FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

استفتاءات

جلد اول، حصہ چہارم*

آیت اللہ علی خامنہ ای

*اصل کتاب کی جلد اول کے چار حصص کر دئے گئے ہیں

                   مصالحت ، اور خمس میں غیر خمس کی ملاوٹ

س۹۴۵۔ یہاں کچھ ایسے لوگ ہیں جن پر خمس واجب تھا مگر انہوں نے ابھی تک ادا نہیں کیا ہے ، اور فی الوقت یا تو وہ خمس دینے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں یا ان کے لئے خمس کا ادا کرنا دشوار ہے تو ان کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

ج۔ جن پر خمس دینا واجب ہے تنہا ادائیگی دشوار ہونے کہ وجہ سے خمس ان سے ساقط نہیں ہوسکتا ہے بلکہ جس وقت بھی اس کا ادا کرنا ان کے لئے ممکن ہو اس وقت دینا واجب ہو گا۔ وہ لوگ خمس کے ولی امر یا اس کے وکیل سے اپنی استطاعت کے مطابق خمس ادا کرنے کے لئے وقت اور مقدار کے بارے میں صلاح و مشورہ کریں۔

س۹۴۶۔ میں نے قرض پر ایک مکان اور دوکان ، جس میں کاروبار کرتا ہوں ،حاصل کی ہے اور یہ قرض قسط وار ادا کر رہا ہوں اور شریعت پر عمل کرتے ہوئے اپنے خمس کا سال بھی معین کر لی ہے۔ آپ سے التجا ہے کہ مجھ پر اس گھر کا خمس معاف فرما دیں جس میں میرے بچے زندگی گذار رہے ہیں۔ رہا دوکان کا خمس تو اس کو قسطوں کی شکل میں ادا کرنا میرے امکان میں ہے۔

ج۔ بنا بر فرض سوال جس مکان میں آپ رہتے ہیں اس پر خمس نکالنا واجب نہیں ہے۔ رہی دوکان تو اس کا خمس دینا آپ پر واجب ہے چاہے اس کے لئے میری طرف سے جن وکلاء کو اس کام کی اجازت ہے ان میں سے کسی سے بھی صلاح و مشورہ کرنے کے بعد رفتہ رفتہ ادا کریں۔

س۹۴۷۔ ایک شخص ملک سے باہر رہتا تھا اور خمس نہیں نکالتا تھا اس نے ایک گھر غیرمخمس مال سے خریدا لیکن اس وقت اس کے پاس اتنا مال نہیں ہے جس سے وہ اپنے اوپر واجب خمس کو ادا کرے البتہ اس پر جو خمس قرض ہے اس کے عوض میں ہر سال خمس کی محسوبہ رقم سے کچھ زیادہ نکالتا رہتا ہے تو اس کا یہ عمل قبول ہو گا یا نہیں ؟

ج۔ فرض سوال کے مطابق اس کو واجب خمس کی ادائیگی کے سلسلہ میں مصالحت کرنا ضروری ہے پھر وہ رفتہ رفتہ اس کو ادا کرسکتا ہے اور اب تک جتنا اس نے ادا کیا ہے وہ قبول ہے۔

س۹۴۸۔ ایک شخص جس پر چند سال کی منفعت کا خمس ادا کرنا واجب ہے لیکن اب تک اس نے خمس کے عنوان سے کچھ بھی ادا نہیں کیا ہے اور اس پر کتنا خمس نکالنا واجب ہے یہ بھی اس کو یاد نہیں ہے تو وہ کیوں کر خمس سے سبکدوش ہوسکتا ہے ؟

ج۔ ضروری ہے کہ وہ اپنے ان تمام اموال کا حساب کرے جن میں خمس واجب ہے اور ان کا خمس ادا کرے اور مشکوک معاملات میں حاکم شرع یا اس کے وکیل مجاز سے مصالحت کر لینا ہی کافی ہے۔

س۹۴۹۔ میں ایک نوجوان ہوں اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتا ہوں اور میرے والد نہ خمس نکالتے ہیں اور نہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ، یہاں تک انہوں نے سود کے پیسے سے ایک مکان بھی بنا رکھا ہے۔ چنانچہ اس مکان میں ، میں جو کچھ کہاتا پیتا ہوں اس کا حرام ہونا واضح ہے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ میں اپنے گھر والوں سے الگ رہنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ امیدوار ہوں کہ میری ذمہ داری بیان فرمائیں گے۔

ج۔ بالفرض آپ کو یہ یقین ہو کہ آپ کے باپ کے مال میں سود ملا ہوا مال ہے ، یا آپ کو علم ہو کہ آپ یقین کر لیں کہ جو کچھ آپ باپ کے مال میں سے خرچ کر چکے ہیں یا خرچ کریں گے وہ آپ کے لئے حرام ہے اور جس وقت تک حرمت کا یقین نہ ہو آپ کا اس مال سے استفادہ کرنا حرام نہیں ہو گا۔ ہاں جب حرمت کا یقین حاصل ہو جائے تو آپ کے لئے اس میں تصرف جائز نہیں ہو گا، اسی طرح جب آپ کا گھر والوں سے جدا ہونا اور ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ترک کرنا موجب حرج ہو تو اس صورت میں آپ کے لئے ان کے اموال سے استفادہ کرنا جائز ہو جائے گا البتہ آپ ان اموال میں سے جس قدر خمس و زکوٰۃ اور دوسرے مال سے استفادہ کریں گے ان کے ضامن رہیں گے۔

س۹۵۰۔ میں جانتا ہوں کہ میرے والد خمس و زکوٰۃ نہیں ادا کرتے ہیں اور جب میں نے اس کی طرف ان کو متوجہ کیا تو انہوں نے یہی جواب دیا کہ ہم خود ہی محتاج ہیں لہذا ، ہم پر خمس و زکوٰۃ واجب نہیں ہے تو اس سلسلہ میں آپ کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ جب آپ کے پاس وہ مال نہیں کہ جس پر زکوٰۃ واجب ہے اور اتنا مال بھی نہیں کہ جس میں خمس واجب ہو تو ان پر نہ خمس ہے نہ زکوٰۃ اور اس مسئلہ میں آپ پر تحقیق کرنا بھی ضروری نہیں ہے۔

س۹۵۱۔ ہم ایسے لوگوں کے ساتھ کام کرتے ہیں جو خمس ادا نہیں کرتے، اور نہ ان کے پاس اپنا سالانہ حساب ہے تو ہم ان کے ساتھ جو خرید و فروخت اور کاروبار کرتے ہیں اور ان کے ساتھ کہاتے پیتے ہیں اس سلسلہ میں کیا حکم ہے ؟

ج۔ جو اموال آپ ان لوگوں سے خرید و فروخت کے ذریعہ لیتے ہیں یا ان کے ہاں جا کر ان میں تصرف کرتے ہیں ، اگر ان میں خمس کے موجود ہونے کا یقین ہو تو ان میں آپ کے لئے تصرف جائز نہیں۔ اور جو اموال ان سے آپ خرید و فروخت کے ذریعے لیتے ہیں تو جتنی مقدار میں ان میں خمس واجب ہے اتنا معاملہ فضولی ہو گا جس کے لئے ولی امر خمس یا ا س کے وکیل سے اجازت لینا ضروری ہے۔البتہ اگر ان کے ساتھ معاشرت کھانے پینے اور ان کے اموال میں تصرف سے پرہیز آپ کے لئے دشوار ہو تو اس صورت میں آپ کے لئے ان چیزوں میں تصرف جائز تو ہے لیکن جتنا مال آپ نے ان کا صرف کیا ہے اس کے خمس کے آپ ضامن ہوں گے۔

س۹۵۲۔ کیا جو مال کاروبار کی منفعت سے گھر خریدنے یا بنوانے کے لئے جمع کیا گیا ہے اس میں خمس دینا ہو گا؟

ج۔ اگر گھر خریدنے یا بنوانے سے پہلے جمع کئے ہوئے مال پر خمس کا سال پورا ہو جائے تو مکلف کو خمس دینا ہو گا۔

س۹۵۳۔ جب کوئی شخص کسی مسجد کے لئے ایسا مال دے جس کا خمس نہیں نکالا گیا ہے تو کیا اس کا لینا جائز ہے ؟

ج۔ اگر اس امر کا یقین ہو کہ اس شخص نے جو مال مسجد کو دیا ہے اس کا خمس نہیں نکالا گیا ہے تو اس مال کا اس شخص سے لینا جائز نہیں ہے۔ اور ا گر اس سے لیا جا چکا ہے تو اس کی جس مقدار میں خمس دینا واجب ہے اتنی مقدار کے لئے حاکم شرع یا اس کے وکیل کی طرف رجوع کرنا واجب ہے۔

س۹۵۴۔ ایسے لوگوں کے ساتھ معاشرت کا کیا حکم ہے کہ جو مسلمان تو ہیں مگر دینی امور کے پابند نہیں ہیں خاص طور سے نماز اور خمس کے پابند نہیں ہیں ؟ اور کیا ان کے گھروں میں کھانا کھانے میں اشکال ہے ؟ اگر اشکال ہے تو جو چند مرتبہ ایسے فعل انجام دے چکا ہو اس کے لئے کیا حکم ہے ؟

ج۔ ان کے ساتھ رفت و آمد رکھنا اگر ان کے دینی امور میں لاپرواہی برتنے میں معاون و مددگار نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ہاں اگر آپ کا ان کے ساتھ میل جول نہ رکھنا ان کو دین کا پابند بنانے میں موثر ہو تو ایسی صورت میں وقتی طور پر ان کے ساتھ میل جول نہ رکھنا ہی کچھ مدت کے لئے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے عنوان سے واجب ہے۔ البتہ ان کے اموال سے استفادہ مثلاً کھانا پینا وغیرہ تو جس وقت تک یہ یقین نہ ہو کہ اس مال میں خمس باقی ہے ، اس وقت تک استفادہ کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے ورنہ یقین کے بعد حاکم شرع یا اس کے وکیل کی اجازت کے بغیر استفادہ کرنا جائز نہیں۔

س۹۵۵۔ میری سہیلی اکثر مجھے کھانے کی دعوت دیا کرتی ہے لیکن ایک مدت کے بعد مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ اس کا شوہر خمس نہیں نکالتا۔ تو کیا میرے لئے ایسے شخص کے یہاں کھانا پینا جائز ہے ؟

ج۔ ان کے یہاں اس وقت تک کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ یہ معلوم نہ ہو جائے کہ جو کھانا وہ پیش کر رہے ہیں وہ غیر مخمس مال سے تیار کیا گیا ہے۔

س۹۵۶۔ ایک شخص پہلی مرتبہ اپنے اموال کا حساب کرنا چاہتا ہے تاکہ ان کا خمس ادا کرسکے تو اس کے اس گھر کے لئے کیا حکم ہے جسے اس نے خریدا تو ہے لیکن اس کو یہ یاد نہیں ہے کہ کس مال سے خریدا ہے ؟ اور اگر یہ جانتا ہو کہ یہ ( مکان) اس مال سے خریدا گیا ہے جو چند سال تک ذخیرہ تھا تو اس صورت میں اس کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ جب وہ خریدنے کی کیفیت سے بے خبر ہو تو بنا بر احوط اس پر واجب ہے کہ اس کے خمس میں سے کچھ دے کر حاکم شرع سے مصالحت کر لے اور اگر اس نے غیر مخمس مال سے گھر خریدا ہے تو اس پر فی الحال مکان کی قیمت کے حساب سے خمس ادا کرنا واجب ہے مگر یہ کہ اس نے ما فی الذمہ قرض سے گھر خریدا ہو اور اس کے بعد غیر مخمس مال سے اپنا قرض ادا کیا ہو تو اس صورت میں صرف اتنے ہی مال کا خمس ادا کرنا واجب ہو گا جس سے اس نے قرض چکا یا ہے۔

س۹۵۷۔ ایک عالم دین کسی شہر میں وہاں کے لوگوں سے خمس کے عنوان سے ایک رقم لیتا ہے لیکن اس کے لئے عین مال کو آپ کی جانب یا آپ کی جانب یا آپ کے دفتر کی جانب ارسال کرنا دشوار ہے تو کیا وہ یہ رقم بینک کے حوالے سے ارسال کرسکتا ہے ، یہ جانتے ہوئے کہ بھی کہ بینک سے جو مال وصول کیا جائے گا بعینہ وہی مال نہ ہو گا جو اس نے اپنے شہر میں بینک کے حوالے کیا ہے ؟

ج۔ خمس یا دیگر رقوم شرعیہ بینک کے ذریعہ بھیجنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

س۹۵۸۔ اگر میں نے غیر مخمس مال سے زمین خریدی ہو تو اس میں نماز صحیح ہے یا نہیں ؟

ج۔ اگر عین غیر مخمس اموال سے زمین کی خریداری عمل میں آئی ہے ، تو جتنی مقدار خمس کی بنتی ہے اتنا معاملہ فضولی ہے جس میں ولی امر کی اجازت ضروری ہے لہذا جب تک اس کی اجازت نہ ہو اس زمین میں نماز صحیح نہ ہو گی۔

س۹۵۹۔ جب خریدنے والا یہ جان لے کہ خریدے ہوئے مال میں خمس کی ادائیگی باقی ہے اور فروخت کرنے والے نے خمس نہیں دیا ہے تو کیا اس میں خریدنے والے کے لئے تصرف جائز ہو گا؟

ج۔ اس فرض کے ساتھ کہ بیچے ہوئے مال میں خمس ہے ، خمس کی مقدار کے برابر معاملہ فضولی ہو گا جس کے لئے حاکم شرع سے اجازت لینی ضروری ہے۔

س۹۶۰۔ وہ دوکاندار جو یہ نہ جانتا ہو کہ خریدار نے اپنے مال کا خمس ادا کیا ہے یا نہیں اور وہ اس کے ساتھ معاملہ کر رہا ہے تو آیا اس کے لئے اس مال کا خمس ادا کرنا واجب ہو گا یا نہیں ؟

ج۔ جب تک یہ علم نہ ہو کہ خریدار سے ملنے والی رقم میں خمس ہے خود دوکاندار پر کچھ نہیں ہے۔ اور نہ تو اس کے لئے چھان بین و تحقیق کرنا ضروری ہے۔

س۹۶۱۔ اگر چار آدمی مل کر ایک لاکھ روپے شراکت کے عنوان سے جمع کریں تاکہ اس سے کام کر کے فائدہ اٹھائیں لیکن ان میں سے ایک شخص خمس کا پابند نہ ہو تو کیا اس کی شراکت میں کام کرنا صحیح ہو گا یا نہیں ؟اور آیا ان کے لئے ممکن ہے کہ اس شخص سے جو پابند خمس نہیں ہے مال لے کر اس سے فائدہ اٹھائیں ( اس طرح کہ مال قرض الحسنہ کے عنوان سے لیں ) اور عام طور پر چند افراد شریک ہوں تو کیا ہر ایک پر اپنے حصہ کی منفعت سے علیحدہ طور پر خمس دینا واجب ہو گا یا اس کو مشترک کہاتے سے ادا کرنا ضروری ہے ؟

ج۔ ایسے شخص کے ساتھ شریک ہونا کہ جس کے اصل مال میں خمس ہے اور اس نے ادا نہیں کیا ہے اس کا حکم یہ ہے کہ خمس کی مقدار کے برابر مال میں معاملہ فضولی ہو گا جس کے لئے حتمی طور پر حاکم شرع کی طرف رجوع کرنا ہو گا اور اگر بعض شرکاء کے لگائے ہوئے مال میں خمس باقی ہو تو شراکت کے اصل مال میں تصرف نا جائز ہو گا۔ اور جس وقت شراکت کے مال کے منافع کو افراد وصول کر رہے ہیں تو ہر شخص مکلف ہے کہ وہ اپنے حصہ میں خرچ سے بچے ہوئے مال کا خمس ادا کرے۔

س۹۶۲۔ جب میرے کاروبار شریک اپنے حساب کا سال نہ رکھتے ہوئے ہوں تو میری کیا ذمہ داری ہے ؟

ج۔ جو لوگ شریک ہیں ان میں سے ہر ایک پر واجب ہے کہ وہ اپنے حصہ کے حقوق شرعی کو ادا کرے تاکہ مشترک اموال میں ان کے تصرفات جائز ہوسکیں۔ اور اگر تمام شرکاء ایسے ہوں جو اپنے ذمہ کے حقوق شرعی نہ ادا کرتے ہوں اور کمپنی ( شرکت) کا توڑ دینا یا شرکاء سے جدا ہونا آپ کے لئے موجب حرج ہو تو آپ کے لئے کمپنی میں کام کو جاری رکھنے کی اجازت ہے۔

                   اصل سرمایہ

س۹۶۳۔ ۱۳۶۵ء ھ۔ش ۱۹۸۶ ء میں تعلیم و تربیت کے مقصد سے کسی کمپنی میں کام کرنے والوں نے ایک کوآپریٹیو سوسائٹی قائم کی اور ابتداء میں سرمایہ کی رقم حصص کے طور پر تعلیم و تربیت کے چند ملازمین نے فراہم کی۔ ( اس وقت) ان میں سے ہر ایک نے سو سو تومان دئیے تھے۔ ابتداء میں کمپنی کی اصل پونجی بہت کم تھی، لیکن اس وقت ممبروں کی کثرت کی وجہ سے گاڑی وغیرہ کے علاوہ کمپنی کا اصل سرمایہ ۱۸ ملین تومان ہے ، اور اس سرمایہ سے جو فائدہ حاصل ہوتا ہے وہ ممبروں کے درمیان ان کے حصے کے مطابق تقسیم ہوتا ہے اور ان میں کا ہر شخص جب بھی چاہے اپنا حساب ختم کرسکتا ہے ؟

ابھی تک نہ تو اصل سرمایہ سے خمس دیا گیا ہے اور نہ فائدے سے تو کیا کمپنی کا انچارج ہونے کی حیثیت سے کمپنی کی جن چیزوں میں خمس ہے اس کا ادا کرنا میرے لئے جائز ہے ؟ اور کیا حصہ داروں کی رضامندی شرط ہے یا نہیں ؟

ج۔ اصل مال اور اس سے حاصل ہونے والے فائدے کا خمس دینا ہر ممبر پر اپنے حصے کے لحاظ سے واجب ہے اور کمپنی کے انچارج کا خمس نکالنا کمپنی کے حصہ داروں کی اجازت و وکالت پر موقوف ہے۔

س۹۶۴۔ چند افراد بوقت ضرورت ایک دوسرے کی مدد کے لئے قرض الحسنہ کا بینک قائم کرنا چاہتے ہیں اس طرح کہ ہر ممبر پر ( پہلی مرتبہ دی جانے والی رقم کے علاوہ) اصل سرمایہ میں اضافے کے لئے ہر مہینہ کچھ رقم کا دینا ضروری ہے ، لہذا وضاحت فرمائیے کہ ہر ممبر نے ہمیشہ کے لئے قرض کے طور پر خود لیا ہو تو اس صورت میں خمس کی کیا شکل ہو گی؟

ج۔ اگر ممبر نے اپنے حصے کی رقم کاروبار کے منافع سے خمس سال کے ختم ہونے کے بعد دی ہے تو ا س پر پہلے خمس کا ادا کرنا واجب ہے لیکن اگر اپنے حصے کی رقم اثناء سال میں دی ہے تو خمس کی ادائیگی سال کے آخر میں واجب ہے اگر اس رقم کا وصول کرنا ممکن ہو ورنہ جب تک اس رقم کا وصول کرنا ممکن نہ ہو اس وقت تک اس پر خمس نکالنا واجب نہیں ہے۔

س۹۶۵۔ کیا صندوق قرض الحسنہ ( امدادی بہم ی بینک) مستقل حیثیت رکھتا ہے ؟ اور اگر ایسا ہے تو اس سے حاصل ہونے والے فائدے پر خمس ہے یا نہیں ؟ اور اگر مستقل حیثیت نہیں رکھتا تو اس کے خمس نکالنے کا کیا طریقہ ہے ؟

ج۔ اگر قرض الحسنہ کے اصل سرمایہ میں چند افراد شریک ہوں تو اس سے حاصل ہونے والا فائدہ ہر شخص کے حصے کے لحاظ سے اس کی ملکیت ہو گا اور اسی میں اس پر خمس واجب ہو گا۔لیکن اگر قرض الحسنہ کا سرمایہ کسی ایک یا چند اشخاص کی ملکیت نہ ہو جیسے کہ وہ وقف عام کے مال سے ہو تو اس سے حاصل ہونے والے فائدے میں خمس نہیں ہے۔

س۹۶۶۔ بارہ مومنین نے یہ طے کی ہے کہ ان میں ہر ایک ہر ماہ خاص فنڈ میں بیس دینار جمع کرے گا اور ہر مہینے ان میں سے ایک نفر ، اس رقم کو لے کر اپنے خاص ضروریات کے لئے صرف کرے گا اور جب آخری شخص کا نمبر آئے گا تو وہ بارہ مہینے کے بعد رقم لے گا جس میں اس مدت میں اس کی دی ہوئی رقم مثلاً ۲۴۰ دینار بھی ہوں گے تو کیا اس شخص کی اپنی رقم پر بھی خمس واجب ہو گا یا اس رقم کا شمار اس کے اخراجات میں کیا جائے گا؟ اور اگر خمس کے حساب کے لئے اس کی تاریخ معین ہو ، اور اس نے جو رقم لی ہے اس میں سے معین تاریخ کے بعد کچھ رقم باقی ہے ، تو کیا اس شخص کے لئے جائز ہے کہ اس رقم کے لئے دوسری مستقل تاریخ رکھے تاکہ وہ اس تاریخ پر اس کے خمس سے بری الذمہ ہو جائے؟

ج۔ فنڈ میں جمع شدہ رقم اگر اس کے سال کے منافع میں سے ہے اور اب جو رقم اس سال کے خرچ کے لئے لی ہے اگر وہ اسی سال کے منافع سے ہے جس کو اس نے جمع کیا ہے تو اس پر خمس نہیں ہے لیکن اگر اس نے گذشتہ سال کے منافع میں سے جمع کیا ہے تو جو رقم اخراجات کے لئے لی ہے اس کا خمس نکالنا واجب ہے اور اگر وہ منافع دونوں سال کا ہو تو ہر سال کے منافع کا اپنا حکم ہو گا۔ لیکن اس نے جو رقم لی ہے اگر وہ اس سال کے اخراجات سے زائد ہو تو اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ خمس سے بچنے کے لئے اضافی مقدار کی خاطر مستقل تاریخ خمس مقرر کرے بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پورے سال کی آمدنی کے خمس کے لئے ایک تاریخ معین کرے اور اخراجات سے جو بچ جائے اس تاریخ میں اس کا خمس نکال دے۔

س۹۶۷۔ میں نے رہن پر کرایہ کا مکان لیا ہے اور بطور رہن ( مالک مکان کو) ایک رقم دی ہے ، کیا مجھ پر ایک سال کے بعد بطور رہن دی جانے والی رقم کا خمس واجب ہو گا؟

ج۔ اگر وہ ( رقم) منفعت میں سے ہو تو مالک مکان کے لوٹانے کے بعد اس رقم پر خمس ہو گا۔

س۹۶۸۔ آبادکاری کے لئے ایک خطیر رقم کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کو یکمشت دینا ہمارے لئے مشکل ہے۔ لہذا اس کام کو انجام دینے کے لئے ہم لوگوں نے ایک فنڈ قائم کیا ہے اور اس میں ہر مہینے کچھ رقم جمع کرتے ہیں اور رقم جمع ہونے کے بعد اسے آبادکاری میں صرف کرتے ہیں ، کیا جمع شدہ رقم میں خمس ہے ؟

ج۔ ہر شخص کی جانب سے دی جانے والی رقم اگر آبادکاری میں خرچ کی جانے تک اس کی ملکیت میں رہے اور خمس کا سال پورا ہونے تک اسے فنڈ کے کہاتے سے واپس لینا ناممکن ہو تو اس پر خمس واجب ہے۔

س۹۶۹۔ چند سال پہلے میں نے اپنے مال کا حساب کیا اور خمس کی تاریخ مقرر کر دی ، میرے پاس نقد رقم اور موٹر سائیکل کے علاوہ خمس نکالی ہوئی ۹۸ بھیڑ بکریاں تھیں لیکن چند سال سے میری بھیڑ بکریاں بیچنے کی وجہ سے کم ہو گئی ہیں لیکن نقدی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس وقت میرے پاس ۶۰ بھیڑ بکریاں ہیں اور اس کے علاوہ نقد رقم ہے ، پس کیا اس مال کا خمس نکالنا مجھ پر واجب ہے یا صرف اضافی مال کا خمس نکالنا ہو گا؟

ج۔ اگر موجودہ بھیڑ بکریوں کی مجموعی قیمت اور نقدی مال کی مقدار اور ۹۸ بھیڑ بکریوں کی کل قیمت اور خمس دئے ہوئے مال کے مجموعہ سے زیادہ ہو تو اب زائد پر خمس ہے۔

س۹۷۰۔ ایک شخص کے پاس ایک ملکیت ( گھر یا زمین) ہے جس پر خمس ہے ، تو کیا وہ اس کا خمس اپنے سال کی منفعت سے ادا کرسکتا ہے یا واجب ہے کہ پہلے وہ منفعت کا خمس نکال ڈالے پھر اس خمس نکالی ہوئی رقم سے اس ملکیت کا خمس ادا کرے؟

ج۔ اگر سال کی منفعت کا خمس نکالنا چاہتا ہے تو واجب ہے کہ اس کا بھی خمس نکالے۔

س۹۷۱۔ ہم نے شہیدوں کے بچوں کے لئے کچھ شہیدوں کا کارخانوں ، زرعی زمینوں اور بنیاد شہداء سے ملنے والے وظیفہ سے کچھ مال جمع کیا ہے جس سے بعض اوقات ان کی ضرورتوں کو پورا کیا جاتا ہے۔ براہ کرم یہ فرمائیے کہ کیا ان منافع اور ماہانہ جمع شدہ رقم پر خمس واجب ہے یا ان لوگوں کے بڑے ہونے تک انتظار کیا جائے گا؟

ج۔ شہداء کی اولاد کو ان کے باپ کی طرف سے جو چیزیں میراث میں ملی ہیں یا جو بنیاد شہید کی طرف سے نہیں دیا گیا ہے ان میں خمس واجب نہیں ہے ، لیکن ارث میں یا بنیاد شہید کی طرف سے ہدیہ ملنے والے مال سے حاصل ہونے والے منافع کا اگر وہ ان کے بالغ ہونے تک ان کی ملکیت میں رہیں تو خمس نکالنا احتیاط واجب ہے۔

س۹۷۲۔ کیا نفع کمانے اور تجارت میں جو مال انسان لگاتا ہے اس میں خمس ہے ؟

ج۔ اگر اصل سرمایہ کاروبار سے حاصل ہوا ہو تو اس میں خمس ہے ، لیکن نفع کمانے میں جو مال اصل سرمایہ سے خرچ ہوتا ہے جیسے ذخیرہ کرانے، مزدوری ، وزن کرانے اور دلالی وغیرہ تو ان سب کو تجارت کے منافع سے منہا کر لیا جائے گا اور ان میں خمس نہیں ہے۔

س۹۷۳۔ اصل مال اور اس کے منافع میں خمس ہے یا نہیں ؟

ج۔ اگر اصل مال کو انسان نے کسب ( تنخواہ وغیرہ سے) حاصل کیا ہو تو اس میں خمس ہے صرف جو مال منافع تجارت سے حاصل ہو تو اس میں سال کے خرچ سے زائد پر خمس واجب ہے۔

س۹۷۴۔ اگر کسی کے پاس سونے کے سکے ہوں اور وہ نصاب تک پہنچ جائیں تو کیا اس پر زکوٰۃ کے علاوہ خمس بھی ہو گا؟

ج۔ اگر اسے کاروباری منافع میں شمار کیا جاتا ہو تو وجوب خمس کے سلسلے میں اس کا وہی حکم جو دوسرے منافع کا ہے۔

س۹۷۵۔ میری زوجہ اور میں وزارت تعلیم میں کام کرتے ہیں اور وہ اپنی تنخواہ ہمیشہ مجھے ہبہ کر دیتی ہے اور میں نے وزارت تعلیم میں کام کرنے والوں کی زرعی سوسائٹی میں ایک رقم لگا دی ہے اور میں خود بھی اس کا ممبر ہوں لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ وہ رقم میری تنخواہ سے تھی یا میری اہلیہ کی تنخواہ سے تھی یہ جانتے ہوئے کہ میری اہلیہ کی جمع شدہ تنخواہ کی رقم اس مقدار سے کم ہے جتنا وہ ہر سال مجھ سے لیتی ہے ، تو کیا اس مبلغ میں خمس ہے یا نہیں ؟

ج۔ جمع شدہ مال جو آپ کی تنخواہ کہے اس میں خمس ہے اور جو آپ کی اہلیہ نے آپ کو ہبہ کیا ہے اس میں خمس واجب نہیں ہے ، اسی طرح جس مال میں شک ہو کہ وہ آپ کا ہے یا آپ کی اہلیہ نے ہبہ کیا ہے اس کا خمس نکالنا بھی واجب نہیں ہے لیکن احوط یہی ہے کہ اس کا خمس نکالا جائے یا تھوڑا مال دے کر خمس کے بارے میں ( حاکم شرع سے) مصالحت کی جائے۔

س۹۷۶۔جو رقم بینک میں دوسال کے لئے بطور قرض الحسنہ موجود تھی کیا اس میں خمس ہے ؟

ج۔ سال کے منافع میں سے جو مقدار جمع ہو اس میں ایک مرتبہ خمس ہے اور بینک میں قرض الحسنہ کے طور پر جمع کرنے سے خمس ساقط نہیں ہوتا۔ البتہ جب تک قرض لینے والے سے وہ رقم نہ مل جائے اس پر خمس واجب نہیں ہے۔

س۹۷۷۔ ایک شخص اپنے یا اپنے ( زیر کفالت) عیال کے خرچ میں سے کٹوتی کرتا ہے تاکہ کچھ مال جمع کرسکے یا کچھ رقم قرض لیتا ہے تاکہ اپنی زندگی کی پریشانیوں کو دور کرسکے، پس اگر خمس کی تاریخ تک جمع شدہ مال یا قرض لی ہوئی رقم باقی رہ جائے تو کیا اس پر خمس ہو گا؟

ج۔ جمع شدہ منفعت اگر خمس کی تاریخ تک رہ جائے تو اس میں ہر حال میں خمس واجب ہو گا، قرض لینے والے پر قرض کا خمس واجب نہیں ہے لیکن قرض کو سال کے منافع میں سے قسط وار ادا کرے اور قرض کا عین مال خمس کی تاریخ کے وقت اس کے پاس موجود ہو تو اس کا خمس دینا واجب ہے۔

س۹۷۸۔ دو سال پہلے مکان بنانے کے لئے میں نے تھوڑی سی زمین خریدی تھی، اگر میں مکان کی تعمیر کے لئے ( روزانہ کے خرچ سے بچا کر) کچھ مال جمع کروں ، تو کیا سال کے آخر میں اس ( جمع شدھ) رقم میں خمس ہے ؟ جبکہ میں کرایہ کے مکان میں رہتا ہوں ؟

ج۔ اگر اس رقم کو سال کے منافع میں سے جمع کیا ہو یہاں تک کہ خمس کی تاریخ آ گئی ہو تو اس میں خمس واجب ہے ، لیکن سال کے داخل ہونے سے پہلے اگر اس رقم کو مکان کے لوازمات میں تبدیل کر دیا جائے تو اس پر خمس نہیں ہے۔

س۹۷۹۔ میں شادی کرنا چاہتا ہوں اور مالی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے میں نے اپنی رقم ایک شخص کے پاس بطور بیع شرط رکھا ہے ، اور اس وقت مالی ضرورت کے پیش نظر جب کہ میں کالج کا ایک طالب علم ہوں ، کیامسئلہ خمس میں مصالحت کا امکان ہے ؟

ج۔ اگر مذکورہ مال آپ کے منافع کسب میں سے تھا تو سال خمس کے پورا ہونے پر اس کا خمس نکالنا واجب ہے۔ اور خمس نکالنا یقینی ہو تو اس میں مصالحت نہیں ہوسکتی۔

س۹۸۰۔ گذشتہ سال حج کمیٹی نے حاجیوں کے قافلوں کے تمام سامان اور اسباب ان سے خرید لئے اور میں نے اس سال گرمی میں اپنے سامان کی قیمت ۳ لاکھ ۲۱ ہزار تومان وصول کی۔ اس کے علاوہ میں نے گذشتہ سال اسی ہزار تومان لئے تھے۔ اس بات کے پیش نظر کہ میں نے خمس کی تاریخ معین کر دی ہے اور خرچ سے بچے ہوئے مال پر ہر سال خمس دیتا ہوں ، نیز یہ کہ مذکورہ چیزیں میری ضرورت کی تھیں ، کیا اس وقت اس رقم میں خمس نکالنا واجب ہے ؟ جبکہ اس وقت ان کی قیمتوں میں بہت زیادہ اختلاف ہو چکا ہے ؟

ج۔ مذکورہ سامان اگر مخمس مال سے خریدا گیا تھا تو بیچنے کے بعد ان کی قیمتوں میں خمس نہیں ہے ، ورنہ اس کا خمس نکالنا واجب ہے۔

س۹۸۱۔ میں ایک دوکاندار ہوں اور ہر سال نقد مال اور سامان کا حساب کرتا ہوں۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو سال کے آخر تک فروخت نہیں ہو پاتیں تو کیا سا ل کے آخر میں ان کو بیچنے سے پہلے ان کا خمس نکالنا واجب ہے یا یہ کہ اس کو بیچنے کے بعد اس کا خمس نکالنا واجب ہے ؟ اور اگر ان چیزوں کا خمس دے دیا ہو اور پھر نہیں فروخت کیا ہو تو اگلے سال ان کا کس طرح حساب کروں گا؟ اور اگر نہیں نہ بیچا ہو اور ان کی قیمت میں فرق آ گیا ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ جن چیزوں کو نہیں بیچا ہے اور نہ اس سال نہیں کوئی خریدنے والا ہے تو ان کی بڑھی ہوئی قیمتوں پر خمس نکالنا واجب نہیں ہے بلکہ آئندہ بیچ کر حاصل ہونے والا منافع اس سال کا شمار ہو گا جس سال اسے فروخت کیا ہے ،اور اگر جن چیزوں کی قیمتیں بڑھیں تھیں اور ان کا مشتری بھی اس وقت موجود تھا لیکن زیادہ ( منافع) کی خاطر آپ نے اسے سال کے آخر تک نہیں بیچا تو سال کے داخل ہوتے ہی ان کی بڑھی ہوئی قیمت کا خمس نکالنا واجب ہے۔

س۹۸۲۔ ایک مکان تین منزلوں پر مشتمل ہے اور مکان کی سند ( قانونی کاغذات) کی رو سے وہ ۱۹۷۳ سے چار افراد کی درج ذیل تفصیل سے ملکیت میں ہے :

پورے گھر کے پانچ حصوں میں سے تین حصے تین اولاد کی ملکیت میں ہیں اور دو حصے ان کے والدین کے ہیں ، اور ایک طبقہ پر اولاد میں سے کوئی ایک رہتا ہے اور دوسری دو منزلوں پر ان کے مالکوں کی مالی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے دو کرایہ دار رہتے ہیں ، اور یہ جانتے ہوئے کہ ان دو مالکوں میں سے ایک کے پاس اس گھر کے علاوہ دوسرا گھر نہیں ، کیا ان دونوں منزلوں پر خمس واجب ہے ؟ اور کیا یہ ان دونوں منزلوں کی آمدنی سال کے خرچ میں شمار ہو گی؟

ج۔ معیشت چلانے کے لئے مذکورہ گھر کا جو حصہ کرایہ پر دیا گیا ہے اس کا حکم اصل مال کا حکم ہے ، پس اگر وہ کاروباری فائدے میں شمار ہوتا ہو تو اس میں خمس ہے اور اگر وہ ارث میں ملا ہو یا ہبہ کے طور پر ملا ہو تو اس میں خمس نہیں ہے۔

س۹۸۳۔ ایک شخص کے پاس ایسا گیہوں تھا جس کا خمس دے چکا ہے اور جب وہ ( دوسری فصل کے لئے) گیہوں بو رہا تھا تو اسی مخمس گیہوں کو صرف کرتا رہا ، پھر وہ اس ( خمس دئیے ہوئے گیہوں ) کی جگہ نئے گیہوں کو رکھتا رہا اس طرح کئی سال گذر گئے تو کیا اس نئے گیہوں پر خمس ہو گا جنہیں استعمال کے لئے گیہوں کی جگہ رکھتا تھا ؟ اور ایسا ہونے کی صورت میں کیا سب پر خمس ہو گا؟

ج۔ جب اس نے خمس دئیے ہوئے گیہوں کو صرف کیا تو اس کے لئے درست نہیں تھا کہ نئے گیہوں کو الگ کرے تاکہ اس طرح وہ مقدار خمس کے حکم سے مستثنیٰ ہو۔ پس جدا کئے ہوئے نئے گیہوں کو اگر سال کے اخراجات میں صرف کیا ہے تو اس میں خمس نہیں ہے اور اس میں سے جو سال تک بچ جائے اس میں خمس واجب ہے۔

س۹۸۴۔ بحمد اللہ میں ہر سال اپنے مال کا خمس نکالتا ہوں لیکن خمس کا حساب کرتے وقت ہمیشہ مجھ کو شک ہوتا ہے پس اس شک کا کیا حکم ہے ؟ اور کیا واجب ہے کہ اس سال سارے نقد مال میں حساب کروں اس سلسلے میں شک کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا؟

ج۔ اگر آپ کا شک گذشتہ برسوں کی منفعت کے حساب کے صحیح ہونے کے بارے میں ہے تو ا س کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا اور دوسری مرتبہ اس کا خمس نکالنا واجب نہیں ہے لیکن اگر آپ کو آمدنی کے بچے ہوئے مال میں اس بارے میں شک ہو کہ یہ اس سال کا ہے جس میں خمس دیا جا چکا ہے یا اس سال کا کہ جس کا خمس نہیں دیا ہے ، تو اس صورت میں آپ پر اس کا خمس نکالنا واجب ہے مگر اس بات کا یقین ہو جائے کہ اس کا خمس پہلے نکالا جا چکا تھا۔

س۹۸۵۔ میں نے بالفرض مخمس مال سے دس ہزار تومان میں ایک قالین خریدا اور کچھ دنوں کے بعد اسے ۱۵ ہزار تومان میں بیچ دیا تو کیا ۵ ہزار تومان کہ جو مخمس مال سے زیادہ ہیں ، کاروبار کے منافع میں شمار ہوں گے اور ان پر خمس ہو گا؟

ج۔ اگر اسے بیچنے کے ارادے سے خریدا تھا تو خرید سے زیادہ وصول ہونے والی رقم منفعت میں شمار ہو گی اور اگر سال کے آخر میں اس میں کچھ بچ جائے تو اس پر خمس واجب ہو گا۔

س۹۸۶۔ جو شخص اپنے منافع میں سے ہر منفعت کے لئے خمس کی ( جدا) تاریخ معین رکھتا ہے کیا اس کے لئے جائز ہے کہ اس منفعت کا خمس جس کی تاریخ آ گئی ہے ، ان منافع سے دے جن کی تاریخیں نہیں آئی ہیں ؟ اور جن منافع کے بارے میں جانتا ہو کہ یہ منافع آخر سال تک باقی رہیں گے اور زندگی کے اخراجات میں صرف نہیں ہوں گے تو اس صورت میں کیا حکم ہے ؟

ج۔ اگر یہ جائز بھی ہو کہ ہر آمدنی کے لئے خمس کی مستقل تاریخ رکھی جائے تو بھی یہ جائز نہیں کہ ایک کاروبار کے منافع کا خمس دیا جا چکا ہو اور جو منافع سال کے آخر تک خرچ نہ ہوں ان میں اختیار ہے کہ ان کے حصول کے بعد ہی خمس دی دے یا سال کے ختم ہونے کا انتظار کرے۔

س۹۸۷۔ ایک شخص کے پاس دو منزلہ مکان ہے جس کی اوپری منزل میں وہ خود رہتا ہے اور نچلی منزل کو ایک شخص کو دے دیا ہے اور چونکہ وہ مقروض تھا اوراس نے اس شخص سے کرایہ لینے کے بجائے قرض لے لیا ہے ، تو کیا اس رقم میں خمس ہو گا؟

ج۔ قرض لے کر مفت میں مکان دینے کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے ، بہر حال جس مال کو بطور قرض لیا ہے اس میں خمس نہیں ہے۔

س۹۸۸۔ میں نے ادارہ اوقاف سے ایک مکان مطب ( کلینک) کے لئے ماہانہ کرایہ پر لیا ہے۔ میری درخواست قبول کرنے کے عوض انہوں نے مجھ سے پگڑی بھی لی ہے پس کیا اس پگڑی پر خمس ہے ؟ واضح رہے کہ اس وقت مذکورہ رقم میری ملکیت سے خارج ہو چکی ہے اور وہ مجھے کبھی نہیں ملے گی؟

ج۔ اگر یہ رقم پگڑی کے طور پر دی گئی ہے اور سال بھر کے بچے ہوئے مال سے اس کا تعلق تھا تو اس کا خمس دینا واجب ہے۔

س۹۸۹۔ ایک شخص نے بنجر زمین کو آباد کرنے اور اس میں پھل دار درخت لگانے کے لئے تاکہ ان کے پھلوں سے مستفید ہوسکے، ایک کنواں کھودا اور اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ یہ درخت سالہا بعد پھل دیتے ہیں اور ان پر کافی سرمایہ خرچ ہوتا ہے ، اس شخص نے اب تک ایک ملین تومان سے زیادہ ان پر خرچ کیا ہے لیکن اب تک اس نے خمس کا حساب نہیں کیا، اب جب اس نے خمس ادا کرنے کے لئے اپنے اموال کا حساب کیا تو معلوم ہوا کہ کنویں ، زمین اور باغ کی قیمت شہروں کی آبادی بڑھ جانے کی وجہ سے لگائی گئی رقم کا کئی گنا ہو گئی ہے۔ پس اگر اسے موجودہ قیمت کا خمس ادا کرنے کی تکلیف دی جائے تو اس میں اس کی استطاعت نہیں ہے ، اور اگر اسے خود زمین اور باغ کا خمس دینے کی تکلیف دی جائے تو اس سے وہ مشکلوں میں مبتلا ہو گا کیونکہ اس سلسلہ میں اس نے اس امید پر خود مشقت اٹھائی کہ وہ اپنے معاش اور اپنے عیال کے اخراجات کو باغ کے پھلوں سے پورا کرے گا پس اس کے اموال سے خمس نکالنے کے بارے میں اس کیا کیا فریضہ ہے ؟ اور اس پر جو خمس ہے اس کا وہ کس طرح حساب کرے کہ اس کے لئے اس کا ادا کرنا آسان ہو جائے گا؟

ج۔ جس بنجر اور غیر آباد زمین کو اس نے باغ بنانے اور اس میں پھل دار درخت لگانے کے لئے آباد کیا ہے اور اس کا اس کی آبادکاری پر ہونے والے اخراجات کو الگ کر کے خمس دینا ہو گا اوراس سلسلہ میں اسے اختیار ہے کہ وہ خود زمین کا خمس دے یا اس کی موجودگی قیمت کے لحاظ سے خمس نکالے لیکن کنویں ، پائپ ، واٹر پمپ ، نلکے اور درختوں وغیرہ پر جو پیسہ خرچ ہوا ہے اسے اگر اس نے قرض لیا ہو یا ادھار حاصل کیا ہو اور پھر اس ادھار کو غیر مخمس مال سے ادا کی ہو تو اسے صرف اس رقم کا خمس دینا پڑے گا جو اس نے قرض میں ادا کیا ہے لیکن اگر اس نے اسے غیر مخمس مال سے حاصل کیا ہے تو ماہانہ موجودہ قیمت کے لحاظ سے اس کا خمس دینا ہو گا پس اگر اس خمس کو جو کہ اس پر واجب ہے ایک مرتبہ ادا نہیں کرسکتا ہے تو ہمارے کسی وکیل سے مصالحت کر کے خمس کی رقم کو جتنی مقدار و مدت معین کی جائے اس میں رفتہ رفتہ ادا کرے۔

س۹۹۰۔ خمس ادا کرنے کے لئے ایک شخص کے پاس سال بھر کا حساب نہیں ہے اور اب وہ خمس نکالنا چاہتا ہے اور شادی سے آج تک وہ مقروض چلا آ رہا ہے پس اپنے خمس کا وہ کیسے حساب کرے؟

ج۔ اگر ماضی سے آج تک اس کے پاس اس کے اخراجات کے بعد کچھ بچت نہیں ہے تو خمس نہیں ہے۔

س۹۹۱۔ موقوفہ اشیاء اور زمین کے منافع اور محصول پر خمس و زکوٰۃ کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ موقوفہ چیزوں پر مطلقاً خمس نہیں ہے خواہ وہ وقف خاص ہی کیوں نہ ہو اور نہ ان کے فوائد خمس ہے اور نہ ہی وقف عام میں موقوف علیہ کے قبضہ کرنے سے اس قبل اس کے محصول میں زکوٰۃ ہے۔ لیکن قابض ہونے کے بعد وقف کے محصول پر زکوٰۃ واجب ہے ، بشرطیکہ اس میں زکوٰۃ کے شرائط پائے جاتے ہوں ، لیکن وقف خاص کے محصول میں جس شخص کے حصہ کا محصول حد نصاب تک پہنچ جائے تو اس پر اس کی زکوٰۃ دینا واجب ہے۔

س۹۹۲۔ کیا چھوٹے بچوں کی کمائی میں بھی سہم سادات کثرہم اللہ تعالیٰ ، اور سہم امام (ع) ہے ؟

ج۔ احتیاط واجب ہے کہ وہ بالغ ہونے کے بعد اپنی اس کمائی کے منافع کا خمس ادا کریں جو بلوغ سے قبل کی تھی بشرطیکہ بالغ ہونے تک وہ ان کی ملکیت میں رہے۔

س۹۹۳۔ کیا ان آلات پر بھی خمس ہے جو کاروبار میں استعمال ہوتے ہیں ؟

ج۔ کاروبار کے وسائل اور آلات کا حکم وہی ہے جو وجوب خمس میں راس المال کا حکم ہے۔

س۹۹۴۔ چند سال قبل ہم نے حج بیت اللہ جانے کی غرض سے بینک میں کچھ پیسے جمع کئے مگر ابھی تک ہم حج کے لئے نہیں جا سکے اور یہ یاد نہیں کہ ماضی میں ہم نے اس پیسہ کا خمس نکالا تھا یا نہیں۔ کیا اب اس پر خمس دینا واجب ہے ؟ اور حج پر جانے کی نام نویسی کے لئے ہم نے جو پیسہ جمع کیا تھا اس کو کئی سال ہو گئے ہیں کیا اس پر بھی خمس واجب ہے یا نہیں ؟

ج۔ حج کے لئے اسم نویسی کے سلسلہ میں جو پیسہ آپ نے جمع کیا تھا اگر وہ آپ کی سال بھرکی کمائی میں سے تھا یا جمع کرتے وقت وہ اس قول و قرار کے تحت کہ وہ آنے جانے کے اخراجات اور وہاں کی خدمات کی قیمت یا اجرت کے لئے ہے ، جو آپ کے اور ادارہ حج و زیارت کے درمیان ہوا تھا تو اس کا خمس دینا آپ پر واجب نہیں ہے۔

س۹۹۵۔ جن ملازمت پیشہ لوگوں کے خمس کے سال کا پہلا دن بارہویں مہینے کا آخری دن ہو اور وہ سال کا پہلا مہینہ شروع ہونے سے پانچ روز قبل ہی اپنی تنخواہ لے لیں تاکہ اسے آنے والے سال کے آغاز میں خرچ کریں تو کیا اس کا خمس دینا واجب ہے ؟

ج۔ جو تنخواہ انہوں نے سال ختم ہونے سے قبل ہی لے لی ہے ، اس میں سے خمس والے سال کے آخر تک جتنی مقدار خرچ نہیں ہوئی ہے اس پر خمس ہے۔

س۹۹۶۔ یونیورسٹیوں کے اکثر طلبہ غیر متوقع مشکلوں کو حل کرنے کے لئے اپنی زندگی کے اخراجات میں میانہ روی سے کام لیتے ہیں لہذا ان کے پاس پیسہ وافر مقدار میں جمع رہتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ :اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ یہ مال قناعت اور وزارت تعلیم کے وظیفہ سے حاصل ہوتا ہے تو کیا ان اموال پر خمس ہے ؟

ج۔ وظیفہ اور تعلیمی امداد پر خمس نہیں ہے۔

                   خمس کے حساب کا طریقہ

س۹۹۷۔ اگر خمس ادا کرنے میں آنے والے سال تک تاخیر ہو جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ حکم یہ ہے کہ خمس ادا کیا جائے چاہے آئندہ سال ہی کیوں نہ ہو لیکن خمس کے سال کے داخل ہونے کے بعد اس مال میں تصرف کا حق نہیں ہے جس کا خمس ادا نہیں کیا ہے اور اگر خمس دینے سے قبل اس سے کوئی چیز یا زمین وغیرہ خرید لی تو خمس کی مقدار کے معاملے میں ولی امر خمس کی اجازت کے بعد اس ملکیت یا زمین کی موجودہ قیمت کے مطابق حساب کرے اور اس کا خمس ادا کرے۔

س۹۹۸۔ میں ایسے مال کا مالک ہوں جس کا کچھ حصہ نقد کی صورت میں اور کچھ قرض الحسنہ کی شکل میں دیگر اشخاص کے پا س ہے ، دوسری طرف میں مکان کی خاطر زمین خریدنے کی وجہ سے مقروض ہوں اور اس زمین کی قیمت سے متعلق ایک نقدی چیک ہے جس کو مجھے چند ماہ تک ادا کرنا ہے پس کیا میں موجودہ رقم ( نقد و قرض الحسنہ) میں سے زمین کا قرض نکال کر باقی رقم کا خمس دے سکتا ہوں ؟ اور کیا اس زمین پربھی خمس ہے جس کو رہائش کے لئے خریدا ہے ؟

ج۔ آپ کو خمس کا سال شروع ہو جانے کے بعد سال بھر کے منافع میں سے اس قرض کو دے سکتے ہیں جس کا چند ماہ بعد ادا کرنا ضروری ہے لیکن اگر آپ نے اس پیسے کو سال کے دوران قرض میں ادا نہیں کیا یہاں تک کہ خمس کا سال آ گیا تو ا سکے بعد آپ قرض کو اس سے جدا نہیں کرسکتے بلکہ پورے مال کا خمس دینا واجب ہے۔ لیکن آپ نے جو زمین رہائش کے لئے خریدی ہے اگر آپ کو اس کی ضرورت ہے تو اس پر خمس نہیں ہے۔

س۹۹۹۔ میں نے ابھی تک شادی نہیں کی ہے تو کیا مستقبل میں اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے میں موجودہ مال سے کچھ ذخیرہ کرسکتا ہوں ؟

ج۔ اگر آپ نے سال بھر کے نفع سے ذخیرہ کیا یہاں تک خمس کی تاریخ آ گئی تو آپ پر اس کا خمس نکالنا واجب ہے خواہ وہ پیسہ مستقبل میں شادی میں خرچ کرنے کے لئے کیوں نہ رکھا ہو۔

س۱۰۰۰۔ میں نے سال کے دسویں مہینے کی آخری تاریخ کو خمس نکالنے کے لئے مقرر کیا ہے۔ پس میری دسویں مہینے کی تنخواہ اس ماہ کے آخر میں ملتی ہے۔ کیا اس پر بھی خمس ہے ؟ اور اگر میں تنخواہ لینے کے بعد کچھ پیسہ اپنی زوجہ کو ہدیہ کر دوں جس کو ہر مہینے جمع کرتا ہوں۔ تو کیا اس پر بھی خمس ہے ؟

ج۔ جو تنخواہ آپ نے خمس کی تاریخ آنے سے پہلے لی ہے یا خمس کی تاریخ سے ایک دن پہلے جس تنخواہ کو لے سکتے ہیں اس میں سے اگر سال کے خرچ سے کچھ بچ جائے تو اس کا خمس ادا کرنا واجب ہے لیکن جو پیسہ آپ نے اپنی زوجہ یا کسی دوسرے شخص کو ہدیہ کر دیا ہے اگر خمس سے بچنے کی غرض سے ایسا نہ کیا ہو اور وہ عرف عام میں آپ کی حیثیت کے مطابق بھی ہو تو اس پر خمس نہیں ہے۔

س۱۰۰۱۔ میرے پاس کچھ مال یا پونجی ایسی ہے جس کا خمس دیا جا چکا ہے اسے میں خرچ کرنا چاہتا ہوں۔ کیا سال کے آخر میں جب مال کے خمس کا حساب ہو گا میں سال بھر کے منافع میں سے کچھ مقدار مال کو اس خرچ شدہ مخمس مال کے بدلے خمس سے الگ کرسکتا ہوں ؟

ج۔ سال بھر کے منافع میں سے کوئی بھی چیز مخمس مال کے بدلے خمس سے الگ نہیں کرسکتے۔

س۱۰۰۲۔ اگر وہ مال جس پر خمس نہیں ہے جیسے انعام وغیرہ اصل مال سے مخلوط ہو جائے تو کیا خمس کی تاریخ میں اسے الگ کر کے باقی مال کا خمس نکال سکتے ہیں ؟

ج۔ اس کے جدا کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے۔

س۱۰۰۳۔ تین سال قبل میں نے اس پیسہ سے دوکان کھولی جس کا خمس دیا جا چکا ہے اور میرے خمس کی تاریخ شمسی سال کی آخری تاریخ ہے ، یعنی عید نوروز کی شب، اور آج تک جب بھی میرے خمس کی تاریخ آتی ہے تو میں دیکھتا ہوں کہ میرا تمام سرمایہ قرض کی صورت میں لوگوں کے ذمہ ہے اور میں خود بہاری رقم کا مقروض ہوں۔ امید ہے کہ ہماری تکلیف بیان فرمائیں گے؟

ج۔ اگر خمس کی تاریخ کے وقت نہ آپ کے راس المال میں سے کچھ ہو اور نہ منافع سے ، یا یہ کہ کل نقد رقم اور دوکان میں موجود مال اس مال کے برابر ہو جس کا آپ خمس دے چکے ہیں تو آپ پر خمس واجب نہیں ہے لیکن جو اجناس آپ نے ادھار پر فروخت کی ہیں ، ان کا اس سال کے منافع میں حساب ہو گا جس سال ان کی قیمت آپ وصول کریں۔

س۱۰۰۴۔ جب خمس کی تاریخ آتی ہے تو ہمارے لئے دوکان میں موجود مال کی قیمت کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ پس کس طریقے سے اس کا حساب لگانا واجب ہے ؟

ج۔ جس طرح بھی ہوسکے خواہ تخمینہ کے ذریعہ ہی بہر حال دوکان میں موجود مال کی قیمت کا تعیین واجب ہے تاکہ سال بھر کے اس منافع کا حساب ہو جائے جس کا خمس نکالنا آپ پر واجب ہے۔

س۱۰۰۵۔ اگر میں چند سال تک خمس کا حساب نہ کروں یہاں تک کہ میرا مال نقد بن جائے اور اصلی پونجی میں اضافہ ہو جائے تو اگر میں سابقہ اصل سرمایہ کی علاوہ جو مال ہے اس کا خمس نکالوں تو کیا اس میں کوئی اشکال ہے ؟

ج۔ اگر خمس کی تاریخ آنے تک آپ کے اموال میں کچھ خمس تھا، اگرچہ کم ہی سھی تو جب تک آپ اپنے اموال کا حساب نہیں کریں گے اور جب تک وہ خمس ادا نہیں کریں گے اس وقت تک آپ کو اپنے اموال میں تصرف کا حق نہیں ہو گا اور اگر آپ نے اس کا خمس دینے سے قبل خرید و فروخت کے ذریعہ اس میں تصرف کیا تو اس میں موجود خمس کی مقدار کے برابر معاملہ فضولی ہو گا۔ اور ولی خمس کی اجازت پر موقوف رہے گا۔ اور اجازت کے بعد پہلے آپ پر کل خمس دینا واجب ہے اور بعد میں دوسرے سال کے اخراجات سے بچ جانے والے پیسہ کا خمس دینا واجب ہے۔

س۱۰۰۶۔ امید ہے کہ ایسا طریقہ بیان فرمائیں کہ جس سے دوکاندار کے لئے خمس نکالنا ممکن ہو جائے؟

ج۔ پہلے خمس کے سال کے آغاز میں موجود مال و نقد کا حساب کریں اور اس کا اصلی مال سے موازنہ کریں اگر اصلی پونجی سے زیادہ نکلے تو اسے منافع سمجھا جائے گا اور اس پر خمس ہے۔

س۱۰۰۷۔ گذشتہ سال میں نے سال کے تیسرے مہینے کی پہلی تاریخ کو اپنے خمس کی تاریخ مقرر کیا تھا اور یہ وہ تاریخ ہے جس میں ، میں نے اس فائدے کے خمس کا حساب کیا تھا جو مجھے بینک کے حساب سے ملا تھا باوجودیکہ میں اس سے قبل اس فائدہ کا مستحق تھا مگر میں اس مال سے کام چلا رہا تھا جس پر خمس نہیں ہے پس سال بھر کے حساب کا یہ طریقہ صحیح ہے ؟

ج۔ آپ کے خمس کے سال کی ابتداء وہ دن ہے جس دن پہلی مرتبہ آپ کو وہ فائدہ ملا جو لینے کے قابل تھا اور خمس کے سال میں تاخیر اس دن سے آپ کے لئے صحیح نہیں ہے۔

س۱۰۰۸۔ چند سال قبل ایک شخص نے کم قیمت پر زمین خریدی اس وقت وہ اپنے امور کے خمس کا حساب کرنا چاہتا ہے تاکہ پاک ہو جائے۔ کیا اس پر سابقہ قیمت کے مطابق خمس نکالنا واجب ہے یا موجودہ قیمت کے مطابق جو بہت زیادہ ہے ؟

ج۔ اگر اس نے معاملہ اپنے ذمے غیر مشخص قیمت کے عنوان سے کیا ہو تو اسی قیمت پر خمس ہے۔ لیکن اگر اس نے خاص مشخص و غیر مخمس مال سے زمین خریدی ہو تو اگر اثناء سال میں سال کے منافع سے خریدی ہے تو خود زمین کا یا اس کی قیمت پر خمس دینا واجب ہے اور اگر خمس کی تاریخ کے بعد سال کے نفع سے خریدی ہے تو خمس کی مقدار کے برابر معاملہ فضولی ہے اور حاکم شرعی کی اجازت پر موقوف ہے ، پس اگر ولی امر یا اس کا وکیل اس کی اجازت دیدے تو مکلف پر اس زمین کا یا اس کی موجودہ قیمت کا خمس دینا واجب ہے۔

س۱۰۰۹۔ اگر کوئی شخص اپنے مال کے حساب کی تاریخ آنے سے قبل اپنی آمدنی کا کچھ حصہ قرض پر دیدے اور خمس کی تاریخ کے چند ماہ بعد اس سے واپس لے لے تو اس رقم کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ مفروضہ سوال میں مقروض سے قرض لیتے وقت اس میں سے خمس دینا واجب ہے۔

س۱۰۱۰۔ ان چیزوں کا کیا حکم ہے کہ جن کو انسان اپنے خمس کے سال کے درمیان خریدتا ہے پھر خمس کی تاریخ آنے کے بعد فروخت کر دیتا ہے ؟

ج۔ اگر نہیں فروخت کرنے کی غرض سے خریدا تھا اور خمس کی تاریخ آنے سے پہلے ان کا فروخت کرنا ممکن تھا تو اس پر ان کے منافع کا خمس واجب ہے اور اگر فروخت کرنا ممکن نہیں تھا تو ان کاخمس واجب نہیں ہے اور جب نہیں فروخت کرے گا تو ان کے بیچنے سے جو فائدہ حاصل ہو گا اس کا فروخت والے سال کے منافع میں شمار ہو گا۔

س۱۰۱۱۔ اگر ملازم خمس والے سال کی تنخواہ خمس کی تاریخ آنے کے بعد وصول کرے تو کیا اس پر اس کا خمس دینا واجب ہے ؟

ج۔ اگر آغاز سال میں تنخواہ کو لے سکتا تھا تو اس کا خمس دینا واجب ہے اگرچہ اس نے لی نہ ہو ورنہ وصولنے کے سال کے منافع میں شمار ہو گی۔

س۱۰۱۲۔ اگر کوئی شخص خمس کی تاریخ آنے پر اتنی ہی مقدار کا مقروض ہو جتنا اس کا نفع ہوا ہے تو کیا اس منافع پر خمس ہے ؟

ج۔ اگر وہ قرض اسی سال کے اخراجات سے متعلق ہے تو وہ اس سال کے منافع سے علیحدہ کیا جائے گا ورنہ مستثنیٰ نہیں ہو گا۔

س۱۰۱۳۔ سونے کے سکہ کا کیسے خمس دیا جائے جس کی مستقل طور پر قیمت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے ؟

ج۔ اگر خمس کے لئے قیمت نکالنا چاہتا ہے تو معیار ادائیگی کے دن کی قیمت ہے۔

س۱۰۱۴۔ اگر کوئی شخص اپنے مال کا سالانہ حساب سونے کی قیمت سے کرے مثلاً جب اس کی کل پونجی سونے کے سو سکہ ( بہار آزادی) کے برابر ہو اور وہ اس سے بیس سکے نکال دے تو اس کے پاس اسی سکے مخمس بچیں گے اور سال آئندہ سونے کے سکوں کی قیمت بڑھ جائے۔ لیکن اس شخص کا راس المال اسی سکوں کی قیمت کے برابر باقی بچے تو اس پر خمس ہے یا نہیں ؟ اور کیا اس بڑھی ہوئی قیمت پر خمس دینا واجب ہے ؟

ج۔ مخمس راس المال کے استثناء کا معیار خود راس المال ہے پس اگر راس المال کہ جس سے کاروبار ہوتا ہے ، بہار آزادی نام کے سونے کے سکے ہیں تو یہ مخمس سونے کے سکے سالانہ مالی حساب کے وقت مستثنیٰ ہوں گے اگرچہ ریال کے اعتبار سے ان کی قیمت میں گذشتہ سال کی نسبت اضافہ ہی ہوا ہو لیکن اگر اس کا راس المال نقد کاغذی نوٹ ہوں اور خمس کی تاریخ میں نہیں سونے کے سکوں کے مساوی حساب کرے اور اس کا خمس دیدے گا تو آئندہ خمس کی تاریخ میں سونے کے سکوں کے برابر والی وہ قیمت مستثنیٰ ہو گی جس کا گذشتہ سال حساب کیا تھا خود سونے کے سکے مستثنیٰ نہیں ہوں گے چنانچہ سال آئندہ اگر سونے کے سکوں کی قیمت بڑھ جائے تو بڑھی ہوئی قیمت مستثنیٰ نہیں ہو گی بلکہ اسے منافع میں شمار کیا جائے گا اور اس پر خمس واجب ہے۔

                   مالی سال کی تعیین

س۱۰۱۵۔ جو شخص اس بات سے مطمئن ہو کہ سال کے آخر تک اس کی سال بھر کی آمدنی میں سے ایک پیسہ بھی نہیں بچے گا بلکہ جو کچھ اس کمائی اور منافع ہے وہ درمیان سال ہی میں روٹی اور کپڑے پر خرچ ہو جائے گا تو کیا اس کے باوجود اس پر خمس کی تاریخ معین کرنا واجب ہے ؟اور کیا آغاز سال کا تعین واجب ہے ؟ اور اس شخص کا کیا حکم ہے جو اپنے اس اطمینان کی بنا پر کہ اس کے پاس زیادہ پیسہ نہیں ہے ، خمس کے سال کا تعین نہیں کرتا ہے ؟

ج۔ خمس کے سال کی ابتداء مکلف کی تعین و حد بندی سے نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ ایک امر واقعی ہے جس کا آغاز ہر شخص کی کمائی کے آغاز کے ساتھ ہی ہو جاتا ہے۔ مثلاً جو شخص زراعت کرتا ہے اس کے لئے سال کا آغاز کھیتی کاٹنے کے وقت سے ہو گا اور ملازمت پیشہ لوگوں کے سال کا آغاز کھیتی کاٹنے کے وقت سے ہو گا اور ملازمت پیشہ لوگوں کے سال کا آغاز وصول کرنے کا وقت ہے ، آغاز سال اور سالانہ آمدنی کا حساب خود مستقل واجب نہیں ہے یہ صرف اس لئے کہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس پر کتنا خمس واجب ہے ، پس اگر اس کی کمائی میں اس کے پاس کچھ بھی باقی نہ بچے بلکہ جتنا وہ کماتا ہے اس کو اپنی زندگی پر خرچ کر دیتا ہے تو اس پر ان امور میں سے کچھ بھی واجب نہیں ہے۔

س۱۰۱۶۔ کیا مالی سال کا آغاز کام کے پہلے مہینہ سے ہوتا ہے ؟ یا پہلا مہینہ ماہانہ تنخواہ وصول کرنے سے متعلق ہے ؟

ج۔ ملازمت کرنے والوں کا خمس کا سال اس دن سے شروع ہو جاتا ہے جس دن تنخواہ پاتے ہیں یا اس کو وصول کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔

س۱۰۱۷۔ خمس ادا کرنے کے لئے سال کی ابتداء کا کیسے تعین ہوتا ہے ؟

ج۔ کارندوں اور ملازمت پیشہ افراد کے خمس کے سال کی ابتداء اس تاریخ سے ہوتی ہے جس دن وہ اپنے کام و ملازمت کا پہلا ثمرہ حاصل کرتے ہیں لیکن تاجروں کے سال کی ابتداء ان کی خرید و فروخت شروع کرنے کی تاریخ سے ہوتی ہے۔

س۱۰۱۸۔ غیر شادی شدہ جوانوں پر جو اپنے والدین کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں ، خمس کی تاریخ کا تعین کرنا واجب ہے ؟ اور ان کے سال کی ابتداء کب سے ہو گی؟ اور اس کا وہ حساب کریں گے؟

ج۔ اگر غیر شادی شدہ جوان کی ذاتی کمائی ہو ، خواہ قلیل ہی کیوں نہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ خمس کی تاریخ معین کرے تاکہ اس سے سال بھر کی آمدنی کا حساب ہو کہ اگر سال کے آخر میں اس کے پاس کوئی چیز باقی بچے تو اس کا خمس دے اور خمس کے سال کا آغاز پہلے فائدے کے حصول کے دن سے ہوتا ہے۔

س۱۰۱۹۔ جو میاں بیوی اپنی اپنی آمدنی سے مشترک طور پر گھر کے اخراجات پورا کرتے ہیں تو ان کے لئے ممکن ہے کہ مشترکہ طور پر اپنے خمس کی تاریخ بھی معین کریں ؟

ج۔ ان میں سے مستقل طور پر ہر ایک کے لئے خمس کی تاریخ ہو گی بس سال کے آخر میں ان سے ہر ایک پر تنخواہ اور سال بھر کی آمدنی میں سے خرچ کرنے کے بعد جو کچھ بچے گا اس پر خمس دینا واجب ہے۔

س۱۰۲۰۔ میرے اوپر گھر کی ذمہ داری ہے ، میں امام خمینی(رح) کی مقلد ہوں۔ میرے شوہر نے خمس کی تاریخ معین کر رکھی ہے جس میں وہ اپنے اموال کا خمس نکالتے ہیں مجھے بھی کچھ آمدنی ہوتی ہے پس کیا خمس ادا کرنے کے لئے میں بھی اپنی تاریخ معین کرسکتی ہوں اور کیا اپنے خمس کے سال کی ابتداء اس حاصل ہونے والے اولین فائدے سے کرسکتی ہوں جس کا میں نے خمس نہیں دیا ہے اور سال کے آخر میں گھر کے اخراجات سے جو کچھ بچ جائے اس کا خمس ادا کروں اور کیا درمیان سال جو پیسہ میں زیارت پر یا ہدایا خریدنے میں خرچ کرتی ہوں اس پر بھی خمس ہے ؟

ج۔ آپ پر واجب ہے کہ خمس کے سال کی ابتداء اس دن سے کریں جس دن آپ کو سال کی پہلی آمدنی حاصل ہوئی اور سال کے دوران اپنی آمدنی یا کمائی سے جو کچھ ان امور پر خرچ کرتی ہیں جنہیں آپ نے بیان کیا ہے اس میں خمس نہیں ہے لیکن سال کے اخراجات کے بعد کمائی میں سے جو کچھ بچ جائے اس کا خمس دینا واجب ہے۔

س۱۰۱۲۔ کیا خمس کی تاریخ شمسی یا قمری سال کے اعتبار سے معین کرنا واجب ہے ؟

ج۔ اس سلسلہ میں مکلف کو اختیار ہے۔

س۱۰۲۲۔ ایک شخص کا کھنا ہے کہ اس کے خمس کے سال کا آغاز سال کے گیارہویں مہینہ سے ہوتا ہے لیکن وہ اسے بھول گیا اور خمس نکالنے سے قبل بارہویں مہینے میں اس نے اس مال سے اپنے گھر کے لئے جانماز، گھڑی اور قالین خرید لیا اور اب وہ اپنے خمس کے سال کا آغاز رمضان سے کرنا چاہتا ہے اس بات کی طرف اشارہ کر دینا ضروری ہے کہ اس شخص پر گذشتہ سال کے سہم امام و سہم سادات کے ۸۳ تومان قرض ہیں اور انہیں وہ قسط وار ادا کر رہا ہے پس مذکورہ سامان (جا نماز ، گھڑی اور قالین) کے سہم امام و سہم سادات کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟

ج۔ خمس کے سال میں تقدیم و تاخیر صحیح نہیں ہے مگر گذشتہ سال کے منافع کے حساب کے بعد اور اس شرط کے ساتھ کہ اس سے ارباب خمس کو ضرر نہ پہنچے لیکن غیر مخمس مال سے اس نے جو ولی امر خمس یا اس کے وکیل کی اجازت پر موقوف ہے اور اجازت مل جانے کے بعد اس کی موجودہ قیمت کا خمس دینا واجب ہے۔

س۱۰۲۳۔ کیا انسان اپنے مال کے خمس کا حساب خود کرسکتا ہے پھر جس مقدار میں خمس واجب ہوا ہے آپ کے وکلاء کی خدمت میں پیش کر دے؟

ج۔ جس شخص کے خمس کی تاریخ معین ہے وہ اپنے مال کا خود حساب کرسکتا ہے۔

                   ولی امر خمس اور موارد مصرف

س۱۰۲۴۔ میں نے خمس کے بارے میں آپ کے کسی جواب میں پڑھا ہے کہ خمس کو ولی امر خمس اور ان کے امور حساب کے وکیل کو دیا جا سکتا ہے ، تو یہاں سوال یہ ہے کہ ولی خمس سے مراد کون ہے ، کیا مجتہد مطلق یا ولی امر مسلمین؟

ج۔ ولی خمس وہ ولی امر ہے جسے مسلمانوں کے امور میں ولایت حاصل ہو۔

س۱۰۲۵۔ کیا امور خیریہ مثلاً سادات کی شادی وغیرہ میں سہم سادات کا صرف کرنا جائز ہے ؟

ج۔ سہم سادات ، سہم امام کی طرح ہے جو ولی خمس سے متعلق ہے اور مذکورہ چیز میں سہم سادات خرچ کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے بشرطیکہ ولی خمس سے خاص طور پر اجازت لی گئی ہو۔

س۱۰۲۶۔ عمل خیر ، مثلاً یتیم خانہ یا دینی مدارس کے لئے سہم امام کے صرف کرنے میں کیا مجتہد مقلد کا اجازہ لینا ضروری ہے یا کسی بھی مجتہد کا اجازہ کافی ہے اور بنیادی طور کیا مجتہد کا اجازہ لینا ضروری ہے ؟

ج۔ سہم امام اور سہم سادات دونوں ولی امر مسلمین سے متعلق ہیں لہذا جس کے ذمے یا جس کے مال میں حق امام یا سہم سادات ہو اس پر ان دونوں کو ولی امر خمس یا اس کے وکیل کے حوالے کرنا واجب ہو اور اگر ان کو ان کے معین موارد میں صرف کرنا ہو تو اس سے پہلے اس کے لئے اجازت لینا واجب ہے۔ اور مکلف کے لئے ضروری ہے کہ اس سلسلے میں وہ جس مجتہد کی تقلید کر رہا ہے اس کے فتوے کی بھی رعایت کرے۔

س۱۰۲۷۔ اگر حاکم ( شرع) ایک شخص اور مرجع تقلید دوسرا شخص ہو تو کس کو خمس دینا واجب ہے ؟

ج۔ ولی امر خمس کو خمس کا دینا واجب ہے اور وہی امور مسلمین کا ولی ہوتا ہے ، مگر یہ کہ جس مجتہد کی تقلید کرتا ہے اس کا فتویٰ اس سے مختلف ہو۔

س۱۰۲۸۔ کیا آپ کے وکلاء یا ان افراد پر جو حقوق شرعیہ کے وصول کرنے میں آپ کے وکیل نہیں ہیں لازم ہے کہ سہم امام اور سہم سادات وصول کرتے وقت ان کی رسید دیں یا ان پر واجب نہیں ہے ؟

ج۔ جو لوگ ہمارے محترم وکلاء کو یا دوسرے افراد کو ہمارے دفتر تک پہنچانے کے لئے حقوق شرعیہ دیں وہ ان سے ہماری مہر لگی رسید کا مطالبہ کریں۔

س۱۰۲۹۔ اگر آپ کے وکلاء یا دوسرے افراد جو لوگوں سے سہم امام و سہم سادات لیتے ہیں ان کی رسید نہ دیں تو کیا خمس دینے والا اس سے بری الذمہ ہو جائے گا؟

ج۔ مسائل مختلف ہیں ، ہمارے بعض معروف و مشہور وکلاء کو چھوڑ کر دوسرے افراد ( ان رقومات کی) رسید نہ دیں تو پھر اس کے بعد نہیں میرے نام سے حقوق شرعیہ نہ دیں۔

س۱۰۳۰۔ امام خمینی(رح) کے مقلدین خمس کا مال کس کو دیں ؟

ج۔ ان کے لئے ممکن ہے کہ وہ اسے ہمارے تہران کے دفتر میں بھیج دیں اپنے شہروں میں موجود ہمارے وکلاء کو دیں۔

س۱۰۳۱۔ ہمارے علاقے میں موجود آپ کے وکلاء کو جب خمس دیا جاتا ہے تو بعض اوقات وہ سہم امام واپس کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی آپ کے طرف سے ان کو اجازت ہے تو کیا اس لوٹائی ہوئی رقم کو ہم اپنے گھر والوں پر صر ف کرسکتے ہیں ؟

ج۔ جو شخص اجازہ کا دعویٰ کرتا ہے اگر آپ کو اس کے پاس اجازہ ہونے میں شبہ ہو تو اس سے احترام کے ساتھ تحریری اجازہ دکھانے کے لئے کہیں یا اس سے خمس وصول پانے کی ہماری مہر لگی ہوئی رسید مانگئے پس اگر وہ اجازہ کے مطابق عمل کریں تو وہ ( لوٹائی ہوئی رقم) آپ کے مصرف کے لئے ہے۔

س۱۰۳۲۔ غیر مخمس مال سے ایک شخص نے ایک قیمتی جائیداد خریدی اور اس کی تعمیر و مرمت میں خطیر رقم لگائی اور اس کے بعد اسے اپنے نابالغ بیٹے کو ہبہ کر دیا اور قانونی طور پر اس جائیداد کو اس بیٹے کے نام کرا دیا۔ اب یہ جانتے ہوئے کہ خریدنے والا ابھی تک زندہ ہے اس کے خمس کا کیا مسئلہ ہے ؟

ج۔ ملکیت کے خریدنے اور اس کی مرمت و تعمیر میں جو صرف کیا ہے اگر دو سال کے منافع میں سے ہے اور اس نے اپنی جائیداد کو اسی سال اپنے بیٹے کو ہبہ کر دیا ہے اور عرف عام میں اس کی حیثیت کے مطابق ہے تو اس پر خمس نہیں ہے ، ورنہ اس جائیداد پر خمس واجب ہو گا۔ اور خمس کی مقدار کا ہبہ فضولی ہو گا جس کی صحت اجازہ پر موقوف ہے۔

                   سہم سادات

س۱۰۳۳۔ میری والدہ سیدانی ہیں ، لہذا مندرجہ ذیل سوالات کے جواب مرحمت فرمائیں :

۱۔ کیا میں سید ہوں۔

۲۔ کیا میری اولاد میرے پوتے پر پوتے وغیرہ سید ہیں ؟

۳۔ وہ شخص جو باپ کی طرف سے سید ہو اور جو ماں کی طرف سے سید ہو ، ان دونوں میں کیا فرق ہے ؟

ج۔ سید پر آثار و احکام شرعیہ کے مرتب ہونے کی معیار یہ ہیں کہ سید کی نسبت باپ کی طرف سے ہو لیکن رسول اکرم (ص) سے ماں کی طرف سے منسوب ہونے والے بھی اولاد رسول اکرم (ص) ہیں۔

س۱۰۳۴۔ کیا جناب عباس ابن علی ابن ابی طالب کی اولا دکا حکم بھی وہی ہے جو دوسرے سیدوں کا ہے ، مثلاً جو طالب علم اس سلسلے سے منسوب ہیں کیا وہ سادات کا لباس پھن سکتے ہیں ؟ اور کیا اولاد عقیل ابن ابی طالب کا بھی یہی حکم ہے ؟

ج۔ جو شخص باپ کی طرف سے جناب عباس ابن علی ابی طالب (ع) سے نسبت رکھتا ہے وہ علوی سید ہوتا ہے اور سارے علوی اور عقیلی سید ہاشمی ہیں۔ لہذا ہاشمی سید کے لئے جو مراعات ہیں وہ ان سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

س۱۰۳۵۔ پچھلے دنوں میں نے اپنے والد کے چچیرے بھائی کے ذاتی وثیقہ کو دیکھا جس میں انہوں نے اپنے کو سید لکھا ہے ، لہذا مذکورہ بات کے پیش نظر رکھتے ہوئے اور یہ بھی جانتے ہوئے کہ اپنے رشتہ داروں میں ہم سید مشہور ہیں ، جبکہ جو وثیقہ مجھے ملا ہے وہ بھی اس بات کا قرینہ ہے میری سیادت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟

ج۔ کسی رشتہ دار کا اس قسم کا وثیقہ آپ کی سیادت کے لئے شرعی دلیل نہیں بن سکتا اور جب تک آپ کو سید ہونے کا اطمینان یا اس کے بارے میں شرعی دلیل نہ ہو، تب تک آپ کے لئے جائز نہیں کہ اپنے کو سیادت کے شرعی آثار اور احکام کا حقدار سمجھیں۔

س۱۰۳۶۔میں نے ایک بچے کو بیٹا بنایا اور اس کا نام علی رکھا ہے۔ا س کا شناختی کارڈ لینے کے لئے جب رجسٹریشن آفس گیا تو ان لوگوں نے میرے اس گود لئے بیٹے کو ’ سید ‘ لکھ دیا ، لیکن میں نے اسے قبول نہیں کیا۔ کیونکہ میں اپنے جد رسول اللہ سے ڈرتا ہوں۔ اب میں ان دو چیزوں کے بارے میں متردد ہوں یا تو اسے بیٹا نہ بناؤں اور یا اس گناہ کا مرتکب ہو جاؤں ( یعنی ) جو سید نہیں ہے اس کا سید ہونا قبول کروں۔ پس میں کس طرف جاؤں برائے مہربانی میری راہنمائی فرمائیے؟

ج۔ گود لئے بیٹے کے شرعی آثار مرتب نہیں ہوتے اور جو حقیقی باپ کی طرف سے سید نہ ہو اس پر سید کے احکام و آثار نافذ نہیں ہوتے لیکن جس بچے کا کوئی کفیل اور سرپرست نہ ہو اس کی کفالت کرنا مستحسن عمل اور شرعاً اچھا فعل ہے۔

                   خمس کے مصارف ، اجازہ ، ہدیہ ، حوزہ علمیہ کا ماہانہ وظیفہ

س۱۰۳۷۔بعض اشخاص خود سادات کے بجلی ، پانی کابل ادا کرتے ہیں کیا وہ اس بل کو خمس میں حساب کرسکتے ہیں ؟

ج۔ ابھی تک جو انہوں نے سہم سادات کے عنوان سے ادا کیا ہے وہ قبول ہے لیکن مستقبل میں ادا کرنے سے پہلے اجازت لینا واجب ہے۔

س۱۰۳۸۔ جناب عالی ! میرے ذمہ جو سہم امام ہے اس میں سے ایک ثلث کو دینی کتابیں خریدنے اور تقسیم کرنے کی اجازت عنایت فرمائیں گے؟

ج۔ اگر ہمارے وہ وکیل جن کو سہم امام خرچ کرنے کی اجازت ہے مفید دینی کتابوں کی تقسیم و فراہم ی کو ضروری سمجھیں تو اس سلسلہ میں وہ اس مال سے ایک تھائی صرف کرسکتے ہیں جس کو وہ مخصوص شرعی موارد میں صرف کرنے کے مجاز ہیں۔

س۱۰۳۹۔ کیا ایسی علوی عورت کو سہم سادات دیا جا سکتا ہے جو نادار اور اولاد والی ہے لیکن اس کا شوہر علوی نہیں اور نادار اور فقیر ہے ؟ اور کیا وہ عورت اس سہم سادات کو اپنی اولاد اور شوہر پر خرچ کرسکتی ہے ؟

ج۔ اگر شوہر نادار ہونے کی بنا پر اپنی زوجہ کا نفقہ پورا نہیں کرسکتا اور زوجہ بھی شرعی اعتبار سے فقیر ہو تو اپنی حاجت پوری کرنے کے لئے وہ حق سادات لے سکتی ہے اور جو حق سادات اس نے لیا ہے اسے وہ اپنے اوپر اپنی اولاد پر یہاں تک کہ اپنے شوہر پر خرچ کرسکتی ہے۔

س۱۰۴۰۔ حق امام اور حق سادات لینے والے ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو ( حوزہ علمیہ کے وظیفہ کے علاوہ) تنخواہ لیتا ہے جو اس کی زندگی کے ضروریات کے لئے کافی ہے ؟

ج۔ جو شخص شرعی نقطہ نظر سے مستحق نہیں ہے اور نہ حوزہ علمیہ کے شہریہ کے قواعد و ضوابط اس سے متعلق ہیں وہ حق امام و حق سادات سے نہیں لے سکتا۔

س۱۰۴۱۔ ایک علوی عورت مدعی ہے کہ اس کا باپ اپنے اہل و عیال کے اخراجات پورے نہیں کرتا ہے اور ان کی حالت یہ ہے کہ وہ مساجد کے سامنے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں اور اس سے وہ اپنی زندگی کا خرچ نکالتے ہیں۔لیکن اس علاقے کے رہنے والے جانتے ہیں کہ یہ سید پیسے والا ہے لیکن بخل کی وجہ سے اپنے اہل و عیال پر خرچ نہیں کرتا تو کیا ان کے اخراجات سہم سادات سے پورے کرنا جائز ہے اور فرض کریں کہ بچوں کا والد یہ کہے کہ مجھ پر فقط طعام اور لباس واجب ہے اور دوسری چیزیں مثلاً عورتوں کی بعض خصوصی ضروریات ، اسی طرح چھوٹے بچوں کا روزانہ کا خرچ جو عام طور پر دیا جاتا ہے واجب نہیں ، تو کیا ان کو ان ضروریات کے لئے سہم سادات دے سکتے ہیں ؟

ج۔ پہلی صورت میں اگر وہ اپنے باپ سے نفقہ لینے پر قدرت نہ رکھتے ہوں تو نہیں نفقہ کے لئے ضرورت کے مطابق سہم سادات سے دے سکتے ہیں ، اسی طرح دوسری صورت میں اگر نہیں ، خوراک ، لباس اور رہائش کے علاوہ ، کسی ایسی چیز کی ضرورت ہو جو ان کی حیثیت کے مطابق ہو تو نہیں سہم سادات میں سے اتنا دیا جا سکتا ہے جس سے ان کی ضرورت پوری ہو جائے۔

س۱۰۴۲۔ کیا آپ اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ لوگ سہم سادات خود محتاج سیدوں کو دیدیں ؟

ج۔ جس شخص کے ذمہ سہم سادات ہے اس پر واجب ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اجازت حاصل کرے۔

س۱۰۴۳۔ کیا آپ کے مقلدین سہم سادات نادار سید کو دے سکتے ہیں یا کل خمس یعنی سہم امام و سہم سادات آپ کے وکلاء کو دینا واجب ہے تاکہ وہ اسے شرعی امور میں صرف کریں۔

ج۔ اس سلسلہ میں سہم سادات اور سہم امام(ع) میں کوئی فرق نہیں ہے۔

س۱۰۴۴۔ کیا شرعی حقوق ( خمس ، رد مظالم اور زکوٰۃ) حکومت کے امور سے ہے یا نہیں ؟ اور کیا وہ شخص جس پر حقوق شرعیہ واجب ہوں وہ خود مستحقین کو سہم سادات و زکوٰۃ وغیرہ دے سکتا ہے ؟

ج۔ زکوٰۃ اور رد مظالم کی رقم دین دار پارسا مفلسوں کو دینا جائز ہے لیکن خمس کو ہمارے دفتر میں یا ہمارے ان وکیلوں میں سے کسی ایک کے پاس پہنچانا واجب ہے جنہیں شرعی موارد میں خمس صرف کرنے کی اجازت ہے۔

س۱۰۴۵۔ وہ سادات جن کے پاس کام اور کاروبار کا ذریعہ ہے ، خمس کے مستحق ہیں یا نہیں ؟ امید ہے کہ اس کی وضاحت فرمائیں گے؟

ج۔ اگر ان کی آمدنی عرف عام کے لحاظ سے انکی معمولی زندگی کے لئے کافی ہے تو وہ خمس کے مستحق نہیں ہیں۔

س۱۰۴۶۔ میں ایک پچیس سالہ جوان ہوں۔ ملازمت کرتا ہوں اور ابھی تک کنوارہ ہوں والد اور والدہ کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہوں والدین ضعیف العمر ہیں اور چار سال سے میں ہی اخراجات پورے کر رہا ہوں میرے والد کام کرنے کے لائق نہیں ہیں نہ ان کی کوئی آمدنی ہے۔ واضح رہے کہ میں ایک طرف سال بھر کے منافع کا خمس ادا کروں اور دوسری طرف زندگی کے تمام اخراجات پورے کروں یہ میرے بس میں نہیں ہے ، میں گذشتہ برسوں کے منافع کے خمس مبلغ ۱۹ ہزار تومان کا مقروض ہوں۔ میں نے اس کو لکھ دیا ہے تاکہ بعد میں ادا کروں۔ عرض یہ ہے کہ کیا میں سال بھر کے منافع کا خمس اپنے اقرباء جیسے ماں باپ کو دے سکتا ہوں یا نہیں ؟

ج۔ اگر ماں باپ کے پاس اتنی مالی استطاعت نہیں جس سے وہ اپنی روز مرہ کی زندگی چلا سکیں اور آپ ان کا خرچ برداشت کرسکتے ہیں تو ان کا نفقہ آپ پر واجب ہے اور جو کچھ آپ ان کے نفقہ پر خرچ کرتے ہیں ، وہ شرعی اعتبار سے آپ پر واجب ہے ،اس کو آپ اس خمس میں حساب نہیں کرسکتے جس کا ادا کرنا آپ پر واجب ہے۔

س۱۰۴۷۔ میرے ذمہ سہم امام علیہ السلام کے ایک لاکھ تومان ہیں اور ان کا آپ کی خدمت میں ارسال کرنا واجب ہے دوسری طرف یہاں ایک مسجد ہے جہاں پیسہ کی ضرورت ہے ، کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ یہ رقم اس مسجد کے امام جماعت کو دیدی جائے تاکہ وہ اس مسجد کی تکمیل میں اسے خرچ کریں ؟

ج۔ دور حاضر میں ، میں سہم امام و سہم سادات کو حوزات علمیہ ( دینی مدارس) پر خرچ کرنا مناسب سمجھتا ہوں ، مسجد کی تکمیل کے لئے مومنین کے تعاون اور بخشش سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

س۱۰۴۸۔ اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ ممکن ہے ہمارے والد نے اپنی زندگی میں مکمل طور پر اپنے مال کا خمس ادا نہ کیا ہو اور ہم نے ھسپتال بنانے کے لئے ان کی زمین سے ایک ٹکڑا ہبہ کیا ہے کیا اس زمین کو مرحوم کے خمس میں حساب کیا جا سکتا ہے ؟

ج۔ خمس میں اس زمین کا حساب نہیں کیا جا سکتا ہے۔

س۱۰۴۹۔ کن حالات میں خمس دینے والے کو خود اس کا خمس ہبہ کیا جا سکتا ہے ؟

ج۔ سہم ین مبارکین (سہم سادات وسہم امام)کو ہبہ نہیں کیا جا سکتا۔

س۱۰۵۰۔ اگر ایک شخص کے پاس سال کی اس تاریخ میں جس میں خمس ادا کرتا ہے ، اس کے اخراجات سے ایک لاکھ روپیہ زیادہ ہو۔ اور اس رقم کا وہ خمس ادا کر چکا ہو ، اور آنے والے سال میں نفع کی رقم ایک لاکھ پچاس ہزار ہو گئی ہو تو کیا نئے سال میں وہ صرف پچاس ہزار روپیہ کا خمس اد ا کرے گا یا دوبارہ مجموعاً ایک لاکھ پچاس ہزار کا خمس دے گا؟

ج۔ جس مال کا خمس دیا جا چکا ہے اگر نئے سال میں وہ خرچ نہیں ہوا ہے اور کل مال موجود ہے تو دوبارہ اس کا خمس نہیں دینا ہے اور اگر سال کے اخراجات کو خود راس المال سے اور اس کے منافع سے پورا کیا گیا ہے تو سال کے آخر میں منافع پر خمس مخمس اور غیر مخمس مال کی نسبت سے واجب ہے۔

س۱۰۵۱۔ جن دینی طلبہ نے اب تک شادی نہیں کی ہے۔ اور ان کے پاس اپنا گھر بھی نہیں ، کیا ان کی اس آمدنی میں خمس ہے جو نہیں تبلیغ ، ملازمت امام علیہ السلام سے دستیاب ہوئی ہے ، یا وہ خمس دئیے بغیر اس آمدنی کو شادی کے لئے جمع کرسکتے ہیں اور وہ آمدنی خمس سے مستثنیٰ ہو؟

ج۔ وہ حقوق شرعیہ جو طلاب محترم حوزہ علمیہ کو مراجع عظام کی طرف سے دئیے جاتے ہیں ان پر خمس نہیں ہے لیکن تبلیغ و ملازمت کے ذریعہ ہونے والی آمدنی اگر سال کی اس تاریخ تک محفوظ ہے جس میں خمس دینا ہے تو اس کا خمس دینا واجب ہے۔

س۱۰۵۲۔ اگر کسی شخص کا مال اس مال سے مخلوط ہو جائے جس کا خمس دیا جا چکا ہے اور کبھی کبھی وہ اس مخلوط مال سے خرچ بھی کرتا ہو اور کبھی اس میں اضافہ بھی کرتا ہو ، اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ مخمس مال کی مقدار معلوم ہے تو کیا اس پر پورے مال کا خمس دینا واجب ہے یا صرف اس مال کا خمس دینا واجب ہے جس کا خمس نہیں دیا تھا؟

ج۔ اس پر باقی ماندہ رقم سے صرف اس مال کا خمس دینا واجب ہے جس کا خمس نہیں دیا گیا ہے۔

س۱۰۵۳۔ وہ کفن جو خریدنے کے بعد چند برسوں تک اسی طرح پڑا رہا کیا اس کا خمس دینا واجب ہے یا اس کی اس قیمت کا خمس دینا واجب ہے کہ جس سے خریدا گیا تھا؟

ج۔ اگر کفن اس مال سے خریدا گیا ہے کہ جس کا خمس دیا جا چکا تھا تو اس پر خمس نہیں ہے ورنہ اس کا موجودہ قیمت کے مطابق خمس دینا پڑے گا۔

س۱۰۵۴۔ میں ایک دینی طالب علم ہوں اور میرے پاس کچھ مال تھا ، بعض اشخاص کی مدد سے اور سہم سادات اور قرض لے کر میں نے ایک چھوٹاسا گھر خریدا تھا۔اب وہ گھر میں نے فروخت کر دیا ہے ، پس اگر ا س کی قیمت اس سال تک ایسے ہی رکھی رہے اور دوسرا گھر نہ خریدوں تو کیا اس مال پر جو گھر خریدنے کے لئے ہے خمس دینا واجب ہے ؟

ج۔ اگر آپ نے حوزہ علمیہ کے وظیفہ دوسروں کے مدد اور شرعی حقوق سے گھر خریدا تھا تو اس گھر کی قیمت پر خمس نہیں ہے۔

                   خمس کے متفرق مسائل

س۱۰۵۵۔ میں نے ۱۳۴۱ ء ھ۔ش ۱۹۶۲ ء ء میں امام خمینی (رح)کی تقلید کی تھی اور ان کے فتوے کے مطابق رقوم شرعیہ انھی کی خدمت میں پیش کرتا تھا ۱۳۴۶ ء ھ۔ش میں امام خمینی (رح) نے رقوم شرعیہ اور مالیات کے سلسلہ میں ایک سوال کے جواب میں فرمایا :’ خمس و زکوٰۃ حقوق شرعیہ ہیں اور مالیات حقوق شرعیہ میں شامل نہیں ہیں۔‘ اور آج جبکہ ہم اسلامی جمہوریہ کی حکومت میں زندگی بسر کر رہے ہیں ، امید ہے کہ ( اس زمانہ میں ) رقوم شرعیہ اور مالیات ادا کرنے سے متعلق میرا فریضہ بیان فرمائیں گے؟

ج۔ اسلامی جمہوریہ کی حکومت کی طرف سے قوانین و دستورات کے مطابق جو مالیات عائد کئے جاتے ہیں اگرچہ ان کا ادا کرنا ان لوگوں پر واجب ہے جو قانون کے زمرہ میں آتے ہیں لیکن اس مالیات کو سہم ین مبارکین میں شامل نہیں کرنا چاہئیے اور نہیں اپنے اموال کا مستقل طور پر خمس ادا کرنا چاہئیے۔

س۱۰۵۶۔ کیا رقوم شرعیہ کو ڈالر کی شکل میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جبکہ یہ معلوم ہے کہ کرنسی کی قیمت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے ، یہ کام شریعت کی رو سے جائز ہے یا نہیں ؟

ج۔ جس کے اوپر حقوق شرعیہ ہیں وہ ڈالر کی شکل میں ادا کرسکتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس دن کی قیمت کا حساب کرے جس دن حقوق شرعیہ ادا کرتا ہے لیکن ولی امر مسلمین کی طرف سے حقوق شرعیہ وصول کرنے والے وہ وکیل جو امانت کے طور پر رقوم لیتے ہیں ان کے لئے جائز نہیں کہ ایک کرنسی کو دوسری کرنسی سے تبدیل کریں۔ مگر یہ کہ اس سلسلہ میں اجازت حاصل کی ہو، قیمت کا بدلنا اس کے تبدیل کرنے میں مانع نہیں ہے۔

س۱۰۵۷۔ ایک ثقافتی مرکز میں شعبہ تجارت کھولا گیا ہے جس کا زر اصل حقوق شرعیہ میں سے ہے مذکورہ شعبہ تجارت کی غرض و غایت ثقافتی مرکز کے آئندہ اخراجات کی تکمیل ہے کیا اس تجارت کے فائدے کا خمس نکالنا واجب ہے اور کیا اس خمس کو ثقافتی مرکز کے امور پر صرف کیا جا سکتا ہے ؟

ج۔ وہ حقوق شرعیہ جن کو شارع مقدس نے خاص امور کے لئے مقرر کیا ہو ان سے تجارت کرنا اور اسے مقررہ امور میں خرچ سے روکنا جائز نہیں ہے ، چاہے یہ تجارت ثقافتی ادارے کو فائدہ پہنچانے کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔ بالفرض اگر اس سے تجارت شروع کر دی گئی تو حاصل شدہ فائدہ کا مصرف وہی ہے جو اصل مال کا ہے اور اس پر خمس نہیں ہے لیکن وہ ہدایا اور عوامی امداد جو اس ادارہ کو حاصل ہوئی ہے اس سے تجارت میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اس سے حاصل شدہ نفع میں خمس نہیں ہے اس لئے کہ اصل مال کسی شخص یا اشخاص کی ملکیت نہیں بلکہ ادارہ یا کسی خاص جہت کی ملکیت ہے۔

س۱۰۵۸۔ اگر ہمیں کسی چیز کے بارے میں یہ شک ہو کہ ہم نے اس کا خمس ادا کیا ہے یا نہیں ؟ اگرچہ ظن غالب یہ ہو کہ ادا کیا ہے تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟

ج۔ اگر شک خمس کے یقینی تعلق کے بعد ہو تو اس کے خمس کی ادائیگی کے بارے میں یقین حاصل کرنا ضروری ہے۔

س۱۰۵۹۔ ایک چکی عام لوگوں کے لئے آٹا پیستی ہے اس پر خمس و زکوٰۃ ہے یا نہیں ؟

ج۔ اگر چکی عام لوگوں کے لئے وقف ہے تو اس پر خمس نہیں ہے۔

س۱۰۶۰۔ تقریباً سات سال قبل میرے ذمہ کچھ خمس تھا۔ ایک مجتہد کے ساتھ صلاح و مشورہ کے بعد کچھ حصہ ادا کر دیا مگر اس کا کچھ حصہ میرے ذمہ باقی رہ گیا ہے اور ابھی تک میں اس مسئلہ کو حل نہیں کرسکا ہوں ،میرا کیا فریضہ ہے ؟

ج۔ صرف فی الحال ادا کرنے سے عاجز ہونا بری الذمہ ہونے کا سبب نہیں ہے بلکہ اس قرض کا ادا کرنا واجب ہے۔ اگرچہ آہستہ آہستہ ادا کرنا پڑے غرض جب بھی امکان ہو ادا کیا جائے۔

س۱۰۶۱۔ کیا میں اس رقم کو ، جو کہ میرے والد نے خمس کے عنوان سے نکالی تھی جبکہ اس پر خمس نہیں تھا ، موجودہ مال کے خمس کا جزء قرار دے سکتا ہوں ؟

ج۔ وہ مال جو زمانہ گزشتہ میں خرچ ہو چکا ہے ، اس کو آج کے خمس کے حساب میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔

س۱۰۶۲۔ کیا ان لڑکوں اور لڑکیوں پر بھی خمس و زکوٰۃ واجب ہے جو ابھی بالغ نہیں ہوئے ہیں ؟

ج۔ زکوٰۃ نابالغ پر واجب نہیں ہے لیکن اگر اس کے مال پر خمس واجب ہو جائے تو اس کے ولی پر اس کا خمس ادا کرنا واجب ہے لیکن نابالغ کے مال سے حاصل شدہ منافع کا خمس ادا کرنا ولی پر واجب نہیں ہے بلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد وہ خود اس کا خمس ادا کرے۔

س۱۰۶۳۔ اگر کوئی شخص رقوم شرعیہ سہم امام علیہ السلام اور ان اموال سے جن کا مصرف کسی مرجع تقلید کی اجازت سے معین ہو چکا ہے ، دینی مدرسہ یا امام بارگاہ بنوائے تو کیا اس شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ اس مال کو جو اس نے اپنے ذمہ واجب حقوق شرعیہ کی ادائیگی کے طور پر خرچ کیا ہے اس کو واپس لے یا اس موسسہ کی زمین کو واپس لے لے جو اس نے دیدی تھی ، یا اس عمارت کو فروخت کرے؟

ج۔ اگر اس نے مدرسہ وغیرہ کی تاسیس میں اپنے ان اموال کو جن کی ادائیگی رقوم شرعیہ کی صورت میں اس پر واجب تھی ایسے مرجع تقلید کی اجازت اور اپنے ذمہ واجب حقوق کی ادائیگی کی نیت سے خرچ کیا ہے جس کو یہ رقوم شرعیہ دینا واجب تھا تو اس کی واپس لینے کا حق نہیں ہے اور نہ اس میں مالک کی طرح تصرف کرنے کا حق ہے۔

                   انفال

س۱۰۶۴۔ شہروں کے قانون اراضی کے مطابق

۱۔ غیر آباد زمینوں کو انفال کو جزء سمجھا جاتا ہے اور یہ اسلامی حکومت کے تحت تصرف ہوتی ہیں۔

۲۔ شہر کی آباد و غیر آباد زمینوں کے مالکوں کے لئے ضروری ہے کہ اپنی ان زمینوں کو جن کی حکومت یا بلدیہ کو ضرورت ہو ، علاقہ کی رائج قیمت پر فروخت کریں۔

اب سوال یہ ہے :

۱۔ اگر کوئی شخص ایسی غیر آباد زمین کو ( جس کا وثیقہ اس کے نام تھا لیکن اس قانون کے مطابق اس وثیقہ کا کوئی اعتبار نہیں رہا سہم امام و سہم سادات کے عنوان سے دیدے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

۲۔ اگر ایک شخص کے پاس کچھ زمین ہے اور حکومت یا بلدیہ کے قانون کے مطابق وہ اسے فروخت کرنے پر مجبور ہے چاہے زمین آباد ہویا نہ ہو لیکن وہ شخص اسے سہم امام و سہم سادات کے عنوان سے دے دیتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ غیر آباد زمین اگر اس شخص کی ملکیت نہیں ہے جس کے نام کا وثیقہ ہے تو اسے خمس کے عنوان سے چھوڑنا صحیح نہیں ہے اور نہ ہی اسے اس خمس میں حساب کرسکتا ہے جو اس کے ذمہ ہے۔ اسی طرح اس مملوکہ زمین کو بھی خمس کے عنوان سے چھوڑنا یا اس کا اپنے ذمہ واجب خمس میں حساب کرنا صحیح نہیں ہے ، جس کو بلدیہ یا حکومت اس کے مالک سے قانون کے مطابق معاوضہ دے کر یا بغیر معاوضہ کے لے سکتی ہے۔

س۱۰۶۵۔ اگر کوئی شخص اینٹ کے کارخانے کے نزدیک اپنے لئے زمین خریدے اور اس کا مقصد یہ ہو کہ اس زمین کی مٹی بیچ کر فائدہ کمائے، تو کیا ایسی زمین انفال میں شمار ہو گی یا نہیں ؟ اور اس فرض پر کہ انفال میں شمار نہ ہو تو کیا حکومت کو حق ہے کہ اس مٹی پر ٹیکس وصول کرے؟ یہ بھی معلوم ہے کہ قانون کے مطابق آمدنی کا دس فیصد شہر کی بلدیہ کو دیا جاتا ہے ؟

ج۔ اگر اس قسم کے ٹیکس کی وصول یابی ایران میں مجلس شورائے اسلامی کے پاس کردہ قانون کے مطابق ہے جس کی شورائے نگہبان نے تصدیق کی ہو تو اس میں اشکال نہیں ہے۔

س۱۰۶۶۔ کیا میونسپل بورڈ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شہر کی تعمیر وغیرہ کے سلسلے میں ندی، نہر کے ریت سے فائدہ اٹھائے اور بصورت جواز اگر ( میونسپل بورڈ کے علاوہ ) کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ یہ میری ملکیت ہے تو ا س دعوے کی سماعت ہو گی یا نہیں ؟

ج۔ میونسپلٹی بورڈ کے لئے اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے اور بڑی نہروں کے احاطہ کی ملکیت کے سلسلہ میں کسی شخص کے دعویٰ کی سماعت نہیں کی جائے گی۔

س۱۰۶۷۔ خانہ بدوش قبائلی لوگوں کو چراگہوں کے تصرف میں جو حق اولویت ہر قبیلے کی اپنی چراگاہ کی نسبت ہوتا ہے ، کیا وہ اس قصد کے ساتھ کوچ کرنے کے باوجود کہ دوبارہ اسی جگہ مراجعت کریں گے ، ختم ہو جاتا ہے ؟ واضح رہے کہ یہ کوچ اور مراجعت دسیوں سال سے اسی طرح رہی ہے اور رہے گی؟

ج۔ حیوانات کی چراگاہ کے سلسلہ میں ان کے کوچ کر جانے کے بعد ان کے لئے شرعی حق اولویت کا ثابت ہونا محل اشکال ہے اور اس سلسلہ میں احتیاط بہتر ہے۔

س۱۰۶۸۔ ایک گاؤں میں چراگاہ اور زرعی زمینوں کی سخت قلت کی وجہ سے اس گاؤں کے عمومی اخراجات چراگہوں کی سبز گہاس فروخت کر کے پورے کئے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے آج تک جاری ہے۔ لیکن مسئولین اب اس کام سے منع کرتے ہیں۔ گاؤں والوں کے فقر اور ناداری اور اسی کے ساتھ چراگہوں کے غیر آباد ہونے کے پیش نظر کیا ، اس گاؤں کی مجلس شوریٰ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ گاؤں والوں کو چراگاہ کی گہاس بیچنے سے منع کر دے اور اس کو گاؤں کے عمومی اخراجات پورے کرنے کے لئے مختص کر دے؟

ج۔ ان عمومی چراگہوں کی گہاس کو فروخت کرنا کسی کے لئے جائز نہیں ہے جو کسی کی شرعی ملکیت نہیں ہیں۔ لیکن جو شخص حکومت کی طرف سے جو گاؤں کے امور کا مسئول ہے وہ گاؤں کی فلاح و بہبود کے لئے اس شخص سے کچھ وصول کرسکتا ہے جسے چراگاہ میں مویشی چرانے کی اجازت دے۔

س۱۰۶۹۔ کیا خانہ بدوش قبائلی سردی اور گرمی کی ان چراگہوں کو ، کہ جہاں وہ دسیوں سال سے گھوم پھر کر آتے ہیں ، اپنی ملکیت بنا سکتے ہیں ؟

ج۔ وہ طبیعی چراگہیں جو ماضی میں کسی کی ملکیت نہیں تھیں وہ انفال اور عمومی اموال میں شامل ہیں اور ولی امر مسلمین کو ان پر اختیار ہے اور وہ خانہ بدوشوں کے وہاں گھوم پھر کر آنے سے ان کی ملکیت نہیں بن سکتی۔

س۱۰۷۰۔ خانہ بدوشوں کی چراگہوں کی خرید و فروخت کب صحیح ہے اور کب صحیح نہیں ہے ؟

ج۔ ان غیر مملوکہ چراگہوں کی خرید و فروخت صحیح نہیں ہے جو انفال اموال عامہ کا جزو ہیں۔

س۱۰۷۱۔ ہم چرواہے ایک جنگل میں مویشی چراتے ہیں۔ پچاس سال سے بھی زیادہ ہمارا یہی پیشہ ہے۔ یہ اس جنگل کی شرعی ملکیت ہونے کی موروثی سند ہمارے پاس موجود ہے اس کے علاوہ یہ جنگل امیرالمومنین (ع)، سید الشہداء اور حضرت ابو الفضل العباس(ع) کے نام وقف ہے ، مویشیوں کے مالک اس جنگل میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور اس میں ان کے گھر زرعی زمینیں اور باغات ہیں لیکن کچھ عرصہ پہلے جنگل کے نگہبان ہمیں وہاں سے نکال کر اس پر قابض ہونا چاہتے ہیں کیا وہ ہمیں اس جنگل سے باہر نکالنے کا حق رکھتے ہیں یا نہیں ؟

ج۔ وقف کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے کہ اس کی شرعی ملکیت پہلے ثابت ہو جیسا کہ میراث کے ذریعہ منتقل ہونا بھی اس بات پر موقوف ہے کہ اس سے پہلے وہ مورث کی شرعی ملکیت ہو پس جنگل اور قدرتی چراگہیں جو کسی کی ملکیت نہیں ہیں اور اس سے پہلے نہیں کسی نے زندہ و آباد نہیں کیا ہے اور نہ وہ کسی کی ملکیت رہی ہیں کہ ان کا وقف صحیح ہو یا وہ میراث قرار پائیں۔ بہر حال جنگل کا وہ حصہ جو کھیت یا مسکن کی صورت میں یا ان سے مشابہ کسی صورت میں آباد ہے اور وہ شرعی لحاظ سے ملکیت بن گیا ہے۔ اگر وہ وقف ہے تو شرعی لحاظ سے متولی کو اس میں تصرف کا حق ہے لیکن جنگل و چراگاہ کا وہ حصہ جو قدرتی جنگل یا چراگاہ ہے تو وہ اموال عامہ میں سے ہے اور انفال ہے اور قانون کے مطابق وہ اسلامی حکومت کے اختیار میں ہے۔

س۱۰۷۲۔ کیا مویشیوں کے ان مالکوں کا جن کے پاس جانوروں کو چرانے کی اجازت ہے ، ایسے آباد کھیتوں میں ، جو چراگہوں سے ملحق ہیں ، خود کو اور مویشیوں کو کھیت کے پانی سے سیراب کرنے کے لئے مالک کی اجازت کے بغیر کھیت میں اترنا جائز ہے ؟

ج۔ صرف چراگہوں میں چرانے کی اجازت ہونا دوسروں کی ملکیت میں وارد ہو کر ان کے پانی سے سیراب ہونے کے جواز کے لئے کافی نہیں ہے پس مالک کی اجازت کے بغیر ان کو ایسا کرنا جائز نہیں۔


کتاب جہاد

س۱۰۷۳۔ امام معصوم (ع) کی غیبت کے زمانہ میں ابتدائی جہاد کا کیا حکم ہے ؟ اور کیا فقیہ جامع الشرائط اور نافذ کلمہ ( ولی امر مسلمین) کے لئے جائز ہے کہ جہاد کا حکم دے؟

ج۔ بعید نہیں کہ وہ جامع الشرائط مجتہد جو ولی امر مسلمین ہو جب یہ سمجھے کہ مصلحت کا تقاضہ یہی ہے تو جہاد ابتدائی کے جواز کا حکم دیدے بلکہ یہ قول اقویٰ ہے۔

س۱۰۷۴۔ جب اسلام خطرے میں ہو تو والدین کی اجازت کے بغیر اسلام کے دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ہونے کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ اسلام و مسلمین کا دفاع واجب ہے اور والدین کی اجازت پر موقوف نہیں ہے لیکن اس کے باوجود جہاں تک ہوسکے والدین کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرے۔

س۱۰۷۵۔ کیا ان اہل کتاب پر ، جو اسلامی ملکوں میں زندگی گزارتے ہیں ، کافر ذمی کا حکم جاری ہو گا؟

ج۔ جب تک وہ اس اسلامی حکومت کے قوانین و احکام کے پابند ہیں جس میں زندگی بسر کرتے ہیں اور کوئی ایسا کام نہ کریں جو امان کے خلاف ہو تو ان کا وہی حکم ہے جو کافر ذمی کا ہے۔

س۱۰۷۶۔ کیا کوئی مسلمان اسلامی یا غیر اسلامی ممالک میں کسی اہل کتاب یا غیر اہل کتاب کافر مرد یا عورت کو اپنی ملکیت بنا سکتا ہے ؟

ج۔ ملکیت بنانا جائز نہیں ہے لیکن جنگی قیدیوں کا فیصلہ جب بالفرض کفار نے اسلامی شہروں پر حملہ کیا ہو ، حاکم اسلام کے ہاتھ میں ہے اور عامہ مسلمین کو اس کا حق نہیں ہے۔

س۱۰۷۷۔ اگر ہم یہ فرض کریں کہ اسلام ناب محمدی کی حفاظت ایک محترم النفس انسان کے قتل پر موقوف ہے تو کیا ہم اسے قتل کرسکتے ہیں ؟

ج۔ محترم نفس کا خون ناحق بھانا شرع کے لحاظ سے حرام اور اسلام ناب محمدی کے احکام کے خلاف ہے ،اس بنا پر ایسا قول بے معنی ہے کہ اسلام ناب محمدی کا تحفظ ایک نیک شخص کے قتل پر موقوف ہے لیکن اگر خون بھنے سے یہ مراد ہو کہ مکلف نے جہاد فی سبیل اللہ اور اسلام ناب محمدی کے دفاع کے لئے ان حالات میں قیام کیا ہے جن میں اس کے قتل کا احتمال ہو ، تو اس کے مختلف پھلو ہیں ،پس جب مکلف یہ محسوس کرے کہ مرکز اسلام خطرہ میں ہے تو اس وقت اس پر واجب ہے کہ وہ اسلام کا دفاع کرنے کے لئے قیام کرے اگرچہ اس میں اسے اپنے قتل ہو جانے کا خوف ہی ہو۔


کتاب امر بالمعروف و نہی عن المنکر

                   امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے واجب ہونے کے شرائط

س۱۰۷۸۔ ایسی جگہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کیا حکم ہے  جہاں اچھائی کو ترک کرنے والے برائی کو انجام دینے والے کی لوگوں کے سامنے اہانت ہوتی ہے  اور اس کی حیثیت گھٹتی ہو۔

ج۔ جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے شرائط اور آداب کی رعایت کی جائے اور ان کے حدود سے تجاوز نہ ہو تو پھر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والا بری ہے۔

س۱۰۷۹۔ اسلامی حکومت کے سایہ میں ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی رو سے لوگوں پر واجب ہے  کہ وہ صرف زبان سے امر و نہی کریں اور اس کے دوسرے مراحل کی ذمہ داری حکومت کے عہدہ داروں پر عائد ہوتی ہیں ، پس کیا یہ نظریہ حکومت کا حکم ہے  یا فتویٰ ہے۔

ج۔ فقہی فتویٰ ہے۔

س۱۰۸۰۔ کیا وہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی طرف حاکم کی اجازت کے بغیر سبقت کرنا جائز ہے  جہاں برائی اور اس کے انجام دینے والے کو برائی سے روکنے ہاتھ  سے مارنے یا قید کرنے یا اس پر دباؤ ڈالنے یا اس کے اموال پر تصرف کرنے پر خواہ ان اموال کو تلف ہی کرنا پڑے، منحصر و موقوف ہو؟

ج۔ یہ موضوع مختلف حالات و موارد کا حامل ہے  عام طور پر جہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراتب فعل بد انجام دینے والے کے نفس و اموال کے تصرف پر موقوف نہ ہوں تو وہاں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں  ہے  بلکہ یہ تو ان چیزوں میں سے ہے  جو تمام مکلفین پر واجب ہے  لیکن وہ مواقع جن میں صرف زبانی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے کام نہ چلے بلکہ کوئی عملی اقدام بھی کرنا پڑے تو یہ حالت اگر ایسے شہر میں ہو جہاں اسلامی نظام و حکومت ہے  تو جس کے ذمہ اس اسلامی فریضہ کی انجام دہی ہو اس وقت یہ امر حاکم کی اجازت اور وہاں اس امر کے مخصوص عہدہ داران پولیس اور اس سے متعلق پر موقوف ہو گا۔

س۱۰۸۱۔ جب امر و نہی بہت ہی ہم  امور پر موقوف ہو جیسے نفس محترمہ کی حفاظت میں ایسی ماڈریٹ ہو جائے جو زخمی ہو جانے یا قتل کا سبب ہو جائے تو کیا ایسے موقعوں پر بھی حاکم کی اجازت شرط ہے ؟

ج۔ اگرنفس محترمہ کا تحفظ اور اسے قتل ہونے سے روکنا فوری ذاتی مداخلت پر موقوف ہو تو جائز ہے  بلکہ شرعاً واجب ہے  اس لئے کہ وہ ایک نفس محترمہ کا دفاع ہے  اور واقع کے لحاظ سے یہ حاکم کی اجازت پر متوقف نہیں  ہے  اور نہ ہی اس بارے میں کسی حکم کی حاجت ہے۔ مگر یہ کہ اگر نفس محترمہ کا دفاع حملہ آور کے قتل پر موقوف ہو تو اس کی مختلف صورتیں ہیں  اور بسا اوقات ان کے احکام بھی مختلف ہوتے ہیں۔

س۱۰۸۲۔ جو شخص دوسرے کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہے  کیا اس کے لئے واجب ہے  کہ ایسا کرنے کی قدرت رکھتا ہو؟ اور ایک شخص پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کب واجب ہوتا ہے ؟

ج۔ امر و نہی کرنے والے پر واجب ہے  کہ وہ اچھائی اور برائی کا علم رکھتا ہو اور یہ بھی جانتا ہو کہ انجام دینے والا بھی معروف و منکر کو جانتا ہے  لیکن اس کے باوجود کسی شرعی عذر کے بغیر  جان بوجھ کر اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ اس صورت میں اگر اس بات کا احتمال پایا جائے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اس شخص پر اثر ہو گا اور ناصح خود ضرر خاص سے محفوظ رہے  گا اس کے علاوہ متوقع ضرر اور جس کا امر کر رہا ہے  یا جس چیز سے منع کر رہا ہے  اس کی اہمیت کا موازنہ نہ کرنے کے بعد ہی امر بالمعروف و نہی عن ا المنکر واجب ہے  ورنہ واجب نہیں۔

س۱۰۸۳۔ اگر کوئی رشتہ دار گناہوں میں آلودہ اور ان سے بے پرواہ ہو تو اس کے ساتھ صلہ رحم کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ اگر یہ احتمال ہو کہ صلہ رحم نہ کرنے سے وہ گناہ سے کنارہ کش ہو جائے گا تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ضمن میں ایسا کرنا واجب ہے  ورنہ قطع رحم کرنا جائز نہیں  ہے۔

س۱۰۸۴۔کیا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اس خوف کی بنا پر ترک کیا جا سکتا ہے  کہ اسے ملازمت سے ہٹا دیا جائے گا ؟ مثلاً آج کل کے ماحول میں تعلیمی مراکز کا کوئی عہدہ دار جو ان طلبہ سے منافی شرع تعلقات قائم کرے یا اس جگہ معصیت کے ارتکاب کی زمین ہم وار کرتا ہو؟

ج۔ عام طور پر جہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلہ میں سبقت کرنے سے ضرر کا خوف ہو تو وہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب نہیں  ہے۔

س۱۰۸۵۔ اگر سماج کے بعض حلقوں میں نیکیاں متروک اور برائیاں معمولی ہوں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے حالات مناسب اور فراہم  ہوں لیکن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والا غیر شادی شدہ ہو تو کیا اس وجہ سے اس پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا ساقط ہو گا یا نہیں ؟

ج۔ جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا موضوع ہے  اور اس لئے شرائط متحقق ہو جائیں تو اس وقت یہ دونوں شرعی ، انسانی و اجتماعی لحاظ سے تمام مکلفین پر واجب ہیں  اس میں مکلف کے شادی شدہ یا کنوارے ہونے میں کوئی دخل نہیں  ہے  اور اس سے صرف اس بنا پر تکلیف ساقط نہیں  ہو گی کہ وہ غیر شادی شدہ ہے۔

س۱۰۸۶۔ اگرکسی ایسے شخص میں جو طاقت و قدرت والا ہو اور اس کے ارتکاب گناہ و منکر اور دروغ گوئی کے شواہد موجود ہوں۔ لیکن ہم  اس کی طاقت و سوطت سے ڈرتے ہوں تو کیا ہم  اس کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے صرف نظرکرسکتے ہیں  ؟ یا ضرر کے خوف کے باوجود ہمارے اوپر واجب ہے  کہ اس کو اچھائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں ؟

ج۔ اگر عقلاً ضرر کا خوف ہو تو اس خوف کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا واجب نہیں  ہے  بلکہ اس سبب سے آپ پر سے یہ تکلیف ساقط ہے ، لیکن آپ میں سے کسی کے لئے یہ جائز نہیں  ہے  کہ وہ اپنے مومن بھائی کو وعظ و نصیحت کرنا چھوڑ دے صرف نیکیوں کو چھوڑنے والے اور برائیوں کا ارتکاب کرنے والے کے مقام و رتبہ کو دیکھ کر یا کسی بھی قسم کے ضرر کے احتمال کی بنا پر فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ترک نہیں  کیا جا سکتا۔

س۱۰۸۷۔ بعض مواقع پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے یہ اتفاق پیش آتا ہے  کہ جب کسی شخص کو کسی بری بات سے منع کیا جاتا ہے  تو وہ اسلام سے بد ظن ہو جاتا ہے  اور ایسا اس لئے ہوتا ہے  کہ اسے اسلام کے احکام و واجبات کی معرفت نہیں  ہوتی اور اگر ہم  اسے یوں ہی چھوڑ دیں تو وہ دوسروں کے لئے ارتکاب معاصی کی زمین ہم وار کرتا ہے  تو ایسی صورت میں ہمارا کیا فریضہ ہے ؟

ج۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنے شرائط کے ساتھ تحفظ اسلام اور معاشرہ کی سلامتی کے لئے تکلیف شرعی سمجھا جاتا ہے  اور صرف اس توہم  سے کہ اس عمل سے بعض لوگ اسلام سے بد ظن ہوسکتے ہیں  ، اس ہم  تکلیف کو ترک نہیں  کیا جا سکتا۔

س۱۰۸۸۔ جب فساد کو روکنے کے لئے حکومت اسلامی کی طرف سے مامور اشخاص اپنے فرائض انجام نہ دیں تو کیا اس وقت عام لوگ فساد کا سد باب کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوسکتے ہیں ؟

ج۔ وہ امور جو عدلیہ و امن عامہ کے محکمہ کی ذمہ داری مانے جاتے ہیں  ان میں انفرادی مداخلت و تصرف جائز نہیں  ہے۔ لیکن عام لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے شرائط و حدود کے اندر رہ کر اپنی ذمہ داری پوری کرسکتے ہیں۔

س۱۰۹۸۔کیا  امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں عام لوگوں پر صرف اتنا ہی واجب ہے  کہ زبان سے امر و نہی کریں ؟ اگر ان کے لئے فقط اتنا ہی واجب ہے  کہ محض زبان کے ذریعہ یاد دہانی کر دیں تو یہ توضیح المسائل خصوصاً تحریر الوسیلہ میں بیان شدہ احکام کے منافی ہے  اور اگر ضرورت کے وقت وہ دوسرے طریقوں کو اختیار کرسکتے ہیں  تو کیا ضرورت کے وقت وہ ان تمام تدریجی مراتب کو اختیار کرسکتے ہیں  جو تحریر الوسیلہ میں مذکور ہیں ؟

ج۔ اسلامی حکومت کے دور میں ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراحل میں سے زبانی اور امر و نہی کے بعد والے طریقوں کو انتظامیہ اور عدلیہ کے سپرد کیا جا سکتا ہے  خصوصاً ان مواقع پر جہاں برائی کو روکنے کے لئے طاقت کے استعمال کی ضرورت ہے  ، مثلاً جہاں برا کام کرنے والے کے اموال پر تصرف کرنے، اس شخص پر تعزیر جاری کرنے یا اسے قید کرنے کے لئے طاقت کا استعمال ضروری ہو لہذا مکلّفین پر واجب ہے  کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں صرف زبانی امر و نہی پر اکتفا کریں اور ضرورت پڑ نے پر اس امر کو انتظامیہ و عدلیہ کے عہدہ داروں کے سپرد کر دیں اور یہ چیز امام خمینی (رح)  کے فتوے کے منافی نہیں  ہے  لیکن جس زمان و مکان میں اسلامی حکومت کا تسلّط و نفوذ ہو تو ایسے حالات میں مکلفین پر واجب ہے  کہ ( جب شرائط فراہم  ہوں ) وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو تدریجی مراحل سے انجام دیں۔ یہاں تک کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی غرض حاصل ہو جائے۔

س۱۰۹۰۔ بعض ڈرائیور موسیقی اور گانے کی ایسی کیسٹیں چلاتے ہیں  جن پر حرام کے حکم کا اطلاق ہوتا ہے  وہ نصیحت و ہدایت کے باوجود ٹیپ ریکارڈ بند نہیں  کرتے،امید ہے  کہ آپ حکم بیان فرمائیں گے کہ اس زمانہ میں ایسے افراد سے کیا سلوک کیا جائے اور کیا زور و طاقت سے ایسے افراد کو روکا جائے یا نہیں ؟

ج۔ جب نہی عن المنکر کے شرائط موجود ہوں اس وقت زبانی نہی سے زیادہ آپ پر کوئی چیز واجب نہیں  ہے۔ اگر آپ کی بات کا اثر نہ ہو تو حرام موسیقی اور گانے کو سننے سے اجتناب کریں اور اس کے باوجود آواز آپ کے کان تک پہنچتی ہے  تو آپ کوئی گناہ نہیں  ہے۔

س۱۰۹۱۔ میں ایک ہسپتال میں تیمار داری کے مقدس کام میں مشغول خدمت ہوں۔ کبھی بعض مریضوں کو حرام و رکیک ( موسیقی کے ) کیسٹ سنتے ہوئے دیکھتا ہوں تو انہیں  اس سے باز رہنے کی نصیحت کرتا ہوں اور جب دو تین مرتبہ کہنے کا اثر نہیں  ہوتا تو ٹیپ ریکارڈ سے کیسٹ نکال کر اس میں جو چیز ٹیپ ہوتی ہے  اسے محو کر کے کیسٹ واپس کر دیتا ہوں۔ امید ہے  کہ مجھے  اس بات سے مطلع فرمائیں کہ کیا یہ کام جائز ہے  یا نہیں ؟

ج۔ حرام چیز سے فائدہ اٹھانے سے روکنے کی غرض سے کیسٹ سے باطل چیز کو محو کرنے میں کوئی مانع نہیں  ہے  لیکن یہ فعل کیسٹ کے مالک یا حاکم شرع کی اجازت پر موقوف ہے۔

س۱۰۹۲۔ بعض گھروں سے موسیقی کی کیسٹ کی آوازیں سنائی دیتی ہیں  جن کے بارے میں یہ معلوم نہیں  کہ جائز ہیں  یا نا جائز اور بعض مرتبہ ان کی آواز اتنی اونچی ہوتی ہے  جس سے مومنین کو اذیت ہوتی ہے  اس سلسلہ میں ہماری کیا ذمہ داری ہے ؟

ج۔ لوگوں کے گھروں کے اندر کی چیزوں سے تعرض جائز نہیں  ہے  اور نہی عن المنکر کرنا موضوع کی تعیین اور شرائط کے موجود ہونے پر موقوف ہے۔

س۱۰۹۳۔ ان عورتوں کو امر و نہی کرنے کا کیا حکم ہے  جن کا حجاب ناقص ہے ؟ اور اگر ان کو زبان سے امر و نہی کرتے وقت شہوت کے ابھرنے کا خوف ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ نہی عن المنکر صرف اجنبی عورت کو شہوت کی نظر سے دیکھنے پر ہی موقوف نہیں۔ حرام سے اجتناب کرنا ہر مکلف پر واجب ہے  خصوصاً نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے وقت۔

                   امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا طریقہ

س۱۰۹۴۔ بیٹے کا ماں کے سلسلہ میں اور زوجہ کا شوہر کے بارے میں کیا حکم ہے  جب وہ اپنے اموال کا خمس و زکوٰۃ نہ دیتے ہیں ؟ اور کیا بیٹا والدین اور زوجہ شوہر کے اس مال میں تصرف کرسکتے ہیں  جس کا خمس یا زکوٰۃ نہ دی گئی ہو اس بنا پر کہ یہ مال حرام سے مخلوط ہے  ،اس کے علاوہ اس مال سے استفادہ نہ کرنے کے سلسلہ میں بزرگان دین کی تاکیدیں وارد ہوئی ہیں کیونکہ حرام مال سے روح کو زنگ لگتا ہے ؟

ج۔ بیٹا اور زوجہ جب والدین اور شوہر کو نیکی کو ترک اور برائی کو انجام دیتے ہوئے دیکھیں  تو انہیں  امر بالمعروف کریں اور برائیوں سے روکیں اور یہ اس وقت ہے  جب شرائط فراہم  ہوں ، البتہ ان کے اموال میں سے خرچ کر رہے  ہیں  اس پر خمس یا زکوٰۃ واجب الادا ہے  تو ایسی صورت میں ان پر واجب ہے  کہ ولی امر خمس سے اس مقدار میں تصرف کی اجازت لیں۔

س۱۰۹۵۔ جو والدین دینی تکالیف پر کامل اعتقاد نہ رکھنے کی بنا پر انہیں  اہمیت نہ دیتے ہوں  ان کے ساتھ بیٹے کو کیا سلوک روا رکھنا چاہئیے؟

ج۔ بیٹے پر واجب ہے  کہ والدین کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے نرم لہجہ میں ان دونوں کو نیکی کی تلقین کرے اور برائی سے منع کرے۔

س۱۰۹۶۔ میرا بھائی شرعی اور اخلاقی امور کی رعایت نہیں  کرتا اور آج تک اس کی کسی نصیحت نے اثر نہیں  کیا ہے  جب میں اس میں اس حالت کا مشاہدہ کروں تو میرا کیا فریضہ ہے ؟

ج۔ جب وہ شریعت کے خلاف کوئی کام کریں تو آپ کو ان سے ناراضگی کا اظہار کرنا چاہئیے اور برادرانہ رفتار سے معروف اور منکر کا تذکرہ کرنا چاہئیے جس کو آپ مفید و بہتر سمجھتے ہوں لیکن ان سے قطع رحم کرنا صحیح نہیں  کیونکہ یہ جائز نہیں  ہے۔

س۱۰۹۷۔ ان لوگوں سے کیسے تعلقات ہونا چاہئیے جو ماضی میں حرام افعال ، جیسے شراب خواری کے مرتکب ہوئے ہوں ؟

ج۔ معیار لوگوں کی موجودہ حالت ہے  اگر انہوں نے ان چیزوں سے توبہ کر لی ہے  جن کے وہ مرتکب ہوئے تھے  تو ان کے ساتھ ویسے ہی تعلقات رکھے  جائیں جیسے دیگر مومنین کے ساتھ لیکن جو شخص حال میں حرام کام کا مرتکب ہوتا ہے  تو اسے نہی عن المنکر کے ذریعہ اس کام سے روکنا واجب ہے  اور اگر وہ سوشل بائیکاٹ کے علاوہ کسی طرح حرام کام سے باز نہ آئے تو اس وقت اس کا بائیکاٹ اور اس سے قطع تعلق واجب ہے۔

س۱۰۹۸۔ اخلاق اسلامی کے خلاف مغربی ثقافت کے پے در پے حملوں اور غیر اسلامی عادتوں کی ترویج کے پیش نظر جیسے بعض لوگ گلے میں سونے کی صلیب پہنتے ہیں۔ یا بعض عورتیں شوخ رنگ کے مانتو پہنتی ہیں  یا بعض مرد و عورتیں پہنتی ہیں۔ یا جاذب نظر گھڑیاں پہنتے ہیں  جسے عرف عام میں برا سمجھا جاتا ہے  اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بعد بھی ان میں سے بعض اس پر مصر رہتے ہیں۔ امید ہے  کہ آپ کوئی ایسا طریقہ بیان فرمائیں گے جو ایسے لوگوں کے لئے بروئے کار لایا جائے؟

ج۔ سونا پہننا یا اسے گردن میں ڈالنا مردوں پر مطلقاً حرام ہے  اور ایسے کپڑے کی ردا ڈالنا بھی جائز نہیں  ہے  جو سلائی ، رنگ یا کسی اعتبار سے بھی غیر مسلم غارت گروں کی تہذیب کے فروغ اور ان کی تقلید کے معنی میں ہو اور اسی طرح ان کنگنوں اور فیشنی عینکوں کا استعمال بھی جائز نہیں  ہے  جو دشمنان اسلام و مسلمین کی ثقافت و تہذیب کی تقلید تصور کئے جاتے ہیں  اور ان چیزوں کے مقابلہ میں دوسروں پر واجب ہے  کہ وہ زبان کے ذریعہ نہی عن المنکر کریں۔

۱۰۹۹۔ ہم  بعض حالات میں یونیورسٹی کے طالب علموں یا ملازموں کو برا کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں  یہاں تک کہ وہ ہدایت و نصیحت کے بعد بھی اس سے باز نہیں  آتے بلکہ اس کے بر خلاف اپنی برائی کو جاری رکھنے پر مصر رہتے ہیں  اور یہ پوری یونیورسٹی میں فساد کا سبب بنتا ہے۔ آپ کا حکم اس بارے میں کیا ہے  کہ اگر ان کی ان حرکتوں کو موثر دفتری قوانین کے ذریعہ روکا جائے ، مثلاً ان کے سروس بک میں درج کیا جائے۔

ج۔ یونیورسٹی کے داخلی نظام کی رعایت کے ساتھ اس میں کوئی اشکال نہیں  ہے۔ پیارے جوانوں کے لئے ضروری ہے  کہ وہ مسئلہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو سنجیدگی سے اختیار کریں اور اس کے شرائط و احکام کو صحیح طریقہ سے سیکھیں  ، اس کو فروغ دیں اور اس طرح اخلاقی اور موثر طریقے اختیار کریں ، لوگوں کو نیکیوں کی ترغیب دیں ، برائیوں کی نہیں  ، لیکن اس سے ذاتی فائدہ حاصل کرنے سے بچیں ، انہیں  معلوم ہونا چاہئیے کہ نیکیوں کے فروغ اور برائیوں کے سد باب کا بہترین طریقہ یہی ہے۔ ’ وفقکم اللہ تعالیٰ المرضاتہ ‘ خدا آپ کو اپنی رضا کی توفیق عطا فرمائے۔

س۱۱۰۰۔ کیا نا مشروع کام کرنے والے کے سلام کا جواب اس کو اس فعل سے باز رکھنے کی غرض سے نہ دینا جائز ہے ؟

ج۔ اگر عرف عام میں اس عمل پر نا مشروع کام سے روکنے کا اطلاق ہوتا ہو تو نہی عن المنکر کے قصد سے سلام کا جواب نہ دینا جائز ہے۔

س۱۱۰۱۔ اگر ذمہ داروں کے نزدیک یقینی طور پر یہ ثابت ہو جائے کہ دفتر کے بعض ارکان سھل انگاری سے کام لیتے ہیں  یا تدارک الصلوٰۃ ہیں  اور ان کو وعظ و نصیحت کرنے کے بعد نا امید ہو گئے ہیں  تو ایسے افراد کے بارے میں ان کا کیا فریضہ ہے ؟

ج۔ انہیں  امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تاثیر سے غافل نہیں  رہنا چاہئیے اگر وہ اس کے شرائط کے ساتھ پے در پے انجام دیں گے تو اس کا اثر یقینی ہے  اور جب وہ اس بات سے مایوس ہو جائیں کہ ان پر امر بالمعروف کا اثر نہیں  ہو گا، تو اگر کوئی قانون ایسا ہو جو ایسے اشخاص کو مراعات سے محروم کر دے تو ان کو مراعات سے محروم کر دینا واجب ہے  اور انہیں  یہ بتا دیں کہ یہ قانون تمھارے اوپر اس لئے نافذ کیا گیا ہے  کہ تم فریضہ الہی کو سبک سمجھتے ہو۔

                   متفرقات

  س۱۱۰۲۔ میری بہن نے کچھ عرصہ پہلے ایک بے نمازی سے شادی کر لی ہے  چونکہ وہ ہمارے ساتھ ہی رہتا ہے  لہذا میں اس سے گفتگو اور معاشرت پر مجبور ہوں بلکہ اکثر اس کے کہنے پر بعض کاموں میں اس کی مدد کرتا رہتا ہوں پس کیا شریعت کی رو سے اس سے گفتگو و معاشرت اور بعض کاموں میں اس کی مدد کرنا جائز ہے ؟

ج۔ اس سلسلہ میں آپ کے اوپر صرف یہ ہے  کہ جب بھی اس کے وجوب کے حالات اور شرائط موجود ہوں تو آپ متواتر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہیں  اور آپ کی مدد معاشرت اسے ترک نماز پر جبری نہ بنائے تو اس کی مدد کرنے میں کوئی اشکال نہیں  ہے۔

س۱۱۰۳۔ اگر ظالموں اور حاکم جور کے پاس علمائے اعلام کی آمدو رفت و معاشرت سے ان کے ظلم میں کمی واقع ہوتی ہو تو کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟

ج۔ اگر ایسے حالات میں عالم پر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کا ظالم کے پاس آنا جانا ظالم کو ظلم کے ترک کرنے اور منکرات سے روکنے میں موثر ہو گا۔ یا کوئی ایسا مسئلہ ہو جس کو اہمیت دینا واجب ہو تو اس صورت میں اس میں کوئی اشکال نہیں۔

س۱۱۰۴۔ میں نے چند سال قبل شادی کی ہے  اور میں دینی امور اور شرعی مسائل کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہوں اور امام خمینی  (رح) کا مقلد ہوں مگر میری زوجہ دینی مسائل کو اہمیت نہیں  دیتی، بعض اوقات ، ہماری بہم ی بحث و نزاع کے بعد وہ ایک مرتبہ نماز پڑھ  لیتی ہے  مگر زیادہ تر نہیں  پڑھتی ہے  جس سے مجھے  بہت دکہ ہوتا ہے  ایسی صورت میں میرا کیا فریضہ ہے ؟

ج۔ آپ پر اس کی اصلاح کے اسباب فراہم  کرنا واجب ہے  خواہ کسی بھی طریقہ سے ہوں اور ایسی خشونت سے پرہیز ضروری ہے  جس سے بد خلقی اور عدم نظم و نسق کی بو آتی ہے۔ لیکن آپ کی یاد دھانی کے لئے عرض ہے  کہ دینی مجالس میں شرکت کرنا اور دین دار خاندانوں کے یہاں آنا جانا اصلاح میں بڑا موثر ہے۔

س۱۱۰۵۔ اگر ایک مسلمان قرائن کی مدد سے اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس کی زوجہ ، چند بچوں کی ماں ہونے کے باوجود ، پوشیدہ طور پر ایسے افعال کا ارتکاب کرتی ہے  جو عفت کے خلاف ہیں  لیکن اس موضوع کے اثبات پر اس کے پاس کوئی شرعی دلیل نہیں  ہے۔ مثلاً گواہی دینے کے لئے گواہ نہیں  ہے  تو شرعاً اس عورت کے ساتھ انسان کیسا سلوک کرے ؟ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ بچے اسی کے زیر سایہ پرورش پائیں گے اور اگر وہ شخص یا اشخاص ، جو کہ ایسے قبیح اور احکام خدا کے برخلاف افعال کے مرتکب ہوتے ہیں ، پہچان لئے جائیں تو ان کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئیے؟ واضح رہے  کہ ان کے خلاف ایسی دلیلیں نہیں  ہیں  جنہیں  شرعی عدالت میں پیش کیا جا سکے؟

ج۔ ظنی قرائن و شواہد کے ذریعہ پیدا ہونے والے سوء ظن سے اجتناب واجب ہے  اور اگر محرمات شرعی کا وقوع ثابت ہو جائے تو اسے وعظ و نصیحت اور نہی عن المنکر کے ذریعہ اس فعل سے روکنا واجب ہے  اور اگر نہی عن المنکر کا اس پر کوئی اثر نہ ہو تو اس وقت وہ عدلیہ سے رجوع کرسکتا ہے  بشرطیکہ اس کے پاس ثبوت موجود ہو۔

س۱۱۰۶۔ کیا لڑکی کے لئے جائز ہے  کہ وہ جوان کو نصیحت اور راہنمائی کرے اور تعلیم وغیرہ میں موازین شرعیہ کی رعایت کے التزام کے ساتھ اس کی مدد کرے؟

ج۔ مفروضہ سوال میں کوئی مانع نہیں  ہے  لیکن شیطانی وسوسوں اور بہکانے والی باتوں سے پرہیز ضروری ہے  اور اس سلسلہ میں شرع کے احکام کی رعایت کرنا، جیسے اجنبی کے ساتھ تنہا نہ رہنا واجب ہے۔

س۱۱۰۷۔ مختلف اداروں اور دفاتر کے ان ماتحت ملازمین کی تکلیف کیا ہے  جو کبھی کبھی اپنے دفاتر میں اپنے افسران بالا سے اداری اور شرعی مخالفت دیکھیں  ؟ اور کیا اس شخص سے اس جگہ تکلیف ساقط ہے  جب اس بات کا اندیشہ ہو کہ اگر وہ نہی عن المنکر کرے گا تو اسے افسران بالادست سے نقصان پہنچے گا؟

ج۔ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے شرائط موجود ہوں تو انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہئیے ورنہ اس سلسلہ میں ان کے اوپر کوئی شرعی ذمہ داری نہیں  ہے۔ اسی طرح اگر انہیں  اس سے ضرر کا خوف ہو تو بھی ان سے تکلیف ساقط ہے  یہ اس جگہ کا حکم ہے  جہاں اسلامی حکومت کا نظام نافذ نہ ہو لیکن جہان اسلامی حکومت ہو اور وہ اس فریضہ کو اہمیت دیتی ہو تو اس وقت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے عاجز شخص پر واجب ہے  کہ اس سلسلہ میں حکومت نے جو مخصوص ادارے سے قائم کئے ہیں  ان کو اطلاع دے تاکہ فساد و مفسدین کی بیخ کنی تک چارہ جوئی کی جائے۔

س۱۱۰۸۔ اگر کسی ادارہ کے بیت المال میں غبن اور چوری ہو جائے اور یہ سلسلہ جاری ہو اور وہاں ایک ایسا شخص موجود ہو جو خود کو اس لائق سمجھتا ہے  کہ اگر یہ ذمہ داری اس کے سپرد کر دی جائے تو اس کی اصلاح کرسکے گا اور یہ ذمہ داری اسے اس وقت تک نہیں  ملے گی جب تک وہ اسے لینے کے لئے بعض مخصوص افراد کو رشوت نہ دے تو کیا بیت المال کو دست برد سے بچانے کے لئے رشوت دینا جائز ہے  ؟ درحقیقت یہ بڑی بد عنوانی کو چھوٹی بدعنوانی کے ذریعہ ختم کرنا ہے ؟

ج۔ جو اشخاص اس بات سے باخبر ہیں  کہ شریعت کی مخالفت ہو رہی ہے  ، ان پر واجب ہے  کہ وہ نہی عن المنکر کے شرائط و ضوابط کا لحاظ کرتے ہوئے نہی عن المنکر کریں اور کسی کام کی ذمہ داری خود سنبھالنے کے لئے اگرچہ وہ مفاسد کو روکنے ہی کی غرض سے ہو، رشوت دینا اور غیر قانونی اختیار کرنا جائز نہیں  ہے۔ ہاں اگر یہ چیزیں اس شہر میں فرض کی جائیں جہاں اسلامی حکومت ہو تو وہاں کے لوگوں سے یہ واجب صرف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے عاجز ہونے کی بنا پر ساقط نہیں  ہو گا بلکہ وہاں واجب ہے  کہ حکومت کے قائم کردہ محکمہ کو اطلاع دے۔

س۱۱۰۹۔ کیا منکرات ، نسبی امور میں سے ہیں  تاکہ یونیورسٹیوں کے موجودہ ماحول کا باہر کے فاسد ماحول سے موازنہ کیا جائے اور اس طرح بعض منکرات سے نہی نہ کی جائے اور نہ ان سے روکا جائے، اس لئے کہ ان کو حرام اور منکر نہیں  قرار دیا جاتا؟

ج۔ نا مشروع اور برے افعال ، برے ہونے کی حیثیت سے نسبی نہیں  ہیں۔ البتہ جب بعض برے افعال کا دوسرے قبیح افعال سے موازنہ کیا جائے گا تو کچھ زیادہ ہی قبیح و حرام ثابت ہوں گے۔ بہر حال اس شخص پر نہی عن المنکر کرنا واجب ہے  جس کے لئے شرائط فراہم  ہوں ، اور اس کو ترک کرنا اس کے لئے جائز نہیں  ہے  اور اس سلسلہ میں برے افعال کے درمیان کوئی فرق نہیں  ہے  اور نہ ہی یونیورسٹی کے ماحول کو دوسرے ماحول سے اس لحاظ سے جدا کیا جا سکتا ہے ؟

س۱۱۱۰۔ الکحل والے ایسے مشروبات کا کیا حکم ہے  جو ان اجنبیوں کے پاس پائے جاتے ہیں  جو اسلامی ممالک کے بعض اداروں میں ملازمت کے لئے آتے ہیں  اور انہیں  وہ اپنے گھروں میں یا ان جگہوں پر پیتے ہیں  جو ان کے لئے مخصوص ہیں ؟ اور اسی طرح ان کے خنزیر کا گوشت لانے اور اسے کھانے کا کیا حکم ہے  ؟ اور جو صفت اور اقدار انسانی کے خلاف اعمال کا ارتکاب کرتے ہیں  ان کا کیا حکم ہے ؟ کارخانہ کے ذمہ داروں اور ان اجنبیوں کا ساتھ کام کرنے والوں کی تکلیف کیا ہے ؟ ایسی حالت میں ہم  کیا قدم اٹھائیں جبکہ مربوط ادارے اور کارخانوں کے ذمہ دار افراد اطلاع کے بعد بھی اس بارے میں کسی قسم کی کاروائی نہ کریں ؟

ج۔ ان کے ذمہ دار حکام پر واجب ہے  کہ ان لوگوں کو کھلے عام ایسے امور جیسے شراب خواری اور حرام گوشت کھانے سے منع کریں اسی طرح لوگوں کے سامنے ان اشیاء کا حمل و نقل نہ کریں ، لیکن جو امور عفت عامہ کے خلاف ہیں  انہیں  انجام دینے کی انہیں  اجازت نہیں  ہے  بہر حال اس سلسلہ میں ان کے لئے قانون کا اجراء ان ہی عہدیداروں کے توسط سے ہونا چاہئیے جو ان کے لئے مختص ہیں۔

س۱۱۱۱۔ بعض برادران امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی غرض سے ایسے مقامات پر جاتے ہیں  جہاں اکثر بے پردہ عورتیں جمع ہوتی ہیں  تاکہ انہیں  وعظ و نصیحت کریں کیا ان کے لئے جائز ہے  کہ بے پردہ عورتوں کی طرف نگاہ کریں ؟ اس اعتبار سے کہ وہ اس جگہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی غرض سے گئے ہیں  ؟

ج۔ غیر ارادی طور پر پہلی مرتبہ نگاہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں  ہے  لیکن  جان بوجھ کر چھرہ اور دونوں ہتھیلیوں کے علاوہ کسی چیز کو دیکھنا جائز نہیں  ہے  اگرچہ مقصد امر بالمعروف ہی کیوں نہ ہو۔

س۱۱۱۲۔ ان مومن جوانوں کا کیا فریضہ ہے  جو بعض مخلوط ( نظام تعلیم والی ) یونیورسٹیوں میں برے اعمال کا مشاہدہ کرتے ہیں ؟

ج۔ ان پر واجب ہے  کہ خود کو برائیوں میں ملوث نہ کریں اور اگر شرائط موجود ہوں اور وہ قدرت رکھتے ہوں تو ان پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے اٹھ کھڑے ہونا واجب ہے۔

٭٭٭

ماخذِ:

http://al-Islam.org

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید