گدھے کے سینگ
اشرف تھانوی
یہ اس زمانے کی کہانی ہے جب یہ دنیا نئی نئی بنی تھی۔ زمین پر آدمیوں نے پھیل کر بستیاں بسا لی تھیں۔ حیوان جنگلوں میں پھرا کرتے تھے۔ آدمیوں نے گائے بھینسوں کو پال کر ان کا دودھ نکالنا شروع کر دیا تھا۔ ان کے بچھڑوں کو بیل بنا کر کھیتی باڑی کا کام لینے لگے تھے، لیکن گدھے کو کسی نے نہ پکڑا تھا۔ وہ دوسرے جانوروں کے ساتھ جنگل میں پھرا کرتا تھا۔ اس وقت گدھا ایسا نہیں تھا جیسا اب ہے۔ اس وقت اس کے سر پر دو بڑے بڑے سینگ تھے، مگر گدھے کو اپنے سینگوں کی خبر نہیں تھی۔ جنگل میں آئینہ تو تھا نہیں جو کوئی اپنا عکس اس میں دیکھ لیتا اور پھر جنگل میں آئینہ کہاں سے آتا، آدمیوں نے ابھی آئینہ نہیں بنایا تھا۔ بہت سی چیزیں ضرورت پڑنے پر آدمی بناتے جا رہے تھے۔ سنا ہے آئینہ سکندر بادشاہ کے عہد میں اس کے حکم سے تیار ہوا تھا۔ خیر، تو گدھا جنگل کے ہرنوں، بارہ سنگھوں کو دیکھ کر سوچا کرتا تھا کہ میں ان سے ڈیل ڈول میں بہت بڑا ہوں، اگر ان کی طرح میرے بھی سینگ ہوتے تو میں سب سے زیادہ رعب دار ہوتا۔ اسی دھن میں ایک دن وہ ندی پر گیا۔ اس روز ندی کا بہاؤ رُکا ہوا تھا اور پانی ٹھہرا ہوا تھا۔
گدھے نے جیسے ہی پیاس مٹانے کے لیے پانی میں منہ ڈالا اسے اپنا عکس پانی میں نظر آیا۔ حیران ہو کر دیکھنے لگا کہ اس کے سر پر تو دو لمبے لمبے سینگ ہیں۔ وہ اپنی اگلی ٹانگیں تو سر پر نہیں پھیر سکتا تھا۔ یہ اندازہ کرنے کے لیے کہ سچ مچ اس کے سینگ ہیں، جلدی جلدی پانی پی کر وہاں سے چل دیا۔ ایک کیلے کا درخت سامنے تھا۔ اس میں سینگ مار کر دیکھا۔ سینگ کی نوک تنے میں گھس گئی۔ اب تو گدھا بہت ہی خوش ہوا اور سینگوں کو ہلاتا ہوا آگے چلا۔ ایک خرگوش اچھلتا کودتا جا رہا تھا۔ گدھے نے اسے ڈانٹ کر روکا۔ خرگوش سہم کر کھڑا ہو گیا۔ گدھے نے کہا:
ایک سینگ اوڑوں موڑوں
ایک سینگ سے پتھر توڑوں
آ، رے خرگوش کے بچے
پہلے تیرا ہی پیٹ پھوڑوں
خرگوش ڈر گیا اور منہ بسورتے ہوئے بولا: "میں نے کیا قصور کیا ہے؟”
گدھے نے اکڑ کر کہا:
"تُو بہت گستاخ ہے۔ میرے سامنے سے چھلانگیں لگاتا ہوا چلا جاتا ہے۔ ٹھہر کر ادب سے مجھے سلام نہیں کرتا۔”
خرگوش نے معافی مانگی اور پچھلی دونوں ٹانگوں پر کھڑے ہو کر اور اگلی ٹانگ ایک ماتھے پر رکھ کر سلام کیا۔ گدھا یہ کہہ کر کہ اب کبھی سلام کیے بغیر میرے سامنے سے نہ جانا، آگے چل دیا۔تھوڑی دور پر ایک گیدڑ ملا۔ گدھے نے اسے بھی روک کر کہا:
ایک سینگ اوڑوں موڑوں
ایک سینگ سے پتھر توڑوں
آ، رے گیدڑ کے بچے
پہلے تیرا ہی پیٹ پھوڑوں
گیدڑ تو بزدل ہوتا ہی ہے۔ اتنے بڑے گدھے کو یہ دھمکی دیتے دیکھ کر کانپنے لگا اور جھجھکتے جھجھکتے بولا:
"گدھے صاحب ! اگر مجھ سے کوئی خطا ہوئی ہے تو آپ بڑے ہیں، مجھے چھوٹا سمجھ کر معاف کر دیں۔”
گدھے نے اس سے بھی یہی کہا: "تم بے ادب ہو، مجھے سلام نہیں کیا کرتے۔” گیدڑ نے بھی گردن جھکا کر بڑی عاجزی سے سلام کیا۔ یہاں سے بھی گدھا آگے چلا تو لومڑی ملی۔
لومڑی بڑی مکار اور ہوشیار ہوتی ہے۔ وہ گدھے کو اکڑتے اتراتے دیکھ کر سمجھ گئی کہ یہ بے وقوف جانور آج کس وجہ سے اینٹھ رہا ہے۔ جیسے ہی گدھا قریب آیا، بولی: "گدھے صاحب! آداب عرض کرتی ہوں۔ اس وقت کہاں تشریف لے جا رہے ہیں؟”
گدھے نے کہا: "آج جنگل کے گستاخ جانوروں کو ادب اور تمیز سکھانے نکلا ہوں، جو حیوان مجھے سلام نہیں کرتا، اس سے کہتا ہوں:
ایک سینگ اوڑوں موڑوں
ایک سینگ سے پتھر توڑوں
آ، رے لومڑی کے بچے
پہلے تیرا ہی پیٹ پھوڑوں
لومڑی بڑی تجربے کار تھی۔ اسے معلوم تھا کہ انسان، حیوان سے بڑا عقلمند ہوتا ہے۔ اس نے اونٹ اور گھوڑے جیسے بڑے جانوروں کو غلام بنا لیا ہے۔ اس نے سوچا کہ اس احمق گدھے کو بھی انسان تک پہنچانا چاہیے۔ اس لیے کہنے لگی:
"ایک آدمی کو میں نے جنگل کے کنارے دیکھا تھا۔ چار پاؤں سے چلنے والے جانور تو بے چارے سیدھے سادے ہیں، آپ تو اس جانور کو ٹھیک کیجیے جو دو پاؤں سے سر اٹھا کر چلتا ہے۔ آپ کے مقابلے میں ہے تو دُبلا پتلا، مگر بہت گستاخ اور بڑا سر کش ہے۔”
گدھے نے پوچھا: "کیا اس کے سینگ میرے سینگوں سے بھی بڑے ہیں؟”
لومڑی نے جواب دیا: "بڑے چھوٹے کیسے، اس کے تو سرے سے سینگ ہی نہیں۔ خوامخواہ کا غرور ہے اور ہم سب جنگلی جانوروں سے اپنے آپ کو برتر سمجھتا ہے۔”
گدھے نے پھر سوال کیا: "کیا اس کا منہ میرے منہ سے بڑا ہے؟ اور اس کے لمبے لمبے نوکیلے دانت ہیں؟”
لومڑی نے کہا: "نہیں، کلھیا کی طرح ذرا سا منہ ہے اور گھاس کھانے والے ہرن چکاروں جیسے چھوٹے چھوٹے دانت ہیں۔ اگلے پاؤں جن سے وہ چلتا نہیں، انھیں ہاتھ کہتا ہے، وہ پچھلی ٹانگوں سے بھی پتلے اور چھوٹے ہیں۔ کان اتنے ذرا ذرا سے ہیں کہ آپ کے ایک کان سے آدمیوں کے بہت سے کان بن سکتے ہیں۔ بس شیخی ہی شیخی ہے۔”
گدھے نے کہا: "مجھے بتاؤ وہ کدھر ہے؟ میں ابھی جا کر اس کی ساری شیخی کرکری کر دوں؟”
لومڑی نے جس جگہ آدمی کو دیکھا تھا۔ اشارہ کر کے بتا دیا اور گدھا فوں فاں کرتا ہوا اس طرف چل دیا۔
جو آدمی وہاں پھر رہا تھا اس نے اعلیٰ درجے کا تیزاب بنایا تھا۔ اسے بوتل میں لیے اس کی آزمائش جنگلی جانوروں کی ہڈیوں پر ڈال ڈال کر کر رہا تھا کہ یہ گلتی ہیں کہ نہیں۔ ایک ہڈی کو گلتے دیکھ کر وہ اپنی کامیابی پر خوش ہو رہا تھا کہ گدھا وہاں پہنچا۔ آدمی کے ڈیل ڈول کو دیکھ کر دل میں ہنسا کہ اگر اس کو گرا کر میں اس پر گر پڑوں تو یہ میرے بوجھ سے ہی کچل کر رہ جائے گا۔ بڑی آن سے سر اٹھا کر بولا:
ایک سینگ سے اوڑوں موڑوں
ایک سینگ سے پتھر توڑوں
آ، رے آدمی کے بچے
پہلے تیرا ہی پیٹ پھوڑوں
اس آدمی نے جو یہ سنا تو بڑے اطمینان سے گدھے کو دیکھا اور بولا: "میں تو آپ کی دعوت کرنے آیا ہوں اور آپ میرا پیٹ پھوڑنا چاہتے ہیں۔ یہ کیسی اُلٹی بات ہے؟”
گدھے نے کہا: "میری دعوت کس چیز کی؟ میرے کھانے کے لیے جنگل میں گھاس بہت ہے۔”
آدمی نے جواب دیا: "گھاس کیا چیز ہے! میں آپ کو ایسی عمدہ چیز کھلاؤں گا، جو آپ نے کبھی نہ کھائی ہو، میرا ایک زعفران کا کھیت ہے جو لہلہا رہا ہے اور بہت خوشبودار ہے۔ آپ اسے چریں گے تو پھر آپ کی سانس سے ایسی خوشبو نکلے گی کہ سارا جنگل مہک اٹھے گا اور سب چرند پرند حیران ہو ہو کر آپ سے پوچھیں گے کہ یہ مہک آپ میں کیونکر پیدا ہو گئی؟ اس کے کھانے سے آپ اتنے خوش ہوں گے کہ ہر وقت ہنستے رہا کریں گے۔”
گدھا آخر گدھا تھا آدمی کی باتوں میں آ گیا اور کہنے لگا: "لومڑی بڑی جھوٹی ہے۔ وہ تو کہتی تھی کہ آدمی بہت برا ہوتا ہے۔ تم تو بہت اچھے ہو۔ جلدی سے مجھے زعفران کے کھیت پر لے چلو۔”
آدمی نے گدھے کو ساتھ لے کر اپنی بستی کا رُخ کیا جو وہاں سے بہت دُور تھی۔
تھوڑی دُور چل کر آدمی نے گدھے سے کہا: "آپ کے چار پاؤں ہیں اور میں دو پاؤں سے چلتا ہوں، آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اگر آپ بُرا نہ مانیں تو میں آپ کی پیٹھ پر بیٹھ جاؤں اور راستہ بتاتا ہوا چلوں۔”
گدھے نے زعفران کے لالچ میں اس کی بات مان لی اور آدمی گدھے پر سوار ہو گیا۔ ابھی دونوں کچھ ہی دور ہی گئے تھے کہ آدمی بولا: "گدھے میاں! آپ پھدکتے ہوئے بہت تیز تیز چلتے ہیں، میں کہیں گر نہ پڑوں۔ اگر اجازت ہو تو میں آپ کے سینگ ہاتھوں سے پکڑ لوں؟”
گدھے نے اجازت دے دی۔ آدمی نے سینگ اوپر سے پکڑ کر سینگوں کی جڑوں پر تیزاب کے قطرے ٹپکا دیے۔ ذرا دیر میں دونوں سینگ ٹوٹ کر گرنے لگے۔ آدمی نے ان کو ہاتھ میں لے کر پیچھے کی طرف زور سے پھینک دیا۔ گدھے کا منہ آگے کی طرف تھا، وہ کیا دیکھتا، اسے خبر بھی نہ ہوئی اور دونوں سینگ غائب ہو گئے۔
چلتے چلتے بہت دیر ہو چکی تھی۔ گدھے کو تکان ہونے لگی تو بولا: "اے آدمی! اتنی دور تو آ گئے، زعفران کا کھیت کہاں ہے؟”
آدمی بستی تک اس پر سوار ہو کر جانا چاہتا تھا، بولا: "تھوڑی دور اور چلو۔”
گدھے کو شبہ گزرا کہ یہ آدمی دھوکا دے کر میری پیٹھ پر تو سوار نہیں ہوا، کہنے لگا: "میری پیٹھ سے اترو اور مجھے بتاؤ! وہ زعفران کا کھیت کہاں ہے؟”
آدمی گدھے پر سے اترا اور درخت کی ایک ڈال توڑ کر اس کی قمچی بنانے لگا۔ گدھے کو آدمی کے ٹھہرنے پر غصہ آ گیا۔ بھوک بھی لگی ہوئی تھی، جھنجلا کر بولا: "اے آدمی! تو زعفران نہیں کھلائے گا؟”
آدمی نے کہا: "کہیں گدھے بھی زعفران کھاتے ہیں؟”
اس پر گدھا آدمی کو مارنے پر آمادہ ہو گیا اور اپنی بات دہرائی:
ایک سینگ اوڑوں موڑوں
ایک سینگ سے پتھر توڑوں
آ، رے آدمی کے بچے
پہلے تیرا ہی پیٹ پھوڑوں
یہ سُن کر آدمی ہنسا اور بولا: "گدھے تیرے سینگ کہاں ہیں؟ وہ تو غائب ہو گئے۔ اب تُو کیا میرا پیٹ پھوڑے گا۔ جدھر کو میں کہوں سیدھا سیدھا چل، نہیں تو مارے قمچیوں کے تیری کھال اُدھیڑ دوں گا۔”
گدھے نے اپنا سر ایک پیڑ سے ٹکرا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ سر پر سینگ موجود ہی نہیں۔ آدمی نے قمچیوں کی مار سے اسے اپنے گھر کے راستے پر لگا لیا اور دروازے کے آگے کھونٹا گاڑ کر ایک رسی سے باندھ دیا۔
اب گدھا بے چارہ آدمی کا بوجھ ڈھوتا ہے، سواری دیتا ہے، گاڑی کھینچتا ہے اور اپنی اس حماقت پر پچھتاتا ہے کہ سینگ پا کر میں اتنا مغرور کیوں ہو گیا تھا۔ سخت شرمندگی اسے آدمیوں کی بات سُن کر ہوتی ہے، جب کوئی آدمی بغیر کہے سُنے چلا جاتا ہے تو دوبارہ ملنے پر لوگ اس سے کہتے ہیں:
"تم ایسے غائب ہوئے، جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔”
٭٭٭
ٹائپنگ: سیدہ شگفتہ
پروف ریڈنگ: ذوالقرنین، اعجاز عبید
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید