش کا کوئی نہ کوئی ڈھنگ تو پیش نظر رکھنا ہی پڑے گا۔ لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ یہ ماحول جن معاشی اصولوں کی وجہ سے پیدا ہوا خود وہ اصول جانچے اور پرکھے جا رہے ہیں۔ عصمت کے بعض مضامین ایسے بھی ہیں جن پر شبہ ہوتا ہے کہ سماج کو سامنے رکھ کر لکھے گئے ہیں۔ لیکن انہوں نے جہاں بھی سماج کو اپنا نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے ان کا ہاتھ جھوٹا ہی پڑا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سماج کی جن باتوں سے عصمت کا جی برا ہوتا ہے ان پر عصمت نے غور ضرور کیا ہو گا۔ لیکن تلخی کام و دہن ابھی ان کے رگ و پے تک نہیں پہنچی اور جب تک یہ نصیب نہ ہو سماجی کمزوریوں پر اخباروں میں مضمون لکھ لینے چاہیں۔ ان کو فن کی لپیٹ میں لانے کا خیال چھوڑ دینا چاہئے۔ عصمت کو فی الحقیقت شغف سماج سے نہیں شخصیتوں بلکہ اشخاص سے ہے۔ ان کے جوش اور ہوس سے۔ ان کی تھرتھراہٹ اور کپکپی سے، ان کی باہمی کشمکش اور عداوت اور فریب کاری سے، غرض ان تمام کیفیتوں سے جو انسان پر جب طاری ہوتی ہیں تو جسم پھڑکنے لگتا ہے اور دوران خون تیز ہو جاتا ہے یا اعصاب میں الجھاؤ اور طبیعت میں تناؤ پیدا ہو جاتا ہے اگر عصمت اور سماج کا باہم ذکر اس نقطۂ نظر سے کیا جائے کہ ان کی سی انشاء ان کا سارا رجحان اور ان کا سا اسلوب انتخاب ایک خاص زمانے اور خاصی سماجی کشمکش کی پیداوار ہیں تو یہ بحث مناسب ہی نہیں بلکہ نتیجہ خیز بھی ہو گی۔ یہ کون نہیں جانتا کہ اردو میں عصمت جیسے ادیب اس صدی کے اوائل میں بھی مفقود تھے۔ اور اس سے پہلے کا ذکر ہی کیا۔ یہ ایک امر واقعہ ہے اور اس میں کئی دلچسپ نکتے مضمر ہیں۔ جن کی توضیع یقیناً خیال انگیز ہو گی۔ لیکن حالات سے اثر پذیر ہونا اور حالات کا مفسر ہونا دو مختلف چیزیں ہیں۔ اس بات کا مطالعہ کرنا ہو کہ بعض سماجی حالات نے کیونکر عصمت جیسی انشا پرداز کو پیدا کیا تو شوق سے کیجئے لیکن اس شوق میں خواہ مخواہ سماج کی نباضی عصمت کے سر نہ منڈھ دیجئے۔ سیب درخت سے گرا تو یقیناً کششِ ثقل ہی کی وجہ سے گرا۔ لیکن اس کارگزاری کے صلہ میں سیب کا نام نیوٹن نہیں رکھا جا سکتا۔ نہ سیب کو سیب سمجھنے میں کچھ اس کی ہیٹی ہوتی ہے۔ عصمت کے دونوں مجموعوں میں ڈرامے، افسانے اور ا سکیچ تینوں قسم کی چیزیں شامل ہیں۔ ان میں ڈرامے سب سے کمزور ہیں اور اس کی کئی وجوہ ہیں اول تو یہ کہ ڈرامے کی ٹیکنیک عصمت کے قابو میں نہیں آئی یا یہ کہیے کہ ابھی تک ان کو اس پر قدرت حاصل نہیں ہوئی۔ پلاٹ کو مناظر میں تقسیم کرتی ہے تو ناپ کی قینچی سے نہیں کترتیں۔ یونہی دانتوں سے چیر پھاڑ کر چیتھڑے بنا ڈالتی ہیں چنانچہ پھوسڑے جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی سین جب پھیلتا ہے تو سمٹے بغیر ہی ختم ہو جاتا ہے جیسے گاڑی دو اسٹیشنوں کے درمیان کہیں بھی رک جائے۔ خیر اس قدر نازک مزاجی سے کیا حاصل؟ کھیر نہ سہی دلیا ہی سہی پیٹ بھر جائے تو کیا مضائقہ ہے۔ ڈرامے کو ڈرامہ نہ سمجھے۔ کہانی سمجھ کر پڑھیئے اور فرض کر لیجئے کہ کہانی نے ڈرامے کا لباس کسی ضرورت سے نہیں بلکہ محض تنوع کی خاطر پہن رکھا ہے۔ لیکن افسوس کہ رواداری سے بھی مشکل حل نہیں ہوتی۔ کہانی کو ڈرامے کی شکل دی جائے تو ایک جبر اپنے اوپر ضرور کرنا پڑتا ہے اور وہ یہ کہ قصہ اول سے آخر تک مع اپنے نشیب و فراز کے تمام تر افراد قصہ ہی کے اقوال و افعال کے ذریعے بیان کرنا پڑتا ہے مصنف سے یہ آزادی پھر چھن جاتی ہے کہ ساتھ کرداروں کے جذبات، خیالات کو اپنی زبان سے واضح کرتا جائے۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پابندی عصمت کے بس کا روگ نہیں۔ افسانہ ہو تو عصمت کو کسی انوٹ یا تیور کے واضح کرنے میں دقّت پیش نہیں آتی۔ انہیں افسانہ نویس کے اس حق سے فائدہ اُٹھانا خوب آتا ہے کہ جب چاہا کیریکٹر سے کچھ کہلوا لیا۔ جب چاہا خود کچھ کہہ لیا۔ لیکن جب اپنی زبان بند ہو اور سب کھیل کیریکٹروں ہی کو کھیلنا ہو تو عصمت قاصر رہ جاتی ہے۔ اور ان مجبوریوں میں گھر کر ان کا مطلب اکثر فوت ہو جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ مکالمے بھی پھسپھسے ہو جاتے ہیں اور ان میں اس کردار پن کا نام و نشان تک نظر نہیں آتا۔ جو ان کے افسانوں کے مکالموں میں اکثر پایا جاتا ہے۔ (پردے کے پیچھے میں کس قدر چستی اور پھرتیلا پن ہے) بعض اوقات تو مکالمہ کچھ ایسا بے جوڑ ہو جاتا ہے کہ یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا واقعہ کیا پیش آیا۔ چنانچہ ان کا ڈرامہ ”انتخاب“ کے واقعات پیشتر اس کے کہ سمجھ میں آ سکیں بہت کچھ وضاحت کے محتاج ہیں۔ (یہ نقص ان کے افسانہ ”تاریکی“ میں بھی رہ گیا ہے) ڈرامہ نویس کو تو اجازت نہیں کہ وہ سیدھے منہ ہم سے بات کرے۔ باقی رہے کیریکٹر سو وہ آپس میں الجھی سلجھی گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ (ڈرامہ جو ٹھہرا) مگر ہمارے پلے کچھ نہیں پڑنے دیتے۔ ڈرامہ نویس عدم تعاون پر مجبور ہیں اور کیریکٹروں کو تعاون کا سلیقہ نہیں۔ ان حالات میں ڈرامہ کامیاب ہو تو کیونکر؟ پھر ان ڈراموں میں (جہاں تک میری سمجھ میں آئے) عصمت کی کوشش یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ چند اشخاص نہیں چند ٹائپ پیش کریں۔ یعنی ہر شخص ایک طبقہ کا نمائندہ بن کر سامنے آئے۔ مگر اس کے لئے اشخاص کا ادراک نہیں گروہ کا احساس چاہئے اور عصمت اور گروہ میں وہ انہماک نہیں جو اشخاص میں ہے تو پھر نہ معلوم انہیں یہ مصیبت کیوں مول لی؟ علاوہ ان سب باتوں کے ان ڈراموں کی کمزوری کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان میں عصمت نے جس قسم کے لوگوں کا نقشہ کھینچنا چاہا ہے، ان سے وہ طبعاً گھل مل نہیں سکتیں یعنی وہ مرفہ الحال لوگ جو کہلاتے تعلیم یافتہ ہیں مگر جن کی ترکیب میں تعلیم کم اور بے یافتہ زیادہ ہوتی ہیں۔ جو خوش حالی، بےحسی، انحطاط اور اپنے رنگ و روغن کے بل پر اپنے مشاغل اور اپنی گفتگو میں بے فکرا پن اور چمک پیدا کر لیتے ہیں جس کی بدولت وہ ”سمارٹ سیٹ“ کہلاتے ہیں۔ اور کم نصیب لوگ کچھ ان سے نفرت کچھ ان پر شک کرتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے اس طبقے کی بعض حماقتوں اور خود فربیبیوں پر عصمت کو غصہ آتا ہے جس کو وہ بیان کرنا چاہتی ہیں۔ اور اس کی عشرتوں پر تھوڑا سا رشک جس کو وہ خود بھی نہیں جانتیں لیکن یہ بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس چمکیلے طبقہ کو انہوں نے دور ہی سے دیکھا ہے۔ قریب آنے کا موقع نہیں ملا کہ اس کے نقوش اور خدوخال واضح دکھائی دیتے اور اس کے خوب و زشت اور ظاہر و باطن کا وہ اچھی طرح موازنہ کر سکتیں۔ چنانچہ جب عصمت اس قسم کے کیریکٹروں یا ان کے ماحول کی تصویر کھینچتی ہیں تو نوک پلک کبھی درست نہیں ہوتی۔ چھری، کانٹے، ”ارغنوں“ (یعنی چہ؟) ٹینس، ڈرائنگ روم، ڈنر سیٹ، الم غلم اس قسم کی اصلی اور خیالی چیزیں جمع کر کے ایک کباڑ خانہ سا بنا لیتی ہیں۔ گو ان کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس سازو سامان سے امیرانہ ٹھاٹھ باندھا جائے اور کچھ اس یقین کے ساتھ اسباب چنتی جاتی ہیں کہ ان کی سادگی پر رشک آتا ہے۔ کیریکٹروں کی گفتگو اور حرکتیں بھی اس قسم کی ہوتی ہیں کہ جب مصنف ہنسائے تو رونا آتا ہے اور رلائے تو ہنسی آتی ہے۔ ایک تصنع تو ان میں وہ ہے جس کا مصنف کو علم ہے لیکن ایک تصنع ان میں ایسا بھی آ جاتا ہے جس سے مصنف خود بے خبر ہے، اور جو دراصل اس کے اپنے تصنع کا عکس ہے یعنی کیریکٹروں کی سطحیت کو تو بے نقاب کرنا ہی تھا اپنی سطحیت بھی ساتھ بے نقاب ہو رہی ہے۔ ایکٹروں سے پہلے کیریکٹر خود ایکٹ کرتے ہیں۔ بات بات پر اپنی زندگی میں تھیٹر کی سی سچوایشن (situation) پیدا کر لیتے ہیں اور کچھ اس طرح بنتے ہیں کہ ان کے تو خیر خود ڈرامہ نویس کے حسن مذاق پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ ”سانپ“ میں عصمت نے چند ایسی عورتیں دکھانے کی کوشش کی ہے جو بزعم مصنف ”شکاری عورتیں“ ہیں یعنی وہ رنگین تریا چلتر ہے مردوں کے جذبات کے ساتھ کھیلتی ہیں۔ جیسے بلّی چوہے سے کھیلتی ہے۔ لیکن ان کی تھکی ہوئی باتیں سنئے اور ان کی اکتا دینے والی خوش فعلیوں کا تماشا کیجئے تو اس نتیجے پر پہنچے گا کہ کسی چوہے کا شکار تو یہ شاید کر لیں لیکن اس سے زیادہ کی امید بےچاریوں سے خام خیالی ہے۔ معلوم ہوتا ہے چند کم عقل چھوکریاں ہیں۔ جنہوں نے کوئی ارزاں قسم کا خوش پوش امریکن فلم دیکھ لیا ہے۔ اور گھر میں دو ایک جگہ صوفے، کرسیاں بچھا کر نقل اتارنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ قیاس اس امکان کو بھی رد نہیں کرتا کہ وہ فلم خود مصنف ہی نے دیکھا ہو اور اس کی ارزانی کا احساس اس کو نہ ہوا ہو۔ ایک مکالمہ تو اس ڈرامے میں ایسا ہے کہ اپنے بےساختہ میلوڈرامیٹک اسلوب کی وجہ سے کشتِ زعفران سے کم نہیں۔ رفیعہ کی منگنی غفار سے ہو چکی ہے لیکن اب وہ اس سے نہیں ظفر سے شادی کرے گی۔ غفار کو اس سانحۂ جانکاہ کا علم یوں ہوتا ہے: رفیعہ۔ نہیں میں تمہاری زندگی برباد نہیں کروں گی۔ غفار۔ (جوش سے) برباد نہیں۔ تم میری زندگی آباد کرو گی۔ رفیعہ۔ نہیں، میں تمہیں نگل جاؤں گی۔ سانپ جو ٹھہری۔ غفار۔ (شدت جوش سے کانپ کر) کیسی باتیں کرتی ہو، تم مجھے نگل بھی جاؤ، تو میرے لئے عین راحت ہو گی۔ خالدہ۔ (رفیعہ کی سہیلی) مگر اب تو رفیعہ نے فیصلہ کر لیا۔ غفار۔ (چونک کر) کیا فیصلہ کر لیا؟ خالدہ۔ یہی کہ وہ تمہیں نہ نگلے گی۔ رفیعہ۔ ہاں اب تو میں ظفر کو نگلوں گی۔ (ظفر پریشان ہو کر مسکراتا ہے) غفار۔ (سمجھ کر) تو… تمہارا یہ مطلب ہے کہ تم مجھے ٹھکرا رہی ہو! رفیہ۔ اُونہہ۔ اب تم نے بھی غلیظ شاعری شروع کر دی۔ غفار۔ (پریشانی سے انگلیاں چٹخا کر) اور ظفر تم مجھے دھوکا دیتے رہے۔ ظفر۔ غفار، بچہ نہ بنو، یہ فتنہ تمہارے بس کا نہ تھا۔ شکر کرو کہ میرے ہی اوپر بیتی اور تم بچ گئے۔ تم دیکھنا میری وہ گت بنائے گی کہ توبہ ہی بھلی۔ غفار۔ کاش میری ہی وہ درگت بن جاتی۔ خالدہ۔ مگر غفار سوچو تو… غفار۔ ایک عرصہ دراز سے بزرگوں نے یہ بات طے کر دی تھی۔ خالدہ۔ یہ ٹھیک ہے کہ آبائی حق تو تمہارا ہے پر یہاں تو رفیعہ کا معاملہ آن پڑا ہے۔ وہ ایک ضدی ہے! غفار۔ (اندوہ گیں ہو کر) میں۔ ۔ جا رہا ہوں (نہایت اداسی سے) رفیعہ! خدا کرے تم خوش رہو۔ عصمت اس سین کو کامک سین سمجھ کر لکھتیں تو شاید ڈرامہ نویس میں ان کا نام رہ جاتا۔ لیکن افسوس کہ ان کے ہونٹوں پر مجھے مسکراہٹ نظر نہیں آئی۔ اور جب مصنف نے ہنسانے والی باتیں لکھیں اور خود سے ہنسی کی کوئی بات نظر نہ آئے تو افسوس ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی بے تکا پن ڈراموں کے علاوہ ان افسانوں میں بھی پایا جاتا ہے جن میں عصمت نے ان جدید نما چمکیلے لوگوں کو اپنانے کی کوشش کی ہے۔ ایسے افسانوں میں نہ پلاٹ کی چولیں ہی ٹھیک بیٹھی ہیں نہ کیریکٹر کا ناک نقشہ ہی درست ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انگریزی میں سے کہانیوں کے ٹکڑے کاٹ کاٹ کر جوڑ لئے ہیں۔ اور پیشہ ور افسانہ نویسوں کی طرح رسمی رومان کا رنگ دے کر جھوٹ موٹ ایک بات بنا لی ہے۔ ”پنکچر“ اور ”شادی“ پڑھ کر دل پر یہی اثر ہوتا ہے اور ”میرا بچہ“ میں تو برنارڈ شا کے“‘ آرمز اینڈ دی مین“ کے پہلے سین پر کچھ اس طرح سے ہاتھ صاف کیا ہے کہ شبہ کی گنجائش نہیں۔ یہ سیلیا اور نیلی اور ”ارغنوں“ اور پارٹیوں کی دنیا عصمت کی دنیا نہیں۔ اس میں وہ اجنبی رہتی ہیں اس کی تہہ کو وہ جب پہنچیں گی۔ تب دیکھا جائے گا۔ فی الحال تو ان کی دنیا وہی ہے جو ان کے بہتر افسانوں یعنی جوانی، ڈائن، نیرا، بھول بھلیاں ، ساس، بیمار اور تل میں پائی جاتی ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جس میں عورتیں پردے کے پیچھے سے فقرے چست کرتی ہیں جس میں زینوں پر اور دیواروں کی آڑ میں آنکھ مچولی کھیلی جاتی ہے۔ جس میں نوا ڑ کی پلنگڑیوں پر پٹاریاں رکھی ہیں۔ مہترانیوں کی جوان بہوئیں کمر لچکا کر چلتی ہیں۔ اکھڑ لڑکیاں گوبر بنتی پھرتی ہیں اور تلیا میں ڈبکیاں لگاتی ہیں جس میں گلگلے بچے ماں کے پیٹ سے چھپکلی کی طرح چپکے ہوئے چپڑ چپڑ منہ مارتے ہیں اس کے گردو پیش میں وہ اس بے تکلفی اور احساس ہم آہنگی کے ساتھ گھومتی پھرتی ہیں کہ اسی کا ایک جزو معلوم ہوتی ہیں چنانچہ وہ کس سہولت کے ساتھ دوہی چار خط کھینچ کر اس دنیا کو کاغذ پر لے آتی ہیں۔ عصمت کے بہترین افسانوں میں آپ کو فضا اور ماحول کے لمبے لمبے پُرتکلف ڈسکرپشن (Description) کہیں نہ ملیں گے۔ لیکن جو بات ہے وہ ایسے پتے کی ہے کہ اختصار سے تشنگی اور خلاء کی شکل پیدا نہیں ہوتی۔ ”ساس“ کے شروع کے فقرے ہیں: ”سورج کچھ ایسے زاویئے پر پہنچ گیا کہ معلوم ہوتا تھا چھ سات سورج ہیں جو تاک تاک کر بڑھیا کے گھر میں ہی روشنی پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں۔ تین دفعہ کھٹولی دھوپ کے رخ سے گھسیٹی اور اے لو پھر پیروں پر دھوپ اور جو ذرا اونگھنے کی کوشش کی تو دھمادہم ٹھٹوں کی آواز چھت پر سے آئی۔ ”خدا غارت کرے پیاری بیٹیوں کو“۔ ساس نے بےحیا بہو کو کوسا جو محلے کے چھوکروں کے سنگ چھت پر آنکھ مچولی اور کبڈی اڑا رہی تھی“۔ دنیا میں ایسی بہوئیں ہوں تو کوئی کاہے کو جئے۔ اے لو دوپہر ہوئی اور لاڈو چڑھ گئیں کوٹھے پر ذرا ذرا سے چھوکرے اور چھوکریوں کا دل آ پہنچا پھر کیا مجال ہے جو کوئی آنکھ جھپکا سکے“۔ اتنے تھوڑی سے الفاظ میں اس سے زیادہ کوئی کیا رنگ بھرے گا اور رنگ بھی ایسے کہ نہ ضرورت سے زیادہ شوخ نہ ضرورت سے زیادہ مدھم۔ یہی حال ”نیرا“ میں کے ایک ٹکڑے کا ہے: ”چھوٹے تال سے گزر کر پلیا پر سے ہوتے ہوئے دونوں ننھے منے بیوپاری شہر کی سڑک پر چلنے لگے۔ یہ کم بخت جاڑا تو اب کے ایسا دانت پیس کر پیچھے پڑا تھا کہ نرم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ گرمی تو جیسے تیسے کٹ جاتی ہے چاہو جتنا نہاؤ، پیاؤ پر سے ٹھنڈا پانی جتنا چاہو پی لو۔ نہ کپڑے کی ضرورت نہ کچھ۔ رمو کو تو دھوتی کا بھی مرہون منت نہ ہونا پڑتا تھا۔ سیاہ سوت کا ڈورا جو اس کے کچری جیسے پیٹ پر ے پھسل کر کولہے کی ہڈیوں پر مزے سے ٹک جاتا تھا۔ ضرورت سے زیادہ تھا۔ مزے سے تلّیا میں ڈبکی لگائی، کناروں پر اکڑوں بیٹھ گئے اور لُو کے چھپاکوں سے سوکھ گئے“۔ اور اس سے بھی مختصر یہ کہ: ”اندھیری سنسان راتیں جیسے تیسے کٹنے لگیں۔ بیجھڑ کی روٹیاں اور لوٹا بھر مٹھا حاصل کرنے کے لئے سارے گھر کو دن بھر تیرے میرے کھیت میں جتے جتے گزر جاتی۔ نیرا گھاس چھیل لاتی، بھینسوں کو بھی دن لگے اور دودھ چرانا شروع کر دیا۔ کون دیکھتا بھالتا۔ کانجی ہاؤس میں ہی ایک تو ضبط ہو گئی دوسری بیاہنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ بھینس جب بوڑھی ہو جاتی ہے تو پتہ بھی نہیں چلتا۔ نہ اس کی کمر جھکے نہ بال کھچڑی ہوں“۔ ان اقتباسات میں پانچ پانچ چھ چھ فقرے ایک ساتھ پائے جاتے ہیں۔ اس لئے ان کو یہاں نقل بھی کر لیا۔ ورنہ اسی قسم کے ایک ایک دو دو فقروں کے کنائے تو کئی جگہ ہیں۔ یہ دنیا بیشتر مفلسوں اور اکھڑوں کی دنیا ہے۔ بہرحال! امیروں، نفاست پسندوں اور تراشیدہ لوگوں کی دنیا نہیں۔ اس میں فاقے ہیں غلاظتیں ہیں (اور غلاظتوں کا حال عصمت کتنی برہم ہو کر اور برہمی کے مزے لے لے کر بیان کرتی ہیں)جہالتیں ہیں، بد زبانیاں ہیں، ہاتھا پائیاں ہیں، بیماریاں ہیں، ڈھیروں بچے ہیں، لیکن پھر بھی ان میں زندگی کا ایک خط ہے جو دبائے نہیں دبتا، امنگیں اُبھرتی ہیں، جوانی اپنے کرشمے دکھاتی ہے۔ ذہن میں شرارتیں چٹکیاں لیتی ہیں اور نفس انسانی کا پہلو ان زور آزمائی کرتا ہے جن افسانوں کو میں نے بحث کے لئے منتخب کیا ہے۔ ان میں آپ کو بہت بڑی بلندی یا بہت پُر معنی گہرائی نظر نہ آئے گی۔ عمیق امن، خاموش آسودگی یا مسرت عالیہ کہیں نہ ملے گی۔ نہ وہ حزن وملال ہی ملے گا جو کہر کی طرح دل پر جم جاتا ہے اس میں ٹریجیڈی کی کوشش ہے نہ کامیڈی کی۔ لیکن انسانی خون آپ کو رگوں میں دوڑتا نظر آئے گا اس طرح دوڑتا ہوا جیسے پہاڑی ندی کا پانی دوڑتا ہے۔ لبالب اور ابلتا ہوا اور ٹکراتا ہوا اور رستہ چیرتا ہوا۔ ان افسانوں کا موضوع کیا ہے۔ اگلے وقتوں کے لوگ ان افسانوں کو (اگر ایسے افسانے انہیں ہاتھ آتے تو) عشقیہ افسانے یا ”عشقیہ افسانے ہی سمجھ“ کہتے۔ لیکن عشق کے معنی اس قدر پھیل چکے ہیں کہ عشقیہ سے یہاں کام نہ چلے گا۔ لیلیٰ مجنوں کا عشق، صوفیوں کا عشق، غزلوں کا عشق، فلموں کا عشق، امرد پرستوں کا عشق، سبھی طرح کے عشق ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں اور ہر ایک کا مزاج جدا ہے۔ اس لئے عشق کے لفظ سے نہ جانے کہنے والے کا مفہوم کیا ہو۔ اور سننے والے کیا سمجھ بیٹھیں۔ ”جنسی بھوک“ پر مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن محض اس سے بات بھی نہیں بنتی۔ کیونکہ جنسی بھوک تو اتنے بی ایڑس سے لے کر کتے کتیا تک سبھی کو لگتی ہے۔ عصمت کے افسانوں میں جو جذبہ مرد عورت کو ایک دوسرے کی طرف کھینچتا ہے اس کی کسی قدر اور تخصیص کرنی چاہئے۔ ایک بات تو ظاہر ہے اور وہ یہ کہ اس جذبے میں شاعرانہ لطافتوں کی رنگینی نہیں پائی جاتی۔ اس کا رومان سے کوئی تعلق نہیں۔ عصمت کے کسی افسانے میں مرد یا عورت کے حسن کا کبھی ذکر نہیں آتا۔ کیونکہ جو جذبہ ان کے پیش نظر ہے اس کی تحریک کے ليے حسن کی ضرورت نہیں۔ یہ محض خون کی تاریک حرارت اور جسم کی جھلسا دینے والی گرمی سے پیدا ہوتا ہے اور جب انسان کے جسم میں یہ آگ لگتی ہے تو وہ کبھی اس کو سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ کیونکہ اس آگ سے کوئی پیچیدہ نفسیاتی معمے پیدا نہیں ہوتے۔ صرف تند و تیز شراب کا سا نشہ روئیں روئیں میں سرایت کر جاتا ہے۔ دل کی کیفیتں جسم ہی سے رنگ پکڑتی ہیں۔ اور جو کرب یا تسکین بھی نصیب ہوتی ہے اس کا مظہر اول سے آخر تک جسم ہی رہتا ہے عصمت ہی کے فقرے ہیں کہ ”شہر کے تندرست لوگوں کا گھر سڑی بُسی چمرخ بیویوں سے اُجڑ جاتا ہے“۔ اور ”جب تک بدن چست ہے اور گال چکنے ہیں سب کچھ ہے اور پھر کچھ نہیں“ اور پھر ”وہ بیمار تھا تو کیا، دل تو مردہ نہ ہوا تھا پھر اس میں بیوی کا کیا قصور۔ وہ نوجوان تھی اور رگوں میں خون دوڑ رہا تھا۔ مگر وہ کبھی جھوٹ موٹ کو ہی اس سے کچھ کہتا تو وہ اینٹھ جاتی۔ “ مطلب یہ کہ جسم مردہ ہو تو یہاں دل کی زندگی سے کام نہیں چلتا۔ جسم کا شعور عصمت کے افسانوں میں اس قدر نمایاں ہے کہ پڑھنے والا جسم کے متواتر ذکر سے خود مصنف کی طرح ہیبت زدہ اور مسحور ہو جاتا ہے۔ صلّو دبلا پتلا آئے دن کا مریض تھا۔ اور پھر جب جوانی آئی تو خون کی حدت سے اس کا چہرہ سانولا ہو گیا۔ اور پتلے سوکھے زرد ہاتھ سخت گٹھلی دار مضبوط شاخوں کی طرح جھلسے ہوئے بادلوں سے ڈھک گئے۔ بیگم جان کے اوپر کے ہونٹ پر ہلکی ہلکی مونچھیں تھیں اور پنڈلیاں سفید اور چکنی۔ دبّو کا گٹھا ہوا ٹھوس جسم اور کسی ہوئی چھوٹی سی توند اور بڑے بڑے پھولے ہونٹ جو ہمیشہ نمی میں ڈوبے رہتے ہیں۔ بیمار کا موٹا پڑوسی سرخ چقندر بڑی گھن دار مونچھوں والا جس کے جسم سے موڑھا بھر جاتا ہے۔ اور جس کے جبڑے چکی کی طرح چلتے ہیں۔ رانی کے چکنے چکنے سیاہ گال اور وہ دیسی جگہ کا تل۔ شبراتی کے سینے پر کتنے بال تھے، گھنے پسینے میں ڈوبے ہوئے اور اس کے کسے ہوئے ڈنرملوں اور رانوں کی مچھلیاں کیسے اچھلتی تھیں۔ اور وہ اس کی چھوٹی چھوٹی مونچھیں اور پھکنی جیسی موٹی انگلیاں۔ بہادر کے بڑے بڑے بالوں دار ہاتھ اور اس کا کافوری سینہ۔ جنّو کی کھونٹے جیسی ناک۔ غرض جسم سے کہیں چھٹکارا نہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ دل لبھانے والا جسم یا آراستہ جسم اپنے تناسب میں رعنائیاں لئے ہوئے یا پاکیزگی اور نفاست کے لئے داد طلب نہیں، بلکہ محض جسم، اپنی گرمی سے پُر نم اور مقناطیسی خون کی حرارت سے سنسناتا ہوا یہ جسم بھی ایک آفت ہے۔ یہ ہم پھر اپنی خواہشوں کے ساتھ اندھے مشٹنڈے کی طرح یا بقول عصمت کے ”جوان جاٹنی“ کی طرح سوار ہے جب خواہشیں پھنکارتی ہیں اور جسم جسم کو پکارتا ہے تو ان افسانوں کے کیریکٹر آہیں نہیں بھرتے۔ غزلیں نہیں گاتے، شعر نہیں لکھتے، بلکہ بغیر چوں و چرا کے اس پر اسرار آواز کے پیچھے ہو لیتے ہیں۔ اور وہ جدھر لے جائے بغیر سوچے بوجھے اسی طرف چل دیتے ہیں۔ مائیں گھڑکتی ہیں، ساسیں الجھتی ہیں، بے پروا لوگ غچا دے جاتے ہیں۔ افلاس کی سڑاند سے دم گھنٹا ہے لیکن اس کے قدم نہیں رکتے یا عصمت کے الفاظ میں یوں کہئے کہ ”جوانی غربت کو نہیں دیکھتی بن بلائے ٹوٹ پڑتی ہے اور بے کہے چل دیتی ہے۔ پیٹ بھر روٹی نہ ملی تو کیا، سہانے خواب تو کوئی روک نہ سکا۔ جمپر اور شلو کے نہیں جڑے تو کیا جسم نے پیر روک لئے۔ وہ تو بڑھتا ہی گیا۔ “ اور یہاں غربت اور شلوکوں کی جگہ کچھ ہی رکھ لیجئے جسم کے پیر نہیں رکھتے۔ اور جب اس جسم میں طوفان آتا ہے ”اور پیٹھ پر کن کھجورے رینگنے لگتے ہیں“۔ اور دل و دماغ پر اندھی کیفیتیں طاری ہو جاتی ہیں تو یہ عجیب عجیب بیر باندھ لیتا ہے لیکن جسم اپنا بدلہ جسم ہی سے لیتا ہے چنانچہ اس کشمکش کے زیر اثر حلم اور گداز اور ملائمت نہیں پیدا ہوتی۔ کیریکٹر تخیل کے ریشم میں لپٹ کر غنودہ نہیں ہو جاتے بلکہ ان میں کرخت قسم کی اکھڑ، الھڑ پن اور درشت قسم کی شرارتیں بیدار ہو جاتی ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو چھیڑتے ہیں، دق کرتے ہیں،کچکچا کر کھٹولیوں پر پٹخ دیتے ہیں۔ ننگے جسم پر بدھیاں ڈال دیتے ہیں۔ ہونٹوں کو چٹکیوں سے مسل دیتے ہیں۔ پیر سے پیر دباتے ہیں۔ تھپڑ رسید کرتے ہیں بال پکڑ کر جھٹکے دیتے ہیں۔ دھولیں مارتے ہیں جھاپر کس کس کر لگاتے ہیں، گھسیٹتے ہیں، چچوڑتے ہیں، یعنی دل پر کچھ ہی گزرے جسم کی گرفت کبھی ڈھیلی ہونے نہیں پاتی۔ اور یہ جذبہ شروع سے آخر تک اپنے کھردرے پن اور بدویت کی شان کو نہیں چھوڑتا۔ تو پھر عصمت کے افسانوں کا موضوع جسم ہے؟ نہیں یہ کہنا تو درست نہ ہو گا۔ کیونکہ یہ افسانے بلاشبہ ادب کے دائرے میں شامل ہیں۔ اور ادب (یا کسی بھی آرٹ) کا موضوع جسم نہیں ہو سکتا۔ یعنی وہ جسم جو علم الاعضا کی کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ نہ جسم نہ چاند تارے نہ پھول نہ صحرا۔ آرٹ کو ذہنی کیفیات سے سروکار ہے کیونکہ آرٹ کا منصب ذہنی ارادت کا بیان اور بالآخر ان کیفیات کی تربیت ہے۔ یہ سب چیزیں تو محض محرکات ہیں۔ ان میں نہ سہی دوسری سہی۔ اس سے گزر جائیے کہ کس چیز کا نام لیا ہے۔ یہ دیکھئے کہ ذکر کیا ہو رہا ہے۔ اگر ذہنی کیفیات کا دخل نہ ہو تو مصور مصور نہیں ایک کیمرا ہے۔ ادیب ادیب نہیں نقل نویس ہے۔ اور جسم کا وقامع نگار علم الاعضا کا ماہر اور شارح تو بن سکتا ہے ادب پیدا نہیں کر سکتا۔ جو کچھ میں اوپر بیان کر چکا ہوں اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ عصمت کی جنسی کشش کی ماہیت واضح کر دی جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ اس کے محرکات اور مظاہر کیا ہیں۔ لیکن بحیثیت آرٹسٹ کے عصمت کو پرکھنے کے لئے بالآخر یہ دیکھنا پڑے گا کہ جنسی بھوک سے پیدا ہونے والے جذبات و احساسات کو انہوں نے کس سطح پر ابھارا ہے اپنی مخلوق کو ان سی جو رنگینی بخشی ہے وہ کس رتبے کی ہے اور روح کے لیل و نہار میں ان کا کیا مقام ہے۔ ان سوالوں کا جواب میں مجملاً اوپر ایک دو جگہ دے چکا ہوں اس سے زیادہ تفصیل شاید سودمند نہ ہو ایسی باتوں کو جہاں تک ہو سکے بحث سے مخلصی دلا کر مذاق کے سپرد کر دینا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ایک بات ظاہر ہے کہ جو آرٹسٹ عصمت کی طرح اپنی مخلوق کو یوں حیوانات کے کنارے تک لے جاتا ہے وہ تلوار کی دھار پر چلتا ہے۔ چنانچہ ان کے مشہور افسانہ ”لحاف“ میں، میں سمجھتا ہوں ان کا قدم آخر اکھڑ ہی گیا ان کی لغزش یہ نہیں کہ اس میں انہوں نے بعض سماجی ممنوعات کا ذکر کیا ہے سماج اور ادیب کی شریعتیں کب ایک دوسرے کے متوازی ہوئی ہیں۔ میلے کے ڈھیر سے لے کر کہکشاں تک سب ہی چیزیں احساسات کی محرک ہو سکتی ہیں اور جو چیز محرک ہو سکتی ہے وہ ادب کے املاک میں شامل ہے آپ جس زمین سے چاہیں شعر کہہ لیں۔ اس سے کیا غرض کہ زمین کون سی ہے غرض تو اس سے ہے کہ شعر کیسا ہے اس لئے اس پر معترض ہونے کی ضرورت نہیں کہ انہوں نے دیسی باتوں کا ذکر کیوں کیا۔ لیکن اس کہانی کی قیمت گھٹ یوں جاتی ہے کہ اس کا مرکز ثقل (یا عسکری صاحب کی اصطلاح میں اس کا ”تاکیدی نقطہ“) کوئی دل کا معاملہ نہیں۔ بلکہ ایک جسمانی حرکت ہے۔ شروع میں یہ خیال ہوتا ہے کہ بیگم جان کی نفسیات کو بے نقاب کریں گے۔ پھر امید بندھتی ہے کہ جس لڑکی کی زبانی یہ کہانی سنائی جا رہی ہے اس کے جذبات میں دلچسپی ہو گی۔ لیکن ان دونوں سے ہٹ کر کہانی آخر میں ایک اور ہی سمت اختیار کر لیتی ہے۔ اور اپنی نظریں امنڈتے ہوئے لحاف پر گاڑ دیتی ہے۔ چنانچہ پڑھنے والا بےچارہ اپنے آپ کو اس قسم کے لوگوں میں شامل پاتا ہے جو مثلاً جانوروں کے معاشقے کا تماشا کرنے کے لئے سڑک کے کنارے اکڑوں بیٹھ جاتے ہیں۔ عصمت نے کچھ تھوڑے سے ا سکیچ بھی لکھے ہیں جن میں سے ایک بھی دلچسپی، دّقت نظر اور عصمت کی مخصوص کنایہ بازی سے خالی نہیں۔ لیکن پھر بھی ان میں کوئی ”دوزخی“ کے رتبے کو نہیں پہنچتا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اردو ادب میں اس اسلوب نظر کی مثال نہیں ملتی۔ جو عصمت نے اس ا سکیچ میں اختیار کیا ہے۔ ان چند صفحات میں عصمت کچھ اس طرح اپنے پروں کو پھیلا کر اڑتی ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے اپنے بلند ترین مقام پر پہنچ جاتی ہیں۔ ”میں ایک بہن کی حیثیت سے نہیں عورت بن کر… میں بہن ہو کر نہیں انسان ہو کر کہتی ہوں“۔ انہیں اس عذرخواہی کی ضرورت بھی یوں پیش آئی کہ اپنی دیانت پر تو ایمان تھا پڑھنے والوں کی دیانت پر ایمان نہیں تھا لیکن چند فقروں میں وہ اپنے خلوص اور اپنی جرأت سے پڑھنے والوں کی ہمت بلند کر دیتی ہیں۔ آرٹسٹ کسی کا بھائی نہیں ہوتا۔ کسی کی بہن نہیں ہوتی۔ احساسات اور اقدار کی دنیا میں ایسے رشتے تو محض اتفاقات کا نام ہیں۔ چند لیبل جو نہ معلوم کن چیزوں پر لگے ہوئے ہیں۔ لیبل ہٹا کر دیکھئے تو نیتوں اور وہموں کا امتحان ہو گا۔ اور ذہن جلا پائے گا۔ عصمت نے کس خود اعتماد ی کے ساتھ لیبلوں کو ہٹا کر پھینک دیا ہے اور جو زندگی میں بھی لاش تھا اس کی لاش کو بھی زندہ کر دکھایا ہے۔ مضمون ختم کرنے سے پہلے دو ایک باتیں عصمت کی زبان کے متعلق بھی کہنا چاہتا ہوں کیونکہ ان کے لغوی مذاق میں بھی ہمارے لئے ایک ہدایت ہے۔ عصمت کی انشا پر فارسی اور عربی کا اثر بہ نسبت اردو ادیبوں کے بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور یہ بے نیازی الفاظ تک ہی محدود نہیں بلکہ ترکیبوں اور فقروں کی ساخت میں بھی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح ان کی تحریر بجز ایک آدھ لاحاصل سی نقالی کی انگریزی تراکیب اور انگریزی اسالیب خیال سے بھی پاک ہے۔ اس زمانہ کے اکثر انشا پردازوں کو بہ وجہ اپنی تعلیم یا ماحول کے اس سے مضر نہیں کہ ان کے کلام میں وقتاً فوقتاً انگریزی کے سر بھی سنائی دے جائیں۔ اردو میں مغربی تلمیحات روز بروز بڑھتی جاتی ہیں۔ چنانچہ عام مصنفوں میں بھی اور کچھ نہیں تو ترجمہ شدہ ترکیبوں کی گٹھلیاں تو اکثر مل جاتی ہیں۔ عصمت انگریزی کے خیر و شر دونوں سے مبرا ہیں۔ یہ تو بتانا ناممکن ہے کہ وہ کیا لطف ہے جو ان کو تحریر میں پیدا ہو جاتا اور اس پاکدامنی کی وجہ سے نہ پیدا ہوا۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس کی بدولت وہ ٹھیٹھ اردو کے بہت سے ایسے الفاظ کام میں لے آئی ہیں جو آج تک پردے سے باہر نہ نکلے تھے۔ اور جن کو اب انہوں نے نئے نئے مطالب کے اظہار کے قابل بنا دیا ہے۔ گویا ادھر اردو انشا کو ایک نئی جوانی نصیب ہوئی۔ ادھر خانہ نشین الفاظ کو تازہ ہوا میں سانس لینے کا موقع ملا۔ عصمت کے فقروں میں بول چال کی سی لطافت اور روانی ہے۔ اور جملوں کا زیرو بم روز مرہ کا سا پھرتیلا زیر و بم ہے۔ اس لئے ان کے فقروں کا سانس کبھی نہیں پھولتا۔ اور ان میں منشیانہ ثقالت اور تکلف نہیں آنے پاتے۔ مختصر یہ کہ الفاظ کے انتخاب اور فقروں کی ساخت ان دونوں رستوں سے وہ انشا کی زبان کو زندگی کے قریب تر لے آئی ہیں جس کے لئے ہمیں ان کا ممنون ہونا چاہئے۔ اس نیک کام میں عصمت کے علاوہ چند اور قابل قدر اہل زبان انشا پرداز بھی شریک ہیں۔ (اور سچ تو یہ ہے کہ یہ کام اہل زبان کے سوا کسی دوسرے کے لئے کچھ ایسا آسان بھی نہیں) لیکن عصمت کے احسان کا بوجھ کچھ اس وجہ سے ہلکا نہیں ہو جاتا۔ عصمت کوئی قد آور ادیب نہیں۔ اردو ادب میں جو امتیاز ان کو حاصل ہے اس سے منکر ہونا کج بینی اور بخل سے کم نہ ہو گا۔ اور یہ مضمون بذات خود اس امتیاز کا اعتراف ہے لیکن بھول نہ جانا چاہئے کہ ہمارا افسانہ ابھی سن رشد یا سنِ بلوغ کو نہیں پہنچا۔ آج کل جب کہ نظروں کو وسعت نصیب ہو رہی ہے اور دنیا بھر کا ادب کتاب کی طرح ہمارے سامنے کھلا پڑا ہے۔ اردو ادب کے قدر دانوں میں یہ حوصلہ پیدا ہونا چاہئے کہ وہ وقتاً فوقتاً اپنے ادب کا دنیا کے بہترین ادب سے مقابلہ کرتے رہیں۔ تاکہ تناسب کا احساس کند نہ ہونے پائے۔ مقامی تعصبات کی حقیقت واضح ہوتی رہے اور دل میں امنگ پیدا ہو۔ ہمارے ادب جدید کے پات ضرور چکنے چکنے ہیں لیکن اس میں ابھی بھی بڑے بڑے پھول نہیں لگے۔ اتنی حد بندی کر لینے کے بعد ہمیں اس بات کو تسلیم کرنے میں ذرا بھی تامل نہ ہونا چاہئے کہ عصمت کی شخصیت اردو ادب کے لئے باعث فخر ہے۔ انہوں نے بعض ایسی پرانی فصیلوں میں رخنے ڈال دیئے ہیں کہ جب تک وہ کھڑی تھیں کئی رستے آنکھوں سے اوجھل تھے اس کارنامہ کے لئے اردو خوانوں ہی کو نہیں بلکہ اردو کے ادیبوں کو بھی ان کا ممنون ہونا چاہئے۔
۔۔
(ساقی دہلی، فروری ۴۵ء)
ہیروئن
یہ عصمت چغتائی کا وہ مضمون ہے جس کا پطرس نے انگریزی میں ترجمہ کیا تھا۔
تالی ہمیشہ دو ہاتھ سے بجتی ہے۔ ادبی تالی بجانے کے لئے بھی دو ہاتھوں کی ضرورت پڑتی ہے اور عرف عام میں ان دو ہاتھوں سے ہمارا مطلب ادب کے ہیرو اور ہیروئن سے ہے یوں تو ایسا ادب بھی ہے جس میں ہیرو اور ہیروئن نہیں وہ ادب بھی ایسا ہی ہے جیسے کسی نے ایک ہاتھ اور پیر کے تلوے کی مدد سے تالی بجا دی ہو ایسی تالی بج تو گئی مگر کتابوں کی جلدوں ہی میں گونج کر رہ گئی عوام تک اس کی رسائی نہ ہو سکی اور اگر سارے ادب میں ہیروئن اور ہیروز نہ ہوئے تو یقیناً یہ خشک ستو بن کر حلق میں پھنس جاتا۔ عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لئے بندر بندریا کو ڈگڈگی بجا کر نچانا پڑتا ہے ویسے اگر وعظ کرنے کھڑے ہو جائیں یا حالات زمانہ سنانے لگیں، تو ظاہر ہے کہ کوئی بھی نہ سنے گا۔ دیکھئے نا محکمہ تعلیم اور مسجدوں سے لوگ کتنا کترا کر نکلتے ہیں۔ لہٰذا جب کسی کو کچھ کہنا ہوتا ہے تو بندر بندریا کے گلے میں ڈوری باندھی اور ڈگڈگی بجانا شروع کر دی۔ ہیرو اور ہیروئن کے رسیلے کارناموں سے ایسی رنگینیاں بھریں کہ لوگ ٹوٹ پڑے، کچھ احساسات کو پھسلایا، کچھ جذبات کو گدگدایا اور مطلب حاصل ہو گیا۔ شعبہ تعلیم میں سب سے زیادہ اہمیت دلچسپ اسباق کو حاصل ہے ہر بات ایسی صورت میں پیش کرنی چاہئے کہ بچے اس میں گلی ڈنڈے اور کبڈی کی رعنائیاں پا کر متوجہ ہو جائیں۔ ادب کا بھی کچھ یہی حال ہے۔ کڑوی سے کڑوی خوراک شکر میں لپیٹ کر دے دیجئے لوگ واہ واہ کر کے نکل جائیں گے۔ رامائن اور مہا بھارت کا زمانہ کیوں اب تک کل کی بات بنا ہوا ہے۔ عظیم بیگ چغتائی نے قرآن کی مدد سے پردے کو چاک کرنا چاہا مگر سوائے مولویوں کی جوتیوں کے کچھ نہ ملا۔ لیکن ”شریر بیوی“ نے کونین کھلا کر اور ”کولتار“ نے عقلوں پر سیاہ پردہ ڈال کر حجاب کو مار بھگایا۔ علامہ راشد الخیری اور پریم چند جی اگر ہیرو ہیروئن کے کندھوں کا سہارا نہ لیتے تو آج بجائے لوگوں کے دل و دماغ کے صرف بوسیدہ کتب خانوں میں پڑے اونگھ رہے ہوتے۔ ادب اور زندگی، ادب اور سماج، ادب اور تاریخ میں چولی دامن کا ساتھ ہے اگر انہیں ایک دوسرے سے جدا کرنے کی کوشش کی جائے گی تو دونوں مٹ جائیں گے۔ دوسرے معنوں میں اگر ادب سے زندگی یعنی ہیرو اور ہیروئن کو الگ کر دیا جائے تو ایک خلا رہ جائے گا۔ ہیرو سے زیادہ میں اس وقت ہیروئن کی حیثیت (جو ادب میں ہے) پر غور کرنا چاہتی ہوں۔ ”ہیروئن جام جم“ کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ اس پر ایک نگاہ ڈالی کر ہی ہم اس کے زمانے کی اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی حالات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مثلاً ”فسانہ آزاد“ کی عورت کو دیکھ کر جو اس زمانے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت جو قابل ذکر عورت تھی وہ نہایت مہذب، تعلیم یافتہ اور دلچسپ طوائف تھی۔ سرشار کو بھلا شریف گھرانے کی عورت کہاں ملی ہو گی اور وہ بھی مسلمان خاندان کی۔ اس وقت شریف بیویاں گھر میں بیٹھی ہنڈیا چولہے سے سر مار رہی ہوں گی۔ سڑی بسی، بے ڈھنگی خادمائیں جن سے اکتا کر لوگ طوائفوں کی آغوش میں سکونِ دل و دماغ تلاش کرنے جاتے ہیں۔ یہ طوائف اتنی بازاری اور کاروباری قسم کی نہ تھی وہ بالکل شریف زادیوں کی طرح رہتی مگر شریف زادیوں سے زیادہ خوش مذاق اور لطیف تھی۔ ظاہر ہے کہ طوائف کی حیثیت سے بالکل ایک باغِ عام کی سی تھی جو عوام کے چندے سے عوام کی خوشنودی کے لئے قائم کیا جائے۔ ہر مرد کی اتنی حیثیت کہاں کہ تعلیم یافتہ، باسلیقہ بیوی شان دار مکان میں پھولوں سے لدی اور عطر میں بسی ہوئی رکھ سکے۔ لہٰذا اس نے اس کا نہایت آسان علاج نکالا۔ گھر میں تو بیوی رکھی جو علاوہ نسل بڑھانے کے دوسری ضرورتوں کو بھی پورا کرتی رہی اور بازار میں طوائف جو جذبات لطیفہ کی پال پوس کرتی رہی۔ یہ بڑا کارآمد انتظام ثابت ہوا، گھر بھی رہا، رنگینیاں بھی۔ مگر طوائف کی سوکن گرہستن نے شراتیں شروع کر دیں اگر میاں سکونِ روح کے لئے طوائف کے یہاں گئے تو وہ بھی محلہ ٹولہ میں آنکھ لڑانے لگی۔ مجبوراً وہ شوہر جنہیں ”باغ عام“ کی سیر ذرا مہنگی پڑتی تھی واپس گرہستن کی طرف لوٹ پڑے۔ سوچا کہ چوراہے کی ہانڈی سے تو اپنی ”دال روٹی“ ہی بہتر ہے عورت بھی کچھ شیر ہو گئی اس نے وہ سب کچھ سیکھنا شروع کیا جس کی تلاش میں شوہر طوائف کے پاس جاتا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ اس نے قدم بڑھائے۔ آہنسا کی پالیسی کے ماتحت طوائف کے در سے بھیک مانگ کر عزت اور توجہ حاصل کرنا شروع کی۔ سرشار کی فتح مند طوائف کو شکست دے کر پریم چند کی گرہستن و بے پیر گھونگھٹ کاڑھے قدم قدم پر پیر چومتی، ماتھے ٹیکتی، ادب میں رینگنے لگی۔ باغ عام کے سیلانے اپنے ہی گملے میں چھوئی موئی کا کلہ پھوٹتے دیکھ کر کچھ متحیر کچھ مغرور اس کی سنچائی کرنے لگے۔ رنڈی تو خیر تھی ہی مگر یہ میٹھی میٹھی، معصوم سی بے ضرر چیز کچھ ایسی پیاری معلوم ہوئی کہ طوائف کا پلہ اچک گیا۔ اس کی خوبیاں عیب ہو گئیں۔ وہی نازو ادا جس کی تلاش میں ناکیں رگڑنے جاتے تھے، رنڈی کے چہل بن گئے۔ چوراہے کے نل کو گندہ کہہ کر لوگوں نے اپنے ہی گھروں میں کنوئیں کھودنا شروع کر دیئے۔ مگر یہ کنویں روز بروز گہرے ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ کنارے ہاتھ سے چھوٹ گئے اور ڈوبنا پڑا۔ طوائف بہت جھلائی بہت بگڑی مگر تاج سدا ایک کے سر نہیں رہتا۔ ناعاقبت اندیش نے پھل تو کچے پکے خوب کھائے مگر نئی پود نہیں لگائی اور ادھر معصوم گھونگھٹ والی نے نئی پود بھی لگائی اور پرانوں کو بھی سینچا۔ نتیجہ یہ کہ رنڈی کے کھنڈروں کو میٹ کر گرہستن نے دنیا بنانی شروع کر دی اور پھر اس کی کمان چڑھ گئی وہی ایڑی تلے کچلنے والے مرد اس کی حمایت میں ایک دوسرے کو لعنت ملامت کرنے لگے۔ ایک دوسرے کے عیب کھول کر شاہراہ پر پٹخ دئے۔ وہ خود غیرجانبدار رہی نہ کسی سے لڑی نہ بھڑی آہنسا کی قائل مگر جیسی گاندھی جی برت رکھ رکھ کر گورنمنٹ کو بوکھلائے دیتے ہیں بالکل اسی طرح جھکی جھکی آنکھوں سے نقاب کے پیچھے سے حشر برپا کرنے لگی۔ لیکن اب بھی پوری فتح حاصل نہ ہو سکی۔ کیونکہ طوائف کے بعد فیشن ایبل میم یا پارسن نے کچھ نہ کچھ حصہ میدان کا گھیرے رکھا۔ ادب کی اس قسم کی ہیروئن نے ہر کہانی اور ہر قصہ میں گھسنا شروع کیا۔ مگر وہ جس نے طوائف کو مار بھگایا اس میم سے کیا دبتی۔ اس نے اتنا تو معلوم کر لیا کہ گھر میں بیٹھنے سے کام نہیں چلے گا۔ مرد مجبوراً اسے گھر میں بند کر کے اکیلا باہر جاتا ہے مگر وہاں وہ اکیلا رہ نہیں سکتا۔ وہ سیدھے ہاتھ میں چھڑی اور الٹے ہاتھ میں عورت چاہتا ہے۔ تقویت دل و دماغ کے لئے گھر میں رکھی ہوئی معجون دفتر اور کاروبار میں بھلا کیا مدد پہنچا سکتی تھی۔ لہٰذا وقتی گزارے کے لئے اس نے دفتر ہی میں دور بیٹھی ہوئی ٹائپسٹ، کبھی کبھی نظر آ جانے والی منیجر کی حسین لڑکی اور ایسی ہی اکا دکا ہیروئن ڈھونڈ کر جسم تاپنا شروع کر دیا۔ اس کے جواب میں ”گوڈر کا لعل“ روشنگ بیگم ”زہرہ بیگم“ کی ہیروئن کو دیکھ کر ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ عورت کی جنگ برابر جاری رہی اور جیت آخر میں اسی کی ہوئی۔ مگر اسے پھر بھی قرار نہ آیا۔ اس نے تو بالکل ہی طوق گلو بننے کا فیصلہ کر لیا تھا وہ اور بڑھی پہلے تو گھر کی چار دیواری میں رشتہ کے بھائیوں ان کے دوستوں اور پاس پڑوس والوں سے آنکھ مچولی شروع کر دی۔ عظیم بیگ کی ہیروئن کے پردے اور برقعے کے تانے بانے کو اندر کشتیاں پچھاڑنی شروع کر دیں۔ موقع بےموقع سر پر چڑھ بیٹھی۔ گردن میں جھول گئی۔ سینے سے آن لگی۔ یہ چھپے ڈھکے جلوے اور بھی زیادہ گدگدانے لگے۔ طوائفوں کے نخرے پرانے اور پریم چند کے آہنسا کے قائل مقدس چیلی، بےوقوف اور بزدل نظر آنے لگی اس کے گیگلے پن سے جان جل گئی۔ جتنا بھی وہ ناک رگڑتی گئی اس سے نفرت ہوتی گئی۔ یہاں تو اب صرف وہ ہیروئن پیر جما سکتی تھی جو منہ کا نوالہ اچک لے۔ بھڑوں کا چھتہ منہ پر اوندھا دے۔ بجائے میٹھی میٹھی نظروں کے کونین میں بجھے ہوئے تیروں سے کام ودہن کی تواضع کرے۔ پڑھی لکھی چاہے خاک نہ ہو مگر وقتاً فوقتاً تھپڑ اور چانٹوں سے گال سینک دے۔ تنخواہ کم، گزارا مشکل، لیکن اگر ایسی شوخ شستہ بیوی ہو جو سارے دکھ درد چٹکیوں میں اڑا دے تو پھر کون جنت کی آرزو میں مرے۔ مرد، عورت کے ظلم سہنے کے لئے ہی پیدا ہوا ہے۔ اس کے بغیر تو جنت میں بھی رہنے کو تیار نہ ہو سکا۔ حضرت آدم نے بیٹھے بٹھائے پسلی چیر کراس فتنے کو نکال ڈالا اور اپنے سر پر سوار کر لیا۔ خواہ بیوی ہو یا رنڈی جو لگام پکڑے ہنکے چلے جائیں گے۔ جتنے کوڑے زیادہ پڑیں گے۔ چال میں مستی اور روانی بڑھتی جائے گی۔ مگر ہر بات کی حد ہوتی ہے دل کے ساتھ ساتھ وہ قول و فعل کی بھی چوکیدار بن بیٹھی اور دماغ کی پاسبانی شروع کر دی۔ سانپ کے منہ کی چھچھوندر بن گئی۔ جو نگلی جائے نہ تھوکی جائے۔ چھتری ٹوپی اور برساتی کوٹ کی طرح ساتھ ٹنگ کر رہ گئی۔ یہاں تک کہ مرد چیخ اُٹھا۔ سب سے پہلے پطرس قبولے اور ان کے بعد عظیم بیگ اور شوکت تھانوی بھی چیخ چیخ کر دہائی دینے لگے۔ ادھر چچا چھکن، منشی جی، مرزا جی اور ہزاروں جی بھی پکار اُٹھے: ”یہ زیادتی ہے بیگم! ہمیں ہنساؤ مگر نہ اتنا کہ پیٹ میں درد اُٹھنے لگے“۔ ادھر ہیروئن ڈھیلی ڈوری کھینچتی گئی اس نے یہ راز بھی معلوم کر لیا کہ اگر وہ ذرا دبی ہوئی ہے تو سوائے اس کے اور کوئی بات نہیں کہ میاں پیسوں پر اکڑتے ہیں کیوں نہ یہ چار پیسوں کی کمائی توڑ کر الگ کر دی جائے لہٰذا محلہ ٹولہ کی سلائی سے شروع کر کے اقتصادی بازار کے ہر کونے میں رینگنے لگی۔ اس نئے روپ نے اس میں چار چاند لگا دیئے۔ ویسے اگر عورت بھیس بدل کر آئے تو خود اس کا میاں اس پر عاشق ہو جاتا ہے۔ جب کمانے نکلی تو یوں معلوم ہوا جیسے کوئی شاندار سرکس شہر میں آگیا ہے۔ عورت ا سکولوں میں پڑھا رہی ہے۔ ملا جی ہکا بکا منہ پھاڑے رہ گئے۔ عورت ڈاکٹر بن گئی۔ حکیم جی مارے حیرت کے پلکیں جھپکانے لگے۔ عدالت میں وکیل مخالف کو بوکھلاہٹ کے مارے کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔ ہٹو! بچو! عورت آرہی ہے۔ لوگ گھبرا کر اُلٹ گئے اور دھڑا دھڑ میدان مارنے لگے۔ اقتصادیات کے میدان کے ساتھ ساتھ بھلا وہ دل کی دنیا کو کیوں نہ تاراج کرتی۔ لہٰذا ہر طرف تباہی مچا دی۔ تو…یہ کماؤ ہیروئن جسمانی اور دماغی اعتبار سے چاق وچوبند، بالکل لٹیروں کی طرح چاروں طرف ہاتھ مارنے لگی۔ اب تو مذاق کی حد ہو گئی خیر کونین کھلاتی تھی، تھپڑ لگاتی تھی تو کوئی مضائقہ نہ تھا۔ یہ تو ایک عورت کے نخرے ہوئے۔ چوکیداری کرتی تھی۔ ذرا سی بات پر ٹسوے بہانے لگتی تھی۔ ہمزاد بن کر وقت بےوقت سوار رہتی تھی تو کیا تھا؟ تھی تو اپنی دست نگر! اپنی بلی بھی کبھی پنجہ مار بیٹھتی ہے۔ مگر خر خر کر کے پھر اپنا نرم گرم جسم پیروں سے رگڑ کر منا بھی تو لیتی ہے۔ فیشن بھی کرتی ہے۔ خرچ ہے تو کیا۔ ہے تو اپنی۔ ہمیں سے تو مانگ کر اتراتی ہے۔ ہماری جیبوں سے تو اٹھلا اٹھلا کر پیسہ نکالتی ہے لیکن یہ بالکل مردانہ وار اقتصادی دنیا میں خم ٹھونک کر جو خود اپنی کمائی کہہ کر کھسوٹ لے جاتی ہے یہ تو سرا سر ڈاکہ زنی ہے۔ صاف دھوکہ! نتیجہ یہ کہ بڑی جلدی یہ ہیروئن ڈائن بن گئی۔ بہت سمجھایا، صاف صاف دکھا دیا کہ ایسی خود سر اور خود مختار عورتوں کا بڑا بد انجام ہوتا ہے حرام کے بچے پیدا ہو جاتے ہیں۔ عصمتیں خاک میں مل جاتی ہیں۔ ساری دنیا جنم میں تھوکتی ہے۔ دفتر میں کلرک بہکا لے جاتے ہیں۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹر روگ لگا دیتے ہیں۔ ا سکولوں میں ماسٹر عاشق ہو جاتے ہیں۔ ادھر والدین کی شمع ہدایت دکھائی۔ ا سکول میں ہر لڑکی کو کم از کم ایک بار ضرور ناجائز بچے کی ماں بننا پڑتا ہے۔ پڑھنا لکھنا کچھ نہیں صرف عشق بازی سکھائی جاتی ہے۔ “ شرم دلائی ”بیٹیوں اور بیویوں کی کمائی کھاتے ہو۔ ڈوب نہیں مرتے“۔ یہ ماسٹر دیکھنے میں کھٹائی جیسے چمرخ مگر ہر ایک اپنے وقت کا مجنوں اور فرہاد ہے۔ اس وقت کی جو کہانی اٹھا کر دیکھئے بس استاد اور طالبہ کے پر سوز عشق اور عبرتناک انجام سے پُر نظر آئے گی۔ یقیناً یہ ادب بھی اپنا اثر دکھاتا اور ہیروئن واپس پستی کے چرنوں میں سرنگوں ڈھکیل دی جاتی۔ بات یہ ہوئی کہ بازار میں نہ جانے کیوں لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں کی مانگ ہو گئی۔ اگر ایک گریجویٹ بیس روپیہ کماتا تو لڑکی ایک سو بیس مار لیتی۔ جوں جوں تعلیم نسواں کار آمد ہوتی گئی۔ تعلیم مرداں فضول اور بے کار بنتی گئی۔ ہیروئین نے پیر مضبوط جما دیئے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک عجیب و غریب کشمکش شروع ہو گئی۔ تعلیم یافتہ لڑکیوں کی مانگ بڑھی مگر اس تیزی سے نہیں جس تیزی سے تعداد بڑھی۔ جب ایک میٹرک پاس لڑکی عنقا سمجھی جاتی تھی۔ اب گلی گلی گریجویٹ اُگ آئیں۔ شادی کے بازار میں بڑی افراتفری مچ گئی۔ ایک پڑھی لکھی لڑکی کے لئے کم از کم ”آئی سی ایس یا پی سی ایس تو ہو۔ کاش گورنمنٹ لڑکیوں کی تعداد دیکھ کر افسروں کا تقرر کرتی۔ تو یہ مصیبت کیوں نازل ہوتی۔ یہ گنے چنے افسر تو اونٹ کی ڈاڑھ میں زیرہ بن کر رہ گئے۔ جس نے اونچی بولی لگائی وہی لے اڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گریجویٹ اور تعلیم یافتہ (لڑکیوں کی کثیر تعداد اس انتظار میں کہ کب گورنمنٹ آفیسر برسیں اور وہ سمیٹ لیں۔ مختلف شعبوں میں نوکر ہو گئیں۔ اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ افسروں کی تعداد کم رہی تو کلرک بدقسمت ا سکول ماسٹر ناکام اور اجڑے ہوئے ڈاکٹر نہیں پیدا ہوئے وہ تو اور بھی شدت سے پیدا ہوئے۔ اب ان بےچاروں کے پاس دو راستے رہ گئے یا تو جاہل لڑکیوں سے نصیبہ پھوڑ لیں یا امیر اور تعلیم یافتہ لڑکیوں سے تخیلی عشق کر کے زندگی ان کی یاد میں گزار دیں۔ جنہوں نے دل پر پتھر رکھ کر سر پھوڑ لیا ان کی روحیں بھی جیون ساتھی کی تلاش میں بھٹکائیں۔ زندگی بھر ہم خیال وہم مذاق بیوی کا ارمان دل میں کچوکے مارتا رہا اور جو زیادہ ہمت والے تھے وہ پاس پڑوس کی کبھی کبھی نظر آ جانے والی اپٹوڈیٹ حسینہ کی آگ میں سلگنے لگے۔ آخر الذکر تعداد میں زیادہ بڑھے اور نتیجہ یہ ہوا کہ عورتیں اور مرد پیدا ہوتے گئے اور دنیا میں رہتے رہے۔ ایک دوسرے کے لئے نہیں بلکہ ”موزوں رشتہ“ کے لئے ! بالکل جیسے ایک دکان میں کپڑے کے گٹھڑ پڑے گل سڑ رہے ہوں۔ اور دوسری طرف سڑکوں پر ننگے گھوم رہے ہوں۔ ایک ہوٹل میں باسی مٹھائیوں اور کھانوں کے انبار موریوں میں لنڈھائے جا رہے ہیں اور دوسری طرف لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں جوں جوں دکانیں اور ہوٹل لوازمات سے بھر جاتے ہیں۔ سڑکوں پر ننگے اور بھوکوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک پنجرے میں لڑکے اور دوسرے میں لڑکیاں بند کر کے بیچ میں چال چلن کے پہرے دار بٹھا دیئے گئے۔ لڑکیاں کنواری بیٹھی سوکھ گئیں ادھر لڑکے حیوان بنتے چلے گئے۔ نتیجہ یہ کہ انسانیت زیادہ بھوکی، مفلوج اور غیر انسانی بنتی گئی اور پھر ایک ایسا طبقہ پیدا ہوا جو برسوں کی چھپی ڈھکی غلاظتوں کے مواد کی طرح پھوٹ پڑا۔ اس نے جو پہلا کام کیا وہ تخریب تھا۔ بوڑھے گھنے ہوئے پیڑ کا تنا اکھاڑے بغیر نیا پودا لگانا دشوار ہے پرانے مکان کو ڈھا کر ہی نئی کوٹھیاں بنائی جا سکتی ہیں سب سے پہلے تو عورت اور مرد کے بیچ میں جو پاسبان بیٹھا تھا اس سے مڈ بھیڑ ہوئی چونکہ بغیر عورت کے دنیا ادھوری تھی گھر میں اپنی کمائی سے عورت رکھنے کی نہ ہی اقتصادی حالت نے اجازت دی اور نہ پاسبانوں نے۔ لاچار ہو کر وہ واپس طوائف کی آغوش میں جا گرا۔ گرہست ہیروئن کے راج میں طوائف مٹ مٹا کر خاک ہو چکی تھی۔ ناقدری اور پھٹکار نے اسے صورت سے بے صورت کر دیا تھا۔ کچھ دیوالیہ ہو کر نکاح کر بیٹھی تھیں۔ کچھ لمبی چوڑی دکانیں لٹوا کر گندی نالیوں کے پاس خوانچہ لگا چکی تھیں۔ کچھ نے روپ بدل ڈالا تھا۔ اور جیسے طوائف ہیروئین سے مرد کو چھیننے کے لئے گرہستن نے گھونگھٹ اٹھایا تھا۔ آج اس نے اسی پھینکے ہوئے آنچل میں منہ چھپانے کی کوشش کی تھی۔ کبھی گرہستن نے اس کے ہتھکنڈے اور بناؤ سنگھار چھینے تھے آج اس نے گرہستن کی بےچارگی اور بے کسی کی آڑ لی اور سوائے بالکل نچلے طبقہ کے طوائف کو پہچاننا بھی دشوار ہو گیا تھا اور جب یہ باغی طبقہ طوائف کی تلاش میں نکلا تو اس کی حالتِ زار دیکھ کر اس کا جی دہل گیا۔ طوائف اب وہ سرشار کی چہکتی ہوئی بلبل نہیں رہی تھی۔ بلکہ بھوکی کمینی بلی بن گئی تھی سوائے فقیروں اور یکہ تانگہ والوں اور مزدوروں کے کسی کو اس کا نام و نشان بھی معلوم نہ رہا تھا۔ اپنا مطلب تھا تو اسی طوائف کو شعروں میں پرو ڈالا قصیدوں میں گوندھ کر، ناولوں میں سجا کر، ادب کو اس کی لونڈی بنا دیا اور پھر جو بھولے تو ایسا بھولے کہ لوٹ کر خبر بھی نہ لی۔ گھر میں نل لگ گیا تو میٹھے پانی کی کنوؤں کو ایسا فراموش کیا کہ اندھی ہو کر سانپوں اور کنکھجوروں کا مسکن بن گئی اور اب وقت پڑا تو اسی کے کنارے پیاسی زبانیں لٹکائے ہانپ رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ میونسپلٹی سے کہہ کر صفائی کرانے پر تلے ہوئے ہیں مگر یہ اندھا کنواں دوبارہ کار آمد ہونے سے پہلے بڑی سخت مدد کا طالب تھا چنانچہ باغی طبقہ اس کی حمایت میں چیخ پڑا۔ پکار پکار کر اس نے دنیا کے اس زخم کو دکھایا جو نا سور بن کر بج بجا اٹھا تھا۔ غریب مگر خود دار جوان اس طبقے کی حفاظت کو اٹھ کھڑا ہوا جو اس کی تھی۔ اس کے کام آ سکتی تھی۔ اسے سارا حسن اور تمام لطافتیں اس ٹکھیائی اور فقیرنی میں نظر آئیں جس میں دنیا بھر کی غلاظتیں جذب ہو چکی تھیں۔ مگر جو اسے مل سکتی تھی ناقدری کی وجہ سے وہ گر گئی تھی۔ اور اسی کے کرم کی محتاج تھی شریف عورت اس نوجوان کی زندگی سے دور تر ہوتی گئی۔ وہ اس کے بارے میں نہ کچھ جان سکا اور نہ اس نے جاننے کی کوشش کی۔ اس کی نظروں میں وہ صرف نک چڑھی، خود غرض اور جھوٹی مخلوق بن کر رہ گئی جو پیار بھری نظروں کو گال اور عشق کو گھناؤنا سمجھتی ہے۔ جو محبت کرنا ہتک سمجھتی ہے۔ اور مرد کی حفاظت کو اپنی توہین۔ اس میں عام طوائف جیسی گندی بھیانک جاذبیت کہاں؟ عام طوائف سے وہ طوائف مراد نہیں جو بڑے آدمیوں کی دنیا میں چمکا کرتی ہے بلکہ سڑک کی وہ ننگی بھوکی کتیا جو راہ چلتے کی ٹانگ پکڑ کر گھسیٹتی ہے جو ہر قیمت پر ہر حیثیت کے انسان کو لنگر بانٹتی ہے اس کی گندگی اور غلاظت گھن کھانے کی چیز نہیں بلکہ اصلاح کی محتاج ہے۔ اگر ہمارے مکان میں نالی سڑ رہی ہے تو یہ اس بیچاری نالی کا قصور نہیں بلکہ مکان دار کا قصور ہے اسے گندہ کہہ کر منہ موڑ لینے سے گندگی دور نہیں ہو جائے گی۔ طوائف گندی اور بیمار، کمینی اور جعلساز ہے تو اس کا قصور نہیں بلکہ اس نظام کا قصور ہے جو انسانیت کی یوں بے قدری کرتا ہے۔ نئے ادیبوں نے طوائفوں کا حال لکھ کر بے شک ایک متعفن پھوڑے کا منہ کھول دیا جس نے نازک مزاج لوگوں کی لطیف طبیعتوں پر برا اثر ڈالا مگر اس پھوڑے کا مواد نکل جانے سے دنیا کے تھوڑے بہت دکھ مٹ جانے کا امکان پیدا ہو گیا طوائف کیسی بھی ذلیل ہو، ہماری دنیا کے جسم کا ایک حصہ ہے اسے سڑا کر نہیں پھینکا جا سکتا۔ لوگ اسے عورت نہیں مانتے وہ جو دنیا کے ہر دکھیارے کا سہارا ہر بھوکے کا دسترخوان ہے وہ بےشک عورت نہیں مگر اس سے بھی زیادہ کار آمد ہستی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل کا نوجوان گرہستن سے زیادہ بازاری مال کی بہتری کا خواہاں ہے۔ وہ اس کی زندگی سے دور اور یہ قریب ہے اسے کیا غرض جو تعلیم نسواں نہیں ہو رہی یا بیوائیں بن بیاہی سوکھ رہی ہیں یا میاں بیوی کی ناکیں کاٹے ڈال رہے ہیں۔ اس کی بلا سے دنیا بھر بیوہ ہو جائے اور عورت مٹے یا رہے۔ دیکھئے نا آپ کے محلے کی نالی خراب ہو جاتی ہے تو آپ غل مچا دیتے ہیں۔ اور آپ پروا بھی نہیں کرتے کہ اس سال لڑائی کی وجہ سے وکٹوریہ گارڈن میں عمدہ بیج نہ بوئے جا سکے۔ اس لئے اس سال تختۂ گل کی بہار سے لوگ محروم رہ جائیں گے۔ آپ کی بلا سے پھول کھلیں یا نہ کھلیں مگر نالی ضرور صاف ہونی چاہئے۔ اب خواہ دنیا موجودہ ادب کی ہیروئن کو ناپاک، عریاں اور مکروہ کہے، زمانے نے اسے ہیروئن کا رتبہ دے دیا۔ یہ زمانے کی نشیب و فراز کی ڈھالی ہوئی اینٹ ہے جو تعمیر میں اپنی جگہ پا گئی۔ یہ تو ہوئی ہیروئن سرشار کی نازو ادا بھری نازنین، جسے دنیا میں سوائے کھانے پینے اور عیش کرنے کے کسی بات کی فکر نہیں… میں نے غلط کہا، ایک بات کی بے انتہا فکر ہے اور وہ عشق لڑانے کی۔ یہ زمانہ ہے فارغ البالی کا۔ پھر اس کے مقابلے میں پریم چند کی مظلوم عورت، اور راشد الخیری کی کچلی ہوئی بیوہ، یہ زمانہ ہے اقتصادی کشمکش کا اور سدھار کا پھر لیجئے مزاح نگاروں… یہ ہنس گئے اور ہنسا گئے۔ چمڑی میں مگن، نہ آگے جانا نہ پیچھے ہٹنا۔ پھر ایم اسلم کی سادھو کی لڑکی جسے سوائے ندی کے کنارے آنے جانے والوں سے پریم کی پتنگیں بڑھانے اور بھونروں کے ساتھ گیت گانے کے اور کوئی کام نہیں۔ مس حجاب کی بےوقوف، کاہل اور بے مصرف دوشیزہ جسے سوائے چوہوں سے ڈر کر بےہوش ہو جانے کے اور کچھ نہیں آتا۔ جہاں حسن و عشق کو بناوٹ نے الو بنا رکھا ہے۔ یہ زمانہ ہے عاجز آکر اونگھنے کا۔ اور پھر کرشن کی زندہ عورت، بیدی کی کاروباری ہیروئن، منٹو کی جیتی جاگتی سب کی جانی پہچانی بےحیا رنڈی، عصمت کی بےچین منہ پھٹ اور بےشرم لڑکی، ستیارتھی کی خانہ بدوش، عسکری کی فلسفی میم صاحب…یہ زمانہ ہے زندہ رہنے کے لئے لڑ مرنے کا، کچھ تعمیر کرنے کے لئے جدوجہد کا، کچھ مٹانے کے لئے اورکچھ بنانے کے لئے۔ دین و دنیا کو پلٹ کر دینے کا۔ جیسا کہ موجودہ فضا سے ظاہر ہورہا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ ہماری آئندہ زندگی کی ہیروئن کس شان سے جلوہ افروز ہوتی ہے۔ خدا کے بعد عورت ہی کی پرستش ادب میں کی گئی ہے۔ یا شاید اس کا نمبر پہلے آتا ہے اور پھر دنیا کی دوسری طاقتوں کا۔ جہاں تک اندازہ لگایا جاتا ہے آنے والی ہیروئن نہ تو ظالم ہو گی نہ مظلوم بلکہ صرف ایک عورت ہو گی۔ اور اہرمن و یزداں کے بجائے ادیب اسے عورت کا رتبہ ہی بخشیں گے۔ اور پھر تعمیر شروع ہو گی۔
(ایک بات)
ہیبت ناک افسانے
”ہیبت ناک افسانے“ کا پیکٹ جب یہاں پہنچا۔ میں گھر پر موجود نہ تھا۔ میری عدم موجودگی میں چند انگریز احباب نے جو کتابوں اور اشیائے خوردنی کے معاملے میں ہر قسم کی بے تکلفی کو جائز سمجھتے ہیں، پیکٹ کھول لیا۔ یہ دوست اردو بالکل نہیں جانتے۔ بجز چند ایسے کلموں کے جو غصے یا رنج کی حالت میں وقتاً فوقتاً میری زبان سے نکل جاتے ہیں اور جو بار بار سننے کی وجہ سے انہیں یاد ہو گئے ہیں۔ اردو تقریر میں ان کی قابلیت یہیں تک محدود ہے۔ تحریر میں اخبار ”انقلاب“ کا نام پہچان لیتے ہیں وہ بھی اگر خط طغریٰ میں لکھا گیا ہو چنانچہ جب واپس پہنچا تو ہر ایک نے محض کتاب کی وضع قطع دیکھ کر اپنی اپنی رائے قائم کر رکھی تھی۔ سرورق پر جو کھوپڑی کی تصویر بنی ہوئی ہے اس ے ایک صاحب نے یہ اندازہ لگایا کہ یہ کتاب:
میں بھی کبھی کسی کا سر پر غرور تھا
سے متعلق ہے۔ ایشیا کے ادیب (عمر خیام، گوتم بدھ وغیرہ) اکثر اس قسم کے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے صاحب سمجھے کہ فن جراحی کے متعلق کوئی تصنیف ہے۔ ایک بولے جادو کی کتاب معلوم ہوتی ہے (ہندوستان کے مداریوں کا یہاں بڑا شہرہ ہے) ایک خاتون نے کتاب کی سرخ رنگت دیکھ کر بالشویکی شبہات قائم کر لئے۔
میں نے کتاب کو شروع سے آخر تک پڑھا۔ گو یہ سب کی سب کہانیاں میں پہلے انگریزی میں پڑھ چکا ہوں۔ اور ان میں سے اکثر تراجم کتابی صورت میں شائع ہونے سے پہلے خود امتیاز سے سن چکا ہوں۔ وہ مختلف قسم کی دلفریبیاں جو مجھے کبھی کسی تصنیف کو مسلسل پڑھنے پر مجبور کر سکتی ہیں سب کی سب یہاں یکجا تھیں۔ کتابت ایسی شگفتہ کہ نظر کو ذرا الجھن نہ ہو تحریر میں وہ سلاست اور روانی کہ طبیعت پر کوئی بوجھ نہ پڑے۔ اور پھر امتیاز کے نام میں وہ جادو جس سے ہندوستان یا انگلستان میں کبھی بھی مَفر نہ ہو۔ یہ کتاب تیرہ ہیبت ناک افسانوں کا مجموعہ ہے۔ جن کے مصنف کا مدعا یہ تھا کہ پڑھنے والوں کے جسم پر رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے اور ہر افسانے میں درد و کرب خوف و دہشت یا پھر مرگ و ابتلاء کی ایسی خونیں تصویر کھینچی جائے کہ بدن پر ایک سنسنی سی طاری ہو جائے۔ ایڈگر ایلن پو کے پڑھنے والے ایسے افسانوں سے بخوبی آشنا ہوں گے۔ حق تو یہ ہے کہ پو اس فن کا استاد تھا۔ اور یہ جو آج کل اس صنف ادب کی کثرت فرانس میں نظر آتی ہے عجب نہیں کہ اس کا بیشتر حصہ تو اسی کی بدولت ہو۔ کیونکہ فرانس کی ادییات پر پو کا اثر مسلم ہے اور ادب کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو۔ جہاں کسی نہ کسی صورت میں اس نے اپنا رنگ نہ پھیر رکھا ہو۔ پیرس میں ایک خاص تھیٹر اسی بات کے لئے وقف ہے کہ اس میں دہشت انگیز کھیل دکھائے جائیں۔ اس کمپنی نے اس قسم کے ڈراموں کا اچھا خاصا مجموعہ مہیا کر رکھا ہے۔ تھیٹر کی ڈیوڑھی میں چیدہ چیدہ ڈراموں کے مشہور مناظر کی تصاویر آویزاں ہیں۔ کہیں کوئی بدنصیب موت کی آخری انگڑائیاں لے رہا ہے۔ چہرہ تنا ہوا ہے اور آنکھیں باہر پھوٹی پڑتی ہیں۔ کہیں کوئی سفاک کسی حسینہ کی آنکھیں نکال رہا ہے۔ بائیں ہاتھ سے گردن دبوچے ہوئے ہے۔ دائیں ہاتھ میں خون آلود چھری ہے اور لڑکی کی آنکھوں سے لہو کی دھاریں بہہ رہی ہیں۔ کھیل کو ہیبت ناک بنانے کے لئے جو جو تدابیر بھی ذہن میں آ سکتی ہیں ان سب پر عمل کیا جاتا ہے۔ ایکٹر اپنی شکل شباہت اپنی آواز اور اپنی حرکات کے ذریعے ایک خوف سے کانپتی ہوئی فضا پیدا کر لیتے ہیں۔ پردہ اُٹھنے سے پہلے ہی گھنٹی نہیں بجائی جاتی بلکہ چراغ گل کر کے لکڑی کے تختے پر دستک دی جاتی ہے۔ اس سے ہیبت اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس بات میں بحث کی گنجائش نہیں کہ درد و کرب یا خوف و دہشت کے مناظر یا افسانوں سے ایک خاص قسم کی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ یہ فقرہ بظاہر خود اپنی تردید کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے جس کو درد کہا جاتا ہے۔ اس سے خوشی کیسے حاصل ہو گی۔ لیکن یہ ہمارے متداول الفاظ کی کم مائیگی کا نتیجہ ہے۔ اصل خیال کو جو اس فقرے سے ظاہر کیا گیا ہے الفاظ کے اس گورکھ دھندے سے باہر نکالنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اسی وجہ سے بعض ماہرین نفسیات دکھ، درد، کرب وغیرہ اس قسم کے الفاظ استعمال سے مجتنب رہتے ہیں کیونکہ وہ کب کے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ بہت سی ایسی کیفیات جن کو ہم عام زبان میں دکھ درد وغیرہ سے موسوم کرتے ہیں۔ بسا اوقات اس قدر تسکین بخش ہوتی ہیں کہ لوگ ان کے وصول کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ اور ان میں اپنی مسر ڈھونڈ لیتے ہیں۔ یقیناً آپ کے پڑوس میں کئی ایسی عورتیں ہوں گی جو اس تلاش میں رہتی ہیں کہ کسی نہ کسی کی موت کی خبر سن پائیں اور بین اور واویلا میں شامل ہو کر آنسو بہا بہا کر اپنی تمنا پوری کر لیں۔ جرائم اور اموات کی گھناؤنی سے گھناؤنی تفصیلات کی اشاعت یورپ اور امریکہ کے کئی اخباروں کی مقبولیت کا باعث ہے۔ لوگوں کو ان کے پڑھنے میں ایک خاص لطف آتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ یا میں بعض دہشت ناک افسانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو ہمیں اس کا اعتراف کرتے ہوئے محض اس وجہ سے متامل نہ ہونا چاہیئے کہ کہیں لوگ اس کو ہماری طینت کے کسی نقص پر محمول نہ کریں۔ مجھے یقین ہے کہ قدیم زمانے میں رومن قوم کے ہجوم اپنے اکھاڑوں میں پہلوانوں کی لڑائیاں اسی جذبے کے ماتحت دیکھنے آتے تھے۔ ہر کشتی ایک نہ ایک حریف کی موت پر جا کر ختم ہوتی تھی۔ اور کشت و خون کا یہ نظارہ ہزاروں لوگوں کو خوشی کے مارے دیوانہ بنا دیا کرتا تھا۔ ہماری تہذیب اس تجاوز کی متحمل نہیں۔ لیکن افسانوں اور ڈراموں سے لطف اندوز ہونا اب بھی ہمارے بس میں ہے۔ اور اگر ہم اس جذبے کو فن کی کیمیا سے کشید کر کے لمحے بھر کو اپنے اعصاب میں ایک کیف انگیز تھرتھراہٹ پیدا کر لیتے ہیں تو کم از کم میں تو کسی طرح بھی نادم نہیں۔ آپ اپنے دل کو ٹٹول لیجئے۔ اعصاب میں ایک تھرتھراہٹ! بس یہی ان افسانوں کا مقصد ہے اور جس کامیابی، جس خوبی اور جس فن کے ساتھ اس کتاب کے مصنف نے اس مقصد کی تکمیل چاہی ہے اس کی تعریف اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ امتیاز جیسے ذی مطالعہ اہل قلم کو اس کے ترجمے کی خواہش ہو۔ ان لوگوں کے سامنے جو اردو ادب کے مشاہیر سے واقف ہیں اس سے زیادہ قابل وقعت ضمانت نہیں پیش کی جا سکتی۔ مصنف کی سب سے بڑی خوبی خود مترجم نے کتاب کے دیباچے میں واضح کر دی ہے۔ ”موسیو لیول بے انتہا، سلیس عبارت استعمال کرتے ہیں۔ جس کی پختگی اور روانی پڑھنے میں نظم کا سا لطف دیتی ہے۔ ایک فقرہ یا لفظ بھی ضرورت سے زیادہ یا کم نہیں ہوتا۔ مختلف چیزوں کے بیان میں تناسب کی سمجھ بےحد تیز ہے۔ چنانچہ ان کی ہر مکمل کہانی ایک نفیس اور صاف ستھرے ترشے ترشائے ہیرے کی طرح دل کش معلوم ہوتی ہے۔ “ یہ اختصار دہشت انگیز افسانوں کی ایک ضروری صفت معلوم ہوتی ہے۔ اس کے بغیر ان میں وہ تندی وہ تیزی نہیں رہتی جس سے سنسنی پیدا کی جا سکے۔ اور پھر یہ اختصار ہر رنگ میں شامل حال رہتا ہے ورنہ افسانے یا ڈرامے کی کامیابی میں نمایاں طور پر فرق پڑجاتا ہے اس کی وجہ میں کبھی ٹھیک طور پر سمجھ نہیں سکا لیکن اس کی حقیقت کے متعلق میرے دل میں کوئی شبہ نہیں۔ پیرس کے جس تھیٹر کا میں نے ذکر کیا ہے وہاں اکثر کھیل صرف ایک ایکٹ کے ہوتے ہیں اور خود تھیٹر بھی بہت چھوٹا سا ہے۔ چند دن ہوئے میں نے لندن میں ایک ایسی قسم کا کھیل دیکھا جو ہیو والیول کے ایک ناول سے مرتب کیا گیا ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس کھیل کے لئے بھی لندن کا ایک بہت چھوٹا سا تھیٹر منتخب کیا گیا اس تھیٹر کا نام لٹل تھیٹر یا چھوٹا تھیٹر ہے۔ باقی رہا امتیاز کا ترجمہ، میں حیران ہوں کہ اس مختصر سے تبصرے میں اس موضوع کے متعلق کیا کہوں اور کیا کسی اور وقت پر اُٹھا رکھوں۔ آج کل اردو میں تراجم کثرت سے شائع ہو رہے ہیں اور ضرورت ہے کہ کوئی صاحب فہم ان کے متعلق ایک بسیط تنقیدی مضمون سپرد قلم کر دیں تاکہ ”چترا“ اور ”تائیس“ اور ”مذہب اور سائنس“ اور ”عذرا“ اور ”لیلیٰ“ ایسی تصانیف کی ادبی حیثیت کو جانچنے کے لئے ایک معیار مقرر ہو جائے۔ میں ایسی بحث سے گریز کرتا ہوں خصوصاً اس وقت جبکہ میرے زیر نظر صرف ”ہیبت ناک افسانے“ ہے اور میرا قلم صرف اس کی خدمت میں مصروف ہے۔ یہ کہنا کہ امتیاز صاحب انگریزی جانتے ہیں، اس وقت تک بےمعنی فقرہ ہے جب تک کہ میں اس کی مزید تشریح نہ کر دوں آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہ وں کہ ”گدھا“ کس کو کہتے ہیں۔ کسی انگریزی کے لئے اس لفظ کے معنی سیکھ لینا کچھ مشکل نہیں۔ جانور کی تصویر دکھا دیجئے اور نام بتا دیجئے۔ قصہ ختم ہو گیا۔ لیکن اس لفظ کے ساتھ ”ابے گدھے“ سے لے کر ”خرِ عیسیٰ“ تک جو شعر و ادب، فلسفہ و مذہب رسم و عادت، محاورہ اور روز مرہ کی ایک تاریخ وابستہ ہے، اس کو منتقل کرنے کے لئے ایک عمر چاہیئے اور پھر اس کے لئے بصیرت، ذہانت مذاق اور مطالعہ کی ضرورت ہے۔ امتیاز کو خدا نے یہ سب خوبیاں عطا کی ہیں اور یہ ہندوستان کی خوش قسمتی ہے کہ انہوں نے اپنی ان قوتوں کو مطالعۂ السنہ اور علم و ادب کی تحصیل کے لئے وقف کر رکھا ہے۔ ہاں وہ انگریزی جانتے ہیں اسی لئے جب کبھی ان کا کوئی دلدادہ اپنی عقیدت کی وجہ سے ان کے نام کے ساتھ بی اے لکھ دیتا ہے تو مجھے غصہ آتا ہے۔ ان کی اردو پرکھنے کے لئے ہندوستان میں مجھ سے بدرجہا بہتر نقاد موجود ہیں۔ اس کے علاوہ میں امتیاز کے نیاز مندوں میں سے ہوں۔ مجھے سنبھل کر قلم اٹھانا چاہیئے۔ مبادا قارئین میرے جذبات کی تو تعریف کریں لیکن میری تنقید کو محض اظہار نیاز مندی سمجھ کر پس پشت ڈال دیں۔ اس لئے بہتر یہی ہو گا کہ اس کتاب کے ایک دو صفحے آپ اور میں مل کر پڑھیں۔ ”شام پڑ رہی تھی۔ فقیر سڑک کے کنارے خندق کے پاس کھڑا ہو گیا اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا کہ کوئی کونا کھدرا نظر آئے تو وہاں پڑ کر رات بسر کرے۔ اور کوٹ سمجھ لو یا جو کچھ سمجھ لو ایک بورا سا اس کے پاس تھا۔ اسی میں گھس گیا۔ لاٹھی کے سرے پر ایک گٹھڑی سی باندھ کر کندھے پر اُٹھا رکھی تھی، تکیے کی جگہ اسے سر کے نیچے رکھ لیا۔ تھکن سے چور چور ہو رہا تھا بھوکا تھا، پڑ رہا اور نیلے آسمان پر تاروں کو ایک ایک کر کے اُبھرتے ہوئے دیکھنے لگا۔ سڑک کے دونوں طرف جنگل بیابان پڑا تھا۔ پیڑوں پر چڑیاں نیند میں چپ چاپ تھیں۔ دور بہت فاصلے پر گاؤں ایک بہت بڑا سیاہ دھبہ دکھائی دے رہا تھا۔ یہاں سکون اور سناٹے میں لیٹے لیٹے غریب بڈھے کا دل بھر آیا۔ اسے کچھ معلوم نہ تھا میرے ماں باپ کون تھے۔ لا وارث کو ثواب کمانے کے لئے کسی زمیندار نے لے لیا تھا۔ اسی کے ہاں پروان چڑھا تھا۔ بچہ ہی سا تھا تو وہاں سے نکل بھاگا۔ ادھر اُدھر اس فکر میں پھرنے لگا کہ کہیں کچھ کام مل جائے جس سے روٹیوں کا سہارا ہو سکے۔ بڑی کٹھن زندگی گزر رہی تھی۔ دکھوں کے سوا جینے کا کوئی مزا نہ دیکھا تھا۔ جاڑوں کی لمبی لمبی راتیں چکیوں کی دیواروں تلے پڑ کر کاٹ دی تھیں۔ سوال کے لئے ہاتھ پھیلانے کی ذلت اُٹھائی تھی۔ چاہا تھا کہ مرجائے۔ ایسی نیند سوئے کہ پھر کبھی آنکھ نہ کھل سکے۔ جتنے لوگوں سے اب تک واسطہ پڑا تھا۔ بےدرد تھے، شکی تھے۔ سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ معلوم ہوتا تھا ہر ایک اس سے ڈرتا ہے بچے دیکھ پاتے تو بھاگ جاتے۔ کتے اس کو چیتھڑوں میں دیکھ کر بھونکنے لگتے۔ پھر بھی کبھی کسی کا برا نہ چاہا تھا۔ سیدھی سادی اور نیک طبیعت پائی تھی۔ جسے مصیبتوں نے مردہ بنا دیا تھا۔ “ یہ وہ زبان ہے جو قلعے میں پیدا ہوئی اور جو برسوں تک ”اہل زبان“ کے لئے باعث فخر وناز رہی۔ شمالی ہندوستان کے تعلیم یافتہ طبقے کو یہ زبان رتن ناتھ سرشار، داغ اور امیر، نذیر احمد، اور محمد حسین آزاد سے ورثہ میں ملی۔ اور اسی خزانے کے سکوں سے جنہیں خود ”اہل زبان، محض ممسکوں کی طرح اپنے ہاتھوں ہی میں مل مل کر خوش ہولیتے ہیں۔ اب لاہور کا ادیب فرانس اور انگلستان کا متاع ادب خرید خرید کر ہندوستان میں منتقل کر رہا ہے۔ اس قدیم دولت سے ادب جدید کے بازار میں اپنی ساکھ قائم رکھنا صرف امتیاز ہی کا کام تھا۔ اب ایک اور صفحے کو پڑھئے۔ جو دہلی اور لکھنؤ دونوں سے بے نیاز ہے بلکہ جو اکثر پرانی وضع کے بزرگوں کو اپنی جدت سے برہم کر دے گا۔ ”اس روز میں بہت دیر تک کام کرتا رہا تھا۔ اتنی دیر تک کہ آخر کار جب میں نے میز پر سے نظریں اٹھائیں تو کیا دیکھتا ہوں کہ شفق شام سے میرا مطالعہ کا کمرہ لالہ زار بن رہا ہے۔ ذرا دیر تک میں بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔ دماغ پر کسل کی وہ کیفیت طاری تھی جو کسی بڑی ذہنی محنت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ بے تعلق نظروں سے ادھر اُدھر تکتا رہا۔ مدھم روشنی میں ہر چیز دھندلی اور بے وضع نظر آ رہی تھی۔ اگر کچھ روشنی تھی تو ان جگہوں پر جہاں غروب ہوتے ہوئے سورج کی آخری شعاعیں میز، آئینے اور تصویر سے منعکس ہو کر روشنی کے دھبے ڈال رہی تھی۔ کتابوں کی الماری پر ایک انسانی کھوپڑی رکھی تھی۔ اس میں شعاعیں ضرور خاص قوت سے منعکس ہو کر پڑ رہی ہوں گی۔ کیونکہ میں نے نظریں اٹھائیں تو وہ مجھے ایسے روشن طور پر نظر آئی کہ گال کی ہڈی سے لے کر جبڑے کے زبردست زاوئے تک ہر حصہ بخوبی واضح تھا۔ شام کا دھندلکا بڑی سرعت سے گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ اور ہر چیز کو جیسے نگلنے جا رہا تھا۔ اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ رفتہ رفتہ مگر قطعی طور پر اس سر میں زندگی کی چنگاری چمک اُٹھی ہے۔ وہ گوشت پوست سے منڈھا گیا ہے۔ دانتوں پر ہونٹ سرک آئے۔ حلقوں میں آنکھیں جڑی گئی ہیں۔ بہت جلد کسی انوکھے سحر سے مجھے ایسا نظر آنے لگا کہ میرے سامنے تاریکی میں گویا ایک سر معلق ہے اور میری طرف تک رہا ہے۔ وہ سر جمی ہوئی نظروں سے مجھے گھور رہا تھا۔ اور اس کے چہرے پر استہزا کا ایک تبسم تھا۔ یہ کوئی اس قسم کا گریز پا تصور نہ تھا جو انسان کا تخیل پیدا کر لیا کرتا ہے۔ یہ چہرہ ایسی حقیقی چیز معلوم ہوتا تھا کہ ایک مرتبہ تو میں بےقرار ہو گیا کہ ہاتھ بڑھا کر اسے چھولوں لیکن یکلخت رخسار جیسے تحلیل ہو کر رہ گئے۔ حلقے خالی ہو گئے۔ ایک ہلکی سی گہر نے اسے ملفوف کر لیا۔ ۔ ۔ اور پھر مجھے عام کھوپڑیوں کی طرح ایک کھوپڑی نظر آنے لگی“۔ یہ اردو نہ بازار میں پیدا ہوئی نہ گھر میں۔ اس نے نہ لشکر میں پرورش پائی نہ قلعے میں۔ بلکہ یہ صرف ملک کے بہترین دماغوں کی کاوش کا نتیجہ ہے۔ نئی تہذیب کی ضروریات نے اسے ایجاد کیا اور مطالعے اور خوش مذاقی نے اسے یہ دلفریب صورت بخشی۔ اس بارے میں ہمارا ادب سجاد حیدر، ظفر علی خاں، ڈاکٹر اقبال اور ابوالکلام آزاد جیسی شخصیتوں کا ممنون ہے۔ جنہوں نے بعض ایسے دروازے کھول دیئے کہ ترقی کے کئی راستے آنکھوں کے سامنے پھیلتے ہوئے نظر آنے لگے۔ یہ دو مختلف نمونے میں نے امتیاز کی قادر الکلامی کو ثابت کرنے کے لئے پیش کئے ہیں۔ ان پر یہ اعتراض بجا نہ ہو گا کہ ایک ہی تصنیف میں اتنے متبائن ڈھنگ یک رنگی کے منافی ہیں۔ اس کے جواب میں، میں یہ کہوں گا کہ جب آپ کسی ایک ایسی کتاب کو جو ایک غیرملکی تصنیف میں ڈوبی ہوئی ہو،محض اردو جاننے والے ہندوستانیوں کی ضیافت طبع کے لئے کسی دیسی زبان میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ تو یہ یقین مانیے انشاء پردازی کا کوئی ایسا فن نہ ہو گا جس سے آپ بے نیازی برت سکیں۔ اس کے لئے قلم نہیں بلکہ دسوں انگلیاں دس چراغ ہونی چاہئیں۔
پطرس۔ از کیمبرج
(مخزن مئی ۱۹۲۸ء)
رونا رُلانا
ایک امریکن ادبی نقاد ایک مقام پر لکھتا ہے کہ مرد ایک ہنسوڑا جانور ہے اور عورت ایک ایسا حیوان ہے جو اکثر رونی شکل بنائے رہتا ہے۔
مصنف کی خوش طبعی نے اس فقرے میں مبالغے اور تلخی کی آمیزش کر دی ہے اور چونکہ وہ خود مرد ہے اس لئے شاید عورتوں کو اس سے کلی اتفاق بھی نہ ہو لیکن بہرحال موضوع ایسا ہے جس پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔
میرے ایک دوست کا مشاہدہ ہے کہ عورتوں کی باہمی گفتگو یا خط و کتابت میں موت یا بیماری کی خبروں کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایسے واقعات کے بیان کرنے میں عورتیں غیر معمولی تفصیل اور رقت انگیزی سے کام لیتی ہیں۔ گویا ناگوار باتوں کو ناگوار ترین پیرائے میں بیان کرنا ان کا نہایت پسندیدہ شغل ہے۔ ان سے وہ کبھی سیر نہیں ہوتیں۔ ایک ہی موت کی خبر کے لئے اپنی شناساؤں میں سے زیادہ سے زیادہ سامعین کی تعداد ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالتی ہیں ایسی خبر جب بھی نئے سرے سے سنانا شروع کرتی ہیں ایک نہ ایک تفصیل کا اضافہ کر دیتی ہیں اور ہر بار نئے سرے سے آنسو بہاتی ہیں اور پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ موت یا بیماری کسی قریبی عزیز کی ہو۔ کوئی پڑوسی ہو، ملازم ہو، ملازم کے ننھیال یا سہیلی کے سسرال کا واقعہ ہو، گلی میں رو زمرہ آنے والے کسی خوانچہ والے کا بچہ بیمار ہو، کوئی اُڑتی اُڑتی خبر ہو ، کوئی افواہ ہو۔ غرض یہ کہ اس ہمدردی کا حلقہ بہت وسیع ہے:
”سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے“
نہ صرف یہ بلکہ رقت انگیز کہانیوں کے پڑھنے کا شوق عورتوں ہی کو بہت زیادہ ہوتا ہے اور اس بارے میں سب ہی اقوام کا ایک ہی سا حال ہے۔ غیر ممالک میں بھی رلانے والی کہانیاں ہمیشہ نچلے طبقہ کی عورتوں میں بہت مقبول ہوتی ہیں۔ گھٹیا درجے کے غم نگار مصنفین کو اپنی کتابوں کی قیمت اکثر عورتوں کی جیب سے وصول ہوتی ہے۔ وہ بھی عورتوں کی فطرت کو سمجھتے ہیں۔ کہانی کیسی ہی ہو اگر اس کا ہر صفحہ غم و الم کی ایک تصویر ہے تو اس کی اشاعت یقینی ہے اور عورتوں کی آنکھوں سے آنسو نکلوانے کے لئے ایسے مصنفین طرح طرح کی ترکیبیں کرتے ہیں۔ کبھی ایک پھول سے بچے کو سات آٹھ سال کی عمر میں ہی مار دیتے ہیں اور بستر مرگ پر توتلی باتیں کرواتے ہیں۔ کبھی کسی یتیم کو رات کے بارہ بجے سردی کے موسم میں کسی چوک پر بھوکا اور ننگا کھڑا کر دیتے ہیں۔ اور بھی رقت دلانی ہو تو اسے سید بنا دیتے ہیں۔ یہ کافی نہ ہو تو اسے بھیک مانگتا ہوا دکھا دیتے ہیں کہ ”میری بوڑھی ماں مر رہی ہے۔ دوا کے لئے پیسے نہیں۔ خدا کے نام کا کچھ دیتے جاؤ۔ کبھی کسی سگھڑ خوب صورت نیک طینت لڑکی کو چڑیل سی ساس کے حوالے کرا دیا۔ یا کسی بدقماش خاوند کے سپرد کر دیا۔ اور کچھ بس نہ چلا تو سوتیلی ماں کی گود میں ڈال دیا اور وہاں دل کی بھڑاس نکال لی۔ پڑھنے والی ہیں کہ زار و قطار رو رہی ہیں اور بار بار پڑھتی ہیں اور بار بار روتی ہیں۔
خود عورت کی تصنیفات اکثر ہچکیوں میں لپٹی ہوئی اور آنسوؤں میں لتھڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں جو کتابیں عورتوں نے لکھی ہیں۔ اکثر میں نزع، بیماری، دق، سل، خودکشی، زہر، ظلم و تشدد، ایک نہ ایک چیز کا سماں باندھ دینا گویا فرض جانا۔ ہاں کوئی کروشیا یا کھانا پکانے کی کتاب ہو تو اور بات ہے۔
آخر یہ مصیبت کیا ہے۔ یہ بات بات پر صفِ ماتم بچھ جانا کیا معنی؟ بار بار سوچتا ہوں کہ آخر اس امریکن نقاد نے کیا غلط کہا؟ جل کے کہا سہی۔ لیکن بڑی بات کیا کہی!
کسی گھر میں موت واقع ہو جائے تو زنانے اور مردانے کا مقابلہ کیجئے۔ مردوں کا ماتم تو صاف دکھائی دیتا ہے۔ بیچارے گھر کے باہر بیٹھے ہیں۔ سر نیچا کئے چپ چاپ۔ آنکھیں سرخ ہیں۔ کبھی کبھی آنسو بھی ٹپک پڑتے ہیں یا کسی نہ کسی انتظام میں مصروف ہیں۔ چہرے پر تھکن اور اداسی بنی ہے اور قدم ذرا آہستہ آہستہ اٹھتے ہیں۔ اور زنانے کا ماتم تو دور دور سے موت کے گھر کا پتہ دیتا ہے۔ اور جب کوئی نئی فلاں بی بی ڈولی سے اتر کر اندر جاتی ہے تو ماتم کی بھنبھناہٹ میں از سر نو ایک لہر اٹھتی ہے۔ جیسے یک لخت کوئی ہوائی جہاز سے گر پڑے۔ مرد تو دوسرے تیسرے دن کام میں مشغول ہو جاتے ہیں لیکن عورتوں کے ہاں مہینہ بھر کو ایک کلب قائم ہو جاتی ہے۔ گلوریوں پر گلوریاں کھائی جاتی ہیں اور چیخوں پر چیخیں ماری جاتی ہیں۔
کہیں بیمار پرسی کو جاتی ہیں تو بیمار میں وہ وہ بیماریاں نکال کر آتی ہیں جو ڈاکٹر کے وہم و گمان میں نہ تھیں۔ جتنی دیر سرہانے بیٹھی رہیں، بیمار کی ہر کروٹ پر ہاتھ ملتی ہیں۔ بے چارہ کہیں گلا صاف کرنے کو بھی کھانسے تو یہ سورة یٰسین تک پڑھ جاتی ہیں۔ رنگت کی زردی ، بدن کی کمزوری، سانس کی بےقاعدگی، ہونٹوں کی خشکی، ہر بات کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔ حتیٰ کہ بیمار کو بھی اپنی یہ خطرناک حالت دیکھ کر چار و نا چار منحنی آواز میں بولنا پڑتا ہے۔ جوں جوں بیمار پرس عورتوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے موت قریب آتی جاتی ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ بعض عورتوں کو مریض کے بچ جانے پر صدمہ ہوتا ہو گا کہ اتنی تو بیمار پرسی کی اور نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا۔
عورتیں نہ صرف دوسروں کے غم میں مزے لے لے کر روتی ہیں۔ بلکہ دوسروں کی اشک باری کے لئے خود بھی سامان مہیا کرنے میں کوتاہی نہیں کرتیں۔ ایک پرانے زمانے کے بزرگ اپنی اہلیہ کے متعلق فرمایا کرتے ہیں کہ ہماری گھر والی بھی اپنا جواب نہیں رکھتیں کہ کوئی پڑوسن آ کے کہہ دے! کہ اے بوا ماشا اللہ آج تو تمہارے چہرے پر رونق برس رہی ہے تو جھنجھلا کر بول اٹھتی ہیں کہ تیرے دیدوں میں خاک۔ میں تو مری جا تی ہوں اور میرا برا چاہنے والوں کو ابھی میں ہٹی کٹی نظر آتی ہوں۔ اور کوئی آ کے کہہ دے کہ اے ہے بیٹی تجھے کیا ہو گیا۔ تُو تو دن بدن گھلتی جاتی ہے۔ نہ جانے تجھے کیا غم کھا گیا؟ تو ایسی پڑوسن کو فوراً خالہ کا لقب مل جاتا تھا۔ بڑی خاطر تواضع ہوتی تھی۔ گھر کا کام کاج چھوڑ کر شام تک ان کو اپنے دکھڑے سنائے جاتے تھے اور چلتے وقت وہ پانچ روپے قرض بھی لے جایا کرتی تھیں جن کی ادائیگی کے لئے کبھی تقاضا نہ کیا جاتا تھا۔
اپنے اوپر رحم دلانے کا مرض جس کسی میں بھی پایا جائے۔ بہت ذلیل مرض ہے لیکن عورتوں میں یہ اس قدر عام ہے کہ خوش حال گھرانے کی بہو بیٹیاں بھی گفتگو میں چاشنی پیدا کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی دکھ وضع کر لیتی ہیں۔ اور موقع موقع پر سنا کر داد لیتی ہیں۔
اس تحریر سے میرا مطلب ان بہنوں کا مذاق اڑانا ہرگز نہیں جو فی الواقع غمگین یا مصیبت زدہ ہیں۔ ان کی ہنسی اڑانا پرلے درجے کی شقاوت ہے۔ جو خدا مجھے نصیب نہ کرے۔ کسی کا غم ایسی بات نہیں جو دوسرے کی خوش طبعی کا موضوع بنے۔ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ زندگی کا بہت سا دکھ، ضبط، تحمل، اور خندہ پیشانی سے دور ہو سکتا ہے۔ کسی مصیبت زدہ شخص کے ساتھ سب سے بڑی ہمدردی یہ ہے کہ اس کا غم غلط کرایا جائے۔ کسی بیمار کی سب سے بڑی تیمار داری یہ ہے کہ اس کی طبیعت کو شگفتہ کرنے کا سامان پیدا کیا جائے۔ غم کو برداشت کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کو ضبط کرنے کی کوشش کی جائے۔ مہذب شص کی یہی پہچان ہے۔ اپنے دکھ کے قصے کو بار بار دہرا کر کسی دوسرے شخص کو متاثر کرنے کی کوشش کرنا گویا اپنے آپ کو ذلیل کرنا ہے۔ خود بھی ہنسو اور دوسروں کو بھی ہنساؤ۔ دنیا میں غم کافی سے زیادہ ہے اس کو کم کرنے کی کوشش کرو، ہنسنا اور خوش رہنا دماغ اور جسم کی صحت کی نشانی ہے۔ غم نگار مصنفین کو میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ وہ شخص انمول ہے جو اپنی تحریر سے ہزارہا لوگوں کو خوش کر دیتا ہے اور وہ شخص خدا کے سامنے جواب دہ ہو گا جو اپنے زور قلم سے ہزارہا جوان، معصوم، خوش مزاج عورتوں اور مردوں کو رُلاتا ہے۔ اور رُلاتا بھی اس طرح ہے کہ نہ اس سے تزکیہ نفس ہوتا ہے نہ کوئی دل میں امنگ پیدا ہوتی ہے۔ اور ہزار قابل افسوس ہے وہ شخص جو یہ سب کچھ کر کے بھی اپنی انشا پردازی پر ناز کرتا ہے۔
(تہذیب نسواں)
کاغذی روپیہ
خواجہ علی احمد شہر کے بڑے سوداگر تھے۔ لاکھوں کا کاروبار چلتا تھا۔ لوگوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ بچہ بچہ ان کی دیانت داری سے واقف تھا اور ہر شخص جانتا تھا کہ خواجہ علی احمد قول کے سچے اور بات کے پکے ہیں۔ ایک دن انہوں نے اپنے ایک آدمی کو جوتے والے کی دکان سے جوتا خریدنے بھیجا۔ جوتے کی قیمت بیس روپے تھی لیکن بجائے اس کے کہ خواجہ علی احمد اپنے نوکر کو بیس روپے دے کر بھیجتے، انہوں نے نوکر کے ہاتھ کریم خاں جوتے والے کے نام ایک رقعہ لکھا:
”میاں کریم خاں! مہربانی کر کے ہمارے آدمی کو بیس روپے کا ایک جوتا دے دو، ہمارا یہ رقعہ اپنے پاس سنبھال کے رکھ چھوڑو۔ جب تمہارا دل چاہے۔ یہ رقعہ آکے ہم کو یا ہمارے منشی کو دکھا دینا اور بیس روپے لے جانا۔ یہ رقعہ اگر تم کسی اور شخص کو دینا چاہو تو بےشک دے دو، جو ہمارے پاس لائے گا ہم اس کو بیس روپے دے دیں گے۔ راقم خواجہ علی احمد“۔
دکان دار نے جب رقعے کے نیچے خواجہ علی احمد کا دستخط دیکھا تو اسے اطمینان ہوا۔ جانتا تھا کہ خواجہ صاحب مکرنے والے آدمی نہیں اور پھر لاکھوں کے آدمی ہیں۔ روپے نہیں بھیجے تو نہ سہی۔ یہ رقعہ کیا روپوں سے کم ہے؟ جب چاہوں گا، رقعہ جا کر دے دوں گا اور روپیہ لے لوں گا، چنانچہ اس نے بغیر تامل کے جوتا بھیج دیا۔
تھوڑی دیر بعد کریم خاں دوکان دار کے پاس عبد اللہ حلوائی آیا اور کہنے لگا۔ ”میاں کریم خاں! میرے تمہارے طرف پچیس روپے نکلتے ہیں۔ ادا کر دو تو تمہاری مہربانی ہو گی۔ کریم خاں نے کہا۔ ”ابھی لو۔ یہ پانچ تو نقد لے لو۔ باقی بیس روپے مجھے خواجہ علی احمد سے لینے ہیں یہ دیکھو، ان کا رقعہ ذر ٹھہر جاؤ، تو میں جا کے ان سے بیس روپے لے آؤں۔
عبد اللہ بھی خواجہ علی احمد کو اچھی طرح جانتا تھا کیونکہ شہر بھر میں خواجہ صاحب کی ساکھ قائم تھی کہنے لگے۔ تم یہ رقعہ مجھے ہی کیوں نہ دے دو میں ان سے بیس روپے لے آؤں گا کیونکہ اس میں لکھا ہے کہ جو شخص یہ رقعہ لائے گا اس کو بیس روپے دے دیئے جائیں گے“۔ کریم خان نے کہا۔ ”یونہی سہی“۔ چنانچہ عبد اللہ حلوائی نے بیس روپے کے بدلے وہ رقعہ قبول کر لیا۔
کئی دنوں تک یہ رقعہ یونہی ایک دوسرے کے ہاتھ میں پہنچ کر شہر بھر میں گھومتا رہا۔ خواجہ علی احمد پر لوگوں کو اس قدر اعتبار تھا کہ ہر ایک اسی رقعے کو بیس روپے کے بجائے لینا قبول کر لیتا کیونکہ ہر شخص جانتا تھا کہ جب چاہوں گا اسے خواجہ صاحب کے منشی کے پاس لے جاؤں گا اور وہاں سے بیس روپے وصول کر لوں گا۔ ہوتے ہوتے یہ رقعہ ایک ایسے شخص کے پاس پہنچ گیا جس کا بھائی کسی دوسرے شہر میں رہتا تھا۔ یہ شخص اپنے بھائی کو منی آرڈر کے ذریعے بیس روپے بھیجنا چاہتا تھا۔ ڈاک خانے والوں نے اس رقعہ کے بیس روپے کے عوض میں لینا قبول نہ کیا۔ چنانچہ وہ شخص سیدھا خواجہ احمد علی کی کوٹھی پر پہنچا۔ رقعہ منشی کو دیا۔ منشی نے بیس روپے کھن کھن گن دیئے۔ اس نے روپے جا کر ڈاک خانے والوں کو دیئے اور انہوں نے آگے اس کے بھائی کو بھیج دیئے۔
اس مثال سے یہ ظاہر ہوا کہ محض ایک کاغذ کا پرزہ کتنی مدت تک روپے کا کام دیتا رہا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کاغذ کے نیچے ایک ایسے شخص کے دستخط تھے جس کی دیانت داری پر سب کو بھروسہ تھا۔ اور جس کی دولت کا سب کو علم تھا۔ سب جانتے تھے کہ یہ شخص جب چاہے بیس روپے ادا کر سکتا ہے۔ اور قول کا اتنا پکا کہ کبھی ادا کرنے سے انکار نہ کرے گا۔
اگر ایسے ہی ایک رقعے کے نیچے ہم یا تم دستخط کر دیتے تو کوئی بھی اسے روپے کے بدلے میں قبول نہ کرتا۔ اول تو ہمیں جانتا ہی کون ہے اور جو جانتا بھی ہے وہ کہے گا کہ ان کا کیا پتہ۔ آدمی نیک اور شریف اور دیانت دار سہی، لیکن خدا جانے ان کے پاس بیس روپے ہیں بھی یا نہیں؟ کیا معلوم یہ مانگنے جائیں اور وہاں کوڑی بھی نہ ہو۔
خواجہ احمد کا رقعہ گویا ایک قسم کا نوٹ تھا۔ سرکاری نوٹ بھی بالکل یہی چیز ہوتے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ ان کے نیچے سرکار کی طرف سے سرکاری خزانے کے ایک افسر کے دستخط ہوتے ہیں۔ اگر تم دس روپے کے نوٹ کو لے کر دیکھو تو اس پر اوپر حکومت پاکستان اور اس کے نیچے لکھا ہوتا ہے کہ ”میں اقرار کرتا ہوں کہ عند المطالبہ حامل ہذا کو دس روپیہ سرکاری خزانہ کراچی سے ادا کروں گا“۔ اس عبارت کے نیچے سرکاری افسر کے دستخط ہوتے ہیں۔
خواجہ احمد علی کو تو صرف ایک شہر کے لوگ جانتے تھے۔ حکومت پاکستان کو ملک کا ہر آدمی جانتا ہے۔ بلکہ اور ملکوں میں بھی اس کی ساکھ قائم ہے اس لئے سرکاری نوٹ کو ہر شخص بلا تامل قبول کر لیتا ہے۔ اور کوئی قبول کیوں نہ کرے۔ لوگ جانتے ہیں کہ جب چاہیں خزانے میں جا کر اس کے روپے بھنا سکتے ہیں۔
خواجہ علی احمد کے رقعے اور سرکاری نوٹ میں ایک فرق اور بھی ہے۔ خواجہ علی حسن کا رقعہ تو ڈاک خانہ والوں نے قبول نہ کیا تھا لیکن سرکاری نوٹ انہیں ضرور ہی قبول کرنا پڑتا۔ سرکاری نوٹوں کو قانونی طور پر ملک کا سکہ قرار دیا گیا ہے اور کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ان کو روپے کے بدلے لینے سے انکار کرے۔ اگر تمہیں کسی شخص نے دس چاندی کے روپے قرض دیئے تھے اور اب اس کو یہ قرضہ اتارنے کے لئے دس روپے کا نوٹ دیتے ہو تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ تو چاندی کے روپے ہی لوں گا۔ اسے دس کا نوٹ ضرور لینا پڑے گا۔
روپیہ ایسا ہونا چاہیئے کہ آسانی سے پاس رکھا جا سکے۔ چاندی کے سکوں میں یہ خوبی ایک حد تک پائی جاتی ہے۔ تاہم چاندی کے سکے وزنی ہوتے ہیں۔ اسی روپے کا وزن سیر بھر ہو جاتا ہے تو جہاں پانچ چھ سو روپے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا ہوں، وہاں اچھی خاصی دقت پیش آتی ہے۔ نوٹوں سے یہ دقت رفع ہو جاتی ہے۔ ہزاروں روپے کے نوٹ ایک جیب میں آسانی سے ڈالے جا سکتے ہیں۔ نوٹوں کے جاری کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
باوجود ان سب باتوں کے جس شخص کے پاس بہت سا روپیہ ہو۔ اس کے لئے یہ مشکل ہے کہ بہت سے نوٹ، کچھ روپے چونیاں، دونیاں یہ سب کچھ اپنے پاس سنبھال رکھئے۔ ایک تو سنبھالنے کی تکلیف، دوسرے چوری کا خطرہ، اس لئے بہتر یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنا سب روپیہ بنک میں رکھوا دے۔
بنک میں روپیہ امانت کے طور پر رہتا ہے۔ روپے کا مالک جب چاہے اس کو نکلوا سکتا ہے یا جس کو چاہے اپنے حصے کا روپیہ دلوا سکتا ہے کسی اور کو اپنے حصے کا روپیہ دلوانے کی ترکیب یہ ہے کہ اس کو چک لکھ کر دے دیا جائے۔
ہم یہاں چک کے معنوں کو واضح طور پر بیان کرنا چاہتے ہیں۔ فرض کرو، عبداللہ نے بنک میں بہت سا روپیہ جمع کر رکھا ہے۔ کریم خاں اس سے دس روپے مانگنے آتا ہے۔ عبد اللہ بجائے اس کے کہ کریم خاں کو دس روپے نقد دے، وہ اسے دس روپے کا چک لکھ دیتا ہے۔ چک گویا ایک قسم کا رقعہ ہے۔ جو عبد اللہ کریم خان کی معرفت اپنے بنک کو بھیج رہا ہے۔ چک پر مفصلہ ذیل الفاظ لکھے ہوتے ہیں:
بنام فلاں بنک
کریم خاں کو دس روپے دے دو۔
راقم عبد اللہ
کریم خاں کی بجائے عبد اللہ اگر کسی اور کا نام لکھ دے تو جس کا نام لکھے گا اسی کو روپے ملیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ کریم خاں دس روپوں کی بجائے یہ دس روپے کا چک کیوں قبول کر لیتا ہے؟ اس لئے کہ اسے عبد اللہ پر اعتبار ہے۔ وہ جانتا ہے کہ بنک میں ضرور عبد اللہ کا روپیہ جمع ہو گا۔ میں جب یہ چک لے جاؤں گا مجھے روپیہ مل جائے گا۔
اب فرض کرو کہ کریم خاں وہ چک لے کر عبد اللہ کے بنک میں گیا۔ اور کہا کہ مجھے اس چیک کا روپیہ ادا کر دو۔ بنک والوں نے عبد اللہ کا حساب دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہاں تو کل تین روپے ہیں۔ ایسی حالت میں وہ چک ادا نہیں کر سکتے۔ چنانچہ وہ انکار کر دیں گے اور کریم خاں کا عبد اللہ پر اعتبار باقی نہ رہے گا۔ لیکن اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بنک والے عبد اللہ کو جانتے ہیں۔ مدت سے اس کا حساب کھلا ہوا ہے وہ کہتے ہیں بنک میں تو عبد اللہ کے تین روپے ہیں، مگر چلو فی الحال ہم باقی کے ساتھ روپے اپنے پاس سے دے دیتے ہیں اور عبد اللہ کی لاج رکھ لیتے ہیں ہم یہ سات روپے پھر اس سے لے لیں گے لیکن عام طور پر ایسا کرنے کی نوبت نہیں آتی۔ لوگوں کا جتنا روپیہ بنک میں ہوتا ہے اس کے اندر اندر ہی چک دیتے ہیں اور کم ہی ایسا موقعہ پیش آتا ہے کہ بنک چک ادا کرنے سے انکار کر دے۔
اگر کریم خاں نے خود بھی کسی بنک میں حساب کھول رکھا ہے تو یہ ضروری نہیں کہ عبد اللہ کا چک لے کر خود عبد اللہ کے بنک میں جائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس طرح وہ اپنا روپیہ بنک میں جمع ہونے کے لئے بھجوا دیتا ہے۔ اسی طرح یہ چک بھی بھجوا دے۔ اس کے بنک والے خود ہی عبد اللہ کے بنک سے اس چک کا روپیہ وصول کر لیں گے۔ یہ دس روپے کی رقم کریم خاں کے حساب میں جمع کر دی جائے گی۔ اور عبد اللہ کے حساب میں خرچ کی آمد میں چڑھا دی جائے گی۔
اسی طرح سے یہ سہولت ہوئی کہ عبد اللہ اور کریم خاں دونوں کا روپیہ اپنے اپنے بنک میں محفوظ پڑا ہے۔ نہ تو عبد اللہ کو روپیہ ادا کرتے وقت نہ کریم خاں کو وصول کرتے وقت بنک جانا پڑا۔ اور روپیہ ایک کے حساب میں سے نکل کر دوسرے کے حساب میں جمع بھی ہو گیا۔ یہ سب کچھ ایک چک کی بدولت ظہور میں آیا۔
یہاں ہم نے صرف ”کاغذی روپے“ کی دو قسموں کا ذکر کیا ہے، ایک سرکاری نوٹ اور دوسرے چک، ان کے علاوہ اور بھی کاغذات ایسے ہیں جن کے ذریعے سے بڑی بڑی رقمیں یہاں سے دور دراز ملکوں تک پہنچ جاتی ہیں۔
(بچوں کے لئے)
(خیابانِ اردو )
نوع انسان کی کہانی
دنیا کی ابتدا
ہماری ہستی ایک بہت بڑا گورکھ دھندا ہے۔
ہم کون ہیں؟
ہم کہاں سے آئے ہیں؟
ہم کہاں جا رہے ہیں؟
ان سوالات کا جواب افق سے بھی پرے کہیں اور ہمارا انتظار کر رہا ہے اور ہم بہت ہی آہستہ آہستہ لیکن بڑے استقلال اور ہمت کے ساتھ اس کے قریب پہنچ رہے ہیں۔
لیکن ابھی ہم کچھ بھی مسافت طے نہیں کی!
ابھی ہمیں کچھ نہیں معلوم۔
ابھی ہمیں کچھ نہیں معلوم۔ تاہم اتنا کچھ جان گئے ہیں کہ اپنے علم کی بدولت کئی اور باتیں بہت حد تک بوجھنے کے قابل ہو گئے ہیں اس باب میں، میں تمہیں یہ بتاؤں گا کہ ظہور انسان سے پہلے جہاں تک ہمیں معلوم ہے دنیا کا کیا حال تھا!
اگر ہم یہ اندازہ لگائیں کہ کرۂ زمین پر جان دار اشیاء کا وجود کتنے عرصہ سے ممکن ہے اور مدت کو اس لکیر سے ظاہر کریں کہ جو ننھی سی لکیر اس کے نیچے کھینچی گئی ہے وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ انسان یا انسان کی طرح کی مخلوق یہاں کتنے عرصہ سے رہتی ہے۔
انسان سب آخر میں آیا لیکن عقل کے ذریعے قدرت کی طاقتوں کو تسخیر سب سے پہلے کیا۔ اسی لئے ہم بلیوں یا کتوں یا گھوڑوں یا دوسرے جانوروں کی بجائے انسان ہی کی تاریخ کا مطالعہ کریں گے گو اپنی اپنی جگہ ہر ایک کی تاریخ بہت دلچسپ ہے۔
جہاں تک ہمیں معلوم ہے۔ یہ کرۂ ارض جس پر ہم آباد ہیں شروع شروع میں شعلہ بار مادے کا ایک بہت بڑا گولہ تھا جو فضا کے نا پیدا کنار سمندر میں دھوئیں کے ایک ننھے سے بادل کی مانند اڑ رہا تھا۔ رفتہ رفتہ کئی سال بعد جب زمین کی سطح جل چکی تو اس پر چٹانوں کی ایک ہلکی سی تہہ نمودار ہوئی ان بنجر چٹانوں پر موسلا دھار مینہ برسا سخت پتر بارش کے پانی میں تحلیل ہو گئے۔ اور گدلا پانی وادیوں میں بہہ نکلا جو گرم گرم زمین کی اونچی اونچی پہاڑیوں کے درمیان چھپی ہوئی تھی۔
آخر ایک ایسا زمانہ آیا جب سورج نے بادلوں میں اپنا چہرہ نکالا اور دیکھا کہ اس ننھے سے کرے کی سطح پر پانی نے چند تالاب سے بن گئے ہیں یہی تالاب بعد میں مشرقی اور مغربی نصف کروّں کے عظیم الشان سمندر بن گئے۔
پھر ایک دن ایک حیرت انگیز معجزہ ظہور میں آیا بے جان دنیا نے جان دار چیزوں کو جنم دیا۔
پہلا جان دار ذرہ سمندر کی سطح پر نمودار ہوا۔
کئی سال تک یہ ذرہ پانی کے بہاؤ کے ساتھ بہتا رہا۔ اس عرصے میں رفتہ رفتہ زمین کے ناموافق حالات سے مانوس ہوتا گیا اور بالآخر زندگی کی مشکلات پر قابو پا لیا۔ بعض ذرے ایسے بھی تھے جو جھیلوں اور جوہڑوں کی تاریک گہرائیوں ہی میں خوش رہتے تھے بہت سی مٹی اور کیچڑ پہاڑوں کی چوٹیوں سے بہہ کر نیچے آ گئی تھی اس میں جڑیں پکڑ لی اور پودے بن گئے بعض نے کسی جگہ ٹھہرنا پسند نہ کیا یونہی ادھر ادھر گھومتے رہے۔ ان کے جسم میں سے بچھوؤں کی سی عجیب و غریب جوڑ دار ٹانگیں نمودار ہوئیں۔ اور وہ سمندر کی تہ میں پودوں اور ان سبزی مائل لوتھڑوں کے درمیان جو جیلی مچھلیوں سے مشابہ تھے رینگنے لگے۔ بعض چھلکوں والے ذرے ایسے بھی تھے جنہیں خوراک کی تلاش میں ادھر ادھر تیرنا پڑا ان کی بدولت سمندر رفتہ رفتہ کروڑوں مچھلیوں سے آباد ہو گیا۔
اس عرصے میں پودوں کی تعداد بہت بڑھ گئی۔ انہیں رہنے کے لئے نئی نئی جگہیں تلاش کرنی پڑیں۔ طوعاً و کرہاً پانی کو الوداع کہا اور پہاڑوں کے دامن میں کیچڑ اور دلدلوں کے اندر سکونت اختیار کر لی۔ دن میں دو دفعہ جو ار بھاٹے کی وجہ سے نمکین سمندر کی لہروں سے ہم آغوش ہوتے۔ لیکن ساتھ تمام وقت بڑی بے چینی سے کاٹتے اور رقیق ہوا میں جو زمین کی سطح کو لپٹی ہوئی تھی۔ زندہ رہنے کی کوشش کرتے کئی صدیوں کی تربیت کے بعد اس قابل ہوئے کہ جس طرح پہلے پانی میں رہتے تھے۔ اسی آسانی کے ساتھ اب ہوا میں رہنے لگے۔ بڑے ہوئے تو جھاڑیاں اور درخت بنے اور آخر کار خوب صورت پھول پیدا کرنا سیکھا۔ جب پھول اُگے تو بھنورے آ کر رس چوسنے لگے۔ پرندے دور دور تک بیج اڑا کر لے گئے یہاں تک کہ سب زمین پر سبزے نے اپنی بساط بچھا دی۔ اور بڑے بڑے درختوں نے اپنے سائبان پھیلا دیئے۔
بعض مچھلیوں نے بھی سمندر سے باہر قدم رکھا اور گلپھڑوں کے بجائے پھیپھڑوں سے سانس لینا سیکھا۔ ایسے جانوروں کو خاکابی کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ دو خشکی اور تری دونوں جگہ آسانی سے زندگی رہ سکتے ہیں کسی میڈنگ سے پوچھو تو وہ تمہیں بتائے گا کہ خاکابی جانور کس مزے سے زندگی بسر کرتے ہیں۔
جب ایک دفعہ پانی سے باہر نکل آئے تو یہ جانور رفتہ رفتہ خشکی ہی کے ہو رہے بعض نے رینگنا سیکھا اور سنسان جنگلوں میں کیڑے مکوڑوں کے ساتھ رہنے لگے۔ نرم نرم زمین پر تیزی سے جلنے کی خواہش پیدا ہوئی تو رفتہ رفتہ ٹانگیں بڑی ہو گئیں۔ ساتھ ہی جسامت بھی بہت بڑھ گئی۔ چنانچہ دنیا بڑے جانوروں سے آباد ہو گئی۔ علم حیوانات کی کتابوں میں اہتیا سورس (Iehthyosaurus) میگلاسورس (Megalosaurus) اور برانتو سورس (Brantosaurus) نامی جانوروں کا ذکر آتا ہے جو تیس تیس چالیس چالیس فٹ لمبے تھے اور ہاتھیوں سے اس طرح کھیل سکتے تھے جس طرح بلی اپنے بچوں سے کھیلتی ہے۔
ان رینگنے والے جانوروں میں سے بعض جانور درختوں پر جا چڑھے اور وہیں رہنے لگے (درخت ان دنوں سب سے زیادہ اونچے نہ تھے) چنانچہ پھرنا موقوف ہو گیا تو ٹانگوں کی بھی ضرورت نہ رہی لیکن ایک شاخ سے دوسری شاخ تک پھرتی سے حرکت کرنے کے لئے اپنی جلد کی جھلی سی بنائی اور اسے اگلے پاؤں کی انگلیوں کے درمیان اس ٹانگ سے اس ٹانگ تک پتنگ کی طرح پھیلا لیا۔ پھر اس جھلی پر پر لگائے دم سے مڑنے تڑنے کا کام لیا۔ ڈال ڈال اڑنے لگے اور سچ مچ کے پرندے بن گئے۔
اس کے بعد ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ بڑے عظیم الحبثہ رینگنے والے جانور سب کے سب مر گئے اس کا سبب آج تک معلوم نہیں ہو سکا شاید آب وہوا یک لخت تبدیل ہو گئی۔ یا شاید بھوک کے مارے مر گئے کیونکہ بہت ممکن ہے وہ اتنے بڑے ہو گئے ہوں کہ نہ تیرنے کے قابل رہے ہوں نہ چلنے کے نہ رینگنے کے اور بڑے بڑے پودے اور درخت سامنے دکھائی دے رہے ہوں لیکن وہ ان تک پہنچ نہ سکتے ہوں بہرحال بڑے بڑے رینگنے والے جانور دس لاکھ سال تک اس دنیا پر مسلط رہے اور پھر یہاں سے چل بسے۔
ان کی جگہ بالکل ہی مختلف جانوروں نے لے لی۔ یہ اولاد تو انہی رینگنے والے جانوروں کی تھی لیکن ان میں بڑا فرق یہ تھا کہ اپنے بچوں کو چھاتیوں کا دودھ پلاتے اس لئے انہیں دودھ پلانے والے جانوروں نے بعض ایسی عادات سیکھ لیں جن کی بدولت ان کی نسل کو باقی تمام جانوروں پر فوقیت حاصل ہو گئی۔ جب تک بچے پیدا نہ ہو جاتے مادہ اپنے انڈے جسم کے اندر ہی اٹھائے اٹھائے پھرتی۔ باقی سب جانور تو اپنے بچوں کو گرمی اور سردی کے رحم پر چھوڑ دیتے لیکن دودھ پلانے والے جانور بہت مدت تک اپنے بچوں کے ساتھ رکھتے۔ اور جب تک وہ طاقت ور ہو کر دشمن کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ ہو جائیں خود ان کی حفاظت کرتے۔ اس طرح دودھ پلانے والے جانوروں کے بچے کئی باتیں اپنی ماں سے سیکھ لیتے اور زیادہ آسانی سے زندہ رہ سکتے۔ کسی بلی کو دیکھو کس طرح بچوں کو اپنی حفاظت کرنا اور منہ دھونا اور چوہے پکڑنا سکھاتی ہے۔
لیکن ان دودھ پلانے والے جانوروں کے حالات بہت تفصیل کے ساتھ بتانے کی ضرورت نہیں۔ تم انہیں اچھی طرح جانتے ہو وہ تمہارے ارد گرد ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ بازار میں اور گھر پر وہ تمہارے ساتھ رہتے ہیں و رجو اتنے عام نہیں انہیں تم چڑیا خانے میں جا کر دیکھ سکتے ہو۔
ان بے شمار بے زبان جانوروں میں سے ایک جانور نے باقی سب سے الگ اپنے لئے ایک رستہ نکالا۔ عقل وشعور سے کام لیا اور اس کی بدولت زندگی کی کشمکش میں اپنی نسل کی رہنمائی کی۔ یہ جانور ”انسان “ کہلایا۔
تھا تو یہ بھی دودھ پلانے والا جانور لیکن خوراک مہیا کرنے اور جان بچانے میں سب سے ہوشیار تھا۔ پہلے اگلی ٹانگوں سے شکار پکڑنے کی عادت ڈالی۔ ہوتے ہوتے پنجے کی شکل ہاتھ کی سی بن گئی۔ پھر بے انتہا کوششوں کے بعد پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہونا سیکھا۔ (یہ کرتب اب بھی کچھ ایسا آسان نہیں۔ انسان دس لاکھ سال سے اس کا عادی ہے پھر بھی بچے کو یہ از سر نو سیکھنا پڑتا ہے۔ )
یہ جانور دیکھنے میں کچھ بندر، کچھ بن مانس سے ملتا جلتا تھا لیکن ذہانت میں دونوں سے بڑھ کر تھا۔ شکار میں کوئی اس کا مقابلہ نہ کر سکتا تھا ہر قسم کی آب وہوا میں رہ سکتا تھا۔ ایک مقام سے دوسرے مقام تک جاتا تو حفاظت کی خاطر ہم جنسوں کی ایک ٹولی بنا کر سفر کرتا۔ بچوں کو خطرے سے آگاہ کرنے کے لئے عجیب و غریب آوازیں نکالتا۔ کئی لاکھ سال بعد انہیں آوازوں سے گفتگو کرنا سیکھا۔
تمہیں یقین تو مشکل سے آئے گا۔ ہم تو سب اسی جانور کی اولاد ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے۔
وہ سچ جو کبھی جھوٹ نہ ہو گا
میں انسانی زندگی کی الجھنوں پر جس قدر غور کرتا ہوں اتنا ہی مجھ پر روشن تر ہوتا جاتا ہے کہ جس طرح قدیم مصر کے لوگ بخشش اور نجات کے لئے آئیس اور نیفتیس کا دامن پکڑتے تھے اسی طرح ہمیں اپنی مشکلات کے حل کے لئے طنز اور رحم کا دامن پکڑنا پڑتا ہے۔
طنز اور رحم سے بڑھ کر کوئی چیز ہماری مشکل کشا نہیں ہو سکی۔ طنز سے زندگی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پیدا ہوتی ہے اور رحم اپنے آنسوؤں سے زندگی کو مقدس بناتا ہے۔
جس طنز کو میں اپنا دیوتا بنانا چاہتا ہوں وہ کوئی سنگ دل دیوتا نہیں۔ وہ محبت اور حسن کا مضحکہ نہیں اڑاتا وہ حلیم اور مہربان دیوتا ہے اس کا تبسم دشمنوں کو بھی دوست بنا لیتا ہے اور وہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ احمقوں اور ظالموں پر ہنسو ان سے نفرت مت کرو۔ کیونکہ یہ کمزوری کی نشانی ہے۔
ایک بہت بڑے فرانسیسی کے ان دانش مندانہ الفاظ پر میں اس کتاب کو ختم کرتا ہوں اور رخصت چاہتا ہوں۔ خدا حافظ۔
ماخوذ از کتاب ”نوع انسان کی کہانی“ مصنفہ ہنڈرک فان لون
مترجم پطرس
* * *
بچے کا پہلا سال
ایک زمانہ ایسا تھا کہ لوگ بچے کی عمر کے پہلے سال کو تعلیم کے دائرے سے خارج سمجھتے تھے۔ جب تک بچہ کم از کم بولنا شروع نہ کرتا۔ اسے صرف ماں یا دایہ کی زیر نگرانی رکھا جاتا تھا۔ اور یہ فرض کر لیا جاتا تھا کہ وہ فطرتاً ہی بچے کے نیک وبد کو ایسی اچھی طرح سمجھتی ہیں کہ انہیں سکھانے کی ضرورت نہیں لیکن فی الحقیقت لوگوں کا یہ خیال غلط تھا۔ اکثر بچے سال بھر کے بھی نہ ہونے پاتے کہ مر جاتے اور زندہ رہتے ان میں سے کئی ایک کی صحت ہمیشہ کے لئے خراب ہو جاتی۔ غلط تربیت کی وجہ سے خطرناک ذہنی عادات کی بنیاد پہلے ہی پڑ جاتی۔ یہ حقیقت ہمیں حال ہی میں معلوم ہوئی ہے۔
دراصل بات یہ ہے کہ اکثر لوگ شیر خوار بچوں کی پرورش کے معاملے میں سائنس کا دخل پسند نہیں کرتے۔ کیونکہ اس سے ماں کی مامتا اور بچے کے لاڈلے پن کا جو دلاویز تصور ان کے ذہن میں موجود ہے اسے صدمہ پہنچتا ہے لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ اندھا دھند محبت اور لاڈ پیار اور چیزیں ہیں۔ اصل محبت اور چیز ہے جن والدین کو اپنے بچوں سے سچی اور اصلی محبت ہے وہ ان کی تربیت کے لئے سائنس کے اصولوں پر عمل کرنے سے نہیں گھبراتے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ضرر رساں قسم کی محبت ان ہی لوگوں میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ جن کے کوئی اولاد نہیں ہوتی۔ یا جو (روسو کی مانند) اپنے بچوں کو کسی یتیم خانہ کے حوالے کر دینا چاہتے ہیں اکثر تعلیم یافتہ والدین سائنس کی معلومات سے متنفر ہونے کی بجائے استفادہ کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ان پڑھ لوگوں میں بھی سائنس کا چرچا روزبروز بڑھتا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بچوں کی اموات روز بروز کم ہوتی جاتی ہے، اگر لوگ پوری احتیاط سے کام لیں تو نہ صرف اموات کی تعداد اور بھی کم ہو جائے گی بلکہ جو بچے زندہ رہیں گے ان کی دماغی اور جسمانی حالت بہتر ہو گی۔
جسمانی صحت کے ماہر ڈاکٹر لوگ ہیں وہی ان مسائل کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مسائل اس کتاب کے دائرے سے خارج ہیں لیکن ہم یہاں جسمانی صحت کے مسائل پر اسی حد تک بحث کریں گے جس حد تک اس کا تعلق ذہنی یا نفسیاتی زندگی سے ہے۔ اور ان پر اس وقت بحث کرنا یوں ضروری ہے کہ اول تو عمر کے پہلے سال میں جسمانی زندگی اور ذہنی زندگی میں تمیز کرنا مشکل ہوتا ہے دوسرے اگر شروع میں بچے کے جسم کا کماحقہ خیال نہ رکھا جائے تو چند ایسے نقائص کے پیدا ہونے کا احتمال رہتا ہے جو بڑے ہو کر تعلیم کے رستے میں حارج ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ہر چند کہ جسمانی صحت پر بحث کرنا ڈاکٹروں ہی کا حصہ ہے تاہم اس موقعے پر ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے متعلق کچھ عرض کریں۔
نوزائیدہ بچہ کسی چیز کا عادی نہیں ہوتا۔ اس کی تمام حرکات کسی عادت کی وجہ سے نہیں بلکہ اضطراراً سرزد ہوتی ہیں اگر ماں کے پیٹ میں اس نے بعض عادتیں اختیار کر لیں ہیں تو وہ کم از کم ایسی نہیں کہ پیدا ہونے کے بعد بھی اس کے کام آ سکیں۔ یہاں تک کہ سانس لینا بھی اسے پیدائش کے بعد سیکھنا پڑتا ہے۔ اور بعض بچے تو مر ہی اسی لئے جاتے ہیں کہ تنفس کا عمل دیر میں سیکھتے ہیں۔ ایک زبردست خواہش بچہ فطرت کی طرف سے اپنے ساتھ لاتا ہے اور وہ چوسنے کی خواہش ہے جب تک بچہ اس عمل میں مصروف رہے بہت خوش رہتا ہے۔ باقی تمام وقت وہ ایک تحیر کے عالم میں گزارتا ہے جس سے یوں نجات حاصل ہوتی ہے کہ دن اور رات کا بیشتر حصہ نیند میں گزرجاتا ہے۔ پندرہ دن کے بعد یہ حالت بدل جاتی ہے۔ اور بعض باتیں (مثلاً دودھ پینا وغیرہ) تواتر کے ساتھ ظہور میں آنے لگتی ہیں۔ اس لئے بچہ ان باتوں کا متوقع رہتا ہے یعنی یوں کہئے کہ اب وہ بعض چیزوں کا عادی ہو جاتا ہے اور جن باتوں کا عادی ہو انہیں کو پسند کرتا ہے گویا قدامت پسند بن جاتا ہے۔ اور قدامت پسند بھی ایسا کہ اغلباً پھر عمر بھر ایسا نہیں ہوتا۔ ہر نئی چیز اسے ناپسند ہوتی ہے اگر بچہ اس عمر میں بولنے کے قابل ہوتا تو بڑے بوڑھوں کی طرح اپنی پسندیدگی کا اظہار ان الفاظ میں کرتا کہ میاں جانے دو اس عمر میں اب ہم بھلا نئی نئی باتیں کیونکر سیکھ سکتے ہیں۔ تاہم شیر خوار بچے نئی عادتیں بہت جلد اختیار کر لیتے ہیں۔ اس دوران میں اگر کوئی بری عادت سیکھ لیں تو وہ بعد میں اچھی تربیت کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے، اس ليے شیر خواری کے زمانے کی عادات کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیئے اگر شروع شروع کی عادات اچھی ہوں تو بہت سہولت ہوتی ہے علاوہ برآں شیر خوارگی کے زمانے کی عادت اتنی راسخ ہوتی ہے کہ بڑے ہو کر وہ بالکل جبلت معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے اعمال پر اس کا اثر بہت گہرا ہوتا ہے جو عادات بعد میں سیکھی جائیں ان میں یہ پختگی کبھی نہیں ہوتی۔ اس لئے زمانہ طفلی کی عادات خاص طور پر توجہ کی مستحق ہیں۔
اس سلسلے میں دو باتیں پیش نظر رکھنی چاہیں۔ اول اور سب سے مقدم صحت، دوم سیرت، ہم چاہتے ہیں کہ بچہ بڑا ہو کر ایک ایسا انسان ثابت ہو جس کے اوصاف پسندیدہ ہوں اور جو اپنے گرد و پیش سے بوجہ احسن عہدہ برآ ہو سکے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ صحت اور سیرت دونوں کے مطالبات ایک ہیں۔ جو چیز ایک کے لئے مفید ہے وہی دوسرے کے لئے مفید ہے۔ یہاں بحث سیرت سے ہے لیکن جو اصول ہم سیرت کی بہتری کے لئے وضع کریں گے۔ وہی صحت کے لئے بھی مفید ہیں گویا یہ نہیں ہو سکتا کہ بچہ تنومند تو ہو لیکن اس کے اخلاق برے ہوں یا نیک سیرت تو ہو لیکن اس کا جسم امراض کا شکار ہو۔
آج کل ہر تعلیم یافتہ ماں جانتی ہے کہ صرف مقررہ اوقات پر دودھ پلانا چاہئے اس سے بچے کا ہاضمہ درست رہتا ہے۔ یہ بجائے خود ایک نہایت معقول وجہ ہے لیکن اس کے علاوہ اخلاقی نقطہ نظر سے بھی یہ بہت مفید ہے۔ شیر خوار بچہ اتنا بےعقل نہیں ہوتا جتنا ہم اسے سمجھتے ہیں اسے ایک دفعہ یقین ہو جائے کہ رونے سے مطلب نکل آتا ہے تو وہ ضرور روتا ہے لیکن جب بڑا ہو کر اسی عادت کے زیر اثر ہر وقت رونی صورت بنا کر لوگوں کے گلے شکوے کرتا ہے تو لوگ اسے چمکارنے کی بجائے اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں لوگوں کا یہ سلوک اسے از حد ناگوار گزرتا ہے۔ اور وہ دنیا کو خود غرضی اور ہمدردی کے جذبے سے معرا سمجھ لیتا ہے۔ اگر لڑکی ہو اور بڑی ہو کر خدا اسے حسین بنا دے تو بےجا توجہات اور بےجا خاطر مدارت کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور یہ نقص اور بھی مستحکم ہو جاتا ہے۔ یہی حال دولت مند لڑکوں کا ہوتا ہے کہ بچپن میں بگڑ جاتے ہیں تو پھر تمام عمر بگڑتے چلے جاتے ہیں جس شخص کی پرورش شیر خوارگی کے زمانے میں غلط طریقے پر ہو وہ بڑا ہو کر اگر ذی اقتدار ہے تو ضدی اور حریص ہوتا ہے اور اگر بے بضاعت ہے تو لوگوں کی مفروضہ بےتوجہی سے کڑھتا رہتا ہے اس لئے اخلاقی تعلیم روز اول ہی سے شروع کر دینی چاہئے تاکہ نہ غلط توقعات پیدا ہوں۔ نہ بعد میں انہیں مجروح ہونا پڑے۔ اگر شروع میں اس کا تدارک نہ کیا جائے تو بعد میں بچے کی خواہشات کو ٹھکرانے سے اس کے دل میں غصے اور رنج کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔
گویا بچے کی تربیت اس طرح کرنی چاہیئے کہ نہ تو اسے لاڈ پیار اور چاؤ چونچلوں سے بگاڑا جائے نہ اس کی طرف سے بالکل ہی بے توجہی برتی جائے مثلاً جو بات صحت کے لئے ضروری ہے اس میں کوتاہی نہ کرنی چاہئے۔ بچے کو ہوا اور بارش سے تکلیف پہنچ رہی ہو تو اسے اٹھا لینا چاہئے تاکہ اسے سردی نہ لگے اور وہ بھیگ نہ جائے لیکن اگر بچہ بغیر کسی جسمانی تکلیف کے رونا شروع کر دے تو اسے رونے دینا چاہئے ورنہ وہ بےجا خدمت کرانے کا عادی ہو جائے گا۔ جب اس کی دیکھ بھال کی جائے تو بہت زیادہ چاؤ اور اہتمام کرنا فضول بلکہ مضر ہے جو بات مناسب ہو وہ کر دینی چاہئے اور ضرورت سے زیادہ پیار محبت اور ہمدردی کا اظہار نہ کرنا چاہئے۔ بچوں کی پرورش چاؤ چونچلوں سے نہیں بلکہ متانت اور سنجیدگی سے کرنی چاہئے گویا وہ بچہ نہیں بلکہ بڑی عمر کا انسان ہے۔
بچوں میں بڑوں کی سی عادتیں تو پیدا نہیں ہو سکتیں۔ لیکن ہمیں یہ خیال ضرور رکھنا چاہئے کہ کوئی ایسی بات نہ ہونے پائے جو ان کی عادات کے رستے میں رکاوٹ ثابت ہو۔ مدعا یہ کہ بچہ مزاج دار نہ بن جائے۔ ورنہ بعد میں اسے سخت مایوسی کا سامنا ہو گا اور یوں دیکھئے تو وہ خود بھی اس قابل نہیں کہ اس میں اس قدر اہمیت کا احساس پیدا کیا جائے۔
بچوں کی پرورش میں سب سے مشکل بات یہ ہے کہ والدین کو غفلت اور لاڈ کے بین بین رہنا پڑتا ہے بچے کی صحت کو درست رکھنے کے لئے ہر وقت اس کی نگہداشت کرنی پڑتی ہے۔ اور اس کی خاطر بڑی بڑی مصیبتیں جھیلنی پڑتی ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ والدین کو بچے سے بہت زیادہ الفت ہو لیکن مصیبت یہ ہے کہ جہاں والدین کو محبت زیادہ ہوتی ہے وہاں اکثر ان کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ جن والدین کو اپنے بچوں سے بہت محبت ہے۔ ان کے نزدیک اولاد کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے اگر احتیاط نہ برتی جائے تو بچہ بھی اس بات کو محسوس کرنے لگتا ہے اور جتنا اہم اسے والدین سمجھتے ہیں اتنا ہی اہم وہ بھی اپنے آپ کو سمجھتا ہے جب اسے خود بینی کی عادت پڑ جاتی ہے اور بڑے ہو کر لوگ والدین کی طرح اس کی خوشامد درآمد نہیں کرتے تو اسے مایوس ہونا پڑتا ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ نہ صرف پہلے سال بلکہ بعد میں جب کبھی بچہ بیمار ہو والدین خندہ پیشانی اور بہ ظاہر بے فکری کے ساتھ اس کا علاج کریں اور بات کا بتنگڑ نہ بنائیں۔
پرانے زمانے میں بچوں کو جکڑ کر بھی بہت رکھا جاتا تھا۔ اور ان سے لاڈ بہت کیا جاتا تھا ان کے اعضا کو حرکت کرنے کا موقع نہ دیا جاتا تھا کپڑے ضرورت سے زیادہ گرم ہوتے تھے فطری حرکات پر پابندیاں عائد کی جاتی تھیں لیکن ساتھ ہی ان کو ہر وقت گود میں اٹھائے اٹھائے پھرتے تھے۔ ان کے سامنے گانے گاتے پھرتے تھے۔ اور انہیں چوبیس گھنٹے چوما چاٹی کا تختہ مشق بنائے رکھتے تھے۔ یہ بہت غلط طریقہ تھا اس سے بچے بگڑ جاتے تھے اور ہر وقت ماں باپ کے گلے کا ہار بنے رہتے تھے۔ صحیح اصول یہ ہے کہ نہ بچے کی فطری حرکات و خواہشات پر پابندی عائد کیجئے نہ اسے ان سے تجاوز کرنے دیجئے۔ بچے کے لئے آپ جو تکلیف اٹھاتے ہیں اس سے بچے کو بے خبر رہنا چاہیئے۔ خدمت کرانے کا چسکا اسے نہ پڑنے دیجئے جہاں تک ممکن ہو ایسی کامیابی کا لطف اسے ضرور اٹھانے دیجئے جو خود اس کی اپنی کوشش کا نتیجہ ہو۔ جدید تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے بچے کو خارجی قواعد و ضوابط کی غلامی سے آزاد کیا جائے۔ لیکن اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ خود بچے کے دل میں انضباط کا احساس پیدا کیا جائے۔ اور اس احساس کا پیدا کرنا عمر کے پہلے سال میں نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ مثلاً جب بچے کو سلانا ہو تو اسے گود میں نہ لینا چاہئے۔ بازاروں میں تھام کر ”سو جا سو جا“ نہ کرنا چاہئے بلکہ اس کے پاس تک نہ ٹھہرنا چاہیئے۔ اگر آپ ایک مرتبہ یوں کریں گے تو بچہ دوسری مرتبہ بھی یہی چاہے گا اور تھوڑے عرصہ میں بچہ کا سلانا ایک مصیبت بن جائے گا۔ بچے کو اڑھا لپٹا کر بستر میں سلا دینا چاہیئے اور ایک دو باتیں کر کے اسے اکیلا چھوڑ دینا چاہیئے۔ ممکن ہے وہ چند منٹ تک روتا رہے لیکن اگر وہ بیمار نہیں تو تھوڑی دیر میں خود بہ خود چپ ہو جائے گا۔ اس کے بعد جا کر دیکھئے تو مزے کی نیند سو رہا ہو گا۔ لاڈ پیار سے ایک تو اس کی سیرت بگڑ جائے گی۔ دوسرے وہ سوئے گا بھی کم۔
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ نوزائیدہ بچہ ماں کے پیٹ سے کوئی عادت ساتھ نہیں لاتا اس کی عادات فطری اور اضطراری ہوتی ہیں چنانچہ اسے اشیاء کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ اشیاء کے احساس کے لئے یہ ضروری ہے کہ بچہ اشیاء کو پہچانے اور اشیاء کو پہچاننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اشیاء کا بار بار تجربہ ہو۔ سو وہ رفتہ رفتہ ہی حاصل ہوتا ہے۔ پیدائش کے تھوڑے عرصہ بعد بچہ پنگوڑے کے مس ماں کی چھاتی یا دودھ کی بوتل کے مس اور خوشبو اور ماں یا ان کی آواز سے مانوس ہو جاتا ہے۔ ماں یا پنگوڑے کو دیکھنے کی قابلیت بعد میں پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ نوزائیدہ بچے کی آنکھیں ابھی اس قابل نہیں ہوتیں کہ وہ اشیاء کو واضح طور پر دیکھ سکے۔ جب رفتہ رفتہ مختلف احساسات کی ائتلاف سے بچے کے ذہن میں عادات وضع ہو جاتی ہیں تو مس اور بو اور نظر کی بدولت ذہن میں اشیا کے تصورات شکل پذیر ہونے لگتے ہیں۔ خاص خاص احساسات اس کے دل میں خاص خاص اشیاء کی توقعات پیدا کرتے ہیں۔ (دودھ کی بو آتی ہے تو چھاتی یا بوتل کے مس کے لئے تیار ہو جاتا ہے ماں کی آواز آتی ہے تو ماں کی شکل دیکھنے کا منتظر ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ) تاہم کچھ عرصے تک اشخاص اور اشیا میں تمیز نہیں کر سکتا۔ جس بچے کو کبھی بوتل کا دودھ اور کبھی چھاتی کا دودھ پلایا جائے اس کے نزدیک کچھ عرصے تک ماں اور بوتل ایک ہی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس تمام عرصے کے دوران میں تعلیم کا ذریعہ محض جسمانی ہونا چاہئے بچے کی تمام مسرتیں (جو زیادہ تر گرماہٹ اور خوراک تک محدود ہوتی ہیں) اس کے تمام دکھ محض جسمانی ہوتے ہیں۔ اس کے افعال اور اس کی عادات یوں شکل پذیر ہوتی ہیں کہ جو چیز اس کے ذہن میں مسرت سے تعلق رکھتی ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو دکھ سے متعلق ہو اس سے گریز کرتا ہے۔
بچے کا رونا ایک حد تک تو اضطراری حرکت ہے جو دکھ کی وجہ سے ظہور میں آتی ہے اور ایک حد تک ایک ارادی فعل ہے جو بچہ مسرت حاصل کرنے کے لئے اختیار کرتا ہے۔ شروع شروع میں وہ محض دکھ کی وجہ سے روتا ہے لیکن جب اس دکھ کو دور کیا جائے (جیسا کہ کیا جاتا ہے) تو بچے کے دل میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ رونے کے نتائج خوش گوار ہوتے ہیں چنانچہ رفتہ رفتہ بچے کو یہ عادت ہو جاتی ہے کہ نہ صرف دکھ دور کرانے کے ليے روتا بلکہ مسرت حاصل کرنے کے ليے بھی اس حربے کو کام میں لاتا ہے، یہ اس کی ذہانت کی پہلی فتح ہوتی ہے لیکن باوجود بےانتہا کوشش کے جب تک اسے دکھ نہ پہنچ رہا ہو وہ ویسا نہیں رو سکتا، جیسا دکھ کے وقت روتا ہے۔ ہوشیار ماں اس قسم کے رونے اور اُس قسم کے رونے میں بخوبی تمیز کر سکتی ہے عقلمندی یہی ہے کہ جب بچہ کا رونا دکھ کا رونا ہو تو اس پر بالکل توجہ نہ کی جائے۔ بچے کو لئے لئے پھرنا اور اس سے کھیلتے رہنا یا اس کے سامنے گانے گانا آسان بھی ہے اور پُر لطف بھی۔ لیکن بہت جلد بچہ اس قسم کی تفریح کا عادی ہو جاتا ہے جو اس کی نیند میں خلل انداز ہوتی ہے۔ شیر خوار بچے کا بیشتر وقت (سوائے دودھ پینے کے اوقات کے) نیند میں گزرنا چاہیئے۔ ممکن ہے کہ بعض والدین کو یہ باتیں سخت معلوم ہوں لیکن تجربے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بچے کی صحت اور خوشی کے لئے یہ باتیں بہت مفید ہیں۔
بچے کے لئے جو تفریحات والدین مہیا کرتے ہیں ان کو تو ایک خاص حد کے اندر رکھنا چاہیئے۔ لیکن جو تفریحات وہ خود اپنے لئے پیدا کرے ان کو ترقی دینے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ شروع ہی سے اسے اس بات کا موقع دینا چاہیئے کہ وہ آزادی سے ہاتھ پاؤں ہلا سکے۔ اور اپنے اعصاب کو کام میں لا سکے۔ پرانے زمانے کے لوگ بچوں کو باندھ کر رکھا کرتے تھے اس کی وجہ سستی کے سوا اور کچھ نہ تھی کیونکہ جن بچوں کو کھلا رکھا جائے ان کی نگہداشت زیادہ کرنی پڑتی ہے۔ حیرت ہے کہ ان لوگوں کی مامتا بھی ان کی سستی پر غالب نہ آ سکتی تھی جب بچے کی نظر ٹھیک ہو جاتی ہے تو وہ متحرک چیزوں کو خصوصاً جو ہوا سے ہل رہی ہوں دیکھ کر خوش ہوتا ہے لیکن پھر بھی جب تک وہ اشیا کو پکڑنا نہ سیکھ لے اس کی دلچسپیوں کا دائرہ بہت محدود رہتا ہے۔ جب پکڑنا سیکھ لے تو یہ دائرہ یک لخت وسیع ہو جاتا ہے کچھ عرصے تک تو محض گرفت ہی کی مشق اتنی مسرت انگیز ہوتی ہے کہ وہ گھنٹوں اس میں مشغول رہتا ہے۔ جھنجھنے کا شوق بھی اسی زمانے میں پیدا ہوتا ہے۔ جھنجھنے کے زمانے سے ذرا پہلے وہ اپنے ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں پر قابو حاصل کرتا ہے شروع شروع میں پاؤں کی انگلیوں کی حرکات محض اضطراری ہوتی ہے۔ بعد میں بچہ یہ دریافت کرتا ہے کہ میں انہیں اپنی مرضی سے بھی ہلا سکتا ہوں اس احساس سے وہ اتنا خوش ہوتا ہے گویا بہت بڑی مملکت حاصل کر لی ہے کیونکہ انگلیاں اب اجنبی نہیں رہتیں۔ بلکہ جسم کا جزو بن جاتی ہیں۔ اس کے بعد اگر بہت سی چیزیں بچے کے آس پاس ایسی ہوں جنہیں وہ پکڑ سکے تو اسے دل بہلاوے کا بہتیرا سامان مہیا ہو جاتا ہے بچے کو تفریح بھی ایسی ہی حرکات سے ہوتی ہے جو تعلیم کے نقطہ نظر سے ضروری ہے البتہ گر جانے یا چوٹ لگ جانے یا کسی تکلیف دہ چیز مثلاً پن یا سوئی کے نگلنے سے اسے بچانا ضروری ہے۔
پہلے تین مہینے کے عرصے میں بچہ دودھ پیتے وقت تو بہت خوش ہوتا ہے لیکن باقی تمام وقت اس کی طبیعت اکتائی رہتی ہے۔ جب وہ مزے میں ہو تو سو جاتا ہے جاگ رہا ہو تو کوئی نہ کوئی بےچینی اسے ضرور رہتی ہے۔ انسان کی خوشی کا انحصار اس کی ذہنی قابلیت پر ہے لیکن تین مہینے سے کم عمر کے بچے کو نہ کسی چیز کا کافی تجربہ ہوتا ہے نہ وہ اپنے اعصاب پر قادر ہوتا ہے اس لئے مسرتوں سے محروم رہتا ہے۔ جانوروں کے بچے نسبتاً بہت جلد زندگی سے لطف اٹھانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کی مسرتیں فطری ہوتی ہیں اور تجربے پر منحصر نہیں ہوتیں۔ انسان کا بچہ اگر محض جبلّت پر تکیہ کرے تو اس کی خوشیوں اور دلچسپیوں کا حلقہ تنگ رہتا ہے۔ بچہ اپنی عمر کے پہلے تین مہینے عام طور پر اکتایا رہتا ہے۔ اس اکتائے رہنے میں بھی حکمت ہے۔ اس سے نیند پوری طرح آتی ہے۔ اگر بچے کو بہت زیادہ بہلایا جائے تو وہ سوتا کم ہے۔
جب بچہ دو تین مہینے کا ہو جاتا ہے تو مسکرانا سیکھتا ہے۔ اور اشخاص کے متعلق اس کے جذبات اشیا سے ممیز ہونے لگتے ہیں۔ اس عمر کو پہنچ کر ماں اور بچے میں سوشل تعلقات کا امکان شروع ہو جاتا ہے۔ بچہ ماں کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کر سکتا ہے اور کرتا ہے اور نہ صرف جانوروں کی مانند بلکہ اور طرح سے متاثر ہوتا ہے۔ تھوڑے عرصے کے بعد تحسین و تعریف کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ میرے اپنے بچے میں اس خواہش کے واضح آثار پانچ مہینے کی عمر میں ظاہر ہوئے۔ میز پر ایک وزنی گھنٹی پڑی تھی۔ بڑی مشکلوں سے اس نے اسے اٹھایا اور اٹھ کر بجایا اور فخریہ مسکرا کر سب کو باری باری دیکھنے لگا جب یہ خواہش پیدا ہو جائے تو گویا ایک زبردست حربہ معلم کے ہاتھ آ جاتا ہے یہ حربہ تعریف اور ملامت کا حربہ ہے۔ بچپن کے تمام تر زمانے میں اس سے بڑا کام لیا جا سکتا ہے لیکن اس حربے کو ازحد احتیاط کے ساتھ استعمال کرنا چاہیئے، عمر کے پہلے سال میں بچہ کی مذمت بالکل نہ کرنی چاہیئے بعد میں بھی اس سے بہت حد تک احتراز واجب ہے۔ تعریف نسبتاً کم مضر ہوتی ہے لیکن تعریف نہ تو فراخدلی سے کرنی چاہیئے کہ اس کی قدر ہی جاتی رہے اور نہ اس بخل کے ساتھ کہ بچے کو اس کے حاصل کرنے کے لئے بہت زیادہ زور لگانا پڑے۔ جب بچہ پہلی دفعہ قدم اٹھائے یا پہلی دفعہ الفاظ منہ سے نکالے تو کسی معقول شخص کو اس کی کارگزاری کو سراہنے میں تامل نہ کرنا چاہیئے۔ جب کبھی بچہ بہت سی کوششوں کے بعد کسی مشکل کو حل کرے تو اس کی تعریف ضرور کرنی چاہیئے۔ بچے کو یہ احساس دلانا چاہیئے کہ ہمیں اس کی خواہش اکتساب کے ساتھ ہمدردی ہے۔
عام طور پر بچے میں خواہش اکتساب اتنی زبردست ہوتی ہے کہ اس کے لئے محض مواقع مہیا کر دینا ہی کافی ہوتا ہے باقی سب کچھ وہ خود ہی کر لیتا ہے مثلاً بچے کو گھٹنوں چلنے یا پاؤں پاؤں چلنے یا اسی طرح کی دیگر حرکات سکھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ باتیں کرنا البتہ خود بول کر اسے سکھاتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ بالا ارادہ الفاظ سکھانے کی کوشش کرنا غیر ضروری ہے۔ بچے اپنی ترقی کی رفتار خود ہی معین کرتے ہیں اسے تیز تر بنانے کی کوشش کرنا غلطی ہے۔ مرتے دم تک انسان کا یہ حال ہوتا ہے کہ مشکلیں پیش آتی ہیں۔ ان پر قابو پاتا ہے اور اس سے مزید کوشش کے لئے حوصلہ بڑھتا ہے۔ اس سے بہتر طریقہ شوق کے بڑھانے کا اور کوئی نہیں۔ مشکلات نہ اتنی زیادہ ہونی چاہئیں کہ کام کرنے کا شوق ہی مرجائے۔ اور نہ اتنی کہ طبیعت کو اکسا نہ سکیں۔ ہم کچھ سیکھتے اسی بات سے ہیں جو ہم خود کرتے ہیں۔ بڑوں کو صرف یہ کرنا چاہیئے کہ ایک دفعہ بچے کو کر کے دکھا دیں۔ مثلاً اس کے سامنے ایک دفعہ جھنجھا ہلا دیں اور پھر بچے کو چھوڑ دیں کہ وہ خود اس کی نقل اتارنے کی کوشش کرے۔ جو کام دوسرے لوگ سرانجام دیں۔ وہ سمندِ شوق پر تازیانے کا کام کر سکتے ہیں۔ لیکن جب تک بچہ وہ کام خود نہ کرے اسے تعلیم نہیں کہا جا سکتا۔
باقاعدگی اور وقت کی پابندی شروع بچپن اور خصوصاً پہلے سال میں بہت ضروری ہیں۔ نیند، خوراک اور رفع حاجت کے لئے شروع ہی سے باقاعدگی کی عادت ڈالنی چاہیئے۔ گرد و پیش کے حالات و واقعات کا مانوس ہونا ذہنی نقطۂ نظر سے بہت ضروری ہے۔ اگر ایک ہی بات باقاعدگی سے پیش آتی رہے تو بچے کو اس کے پہچاننے میں آسانی ہوتی ہے۔ ذہن پر ضرورت سے زیادہ زور نہیں ڈالنا پڑتا۔ اور بچہ محسوس کرتا ہے کہ میں محفوظ ہوں۔ بچہ کمزور اور بے بس ہوتا ہے۔ اسے تسکین کی ضرورت ہے اگر اسے یہ احساس پیدا ہو جائے کہ ہر بات باقاعدگی کے ساتھ ہوتی ہے اور کوئی نئی بات یکلخت اس کی زندگی میں خلل نہیں ڈال سکتی تو وہ خوش رہتا ہے۔ ذرا عمر بڑی ہوتی ہے تو نئی نئی باتوں کا شوق پیدا ہوتا ہے لیکن زندگی کے پہلے سال میں ہر نئی بات میں بچہ کو ڈر محسوس ہوتا ہے جس سے اسے جہاں تک ممکن ہو محفوظ رکھنا چاہیئے۔
اگر بچہ بیمار ہو اور آپ متفکر، تو اپنا فکر حتی الامکان اس پر ظاہر نہ ہونے دیجئے ورنہ وہ بھی متفکر ہو جائے گا۔ کوئی ایسی بات نہ کرنی چاہیئے جس سے بچے کی طبیعت میں ہیجان پیدا ہو اگر بچے کو ٹھیک نیند نہ آئے یا اس کا پیٹ خراب ہو تو بچے کے سامنے بے پروائی ظاہر کرنی چاہیئے اسے یہ احساس نہ ہونا چاہیئے کہ اس کی اہمیت کچھ بڑھ گئی ہے ورنہ وہ معمولی باتوں میں بھی آپ کی خوشامد اور ترغیب کا خواہش مند ہو گا۔ اس بات کا خیال نہ صرف عمر کے پہلے سال میں بلکہ بعد میں بھی رکھنا چاہیئے۔ بچہ بڑا ہو تو اس اصول پر بیش از پیش کار بند ہونا چاہیئے۔ بچے کے دل میں یہ احساس کبھی نہ پیدا ہونے دینا چاہیئے کہ اس کے معمولی افعال مثلاً کھانا پینا جو خود اس کے لئے مسرت کا موجب ہیں آپ کی ممنونیت کا باعث ہیں۔ اگر اس میں یہ احساس پیدا ہو جائے تو وہ خوشامد کا متوقع رہتا ہے۔ حالانکہ اسے ایسی باتیں خودبخود بغیر ترغیب کے کرنی چاہئیں۔
یہ کبھی خیال مت کیجئے کہ بچے میں اتنی عقل کہاں جو ان باتوں کو سمجھے۔ بچے کے قوا کمزور ہیں اور اس کا علم محدود۔ لیکن جہاں یہ کوتاہیاں اس کے رستے میں حارج نہ ہوں وہاں اس کی ذہانت بڑوں سے کم نہیں ہوتی۔ بچہ جو کچھ شروع کے ایک سال میں سیکھتا ہے پھر عمر بھر ایک سال کے عرصہ میں اتنا نہیں سیکھ سکتا۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ بچے کی ذہانت بہت تیز ہوتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ بچے کو یہ سمجھ کر پالو کہ ایک دن اسے بڑا ہونا ہے اور دنیا کے کاروبار میں حصہ لینا ہے۔ اس کی موجودہ سہولتوں پر یا اپنی خوشی پر اس کی آئندہ بہتری کو قربان مت کیجئے اس سے اسے بہت نقصان پہنچتا ہے۔ ٹھیک تربیت دینے کے لئے محبت اور علم دونوں کا ہونا ضروری ہے۔
***
ماخوذ از کتاب ”تعلیم خصوصاً اوائل طفلی میں“
مصنفہ برٹرنڈرسل۔ مترجم پطرس
مکھیوں کا بادشاہ
ایک دن سقراط گاؤں کے ا سکول میں آیا۔ سب لوگ اسے جانتے تو تھے ہی۔ جونہی بچے بچیوں نے اس کی صورت دیکھی، ان کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے۔ پڑھنا لکھنا بھول گیا۔ اور سب کی نظریں دروازے پر گڑ گئیں۔ جہاں بڈھے میاں کھڑے بڑے غور سے بچوں کی صورتیں دیکھ رہے تھے۔
سقراط نے کچھ کہے سنے بغیر کمرے کا ایک چکر لگایا۔ پھر اپنے آپ سے منہ ہی منہ میں باتیں کرنے لگا۔ ”نہ کسی کے کانوں میں مُرکیاں دیکھیں نہ ناک میں نتھ، نہ کسی کے چہرے پر میل، نہ کسی کی ناک بہہ رہی ہے، نہ ناخن بڑھے ہوئے ہیں (ایں، یہ کیا؟ اس بچی کے ناخن تو بڑھے ہوئے ہیں۔ کیسے افسوس کی بات ہے! لیکن نہیں یہ کوئی نئی لڑکی ہو گی) اور ہاں نہ کسی کا پیٹ بڑھا ہوا ہے، نہ چہرے پر زردی ہے، نہ آنکھیں خراب ہیں، نہ کپڑے میلے ہیں۔ سب کے چہروں پر خوشی اور مسکراہٹ ہے۔ معلوم ہوتا ہے اصلاح اور ترقی کے لئے جو ہم نے کوشش کی تھی وہ بے نتیجہ ثابت نہیں ہوئی“۔
چوتھی جماعت کے ایک شوخ لڑکے نے کہا۔ ”بڑے میاں یہ ہم پر منتر پڑھ پڑھ کر کیا پھونک رہے ہو؟“۔
سقراط یوں چونک اٹھا گویا وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہو۔ بولا ”سلام اے لوگو! ہاں میں ایک خواب دیکھ رہا تھا“۔
”تو بڑے میاں! اس میں حیرانی کی بات ہی کیا ہے۔ ابا جان کہتے ہیں کہ تم خواب دیکھنے کے عادی ہو۔ لیکن ہم تو خواب نہیں دیکھ رہے ہم تو سب جاگ رہے ہیں“۔
”تو پھر ضرور میرے خواب میں سے ایک خواب سچا ثابت ہوا ہے“۔
ایک ننھے سے لڑکے نے کہا۔ ”واہ وا۔ لو اب سقراط میاں ہمیں ایک کہانی سنائیں گے“۔
سقراط کے آنے سے ماسٹر صاحب کا چہرہ بھی اپنے شاگردوں کی طرح خوشی سے دمکنے لگا تھا۔ انہوں نے پوچھا ”کہئے آپ کو کون سا خواب سچا ثابت ہوا؟“۔
”میں چھوٹے لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک ایسا ا سکول دیکھ رہا ہوں جس میں گندگی نام کو بھی نہیں، جہاں نہ کوئی بچہ بیمار ہے، نہ کسی نے سونے چاندی کے زیور پہن رکھے ہیں۔ یہی خواب میرا سچا ثابت ہوا ہے“۔
ماسٹر صاحب نے کہا۔ ”یہ تو کچھ بھی بات ہیں۔ مہینوں سے ہمارے ا سکول کی یہی حالت ہے کبھی کبھی کوئی نیا بچہ ا سکول میں داخل ہوتا ہے تو ہمیں تھوڑی سی تکلیف ہوتی ہے لیکن ہم جلدی ہی اسے بھی راہ پر لے آتے ہیں“۔
عین اس موقع پر ایک عورت داخل ہوئی۔ وہ چپ چاپ اور شرمائی ہوئی تھی لیکن تھی چست چالاک اور اکثر یہاں آیا کرتی تھی اس کے ہاتھ میں ایک کتاب اور کچھ کاغذ تھے۔ اسے دیکھ کر سب لڑکے اور لڑکیاں اٹھ کھڑے ہوئے اور جگہیں بدلنے لگے تھوڑی دیر میں سب لڑکے ایک طرف ہو گئے اور سب لڑکیاں دوسری طرف۔ تب اس عورت نے لڑکیوں کو سلائی کا ایک سبق پڑھانا شروع کر دیا۔ سقراط نے کمرے سے نکل جانا چاہا۔ مگر لڑکے اسے کب چھوڑنے والے تھے۔ سب کے سب چلا اٹھے۔ ہیں، ہیں بڑے میاں کہاں چل دیئے ٹھہرو تم ابھی نہیں جا سکتے۔ تم پہروں بیٹھے بڑی عمر کے لوگوں سے باتیں کرتے رہتے ہو۔ کیا ہم نے کچھ قصور کیا ہے؟
سقراط نے کہا۔ ”یہاں میری ضرورت بھی کیا ہے جو کچھ تمہیں بتا سکتا ہوں۔ تم اور تمہارے استاد اس سے بہت زیادہ جانتے ہیں۔ میں کسی ایسی جگہ جاؤں گا جہاں میری ضرورت ہو“۔
استاد نے کہا۔ ”نہیں آپ نہیں جا سکتے۔ ہم نے سب کچھ آپ ہی سے سیکھا ہے۔ کچھ دیر یہاں ٹھہرئیے اور کوئی نئی بات بتائیے“۔
سقراط نے کہا۔ ”میں کیا بتا سکتا ہوں؟ میں استاد تھوڑا ہی ہوں“
اسی شوخ لڑکے نے پھر کہا ”اچھا تو کوئی کہانی ہی سنا دو“۔ کہانی کا نام سننا تھا کہ سب لڑکے چلا اٹھے۔ ”ٹھیک ہے کہانی بھئی کہانی“۔
سقراط نے کہا۔ ”میں کہانیاں وہانیاں نہیں سنایا کرتا“۔
اس پر کئی لڑکے بول اٹھے۔ ”ہم نہیں مانتے تم بچوں والے ہو۔ اپنے بچوں کو تو ضرور کہانیاں سناتے ہوں گے“۔
سقراط نے کہا۔ ”یہ کام میرا نہیں۔ ان کی ماں انہیں کہانیاں سنایا کرتی ہے لیکن تمہاری ماؤں کو اپلے تھاپنے ہی سے فرصت نہیں ملتی“۔
اس پر ننھی لڑکیوں نے ایک زبان ہو کر کہا۔ ”ہر گز نہیں۔ تمہیں ہماری ماؤں پر الزام لگاتے شرم نہیں آتی“۔ انہوں نے تو یہ کام برسوں سے چھوڑ رکھا ہے۔
سقراط نے کہا۔ ”خوب خوب، مجھے بہت ہی افسوس ہے کہ میں نے تمہاری ماؤں پر یہ جھوٹا الزام لگایا ہے۔ مجھے امید ہے تم معاف کر دو گے“۔
”معاف تب کریں گے جب تم ہمیں کوئی کہانی سناؤ گے“۔
”اچھا تو سنو، ایک تھا مگرمچھ بہت ہی بڑا… “۔
”رہنے دو، ہم ایسی بے ہودہ کہانی نہیں سننا چاہتے۔ سنانی ہے تو کوئی کام کی کہانی سناؤ“۔
”دیکھو میاں سقراط! عقل کے ناخن لو اور ہمیں اچھی کہانی سناؤ، جس میں بادشاہ ہوں، شہزادوں شہزادیوں کا ذکر ہو، اگر تم چاہو تو ایسی کہانی سنا سکتے ہو“۔
” اچھا تو سنو، ایک تھا بادشاہ۔ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، وہ ایک چھوٹی سی ریاست پر حکومت کرتا تھا۔ رعایا اس سے بہت خوش تھی۔ جہاں بادشاہ کا پسینہ گرتا وہاں رعایا اپنا خون بہانے کو تیار ہو جاتی“۔
لڑکوں نے کہا۔ ”اب آئے نا راہ پر، ہاں تو پھر کیا ہوا؟“
”اس چھوٹی سی ریاست سے ملی ہوئی ایک بہت بڑی ریاست تھی جس پر ایک بہت ظالم بادشاہ حکمران تھا۔ اس بادشاہ کی بڑی آرزو یہ تھی کہ کسی طرح اس چھوٹی ریاست پر قبضہ جما لوں۔ اس چھوٹی ریاست کے بادشاہ کے ہاں کوئی بیٹا تو نہ تھا ہاں ایک خوبصورت بیٹی تھی۔ بڑے بادشاہ نے اپنے دل میں سوچا کہ اگر میرے بیٹے کی شادی اس بادشاہ کی بیٹی سے ہو جائے تو بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کی سلطنت پر میرا قبضہ ہو جائے گا۔
لیکن چھوٹا بادشاہ اور اس کی رعایا اس کی نیت سے واقف تھے چنانچہ انہوں نے اس کے بیٹے کی شادی اپنی شہزادی کی شادی کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر بڑا بادشاہ بہت ہی جھنجھلایا اور اپنے وزیروں کو بلا کر ان سے صلح مشورہ کیا۔ وزیروں نے کہا۔ اس چھوٹے بادشاہ نے ہماری ہتک کی ہے۔ ہمیں اس پر چڑھائی کر کے اس کی ریاست پر قبضہ کر لینا چاہئے۔ چنانچہ انہوں نے چڑھائی کی تیاریاں شروع کر دیں۔ جب چھوٹے بادشاہ کو اس کی خبر ہوئی تو وہ اپنے دل میں بہت ڈرا کیونکہ اس کی فوج بڑے بادشاہ کی فوج کے مقابلے میں ایک چوتھائی بھی نہ تھی۔
اس چھوٹے بادشاہ نے اپنے امیروں وزیروں کو بلایا اور کہا ”اگر ہم لڑے تو یہ بادشاہ ہماری سلطنت پر قبضہ کر لے گا۔ اور اگر میں نے اپنی بیٹی اس کے بیٹے سے سے بیا دی تب بھی وہ ہماری سلطنت پر قبضہ کرے گا ہم کریں تو کیا کریں؟“
اس کی رعایا نے جواب دیا۔ ”ہم لڑیں گے اور اپنی جانیں حضور پر فدا کر دیں گے“۔
بادشاہ نے کہا۔ ”لیکن اس کا کچھ فائدہ نہ ہو گا غنیم کے مقابلے میں ہماری فوج بہت ہی تھوڑی ہے“۔
اس پر سب چپ ہو گئے لیکن اس ریاست کے تمام باشندے اپنے بادشاہ سے بے حد محبت رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک دیہات میں اور کیا شہروں میں، سب جگہ لوگوں کو یہی فکر تھی کہ ہم اپنے بادشاہ اور اپنے ملک کو غنیم کے ہاتھ سے کس طرح بچائیں یہاں تک کہ حیوانوں اور درندوں کو بھی اپنے بادشاہ کی امداد کی فکر ہوئی۔
جب بادشاہ نے دوسری مرتبہ اپنے امیروں وزیروں کو طلب کیا تو اس موقع پر شیر بھی آئے اور کہنے لگے۔ ہم دشمن کے گھوڑوں اور مویشیوں کو چیر پھاڑ ڈالیں گے“۔
بھیڑئیے اور گیڈر آئے اور کہنے لگے۔ ہم دشمن کے خیموں کے اردگرد گھومتے رہیں گے اور جو کوئی اکیلا وکیلا باہر نکلے گا اسے کھا جائیں گے۔
کووّں نے کہا یوں کام نہ چلے گا۔
عین اس موقع پر ایک مکھی بادشاہ کی ناک پر آ کر بیٹھی۔ بادشاہ نے ہاتھ سے اڑا دی مگر مکھی وہاں سے جانے کا نام نہ لیتی تھی۔ اس دفعہ وہ آکر بادشاہ کے کان پر بیٹھ گئی۔ بادشاہ جھنجھلا اٹھا اور کہنے لگا۔ اس مکھی نے تو ناک میں دم کر دیا۔ یہ مجھے کیوں تنگ کرتی ہے؟ میں پہلے ہی پریشان ہو رہا ہوں۔
بادشاہ کے کان میں بھنبھناہٹ کی آواز آئی جسے کوئی کہہ رہا ہو۔ میں حضور کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔
بادشاہ چونک اٹھا اور کہا یہ کون بولا؟
وزیر نے عرض کیا۔ حضور! کوئی بھی نہیں بولا۔
بادشاہ کے کان میں پھر وہی باریک آواز آئی۔ میں بولا تھا۔
اب تو بادشاہ اچھل پڑا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اپنے ارد گرد دیکھنے لگا مگر اس کے آس پاس کوئی نہ تھا۔ ناچار پھر آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا مگر دل ہی دل میں سخت حیران ہوتا اور کہتا تھا کہ میری پریشانیوں اور اندیشوں نے کہیں مجھے دیوانہ تو نہیں بنا دیا۔
اتنے پھر وہی آواز سنائی دی کہ میں حضور کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔
امیر وزیر سب دم بخود کھڑے ہو گئے کسی کے منہ سے ایک لفظ نہ نکلا۔ مگر اب بادشاہ سمجھ گیا کہ یہ ضرور کسی ایسی ہستی کی آواز ہے جو نظر نہیں آتی۔
بادشاہ نے پوچھا تم کون ہو؟
”میں مکھیوں کا بادشاہ ہوں اور آپ کی مدد کے لئے حاضر ہوا ہوں“۔
بادشاہ نے کسی قدر ناراضی سے کہا۔ جاؤ یونہی فضول وقت ضائع نہ کرو۔ بھلا تم میری کیا مدد کر سکتے ہو؟ تم مجھے پریشانیوں میں مبتلا دیکھ کر مجھ سے ٹھٹھا کرنے آئے ہو۔
”نہیں۔ میں اس خیال سے ہرگز نہیں آیا ہوں۔ میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں۔ اور اگر آپ وعدہ کریں کہ میں جو کچھ مانگوں آپ دیں گے تو میں آپ کی مدد سے دریغ نہ کروں گا۔ “
بادشاہ نے ہنس کر کہا۔ ”جاؤ تمہیں اجازت ہے میری دشمن کو برباد کرنے میں اپنا سارا زور لگا دو لیکن مجھے یقین ہے کہ تم نہ تو میری کچھ مدد کر سکتے ہو نہ میرے دشمن کو نقصان پہنچا سکتے ہو“۔
آس پاس جو لوگ بیٹھے تھے جب انہوں نے بادشاہ کو آپ ہی آپ باتیں کرتے اور ہنستے دیکھا تو انہیں بہت فکر ہوئی۔ وہ سمجھے کہ پریشانیوں کی وجہ سے بادشاہ کا سر پھر گیا ہ ے اور وہ دیوانوں کی طرح آپ ہی آپ ہنس رہا ہے۔ لیکن بادشاہ نے سارا واقعہ ان سے بیان کر دیا۔ اس بات کا تو کسی کو بھی یقین نہ تھا۔ مگر مکھیاں ہماری کچھ امداد کر سکتی ہیں۔ البتہ اس خیال پر انہیں بہت ہنسی آئی کہ مکھیاں ہماری سلطنت کی حفاظت کرنا چاہتی ہیں۔ اس موقع پر ایک بڈھا جو سب سے پیچھے بیٹھا تھا اٹھ کھڑا ہوا اور مکھی کی شرطیں مان لینے کے خلاف دہائی دینے لگا۔ اس نے چلا کر کہا۔ بادشاہ سلامت! آپ نے مغرور اور ظالم ہمسائے سے بھی زیادہ خطرناک دشمن کے ہاتھ اپنی سلطنت بیچ ڈالی ہے۔
اس پر چاروں طرف سے آوازیں آنے لگیں۔ چپ رہ بڈھے، کیا بکتا ہے؟ اور بے چارے بڈھے کو زبردستی خاموش کر کے اپنی جگہ پر بٹھا دیا گیا اس کے تھوڑی دیر بعد مجلس ختم ہو گئی۔ اور سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چل دیئے مگر اس عرصے میں بڈھا منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا رہا۔
ایک لڑکے نے کہا۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو وہ بڈھا ضرور سقراط ہی ہو گا۔
سقراط نے کہا اگر تم یوں میری باٹ ٹوکو گے تو میں باقی کہانی تمہیں نہ سناؤں گا۔
ایک ننھی سی لڑکی نے کا۔ یہ تو تم نے بتایا ہی نہیں کہ اس خوب صورت شہزادی کا کیا حال ہوا؟
سقراط نے چپکے سے ا سکول سے باہر نکلتے ہوئے کہا۔ یہ پھر کبھی بتاؤں گا آج صبح میں نے پہلے ہی تمہارا بہت سا وقت ضائع کر دیا۔
کچھ دنوں کے بعد سقراط اپنی کہانی کا باقی حصہ سنانے پھر ا سکول میں آیا۔ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے وہ ا سکول کے احاطے میں ادھر ادھر اور نیچے بڑے غور سے دیکھتا رہا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس کی کوئی چیز کھو گئی ہے لیکن تھوڑی دیر بعد وہ ا سکول کے کمرے میں داخل ہو گیا۔
لڑکوں نے پوچھا۔ ”احاطے میں تمہاری جو چیز کھو گئی تھی وہ ملی یا نہیں؟
سقراط نے جواب دیا۔ ”نہیں“۔
ایک لڑکے نے کہا ”مجھے یہ سن کر بہت افسوس ہوا۔ لیکن یہ تو بتاؤ تمہاری کیا چیز گم ہوئی ہے؟“
”میری کوئی چیز گم نہیں ہوئی اور جو چیز میں تلاش کر رہا تھا وہ مجھے نہیں ملی اور مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ وہ نہیں ملی“۔
کئی لڑکوں نے زچ ہو کر پوچھا۔ ”تمہاری کوئی یز گم بھی نہیں ہوئی ہوئی اور تم دیر تک اسے ادھر ادھر تلاش بھی کرتے رہے اور جب وہ تمہیں نہیں ملی تو تمہیں خوشی بھی ہوئی یہ تو پہلی ہے پہلی“۔
”اچھا اگر تم اسے پہلی کہتے ہو تو پہلی ہی سہی“۔
ماسٹر صاحب نے کہا۔ ”مجھے معلوم ہے کہ آپ کو کس چیز کی تلاش تھی۔ آپ کوڑا کرکٹ تلاش کر رہے تھے لیکن وہ اب آپ کو یہاں نہیں مل سکتا“۔
سقراط نے کہا ”بجا فرمایا آپ نے اور اس کے لئے میں آپ کو دلی مبارکباد دیتا ہوں۔ گرد کا ایک ذرّہ بھی تو احاطہ کے آس پاس کہیں نظر نہیں آیا۔ تمام گندگی اور کوڑا کرٹ ا سکول کے گڑھے میں پھینکا جاتا ہے۔ یقین جانو مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی حاصل ہوئی۔
اس کے بعد سقراط چھوٹے لڑکے اور لڑکیوں کو مخاطب کر کے بولا۔ ”مجھے امید ہے کہ جب تم بڑے ہو جاؤ گے اور ا سکول چھوڑ دو گے تو اپنی ان تمام اچھی باتوں کو کبھی نہ بھول گے“۔
استاد نے کہا۔ ”اس کی طرف سے آپ بے فکر رہئے اب صفائی ان کی فطرت کا جزو بن گئی ہے اور غلاظت سے انہیں دلی نفرت ہے۔ اور یہ نفرت ان کے دل سے کبھی نہیں نکل سکتی۔ سبق پڑھنے سے پہلے ہر روز اپنے ا سکول کی صفائی کرتے ہیں اور مجھے پورا یقین ہے کہ اگر یہ جگہ کوڑے کرکٹ سے اَٹی رہے تو اس کے خیال سے بھی انہیں یہاں بیٹھنا دوبھر ہو جائے“۔
یہ سن کر سقراط کے منہ سے بے اختیار ”مرحبا“ نکل گیا۔
اب کئی لڑکوں نے پوچھا ”ہاں بڑے میاں! اب وہ کہانی تو سناؤ، ہم جانتے ہیں کہ تم باٹ ٹالنے کی کوشش کر رہے ہو!“
سقراط نے کہا۔ لو بھئی سنائے دیتا ہوں۔ اچھا تو کہاں چھوڑی تھی کہانی؟ ہاں ہاں یاد آگیا۔ خوب صورت شہزادی باغ میں بیٹھی جراب بن رہی تھی۔
”نہیں یہاں تو نہیں چھوڑی تھی“۔
تو پھر یہاں چھوڑی ہو گی کہ ”بہادر نوجوان شہزادہ گھوڑے پر سوار ہو گیا اور نیام سے تلوار نکال لی“۔
”نہیں، یہاں بھی نہیں چھوڑی۔ سقراط تم جان بوجھ کا انجان بنے جاتے ہو۔ خیر ہم تمہیں بتائے دیتے ہیں تم نے کہانی وہاں چھوڑی تھی جہاں مکھیوں کے بادشاہ نے چھوٹی سلطنت کو بچانے کا وعدہ کیا تھا“۔
”ہاں ہاں۔ یہیں چھوڑی تھی۔ لو صاحب! یہاں سے رخصت ہو کر مکھیوں کا بادشاہ بھن بھن کرتا ہوا سیدھا بڑے بادشاہ کی سلطنت کی طرف روانہ ہو گیا جس وقت وہ وہاں پہنچا تو وہ بڑا بادشاہ چڑھائی کے لئے اپنی فوجوں کو تیار کر رہا تھا۔ اس نے دل میں سوچا کہ اپنی راجدھانی میں ایک بڑی شان دار جشن منانا چاہئے جس میں ہمارے تمام نوجوان شامل ہوں۔ اور دنگل میں سب اپنے اپنے جوہر دکھائیں اور اس طرح ان میں سے تمام بہادروں اور سورماؤں کو چن کر اپنی ایک زبردست فوج تیار کر لوں جو میرے گستاخ ہمسائے کو تباہ و برباد کر ڈالے۔
چنانچہ بادشاہ کے حکم سے ایک شان دار جشن منایا گیا اور ملک کے کونے کونے سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ آ کر اس میں شامل ہوئے“ جس جگہ نظر پڑتی تھی لوگوں کے خیمے ہی خیمے دکھائی دیتے تھے ان لوگوں کا جب جی چاہتا بادشاہ کے خزانے سے کھاتے پیتے اور رنگ رلیاں مناتے انہوں نے بادشاہ کی راجدھانی کی تمام زمین اور پانی کو گندہ اور نجس بنا دیا نتیجہ یہ ہوا یکایک وبا پھیل گئی اور دھڑا دھڑ موتیں ہونے لگیں۔ بہتیرے جتن کئے مگر مرنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی ہی جاتی تھی۔ ناچار بادشاہ نے سب کو حکم دیا کہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ۔ میرے افسر تم سب کے پاس خود آئیں گے اور تم میں سے بہادروں کو چن چن کر فوج میں بھرتی کر لیں گے یہ سن کر سب لوگ اپنے اپنے دیہات اور شہروں کو لوٹ گئے اور اپنے ساتھ بیماری کو بھی لیتے گئے ور اس طرح بڑے بادشاہ کی سلطنت میں وبا پھیل گئی اور چند ہی دنوں میں ہزاروں لوگ موت کے گھاٹ اتر گئے تب بادشاہ نے اپنی سلطنت کے بڈھوں، امیروں، وزیروں کو بلایا۔ انہوں نے کہا ”بادشاہ سلامت! ہمارے تمام نوجوان مر چکے ہیں ہمارے گھر ویران ہو گئے ہیں ہم اب جنگ نہیں کر سکتے۔ آپ نے بہادر سورماؤں کی فوج تیار کرنے کے لئے جو جشن کیا تھا اس نے نہ صرف اس فوج ہی کو برباد کر ڈالا بلکہ ہمارے ملک میں بھی تباہی پھیلا دی۔
بادشاہ نے کہا۔ افسوس! اب کئی سال تک ہم جنگ نہیں کر سکتے۔ اور سب بڈھے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔
اس خوفناک وبا کا حال چھوٹے بادشاہ کے کانوں تک بھی پہنچا اور اس کے امیر وزیر ایسے طاقت ور دشمن کے حملے سے بچ جانے پر اسے مبارکباد دینے آئے جس وقت وہ بادشاہ کے آس پاس بیٹھے تو مکھیوں کا بادشاہ بھی بھن بھن کرتا ہوا ان کے پاس آیا اور ننھی ننھی سی ترئی بجا کر اتنی اونچی آواز میں جو سب کے کانوں تک پہنچ جائے چلا کر کہنے لگا۔ بادشاہ سلامت لائیے میرا انعام! میں نے اپنا کام انجام دے دیا ہے۔
اس کی یہ بات سن کر سب لوگ ہنسنے لگے۔ اے مکھیوں کے ننھے بادشاہ! ذرا ہمیں بھی معلوم ہو تم نے کیا کام سرانجام دیا ہے؟ ہمارے دشمن اگر مرے ہیں تو وبا سے مرے ہیں۔ اس میں تیری کوشش کو کیا دخل ہے؟ تو جھوٹا اور دغا باز ہے۔
مکھیوں کے بادشاہ نے کہا میں ہرگز دغا باز نہیں۔
بادشاہ نے کہا ثابت کرو۔
مکھیوں کے بادشاہ نے کہا۔ میں ثابت کرتا ہوں۔ سنئے۔ جب اس ملک کے دیہات اور شہروں سے نوجوان بادشاہ کی راجدھانی کی طرف روانہ ہوئے تو ہم بھی ان کی پیٹھوں، ان کے اسباب اور ان کے ٹٹوؤں اور بیلوں پر بیٹھ کر ان کے ساتھ وہاں پہنچ گئے۔ انہوں نے وہاں ہر جگہ اپنے خیمے گاڑ دیئے اور بڑی بے احتیاطی سے رہنے سہنے لگے۔ وہ اور ان کے بیل اور گھوڑے جہاں جی چاہتا پاخانہ اور لید کر دیتے۔ اور کوئی شخص زمین صاف نہ کرتا۔ اتفاق سے ان میں ایک شخص ایک ایسی جگہ سے آیا تھا جہاں ہیضہ پھیلا ہوا تھا وہ اپنے ساتھ اس بیماری کے جراثیم بھی لیتا آیا تھا ہم سب یعنی میں اور میرا لشکر پہلے تو گندگی اور کوڑے کرکٹ پر بیٹھتے۔ اس کے بعد ان لوگوں کے کھانوں اور مٹھائیوں اور ان کے ہونٹوں اور آنکھوں پر جا بیٹھتے ہم گندی جگہوں پر بیٹھنے کے بعد نہ تو اپنے پاؤں صاف کرتے اور نہ جوتے اتارتے پہلے تو ہم نے دستوں کی بیماری پھیلائی پھر جب ہم ن ے سنا کہ کوئی شخص اپنے ساتھ ہیضہ کے جراثیم یہاں لایا ہے تو ہم نے ہیضہ بھی پھیلا دیا۔ یہ کہہ کر مکھیوں کے بادشاہ نے پھر اپنی ترئی بجائی اور چلا کر کہا اے عادل اور انصاف پسند بادشاہ! اب میں اپنا انعام مانگتا ہوں۔
یہ سن کر سب لوگ خوف سے تھرا اٹھے اور بادشاہ نے کہا بے شک تم انعام کے حق دار ہو میں اپنے قول کے مطابق تمہیں انعام دوں گا۔ اور تمہیں میری مٹھائیوں پر بیٹھنے اور جہاں جی چاہے اڑنے کی اجازت ہو گی۔
اب وہی بڈھا جس نے بادشاہ کے مکھی کی شرطیں مان لینے کی مخالفت کی تھی اپنی جگہ سے اٹھا بولا۔ بادشاہ سلامت! میری التجا ہے کہ آپ نے مکھیوں کے بادشاہ سے جو اقرار کیا ہے اس سے ایک قدم بھی آگے نہ بڑھئے۔
بادشاہ نے پوچھا بڑے میاں یہ کیوں؟
اس کے جواب میں وہ بڈھا جو بلاشبہ سقراط ہی تھا اور اس دن تم لڑکوں نے ٹھیک بوجھ لیا تھا کہنے لگا۔ جب آپ نے مکھیوں کے بادشاہ کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ تو آپ نے انسان کے سب سے خطرناک دشمن کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ بادشاہ سلامت آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آئے دن جو طرح طرح کی بیماریاں گھیرے رہتی ہیں، ان میں سے زیادہ یہی مکھیاں پھیلاتی ہیں۔
بادشاہ نے پوچھا تو اب کیا کروں؟
سقراط بولا۔ حضور آپ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ مکھیوں کو آپ کی مٹھائیوں پر بیٹھنے کی اجازت ہو گی اور وہ جہاں چاہیں گی اڑ سکیں گی۔
بادشاہ نے کہا ہاں اور اس قول کو نبھانا میرا فرض ہے۔
سقراط بولا۔ تو اپنی قول کو نبھائیے لیکن خبردار رہئے کہ مکھیوں کا بادشاہ کہیں آپ کے دشمن کی سلطنت کی طرح آپ کی سلطنت کو بھی تباہ نہ کر ڈالے مکھیاں گندگی میں پرورش پاتی اور بچے دیتی ہیں اور آپ نے یہ تو وعدہ نہیں کیا کہ آپ ان کے لئے گندگی بھی مہیا کرتے رہیں گے۔
بادشاہ نے کہا نہیں میں نے ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا ورنہ یہ اجازت دی ہے کہ وہ بادشاہ کے سوا کسی اور کے دستر خوان پر بھی بیٹھ سکیں۔
یہ سن کر ایک چھوٹے قد کا شخص جو ڈرپوک تھا۔ بول اٹھا۔ بادشاہ سلامت! خدا کے لئے اس طاقت ور دشمن کو ناراض نہ کیجئے۔ لیکن بادشاہ نے اس کی بات کی کچھ پروا نہ کی اور کہا۔ ہمیں اپنی جانوں کی حفاظت کرنی چاہئے ورنہ مکھیوں نے جس طرح ہمارے ہمسایہ بادشاہ کی فوج میں وبا پھیلا کر اسے تباہ کر ڈالا ہے اسی طرح میں بھی تباہ کر ڈالیں گی۔
مکھیوں کے بادشاہ نے اپنا ننھا سا پاؤں زمین پر مارا اور بڑی بے صبری سے پوچھا۔ اے بادشاہ! مجھے انعام کب ملے گا؟
بادشاہ نے جواب دیا اسی وقت لیکن میں نے تم سے جو وعدہ کیا تھا اس سے ذرا بھی تم قدم نہ بڑھا سکو گے۔
یہ سن کر مکھیوں کا بادشاہ اڑ گیا۔ اور تھوڑی دیر میں اپنا لاؤ لشکر لے آیا۔ تمام مکھیاں بادشاہ کی مٹھائیوں کے دستر خوان پر جا کر بیٹھیں جہاں چاہتی اڑتی پھرتیں نتیجہ یہ ہوا کہ بادشاہ تھوڑی ہی دنوں میں بیمار پڑ کر مر گیا لیکن چونکہ اور کسی نے مکھیوں کو اپنے کھانے پینے کی چیزوں کے قریب نہ پھٹکنے دیا تھا اس لئے اور کسی کو کچھ ضرو نہ پہنچا وہ اپنی کھانے پینے کی چیزیں یا تو باریک کپڑوں کے نیچے ڈھک کر یا الماریوں، برتوں اور بکسوں میں بند کر کے رکھتے اس طرح مکھیوں کا بس نہ چلتا اور وہ وبا نہ پھیلا سکتیں اور چونکہ مکھیاں گندگی میں انڈے دیا کرتی ہیں انہوں نے غلاظت اور کوڑے کرکٹ کے لئے الگ گڑھے کھود لئے وہ ان تمام کوڑا کرکٹ پھینک دیتے اور کس جگہ گندگی وغیرہ کا نام تک نہ رہنے دیتے۔ وہ اپنے گھروں اور دیہات کو ایسا صاف ستھرا رکھتے کہ مکھیوں کو انڈے دینے کے لئے کوئی جگہ ہی نہ ملتی۔ پہلے تو وہ لوگ جہاں جی چاہا پاخانہ کر لیتے تھے لیکن اب انہوں نے اس رسم کو بالکل بند کر دیا اور یہ قانون بنا دیا کہ کوئی شخص بھی سوائے گڑھوں اور گھروں کے پاخانوں کے جو انہوں نے خاص طور پر اس کام کے لئے بنوائے تھے اور کس جگہ رفع حاجت نہ کر پائے اور وہ اپنے اصطبلوں اور مویشی خانوں کو بھی بہت صاف ستھرا رکھتے اور لید اور گوبر وغیرہ گڑھوں میں پھنکوا دیتے وہ ان گڑھوں کو پانی سے تر کرتے رہتے تاکہ وہ گرم رہیں اور ان میں خمیر اٹھتا رہے۔ اور مکھیاں وہاں بھی انڈے نہ دینے پائیں۔ جب گڑھے بھر جاتے اور تمام کوڑا کرکٹ اور گندگی مٹی میں گھل کر نہایت عمدہ کھاد بن جاتی تو وہ اسے اپنے کھیتوں میں استعمال کرتے اب انہیں مکھیوں کا کچھ اندیشہ نہ رہا۔ انہیں نہ صرف بیماریوں اور مکھیوں ہی سے چھٹکارا مل گیا بلکہ ان کی کھتیاں بھی پہلے سے زیادہ ہری بھری ہو گئیں۔ اور ان کی جسمانی صحت بھی پہلے کی نسبت اچھی ہو گئی۔
اس طرح انہوں نے اپنی سلطنت کو نہ صرف اپنے ظالم ہمسایہ بادشاہی ہی سے بچا لیا بلکہ اس سے بھی زیادہ خطرناک دشمن یعنی مکھی کے شر سے بھی محفوظ ہو گئے۔ اس کے ساتھ ہی چھوٹی سلطنت کی رعایا نے بڑی سلطنت کی رعایا سے دوستی بھی پیدا کر لی۔ اور دونوں نے آپس میں عہد کر لیا کہ ہم بجائے ایک دوسرے سے لڑنے کے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر گندگی، مکھی اور وبا کے خلاف جنگ کرتے رہیں گے اور چھوٹی سلطنت کی شہزادی نے بڑی سلطنت کے شہزادے سے شادی کر لی اور وہ اور ان کی رعایا ہمیشہ ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے رہے۔
سقراط نے ننھی لڑکی سے کہا کیوں ننھی اب تو تم خوش ہو؟ اب تو تمہاری شہزادی پھر خوش رہنے سہنے لگی ہے۔
پھر وہ بڑی عمر کے لڑکوں کو مخاطب کر کے بولا۔ لڑکو! اب جب سالانہ جلسہ ہو تو تم اس کہانی کو جو میں نے تمہیں سنائی ہے ناٹک تیار کر کے دکھانا۔ اس میں شیر بھی لانا اور بھیڑئیے وغیرہ بھی۔ اور مکھیوں کے بادشاہ کے لئے کوئی اچھا سا لباس تیار کرنا اور اس کے شانوں پر پَر بھی لگانا جب تمہارے والدین اور دوست اس ناٹک کو دیکھیں گے تو ان کی سمجھ میں آ جائے گا کہ تم نہانے دھونے اور صفائی کا اس قدر خیال کیوں رکھتے ہو اور تمہیں اپنے ا سکول اور احاطے اور دیہات کو صاف ستھرا رکھنے کی اتنی فکر کیوں ہوتی ہے؟
***
(دیہات میں بوائے ا سکاؤٹ کا کام)
از ایف۔ ایل۔ برین۔ ، ایم۔ سی، آئی، سی، ایس
مترجم پطرس
ہمارے زمانے کا اردو ادیب
تحریر: مظفر علی سید
پطرس مرحوم نے یہ مقالہ ۱۹۴۵ء میں پی ای این کے سالانہ اجلاس منعقدہ جے پور میں پڑھا تھا۔ اس میں انہوں نے اردو ادب کے جدید دور یعنی اقبال کے فوراً بعد کے زمانے کو موضوع بنایا تھا۔ اور اپنے مخصوص چبھتے ہوئے انداز میں اس پر رائے زنی کی تھی۔ اس مضمون کی اصل خوبی تو ان کی انگریزی انشاء پردازی ہے جس کا اردو ترجمہ وہ خود ہی کرتے تو کرتے۔ زیر نظر ترجمہ محض اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ لوگ بھی جو انگریزی سے زیادہ واقف نہیں، ان کے اندازِ نظر اور جدید اردو ادب کے بارے میں ان کے نقطۂ خیال سے واقف ہو جائیں۔ چونکہ پطرس مرحوم کا اپنا تعلق اس دور کے ادب سے دو گونہ تھا۔ نئے ادیب کی حیثیت سے اور اس سے بھی زیادہ نئے ادیبوں کے استاد کی حیثیت سے، اس لئے اس مقالے کی ”معروضیت“ اور ”بےلاگ مطالعہ“ شاید عجیب معلوم ہو۔ پطرس نے اپنے نوجوان ساتھیوں کو ایک پہاڑی پہ چڑھ کے دیکھنے کی کوشش کی ہے (یہ الگ بات کہ دو ایک عزیزوں کو بھی اپنے ساتھ لے گئے ہیں) اور اُن پر ہلکی ہلکی کنکریاں بھی پھینکی ہیں۔ ممکن ہے آپ اس مضمون کو محض تبرک سمجھیں مگر واقعہ یہ ہے کہ چند ایک ٹکڑے اس میں ہر لحاظ سے اچھے ہیں۔ گیارہ سال پہلے، جب اقبال اپنے اسلاف سے عالم بالا میں جا کر ملے تو دور و نزدیک کے زمانوں سے کئی ایک دوست ان کے گرد اکھٹے ہوئے۔ غالب اور میر، حالی،شبلی اور گرامی، حتیٰ کہ نظیری، رومی اور حافظ بھی۔ چنانچہ گفتگو روانی سے ہونے لگی۔ کچھ لمحے گومگو کی حالت میں بھی گزرے۔ مثلاً جب خودی کے مسئلے پر ایک عالمانہ بحث رومی اور اقبال کے درمیان شروع ہوئی تو باقی لوگ اونگھنے لگے اور ”تقدیر اُمم“ پر اقبال کی تنہا کلامی کے دوران میں تو غالب کے خراٹے بھی سنائی دیئے۔ مگر مجموعی طور پر یہ صحبت بےحد ساز گار رہی۔ جانے پہچانے اقتباسات، کتابوں سے یا حافظے سے بآواز بلند پڑھے گئے اور شب و روز کی بے زماں لہروں پر حکمت اور ظرافت کا ملاپ ہوتا رہا۔ بہت سے قضیے سامنے آئے اور ان میں سے کئی ایک حل نہ ہو سکے اس کے باوجود فہم و بصیرت کے تازہ اور فرح بخش نقش و نگار دریافت ہوئے۔ اقبال قدماء میں سے نہ تھے پھر بھی قدماء کے لئے اجنبی نہ تھے بس ذرا نئے نئے اور بھرپور سے لگتے تھے۔ آج کا نوجوان اُردو ادیب، اگر اس کو اس سفر پہ وقت سے پہلے روانہ ہونا پڑے، اس محفل میں کیسا لگے گا؟ مجھے یقین ہے کہ اس کا استقبال مروت اور شفقت سے کیا جائے گا مگر یہ خوف بھی ہے کہ وہ ذرا کھویا کھویا سا لگے گا۔ قدماء سے اظہار خیال اس کے لئے آسان نہیں ہو گا۔ نیا مسافر، اپنے اور اپنے پیشروؤں کے درمیان ایک بہت بڑی خلیج حائل پائے گا جسے پاٹنے کے لئے اس کو کتب خانہ فردوس میں طویل نشستوں کا پروگرام بنانا پڑے گا۔ وہ حالات کی مجبوری سے اپنے اجداد کا جائز ورثہ وصول نہ کر سکا۔ الا ماشاء اللہ۔ راشد اور فیض، فراق اور فرحت اللہ بیگ، جوش اور حفیظ، ماضی کے ساتھ ان سب کے مراسم اچھے ہیں اگرچہ انہوں نے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ، اپنے آپ کو حال یا مستقبل کے ساتھ وابستہ کررکھا ہے۔ مگر وہ پیہم کم ہوتی ہوئی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں اور سلف کی ایسی یادگار ہیں جو نجانے پھر کب پیدا ہو۔ ہمارے لکھنے والوں کی اکثریت اپنے آپ روایت سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ مولوی نذیر احمد جو آج سے پچاس برس پہلے کے ناول نگار تھے، انبیاء کے اقوال کو احترام کے ساتھ اور شعراء کے اقوال کو کراہت کے ساتھ نقل کرتے تھے۔ ان کا ویلن انبیاء کو کراہت اور شعراء کو لذت کے ساتھ نقل کرتا تھا۔ مگر بات یہ ہے کہ مصنف اور اس کے کردار دونوں میں حوالہ دینے کی اہلیت تھی۔ دونوں نے ادب کی ایک مشترک دولت ورثے میں پائی تھی جو اس دور کے ذہنوں میں صاف ترتیب کے ساتھ موجود تھی۔ آج کے اردو ناول نگار میں اور اس کے ہیرو میں کوئی بات مشترک ہے تو یہ ہے کہ دونوں کوئی قول نقل نہیں کر سکتے۔ یہ نہیں کہ وہ پڑھتا نہیں۔ وہ بلا نوش قسم کا قاری ہے مگر ولایتی ناشروں کی چھاپی ہوئی ”بہار کی فہرستیں، خزاں کی فہرستیں“ اور ”سمندر پار کے ایڈیشن“ کچھ ایسے تسلسل کے ساتھ چلے آتے ہیں کہ نہ چننے اور چھاپنے کی فرصت رہ جاتی ہے، نہ کسی چیز کو دوبارہ پڑھنے کی۔ ہمارے دور کا نصاب بھی الجھا ہوا ہے اور پیچھے مڑ کر دیکھنے کی تو تحریک ہی پیدا نہیں ہوتی۔ ہمارے زمانے کے اردو ادیب کا مستقبل ہو تو ہو، ماضی کوئی نہیں۔ اس قطع تعلق کی وجوہات گوناگوں اور پیچیدہ ہیں۔ اوپری نظر سے دیکھیں تو یہ خیال ہوتا ہے کہ ہمارے ادیب نے جس نظام تعلیم کے تحت نشوونما پائی ہے۔ یہ سب اسی کا قصور ہے۔ رسمی تعلیم پچھلے پچاس ایک سال میں، شرافت اور (یا تقدس کے اس قدیم تصور سے دور ہٹ گئی ہے جو طالب علم کو اس دنیا اور) یا اس دنیا کے لئے انبیاء و شعراء کی مناسب مقدار کی مدد سے تیار کرتا تھا۔ پرانے مسلمات غائب ہو چکے ہیں اور اس کے ساتھ انبیاء و شعراء بھی۔ یہی ایک کارنامہ ہے جو ہمارے نظام تعلیم نے سرانجام دیا ہے۔ باقی اس عرصے میں، ہماری تعلیم ایک نئے تصور کی تلاش میں جو پرانے تصور کی جگہ لے سکے) تجربوں یا ٹامک ٹوئیوں کا ایک سلسلہ ہے اور یہ ٹامک ٹوئیاں اب بھی جاری ہیں۔
مگر یہ خیال پوری طرح صحیح نہیں۔ بنیادی وجوہ اس سے کہیں زیادہ گہری ہیں۔ دنیا بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے اور لکھنے والا بھی نئی نسل کی طرح اس بڑھتے ہوئے پھیلاؤ کو محسوس کرتا ہے۔ اس نصف صدی میں بہت سے بند اور پشتے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں۔ روایتی اقدار جو معاشرے کو بقا اور استحکام بخشتی تھیں، اسی وقت تک کار آمد تھیں جب تک معاشرے کا ناک نقشہ درست تھا۔ ناک نقشہ پھیل پھیل کر یوں متزلزل ہو گیا ہے جیسے پانی کی سطح پر تیل کے لہریے۔ قدیم معاشرے سے اس کا کوئی ربط نہیں کیونکہ قدیم معاشرہ باقی نہیں رہا۔ وہ اپنے آپ کو ایک نئے اور ہر لحظہ بدلتے ہوئے معاشرے میں گھرا ہوا دیکھتا ہے جس سے مربوط ہونا اس کے لئے لازم ہے۔ اگر وہ بالکل ہی کٹ کے رہ جانا نہیں چاہتا۔ وہ پوری طرح اس کا شعور نہیں رکھتا مگر یہ بات اس کو معلوم ہو چکی ہے کہ پچھلی نسل نے اس کو کچھ نہیں دیا۔ نئی دنیا میں کوئی مناسب مقام اس کو حاصل کرنا ہے۔ ماضی کی کئی چیزیں اس کو ایسا کرنے سے روکتی ہیں اور وہ ماضی مردہ باد کا نعرہ لگاتا ہے۔ اس لئے نئی پود کا سب سے بڑا تقاضا بغاوت ہے۔ رسم ورواج کے خلاف، قوت اور اختیار کے خلاف، والدین اور پولیس کے خلاف، وہ قدیم انبیاء اور شعراء دونوں سے دور بھاگتا ہے بلکہ ہر اس چیز سے جو اسے ماضی کی یاد دلائے۔ یہ جنگ کبھی کبھار دھندلی اور غیر واضح سی ہو جاتی ہے اور پرکار کے نقطے آپس میں گڈمڈ ہو جاتے ہیں مگر خیر ایسا تو ہر جنگ میں ہوتا ہے۔
اردو ادیب کو اپنے ماضی سے قطع تعلق کر کے کم سے کم ایک بڑی قربانی تو دینی پڑی ہے۔ وہ بیک جنبش قلم الفاظ و تلمیحات اور حکایات و علائم کے ذخیرے سے، جو فن کار مصنف کو نازک اور کار آمد ترین آلات اظہار بخشتا ہے، محروم ہو گیا ہے۔ لفظ محض چند آوازوں اور لکیروں کا نام نہیں جو مٹ جانے کے بعد پھر پیدا کی جا سکیں۔ ان میں ہمارے پیشروؤں کی جذباتی وارداتیں اور نفسیاتی مشاہدات مضمر ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک انسانی تجربے کی طیف میں ایک خط کا حکم رکھتا ہے۔ اگر طیف کا ایک خط گم ہو جائے تو ہم اس کی جگہ دوسرا خط نہیں کھینچ سکتے۔ اُسی پہلے خط کو پھر سے دریافت کرنا پڑے گا۔ آج کے لکھنے والے کو اس وجہ سے نئی چیزوں کو نئے نام دینے ہیں۔ اسے ان چیزوں کو جو پہلے معلوم و محسوس تھیں پھر سے جاننا اور پہچاننا ہے۔ ماضی سے دست بردار ہو کر اس نے اپنی تخلیقی شخصیت پہ ایک بوجھ ڈال دیا ہے جس سے اس کی فنی مشکلات دو چند ہو گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس کو بیک وقت نازک اور اکھڑ، واضح اور دھندلا، گومگو میں گرفتار اور ہزاروں معنوں میں مضطرب دیکھتے ہیں۔ لفظ جن سے اس نے پہلو تہی برتی تھی۔ اب اس سے پہلو چراتے ہیں۔ (سر) ڈینی سن روس نے، جو اس بات سے واقف تھے کہ زندہ زبانوں میں تلمیحات اور حوالوں کا ایک ذخیرہ مخفی ہوتا ہے جسے تعلیم یافتہ افراد اپنا کر اپنی تحریر و تقدیر میں رنگ اور زور پیدا کرتے ہیں، چند سال پہلے ایک کتاب کی صورت میں انگریزی زبان کے پس منظر کا نقشہ کھینچا تھا۔ ادبی حوالوں کے زیر عنوان انہوں نے بائبل کے مستند ترجمے کا، شکسپیئر کا اور بچوں کے گیتوں کا تذکرہ کیا تھا اور ”انگریزی روایت“ کے تحت قومی تہوار معروف شخصیتوں کے القاب و خطابات اور مشہور اشتہارات گنائے تھے حتیٰ کہ ایک جُز ”گھسے پٹے جملوں“ پر بھی لکھا تھا۔ آج سے پچاس برس پہلے، اسی انداز سے، اردو کا ناک نقشہ کتنی آسانی سے بیان ہو سکتا تھا! اور آج یہ کام کتنا مشکل ہے!
اردو ادیب کو یہی ایک مشکل درپیش نہیں۔ وہ دو زبانیں پڑھتا اور بولتا ہے اور جب یہ دو زبانیں اردو اور انگریزی کا سا وسیع اختلاف رکھتی ہوں تو یہ خوبی کتنی بڑی خرابی بن جاتی ہے۔ علماء اور ماہرین تعلیم، تاریخ اور تجربے کی مدد سے کئی ایک ناقابل تردید دلائل پیش کر کے ارشاد کریں گے کہ دو زبانوں کی مہارت بہت بڑی نعمت ہے۔ بین الاقوامیت کے قائل یہ کہیں گے کہ ہر بیرونی زبان دو گونہ رحمت ہے، اس ملک کے لئے جس کی وہ زبان ہے۔ اور اس کے لئے بھی جس نے اُسے اختیار کیا۔ ان کا ارشاد بجا ہے کیونکہ ہر نئی زبان ذہن میں ایک نیا دریچہ کھول دیتی ہے اور کون ہے جو روشنی کو پسند نہیں کرتا۔ انسانوں کی اکثریت کے لئے اس کے اثرات خوشگوار ہوں گے مگر افسوس کہ لکھنے والے کو اپنا دماغ ہی روشن نہیں کرنا، کچھ کام بھی کرنا ہے۔ اظہار خیال اس کا فرض ہے اور اس پر طرہ یہ کہ ایک وقت میں ایک ہی زبان کے ذریعے۔ چاہے کتنی زبانوں سے اس نے ذہنی غذا حاصل کی ہو۔ ذہن تو اس کے پاس ایک ہی ہے۔ ایک دریچہ سبز ہے تو دوسرا سرخ مگر ذہن میں یہ دونوں رنگ آرام سے ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو اور ایک دوسرے سے جدا نہیں رہ سکتے۔ وہ آپس میں گھل مل کر ایک تیسرے رنگ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جو ایک دریچے کے پاس ذرا زیادہ سبز ہے اور دوسرے کے پاس ذرا زیادہ سرخ۔ مگر نہ تو کہیں پوری طرح سبز ہے اور نہ پوری طرح سرخ۔ یہ لطیف اور پراسرار روشنی اس کے لئے باعث نشاط بھی ہو سکتی ہے اور باعث فخر بھی۔ مگر اس ملی جلی روشنی کو سبز یا سرخ فلٹر میں سے اپنے اصلی رنگ میں گزارنا کتنا مشکل ہو گا۔ ایک لحاظ سے یہ کہنا درست ہے کہ دو زبانی ادیب اپنے دل کی بات آپ سے نہیں کہہ سکتا۔ جب تک کہ دونوں زبانیں استعمال نہ کرے۔ مگر اس صورت میں بھی ایک دقّت ہے۔ اس کا ذہن کسی واضح شکل میں ہمارے سامنے نہیں آتا بلکہ ذہن کی دو لہریں یکے بعد دیگرے پیہم ابھرتی ڈوبتی دکھائی دیتی ہے۔ اگر اس کو ایک زبان کا پابند کر دیا جائے اور پوری بات کہنے کی مجبوری بھی ہو تو نیم واضح اور بے ربط و مہمل قسم کی گفتگو سننے میں آئے گی۔ اس کی تحریر کی بُنت میں آپ کو عجیب قسم کے خم و پیچ نظر آئیں گے۔ اور ابہام و اشکال کی کئی صورتیں ملیں گی اور سب سے بڑھ کر، انگریزی ساخت کے جملے بے ڈھنگی اردو میں ملبوس دکھائی دیں گے جن کو دونوں زبانوں کے ماہرین ہی سمجھ سکیں گے۔ زبان ایک نازک اور لطیف آلۂ اظہار ہے جسے فن کار بڑی مہارت سے برتتا ہے مگر یہ دوغلی زبان معنی کے گرد طواف کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی اور گونگے کے اشاروں سے زیادہ قابل فہم نہیں ہوتی۔ لفظ اپنے معنوں کو ساتھ لے کے نہیں چلتے بلکہ محض دور سے ان کی طرف اشارہ کر کے رہ جاتے ہیں جب احساسِ شکست قوی ہو جاتا ہے تو اردو کا ادیب اردو کو چھوڑ کر انگریزی میں لکھنے لگ جاتا ہے مگر فلٹر سبز ہو یا سرخ، مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے۔
ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ ہمارا ادیب اپنے آپ کو ایک نئے معاشرے میں گھرا ہوا دیکھتا ہے۔ یہ معاشرہ اس کے فہم وبصیرت کی حدوں سے بڑھ کر وسیع اور پیچیدہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایسا معاشرہ اس کے اسلاف کے تجربے اور مشاہدے سے ماورا ہے۔ اور اسی وسیع و عریض حقیقت سے اس کو موافقت پیدا کرنا ہے تاکہ تکمیل اور استحکام حاصل ہو۔ جب تک یہ موافقت پوری نہیں ہوتی۔ وہ بڑے پُر جوش اضطراب کے ساتھ کسی نہ کسی طرز کی محفل بنا کے بیٹھ جائے۔ اسی اضطراب کی وجہ سے اس زمانے کے اکثر ادیب ایک نہ ایک انجمن یا حلقے سے وابستہ ہو گئے ہیں اور ایک دوسرے کے تصانیف پر دیباچے اور پیش لفظ لکھتے رہتے ہیں۔ آج سے پہلے شاید ہی کبھی ہمارے ادیبوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنے، محفلیں، انجمنیں اور حلقے بنانے کی ضرورت محسوس کی ہو۔ یہ ادارے کتنی ہی سنجیدگی اور خلوص سے کیوں نہ وجود میں آئے ہوں، معاشرہ سازی کی جعلی اور مجنونانہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اور ادیب کو ان آوارگیوں اور سیاحتوں کی قیمت اپنے تخلیقی جوہر سے ادا کرنی پڑتی ہے۔ ان غیر واضح قسم کی حرکتوں سے اس کا مدعا یہ ہے کہ زندگی کے ”کل“ کو پالے اور چونکہ برونِ خانہ سے اس کا ربط قائم نہیں ہوا ، اس کو درون خانہ میں تلاش و تجسس سے کام لینا پڑتا ہے۔ مگر اس تلاش کے دوران میں زندگی کا کاروبار ملتوی ہوتا رہتا ہے اور جب تک کوئی زرخیز زمین ملے۔ زندگی کا رس خشک ہو جاتا ہے۔
پی۔ ای۔ این کی سترھویں سالانہ مجلس میں تقریر کرتے ہوئے آرتھرکیسٹلر نے بتایا تھا کہ تورگنیف کیسے لکھتا تھا۔ اپنے پیروں کو گرم پانی کی بالٹی میں ڈالے ہوئے وہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھتا رہتا تھا۔ یہ گرم پانی کی بالٹی، کیسٹلر کے نزدیک الہام یا تخلیقی سر چشمے سے عبارت تھی اور کھلی کھڑکی سے مراد باہر کی دنیا تھی۔ جو فن کار کے لئے خام مواد کا کام دیتی ہے۔ کیسٹلر نے یہ بھی کہا تھا کہ باہر کی دنیا ادیب کے دل میں ایک زبردست خواہش کو جنم دیتی ہے۔ یعنی یہ کہ وہ کھڑکی بند کر کے بیٹھ جائے اور اپنے تخلیقی سر چشمے پر اکتفا کر لے مگر اس کے علاوہ بھی ایک خواہش پیدا ہو سکتی ہے۔ باہر کی ہوا، دباؤ ڈالنے کی بجائے اس کو باہر بھی کھینچ سکتی ہے تاکہ وہ گرم پانی سے اپنے پیر نکال کر کھڑکی پر جھک جائے۔
ہمارے اردو ادیب کو بازار کے واقعات سمجھنے یعنی مشاہدہ اور مرکزیت پیدا کرنے کی ضرورت کچھ اس شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ اس کو اکثر و بیشتر کھڑکی پر جھکا دیکھ کر ہمیں حیرانی نہیں ہونی چاہیئے۔ باہر منظر اس کے لئے اتنا دلفریب ہوتا ہے کہ وہ چیخنے چلانے سے بھی باز نہیں رہ سکتا۔ وہ لکھنے کی میز پر واپس نہیں آتا اور اور گرم پانی پڑا پڑا ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ اس کے سامنے ایک نئی دنیا اُبھر آئی ہے۔ دیکھنے اور سمجھنے کے لئے بےشمار چیزیں ہیں اور چھانٹنے کے لئے بے پناہ مسالہ ہے۔ اس حالت میں اس سے عظیم فن پاروں کی توقع بےجا ہے اور یہ امید بھی عبث ہے کہ وہ اپنے پیر گرم پانی میں ڈالے رکھے گا اور گلیوں بازاروں کے ہجوم میں شامل نہیں ہو گا۔ آنے والے فنکار ساتھیوں کو اس کے یہاں مقصد کی سنجیدگی ملے گی۔ اور آگے بڑھ کر دیکھنے اور مستقبل کو تلاش کرنے کی ہمت، چاہے اسلاف کی دعائیں اس کے ساتھ ہوں یا نہ ہوں۔ اس کی تیز نظری، اضطراب، آگاہی اور بے جگری، نئی راہوں پر چلنے کا عزم اور کچھ کھونے پانے سے اس کی بے نیازی یادگار رہے گی۔ ہم اس سے بڑا خراج تحسین اس کو نہیں دے سکتے کہ اس کی مشکلات اور مجبوریوں، تکلیفوں اور تعزیروں کو سمجھیں تاکہ اس کی جدوجہد اور اس کے کارنامے کی بیش از پیش قدر کر سکیں۔
***
تشکر:
http://patrasbukhari.com
پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل : اعجاز عبید
اردو لائبریری ڈاٹ آرگ، کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ 250 فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش