فہرست مضامین
- سائے میں دھوپ
- دشینت کمار
- آج ویران اپنا گھر دیکھا
- یہ سارا جسم جھک کر بوجھ سے دہرا ہوا ہوگا
- میرے گیت تمہارے پاس سہارا پانے آئیں گے
- آج سڑکوں پر لکھے ہیں سیکڑوں نعرے نہ دیکھ
- ہو گئی ہے پیر* پربت سی پگھلنی چاہئیے
- اس راستے کے نام لکھو ایک شام اور
- چاندنی چھت پہ چل رہی ہوگی
- مت کہو، آکاش میں کہرا گھنا ہے
- پرانے پڑ گئے ڈر، پھینک دو تم بھی
- مرنا لگا رہے گا یہاں جی تو لیجیے
- کہیں پہ دھوپ کی چادر بچھا کے بیٹھ گئے
- یہ روشنی ہے حقیقت میں ایک چھل1، لوگو
- بھوک ہے تو صبر کر روٹی نہیں تو کیا ہوا
- پرندے اب بھی پر تولے ہوئے ہیں
- کھنڈر بچے ہوئے ہیں، عمارت نہیں رہی
- دیکھ، دہلیز سے کائی نہیں جانے والی
- افواہ ہے یا سچ ہے یہ کوئی نہیں بولا
- زندگانی کا کوئی مقصد نہیں ہے
- جانے کس۔ کس کا خیال آیا ہے
- یہ زباں ہم سے سی نہیں جاتی
- روز جب رات کو بارہ کا گجر ہوتا ہے
- یہ جو شہتیر ہے پلکوں پہ اٹھا لو یارو
- حالاتِ جسم، صورتِ جاں اور بھی خراب
- باڑھ کی سنبھاونائیں سامنے ہیں
- اس ندی کی دھار سے ٹھنڈی ہوا آتی تو ہے
- دھوپ یہ اٹھکھیلیاں ہر روز کرتی ہے
- یہ دھوئیں کا ایک گھیرا کہ میں جس میں رہ رہا ہوں
- چھوٹی۔ چھوٹی مچھلیاں چارہ بنا کر پھینک دیں
- لفظ احساس۔ سے چھانے لگے، یہ تو حد ہے
- یہ شفق شام ہو رہی ہے اب
- ایک گڑیا کی کئی کٹھ پتلیوں میں جان ہے
- بہت سنبھال کے رکھی تو پائمال ہوئی
- تمہارے پاؤں کے نیچے کوئی زمین نہیں
- اب کسی کو بھی نظر آتی نہیں کوئی درار
- میں جسے اوڑھتا بچھاتا ہوں
- ہونے لگی ہے جسم میں جنبش تو دیکھیے
- پک گئی ہیں عادتیں باتوں سے سر ہوں گی نہیں
- ایک کبوتر چٹھی لے کر پہلی۔ پہلی بار اڑا
- چلو اچھا ہوا احساس پلکوں تک چلا آیا
- وہ آدمی نہیں ہے مکمل بیان ہے
- کہاں تو یہ تھا چراغاں ہر ایک گھر کے لئے
- وہ نگاہیں صلیب ہیں
سائے میں دھوپ
دشینت کمار
اردو روپ: اعجاز عبید
نوٹ
دشینت کا نام ہندی میں اپنی غزلوں کے لئے جانا جاتا ہے۔ دشینت اکثر اردو الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں، اور یوں بھی غزل کا ترجمہ کرنے کی کوشش بے سود ہے۔ اس لئے محض رسم الخط کی تبدیلی کی گئی ہے، اور کچھ مشکل الفاظ کے معانی دے دئے گئے ہیں۔ تلفظ کی اردو فارسی کے لحاظ سے اغلاط کی تصحیح نہیں کی گئی ہے، اور نہ کچھ ہندی محاوروں کو بدلنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس لئے اردو کے قارئین شمع، شہر وغیرہ الفاظ کے غلط العام تلفظ کو یا اردو الفاظ کے ہندی معانی (جیسے مدعا، بمعنی معاملہ یا Issue ) قبول کر لیں۔
اعجاز عبید
آج ویران اپنا گھر دیکھا
تو کئی بار جھانک کر دیکھا
پاؤں ٹوٹے ہوئے نظر آئے
ایک ٹھہرا ہوا سفر دیکھا
ہوش میں آ گئے کئی سپنے
آج ہم نے وہی کھنڈر دیکھا
راستہ کاٹ کر گئی بلی
پیار سے راستہ اگر دیکھا
نالیوں میں حیات دیکھی ہے
گالیوں میں بڑا اثر دیکھا
اس پرندے کو چوٹ آئی تو
آپ نے ایک ایک پر دیکھا
ہم کھڑے تھے کہ یہ زمیں ہوگی
چل پڑی تو ادھر ادھر دیکھا
٭٭٭
یہ سارا جسم جھک کر بوجھ سے دہرا ہوا ہوگا
میں سجدے میں نہیں تھا آپ کو دھوکا ہوا ہوگا
یہاں تک آتے آتے سوکھ جاتی ہیں کئی ندیاں
مجھے معلوم ہے پانی کہاں ٹھہرا ہوا ہوگا
غضب یہ ہے کہ اپنی موت کی آہٹ نہیں سنتے
وہ سب کے سب پریشاں ہیں وہاں پر کیا ہوا ہوگا
تمہارے شہر میں یہ شور سن سن کر تو لگتا ہے
کہ انسانوں کے جنگل میں کوئی ہانکا ہوا ہوگا
کئی فاقے بِتا کر مر گیا جو، اس کے بارے میں
وہ سب کہتے ہیں اب، ایسا نہیں،ایسا ہوا ہوگا
یہاں تو صرف گونگے اور بہرے لوگ بستے ہیں
خدا جانے وہاں پر کس طرح جلسہ ہوا ہوگا
چلو، اب یادگاروں کی اندھیری کوٹھری کھولیں
کم از کم ایک وہ چہرہ تو پہچانا ہوا ہوگا
٭٭٭
میرے گیت تمہارے پاس سہارا پانے آئیں گے
میرے بعد تمہیں یہ میری یاد دلانے آئیں گے
ہولے۔ ہولے پاؤں ہلاؤ،جل سویا ہے چھیڑو مت
ہم سب اپنے۔ اپنے دیپک یہیں سرا نے آئیں گے
تھوڑی آنچ بچی رہنے دو، تھوڑا دھواں نکلنے دو
کل دیکھو گی کئی مسافر اسی بہانے آئیں گے
رہ۔ رہ آنکھوں میں چبھتی ہے پتھ کی نرجن دوپہری
آگے اور بڑھیں تو شائد درشیہ سہانے آئیں گے
میلے میں بھٹکے ہوتے تو کوئی گھر پہنچا جاتا
ہم گھر میں بھٹکے ہیں کیسے ٹھور ٹھکانے آئیں گے
٭٭٭
آج سڑکوں پر لکھے ہیں سیکڑوں نعرے نہ دیکھ
گھور اندھیرا دیکھ تو آکاش کے تارے نہ دیکھ
ایک دریا ہے یہاں پر دور تک پھیلا ہوا
آج اپنے بازوؤں کو دیکھ پتواریں نہ دیکھ
اب یقیناً ٹھوس ہے دھرتی حقیقت کی طرح
یہ حقیقت دیکھ لیکن خوف کے مارے نہ دیکھ
وہ سہارے بھی نہیں اب جنگ لڑنی ہے تجھے
کٹ چکے جو ہاتھ ان ہاتھوں میں تلواریں نہ دیکھ
یہ دھندلکا ہے نظر کا تو محض مایوس ہے
روزنوں کو دیکھ دیواروں میں دیواریں نہ دیکھ
راکھ کتنی راکھ ہے، چاروں طرف بکھری ہوئی،
راکھ میں چنگاریاں ہی دیکھ انگارے نہ دیکھ
٭٭٭
ہو گئی ہے پیر* پربت سی پگھلنی چاہئیے
اس ہمالیہ سے کوئی گنگا نکلنی چاہئیے
آج یہ دیوار، پردوں کی طرح ہلنے لگی
شرط لیکن تھی کہ یہ بنیاد ہلنی چاہئیے
ہر سڑک پر، ہر گلی میں، ہر نگر، ہر گاؤں میں
ہاتھ لہراتے ہوئے ہر لاش چلنی چاہئیے
صرف ہنگامہ کھڑا کرنا میرا مقصد نہیں
میری کوشش ہے کہ یہ صورت بدلنی چاہئیے
میرے سینے میں نہیں تو تیرے سینے میں سہی
ہو کہیں بھی آگ، لیکن آگ جلنی چاہئیے
* درد
٭٭٭
اس راستے کے نام لکھو ایک شام اور
یا اس میں روشنی کا کرو انتظام اور
آندھی میں صرف ہم ہی اکھڑ کر نہیں گرے
ہم سے جڑا ہوا تھا کوئی ایک نام اور
مرگھٹ میں بھیڑ ہے یا مزاروں میں بھیڑ ہے
اب گل کھلا رہا ہے تمہارا نظام اور
گھٹنوں پہ رکھ کے ہاتھ کھڑے تھے نماز میں
آ۔ جا رہے تھے لوگ ذہن میں تمام اور
ہم نے بھی پہلی بار چکھی تو بری لگی
کڑوی تمہیں لگے گی، مگر ایک جام اور
حیراں تھے اپنے عکس پہ گھر کے تمام لوگ
شیشہ چٹخ گیا تو ہوا ایک کام اور
ان کا کہیں جہاں میں ٹھکانہ نہیں رہا
ہم کو تو مل گیا ہے ادب میں مقام اور
٭٭٭
چاندنی چھت پہ چل رہی ہوگی
اب اکیلی ٹہل رہی ہوگی
پھر میرا ذکر آ گیا ہوگا
برف سی وہ پگھل رہی ہوگی
کل کا سپنا بہت سہانا تھا
یہ اداسی نہ کل رہی ہوگی
سوچتا ہوں کہ بند کمرے میں
ایک شمع سی جل رہی ہوگی
تیرے گہنوں سی کھنکھناتی تھی
باجرے کی فصل رہی ہوگی
٭٭٭
مت کہو، آکاش میں کہرا گھنا ہے
یہ کسی کی 1ویکتی گت آلوچنا ہے
سوریہ2 ہم نے بھی نہیں دیکھا صبح سے
کیا کرو گے، سوریہ کا کیا دیکھنا ہے
اس سڑک پر اس قدر کیچڑ بچھی ہے
ہر کسی کا پاؤں گھٹنوں تک سنا ہے
رکت3 ورشوں4 سے نسوں میں کھولتا ہے
آپ کہتے ہیں شنک 5اتیجنا6 ہے
ہو گئی ہر گھاٹ پر پوری ویوستھا7
شوق سے ڈوبے جسے بھی ڈوبنا ہے
دوستوں ! اب منچ 8پر سودھا9 نہیں ہے
آج کل نیپتھیہ10 میں سنبھاؤنا11 ہے
1انفرادی تنقید
2 سورج
3 خون
4 سالوں
5 تھوڑی سی
6 اتاؤلا پن
7 نظم، انتظام
8 سٹیج
9 سہولت
10 پس منظر
11امکان۔امکانات
٭٭٭
پرانے پڑ گئے ڈر، پھینک دو تم بھی
یہ کچرا آج باہر پھینک دو تم بھی
لپٹ آنے لگی ہے اب ہواؤں میں
اُسارے اور چھپر پھینک دو تم بھی
یہاں معصوم سپنے جی نہیں پاتے
انھیں کم کم 1لگا کر پھینک دو تم بھی
تمہیں بھی اس بہانے یاد کر لیں گے
ادھر دو۔ چار پتھر پھینک دو تم بھی
یہ مورت بول سکتی ہے اگر چاہو
اگر کچھ بول کچھ سور2 پھینک دو تم بھی
کسی سنویدنا3 کے کام آئیں گے
یہاں ٹوٹے ہوئے پر پھینک دو تم بھی
1 سندور
2 سُر
3 احساس
٭٭٭
مرنا لگا رہے گا یہاں جی تو لیجیے
ایسا بھی کیا پرہیز، ذرا۔ سی تو لیجیے
اب رند بچ رہے ہیں ذرا تیز رقص ہو
محفل سے اٹھ لئے ہیں نمازی تو لیجیے
پتوں سے چاہتے ہو بجیں ساز کی طرح
پیڑوں سے پہلے آپ اداسی تو لیجیے
خاموش رہ کے تم نے ہمارے سوال پر
کر دی ہے شہر بھر میں منادی تو لیجیے
یہ روشنی کا درد، یہ سرہن ،یہ آرزو،
یہ چیز زندگی میں نہیں تھی تو لیجیے
پھرتا ہے کیسے۔ کیسے سوالوں کے ساتھ وہ
اس آدمی کی جامہ تلاشی تو لیجیے
٭٭٭
کہیں پہ دھوپ کی چادر بچھا کے بیٹھ گئے
کہیں پہ شام سرہانے لگا کے بیٹھ گئے
جلے جو ریت میں تلوے تو ہم نے یہ دیکھا
بہت سے لوگ وہیں چھٹپٹا کے بیٹھ گئے
کھڑے ہوئے تھے الاووں کی آنچ لینے کو
سب اپنی اپنی ہتھیلی جلا کے بیٹھ گئے
دوکاندار تو میلے میں لٹ گئے یارو
تماش بین دوکانیں لگا کے بیٹھ گئے
لہو لہان نظاروں کا ذکر آیا تو
شریف لوگ اٹھے، دور جا کے بیٹھ گئے
یہ سوچ کر کہ درختوں میں چھاؤں ہوتی ہے
یہاں ببول کے سائے میں آ کے بیٹھ گئے
٭٭٭
یہ روشنی ہے حقیقت میں ایک چھل1، لوگو
کہ جیسے جل میں جھلکتا ہوا محل، لوگو
درخت ہیں تو پرندے نظر نہیں آتے
جو مستحق ہیں وہی حق سے بے دخل، لوگو
وہ گھر میں میز پہ کہنی ٹکائے بیٹھی ہے
تھمی ہوئی ہے وہیں عمر آج کل ،لوگو
کسی بھی قوم کی تاریخ کے اجالے میں
تمہارے دن ہیں کسی رات کی نقل ،لوگو
تمام رات رہا محو خواب دیوانہ
کسی کی نیند میں پڑتا رہا خلل، لوگو
ضرور وہ بھی کسی راستے سے گزرے ہیں
ہر آدمی مجھے لگتا ہے ہم شکل، لوگو
دکھے جو پاؤں کے تازہ نشان صحرا میں
تو یاد آئے ہیں تالاب کے کنول، لوگو
وہ کہہ رہے ہیں غزل گو نہیں رہے شاعر
میں سن رہا ہوں ہر اک سمت سے غزل، لوگو
1 دھوکا
٭٭٭
بھوک ہے تو صبر کر روٹی نہیں تو کیا ہوا
آج کل دہلی میں ہے زیر بحث یہ مدعا
موت نے تو دھر دبوچا ایک چیتے کی طرح
زندگی نے جب چھوا تو فاصلہ رکھ کر چھوا
گڑگڑانے کا یہاں کوئی اثر ہوتا نہیں
پیٹ بھرکر گالیاں دو، آہ بھرکر بد دعا
کیا وجہ ہے پیاس زیادہ تیز لگتی ہے یہاں
لوگ کہتے ہیں کہ پہلے اس جگہ پر تھا کنواں
آپ دستانے پہن کر چھو رہے ہیں آگ کو
آپ کے بھی خون کا رنگ ہو گیا ہے سانولا
اس انگیٹھی تک گلی سے کچھ ہوا آنے تو دو
جب تلک کھلتے نہیں یہ کوئلے دیں گے دھواں
اس شہر میں وہ کوئی بارات ہو یا واردات
اب کسی بھی بات پر کھلتی نہیں ہیں کھڑکیاں
٭٭٭
اپاہج ویتھا1 کو وہن2 کر رہا ہوں
تمہاری کہن3 تھی، کہن کر رہا ہوں
یہ دروازہ کھولیں تو کھلتا نہیں ہے
اسے توڑنے کا جتن کر رہا ہوں
اندھیرے میں کچھ زندگی ہوم 4کر دی
اجالے میں اب یہ ہون کر رہا ہوں
وہ سمبندھ اب تک بحث میں ٹنگے ہیں
جنہیں رات دن سمرن4 کر رہا ہوں
میں احساس تک بھر گیا ہوں لبالب
تیرے آنسؤں کو نمن5 کر رہا ہوں
1 درد
2 برداشت
3 ہون میں جلا دینا
4 یاد
5 سر جھکا کر سلام، سرِ تسلیم خم
٭٭٭
پرندے اب بھی پر تولے ہوئے ہیں
ہوا میں سنسنی گھولے ہوئے ہیں
تمھیں کمزور پڑتے جا رہے ہو
تمہارے خواب تو شعلے ہوئے ہیں
غضب ہے سچ کو سچ کہتے نہیں وہ
قرآن اور اپنشد کھولے ہوئے ہیں
مزاروں سے دوائیں مانگتے ہو
عقیدے کس قدر پولے ہوئے ہیں
کبھی کشتی، کبھی بطخ، کبھی جل
سیاست کے کئی چولے ہوئے ہیں
ہمارا قد سمٹ کر مٹ گیا ہے
ہمارے پیرہن جھولے ہوئے ہیں
چڑھاتا پھر رہا ہوں جو چڑھاوے
تمہارے نام پر بولے ہوئے ہیں
٭٭٭
کھنڈر بچے ہوئے ہیں، عمارت نہیں رہی
اچھا ہوا کہ سر پہ کوئی چھت نہیں رہی
کیسی مشعلیں لے کے چلے تیرگی میں آپ
جو روشنی تھی وہ بھی سلامت نہیں رہی
ہم نے تمام عمر اکیلے سفر کیا
ہم پر کسی خدا کی عنایت نہیں رہی
میرے چمن میں کوئی نشیمن نہیں رہا
یا یوں کہو کہ برق کی دہشت نہیں رہی
ہم کو پتہ نہیں تھا ہمیں اب پتہ چلا
اس ملک میں ہماری حکومت نہیں رہی
کچھ دوستوں سے ویسے مراسم نہیں رہے
کچھ دشمنوں سے ویسی عداوت نہیں رہی
ہمت سے سچ کہو تو برا مانتے ہیں لوگ
رو۔ رو کے بات کہنے کی عادت نہیں رہی
سینے میں زندگی کی علامات ہیں ابھی
گو زندگی کی کوئی ضرورت نہیں رہی
٭٭٭
دیکھ، دہلیز سے کائی نہیں جانے والی
یہ خطرناک سچائی نہیں جانے والی
کتنا اچھا ہے کہ سانسوں کی ہوا لگتی ہے
آگ اب ان سے بجھائی نہیں جانے والی
ایک تالاب سی بھر جاتی ہے ہر بارش میں
میں سمجھتا ہوں یہ کھائی نہیں جانے والی
چیخ نکلی تو ہے ہونٹوں سے مگر مدھم ہے
بند کمروں کو سنائی نہیں جانے والی
تو پریشان ہے، تو پریشان نہ ہو
ان خداؤں کی خدائی نہیں جانے والی
آج سڑکوں پہ چلے آؤ تو دل بہلے گا
چند غزلوں سے تنہائی نہیں جانے والی ٭٭٭
بائیں سے اڑ کے دائیں دشا1 کو گرڑ2 گیا
کیسا شگن3 ہوا ہے کہ برگد اکھڑ گیا
ان کھنڈروں میں ہوں گی تیری سسکیاں ضرور
ان کھنڈروں کی اور سفر آپ مڑ گیا
بچے چھلانگ مار کے آگے نکل گئے
ریلے میں پھنس کے باپ بچارا بچھڑ گیا
دکھ کو بہت سہیج 4کے رکھنا پڑا ہمیں
سکھ تو کسی کپور5 کی ٹکیا سا اڑ گیا
لے کر امنگ سنگ چلے تھے ہنسی۔ خوشی
پہنچے ندی کے گھاٹ تو میلہ اجڑ گیا
جن آنسوؤں کا سیدھا تعلق تھا پیٹ سے
ان آنسوؤں کے ساتھ ترا نام جڑ گیا
1 سمت
2 عقاب
3 شگون
4 سنبھال کر
5 کافور
٭٭٭
افواہ ہے یا سچ ہے یہ کوئی نہیں بولا
میں نے بھی سنا ہے اب جائے گا تیرا ڈولا
ان راہوں کے پتھر بھی مانوس تھے پاؤوں سے
پر میں نے پکارا تو کوئی بھی نہیں بولا
لگتا ہے خدائی میں کچھ تیرا دخل بھی ہے
اس بار فضاؤں نے وہ رنگ نہیں گھولا
آخر تو اندھیرے کی جاگیر نہیں ہوں میں
اس راکھ میں پنہاں ہے اب بھی وہی اک شعلہ
سوچا کہ تو سوچے گی ،تو نے کسی شاعر کی
دستک تو سنی تھی پر دروازہ نہیں کھولا
٭٭٭
اگر خدا نہ کرے سچ یہ خواب ہو جائے
تری سحر ہو مرا آفتاب ہو جائے
حضور! عارض و رخسار کیا تمام بدن
میری سنو تو مجسم گلاب ہو جائے
اٹھا کے پھینک دو کھڑکی سے ساغر و مینا
یہ تشنگی جو تمہیں دستیاب ہو جائے
وہ بات کتنی بھلی ہے جو آپ کرتے ہیں
سنو تو سینے کی دھڑکن رباب ہو جائے
بہت قریب نہ آؤ یقیں نہیں ہوگا
یہ آرزو بھی اگر کامیاب ہو جائے
غلط کہوں تو میری عاقبت بگڑتی ہے
جو سچ کہوں تو خودی بے نقاب ہو جائے
٭٭٭
زندگانی کا کوئی مقصد نہیں ہے
ایک بھی قد آج آدم قد نہیں ہے
رام جانے کس جگہ ہوں گے کبوتر
اس عمارت میں کوئی گنبد نہیں ہے
پیڑ۔ پودے ہیں بہت بونے تمہارے
راستوں میں ایک بھی برگد نہیں ہے
میکدے کا راستہ اب بھی کھلا ہے
صرف آمد۔ رفت ہی زائد نہیں ہے
اس چمن کو دیکھ کر کس نے کہا تھا
ایک پنچھی بھی یہاں شائد نہیں ہے
٭٭٭
یہ سچ ہے کہ پاؤوں نے بہت کشٹ اٹھائے
پر پاؤں کسی طرح سے راہوں پہ تو آئے
ہاتھوں میں انگاروں کو لئے سوچ رہا تھا
کوئی مجھے انگاروں کی تاثیر بتائے
جیسے کسی بچے کو کھلونے نہ ملے ہوں
پھرتا ہوں کئی یادوں کو سینے سے لگائے
چٹانوں سے پاؤوں کو بچا کر نہیں چلتے
سہمے ہوئے پاؤوں سے لپٹ جاتے ہیں سائے
یوں پہلے بھی اپنا۔ سا یہاں کچھ تو نہیں تھا
اب اور نظارے ہمیں لگتے ہیں پرائے
٭٭٭
جانے کس۔ کس کا خیال آیا ہے
اس سمندر میں ابال آیا ہے
ایک بچہ تھا ہوا کا جھونکا
صاف پانی کو کھنگال آیا ہے
ایک ڈھیلا تو وہیں اٹکا تھا
ایک تو اور اچھال آیا ہے
کل تو نکلا تھا بہت سج۔ دھج کے
آج لوٹا تو نڈھال آیا ہے
یہ نظر ہے کہ کوئی موسم ہے
یہ صبا ہے کہ وبال آیا ہے
اس اندھیرے میں دیا رکھنا تھا
تو اجالے میں بھی بال آیا ہے
ہم نے سوچا تھا جواب آئے گا
ایک بیہودہ سوال آیا ہے
٭٭٭
یہ زباں ہم سے سی نہیں جاتی
زندگی ہے کہ جی نہیں جاتی
ان فصیلوں میں وہ دراریں ہیں
جن میں بس کر نمی نہیں جاتی
دیکھیئے اس طرف اجالا ہے
جس طرف روشنی نہیں جاتی
شام کچھ پیڑ گر گئے ورنہ
بام تک چاندنی نہیں جاتی
ایک عادت سی بن گئی ہے تو
اور عادت کبھی نہیں جاتی
مے کشو مے ضرور ہے لیکن
اتنی کڑوی کہ پی نہیں جاتی
مجھ کو عیسٰی بنا دیا تم نے
اب شکایت بھی کی نہیں جاتی
٭٭
تم کو نہارتا ہوں صبح سے رتمبرا
اب شام ہو رہی ہے مگر من نہیں بھرا
خرگوش بن کے دوڑ رہے ہیں تمام خواب
پھرتا ہے چاندنی میں کوئی سچ ڈرا۔ ڈرا
پودے جھلس گئے ہیں مگر ایک بات ہے
میری نظر میں اب بھی چمن ہے ہرا۔ بھرا
لمبی سرنگ سی ہے تری زندگی تو بول
میں جس جگہ کھڑا ہوں وہاں ہے کوئی سرا
ماتھے پہ ہاتھ رکھ کے بہت سوچتے ہو تم
گنگا قسم بتاؤ ہمیں کیا ہے ماجرا
٭٭٭
روز جب رات کو بارہ کا گجر ہوتا ہے
یاتناؤں1 کے اندھیرے میں سفر ہوتا ہے
کوئی رہنے کی جگہ ہے مرے سپنوں کے لئے
وہ گھروندہ ہی سہی مٹی کا بھی گھر ہوتا ہے
سر سے سینے میں کبھی پیٹ سے پاؤں میں کبھی
اک جگہ ہو تو کہیں درد ادھر ہوتا ہے
ایسا لگتا ہے کہ اڑ کر بھی کہاں پہنچیں گے
ہاتھ میں جب کوئی ٹوٹا ہوا پر ہوتا ہے
سیر کے واسطے سڑکوں پہ نکل آتے تھے
اب تو آکاش سے پتھراؤ کا ڈر ہوتا ہے
٭٭٭
یہ جو شہتیر ہے پلکوں پہ اٹھا لو یارو
اب کوئی ایسا طریقہ بھی نکالو یارو
دردِ دل وقت پہ پیغام بھی پہنچائے گا
اس کبوتر کو ذرا پیار سے پالو یارو
آج سیون کو ادھیڑو تو ذرا دیکھیں گے
آج صندوق سے وہ خط تو نکالو یارو
رہنماؤں کی اداؤں پہ فدا ہے دنیا
اس بہکتی ہوئی دنیا کو سنبھالو یارو
کیسے آکاش میں سوراخ ہو نہیں سکتا
ایک پتھر تو طبیعت سے اچھالو یارو
لوگ کہتے تھے کہ یہ بات نہیں کہنے کی
تم نے کہہ دی ہے تو کہنے کی سزا لو یارو
٭٭٭
حالاتِ جسم، صورتِ جاں اور بھی خراب
چاروں طرف خراب یہاں اور بھی خراب
نظروں میں آ رہے ہیں نظارے بہت برے
ہونٹوں پہ آ رہی ہے زباں اور بھی خراب
پابند ہو رہی ہے روایت سے روشنی
چمنی میں گھٹ رہا ہے دھواں اور بھی خراب
مورت سنوارنے سے بگڑتی چلی گئی
پہلے سے ہو گیا ہے جہاں اور بھی خراب
روشن ہوئے چراغ تو آنکھیں نہیں رہیں
اندھوں کو روشنی کا گماں اور بھی خراب
آگے نکل گئے ہیں گھسٹتے ہوئے قدم
راہوں میں رہ گئے ہیں نشاں اور بھی خراب
سوچا تھا ان کے دیش میں مہنگی ہے زندگی
پر زندگی کا بھاؤ وہاں اور بھی خراب
٭٭٭
باڑھ کی سنبھاونائیں سامنے ہیں
اور ندیوں کے کنارے گھر بنے ہیں
چیڑ وَن1 میں آندھیوں کی بات مت کر
ان درختوں کے بہت نازک تنے ہیں
اس طرح ٹوٹے ہوئے چہرے نہیں ہیں
جس طرح ٹوٹے ہوئے یہ آئنے ہیں
آپ کے قالین دیکھیں گے کسی دن
اس سمے تو پاؤں کیچڑ میں سنے ہیں
جس طرح چاہو بجاؤ اس سبھا 2میں
ہم نہیں ہیں آدمی، ہم جھنجھنے ہیں
اب تڑپتی سی غزل کوئی سنائے
ہمسفر اندھے ہوئے ہیں، ان منے ہیں
1 دیودار کا جنگل
2 محفل
٭٭٭
اس ندی کی دھار سے ٹھنڈی ہوا آتی تو ہے
ناؤ جرجر2 ہی سہی، لہروں سے ٹکراتی تو ہے
ایک چنگاری کہیں سے ڈھونڈ لاؤ دوستو
اس دئیے میں تیل سے بھیگی ہوئی باتی تو ہے
ایک کھنڈر کے ہردیہ 2سی،ایک جنگلی پھول سی
آدمی کی پیر3 گونگی ہی سہی، گاتی تو ہے
ایک چادر سانجھ نے سارے نگر پر ڈال دی
یہ اندھیرے کی سڑک اس بھور 4تک جاتی تو ہے
نروسن5 میدان میں لیٹی ہوئی ہے جو ندی
پتھروں سے اوٹ میں جا جا کے بتیاتی تو ہے
دکھ نہیں کوئی کہ اب اپلبدھیوں6 کے نام پر
اور کچھ ہو یا نہ ہو، آکاش سی چھاتی تو ہے
1 ٹوٹی پھوٹی
2 دل
3 پیڑا، درد
4 صبح
5 بے لباس
6 کامیابیاں، حصولیابیاں
٭٭٭
دھوپ یہ اٹھکھیلیاں ہر روز کرتی ہے
ایک چھایا سیڑھیاں چڑھتی۔ اترتی ہے
یہ دیا چوراستے کا اوٹ میں لے لو
آج آندھی گاؤں سے ہو کر گزرتی ہے
کچھ بہت گہری دراریں پڑ گئیں من میں
میت اب یہ من نہیں ہے ایک دھرتی ہے
کون شاسن1 سے کہے گا، کون پوچھے گا
ایک چڑیا ان دھماکوں سے سہرتی 2ہے
میں تمہیں چھو کر ذرا۔ سا چھیڑ دیتا ہوں
اور گیلی پانکھری3 سے اوس جھرتی ہے
تم کہیں پر جھیل ہو میں ایک نوکا4 ہوں
اس طرح کی کلپنا من میں ابھرتی ہے
1 حکومت
2 سہمتی
3 پنکھڑی
4 کشتی
٭٭٭
یہ دھوئیں کا ایک گھیرا کہ میں جس میں رہ رہا ہوں
مجھے کس قدر نیا ہے، میں جو درد سہہ رہا ہوں
یہ زمین تپ رہی تھی یہ مکان تپ رہے تھے
ترا انتظار تھا جو میں اسی جگہ رہا ہوں
میں ٹھٹھک گیا تھا لیکن ترے ساتھ۔ ساتھ تھا میں
تو اگر ندی ہوئی تو میں تری سطح رہا ہوں
تیرے سر پہ دھوپ آئی تو درخت بن گیا میں
تیری زندگی میں اکثر میں کوئی وجہ رہا ہوں
کبھی دل میں آرزو۔ سا، کبھی منہ میں بد دعا۔ سا
مجھے جس طرح بھی چاہا، میں اسی طرح رہا ہوں
میرے دل پہ ہاتھ رکھو، میری بے بسی کو سمجھو
میں ادھر سے بن رہا ہوں، میں ادھر سے ڈھہ رہا ہوں
یہاں کون دیکھتا ہے، یہاں کون سوچتا ہے
کہ یہ بات کیا ہوئی ہے،جو میں شعر کہہ رہا ہوں
٭٭٭
تم نے اس تالاب میں رو ہو پکڑنے کے لئے
چھوٹی۔ چھوٹی مچھلیاں چارہ بنا کر پھینک دیں
ہم ہی کھا لیتے صبح کو بھوک لگتی ہے بہت
تم نے باسی روٹیاں ناحق اٹھا کر پھینک دیں
جانے کیسی انگلیاں ہیں، جانے کیا انداز ہیں
تم نے پتوں کو چھوا تھا جڑ ہلا کر پھینک دی
اس احاطے کے اندھیرے میں دھواں۔ سا بھر گیا
تم نے جلتی لکڑیاں شاید بجھا کر پھینک دیں
٭٭٭
لفظ احساس۔ سے چھانے لگے، یہ تو حد ہے
لفظ معنی بھی چھپانے لگے، یہ تو حد ہے
آپ دیوار اٹھانے کے لئے آئے تھے
آپ دیوار اٹھانے لگے، یہ تو حد ہے
خامشی شور سے سنتے تھے کہ گھبراتی ہے
خامشی شور مچانے لگے، یہ تو حد ہے
آدمی ہونٹ چبائے تو سمجھ آتا ہے
آدمی چھال چبانے لگے، یہ تو حد ہے
جسم پہناؤوں میں چھپ جاتے تھے، پہناؤوں میں۔
جسم ننگے نظر آنے لگے، یہ تو حد ہے
لوگ تہذیب و تمدن کے سلیقے سیکھے
لوگ روتے ہوئے گانے لگے، یہ تو حد ہے
٭٭٭
یہ شفق شام ہو رہی ہے اب
اور ہر گام ہو رہی ہے اب
جس تباہی سے لوگ بچتے تھے
وہ سرِ عام ہو رہی ہے اب
عظمتِ ملک اس سیاست کے
ہاتھ نیلام ہو رہی ہے اب
شب غنیمت تھی، لوگ کہتے ہیں
صبح بدنام ہو رہی ہے اب
جو کرن تھی کسی دریچے کی
مرکزِ بام ہو رہی ہے اب
تشنہ لب تیری پھس پھساہٹ بھی
ایک پیغام ہو رہی ہے اب
٭٭٭
ایک گڑیا کی کئی کٹھ پتلیوں میں جان ہے
آج شاعر یہ تماشا دیکھ کر حیران ہے
خاص سڑکیں بند ہیں تب سے مرمت کے لئے
یہ ہمارے وقت کی سب سے صحیح پہچان ہے
ایک بوڑھا آدمی ہے ملک میں یا یوں کہو
اس اندھیری کوٹھری میں ایک روشن دان ہے
مصلحت آمیز ہوتے ہیں سیاست کے قدم
تو نہ سمجھے گا سیاست، تو ابھی نادان ہے
اس قدر پابندیِ مذہب کہ صدقے آپ کے
جب سے آزادی ملی ہے، ملک میں رمضان ہے
کل نمائش میں ملا وہ چیتھڑے پہنے ہوئے
میں نے پوچھا نام تو بولا کہ ہندوستان ہے
مجھ میں رہتے ہیں کروڑوں لوگ چپ کیسے رہوں
ہر غزل اب سلطنت کے نام ایک بیان ہے
٭٭٭
بہت سنبھال کے رکھی تو پائمال ہوئی
سڑک پہ پھینک دی تو زندگی نہال ہوئی
بڑا لگاؤ ہے اس موڑ کو نگاہوں سے
کہ سب سے پہلے یہیں روشنی حلال ہوئی
کوئی نجات کی صورت نہیں رہی، نہ سہی
مگر نجات کی کوشش تو اک مثال ہوئی
مرے ذہن پہ زمانے کا وہ دباؤ پڑا
جو اک سلیٹ تھی وہ زندگی سوال ہوئی
سمندر اور اٹھا، اور اٹھا، اور اٹھا
کسی کے واسطے یہ چاندنی وبال ہوئی
انہیں پتہ بھی نہیں ہے کہ ان کے پاؤوں سے
وہ خوں بہا ہے کہ یہ گرد بھی گلال ہوئی
میری زبان سے نکلی تو صرف نظم بنی
تمہارے ہاتھ میں آئی تو ایک مشعل ہوئی
٭٭٭
تمہارے پاؤں کے نیچے کوئی زمین نہیں
کمال یہ ہے کہ پھر بھی تمہیں یقین نہیں
میں بے پناہ اندھیروں کو صبح کیسے کہوں
میں ان نظاروں کا اندھا تماش بین نہیں
تیری زبان ہے جھوٹی جمہوریت کی طرح
تو ایک ذلیل سی گالی سے بہترین نہیں
تمھیں سے پیار جتائیں تمھیں کو کھا جائیں
ادیب یوں تو سیاسی ہیں پر کمین نہیں
تجھے قسم ہے خودی کو بہت ہلاک نہ کر
تو اس مشین کا پرزہ ہے تو مشین نہیں
بہت مشہور ہے آئیں ضرور آپ یہاں
یہ ملک دیکھنے لائق تو ہے حسین نہیں
ذرا سا طور طریقوں میں ہیر پھیر کرو
تمہارے ہاتھ میں کالر ہو، آستین نہیں
٭٭٭
اب کسی کو بھی نظر آتی نہیں کوئی درار
گھر کی ہر دیوار پر چپکے ہیں اتنے اشتہار
آپ بچ کر چل سکیں ایسی کوئی صورت نہیں
رہگزر گھیرے ہوئے مردے کھڑے ہیں بیشمار
روز اخباروں میں پڑھ کر یہ خیال آیا ہمیں
اس طرف آتی تو ہم بھی دیکھتے فصلِ بہار
میں بہت کچھ سوچتا رہتا ہوں پر کہتا نہیں
بولنا بھی ہے منع، سچ بولنا تو درکنار
اس سرے سے اس سرے تک سب شریکِ جرم ہیں
آدمی یا تو ضمانت پر رہا ہے یا فرار
حالتِ انسان پر برہم نہ ہوں اہلِ وطن
وہ کہیں سے زندگی بھی مانگ لائیں گے ادھار
رونقِ جنت ذرا بھی مجھ کو راس آئی نہیں
میں جہنم میں بہت خوش تھا مرے پروردگار
دستکوں کا اب کواڑوں پر اثر ہو گا ضرور
ہر ہتھیلی خون سے تر اور زیادہ بےقرار
٭٭٭
میں جسے اوڑھتا بچھاتا ہوں
وہ غزل آپ کو سناتا ہوں
ایک جنگل ہے تیری آنکھوں میں
میں جہاں راہ بھول جاتا ہوں
تو کسی ریل سی گزرتی ہے
میں کسی پل سا تھرتھراتا ہوں
ہر طرف اعتراض ہوتا ہے
میں اگر روشنی میں آتا ہوں
ایک بازو اکھڑ گیا جب سے
اور زیادہ وزن اٹھاتا ہوں
میں تجھے بھولنے کی کوشش میں
آج کتنے قریب پاتا ہوں
کون یہ فاصلہ نبھائے گا
میں فرشتہ ہوں سچ بتاتا ہوں
٭٭٭
ہونے لگی ہے جسم میں جنبش تو دیکھیے
اس پر کٹے پرندے کی کوشش تو دیکھیے
گونگے نکل پڑے ہیں، زباں کی تلاش میں
سرکار کے خلاف یہ سازش تو دیکھیے
برسات آ گئی تو درکنے لگی زمین
سوکھا مچا رہی ہے یہ بارش تو دیکھیے
ان کی اپیل ہے کہ انہیں ہم مدد کریں
چاقو کی پسلیوں سے گزارش تو دیکھیے
جس نے نظر اٹھائی وہی شخص گم ہوا
اس جسم کے طلسم کی بندش تو دیکھیے
٭٭٭
پک گئی ہیں عادتیں باتوں سے سر ہوں گی نہیں
کوئی ہنگامہ کرو ایسے گزر ہو گی نہیں
ان ٹھٹھرتی انگلیوں کو اس لپٹ پر سینک لو
دھوپ اب گھر کی کسی دیوار پر ہو گی نہیں
بوند ٹپکی تھی مگر وہ بوند بارش اور ہے
ایسی بارش کی کبھی ان کو خبر ہو گی نہیں
آج میرا ساتھ دو ویسے مجھے معلوم ہے
پتھروں میں چیخ ہرگز کارگر ہو گی نہیں
آپ کے ٹکڑوں کے ٹکڑے کر دئیے جائیں گے پر
آپ کی تعظیم میں کوئی کسر ہو گی نہیں
صرف شاعر دیکھتا ہے قہقہوں کی اصلیت
ہر کسی کے پاس تو ایسی نظر ہوگی نہیں
٭٭٭
ایک کبوتر چٹھی لے کر پہلی۔ پہلی بار اڑا
موسم ایک غلیل لئے تھا پٹ۔ سے نیچے آن گرا
بنجر دھرتی، جھلسے پودے، بکھرے کانٹے تیز ہوا
ہم نے گھر بیٹھے۔ بیٹھے ہی سارا منظر دیکھ کیا
چٹانوں پر کھڑا ہوا تو چھاپ رہ گئی پاؤوں کی
سوچو کتنا بوجھ اٹھا کر میں ان راہوں سے گزرا
سہنے کو ہو گیا اکٹھا اتنا سارا دکھ من میں
کہنے کو ہو گیا کہ دیکھو اب میں تجھ کو بھول گیا
دھیرے۔ دھیرے بھیگ رہی ہیں ساری اینٹیں پانی میں
ان کو کیا معلوم کہ آگے چل کر ان کا کیا ہو گا
٭٭٭
وہ برگشتہ تھے کچھ ہم سے انہیں کیونکر یقیں آتا
چلو اچھا ہوا احساس پلکوں تک چلا آیا
جو ہم کو ڈھونڈنے نکلا تو پھر واپس نہیں لوٹا
تصور ایسے غیر آباد حلقوں تک چلا آیا
لگن ایسی کھری تھی تیرگی آڑے نہیں آئی
یہ سپنا صبح کے ہلکے دھندلکوں تک چلا آیا
٭٭٭
وہ آدمی نہیں ہے مکمل بیان ہے
ماتھے پہ اس کے چوٹ کا گہرا نشان ہے
وہ کر رہے ہیں عشق پہ سنجیدہ گفتگو
میں کیا بتاؤں میرا کہیں اور دھیان ہے
سامان کچھ نہیں ہے پھٹے حال ہے مگر
جھولے میں اس کے پاس کوئی سنودھان1 ہے
اس سر پھرے کو یوں نہیں بہلا سکیں گے آپ
وہ آدمی نیا ہے مگر ساودھان 2ہے
پھسلے جو اس جگہ تو لڑھکتے چلے گئے
ہم کو پتہ نہیں تھا کہ اتنا ڈھلان ہے
دیکھے ہیں ہم نے دور کئی اب خبر نہیں
پیروں تلے زمین ہے یا آسمان ہے
وہ آدمی ملا تھا مجھے اس کی بات سے
ایسا لگا کہ وہ بھی بہت بے زبان ہے
1قانون
2 با ہوش، بیدار
٭٭٭
کہاں تو یہ تھا چراغاں ہر ایک گھر کے لئے
کہاں چراغ میسر نہیں شہر کے لئے
یہاں درختوں کے سائے میں دھوپ لگتی ہے
چلو یہاں سے چلیں اور عمر بھر کے لئے
نہ ہو قمیض تو پاؤں سے پیٹ ڈھک لیں گے
یہ لوگ کتنے مناسب ہیں اس سفر کے لئے
خدا نہیں نہ سہی آدمی کا خواب سہی
کوئی حسین نظارہ تو ہے نظر کے لئے
وہ مطمئن ہیں کہ پتھر پگھل نہیں سکتا
میں بےقرار ہوں آواز میں اثر کے لئے
تیرا نظام ہے سل دے زبان شاعر کی
یہ احتیاط ضروری ہے اس بحر کے لئے
جئیں تو اپنے بغیچے میں گل مہر کے تلے
مریں تو غیر کی گلیوں میں گل مہر کے لئے
٭٭٭
وہ نگاہیں صلیب ہیں
ہم بہت بدنصیب ہیں
آئیے آنکھ موند لیں
یہ نظارے عجیب ہیں
زندگی ایک کھیت ہے
اور سانسیں جریب ہیں
سلسلے ختم ہو گئے
یار اب بھی رقیب ہیں
ہم کہیں کے نہیں رہے
گھاٹ اور گھر قریب ہیں
آپ نے لو چھوئی نہیں
آپ کیسے ادیب ہیں
اف نہیں کی، اجڑ گئے
لوگ سچ مچ غریب ہیں
٭٭٭
ماخذ:
رسم الخط کی تبدیلی:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید