FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 زبدۃ الفقہ  جلد۔ ۳، کتاب الصلوٰۃ — ب

 

 

 

قرأت کا بیان

 

۱.         حالتِ اقامت ( یعنی حضر) میں جبکہ اطمینان ہو تو سنت یہ ہے کہ نماز فجر کی دونوں رکعتوں میں الحمد کے علاوہ چالیس یا پچاس آیتیں پڑھے اور ایک روایت کے مطابق ساٹھ سے سو تک پڑھے ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں بھی فجر کے مثل یا اس سے کم پڑھے، عصر اور عشا کی پہلی دو رکعت میں الحمد کے سوا پندرہ یا بیس آیتیں اور مغرب میں پہلی دو رکعتوں میں سے ہر رکعت میں پانچ آیتیں یا کوئی چھوٹی سورت پڑھے، یہ آیتوں کی مقدار کے لحاظ سے قرأت مسنونہ کا ذکر تھا سورتوں کے لحاظ سے قرأت مسنونہ یہ ہے کہ فجر اور ظہر میں طوال مفصل پڑھے جو سورة حُجرات سے سورة بُرُوج تک ہیں ، عصر اور عشا میں اوساط مفصل پڑھے جو والطارق سے لم یکن تک ہیں ، اور مغرب میں قصار مفصل پڑھے وہ اذا زلزلت الارض سے آخر قرآن یعنی والناس تک ہیں ، یہ دونوں طریقے سنت ہیں لیکن مفصلات کا اختیار کرنا مستحسن ہے

۲.        اگر حالتِ اقامت میں اطمینان نہ ہو مثلاً وقت کی تنگی ہو یا اپنی جان و مال کا خوف ہو تو سنت یہ ہے کہ اس قدر پڑھ لے جس سے وقت اور امن فوت نہ ہو جائے

۳.       حالت سفر میں اگر اطمینان ہو مثلاً وقت میں وسعت اور امن و قرار ہے تو قرأت مسنونہ میں سے جس کا ذکر حالتِ اقامت میں ہوا ادنیٰ درجہ اختیار کرے مثلاً فجر و ظہر میں طوالِ مفصل کی کوئی چھوٹی سورة مثلاً سورة بروج یا انشقاق یا اس مانند کوئی اور سورة دونوں رکعتوں میں پڑھے عصر و عشا میں اوساط مفصل میں سے کوئی چھوٹی سورة اور مغرب میں بہت چھوٹی سورتیں پڑھے

۴.       اگر سفر میں اطمینان نہ ہو تو حسبِ حال و ضرورت جو بھی سورة چاہے پڑھ لے خواہ سب سے چھوٹی سورة ہو یا کم سے کم تین آیتیں یا جو قرأت تین آیتوں کی مقدار ہو پڑھ لے

۵.        قرأت مسنونہ کا حکم فرضوں میں منفرد کے لئے بھی وہی ہے جو امام کے لئے ہے

۶.        امام کو چاہئے کہ سنت قرأت پر زیادتی کر کے مقتدیوں پر نماز بھاری نہ کرے

۷.       فجر کی نماز میں پہلی رکعت میں دوسری رکعت سے طویل قرأت کرے باقی نمازوں میں برابر کرے بعض کے نزدیک اس پر فتویٰ ہے اور بعض کے نزدیک فتویٰ اس پر ہے کہ سب نمازوں میں پہلی رکعت دوسری سے طویل کرے

۸.        دوسری رکعت کو پہلی رکعت پر تین آیتوں کی مقدار یا اور زیادہ لمبا کرنا مکروہِ تنزیہی ہے اس سے کم کی زیادتی مکروہ نہیں

۹.        شریعت نے نماز میں آسانی کے لئے ہر جگہ سے قرآن مجید پڑھنے کی اجازت دی ہے اس لئے نماز کے لئے کوئی سورة مقرر کر لینا مکروہ ہے لیکن اگر آسانی کے لئے ہو افضلیت یا متعین کرنے کا گمان نہ ہو تو مکروہ نہیں ، جو سورتیں جن نمازوں میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے پڑھنا ثابت ہیں ان کو ان نمازوں میں تبرکاً پڑھا کرے مثلاً فجر کی سنتوں کی پہلی رکعت میں قل یا ایھالکافرون اور دوسری رکعت میں قل ھو اللّٰہ احد پڑھنا اور نماز وتر میں پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ اور دوسری میں قل یا ایھا لکافرون اور تیسری میں قل ھو اللّٰہ احد پڑھنا حضورِ انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور کبھی کبھی ان کے علاوہ بھی پڑھا کرے کیونکہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے بھی اُن کا ہمیشہ پڑھنا ثابت نہیں ہے ، جس شخص کو اپنی مقررہ سورتوں کے سوا دوسری یاد نہ ہوں اس کے لئے بھی مکروہ نہیں ، نیز نماز شروع کرنے سے قبل یہ ذہن میں مقرر کر لینا کہ اب میں فلاں فلاں سورة پڑھوں گا مکروہ نہیں خواہ امام ہو یا منفرد، پھر اگر پڑھتے وقت اس کے خلاف کرے تب بھی مضائقہ نہیں

۱۰.       افضل یہ ہے کہ ہر رکعت میں پوری سورة پڑھے

۱۱.        دو رکعتوں میں ایک ہی سورة کو آخر سے پڑھنا یا دو سورتوں کے آخر کا حصہ پڑھنا یا پہلی رکعت میں کسی دوسری سورة کے شروع یا درمیان یا آخر کا پڑھنا یا دوسری رکعت میں کوئی چھوٹی سورة پڑھنا مثلاً پہلی رکعت میں امن الرسول کا رکوع پڑھے اور دوسری میں سورة اخلاص پڑھے تو ان سب سورتوں میں کوئی کراہت نہیں ہے لیکن اولیٰ یہ ہے کہ بلا ضرورت ایسا نہ کرے

۱۲.       ایک رکعت میں ایسی دو سورتوں کا پڑھنا جن کے درمیان ایک یا کئی سورتوں کا فاصلہ ہو مکروہ ہے اگر فاصلہ نہ ہو تو مکروہ نہیں لیکن فرضوں میں ایسا نہ کرنا اولیٰ ہے

۱۳.      اگر دونوں رکعتوں میں دو سورتیں پڑھے یعنی ہر رکعت میں ایک ایک سورة پڑھے اور ان دو سورتوں میں ایک بڑی سورة ( یعنی چھ آیتوں سے زیادہ والی) یا دو چھوٹی سورتوں کا فاصلہ ہو تو مکروہ نہیں اور اگر ایک چھوٹی سورة کا فاصلہ ہے تو مکروہ ہے اور اسی طرح اگر پہلی رکعت میں ایک سورة میں سے ایک جگہ سے پڑھے اور دوسری رکعت میں اُسی سورة کو دوسری جگہ سے پڑھے تو اگر ان دونوں جگہوں کے درمیان میں دو آیتوں یا زیادہ کا فاصلہ ہو تو مکروہ نہیں لیکن یہ بھی خلاف اولیٰ ہے اور اگر ایک آیت کا فاصلہ ہو تو مکروہ ہے اور اگر ایک ہی رکعت میں ایسا کیا تو خواہ فاصلہ کم ہو یا زیادہ ہر حال میں مکروہ ہے اگر سہواً ایسا ہو جائے تو قرأت کی حالت میں یاد آنے پر لوٹے اور چھوٹی ہوئی آیتوں کو پڑھ کر ترتیب صحیح کر لے

۱۴.      قرآن مجید کو الٹا پڑھنا یعنی ایک رکعت میں ایک سورة کا پڑھنا اور دوسری رکعت میں اُس سے پہلے کی کوئی سورت پڑھنا مثلاً پہلی رکعت میں سورة اخلاص اور دوسری میں تبت یدا یا النصر یا الکوثر وغیرہ پڑھنا مکروہ ہے ، اسی طرح اگر ایک رکعت میں ایک آیت پڑھی اور دوسری رکعت میں یا اسی رکعت میں اس سے اوپر کی آیت پڑھی تب بھی مکروہ ہے ، نماز کے باہر بھی اس طرح پڑھنا مکروہ ہے لیکن اگر بھولے سے ہو جائے تو مکروہ نہیں بلکہ اب نماز میں شروع کر دینے کے بعد اس سورة کا چھوڑ دینا مکروہ ہے اور خواہ بھول کر ایسا ہوا ہو یا جان بوجھ کر ہو اس پر سجدہ سہو نہیں ہے کیونکہ یہ تلاوت کے واجبات میں سے ہے نماز کے واجبات میں سے نہیں لیکن جان بوجھ کر ایسا کرنے والے کے لئے سخت وعید آئی ہے ( بچوں کو یاد کی آسانی کے لئے آخری سیپارہ اخیر کی طرف سے الٹا پڑھاتے ہیں یہ ضرورت کی وجہ سے جائز ہے )

۱۵.       نماز میں جو سورة شروع کر دی اس کو بلا وجہ چھوڑ کر دوسری شروع کرنا مکروہ ہے

۱۶.       جو سورة پہلی رکعت میں پڑھی ہے وہی سورة دوسری رکعت میں پڑھ لی تو کچھ حرج نہیں لیکن بلا ضرورت ایسا کرنا بہتر نہیں ہے ، یعنی خلاف اولیٰ و مکروہ تنزیہی ہے

۱۷.      ایک سورة یا ایک آیت کو ایک رکعت میں بار بار پڑھنا فرض نماز میں مکروہ ہے جبکہ اختیار سے ہو حالتِ عذر یا نسیان میں مکروہ نہیں ( کراہت کی تفصیل فرض نمازوں کے لئے ہے نفلوں اور سنتوں میں ان کراہتوں میں سے کوئی صورت مکروہ نہیں ہے )

 

 

نماز سے باہر قرآن مجید کی تلاوت کا مسائل

 

۱.         قرآن مجید کو دیکھ کر پڑھنا حفظ پڑھنے سے افضل ہے

۲.        مستحب یہ ہے کہ با وضو قبلہ رُو ہو کر اور اچھے کپڑے پہن کر تلاوت کرے اور تلاوت شروع کرتے وقت اعوذ باللّٰہ الخ پڑھنا واجب ہے نیز تلاوت شروع کرتے وقت اور ہر سورة کے شروع میں بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم پڑھنا سنت ہے اور کسی سورة کے درمیان سے شروع کرتے وقت بسم اللّٰہ کا پڑھنا مستحب ہے تلاوت کے درمیان میں کوئی دنیاوی کام کرے تو اعوذ باللّٰہ کا اعادہ کرے

۳.       اگر سورة برأت سے تلاوت شروع کرے تو اعوذ باللّٰہ اور بسم اللّٰہ پڑھ لے اگر پہلے سے تلاوت شروع کی ہوئی ہے اور پڑھتے پڑھتے آگے یہ سورة شروع ہوتی ہے تو اس کے شروع میں بسم اللّٰہ کہنے کی ضرورت نہیں اور اس کے شروع میں ایک نیا تعوذ جو حافظوں نے نکالا ہے وہ بے اصل ہے

۴.       گرمیوں میں صبح کو قرآن مجید ختم کرنا بہتر ہے اور جاڑوں میں اول شب کو ختم کرنا بہتر ہے

۵.        تین دن سے کم میں قرآن پاک کا ختم خلاف اولیٰ ہے لیکن اکابرِ امت اس حکم سے مستثنیٰ ہیں

۶.        لیٹ کر قرآن مجید پڑھنے میں مضائقہ نہیں لیکن دونوں پاؤں سمٹے ہوئے ہوں کہ لیٹنے کا ادب یہی ہے اسی طرح چلتے ہوئے یا کسی کام میں لگے

ہوئے قرآن مجید پڑھنا جبکہ دھیان اس میں ہو جائز ہے ورنہ مکروہ ہے

۷.       غسل خانہ اور نجاست کے مقامات میں قرآن مجید پڑھنا جائز نہیں

۸.        جہاں قرآن مجید پڑھا جائے اگر وہاں مجمع سننے کی غرض سے ہے تو سب پر سننا فرض ہے ورنہ ایک کا سننا کافی ہے

۹.        قرآن مجید بلند آواز سے پڑھنا افضل ہے جبکہ کسی نمازی یا مریض یا سوتے ہوئے کو تکلیف نہ پہنچے

۱۰.       مجمع میں سب لوگ بلند آواز سے پڑھیں تو یہ مکروہ تحریمی ہے آہستہ پڑھنا چاہئے آج کل ایصال ثواب کی مجالس میں ختم قرآن سپاروں پر پڑھنے کا جو عام رواج ہو گیا ہے اس کے جواز کا فتویٰ دیا گیا ہے

۱۱.        بازاروں میں اور جہاں لوگ کام میں مشغول ہوں بلند آواز سے قرآن پڑھنا ناجائز ہے اسی طرح جہاں علمِ دین پڑھایا جا رہا ہو یا طالب علم علم دین کا تقرار کریں یا مطالعہ دیکھے وہاں بلند آواز سے قرآن نہ پڑھا جائے

۱۲.       قرآن مجید کا سننا خود تلاوت کرنے اور نوافل پڑھنے سے افضل ہے

۱۳.      اگر تلاوت کے دوران کوئی دین میں بزرگی والا شخص یا بادشاہِ اسلام یا عالمِ دین یا پیر یا استاد یا ماں باپ آ جائیں تو تلاوت کرنے والا اس کی تعظیم کو کھڑا ہو سکتا ہے

۱۴.      عورت کو غیر محرم نابینا سے پڑھنے کے بجائے عورت سے قرآن مجید پڑھنا بہتر ہے

۱۵.       غلط پڑھنے والے کو بتانا سننے والے پر واجب ہے بشرطے کہ بتانے سے دشمنی اور حسد نہ پیدا ہو اسی طرح قرآن مجید میں کتابت کی غلطی معلوم ہونے پر اس کو صحیح کرا دینا اس پر واجب ہے

۱۶.       بالکل چھوٹا قرآن مجید چھاپنا مکروہ ہے کیونکہ اس میں تحقیر کی صورت ہے

۱۷.      دیواروں اور محرابوں وغیرہ پر قرآن مجید لکھنا اچھا نہیں اور قرآن مجید کی تعظیم کی نیت سے اس پر طلائی کام کرنا مستحب ہے

۱۸.       ایک آیت کا حفظ کرنا ہر مسلمان مکلف ( عاقل و بالغ) پر فرضِ عین ہے اور پورے قرآن مجید کا حفظ کرنا فرض کفایہ ہے ، سورة فاتحہ اور ایک دوسری چھوٹی سورة یا تین چھوٹی آیتیں یا ایک بڑی آیت کا حفظ کرنا ہر مسلمان مکلف پر واجبِ العین ہے اور اس میں کمی کرنا مکروہِ تحریمی ہے ، اسی طرح قرأت مسنونہ کی مقدار قرآن مجید یاد کرنا سنت ہے اور اس میں کمی کرنا مکروہِ تنزیہی ہے ، نیز پورے قرآن مجید کا حفظ کرنا ہر مسلمان مکلف کے لئے سنت عین اور نفل پڑھنے سے افضل ہے

۱۹.       قرآن مجید کو پڑھ کر بھلا دینا سخت گناہ ہے اس سے مراد ایسا بھولنا ہے کہ دیکھ کر بھی نہ پڑھ سکے

۲۰.      تجوید یعنی قرآنِ مجید کو صحیح قواعد قرأت کے مطابق پڑھنا ضروری ہے اور اس کی مشق اچھے ماہر استاد سے کرنی چاہئے مخارج و صفات لازمہ و اوقاف کی رعایت نہ کرنے سے غلط قرآن پڑھنے کا گناہ ہو گا

 

قاری کی لغزشوں کا بیان

 

کلیہ قاعدہ یہ ہے کہ اگر قرأت میں ایسی غلطی ہو جس سے تغیر فاحش ہو جائے تو نماز فاسق ہو جائے گی ورنہ نہیں ، تغیر قرأت کی چند مشہور اقسام مع احکام یہ ہیں

۱.         ایک کلمہ کے ایک حرف کو دوسرے کلمہ کے حرف سے ملا دینا جیسے اِیَّاکَ نَعبُدُ کو اِیَّا، کَنَعبُدُ پڑھا تو صحیح یہ ہے کہ نماز فاسد نہیں ہو گی

۲.        ایک حرف کو دوسرے حرف سے بدل دینا اگر معنی نہ بدلیں مثلاً اِنَّ المُسلِمِینَ کو اَنَّ المُسلِمُونَ پڑھا تو نماز فاسد نہ ہو گی اور اگر معنی بدل گئے تو اگر ان میں فرق کرنا آسان ہے اور پھر فرق نہیں کیا جیسے طالحات کی جگہ صالحات پڑھ دیا تو نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر فرق کرنا مشکل ہے تو فتویٰ اس پر ہے کہ نماز فاسد نہیں ہو گی مگر صحت کی کوشش کرتا رہے

۳.       کسی حرف کا حذف کر دینا اگر ایجاز و ترخیم کے طور پر ہو تو نماز فاسد نہ ہو گی اس کے علاوہ ہو تو معنی بدلنے پر نماز فاسد ہو گی ورنہ نہیں

۴.       کسی ایک یا زیادہ حرف کی زیادتی، اگر معنی بدل جائیں تو نماز فاسد ہو گی ورنہ نہیں

۵.        ایک کلمہ کو چھوڑ کر اس کی جگہ دوسرا کلمہ پڑھا اگر وہ کلمہ قرآن مجید میں ہے اور معنی میں تغیر نہیں ہوتا تو بلا اتفاق نماز فاسد نہ ہو گی اور اگر معنی میں تغیر ہے تو نماز فاسد ہو گی اور اگر وہ کلمہ قرآن مجید میں نہیں ہے لیکن معنی میں اس کے قریب ہے تو احتیاطاً نماز فاسد ہو گی

۶.        ایک کلمہ کو چھوڑ گیا اور اس کے بدلے میں بھی کوئی کلمہ نہیں پڑھا تو اگر معنی نہیں بدلے تو نماز فاسد نہ ہو گی اور اگر معنی بدل گئے تو نماز فاسد ہو جائے گی

۷.       کوئی کلمہ زیادہ کرنا اور وہ کسی کلمے کے عوض میں بھی نہ ہو، پس اگر معنی بدل جائیں تو نماز فاسد ہو گی ورنہ نہیں

۸.        حرف یا کلمے کی تقرار، پس اگر حرف کی زیادتی ہو گی تو نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر کلمے کی زیادتی ہو گی تو معنی بدل جانے پر نماز فاسد ہو جائے گی ورنہ نہیں اگر کلمہ بےساختہ دوبارہ نکل گیا یا مخرج کو صحیح کرنے کے لئے کلمے کو دوبارہ کہا یا کوئی بھی ارادہ نہ کیا تو نماز فاسد نہ ہو گی

۹.        کلمہ یا حرف کی تقدیم و تاخیر، اگر معنی نہ بدلے تو نماز فاسد نہ ہو گی اور اگر معنی بدل گئے تو نماز فاسد ہو جائے گی

۱۰.       ایک آیت کو دوسری کی جگہ پڑھ دینا اگر آیت پر پورا وقف کر کے دوسری آیت پوری یا تھوڑی سے پڑھی تو نماز فاسد نہ ہو گی اور اگر وقف نہ کیا بلکہ ملا دیا تو معنی بدل جانے کی صورت میں نماز فاسد ہو گی ورنہ نہیں

۱۱.        بےموقع وقف و وصل و ابتدا کرنا، عموم بلویٰ کی وجہ سے فتویٰ اسی پر ہے کہ کسی صورت میں نماز فاسد نہ ہو گی

۱۲.       اعراب و حرکات میں غلطی کرنا، معتقدین کے نزدیک اگر معنی میں بہت تغیر ہوا تو نماز فاسد ہو جائے گی ورنہ نہیں اس میں احتیاط زیادہ ہے اور ایسی نماز کو لوٹا لینا ہی بہتر ہے اگرچہ متاخرین کے نزدیک کسی صورت میں بھی نماز فاسد نہ ہو گی اور عموم بلویٰ کی وجہ سے اسی پر فتویٰ ہے

۱۳.      تشدید کی جگہ تخفیف اور تخفیف کی جگہ تشدید کرنا یا مد کی جگہ قصر اور قصر کی جگہ مد کرنا اس میں بھی اعراب کی طرح عموم بلویٰ کی وجہ سے فتویٰ اس پر ہے کہ نماز فاسد نہیں ہو گی

۱۴.      ادغام کو اس کے موقع سے چھوڑ دینا یا جہاں اس کا موقع نہیں ہے وہاں ادغام کرنا اس میں بھی نماز فاسد نہیں ہو گی

۱۵.       بے موقع امالہ یا اخفا یا اظہار یا غنہ وغیرہ کرنا ان سب میں بھی نماز فاسد نہیں ہو گی

۱۶.       کلمے کو پورا نہ پڑھنا خواہ اس سبب سے کہ سانس ٹوٹ گیا یا باقی کلمہ بھول گیا اور پھر یاد آنے پر پڑھ دیا مثلاً الحمد اللہ میں ال کہہ کر سانس ٹوٹ گیا باقی کلمہ بھول گیا پھر یاد آیا اور حمداللہ کہہ دیا تو فتویٰ اس پر ہے کہ اس سے بچنا مشکل ہے اس لئے نماز فاسد نہ ہو گی، اسی طرح کلمے میں بعض حروف کو پست پڑھا تو نماز فاسد نہ ہو گی

۱۷.      تلحسین ( راگنی) سے پڑھا یعنی نغموں کی رعایت سے حروف کو گھٹا بڑھا کر پڑھا تو اگر معنی بدل جائیں نماز فاسد ہو جائے گی ورنہ نہیں لیکن ایسا پڑھنا مکروہ اور باعث گناہ ہے اور اس کا سننا بھی مکروہ ہے

۱۸. اللہ تعالیٰ کے ناموں میں تانیث داخل کرنا، بعض کے نزدیک اس سے نماز فاسد ہو جائے گی بعض کے نزدیک فاسد نہیں ہو گی

فائدہ: اگر کسی نے قرأت میں کھلی ہوئی غلطی کی پھر لوٹا کر صحیح پڑھ لیا تو اس کی نماز جائز و درست ہے

 

 

 

 

 

امامت کا بیان

 

 

۱.         امامت کے معنی سردار ہونا ہے ، نماز میں ایک شخص ساری جماعت کا امام یعنی سردار ہوتا ہے اور سب مقتدی اس کی تابعداری کرتے ہیں ، نماز کی امامت سے مراد مقتدی کی نماز کا امام کی نماز کے ساتھ چند شرائط کے ساتھ وابسطہ ہونا ہے شرائط آگے آتی ہیں

۲.        امامت اذان سے افضل ہے یعنی اس میں زیادہ ثواب ہے اور امامت اقتدا سے بھی افضل ہے

 

جماعت کا بیان

جماعت کی تعریف

مل کر نماز پڑھنے کو جماعت کہتے ہیں جس میں ایک امام اور باقی سب مقتدی ہوتے ہیں ، جمعہ اور عیدین کے علاوہ جماعت کے لئے کم سے کم دو آدمی ہونے چاہئے ایک امام دوسرا مقتدی، اگرچہ وہ مقتدی ایک سمجھدار لڑکا ہی ہو پس وہ مقتدی خواہ مرد ہو یا عورت آزاد ہو یا غلام بالغ ہو یا نابالغ سمجھ دار اور خواہ فرشتہ ہو یا جن اور نماز خواہ مسجد میں ہو یا مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ ہو جماعت کہلائے گی اور جماعت کا ثواب ملے گا لیکن جس قدر جماعت زیادہ ہو گی اسی قدر زیادہ ثواب ہو گا

جمعہ اور عیدین کے لئے امام کے علاوہ کم از کم ایسے تین آدمی اخیر نماز تک امام کے پیچھے ہوں جو امامت کے اہل ہوں تو جماعت درست ہو گی ورنہ نہیں

 

جماعت کی بعض حکمتیں اور فائدے

 

۱.         ایک نماز پر ستائیس نماز کا ثواب ملنا

۲.        آپس میں محبت اور اتفاق بڑھنا اور دوسروں کو دیکھ کر عبادت کا شوق اور رغبت پیدا ہونا نیک لوگوں اور کاملوں کے قلبی انوار سے دوسروں کے قلوب اور لطائف کا منور ہونا

۳.       بزرگ و نیک لوگوں کے ساتھ گناہگاروں کی نماز کا بھی قبول ہو جانا

۴.       نا واقفوں کو واقفوں سے مسائل پوچھنے میں آسانی ہونا اور اپنی غلطیوں کی اصلاح اور دوسروں کی اچھائی و عمدگی حاصل کرنا پس یہ نماز کی صحت و تکمیل کا بہترین ذریعہ ہے

۵.        نماز میں خوب دل لگنا

۶.        ایک دوسرے کے حال کی اطلاع ہونا اور ایک دوسرے کے درد و مصیبت میں شریک ہو سکنا جس سے اخوت و محبت ایمانی میں کمال حاصل ہوتا ہے

۷.       بے نمازیوں کا پتہ چلنا اور ان میں تبلیغ اور وعظ و نصیحت کا موقع ملنا

۸.        نزول رحمت و قبولیت کے لئے خاص اثر رکھنا

۹.        جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا عبادت اور اسلام کی شان اور کلمۃ اللّٰہ کی بلندی اور کفر کی پستی کا ذریعہ ہے

۱۰.       جماعت پر شیطان کا تسلط نہیں ہوتا

۱۱.        جماعت کے انتظار کے وقت کا عبادت میں شمار ہونا وغیرہ

 

جماعت کا حکم

 

۱.         فرض نمازوں میں جماعت سنتِ موکدہ اور واجب کے قریب ہے بلکہ بعض کے نزدیک واجب اور بعض کے نزدیک فرض ہے

۲.        نماز تراویح کے لئے جماعت کل اہلِ محلہ پر سنت کفایہ ہے

۳.       رمضان المبارک میں نماز وتر کی جماعت مستحب ہے

۴.       جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں جماعت شرط ہے

۵.        نماز خسوف ( چاند گہن کی نماز) اور تمام نوافل میں بلاوے اور احتمام کے ساتھ جماعت مکروہِ تحریمی ہے اگر اذان و اقامت و بلانے وغیرہ کے احتمام کے بغیر دو تین آدمی جمع ہو کر مسجد کے کسی گوشہ میں نفل نماز جماعت سے پڑھ لیں تو مکروہ نہیں ، چار یا اس سے زیادہ کی جماعت نوافل میں ہر حال میں مکروہِ تحریمی ہے خواہ احتمام ہو یا نہ ہو

۶.        اگر محلہ کی مسجد میں جماعت سے رہ گیا تو اس کو کسی دوسری مسجد میں جماعت کے لئے جانا واجب نہیں البتہ مستحب ہے جبکہ اپنی مسجد میں داخل نہ ہوا ہو، اگر اپنی مسجد میں داخل ہو گیا تو وہیں اکیلا پڑھے دوسری جگہ نہ جائے ، اگر اپنی مسجد میں داخل ہوا اور اس میں جماعت ہو رہی ہے تو جب تک اس میں کچھ بھی حصہ مل سکے اس میں شامل ہونا چاہئے اس کو دوسری مسجد میں پوری جماعت ملنے کے خیال سے جانا گناہ اور نماز سے منھ پھیرنے کے معنی میں ہے

 

ترک جماعت کے عذرات

 

۱.         عورت ہونا

۲.        نابالغ ہونا

۳.       بیماری جس سے چل پھر نہ سکے اور مسجد تک آنے میں مشقت ہو یا مدت کا مریض ہو جو بغیر مشقت نہ چل سکے

۴.       اپاہج یعنی لنگڑا لولا ہو یا دونوں ہاتھ یا دونوں پاؤں کٹے ہوئے ہوں یا شل ہوں یا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں مخالف جانب یا ایک ہی جانب کے کٹے ہوئے ہوں یا شل ہوں

۵.        جس کو فالج کا مرض ہو گیا ہو

۶.        بہت بوڑھا جو چلنے پھرنے سے عاجز ہو اور اس کو مسجد تک جانے میں مشقت ہو

۷.       اندھا ہونا

۸.        بہت بارش ہونا

۹.        مسجد کے راستہ میں کیچڑ ہونا

۱۰.       سخت سردی ہونا

۱۱.        بہت اندھیرا ہونا

۱۲.       رات کے وقت آندھی اور تیز ہوا ہونا، یہ دن میں عذر نہیں ہے

۱۳.      جو شخص کسی بیمار کی خدمت و تیمار داری کرتا ہو

۱۴.      مسجد میں جانے سے مال و اسباب کے چوری ہو جانے وغیرہ کا خوف ہو یا ہنڈیا وغیرہ کے یا تندور میں روٹی کے ضائع ہونے کا خوف ہو

۱۵.       قرض خواہ کے ملنے اور اس سے تکلیف پہنچے یا قید کر لینے کا خوف ہو جب کہ وہ قرض ادا کرنے پر قادر نہ ہو

۱۶.       کسی دشمن یا ظالم کے مل جانے سے اپنی جان یا مال پر خوف ہو

۱۷.      جب کہ سفر کا ارادہ ہو اور قافلہ نکل جانے اور تنہا سفر کرنے میں خوف ہو یا ریل گاڑی یا جہاز یا موٹر کی روانگی کا وقت قریب ہو

۱۸.       پیشاب یا پاخانہ کی غالب حاجت یا ریح کے غلبہ کے وقت

۱۹.       جب کھانا حاضر ہو اور بھوک سے نفس اس کی طرف زیادہ راغب ہو اور خواہ کوئی وقت ہو یہی حکم پینے کا ہے

۲۰.      صحت نماز کی کسی شرط مثلاً طہارت یا ستر عورت وغیرہ کا نہ پایا جانا

۲۱.       امام کا مقتدی کے مذہب کی رعایت نہ کرنا

( ان میں سے جو عذر بالکل مانع ہو جیسے زیادہ بڑھاپا یا فالج وغیرہ تو اگر اس کی نیت تھی کہ عذر نہ ہوتا تو ضرور شامل ہوتا، اس کو جماعت کا ثواب مل جائے گا اور جو عذر بالکل مانع نہیں جیسے بارش و کیچڑ و سردی و اندھا ہونا وغیرہ تو اس کو ترک سے جماعت میں شامل ہونا بہتر ہے ورنہ جماعت کی فضیلت سے محروم رہے گا البتہ ترک جماعت کا گناہ اس پر نہیں ہو گا)

 

جماعت کے واجب ہونے کی شرطیں

 

۱.         مسلمان ہونا

۲.        مرد ہونا

۳.       بالغ ہونا

۴.       عاقل ہونا

۵.        آزاد ہونا

۶.       تمام مذکورہ بالا عذروں سے خالی ہونا

 

جماعت کے صحیح ہونے کی شرطیں

 

یہ دو قسم پر ہیں اول شرائط امامت، دوم شرائط اقتدا

 

شرائط امامت

قسم اول شرائط امامت، یہ چھ ہیں

۱.         اسلام یعنی مسلمان ہونا، کافر و مشرک کے پیچھے نماز درست نہیں بدعتی جو کافر نہ ہو اور فاسق کے پیچھے نماز درست ہو جائے گی مگر مکروہِ تحریمی ہے

۲.        عاقل ہونا ہر وقت مست و مجنون رہنے والے کے پیچھے نماز درست نہیں

۳.       بالغ ہونا، نابالغ لڑکے کے پیچھے بالغ کی نماز درست نہیں خواہ تراویح و نوافل ہی ہوں عمر کے لحاظ سے پندرہ سال کا لڑکا بالغ ہے اگر علامت کے لحاظ سے اس عمر سے پہلے بالغ ہو جائے تو اس کی پیچھے نماز درست ہے

۴.       مذکر( مرد) ہونا، مرد کی اقتدا عورت یا خنثیٰ مشکل کے پیچھے درست نہیں

۵.        قرأت یعنی بقدر جواز نماز قرآن یاد ہونا اور وہ کم سے کم ایک آیت ہے اور ایسے شخص کو حنفی فقہ کے نزدیک قاری کہتے ہیں اور جس کو اس قدر بھی یاد نہ ہو اس کو امی کہتے ہیں پس قاری کی اقتدا اُمّی کے پیچھے درست نہیں اسی طرح قاری کی اقتدا گونگے کے پیچھے درست نہیں

۶.        صحیح ہونا یعنی عذرات سے بچا ہوا ہونا پس صحیح (غیر معذور) کی اقتدا معذور کی پیچھے درست نہیں عذرات یہ ہیں

۱.         ہر وقت پیشاب جاری رہنا، نکسیر یا زخم سے خون جاری رہنا، ریاح جاری رہنا، استحاضہ کا مرض ہونا

۲.        توتلا یا ہکلا ہونا

۳.       نماز کی شرطوں میں سے کسی شرط کا نہ پایا جانا ( معذور اپنے جیسے معذور کی امامت کر سکتا ہے اسی طرح اُمّی اُمّی کی امامت کر سکتا ہے اور نابالغ نابالغوں کی امامت کر سکتا ہے وغیرہ)

 

جماعت کے صحیح ہونے کی شرطیں

 

شرائط اقتدا

۱.         نیت اقتدا یعنی مقتدی کو امام کی متابعت یعنی اس کی پیچھے نماز پڑھنے کی نیت کرنا اور اس نیت کا تحریمہ کے ساتھ ہونا یا تحریمہ پر اس طرح مقدم ہونا کہ دونوں کے درمیان کوئی نماز کو توڑنے والا فعل نہ ہو، جمعہ و عیدین میں اقتدا کی نیت ضروری نہیں

۲.        مرد امام کو عورتوں کی امامت کی نیت کرنا عورتوں کی نماز صحیح ہونے کے لئے شرط ہے لیکن جمعہ و عیدین میں یہ شرط نہیں ہے

۳.       مقتدی کا امام سے آگے نہ ہونا یعنی مقتدی کا قدم امام کے قدم سے آگے نہ ہو اور اس میں ٹخنوں یعنی ایڑیوں کا اعتبار ہے پس اگر مقتدی کا ٹخنہ و ایڑی امام کے ٹخنے اور ایڑی سے پیچھے ہو لیکن امام کا پاؤں چھوٹا ہو اور مقتدی کا پاؤں بڑا ہونے کی وجہ سے پنجہ امام کے پنجے سے آگے ہو تو اقتدا درست ہے

۴.       اتحادِ نماز، یعنی امام اور مقتدی کی نماز کا متحد ہونا، پس دونوں کی نماز ایک ہی ہو جیسے ظہر کی نماز اسی ظہر کی نماز پڑھنے والے کے پیچھے درست ہے لیکن ظہر کی نماز عصر کی نماز پڑھنے والے کے پیچھے درست نہیں ، یا مقتدی کی نماز امام کی نماز کو متضمن ( شامل) ہو جیسا کہ نفل پڑھنے والے کی نماز فرض پڑھنے والے کے پیچھے درست ہے کیونکہ فرض نفل کو متضمن ہے لیکن اس کے برعکس درست نہیں کیونکہ نفل فرض کو متضمن نہیں اسی طرح ہر قوی نماز والے کی اقتدا ضعیف نماز والے کے پیچھے درست نہیں لیکن ضعیف نماز والی کی اقتدا قوی نماز والے کے پیچھے درست ہے مثلاً نذر نماز والے کی اقتدا نفل نماز والے کے پیچھے درست نہیں ، مسبوق کی اقتدا مسبوق کے پیچھے، ادا نماز والے کی اقتدا دوسرے دن کی وہی قضا نماز پڑھنے والے کی پیچھے، مسافر کی اقتدا مقیم کے پیچھے وقت نکلنے کے بعد درست نہیں وغیرہ

۵.        اتحادِ مکان، امام اور مقتدی کے مکان کا ایک ہونا، پس سواری سے اتر کر نماز پڑھنے والی کی اقتدا سوار کے پیچھے یا ایک سواری پر نماز پڑھنے والی کی اقتدا دوسری الگ سواری پر نماز پڑھنے والے کی پیچھے درست نہیں

۶.        امام اور مقتدی کے درمیان عام راستہ ( سڑک) نہ ہونا، وہ راستہ جس میں بیل گاڑی یا لدے ہوئے اونٹ و خچر گزر سکیں مانع اقتدا ہے جب کہ صفیں ملی ہوئی نہ ہوں ، اگر اس سے کم فاصلہ ہو یا صفیں ملی ہوئی ہوں ، تو مانع اقتدا نہیں ایک آدمی کے درمیان میں کھڑا ہونے سے صفیں نہیں ملتی دو میں اختلاف ہے تین آدمی کھڑے ہوں تو بلا اتفاق صفیں متصل ہو جائیں گی

۷.       بڑی نہر درمیان میں نہ ہونا، جس نہر میں کشتیاں اور بجرے (چھوٹی کشتیاں ) گزر سکیں اور اس پر پل وغیرہ کے بغیر گزر نہ ہو سکے وہ نہر بڑی ہے اور وہ عام راستہ کے حکم میں ہے اس میں صفوں کا اتصال پل کے ذریعے ہو سکتا ہے اور اگر نہر خشک ہو تو راستے کی طرح اس میں صفیں متصل ہو جانے سے اقتدا درست ہے ، چھوٹی نہر جس میں کشتیاں اور بجرے نہ گزر سکین مانع اقتدا نہیں ہیں

۸.        کوئی بڑا میدان یعنی خالی جگہ امام اور مقتدی کے درمیان حائل نہ ہونا پس اگر میدان میں جماعت کھڑی ہو تو اگر امام اور مقتدی کے درمیان اتنی جگہ خالی ہے جس میں دو صفیں یا زیادہ قائم ہو سکے تو اقتدا درست نہیں ہے ، اس سے کم فاصلہ مانع اقتدا نہیں اور نماز درست ہو جائے گی، اسی طرح کوئی سی دو صفوں کے درمیانی فاصلے کے پچھلی صف کے لئے مانع اقتدا ہونے یا نہ ہونے کے حکم کی بھی یہی تفصیل ہے بہت ہی زیادہ بڑی مسجد میں بھی صفوں میں فاصلہ کے حکم کی تفصیل یہی ہے یعنی وہ میدان کے حکم میں ہے عام مسجد اگرچہ بڑی ہوں مکان واحد کے حکم میں ہیں اور ان میں فاصلہ خواہ دو صفوں کے برابر ہو یا زیادہ ہو مانع اقتدا نہیں ہے ، لیکن بلا ضرورت مکروہ ہے ، فنائے مسجد ( صحن) مسجد کے حکم میں ہے ، بڑا مکان جو چالیس گز شرعی یا اس سے زیادہ بڑا ہو میدان کے حکم میں ہے اس سے کم عام مسجد کے حکم میں ہے

۹.        مقتدی پر امام کا حال مشتبہ نہ ہونا، اگر امام کے ایک رکن سے دوسرے رکن میں جانے کا حال مقتدی کا معلوم ہو خواہ امام یا مقتدیوں کو دیکھ کر ہو یا امام یا مکبر کی تکبیر کی آواز سن کر ہو تو اقتدا درست ہے خواہ دیوار یا منبر وغیرہ درمیان میں حائل ہوں

۱۰.       امام اور مقتدی کے درمیان عورتوں کی پوری صف کا حائل نہ ہونا، اگر عورتوں کی پوری صف امام کے پیچھے ہو گی تو ان کے پیچھے مردوں کی جتنی صفیں ہوں گی سب کی نماز فاسد ہو جائے گی اسی طرح اگر مقتدیوں کی صفوں کے درمیان میں عورتوں کی صف ہو گی تو ان کے پیچھے والی مردوں کی سب صفوں کی نماز فاسد ہو جائے گی، چار یا زیادہ عورتیں ہونگی تو پوری صف کا حکم ہو گا، تین عورتیں ہوں گی تو پیچھے والی تمام صفوں کے ان تین تین آدمیوں کی نماز فاسد ہو گی جو ان عورتوں کی سیدھ میں پیچھے ہوں گے دو عورتیں پیچھے والی صف کے دو آدمیوں کی اور ایک عورت پیچھے والی صرف پہلی صف کے صرف ایک آدمی کی نماز فاسد کرے گی اور اگر مردوں کی صف کے درمیاں میں ایک یا زیادہ عورتیں ہوں گی تو ان کے برابر والے داہنی و بائیں طرف کے ایک ایک آدمی کی نماز بھی فاسد ہو جائے گی

۱۱.        امام کی نماز کا مقتدی کے مذہب پر صحیح ہونا اور مقتدی کا اپنے گمان میں اس کو صحیح سمجھنا

۱۲.       مقتدی کا ارکان نماز میں امام کے ساتھ شریک ہونا یعنی ہر رکن کو امام کے ساتھ یا اس کے بعد متصل ہی ادا کرنا پس اگر کسی رکن کو چھوڑ دے گا یا امام سے پہلے ادا کرے گا تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی، اگر اس رکن میں جس کو امام سے پہلے کر لیا ہے اپنے امام کو پا لیا مثلاً امام کے رکوع میں جانے سے پہلے چلا گیا اور رکوع میں یہاں تک رہا کہ امام نے بھی رکوع کر دیا یا وہ رکوع سے اٹھ گیا تھا لیکن پھر امام کے ساتھ رکوع میں واپس آ گیا تو اب امام کے ساتھ شرکت ہو کر نماز درست ہو جائے گی اور اگر اس صورت میں امام کے رکوع میں جانے سے پہلے اٹھ گیا اور پھر امام کے ساتھ رکوع میں شریک نہیں ہوا تو اقتدا درست نہ ہو گی اور نماز فاسد ہو جائے گی

۱۳.      ارکان کی ادائگی میں مقتدی کا امام کے مثل یا اس سے کم ہونا پس امام اور مقتدی دونوں رکوع و سجود سے نماز پڑھتے ہوں یا دونوں اشارے سے نماز پڑھتے ہوں یا امام رکوع و سجود سے پڑھتا ہو اور مقتدی اشارہ سے پڑھتا ہو تو اقتدا درست ہے ، اور اگر امام اشارے سے نماز پڑھتا ہو اور مقتدی رکوع و سجود سے تو چونکہ مقتدی کا حال امام سے قوی ہے اس لئے اقتدا درست نہیں

۱۴.      شرائطِ نماز میں مقتدی کا امام سے زیادہ جامع نہ ہونا، بلکہ امام کے مثل یا اس سے کم ہونا مثلاً سب شرائط کا جامع مقتدی سب شرائط کے جامع امام کے پیچھے نماز پڑھے تو درست ہے ، یا ننگا آدمی دوسرے ننگے آدمی کے پیچھے پڑھے یا ننگا آدمی سب شرائط کے جامع امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اقتدا درست ہے لیکن اگر امام ننگا ہو اور مقتدی ستر ڈھانپے ہوئے ہو تو اقتدا درست نہیں

 

جن لوگوں کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے

 

۱.         بدعتی جب کہ اس کی بدت کفر کے درجہ کی نہ ہو

۲.        فاسق جو علانیہ فسق کرتا ہو جیسے شرابی، جواری، زناکار، سود خوار وغیرہ داڑھی منڈھانے والا یا داڑھی کٹا کر ایک مشت سے کم رکھنے والا بھی علانیہ فاسق ہے

جن کے پیچھے مکروہ تنزیہی ہے

 

۱.         غلام (جو شرع کی رو سے غلام ہو)

۲.        جاہل گنوار

۳.       ولد الزنا (حرامی) ان تینوں میں تربیت نہ ہو سکنے کی وجہ سے جہالت کا غلبہ ہوتا ہے اس لئے مکروہِ تنزیہی ہے لیکن اگر ایسا شخص قوم میں زیادہ علم والا اور نیک ہو تو اسی کو امام بنانا اولیٰ ہے اور جب اس سے افضل اور کوئی شخص موجود نہ ہو تو اس کی امامت بلا کراہت جائز ہے

۴.       بالغ نوجوان جس کے ابھی داڑھی نہ نکلی ہو با وجہ خوفِ شہوت یا غلبہ جہل مکروہ ہے لیکن اگر زیادہ عالم یہی ہو تو کراہت رفع ہو کر یہی امامت کے لئے اولیٰ ہو گا

۵.        اندھا اور وہ شخص جس کو دن اور رات میں کم نظر آئے اس کی امامت نجاست سے نہ بچ سکنے کی وجہ سے مکروہ ہے اور اگر وہ بچنے والا اور احتیاط کرنے والا ہو اور اہل علم ہو تو یہی اولیٰ ہے

۶.        کم عقل

۷.       فالج زدہ اور برص وبہق والا یعنی جس کو سفید یا سیاہ داغ کا مرض پھیل گیا ہو جزام والا، لنگڑا یعنی جو قدم کا کچھ حصہ لگا کر کھڑا ہوتا ہو پورا پاؤں نہ لگاتا ہو، ایک ہاتھ والا، جس کا پیشاب بند ہو گیا ہو، ان سب کی پیچھے علت تنفر یا پوری طرح طہارت ممکن نہ ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے

 

 

 

 

امامت کا زیادہ حقدار کون ہے

 

تمام حاضرین میں سے جس میں امامت کے سب سے زیادہ اوصاف پائے جائیں اس کو امام بنانا چاہئے لیکن بادشاہ اسلام کے ہوتے ہوئے کسی اور کو اس کی اجازت کے بغیر حق امامت نہیں ہے ، اس کے بعد والی پھر قاضی پھر مسجد کا امام معین یا گھر میں صاحب خانہ جب کہ امامت کا اہل ہو ہر حال میں مقدم ہو گا،

۱.         امامت کے لئے سب سے مقدم وہ شخص ہے جو عالم ہو یعنی نماز کے مسائل سب سے زیادہ جانتا ہو اگرچہ دوسرے علوم میں کم ہو اور یہ بھی شرط ہے کہ اس کے اعمال اچھے ہوں اگر اس میں دو آدمی برابر ہوں تو جو

(۲) زیادہ قاری ہو اور قرآن مجید قواعد کو مطابق زیادہ صحیح پڑھتا ہو پھر جو

(۳) زیادہ پرہیزگار ہو یعنی حلال و حرام میں شبہ سے بھی بچتا ہو

(۴) پھر جو عمر میں زیادہ ہو یعنی اسلام کی حالت میں زیادہ عرصہ سے ہو

(۵) پھر جو اخلاق میں زیادہ اچھا ہو

(۶) پھر جو خوبصورتی میں زیادہ ہو اس سے مراد تہجد زیادہ پڑھنے والا ہے کیونکہ اس سے چہرے پر خوبصورتی زیادہ آتی ہے اور یہ جماعت کی کثرت کا سبب ہے

(۷) پھر جو حسب میں زیادہ ہو

(۸) پھر جو نسب میں یعنی خاندان کے لحاظ سے زیادہ شریف ہو مثلاً سید اور لوگوں پر مقدم ہے

(۹) پھر جس کی آواز زیادہ اچھی ہو

(۱۰) پھر جس کے پاس حلال مال زیادہ ہو

(۱۱) پھر جو جاہ و وقار میں زیادہ ہو

(۱۲) پھر جو عمدہ لباس پہنے

(۱۳) پھر جس کا سر تناسب کے ساتھ دوسروں سے بڑا ہو یہ عقل کی بڑائی کی دلیل ہے غیر متناسب (بہت ہی زیادہ ) بڑا نہ ہو

(۱۴) مقیم مسفر پر مقدم ہے جب باقی نمازی مقیم ہوں یا مقیم و مسافر ملے جلے ہوں

(۱۵) پھر آزاد اصلی آزاد شدہ غلام پر مقدم ہے ،

جب کسی صفت میں دو شخص مقابل و برابر ہوں تو جو زیادہ عرصہ سے اس صفت کا اہل ہو مقدم ہو گا مثلاً دونوں عالم ہیں تو جس کا علم پہلے سے ہے یا دونوں قاری ہیں تو جس کو فن قرأت دوسرے سے زیادہ عرصہ سے آتا ہے وغیرہ، اگر یہ ساری صفتیں دونوں یا زیادہ شخصوں میں جمع ہو جائیں اور کوئی وجہِ ترجیع نہ ہو تو قرعہ ڈالا جائے یا جماعت کے اختیار پر چھوڑ دیں اور مقتدیوں کے اختیار کی صورت میں اگر اختلاف ہو تو کثرت رائے کا اعتبار ہو گا اگر مسجد کا امام معین ہو اور جماعت کے وقت اس سے افضل کوئی شخص آ جائے تب بھی امام معین اس اجنبی شخص سے زیادہ مستحق ہے

امام اور مقتدی کے کھڑا ہونے اور صفوں کی ترتیب کا بیان

 

۱.         اگر صرف دو آدمی جماعت کریں تو ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی بن کر اس کے برابر میں داہنی طرف کھڑا ہو اگرچہ وہ دوسرا شخص جو مقتدی بنے گا لڑکا ہی ہو، اکیلا مقتدی امام سے آگے نہ کھڑا ہو ایڑی اور ٹخنے برابر میں ہوں امام سے آگے نہ ہوں ، اگر مقتدی کا پاؤں بڑا ہونے کی وجہ سے انگلیاں امام کی انگلیوں سے آگے ہوں تو مضائقہ نہیں ، اگر مقتدی اتنا پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو کہ اس کے پاؤں کی انگلیاں امام کی ایڑی کے برابر میں ہوں تب بھی مضائقہ نہیں زیادہ پیچھے یا بالکل امام کے پیچھے اکیلے مقتدی کا کھڑا ہونا مکروہِ تنزیہی اور خالف سنت ہے اگر مقتدی اکیلی عورت یا لڑکی ہو تو اس کو امام کی پیچھے ہی کھڑا ہونا چاہئے

۲.        اگر دو یا زیادہ مقتدی ہوں تو امام کو ان کے آگے کھڑا ہونا واجب ہے اور ان کے برابر میں بیچ میں کھڑا ہونا مکروہِ تحریمی ہے ، اگر مقتدی ایک مرد اور ایک عورت یا لڑکی ہو تو مرد امام کے برابر میں اور عورت یا لڑکی پیچھے کھڑی ہو، اگر دو مرد اور ایک عورت یا لڑکی ہو تو دونوں مرد امام کے پیچھے اور عورت یا لڑکی ان مردوں کے پیچھے کھڑی ہو

۳.       اگر دو مرد یعنی ایک امام اور ایک مقتدی جماعت سے نماز پڑھ رہے ہوں پھر ایک تیسرا شخص آ جائے تو پہلا مقتدی خود ہی پیچھے ہٹ جائے تاکہ دونوں مل کر امام کے پیچھے صف بنا لیں اگر وہ نہ ہٹے تو وہ تیسرا آدمی اس کو پیچھے کھینچ لے خواہ تحریمہ باندھ کر یا اس سےپہلے کھینچے یا امام آگے بڑھ جائے تاکہ تیسرا آدمی اس مقتدی کے برابر کھڑا ہو جائے ، جیسا موقع ہو کر لے، آج کل لوگ مسائل سے واقف نہیں اس لئے اگر گنجائش ہو تو امام ہی آگے بڑھ جائے

۴.       صرف عورتوں کی جماعت جس میں کوئی مرد نہ ہو مکروہ ہے لیکن اگر پھر بھی عورتیں جماعت کریں تو جو عورت امام ہے وہ مقتدی عورتوں کے برابر وسط صف میں کھڑی ہو خواہ کتنی ہی عورتیں ہوں

 

ترتیبِ صفوف

 

اگر مقتدی مختلف قسم کے افراد ہوں یعنی مرد نابالغ لڑکے، خنثیٰ، قریب البلوغ لڑکیاں ہوں تو امام کے پیچھے پہلے مرد کھڑے ہوں خواہ جتنی بھی صفیں ہوں ن کے پیچھے لڑکوں کی صف یا صفیں ہوں پھر خنثیٰ پھر عورتیں پھر لڑکیاں صف بنائیں ، بڑے آدمیوں کی صفوں میں بچوں کو کھڑا کرنا مکروہ ہے ، صرف ایک لڑکا ہو تو مردوں کی صف میں داخل کیا جائے یعنی سرے پر بائیں طرف کھڑا کیا جائے ، خنثیٰ اکیلا ہو تو لڑکوں کی صف میں شامل ہو عورت یا لڑکی اکیلی ہو یا زیادہ ہر حال میں مردوں و لڑکوں و خنثی سے الگ صف بنائیں

 

جماعت۔ متعلقہ مسائل

 

۱.         عورتوں کو جماعت میں حاضر ہونا فتنے کی وجہ سے مکروہ ہے خواہ بوڑھی ہی ہو اور خواہ کوئی سے نماز ہو اس پر فتویٰ ہے

۲.        صفیں سیدھی ہونی چاہئیں کندھے سے کندھا اور ٹخنے سے ٹخنا ملا کر سیدھی کریں اور بیچ میں فاصلہ نہ چھوڑیں ، امام صفیں سیدھی کرائے اور خود صف کے وسط کی سیدھ میں کھڑا ہو، اگر اس کے خلاف کیا یعنی وسط سے داہنی یا بائیں طرف کھڑا ہوا تو اس نے برا کیا کیونکہ یہ سنت کے خلاف ہے

۳.       مقتدی کے لئے افضل یہ ہے کہ امام کے قریب کھڑا ہو اگر دائیں طرف قریب ہو یا دونوں طرف سے قرب میں برابر ہو تو دائیں طرف کھڑا ہو ورنہ بائیں طرف کھڑا ہو، امام کے بالکل پیچھے پہلی صف میں سب سے افضل شخص کھڑا ہونا چاہئے

۴.       سب سے افضل پہلی صف ہے پھر دوسری پھر تیسری وغیرہ علی الترتیب، اگر آگے کی صفوں میں خالی جگہ ہو تو صفوں کو چیر کر آگے سے گزر کر اس کو پر کرنا چاہئے اس میں وہ گناہگار نہیں ہو گا کیونکہ قصور ان لوگوں کا ہے جنہوں نے خلا چھوڑا ہے اور انہوں نےخود اپنی عزت ضائع کی لیکن آج کل جہالت کا زمانہ ہے اس لئے فتنے کا ڈر ہو تو ایسا نہ کرے

۵.        نماز جنازہ میں آخری صف کو تمام صفوں پر فضیلت ہے

 

عورت کے محاذات سے مرد کی نماز فاسد ہونے کے شرائط و مسائل

 

نماز میں عورت کا مرد کے آگے یا مرد کے برابر میں کھڑا ہونا اس طرح پر کہ عورت کا قدم مرد کے کسی عضو کے مقابل نماز کے دوران میں کسی وقت بھی ہو جائے مرد کی نماز کو فاسد کر دے گا اور قدم کا برابر ہونا پنڈلی یا ٹخنے کے برابر ہونے سے ہے ، شرائط محاذات گیارہ ہیں جو یہ ہیں

۱.         وہ عورت ایسی ہو جو شہوت کی حد کو پہنچ گئی ہو اور جماع کے لائق ہو اگر نابالغ ہو، عمر کا اعتبار نہیں بلکہ جسم کی ساخت کا اعتبار ہے اگرچہ نو سال سے کم عمر کی ہو اور اگر زیادہ عمر کی ہے لیکن ساخت کے اعتبار سے جماع کے قابل نہیں تو نماز فاسد نہ ہو گی، بڑھیا عورت کے محاذات سے بھی نماز فاسد ہو جائے گی خواہ وہ کتنی ہی عمر کی ہو

۲.        دونوں رکوع و سجود والی نماز پڑھ رہے ہوں

۳.       دونوں تحریمہ کی رو سے نماز میں مشترک ہوں یعنی دونوں ایک ہی امام کے مقتدی ہوں یا عورت نے اپنی محاذی مرد کی تحریمہ پر تحریمہ باندھی ہو اور خواہ عورت ایک یا دو رکعت بعد میں آ کر شامل ہوئی ہو

۴.       دونوں ادا کی رُو سے نماز میں مشترک ہوں یعنی وہ مرد اس عورت کا امام ہو یا وہ دونوں کسی دوسرے شخص کے مقتدی ہوں خواہ شرکت حقیقتاً ہو جیسا کہ مدرک اور خواہ حکماً ہو جیسا کہ لاحق جب کہ وہ اپنی لاحقانہ نماز میں ہو

۵.        مرد مکلف ہو یعنی عاقل و بالغ ہو

۶.        عورت عاقلہ ہو یعنی ایسی ہو جس کی نماز صحیح ہوتی ہو پس مجنونہ یا حیض یا نفاس والی عورت کے محاذات سے مرد کی نماز فاسد نہیں ہو گی

۷.       امام نے اُس عورت کی یا مطلق عورتوں کی امامت کی نیت کی ہو، نیت کے وقت عورتوں کا حاضر ہونا ضروری نہیں نیت شروع نماز کے وقت معتبر ہے نماز شروع کرنے کے بعد اگر عورتوں کی امامت کی نیت کی یا عورتوں کی امامت کی نیت کی ہی نہیں تو محاذات سے مرد کی نماز فاسد نہیں ہو گی کیونکہ عورت کی نماز شروع ہی نہیں ہو گی جمعہ و عیدین میں عورتوں کی امامت کی نیت شرط نہیں ہے یہی صحیح ہے پس ان نمازوں میں ان کی امامت کی نیت کرے یا نہ کرے مرد کی نماز عورت کے محاذات سے فاسد ہو جائے گی

۸.        پورے رکن میں محاذات برابر رہی ہو اس سے کم میں مفسد نہیں

۹.        دونوں کی نماز پڑھنے کی جہت ایک ہی ہو

۱۰.       نماز شروع کرنے کے بعد شامل ہونے والی عورت کو پیچھے ہٹنے کا اشارہ نہ کرنا مرد کی نماز کو فاسد کرتا ہے پس اگر اس نے عورت کو پیچھے ہٹنے کا اشارہ کر دیا تو مرد کی نماز فاسد نہیں ہو گی بلکہ عورت کی نماز فاسد ہو گی کیونکہ مرد نے اپنا فرض ادا کر دیا اور عورت نے اپنا فرض ترک کیا

۱۱.        ان دونوں کے درمیان میں کچھ حائل نہ ہو پس اگر دونوں کے درمیان میں ستون یا دیوار یا کوئی اور پردہ یا سترہ حائل ہو تو مرد کی نماز فاسد نہ ہو گی سترے کی کم سے کم مقدار ایک گز شرعی ( ایک ہاتھ) بلندی اور ایک انگل کی مقدار موٹائی ہے یا دونوں کے درمیاں میں اتنی جگہ خالی ہو جس میں ایک آدمی کھڑا ہو سکے، عورت کی نماز دو صورتوں کے سوا اور کسی صورت میں مرد کی محاذی کھڑے ہونے سے فاسد نہیں ہوتی اور وہ دو صورتیں یہ ہیں اول جب کہ مرد نے اس کو پیچھے ہٹنے کے لئے کہا اور وہ نہ ہٹی، دوم جب کہ وہ مرد خود امام ہو تو جب امام کی نماز فاسد ہو جائے گی تو اس مقتدی عورت کی نماز خود بخود فاسد ہو جائے گی، صف کے درمیان میں کھڑی ہوئی ایک عورت تین آدمیوں کی نماز فاسد کرتی ہے ایک اس کے دائیں طرف کا دوسرا بائیں طرف کا اور ایک اس کی پیچھے والی پہلی متصل صف کا عین پیچھے والا آدمی، دو عورتیں چار آدمیوں کی نماز فاسد کرتی ہیں ایک دائیں طرف کا دوسرا بائیں طرف کا اور دو آدمی پیچھے والی متصل صف کے عین ان کے پیچھے والے، تین عورتیں ایک داہنی طرف کے آدمی کی اور ایک بائیں طرف کے آدمی کی اور پیچھے والی ہر صف کے بالکل ان کے پیچھے والے تین تین آدمیوں کی نماز آخری صف تک فاسد کرتی ہیں اور تین سے زیادہ عورتیں پوری صف کے حکم میں ہو کر دائیں بائیں کے برابر والے ایک ایک آدمی کے علاوہ پیچھے والی تمام صفوں کے تمام آدمیوں کی نماز فاسد کرتی ہیں

 

جن چیزوں میں مقتدی کو امام کی متبعت کرنی چاہئے

 

جن چیزوں میں مقتدی کو امام کی متبعت کرنی چاہئے اور جن میں نہیں

۱.         اگر مقتدی قعدہ اولیٰ کے تشہد میں شریک ہوا اور اس مقتدی کے تشہد پورا کرنے سے پہلے امام تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو گیا یا مقتدی قعدہ آخرہ میں شریک ہوا اور امام نے اس مقتدی کے تشہد پورا کرنے سے پہلے سلام پھیر دیا یا مقتدی پہلے سے نماز میں شریک تھا لیکن امام قعدہ اولیٰ میں تشہد پورا کرنے کے بعد تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو گیا یا قعدہ آخرہ میں سلام پھیر دیا اور ابھی مقتدی کا تشہد پورا نہیں ہوا تو ان سب صورتوں میں مقتدی امام کی متابعت نہ کرے بلکہ تشہد پورا کرے

۲.        امام قعدے میں تشہد سے فارغ ہو کر تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو گیا لیکن مقتدی تشہد پڑھنا بھول گیا اور وہ بھی امام کے ساتھ کھڑا ہو گیا تو اس کو چاہئے کہ پھر لوٹے اور تشہد پڑھے پھر امام کے ساتھ ہو جائے اگرچہ اس کو رکعت کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہو یعنی لاحق کی طرح امام کے پیچھے رہتے ہوئے ارکان ادا کرتا جائے اور جہاں امام کو مل سکے مل جائے اور اگر سلام پھیرنے تک امام کے ساتھ شریک نہ ہو سکے تو باقی ماندہ نماز لاحقانہ پوری کر کے سلام پھیرے

۳.       امام نے سلام پھیر دیا لیکن مقتدی ابھی تک درود شریف یا دعا نہیں پڑھ سکا تو اس کو ترک کر کے امام کی متابعت کرے اور اس کے ساتھ سلام پھیر دے، اسی طرح رکوع یا سجدے کی تسبیح پوری تین دفعہ نہیں پڑھ سکا کہ امام نے سر اٹھا دیا تو امام کی متابعت کرے

۴.       اگر مقتدی نے امام سے پہلے رکوع یا سجدے سے سر اٹھا لیا تو پھر رکوع یا سجدے میں چلا جائے اور یہ دو رکوع یا دو سجدے نہیں ہوں گے

۵.        اگر مقتدی نے دیر تک سجدہ کیا یہاں تک کہ امام نے دوسرا سجدہ بھی کر لیا اس وقت مقتدی نے سجدے سے سر اٹھایا اور یہ گمان کر کے کہ امام پہلے ہی سجدے میں ہے دوبارہ سجدے میں چلا گیا تو یہ دوسرا سجدہ دوسرا ہی سجدہ واقع ہو گا خواہ پہلی سجدے کی نیت ہو

۶.        اگر کسی مقتدی نے سب رکعتوں میں رکوع و سجود امام سے پہلے کیا تو ایک رکعت بلا قرأت قضا کرے

۷.       اگر مقتدی نے امام سے پہلے رکوع یا سجدہ کیا اور امام اس رکوع یا سجدے میں اس کے ساتھ شامل ہو گیا تو مقتدی کی نماز درست ہے لیکن مقتدی کو ایسا کرنا مکروہ ہے بھولے سے ہو جائے تو مکروہ نہیں

پانچ چیزیں جن میں امام کی متابعت کی جائے یعنی اگر امام کرے تو مقتدی بھی کرے اور اگر امام چھوڑ دے تو مقتدی بھی چھوڑ دے

۱.         نمازِ عیدین کی تکبیریں

۲.        قعدہ اولیٰ

۳.       سجدہ تلاوت

۴.       سجدہ سہو

۵.        دعائے قنوت

 

چار چیزیں جن میں امام کی متابعت نہ کی جائے یعنی اگر امام کرے تو مقتدی اس کی متابعت نہ کرے

 

۱.         امام جان بوجھ کر نماز جنازہ کی تکبیریں چار سے زیادہ یعنی پانچ کہے

۲.        جان بوجھ کر عیدین کی تکبیریں زیادہ کہے جب کہ مقتدی امام سے سنتا ہو اور اگر مکبر سے سنے تو ترک نہ کرے کہ شاید اس سے غلطی ہوئی ہو

۳.       کسی رکن کا زیادہ کرنا مثلاً دو بار رکوع کرنا یا تین بار سجدہ کرنا

۴.       جب کہ امام بھول کر پانچویں رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے تو مقتدی کھڑا نہ ہو بلکہ امام کا انتظار کرے اگر امام پانچویں رکعت کے سجدہ کر لینے سے پہلے لوٹ آیا اور وہ قعدہ آخرہ کر چکا تھا تو مقتدی بھی اس کا ساتھ دے اور اس کے ساتھ سلام پھیر دے اور اس کے ساتھ سجدہ سہو کرے اور اگر امام نے پانچویں رکعت کا سجدہ کر لیا تو مقتدی تنہا سلام پھیرے اور اگر امام نے قعدہ آخرہ نہیں کیا تھا اور وہ پانچویں رکعت کے سجدے سے پہلے لوٹ آیا تب بھی مقتدی اس کا ساتھ دے اور اگر پانچویں رکعت کا سجدہ کر لیا تو امام اور مقتدی سب کی نماز فاسد ہو جائے گی سب نئے سرے سے پڑھیں

 

نو چیزیں جن کو خواہ امام کرے یا نہ کرے مقتدی ان کو ادا کرے کیونکہ یہ سنن ہیں اور سنن کے ادا کرنے یا نہ کرنے میں امام کی متابعت واجب نہیں امام نہ کرے تو مقتدی خود کر لے

۱.         تحریمہ کے لئے رفع یدین کرنا

۲.        ثنا پڑھنا (البتہ جہری نماز میں امام کے الحمد شروع کرنے کے بعد نہ پڑھے)

۳.       تکبیرات انتقال یعنی رکوع میں جانے یا سجدے میں جانے یا سجدے سے اٹھنے کے لئے اللّٰہ اکبر کہنا

۴.       رکوع کی تسبیح جب تک امام رکوع میں ہے

۵.        اگر امام سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہُ چھوڑ دے تو مقتدی رَبَّنَا لَکَ الحَمد کہنا ترک نہ کرے

۶.        سجدے کی تسبیح جب تک امام سجدے میں ہے

۷.       تشہد لیکن اگر امام نے قعدہ اولیٰ ہی ترک کر دیا تو مقتدی بھی ترک کرے

۸.        سلام جب کہ امام نے سلام کے بجائے کلام کر دیا یا مسجد سے نکل گیا تو مقتدی سلام پھیر کر اپنی نماز پوری کرے

۹.        تکبیرات تشریق

 

مقتدی کی اقسام

 

مقتدی چار قسم کے ہوتے ہیں

اول مُدرک:

جس شخص نے پوری نماز یعنی اول رکعت سے امام کے ساتھ شریک ہو کر آخری قعدے کا تشہد پڑھنے تک تمام رکعتیں امام کے ساتھ پڑھی ہوں ایسا شخص مُدرک کہلاتا ہے ، پہلی رکعت میں رکوع کے کسی جزو میں یا اس سے پہلے پہلے امام کے ساتھ شریک ہو گیا تو وہ پہلی رکعت کا پانے والا ہے

دوم لاحق:

جو شخص پہلی رکعت میں رکوع کے کسی جزو تک یا اس سے پہلے پہلے امام کے پیچھے نماز میں شامل ہوا مگر اقتدا کے بعد اس کی کل یا بعض رکعتیں کسی عذر سے یا بغیر عذر فوت ہو گئیں وہ شخص لاحق کہلاتا ہے مثلاً اقتدا کے بعد پہلی رکعت میں سو گیا اور آخری نماز تک سوتا رہا اس طرح اس کی کل رکعتیں امام کے ساتھ نہ ہوئیں یا درمیان میں دوسری یا تیسری وغیرہ رکعت میں سو گیا تو اس طرح بعض رکعتیں امام کے ساتھ نہ ہوئیں یا کسی اور غفلت یا بھیڑ کی وجہ سے کھڑا رہ گیا اور کل یا بعض رکعتوں کے رکوع یا سجود نہ کئے یا حدث ہو جانے کی وجہ سے وضو کے لئے گیا اور اس عرصہ میں امام نے کل یا بعض نماز پڑھ لی اور اس نے آ کر اس نماز پر بنا کی یا نمازِ خوف میں وہ پہلا گروہ ہے تو یہ سب لاحق ہے یا مقیم نے مسافر کی پیچھے قصر نماز میں اقتدا کی تو مسافر امام کے سلام پھیرنے کے بعد مقیم مقتدی آخیر کی دو رکعتوں میں لاحق ہے

سوم مسبوق:

جس شخص کو امام کے ساتھ شروع سے کل یا بعض رکعتیں نہ ملی ہوں لیکن جب سے امام کے ساتھ شامل ہوا پھر آخر تک شامل رہا ہو تو وہ ان رکعتوں میں مسبوق ہے پس اگر آخری رکعت کے رکوع کے بعد سلام سے پہلے پہلے کسی وقت امام کے ساتھ ملا ہو تو کل رکعتوں میں مسبوق ہے اور اگر آخری رکعت کے رکوع میں یا اس سے پہلے پہلے کسی وقت مل گیا مثلاً ایک یا دو یا تین رکعتیں ہونے کے بعد ملا تو بعض رکعتوں میں مسبوق ہے

چہارم لاحق مسبوق:

جس شخص کو شروع کی کچھ رکعتیں امام کے ساتھ نہ ملی ان میں وہ مسبوق ہے پھر جماعت میں شامل ہونے کے بعد لاحق ہو گیا تو ایسے شخص کو مسبوق لاحق یا لاحق مسبوق کہتے ہیں ( عملاً ایسی کوئی صورت نہیں بنتی کہ پہلے لاحق ہو اور پھر مسبوق ہو)

 

مقتدی کی اقسام۔ مسائل

 

۱.         پہلے جو نماز کے عام مسائل بیان ہوئے ہیں وہ سب مدُرک کے مسائل ہیں

۲.        لاحق بھی مدُرک کے حکم میں ہے یعنی وہ اپنی لاحقانہ نماز میں حکماً امام کے پیچھے ہے پس وہ اپنی فوت شدہ لاحقانہ نماز میں قرأت نہ کرے بلکہ مُدرک مقتدی کی طرح خاموش رہے اور اگر اس لاحقانہ نماز میں سہو ہو جائے تو سجدہ سہو نہ کرے اور اقامت کی نیت سے اس کا فرض نہیں بدلے گا

۳.       لاحق مثلاً اگر سو گیا تھا تو جب وہ جاگے اس کے لئے واجب ہے کہ امام کا ساتھ چھوڑ کر پہلے اپنی ان رکعتوں کو ادا کرے جو امام کے ساتھ شامل ہونے کے بعد جاتی رہی ہیں اور ان میں قرأت نہ کرے جیسا کہ اوپر بیان ہوا پھر امام کی متابعت کرے جب کہ امام ابھی جماعت کرا رہا ہو اور اگر امام اس وقت تک سلام پھیر چکا ہو تو اپنی باقی نماز بھی اسی طرح لاحقانہ پوری کر لے کیونکہ وہ اب بھی امام کے پیچھے ہے

۴.       اگر امام سجدہ سہو کرے تو مقتدی جب تک اپنی لاحقانہ نماز پوری نہ کر لے اس کے متابعت نہ کرے بلکہ اپنی نماز پوری کر کے سجدہ سہو کرے

۵. مسبوق اپنی فوت شدہ نماز میں منفرد ہوتا ہے پس وہ اس میں ثنا اور تعوذ و تسمیہ و قرأت ( الحمد و سورة) اسی طرح پڑھے جس طرح کی رکعتیں اس کی گئی ہیں چار مسئلوں میں وہ منفرد کے حکم میں نہیں جو آگے آتے ہیں

۶.        مسبوق اپنی فوت شدہ نماز پہلے ادا نہ کرے بلکہ پہلے امام کی متابعت کرے اور جب امام اپنی نماز سے فارغ ہو کر سلام پھیرے تو یہ امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے اور امام کے پہلے سلام پر کھڑا نہ ہو بلکہ امام کا دوسرا سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہو کر اپنی بقیہ فوت شدہ نماز اکیلا پڑھے اگر لاحق کی طرح پہلے اپنی فوت شدہ نماز پڑھے گا پھر امام کی متابعت کرے گا تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی

۷.       مسبوق کی مسبوقانہ نماز قرأت کے حق میں پہلی نماز ہے یعنی جیسی فوت ہوئی ہے ویسی پڑھے پس وہ چھوٹی ہوئی رکعتوں کو اس طرح ادا کرے گویا اس نے ابھی نماز شروع کی ہے اور تشہد کے حق میں اس کی آخری نماز ہے یعنی امام کے ساتھ پڑھے رکعتوں کو ملا کر ہر دوگانہ پر قعدہ کرے اور تشہد پڑھے مسبوقانہ نماز پڑھنے کی چند مثالیں یہ ہیں اگر کسی کی ایک رکعت چھوٹ گئی ہو تو وہ امام کے دوسرے سلام کے بعد کھڑا ہو کر پہلے ثنا و تعوذ و تسمیہ ( اعوذ و بسم اللّٰہ) پڑھ کر سورة فاتحہ پڑھے پھر کوئی سورة کم از کم چھوٹی تین آیتیں یا بڑی ایک آیت پڑھے پھر قعدے کے مطابق رکوع و سجدے وغیرہ کر کے رکعت پوری کرے اور قعدے میں تشہد و درود و دعا پڑھ کر سلام پھیر دے، اگر ظہر یا عصر یا عشا یا فجر کی دو رکعتیں گئی ہوں تو پہلی رکعت میں ثنا و تعوذ و تسمیہ کے بعد فاتحہ و سورة پڑھ کر رکوع و سجود کرے اور دوسری رکعت میں ثنا و تعوذ نہ پڑھے بلکہ بسم اللّٰہ و فاتحہ و سورة پڑھ کر رکوع و سجدے کر کے قعدہ کرے اور سلام پھیر دے اور اگر ان نمازوں کی صرف ایک رکعت امام کے ساتھ ملی ہو تو اپنی چھوٹی ہوئی تین رکعتیں اس طرح ادا کرے کہ پہلی رکعت ثنا و تعوذ و تسمیہ و فاتحہ و سورة کے ساتھ پڑھ کر قعدہ کرے اور قعدے میں صرف تشہد پڑھ کر کھڑا ہو جائے اور ایک رکعت بسم اللّٰہ و فاتحہ و سورة کے ساتھ پڑھے پھر ایک ( تیسری) رکعت میں صرف سورة فاتحہ پڑھ کر رکعت پوری کرے اور قعدہ کر کے سلام پھیرے اور اگر مغرب کی ایک رکعت امام کے ساتھ ملی ہو تو پہلی ایک رکعت ثنا و تعوذ و تسمیہ و فاتحہ و سورة کے ساتھ پڑھ کر قعدہ کرے اور صرف تشہد پڑھ کر کھڑا ہو جائے اور ایک ( دوسری) رکعت میں بسم اللّٰہ و فاتحہ و سورة پڑھ کر قعدہ کر کے سلام پھیر دے، غرض جب نماز کی صرف ایک رکعت امام کے ساتھ ملی ہو تو اپنی نماز میں ایک رکعت کے بعد قعدہ کرنا چاہئے خواہ کسی وقت کی نماز ہو اور پھر تین رکعت چھوٹنے کی صورت میں دو رکعت کے بعد آخری قعدہ کرنا چاہئے

۸.        مسبوق امام کے آخری قعدے میں تشہد پڑھنے کے بعد درود و دعائیں نہ پڑھے بلکہ اَشھَدُ اَن لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً اعَبدَہُ وَ رَسُوُلُہُ کو بار بار پڑھتا رہے ، یا تشہد آہستہ آہستہ ٹھہر کر پڑھے کہ امام کے سلام پھیرنے تک ختم ہو اور جب اپنی مسبوقانہ نماز پڑھ کر آخری قعدہ کرے تو اب درود و دعا بھی پڑھے

۹.        مسبوق اگر بھول کر امام کے ساتھ سلام پھیر دے تو اگر بالکل امام کے سلام کے ساتھ یا پہلے پھیرا تو اس پر سجدہ سہو نہیں (لیکن ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے ) وہ اپنی نماز پوری کر لے اور اگر امام کے سلام کے بعد اس نے سلام پھیرا ( اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے ) تو اپنی نماز کے آخر میں سجدہ سہو کرنا چاہئے

۱۰.       مسبوق سجدہ سہو میں امام کی متابعت کرے لیکن سجدہ سہو کے سلام میں متابعت نہ کرے اگر سجدہ سہو میں متابعت نہ کی تو اپنی رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلی لوٹنا واجب ہے اور اگر رکعت کا سجدہ کر لیا تو اب نہ لوٹے ورنہ نماز فاسد ہو جائے گی بلکہ اپنی مسبوقانہ نماز کے آخر میں سجدہ سہو کر لے

۱۱.        دو مسبوقوں نے اکٹھے ایک ہی رکعت میں امام کی اقتدا کی ان میں سے ایک کو اپنی رکعتیں یاد نہ رہیں اس نے دوسرے کو دیکھ دیکھ کر اپنی مسبوقانہ نماز پڑھی یعنی جتنی رکعتیں اس نے پڑھیں اس نے بھی پڑھ لیں مگر اس کی اقتدا کی نیت نہیں کی تو نماز درست ہے اور اگر اقتدا کی نیت کرے گا تو نماز فاسد ہو جائے گی

۱۲.       مسبوق چار مسئلوں میں منفرد کے حکم میں نہیں

۱.         اول نہ کسی کو اس کی اقتدا جائز ہے اور نہ اس کو کسی کی اقتدا جائز ہے ، اگر مسبوق نے مسبوق کی اقتدا کی تو امام کی نماز درست ہو گی اور مقتدی کی نماز فاسد ہو جائے گی

۲.        دوم اگر مسبوق نے نئے سرے سے نماز شروع کرنے کی نیت دل میں کر کے تکبیر کہی تو اس کی نماز نئے سرے سے شروع ہو جائے گی اور پہلی ٹوٹ جائے گی اور منفرد نئے سرے سے نماز شروع کرنے کی دل میں نیت کر کے تکبیر کہے تو پہلی نماز سے خارج نہیں ہوتا اور نئی شروع نہیں ہوتی

۳. سوم مسبوق سجدہ سہو میں امام کی متابعت کرے

۴.       چہارم مسبوق پر بالاتفاق تکبیراتِ تشریق کہنا واجب ہے اور منفرد کے لئے اختلاف ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک واجب نہیں ہے صاحبین کے نزدیک واجب ہے

۱۳.      سات چیزوں میں مسبوق اپنی نماز کے ادا کرنے میں لاحق کے خلاف کرے

۱.         اول مسبوق اپنی فوت شدہ رکعتوں میں قرأت پڑھے لاحق نہ پڑھے

۲.        دوم مسبوق اپنی بقیہ نماز میں سہو ہو جانے سے سجدہ سہو کرے لاحق کو اپنی فوت شدہ نماز میں سہو ہو جائے تو سجدہ سہو نہ کرے

۳.       سوم مسبوق مسافر اپنی فوت شدہ رکعتوں میں اقامت کی نیت کرے تو مقیم ہو جائے گا لاحق مسافر اپنی لاحقانہ نماز میں اقامت کی نیت کر لینے سے مقیم نہیں ہو گا

۴.       چہارم مسبوق اپنے امام کی متابعت کرے بعد میں اپنی مسبوقانہ پڑھے اور لاحق پہلے اپنی لاحقانہ پڑھے پھر امام کی متابعت کرے

۵.        پنجم امام قعدہ اولیٰ چھوڑ دے تو لاحق بھی اپنی لاحقانہ نماز میں چھوڑ دے مسبوق اگر امام کے قعدہ اولٰی چھوڑ کر کھڑا ہونے کے بعد شامل ہوا تو اپنی بقیہ نماز میں یہ قعدہ کرے

۶.        ششم لاحق کی بقیہ نماز میں عورت کے محاذات جو اس کی نماز میں شامل ہیں اس کی نماز فاسد کرتی ہے مثلاً پہلے پردہ تھا اب دور ہو گیا تو لاحق کی نماز فاسد ہو جائے گی لیکن مسبوق کی نماز اس صورت میں فاسد نہیں ہو گی

۷.       ہفتم امام کے ختم ِ نماز کا سلام کہنے کے بجائے ہنس دینے سے مسبوق کی نماز فاسد ہو جائے گی، لاحق کی نماز فاسد نہیں ہو گی کیونکہ امام اور مُدرک کی پوری ہو گئی اس لئے اس کی بھی حکماً پوری ہو گئی

۱۴.      مسبوق لاحق یا لاحق مسبوق پہلے اپنی لاحقانہ نماز پڑھے اس کے بعد اگر جماعت باقی ہو تو اس میں امام کی متابعت کرے اور امام کے سلام کے بعد مسبوقانہ نماز پوری کرے پھر ان رکعتوں کو ادا کرے جن میں وہ مسبوق ہے

 

 

 

نماز میں حدث

 

 

نماز میں حدث (یعنی بے وضو) ہو جانے اور بِنا کی شرائط کا بیان

اگر کوئی شخص نماز میں بے وضو ہو گیا، وہ وضو کر کے جہاں سے نماز چھوڑ کر گیا تھا اگر وہیں سے شروع کر کے نماز کو پوری کر لے تو اس کی نماز چند شرائط کے ساتھ درست ہو جائے گی (شرائط آگے درج ہیں ) اس کو بِنا کہتے ہیں یہ امام و مقتدی اور منفرد تینوں کے لئے جائز ہے لیکن سرے سے پڑھنا افضل ہے اگر التحیات پڑھنے کے بعد بےوضو ہو گیا تب بھی وضو کر کے نماز ختم کرے

بِنا کی شرائط تیرہ ہیں

۱.         وہ حدث وضو کا واجب کرنے والا ہو غسل کا واجب کرنے والا نہ ہو

۲.        حدث نادر الوجود نہ ہو یعنی ایسا نہ ہو جو کبھی اتفاقاً ہوتا ہو ورنہ نئے سرے سے نماز پڑھنا لازمی ہے

۳.       حدث سماوی (آسمانی، قدرتی) ہو، اس میں بندے کا کچھ اختیار نہ ہو ورنہ نئے سرے سے پڑھنا لازمی ہے

۴.       وہ حدث نمازی کے بدن سے ہو، خارج سے نجاست وغیرہ بدن پر لگنا بِنا کو جائز نہیں کرتا

۵.        اس نمازی نے کوئی رکن حدث کے ساتھ ادا نہ کیا ہو

۶.        بغیر عذر رکن ادا کرنے کی مقدار توقف بھی نہ کیا ہو

۷.       کوئی رکن چلنے کی حالت میں ادا نہ کرے

مسئلہ

جس رکن میں حدث ہوا وضو کرنے کے بعد اس رکن کو دو بارا ادا کرے مثلاً رکوع یا سجدے میں بےوضو ہو گیا تو وضو کے بعد وہ رکوع یا سجدہ دو بارا کرے خواہ امام ہو یا مقتدی یا منفرد کیونکہ ان تینوں کو بِنا کرنا جائز ہے

۸.        حدث کے بعد نماز کو توڑنے والا کوئی فعل نہ کرے مثلاً کھانا پینا وغیرہ

۹.        حدث کے بعد وہ فعل جس کی نماز میں اجازت تھی اور وہ نماز کو توڑنے والا نہیں تھا اور اس نمازی کو اس کی ضرورت ہے جیسے وضو کے لئے جانا وغیرہ ضرورت سے زائد نہ کرے ضرورت کی معاون چیز بھی ضرورت میں داخل ہے جیسے کسی برتن سے پانی لینا وغیرہ

۱۰.       اس حدث آسمانی کے بعد اس پر اس سے پہلے کا کوئی حدث ظاہر نہ ہو مثلاً کوئی شخص جو موزہ پر مسح کر کے نماز پڑھ رہا تھا حدث کے بعد وضو کرنے گیا وضو کے درمیان میں مسح موزہ کی مدت پوری ہو گئی تو یہ پہلے حدث کا ظاہر ہونا کہلاتا ہے اب اس کو بِنا جائز نہیں نئے سرے سے پڑھنا لازمی ہے

۱۱.        صاحب ترتیب کو حدثِ سماوی کے بعد اپنی کسی نماز کا فوت ہو جانا یاد نہ آئے

۱۲.       مقتدی نے امام کے فارغ ہونے سے پہلے اپنی جگہ کے سوا دوسری جگہ اپنی نماز کے پورا نہ کیا تو جب کہ امام اور اس مقتدی کے درمیان کوئی ایسا حائل ہو جس کی وجہ سے وضو کی جگہ سے اقتدا جائز نہ ہو، منفرد وضو کی جگہ پر ہی بِنا کر کے نماز پوری کر سکتا ہے

۱۳.      اگر امام کو حدث ہوا ہے تو ایسے شخص کو خلیفہ نہ کرے جو امامت کے لائق نہ ہو مثلاً امّی یا عورت یا نابالغ کو، ورنہ سب کی نماز فاسد ہو کر نئے سرے سے پڑھنی ہو گی

 

خلیفہ کرنے کا بیان

 

جن صورتوں میں بِنا جائز ہے ان میں امام کو بے وضو ہو جانے پر جائز ہے کہ کسی مقتدی کو خلیفہ کر دے اگرچہ وہ نمازِ جنازہ ہی ہو پس اگر امام بے وضو ہو گیا تو مقتدیوں میں سے کسی کو خلیفہ کر کے اپنی جگہ پر آگے بڑھا دے پھر وضو کر کے خلیفہ کے پیچھے اپنی نماز پوری کرے جب کہ اس کی نماز ختم نہ ہوئی ہو، اور اگر خلیفہ نماز سے فارغ ہو گیا تو پہلا امام اپنی جگہ پر آ کر یا جہاں وضو کیا ہے وہیں پر اپنی نماز پوری کر لے اگر امام کے ساتھ ایک ہی مقتدی تھا تو امام کو حدث ہوا تو وہ ایک مقتدی ہی اس کا خلیفہ ہو جائے گا اگرچہ امام اس کو خلیفہ نہ بنائے خلیفہ بنانے کے لئے تین شرطیں ہیں

اول: بِنا کی تمام شرطوں کا پایا جانا پس جن صورتوں میں بِنا جائز نہیں خلیفہ بنانا بھی جائز نہیں ،

دوم: امام اپنی جگہ سے بڑھنے کی حدود سے آگے نہ بڑھے اور وہ میدان میں دائیں یا بائیں یا پیچھے کی طرف تمام صفوں سے باہر نکلنا ہے اور آگے کی طرف سترہ کی حد تک اور اگر سترہ نہ ہو تو سجدے کی جگہ حد سے آگے بڑھنا ہے اور مسجد میں جب تک مسجد سے باہر نہیں نکلا خلیفہ کرنا درست ہے

سوم: یہ کہ خلیفہ میں امام بننے کی صلاحیت ہو

 

 

مفسدات نماز کا بیان

 

جن چیزوں سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور اس نماز کو لوٹانا فرض ہوتا ہے ان کو مفسدات نماز کہتے ہیں

یہ دو قسم کے ہیں

۱. اقوال

۲. افعال

قسم اول: پہلی قسم یعنی اقوال یہ ہیں

 

اقوال

 

۱.         کلام یعنی بات کرنا خواہ بھول کر ہو یا قصداً تھوڑی ہو یا بہت جب کہ وہ کلام کم سے کم دو حرفوں سے مرکب ہو یا اگر ایک حرف ہو تو بمعنی ہو جیسےعربی میں قِ بمعنی بچا ِبمعنی حفاظت کر اور وہ کلام ایسا ہو جیسے لوگ آپس میں باتیں کرتے ہیں اور اس طرح کلام کرے کہ سنا جائے اگرچہ اتنی آواز سے ہو کہ صرف خود ہی سن سکے

۲.        کسی کو سلام کرنے کے قصد سے سلام یا تسلیم یا اسلام علیکم یا آداب یا کوئی اور ایسا لفظ کہنا

۳.       زبان سے سلام کا جواب دینا عمداً ہو یا سہواً نماز کو فاسد کرتا ہے اشارہ سے سلام کا جواب دینا مکروہ ہے مگر نماز کو فاسد نہیں کرتا

۴.       چھینک کا جواب دینا یعنی زبان سے یرحمک اللّٰہ کہنا

۵.        نماز میں کسی خوشی کی خبر پر الحمد اللّٰہ کہنا لیکن اگر اپنے متعلق نماز میں ہونے کی خبر دینے کے لئے کہا تو نماز فاسد نہ ہو گی

۶.        نماز میں بری خبر سنی مثلاً کسی کی موت کی خبر سنی تو انا للّٰہ و انا الیہ راجعون ط پڑھنا جب کہ جواب کی نیت ہو

۷.       نماز میں تعجب کی خبر سن کر سبحان اللّٰہ یا لا الہ الا اللّٰہ یا اللّٰہ اکبر کہنا جب کہ جواب کی نیت سے ہو

۸.        نماز کی حالت میں قرآن پڑھا یا اللّٰہ کا ذکر کیا اور اس سے کسی آدمی کو کہنے یا منع کرنے کا ارادہ کیا

۹.        بچھو نے نمازی کے ڈنک مارا اور اس نے بسم اللّٰہ کہا تو اس میں اختلاف ہے فتویٰ اس پر ہے کہ نماز فاسد نہیں ہو گی اگر کسی اور درد یا مشقت کی وجہ سے بسم اللّٰہ کہا تب بھی یہی حکم ہے

۱۰.       چاند دیکھ کر ربی و ربک اللّٰہ کہنا

۱۱.        بخار وغیرہ کسی مرض کے لئے اپنے اوپر قرآن پڑھنا

۱۲.       اگر نمازی نے اللّٰہ کا نام سن کر جل جلالہ کہا یا نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا نام سن کر درود پڑھا یا قرأت سن کر صدق اللّٰہ و صدق الرسولہ کہا، اگر جواب کا ارادہ کیا تو نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر تعظیم اور ثنا کے ارادہ سے کہا تو فاسد نہ ہو گی

۱۳.      کسی آیت میں شیطان کا ذکر سن کر لعنۃ اللّٰہ کہنا

۱۴.      وسوسہ کے دور ہونے کے لئے لاحول ولا قوة کہنا اگر وسوسہ دنیاوی امور سے متعلق ہے تو نماز فاسد ہو گی اور اگر امور آخرت سے متعلق ہے تو فاسد نہ ہو گی

۱۵.       قرآن کی آیت کو جو شعر کی طرح موزوں ہے شعر کی نیت سے پڑھنا

۱۶.       امام کا اپنی نماز سے باہر کے آدمی سے لقمہ لینا یا اس کے مقتدی کا باہر کے آدمی سے سن کر لقمہ دینا یا اپنے امام کے سوا کسی دوسرے کو لقمہ دینا اپنے مقتدی سے لقمہ لینے سے امام اور مقتدی دونوں کی نماز فاسد نہیں ہوتی جبکہ اس مقتدی نے اپنی یاد سے لقمہ دیا ہو، خواہ لقمہ دینے والا سمجھ والا نابالغ ہی ہو

۱۷.      نماز میں ایسی دعا مانگنا جس کا بندوں سے مانگنا ممکن ہے مثلاً یہ کہنا

اَللّٰھُمَّ اَطعِمنِی، اَللّٰھُم اَقضِ دَینِی، اَللّٰھُم زَوَّجنِی، اَللّٰھُم ارزُقنِی مَالاً وغیرہ

۱۸.       نماز سے باہر والے کسی شخص کی دعا پر آمین کہنا

۱۹.       حج کرنے والا کا نماز کے اندر لبیک کہنا

۲۰.      اگر نماز کے اندر اذان کے کلمات اذان یا جواب اذان کے ارادہ سے یا بلا کسی ارادہ کے کہے تو نماز فاسد ہو جائے گی

۲۱.       نماز کے اندر لفظ نعم کہنا جب کہ عادت ہو کہ یہ لفظ جاری ہو جایا کرتا ہے اور اگر عادت نہیں تو نماز فاسد نہیں ہو گی اور وہ قرآن سے شمار ہو گا، اگر اس کا ترجمہ یعنی اردو میں ہاں یا فارسی میں بلے یا آرے کہا تب بھی یہی حکم ہے اور ایک روایت کے مطابق ترجمہ والے لفظ سے مطلقاً نماز فاسد ہو جائے گی خواہ تکیہ کلام ہو یا نہ ہو

۲۲.      نماز میں آواز سے آہ یا اوہ یا اف کہا یا ایسا رویا کہ اس سے حروف پیدا ہو گئے ، اگر جنت یا دوزخ کے ذکر کی وجہ سے تھا تو اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی اور اگر درد یا مصیبت سے رویا یا آہ وغیرہ کی تو نماز فاسد ہو جائے گی، لیکن اگر تکلیف کی وجہ سے اپنے نفس کو نہیں روک سکتا تو بوجہ ضرورت نماز فاسد نہیں ہو گی، اسی طرح امام کی قرأت اچھی لگنے پر رو کر نعم یا ہاں یا آرے بلے وغیرہ کہا تب بھی یہی حکم ہے کیونکہ یہ خشوع کی دلیل ہے اور اگر لہجہ اور خوش آوازی کی لذت میں آ کر کہے گا تو نماز فاسد ہو جائے گی اگر اپنے گناہوں کی کثرت کا خیال کر کے آہ کی تو نماز فاسد نہ ہو گی

۲۳.     کھانسنا یا کھنکارنا بلا عذر یا بلا غرض صحیح نماز کو فاسد کرتا ہے عذر کے ساتھ ہو مثلاً نمازی طبعیت کو نہیں روک سکتا یا کسی صحیح غرض کے ساتھ ہو مثلاً آواز کو درست کرنے یا امام کو قرأت میں یا اٹھنے بیٹھنے وغیرہ کی غلطی بتانے کے لئے ہو تو مفسد نہیں

۲۴.     چھینک یا ڈکار یا جماہی بھی کھانسنے کے حکم میں ہیں

۲۵.     اپنے سجدے کی جگہ سے مٹی کو پھونک مارنا، اگر سانس لینے کی مانند تھا کہ اس کی آواز سنی نہیں جاتی تو مفسد نہیں ہے لیکن قصداً ایسا کرنا مکروہ ہے اور اگر اس طرح سننے میں آئے کہ اس سے حروف تہجی پیدا ہوتے ہوں تو بمنزلہ کلام کے ہو کر مفسد ہے

۲۶.      قرآن مجید میں دیکھ کر پڑھنا، قرآن مجید یا محراب میں سے دیکھ کر پڑھنے اور کم یا زیادہ پڑھنے اور امام یا منفرد کے پڑھنے میں کوئی فرق نہیں سب کا ایک ہی حکم ہے لیکن کم از کم ایک آیت پڑھی ہو یہی اظہر ہے نماز میں کسی لکھے ہوئے پر نظر پڑی وہ آیت تھی اس کو سمجھ لیا یا فقہ کی کتاب پر نظر پڑی اور اس کو سمجھ لیا یا محراب پر سوائے قرآن کے کچھ اور لکھا ہوا تھا اس کو نمازی نے دیکھا اور سمجھ لیا تو نماز فاسد نہ ہو گی یعنی نماز کے اندر کوئی لکھی ہوئی چیز بغیر قصد کے دیکھنا اور سمجھنا خواہ وہ قرآن یا فقہ وغیرہ کوئی اور چیز ہو بالاتفاق مفسد نہیں ہے اور مکروہ بھی نہیں ہے اور قصداً ہو تب بھی مفسد نہیں لیکن مکروہ ہے

۲۷.     نماز کی اندر قرأت کی جگہ انجیل یا تورات یا زبور میں کچھ پڑھا اور قرآن کچھ نہ پڑھا تو ہر حال میں مفسد ہے لیکن اگر نماز جائز ہونے کی مقدار قرآن پڑھ لیا ہو پھر کچھ آیات تورات یا انجیل کی پڑھیں جن میں ذکر الہی ہے تو نماز مفسد نہیں ہو گی لیکن ایسا کرنا مکروہ ہے

۲۸.     نماز کی اندر اللّٰہ اکبر کہتے وقت اللّٰہ کی ہمزہ کو بڑھایا اور مد کیا یا اکبر کے ہمزہ کو مد کر دیا، یا اکبر کی ب کو بڑھا کر اکبار پڑھا تو نماز ٹوٹ جائے گی اور اگر تکبیر تحریمہ میں ایسا کرے گا تو سرے سے نماز شروع ہی نہیں ہو گی

 

افعال

 

قسم دوم : یعنی افعال یہ ہیں

۱.         عمل کثیر جبکہ وہ عمل نماز کی جنس سے نہ ہو یا نماز کی اصلاح کے غرض سے نہ ہو، جس عمل کو دور سے دیکھنے والا یہ سمجھے کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے وہ عملِ کثیر ہے ورنہ عملِ قلیل ہے ، عمل کثیر خواہ اختیار سے ہو یا بغیر اختیار کے ہر حال میں مفسد ہے عملِ کثیر کی جزئیات درج ذیل ہیں

۱.         جب کوئی عمل قلیل ایک ہی رکن میں تین بار کیا جائے تو وہ بھی کثیر کے حکم میں ہو کر مفسد ہے

۲.        اگر کسی نماز پڑھنے والے کو کسی دوسرے شخص نے اٹھا کر اس کے جانور پر بٹھا دیا یا ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا دیا تو یہ بھی عملِ کثیر ہے

۳.       پے درپے تین پتھر پھینکے یا تین جوئیں ماریں یا ایک ہی جوں کو تین بار مارا یا تین بال اکھیڑے یا آنکھوں میں سرمہ لگایا یہ سب عملِ کثیر ہیں

۴.       کسی کو ایک ہاتھ سے مارنا خواہ بغیر آلے کے ہو جیسے طمانچہ یا تھپڑ وغیرہ یا کوڑا وغیرہ مارا تو یہ بہ سبب دشمنی کے یا ادب سکھانے کے یا بطور کھیل کے ہونے کی وجہ سے عمل کثیر ہے ، جانور پر پتھر اٹھا کر مارنا عملِ کثیر ہے اگر پتھر پہلے سے اپنے ساتھ ہو پھر نماز میں مارا تو عملِ قلیل ہے اور مفسد نہیں لیکن مکروہ ہے ، گھوڑے پر نماز پڑھنے والے کا گھوڑے کو تیز کرنے کے لئے مارنا عملِ کثیر ہے

۵.        نماز پڑھتے ہوئے جانور پر سوار ہونا عملِ کثیر ہے ، جانور سے اُترنا اگر عملِ قلیل سے ہو تو مفسد نہیں مثلاً دونوں پاؤں ایک طرف کو کر کے پھسل جائے اور عمل کثیر سے ہو تو مفسد ہے

۶.        جانور پر زین کسی یا لگام دی تو یہ عمل کثیر ہے

۷.       نماز میں تین کلموں کی مقدار اس طرح لکھا کہ حروف ظاہر ہوں اگر تین کلموں سے کم لکھا یا حروف ظاہر نہ ہوں مثلاً ہوا یا پانی پر لکھا یا بدن پر خالی انگلی سے لکھا تو مفسد نہیں لیکن یہ فعل عبث و مکروہ ہے

۸.        رکوع میں جاتے وقت یا رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرنے سے نماز فاسد نہیں ہو گی اور نماز کے اندر دعا کے بعد دونوں ہاتھ منھ پر پھیرنے سے نماز فاسد ہو جائے گی

۹.        دروازہ بند کرنا مفسد نہیں دروازہ کھولنا مفسد ہے

۱۰.       نماز کے اندر سانپ یا بچھو کو مارنا جب کہ تین قدم یا زیادہ چل کر یا تین ضرب یا زیادہ کے ساتھ ہو عمل کثیر کی وجہ سے مفسد ہے لیکن اس کو مارنے کی اجازت ہے اور اس سے کم ہو تو مفسد نہیں ہے

۱۱.        اگر کوئی عورت نماز پڑھ رہی تھی کہ بچہ نے اس کے پستان کو چوسا اگر دودھ نکلا تو نماز فاسد ہو جائے گی اگرچہ ایک یا دو چسکی میں ہی دودھ آ جائے اور اگر دودھ نہ نکلا تو دو چسکی تک مفسد نہیں تین چسکی یا زیادہ عملِ کثیر ہے

۱۲.       نماز پڑھنے میں اپنے سر یا داڑھی میں تیل ڈالا یا اپنی سر پر گلاب لگایا نماز فاسد ہو گئی جب کہ شیشی وغیرہ سے لگایا اور اگر تیل پہلے سے ہاتھوں پر لگا ہوا ہے اور سر پر پونچھ لیا تو فاسد نہیں ہو گی

۱۳.      اپنی داڑھی یا سر میں کنگھی کرنا

۱۴.      ایک رکن میں تین بار کھجلی کرنا جبکہ ہر بار ہاتھ کو اٹھائے ، ایک بار ہاتھ رکھ کر چند مرتبہ حرکت دینا ایک ہی بار کا کھجلی کرنا کہلائے گا بلا ضرورت ایک بار کھجلی کرنا مکروہ ہے

۱۵.       نماز کی حالت میں پہلی سے بٹی ہوئی بتی چراغ میں رکھنا یا اٹھانا عملِ قلیل ہے

۱۶.       عورت کا نماز کے اندر بالوں کا جوڑا باندھنا

۱۷.      نمازی کے آگے سے بغیر سترے کے گزرنا مفسد نہیں ہے لیکن مکروہ ہے

۲.        نماز کے اندر کھانا پینا، مطلقاً نماز کو فاسد کرتا ہے خواہ قصداً ہو یا بھول کر تھوڑا ہو یا زیادہ حتی کہ اگر باہر سے ایک تل منھ میں لیا اور نگل گیا تو نماز فاسد ہو جائے گی یا کوئی پانی وغیرہ کا قطرہ یا برف کا ٹکڑا منھ کے اندر چلا گیا اور وہ اسے نگل گیا تو نماز فاسد ہو جائے گی، نماز شروع کرنے سے پہلے کوئی چیز منھ میں لگی ہوئی تھی اگر وہ چنے کی مقدار سے کم تھی اور اس کو نگل گیا تو نماز فاسد نہیں ہو گی مگر مکروہ ہے اور اگر چنے کے برابر یا زیادہ ہو گی تو نماز فاسد ہو جائے گی اصول یہ ہے کہ جس چیز کو کھانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اس سے نماز بھی ٹوٹ جاتی ہے ورنہ نہیں ، کوئی میٹھی چیز نماز سے پہلے کھائی تھی نماز کے اندر اس مٹھاس کا اثر جو منھ میں موجود تھا وہ تھوک کے ساتھ اندر جاتا ہے تو مفسد نہیں اگر مصری یا شکر یا پان وغیرہ منھ میں رکھ لیا چبایا نہیں اور وہ گھل کر حلق میں جاتا ہے تب بھی نماز فاسد ہو جائے گی اگر دانتوں سے خون نکلا اور تھوک میں مل کر حلق یں گیا اور نگل گیا تو خون کا مزہ حلق میں محسوس ہونے کی صورت میں نماز ٹوٹ جائے گی نماز اور روزے کے لئے مزہ کا اعتبار کیا جائے گا اور وضو توڑنے کے لئے رنگ کا

۳.       نماز کے اندر چلنا، ایک دم متواتر دو صف کی مقدار چلنا عملِ کثیر اور مفسدِ نماز ہے اس سے کم قلیل ہے پس اگر ایک دم دو صف کی مقدار چلا تو نماز فاسد ہو جائے گی اس سے کم چلا تو نماز فاسد نہ ہو گی کثیر غیر متواتر بھی مفسد نہیں جبکہ قبلے کی طرف سے منھ نہ پھرے ورنہ مفسد ہے کثیر غیر متواتر کی مثال یہ ہے کہ بقدر ایک صف کے چلا پھر ایک رکن کی مقدار ٹھہرا پھر مقدار ایک صف کے چلا پہر ایک رکن کی مقدار ٹھہرا تو اس سے نماز فاسد نہیں ہو گی اگرچہ بہت چلا ہو جب تک کہ وہ مسجد میں ہونے کی صورت میں مسجد سے باہر نہ ہو جائے اور میدان میں ہونے کی صورت میں صفوں سے باہر نہ ہو جائے یا قبلہ سے نہ پھر جائے ، عملِ قلیل میں بھی اگر قبلہ سے پھر گیا تو نماز فاسد ہو جائے گی ورنہ نہیں ، جس عمل کا کثیر مسفد ہے اس کا قلیل مکروہ ہے ، عذر کے ساتھ اور نماز کی اصلاح کے لئے چلنا کسی حالت میں مفسد و مکروہ نہیں ہے خواہ تھوڑا چلے یا زیادہ اور متواتر ہو یا غیر متواتر قبلے سے پھرے یا نہ پھرے ( یہ دونوں نمبر بھی عملِ کثیر کی وضاحت میں شمار ہو سکتے ہیں ، نیز یہ تینوں نمبر صحتِ نماز کی ایک شرط تحریمہ کے منافی ہیں اس لئے یہ سب امور آگے آنے والے پانچویں نمبر کے اجزائ ہو سکتے ہیں )

۴.       حالت نماز میں نماز فرض ہونے کی شرطوں میں سے کسی شرط کا مفقود ہو جانا، شرطوں کا بیان پہلے ہو چکا ہے ، نیز نمازی کا اپنے دل میں مرتد ہو جانا مفسدِ نماز ہے اور امام کا نماز کے اندر مر جانا بھی مفسد ہے حتیٰ کہ اگر قعدہ اخرہ کے بعد مر گیا تو مقتدیوں کی نماز باطل ہو گئی نئے سرے سے پڑھیں ، جنون و بیہوشی بھی مفسدِ نماز ہے جس کی تفصیل مریض کے بیان میں ہے

۵.        حالت نماز میں نماز صحیح ہونے کی شرطوں میں سے کسی شرط کا نہ پایا جانا، مثلاً طہارت کا باقی رہنا یا ستر کّھل جانے کی حالت میں ایک رکن کی مقدار تک رہنا یا ناپاک جگہ پر بغیر کسی حائل کے سجدہ کرنا یا قبلے کی طرف سے بلا عذر سینہ پھرنا، یا نیت تبدیل کرنے کی نیت سے اللّٰہ اکبر وغیرہ کہنا، اگر عذر کے ساتھ سینہ قبلے سے پھرا تو نماز فاسد نہیں ہو گی عذر دو ہیں

اول: حدث ہو جانے کی بعد وضو کے لئے جانا،

دوم: نماز خوف میں دشمن کے مقابل آنا جانا اور اس آنے جانے میں قبلے کی طرف سے سینہ پھر جانا بلا عذر سینے کا پھرنا اگر اپنے اختیار سے ہو تو خواہ ایک رکن سے کم ہو تب بھی مفسد ہے اور اگر بے اختیاری سے ہو تو رکن کی مقدار سے کم معاف ہے اور رکن کی مقدار یا اس سے زیادہ مفسد ہے صرف منہ قبلے سے پھرنا جب کےہ سینہ قبلے سے نہ پھرے مفسد نہیں مکروہ ہے لیکن اس قدر پھیرے رہنا کہ دیکھنے والا یہ سمجھے کہ یہ نماز میں نہیں ہے مفسد ہے ، بالغ نمازی کا قہقہہ مار کر یا آواز سے ہنسنا نماز و وضو دونوں کو توڑ دیتا ہے

۶.        صحتِ نماز کی شرطوں میں سے کسی شرط کا بلا عذر چھوڑ دینا، اگر عذر کے ساتھ ہو مثلاً ستر کے لئے کپڑا موجود نہ تھا یا نجاست کو پاک کرنے کے لئے کوئی چیز نہ تھی یا استقبال قبلہ پر قادر نہ تھا تو نماز فاسد نہیں ہو گی

۷.       نماز کے ارکان میں سے کسی رکن یعنی فرض کو عمداً یا سہواً ترک کر دینا اور سلام پھیرنے سے پہلے اس کو ادا نہ کرنا

۸. کسی واجب کا عمداً ترک کرنا

۹.        مقتدی کا اپنے امام سے پہلی کسی رکن کو کر لینا اور پھر اس میں اس کا شریک نہ ہونا یا بلا عذر امام سے آگے بڑھ جانا

۱۰.       مسبوق کا سجدہ سہو میں اپنے امام کی پیروی اس وقت کرنا جبکہ امام سے الگ ہو چکا ہو یعنی جبکہ وہ اپنی مسبوقانہ نماز کی رکعت کا سجدہ کر چکا ہو اس وقت امام کو سجدہ سہو یاد آیا ہو، تو اگر وہ مسبوق اس وقت سجدہ سہو میں امام کی متابعت کرے گا تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی

۱۱.        سجدہ نماز یا سجدہ تلاوت بھولنے پر جب قعدہ اخیرہ کے بعد یاد آنے پر ادا کیا اور قعدہ کا اعادہ نہ کیا

۱۲.       جب کسی پورے رکن کو نیند کی حالت میں ادا کیا، جاگنے پر اس کو دوبارہ نہ کرنا اگر پوری رکعت سونے کی حالت میں ادا کرے گا تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی

۱۳.      قرآن مجید کی تلاوت میں غلطی کا ہو جانا جس کی تفصیل قاری کی لغزشوں کے بیان میں درج ہے

۱۴.      عورت کا مرد کے کسی عضو کے محاذی کھڑا ہونا ( تفصیل آ چکی ہے )

۱۵.       حدث لاحق ہونے پر امام کا بلا خلیفہ بنائے مسجد سے نکل جانا یا ایسے آدمی کو خلیفہ بنانا جو امامت کا اہل نہ ہو یا حدث کے ساتھ کوئی رکن ادا کرنا یا رکن کی مقدار ٹھہرنا ( تفصیل ” خلیفہ کرنے کے بیان” میں درج ہے )

۱۶.       پوری ایک رکعت زیادہ کر دینا، رکن کی زیادتی سے نماز فاسد نہیں ہوتی

 

 

 

 

مکروہاتِ نماز

 

 

مکروہات کی دو قسمیں ہیں اوّل مکروہِ تحریمی، یہ واجب کے بالمقابل ہے اور حرام کر قریب ہے ، دوم مکروہِ تنزیہی، یہ سنت اور مستحب و اولیٰ کے بالمقابل ہے پس مکروہات کا علم واجبات و سنن و مستحبات کے علم سے بآسانی ہو سکتا ہے یہاں بغرض وضاحت درج کئے جاتے ہیں

۱.         سدل (کپڑے کو لٹکانا) یعنی کپڑے کو بغیر پہنے ہوئے سر یا مونڈھے پر اس طرح ڈالنا کہ دونوں سرے لٹکے رہیں کپڑے کو اہلِ تہذیب اور عام عادات کے خلاف استعمال کرنا بھی سدل میں داخل ہے مثلاً چوغہ یا شیروانی یا کرتے کی آستینوں میں ہاتھ نہ ڈالے اور پہنے بغیر ہی اپنے مونڈھوں و پیٹھ پر ڈال لے یا چادر یا کمبل اس طرح اوڑھے کہ اس کے دونوں سرے لٹکے رہیں ، اگر اس کا ایک سرا دوسرے کندھے پر ڈال لے یا اور دوسرا سرا لٹکتا رہے تو مکروہ نہیں

۲.        چادر یا کسی اور کپڑے میں اس طرح لپٹ جانا کہ کوئی جانب ایسی نہ رہے جس سے ہاتھ باہر نکل سکیں ، نماز کے علاوہ بھی بلا ضرورت ایسا کرنا مکروہ ہے اور خطرے کی جگہ سخت مکروہ ہے

۳.       آستین کہنیوں تک چڑھا کر یا دامن چڑھا کر نماز پڑھنا یعنی اگر وضو وغیرہ کے لئے آستین چڑھائی تھی اور اسی طرح نماز پڑھنے لگا تو مکروہ ہے ، اور اس کے لئے افضل یہ ہے کہ نماز کے اندر عمل قلیل سے آستین اتار لے کسی نے نماز کے اندر آستین چڑھائی، اگر کہنیوں تک چڑھائی تو عملِ کثیر ہو جانے کی وجہ سے نماز ٹوٹ جائے گی اور اس سے کم ہو تو نماز نہیں ٹوٹے گی مگر مکروہ ہے ، ایسی قمیض یا کرتہ وغیرہ پہن کر نماز پڑھنا جس کی آستین اتنی چھوٹی ہو کہ کہنیوں تک ہاتھ ننگے رہیں مکروہِ تحریمی ہے

۴.       کرتہ ہوتے ہوئے صرف تہبند یا پاجامہ پہن کر نماز پڑھنا

۵.        صافہ یا ٹوپی ہوتے ہوئے بلا عذر سستی یا بے پرواہی کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھنا

۶.        صافہ یا رومال سر پر اس طرح باندھنا کہ درمیان میں سے سر کھلا رہے ، یہ نماز کے علاوہ بھی مکروہ ہے

۷.       جنگ کے علاوہ خود و زرہ پہن کر نماز پڑھنا

۸.        کپڑے کو اس طرح پہننا کہ اس کو داہنی بغل کے نیچے سے لے کر اس کے دونوں کنارے بائیں کندھے پر ڈال لے اس کو اضطباع کہتے ہیں جو احرام کی حالت میں طوافِ عمرہ و طوافِ حج کے لئے کرتے ہیں نماز میں اس طرح کرنا مکروہ ہے

۹.        ایسے معمولی یا میلے کچیلے کپڑوں میں نماز پڑھنا جن کو پہن کر وہ دوسرے بڑے لوگوں کے پاس مجمع میں نہ جائے ، اگر اس کے پاس اور کپڑے ہوں تو مکروہِ تنزیہی ہے اگر اور کپڑے نہ ہوں تو مکروہ نہیں

۱۰.       نماز میں ناک اور منھ ڈھانپ لینا یعنی ڈھانٹھا باندھ لینا

۱۱.        نماز میں اپنے کپڑے یا ڈاڑھی یا بدن سے کھیلنا یا سجدہ میں جاتے وقت کپڑوں کو سمیٹنا(اوپر اٹھانا) خواہ عادت کے طور پر ہو یا مٹی سے بچانے کے لئے

۱۲.       نماز میں ٹوپی یا کرتے کا اتارنا یا پہننا یا موزہ نکالنا اگر عمل قلیل سے ہو تو بلا ضرورت مکروہ ہے اور اگر ضرورت ہو تو مکروہ نہیں مثلاً نماز میں ٹوپی یا صافہ وغیرہ گر پڑا تو اٹھا کر سر پر رکھ لینا افضل ہے جبکہ عمل کثیر کی ضرورت نہ پڑے

۱۳.      عمامے کے پیچ پر جو کہ پیشانی پر واقع ہو بلا عذر سجدہ کرنا مکروہِ تنزیہی ہے اور اگر عذر ہو مثلًا گرمی یا سردی سے بچاؤ کے لئے ہو تو مکروہ نہیں اور اگر پیچ اتنا موٹا اور ملائم ہے کہ اس کے نیچے زمین کی سختی معلوم نہیں ہوتی تو ہرگز نماز جائز نہیں اور اگر عمامے کے اس پیچ پر سجدہ کیا جو پیشانی پر نہیں ہے یعنی صرف سر کے پیچ پر سجدہ کیا اور پیشانی زمین پر نہ لگی تب بھی نماز جائز نہیں ہے

۱۴.      صرف پیشانی پر سجدہ کرنا اور ناک نہ لگانا بلا عذر مکروہ ہے عذر کے ساتھ مکروہ نہیں

۱۵.       بلا  عذر اپنی آستین بچھا کر اس پر سجدہ کرنا، اگر اس لئے ہو کہ چہرے کو خاک نہ لگے تو مکروہِ تنزیہی ہے اور تکبر کی وجہ سے ہو تو مکروہِ تحریمی ہے اور اگر عذر ہو مثلاً گرمی یا سردی سے بچنے کے لئے ہو تو مکروہ نہیں

۱۶.       سجدہ میں پاؤں کو ڈھانپنا

۱۷.      اسبال یعنی کپڑے کو عادت کی حد سے زیادہ بڑا رکھنا مکروہِ تحریمی ہے ، دامن اور پائنچہ میں اسبال یہ ہے کہ ٹخنوں سےنیچے ہو اور آستینوں میں انگلیوں سے آگے بڑھا ہوا ہو اور عمامہ میں یہ ہے کہ بیٹھنے میں دبے

۱۸.       ایسے کپڑے کو پہن کر نماز پڑھنا جس میں نجاست بقدرِ معافی ہو یعنی جبکہ نجاستِ غلیظہ ایک درہم سے زیادہ نہ ہو اور نجاست خفیفہ چوتھائی حصہ سے زیادہ نہ ہو

۱۹.       نماز میں سجدہ کی جگہ سے کنکریوں کا ہٹانا لیکن اگر سجدہ کرنا مشکل ہو تو ایک مرتبہ ہٹانے میں مضائقہ نہیں

۲۰.      ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالنا یا انگلیاں چٹخانا

۲۱.       بالوں کو سر پر جمع کر کے چٹلا (جوڑا) باندھ کر نماز پڑھنا یا عورتوں کی طرح مینڈھیاں گوندھ کر سر کے گرد باندھ لینا وغیرہ، اگر نماز کے اندر بالوں کا جوڑا باندھےگا تو عمل کثیر کی وجہ سے نماز فاسد ہو جائے گی

۲۲.      نماز میں کولہے یا کوکھ یا کمر وغیرہ پر اپنا ہاتھ رکھنا

۲۳.     دائیں بائیں اس طرح دیکھنا کہ تمام یا کچھ منھ قبلے کی طرف سے پھر جائے مکروہِ تحریمی ہے جبکہ سینہ نہ پھرے لیکن اگر اتنی دیر تک منھ پھیرے رہا کہ دور سے دیکھنے والا سمجھے کہ یہ شخص نماز میں نہیں تو نماز فاسد ہو جائے گی، بلا منھ پھیرے گوشئہ چشم سے دیکھنا بلا ضرورت ہو تو مکروہِ تنزیہی ہے اور اگر ضرورت ہو بلا کراہت مباح ہے

۲۴.     نماز میں آسمان کی طرف نظر اٹھانا

۲۵.     نماز میں قصداً جمائی لینا مکروہِ تحریمی ہے اور خود آئے تو حرج نہیں مگر روکنا مستحب ہے اور جمائی روک سکنے کی حالت میں نہ روکنا مکروہِ تنزیہی ہے

۲۶.      نماز میں انگڑائی لینا یعنی سستی اتارنا مکروہِ تنزیہی ہے

۲۷.     آنکھوں کا بند کرنا مکروہِ تنزیہی ہے لیکن اگر نماز میں دل لگنے کے لئے ہو تو مکروہ نہیں لیکن پھر بھی تمام نماز میں بند نہ رکھے

۲۸.     پیشاب یا پاخانہ یا دونوں کی حاجت ہونے کی حالت میں یا غلبہ ریح کے وقت نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے نماز کی حالت میں ان کا غلبہ ہو تب بھی نماز پڑھتے رہنا مکروہِ تحریمی ہے اس لئے وہ نماز کو توڑ دے اور بعد فراغت وضو کر کے نئے سرے سے پڑھے ورنہ گناہگار ہو گا اور نماز کا اعادہ کرنا واجب ہو گا خواہ وہ نماز فرض و واجب ہو یا سنت و نفل

۲۹.      نماز میں دامن یا آستین سے اپنے آپ کو ہوا کرنا اور اگر عمل کثیر ہو گیا یعنی تین بار ہو گیا تو نماز فاسد ہو جائے گی پنکھا جھلنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے

۰۳.     نماز میں قصداً کھانسنا اور کھنکارنا

۳۱.      نماز میں تھوکنا اور سنکنا

۳۲.     نماز میں تشہد اور دونوں سجدوں کے درمیان کتے کی طرح بیٹھنا یعنی رانیں کھڑی کر کے بیٹھنا اور رانوں کو پیٹ سے اور گھٹنوں کو سینے سے ملا لینا اور ہاتھوں کو زمین پر رکھ لینا

۳۳.    نماز میں بلا عذر چار زانو( آلتی پالتی مار کر) بیٹھنا مکروہِ تنزیہی ہے

۳۴.    مردوں کا سجدے کی حالت میں دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک زمین پر بچھا دینا

۳۵.    ہاتھ یا سر کے اشارہ سے سلام کا جواب دینا مکروہِ تنزیہی ہے

۳۶.     کسی ایسے آدمی کی طرف نماز پڑھنا جو نمازی کی طرف منھ کئے ہوئے بیٹھا ہو جبکہ درمیان میں کوئی حائل نہ ہو اور اس طرح نماز پڑھنے والے کی طرف منھ کر کے بیٹھنا بھی مکروہ ہے ، پس اگر کسی کے منھ کی طرف نماز پڑھنا نمازی کے فعل سے ہے تو کراہت نمازی پر ہے ورنہ اس شخص پر جس نے نمازی کی طرف منھ کیا

۳۷.    کسی بیٹھے یا کھڑے ہوئے شخص کی پیٹھ کی طرف یا سوئے ہوئے شخص کی طرف نماز پڑھنا مکروہ نہیں لیکن اس سے بچنا بہتر ہے

۳۸.    منھ میں روپیہ یا پیسہ یا کوئی اور چیز رکھ کر نماز پڑھنا جس کی وجہ سے قرأت کرنے میں رکاوٹ نہ ہو مکروہِ تنزیہی ہے اور اگر اس سے قرأت میں رکاوٹ ہو یا حروف و الفاظ صحیح ادا نہ ہو سکیں تو نماز فاسد ہو جائے گی

۳۹.     نماز کے اندر آیتیں یا سورتیں یا تسبیحیں انگلیوں پر یا تسبیح ہاتھ میں لے کر شمار کرنا مکروہِ تنزیہی ہے خواہ نماز نفل ہی ہو

۴۰.     ایسی جگہ نماز پڑھنا کہ نمازی کے سر کے اوپر چھت وغیرہ میں یا اس کے سامنے یا دائیں یا بائیں یا پیچھے یا سجدے کی جگہ کسی جاندار کی تصویر ہو خواہ وہ تصویر لٹکی ہوئی ہو یا گڑی ہوئی ہو یا دیوار یا پردے وغیرہ پر منقوش ہو، سامنے ہونے میں سب سے زیادہ کراہت ہے پھر سر پر ہونے میں پھر داہنی طرف میں پھر بائیں طرف میں پھر پیچھے ہونے میں ایسا کپڑا پہن کر نماز پڑھنا جس پر کسی جاندار کی تصویر ہو، نماز کو علاوہ بھی اس کا پہننا مکروہ ہے

۴۱.      تنور یا بھٹی جس میں آگ جل رہی ہو یا کوئی اور چیز جس کو کافر پوجتے ہوں نمازی کے سامنے ہونا، لیکن چراغ یا قندیل یا موم بتی کا سامنے ہونا مکروہ نہیں ہے

۴۲.     اگر نمازی کے سامنے یا سر کے اوپر قرآن مجید یا تلوار یا کوئی اور ایسی چیز ہو جس کی پوجا نہیں کی جاتی تو کراہت نہیں

۴۳.    امام کا محراب کے اندر اکیلا کھڑا ہونا جبکہ دونوں قدم بھی اندر ہوں ، اگر دونوں قدم باہر ہوں تو مکروہ نہیں ، اسی طرح اگر امام کے ساتھ محراب کے اندر مقتدی بھی ہوں تو مکروہ نہیں

۴۴.    امام کو دروازوں اور ستونوں کے درمیان کی جگہ میں اکیلا کھڑا ہونا اور امام کو بلا ضرورت محراب یعنی وسطِ صف سے ہٹ کر کھڑا ہونا

۴۵.     امام کا ایک ہاتھ اونچی جگہ پر اکیلا کھڑا ہونا، اگر اس کے ساتھ کچھ مقتدی بھی ہوں تو مکروہ نہیں اور ایک ہاتھ سے کم بلندی ہو تو اس پر امام کا اکیلا کھڑا ہونا مکروہِ تنزیہی ہے ، اسی طرح اس کے برعکس اکیلے امام کا نیچے کھڑا ہونا اور مقتدیوں کا بلندی پر کھڑا ہونا مکروہ ہے لیکن یہ کراہتِ تنزیہی ہے کیونکہ اس کی نہی حدیث شریف میں وارد نہیں ہے

۴۶.     مقتدی کا بلا عذر اکیلا بلند جگہ پر کھڑا ہونا اور مقتدی کا ایسی صف کی پیچھے اکیلا کھڑا ہونا جس میں خالی جگہ ہو

۴۷. تنہا یعنی جماعت کے بغیر نماز پڑھنے والے کو جماعت کی صفوں کے درمیاں میں کھڑا ہونا

 

 

 

 

 

نمازی کے آگے سے گزرنے اور سترے کے مسائل

 

۱.         نماز پڑھنے والے کی سجدے کی جگہ میں سے کسی کا گزرنا مکروہِ تحریمی اور سخت گناہ ہے لیکن اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی میدان یا بہت بڑی مسجد میں سجدے کی جگہ تک گزرنا منع ہے یعنی جہاں تک قیام کی حالت میں سجدے کی جگہ پر نظر جمائے ہوئے نگاہ پھیلتی ہو، عام چھوٹی بڑی مسجدوں میں قبلے کی دیوار تک آگے سے گزرنا مکروہ و منع ہے

۲.        چبوترے یا چھت یا تخت وغیرہ اونچی جگہ پر نمازی ہو اگر وہ گزرنے والے کے قد سے زیادہ اونچی ہو تو مکروہ نہیں اور اس سے کم ہو تو مکروہ ہے

۳.       اگر نمازی کے آگے سترہ ہو تو گزرنا مکروہ نہیں سترے کی لمبائی کم از کم ایک ہاتھ شرعی اور موٹائی کم از کم ایک انگلی کے برابر ہو اس سے پتلی ہو تب بھی کافی ہے اور سترہ نمازی کے قدم سے تقریباً تین ہاتھ کے فاصلہ پر ہونا سنت ہے زیادہ دور نہ ہو، بالکل سیدھ میں بھی نہ ہو کچھ دائیں یا بائیں ہو، داہنی ابرو کی سیدہ میں ہونا افضل ہے

۴.       اگر لکڑی کا گاڑنا ممکن نہ ہو تو لمبائی میں زمین پر ڈال دے اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ایک خط ہی کھینچ دے

۵.        اگر اگلی صف میں جگہ خالی ہو اور پیچھے صفیں ہوں تو نمازی کو خالی جگہ تک جانے کے لئے لوگوں کی گردن پھلانگ کر جانا اور آگے سے گزرنا جائز ہے مکروہ نہیں

۶.        بڑی نہر یا بڑا حوض جبکہ چھوٹی مسجد میں ہو سترہ نہیں بن سکتے اگر بہت بڑی مسجد یا میدان میں ہوں تو سترہ بن سکتے ہیں ، کنواں چھوٹی مسجد میں سترہ بن سکتا ہے

۷.       امام کا سترہ سب مقتدیوں کے لئے کافی ہے پس جب امام کے آگے سترہ ہو تو صف کے سامنے سے گزرنا مکروہ نہیں مسبوق کے لئے بھی امام کے سلام کے بعد یہی حکم ہے کہ اب بھی امام کا سترہ اس کے لئے کافی ہے کیونکہ نماز شروع کرتے وقت کا اعتبار ہے

۸.        خانہ کعبہ کے اندر یا مقام ابراھیم کے پیچھے یا مطاف (طواف کی جگہ) کے حاشیہ کے اندر نماز پڑھنے والے کے آگے سے گزرنا منع و مکروہ نہیں ہے

۹.        بلا ضرورت اپنے ہاتھ میں کوئی چیز تھام کر نماز پڑھنا مکروہ ہے اگر ضرورت ہو مثلاً کوئی ایسی جگہ ہے کہ اس کے بغیر حفاظت ممکن نہیں تو مکروہ نہیں ہے

۱۰.       ایسی جگہ نماز پڑھنا جہاں نجاست سامنے ہو یا نجاست کے ہونے کا گمان کیا جاتا ہو مثلاً قبرستان یا حمام وغیرہ ہو

۱۱.        نمازی کے نزدیک سامنے یعنی جہاں تک بغیر سترہ گزرنا منع ہے قبریں ہوں اگر اس سے زیادہ دور ہوں یا سترہ حائل ہو یا قبریں دائیں یا بائیں یا پیچھے ہوں تو مکروہ نہیں ، اسی طرح اگر قبرستان میں کوئی جگہ نماز کے لئے بنائی گئی ہو تو اس میں بھی نماز پڑھنا مکروہ نہیں

۱۲.       خانہ کعبہ کی چھت پر نماز پڑھنا اس طرح مسجد کی چھت پر بلا ضرورت نماز پڑھنا

۱۳.      مسجد میں کوئی جگہ اپنی نماز کے لئے مقرر کر لینا

۱۴.      نماز میں بلا عذر چند قدم چلنا جبکہ پے درپے نہ ہو اگر عذر سے ہو تو مکروہ نہیں اور پے در پے تین قدم چلنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے

۱۵.       بلا عذر جلدی میں سب سے پیچھے کھڑا ہو کر تکبیر تحریمہ کہنا اور پھر تھوڑا چل کر صف میں مل جانا اور عذر کے ساتھ ہو تو مکروہ نہیں

۱۶.       بلا عذر رکوع میں گھٹنوں پر اور سجدے میں زمین پر ہاتھ نہ رکھنا یا نماز میں اور جس جس موقع پر جہاں جہاں ہاتھ رکھنا سنت ہے وہاں نہ رکھنا

۱۷.      تکبیر تحریمہ و رکوع کے وقت سر کو نیچے جھکانا یا اونچا کرنا

۱۸.       تکبیر تحریمہ کے وقت دونوں ہاتھ کانوں سے اوپر اٹھانا یا کندہوں سے نیچے تک اٹھانا

۱۹.       رکوع و سجود میں سنت کے خلاف کرنا مثلاً سجدے میں دونوں رانوں کو پیٹ سے الگ نہ رکھنا وغیرہ

۲۰.      اقامت کے وقت امام کے آنے سے پہلے صفوں کا کھڑا ہونا

۲۱.       امام کا نماز میں اس قدر جلدی کرنا کہ مقتدی رکوع و سجود وغیرہ میں مسنونہ اذکار کو پورا نہ کر سکے

۲۲.      مقتدی کا امام کے پیچھے قرأت کرنا

۲۳.     نماز میں بلا ضرورت مکھیوں یا مچھروں کا ہٹانا اگر ضرورت کے وقت عمل قلیل کے ساتھ ہو تو مکروہ نہیں

۲۴.     نماز میں بلا ضرورت عمل قلیل بھی مکروہ ہے

۲۵.     گلے میں ترکش یا کمان ڈال کر نماز پڑھنا مکروہ نہیں لیکن اگر اس کی حرکت سے نماز میں خلل آتا ہو تو مکروہ ہے

۲۶.      نماز میں کسی خوشبودار چیز کا سونگھنا

۲۷.     سجدے وغیرہ میں اپنے ہاتھ پاؤں کی انگلیاں قبلے کی طرف نہ رکھنا

۲۸.     پرائے کھیت میں جس میں فصل کاشت کی ہوئی ہو یا ہل چلایا ہوا ہو بلا اجازت نماز پڑھنا مکروہ ہے

۲۹.      کفار کے عبادت خانوں میں نماز پڑھنا

۰۳.     عام راستہ، کوڑا ڈالنے کی جگہ مذبح، قبرستان، غسل خانہ، حمام، نالہ مویشی خانہ خصوصاً اونٹ باندھنے کی جگہ، اصطبل، پاخانہ کی چھت ان سب مواضع میں نماز پڑھنا مکروہ ہے

۳۱.      ایسی چیز کے سامنے نماز پڑھنا مکروہ ہے جو دل کو مشغول رکھے مثلاً زینت و لہو و لعب وغیرہ

۳۲.     نماز میں جوں یا مچھر کو پکڑنا جب کہ تکلیف نہ پہنچائے مکروہ ہے اور تکلیف پہنچاتے ہوں تو پکڑ کر مار ڈالنے میں مضائقہ و کراہت نہیں جبکہ مسجد کے اندر ہو اور عمل کثیر نہ کرنا پڑے، مسجد کے باہر ہو تو بھی مارنے میں مضائقہ نہیں لیکن دفن کرنا اولیٰ ہو اور مسجد کے باہر جوں کو پکڑ کر زندہ چھوڑ دینا بھی مکروہ ہے ، مچھر کو زندہ چھوڑ دینے میں کراہت نہیں

۳۳.    فرض نمازوں میں قصداً الٹا پڑھنا یعنی ترتیب کے خلاف قرآن مجید پڑھنا اگر بھول کر خلاف ترتیب ہو جائے تو مکروہ نہیں اب اسی کو پورا کر لے اب اس کو چھوڑ کر ترتیب صحیح کر کے پڑھنا مکروہ ہے ، نفل نماز میں قضداً بھی خلاف ترتیب پڑھنا مکروہ نہیں ہو

۳۴.    سجدے یا رکوع میں بلا ضرورت تین تسبیح سے کم کہنا مکروہِ تنزیہی ہے اگر ضرورتاً ہو تو مکروہ نہیں

۳۵. قالین اور بچھونوں پر نماز پڑھنا مکروہ نہیں ، جب کہ پیشانی قرار پکڑ لے اور اگر اتنے نرم ہوں کہ پیشانی قرار نہ پکڑے تو نماز جائز نہ ہو گی

۳۶.     نماز کے لئے دوڑ کر چلنا

۳۷.    سجدے کی جگہ قدموں کی جگہ سے ایک بالشت سے زیادہ اونچی ہو تو نماز درست نہیں ، ایک بالشت یا اس سے کم ہو تو نماز درست ہے لیکن بلا ضرورت ایسا کرنا مکروہ ہے

۳۸.    فرض نماز میں دیوار یا عصا وغیرہ کسی چیز کے سہارے پر کھڑا ہونا مکروہ ہے نوافل میں مکروہ نہیں

۳۹.     رکوع میں جاتے وقت رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرنا اسی طرح تکبیر اولیٰ اور تکبیراتِ عیدین و دعائے قنوت کے علاوہ کسی اور موقع پر نماز میں رفع یدین کرنا یعنی دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھانا

۴۰.     فرض نماز میں ایک سورت کو بار بار پڑھنا مکروہ ہے نفل نماز میں مکروہ نہیں ایک ہی آیت کو بار بار پڑھنا فرض نماز میں مکروہ ہے جب کہ عذر نہ ہو اگر عذر ہو تو مضائقہ نہیں اور تنہا نفل نماز پڑھنے میں مکروہ نہیں ، نفل نماز کی دونوں رکعتوں میں ایک ہی سورة کا تکرار مکروہ نہیں فرضوں میں بلا عذر ہو تو مکروہ ہے عذر کے ساتھ مکروہ نہیں

۴۱.      ایک ہو سورة کی کچھ آیتیں ایک جگہ سے ایک رکعت میں پڑھنا اور دوسری رکعت میں دوسری جگہ سے پڑھنا جبکہ درمیان میں دو آیتوں سے کم فاصلہ ہو مکروہِ تنزیہی ہے اگر مسلسل پڑھی جائیں اور درمیان میں کوئی آیت نہ چھوڑی جائے یا دو آیتوں سے زیادہ چھوڑی جائے تو مکروہ نہیں

۴۲.     ثنا و اعوذ باللہ بسم اللہ آمین و تسبیحات رکوع و سجود و التحیات و درود و دعا کا جہر سے پڑھنا، قرأت کو رکوع کے اندر پورا کرنا سجدے سے اٹھتے وقت سیدھا کھڑا ہونے سے پہلے ہی قرأت شروع کر دینا اور رکن تبدیل کرنے کی تکبیر وغیرہ کا رکن پوری طرح تبدیل کر لینے کے بعد کہنا یا تسبیحاتِ رکوع و سجود سر اٹھانے کے بعد پورا کرنا یہ سب امور مکروہِ تنزیہی ہیں

۴۳.    بلا عذر بچہ کو اٹھا کر نماز پڑھنا

۴۴.    فرضوں میں اور جماعت کے ساتھ نفل نماز میں آیت رحمت پر رحمت کی دعا مانگنا اور آیت دوزخ و عذاب پر دوزخ و عذاب سے پناہ مانگنے کی دعا پڑھنا مکروہ ہے ، اکیلا نفل پڑھے تو یہ مکروہ نہیں

۴۵.     نماز میں کبھی داہنی طرف اور کبھی بائیں طرف کو جھکنا اور بلا عذر کبھی ایک پاؤں پر اور کبھی دوسرے پاؤں پر زور دینا عذر کے ساتھ مثلا ً نوافل میں طویل قرأت کی وجہ سے ہو تو مضائقہ نہیں ، بلا عذر ایک پاؤں پر کھڑا ہونا بھی مکروہ ہے اور قیام کے لئے اٹھتے وقت پاؤں آگے بڑھانا بھی مکروہ ہے بیٹھتے وقت داہنی اعضائ پر اٹھتے وقت بائیں اعضائ پر زور دینا مستحب ہے اور اس کی خلاف مکروہ تنزیہی ہے

۴۶.     امام کو رکوع میں شامل ہونے والے مقتدی کے لئے دیر کرنا تاکہ وہ شامل ہو جائے اگر اس کو پہنچانتا ہے تو مکروہِ تحریمی ہے اور اگر نہیں پہنچانا تو بقدر ایک یا دو تسبیح دیر کرنے میں مضائقہ نہیں پھر بھی اس کا ترک اولیٰ ہے

۴۷.    جب بھی بھوک لگی ہو اور کھانا تیار ہو تو پہلے کھانا کھا لے پھر نماز پڑھے پہلے نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے لیکن اگر وقت بالکل تنگ ہو کہ صرف فرض پڑھنے کی مقدار وقت ہے تو پہلے فرض ادا کر لے پھر کھانا کھائے اسی طرح اگر شدید بھوک ہے کہ خشوع و خضوع قائم نہ رہ سکے گا تو جماعت ترک کر دے اور کھانا کھا کر اکیلا نماز پڑھے اور اگر اس قدر شدید بھوک نہ ہو کہ بےچین کر دے تو جماعت سے نماز پڑھے پھر کھانا کھائے

۴۸.     صبح طلوع ہونے کے بعد ذکر خیر کے سوا اور کسی قسم کا کلام کرنا مکروہ ہے

۴۹.     اپنے جوتے یا کسی اور چیز کا نماز میں اپنے پیچھے رکھنا مکروہ ہے کیونکہ دل اس کی طرف مشغول رہے گا

فائدہ:

ان مکروہات میں سے اگر کوئی مکروہ نماز میں پایا جائے تو نماز ادا ہو جاتی ہے لیکن چاہیے کہ نماز کو دوبارہ اس طرح پڑھیں کہ کوئی کراہت کی وجہ باقی نہ رہے پس اگر نماز کراہتِ تحریمی سے ادا ہوئی تھی تو اس کا لوٹانا واجب ہے اور اگر کراہتِ تنزیہی سے ادا ہوئی تو اس کا اعادہ مستحب ہے

 

 

 

مسائلِ مساجد کا بیان

 

 

۱. مسجد کا دروازہ بند کرنا اور قفل لگانا مکروہِ تحریمی ہے لیکن اگر مسجد کا مال و اسباب جاتے رہنے کا خوف ہو تو مکروہ نہیں لیکن نماز کے اوقات میں بند کرنا اس صورت میں بھی مکروہ ہے

۲.        مسجد کی چھت پر پیشاب یا پاخانہ کرنا یا جماع کرنا جنبی مرد و عورت یا حیض و نفاس والی عورت کا مسجد کی چھت کے اوپر جانا مکروہِ تحریمی ہے جیسا کہ مسجد کے اندر مکروہِ تحریمی ہے

۳.       مسجد کی چھت پر بلا ضرورت چڑھنا یا نماز پڑھنا مکروہ ہے مگر اس سے اعتکاف باطل نہیں ہوتا

۴.       مسجد کو بلا عذر راستہ بنا لینا مکروہ ہے اگر کسی عذر کی وجہ سے مسجد میں سے گزرتا ہے تو جائز ہے لیکن اس کو چاہئے ہر روز جب وہ ایک یا کئی مرتبہ گزرے تو ایک مرتبہ اس میں تحیتہ المسجد پڑھ لیا کرے بلا عذر گزرنے کی عادت والا بھی اگر اعتکاف کی نیت کر لیا کرے تو گناہ سے بچ جائے گا

۵.        مسجد کو ہر قسم کی گندگی و خرابی سے بچانا چاہئے اور نجاست کا مسجد میں لے جانا مکروہ ہے مثلاً ناپاک تیل مسجد کے اندر جلانا یا ناپاک گارے سے لیپنا، کلی کرنا، وضو کرنا، وغیرہ

۶.        ایسے بچوں اور پاگلوں کو جن سے مسجد کے ناپاک ہونے کا گمان غالب ہو مسجد میں لے جانا مکروہِ تحریمی ہے اور اگر یہ گمان غالب نہ ہو تو مکروہِ تنزیہی ہے

۷.       مسجد میں جوتیاں اور موزے لے جانے والے کو چاہئے کہ اچھی طرح صاف کر کے لے جائے

۸.        مسجد میں کچا لہسن یا پیاز یا مولی وغیرہ کھانا یا کھا کر جانا جب تک اس کی بو باقی ہو مکروہِ تحریمی ہے کوڑھ اور سفید داغ والے اور گندہ دہن و گندہ بغلی کی بیماری والے اور غیبت اور چغلی کرنے والے وغیرہ کو مسجد میں آنے سے منع کیا جائے گا اسی طرح مٹی کا تیل اور وہ دیا سلائی جس کے رگڑنے سے بدبو اڑتی ہو مسجد میں جلانا مکروہ ہے

۹.        اگر کوئی اپنے مال سے مسجد میں نقش و نگار بنائے یا چونا گچ کرے اور مسجد کی تعظیم کی نیت ہو اور قبلے والی دیوار و محراب پر نہ ہو تو مکروہ نہیں اور اگر قبلے والی دیوار اور محراب پر ہو تو مکروہِ تنزیہی ہے کیونکہ اس سے نمازیوں اور امام کے دل کو مشغولی ہو گی بلکہ دائیں بائیں کا بھی یہی حکم ہے وقف کے مال سے نقش و نگار کرنا حرام ہے

۱۰.       مسجد کی دیواروں اور محرابوں پر قرآن مجید کی آیتوں اور سورتوں کا لکھنا بہتر نہیں

۱۱.        مسجد کے اندر کنواں نہیں کھودنا چاہئے اور اگر کنواں پہلے سے موجود ہو اور پھر وہ مسجد میں آ جائے تو اس کو باقی رکھنے میں مضائقہ نہیں

۱۲.       مسجد میں درخت لگانا مکروہ ہے اگر مسجد کے فائدہ کے لئے ہو تو مضائقہ نہیں

۱۴.      مسجد کا چراغ گھر نہ لے جائے گھر سے مسجد میں چراغ لے جائے مسجد کا چراغ تہائی رات گئے تک روشن رکھنے میں مضائقہ نہیں اس سے زیادہ نہ رکھے، لیکن اگر وقف کرنے والے نے یہ شرط کی ہو یا وہاں اس کی عادت ہو تو مضائقہ نہیں

۱۵.       مسجد میں سوال کرنا مطلقاً حرام ہے اور اس سائل کو دینا ہر حال میں مکروہ ہے بعض کے نزدیک مختار یہ ہے کہ اگر سائل لوگوں کی گردنیں پھلانگے تو مکروہ ہے ورنہ نہیں

۱۶.       گمشدہ چیز کے متعلق مسجد میں پوچھ گچھ کرنا مکروہ ہے

۱۷.      مسجد میں شعر پڑھنا اگر حمد و نعت و وعظ و نصیحت وغیرہ کے لئے ہو تو بہتر ہے اگر گزشتہ زمانوں اور امتّوں کا ذکر ہے تو مباح ہے اگر کسی مسلمان کی ہجو یا بیوقوفی کی باتیں ہوں تو حرام ہے اگر خدوخال وغیرہ کا وصف ہو تو مکروہ ہے

۱۸.       مسجد میں خرید و فروخت کرنا منع و مکروہ ہے البتہ اعتکاف کرنے والے کے لئے جائز ہے جبکہ اپنی اور اپنے بال بچوں کی ضرورت کے لئے ہو تجارت کے لئے نہ ہو اور وہ چیز مسجد میں نہ لائی گئی ہو، ضرورت سے زیادہ اس کے لئے بھی جائز نہیں

۱۹.       بلند آواز سے ذکر کرنا اس وقت مکروہ ہے جبکہ اس میں ریاح کا خوف ہو یا نمازیوں یا قاریوں یا سونے والوں کو تکلیف و خلل کا خوف ہو مگر ان باتوں کا خوف نہ ہو تو مکروہ نہیں

۲۰.      مسجد میں باتوں کے لئے بیٹھنا مکروہ ہے اگرچہ وہ باتیں مباح ہوں اگر عبادت کے لئے بیٹھا ہو اور دنیا کا کلام بھی کر لیا تو مکروہ نہیں

۲۱.       چمگادڑ و کبوتروں وغیرہ کے گھونسلے مسجد کی صفائی کے لئے نوچ کر پھینکنے میں مضائقہ نہیں

۲۲.      مسجد میں ماتم کے لئے بیٹھنا مکروہ ہے

۲۳.     مسجد کا کوڑا جھاڑو دے کر ایسا جگہ نہ ڈالیں جہاں بےادبی ہو

۲۴.     مسجد میں مسافر اور اعتکاف کرنے والے کے سوا کسی اور کو کھانا پینا سونا جائز نہیں اگر کسی کو ایسا کرنا ہی پڑے تو وہ اعتکاف کی نیت کر کے مسجد میں جائے پہلے کچھ ذکر الہی کر لے یا نماز پڑھ لے، پھر کھا پی لے یا سو جائے تو مکروہ نہیں ، اور مسافر کے لئے بھی یہی بہتر ہو اس طرح ان کو اعتکاف کا ثواب بھی ملے گا

۲۵.     درزی یا کاتب یا کسی اور پیشہ ور کو مسجد میں بیٹھ کر سینا وکتابت وغیرہ اپنا پیشہ کرنا مکروہ ہے لیکن اگر مسجد کی حفاظت کے لئے وہاں بیٹھے اور ضمناً اپنا کام بھی کرتا جائے تو مکروہ نہیں

۲۶.      اگر مسجد کی چٹائی وغیرہ کا گھانس و تنکا وغیرہ نمازی کے کپڑے میں لپٹ کر آ گیا اور اس نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا تو اس کا وہاں واپس لوٹانا اس پر واجب نہیں

۲۷.     نماز کے علاوہ مسجد میں بیٹھنے میں مضائقہ نہیں لیکن اگر اس سبب سے وہاں کی کوئی چیز خراب ہو گئی تو قیمت ادا کرنی پڑے گی

۲۸.     اگر کسی نے غصب کی زمین میں مسجد بنائی تو اس میں نماز پڑھنا جائز ہے افضل نہیں ہے

۲۹.      قبلے کی طرف قصداً بلا عذر دونوں پاؤں یا ایک پاؤں پھیلانا مکروہ ہے خواہ سوتے میں ہو یا جاگتے میں اگر عذر سے یا بھول کر ایسا ہو جائے تو مکروہ نہیں ہے نابالغ کے لئے بھی یہی حکم ہے اور بےسمجھ نابالغ کو اس طرح لٹانے کا گناہ لٹانے والے پر ہو گا اسی طرح قرآن مجید اور شرعی کتابوں کی طرف بھی پاؤں پھیلانا مکروہ ہے لیکن اگر کتابیں اونچی جگہ پر ہوں تو پھر ان کی طرف پاؤں پھیلانا مکروہ نہیں ہے

۰۳.     مسجد کی مرمت و عمارت اور بوریا و چٹائی بچھانے اور لوٹے، چراغ، بتی وغیرہ کا انتظام کرنے اور اذان و اقامت کہنے اور امامت کی لیاقت ہوتے ہوئے امامت کرانے کا حق اس شخص کو ہے جس نے مسجد بنا کر اللّٰہ کے واسطے وقف کر دی ہو اور اگر وہ امامت کا اہل نہیں ہے تو اسی کی تجویز سے کوئی دوسرا شخص مقرر ہو گا اسی طرح اس کے بعد اس کی اولاد اور کنبے والے غیروں سے زیادہ حقدار ہیں

۳۱.      اگر مسجد میں وعظ اور تلاوتِ قرآن ہو رہی ہو تو عوام کے لئے وعظ کا سننا بہتر ہے

۳۲.     مسجد کی کسی جگہ کو اپنے لئے خاص کر لینا مکروہ ہے اگر کوئی شخص کسی ضرورت مثلاً وضو وغیرہ کے لئے اپنی جگہ سے اٹھ کر گیا اور اس کو جلدی ہی واپس آنا ہے تو اس کا حق فائق ہے اور دوسرے بیٹھنے والے کو وہاں سے اٹھا دینا اس کے لئے جائز ہے خاص طور پر جب کہ اپنا کپڑا وغیرہ وہاں رکھ گیا ہو

۳۳.    مسجدوں میں سب سے افضل مسجد مکہ معظمہ کی مسجد ہے جس کو مسجدالحرام کہتے ہیں کیونکہ اس میں خانہ کعبہ ہے ، اس کے بعد مسجد نبوی علٰی صاحبہا الصلوة و السلام ہے پھر بیت المقدس کی مسجد ہے جس کو مسجدِ قدس بھی کہتے ہیں پھر مسجد قبا پھر اس کے بعد ہر شہر کی جامع مسجدیں پھر محلے کی مسجدیں پھر راستے کی مسجد، اپنی محلے کی مسجد میں پنجوقتہ نماز پڑھنا اگرچہ وہاں جماعت تھوڑی ہو جامع مسجد سے افضل ہے اگرچہ وہاں جماعت بڑی ہو بلکہ اگر محلے کی مسجد میں جماعت نہ ہوئی ہو تو وہاں تنہا جائے اور اذان و اقامت کہے اور نماز پڑھے خواہ وہ اکیلا ہی ہو اس کی یہ نماز جامع مسجد کی جماعت سے افضل ہے

 

 

 

وتر کا بیان

 

 

۱.         عشا کی نماز کے بعد تین رکعت نماز وتر پڑھنا امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمتہ اللّٰہ کے نزدیک واجب ہے یہی امام صاحب کا آخری قول ہے اور یہی صحیح ہے ، وتر کے واجب ہونے کا منکر کافر نہیں ہوتا لیکن اصل نماز وتر کا منکر کافر ہونا چاہئے

۲.        اس کے پڑھنے کی تاکید فرض نمازوں کے برابر ہے قصداً یا سہواً چھوٹ جائے تو اس کی قضا واجب ہے اور بلا عذر قصداً چھوڑنا بڑا گناہ ہے اور اس کا تارک بھی فرض نمازوں کے تارک کی طرح فاسق و گناہگار ہوتا ہے

۳.       وتر کی نماز ہر زمانے میں یعنی خواہ رمضان المبارک ہو یا کوئی اور دن ہوں جہری نمازوں میں سے ہے اس لئے اگر وتر جماعت سے ادا کئے جائیں تو نمازِ وتر کی تینوں رکعتوں میں امام کو جہر کرنا واجب ہے اور اگر اکیلا پڑھے تو اس کو اختیار ہے کہ جہر کرے یا نہ کرے رمضان المبارک کے علاوہ نمازِ وتر کا جماعت سے ادا کرنا اگر تداعی کے طور پر نہ ہو اور تین سے زیادہ کی جماعت نہ ہو تو جائز ہے ورنہ مکروہِ تحریمی ہے جیسا کہ اور نوافل کا حکم ہے ، اس کی تینوں رکعتوں میں الحمد اور سورة پڑھی جاتی ہے اس لئے جماعت کی صورت میں اس کی تینوں رکعتوں میں جہر کرے

۴.       وتر کی نماز کا وقت عشا کی نماز کے بعد سے لے کر صبح صادق سے پہلے تک ہے ، جس کسی کو آخر شب میں اپنے جاگنے پر پورا بھروسہ ہو اس کو مستحب و افضل یہ ہے کہ نماز وتر آخر رات میں پڑھے اور اگر اٹھنے میں شک ہو اور قضا ہونے کا اندیشہ ہو تو عشا کی نماز کے بعد ہی پڑھ لینا چاہئے

۵.        وتر اپنے وقت میں عشا کی نماز کا تابع نہیں ہے اور عشا کی نماز کو اس سے پہلے پڑھنا ترتیب کی وجہ سے واجب ہے اور بھولنے کے عذر سے ترتیب ساقط ہو جاتی ہے اس لئے اگر کوئی شخص بھول کر نمازِ وتر عشا سے پہلے پڑھ لے تو صحیح ہو جائے گی

۶.        وتر کی نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ تین رکعتیں ایک سلام کے ساتھ پڑھی جائیں اس طرح پر کہ دو رکعتیں اور نمازوں کی طرح پڑھ کر قعدے میں بیٹھے اور التحیات پڑھ کر تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے اور اس رکعت میں الحمد شریف اور سورة پڑھ کر اللّٰہ اکبر کہتا ہوا دونوں ہاتھ تکبیر تحریمہ کی طرح کانوں تک اٹھائے اور پھر ہاتھ باندھ کر دعائے قنوت پڑھے پھر اللّٰہ اکبر کہہ کر رکوع میں جائے اور باقی نماز معمول کے مطابق پوری کرے اس کا پہلا قعدہ فرضوں کی طرح واجب ہے پس اس قعدہ میں درود و دعا نہ پڑھے اور جب تیسری رکعت میں کھڑا ہو تو ثنا و تعوذ نہ پڑھے اور اگر بھول کر قعدہ نہ کرے اور کھڑا ہو جائے تو واپس نہ لوٹے اور آخر میں سجدہ سہو کر لے جیسا کہ فرضوں میں حکم ہے وتر کی تینوں رکعتوں میں الحمد کے بعد کوئی سورة یا کم از کم تین چھوٹی آیتیں ملانا واجب ہیں تینوں رکعتوں میں اختیار ہے خواہ کوئی سی سورتیں پڑھے لیکن کبھی کبھی پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری میں قل یا ایھاالکافرون اور تیسری رکعت میں قل ھو اللّٰہ احد پڑھنا مستحب ہے

۷.       امام ہو یا مقتدی یا منفرد ہو سب کو دعائے قنوت آہستہ پڑھنی چاہئے خواہ وہ نماز وتر ادا ہو یا قضا اور خواہ رمضان المبارک میں ہو یا اور دنوں میں ہو سب جگہ یہی حکم ہے اور یہ آہستہ پڑھنا واجب نہیں بلکہ سنت ہے

۸.        قنوت کی کوئی دعا مقرر نہیں لیکن مشہور دعا کا پڑھنا اولی اور سنت ہے اور وہ یہ ہے

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَستَعِینُکَ وَ نَستَغفِرُکَ وَنُو مِنَ بِکَ وَ نَتَوَکَّلُ عَلَیکَ وَ نُثنِی عَلَیکَ الخَیرَ وَ نَشکُرُکَ وَلَا نَکفُرُکَ وَنَخَلَعُ وَنَترَکَ مَن یَّفجُرُکَ اَللّٰھُمَّ اِیَّاکَ نَعبُدُ وَ لَکَ نُصَلَّی وَ نَسجُدُ وَ اِلَیکَ نَسعٰی وَنَحفِدُ وَنَرَ جُوا رَحمَتَکَ وَ نَخشٰی عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِالکُفَّارِ مُلحِقُ ط

اس کے بعد یہ دعا بھی پڑھ لے تو بہتر و افضل ہے

اَللّٰھُمَّ اھدِنِی فِیمَن ھَدَایتَ وَعَافِنِی فِیمَن عَافَیتَ وَ تَوَلَّنِی فِیمَن تَوَلَّیتَ وَ بَارَکَ لِی فِیمَا اَعطَیتَ وَقِنِی شَرَّمَا قَضَیتَ فَاِنَّکَ تَقضِی وَلَا یُقضٰی عَلَیکَ وَاِنَّہُ لَا یَذُلُّ مَن وَّ الَیتَ وَلَا یَعِزُّ مَن عَادَیتَ تَبَارَکتَ رَبَّنَا وَ تَعَالَیتَ نَستَغفِرُکَ وَنَتُوبَ اِلَیکَ ط

۹.        اگر دعا قنوت یاد نہ ہو تو یہ دعا پڑھ لیا کرے

ربنا اتنا فی الدنیا حسنت و فی الا خرةِ حسنت و قنا عذاب النار ط

یا اللّٰھم اغفرلی تین دفعہ کہہ لے یا تین دفعہ یا رب کہہ لے تو نماز ہو جائے گی لیکن مشہور دعائے قنوت کو جلدی یاد کر لے

۱۰. مقتدی قنوت میں امام کی متابعت کرے پس اگر مقتدی نے دعائے قنوت پوری نہیں پڑھی کہ امام رکوع میں چلا گیا تو مقتدی دعائے قنوت کو چھوڑ دے اور رکوع میں چلا جائے اور مقتدی نے قنوت بالکل نہیں پڑھی تو جلدی سے مختصر دعا مثلاً اللھم الغفرلی تین بار کہ کر رکوع میں مل جائے اور اگر اس قدر بھی نہ ہو سکے تو چھوڑ دے اور رکوع میں چلا جائے

۱۱.        اگر دعائے قنوت پڑھنا بھول گیا اور رکوع میں یاد آیا تو صحیح یہ ہے کہ رکوع میں قنوت نہ پڑھے اور قیام کی طرف بھی نہ لوٹے اور آخر میں سجدہ سہو کر لے اور اگر قیام کی طرف لوٹا اور قنوت پڑھی تو رکوع کا اعادہ نہ کرے اور سجدہ سہو کر لے لیکن اُسے قیام کی طرف لوٹنا برا ہے اور اگر اس صورت میں رکوع کا اعادہ بھی کر لیا اور سجدہ سہو کر لیا تب بھی نماز صحیح ہو گی لیکن یہ دوبارہ رکوع کرنا لغو ہو گا اور اس حالت میں کوئی نیا مقتدی شامل ہونے والا اس رکعت کو پانے والا نہیں ہو گا خوب سمجھ لیجئے اور اگر رکوع سے سر اٹھانے کے بعد یاد آیا کہ قنوت بھول گیا ہے تو بالا اتفاق قنوت کی طرف نہ لوٹے اور سجدہ سہو کر لے

۱۲.       اگر الحمد کے بعد قنوت پڑھ کر رکوع کر دیا اور سورة ترک ہو گئی پھر رکوع میں یاد آیا تو رکوع سے واپس لوٹے اور سورة پڑھے اور قنوت و رکوع کا اعادہ کرے اور سجدہ سہو کرے اور اگر الحمد چھوڑ دی تو بھی واپس لوٹے اور الحمد کے ساتھ سورة اور قنوت و رکوع کا اعادہ کرے اور سجدہ سہو کرے ان صورتوں میں اگر رکوع کا اعادہ نہ کیا تو نماز درست نہیں ہو گی

۱۳.      مسبوق کو چاہئے کہ امام کے ساتھ قنوت پڑھے پھر بعد میں نہ پڑھے اور اگر تیسری رکعت کے رکوع میں شامل ہو اور امام کے ساتھ قنوت نہیں پڑھی تو اپنی بقیہ نماز میں قنوت نہ پڑھے کیونکہ امام کا پڑھنا قرأت کی طرح اس مقتدی کے لئے کافی ہو گیا

۱۴.      اگر وتر کسی ایسے امام کے پیچھے پڑھے جو رکوع کے بعد قومہ میں قنوت پڑھتا ہے جیسے شافعی المذہب امام کے پیچھے تو حنفی مقتدی قنوت میں اس امام کی متابعت کرے اور قومہ میں اس کے ساتھ پڑھے لیکن اگر وہ امام تین وتر ایک سلام کے ساتھ نہ پڑھتا ہو تو اس کے پیچھے وتر نہ پڑھے بلکہ اکیلا پڑھ لے

۱۵.       اگر فجر کی نماز میں شافعی مذہب کے امام نے قنوت پڑھی تو حنفی مقتدی نہ پڑھے بلکہ ہاتھ لٹکائے ہوئے اتنی دیر کھڑا رہے یہی صحیح ہے

 

 

قنوتِ نازلہ

 

۱.         جب مسلمانوں پر کوئی عام اور عالمگیر مصیبت نازل ہو جائے مثلاً غیر مسلم حکومتوں کی طرف سے حملہ اور تشدد ہونے لگے اور دنیا کے سر پر خوفناک جنگ چھا جائے یا دیگر بلاؤں اور بربادیوں اور ہلاکت خیز طوفانوں میں مبتلا ہو جائے یا طاعون کی وبا پھیل جائے تو ایسی مصیبت کے دفعیہ کے لئے فرض نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھی جائے اور جب تک وہ مصیبت دفع نہ ہو جائے یہ عمل برابر جاری رہے اس کا جواز جمہور ائمہ کے نزدیک عموماً اور حنفیہ کے نزدیک خصوصاً باقی ہے اور منسوخ نہیں ہے اور اس کے ساتھ توبہ و استغفار کی کثرت اور ہر قسم کے گناہوں سے پرہیز اور حقوق العباد کی ادائگی کا پورا پورا لحاظ رکھیں اور ہر بات میں شریعتِ مقدسہ کی پابندی کا خیال رکھیں اور اخلاص و خشوع و خضوع سے دعا کریں اللّٰہ پاک اس .عام بلا و مصیبت سے نجات عطا فرمائے گا وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز

۲.        احناف کی نزدیک تین جہری نمازوں میں قنوتِ نازلہ کا پڑھنا مذکور ہے دیگر ائمہ خصوصاً شافعی پانچوں نمازوں میں اس کو جواز کے قائل ہیں اس لئے پانچوں نمازوں میں پڑھنے والوں پر اعتراض نہ کیا جائے

۳.       اولٰی مختار یہ ہے کہ قنوتِ نازلہ رکوع کے بعد پڑھی جائے پس فجر کی دوسری رکعت، مغرب کی تیسری رکعت اور عشا کی چوتھی رکعت میں رکوع کے بعد سمع اللّٰہ لمن حمدہ کہہ کر امام دعائے قنوت پڑھے اور مقتدی آمین کہتے رہیں دعا سے فارغ ہو کر اللّٰہ اکبر کہہ کر سجدے میں جائیں اگر دعائے قنوت مقتدیوں کو یاد ہو تو بہتر یہ ہے کہ امام بھی آہستہ پڑھے اور سب مقتدی بھی آہستہ پڑھیں اور اگر مقتدیوں کو یاد نہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ امام دعائے قنوت جہر سے پڑھے اور سب مقتدی آہستہ سے آمین کہتے رہیں دعائے قنوت کے وقت ہاتھ ناف پر باندھے رہیں یہی اولٰی ہے اور اگر ہاتھ چھوڑ کر پڑھیں یا دعا کی طرح سینے کے سامنے ہاتھ اٹھا کر پڑھیں تب بھی جائز ہے

۴.       دعائے قنوتِ نازلہ جماعت کے ساتھ فرض نماز میں پڑھی جائے منفرد نہ پڑھے

:دعائے قنوتِ نازلہ یہ ہے

اَللَّھُمَ اھدنَا فِیمَن ھَدَیتَ ط وَعَافِنَا فِیمَن عَافَیتَ ط وَتَوَلَنَا فِیمَن تَوَلَّیتَ ط وَبَارِک لَنَا فِیمَااَعطَیتَ ط وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَیتَ ط اِنَّکَ تَقضِی وَلَا یُقضَی عَلَیکَ ط وَاِنَّہُ لَا یَذِلُّ مَن وَّ الَیتَ ط وَلَا یَعِزُّ مَن عَادَیتَ ط تَبَارکتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیتَ ط نَستَغفِرُکَ وَنَتُوبُ اِلَیکَ ط وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی النَّبّیِ الکَرِیم ط اَلّٰلھُمَّ اغفِر لَنَا وَلِلمُومِنِینَ وَ المُومِنَاتِ وَ المُسلِمِینَ وَالمُسلِمَاتِ ط وَاَلِّف بَینَ قُلُوبِھِم ط وَاَصلِح ذَاتَ بَینَھُم ط وَانصُرنَا وَ انصُر ھُم عَلٰی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِم ط اَللّٰھُمَّ العَنِّ الکَفَرةَ الَّذِینَ یَصُدُّونَ عَن سَبِیلِکَ وَیُکَذِّبُونَ رُسُلَکَ وَیَقَاتِلُونَ اَولِیَائِ کَ ط اَللّٰھُمَّ خَالِف بَینَ کَلِمَتِھِم وَزُلزِل اَقدَامَھُم وَ اَنزِل بِھِم بَاسَکَ الَّذِی لَا تَرُدُّہ عَنِ القَومَ المُجرِمِینَ ط اِلٰہُ الحَقَّ اٰمِین ط

 

 

 

سنت اور نفل نمازوں کا بیان

 

سنن مؤکدہ

۱.         نماز فجر کے فرضوں سے پہلے دو رکعتیں

۲.        نماز ظہر اور نماز جمعہ کے فرضوں سے پہلے چار رکعتیں ایک سلام سے

۳.       نماز ظہر کے فرضوں کے بعد دو رکعتیں ، نماز جمعہ کے فرضوں کے بعد

امام ابوحنیفہ کے نزدیک چار رکعتیں ایک سلام سے سنتِ مؤکدہ ہیں اور امام ابویوسف کے نزدیک چھ رکعتیں سنتِ مؤکدہ ہیں یعنی پہلے چار رکعتیں ایک سلام سے پھر دو رکعتیں پڑھے یہی افضل ہے

۴.       مغرب کے فرضوں کے بعد دو رکعتیں

۵.        عشا کی فرضوں کے بعد دو رکعتیں ، اس طرح روزانہ بارہ رکعتیں سنت مؤکدہ ہیں اور جمعہ کے روز سولہ رکعتیں یا اٹھارہ رکعتیں ہیں

۶.        رمضان شریف میں نماز تراویح کی بیس رکعتیں سنت مؤکدہ ہیں ، سب سے زیادہ تاکید فجر کی دو رکعت سنتوں کی ہے یا سنتیں واجب کے قریب قریب ہیں اگر فجر کی سنتیں فجر کے فرضوں کے ساتھ فوت ہو جائیں یعنی فجر کی نماز ہی قضا ہو جائے اگر سورج نکلنے کے بعد دوپہر شرعی سے پہلے اسے ادا کرے تو فرضوں کے ساتھ سنتوں کو بھی قضا کرے اور اگر زوال کے بعد قضا کرے تو اس سے سنتیں ساقط ہو جائیں گی صرف فرضوں کی قضا کرے اگر صرف سنتیں قضا ہوئی ہوں تو امام محمد کے نزدیک ایک نیزہ سورج بلند ہونے کے بعد سے دوپہر شرعی سے پہلے تک کسی وقت پڑھ لے یہی بہتر ہے اور طلوع آفتاب سے قبل بالااتفاق نہ پڑھے کیونکہ اس وقت پڑھنا مکروہِ تحریمی اور منع ہو سنت فجر کے علاوہ اور وقتوں کی مؤکدہ سنتیں اگر فرضوں کے ساتھ یا صرف سنتیں فوت ہو گئیں تو وقت نکنے کے بعد ان کی قضا نہ کرے لیکن ظہر اور جمعہ کے فرضوں سے پہلے مؤکدہ سنتیں اگر فرضوں سے پہلے نہیں پڑھیں تو وقت کے اندر فرضوں کے بعد پڑھ لے اور بہتر یہ ہے کہ فرضوں کے بعد کی مؤکدہ سنتوں کے بعد پڑھے فجر کی سنتوں کا گھر پر اول وقت میں ادا کرنا سنت ہے اور ان کی پہلی رکعت میں سورة الکافروں اور دوسری رکعت میں سورة الاخلاص پڑھنا سنت ہے لیکن کبھی کبھی دوسری سورتیں بھی پڑھا کریں

 

سنن غیر مؤکدہ

 

ان کو سنن الزوائد اور مستحب و مندوب بھی کہتے ہیں

۱.         عصر سے پہلے چار رکعت

۲.        عشا سے پہلے چار رکعت

۳.       عشا کے بعد کی سنت مؤکدہ کے بعد چار رکعت، عصر و عشا سے پہلے اور عشا کے بعد دو رکعت بھی جائز ہے لکن چار رکعت افضل ہے

۴.       مغرب کی سنت مؤکدہ کے بعد چھ رکعتیں مستحب ہیں ان کو صلٰوة الاوابین بھی کہتے ہیں اس نماز کو خواہ ایک سلام سے پڑھیں یا دو سلام سے یا تین سلام سے تینوں طرح جائز ہے لیکن تین سلام سے پڑھنا یعنی ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا افضل ہے نماز الاوابین کی زیادہ سے زیادہ بیس رکعتیں ہیں اور دو یا چار رکعت بھی جائز ہے

۵.        جمعے کے بعد کی سنت مؤکدہ کے بعد دو رکعتیں

۶.        نماز وتر کے بعد دو رکعت نفل پڑھنا یہ اس شخص کے لئے مستحب ہے جو نماز وتر نماز عشا کے بعد ہی سونے سے پہلے پڑھے اور اگر نماز تہجد کے بعد نماز وتر ادا کرے تو اس کے بعد بھی دو رکعت نفل پڑھنا جائز و ثابت ہے ان کا بھی کھڑے ہو کر ہی پڑھنا افضل ہے تاکہ پورا ثواب ملے ان کے علاوہ اور بھی مستحب نمازیں ہیں ان کا ذکر الگ الگ عنوان سے درج کیا جاتا ہے

 

تحیۃ الوضو

(شکرانہ وضو) وضو کے بعد اعضا خشک ہونے سے پہلے دو رکعت نماز تحیت الوضو پڑھنا مستحب ہے اسی طرح غسل کے بعد بھی دو رکعت نماز مستحب ہے اگر چار رکعتیں پڑھی جائیں تب بھی کچھ ہرج نہیں ، مگر وہ مکروہ وقت میں نہ پڑھے

 

تحیۃ المسجد

جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو اسے دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھنامستحب ہے اور مسجد کی تحیت و تعظیم سے مراد رب مسجد کی تحیت و تعظیم ہے ، اگر مسجد میں کسی ضرورت کی وجہ سے ایک وقت میں کئی مرتبہ جانے کا اتفاق ہو تو صرف ایک مرتبہ تحیۃ المسجد پڑھ لینا کافی ہے خواہ پہلی مرتبہ پڑھ لے یا آخر میں یا درمیان میں کسی مرتبہ پڑھ لے اگر مکروہ وقت ہو تو تحیتہ المسجد نہ پڑھے بلکہ یہ کلمات کہہ لے

سبحان اللّٰہ والحمداللّٰہ ولا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر

پھر درود شریف پڑھ لے،

بے وضو ہے اور مسجد میں جانا ضروری ہے تب بھی یہی کلمات کہہ لے

 

نماز اشراق

نماز اشراق کی دو رکعت بھی ہے اور چار بھی بلکہ چھ بھی ہے اس کا وقت سورج کے ایک نیزہ بلند ہونے سے شروع ہوتا ہے اور ایک پہر دن چڑھنے تک ہے ، افضل یہ ہے کہ جب فجر کی نماز ہو چکے تو مصلے پر سے نہ اُٹھے وہیں بیٹھا رہے اور درود شریف یا کلمہ شریف یا کسی اور ورد و وظیفہ یعنی ذکر و دعا یا تلاوت یا علمِ دین سیکھنے سکھانے وغیرہ میں مشغول رہے جب سورج نکل آئے اور ایک نیزہ بلند ہو جائے تو دو رکعت یا چار رکعت نماز اشراق پڑھ لے، اس کو ایک پورے حج اور ایک عمرے کا ثواب ملتا ہے اور اگر باہر چلا گیا اور کسی دنیاوی کام میں مشغول ہو گیا پھر سورج ایک نیزہ بلند ہونے کے بعد اشراق کی نماز پڑھی تب بھی درست ہے لیکن ثواب کم ہو جائے گا

 

نماز چاشت

اس کو نماز ضحٰی بھی کہتے ہیں اس کی کم سے کم دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعتیں ہیں اوسط درجہ آٹھ رکعتیں ہیں اور یہی عادت افضل ہے اکثر علماء کے نزدیک افضل اور مختار چار رکعت ہے ان میں کبھی کبھی سورة والشمس اور والیل اور والضحیٰ اور الم نشرح پڑھنا یا ہر دوگانہ میں سورة والشمس اور سورہ الضحیٰ پڑھنا مستحب ہے لیکن کبھی کبھی اور سورتیں بھی پڑھا کریں اس کا وقت سورج کے ایک نیزہ بلند ہونے سے نصف النہار شرعی سے پہلے تک ہے مختار اور بہتر وقت یہ ہے چوتھائی دن چڑھے پڑھے، اکثر کاروباری مصروفیات کے خیال سے اشراق کی کم سے کم دو رکعت اور چاشت کی چار رکعت یعنی کل چھ رکعت اشراق ہی کے وقت میں پڑھ لیتے ہیں بلکہ ایک دوگانہ استخارہ کا بھی ان کے ساتھ ہی پڑھ لیتے ہیں

 

نماز تہجّد

صلٰوة اللیل یعنی رات کی نفل نماز کی ایک قسم عام ہے ، نمازِ عشا کے بعد جو نفل نماز پڑھی جائے وہ صلٰوة اللیل عام ہے اس کی دوسری قسم صلٰوة اللیل خاص ہے اور یہ نمازِ تہجّد ہے اور وہ یہ ہے کہ عشا کے بعد سو جائیں اور آدھی رات کے بعد اٹھیں اور نوافل پڑھیں سونے سے پہلے جو کچھ پڑھیں وہ تہجد نہیں ، لیکن جو شخص سو کر اٹھنے کا عادی نہ ہو وہ سونے سے پہلے کچھ نوافل پڑھ لیا کرے تو اس کو تہجد کا ثواب مل جائے گا اگرچہ ویسا ثواب نہ ہو گا جو سو کر اٹھنے کے بعد تہجد پڑھنے سے ہوتا ہے نماز تہجد کا وقت آدھی رات کے بعد سو کر اٹھنے سے شروع ہوتا ہے اور بہتر یہ ہے کہ رات کے چھ حصے کریں پہلے تین حصے میں یعنی آدھی رات تک سوئے اور چوتھے پانچویں حصے میں جاگے اور نماز تہجد پڑھے اور ذکر وغیرہ کرے اور پھر آخری چھٹے حصے میں سوئے اس کی کم سے کم دو رکعتیں ہیں اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعتیں ہیں اور اوسط درجہ چار رکعت ہیں ، دس اور بارہ رکعت تک کا بھی ثبوت ملتا ہے لیکن آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اکثر عادت آٹھ رکعت پڑھنے کی تھی، اور حسب موقع کم و بیش بھی پڑھی ہیں پس یہی عادت ہونی چاہئے ، جو شخص تہجد کا عادی ہو اسے بلا عذر چھوڑنا مکروہ ہے اس میں کوئی سورت پڑھنا معین نہیں ہے ، حافظ کے لئے بہتر یہ ہے کہ قرآن شریف کی روزانہ کی منزل مقرر کر کے پڑھا کرے تاکہ چند دنوں میں پورا قرآن مجید ختم ہوتا رہے ، جو حافظ نہ ہو لیکن بڑی سورتیں مثلاً سورة بقرہ، سورة آل عمران یا سورة یٰس وغیرہ یاد ہوں پڑھا کرے بعض مشائخ سورة یٰس کو آٹھ رکعت میں تقسیم کر کے پڑھتے رہے ہیں ، بعض سورة اخلاص کو ہر رکعت میں متعدد دفعہ مختلف طریقہ سے پڑھتے رہے ہیں صحیح یہ ہے کہ کوئی پابندی نہیں ، اس وقت کی ماثورہ دعائیں بھی پڑھا کرے عیدین و پندرہویں شعبان و رمضان کی آخری راتوں میں اور ذی الحجہ کی پہلی دس راتوں میں جاگنا اور عبادت کرنا مستحب ہے خواہ تنہا نفل پڑھے یا تلاوتِ قرآن پاک کرے یا ذکر و تسبیح و تحمید و تہلیل و درود شریف وغیرہ کا ورد کرے اگر ساری رات کا جاگنا میسر نہ ہو تو جس قدر بھی ہو سکے اسی قدر شب بیداری کر لے

 

نمازِ استحارہ

جب کوئی جائز اہم کام درپیش ہو مثلاً کہیں منگنی یا شادی کرنے یا سفر میں جانے کا ارادہ ہو اور اس کے کرنے یا نہ کرنے میں تردد ہو یا اس بارے میں تردد ہو کہ کام کس وقت کیا جائے تو استحارہ کرنا سنت ہے اس کی ترکیب یہ ہے کہ جب رات کو سونے لگے تو تازہ وضو کر کے دو رکعت نمازِ استحارہ پڑھے بہتر یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورة الکافرون اور دوسری رکعت میں سورة اخلاص پڑھے ان دو رکعت کا سلام پھیرنے کے بعد دعائے استحارہ پڑھے، دعا کے اول و آخر میں حمد و صلٰواة کا پڑھنا مستحب ہے پس سورة الحمد شریف یا صرف الحمد اللّٰہ اور درود شریف پڑھ لیا کرے، دعائے استحارہ یہ ہے

اَللّٰھمَّ اِنِّی اَستَخِیرُکَ بِعِلمِکَ وَ استَقدِرُکَ بِقُدرَتِکَ وَ اَسئَلُکَ مِن فَضلِکَ العَظِیم ط فَاِنَّکَ تَقدِرُ وَلَا اَقدِرُوَ تَعلَمُ وَلَا اَعلَمُ وَاَنتَ عَلَّامُ الغُیُوب ط اَللّٰھُمَّ اِن کُنتُ تَعلَمُ اِنَّ ھَذَا الاَمرَ خَیرٌ لِّی فِی دِینِی وَ مَعَاشِی وَ عَاقِبَتِ اَمرِی وَ عَاجِلِہِ وَ اٰجِلِہِ فَاقدِرہُ لِی وَیَسَّیِرہُ لِی ثُمَّ بَارِکَ لِی فِیہِ وَاِن کُنتَ تَعلَمُ اَنَّ ھَذَا الاَمرَ شَرٌّ لِی فِی دِینِی وَ مَعَاشِی وَ عَاقِبَتِ اَمرِی وَ عَاجِلِہِ وَ اٰجِلِہِ فَاصرِ فہُ عَنِّی وَ اصرِفنِی عَنہُ وَاقدِر لِی اَلخَیرَ حَیثُ کَانَ ثُمَّ رَضِنِی بِہِ ط

دونوں جگہ ھذا الامر کہتے وقت اپنے اس کام کا دل میں خیال کرے یا زبان سے اپنے مقصد کا ذکر کرے مثلاً سفر کے لئے ھذا السفر کہے اور کہیں ٹھہرنے کے لئے ھذہ الاقامت کہے اور نکاح کے لئے ھذا النکاح کہے ، کسی چیز کی خرید و فروخت کے لئے ھذاالبیع کہے وغیرہ، اور یہ بھی جائز ہے کہ ھذاالامر کہے اور پھر اپنی ضرورت کا نام لے دعائے استخارہ پڑھنے کے بعد پاک و صاف بچھونے پر قبلے کی طرف منھ کر کے سو جائے ، جب سو کر اٹھے اس وقت جو بات دل میں مضبوطی سے آئے وہی بہتر ہے اس پر عمل کرے استخارہ روزانہ اس وقت تک کرے جب تک رائے ایک طرف پوری طرح مضبوط نہ ہو جائے اور بہتر یہ ہے کہ سات روز تک استخارے کی تکرار کرے، اگر کسی وجہ سے نمازِ استخارہ نہ پڑھ سکے تو صرف دعائے استخارہ ہی پڑھ لیا کرے حج و جہاد و دیگر عبادات اور نیک کاموں یعنی فرض و واجب و سنت و مستحب کے کرنے اور حرام و مکروہ کو چھوڑے کے لئے استخارہ نہ کرے کیونکہ ان کاموں کے لئے تو اس کو حکم دیا گیا ہے البتہ تعین وقت اور حالت مخصوص کے لئے ان میں بھی استخارہ کر سکتا ہے ، مثلاً یہ تردد ہو کہ حج وغیرہ کے لئے خشکی کے راستے سے سفر کرے یا سمندر کے راستہ سے، یا یہ کہ سواری مول لے یا کرایہ پر لے، یا یہ کہ فلاں شخص کو اپنا رفیقِ سفر بنائے یا نہ بنائے یا یہ کہ سفر آج کیا جائے یا کل وغیرہ

 

نمازِ حاجت

جب کوئی حاجت پیش آئے خواہ اس کا تعلق اللّٰہ تعالی سے بلا واسطہ ہو یا بالواسطہ ہو یعنی کسی بندے سے اس کام کا پورا ہونا متعلق ہو مثلاً نوکری کی خواہش ہو یا کسی سے نکاح کرنا چاہتا ہو تو اس کے لئے مستحب ہے کہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نفل نماز پڑھے اور سلام پھیرنے کے بعد نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھے پھر یہ دعا پڑھے

لَا اِلَہٰ اِلَّا اللّٰہُ الحَلِیمُ الکَرِیمُ سُبحَانَ اللّٰہِ رَبَّ العَرشِ العَظِیمُ ط اَلحَمدُ للّٰہِ رَبِّ العٰلَمِینَ اَسئَلُکَ مَوجِبَاتِ رَحمَتِکَ وَ عَزَآئِمَ مَغفِرَتِکَ وَالغَنِیمَتَ مِن کُلِّ بِرِّوَ السَّلَامَتَ مِن کُلِّ اِثمٍ لَا تَدَع لِی ذَنبًا اِلَّا غَفَرتَہُ وَلَا ھَمًّا فَرَّجتَہُ وَلاَ حَاجَتً ھِیَ لَکَ رِضًا اِلَّا قَضَیتَھَا یَآ اَرحَمَ الرَّاحِمِینَ ط

اس کے بعد جو حاجت درپیش ہو اس کا سوال اللّٰہ تعالی سے کرے انشائ اللّٰہ اس کی وہ حاجت روا ہو گی، نماز استخارہ اور نماز حاجت میں فرق یہ ہے کہ نمازِ استخارہ حاجتِ آئندہ کے لئے ہے اور نمازِ حاجت موجودہ حاجت کے لئے

 

 

 

 

صلٰواة تسبیح

اس نماز کا ثواب احادیث میں بہت زیادہ آیا ہے ، اگر ہو سکے تو ہر روز ایک مرتبہ اس نماز کو پڑھ لیا کرے ورنہ ہر ہفتہ میں ایک بار ( مثلاً ہر جمعہ کے روز) پڑھ لیا کرے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو ہر مہینہ میں ایک بار ورنہ سال میں ایک بار پڑھ لے اور یہ بھی نہ کر سکے تو تمام عمر میں ایک بار پڑھ لے صلٰواةِ تسبیح کی چار رکعتیں ہیں ، بہتر یہ ہے کہ چاروں رکعتیں ایک سلام سے پڑھی جائیں اور اگر دو سلام سے پڑھی جائیں تب بھی درست ہے ، یہ نماز سوائے اوقات مکروہہ کے ہر وقت پڑھ سکتا ہے اور بہتر یہ ہے کہ زوال کے بعد ظہر سے پہلے پڑھے اور اعتدال کا درجہ یہ ہے کہ اس کو ہر جمعہ کے روز زوال کی بعد نماز جمعہ سے پہلے پڑھا کرے اس نماز کے پڑھنے کا طریقہ جو حضرت عبداللّٰہ بن مبارک سے ترمذی شریف میں مذکور ہے یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد ثنا یعنی سبحانک اللھم الخ پڑھے پھر کلمات تسبیح یعنی

سُبحَانَ اللّٰہِ وَاَلحَمدُ للّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکبَر ط

پندرہ مرتبہ پڑھے پھر حسب دستور اعوذ باللّٰہ و بسم اللّٰہ و الحمد شریف اور سورة پڑھے پھر قیام میں ہی یعنی سورة کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے وہی کلمات تسبیح دس مرتبہ پڑھے پھر رکوع کرے اور رکوع کی تسبیح کے بعد وہی کلمات دس بار کہے پھر رکوع سے اٹھ کر قومہ میں سمع اللّٰہ لمن حمدہ اور ربنالک الحمد کے بعد دس بار اور دونوں سجدوں میں سجدے کی تسبیح کے بعد دس دس بار اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنے کی حالت میں یعنی جلسہ میں دس بار وہی کلماتِ تسبیح کہے ، اس طرح ہر رکعت میں الحمد سے پہلی پندرہ مرتبہ اور سورة ملانے کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے قیام ہی میں دس مرتبہ اور رکوع و قومہ اور دونوں سجدوں میں اور دونوں سجدوں کے درمیانی جلسے میں دس دس بار وہی کلمات کہے اس طرح ہر رکعت میں پچھتر (۷۵) مرتبہ اور چار رکعتوں میں تین سو مرتبہ یہ کلماتِ تسبیح ہو جائیں اور اگر ان کلمات کے بعد

وَلَا حُولَ وَلَا قُوَّةَ اِلاَّ بِاللّٰہِ العَلِیَّ العَظِیمِ ط

بھی ملا لے تو بہتر ہے کیونکہ اس سے بہت ثواب ملتا ہے اور ایک روایت میں یہ الفاظ زیادہ آئے بھی ہیں

 

دوسرا طریقہ

جو حضرت عبداللّٰہ ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما سے ترمذی شریف میں آیا ہے اس طرح ہے کہ ثنا کے بعد اور الحمد شریف سے پہلے کسی رکعت میں ان کلمات تسبیح کو نہ پڑھے بلکہ ہر رکعت میں الحمد اور سورة پڑھنے کے بعد پندرہ مرتبہ پڑھے اور رکوع اور قومہ اور دونوں سجدوں اور جلسہ میں بدستور دس دس مرتبہ پڑھے اور دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ کر یعنی جلسہ استراحت میں دس مرتبہ پڑھے اس طرح ہر رکعت میں پچھتر(۷۵) مرتبہ پڑھے اور دونوں قعدوں میں التحیات سے پہلے پڑھ لے، یہ دونوں طریقے صحیح ہیں لیکن پہلا طریقہ حنفی مذہب کے زیادہ موافق ہے کیونکہ دوسرے طریقہ میں جلسئہِ استراحت میں پڑھنا آیا ہے اور جلسہ استراحت احناف کے نزدیک مکروہ ہے لیکن بعض فقہا نے اس کو ترجیح دی ہے کیونکہ یہ حدیث مرفوع سے ثابت ہے ، بہتر یہ ہے کہ کبھی ایک روایت پر عمل کرے اور کبھی دوسری پر تاکہ دونوں پر عمل ہو جائے اس نماز کی چاروں رکعتوں میں کوئی سورة معین نہ کرے، لیکن کبھی کبھی استحباب کے لئے چاروں رکعتوں میں علی الترتیب التکاثر، العصر، الکافرون اور اخلاص پڑھا کرے اور کبھی اذا زلزلت اور ولعٰدیات اور اذا جائ اور سورة اخلاص پڑھے اگر تسبیح کے کلمات بھول کر کسی جگہ دس سے کم پڑھے جائیں یا بالکل نہ پڑھے جائیں تو اس کو دوسری جگہ یعنی تسبیح پڑھنے کے آگے والے موقع میں پڑھ لے تاکہ تعداد پوری ہو جائے لیکن رکوع میں بھولے ہوئے کلمات تسبیح قومہ میں نہ پڑھے بلکہ دوسرے سجدے میں پڑھے کیونکہ قومہ اور جلسہ کا رکوع و سجدے سے طویل کرنا مکروہ ہے کلماتِ تسبیح کو انگلیوں پر شمار نہ کرے بلکہ اگر دل کے ساتھ شمار کر سکے اور نماز کی حضوری میں فرق نہ آئے تو یہی بہتر ہے ورنہ انگلیاں دبا کر شمار کرے

 

نماز بوقت سفر و واپسی سفر

جب کوئی شخص اپنے وطن سے سفر کرنے لگے تو اس کے لئے مستحب یہ ہے کہ دو رکعت نماز گھر میں پڑھ کر سفر کرے اور مزید دو رکعت مسجد میں پڑھ لینا بہتر ہے اور جب سفر سے واپس آئے تو مستحب ہے کہ پہلے مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھ لے اور کچھ دیر وہاں بیٹھے پھر اپنے گھر جائے اور اثنائے سفر میں جب کسی منزل پر پہنچے اور وہاں قیام کا ارادہ ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے

 

نماز توبہ

جس شخص سے کوئی گناہ صادر ہو جائے اس کے لئے مستحب ہے کہ دو رکعت پڑھ کر اپنے گناہ سے توبہ اور اس کی بخشش و معافی کے لئے اللّٰہ تعالی سے دعا کرے

 

نماز قتل

جب کوئی مسلمان قتل کیا جانے والا ہو تو اس کے لئے مستحب ہے کہ دو رکعت نماز پڑھ کر اپنے گناہوں کی مغفرت کے لئے اللّٰہ تعالی سے دعا کرے تاکہ یہی نماز استغفار دنیا میں اس کا آخری عمل رہے

 

نمازِ احرام

حج یا عمرے کا احرام باندھتے وقت دو رکعت نماز پڑھنا سنت ہے اس نماز کی پہلی رکعت میں قل یا ایھاالکافرون اور دوسری میں قک ھو اللّٰہ احد پڑھنا مستحب ہے

 

سنن و نوافل کے مخصوص مسائل

۱.         عام نفل نماز جس میں کوئی تخصیص نہ ہو سوائے اوقات مکروہہ کے ہر وقت پڑھنا مستحب ہے ، دن کی نفلوں میں ایک سلام کے ساتھ چار رکعتوں سے زیادہ پڑھنا اور رات کی نفلوں میں آٹھ رکعتوں سے زیادہ ایک سلام سے پڑھنا مکروہ ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک افضل یہ ہے کہ خواہ دن ہو یا رات چار چار رکعت پر سلام پھیرے بعض فقہا کے نزدیک اسی پر فتویٰ ہے اور صاحبین کے نزدیک افضل یہ ہے کہ دن کے وقت چار رکعت ایک سلام سے پڑھے اور رات کے وقت ہر دوگانہ پر سلام پھیرتا جائے بعض کے نزدیک اسی پر فتویٰ ہے ، یہی روایات کے زیادہ مطابق ہے اور اکثر علما اسی طرف گئے ہیں

۲.        سنتیں خواہ فرض نماز سے پہلے ہوں یا بعد کی اور نفل نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے نو نمازیں اس حکم سے مستثنٰی ہیں اور وہ یہ ہیں اول نمازِ تراویح، دوم تحیتہ المسجد، سوم واپسی سفر کی نماز، چہارم احرام کی دو رکعتیں جبکہ میقات کے نزدیک کوئی مسجد ہو، پنجم طواف کی دو رکعتیں ، ششم اعتکاف کرنے والے کی نفل نماز، ہفتم سورج گہن کی نماز، ہشتم جس کو گھر میں جا کر کاموں میں مشغول ہو جانے کے سبب سنن و نوافل فوت ہو جانے کا ڈر ہو یا گھر میں جی نہ لگے اور خشوع کم ہو، نہم نماز جمعہ سے قبل کی سنتیں

۳.       جماعت قائم ہو جانے کے بعد کسی نفل نماز کا شروع کرنا جائز نہیں ، سوائے سنتِ فجر کے، پس اگر کوئی شخص گھر سے فجر کی سنتیں پڑھ کر نہیں آیا اور مسجد میں جماعت ہو رہی ہو اور یہ شخص جانتا ہے کہ سنتیں پڑھنے کے بعد اس کو جماعت مل جائے گی خواہ قعدہ ہی مل جائے تو وہ سنتیں پڑھ لے مگر صف کے برابر کھڑا ہو کر نہ پڑھے بلکہ جماعت سے الگ دُور پڑھے، مثلاً اگر مسجد میں اندر جماعت ہو رہی ہو تو باہر پڑھے، امام کے نماز شروع کرنے سے پہلے جہاں چاہے پڑھ لے خواہ وہ کوئی سی سنتیں ہوں ، اگر یہ معلوم ہو کہ جماعت جلدی کھڑی ہونے والی ہے اور یہ اس وقت تک سنتوں سے فارغ نہیں ہو سکے گا تو ایسی جگہ نہ پڑھے کہ اس کی وجہ سے صف قطع ہوتی ہو، اگر فجر کی نماز میں امام کو رکوع میں پایا اور یہ معلوم نہیں کہ پہلی رکعت کا رکوع ہے یا دوسری رکعت کا تو فجر کی سنتیں ترک کر دے اور جماعت میں مل جائے جو سنتیں فرضوں کے بعد پڑھی جاتی ہیں اُن کو مسجد میں اسی جگہ پڑھنا جائز ہے لیکن اولٰی یہ ہے کہ وہاں سے کچھ ہٹ جائے اور امام کو اپنی جگہ سے ضرور ہٹنا چاہئے ، اس کے لئے اسی جگہ پڑھنا مکروہ ہے

۴.       سنت خواہ مؤکدہ ہوں یا غیر مؤکدہ اور نوافل اور وتر کی ہر رکعت میں منفرد اور امام کے لئے الحمد کے ساتھ سورة ملانا واجب ہے

۵.        چار رکعتی سنتِ مؤکدہ یعنی ظہر اور جمعہ سے پہلے کی اور جمعہ کے بعد کی چار رکعتوں کے پہلے قعدے میں التحیات کے بعد درود شریف نہ پڑھے اگر بھول کر پڑھ لیا تو اللھم صلی علی محمد کی مقدار پڑھنے سے سجدہ سہو کرنا لازم آتا ہے اور جب سنتوں کی تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو تو سبحانک اللھم اور اعوذ نہ پڑھے کیونکہ سنتیں مؤکدہ ہونے کی وجہ سے فرض کے مشابہ ہو گئیں اگر چار رکعت والی سنتِ غیر مؤکدہ یا نفل نماز پڑھے تو اختیار ہے خواہ پہلے قعدے میں درود شریف و دعا بھی پڑھے اور تیسری رکعت میں ثنا اور اعوذ بھی پڑھے اور خواہ فرضوں کی طرح صرف التحیات پڑھ کر کھڑا ہو جائے اور تیسری رکعت میں ثنا اور اعوذ بھی نہ پڑھے صحیح تر قول میں یہی دوسری صورت افضل ہے ، چار سے زیادہ یعنی چھ یا آٹھ رکعت نوافل کا بھی یہی حکم ہے اور نماز نذر کا بھی یہی حکم ہے

 

بیٹھ کر نفل وغیرہ نماز پڑھنے کے مسائل

۱.         جو شخص کھڑا ہونے پر قادر ہے اس کو اصح قول کے بموجب بیٹھ کر نفل نماز پڑھنا بلا کراہت جائز ہے مگر کھڑے ہو کر پڑھنا افضل ہے اور بل عذر بیٹھ کر پڑھنے والے کو کھڑے ہو کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ہوتا ہے

۲.        اگر عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھے خواہ فرض ہو یا نفل وغیرہ تو ثواب میں کمی نہیں ہو گی یعنی کھڑے ہونے کی مطابق ثواب ملے گا

۳.       صحیح یہ ہے کہ وتر کے بعد کے نفلوں کا بھی کھڑے ہو کر پڑھنا افضل ہے اور بیٹھ کر پڑھنے میں آدھا ثواب ہے

۴.       فرض و واجب نماز بلا عذر بیٹھ کر پڑھنا جائز نہیں ، سنت فجر کا بھی یہی حکم ہے باقی سنتوں کو بلا عذر بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے خواہ وہ نماز تراویح ہو لیکن عمل سلف اور توارث کے خلاف ہے نذر کی نماز جس کو کھڑا ہونے کے ساتھ متعین نہ کیا ہو اس کا بھی یہی حکم ہے

۵.        جب نفل نماز کھڑے ہو کر شروع کر دی پھر پہلی یا دوسری رکعت میں بلا عذر بیٹھ گیا تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک بلا کراہت جائز ہے اور صاحبین کے نزدیک بلا عذر ایسا کرنا جائز نہیں ہے اور اگر چار رکعت کی نیت کی اور پہلا دوگانہ کھڑے ہو کر پڑھا اور دوسرے دو گانے میں بیٹھ گیا تو بالاتفاق جائز ہے

۶.        اگر نفل نماز کھڑے ہو کر شروع کی پھر تھک گیا تو لاٹھی یا دیوار وغیرہ پر سہارا لگانے میں کوئی کراہت نہیں ہے اور بغیر تھکے ایسا کرنا مکروہِ تنزیہی ہے

۷.       اگر نفل نماز بیٹھ کر شروع کی پھر کھڑا ہو گیا خواہ ایک رکعت بیٹھ کر پڑھی ہو اور ایک رکعت کھڑے ہو کر یا ایک ہی رکعت کا کچھ حصہ بیٹھ کر اور کچھ حصہ کھڑا ہو کر پڑھا ہو اس کی نماز بالاتفاق بلا کراہت جائز ہے

۸.        اگر کوئی شخص نفل بیٹھ کر پڑھے اور رکوع کے وقت کھڑا ہو کر رکوع کرے تو اس کے واسطہ افضل یہ ہے کہ کھڑا ہو کر کچھ قرأت بھی کر لے پھر رکوع کرے تاکہ سنت کے موافق ہو جائے اور اگر سیدھا کھڑا ہو کر کچھ قرأت کئے بغیر رکوع کر دیا تو جائز ہے اور اگر سیدھا کھڑا نہیں ہوا اور رکوع کر دیا تو جائز نہیں ہے اس لئے کہ اس کا رکوع میں جانا نہ کھڑا ہونے کی حالت میں واقع ہوا نہ بیٹھنے کی حالت میں

۹.        نفل نماز بھی فرض نماز کی طرح بلا عذر لیٹ کر اشارہ سے ادا کرنا جائز نہیں ہے اور عذر کی وجہ سے جائز ہے ، اسی طرح اگر رکوع کے قریب جھکا ہوا ہونے کی حال میں نماز نفل شروع کی تو صحیح نہیں ہے

 

نماز نذر

۱.         نمازِ نذر واجب ہے لیکن یہ واجب لغیرہ ہے یعنی ان نوافل میں سے ہے جو بندے کے اپنے فعل سے اس پر واجب ہوتے ہیں اسی لئے اس کے بعض احکام فرضوں کے مشابہ ہیں اور بعض احکام نفلوں کے مطابق ہیں

۲.        اگر کسی شخص نے کہا کہ میں نے اللّٰہ تعالیٰ کے واسطہ نذر کی کہ ایک دن کی نماز پڑھوں تو اس پر دو رکعتیں لازم ہوں گی اور اگر کسی نے مہینے بھر کی نمازوں کی نذر کی تو ایک مہینے کی جتنی فرض اور وتر نمازیں ہیں وہ اس پر لازم ہوں گی سنتیں لازم نہ ہوں گی، لیکن اس کو چاہئے کہ مغرب کے فرض اور نماز وتر کو بدلے میں چار چار رکعتیں پڑھے

۳.       اگر بغیر طہارت یا بغیر سترِ عورت یا بغیر قرأت دو رکعت نماز پڑھنے کی نذر کی تو امام محمد کے نزدیک اس پر کچھ لازم نہیں ہو گا کیونکہ یہ نذر بالمعصیت ہے ، امام ابو یوسف کے نزدیک دو رکعت طہارت اور ستر عورت اور قرأت کے ساتھ ادا کرنا لازم ہو گا اور یہ شرط لغو ہو جائے گی

۴.       اگر ایک یا آدھی رکعت نماز پڑھنے کی منت مانگی تو اس پر دو رکعتیں لازم ہونگی اور اگر تین رکعتوں کی منت مانگی تو چار رکعتیں لازم ہوں گی

۵.        اگر ظہر کی فرض نماز کے لئے آٹھ رکعتیں پڑھنے کی نذر کی اس پر صرف چار رکعتیں ہی ادا کرنا فرض ہے اس سے زیادہ کچھ لازم نہ ہو گا کیونکہ یہ زائد رکعتوں کا التزام غیر مشروع و نذر بمعصیت ہے

۶.        اگر دو رکعت نماز پڑھنے کی نذر کی اور ان کو کھڑے ہو کر پڑھنے کے ساتھ متعین نہیں کیا تو ان کو بیٹھ کر پڑھنا بھی جائز ہے لیکن سواری پر ادا کرنا جائز نہیں اور اگر کھڑے ہو کر ادا کرنے کی نذر کی تھی تو کھڑے ہو کر پڑھنا واجب ہے اور کسی چیز پر سہارا دے کر کھڑا ہونا مکروہ ہے

۷.       اگر کسی معین دن کے لئے دو رکعت نماز پڑھنے کی نذر کی اور اس دن ادا نہ کی تو ان دو رکعت کو قضا کرے اور اگر کسی معین دن کے لئے دو رکعت نماز پڑھنے کی قسم کھائی اور اس دن نہ پڑھی تو قسم کا کفارہ دے اس پر قضا لازم نہیں ہے اور قسم کا کفارہ ایک غلام آزاد کرانا یا دس مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلانا ہے اگر یہ نہ ہو سکے تو تین روزے رکھنا ہے

۸.        اگر مسجدالحرام یا مسجد بیت المقدس میں نماز ادا کرنے کی نذر کی اور کسی اور کم درجے کی مسجد میں یا گھر کی مسجد میں ادا کی تو جائز ہے

۹.        اگر کسی عورت نے کسی معین دن میں نماز ادا کرنے کی نذر کی اور اس دن اس کو حیض آ گیا تو اس کی قضا واجب ہو گی حیض وجوب کا مانع نہیں ادا کا مانع ہے اور اگر یہ نذر مانی کہ حالت حیض میں نماز پڑھے گی تو کچھ لازم نہ ہو گا کیونکہ نذر بمعصیت ہے

۱۰.       اگر کسی نے چار رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کی منت مانگی یا ان کو ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کی قید نہیں لگائی تو اس کو چاروں رکعت ایک ہی سلام سے ادا کرنا واجب ہے دو تسلیموں سے ادا کرنے میں وہ نذر ادا نہیں ہو گی اور اگر اس کے برعکس چار رکعتیں دو تسلیمیوں سے ادا کرنے کی منت مانی تو ان چاروں کو ایک ہی سلام سے ادا کرنا بھی جائز ہے اور منت ادا ہو جائے گی اور اگر نذر کی چار رکعت ادا کرنے کی نیت سے نماز شروع کی پھر اس کو توڑ دیا تو اس پر بلا خلاف چار رکعت کی قضا لازم ہے

 

نمازِ تراویح

 

۱.         ماہ رمضان المبارک میں نمازِ عشا کے بعد بیس رکعت تراویح پڑھنا مردوں اور عورتوں کے لئے بالاجماع سنتِ مؤکدہ علی العین ہے اگر کوئی شخص ترک کرے گا تو وہ ترکِ سنت کا گناہگار اور مکروہ کا مرتکب ہو گا

۲.        یہ نماز دس سلاموں کو ساتھ مسنون ہے ، یعنی دو دو رکعت کی نیت کرے اور ہر دو گانے پر سلام پھیرے اور ہر چار رکعت کے بعد بیٹھ کر آرام کرے، اس کو ترویحہ کہتے ہیں ، اس طرح پانچ ترویحے ہوتے ہیں پانچ سے زیادہ ترویحے کرنا مکروہ ہے

۳.       اس کا وقت عشا کے بعد سے شروع ہو کر طلوعِ صبح صادق سے پہلے تک ہے خواہ وتروں سے پہلے پڑھے یا بعد میں دونوں طرح جائز ہے لیکن وتروں سے پہلے پڑھنا افضل ہے اور تراویح کی نماز عشا کی نماز کی تابع ہے پس جو تراویح نماز عشا سے پہلے ادا کی اس کا شمار تراویح میں نہیں ہو گا اس کا اعادہ کیا جائے اور اگر نماز عشا اور تراویح و وتر پڑھنے کے بعد ظاہر ہوا کہ عشا کی نماز وضو کے بغیر پڑھی اور تراویح و وتر وضو کے ساتھ پڑھے ہیں یا کوئی اور وجہ معلوم ہوئی جس سے صرف عشا کی نماز فاسد ہوئی تو عشا کے ساتھ تراویح کا بھی اعادہ کرے وتروں کا اعادہ نہ کرے کیونکہ وتر اپنے وقت میں عشا کے تابع نہیں اور عشا کی نماز کا اس پر مقدم کرنا ترتیب کی وجہ سے واجب ہے اور بھولنے وغیرہ سے ترتیب ساقط ہو جاتی ہے

۴.       نماز تراویح میں تہائی رات یا آدھی رات تک تاخیر کرنا مستحب ہے اور آدھی رات کے بعد بھی صحیح یہ ہے کہ مکروہ نہیں بلکہ مستحب و افضل ہے لیکن اگر فوت ہونے کا خوف ہو تو احسن یہ ہے کہ تاخیر نہ کرے

۵.        تراویح میں جماعت سنتِ کفایہ ہے یعنی اگر محلہ کی مسجد میں نماز تراویح جماعت سے پڑھی گئی اور کوئی شخص گھر میں اکیلا نماز پڑھے تو گناہگار نہ ہو گا لیکن اگر تمام محلے والے نمازِ تراویح جماعت سے نہ پڑھیں تو سب ترک سنت کی وجہ سے گناہگار ہونگے اور اگر کچھ لوگوں نے جماعت سےنماز پڑھ لی تو ان لوگوں نے جماعت کی فضیلت پالی لیکن مسجد کی فضیلت نہیں پائی

۶.        ہر چار رکعت کے بعد اتنی دیر تک بیٹھنا مستحب ہے جتنی دیر میں چار رکعتین پڑھی گئیں ہیں یا پڑھی جائیں اس کو ترویحہ کہتے ہیں ، اگر اتنی دیر تک بیٹھنے میں لوگوں کو تکلیف ہو اور جماعت کم ہو جانے کا خوف ہو تو اس سے کم بیٹھے، اس بیٹھنے کے وقت میں اس کو اختیار ہے کہ چاہے تنہا نوافل پڑھے چاہے قرآن مجید آہستہ آہستہ پڑھے یا تسبیح وغیرہ پڑھے یا چپ بیٹھا رہے ، اس وقفے میں جماعت سے نوافل پڑھنا مکروہ ہے بعض فقہ نے یہ تسبیح تین بار پڑھنے کے لئے لکھا ہے

سُبحَانَ ذِی المُلکِ وَ المَلَکُوتِ سُبحَانَ ذِی العِزَّةِ وَ العَظمَتِ وَ القَدرَةِ وَالکِبرِیَائِ وَ الجَبَرُوتِ ط سُبحَانَ المَلکِ الحَیِّ الَّذِی لَا یَنَامُ وَلَا یُمَوتَ . سَبَّوح’‘ قُدُّوسٍ رَبَّنَا وَ رَبُّ المَلَائِکَتِ وَالرُّوحُ ط لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ نَستَغفِرُ اللّٰہَ وَ نَسئَلُکَ الجَنَّتَ وَ نَعُوذُبِکَ مِنَ النَّارِ ط

۷.       اگر عذر وغیرہ کسی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے تو اس کو بھی تراویح کا پڑھنا سنت ہے اگر نہیں پڑھے گا تو سنت کے ترک کا گناہ ہو گا

۸.        گھر یا مسجد میں تراویح پڑھانے کے لئے کسی شخص کو اجرت پر مقرر کرنا مکروہ ہے ، اگر حافظ کے دل میں لینے کا خیال نہیں تھا اور لوگوں نے حافظ کی خدمت کے طور پر دے دیا تو اس کا لینا درست ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ، جو کچھ رواج اور عرف کے طور پر دیتے ہیں اور حافظ لینے کے خیال سے پڑھتا ہے اگرچہ زبان سے نہیں کہتا تو یہ بھی درست نہیں ہے

۹.        ایک مسجد میں ایک ہی گروہ کے لئے دو مرتبہ تراویح کی جماعت مکروہ ہے اگر ایک امام دو مسجدوں میں پوری پوری تراویح پڑھاتا ہے تو یہ ناجائز ہے اور اگر مقتدی دو مسجدوں میں پوری پوری تراویح پڑھے تو مضائقہ نہیں لیکن اس کو وتر ایک ہی جگہ پڑھنے چاہئے ، اگر کسی شخص نے گھر میں تنہا نماز عشا و تراویح و وتر پڑھے پھر مسجد میں آ کر امامت کی نیت سے دوسرے لوگوں کے تراویح پڑھائی تو امام کے لئے مکروہ ہے اور جماعت کے لئے مکروہ نہیں

۱۰.       افضل یہ ہے کہ سب تراویح ایک ہی امام پڑھائے اور اگر دو امام پڑھائیں تو مستحب یہ ہے کہ ہر ایک امام ترویحہ پورا کر کے الگ ہو مثلاً ایک امام آٹھ رکعت اور دوسرا امام بارہ رکعت پڑھائے اور اگر دس دس رکعت ہر امام نے پڑھائی تو یہ مستحسن نہیں ہے ، اگر عشا کے فرض اور وتر ایک شخص پڑھائے اور تراویح دوسرا شخص پڑھائے تو یہ بھی جائز ہے اسی طرح اگر فرض ایک شخص پڑھائے اور وتر دوسرا شخص پڑھائے تو یہ بھی درست ہے

۱۱.        نابالغ لڑکے کی امامت بالغوں کے لئے تراویح و نفلوں میں بھی جائز نہیں اور اگر وہ نابالغوں کی امامت کرے تو مضائقہ نہیں

۱۲.       اگر کسی روز کی کل یا بعض تراویح فوت ہو جائیں تو سنتوں کی طرح ان کو بھی قضا نہ کریں ، اگر اسی وقت کے اندر وتر پڑھنے کے بعد یاد آیا کہ دو رکعت رہ گئی ہو تو پڑھ لیں اور ان کو جماعت سے پڑھ لینا ہی اظہر ہے

۱۳.      اگر سب لوگوں نے عشا کے فرض جماعت سے نہیں پڑھے تو ان کو تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنا جائز نہیں ہے اس لئے کہ تراویح کی جماعت فرض نماز کی جماعت کے تابع ہے لیکن اگر لوگ عشا کی نماز جماعت سے پڑھ کر تراویح جماعت سے پڑھ رہے ہوں تو ایسے شخص کو جس نے عشا کی نماز علیحدہ پڑھی ہو ان لوگوں کے ساتھ شریک ہو کر تراویح کا جماعت سے پڑھنا درست ہے پس اگر کوئی شخص ایسے وقت مسجد میں پہنچے کہ نمازِ عشا کی جماعت ہو چکی ہو بلکہ تراویح کی بھی کچھ رکعتیں ہو چکی ہوں تو اس کو چاہئے کہ پہلے عشا کی فرض نماز پڑھ کر دو رکعت نماز سنت پڑھے پھر نماز تراویح میں جماعت کے ساتھ شریک ہو جائے اور وتر بھی جماعت کے ساتھ پڑھے اور اس درمیان میں تراویح کی جتنی رکعتیں ہو چکی ہیں وہ ان کو نماز وتر کے بعد پڑھ لے

۱۴.      اگر کسی شخص نے عشا کی فرض نماز جماعت کے ساتھ پڑھی اور تراویح امام کے ساتھ نہ پڑھی یا کچھ تراویح امام کے ساتھ پڑھی تو اس کو وتر امام کے ساتھ جماعت سے پڑھنا جائز ہے لیکن اگر فرض و تراویح جماعت سے نہ پڑھے ہوں تو وتر جماعت سے نہ پڑھے اور اگر سب نے تراویح جماعت سے نہ پڑھی ہو تو وہ سب لوگ وتر جماعت سے نہ پڑھیں

۱۵.       وتر کی نماز جماعت سے ادا کرنا صرف رمضان المبارک میں مشروع ہے ، رمضان المبارک کے علاوہ اور دنوں میں نمازِ وتر کا جماعت سے ادا کرنے کا حکم نفلوں کی طرح ہے ، اور رمضان المبارک میں نمازِ وتر کا جماعت سے ادا کرنا گھر میں اکیلے ادا کرنے سے افضل ہے

۱۶.       نمازِ فرض یا وتر یا نفل پڑھنے والے کے پیچھے نمازِ تراویح کی اقتدا صحیح نہیں ہے

۱۷.      افضل یہ ہے کہ تراویح کے ہر دو گانے پر نئی نیت کرے اور تراویح کی نیت میں مطلق نیت نفل کافی ہے لیکن افضل یہ ہے کہ سنت و تراویح کا تعین بھی کر لیا کرے

۱۸.       ماہ رمضان المبارک میں تراویح میں ایک مرتبہ قرآن کا ترتیب وار پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے لوگوں کی کاہلی و سستی سے اس کو ترک نہیں کرنا چاہئے لیکن اگر لوگ اس قدر سست ہوں اور یہ اندیشہ ہو کہ اگر پورا قرآن مجید پڑھا جائے گا تو لوگ نماز میں نہیں آئیں گے اور جماعت ٹوٹ جائے گی یا ان کو بہت ناگوار ہو گا تو بہتر یہ ہے کہ جس قدر پڑھنا لوگوں کو گراں نہ گزرے اسی قدر پڑھا جائے یا سورة الم ترکیف سے سورة الناس تک کی دس سورتوں میں سے ایک سورت ہر رکعت میں پڑھیں ، دو دفعہ ایسا کرنے سے بیس رکعتیں ہو جائیں گی یا اور جو سورتیں چاہے پڑھیں ، جماعت کی سستی کی وجہ سے طمانیت و تعدیل ارکان ترک نہ کرے قرأت میں جلدی نہ کرے تعوذ و تسمیع پڑھے اور قعدے میں التحیات کی بعد درود شریف ضرور پڑھ لیا کرے اگرچہ صرف اللھم صلی علی محمد تک ہی پڑھ لے اور تراویح بھی ترک نہ کرے، تراویح میں ماہ مبارک میں دو مرتبہ ختم کرنا افضل ہے اور تین مرتبہ ختم کرنا زیادہ افضل ہے لیکن یہ فضیلت اس وقت ہے جب کہ مقتدیوں کو دشواری نہ ہو

۱۹.       ایک رات میں پورے قرآن مجید کا پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ لوگ سب ذوق و شوق والے ہوں ورنہ مکروہ ہے بعض اکابر امت سے ایک شب میں ختم قرآن کرنا ثابت ہے لیکن شبینہ متعارفہ اس حکم میں داخل نہیں ہے کیونکہ اس میں بہت سے مکروہات و مفاسد کا ارتکاب ہوتا ہے اس لئے یہ ناجائز ہے

۲۰.      افضل یہ ہے کہ تراویح کے سب دوگانوں میں قرأت برابر پڑھے اور اگر کم و بیش پڑھے تو مضائقہ نہیں لیکن اور نمازوں کی طرح اس میں بھی دوسری رکعت کی قرأت کو پہلی رکعت سے بڑھانا مکروہ ہے معمولی زیادتی کا مضائقہ نہیں

۲۱.       تراویح کا بلا عذر بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے لیکن مستحب نہیں ہے بلکہ مکروہِ تنزیہی ہے اور دیگر نوافل کی طرح بلا عذر بیٹھ کر پڑھنے والے کو کھڑا ہو کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ہوتا ہے ، اگر امام عذر کی وجہ سے بیٹھ کر تراویح پڑھے اور مقتدی کھڑے ہوں تو ان کی نماز صحیح ہو گی اور اس صورت میں جماعت کے لئے بھی بعض فقہا نے بیٹھ کر پڑھنا مستحب کہا ہے تاکہ امام کی مخالفت کی صورت نہ رہے

۲۲.      اگر چار رکعتیں ایک سلام سے پڑھیں اور دوسری رکعت پر قعدہ نہ کیا تو استحساناً اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی لیکن اگر عمداً ایسا کیا تو اس نماز کا اعادہ کرنا واجب ہے اور سہواً ایسا ہونے کی صورت میں سجدہ سہو واجب ہو گا اور وہ دو رکعتیں شمار ہونگی یہی صحیح اور مفتیٰ بہ ہے اور فتویٰ اس پر ہے کہ اس کو ان رکعتوں میں پڑھا ہوا قرآن مجید لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر مقتدیوں پر مشقت نہ ہو اور وہ رضامند ہوں تو اس قرأت کا لوٹانا احوط ہے اور اگر دوسری رکعت کے بعد بھی قعدہ نہ کیا اور تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو گیا تو تیسری رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے پہلے یاد آ جانے پر لوٹ کر قعدہ کرے اور سجدہ سہو کر کے سلام پھیر دے اگر تیسری رکعت کا سجدہ کرنے کے بعد یاد آیا تو ایک رکعت اور پڑھ کر قعدہ کرے اور سجدہ سہو کر کے سلام پھیر دے پس یہ چاروں رکعتیں ایک دوگانہ شمار ہوں گی جیسا کہ اوپر بیان ہوا اور اگر دوسری رکعت کے بعد قعدہ کر کے تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہوا اور تیسری رکعت کا سجدہ کر لینے کے بعد یاد آیا اور ایک رکعت بڑھا کر چار رکعت پوری کر لیں اور سجدہ سہو بھی کر لیا تو صحیح یہ ہے کہ چار رکعت شمار ہوں گی

۲۳.     اگر تراویح میں چھ یا آٹھ یا دس رکعتیں ایک سلام سے پڑھیں اگر اس نے ہر دو گانے میں قعدہ کیا تو صحیح یہ ہے کہ جائز ہے لیکن عمداً ایسا کرنا مکروہ ہے اور ایک ہی سلام سے بیس رکعتیں ادا کرنے اور ہر دو گانے پر قعدہ کرنے کا بھی یہی حکم ہے کہ سب تراویح ادا ہو جائیں گی لیکن عمداً ایسا کرنا مکروہ ہے اور ہر دو گانے پر قعدہ نہیں کیا بلکہ صرف ایک آخر میں قعدہ کیا تو استحساناً ایک دوگانہ شمار ہو گا یہ حکم تراویح کے لئے ہے عام نوافل میں اس صورت میں تمام نماز فاسد ہو جائے گی،

۲۴.     اگر کسی وجہ سے تمام نماز تراویح یا اس کا کوئی دوگانہ فاسد ہو جائے تو اس میں پڑھا ہوا قرآن مجید دوبارہ پڑھا جائے تاکہ تراویح میں ختم قرآن ناقص نہ رہے

۲۵.     اگر تراویح میں قرأت میں غلطی ہوئی یا کوئی سورت یا آیت چھوٹ گئی تو معلوم ہونے پر صحیح کر کے پڑھے اور صرف چھوٹی ہوئی آیت یا سورت کو پڑھ لے تو کافی ہے اور اگر اس کے بعد کا قرآن مجید دوبارہ پڑھ لے تو بہتر ہے تاکہ ختم ترتیب کے موافق ہو

۲۶.      اگر مقتدی بلا عذر بیٹھ کر تراویح پڑھے اور جب امام رکوع میں جانے لگے تو یہ کھڑا ہو جائے تو یہ مکروہِ تحریمی ہے اگر بڑھاپے یا بیماری وغیرہ کے عذر کی وجہ سے ایسا کرے تو مکروہ نہیں ہے اس طرح بعض لوگ رکعت کے شروع میں نماز میں شریک نہیں ہوتے اور جب امام رکوع میں جانے لگتا ہے تو شریک ہو جاتے ہیں یہ بھی مکروہِ تحریمی ہے ، شروع سے نماز میں شریک ہونا چاہئے

۲۷.     اگر نیند کا غلبہ ہو تو جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنا مکروہ ہے بلکہ اس کو علیحدہ ہو جانا چاہئے جب نیند دور ہو جائے اور خوب ہشیار ہو جائے تو نماز میں شامل ہو جائے

۲۸.     امام کو تراویح میں کسی سورت کے شروع میں ایک مرتبہ

بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمَ ط

آواز سے پڑھنا چاہئے اس لئے کہ بسم اللّٰہ بھی قرآن مجید کی ایک آیت ہے اور ہر سورت کے شروع میں بسم اللّٰہ کا آہستہ پڑھنا مستحب ہے

۲۹.      امام کے لئے تراویح میں ختم قرآن ستائیسویں شب کو کرنا افضل ہے اور اس سے پہلے بھی جائز ہے مگر ترک افضل ہے اور جب بھی تراویح میں قرآن پاک ختم کر لیا جائے تو رمضان المبارک کی باقی راتوں میں تراویح نہ چھوڑے کیونکہ تراویح کا تمام ماہِ رمضان المبارک میں پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے اور اس کا ترک مکروہ تحریمی ہے

۰۳.     ختم کے وقت آخری رکعت میں الم سے مفلحون ط تک پڑھنا بہتر و مستحب ہے اور سورة اخلاص ایک ہی مرتبہ پڑھنی چاہئے اس کا تین مرتبہ پڑھنا جیسا کہ آج کل بعض لوگوں میں دستور ہے مکروہ ہے

۳۱.      تراویح کی رکعتوں کو اس لئے شمار کرنا کہ کتنی باقی رہ گئی ہیں مکروہ ہے

 

 

 

 

نماز توڑ دینے کے احکام و عذرات

 

نماز توڑ دینے کے احکام

۱.         نماز روزہ وغیرہ عبادات کو قصداً بلا عذر توڑ دینا حرام ہے ، نماز کی اصلاح اور کمال حاصل کرنے کے لئے توڑ دینا مشروع و مطلوب ہے

۲.        نماز کو توڑ دینا کبھی واجب ہوتا ہے مثلاً جان بچانے کے لئے اور کبھی مستحب ہوتا ہے مثلاً جماعت میں شامل ہونے کے لئے اور کبھی جائز و مباح ہوتا ہے مثلاً جب مال ضائع ہونے کا اندیشہ ہو

 

نماز توڑ دینے کے عذرات

۱.         کسی شخص کا جانور بھاگ جائے یا چرواہے کو اپنی بکریوں میں بھیڑیے کا خوف ہو یا سانپ بچھو وغیرہ سامنے آ جائے اور اس سے ایذا کا خوف ہو، یا کھلی ہوئی مرغی کے پاس بلی آ گئی جس سے مرغی کی جان کا خوف ہو

۲.        کسی مال کے ضائع ہونے کا خوف ہو اور اس کی قیمت کم از کم ایک درہم یا اس سے زیادہ ہو خواہ مال اپنا ہو یا کسی دوسرے کا ہو، خواہ چوری کا خوف ہو یا ہنڈیا جل جانے یا ابل جانے یا روٹی جل جانے کا خوف ہو، اسی طرح اگر ریل گاڑی سے اتر کر نماز پڑھ رہا ہو اور سامان یا بال بچے ریل گاڑی میں ہوں اور ریل گاڑی روانہ ہو جائے تو نماز توڑ کر سوار ہو جائے

۳.       کسی مصیبت زدہ کی پکار پر یا کسی کی ہلاکت کا خوف ہو یا کوئی اندھا جا رہا ہے اور آگے کنواں ہے جس میں اس اندھے کے گر جانے کا خوف ہے

۴.       جب کسی شخص کو اس کا باپ، ماں ، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ میں سے کوئی پکارے اور وہ فرض نماز پڑھ رہا ہو تو نماز نہ توڑے جب کہ وہ یونہی کسی فریاد کے بغیر پکاریں اور اگر فریاد خواہی کے لئے پکاریں تو جواب دے اور نماز توڑ دے اور اگر نفل یا سنت پڑھتا ہو اور ان میں سے کوئی پکارے اور اس کو اس کا نماز میں ہونا معلوم نہ ہو تو ہر حال میں نماز توڑ کر اس کی بات کا جواب دینا فرض ہے اور اگر اس کو اس کا نماز میں ہونا معلوم ہو تو جب تک اس کے لئے کسی تکلیف یا نقصان کا ڈر نہ ہو نماز نہ توڑے اور تکلیف کا ڈر ہو تو نماز توڑ دینا فرض ہے

۵.        اگر نماز میں پیشاب یا پاخانہ زور کرے یا ریح کا غلبہ ہو تو نماز توڑ دے خواہ نماز فرض ہو یا نفل اور فراغت حاصل کرنے کے بعد پڑھے خواہ جماعت جاتی رہے ، اگر اسی حالت میں پوری کرے گا تو وہ نماز مکروہِ تحریمی ہو گی جس کا لوٹانا واجب ہے لیکن اگر وقت نکل جانے کا خوف ہو تو اسی حالت میں نماز پوری کر لے اور پھر لوٹانے یا قضا کرنے کی ضرورت نہیں ہے

۶.        اگر نماز میں ایسی حالت ہو جائے جس سے کسی دوسرے امام کے نزدیک نماز فاسد ہو جاتی ہے اور احناف کے نزدیک فاسد نہیں ہوتی اور جماعت یا وقت فوت ہونے کا خوف نہ ہو تو اختلاف ائمہ سے بچنے کے لئے نماز کو توڑ کر نئے سرے سے اس طرح ادا کرنا کہ سب ائمہ کے نزدیک درست ہو جائے مستحب ہے ، اگر جماعت یا وقت جاتے رہنے کا خوف ہو تو وہ نماز نہ توڑے

۷.       جب کوئی ذمی کافر آ کر نماز پڑھنے والے سے کہے کہ مجھے مسلمان کر لے تو نماز توڑ دینا فرض ہے خواہ وہ نماز فرض ہو یا نفل

۸.        بچہ جنانے والی دائی کو اگر بچہ کی جان کا یا اس کے کسی عضو کے ضائع ہونے کا یا بچہ کی ماں کی جان کے نقصان کا خوف غالب ہو تو نماز توڑ دینا واجب ہے اور اگر خوف ہو لیکن گمان غالب نہ ہو تب بھی نماز توڑ دینا اور موخر کرنا جائز ہے

۹.        جب کوئی شخص فرض و واجب یا سنت و نفل نماز پڑھ رہا ہو اور وقتی فرضوں کی جماعت کھڑی ہو جائے تب بھی نماز کے توڑ دینا مشروع ہے

 

 

جماعت میں شامل ہونے کے مسائل

 

تنہا فرض پڑھنے والے کا اسی فرض کی جماعت میں شامل ہونا

۱.         اگر کوئی شخص فرض نماز کی پہلی رکعت پڑھ رہا ہے اور ابھی اس کا سجدہ نہیں کیا کہ وہاں اس نماز کی جماعت شروع ہو گئی تو اپنی نماز توڑ کر جماعت میں شریک ہو جائے ، خواہ وہ کوئی سے فرض نماز ہو

۲.        اگر وہ شخص ایک رکعت پڑھ چکا ہو اور دوسری رکعت میں ہو اور ابھی دوسری رکعت کا سجدہ نہیں کیا تو اگر نماز دو رکعت یا تین رکعت والی ہے یعنی فجر و مغرب کی نماز تو اس نماز کو توڑ دے اور جماعت میں شامل ہو جائے اور اگر ان دونوں نمازوں میں دوسری رکعت کا سجدہ کر چکا ہے تو پھر نہ توڑے بلکہ وہ اپنی فرض کو ہی پورا کر لے اور پھر امام کے ساتھ شریک نہ ہو اس لئے کہ وہ اپنی فرض نماز ادا کر چکا اور اب جماعت کے ساتھ پڑھی ہوئی نماز نفل ہو گی جو مکروہِ تحریمی ہے کیونکہ فجر کی فرض نماز کے بعد نفل پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے مغرب میں تین رکعت ہوں گی اور تین رکعت نفل جائز نہیں

۳.       اگر کسی شخص کے چار رکعتی فرض یعنی ظہر یا عصر یا عشا کی نماز کی ایک رکعت پڑھی اور دوسری رکعت میں تھا کہ جماعت قائم ہو گئی تو اس کو واجب ہے کہ دوسری رکعت پوری کر کے التحیات و درود و دعا پڑھ کر سلام پھیر دے پھر جماعت میں شامل ہو جائے تاکہ یہ دو رکعت نفل ہو جائیں اور فرض جماعت کے ساتھ ادا ہو جائیں گے اگر وہ دوسری رکعت کا سجدہ کر چکا ہے تب بھی یہی حکم ہے ، اگر وہ تیسری رکعت میں تھا اور اس کا سجدہ نہیں کیا تھا کہ جماعت کھڑی ہو گئی تو نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہو جائے اور اگر تیسری رکعت کا سجدہ کر لیا اس کے بعد جماعت کھڑی ہوئی تو اس کو واجب ہے کہ اپنی نماز پوری کر لے توڑے نہیں اگر وہ نماز توڑ دے گا تو گنہگار ہو گا اب ظہر اور عشا کی نماز میں اس کو اختیار ہے کہ جماعت میں شامل ہو جائے اور یہ اس کے لئے افضل ہے کیونکہ یہ نفل ہو جائیں گے اور جماعت کے ساتھ نفل پڑھنے کا ثواب پا لے گا اور اگر چاہے تو جماعت میں شامل نہ ہو اور فجر و مغرب و عصر کی نماز پوری کر لینے کی صورت میں وہ جماعت میں شامل نہ ہو

۴.       مذکورہ بالا احکام اس وقت ہیں جبکہ اسی جگہ جماعت قائم ہو جائے اور اگر کسی دوسری مسجد میں جماعت قائم ہوئی ہو تو نماز کسی حالت میں نہ توڑے اگرچہ پہلی رکعت کا سجدہ بھی نہ کیا ہو

۵.        نماز توڑنے کا طریقہ یہ ہے کہ حالت قیام میں ہو یا حالت رکوع و سجود میں ہو اسی حالت میں ایک طرف کو سلام پھیر دے پھر امام کی اقتدا کر لے اور بھی طریقے ہیں مثلاً قعدے کی طرف لوٹے اور بیٹھ کر سلام پھیرے اور بعض نے کہا کہ سلام نہ پھیرے بلکہ اسی حالت میں امام کے ساتھ شریک ہونے کی نیت کر کے تکبیر تحریمہ کہہ لے یہ سب صورتیں جائز ہیں لیکن پہلی صورت اولیٰ ہے

 

 

نمازِ سنت و نفل وغیرہ پڑھتے ہوئے جماتِ فرض کا قائم ہو جانا

۱.         اگر کوئی شخص نفل نماز پڑھ رہا ہو اور وہاں فرض نماز کی جماعت ہونے لگے تو نفل نماز کو نہ توڑے خواہ اس نے پہلی رکعت کا سجدہ کیا ہو یا نہ کیا ہو بلکہ اس کو چاہئے کہ دوگانہ پورا کر کے سلام پھیر دے اگرچہ چار رکعت کی نیت کی ہو، پھر جماعت میں شامل ہو جائے

۲.        اگر ظہر یا جمعہ کی فرضوں سے پہلے کی چار رکعت سنتِ مؤکدہ پڑھ رہا ہو اور نمازِ ظہر کی جماعت ہونے لگے یا جمعے کا خطبہ شروع ہو جائے تو صحیح و راجح قول یہ ہے کہ چاروں رکعت پوری کر لے خواہ پہلے دو گانے کے وقت جماعت کھڑی ہو جائے یا دوسرے دو گانے کے وقت، اسی پر فتویٰ ہے ( لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ جماعت نہ چلی جائے ورنہ دوگانہ پڑھ کر سلام پھیر دے اور جماعت میں شامل ہو جائے ) اگر تیسری رکعت شروع کر دی ہو تو چار رکعت کا پورا کرنا ضروری ہے

۳.       اگر فجر کی سنتیں پڑھ رہا تھا کہ جماعت کھڑی ہو گئی تو اگر قعدہ اخیرہ کے ملنے کی توقع نہ ہو تو سنتوں کو توڑ کر جماعت میں شامل ہو جائے اور سورج نکلنے کے بعد ان کی قضا کرے

۴.       اگر کوئی شخص ایسے وقت میں مسجد میں آیا جبکہ وقتی فرضوں کی جماعت ہو رہی ہو اور ابھی اس کے فرضوں سے پہلے کی سنتِ مؤکدہ نہیں پڑھیں تو اگر وہ وقت ظہر یا جمعہ کا ہے اور اس کا یقین یا گمان غالب ہے کہ وہ امام کے رکوع میں جانے سے پہلے پوری کر لے گا اور جماعت کی کوئی رکعت نہیں جائے گی تو جماعت سے الگ جگہ میں پڑھ لے اور اگر رکعت جاتے رہنے کا گمان غالب ہو تو وہ سنتیں اس وقت نہ پڑھے بلکہ امام کے ساتھ شامل ہو جائے اور ان سنتوں کو فرضوں کے بعد پڑھے خواہ بعد کی سنت مؤکدہ سے پہلے پڑھے یا بعد میں دونوں طرح جائز و مفتی بہ ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ بعد والی سنتِ مؤکدہ پڑھ کر ان کے بعد ان سنتوں کو پڑھے اور اگر وہ فجر کا وقت ہو تو فجر کی سنتیں چونکہ زیادہ مؤکدہ ہیں اس لئے ان کے لئے یہ حکم ہے کہ اگر فرض نماز شروع ہو چکی ہو تب بھی پڑھ لے بشرطیکہ کم از کم ایک رکعت ملنے کی امید ہو اور اگر ایک رکعت ملنے کی بھی امید نہ ہو تو پھر نہ پڑھے بلکہ جماعت میں شامل ہو جائے ظاہر مذہب یہی ہے اور بدائع و در مختار میں ہے کہ راجح ظاہر مذہب ہے پھر اگر چاہے تو ان سنتوں کو سورج نکلنےکے بعد پڑھے اور ایک قول یہ ہے کہ اگر ظن غالب یہ ہے کہ اخیر قعدہ مل جائے گا تو یہ سنتیں پڑھ کر جماعت میں شامل ہو جائے ورنہ ترک کر دے، بحر و شامی وغیرہ میں اسی پر اعتماد کیا ہے

۵.        اگر یہ خوف ہو کہ فجر کی سنتیں نماز کی سنتیں اور مستحبات کی پابندی کرتے ہوئے ادا کرنے سے جماعت نہ ملے گی اور سنن و مستحبات کی پابندی نہ کرنے سے مل جائے گی تو ایسی حالت میں صرف فرائض و واجباتِ نماز پر اقتصار کرے اور سنن یعنی ثنا و تعوذ و نعوذ وغیرہ کو چھوڑ دے یہی حکم ظہر اور جمعہ کی سنتوں کا بھی ہے

۶.        اگر فرض نماز کی جماعت کھڑی ہو اور فجر یا کسی اور وقت کی سنتیں پڑھنا چاہے تو ایسی جگہ پڑھیں جائیں جو مسجد سے علیحدہ ہو اگر ایسی جگہ نہ ملے تو مسجد کے اندر کسی گوشہ میں یا کسی ستون وغیرہ کی آڑ میں پڑھے یا جماعت اندر ہو رہی ہو تو سنتیں باہر پڑھے اور جماعت باہر ہو رہی ہو اور اندر جا سکتا ہو تو اندر پڑھے اگر ایسا موقع نہ ہو تو جماعت کی صف سے جس قدر دور ممکن ہو وہاں پڑھے

۷.       اگر کسی شخص کی فجر کی سنت و فرض دونوں قضا ہو گئیں اور سورج نکلنے یعنی ایک نیزہ بلند ہونے کے بعد دوپہر شرعی سے پہلے پہلے کسی وقت پڑھے تو سنت و فرض دونوں کی قضا کرے اور اگر زوالِ آفتاب کے بعد قضا کرے تو صرف فرض کی قضا کرے اور اگر صرف سنتیں قضا ہو جائیں تو آفتاب ایک نیزہ بلند ہونے کے بعد پڑھ لینا بہتر ہے اور اگر سنتیں پڑھ لی تھیں اور صرف فرض قضا ہوئے تو صرف فرض قضا کرے سنتوں کا اعادہ نہ کرے، کسی اور وقت کی سنتیں قضا ہو جائیں تو قضا نہ کرے کیونکہ وقت کے بعد کسی سنت کی قضا نہیں ہے

 

مقتدی جماعت کا پانے والا کب ہوتا ہے

 

۱.         جس شخص کو کسی بھی فرض نماز میں ایک رکعت امام کے ساتھ ملی بالاتفاق جماعت سے نماز پڑھنے والا نہیں ہے لیکن اس کو جماعت کا ثواب مل جائے گا اگرچہ اخیر قعدہ میں ہی مل جائے ، چار رکعت والی نماز میں دو رکعت پانے والی کا بھی بالاتفاق یہی حکم ہے

۲.        چار رکعت والی نماز میں تین رکعت امام کے ساتھ پانے والا اور تین رکعتی نماز یعنی مغرب میں دو رکعت امام کے ساتھ پانے والا بعض کے نزدیک جماعت سے نماز پڑھنے والا ہے اور بعض کے نزدیک نہیں البتہ جماعت کا ثواب پانے والا ہے ، یہی اظہر ہے اور اسی پر فتویٰ ہے

۳.       جس رکعت کا رکوع امام کے ساتھ مل جائے اس کو وہ رکعت امام کے ساتھ مل گئی اور اگر رکوع امام کے ساتھ نہ ملے تو وہ رکعت ملنے میں شمار نہ ہو گی

۴.       جب نمازی یعنی امام وغیرہ پہلا سلام پھیرتا ہے تو السلام کی میم کہنے سے نماز سے باہر ہوتا ہے اس سے پہلے نہیں پس اس سے پہلے تک امام کی اقتدا درست ہے بعد میں نہیں