FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

ریاض الصالحین

 

امام نوویؒ

جلد اول – ب

ترجمہ: حافظ محمد یوسف

 

 

 

 

کِتَابُ الْفَضَائِلِ

 

فضیلتوں کا بیان

 

۱۸۰۔ باب: قرآن مجید پڑھنے کی فضیلت

۹۹۱۔ حضرت ابو امامہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :قرآن مجید پڑھا کرو۔ اس لیے کہ روز قیامت وہ اپنے ساتھیوں (پڑھنے والوں) کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۸۰۴)

۹۹۲۔ حضرت نواس بن سمعان ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : قرآن اور اس پر عمل کرنے والوں کو قیامت والے دن لایا جائے گا۔ سورۂ بقرۃ اور سورۂ آل عمران اس کے آگے اگے ہوں گی اور وہ دونوں اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے جھگڑا کریں گی۔                  (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۸۰۵)۔

۹۹۳۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔                 (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۷۴۹۔ فتح)۔

۹۹۴۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : جو شخص قرآن مجید پڑھتا ہے اور وہ اس میں ماہر بھی ہے تو وہ روز قیامت مکرم اور نیکو کار فرشتوں کے ساتھ ہو گا اور جو شخص قرآن مجید پڑھتا ہے ار وہا ٹکتا ہے اور اسے پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے تو ایسے شخص کے لیے دگنا اجر ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۶۹۶۸۔ فتح) مسلم (۸۹۸)۔

۹۹۵۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اس مو من کی مثال جو قرآن مجید پڑھتا ہے ترنج (لیموں، مالٹے) کی سی ہے، اس کی خوشبو بھی اچھی اور اس کا ذائقہ بھی اچھا اور اس مومن کی مثال جو قرآن مجید نہیں پڑھتا، کھجور کی سی ہے اس کی خوشبو تو نہیں لیکن ذائقہ شیریں ہے۔ اور اس منافق کی مثال جو قرآن مجید پڑھتا ہے ریحانہ (خوشبو دار پودے) کی سی ہے ،اس کی خو شبو اچھی ہے اور ذائقہ کڑوا ہے اور اس منافق کی مثال جو قرآن مجید نہیں پڑھتا اندرائن (تمے)کی سی ہے جس کی خوشبو نہیں اور اس کا ذائقہ بھی کڑوا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۶۵۶۔ ۶۶۔ فتح)و مسلم (۷۹۷)

۹۹۶۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن مجید)کی وجہ سے کچھ لوگوں کو رفعتیں عطا فرمائے گا اور اسی کی وجہ سے دوسروں کو پستیوں میں دھکیل دے گا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۸۱۷)

۹۹۷۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: صرف دو آدمیوں کے بارے میں رشک کرنا جائز ہے :ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید عطا فرمایا اور وہ اس کے ساتھ رات اور دن کی گھڑ یوں میں قیام کرتا ہے (یعنی اس پر عمل کرتا ہے)اور ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا فرمایا اور وہ اسے رات اور دن کی گھڑ یوں میں خرچ کرتا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث اور ۔ کے لیے حدیث نمبر (۵۷۴)ملاحظہ فرمائیں۔

۹۹۸۔ حضرت برا بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی سورۂ کہف کی تلاوت کر رہا تھا اور اس کے پاس ہی ایک گھوڑا دو (۲) رسیوں سے بندھا ہوا تھا، پس ایک بادل نے اسے ڈھانپ لیا اور اس کے قریب ہونے لگا، جس سے اس کا گھوڑا اچھلنے کودنے لگا۔ جب صبح ہوئی تو وہ آدمی نبیﷺ کی خد مت میں حاضر ہوا اور آپ کو پورا واقعہ بتایا آپ نے فرمایا: یہ سکینت تھی جو قرآن مجید کی وجہ سے نازل ہوئی۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۷۹۔ فتح)و مسلم (۷۹۵)۔

۹۹۹۔ حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے قرآن مجید کا حرف پڑھا اس کے لیے ایک نیکی ہے اور وہ نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے۔ میں نہیں کہتا کہ (الم)ایک حرف ہے بلکہ ’’الف‘‘ ایک حرف ہے ’’لام‘‘ ایک حرف ہے اور ’’میم‘‘ ایک حرف ہے۔ (ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : اخرجہ الترمذی (۲۹۱۰)با سناد صحیح۔

۱۰۰۰۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک وہ شخص کہ جس کے دل میں قرآن کا کچھ حصہ نہ ہو وہ ویران اور خالی گھر کی طرح ہے۔ (ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : ضعیف۔ اخرجہ الترمذی (۲۹۱۳) والحاکم (/۵۵۴۱)۔

۱۰۰۱۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:صاحب قرآن سے روز قیامت کہا جائے گا۔ قرآن پڑھتا جا اور بلندی در جات پر چڑھتا جا اور اسی طرح ترتیل کے ساتھ تلاوت کر جس طرح تو دنیا میں تر تیل کے ساتھ تلاوت کر تا تھا،یقیناً تیری منزل وہ ہو گی جہاں تیری آخر ی آیت کی تلاوت ہو گی۔ (ابو داؤد، ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : اخرجہ ابو داؤد۔ (۱۴۶۴)و الترمذی (۲۹۱۴)و ابن ماجہ (۳۷۸۰)و احمد (/۱۹۲۲)اسنادہ حسن۔

۱۸۱۔ باب:قرآن مجید کی حفاظت کرنے کا حکم اور اسے بھلا دینے کے انجام سے ڈرانا

۱۰۰۲۔ حضرت ابو موسیٰﷺ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس قرآن مجید کی حفاظت کرو، پس اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے !یہ قرآن (سینوں سے) نکل جانے میں اونٹ سے بھی زیادہ تیز ہے جو اپنی رسی کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۷۹۹۔ فتح)، و مسلم (۷۹۱)

۱۰۰۳۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: صاحب (حافظ)قرآن کی مثال رسی سے بندھے ہوئے اونٹ کی سی ہے اگر وہ اس اونٹ کی حفاظت اور نگرانی کر تا ہے تو اسے روک کر رکھتا ہے اور اگر اسے کھول دے تو وہ بھاگ جاتا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۷۹۹۔ فتح)و مسلم (۷۸۹)۔

۱۸۲۔ باب: قرآن مجید کو اچھی آواز کے ساتھ پڑھنا ،جس شخص کی آواز اچھی ہو اس سے قرآن پڑھنے کی درخواست کرنا اور اور  اسے غور سے سننا مستحب ہے۔

۱۰۰۴۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ تعالیٰ اس طرح کسی چیز کے لیے توجہ سے کان نہیں لگا تا جس طرح وہ اس نبیﷺ کے لیے کان لگاتا ہے جو خوش آواز ہے اور غنا کے ساتھ اونچی آواز سے قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۶۸۹۔ فتح)و مسلم (۷۹۲) (۲۳۳)۔

۱۰۰۵۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے انہیں فرمایا: (اے ابو موسیٰ)! تمہیں آل داؤد ؑ کے ’’مزامیر‘‘ میں سے ایک مزمار (اچھی آواز)دی گئی ہے۔ (متفق علیہ)

اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے انہیں فرمایا: اگر تمہیں معلوم ہو جاتا کہ گزشتہ رات میں تمہاری قرات سن رہا تھا (تو یقیناً تمہارے لیے یہ خوشی کی بات ہوتی)۔

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۹۲۹۔ فتح)و مسلم (۷۹۳) (۲۳۶)۔

۱۰۰۶۔ حضرت برا بن عازب ؓ بیان کر تے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو نماز عشا میں سورۃ التین پڑھتے ہوئے سنا ،میں نے آپ سے زیادہ خوش آواز کسی کو نہیں سنا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۲۵۱۲۔ فتح)و مسلم (۴۶۴) (۱۷۷)۔

۱۰۰۷۔ حضرت ابو لبا بہ بشیر بن عبد المنذر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جو شخص غنا کے ساتھ قرآن نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔ (ابوداؤد۔ سند جید ہے)

توثیق الحدیث :صحیح۔ أخر جہ ابوداؤد (۱۴۷۱)با سناد صحیح۔

۱۰۰۸۔ حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں نبیﷺ نے مجھے فرمایا: مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں آپ کو پڑھ کر سناؤں حالانکہ وہ تو آپ پر اتارا گیا ہے ؟ آپ نے فرمایا: میں یہ پسند کر تا ہوں کہ اپنے علاوہ کسی اور سے سنوں ؟پس میں نے آپ کے سامنے سورۂ نسا کی تلاوت کی حتیٰ کہ میں اس آیت تک پہنچ گیا، پس اس وقت کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان سب پر آپ کو گواہ بنائیں گے ؟ (النسا ۴۱)تو آپ نے فرمایا: اب تم بس کرو۔ میں نے جو آپ کی طرف دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔    (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۴۴۶) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۸۳۔ باب: مخصوص سورتیں اور مخصوص آیتیں پڑھنے کی ترغیب۔

۱۰۰۹۔ حضرت ابو سعید رافع بن معلی ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا: کیا میں تمہارے مسجد سے نکلنے سے پہلے پہلے تمہیں قرآن مجید کی عظیم تر ین سورت نہ سکھاؤں ؟ پس آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا جب ہم مسجد سے باہر نکلنے لگے تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا تھا کہ میں تمہیں قرآن مجید کی عظیم ترین سورت سکھاؤں گا؟ آپ نے فرمایا: ’’الحمد للہ رب العالمین‘‘ یہی۔  ’’سبع مثانی‘‘ (سات آیتیں ہیں جو بار بار دہرائی جاتی ہیں) اور یہی قرآن مجید ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (۸!۱۵۷۔ فتح)۔

۱۰۱۰۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ’’قل ھو اللہ‘‘ کے بارے میں فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! یہ تہائی قرآن کے برابر ہے۔ ‘‘

ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا: ’’کیا تم میں سے کوئی ایک اس بات سے عاجز ہے کہ وہ ایک رات میں ایک تہائی قرآن پڑھتے ؟‘‘ تو یہ بات ان پر گراں گزری، انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہم میں سے کون اس کی طاقت رکھتا ہے ؟ آپ نے فرمایا: ، ’’قل ھو اللہ أحداﷲالصمد‘‘ تہائی قرآن ہے۔ ‘‘

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (۹!۵۹۔ فتح)

۱۰۱۱۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ ہی سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کسی دوسرے آدمی کو ’’قل ہو اللہ احد‘‘ پڑھتے ہوئے سنا۔ وہ اسے بار بار دہرا رہا تھا ، جب صبح ہوئی تو وہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں آیا اور آپ سے اس شخص کا ذکر کیا ، وہ آدمی اس عمل کو معمولی سمجھتا تھا۔ پس رسول اللہﷺ نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! یہ سورت تو تہائی قرآن کے برابر ہے۔              (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۸۹۔ ۵۹۔ فتح)

۱۰۱۲۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ’’قل ہو اللہ احد‘‘ کے بارے میں فرمایا:یہ تو تہائی قرآن کے برابر ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۸۱۲)۔

۱۰۱۳۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا :یا رسول اللہﷺ !میں سورت ’’قل ہواللہ احد‘‘ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا:بے شک اس کی محبت تمہیں جنت میں لے جائے گی۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے ،بخاری تعلیقُا روایت کیا ہے)

توثیق الحدیث : حسن۔ اخرجہ البخاری (/۲۵۵۲۔ فتح)تعلیقُا، و وصلہ الترمذی (۲۹۰۱)۔

۱۰۱۴۔ حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اس رات کچھ ایسی آیات نازل کی گئی ہیں جن کی مثال کبھی نہیں دیکھی گئی؟ وہ (آیات) ’’قل أعوذ برب الفلق‘‘ اور  ’’قل أعوذ برب الناس‘‘ ہیں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۸۱۴)۔

۱۰۱۵۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ (اپنے الفاظ میں) جنوں اور لوگوں کی نظر بد سے پناہ مانگا کرتے تھے حتیٰ کہ معوذ تین (سورۂ فلق اور سورۂ ناس) نازل ہو گئیں۔ پس جب یہ دونوں نازل ہوئیں تو آپ نے انہیں اختیار کر لیا اور ان کے علاوہ جو کچھ تھا اسے ترک کر دیا۔     (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : اخرجہ الترمذی (۲۰۵۸)و ابن ماجہ (۳۵۱) والنسائی (/۲۷۱۸)۔ اسنادصحیح۔

۱۰۱۶۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قرآن مجید میں تین آیات والی ایک سورت نے ایک آدمی کے بارے میں سفارش کی حتیٰ کہ اسے بخش دیا گیا اور وہ سورت ’’تبارک الذی بیدہ الملک‘‘ (یعنی سورۂ ملک)ہے۔ (ابوداؤد، ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

ابو داؤد کی ایک روایت میں (تشفع)سفارش کرے گی‘‘ کے الفاظ ہیں۔

توثیق الحدیث : صحیح لغیرہ۔ اخرجہ ابوداؤد (۱۴۰۰) (و الترمذی (۲۸۹۱)و ابن ماجہ (۳۷۸۶)و احمد (/۲۹۹۲، ۳۲۱) والحاکم (/۵۶۵۱، /۴۹۷۲)۔

اس کی سند حسن ہے اس کیلئے سیدنا ابن عباس اور سیدنا انس ؓ کی احادیث شاہد ہیں لہٰذا بالجملہ یہ حدیث شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔

۱۰۱۷۔ حضرت ابو مسعود بدری ؓ سے روایت ہے کہ بنیﷺ نے فرمایا: جس شخص نے رات کے وقت سورۂ بقرہ کی آخر ی دو آیتیں تلاوت کیں تو وہ اس کے لیے کافی ہو جائیں گی۔ (متفق علیہ)

بعض نے کہا یہ آیتیں اس رات کی نا پسندیدہ چیزوں کے شر سے اسے کافی ہو جائیں گی اور بعض نے کہا کہ یہ دو آیتیں اسے قیام اللیل سے کافی ہو جائیں گی۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۵۹۔ فتح)و مسلم (۸۰۸)۔

۱۰۱۸۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ بیشک شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورۃ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔             (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم) (۷۸۰)

۱۰۱۹۔ حضرت ابی بن کعب ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے ابو منذر! کیا تجھے معلوم ہے کہ قرآن مجید کی کون سی سب سے بڑ ی آیت تمہارے پاس ہے ؟ میں نے عرض کیا ’’اللہ لا الہ الا ہو الحی القیوم‘‘ آپ نے پیار سے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا: ابو منذر! تمہیں علم مبارک ہو۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۸۱۰)

۱۰۲۰۔ حضرت ابو ہریرہؓ۔ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے زکوٰۃ رمضان (فطرانے)کی حفاظت پر مجھے مامور فرمایا:۔ پس ایک آنے والا میرے پاس آیا اور کھانے کے (غلے میں سے)لپ بھرنے گا، تو میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ میں تمہیں رسول اللہﷺ کے پاس لے کر جاؤں گا۔ اس نے کہا میں محتاج اور عیال دار ہوں اور مجھے سخت ضرورت ہے ، پس میں نے اسے چھوڑ دیا۔ جب میں نے صبح کی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ابوہریرہ ! گزشتہ رات تیرے قیدی نے کیا کیا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ۔ ! اس نے ضرورت اور عیال داری کی شکایت کی، پس مجھے اس پر رحم آ گیا تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اس نے تجھ سے جھوٹ بولا ہے اور وہ پھر آئے گا۔ پس مجھے یقین ہو گیا کہ وہ رسول اللہﷺ کے فرمان کے مطابق وہ ضرور آئے گا ، میں اس کی تاک میں تھا کہ وہ آیا اور کھانے کے (غلے میں سے)لپ بھرنے لگا۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا میں تمہیں ضرور رسول اللہﷺ کے پاس لے کر جاؤں گا۔ اس نے کہا مجھے چھوڑ دو۔ اس لیے کہ میں محتاج ہوں اور عیال دار بھی ہوں میں آئندہ نہیں آؤں گا۔ پس مجھے اس پر رحم آ گیا اور میں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا۔ پس میں نے صبح کی تو رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا: ابو ہریرہ ! گزشتہ رات تمہارے قیدی نے کیا کیا ؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ !اس نے حاجت مندی اور عیالداری کی شکایت کی، پس مجھے رحم آ گیا تو میں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا: اس نے تیرے ساتھ جھوٹ بولا ہے اور وہ پھر آئے گا۔ پس میں تیسری رات بھی اس کی گھات میں بیٹھ گیا ،وہ آیا اور کھانے کے (غلے میں سے) لپ بھرنے لگا ،میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ میں تمہیں ضرور رسول اللہﷺ کی خد مت میں پیش کروں گا اور یہ تیسری مرتبہ ہے تو ہر بار یہی کہتا ہے کہ میں نہیں آؤں گا لیکن پھر۔ آ جا تا ہے۔ اس نے کہا مجھے چھوڑ دو ،میں تمہیں چند کلمات سکھاتا ہوں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تمہیں فائدہ پہنچائے گا۔ میں نے کہا وہ کیا ہیں ؟ اس نے کہا جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو، پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صبح تک تمہارے لیے ایک محافظ مقرر رہے گا اور شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آئے گا۔ پس میں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا۔ میں نے صبح کی تو رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا: گزشتہ رات تمہارے قیدی نے کیا کیا ؟ میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ ! اس نے یہ ضمانت دی کہ وہ مجھے چند کلمات سکھائے گا، جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ مجھے فائدہ پہنچائے گا،پس میں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا: وہ کلمات کیا ہیں ؟ میں نے عرض کیا اس نے مجھے بتایا کہ جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو شرع سے آخر۔ تک آیت الکرسی پڑھ لیا کرو ’’اللہ لا الہ الہ ھو الحیی القیوم‘‘ اور اس نے مجھے مزید بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے اوپر محافظ مقرر رہے گا اور تمہارے قریب شیطان نہیں آئے گا حتیٰ کہ صبح ہو جائے گی۔ پس نبیﷺ نے فرمایا: اس نے تمہارے ساتھ تو سچ بولا اور وہ خود بڑا جھوٹا ہے ابو ہریرہ ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم تین راتیں کس سے مخاطب رہے ہو؟ ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں، میں نے کہا : ’’نہیں‘‘ (مجھے معلوم نہیں) آپ نے فرمایا:و ہ شیطان تھا۔           (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۸۷۴۔ فتح)، تعلیقا

اسے امام بخاری نے معلق بیان کیا ہے جبکہ اسماعیلی نے اسے موصول بیان کیا ہے جیسا کہ ’’ھدی الساری (۴۲)اور فتح الباری (/۴۸۸۴)میں ہے۔ اور ابن حجر نے بھی تعلیق التعلیق (/۲۰۶۳) میں اسے موصول بیان کیا۔

۱۰۲۱۔ حضرت ابو دردا ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے سورۂ کہف کی پہلی دس آیات یاد کر لیں ، وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا۔

ایک اور روایت میں ہے : (جو) سورۂ کہف کی آخر ی دس آیتیں (یاد کر لے گا)۔                      (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۸۰۹)

۱۰۲۲۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کر تے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت جبرائیل ؑ نبیﷺ کے پاس تشریف فرما تھے کہ انھوں نے اپنے اوپر سے ایک آواز سنی تو انھوں نے اپنا سر اوپر کی طرف اٹھایا اور فرمایا: یہ آسمان میں ایک دروازہ ہے جو آج ہی کھولا گیا ہے اور آج سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا پس اس میں سے ایک فرشتہ اترا تو فر مایا: یہ فرشتہ جو زمین پر اترا ہے یہ صرف آج ہی اترا ہے، پس اس نے سلام کیا اور کہا : آپ کو دو نوروں کی بشارت ہو جو آپ کو دیے گئے ہیں ،وہ آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیے گئے : فاتحہ الکتاب (سورۂ فاتحہ) اور سورۂ بقرہ کی آخر ی آیات ، آپ ان میں سے جس حرف کی بھی تلاوت کریں گے تو آپ کو (اس کی مناسبت سے) وہ چیز عطا کر دی جائے گی۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۸۰۶)۔

۱۸۴۔ باب: قرآن مجید پڑھنے کے لیے جمع ہونا مستحب ہے۔

۱۰۲۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو اللہ تعالیٰ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اکٹھے ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کو اس کا درس دیتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہو تی ہے انہیں رحمت ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے پاس موجود فرشتوں میں ان کا ذکر فرماتا ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۶۹۶)

۱۸۵۔ باب: وضو کی فضیلت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے کا ارادہ کرو تو اپنے چہروں کو اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھولو اور اپنے سروں کا مسح کر لو اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں تک دھولو۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ تم پر تنگی کا ارادہ نہیں کرتا بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر پوری کرے تاکہ تم شکر کرو۔  (سورۃ المائدۃ:۶)

۱۰۲۴۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک میری امت کو قیامت والے دن اس حال میں پکارا جائے گا کہ ان کے اعضائے وضو آثار وضو کی وجہ سے چمکتے ہوں گے۔ پس جو شخص اپنی اس چمک کو بڑھانے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے ایسا کرنا چاہیے۔              (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۳۵۱۔ فتح)و مسلم (۲۴۶) (۳۵)۔

۱۰۲۵۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے خلیلﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : مومن کا زیور وہاں تک پہنچے گا جہاں تک وضو پہنچے گا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۵۰)

۱۰۲۶۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا تو اس کے جسم سے حتیٰ کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی اس کی خطائیں نکل جاتی ہیں۔          (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۴۵)

۱۰۲۷۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ ہی بیان کر تے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا آپ نے میرے اس وضو جیسا وضو کیا پھر فرمایا: جس شخص نے اس طرح وضو کیا اس کے سابقہ (صغیرہ) گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں جبکہ اس کی نماز اور اسکا مسجد کی طرف چل کر جانا فضل (ثواب کے لحاظ سے زائد) ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۲۹)۔

۱۰۲۸۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب مسلمان یا مومن بندہ وضو کر تا ہے اور اپنا چہرہ دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخر ی قطرے کے ساتھ اس کے چہرے سے وہ تمام گناہ نکل جاتے ہیں جن کی طرف اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور جب وہ اپنے ہاتھ دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخر ی قطرے کے ساتھ اس کے ہاتھوں سے وہ تمام گناہ نکل جاتے ہیں جو اس کے ہاتھوں نے پکڑے (کیے) تھے اور جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخر ی قطرے کے ساتھ وہ تمام گناہ نکل جاتے ہیں جن کی طرف اس کے پاؤں چل کر گئے تھے حتیٰ کہ وہ گنا ہوں سے پاک صاف ہو کر نکلتا ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۴۲)۔

۱۰۲۹۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ قبرستان تشریف لے گئے تو فرمایا : ’’تم پر سلام ہو اے ایمان دار گھر والو ! اور بے شک ہم بھی، اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھیں‘‘ ۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ !کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ؟ آپ نے فرمایا: تم میرے صحابی ہو اور ہمارے بھائی وہ ہیں جو ابھی تک نہیں آئے۔ صحابہ نے کہا : یار سول اللہﷺ جو ابھی تک نہیں آئے آپ انہیں کیسے پہچانیں گے ؟ آپ نے فرمایا: مجھے بتاؤ اگر کسی آدمی کا سفید پیشانی اور سفید ٹانگوں والا گھوڑا خالص سیاہ رنگ کے گھوڑوں کے درمیان ہو تو کیا وہ آدمی اپنے گھوڑے کو نہیں پہچان لے گا؟ انھوں نے کیا کیوں نہیں یار سول اللہﷺ ضرور پہچان لے گا۔ پھر آپ نے فرمایا: پس وہ (میری امت کے بعد میں آنے والے لوگ) بھی روز قیامت اس حال میں آئیں گے کہ آثار وضو کی وجہ سے ان کے ہاتھ پاؤں اور چہرے روشن ہوں گے اور میں حوض کوثر پر ان کا میرِ سامان (پہلے پہنچا ہو ا) ہوں گا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۴۹)۔

۱۰۳۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ خطائیں اور گناہ معاف کر دیتا ہے اور درجات بلند فرما دیتا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا: مشقت اور ناگواری کے با وجود اچھی طرح وضو کرنا، مساجد کی طرف زیادہ چل کر جانا ایک نماز کے بعد (دوسری) نماز کا انتظار کرنا ،پس یہی ’’رباط‘‘ ہے یہی ’’رباط‘‘ ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۳۱)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۰۳۱۔ حضرت ابو مالک اشعری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: پاکیزگی نصف ایمان ہے۔      (مسلم)

یہ روایت پوری تفصیل کے ساتھ ’’باب الصبر‘‘ میں گزر چکی ہے۔ اس موضوع پر حضرت عمر و بن عبسہ ؓ کی حدیث بھی ہے جو ’’باب الرجاء‘‘ کے آخر۔ پر حدیث نمبر (۴۳۸) کے تحت گزر چکی ہے اور یہ حدیث بہت عظیم ہے اور نیکی کے بہت سے کاموں پر مشتمل ہے۔

توثیق الحدیث کیلئے حدیث نمبر (۲۵)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۰۳۲۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا تم میں سے جو شخص وضو کرے اور خوب اچھی طرح وضو کرے پھر یہ دعا پڑھے ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ؐ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں‘‘ تو اس کے لیے جنت کے اٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں کہ وہ جس میں چاہے داخل ہو جائے۔     (مسلم)

اور امام ترمذی ؒ نے یہ الفاظ زیادہ روایت کیے ہیں اے اللہ ! مجھے توبہ کرنے والوں میں سے اور خوب پاکیزگی حاصل کرنے والوں میں سے بنا۔

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۳۴)الترمذی (۵۵)۔

۱۸۶۔ باب: اذان کی فضیلت

۱۰۳۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان دینے اور پہلی صف میں کھڑے ہونے کی کتنی فضیلت ہے پھر وہ اس پر قرعہ اندازی کرنے کے بغیر کوئی چارہ نہ پائیں تو وہ اس پر ضرور قرعہ اندازی کریں اور اگر وہ جان لیں کہ (نماز کے لیے) اول وقت آنے میں کیا فضیلت ہے تو وہ ضرور اس کی طرف دوڑ کر آئیں اور اگر وہ جان لیں کہ نماز عشا اور نماز فجر کی کتنی فضیلت ہے تو وہ ضرور ان میں شریک ہوں ،اگر چہ انہیں سر ین کے بل گھسٹ کر آنا پڑے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۹۶۲۔ فتح)و مسلم (۴۳۷)۔

۱۰۳۴۔ حضرت معاویہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’اذان دینے والے قیامت والے دن باقی تمام لوگوں سے لمبی گردن والے ہوں گے۔ ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۳۸۷)

۱۰۳۵۔ حضرت عبداللہ بن عبد الرحمن بن ابی صعصعہ سے روایت ہے کہ ابو سعید خدری ؓ نے مجھے فرمایا: میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم بکریوں اور جنگل سے محبت کر تے ہو۔ پس جب تم اپنی بکریوں میں یا جنگل میں ہو اور تم نماز کیلئے اذان دو تو پھر اونچی اور بلند آواز سے اذان دو۔ اس لیے کہ جہاں تک مؤذن کی آواز کو جن، انسان اور کوئی اور چیز سنتی ہے تو وہ قیامت والے دن اس کے لیے گواہی دے گی۔ حضرت ابوسعید ؓ نے فرمایا: میں نے اسے رسول اللہﷺ سے سنا ہے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۸۷۲۔ ۸۸۔ فتح)

۱۰۳۶۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا (پادتا) ہوا پیٹھ پھیر کر بھاگ جا تا ہے (اتنی دور تک)کہ وہ اذان کی آواز نہیں سنتا ،جب اذان پوری ہو جاتی ہے تو پھر واپس۔ آ جاتا ہے حتیٰ کہ جب نماز کیلئے اقامت (تکبیر) کہی جاتی ہے تو پھر پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے (اتنی دیر کیلئے)کہ جب اقامت ہو جاتی ہے تو پھر پلٹ آتا ہے حتیٰ کہ آدمی اور اس کے نفس کے درمیان سو سے ڈالتا ہے اور کہتا ہے فلاں چیز یاد کر ،فلاں چیز یاد کر ،یعنی ایسی چیزیں جو اسے پہلے یاد نہ تھیں۔ یہاں تک کہ آدمی کی یہ کفیت ہو جاتی ہے کہ اسے پتا نہیں چلتا کہ اس نے کتنی رکعت نماز پڑھی ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۸۴۲۔ ۸۵۔ فتح)

۱۰۳۷۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :جب تم مؤذن کو (اذان دیتے ہوئے) سنو تو تم اسی طرح کہو جس طرح وہ کہتا ہے پھر مجھ پر درود بھیجو، اس لیے کہ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس دفعہ رحمت بھیجتا ہے ،پھر اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ طلب کرو۔ وہ (وسیلہ) جنت میں ایک مقام ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کے لائق ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ بند ہ میں ہی ہوں۔ پس جس شخص نے میرے لیے ’’وسیلے‘‘ ،کا سوال کیا اس کیلئے میری شفاعت حلال (واجب) ہو جائے گی۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۳۸۴)۔

۱۰۳۸۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم اذان سنو تم اسی طرح کہو جس طرح مؤذن کہتا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۹۰۲۔ فتح)۔ و مسلم (۳۸۳)۔

۱۰۳۹۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو شخص اذان سن کر یہ کہے : ’’اے اللہ! اس دعوت کامل اور کھڑ ی ہونے والی نماز کے رب !محمد ؐ۔ کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور انہیں اس مقام محمود پر فائز فرما، جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے‘‘ ۔ تو قیامت کے دن اس کے لیے میری شفاعت حلال ہو گی۔             (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۹۴۲۔ فتح)

۱۰۴۰۔ حضرت سعد بن ابی وقاص، ؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس شخص نے اذان سن کر یہ کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، میں اللہ تعالیٰ کے رب ہونے، محمدﷺ کے رسول ہونے اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں، تو اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۳۸۶)۔

۱۰۴۱۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اذان اور اقامت کے درمیان کی گئی دعا رد نہیں کی جاتی۔ (ابو داؤد، ترمذی۔ حدیث حسن ہے۔ )

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۵۲۱)و الترمذی (۲۱۲)و احمد (/۱۵۵۳و۲۲۵)

۱۸۷۔ باب: نمازوں کی فضیلت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔        (سورۃ العنکبوت:۴۵)

۱۰۴۲۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: مجھے بتاؤ اگر تمہارے کسی ایک کے دروازے پر نہر و، جس سے وہ ہر روز پانچ مرتبہ غسل کر تا ہو تو کیا اس کے جسم پر کوئی میل کچیل باقی رہے گا؟ صحابہ کرام نے عرض کیا اس کے جسم پر کوئی میل کچیل باقی نہیں رہے گا۔ آپ نے فرمایا: پس یہی پانچ نمازوں کی مثال ہے اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے خطائیں معاف فرما دیتا ہے۔     (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۱۲۔ فتح) مسلم (۶۶۷)۔

۱۰۴۳۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: پانچوں نمازوں کی مثال اس گہری نہر کی سی ہے جو تم میں سے کسی ایک دروازے پر بہہ رہی ہو اور وہ اس سے روزانہ پانچ مرتبہ غسل کر تا ہو۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۶۶۸)۔

۱۰۴۴۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کسی عورت سے بوسو کنار کیا ، پھر وہ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے آپؐ۔ کو بتایا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:۔ ۔ ’’اور نماز قائم کرو دن کے دونوں کناروں اور کچھ رات کی گھڑ یوں میں بے شک نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں‘‘ ۔ (ھود:۱۱۴)اس آدمی نے کہا کیا یہ آیت میرے لیے (خاص) ہے ؟ آپ نے فرمایا: (نہیں ! یہ)میری تمام امت کے لیے ہے۔ (متفق علیہ)۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۸۲۔ فتح)و مسلم (۲۷۶۳)۔

۱۰۴۵۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: پانچوں نمازیں اور ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک ان کے مابین ہونے والے (صغیرہ)گنا ہوں کا کفارہ ہیں بشرطیکہ کبیرہ گنا ہوں سے اجتناب کیا جائے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۳۳)۔

۱۰۴۶۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا جو مسلمان شخص ایسا ہو کہ فرض نماز کا وقت آنے پر وہ اس نماز کے لیے اچھی طرح وضو کرے خشوع و خضوع کا اہتمام کرے اور اچھی طرح رکوع کرے تو یہ نماز اس سے پہلے کیے ہوئے گنا ہوں کا کفارہ بن جاتی ہے جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے اور یہ گنا ہوں کی معافی کا سلسلہ ہمیشہ رہتا ہے۔    (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۲۸)

۱۸۸۔ باب: نماز صبح اور نماز عصر کی فضیلت

۱۰۴۷۔ حضرت ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :جس شخص نے دو ٹھنڈی نمازیں ادا کیں وہ جنت میں داخل ہو گا۔                        (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۲۲۔ فتح)و مسلم (۶۳۵)۔

۱۰۴۸۔ حضر زہیر ؓ عمار بن رویبہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص طلوع آفتاب سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھتا ہے تو وہ جہنم میں نہیں جائے گا۔ یعنی نماز فجر اور نماز عصر پڑھتا ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۶۳۴)

۱۰۴۹۔ حضرت جندب بن سفیان ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص نماز صبح پڑھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی امان میں ہو تا ہے۔ پس اے ابن آدم ! تو غور کر کہ اللہ تعالیٰ تجھ سے اپنی امان کے متعلق کسی قسم کی باز پرس نہ کرے۔ ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث وقفہ الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۲۳۲) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۰۵۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تمہارے پاس رات اور دن کے وقت فرشتے باری باری آتے ہیں اور وہ نماز صبح اور نماز عصر کے وقت اکٹھے ہوتے ہیں پھر جو فرشتے تمہارے پاس رات کو ٹھہرے تھے وہ اوپر چڑھ جاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ ان فرشتوں سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان کے بارے میں خوب جانتا ہے :تم نے میرے بندوں کوکس حالت میں چھوڑا ؟فرشتے جواب دیتے ہیں۔ ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس گئے تھے تو تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۳۲۔ فتح)و مسلم (۶۳۲)۔

۱۰۵۱۔ حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ نے بد ر (چودھویں رات) کے چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا: تم اپنے رب کوایسے ہی دیکھو گے جس طرح تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو اور تم اسے دیکھنے میں کوئی مشقت محسوس نہیں کر رہے۔ پس اگر تم استطاعت رکھو کہ تم نماز فجر اور نماز عصر کے بارے میں مغلوب نہ ہو تو تم ضرور ایسا کیا کرو۔ (متفق علیہ)

ایک اور روایت میں ہے : آپ نے چودھویں رات کو چاند کی طرف دیکھا۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۳۲۔ فتح)و مسلم (۶۳۳)والر وایۃ الثانیۃ عندالبخاری (/۵۹۷۸۔ فتح)۔

۱۰۵۲۔ حضرت بریدہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے نماز عصر چھوڑ ی دی پس اس کے عمل تو برباد ہو گئے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۱۲ و۶۶۔ فتح)۔

۱۸۹۔ باب: مساجد کی طرف چل کر جانے فضیلت

۱۰۵۳۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : جو شخص صبح کے وقت مسجد کی طرف جاتا ہے یا شام کے وقت تو وہ جب بھی صبح کے وقت جائے تو یا شام کے وقت جائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں مہمانی تیار کرتا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۴۸۲۔ فتح)و مسلم (۶۶۹)۔

۱۰۵۴۔ حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے گھر میں اچھی طرح طہارت حاصل کرے (وضو وغیرہ کرے)پھر اللہ تعالیٰ کے گھروں میں سے کسی گھر (یعنی مسجد) کی طرف جائے تاکہ اللہ کے فرائض میں سے کسی فریضے (نماز)کو ادا کرے تو اس کے قدم اس طرح (شمار) ہوں گے کہ ان میں سے ایک قدم گناہ مٹائے گا اور دوسرا درجہ بلند کرے گا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۶۶۶)۔

۱۰۵۵۔ حضرت ابی بن کعب ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی تھا ،میں نہیں جنتا کہ کوئی آدمی اس کی نسبت مسجد سے زیادہ دور ہو (یعنی وہ مسجد سے بہت دور رہتا تھا)لیکن اس کی کوئی ایک نماز بھی نہیں چوکتی تھی۔ اس سے کہا گیا اگر آپ ایک گدھا خرید لیں تا کہ اندھیرے اور سخت گرمی میں اس پر سوار ہو کر۔ آ جا یا کریں ؟اس نے جواب دیا مجھے یہ پسند نہیں کہ میرا گھر مسجد کے پہلو میں ہو،میں تو چاہتا ہوں کہ میرا مسجد کی طرف چل کر آنا اور جب میں اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر جاؤں تب میرا لوٹنا ، یہ سب کچھ لکھا جائے۔ پس رسول اللہﷺ نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے یہ سب جمع فرما دیا ہے۔     (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۶۶۳)۔

۱۰۵۶۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ مسجد (نبوی) کے قریب کچھ جگہیں خالی ہوئیں تو بنو سلمہ نے مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کیا۔ نبیﷺ تک یہ بات پہنچی تو آپ نے انہیں فرمایا: مجھے پتا چلا ہے کہ تم مسجد کے قریب منتقل ہونا چاہتے ہو؟ انھوں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ ! ہم نے یقیناً اس کا ارادہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا:بنو سلمہ!اپنے گھروں میں رہو، تمہارے نشانات قدم لکھے جاتے ہیں ، تم اپنے گھروں میں رہو ، تمہارے نشانات قدم لکھے جاتے ہیں۔ انھوں نے عرض کیا :اب ہمیں پسند نہیں کہ ہم (مسجد کے قریب) منتقل ہوں (مسلم) اور امام بخاری ؒ نے بھی اس مفہوم کی روایت حضرت انس ؓ سے بیان کی ہے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۶۶۵)وأماحدیث أنس فعند البخاری (/۱۳۹۲۔ فتح)۔

۱۰۵۷۔ حضرت ابو موسیٰؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :نماز کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ اجر والا وہ شخص ہے جو اس کی طرف سب سے زیادہ دور سے چل کر آتا ہے پھر وہ جو اس سے بھی دور سے آتا ہے اور جو شخص نماز کا انتظار کرتا ہے حتیٰ کہ وہ اسے امام کے ساتھ پڑھتا ہے ، وہ اس شخص سے کہیں زیادہ اجر کا مستحق ہے جو اکیلے ہی نماز پڑھتا ہے اور سو جاتا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۳۷۲)و مسلم (۶۶۲)۔

۱۰۵۸۔ حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: اندھیروں میں دور سے مسجد کی طرف چل کر آنے والوں کو روز قیامت ملنے والے نور کامل کی بشارت دو۔             (ابو داؤد ترمذی)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابوداؤد (۵۶۱)و الترمذی (۲۲۳)

اس کی سند میں اگر چہ ضعف ہے لیکن اس کے کئی ایک شواہد ہیں ،جیسے سیدنا انس بند مالک ؓ اور سیدنا سہل بن سعد ؓ وغیرہ ہم کی احادیث۔ لہٰذا یہ حدیث صحیح ہے۔

۱۰۵۹۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے ذریعے جنت میں درجات بلند کر تا ہے ؟

صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہﷺ کیوں نہیں ؟ آپ نے فرمایا: تنگی و ناگواری کے باوجود اچھی طرح وضو کرنا، مساجد کی طرف زیادہ چل کر جانا اور (ایک) نماز کے بعد (دوسری)نماز کا انتظار کرنا، پس یہی ’’رباط‘‘ ہے یہی ’’رباط‘‘ (محاذ جنگ پر پڑاؤ) ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث و۔ کے لئے حدیث نمبر (۱۳۱)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۰۶۰۔ حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جب تم کسی شخص کو بار بار مسجد کی طرف آتا جاتا دیکھو تو اس کے ایمان کی گواہی (کیونکہ) دو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ اور یوم آخر ت پر ایمان رکھتا ہے۔          (التوبہ۔ ۸) (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : ضعیف الا سناد۔ اخرجہ الترمذی (۲۶۱۷و۳۰۹۳)و ابن ماجہ (۸۰۲) (و احمد (/۶۸۳، ۷۶)و ابن حبان (۱۷۲۱)والحاکم (/۲۱۲۱۔ ۲۱۳، /۳۳۲۲)۔

یہ روایت سنداً ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں دراج راوی ہے اس کی ابوالہیثم سے روایات ضعیف ہیں۔

۱۹۰۔ باب:نماز کا انتظار کرنے کی فضیلت

۱۰۶۱۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایک حالت نماز ہی میں رہتا ہے جب تک نماز اسے روکے رکھے کہ اسے اپنے گھر والوں کے پاس واپس جانے میں نماز کے علاوہ کوئی چیز مانع نہ ہو۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (۲!۱۴۲۔ فتح)،و مسلم (۶۴۹) (۲۷۶)۔

۱۰۶۲۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: فرشتے تمہارے اس آدمی کے حق میں دعا کرتے رہتے ہیں جو با وضو اسی جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے فرشتے کہتے ہیں۔ اے اللہ !اسے بخش دے، اے اللہ اس پر رحم فرما۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۴۳۲فتح)۔

۱۰۶۳۔ حضرت انس سے روایت کہ رسول اللہﷺ نے ایک رات نماز عشا کو نصف رات تک مؤخر کر دیا پھر آپ نماز پڑھانے کے بعد ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: لوگوں نے نماز پڑھ لی اور وہ سو گئے لیکن تم جب سے نماز کے انتظار میں ہو برابر حالت نماز میں رہے ہو۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۱۲۔ فتح)

۱۹۱۔ باب : با جماعت نماز پڑھنے کی فضیلت

۱۰۶۴۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: با جماعت نماز ادا کرنا، اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس درجے افضل ہے۔                     (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۳۱۲و۱۳۷۔ فتح)و مسلم (۶۵۰)۔

۱۰۶۵۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: آدمی کی با جماعت نماز اس کی گھر اور بازار میں پڑھی گئی نماز سے پچیس گناہ زیاد ہ اجر رکھتی ہے۔ وہ اس طرح کہ جب اس نے وضو کیا تو اچھی طرح وضو کیا پھر مسجد کی طرف روانہ ہو ایہ اس کا نکلنا صرف نماز کی خاطر ہو پھر وہ جو قدم اٹھاتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیا جاتا ہے اور ایک گناہ معاف کر دیا جاتا ہے پھر جب وہ نماز پڑھتا ہے اور اس کے بعد با وضو اپنی نماز کی جگہ بیٹھا رہتا ہے تو فرشتے اس کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں وہ کہتے ہیں اے اللہ ! اس پر رحمت نازل فرما اے اللہ اس پر رحمو کرم فرما۔ اور جب تک وہ نماز کے انتظار میں رہتا ہے تو وہ حالت نماز میں رہتا ہے۔ (متفق علیہ)

یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔

توثیق الحدیث کیلئے حدیث (۱۰) ملاحظہ فرمائیں، لیکن اس جگہ الفاظ بخاری کے ہیں وہاں مسلم کے ہیں۔

۱۰۶۶۔ حضرت ابوہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا آدمی نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرا کوئی قائد نہیں جو مجھے مسجد تک لے آیا کرے۔ پس اس نے رسول اللہﷺ سے یہ درخواست کی کہ آپ اسے گھر ہی میں نماز پڑھنے کی اجازت عطا فرما دیں۔ پس آپ نے اسے اجازت مرحمت فرما دی۔ جب وہ جانے کیلئے مڑا تو آپ نے اسے بلایا اور پوچھا : کیا تم نماز کی اذان سنتے ہو ؟ اس نے عرض کیا : جی ہاں آپ نے فرمایا: پھر اس کا جواب دے (یعنی تعمیل کرو)۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۶۵۳)۔

۱۰۶۷۔ حضرت عبد اللہ بعض کے نزدیک عمرو بن قیس المعروف ابن ام مکتوم مؤذن ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ !مدینے میں کیڑے مکوڑے اور درندے بہت ہیں (آپ مجھے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت مرحمت فرمائیں) رسول اللہ ؐ نے فرمایا: تم ’’حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح‘‘ سنتے ہو؟ (اگر سنتے ہو) تو پھر مسجد میں آؤ۔ (ابوداؤد۔ سند حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۵۵۳)والنسائی (/۱۰۹۲و۱۱۰)و ابن ماجہ (۷۹۲) با سناد صحیح۔

۱۰۶۸۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !میں نے یقیناً ارادہ کیا کہ میں لکڑ یاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں وہ اکٹھی ہو جائیں پھر میں نماز کا حکم دوں اور اس کیلئے اذان دی جائے ،پھر میں کسی آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں خود ان لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز پڑھنے نہیں آتے اور ان سمیت ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۲۰۲۔ فتح)و مسلم (۶۵۱)۔

۱۰۶۹۔ حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ وہ کل اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ وہ مسلمان ہو تو اسے ان نمازوں کی حفاظت کرنی چاہیے جب بھی ان کے لیے اذان دی جائے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبیﷺ کیلئے ہدایت کے طریقے مقرر فرمائے ہیں اور یہ نمازیں بھی انہی ہدایت کے طریقوں میں سے ہیں۔ اگر تم اپنے گھروں میں نمازیں پڑھو گے جیسا کہ یہ نماز سے پیچھے رہ جانے والا شخص اپنے گھر میں نماز پڑھتا ہے تو پھر تم نے اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ دیا اور اگر تم نے اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ دیا تو گمراہ ہو جاؤ گے۔ اور میں نے تو اپنے لوگوں کا یہ حال دیکھا ہے کہ نماز سے وہی منافق پیچھے رہتا جس کا نفاق معلوم ہوتا اور البتہ تحقیق (بعض مریض قسم کے) آدمی کو دو امیوں کے سہارے سے لایا جاتا ہے اور اسے صف میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ (مسلم)

اور مسلم کی ایک روایت میں ہے حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا: کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں ہدایت کے طریقے سکھائے اور ہدایت کے طریقوں میں سے ہے کہ اس مسجد میں نماز پڑھی جائے جس میں اذان دی جائے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۶۵۴) (۲۵۷)والروایۃ الثانیۃ عند مسلم (۶۵۴)۔

۱۰۷۰۔ حضرت ابو دردا ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا : جس بستی یا جنگل میں تین آدمی ہوں اور ان میں با جماعت نماز کا اہتمام نہ ہوتا ہو تو ان پر یقیناً شیطان غالب آ چکا ہے۔ پس تم جماعت کو لازم پکڑ و، کیونکہ بھیڑ یا صرف اسی بکری کو کھاتا ہے جو ریوڑ سے دور رہتی ہے۔ (ابوداؤد۔ سند حسن ہے)

توثیق الحدیث : اخرجہ ابوداؤد (۵۴۷) والنسائی (/۱۰۶۲۔ ۱۰۷)و احمد (/۱۹۶۵، /۴۴۶۶) والحاکم (/۲۱۱۱) ابن حبان (۱،۲۱)

۱۹۲۔ باب: نماز فجر اور نماز عشا با جماعت ادا کرنے کی ترغیب

۱۰۷۱۔ حضرت عثمان عفان ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس شخص نے نماز عشا با جماعت ادا کی تو گویا اس نے آدھی رات قیام کیا اور جس شخص نے نماز فجر (بھی) با۔ جماعت۔ ادا کی تو گویا اس نے پوری رات قیام کیا۔ (مسلم)

اور ترمذی کی روایت میں ہے : حضرت عثمان بن عفان ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے نماز عشا با جماعت ادا کی تو اس کے لیے آدھی رات کے قیام کا ثواب ہے اور جس شخص نے نماز عشا اور نماز فجر با جماعت ادا کی تو اس کے لیے پوری رات کے قیام کا ثواب ہے۔ (امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۶۵۶)و الر وایۃ الثانیۃ عند الترمذی (۲۲۱)۔

۱۰۷۲۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ نماز عشا اور نماز فجر میں کتنا ثواب ہے تو وہ ان میں ضرور حاضر ہوں خواہ وہ سرین کے بل چل کر آئیں۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۰۳۳)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۰۷۳۔ حضرت ابوہریرہؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: منافقوں پر نماز فجر اور نماز عشا کے علاوہ کوئی نماز زیادہ بھاری نہیں ، اگر وہ ان کی فضیلت جان لیں تو ضرور ان میں شریک ہوں خواہ انہیں سرین کے بل چل کر آنا پڑے۔         (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۴۱۲۔ فتح)و مسلم (۴۳۷)

۱۹۳۔ باب: فرض نمازوں کی حفاظت کرنے کا حکم اور انہیں چھوڑ نے کی سخت ممانعت اور شدید وعید کا بیان

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: نمازوں کی حفاظت کرو ، بالخصوص نماز وسطی (عصر) کی۔ (البقرۃ:۲۳۸) اور فرمایا: اگر وہ توبہ کر لیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دے دیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ (التوبۃ:۵)

۱۰۷۴۔ حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا: کون سا عمل سب سے زیادہ افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا:نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا۔ میں نے عرض کیا پھر کون سا ؟ آپ نے فرمایا: ’’والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ میں نے کہا پھر کون سا ؟ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لئے حدیث نمبر (۳۱۲)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۰۷۵۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے (۱)گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں (۲)نماز قائم کرنا (۳)زکوٰۃ ادا کرنا (۴)بیت اللہ کا حج کرنا (۵)اور رمضان کے روزے رکھنا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۹۱۔ فتح)و مسلم (۱۶)

۱۰۷۶۔ حضرت ابن عمر ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مجھے لوگوں سے جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے حتیٰ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں۔ پس جب وہ یہ کام کر لیں تو انھوں نے اپنے خون اور اموال مجھ سے بچا لیے مگر حق اسلام کی وجہ سے اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لئے حدیث نمبر (۳۹۰)ملاحظہ کریں۔

۱۰۷۷۔ حضرت معاذؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا: ’’تم ایسے لوگوں کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں پس تم انہیں اس چیز کی طرف دعوت دینا کہ وہ یہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں (محمد) اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ یہ بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ نے ان پر دن اور رات پانچ نمازیں فرض کی ہیں اگر وہ یہ بھی مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ نے ان پر صدقہ (زکوٰۃ)فرض کیا ہے جوان کے امیر لوگوں سے لیا جاتا ہے اور ان کے فقرا پر خرچ کیا جاتا ہے اگر وہ اس مسئلے میں بھی اطاعت کریں تو پھر تم ان کے اچھے اور عمدہ مال لینے سے بچنا اور مظلوم کی بد دعا سے بھی بچنا ، اس لئے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں‘‘ ۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کیلئے حدیث نمبر (۲۰۸)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۰۷۸۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : بے شک آدمی اور شرک و کفر کے درمیان (فرق) نماز کا چھوڑ نا ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۸۲)

۱۰۷۹۔ حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: وہ عہد جو ہمارے اور ان کے درمیان ہے وہ نماز ہے۔ جس شخص نے اسے ترک کر دیا اس نے کفر کیا۔ (ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ الترمذی (۲۶۲۱) والنسائی (/۲۳۱۱۔ ۲۳۲)و ابن ماجہ (۱۰۷۹)و احمد (/۳۴۶۵و۳۵۵)و ابن حبان (۱۴۵۴) والحاکم (/۷۱)۔

۱۰۸۰۔ حضرت شقیق بن عبداللہ تابعی ؒ جن کی بزرگی پر اتفاق ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ اصحاب محمد ؐ نماز کے علاوہ کسی بھی عمل کے ترک کو کفر نہیں سمجھتے تھے۔ (ترمذی)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ الترمذی (۲۶۲۲)والحاکم (/۷۱)و ابن نصر فی ( (تعظیم قدر الصلا ۃ)) (۹۴۸)و ابن أبی شیبۃ فی ( (المصنف)) (/۴۹۱۱)وھو صحیح۔

۱۰۸۱۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک قیامت والے دن بندے سے اس کے اعمال میں سے سب سے پہلے جس عمل کا حساب لیا جائے گا وہ اس کی نماز ہے۔ اگر وہ درست ہوئی تو وہ یقیناً کامیاب اور سرخرو ہو جائے گا اور اگر وہ درست نہ ہوئی تو وہ انسان ناکام نامراد ہو جائے۔ پس اگر اس کے فرائض میں سے کچھ کمی رہ گئی تو رب عزوجل فرمائے گا :ذرا دیکھو! کیا میرے بندے کے (نامہ اعمال میں) کچھ نوافل ہیں ؟ تاکہ ان کے ذریعے سے اس کے فرائض کی کمی کو پورا کر دیا جائے۔ پھر اس کے باقی اعمال کا حساب بھی اسی طریق پر ہو گا۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۸۶۴)و الترمذی (۴۱۳)و ابن ماجہ (۱۴۲۵)۔

۱۹۴۔ باب: پہلی صف کی فضیلت ،پہلی صفوں کو مکمل کرنے صفوں کو برابر کرنے اور خوب مل کر کھڑے ہونے کا حکم

۱۰۸۲۔ حضرت جابر بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو فرمایا: تم اس طرح صفیں کیوں نہیں باندھتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے پاس صفیں باندھتے ہیں ؟ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ !فرشتے اپنے رب کے پاس کس طرح صفیں باندھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: وہ پہلی صفوں کو پہلے مکمل کرتے ہیں اور صف میں خوب مل کر کھڑے ہوتے ہیں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۴۳۰)۔

۱۰۸۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان دینے اور پہلی صف میں کھڑے ہونے کی کیا فضیلت ہے پھر وہ قرعہ اندازی کے بغیر اسے نہ پائیں تو وہ ضرور قرعہ اندازی کریں۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کیلئے حدیث نمبر (۱۰۳۳) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۰۸۴۔ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مردوں کی صفوں میں سے سب سے بہتر صف پہلی صف ہے اور ان کی سب سے بری صف آخر ی صف ہے اور عورتوں کی صفوں میں سے سب سے بہتر صف ان کی آخر ی صف ہے اور ان کی سب سے بری صف پہلی صف ہے۔        (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۴۴۰)۔

۱۰۸۵۔ حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ میں (صفوں میں) پیچھے رہنا دیکھا تو آپ نے ان سے فرمایا: آگے بڑھو، میری اقتدا کرو اور تمہارے بعد کے لوگ تمہاری اقتدا کریں۔ (سن لو)لوگ برابر پیچھے ہٹتے رہیں گے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ بھی انہیں پیچھے کر دے گا۔        (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۴۳۸)۔

۱۰۸۶۔ حضرت ابو مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نماز (کے شروع) میں (صفوں کی درستی کیلئے) ہمارے کندھوں پر ہاتھ پھیرتے اور فرماتے : ’’برابر ہو جاؤ ایک دوسرے سے اختلاف مت کرو، ورنہ تمہارے دل مختلف ہو جائیں گے۔ تم میں سے میرے قریب وہ کھڑے ہوں جو بالغو عاقل اور اہل دانش ہوں پھر اس کے بعد جو (عقلو دانش میں)ان کے قریب اور پھر وہ جو ان سے قریب ہیں۔              (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۴۳۲)۔

۱۰۸۷۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنی صفوں کو برابر کرو۔ اس لیے کہ صف کی درستی اور برابری کمال نماز میں سے ہے۔       (متفق علیہ)

اور بخاری کی روایت میں ہے۔ کیونکہ صفوں کو درست کرنا اقامت صلوۃ میں سے ہے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۰۹۲۔ فتح)و مسلم (۴۳۳)۔

۱۰۸۸۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نماز کیلئے اقامت کہی گئی تو رسول اللہﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اپنی صفوں کو سیدھا کرو اور باہم خوب مل کر کھڑے ہو جاؤ اس لیے کہ میں تمہیں پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ (بخاری نے اپنے الفاظ کے ساتھ اور مسلم نے اس کے ہم معنی الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے)

اور بخاری کی ایک روایت میں ہے : ہم میں سے ہر ایک اپنا کندھا اور اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا پاؤں اس کے پاؤں سے خوب ملاتا تھا۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۰۷۲۔ فتح)و مسلم (۴۳۴) والروایۃ الثانیۃ للبخاری (/۲۱۱۲۔ فتح)۔

۱۰۸۹۔ حضرت نعمان بن بشیر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : تم اپنی صفیں ضرور درست کر لو یا پھر اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں کے درمیان اختلاف پیدا فرما دے گا۔ (متفق علیہ)

اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ۔ ہماری صفوں کو اس قدر سیدھا کرتے تھے گویا آپ ان کے ذریعے سے تیروں کو سیدھا کر رہے ہیں حتیٰ کہ آپ نے سمجھ لیا کہ ہم نے (صفوں کو سیدھا کرنا) آپ سے سمجھ لیا ہے ،پھر ایک روز آپ تشریف لائے اور کھڑے ہو گئے حتیٰ کہ قریب تھا کہ آپ تکبیر کہتے کہ آپ نے ایک آدمی کو اپنا سینہ صف سے باہر نکالے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اللہ تعالیٰ کے بندو !تم ضرور اپنی صفیں سیدھی کرو یا پھر اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں کے درمیان اختلاف ڈال دے گا۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۰۶۲۔ ۲۰۷۔ فتح) مسلم (۴۳۶) والروایۃ الثانیۃ للمسلم (۴۳۶) (۱۲۸)۔

۱۰۹۰۔ حضرت برا بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ صف کے درمیان ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جاتے آپ ہمارے سینوں اور کندھوں پر ہاتھ پھیرتے اور فرماتے : تم اختلاف نہ کرو ورنہ تمہارے دل مختلف ہو جائیں گے۔ اور آپ فرمایا کرتے تھے : بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے پہلی صف والوں پر رحمت بھیجتے ہیں۔ (ابو داؤد۔ سند حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۶۶۴)والنسائی (/۸۹۲۔ ۹۰)و ابن ماجہ (۹۹۷)۔

۱۰۹۱۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: صفوں کو سیدھا کرو، کندھوں کو برابر رکھو اور اپنے بھائیوں کے ہاتھوں (مقابلے) میں نرم ہو جاؤ ،شیطان کے لئے (صفوں میں) شگاف نہ چھوڑ و۔ جو شخص صف کو ملائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے ملائے گا اور جو شخص صف کو توڑے گا اللہ تعالیٰ اسے قطع کرے گا (توڑے گا)۔ (ابو داؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح اخرجہ ابو داود (۶۶۶)باسنادصحیح۔

۱۰۹۲حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنی صفوں کو خوب ملاؤ انہیں باہم قریب رکھو اور گردنوں کو برابر کرو، پس اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں شیطان کو صفوں کے شگاف میں داخل ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں گویا کہ وہ چھوٹی سی سیاہ بکری ہے۔ (حدیث صحیح ہے ،

ابو داؤد نے اسے شرط مسلم کی سند کے ساتھ روایت کیا ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابوداؤد (۶۶۷)والنسائی (/۹۲۲)و احمد (/۲۶۰۳، ۲۸۳)و ابن حبان (۲۱۶۶)۔

۱۰۹۳۔ حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم (پہلے)اگلی صف مکمل کرو پھر اس (صف) کو جو اس کے ساتھ والی ہے۔ پس اگر کوئی نقص یا کمی ہو تو وہ سب سے آخر ی صف میں ہونی چاہیے۔ (ابوداؤد۔ سند حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۶۷۱)والنسائی (/۹۳۲)و احمد (/۱۳۲۳، ۲۱۵، ۲۳۳)

۹۴ ۱۰۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے صفوں کے دائیں حصوں پر رحمت بھیجتے ہیں۔ (ابو داؤد نے اسے شرط مسلم کی سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور اس کی سند میں ایک ایسا راوی ہے جس کی توثیق میں محدثین کا اختلاف ہے)۔

توثیق الحدیث : شاذ۔ اخرجہ ابوداؤد (۶۷۶)و ابن ماجہ (۱۰۰۵)و ابن حبان (۲۱۶۰)۔

اس حدیث کی سند حسن ہے مگر اس کا متن شاذ ہے۔ اس لیے کہ معاویہ بن ہشام اس کو روایت کرنے میں شاذ ہے اس نے ثقہ راویوں کی مخالفت کی ہے امام بیہقی۔ ؒ نے سنن الکبری (/۱۰۳۳) میں بیان کیا ہے کہ معاویہ بن ہشام اس متن کے روایت کرنے میں منفرد ہے اور اس کی یہ روایت اس متن کے ساتھ محفوظ نہیں۔ اور اس سند کے ساتھ جو متن محفوظ ہے اس کے الفاظ یہ ہیں (ان اللہ وملائکۃ یصلون علی الذین یصلون الصفوف) بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے ان لوگوں پر رحمتیں نازل کرتے ہیں جو صفوں کو ملاتے ہیں اسے ابن خزیمہ (۱۵۵۰)ابن حبان (۲۱۶۳)حاکم (/۲۱۴۱)اور بیہقی (/۱۰۱۱)نے عبداللہ بن وہب کے طریقے سے اسامہ بن زید ؓ عثمان بن عروۃ بن الزبیر عن ابیہ کی مذکورہ سند سے روایت کیا ہے۔

۱۰۹۵۔ حضرت برا ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تو ہم پسند کرتے کہ ہم آپ کی دائیں جانب کھڑے ہوں تاکہ آپ (دائیں طرف سے) اپنے چہرے مبارک کے ساتھ ہماری طرف متوجہ ہوں۔ پس میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا۔ اے میرے رب !مجھے اپنے عذاب سے بچانا جس روز تو اپنے بندوں کو (قبروں سے)اٹھائے گا یا فرمایا: (تو حساب کے لیے)اپنے بندوں کو جمع فرمائیگا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۰۹)

۱۰۹۶حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: امام کو درمیان میں رکھو اور (صفوں کے درمیان) خلا اور شگاف کو بند کرو۔ (ابو داؤد)

توثیق الحدیث : ضعیف بھذا التمام اخرجہ ابو داؤد (۶۸۱) با سنا ضعیف

یہ حدیث یحییٰ بن بشیر بن خلاد اور اس کی والدہ کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن ’’سدو۱الخلل‘‘۔ کے الفاظ اپنے شاہد حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث (۱۰۹۱) کی وجہ سے صحیح ہیں۔

۱۹۵۔ باب: فرض نمازوں کے ساتھ مؤکدہ سنتوں کی فضیلت اور ان کی کم سے کم، اکمل اور ان کی درمیانی صورت کی تعداد

۱۰۹۷۔ ام المومینن حضرت ام حبیبہ رملہ بنت ابی سفیان ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو بندہ مسلم ہر روز فرض نمازوں کے علاوہ بارہ رکعتیں نفل پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے۔ یا فرمایا: اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دیا جاتا ہے۔              (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۲۸) (۱۰۳)

۱۰۹۸۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کر تے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ دو رکعت نماز ظہر سے پہلے اور دو اس کے بعد دو رکعت جمعہ کے بعد دو رکعت مغرب کے بعد اور دو رکعت عشا کے بعد پڑھیں۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۸۳۔ فتح)و مسلم (۷۲۹)۔

۱۰۹۹۔ حضرت عبد اللہ بن مغفل ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہر د و اذانوں کے درمیان نماز ہے ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے اور تیسری مرتبہ فرمایا: ’’جو پڑھنا چاہے‘‘ ۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۰۶۲و۱۱۰۔ فتح)و مسلم (۸۳۸)۔

۱۹۶۔ باب:صبح کی دو سنتوں کی تاکید

۱۱۰۰۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور فجر سے پہلے دو رکعتیں (پڑھنا) نہیں چھوڑ تے تھے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۸۳۔ فتح)

۱۱۰۱۔ حضرت عائشہ ؓ ہی بیان کرتی ہیں کہ نبیﷺ نفل نماز میں نماز فجر کی دو رکعتوں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے تھے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۵۳۔ فتح)و مسلم (۷۲۴) (۹۴)

۱۱۰۲۔ حضرت عائشہ ؓ ہی بیان کرتی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: فجر کی دو رکعتیں دنیا اور اس میں موجود تمام چیزوں سے بہتر ہیں۔ (مسلم)

ایک روایت میں ہے :وہ (دو رکعتیں)مجھے تمام دنیا سے زیادہ محبوب ہیں۔

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۲۵)والرویۃ الثانیۃعندہ (۷۲۵) (۹۷)

۱۱۰۳۔ حضرت ابو عبد اللہ بلال بن رباحؓ رسول اللہﷺ کے مؤذن سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ کو نماز صبح کی اطلاع دیں۔ پس حضرت عائشہ ؓ نے حضرت بلال ؓ کو کسی کام میں مشغول کر دیا۔ جس کی بابت وہ حضرت بلال ؓ سے پو چھنا چاہتی تھیں حتیٰ کہ صبح اچھی طرح ہو گئی۔ حضرت بلالؓ کھڑے ہوئے اور آپ کو نماز کے بارے میں اطلاع دی لیکن رسول اللہﷺ باہر تشریف نہ لائے پس جب آپ باہر تشریف لائے اور لوگوں کو نماز پڑھا لی تو حضرت بلال ؓ نے آپ کو بتایا کہ حضرت عائشہ ؓ نے انہیں کسی کام میں مشغول کر دیا تھا جس کی بابت انھوں نے ان سے پوچھا تھا حتیٰ کہ صبح خوب روشن ہو گئی اور آپ نے بھی باہر تشریف لانے میں تاخیر کر دی۔ نبیﷺ نے فرمایا: میں فجر کی دو رکعتیں پڑھ رہا تھا حضرت بلال ؓ نے کہا یا رسول اللہﷺ آپ نے تو بہت زیادہ صبح کر دی تھی۔ آپ نے فرمایا: اگر اس سے بھی زیادہ صبح ہو جاتی تب بھی میں یہ سنتیں اچھے اور بہترین طریقے سے پڑھتا۔      (ابو داؤد۔ سند حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابوداؤد (۱۲۵۷)با سناد صحیح رجالہ ثقات۔

۱۹۷۔ باب: فجر کی دو رکعتیں ہلکی پڑھنی چاہییں نیز ان میں کیا پڑھا جائے اور ان کا وقت کیا ہے ؟

۱۱۰۴۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نماز فجر کے وقت اذان اور اقامت کے درمیان دو ہلکی رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ (متفق علیہ)اور بخاری و مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ جب آپ اذان سنتے تو فجر کی دو مختصر رکعتیں پڑھتے حتیٰ کہ میں کہتی کیا آپ نے ان میں سورۂ فاتحہ بھی پڑھی ہے !

اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ جب آپ اذان سنتے تو فجر کی دو رکعتیں پڑھتے اور انہیں مختصر پڑھتے تھے۔

اور ایک روایت میں ہے کہ جب فجر طلو ع ہو جاتی۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۰۱۲۔ فتح)و مسلم (۷۲۴) (۹۱)والروایۃ الثانیہ عند البخاری (/۴۶۳۔ فتح)۔ و مسلم (۷۲۴) (۹۲)والثانیۃ عند مسلم (۷۲۴)والرابعۃ عندہ (۷۲۴) (۹۳)۔

۱۱۰۵۔ حضرت حفصہ ؓ سے روایت ہے کہ جب مؤذن نماز صبح کے لیے اذان دیتا اور صبح واضح ہو جاتی تو رسول اللہﷺ دو مختصر رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ (متفق علیہ)

اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ جب فجر طلو ع ہو جاتی تو رسول اللہﷺ صرف مختصر سی دو رکعتیں پڑھا کر تے تھے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۰۱۲۔ فتح)و مسلم (۷۲۳) (والروایۃالثانیۃ عند مسلم (۷۲۳) (۸۸)

۱۱۰۶۔ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ رات کی نماز (تہجد) دو دو رکعتیں کر کے پڑھا کرتے تھے اور رات کے آخر ی وقت پر ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے اور نماز فجر سے پہلے دو رکعتیں (اس تیزی سے) پڑھتے تھے کہ گو یا (اقامت) آپ کے کانوں میں ہو۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۷۷۲۔ فتح (و مسلم (۷۴۹)۔

۱۱۰۷۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ فجر کی دو رکعتوں میں سے پہلی رکعت میں سورۂ بقرہ کی آیت (۱۳۲):﴿قولواامنا باللہ وما أنزل الینا﴾ اور دوسری رکعت میں سورۂ آل عمران آیت (۵۲):﴿آمنا باللہ واشھد بانا مسلمون﴾ تلاوت فرماتے تھے۔

اور ایک اور روایت میں ہے کہ آپ دوسری رکعت میں آل عمران کی آیت (۶۴):﴿تعالوا الی کلمۃ سوا بیننا وبینکم﴾ تلاوت فرماتے تھے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۲۷)والروایۃ الثانیۃ عندہ (۷۲۷) (۱۰۰)۔

۱۱۰۸۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فجر کی دو سنتوں میں ’’قل یایھا الکافرون‘‘ اور قل ہو اللہ احد‘‘ کی تلاوت فرمائی۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۲۶)۔

۱۱۰۹۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو مہینہ بھر دیکھا آپ فجر سے پہلے دو رکعتوں میں ’’قل یایھا الکافرون‘‘ اور  ’’قل ھو اللہ احد‘‘ پڑھتے تھے۔                       (ترمذی حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : اخرجہ الترمذی (۴۱۷)والنسائی (/۱۷۰۲) ابن ماجہ (۱۱۴۹)و احمد (/۲۴۲، ۵۸، ۳۵، ۹۴، ۹۵، ۹۹)۔

یہ روایت صحیح ہے اس میں کوئی ضعیف نہیں کیو نکہ سفیان ثوری اور اسرائیل نے سبعیی سے اختلا ط سے پہلے سنا ہے۔

۱۹۸۔ باب: فجر کی دو رکعتوں کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنا مستحب ہے اور اس کی ترغیب خواہ اس نے نماز تہجد پڑھی ہو یا نہ پڑھی ہو

۱۱۱۰۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہے کہ جب نبیﷺ فجر کی سنتیں پڑھتے تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے تھے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۳۳۔ فتح)

۱۱۱۱۔ حضرت عائشہ ہی بیان کرتی ہیں کہ نبیﷺ نماز عشا سے فارغ ہو نے سے لے کر نماز فجر تک (کے درمیانی وقفے میں)گیارہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ آپ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے تھے اور آخر۔ پر ایک وتر پڑھتے تھے۔ جب مؤذن نماز فجر کی اذان دے کر خاموش ہو جاتا ہے اور فجر واضح ہو جاتی اور مؤذن آپ کے پاس آتا تو آپ کھڑے ہوتے اور مختصر سی دو رکعتیں پڑھتے پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹتے تھے حتیٰ کہ مؤذن آپ کے پاس اقامت نماز کی اطلاع دینے کیلئے اتا۔ (مسلم)

(یسلم بین کل رکعتین)مسلم میں الفاظ اسی طرح ہیں ، اس کے معنی ہیں کہ ہر دو رکعت کے بعد اسلام پھیر تے۔

توثیق الحدیث کے لیے (۸۱۶)ملاحظہ فرمائیں لیکن وہاں بخاری اور مسلم کے حوالے سے ہے۔

۱۱۱۲۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی ایک فجر کی دو سنتیں پڑھے تو اپنی دائیں جانب لیٹ جائے۔ (ابو داؤد و۔ ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)۔

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابوداؤد (۱۲۶۱)و الترمذی (۴۲۰)

۱۹۹۔ باب: ظہر کی سنتیں

۱۱۱۳۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کے ساتھ دو۔ رکعتیں ظہر سے پہلے پڑھیں اس کے بعد۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لئے حدیث نمبر (۱۰۹۸)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۱۱۴۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ ظہر سے پہلے چار رکعتیں نہیں چھوڑ تے تھے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث کے لئے حدیث نمبر (۱۱۰۰)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۱۱۵۔ حضرت عائشہ ؓ ہی بیان کرتی ہیں کہ نبیﷺ میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے پھر باہر تشریف لے جاتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے پھر گھر تشریف لاتے تو دو رکعتیں پڑھتے تھے اور آپ لوگوں کو نماز مغرب پڑھاتے پھر گھر تشریف لاتے اور دو رکعتیں پڑھتے اور آپ لو گوں کو نماز عشا پڑھاتے اور میرے گھر تشریف لاتے تو دو رکعتیں پڑھتے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۳۰)۔

۱۱۱۶۔ حضرت ام حبیبہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص ظہر سے پہلے چار رکعتوں کی اور ظہر کے بعد چار رکعتوں کی محافظت کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس پر جنم کی آگ حرام فرما دے گا۔        (ابوداؤد، ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : اخرجہ ابود اود (۱۲۶۹)و الترمذی (۴۲۷، ۴۲۸)والنسائی (/۲۶۵۳)۔

۱۱۱۷۔ حضرت عبداللہ بن سائب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سورج ڈھلنے کے بعد نماز ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور آپ نے فرمایا یہ وہ گھڑ ی جس میں آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں ، پس میں پسند کرتا ہوں کہ میرے نیک اعمال اس گھڑ ی میں اوپر چڑھیں۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ الترمذی (۴۷۸)و احمد (/۴۱۱۳)

۱۱۱۸۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے جب ظہر سے پہلے چار رکعتیں نہ پڑھی ہوتیں تو آپ انہیں اس (ظہر)کے بعد پڑھتے تھے۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ الترمذی (۴۶۶)باسناد صحیح۔

۲۰۰۔ باب: عصر کی سنتیں

۱۱۱۹۔ حضرت علی ابن ابی طالب ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے آپ ان کے درمیان مقرب فرشتوں، ان کی اتباع کرنے والے مسلمانوں اور مومنوں پر سلام پھیرنے کے ساتھ فرق (فصل، جدائی)کرتے تھے۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : حسن۔ اخرجہ الترمذی (۴۲۹)و ابن ماجہ (۱۱۶۱)و احمد (/۵۸۱)۔

۱۱۲۰۔ حضرت ابن عمرؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو نماز عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتا ہے۔ (ابو داؤد، ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : حسن۔ اخرجہ ابو داؤد (۱۲۷۱)و الترمذی (۴۳۰)و احمد (/۱۱۷۲)وغیر ھم

اس حدیث کی سند محمد بن مہران کے صدوق ہونے کی وجہ سے حسن ہے۔ ابن معین اور دار قطنی ؒ نے کہا کہ اس راوی میں کوئی حرج نہیں اور اسکے دادا مسلم بن مثنی کو ابو زرعہ نے ثقہ کہا۔ ہے۔

۱۱۲۱۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ عصر سے پہلے دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ (ابوداؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث : شاذ۔ اخرجہ ابوداؤد (۱۲۷۲)۔

یہ حدیث بظاہرحسن ہے کیونکہ عاصم بن حمزہ صدوق ہے لیکن ان الفاظ کے ساتھ شاذ ہے اس لئے کہ جو روایت محفوظ ہے اس میں چار رکعتوں کا ذکر ہے جو کہ۔ آ پ کے قول و فعل سے ثابت ہے۔

۲۰۱۔ باب :مغرب سے پہلے اور بعد کی سنتیں

گزشتہ ابواب میں حضرت ابن عمر اور حضرت عائشہؓ کی صحیح حدیثیں گزر چکی ہیں کہ نبیﷺ نماز مغرب کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔

حدیث نمبر (۱۰۹۸) اور (۱۱۱۵) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۱۲۲۔ حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’نماز مغرب سے پہلے نماز پڑھو‘‘ ۔  تیسری مرتبہ فرمایا: ’’جو چاہے‘‘ ۔      (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۹۳۔ فتح)

۱۱۲۳۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے کبار صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ مغرب کے وقت مسجد کے ستونوں کی طرف جلدی کرتے تھے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۵۷۱۔ فتح)۔

۱۱۲۴۔ حضرت انس ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں غروب آفتاب کے بعد اور نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے ، ان سے پوچھا گیا کیا رسول اللہﷺ نے بھی۔  یہ دو رکعتیں پڑھیں ؟حضرت انس ؓ نے بتایا آپ ہمیں ان کو پڑھتے ہوئے دیکھتے تھے آپ نے نہ ہمیں حکم دیا نہ منع ہی فرمایا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۸۳۶)۔

۱۱۲۵۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم مدینے میں تھے کہ مؤذن نے نماز مغرب کیلئے اذان دی تو لوگوں نے ستونوں کی طرف جلدی کی۔ انھوں نے دو رکعتیں پڑھیں (یہ ان کا قدر معمول تھا)حتیٰ کہ اگر کوئی اجنبی شخص مسجد میں آتا تو وہ اکثر آدمیوں کو یہ دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھ کر گمان کرتا کہ شاید فرض ہو چکی ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۸۳۷)

۲۰۲۔ باب: نماز عشا سے پہلے اور اس کے بعد کی سنتیں

اس باب میں حضرت عمر ؓ کی سابقہ حدیث ہے کہ میں نے نبیﷺ کے ساتھ عشا کے بعد دو رکعتیں پڑھیں اور حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ کی حدیث : ’’ہر اذان اور تکبیر کے درمیان نماز ہے‘‘ جیسا کہ پہلے گزرا۔

حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۰۹۸)اور حضرت عبد اللہ بن مغفلؓ کی حدیث کیلئے حدیث نمبر (۱۰۹۹) ملاحظہ فرمائیں۔

۲۰۳۔ باب :جمعہ کی سنتیں

اس بارے میں حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث سابق ہے کہ انھوں نے نبیﷺ کے ساتھ جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھیں۔ ملاحظہ فرمائیں حدیث نمبر (۱۰۹۸)۔

۱۱۲۶۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی ایک نماز جمعہ پڑھے تو وہ اس کے بعد چار رکعتیں پڑھے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۸۸۱)

۱۱۲۷۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ جمعہ کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے حتیٰ کہ آپ وہاں سے واپس آتے اور اپنے گھر میں دو رکعتیں پڑھتے تھے۔           (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۸۸۲) (۷۱)

۲۰۴۔ باب:نوافل کا گھر میں ادا کرنا مستحب ہے ،خواہ وہ مؤکدہ ہوں یا غیر مؤکدہ ،نیز نفل پڑھنے کیلئے فرض والی جگہ سے ہٹنے یا فرض و نفل کے درمیان گفتگو وغیرہ سے فصل (فرق، جدائی) کرنے کا حکم

۱۱۲۸۔ حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: لوگو!اپنے گھروں میں نفل نماز پڑھا کرو ،اس لیے کہ فرض نماز کے علاوہ آدمی کی افضل نماز وہ ہے جو وہ اپنے گھر میں پڑھے۔

(متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۱۴۲۔ فتح)و مسلم (۷۸۱)

۱۱۲۹۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’تم اپنی نمازوں میں سے کچھ حصہ اپنے گھروں کے لیے بھی مقرر کرو اور انہیں قبر ستان نہ بناؤ۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۱!۵۲۸۔ ۵۲۹۔ فتح)،و مسلم (۷۷۷)

۱۱۳۰۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی ایک اپنی نماز اپنی مسجد میں ادا کرے تو اسے اپنی نماز میں سے کچھ حصہ اپنے گھر کیلئے بھی مقرر کرنا چاہیے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس کی نماز کی وجہ سے اس کے گھر میں خیرو برکت عطا فرمائے گا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۷۸)۔

۱۱۳۱۔ حضرت عمر بن عطا سے روایت ہے کہ نافع بن جبیر نے انہیں سائب ابن اخت نمر کی طرف وہ چیز پوچھنے کیلئے بھیجا جو حضرت معاویہ ؓ نے ان سے ان کی نماز میں دیکھی تھی۔ انھوں نے کہا :ہاں !میں نے حضرت معاویہ ؓ کے ساتھ مقصورہ (حجرہ)میں نماز جمعہ ادا کی،جب امام نے سلام پھیرا تو میں اپنی جگہ کھڑا ہوا اور نماز پڑھی۔ جب حضرت معاویہؓ گھر تشریف لے گئے تو انھوں نے مجھے بلا بھیجا اور فرمایا:تم نے جو کیا ہے دوبارہ ایسے نہ کرنا ،جب تم نماز جمعہ پڑھ لو تو پھر اس کے ساتھ کسی اور نماز کو نہ ملاؤ (متصل نہ پڑھو) حتیٰ کہ تم کوئی باب وغیرہ کر لو یا تم وہاں سے کہیں چلے جاؤ۔ اس لیے کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں یہی حکم دیا تھا کہ ہم ایک نماز کے ساتھ کوئی دوسری نماز نہ ملائیں حتیٰ کہ ہم کوئی بات کر لیں یا ہم وہاں سے نکل جائیں۔        (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۸۸۳)

۲۰۵۔ باب نماز وتر کی ترغیب اور یہ بیان کہ وہ سنت مؤکدہ ہے اور اس کے وقت کا بیان

۱۱۳۲۔ حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ وتر فرض نماز کی طرح حتمی اور لازمی نہیں لیکن رسول اللہﷺ نے اسے مقرر اور جاری فرمایا۔ آپ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ وتر ہے ،وتر کو پسند کرتا ہے لہٰذا اے اہل قرآن !تم وتر پڑھا کرو۔ (ابو داؤد،ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح بشواھد۔ اخرجہ ابو داؤد (۱۴۱۶)و الترمذی (۴۵۳)والنسائی (/۲۲۸۳۔ ۲۲۹)و ابن ماجہ (۱۱۶۹)۔

اس کی سند عاصم بن ضمرہ کے صدوق ہونے کی وجہ سے حسن ہے۔ ابن مسعود وغیرہ کی احادیث اس کے لیے شاہد ہیں۔

۱۱۳۳۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے رات کے ہر حصے میں وتر پڑھے ہیں ،رات کے ابتدائی حصے میں ،اس کے درمیانی حصہ میں ،ور اس کے آخر ی حصے میں اور آپ کی نماز وتر سحر (صبح)تک پہنچی۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۸۶۲۔ فتح)،و مسلم (۷۴۵) (۱۳۷)

۱۱۳۴۔ حضرت ابن عمرؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: تم اپنی رات کی آخر ی نماز وتر کو بناؤ۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۸۸۲۔ فتح)و مسلم (۷۵۱) (۱۵۱)۔

۱۱۳۵۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: صبح کرنے سے پہلے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۵۴)

۱۱۳۶۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ اپنی نماز تہجد پڑھتے تھے اور وہ آپ کے سامنے لیٹی ہوتی تھیں ،جب آپ کے وتر باقی رہ جاتے تو آپ انہیں جگا دیتے ،پس وہ وتر پڑھ لیتیں۔ (مسلم)

اور مسلم ہی کی روایت میں ہے جب وتر باقی رہ جاتے تو آپ فرماتے عائشہ !اٹھو اور وتر پڑھو۔

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۴۴) (۱۳۵)والروایۃ الثانیۃ عندہ (۷۴۴)۔

۱۱۳۷۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:صبح ہونے سے پہلے پہلے وتر پڑھنے میں جلدی کرو۔ (ابو داؤد،ترمذی حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح اخرجہ ابو داؤد (۱۴۳۶)و الترمذی (۴۶۷)

یہ حدیث مسلم میں بھی موجود ہے لیکن امام نو وی ؒ مسلم کا حوالہ نقل کرنا بھول گئے ہیں (مسلم۷۵۰)

۱۱۳۸۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص کو اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخر ی حصے میں نہیں اٹھ سکے گا تو وہ رات کے پہلے حصے میں وتر پڑھ لے اور جس شخص کو رات کے آخر ی حصے میں اٹھنے کی امید ہو تو اے چاہیے کہ وہ رات کے آخر ی حصے میں وتر پڑھے۔ کیونکہ آخر ی رات کی نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہی (وقت)افضل ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۵۵)۔

۲۰۶۔ باب:نماز چاشت کی فضیلت ،اس کی کم از کم،زیادہ سے زیادہ اور درمیانی تعداد کا بیان اور اس پر محافظت کی ترغیب

۱۱۳۹۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے خلیلﷺ نے مجھے ہر مہینے تین روزے رکھنے، چاشت کی دو رکعتیں پڑھنے اور سونے سے پہلے وتر کی وصیت فرمائی۔       (متفق علیہ)

سونے سے پہلے وتر پڑھنا اس شخص کیلئے مستحب ہے جسے رات کے آخر ی حصے میں اٹھنے امید واثق نہ ہو اور اگر کسی شخص کو اٹھنے کی امید قوی ہو تو پھر رات کے آخر ی حصے میں وتر پڑھنا افضل ہے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۶۳۔ فتح)و مسلم (۷۲۱)

۱۱۴۰۔ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اس کی ہر جوڑ پر صدقہ ہوتا ہے۔ پس ہر بار (سبحان اللہ)کہنا صدقہ ہے ہر بار ’’الحمد للہ‘‘ کہنا صدقہ ہے ہر با ر (لا الہ الا اللہ) کہنا صدقہ ہے ،ہر بار (اللہ اکبر)کہنا صدقہ ہے نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے ان کے مقابلے میں چاشت کی وہ دو رکعتیں کفایت کر جاتی ہیں جنہیں وہ ادا کرتا ہے۔            (مسلم)

توثیق الحدیث اور ۔ کے لیے حدیث نمبر ۱۱۸ملاحظہ فرمائیں۔

۱۱۴۱۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نماز چاشت چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور جو اللہ تعالیٰ چاہتا تو زیادہ بھی پڑھ لیتے تھے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۱۹) (۷۹)

۱۱۴۲۔ حضرت ام ہانی فاختہ بنت ابی طالب ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے آپ کو غسل کرتے ہوئے پایا ،جب آپ غسل سے فارغ ہوئے تو آپ نے اٹھ رکعتیں پڑھیں اور یہ چاشت کا وقت تھا۔              (متفق علیہ)

اور یہ مسلم کی روایات میں سے ایک مختصر روایت کے الفاظ ہیں۔

توثیق الحدیث کیلئے حدیث نمبر (۸۶۴)ملاحظہ فرمائیں۔

۲۰۷۔ باب:نماز چاشت سورج کے بلند ہونے سے سورج ڈھلنے تک پڑھنا جائز ہے اور افضل یہ ہے کہ گرمی کی شدت اور سورج کے خوب چڑھ جانے پر پڑھی جائے

۱۱۴۳۔ حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کچھ لوگوں کو نماز چاشت پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا :سن لو ! ان لوگوں کو خوب معلوم ہے کہ اس نماز کو اس وقت کے علاوہ کسی دوسرے وقت میں پڑھنا افضل ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: أوابین (رجوع، توبہ کرنے والوں)کی نماز اس وقت ہے جب اونٹوں کے بچوں کے پاؤں جلیں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۸۴۸)۔

۲۰۸۔ باب:تحیۃ المسجد کی ترغیب، تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں پڑھے بغیر بیٹھنے کی کراہت خواہ وہ کسی وقت بھی داخل ہو۔ نیز یہ سب برابر ہے کہ وہ آنے والا یہ دو رکعتیں تحیۃ المسجد کی نیت سے پڑھنے یا فرض نماز کی نیت سے یا سنت راتبہ یا غیر راتبہ کی نیت سے پڑھے۔

۱۱۴۴۔ حضرت ابوقتادہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو وہ دو رکعتیں پڑھے بغیر نہ بیٹھے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۳۷۱۔ فتح)و مسلم (۷۱۴)

۱۱۴۵۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے آپ نے فرمایا: دو رکعتیں پڑھو۔              (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۳۸۱۔ فتح)و مسلم (۷۱۵)۔

۲۰۹۔ باب:وضو کے بعد دو رکعتیں پڑھنا مستحب ہے

۱۱۴۶۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت بلال ؓ سے فرمایا: اے بلال! مجھے اپنے اس عمل کے بارے میں بتاؤ جو تم نے اسلام میں سب سے زیادہ امید والا کیا ہو ؟ اس لیے کہ میں نے جنت میں اپنے آگے اگے تمہارے جوتوں کی آواز سنی ہے ’’حضرت بلال ؓ نے عرض کیا کہ میں نے کوئی عمل اپنے نزدیک اس سے زیادہ امید والا نہیں کیا کہ میں نے رات یا دن کی جس گھڑ ی میں بھی وضو کیا تو اس کے ساتھ جتنی نماز میرے مقدر میں تھی میں نے ضرور پڑھی۔ (متفق علیہ)اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۴۳۔ فتح)و مسلم (۲۴۵۸)۔

۲۱۰۔ باب :جمعہ کے دن کی فضیلت، نماز جمعہ کے وجوب، اس کے لیے غسل کرنے، خوشبو لگانے، اس کے لئے جلدی جانے، جمعہ کے دن دعا کرنے، اس روز نبیﷺ پر درود بھیجنے اور اس گھڑ ی کا بیان جس میں دعا قبول ہوتی ہے اور جمعہ کے بعد کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے مستحب ہونے کا بیان

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جب نماز جمعہ پوری ہوئے جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو اور کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو تاکہ تم فلاح پاؤ‘‘ ۔     (الجمعۃ :۱۰)

۱۱۴۷۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سب سے بہتر دن، جس پر سورج طلوع ہو تا ہے جمعہ کا دن ہے ،اسی میں حضرت آدم ؑ کو پیدا کیا گیا ،اسی روز وہ جنت میں داخل کیے گئے اور اسی روز اس جنت سے نکالے گئے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۸۵۴)

۱۱۴۸۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا پھر نماز جمعہ کے لیے آیا اور خوب کان لگا کر خاموشی کے ساتھ خطبہ سنا تو اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کی درمیانی مدت اور مزید تین دن کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور جس شخص نے کنکریوں چھوا (بھی)تو اس نے لغو کام کیا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۸۵۷) (۲۷)۔

۱۱۴۹۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: پانچوں نمازیں ،ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک درمیانی مدت کے گنا ہوں کو مٹا دینے والے ہیں بشرطیکہ بڑے گنا ہوں سے اجتناب کیا جائے۔ (مسلم)

۱۱۵۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ اور ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ ان دونوں نے رسول اللہﷺ کو اپنے منبر کے تختوں پر فرماتے ہوئے سنا۔ لوگ جمعہ چھوڑ نے سے باز۔ آ جائیں یا پھر اللہ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا پھر وہ غافل لوگوں میں سے ہو جائیں گے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۸۶۵)۔

۱۱۵۱۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی ایک نماز جمعہ کے لیے آئے تو اسے چاہیے کہ وہ غسل کرے۔              (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۳۵۶۲۔ فتح)و مسلم (۸۵۵)۔

۱۱۵۲۔ حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جمعہ کے دن کا غسل ہر بالغ شخص پر واجب ہے۔      (متفق علیہ)

(محتلم) سے مراد بالغ اور وجوب سے مراد اختیار ہے جیسے آدمی اپنے ساتھی سے کہے تمہارا حق مجھ پر واجب ہے (اللہ اعلم!)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۳۵۶۲۔ فتح)و مسلم (۸۴۶)۔

۱۱۵۳۔ حضرت سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے جمعہ کے دن وضو کیا تو اس نے اچھا اور بہتر کیا اور جس نے غسل نے کیا تو غسل افضل ہے۔ (ابوداؤد، ترمذی۔ حدیث حسن۔ ہے)

توثیق الحدیث :حسن بشواھد۔ اخرجہ ابو داؤد (۳۵۴)و الترمذی (۴۹۷)والنسائی (/۹۴۳)

اس حدیث کی سند ضعیف ہے کیونکہ حسن نے سمرہ سے صرف عقیقہ والی حدیث سنی ہے اور وہ مدلس ہے، اس نے سماع کی وضاحت نہیں کی۔ لیکن ’’نصب الرایۃ‘‘ (۱ /۸۸، ۹۰۔ ۹۳)میں اس کے شاید موجود ہیں۔

۱۱۵۴۔ حضرت سلمان ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو آدمی جمعہ کے دن غسل کرے اور مقدور بھر طہارت حاصل کرے، تیل لگائے یا اپنے گھر میں موجود خوشبو لگائے پھر جمعہ کے لئے آئے اور (مسجد میں بیٹھے ہوئے نمازیوں میں سے) دو آدمیوں کے درمیان گھس کر تفریق نہ کرے پھر جو اس کے مقدر میں ہے (نفل) نماز پڑھے ،پھر جب امام خطبہ شروع کرے تو خاموشی اختیار کرے تو اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے درمیانی وقفے کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ (بخاری)

توثیق الحدیث و کیلئے حدیث نمبر (۸۲۶) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۱۵۵۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے جمعہ کے دن غسل جنابت کی طرح (خوب اہتمام سے) غسل کیا پھر پہلی گھڑ ی میں (جمعہ کیلئے)گیا تو گویا اس نے ایک اونٹ قربان کیا ،جو شخص دوسری گھڑ ی میں گیا تو گویا اس نے گائے قربان کی ، جو شخص تیسری گھڑ ی میں گیا تو گویا اس نے سینگوں والا مینڈھا قربان کیا،جو شخص چوتھی گھڑ ی میں گیا تو گویا اس نے مرغی قربان کی اور جو شخص پانچویں گھڑ ی میں گیا تو اس نے گویا ایک انڈا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر کے اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کی۔ پس جب امام خطبے کے لیے تشریف لے آئے تو فرشتے (مسجد کے اندر) حاضر ہو جاتے ہیں اور ذکر سنتے ہیں۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۳۶۶۲۔ فتح)و مسلم (۸۵۰)

۱۱۵۶۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے جمعہ کے دن کا ذکر کیا تو فرمایا: اس دن میں ایک ایسی گھڑ ی ہے کہ وہ جس مسلمان بندے کو میسر۔ آ جائے اور وہ کھڑا نماز پڑھ رہا ہو ، تو وہ اللہ تعالیٰ سے جس چیز کا سوال کرتا ہے توا للہ تعالیٰ اسے وہی چیز عطا فرما دیتا ہے۔ اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اس گھڑ ی کے مختصر ہونے کا اشارہ فرمایا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۴۱۵۲۔ فتح)و مسلم (۸۵۲)۔

۱۱۵۷۔ حضرت ابو بردہ بن ابو موسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: کیا تم نے اپنے والد کو جمعہ کی اس گھڑ ی کے بارے میں رسول اللہﷺ سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا؟ انھوں نے کہا میں نے کہا : ہاں ! میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ، آپ نے فرمایا:وہ گھڑ ی امام کے منبر پر بیٹھنے سے لے کر جمعہ کے ختم ہونے تک ہے۔              (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۸۵۳)۔

۱۱۵۸۔ حضرت اوس بن اوس ؓ نے بیان کیاکہ رسول اللہ نے فرمایا: تمہارے دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے زیادہ افضل ہے ، اس روز مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، اس لیے تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔    (ابوداؤد۔ اس کی سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث :اخرجہ ابو داؤد (۱۰۴۷۔ ا۱۵۳) والنسائی (/۹۱۳۔ ۹۲)و ابن ماجہ (۱۰۸۵۔ ۱۶۰۶)و احمد (/۸۴) والحاکم (/۲۷۸۱)

۲۱۱۔ باب: کسی ظاہری نعمت کے حاصل ہونے یا کسی ظاہری مصیبت کے ٹل جانے پر سجدہ شکر کرنا مستحب ہے

۱۱۵۹۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ مکہ سے مدینہ جانے کی نیت سے روانہ ہوئے جب ہم ’’عزوراء‘‘ مقام کے قریب پہنچے تو آپ سواری سے نیچے اترے پھر دونوں ہاتھ بلند کیے اور کچھ دیر اللہ سے دعا کی ،پھر سجدے میں گر گئے اور دیر تک حالت سجدہ میں رہے پھر کھڑے ہوئے اور کچھ دیر کیلئے ہاتھ بلند کیے پھر سجدے میں گر گئے۔ آپ نے تین بار ایسے کیا اور فرمایا :میں نے اپنے رب سے سوال کیا اور اپنی امت کے لیے شفاعت کی تو اس نے مجھے میری امت کا ایک تہائی عطا فرمایا تو میں اپنے رب کا شکر ادا کرنے کیلئے سجدہ ریز ہو گیا،پھر میں نے اپنا سر اٹھایا اور اپنے رب سے اپنی امت کے بارے میں سوال کیا تو اس نے میری امت کا ایک تہائی اور عطا فرما دیا۔ پس میں شکر ادا کرنے کے لیے اپنے رب کے سامنے سجدے میں گر گیا، پھر میں نے اپنا سر اٹھایا اور اپنے رب سے اپنی امت کے بارے میں سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے آخر ی ثلث بھی عطا فرما دیا۔ پس میں شکر ادا کرنے کے لیے اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہو گیا۔ (ابو داؤد)

توثیق الحدیث :ضعیف۔ اخرجہ ابو داؤد (۲۷۷۵)با سناد ضعیف فیہ۔

اس حدیث کی سند میں موسیٰ بن یعقوب الزمعی ’’سيء الحفظ‘‘ ہے اور اس کا استاد یحییٰ بن الحسن بن عثمان مجہول ہے اور ابن عثمان کا استاد اشعث بن اسحاق بھی مجہول الحال ہے ،اسے صرف ابن حبان نے ثقہ کہا ہے۔

۲۱۲۔ باب: رات کی نماز کی فضیلت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’رات کے کچھ حصے میں نماز تہجد ادا کریں ،یہ آپ کے لیے ایک زائد عمل ہے ،امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا‘‘ ۔ اور فرمایا: ’’ان (اہل ایمان) کے پہلو ان کے بستروں سے دور رہتے ہیں‘‘ ۔ (السجدۃ:۱۶)

نیز فرمایا: ’’وہ (اہل ایمان و تقویٰ)رات کو کم ہی سویا کرتے تھے‘‘ ۔ (الذاریات:۱۷)

۱۱۶۰۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبیﷺ رات کو (اس قدر طویل) قیام کرتے تھے کہ آپ کے پاؤں مبارک پھٹ جاتے، میں نے آپ سے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ اس طرح کیوں تکلیف برداشت کرتے ہیں ،جب کہ آپ کے تو اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے گئے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: تو کیا میں (اللہ تعالیٰ کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں۔     (متفق علیہ)

حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے بھی اسی طرح کی حدیث بخاری و مسلم میں مروی ہے۔

توثیق الحدیث کیلئے حدیث نمبر (۹۸)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۱۶۱۔ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ رات کے وقت ان کے اور حضرت فاطمہ ؓ کے پاس تشریف لائے تو فرمایا: کیا تم دونوں نماز (تہجد) نہیں پڑھتے ؟۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۰۳۔ فتح)و مسلم (۷۷۵)۔

۱۱۶۲۔ حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر بن خطاب ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:عبداللہ اچھا آدمی ہے اگر وہ نماز تہجد پڑھتا۔ سالم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ؓاس کے بعد رات کو بہت کم سوتے تھے۔     (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۶۳۔ فتح)مسلم (۲۴۷۹)

۱۱۶۳۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’عبداللہ ! تم فلاں شخص کی طرح نہ ہونا، وہ نماز تہجد پڑھا کر تا تھا، پس اب اس نے تہجد پڑھنا ترک کر دیا ہے۔ ‘‘

(متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۵۴) ملا حظہ فرمائیں۔

۱۱۶۴۔ حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ کے پاس ایک آدمی کا ذکر کیا گیا جو رات کو صبح ہونے تک سویا رہا ،آپ نے فرمایا: یہ وہ آدمی ہے جس کے دونوں کانوں میں (یا فرمایا ایک کان میں) شیطان نے پیشاب کر دیا۔  (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۲۸۳۔ فتح)و مسلم (۷۷۴)٘

۱۱۶۵۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی سویا ہوتا ہے تو شیطان اس کی گدی پر تین گرہیں لگا دیتا ہے اور وہ ہر گرہ پر (تاکید کے لئے)ہاتھ مارتا ہے اور کہتا ہے :تیرے لیے رات بہت لمبی ہے ،پس ابھی سوئے رہو۔ اگر وہ جاگ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جا تی ہے اور اگر وہ وضو کر لیتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے اور اگر وہ نماز پڑھ لے تو پھر تیسری گرہ کھل جاتی ہے اور وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ وہ ہشاش بشاش اور طیب النفس ہو تا ہے ورنہ وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ وہ خبیث النفس اور سست ہوتا ہے (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۲۴۳۔ فتح)و مسلم (۷۷۶)۔

۱۱۶۶۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: لوگو ! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ اور رات کو نماز پڑھو جبکہ لوگ سوئے ہوئے ہوں تو (اللہ کی رحمت سے)تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔ (ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث کیلئے حدیث نمبر ۸۴۹ملاحظہ فرمائیں۔

۱۱۶۷۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ تعالیٰ کے مہینے، محرم کے روزے ہیں اور فرض نماز کے سب سے افضل نماز رات کی نماز (تہجد) ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۱۶۳)

۱۱۶۸۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: رات کی نماز دو دو رکعت ہے۔ پس جب تمہیں صبح ہو جانے کا اندیشہ ہو تو پھر آخر۔ پر ایک رکعت وتر پڑھ لے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۶۱۱۔ ۵۶۲۔ فتح)و مسلم (۷۴۹)۔

۱۱۶۹۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ رات کی نماز (تہجد) دو دو رکعت کر کے پڑھا کرتے تھے اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔    (متفق علیہ)

توثیق الحدیث اور کیلئے حدیث نمبر (۱۱۰۶) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۱۷۰۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کسی مہینے میں تو اس طرح روزے رکھنا چھوڑ دیتے تھے کہ ہم گمان کرتے کہ آپ اس مہینے میں روزہ نہیں رکھیں گے اور کسی مہینے میں اس قدر روزے رکھتے کہ ہم گمان کرتے کہ آپ اس مہینے میں کوئی روزہ نہیں چھوڑیں گے۔ اور آپﷺ قیام اللیل اس انداز سے کرتے تھے کہ اگر کوئی آپﷺ کو رات کے کسی بھی حصہ میں نماز پڑھتا دیکھنا چاہے تو وہ دیکھ سکتا تھا اور اسی طرح اگر وہ آپ کو سویا ہوا دیکھنا چاہے تو سویا ہوا دیکھ سکتا تھا (یعنی آپ نے رات کا کوئی حصہ قیام کیلئے مخصوص نہیں کیا تھا باری باری ہر حصے میں قیام کرتے تھے۔ )  (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۲۳۔ فتح)بتمامہ

اس حدیث کا پہلا حصہ صحیح مسلم (۱۱۵۸) میں بھی ہے۔

۱۱۷۱۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ رات کی نماز (تہجد) گیارہ رکعت پڑھا کرتے تھے ،آپ اس قدر لمبا سجدہ کرتے کہ آپ کے سجدہ سے سر اٹھانے سے پہلے تم میں سے کوئی شخص پچاس آیات کی تلاوت کر لیتا۔ آپ نماز فجر سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے پھر آپ اپنے دائیں پہلو پر لیٹتے حتیٰ کہ نماز کی اطلاع کرنے والا آپ کے پاس اتا۔    (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۷۳۔ فتح)۔

۱۱۷۲۔ حضرت عائشہ ہی بیان کرتی ہیں کہ نبیﷺ رمضان اور غیر رمضان میں نماز تہجد گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ آپ چار رکعتیں پڑھتے ،پس آپ ان کے طولو حسن کے بارے میں میں نہ پو چھیں !پھر آپ چار رکعتیں پڑھتے ،پس تم یہ نہ پوچھو کہ وہ کتنی حسین اور کتنی طویل ہوتی تھیں !پھر آپ تین رکعت پڑھتے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا: عائشہ یقیناً میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۳۳۔ فتح)و مسلم (۷۳۸)

۱۱۷۳۔ حضرت عائشہؓ ہی سے روایت ہے کہ نبیﷺ رات کے پہلے حصے میں سوتے تھے اور رات کے آخر ی حصے میں تہجد پڑھتے تھے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۲۳۔ فتح)و مسلم (۷۳۹)۔

۱۱۷۴۔ حضرت مسعود ؓ بیان کرتے ہیں میں نے ایک رات نبیﷺ کے ساتھ نماز پڑھی آپ برابر حالت قیام میں رہے حتیٰ کہ میں نے ایک برے کام کا ارادہ کر لیا۔ حضرت ابن مسعودﷺ سے پوچھا گیا کہ آپ نے کیا ارادہ کیا تھا؟انھوں نے بتایا:میں نے ارادہ کیا کہ میں بیٹھ جاؤں اور آپ کو (حالت قیام) کی حالت میں چھوڑ دوں۔          (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لئے حدیث نمبر ۱۰۳ملاحظہ فرمائیں۔

۱۱۷۵۔ حضرت حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک رات نبیﷺ کے ساتھ نماز پڑھی آپ نے سورۂ بقرہ پڑھنا شروع کی تو میں نے سوچا آپ سو آیات پر رکوع کریں گے مگر آپ پڑھتے گئے، میں نے سوچا یہ سورت پوری نماز میں (دو رکعتوں)پڑھیں گے مگر آپ پڑھتے گئے میں نے سوچا کہ اس کے ختم ہونے پر آپ رکوع کریں گے لیکن آپ نے سورۂ نسا ء پڑھنا شروع کر دی ،اسے مکمل پڑھا پھر آل عمران شروع کی اور اس کی تلاوت کی۔ آپ ٹھہر ٹھہر کر تلاوت فرماتے ،جب کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں تسبیح ہوتی تو آپ تسبیح کرتے اور کسی سوال والی آیت سے گزرتے تو اس کے بارے میں سوال کرتے ،جب پناہ مانگنے والی کسی آیت کے پاس سے گزر تے تو اللہ سے پناہ طلب کرتے۔ پھر آپ نے رکو ع کیا اور اس میں ’’سبحان ربی العظیم‘‘ پڑھنا شروع کر دیا ،آپ ک رکوع بھی (تقریباً)آپ کے۔ قیام کے برابر تھا، پھر آپ نے فرمایا (سمع اللہ لمن حمدہ، ربنا لک الحمد)پھر آپ نے رکوع کے برابر طویل قیام کیا،پھر سجدہ کیا تو فرمایا (سبحان ربی الأعلی)اور آپ کے سجود بھی تقریباً قیام کے برابر تھے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث اور ۔ کے لئے حدیث نمبر (۱۰۲)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۱۷۶۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کون سی نماز افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا: لمبے قیام والی۔  (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۵۶)۔

۱۱۷۷۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ نماز حضرت داؤد ؑ کی نماز ہے اور اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ روزہ حضرت داؤد ؑ کا روزہ ہے۔ حضرت داؤد ؑ آدھی رات سوتے تھے اور اس کا تیسرا حصہ نماز پڑھتے تھے۔ پھر اس کا چھٹا حصہ سوتے تھے۔ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن نہیں رکھتے تھے۔         (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۶۳۔ فتح)و مسلم (۱۱۵۹) (۱۸۹)۔

۱۱۷۸۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : بے شک رات میں ایک ایسی گھڑ ی ہے کہ جس مسلمان کو میسر۔ آ جائے اور وہ اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخر ت کے بارے میں کوئی چیز طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اے وہی چیز عطا فرما دیتا ہے اور گھڑ ی ہر رات میں ہوتی ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۵۷)۔

۱۱۷۹۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی ایک رات کو (تہجد کے لیے)کھڑا ہو تو وہ اپنی نماز کا آغاز دو مختصر رکعتوں سے کرے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۶۸)

۱۱۸۰۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب رات کو (تہجد کیلئے) بید ار ہوتے تو اپنی نماز کا آغاز دومختصر رکعتوں سے فرماتے تھے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۶۷)۔

۱۱۸۱۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب کسی تکلیف وغیرہ کی وجہ سے رسول اللہﷺ کی نماز تہجد چھوٹ جاتی تو آپ دن کے وقت بارہ رکعتیں ادا فرماتے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۴۶) (۱۴۰)

۱۱۷۲۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر کوئی شخص اپنے مقررہ وظیفے یا اس کے کچھ حصے کو پڑھے بغیر سو جائے اور پھر اسے نماز فجر اور نماز ظہر کے درمیان پڑھ لے تو اس کے لیے (اتنا ہی اجر) لکھ دیا جاتا ہے گو یا کہ اس نے اسے رات ہی کے وقت پڑھا ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۴۷)۔

۱۱۸۳۔ حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھے نماز تہجد پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی اٹھائے اگر بیوی اٹھنے سے انکار کرے تو یہ اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے۔ (اسی طرح) اللہ تعالی اس عورت پر بھی رحم فرمائے جو رات کو اٹھے اور نما ز تہجد پڑھے اور اپنے خاوند کو بھی اٹھائے اگر وہ اٹھنے سے انکار کرے تو یہ اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ (ابوداؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث : حسن۔ اخرجہ ابو داؤد (۱۳۰۸، ۱۴۵۰)والنسائی (/۲۰۵۳)و ابن۔ ماجہ (۱۳۳۹)و احمد (/۲۵۰۲، ۴۳۶)وغیرھم

اس کی سند حسن ہے کیونکہ اس محمد بن عجلان صدوق راوی ہے۔

۱۱۸۴۔ حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت ابو سعید ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب آدمی رات کے وقت اپنے گھر والوں کو جگائے اور وہ دونوں نماز پڑھے یادو رکعتیں اکٹھی پڑھیں تو وہ دونوں ’’ذاکرین‘‘ اور  ’’ذاکرات‘‘ میں لکھ دیے جاتے ہیں۔ (ابوداؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۱۳۰۹، ۱۴۵۱)و ابن ماجہ (۱۳۳۵)ابن حبان (۲۵۶۸و۲۵۶۹)۔

اس کی سند صحیح ہے اور اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔

۱۱۸۵۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو نماز میں اونگھ آئے تو اسے چاہیے کہ وہ سو جائے حتیٰ کہ اس کی نیند ختم ہو جائے۔ اس لیے کہ تم میں سے کوئی اونگھتے ہوئے نماز پڑھے گا تو ممکن ہے وہ مغفرت طلب کرنے کی بجائے اپنے آپ کو برا بھلا کہنے لگے۔         (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لئے حدیث (۱۴۷)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۱۸۶۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی رات کو عبادت کیلئے بیدار ہو اور غلبہ نیند کی وجہ سے قرآن پڑھنا اس کے لئے مشکل ہو رہا ہو اور اسے معلوم نہ ہو کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ لیٹ جائے (تھوڑ ی دیر سو جائے اور بعد میں نماز پڑھ لے)۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۸۷)۔

۲۱۳۔ باب: قیام رمضان یعنی تراویح کے مستحب ہونے کا بیان

۱۱۸۷۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔     (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۵۰۴۔ فتح)و مسلم (۷۵۹)۔

۱۱۸۸۔ حضرت ابو ہریر ؓ ہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ قیام رمضان کو لازمی قرار دیے بغیر اس کے بارے میں ترغیب دلایا کرتے تھے۔ پس آپ یوں فرماتے : ’’جس شخص نے ایمان کی حالت میں ثواب کی امید سے رمضان کا قیام کیا تو اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں‘‘ ۔           (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۵۹) (۱۷۴)۔

۲۱۴۔ باب: شب قدر کے قیام کی فضیلت اور اس بات کا بیان کہ ان راتوں میں سے کون سی رات زیادہ امید والی ہے ؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یقیناً ہم نے اس (قرآن مجید)کو شب قدر میں نازل کیا۔ ۔ ۔ ۔ آخر۔ سورت تک۔

(سورۃ القدر۔ :۱)

اور فرمایا : ’’ہم نے اس قرآن مجید کو بابر کت رات میں نازل کیا‘‘ ۔ (الدخان:۳)

۱۱۸۹۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جس شخص نے ایمان و احتساب کے ساتھ شب قدر میں قیام کیا تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۱۵۴و۲۵۵۔ فتح)و مسلم (۷۶۰)۔

۱۱۹۰۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کے صحابہ میں سے چند آدمیوں کو خواب میں آخر ی سات راتوں میں شب قدر دکھائی گئی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے خواب آخر ی سات راتوں کے بارے میں موافقت و مماثلت رکھتے ہیں ،پس جو شخص شب قدر کو تلاش کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے آخر ی سات راتوں میں تلاش کرے۔          (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۵۶۴۔ فتح)و مسلم (۱۱۶۵)۔

۱۱۹۱۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ رمضان کے آخر ی دس دنوں میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے۔ رمضان کے آخر ی دس دنوں میں شب قدر کو تلاش کرو۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۵۹۴۔ فتح)۔ و مسلم (۱۱۶۹)۔

۱۱۹۲۔ حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: شب قدر کو رمضان کے آخر ی عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۵۹۴)۔

۱۱۹۳۔ حضرت عائشہ ؓ ہی بیان کرتی ہیں کہ جب رمضان کا آخر ی عشرہ شرو ع ہو جاتا تو رسول اللہﷺ رات کو بید ار رہتے ، اپنے گھر والوں کو جگاتے، خوب محنت کرتے اور کمر کس لیتے (یعنی عبا دت الہیٰ میں مصروف ہو جاتے)۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۶۹۴۔ فتح)و مسلم (۱۱۷۴)۔

۱۱۹۴۔ حضرت عائشہؓ ہی بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ رمضان میں جس قدر محنتو کوشش کرتے تھے، اس قدر غیر رمضان میں نہیں کرتے تھے اور جو محنتو کوشش رمضان کے آخر ی عشرے میں کرتے تھے وہ اس کے دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۱۷۵)

۱۱۹۵۔ حضرت عائشہ ؓ ہی بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ !مجھے بتائیں اگر مجھے پتا چل جائے کہ کون سی رات شب قدر ہے تومیں اس میں کیا پڑھوں (کیا دعا کروں)؟ آپ نے فرمایا: تم کہو اے اللہ !بے شک تو بہت معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے پس تو مجھے معاف فرما دے۔ (ترمذی حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ الترمذی (۳۵۱۳)با سناد صحیح۔

۲۱۵۔ باب: مسواک کی فضیلت اور فطری چیزیں

۱۱۹۲۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر مجھے اپنی امت پر (یا لوگوں پر)مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ ۔  (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۷۴۲۔ فتح)و مسلم (۲۵۲)۔

۱۱۹۷۔ حضرت حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب رات کو بید ار ہوتے تو آپ مسواک سے اپنا منہ صاف کرتے۔       (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۵۶۱۔ فتح)و مسلم (۲۵۵)۔

۱۱۹۸۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے لئے آپ کی مسواک اور وضو کا پانی تیار کرتے تھے۔ پس جب اللہ کو منظور ہو تا وہ آپ کو بیدار کرتا۔ پس آپ مسواک کرتے ،وضو کر تے اور نماز پڑھتے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۴۶)

۱۱۹۹۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں نے تمہیں مسواک کے بارے میں بہت تاکید کی ہے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۷۴۲۔ فتح)

۱۲۰۰۔ حضرت شریح بن ہانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا جب نبیﷺ گھر تشریف لاتے تو آپ سب سے پہلے کیا کام کرتے تھے ؟ تو حضرت عائشہ ؓ نے بتایا :مسواک کرتے تھے۔         (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۵۳)۔

۱۲۰۱۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت مسواک کا کنارہ آپ کی زبان مبارک پر تھا (یعنی آپ مسواک کر رہے تھے)۔          (متفق علیہ۔ یہ الفاظ مسلم کے ہیں)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۵۵۱۔ فتح)و مسلم (۲۵۴)۔

۱۲۰۲۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: مسواک منہ کی پاکیزگی اور رب کی رضا کا ذریعہ ہے۔ (اسے نسائی اور ابن خزیمہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں صحیح سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے۔ )

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ النسائی (/۱۰۱)و ابن خزیمۃ (۱۳۵)وغیر ھم

اس کی سند صحیح ہے اور بخاری نے اسے تعلیقاً روایت کیا ہے۔

۱۲۰۳۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا :فطری چیزیں پانچ ہیں یا فرمایا:پانچ چیزیں فطرت سے ہیں :ختنہ کرنا، زیر ناف بال صاف کرنا، ناخن تراشنا، بغل کے بال اکھیڑ نا، اور مونچھیں کٹوانا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۳۴۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۵۷)۔

تنبیہ ’’خمس من الفطرۃ‘‘ والی روایت ’’الفطرۃخمس‘‘ روایت حصر سے زیادہ واضح ہے اس کے لیے کہ دوسری احادیث میں فطرت کے بارے پانچ سے زائد چیزیں بیان کی گئی ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں حصر مراد نہیں۔

۱۲۰۴۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دس چیزیں فطری ہیں۔ مونچھیں کٹوانا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی چڑھانا (داخل کرنا)، ناخن تراشنا، انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، بغل کے بال اکھیڑ نا، زیر ناف بال مونڈ نا اور استنجا کر نا، راوی نے بیان کیا کہ میں دسویں چیز بھول گیا ہوں، شاید وہ کلی کرنا ہو۔

وکیعؒ جو اس حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی ہیں ، بیان کرتے ہیں کہ ’’انتقاص الماء‘‘ سے مراد ہے استنجا کرنا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ۔ مسلم (۲۶۱)

۱۲۰۵۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: مونچھیں کا ٹو اور داڑھی بڑھاؤ۔      (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۴۹۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۵۸)۔

۲۱۶۔ باب وجوب زکوٰۃ کی تاکید اس کی فضیلت اور اس سے متعلقہ احکام

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو‘‘ ۔ (سورۃ البقرۃ: ۴۳)

اور فرمایا: ’’انہیں اسی بات کا حکم دیا گیا کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ،اس کیلئے اطاعت کو خالص کرتے ہوئے اور اس کی طرف یکسو ہو کر اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی ہے سیدھا دین‘‘ ۔ (البینۃ:۵)

اور فرمایا: ’’ان کے اموال میں سے زکوٰۃ وصول کریں ،انہیں پاک کریں اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کریں‘‘۔ (التوبۃ :۱۰۳)

۱۲۰۶۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۰۷۵) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۲۰۷۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ اہل نجد میں سے ایک آدمی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، جس کے سرکے بال پراگندہ تھے۔ ہم اس کی گنگناہٹ سن رہے تھے لیکن ہمیں اس کی گفتگو سمجھ نہیں۔ آ رہی تھی حتیٰ کہ وہ رسول اللہﷺ کے قریب ہو گیا آپؐ سے وہ آپ سے اسلام کے بارے میں پو چھ رہا تھا ،رسول اللہﷺ نے فرمایا: دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں۔ اس نے پوچھا :کیا ان کے علاوہ بھی کوئی نماز مجھ پر فرض ہے ؟آپ نے فرمایا:نہیں مگر یہ کہ تم اپنی خوشی سے نفل پڑھو۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا:ماہ رمضان کے روزے فرض ہیں۔ اس نے پوچھا :کیا اس کے علاوہ بھی کوئی روزہ مجھ پر فرض ہے ؟آپ نے فرمایا: نہیں ، مگر یہ کہ تم خوشی سے نفل روزے رکھو۔ حضرت طلحہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اس سے زکوٰۃ کا بھی ذکر فرمایا تو اس آدمی نے کہا :کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پر کچھ فرض ہے ؟ آپ نے فرمایا: نہیں مگر یہ کہ تو خوشی سے کوئی صدقہ کرے۔ جب وہ آدمی واپس لوٹا :تو اس نے کہا اللہ کی قسم !میں اس پر نہ کوئی زیادتی کروں گا اور نہ اس میں کوئی کمی کروں گا۔ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہ آدمی کامیاب ہو گیا اگر یہ (اپنی بات میں) سچا ہے۔      (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۰۶۱۔ فتح)و مسلم (۱۱)۔

۱۲۰۸۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے حضرت معاذؓ کو یمن کی طرف عامل (گورنر بنا کر) بھیجا تو فرمایا: انہیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اگر وہ اس میں تمہاری اطاعت کریں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر دن اور رات میں پانچ نما زیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ یہ بھی مان لیں تو انہیں بتا نا کہ اللہ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے وصول کی جائے گی اور ان کے فقرا پر تقسیم کی جائے گی۔              (متفق علیہ)

۱۲۰۹۔ حضرت ابن عمر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مجھے لوگوں سے جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے حتیٰ کہ وہ یہ گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں ،وہ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں پس جب وہ یہ کام کریں تو انھوں نے اپنے خون اور اموال مجھ سے محفوظ کر لئے۔ بجز حق اسلام کے اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لئے حدیث نمبر (۳۹۰)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۲۱۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ وفات پا گئے اور حضرت ابو بکرؓ خلیفہ مقرر ہوئے اور عرب کے بعض قبیلے کافر ہو گئے (اور حضرت ابوبکر ؓ نے ان سے قتال کرنا چاہا)تو حضرت عمر ؓ نے (حضرت ابو بکرؓ سے) کہا :آپ لوگوں سے قتال کیسے کریں گے ؟جب کہ رسول اللہﷺ نے تو فرمایا: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں حتیٰ کہ وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کر لیں ،پس جس شخص نے اس کا اقرار کر لیا اس نے اپنا مال و جان مجھ سے محفوظ کر لیا بجز حق اسلام کے اور اس کا حساب اللہ کے سپرد ہے‘‘ ؟حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم ! میں اس شخص سے ضرور قتال کروں گا جو نمازو زکوٰۃ کے درمیان فرق کرے گا اس لیے کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم !اگر انہوں نے وہ رسی جو یہ رسول اللہﷺ کو دیا کرتے تھے، مجھے دینے سے روک لی تو میں اس کے روکنے پر بھی ان سے قتال کروں گا‘‘ ۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم !تھوڑ ی دیر بعد ہی مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ نے جہاد کے لیے حضرت ابو بکرؓ کا سینہ کھول دیا ہے پس میں نے یہ جان لیا کہ یہی حق ہے۔              (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۶۲۶۳۔ فتح)و مسلم (۲۰)

۱۲۱۱۔ حضرت ابو ایوب ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبیﷺ سے عرض کیا:مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں لے جائے ؟ آپ نے فرمایا: ’’اللہ کی عبادت کر اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا، نماز قائم کر، زکوٰۃ ادا کر اور صلہ رحمی کر‘‘ ۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لئے حدیث نمبر (۳۳۱)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۲۱۲۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں کہ جب میں وہ عمل کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں ؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی عبادت کر،اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہرا، نماز قائم کر،فرض زکوٰۃ ادا کر اور رمضان کے روزے رکھ‘‘ ۔ اس شخص نے کہا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں اس پر کوئی اضافہ نہیں کروں گا۔ پس جب وہ شخص واپس مڑا تو نبیﷺ نے فرمایا: جس شخص کو یہ پسند ہو کہ وہ کسی جنتی شخص کو دیکھے تو وہ اسے دیکھ لے۔          (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۶۱۳۔ فتح)و مسلم (۱۴)۔

۱۲۱۳۔ حضرت جریر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ سے نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۶۷۳۔ فتح)و مسلم (۵۶)۔

۱۲۱۴۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص کے پاس (بقدر نصاب) سونا اور چاندی ہے لیکن وہ ان کا حق (زکوٰۃ)ادا نہیں کرتا تو جب قیامت کا دن ہو گا تو اس کیلئے (اس سونے چاندی سے) آگ کے تختے بنائے جائیں گے ،انہیں جہنم کی آگ میں تپا یا جائے گا پھر انکے ساتھ اس کے پہلو پیشانی اور پیٹھ کو داغا جائے گا۔ جب بھی وہ تختیاں ٹھنڈی ہوں گی تو (اسے داغنے کے لیے) انہیں دوبارہ گرم کیا جائے گا، یہ عمل اس روز مسلسل جاری رہے گا جو پچاس ہزار سال کا دن ہے حتیٰ کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے۔ پس وہ اپنا راستہ جنت کی طرف یا جہنم کی طرف دیکھ لے گا۔ لوگوں نے پوچھا :یا رسول اللہ !اونٹوں کا کیا معاملہ ہے ؟ آپ نے فرمایا: اونٹوں کا مالک جوان کا حق (زکوٰۃ)ادا نہیں کرے گا اور ان کا حق یہ بھی ہے کہ پانی پلانے کی باری کے دن ان کا دودھ ضرورت مندوں کیلئے دوہا جائے (یعنی ان میں تقسیم کیا جائے)پس جب قیامت کا دن ہو گا تو ان کے مالک کو ایک چٹیل میدان میں ان اونٹوں کے سامنے منہ یا پیٹی کے بل گرا دیا جائے گا۔ یہ اونٹ اس وقت اتنے موٹے ہوں گے جو وہ زیادہ سے زیادہ دنیا میں موٹے رہے تھے۔ وہ ان میں سے ایک بچے کو بھی گم نہیں پائے گا۔ وہ اپنے سموں سے اسے روندیں گے اور اپنے مونہوں سے اسے کاٹیں گے۔ جب ان کا پہلا اونٹ گزر جائے گا تو اس پر پھر ان کا آخر ی اونٹ دوبارہ لوٹا دیا جائے گا۔ اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہو گئی حتیٰ کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا۔ پس وہ اپنا راستہ جنت کی طرف یا جہنم کی طرف دکھا دیا جائے گا۔ عرض کیا گیا :یا رسول اللہ !گائے اور بکریوں کا کیا مسئلہ ہے ؟ آپ نے فرمایا:جو گائے اور بکریوں کا مالک ہے اگر وہ ان میں سے ان کا حق (زکوٰۃ) ادا نہیں کرتا تو جب قیامت کا دن ہو گا تو اس شخص کو ان کیلئے ایک بہت بڑے میدان میں منہ یا پیٹھ کے بل گرا دیا جائے گا اور وہ ان میں سے کسی کو گم نہیں پائے گا۔ ان میں کوئی (بکری یا گائے)مڑے ہوئے سینگوں والی ہو گی نہ بغیر سینگ کے اور نہ ہی کوئی ٹوٹے ہوئے سینگوں والی ہو گی یہ اس شخص کو اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے کھروں سے روندیں گی جب اس پر ان کی پہلی بکری یا گائے گزر جائے گی تو اس پران کی آخر ی (گائے یا بکری)لوٹا دی جائے گی ،اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہو گی حتیٰ کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا (تب تک یہ عمل جاری رہیگا)پس اسے اس کا راستہ جنت یا جہنم کی طرف دکھا دیا جائے گا۔ عرض کیا گیا :یا رسول اللہ! گھوڑوں کا کیا مسئلہ ہے ؟آپ نے فرمایا: گھوڑے تین قسم کے ہیں ،ایک وہ جو آدمی کے لئے بوجھ ہے ،ایک وہ جو آدمی کے لئے فقر و فاقہ سے پردہ ہے اور ایک وہ جو آدمی کیلئے اجر ہے۔ وہ جو آدمی کے لیے بوجھ ہے ،پس وہ آدمی جس نے گھوڑے کوریا فخر اور اہل اسلام کو نقصان پہچانے کیلئے باندھ رکھا ہے پس یہ گھوڑا اس کے لئے (گناہ کا)بوجھ ہے اور رہے وہ گھوڑے جو اس (مالک)کے لیے (فقر و فاقہ اور ضرورت کے وقت)پروہ (اس) آدمی (کا گھوڑا ہے)جس نے انہیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں باندھا (پالا) پھر وہ ان کی پیٹھوں اور ان کی گردنوں میں اللہ تعالیٰ کے حقو ق کو فراموش نہیں کرتا (یعنی ضرورت مند کو مانگنے پر عاریتاً دے دیتا ہے)۔ رہے وہ گھوڑے جو اس کیلئے موجب ثواب ہیں ،وہ ہیں جن کو آدمی نے اہل اسلام کے فائدے کے لئے اللہ کی راہ میں کسی سر سبز چراگاہ یا کسی باغ میں باندھ رکھا ہے ، وہ اس چرا گاہ یا باغ میں سے جو کچھ کھائیں گے تو اس کے لئے ان کی کھائی ہوئی چیزوں کے برا بر نیکیاں لکھی جائیں گی۔ اگر کوئی گھوڑا اپنی رسی تڑ وا کر ایک ٹیلے یا دو ٹیلوں پر چڑھتا اور کودتا ہے تو اس دوران وہ جتنے قدم چلتا اور لید وغیرہ کرتا ہے تو ان کی تعداد کے برابر بھی اللہ تعالیٰ اس شخص کیلئے نیکیاں لکھ دیتا ہے ، اگر مالک اسے لے کر کسی نہر پر سے گزرے اور وہ اس میں سے پانی پی لے حالانکہ وہ مالک اسے پانی پلانے کا ارادہ نہ بھی کرے تو اللہ اس کے پیے ہوئے پانی کے برابر بھی نیکیاں عطا فرمائے گا۔ ‘‘ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ! گدھوں کے بارے میں کیا مسئلہ ہے ؟ آپ نے فرمایا: ’’مجھ پر گدھوں کے بارے میں اس منفرد اور جامع آیت کے سوا کچھ نازل نہیں کیا گیا : ’’جو کوئی ذرہ برابر نیکی کرے گا تو وہ اسے دیکھ لے گا اور جو کوئی ذرہ برابر برائی کرے گا تو (قیامت والے دن) وہ اسے بھی دیکھ لے گا‘‘ ۔         (متفق علیہ)یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (۳ /۲۶۷۔ فتح)و مسلم (۹۸۷)۔

۲۱۷۔ باب: رمضان کے روزوں کا وجوب،ان کی فضیلت اور ان سے متعلقہ احکام

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان تک : رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا،یہ لوگوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے اور ہدایت اور حق و باطل کے درمیان تمیز کرنے والے دلائل ہیں ، پس جو شخص اس مہینے کو پالے اس کو چاہیے کہ وہ اس کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنا ہے۔ (البقرة:۱۸۳۔ ۱۸۵)

اس سے متعلقہ احادیث اس سے پہلے باب میں گزر چکی ہیں۔

۱۲۱۵۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل نے فرمایا: ’’ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے سوائے روزے کے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ روزہ ڈھال ہے پس جس روز تم میں سے کوئی شخص روزے سے ہو تو وہ فحش کلام کرے نہ شور غل ،اگر کوئی شخص اسے گالی دے یا لڑ آئی جھگڑا کرے تو یہ کہہ دے میں تو روزے دار ہوں ،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے ! روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی اور پاکیزہ ہے روزے دار کیلئے خوشی کے دو مواقع ہیں جن میں وہ خوش ہوتا ہے ، جب وہ روزہ افطار کرتا ہے تو اپنے روزہ افطار کرنے (عید الفطر) سے خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے (کے اجر) سے خوش ہو گا۔              (متفق علیہ)

یہ الفاظ بخاری کی روایت کے ہیں اور بخاری ہی کی ایک روایت میں ہے : ’’یہ شخص اپنا کھانا پینا اور اپنی جنسی خواہش میرے لئے چھوڑ تا ہے ،روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا اور (عام ہر) نیکی کا بدلہ دس گنا ہے‘‘ ۔

اور مسلم کی ایک روایت میں ہے :ابن آدم کے تمام نیک اعمال کو بڑھایا جاتا ہے نیکی کو دس گنا سے سات سو گناہ تک بڑھا یا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’سوائے روزے کے (اس کے اجر کا معاملہ مختلف ہے ہے)پس وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا، روزہ دار اپنی جنسی خواہش اور اپنا کھانا میری ہی وجہ سے چھوڑ تا ہے۔ روزے دار کیلئے خوشی کے دو مواقع ہیں ایک خوشی اس کے افطار کے وقت اور ایک خوشی اپنے رب کی ملاقات کے وقت اور اس کے منہ کی بو اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی اور پاکیزہ ہے۔

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۱۷۴۔ فتح)و مسلم (۱۱۵۱) (۱۶۳)والروایۃ الثانیۃ عند البخاری (/۱۰۳۴۔ فتح)والروایۃ الثانیۃعند مسلم (۱۱۵۱) (۱۶۴)

۱۲۱۶۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ کی راہ میں کسی چیز کا جوڑا خرچ کرے گا تو اسے جنت میں کے دروازوں سے پکارا جائے گا کہ اے اللہ کے بندے ! یہ (دروازہ)بہتر ہے ،پس جو شخص اہل صلوٰۃ میں سے ہو گا اسے ’’باب الصلوٰۃ‘‘ سے پکارا جائے گا اور جو شخص اہل جہاد میں سے ہو گا اسے ’’باب الجہاد‘‘ سے آواز دی جائے گی جو اہل صیام میں سے ہو گا اسے ’’باب الریان‘‘ سے پکارا جائے گا اور جو شخص اہل صدقہ میں سے ہو گا اسے ’’باب الصدقۃ‘‘۔ سے آواز دی جائے گی ،حضرت ابو بکر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ !میرے والدین آپ پر قربان ہوں ،جس شخص کو ان دروازوں میں سے کسی دروازے سے پکارا جائے گا اس کے لیے بھی نقصان دہ بات نہیں (یعنی وہ جنت میں داخل ہو جائے گا)کیا بھلا کسی شخص کو ان تمام دروازوں سے پکارا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں مجھے امید ہے کہ تم انہی میں سے ہو گے‘‘ ۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۱۱۴۔ فتح)و مسلم (۱۰۲۷)

۱۲۱۷۔ حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ’’ریان‘‘ کہا جاتا ہے قیامت والے دن روزہ دار اس میں سے داخل ہوں گے ،ان کے علاوہ کوئی اور اس میں سے داخل نہیں ہو گا۔ کہا جائے گا روزے دار کہاں ہیں ؟پس وہ کھڑے ہوں گے (اور داخل ہو جائیں اور )ان کے علاوہ کوئی اور اس دروازے سے داخل نہیں ہو گا جبو ہ داخل ہو جائیں گے تو اسے بند کر دیا جائے گا پھر کوئی اور اس میں داخل نہیں ہو گا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۱۱۴۔ فتح)و مسلم (۱۱۵۲)۔

۱۲۱۸۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ کی راہ میں (جہاد) میں ایک دن کا روزہ رکھتا ہے تو اللہ اس ایک دن کے روزے کی وجہ سے اس شخص کے چہرے کو جہنم کی آگ سے ستر سال دور کر دیتا ہے۔          (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۴۷۶۔ فتح)و مسلم (۱۱۵۳)۔

۱۲۱۹۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے روزہ رکھا تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔              (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۱۵۴۔ فتح)و مسلم (۷۶۰)۔

۱۲۲۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب رمضان (کا مہینہ)اتا ہے۔ تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کرد یے جاتے ہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ (/۱۱۲۴۔ فتح)و مسلم (۱۰۷۹)۔

۱۲۲۱۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (رمضان کا) چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور (شوال کا) چاند دیکھ کر روزہ رکھنا چھوڑ دو اور اگر بادل چھا جائیں اور چاند نظر نہ آئے تو پھر تم شعبان کے تیس دن کی گنتی پوری کرو۔ (متفق علیہ۔ یہ الفاظ بخاری کے ہیں)

اور مسلم کی روایت میں ہے اگر تم پر بادل چھائے تو پھر تم تیس دنوں کے روزے رکھو۔

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۱۳۴۔ فتح)و مسلم (۱۰۸۱) (۱۸)

۲۱۸۔ باب: ماہ رمضان میں سخاوت، نیک عمل اور زیادہ سے زیادہ خیرو بھلائی کرنا اور آخر ی عشرے میں اس سے بھی زیادہ اہتمام کرنا

۱۲۲۲۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ تمام لوگوں سے زیاد ہ سخی تھے اور آپ رمضان میں، جب جبرائیلؑ آپ سے ملاقات کرتے تو، بہت زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔ حضرت جبرائیلؑ رمضان کی ہر رات آپ سے ملاقات کرتے اور آپ سے قرآن مجید کا دور کرتے تھے۔ پس رسول اللہ۔ﷺ، جب جبرائیلؑ ان سے ملاقات کرتے تو بھلائی (کے کاموں) میں تیز ہوئی اسے بھی زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۳۰۱، فتح)و مسلم (۲۳۰۷)۔

۱۲۲۳۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب آخر ی عشرہ شروع ہو جاتا تو رسول اللہﷺ شب بیداری فرماتے اپنے گھر والوں کو جگاتے اور (عبادت کیلئے) کمر کس لیتے تھے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لئے حدیث نمبر (۱۱۹۳)ملاحظہ فرمائیں۔

۲۱۹۔ باب:نصف شعبان کے بعد استقبال رمضان کیلئے روزہ رکھنا منع ہے سوائے اس شخص کے جس کا اس کو ماہ قبل سے ملانے یا پیر اور جمعرات کا روزہ رکھنے کا معمول ہوا ور یہ دن اتفاقاً اس کے موافق جائے

۱۲۲۴۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص رمضان سے ایک دن یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھے ،سوائے اس شخص کے جو پہلے سے ان دنوں کا روزہ رکھتا ہو تو وہ اس دن کا روزہ رکھ لے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۲۷۴۔ فتح)و مسلم (۱۰۸۲)۔

۱۲۲۵۔ حضرت ابن عبا سؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: رمضان سے پہلے روزہ نہ رکھو (رمضان کا) چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور (شوال کا) چاند دیکھ کر روزہ رکھنا چھوڑ دو۔ اگر چاند اور روئت کے درمیان بادل حائل ہو جائیں تو تیس دن پورے کرو۔ (ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث :حسن۔ اخرجہ ابوداؤد (۲۳۲۷)و الترمذی (۶۸۸)والنسائی (/۱۵۳۴۔ ۱۵۴)۔

۱۲۲۶۔ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب نصف شعبان باقی رہ جائے تو پھر (نفل) روزے نہ رکھو۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ ابوداؤد (۲۳۳۷)و الترمذی (۷۳۸)و ابن ماجہ (۱۶۵۱)۔

۱۲۲۷۔ حضرت ابو یقظان عمار بن یاسر ؓ بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے شک والے دن کا روزہ رکھا تو اس نے یقیناً ابوالقاسمﷺ کی نافرمانی کی۔ (ابوداؤد، ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث :حسن بشواھدہ۔ علقہ البخاری (/۱۱۹۴)و وصلہ ابو داؤد (۳۳۳۴)و الترمذی (۶۸۶)و ابن ماجہ (۳۳۳۴)والنسائی (/۱۵۳۴)۔

اس کی سند میں ابو اسحاق سبیعی مدلسی راوی ہے جو عن سے بیان کرتا ہے اور اس کو اختلاط بھی ہو گیا تھا لیکن اس حدیث کے شواہد موجود ہیں جنہیں ابن حجر ؒ نے ’’تغلیق التعلیق (/۱۴۱۳،۱۴۲)‘‘ میں بیان کیا ہے لہٰذا یہ حدیث حسن ہے۔

۲۲۰۔ باب: روئت ہلال کے وقت کون سی دعا پڑھی جائے

۱۲۲۸۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ جب پہلی رات کا چاند دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے : ’’اے اللہ !اس چاند کو ہم پر امن و ایمان اور سلامتی او اسلام کے ساتھ طلوع فرما۔ اے چاند !میرا اور تیرا رب اللہ تعالیٰ ہے۔ اے اللہ !یہ چاند رشدو بھلائی والا ہو‘‘ ۔           (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث :حسن لغیرہ دون قولہ : ( (ھلال رشد وخیر))اخرجہ الترمذی (۳۴۵۱)و احمد (/۱۶۲۱)والحاکم (/۲۸۵۴)۔

یہ روایت شواہد کی بنا پر حسن ہے کیونکہ سلیمان بن سفیان اور اس کا استاد دونوں ضعیف ہیں لیکن ابن عمر ؓ کی حدیث اس کی شاہد موجود ہے جو دارمی (/۳۲،۴)اور طبرانی کبیر (۳۳۳۰) میں موجود ہے۔ ابن عمر ؓ والی روایت کی سند میں بھی عبد الرحمن اور اس کا باپ دونوں ضعیف ہیں لیکن یہ حدیث بالجملہ حسن درجہ تک پہنچ جاتی ہے۔ واللہ اعلم !

(ھلال رشدو خیر)کے الفاظ کے علاوہ حدیث حسن لغیرہ ہے نیز یہ الفاظ ترمذی میں نہیں بلکہ ابوداؤد (۵۰۹۲)میں مرسل ہیں اور یہ الفاظ ضعیف ہیں۔

۲۲۱۔ باب:سحری کھانے اور اس میں تاخیر کرنے کی فضیلت جبکہ طلوع فجر کا اندیشہ نہ ہو۔

۱۲۲۹۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سحری کھایا کرو اس لیے کہ سحری کھانے میں برکت ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۳۹۴۔ فتح)و مسلم (۱۰۹۵)۔

۱۲۳۰۔ حضرت زید بن ثابت ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ سحری کھائی پھر ہم نماز پڑھنے کیلئے کھڑے ہو گئے۔ ان سے پوچھا گیا ان دونوں (سحری کھانے کے خاتمے اور نما ز)کے درمیان کتنا وقفہ تھا؟ تو انھوں نے فرمایا :پچاس آیات (کی تلاوت)کے برابر۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۳۸۴۔ فتح)و مسلم (۱۰۹۷)

۱۲۳۱۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے دو مؤذن تھے ،حضرت بلال اور حضرت ابن ام مکتوم ؓ ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بلال ؓ رات (صبح کاذب) کو اذان دیتے ہیں لہٰذا تم اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک ابن ام مکتوم ؓ اذان نہ دیں۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ان دونوں اذانوں کے درمیان بس اتنا وقفہ ہوتا تھا کہ یہ (سیدنا بلال) اذان دے کر نیچے اترتے اور (حضرت ابن مکتوم) اذان دینے کیلئے چڑھتے تھے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۹۹۲فتح)و مسلم (۱۰۹۲) (۳۸)۔

۱۲۳۲۔ حضرت عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان فرق سحری کا کھانا ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۱۰۹۶)

۲۲۲۔ باب : افطار میں جلدی کرنے کی فضیلت اور جس چیز سے افطار کیا جائے اور افطار کے بعد پڑھی جانے والی دعا کا بیان

۱۲۳۳۔ حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لوگ ہمیشہ بھلائی میں رہیں گے جب تک وہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۹۸۴۔ فتح)و مسلم (۱۰۹۸)

۱۲۳۴۔ حضرت ابو عطیہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور مسروق حضرت عائشہؓ کے پاس گئے تو مسروق نے ان سے کہا محمدﷺ کے اصحاب میں سے دو آدمی ہیں اور وہ دونوں خیرو بھلائی کے کاموں میں کوتاہی نہیں کرتے ،ان میں سے ایک تو نماز مغرب پڑھنے اور روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتا ہے اور دوسرا نماز مغرب پڑھنے اور روزہ افطار کرنے میں تاخیر کرتا ہے۔ حضرت عائشہ نے پوچھا: نماز مغرب پڑھنے اور روزہ افطار کرنے میں جلدی کون کرتا ہے ؟ مسروق نے جواب دیا:حضرت عبداللہ یعنی ابن مسعود ؓ ۔ پس حضرت عائشہ نے فرمایا: ’’رسول اللہﷺ بھی ایسے ہی کیا کرتے تھے‘‘ ۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۱۰۹۹)۔

۱۲۳۵۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل نے فرمایا: مجھے میرے بندوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ وہ ہیں جو ان میں میں سے افطار میں جلدی کرنے والے ہیں۔          (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : ضعیف الترمذی (۷۰۰،۷۰۱)و احمد (/۳۲۹۲)و ابن حبان (۳۵۰۷)۔

اس کی سند ضعیف ہے ، اس لیے کہ قرۃ بن عبد الرحمن کو صرف ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے جبکہ جمہور اہل جرح و تعدیل نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ پس درست بات تو جمہور ہی کی ہے۔ لیکن یہ متابعات و شاہد کے لیے ٹھیک ہے۔ لہٰذا مام ترمذی نے جو اسے حسن قرار دیا ہے وہ صحیح نہیں۔

۱۲۳۶۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب رات ادھر (مشرق) کی طرف سے۔ آ جائے اور دن ادھر (مغرب) کی طرف چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو یقیناً روزے دار نے روزہ افطار کر لیا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۹۶۴۔ فتح) و مسلم (۱۱۰۰)

۱۲۳۷۔ حضرت ابو ابراہیم عبد اللہ بن ابی اوفی ؓ بیان کرتے ہیں ہم کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ سفر پر روانہ ہوئے اور آپ اس وقت روزے سے تھے۔ پس جب سورج غروب ہو گیا تو آپﷺ نے اپنے کسی رفیق سفر سے فرمایا: اے فلاں ! سواری سے اتر اور ہمارے لیے پانی میں ستو گھول۔ اس شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! اگر آپ شام ہونے دیں ؟ آپ نے فرمایا: ’’تو سواری سے اتر اور ہمارے لیے ستو گھول‘‘ ۔ اس نے پھر عرض کیا :ابھی تو دن باقی ہے۔ آپ نے فرمایا : ’’اتر اور ہمارے لیے ستو گھول‘‘ ۔ راوی بیان کرتا ہے کہ وہ آدمی سواری سے اترا اور ان کے لیے ستو گھو لے۔ پس رسول اللہﷺ نے نو ش فرمائے اور فرمایا: جب تم رات کو دیکھو کہ ادھر (مشرق) سے۔ آ گئی ہے تو یقیناً روزے دار نے افطار کر لیا۔ اور آپ نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۹۸۴۔ فتح)و مسلم (۱۱۰۱)

۱۲۳۸۔ حضرت سلمان بن عامر ضبیی صحابی ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو اسے چاہیے کہ کھجور سے افطار کرے ،اگر وہ کھجور نہ پائے تو پانی سے افطار کرے ، اس لیے کہ وہ خوب پاک ہے۔ (ابوداؤد، ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث کیلئے حدیث نمبر (۳۳۲)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۲۳۹۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نماز پڑھنے سے پہلے چند تازہ کھجوروں سے روزہ افطار کرتے تھے ،اگر تازہ کھجوریں مہیا نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوروں سے اور اگر خشک کھجوریں بھی میسر نہ ہوتیں تو آپ چند گھونٹ پانی پی لیتے تھے۔ (ابوداؤد، ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صح من فعلہﷺ وقد تقدم تخریجہ بر قم (۳۳۲)باب بر الوالدین وصلۃ الأرحام

۲۲۳۔ باب : روزہ دار اپنی زبان اور دوسرے اعضا کو شرعی امور کی مخالفت اور گالی گلوچ وغیرہ سے محفوظ رکھے

۱۲۴۰۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس روز تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ فحش کلام کرے نہ شور و غل مچائے ، اگر کوئی شخص اسے گالی دے یا اس سے لڑ آئی کرے تو یہ کہہ دے کہ میں تو روزہ دار ہوں۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لئے حدیث نمبر (۱۲۱۵) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۲۴۱۔ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا :جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو کوئی حاجت نہیں کہ وہ شخص اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۱۶۴، فتح)۔

۲۲۴۔ باب:روزہ کے مسائل

۱۲۴۲۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی ایک بھول کر کھا پی لے تو وہ اپنا روزہ پورا کرے اس لیے کہ اللہ نے اسے کھلایا پلایا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۵۰۴، فتح)و مسلم (۱۱۵۵)

۱۲۴۳۔ حضرت لقیط بن صبرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھے وضو کے بارے میں بتائیں ؟ آپ نے فرمایا: خوب اچھی طرح وضو کرو، انگلیوں کے درمیان خلال کرو، ناک میں خوب اہتمام کے ساتھ پانی ڈالو، لیکن روزہ کی حالت میں نہیں۔ (ابو داؤد ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح اخرجہ ابوداؤد (۱۴۲و۲۳۶۶)و الترمذی (۷۸۸)، و ابن ماجہ (۴۰۸)وغیرھم

۱۲۴۴۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کو کبھی اس طرح فجر ہوتی کہ آپ اپنی اہلیہ سے (جماع کی وجہ سے)جنبی ہوتے پھر۔ آ پ غسل فرماتے اور روزہ رکھتے۔        (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۴۳۴و۱۵۳۔ فتح)و مسلم (۱۱۰۹) (۷۶)۔

۱۲۴۵۔ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کبھی احتلام کے علاوہ (یعنی بیوی سے صحبت کی وجہ سے) حالت جنابت میں صبح کرتے ، روزہ رکھ لیتے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۴۔۱۴۳ و۱۵۳۔ فتح) ،و مسلم (۱۱۰۹) (۷۵)

۲۲۵۔ باب: محرم، شعبان اور حرمت والے مہینوں کے روزوں کی فضیلت

۱۲۴۶۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: رمضان کے بعد افضل روزہ اللہ تعالیٰ کے مہینے (یعنی)محرم کا ہے اور فرض نماز کے بعد افضل نماز رات کی نماز (تہجد) ہے۔      (مسلم)

توثیق الحدیث کیلئے حدیث نمبر (۱۱۶۷)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۲۴۷۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبیﷺ شعبان کے علاوہ کسی اور مہینے میں اتنے زیادہ (نفلی) روزے نہیں رکھتے تھے آپ شعبان کا۔ (تقریباً)پورا مہینہ روزے رکھتے تھے اور ایک روایت میں ہے :

آپ چند دنوں کے علاوہ شعبان کے باقی پورے روزے رکھتے تھے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۱۳۴۔ فتح)و مسلم (۱۱۵۶) (۱۷۶)۔

۱۲۴۸۔ حضرت مجیبہ باہلیہ اپنے باپ سے یا اپنے چچا سے روایت کرتی ہیں کہ وہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ،پھر چلے گئے اور ایک سال بعد پھر آئے تو ان کی حالت و ہیئت بدل چکی تھی۔ انھوں نے کہا: یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے پہچانتے نہیں ؟آپ نے فرمایا: تم کون ہو؟ انہوں نے کہا:میں با ہلی ہوں جو پچھلے سال آپ کے پاس آیا تھا آپ نے فرمایا: تم میں یہ تبدیلی کیسے۔ آ گئی تم تو اچھی حالتو ہیئت والے تھے ؟ انھوں نے عرض کیا جب سے آپ سے جدا ہوا ہوں میں نے صرف رات کو کھانا کھایا ہے (یعنی مسلسل روزے رکھے ہیں)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم نے تو اپنے آپ کو عذاب میں مبتلا کیا۔ پھر فرمایا: ’’ماہ صبر (رمضان کے روزے) اور ہر مہینے میں ایک روزہ رکھو۔ انھوں نے کہا : میرے۔ لیے اضافہ فرمائیں ،اس لیے کہ مجھ میں قوت ہے۔ آپ نے فرمایا: (ہر ماہ) دو روزے رکھو۔ انھوں نے کہا: میرے لیے اور اضافہ فرمائیں، کیونکہ مجھ میں قوت ہے۔ آپ نے فرمایا:ہر ماہ تین روزے رکھو۔ انھوں نے عرض کیا :میرے لیے اور اضافہ فرمائیں ، آپ نے فرمایا :حرمت والے مہینوں میں (زیادہ)روزے رکھو اور چھوڑ دو (یعنی مزید کا مطالبہ نہ کرو)حرمت والے مہینوں میں روزہ رکھو اور چھوڑ دو ،حرمت والے مہینوں کا روزہ رکھو اور چھوڑ دو۔ آپ نے اپنی تین انگلیوں کے ساتھ اشارہ فرمایا: انہیں ملایا اور پھر انہیں چھوڑ دیا۔ (ابوداؤد)

توثیق الحدیث : ضعیف۔ اخرجہ ابو داؤد (۲۴۲۸)

۲۲۶۔ باب:ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں روزے اور دیگر اعمال خیر کی فضیلت

۱۲۴۹۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:ان دنوں یعنی ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کے مقابلے میں دوسرا کوئی دن ایسا نہیں جس میں نیک اعمال اللہ کو ان دنوں سے زیادہ محبوب ہوں۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! (دیگر آیام میں)جہاد سبیل اللہ بھی نہیں ؟ آپ نے فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ،سوائے اس مجاہد کے جو اپنی جان اور مال لے کر جہاد کیلئے گیا اور پھر کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا (یعنی خود شہید ہو گیا اور خرچ ہو گیا)۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۵۷۲، فتح)

۲۲۷۔ باب: یوم عرفہ، عاشورہ اور نویں محرم کو روزہ رکھنے کی فضیلت

۱۲۵۰۔ حضرت ابوقتادہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے یوم عرفہ (۹ذوالحجہ)کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: وہ گزشتہ اور آئندہ سال کے گنا ہوں کو مٹا دیتا ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۱۶۲)۔

۱۲۵۱۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے یوم عاشورا کا روزہ رکھا اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم بھی فرمایا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۴۴۴۔ فتح)و مسلم (۱۱۳۰) (۱۲۸)

۱۲۵۲۔ حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ سے یوم عاشورا کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: وہ گزشتہ سال کے گناہ مٹا دیتا ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۱۶۲) (۱۹۷)

۱۲۵۳۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو میں ضرور ۹محرم کا روزہ رکھوں گا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۱۳۴) (۱۳۴)۔

۲۲۸۔ باب:شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہے

۱۲۵۴۔ حضرت ابو ایوب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو اس نے گویا زمانے بھر کے روزے رکھے۔    (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۱۶۴)

۲۲۹۔ باب:پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنا مستحب ہے

۱۲۵۵۔ حضرت ابو قتادہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے پیر کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی اور اسی دن میری بعثت ہوئی یا اسی دن مجھ پر وحی نازل کی گئی۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۱۶۲) (۱۹۷)۔

۱۲۵۶۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: پیرا ور جمعرات کے دن اعمال (اللہ کے حضور)پیش کیے جاتے ہیں اس لیے میں پسند کرتا ہوں کہ جب میرا عمل پیش کیا جائے تو میں روزے کی حالت میں ہوں۔ (ترمذی، حدیث حسن ہے۔ مسلم نے اسے روزے کے ذکر کے بغیر روایت کیا ہے)

توثیق الحدیث : صحیح بشواھد ہ۔ اخرجہ الترمذی (۷۴۷))با سناد ضعیف۔

ترمذی کی اس سند میں محمد بن رفاعہ بن ثعلبہ راوی مجہول ہے۔ یہی روایت صحیح مسلم (۲۵۶۵) (۳۶)میں بھی ہے لیکن اس میں آخر ی جملہ جس میں روزے کا ذکر ہے ،وہ نہیں ہے۔ لیکن یہ روایت شواہد کی بنا پر صحیح ہے کیونکہ اس باب کے متعلق اسامہ بن زید سے ابوداؤد (۲۴۳۲)اور نسائی (/۲۰۱۴،۲۰۲)وغیرہ میں حدیث موجود ہے اسی طرح حضرت حفصہ سے بھی نسائی (/۲۰۳۴،۲۰۴)میں حدیث موجود ہے۔ صحیح مسلم کی روایت آگے ’’باب النھی عن التبا غض والتقاطعو التدابر‘‘ رقم (۱۵۶۸)کے تحت آئے گی۔

۱۲۵۷۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ پیر اور جمعرات کے روزے کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔ (ترمذی حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ الترمذی (۷۴۵)والنسائی (/۴ (۲۰۲)و ابن ماجہ (۱۷۳۹)

۲۳۰۔ باب :ہر مہینے تین روزے رکھنا مستحب ہے

امام نو وی ؒ فرماتے ہیں افضل یہ ہے ’’ایام بیض‘‘ کے روزے رکھے جائیں اور یہ چاند کی ۱۳،۱۴اور ۱۵ تاریخ ہے اور بعض کے نزدیک ۱۲، ۱۳اور ۱۴۔ تاریخ ہے صحیح اور مشہور بات پہلی ہے۔

ان آیام کو ’’ایام بیض‘‘۔ اس لیے کہتے ہیں کہ ان تاریخوں کو چاند مکمل ہو کر ’’بدر‘‘ بن جاتا ہے اور یہ آیام دن کے وقت سورج کی وجہ سے اور رات کے وقت نور قمر کی وجہ سے روشن اور چمکدار ہوتے ہیں۔ محققین کے نزدیک یہ چاند کی ۱۳، ۱۴اور ۱۵تاریخ ہے جبکہ۱۲، ۱۳اور۱۴تاریخ والا قول غریب ہے۔

۱۲۵۸۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے خلیلﷺ نے مجھے تین چیزوں کی وصیت فرمائی ہر مہینے تین روزے رکھنے، چاشت کی دو رکعتیں پڑھنے اور یہ کہ میں سونے سے پہلے وتر ادا کروں۔             (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کیلئے حدیث نمبر (۱۱۳۹) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۲۵۹۔ حضرت ابو دردا ؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے حبیبﷺ نے مجھے تین باتوں کی وصیت فرما ئی ہے ،میں زندگی بھر انہیں نہیں چھوڑوں گا (۱) ہر ماہ تین روزے رکھنے (۲)نماز چاشت پڑھنے (۳)اور یہ کہ میں وتر پڑھنے سے پہلے نہ سوؤں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۲۲)۔

۱۲۶۰۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہر مہینے تین دن کے روزے رکھنا زمانہ (سال) بھر روزے رکھنے کے برابر ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۲۴۴۔ فتح)و مسلم (۱۱۵۹)۔

۱۲۶۱۔ حضرت معاذ ہ۔ عدویہ سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا کیا رسول اللہﷺ ہر ماہ تین دن کے روزے رکھتے تھے ؟ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: !ہاں حضرت معاذہ کہتی ہیں میں نے پوچھا آپ مہینے کے کس دن کا روزہ رکھتے تھے ؟ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: آپ اس بات کی پروا نہیں کرتے تھے کہ آپ مہینے کے کس کس دن کا روزہ رکھ رہے ہیں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۱۶۰)

۱۲۶۲۔ حضرت ابو ذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم مہینے میں تین روزے رکھنا چا ہو تو تیرہ،چودہ، اور پندرہ تاریخ کا روزہ رکھو۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح لغیرہ۔ اخرجہ الترمذی (۷۶۱)والنسائی (/۲۲۲۴۔ ۲۲۳)وغیرھما

۱۲۶۳۔ حضرت قتادہ بن ملحان ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمیں آیام بیض ۱۳، ۱۴، ۱۵تاریخ کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا کرتے تھے۔     (ابوداؤد)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ۔ ابو داؤد (۲۴۴۹)والنسائی (/۲۲۴۴۔ ۲۲۵)۔

۱۲۶۴۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ حضر (اقامت)و سفر میں آیام بیض کے روزے نہیں چھوڑتے تھے۔            (نسائی۔ سند حسن ہے)

توثیق الحدیث : ضعیف۔ اخرجہ النسائی (/۱۹۸۴۔ ۱۹۹)بادسنا ضعیف

۲۳۱۔ باب :روزہ افطار کرانے کی فضیلت اور اس روزہ دار کی فضیلت جس کے پاس کھایا جائے اور مہمان کا میزبان کے لئے دعا کرنا

۱۲۶۵۔ حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جس شخص نے کسی روزے دار کا روزہ افطار کرایا تو اس کے لیے اس روزہ دار کی مثل اجر ہے اور روزے دار کے اجر سے بھی کچھ کمی نہیں کی جائے گی۔ (ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ الترمذی (۸۰۷)و ابن ماجہ (۱۷۴۶)وغیرہ ھم

۱۲۶۶۔ حضرت ام عمارہ انصاریہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس نبیﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ کی خدمت میں کھانا پیش کیا ،آپ نے فرمایا: تم بھی کھاؤ۔ حضرت ام عمارہ نے کہا میں تو روزے دار ہوں پس رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جب کسی روزے دار کے سامنے کھانا کھایا جائے تو کھانا کھانے والوں کے فارغ ہونے تک فرشتے اس روزے دار پر رحمت کی دعا کرتے ہیں اور بعض دفعہ فرمایا: حتیٰ کہ وہ سیر ہو جائیں۔ (تب تک فرشتے دعا کرتے رہتے ہیں)۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : ضعیف، اخرجہ الترمذی (۷۸۵و۷۸۶)و ابن ماجہ (۱۷۴۸)۔

۱۲۶۷۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ حضرت سعد بن عبادہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے تو انھوں نے روٹی اور روغن زیتون آپ کی خدمت میں پیش کیا ،پس آپ نے تناول فرمایا ،پھر نبیﷺ نے یہ دعا پڑھی: ’’تمہارے ہاں روزے دار روزہ افطار کرتے رہیں نیک لوگ تمہارا کھانا کھاتے رہیں اور فرشتے تمہارے لیے دعا کرتے رہیں۔ (ابوداؤد)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابوداؤد (۳۸۵۴)و احمد (/۱۱۸۳و۱۳۸)والبغوی فی ( (شرح السنۃ)) (۳۳۲۰)والبیھقی (/۲۸۷۷)والنسائی فی ( (عمل الیوم واللیلۃ)) (۲۹۶و۲۹۷)و ابن السنی فی ( (عمل الیوم واللیلۃ)) (۴۸۴) وغیرھم

سیدنا عبد اللہ بن زبیر ؓ سے مروی روایت اس کی شاہد ہے جسے ابن ماجہ (۱۷۴۷)اور ابن حبان (۵۲۹۶) نے روایت کیا ہے لیکن اس کی سند میں مصعب بن ثابت ضعیف راوی ہے۔

تنبیہ:بعض لو گ اس دعا میں ان الفاظ (وذکر کم اللہ فی من عند ہ)کا اضافہ کرتے ہیں ، ان الفاظ کی کوئی اصل انہیں۔

 

 

اعتکاف کا بیان

 

۲۳۲۔ باب:اعتکاف کی فضیلت

۱۲۶۸۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ رمضان کے آخر ی عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۷۱۴۔ فتح)و مسلم (۱۱۷۱)۔

۱۲۶۹۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ رمضان کے آخر ی عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے حتیٰ کہ اللہ نے آپ کو فوت کر دیا پھر آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۷۱۴۔ فتح)و مسلم (۱۱۷۲) (۵)

۱۲۷۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ ہر رمضان میں دس دن کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے لیکن جس سال آپ نے وفات پائی اس سال آپ نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۸۴۴۔ ۲۸۵۔ فتح)