FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ماحولیات اور انسان

ڈاکٹر جاوید احمد

 

 

مختصر تعارف

پیش کش:حاجی محمد رفیق اے ایس

(ایڈیٹر تعلیمی سفر، کامٹی)

نام:                   جاوید احمد

قلمی نام:  جاوید احمد سعیدی /جاوید احمد کامٹوی

ولدیت:              حافظ بشیر احمد (مرحوم و مغفور)

تاریخ پیدائش:      ۸ اپریل ۱۹۴۹ء (سرٹیفیکٹ کے مطابق)

سکونت:              نیا بازار، بابا تاج الدین چوک ، کامٹی(ضلع ناگپور)

تعلیمی لیاقت:        (۱)       ایچ ایس سی ۱۹۶۶ء ربانی ہائی اسکول ، کامٹی

                        (۲)       بی ایس سی ۱۹۷۰ء انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ، ناگپور

                        (۳)      بی اے (ایڈیشنل) اردو ۱۹۷۳ء

                        (۴)      بی ایڈ ۱۹۷۴ء مراٹھواڑا کالج آف ایجوکیشن، اورنگ آباد

                        (۵)      ایم اے (اردو) ۱۹۷۸ء یونی ورسٹی ٹاپر

                        (۶)       ایم اے (فارسی) ۱۹۸۳ء

                        (۷)      پی ایچ ڈی (اردو) ۱۹۸۱ء ناگپور یونی ورسٹی

                        عنوان :   ’’صالحہ عابد حسین ، شخصیات و کارنامے‘‘

                        گائیڈ:     پروفیسر ڈاکٹر زرینہ ثانی، ناگپور

مشغولیات:          ۱۹۷۰ء بحیثیت ہائی اسکول ٹیچر۔ قلندریہ اردو ہائی اسکول منگرول پیر ضلع آکولہ ۔

                        ۱۹۷۸ء بحیثیت لکچرر ان اردو۔ قلندریہ اردو جونیئر کالج آف آرٹس اینڈ سائنس منگرول پیر (ضلع آکولہ)

                        ۱۹۹۳ء بحیثیت ہیڈ ماسٹر /پرنسپل۔ رفیع احمد قدوائی ہائی اسکول و جونیئر کالج آف سائنس اینڈ ایم سی وی سی، چندرپور(مہاراشٹر)

قلمی خدمات:        سائنسی و ادبی موضوعات پر مضامین / خطوط /تبصرے

                        رسائل و جرائد: ’’سائنس‘‘، سائنس کی دنیا، قومی راج، تعمیر ہریانہ، قرطاس (ناگپور)، بچوں کی نرالی دنیا، امنگ، نور، میزانِ تعلیم (جل گاؤں )، تعلیمی سفر (کامٹی)، رقیب (کامٹی)، زیر و زبر(آکوٹ)وغیرہ۔

                        اخبارات: روزنامہ انقلاب، نیا اردو سماچار(ناگپور)، لوک مت ٹائمز، دی ہتواد، ناگپور ٹائمز(سبھی ناگپور)، ہندی مہاودربھ(چندرپور) وغیرہ۔

                        آکاش وانی ناگپور کے اردو پروگرام ’’آبشار‘‘ سے متعدد سائنسی و ادبی مضامین نیز مذاکرے نشر ۔

دیگر:                  (۱)       لوک عدالت چندرپور میں کئی بار بطور ایک پینلسٹ

                        (۲)       حکومت مہاراشٹر کی نصابی کتب کی تیاری کے ادارے بال بھارتی (پونے) میں اردو کی کتابوں کے نظر ثانی کے ورک شاپ میں شرکت۔

                        (۳)      مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ آف سیکنڈری اینڈ ہائر سیکنڈری ایجوکیشن پونہ کے سائنس دوم پرچے (برائے ایس ایس سی امتحان) میں بطور مترجم کام کیا۔

                        (۴)      حکومت مہاراشٹر (صحت عامہ) کے ذریعہ منعقدہ ’’جذام مہم‘‘ پروگرام کے تحت مضمون نویسی میں متعدد انعامات۔

                        (۵)      بی بی سی لندن (اردو سروس) کے مقابلوں میں مختلف انعامات۔

                        (۶)       متعدد کتابوں میں تحریر کردہ تبصروں کی شمولیت

                        (الف)  غنی اعجاز (آکولوی) فن اور شخصیت

                        (ب)    عبدالباری آسیؔ (کامٹوی) غزلیات پر تبصرہ

                        (ج)      صالحہ عابد حسین پر مضمون (کتاب نما خصوصی شمارہ)

                        (د)       شکیل شاہجہاں کی ڈرامہ نویسی

                        (ہ)       رحمن آکولوی کا فن۔تبصرہ

                        (و)       وکیل نجیب۔ بطور بچوں کے ادیب

اعزازات:           (۱)       جونیئر جے سیز کلب(چندر پور) کابیسٹ ٹیچر ایوارڈ

                        (۲)       مولانا آزاد سوشل فورم چندر پور کا مولانا آزاد ایوارڈ برائے ۲۰۰۴ء

 

پیش لفظ

            ماحولیات کے مسائل کے بارے میں فکر مند ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ اب یہ ایک عالمی اور پیچیدہ مسئلہ ہے جس کا اندازہ آپ اس سے کر سکتے ہیں کہ زمین، پانی اور ہوا کا ماحولیات سے گہرا تعلق ہے اور ان کے ساتھ ماحولیاتی توازن کا قائم رہنا کس قدر ضروری ہے۔ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں ماحولیاتی آلودگی کے در پیش مسائل پر گفتگو کرتے رہتے ہیں اور غور کرنے پر اکثر مایوس بھی ہو جاتے ہیں کہ ہمارا ماحول کس قدر آلودہ ہو گیا ہے۔ ان سب کا ذمہ دار ہم صنعتوں کے پھیلاؤ کو بتاتے ہیں جس میں بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری جانب انسان وسائل کی دریافت میں قدرتی ذرائع کو نقصان پہنچا رہا ہے جس کے نتیجے میں ماحولیاتی توازن بڑے پیمانے پر متاثر ہوا ہے اور ہم آج پینے کے صاف پانی کی تلاش میں سرگرم ہیں ۔ ہمارے ماحول میں شور کی آلودگی کا دور دورہ ہے۔ جس سے مختلف طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں ۔ ایک بڑا سوال پہلے کی طرح صاف غیر آلودہ ماحول کو واپس لانے کا ہے لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہر فرد کو اس جانب متوجہ کرنا ہو گا۔

            آج سے قبل ماحول میں حرارت کا بڑھنا اور فلکی ماحول میں اوزون گیس کے بارے میں کوئی سوچتا بھی نہیں تھا لیکن اب حالات بدل گئے ہیں ۔ ہم سب کے لیے ان ماحولیاتی تبدیلیوں کو سمجھنا اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ خود انسانی زندگی اس سے پوری طور پر متاثر ہو رہی ہے اس کو عالمی سطح پر غور کرنے کی اس لیے ضرورت ہے تاکہ اس کا فوری حل تلاش کیا جا سکے۔

            انہیں مسائل کے مد نظر ڈاکٹر جاوید احمد صاحب جو گذشتہ دو دہائی کے زائد عرصہ سے سائنسی موضوعات کو مقبول انداز میں ملکی سطح پر مسلسل متعدد رسائل اور اخبارات میں اپنی تحریروں سے توجہ دلاتے رہے ہیں ۔ ان کے مضامین ریڈیو سے بھی نشر ہوتے رہے ہیں جن میں اردو قارئین نے بڑی دلچسپی لی کیونکہ یہ سائنسی مضامین موجودہ مسائل کی طرف لے جاتے ہیں تاکہ عوام ان کو جاننے کے بعد اس کو حل کر سکیں ۔ تعلیمی میدان میں وہ بحیثیت لائق پرنسپل مصروفیات کے باوجود اس میدان میں سرگرم رہے ہیں ۔ یہ بڑی اہمیت رکھتا ہے مجھے کچھ سال قبل ایک فنکشن میں جاوید صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور ان کی سائنسی دلچسپی مجھ پر عیاں ہو گئی جب کہ غائبانہ طور پر ان کی تحریروں سے بھی عرصہ سے واقف تھا۔ مجھے یاد آتا ہے کہ ان کے دلچسپ معلوماتی مضامین کا ذکر مجھے اکثر بیشتر اپنے سائنسی خطبات کے دوران اساتذہ اور طالب علموں سے سننے کو ملا لیکن ایک مضمون جو ’’پرندوں کے طویل سفر اور در پیش مسائل‘‘ پر تھا بے حد پسند کیا گیا اور قارئین نے مدیر رسالہ ’’سائنس کی دنیا ‘‘ سے اس مضمون کو فوٹو کاپی کی درخواست کی کیونکہ رسالہ کا وہ شمارہ نایاب تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ اس کتاب کا نام مصنف نے ’’ماحولیات اور انسان‘‘ منتخب کیا ہے اور اس میں پرندوں کا وہ مضمون بھی شامل کیا ہے۔ کتاب کے دوسرے موضوعات بھی ماحولیات سے متعلق ہیں ۔ یہ وہ موضوعات ہیں جو ہر لمحہ ہماری زندگی میں ماحولیات کے نقطۂ  نظر سے پیش پیش ہیں لیکن وہ اس قدر ہماری روزمرہ کی زندگی میں شامل ہیں کہ ہم جانتے ہوئے بھی ماحولیاتی نقطۂ  نظر سے اس جانب توجہ نہیں دیتے اس طرح ان مسائل میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ مصنف کا یہ ایک بڑا کارنامہ ہے کہ وہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنے مضامین کو کتابی شکل میں اردو قارئین تک پہنچا رہا ہے۔ کتاب کا اندازِ بیان موثر اور آسان ہے۔ اس طرح طالب علم اور عوام دونوں ہی اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے انہوں نے ماحولیاتی مسائل کی وضاحت دلچسپ اور مختصر انداز میں کی ہے تاکہ طالب علم کے ساتھ اس میں عوام کی بھی دلچسپی پیدا ہو۔ کیونکہ اس ماحولیاتی موضوعات کواچھی طرح سمجھنا نہایت ضروری ہے۔

            نیاز مند گزشتہ تین دہائی سے زائد عرصہ سے سائنس کو اردو زبان میں مقبول کرنے میں مصروف رہا ہے جس میں ہمارے اردو قارئین کا غائبانہ طور پر تعاون مجھے حاصل رہا ہے۔ ملکی سطح پر متعدد اردو مراکز تعلیمی اداروں میں جہاں بھی اس مسئلہ پر گفتگو ہوئی مقبول سائنس کے موضوع پر کتابوں کا دستیاب نہ ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ اس طرح ایسی کتابوں کا شائع ہونا وقت کے اس مسائل کو حل کرنے میں مدد گار ثابت ہو گا۔ خاص طور پر ملک کی اردو اکیڈمیوں کو سائنسی موضوعات پر طالب علموں کے لیے مقبول (پاپولر) انداز کی کتابیں شائع کر کے اردو قارئین اور مراکز تک پہنچانی ہوں گی۔ ایسی کتابوں سے طالب علموں کی دلچسپی سائنس میں بڑھے گی اور وہ مطالعے کی جانب راغب ہوں گے۔ یہی مصنف ڈاکٹر جاوید احمد صاحب کی اس کتاب کا اصل مقصد ہے جس کو انہوں نے اپنے انداز بیان سے دلچسپ و معلوماتی بنا دیا ہے اور اپنے مقصد میں کامیاب نظر آتے ہیں جس کے لیے وہ قابل مبارکباد ہیں ۔

                                                محمد خلیل

            نئی دہلی                           سابق مدیر ’’سائنس کی دنیا‘‘

            ۲۱ نومبر ۲۰۰۵ء                سابق سائنسداں ایف،نئی دلی۔

 

عرضِ مُصنّف

            میں سائنس کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں ۔ انسٹی ٹیوٹ آف سائنس (ناگپور) سے بی ایس سی کی ڈگری کے فوراً بعد جو پہلا تقرر نامہ موصول ہوا اس پر لبّیک کہتے ہوئے بحیثیت مددگار مدرس (ہائی اسکول) منگرول پیر (ضلع واشم) چلا آیا۔ یہاں سے سائنس کی شاخ میں اعلیٰ تعلیم ممکن نہ تھی اس لیے اردو ادب میں    بی اے (ایڈیشنل) اور پھر ایم اے کر ڈالا۔ ایم اے فائنل کی میرٹ لسٹ میں اول مقام پر اپنا نام دیکھ کر مطالعہ اور مزید تعلیم کا حوصلہ ملا چنانچہ پی ایچ ڈی کے لیے لگے ہاتھوں اپنا رجسٹریشن کروا لیا۔

            بطور گائیڈ علاقہ ودربھ کی جانی مانی ادبی شخصیت ڈاکٹر زرینہ ثانی کی رہنمائی خوش قسمتی سے حصّے میں آئی جو کئی اعتبار سے میرے لیے سود مند ثابت ہوئی۔ زرینہ آپا سخت محنت کی عادی تھیں اور اپنے شاگردوں سے بھی یہی توقع رکھتی تھیں کہ وہ بھی محنت سے جان نہ چرائیں اور صحیح معنوں میں ریسرچ کا حق ادا کریں ۔ ان کے شوہر نامدار محترم جناب عبدالحلیم ثانی بھی مجھے طالب علمی کے زمانے میں بے حد عزیز رکھتے تھے میں ان سے بھی متاثر تھا اس لیے اس گھر میں مجھے کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوئی اور دونوں صاحبان کی رہنمائی اور مشورے ملتے رہے۔

            اسکولی زمانے میں محترم حمید جمال صاحب جیسے قابل استاد اور ماہر زبان سے مسلسل تین برس اردو اور انگریزی مضامین پڑھنے کا شرف حاصل رہا۔ موصوف کا تدریسی انداز جداگانہ تھا۔ قواعد اور گرامر پر بے حد توجہ دیا کرتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان زبانوں سے لگاؤ پیدا ہو گیا۔ اور شاید ایک سائنس کے طالب علم کو اسی کی بدولت انٹرمیڈیٹ میں انگریزی اور اردو ان دو مضامین میں امتیازی (ڈسٹنکشن) گریڈ ملا۔ آج میں جو کچھ بھی ٹوٹا پھوٹا لکھ پاتا ہوں اس کا کریڈٹ جمال صاحب کو جاتا ہے۔ ان کے کلاس لکچر بڑے پر جوش ، ہمت افزا اور ترغیب دلانے والے ہوا کرتے تھے۔ ان کی روشنی میں ہمیں زندگی کے حقائق، فلسفے اور نصب العین کو سمجھنے میں مدد ملی۔ اسی طرح میری معنوی و ذہنی نشوونما میں ہم سبق عبدالرحیم نشتر کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ جدید شاعری میں نشتر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ ان کے والد گل فروش تھے اور نشتر دوران تعلیم اکثر دکان پر بیٹھتے یہاں وہ مختلف پھولوں کو لڑیوں میں پرویا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی شگفتہ بیانی، دلچسپ الفاظ، چنندہ اشعار کے پھولوں سے اپنی گفتگو اور محفل کو پرکشش اور معطر بنایا کرتے۔ ہم دونوں اکثر کنہان ندی کے کنارے دور تک ٹہلنے نکل جاتے۔ اور زیر گفتگو ہوتے دنیا جہاں کے موضوعات۔ سارا وقت نشتر بولا کرتے اور میری حیثیت ایک سامع سے زیادہ نہ ہوتی یہی تجربات اکثر خ۔زماں انصاری کے ساتھ ہوئے۔ چنانچہ ان کرم فرماؤں کی تربیت میرے ذہنی تشکیل میں بڑی مفید ثابت ہوئیں ۔

            اسکول میگزین ’’گلستان ربّانی‘‘ میں نشترؔ اور دیگر ساتھیوں کے مشمولات کو دیکھ کر ان کی دیکھا دیکھی مجھ میں لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ اور اس جذبے کو منگرول پیر میں اور جلا ملی۔ یہاں میرا ربط ایک اہم شخصیت جناب انصار اللہ فضلی سے پیدا ہوا۔ آپ ستھرے ادبی ذوق کے مالک ہیں ۔ شعر گوئی کا بھی شوق رکھتے ہیں ۔ عثمانیہ سے فارغ ہیں اور ہر موضوع پر یکساں مہارت کے ساتھ مدلل گفتگو کرنے کا فن جانتے ہیں ۔ انگریزی اخبارات کے ایڈیٹروں کے نام عصری موضوعات پر میرے خطوط لکھنے کی عادت کو انھوں نے پسند کیا اور اس کی حوصلہ افزائی کی چنانچہ یہ سلسلہ برسوں تک چلتا رہا۔ منگرول پیر کے اہل ذوق حضرات اکثر ادبی نشستوں کا اہتمام کرتے جس کی شرکت بھی میرے لیے معنی خیز ثابت ہوئی۔

            یہاں علاقۂ  ودربھ کے ایک خوش گلو اور فصیح اللسان شاعر جناب فصیح اللہ خاں نقیب کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ موصوف سے یوں تو پرانی شناسائی تھی مگر ملاقات ثانی میرے لیے ایک نعمت ثابت ہوئی۔ فارسی سے ایم اے کرنے کے دوران آکولہ کی چاند مینار مسجد کا روم میرے لیے ایک بہترین تربیت گاہ ثابت ہوا۔ غرضیکہ ان سبھی حضرات کی ادبی صحبتوں نے مجھ میں لکھنے لکھانے کا شوق پیدا کیا۔

            شاعری کی بہ نسبت میرا جھکاؤ نثر کی جانب رہا۔ چنانچہ ادبی و سائنسی موضوعات پر مضامین اور کہانیاں وغیرہ مختلف اخبارات و رسائل میں چھپتے رہے ان میں ’’انقلاب‘‘(بمبئی)، نیا اردو سماچار(ناگپور) ، انگریزی روزنامہ ہتواد اور ناگپور ٹائمز، قومی راج(بمبئی)، قرطاس(ناگپور) رقیب اور ودربھ نامہ (کامٹی)، ماہنامہ سائنس (نئی دہلی)، سائنس کی دنیا(نئی دہلی)، بچوں کی نرالی دنیا، امنگ، نور، تعمیر ہریانہ(چنڈی گڑھ) وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ ہندی مہاودربھ (چندرپور) نے دیوناگری میں میرے کئی مضامین خاص طور پر اردو زبان ، اس کے جنگ آزادی میں رول اور مسلم مجاہدین کے رول پر شائع کیے۔

            دو سال قبل مشہور سائنسی صحافی اور مدیر ’’سائنس کی دنیا‘‘ جناب محمد خلیل صاحب ایک پروگرام کے سلسلے میں چندر پور تشریف لائے تھے۔ انھوں نے میرے کئی مضامین سائنس کی دنیا میں شامل کیے تھے۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ شائع شدہ سائنسی مضامین کو اگر کتابی صورت دے دی جائے تو اردو قارئین کے لیے مفید ثابت ہوں گے۔اردو میں یوں بھی سائنسی موضوعات پر کم ہی لکھا جاتا ہے۔ چنانچہ ان کے مشوروں کو عملی شکل دیتے ہوئے میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔یہی بات ایک مخلص رفیق جناب حاجی محمد رفیق اے ایس صاحب نے کہی۔ اور ماہر لسانیات ڈاکٹر فیروز حیدری نے جب یہی صلاح دی تو میں اس پر سنجیدگی سے غور کرنے لگا۔   جناب حاجی محمد رفیق اے ایس (مدیر، ’’تعلیمی سفر‘‘، کامٹی) اور ڈاکٹر فیروز حیدری اکثر میرے مضامین پر اپنی رائے اور پسندیدگی کا اظہار کیا کرتے جس سے مجھے حوصلہ ملتا رہا۔ ان حالات کے پس منظر میں ، میں نے مضامین کو یکجا کرنے کا کام شروع کیا۔ جی ہاں کہنے کو تو یہی ہے۔ مگر سارا کام حاجی محمد رفیق اے ایس صاحب نے انجام دیا۔ اس محنت طلب کام کے لیے میں ان کا شکریہ کس طرح ادا کروں سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ اسی طرح محبی ثاقب انجم نے اس کام میں بڑی مدد کی اور سارے مواد کو دیدہ زیب انداز میں کمپیوٹرائز کرنے کا سہرا انھیں کے سر ہے جس کے لیے وہ میرے شکریے کے مستحق ہیں ۔

            ان مضامین کو تحریر کرنے اور اس کتاب کو ترتیب دینے میں اہلیہ رخسانہ جبین، بیٹے مدثر پرویز (میکنیکل انجینئر) اور افشاں نگار (سول انجینئر) کا بھی بڑا تعاون رہا کہ انھوں نے خانگی معاملات سے مجھے فارغ کر کے ذہنی سکون اور لکھنے لکھانے کے مواقع فراہم کیے۔

            خدا کرے کہ یہ مضامین بچوں اور عام قارئین کو پسند آئیں

             اس کتاب میں زیادہ تر مضامین ماحولیات اور قدرتی وسائل سے متعلق ہیں ۔ آج دنیا جن مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ اس کے لیے ماحولی توازن میں بگاڑ اور انسان کی نا سمجھی اور طمع ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خطرات کو اردو قاری بھی محسوس کریں اور اس صورت حال کو سدھارنے میں اپنا رول ادا کریں ۔اس ضمن میں یہ حقیر کوشش کیسی ہے، اس کا فیصلہ بالغ نظر قارئین پر چھوڑتا ہوں ۔

                                                                        جاوید احمد کامٹوی

 

ماحولیات اور انسان

            اس کائنات میں انسان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ وہ اس زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے۔ اس کی ضروریات کے پیش نظر دنیا کی ساری چیزوں کو اس کے زیر تصرف کر دیا گیا ہے۔ ان اشیا میں جاندار بھی ہیں اور بے جان بھی۔ ایک جرثومہ (بیکٹریا) سے لے کر سورج جیسے فلکی اجسام سبھی انسان کی خدمت اور نفع رسانی کے لیے تخلیق کیے گئے ہیں ۔ شجر ، حجر ، معدنیات ، ہوا، پانی ، جنگلات، قدرتی دَول، حیوانات ، چرند و پرند اور خود انسان اس عظیم ماحول کا حصّہ ہیں ۔ جب تک ماحول کے یہ اجزا فطری انداز میں ایک دوسرے سے رو بہ عمل رہے، قدرت یا فطرت کا توازن ٹھیک ٹھاک رہا۔ ماحول کااثر انسان کی جسمانی بناوٹ، رہائش ، طرز حیات ، غذا اور دیگر سرگرمیوں پر پڑتا ہے۔ یہ ساری چیزیں جب تک فطری انداز میں رہیں ساری دنیا کا نظام معمول کے مطابق رہا اور انسان اپنے ماحول سے پوری طرح فیضیاب ہوتا رہا۔ مگر بڑھتی ہوئی آبادی سائنسی انکشافات کے غلط استعمال اور انسانی ہوس نے قدرت میں در اندازی شروع کر دی۔زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی لالچ میں یہ استحصال بڑھتا گیا اس نے اپنی سہولت اور فائدے کی خاطر پُل،باندھ، کالونیاں ، فلک بوس عمارتیں ، کارخانے وغیرہ بنائے نیز قدرتی ماحول میں مداخلت کرتے ہوئے بری طرح جنگلات کی صفائی کی، سمندروں کو پاٹ کر زمین کی بازیابی کی، ساحلی علاقوں کے مینگروز، مونگے کی چٹانوں اور کھاڑیوں کو ختم کر کے انسانی آبادی کو بسایا۔ اس طرح یہ تعمیرات بھی ان ماحول کا حصّہ بن گئیں ۔

            سائنس کی ترقیات نے جہاں زندگی کو سہولت بخش اور پر تعیش بنایا وہیں انسانی طمع نے اطراف کے ماحول کو متاثر کیا اور رفتہ رفتہ ہوا کی آلودگی کا یہ مسئلہ انسانی گرفت غذا کی آلودگی اور آواز سے پیدا ہونے والی آلودگی نے انسانی صحت و زندگی پر اپنے منفی اثرات مرتب کیے۔ حکمرانوں اور سائنس دانوں کو اب چل کر احساس ہوا کہ آلودگی کا یہ مسئلہ انسانی گرفت سے کہیں دور نکل چکا ہے۔

            مختلف قسم کی آلودگیوں کی یوں تو مختلف وجوہات ہیں مگر عمومی طور پر انھیں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ آبادی کے اضافے، صنعتیانے اور شہریانے کے عمل نے آلودگی کو جنم دیا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے جنگل صاف کیے گئے تاکہ نئی بستیاں اور نئی کالونیاں بسائی جا سکیں ۔ گلستان اور چراگاہوں کو ختم کر کے کاشتکاری شروع کی گئی اور نئے کارخانوں کی بنیاد ڈالی گئی تاکہ بڑھتی آبادی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ نئے راستے ، شاہراہیں بنانی پڑیں ۔ آبادی کے پھیلاؤ کے سبب آمدورفت کے لیے سواریوں کی ضرورت پیش آئی جس سے ایندھن کی کھپت کے اضافے نے ہوا کی آلودگی کو مزید بڑھاوا دیا۔ اسی طرح نئے نئے اسکول، تعلیم گاہیں ، اسپتال وغیرہ بھی بنانے پڑے۔ سائنسی انکشافات اور ایجادات کے غلط استعمال کی بدولت ان غیر ضروری چیزوں کو استعمال کرنے کا سماج عادی ہو گیا جن کے بغیر بھی کام چل سکتا تھا۔ روزگار کی عدم دستیابی اور شہری سہولتوں کی غیر مساوی تقسیم نے دیہی آبادی کو للچایا چنانچہ بڑے شہروں میں ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس منتقلی نے شہری منصوبہ بندی کو متاثر کیا۔ جھگی جھونپڑیاں تقریباً ہر بڑے شہر کا حصّہ بن گئیں جہاں نہ صرف مختلف بیماریوں ، وباؤں کو پھیلنے پھولنے کا موقعہ ملا بلکہ جرائم اور سماجی خرابیوں کو بھی ایک اچھی پناہ گاہ ہاتھ آئی۔ شہری سہولیات کے فقدان نے ان بستیوں (سلم) کے لوگوں کو تو متاثر کیا مگر آس پاس کے لوگ بھی اس کی زد میں آ گئے۔

            اس طرح آلودگی کی بدلی نے دھیرے دھیرے گھنے بادل کا روپ اختیار کر کے پورے انسانی معاشرے بلکہ کرۂ  ارض کو ڈھانپ لیا۔ آئیے ان آلودگیوں کا مختصر جائزہ لیتے چلیں ۔

(۱)  فضائی آلودگی

            انسانوں نے آبادی میں اضافے کے پیش نظر اپنا پہلا نشانہ جنگلات کو بنایا تاکہ رہائش، فیکٹریوں اور دیگر سہولیات (جیسے سڑکیں ، پُل ، باندھ، اناج کی پیداوار) کے لیے جگہ حاصل کی جا سکے۔ جنگلات کی اندھا دھند کٹائی نے نہ صرف ماحول کو متاثر کیا بلکہ موسموں کی ترتیب کو بھی اثر انداز کیا۔ چٹانوں اور زمین کا بڑا حصّہ کھل (عریاں )گیا جس سے جھیج میں اضافہ ہوا۔ جنگلی جانوروں کے مسکن تباہ ہوئے نیز دیگر جانوروں اور پرندوں کو بھی نقصان ہوا۔ چراگاہوں کے خاتمے سے نہ صرف جنگلی جانور بلکہ پالتو جانور بھی متاثر ہوئے۔ گویا ماحول کی بنیاد ہل کر رہ گئی۔ موسموں خصوصاً بارش پر اس کا اثر پڑا۔ اس کے نتیجے میں فصلیں بھی متاثر ہوئیں ۔ اناج اور دیگر زراعی پیداواروں کی بڑھتی مانگ سے نمٹنے کے لیے کھادوں اور جراثیم کش ادویات کے استعمال کے لیے کسانوں کو اکسایا گیا۔ جس سے زمین کی زرخیزی متاثر ہوئی ہے اس کی بدولت کھیت کے اطراف کی زمین اور پانی کے ذخائر بھی متاثر ہوئے۔ اشیائے خوردنی کے ساتھ انسانی جسم میں داخل ہونے والے ان کیمیائی مادوں نے اس کی صحت کو متاثر کیا۔ ان کے سد باب کے لیے نئی نئی دواؤں کی وافر مقدار میں تیاری نیز شفا خانوں کی ضرورت پیش آئی۔ فیکٹریوں ، اسپتالوں کے لیے زائد زمین جنگلات کو صاف کر کے حاصل کی گئی۔ انسانی آبادیاں دور دور تک پھیلتی گئیں لہٰذا قدرتی طور پر حمل و نقل اور بار برداری کے لیے مزید گاڑیوں کی ضرورت پیش آئی جس میں جلنے والے ایندھن نے آلودگی کو اور بڑھایا۔ اسی طرح کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والے دھوئیں نے کچھ کم قہر نہیں ڈھایا۔ وہ ہوا کی آلودگی سے پودوں ، جانوروں اور انسانوں میں مختلف بیماریوں کا انتشار ہوا۔ ہوا کی آلودگی سے حلق، تنفسی اعضا، آنکھ وغیرہ متاثر ہوتے ہیں ۔ ان سے دمہ، کینسر جلدی بیماریاں ، تپ دق اور دیگر امراض پیدا ہوتے ہیں ۔ ان سب کی ضرب معاشی حالت پر بھی پڑتی ہے۔

            صنعتی علاقوں میں متاثرہ افراد کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ علاوہ اس فضا میں موجود گیسوں کے بارش کے پانی کے ساتھ مل کر زمین پر آنے سے بھی کئی نقصانات ہیں ۔ اس ’’تیزابی بارش‘‘ نے کئی تاریخی عمارتوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ تاج محل کو ’’سنگی کینسر‘‘ اس بارش کا تحفہ ہے۔ اسی طرح ’’کالی بارش سے نوشینی پانی آلودہ ہوتا ہے بلکہ یہ انسانوں کے استعمال کے لائق نہیں رہ جاتا۔ سیمنٹ کارخانوں ، پارچہ بافی، چمڑا سازی اور دیگر صنعتوں سے نکلنے والے مہین ذرات اور ریشے ہوا کا حصّہ بن کر اپنی قیمت وصول کرتے ہیں ۔ یہ انسانوں میں مختلف عارضے پیدا کر کے ان کی تخلیقی اور فکری قوت کو متاثر کرتے ہیں ۔ کام کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے اور ان سب کے نقصان کو روپے میں نہیں آنکا جا سکتا۔ایٹمی تجربات، دھاکوں اور ایٹمی توانائی کے مختلف استعمال کے نتیجے میں تابکار آلائندے ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں جو کہ سارے آلائندوں کی بہ نسبت زیادہ خطرناک ہوتے ہیں ۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کے زخموں کو دنیا چھ دہائی کے بعد بھی بھول نہیں پائی ہے۔ حالیہ تاریخ میں سابق سوویت یونین کے چرنوبل کا واقعہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ تابکار آلودگی انسانیت کے لیے کتنی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ بڑھتی ہوئی جوہری دوڑ اور بعض ممالک کی ہٹ دھرمی اور غیر دانش مندی نے انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا ہے۔ ایک معمولی سی حماقت اس خوبصورت سیارے کو منٹوں میں تباہ کر سکتی ہے۔ صنعتی آلودگی کا 1984 کا بھوپال کا سانحہ بھی ایک ایسی مثال ہے جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ معمولی سی لاپرواہی کس طرح ہزاروں انسانی جانوں کو بھینٹ چڑھا سکتی ہے۔ آئے دن اخبارات میں گیسوں کے چھوٹے موٹے رساؤ کی خبروں کے ہم عادی ہو چکے ہیں اور ایسی خبروں کو سرسری طور پر پڑھ کر نظر انداز کر جاتے ہیں ۔ ان کارخانوں سے مختلف گیسوں ، کیمیائی مادوں اور صنعتی فضلات سے ہوا، پانی، مٹی سبھی آلودہ ہوتے رہتے ہیں ۔ صنعتی فاضلات پانی کے ساتھ زمین میں سرایت کر کے اور ندی، تالاب میں شامل ہو کر پانی کے ذخائر کو آلودہ کر دیتے ہیں ۔

            فضا کی آلودگی نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے جیسے اوزون گیس کے غلاف کا پتلا ہو جانا، گرین ہاؤس اثرات ، عالمی حدّت اور موسموں میں یکلخت تبدیلیاں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے طوفان، سیلاب وغیرہ۔

            ہوائی کرہ میں اوزان کی تباہی ایک سنجیدہ مستقل مسئلہ ہے۔ یہ نازک اور پیچیدہ مسئلہ سبھی ممالک کی تشویش کا سبب بنا ہوا ہے۔ زمین اور اس کے باسیوں کو سورج کی حد درجہ تپش خصوصاً بالائے بنفشی شعاعوں سے تحفظ فراہم کرنے میں اس کے رول کو نظر انداز کیا نہیں جا سکتا۔ کچھ مخصوص صنعتیں اوزون کی کمی کی ذمہ دار ہیں چنانچہ اس کے سد باب کے لیے بین الاقوامی سطح پر کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ اس میں بطور خاص کلورو فلورو کاربن مرکبات (CFCs)   اور ہائیڈرو فلورو کاربن (HFCs) پر مکمل پابندی نیز جیٹ، سپر سونک اور کانکرڈ طیاروں کے ایندھنوں کی اصلاح جن سے اوزان کی تباہی عمل میں آتی ہے، یہ اقسام شامل ہیں ۔

            شہری اور صنعتی سرگرمیوں کے نتیجے میں دنیا کی آب و ہوا ، موسم میں نمایاں تبدیلی ہو رہی ہے۔ پچھلی صدی میں ہمارے کرۂ  ارض کی تپش میں 0.6   درجہ سیل سی ایس کارخانے کا اضافہ ہوا نیز TERI   (دی انرجی سورسیز  انسٹی ٹیوٹ) کے ڈائرکٹر کے مطابق یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو اکیسویں صدی میں اس اضافے کے 1.4   تا  5.8  درجہ سیل سی ایس تک پہنچ جانے کی توقع ہے۔ اس عالمی حدّت (گلوبل وارمنگ) کے نتائج ہمیں دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ دنیا کے عظیم گلیشیئر کا نیز قطبی برف کا پگھلنا اسی طرح ہمالیہ جیسے پہاڑی سلسلوں سے برف کا تیزی سے پگھلنا ،سمندروں کی سطح میں اضافہ کر سکتا ہے جس سے نچلے اور ساحلی علاقوں کے غرقاب ہونے کے خدشات ہیں نیز دیگر بحری آفات میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ قطرینہ، ہری کین، ریتا، ولمِو جیسے طوفان اور سونامی جیسی قیامت صغریٰ کی تباہ کاریاں ابھی انسانی ذہنوں میں تازہ ہیں ۔ ماہرین کے مطابق ان قدرتی مظاہر سے دنیا کے بڑے شہروں جیسے نیویارک، شنگھائی، ممبئی وغیرہ کو بے حد خطرہ لاحق ہے جب کہ بنگلہ دیش انڈونیشا کے کچھ جزائر کے پوری طرح زیر آب چلے جانے کے خدشات ہیں ۔

            امریکہ جیسا سائنس اعتبار سے ترقی یافتہ ملک اور اس کی جدید مشنری ان آفات کے سامنے بے بس پائے گئے۔ پھر بھلا انڈونیشا، بنگلہ دیش وغیرہ کس شمار میں ہیں ۔ ان آفات کے لیے خود انسانوں کے اپنے کرتوت بھی ذمہ دار ہیں ۔ موسموں کے تواتر اور ان کی نوعیت میں تو تبدیلی پیدا ہوئی ہے، سونامی جیسی آفت سے تو دنیا کا جغرافیہ اور نقشہ تک بدل گیا ہے۔ اب آگے نئے ریگستانوں کے وجود میں آنے اور قابلِ کاشت زمین کے رقبے کے کم ہونے کے امکانات ہیں نیز بڑے بڑے شہروں کے غرقاب ہونے کے بھی اندازے لگائے گئے ہیں لہٰذا اس آلودگی پر کنٹرول فوری توجہ چاہتا ہے۔

(۲)  پانی کی آلودگی

            پانی کے بغیر انسانی زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس گمبھیر مسئلے کے دو پہلو ہیں ۔ پانی کے گھٹتے ذخائر نیز پانی کی آلودگی ۔ اس آلودگی کے لیے کئی عوامل ذمہ دار ہیں ۔ہماری صنعتیں ، بطور خاص رنگ، کیمیات، کھاد، جراثیم کش ادویات ایک طرف تو گہرا گھنا دھواں چھوڑ کر ہوا کو آلودہ کرتے ہیں دوسری جانب ایسے صنعتی فاضل مادے خارج کرتے ہیں جو تالابوں ، ندیوں حتیٰ کہ سمندروں کو آلودہ کرتے رہتے ہیں ۔ یہاں تک تو معاملہ ٹھیک تھا یہ مادے اگر انسانوں میں مختلف بیماریاں پھیلاتے ہیں تو آبی جانوروں کے لیے مہلک ثابت ہوتے ہیں ۔ ان سے بحری و آبی جانور، کائی ، بیکٹریا وغیرہ ختم ہو جاتے ہیں جو قدرت میں بطور خاکروب کام کرتے ہیں ۔ کھیتوں سے بہنے والے پانی میں کھادوں کی کچھ مقدار بھی رہ جاتی ہے جس سے غیر ضروری پودے /کائی وغیرہ کی نشوونما تیزی سے ہوتی ہے اسی طرح انسانی فضلے کے لیے سمندر کی کوکھ کو زیادہ مناسب سمجھنا چاہیے ، نیز تابکاری فضلے بھی یہاں مدفون کر دئیے جاتے ہیں چنانچہ آج خلا، ہمالیہ جیسے پہاڑ، سمندر ، انٹارٹیکا وغیرہ بھی آلودگی سے محفوظ نہیں رہ پائے ہیں ۔ بڑے بڑے تیل کے ٹینکروں سے رکھنے والا تیل اور حادثات کی صورت میں سطح سمندر پر پھیل جانے والی میلوں لمبی تیل کی تہہ آبی جانوروں کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔

            پاک و صاف نوشینی پانی کسی نعمت سے کم نہیں ۔ مگر دنیا کے بیشتر ممالک کے عوام کو یہ قدرتی تحفہ میسر نہیں ۔ پینے کے پانی کے حصول کے لیے تو بعض علاقوں کے لوگوں کو خصوصاً عورتوں کو میلوں دور جانا پڑتا ہے۔ اس کے بعد بھی جو پانی ملتا ہے وہ انسانوں کی صحت کی نقطۂ  نظر سے قطعی مناسب نہیں ۔ مگر ایسا پانی پینے پر لوگ مجبور ہیں ۔ موسموں کی بے یقینی کیفیت اور انسانی سرگرمیوں نے زمین کا سینہ پانی کی دولت سے خالی کر دیا ہے اور اگر یہ دستیاب ہے بھی تو سیکڑوں فٹ گہرائی میں ، تجارتی ذہنیت نے اس خزانے کو مشروب اور مینرل واٹر کی شکل میں فروخت کر کر کے اپنے لیے کھرے منافع میں تبدیل کر لیا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں عالمی پیمانے پر اس جال میں تیسری دنیا کے ممالک کو جکڑنے کے لیے پوری تیار ہیں ۔

            کیمیائی کھاد کے استعمال نے فصلوں کی پیداوار میں ضرور اضافہ کیا ہے مگر یہ کسی سراب سے کم نہیں ۔ زمین کی بڑھتی ہوئی تیز ابیت اور ختم ہوتی ہوئی زرخیزی کسانوں کو نظر نہیں آئی۔ اس کی تلافی کے لیے اور مزید فصل کے حصول کے لیے کھاد کی اور زیادہ مقدار اور مادہ طاقت مزید فصل کے حصول کے لیے کھاد کی اور زیادہ مقدار اور طاقت ور کھاد کے استعمال کرنے کی نوبت آئی جس نے زمین کو اور زیادہ نقصان پہنچایا۔ زمین کی اس بربادی کے مد نظر جاپان جیسے ملک نے کیمیائی کھاد کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ یہاں صرف اور صرف قدرتی کھادوں کے استعمال نے خوش آیند نتائج سامنے لائے ہیں ۔ زمین کو دی جانے والی کھاد کی کچھ مقدار پانی کے ساتھ ندی تالابوں میں بہہ کر چلی جاتی ہے جس سے فاضل گھاس، کائی وغیرہ کو غذائیت ملتی ہے اور ان کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کیمیات اور جراثیم کش ادویات بھی پانی میں گھل کر ندی تالابوں میں پہنچ کر یہاں کے جانوروں کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ زیادہ تر کارخانے اپنے صنعتی فاضلات قریبی پانی کے ذخائر میں چھوڑ دیتے ہیں جن سے آبی جانوروں اور انسانوں کو ناقابل بیان نقصان پہنچتا ہے۔ مذہبی رسوم اور تہواروں کے نتیجے میں نیز ادھ جلی لاشوں اور راکھ کو بہانے سے گنگا جیسی عظیم اور پوتر ندی اس حد تک آلودہ ہو چکی ہے کہ اس کی صفائی کے پر عزم منصوبے ناکام ہو چکے ہیں ۔ ملک کی دیگر ندیاں بھی آلودگی کی کم و بیش یہی تصویر پیش کرتی ہیں ۔

            پینے کے علاوہ پانی انسان کی کئی دوسری ضروریات کے علاوہ کارخانوں ، بجلی گھروں وغیرہ کو بھی چلانے کے لیے درکار ہوتا ہے۔ انسان نے اس بیش قیمت دولت کا بے دریغ استعمال کر لیا ہے اور اب اس کی قدر و قیمت سے واقف ہو رہا ہے۔ مشاہدین کا یہ خدشہ بے بنیاد نہیں کہ تیسری عالمی جنگ اسی پانی کے حصول اور اس کے ذخائر پر قبضے کے لیے لڑی جائے گی۔ یہ پانی عنقا ہو کر قحط اور خشک سالی کی کیفیت پیدا کرتا ہے تو اس کی زیادتی طوفان اور سیلاب کی صورت میں قیامت صغریٰ کا منظر پیش کرتی ہے۔ گویا اس کی مناسب مقدار ہی ہمارے لیے فائدہ مند ہے۔

            پانی کو اگر اکسیر یا آب حیات سے تشبیہ دی جاتی ہے تو یہ عین اس کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر بالکل درست ہے مگر یہی پانی اگر آلودہ ہو جائے تو انسانی زندگی کو پریشانیوں اور بیماریوں سے بھر دیتا ہے۔ بعض مادے اور عناصر تو سمِ قاتل ثابت ہوتے ہیں ۔ خصوصاً سیسہ، پارہ، آرسنک وغیرہ اگر موت نہیں تو تشویش ناک امراض کے لیے ضرور ذمہ دار ہوتے ہیں ۔

(۳)  آواز کی آلودگی

            آواز کی آلودگی نے بھی انسان کے ماحول اور اس کے معاشرہ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ انسانی ترقی (سائنسی ترقی) کے اضافہ کے ساتھ آواز کی آلودگی بھی متناسب انداز میں بڑھی ہے۔ دن رات چلتی مشینیں ، کارخانے، دوڑتی ہوئی گاڑیاں (اسکوٹر، لاری، آٹو رکشہ، طیارے، ریل گاڑیاں ) گھریلو اور صنعتی مشینیں ، انسانی آبادی کا شور، لطف اندوزی کے ذرائع جیسے سینما، ٹی وی، لاؤڈاسپیکر وغیرہ مسلسل آواز پیدا کر کے انسان کے سکون، ذہنی آسودگی اور صحت کو متاثر کر رہے ہیں ۔ عام حالات میں ہم ان کے خطرات کو نہیں سمجھ پاتے مگر یہ شور انسانوں کو مختلف طرح سے بیمار کر دیتا ہے۔ اس کے کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور بعض محرومیاں یا معذوری تو مستقل صورت اختیار کر لیتی ہیں ۔ آواز کی آلودگی اور شور شرابے سے جانور اور پودے بھی متاثر ہوتے ہیں ۔

            سائنس و ٹکنالوجی کی بے پناہ خصوصاً ان کے غیر دانشمندانہ استعمال نے کچھ اور مسائل کو لا کھڑا کیا ہے۔ اس سے قبل تابکار آلودگی کا ذکر گزر چکا ہے کہ یہ آلودگی انسانوں اور جانوروں کی جسمانی ساخت (کروموزوم پر) پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اطلاعاتی انقلاب نے ایک نئے مسئلے کو جنم دیا ہے۔ دنیا میں ہر سال لاکھوں کمپیوٹر، ٹی۔وی ، موبائل فون اور دیگر الکٹرونک اشیا بنائی جاتی ہیں ۔ جدید تحقیق کی روشنی میں ان کے تازہ ترین ماڈل کی مارکیٹ میں مانگ ہوتی ہے چنانچہ اچھے خاصے ان آلات کو کباڑ خانے کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ناکارہ ہونے والے سیٹ کا بھی یہی مقدر ہوتا ہے۔ یہ سامان خاص قسم کے پلاسٹک ، فائبر وغیرہ سے بنائے جاتے ہیں جن کو بآسانی ضائع کرنا ممکن نہیں ۔ چنانچہ یہ e ۔کچرا ہر سال ٹنوں اور منوں کی مقدار میں پس ماندہ ممالک کو چوری چھپے روانہ کر دیا جاتا ہے تا کہ اسے ڈسپوژ (ٹھکانے) کیا جا سکے۔ ان کے ڈسپوژل کا عمل اتنا آسان اور بے ضرر نہیں ہوتا علاوہ ازیں ان میں پلاسٹک /فائبر کے علاوہ دیگر دھاتیں بھی ہوتی ہیں جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں ۔ اسی طرح بڑے بڑے ناکارہ بحری جہازوں کو توڑنا اور اسے بھی ٹھکانے لگانا ایک مسئلہ ہے۔ اس سے بھی ہوا اور پانی کی آلودگی بڑھتی ہے۔ ایسے ہی جہازوں کا دنیا کا سب سے بڑا قبرستان ہمارے ملک (گجرات) میں ہے۔ یہاں پلاسٹک کی تھیلیوں اور اسی قسم کی چیزوں کا ذکر بھی ناگزیر ہے۔ جن کے بے روک استعمال نے بڑے ماحولیاتی مسائل کھڑے کر دئیے ہیں ۔ بمبئی کے سیلاب اتنی بھیانک شکل اختیار کرنے میں کہیں نہ کہیں ان پلاسٹک کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

            اسی ضمن میں قطبین اور خلا کی بڑھتی آلودگی کو بھی خارج از بحث قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ دونوں علاقے اور ہمالیہ کے ناقابلِ عبور علاقے جو کل تک انسانی دسترس سے محفوظ تھے آج وہ بھی آلودگی کا شکار ہو چکے ہیں ۔

            اس طرح مختلف قسم کی آلودگیوں نے اس حسین کرّے کو کچھ اس طرح اپنے شکنجے میں کس لیا ہے کہ پورا ماحولی نظام لڑکھڑا گیا ہے۔ اس میں بسنے والے چاہے وہ جانور ہوں پودے یا انسان سبھی اس کی گرفت میں ہیں ۔ اس کے نتیجے میں آج انسانوں کے سامنے کئی سنگین مسائل آ کھڑے ہوئے ہیں جیسے جنگلات کی بربادی ، چراگاہوں کا خاتمہ ، قدرتی وسائل کی کمی، توانائی کا بحران، اوزون کی تہہ میں شگاف، عالمی حدّت، جنگلی جانوروں کی نسل کا ناپید ہو جانا، موسموں میں تبدیلی، قدرتی آفات میں اضافہ ، تابکار اور زہریلے مادوں کا انتشار وغیرہ۔ دیہی آبادی کی شہروں کو ہجرت نے بھی کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔

            سائنسی ترقی نے دنیا کے سبھی علاقوں /ممالک کو قریب تر کر دیا ہے۔ اب دور دراز کے علاقے بھی ہمارے لیے اجنبی نہیں رہے۔ تابکار مشین ٹکنالوجی نے مغربی کلچر سے ہندوستان جیسے روایت پسند قدیم ملک میں تہذیبی آلودگی کا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ مجلس، معاشرت، لباس ، خوراک آرٹ، فلم، کلچر ادب غرض ہر چیز مغرب سے پوری طرح اور بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ اسی طرز فکر نے ذہنوں اور خیالات کو بھی آلودہ کر دیا ہے۔ یہ بھی تو ایک قسم کی آلودگی ہے۔

            مختصر یہ کہ آلودگی ایک ایسا سلگتا مسئلہ بن کر ہمارے سامنے کھڑا ہے جس سے نپٹنا اسی صورت میں ممکن ہے جب عوام، سیاست داں ، ممالک رضا کار انجمنیں اور اقوام متحدہ اس کی سنجیدگی کو محسوس کریں اور پوری دیانت کے ساتھ اس کے خلاف محاذ بنا کر باقاعدہ جنگ کا آغاز کریں ۔ انسان ترقیوں کے عروج پر کیوں نہ پہنچ جائے وہ اپنی اس زمین، یہاں کے ماحول سے الگ نہیں رہ سکتا۔ ماحول کے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ دوسرے جانور/پودے اپنے وجود کے لیے انسانوں کے محتاج نہیں مگر انسان کو قدم قدم پر ان کی ضرورت پڑتی ہے۔ انسان صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات تبھی کہلائے گا جب وہ ان کا یعنی ماحول کا احترام کرنا سیکھ جائے گا۔

٭٭٭

 

نہرو اور جدید ہندوستان

            ترقی پذیر ممالک خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک میں آج ہندوستان کو ایک معزز اور منفرد مقام حاصل ہے۔ ہمارے ملک نے زندگی کے ہر گوشہ میں قابل رشک ترقی کی ہے اور وہ زمانہ زیادہ دور نہیں جب یہ ایک عظیم طاقت کی حیثیت سے اپنی اہمیت تسلیم کروا لے گا۔ اس منزل تک پہنچنے کے لیے نہ تو محض دو چار دن صرف ہوئے اور نہ ہی یہ کسی جادوئی چراغ کا کرشمہ ہے۔ گو کہ کسی قوم کی تاریخ میں ۴۰ سال کی مدت کوئی وقعت نہیں رکھتی مگر ہندوستان جیسے عظیم، کثیر آبادی اور مختلف النوع مسائل والے ملک نے اس مختصر سی مدت میں منزل کو ایسے پا لیا ہے جس کی تمنا ہر ملک کیا کرتا ہے۔ خود ہمارے پڑوس میں ایسے ممالک ہیں جو کم و بیش اس زمانے میں آزاد ہوئے مگر ترقی کی دوڑ میں وہ میلوں پیچھے رہ گئے اس کی تاویل کے لیے آپ وہاں کے نظام حکومت کو پیش کیجیے ۔ چاہے لیڈر شپ کی کمی کو ۔ مگر یہ مسلمہ امر ہے کہ ہمارے ملک نے عالمی برادری میں جو عزت حاصل کی ہے وہ لائق تقلید ہے۔

            اس عظیم الشان کامیابی کا سہرا ہمارے ملک کے سیاسی استحکام ، طرز حکومت اور حکمرانوں کے سر بندھتا ہے اور صفِ اول کے ان رہنماؤں میں بلا جھجک پنڈت جواہر لال نہرو کا نام لیا جا سکتا ہے۔

            پنڈت نہرو ایک ہمہ گیر شخصیت کیے مالک تھے۔ وہ اس مشرقی تہذیب کے نمائندے تھے۔ جس کا نمونہ خال خال دیکھنے کو ملتا ہے۔ عظیم شخصیتیں اپنے کردار و گفتار، خیالات و عقائد اور اخلاق و عمل ، ہر اعتبار سے اپنی جگہ منفرد اور مکمل ہوتی ہیں مگر نہرو جی کی شخصیت میں یہ تمام اور کچھ دوسرے پہلو اس طرح یکجا ہو گئے تھے کہ کسی فردِ واحد میں ان کا اجتماع شاذو نادر ہی نظر آتا ہے۔ وہ جنگ آزادی کے ایک بیباک سپاہی، جادو بیاں مقرر، ایک کامیاب ادیب ، ایک زیرک صحافی، ایک لائق منتظم، ایک سچے گاندھیائی، مفکر، دانشور،مدبر، فلسفی اور ان سب سے بڑھ کر ایک حقیقی انسان تھے۔ ان میں اعلیٰ انسانی، اخلاقی جوہر کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔ گو کہ مغربی ماحول کے پروردہ تھے مگر مشرقی تہذیب پر جان چھڑکنے والے تھے۔ وہ مجسم ایثار پیکر انکسار و اخلاق، نظم و ضبط اور وقت کے پابند تھے۔ اپنے پیش کئے گئے نعرے ’’آرام حرام ہے‘‘ پر خود بھی دیانت داری کے ساتھ عمل کیا کرتے تھے، ان کے ہاں رواداری ، وسیع القلبی، روشن خیالی ، بے تعصبی ، دردمندی، انسان دوستی اور دیگر اخلاقی خوبیوں کے جلوے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اس کے ساتھ وہ بڑے نفاست پسند، خوش پوش، خوش گفتار، پُر مذاق اور شاعرانہ مزاج کے مالک تھے۔ طبیعت فہم جو پائی تھی جس کا عکس وزارت عظمیٰ کے عہد میں بڑے بڑے مسائل سے ٹکر لینے میں نظر آتا ہے انھیں ڈرامہ، آرٹ ، موسیقی اور دیگر فنونِ لطیفہ سے لگاؤ تھا۔ شہ سواری سے گہرا شغف تھا۔ سائنس اور کھیل کود سے دلچسپی تھی اور تیرا کی کے رسیا تھے۔ قدرتی مناظر سے دیوانگی کی حد تک پیار تھا۔ اور اردو کے علاوہ اردو شاعر ی کے بڑے عاشق تھے۔ اکثر و بیشتر پارلیمنٹ میں برجستہ اور برمحل اشعار پڑھ کر دادِ تحسین وصول کیا کرتے تھے۔نہرو بنیادی طور پر سائنس کے طالب علم تھے مگر صحافت ، ادب، تاریخ اور ملکی انتظام میں ان کی مہارت حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ ان کی کتابیں ’’ہندوستان کی دریافت‘‘، ’’بیٹی کے نام خطوط‘‘، ’’خود نوشت سوانح‘‘ ان مختلف النوع صلاحیتوں پر دال ہے۔ یہ کتابیں اپنے اندر آفاقی اپیل رکھتی ہیں اور آج بھی بڑے ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں ۔

            حصول آزادی کے فوراً بعد ہندوستان کی قیادت کی ذمہ داری نہرو کے کاندھوں پر آ پڑی تھی وہ ایک ایسا پُر آشوب دور تھا جس میں ہر طرف اقتصادی، بدحالی، جہالت، عدم اعتماد، بے یقینی کی کیفیت، قتل و خون اور تقسیم ملک کی تلخیوں نے ایک ایسی صورتِ حال پیدا کر دی تھی کہ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے نہرو جیسے دور اندیش مضبوط قوت ارادی کے مالک اور مسلسل جدوجہد کرنے والے روشن خیال اور درد مندی کے جذبے سے معمور رہنما کی ضرورت تھی۔ مگر نہرو کی مقناطیسی شخصیت، ان کی ثابت قدمی، ان کا آہنی عزم، خلوص نیت اور تدبرانہ حکمت عملی نے اسے دھیرے دھیرے سنبھالا دیا اور ایک ایک محاذ پر فتح ملنی شروع ہوئی۔

            سب سے پہلے نہرو نے ملک کے سیاسی ڈھانچہ کی طرف توجہ کی، ہند کا دستوری نظام، جمہوریت، سکولرازم کی پالیسی اور پھر سوشلسٹ اصولوں سے اسے ہم آہنگ کرنا ایک ایسا دانشمندانہ قدم تھا جس کی وجہ سے ہندوستان کو ایک آزاد، غیر جانبدار، اور متحد و سالم ملک کی حیثیت حاصل ہوئی۔ یوں تو اس ملک میں اکبر اعظم کے عہد حکومت میں سکولرازم کے اصولوں نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی تھیں مگر اس کی بنیاد بہت پہلے پڑ چکی تھی تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ اس ملک اور اس کے لوگوں نے باہر سے آنے والوں کے لیے ہمیشہ اپنے ملک کی سرحدیں اور دل کے دروازے کھلے رکھے۔ تہذیبوں کے اس میل جول کے نتیجہ میں ایک مشترکہ تہذیب نے جنم لیا جسے ہم گنگا جمنی تہذیب سے موسوم کر سکتے ہیں اور ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں نسل، مذہب ، رنگ، زبان اور طبعی علاقہ میں اختلاف کے باوجود یہاں کثرت میں وحدت کا مظاہرہ ملتا ہے نہرو نے اس وحدت ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو استوار کرنے اور مسلسل ترقی دینے میں بڑا موثر رول ادا کیا۔ اگر نہرو نے آزادی کے بعد اس قدر کو مٹ جانے دیا ہوتا تو آج ہندوستان کے حالات کچھ اور ہوتے :

آ بیاری کی تھی جس پودے کو اپنے وقت میں

جلوہ گر ہیں آج اس میں بیس پتوں کے گلاب

            نہرو بڑے دور اندیش تھے۔ انھوں نے جدید دنیا میں سائنس کی ایجادات انکشافات اور سائنسی علوم کی اہمیت کو محسوس کر لیا تھا۔ مغربی تعلیم اور دیار مغرب کے متعدد اسفار نے انھیں مشرقی و مغربی تہذیب کے موازنہ کا اچھا موقع فراہم کیا وہ روحانیت اور مذہب کے منکر نہیں تھے مگر مادی و سائنسی ترقی سے محروم رہنا بھی گوارا نہیں کر سکتے تھے چنانچہ سائنس کی تیز رفتار ترقی سے وہ ہندوستان جیسے پچھڑے ملک کو دور رکھنے سے اتفاق نہیں کر سکتے تھے۔ ان کا کہنا تھا:

’’مستقبل اب سائنس کے ہاتھوں میں ہے اور ان کے جو سائنس کے دوست ہیں ۔‘‘

            چنانچہ انھوں نے سائنس و ٹکنالوجی اور اس کی تدریس و تحقیق پر خصوصی توجہ دی۔ کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ CSIR   کے قیام یا جوہری توانائی پر زور ، خلائی میدان میں پیش رفت ، اور ملک کے کونے کونے میں تحقیقی اداروں ، تجربہ گاہوں کے قیام، اور ان میں کام کرنے والے سائنسدانوں اور ماہرین کی فوج تیار کرنے میں ڈاکٹر ہومی جہانگیر بھابھا، ڈاکٹر شیشادری، ڈاکٹر سیتھنا، ڈاکٹر حسین ظہیر وغیرہ سے مدد لی۔ ہندوستان جس کے بارے میں غیر ملکیوں کا یہ نظریہ تھا کہ یہ راجے، مہاراجے، جادوگر، سپیروں اور نیم وحشی و نیم عریاں لوگوں کا ملک ہے اسے کثیر المقاصد منصوبوں کے نفاذ کی مدد سے ایک مضبوط اور سائنسی ترقی سے مالامال ملک کی حیثیت سے متعارف کروایا اسے مشینوں ، کھدانوں ، بجلی گھروں ، کارخانوں ، کیمیائی کھاد، ادویات کی تیاری کا مرکز بنایا۔ غذائی پیداوار میں اضافہ ، توانائی کے متبادل ذرائع کی کھوج تعلیم کے فروغ اور صحت عامہ کے جامع پروگرام بنائے اور اسے خلائی تحقیق، جوہری توانائی کے مراکز ، دھات سازی کے مرکز وغیرہ کا ایک دیش بنایا۔ وہ ان کارخانوں ، اداروں ، اور تجربہ گاہوں کو ’’نئے ہندوستان کے نئے مندر‘‘ کہا کرتے تھے اس ضمن میں انھوں نے روس، انگلینڈ ، جرمنی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک سے تعاون اور تکنکی مہارت حاصل کی۔ وہ نہ صرف سائنس و ٹکنالوجی کے ثمرات عام لوگوں تک پہنچانا چاہتے تھے بلکہ ان کے طرز فکر اور خیالات میں تبدیلی کے بھی خواہاں تھے تاکہ ان کی تنگ نظری ، ان کے تعصب کو ختم کیا جا سکے اس لیے وہ سائنسی نقطۂ  نظر کی ترویج چاہتے تھے۔ جدید نظریات جدید علوم اور سائنس کی کرشمہ سازیوں کے وہ قابل اور موید اور پر چارک ضرور تھے مگر انھیں اپنے ماضی اپنے تہذیبی ورثہ پر بڑا فخر تھا اور مشرقی تہذیب سے انھیں والہانہ لگاؤ تھا۔ ہر ہندوستانی کو وہ انھیں اوصاف سے متصف دیکھنا چاہتے تھے:

آدمیت کے اصولوں کے تھے وہ سچے نقیب

شخصیت ان کی تھی ہر پہلو بہت ہی شاندار

            نہرو جی نے مختلف پنچ سالہ منصوبوں کی مدد سے ملک کو معاشی، سائنسی، زرعی، تعلیمی و تکنکی اعتبار سے ایک مضبوط ملک بنا دیا اور ۱۹۴۷ء میں جو کار عظیم نہرو کے ہاتھوں شروع ہوا تھا آج اسی کی بدولت ہم اکیسویں صدی میں قدم رکھنے کی بات کر رہے ہیں ۔

            اس سے ذرا اوپر اٹھ کر دیکھیں تو ایشیائی یا عالمی سطح پر بھی نہرو کی خدمات کا فیضان نظر آتا ہے۔ وہ جمہوریت ، سیکولرازم سوشلزم کے مبلغ تو تھے ہی انھیں جہالت ، توہم، تنگ نظری، ناخواندگی، تعصب اور فرقہ پرستی سے سخت نفرت تھی مگر عالمی سطح پر بھی وہ مظلوم اور کچلے ہوئے لوگوں کے حامی و ناصر نظر آتے ہیں ۔ انھوں نے عدم تشدد اور گاندھی جی کے مختلف اصولوں کو نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا میں عام کیا ۔ پنچ شیل کے اصولوں سے دنیا کو روشناس کرایا۔ ناوابستگی کا تصور دیا۔ اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف عالمی فضا قائم کر کے غلام اور مظلوم قوموں میں خوداعتمادی، خود آگہی اور حریت پسندی کی روح پھونکی۔ عالمی بھائی چارگی کے جذبے کو فروغ دیا اور تیسری دنیا کے ممالک کو ان کی طاقت ، صلاحیتوں اور وسائل سے آگاہ کر کے انھیں منظم و متحد کر کے عزت سے جینے کا ڈھنگ سکھلایا۔ اس طرح اقوام عالم خصوصاً ایشیائی اور تیسری دنیا کے ممالک آج نہرو کے مرہون منت ہیں :

امن عالم کے عقیدے سے تھا نہرو جی کو پیار

اس کی خاطر ہی انھوں نے زندگی کر دی نثار

            گلابوں اور انسانی گلابوں (بچوں ) سے پنڈت جی کا پیار تو مثالی ہے۔ بچوں سے اسی لگاؤ نے انھیں ’’جگ چاچا‘‘ بنا کر رکھ دیا اور بجا طور پر ۱۴نومبر کو ’’یوم اطفال‘‘ کی صورت میں منانا انھیں سچا خراج عقیدت ہے۔ پنڈت جی میں ایک اچھی یا یوں کہیے کہ بری عادت یہ تھی اور وہ یہ کہ وہ اپنے دوروں کے وقت عام لوگوں کے حلقے میں بلا تکلف چلے جاتے تھے۔ عوام سے ملتے جلتے ان سے باتیں کرتے اور ان کے مسائل دریافت کرتے اس طرح انھیں اپنی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا اور اپنی پالیسیوں کی افادیت کا جائزہ لینے کا موقع مل جاتا۔ بچوں کو خاص طور پر دیکھ کروہ بے قابو ہو جاتے اور سیکورٹی کی پرواہ کئے بغیر بھیڑ کا ایک حصّہ بن جاتے یہ وطیرہ صرف اندروں ملک ہی نہیں غیر ملکی دوروں پر بھی ہوتا۔ یہ اور بات ہے کہ اس زمانے میں سیکورٹی کا انتظام اتنا کڑا نہ ہوتا جتنا آج ہے۔ انھیں اپنی جان کی پرواہ نہ تھی شاید اس لیے کہ انھیں اپنے لوگوں ، اپنی جنتا پر پورا اعتماد تھا۔ اس لیے کسی کا یہ کہنا غلط نہیں کہ انھوں نے واقعی دلوں پر حکومت کی ہے۔

            مختصر یہ کہ آج سے ۴۰ برس قبل نہرو نے جو بنیاد رکھی تھی آج اس پر سائنس سے آراستہ جدید ہندوستان کی ایک عظیم الشان عمارت کھڑی ہو چکی ہے اور اس ضمن میں ہم نہرو جیسے دور اندیش معمار کی خدمات کو فراموش نہیں کر سکتے۔

            آج نہرو کے بنائے اور بتائے گئے اصولوں خصوصاً فرقہ وارانہ ہم آہنگی بھائی چارگی ، اور ملک کو متحد اور سالم رکھنے کی کوششوں کی جتنی ضرورت ہے شاید اتنی ان کے زمانے میں بھی نہیں تھی۔ اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کی قربانیوں ، اور جہد مسلسل کے نتیجے میں بننے والے اس ملک کو کمزور نہ بننے دیں ۔

٭٭٭

 

جنگلات اور ماحولیات

            نظام شمسی میں ہمارے سیارے کو ایک منفرد مقام حاصل ہے کہ صرف اسی پر زندگی اپنی گو نا گوں صفات کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ خلا سے کرۂ  ارض کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ دنیا بڑی حسین نظر آتی ہے کروڑوں سال پہلے جب زندگی نے اس سر زمین پر پہلی انگڑائی لی تھی تو یہ ایسی نہ تھی وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہمہ انواع و اقسام کے جانور اور پودے جنم لیتے گئے اور اس کے حسن میں اضافہ کرتے گئے اس وقت فطرت کی گود میں پلنے والا انسان بڑا معصوم اور قطعی بے ضرر تھا۔ فطرت سے اس کا گہرا اور قریبی رشتہ تھا۔ قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کو وہ بیش بہا عطیہ جان کر استعمال ضرور کرتا تھا مگر اس کے استحصال اور اس نظام میں مداخلت کا خیال کبھی نہیں آیا کہ وہ ماحول کا ایک لازمی عنصر بن کر زندگی گذارتا تھا۔ گھنے جنگل ، اونچے اونچے پہاڑ، سر سبز مرغزار، اٹھلاتی بل کھاتی ندیاں ، گنگناتے ہوئے جھرنے، شور مچاتے ہوئے آبشار قسم ہا قسم کے چرند و درند، خوبصورت رنگوں اور دلنشین آوازوں والے پرند، سرسبز و شاداب درخت، رنگ برنگے پھول اس کے دن بھر کے جسمانی تھکن اور ذہنی کلفتوں کو دور کرنے کا بڑا ذریعہ تھے۔

            ہندوستان اس معاملے میں خاصا خوش نصیب رہا ہے کہ اس وسیع و عریض ملک کو قدرت نے ان نعائم کے بخشنے میں ذرا زیادہ ہی فیاضی سے کام لیا ہے۔ ابتدا میں انسان نے قدرت کے خزانے سے خوب فائدہ اٹھایا۔ مادی بھی اور روحانی بھی جنگلات سیر و تفریح اور روحانی تر و تازگی اور تسکین کا سامان ہیں ۔ گہرے گھنے اور خاموش جنگلوں میں انسانوں کو روحانی روشنی اور من کی شانتی ملی، رشیوں منیوں اور گیانیوں نے آبادی سے دور، خاموش فضاؤں میں پناہ لے کر عرفان الہٰی حاصل کیا اور عبادت د ریاضت میں اپنی عمریں گذار دیں ۔ ہمارے قدیم فکر و خیال ، فلسفہ اور تہذیب و تمدن کے ارتقا و عروج میں جنگل کی پُر سکون فضا کا بڑا ہاتھ ہے غالباً اسی لیے درختوں کا اگانا ، سینچنا اور ان کی پرورش و پرستش کرنا متبرک مانا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ جس نے مذہب کی شکل اختیار کر لی اور اس طرح یہ ہندوستانی تہذیب کا حصّہ بن گئے۔

            زمانۂ  قدیم کے لوگوں نے قدرتی ماحول سے خوشگوار رابطہ قائم رکھا تھا وہ قدرتی توازن کو بگاڑے بغیر پوری طرح اس سے مستفیض ہوتے تھے مگر وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے نقطۂ  نظر میں تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوئی۔ وہ خود کو دھیرے دھیرے ان نعمتوں کے سیاہ و سفید کا مالک سمجھنے لگا اور اس دولت کو بے دریغ خرچ کرنا بلکہ زیادہ صحیح یہ کہنا چاہیے برباد کرنا شروع کیا۔ تہذیب و تمدن کے پروان چڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی رخنہ اندازی میں بھی اضافہ ہوا۔ پھر جدید سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی اسے ایک دوسرے تباہ کن موڑ پر لے گئی۔ انگریز جب ہندوستان آئے تو شکار کی بہتات دیکھ کر گویا پاگل سے ہو گئے چنانچہ اپنے اس شوق کو خوب پورا کیا۔ ادھر عالمی جنگوں کے چھڑ جانے سے انسانوں کو جنگلات اور جنگلی جانوروں سے زیادہ سابقہ پڑا اور ان کی ہوس ، جھوٹے وقار شکار کے شوق اور معاشی خوشحالی کی لگن نے ان کا جانی دشمن بنا دیا۔ بڑھتی ہوئی آبادی کو رہائش گاہیں اور غذا مہیا کرنے اور مختلف اشیائے زندگی کی تیاری کے لیے انسانوں نے جنگلوں کو صاف کرنا شروع کیا۔ یہ جنگل جو بارش برسانے ، زمین کی تخریب کاری کو روکنے ، آکسیجن کی مقدار کو متعین کرنے، فضا کو صاف رکھنے اور فضائی توازن کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار تھے دھیرے دھیرے غائب ہونا شروع ہوئے۔ جنگلی جانوروں کے مسکن تباہ ہوئے اور یہ جانور فرار ہونے پر مجبور ہوئے اس طرح دھیرے دھیرے ان کی نسلیں معدوم ہونے لگیں آج ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا سے چند ایسے جانوروں کی نسلیں ناپید ہونے کے قریب ہیں ، ماضی میں جن کے ریوڑ کے ریوڑ فطری ماحول میں قلانچیں بھرتے نظر آتے ہیں ۔ ختم ہو جانے کے خطرے سے دوچار جانوروں میں شیر ، شیر ببر ، چیتا، گینڈا، بارہ سنگھا، تغدار، پہاڑی کوئل ، لالہ تیتر اور جانوروں (بشمول پرندوں کے) اور بے شمار قسموں کے نام لیے جا سکتے ہیں علاوہ ازیں بعض آرائشی اور ادویاتی اہمیت کے حامل پودے بھی اس دنیا سے مٹ جانے کے قریب ہیں اور اگر یہی حال رہا تو ہماری آنے والی نسلوں کو ان کے بارے میں جاننے کے لیے کتابوں کا سہارا لینا پڑے گا جس طرح آج میمتھ، ڈائنا سور وغیرہ کی معلومات کے لیے ہمیں عجائب گھروں اور کتابوں کی طرف رجوع ہونا پڑتا ہے۔

            جنگلات کے خاتمہ سے ایک طرف قدرتی توازن برقرار نہ رہ سکا جس سے موسم متاثر ہوئے جس کا لامحالہ اثر خود انسان کی زندگی پر پڑا۔فضا جو کہ بڑی حد تک پاک صاف ہوا کرتی تھی وہ آلودہ ہوئی ۔ گنجان بستیوں سے گندے پانی اور انسانی فضلہ کے نکاس ،گھڑگھڑاتی مشینوں ، دھواں اگلتی چمنیوں اور حمل و نقل کے ذرائع نے روز افزوں ترقی نے ہوا اور پانی کو آلودہ کیا ۔ انسانی اور صنعتی فاضلات کو ٹھکانے لگانے کے لئے انسان کو دریا اور سمندر کے علاوہ دوسرا ٹھکانہ نظر نہیں آیا۔ پانی کی آلودگی نے مچھلیوں سمیت بہت سے آبی جانوروں کی نسل کو خطرہ سے قریب کیا ہوا اور پانی کی آلودگی کا اثر پرندوں پر بھی پڑا۔ اور اس طرح قدرت میں موجود قدرتی غذائی زنجیر متاثر ہوئی۔

            برسوں تک جنگلاتی دولت کی لوٹ کھسوٹ کے بعد انسانوں کو اس کا احساس اس وقت ہوا جب کہ خوداس کی زندگی اس کی معیشت متاثر ہوئی ۔ موسموں کی باقاعدگی متاثر ہوئی ۔ خشک سالی، قحط سالی اور سیلاب عالمی مسئلے بن گئے اور ساری دنیا میں ہاہا کار مچ گئی ۔ اقوام عالم ، ان کی انجمن ،  (UNO) اس کے مختلف اداروں ، ایجنسیوں اور مختلف ممالک کی تنظیموں نے جنگل ، جنگلی جانوروں اور ماحول کی بحالی کی طرف توجہ دی ۔ خود ہندوستان بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہے۔

            جنگلات کی اہمیت اب ماہرین ماحولیات پر ہی نہیں عام انسانوں پر بھی آشکار ہو چکی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ صرف نبی نوع آدم ہی نہیں خدا کی ساری مخلوقات کا اور جنگلی جانوروں سے راست تعلق ہے بلکہ یہ کہنے میں مضائقہ نہیں کہ سارے جانوروں کی بقا کا انحصار پودوں پر ہے۔ جانوروں میں قوت مطابق پائی جاتی ہے جس کی بدولت یہ موسم اور ماحول کے خلاف اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں تاکہ اپنی نسل کا تحفظ کر سکیں یہ مطابقت ہزاروں برسوں کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے مگر ان کے برعکس انسان اپنے نمو یافتہ دماغ اور ذہنی صلاحیتوں کی مدد سے ماحول کے خلاف موثر جنگ لڑ سکتا ہے اور اپنے لیے مصنوعی ماحول ترتیب دے سکتا ہے ۔ یہ سہولت جانوروں کو حاصل نہیں لہٰذا انسان پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یوں بھی بہ حیثیت اشرف المخلوقات اور اس کائنات میں اعلی و ارفع مقام پر متمکن ہونے کے باعث اس پر اپنے سے کمزور اور کم درجہ کی مخلوقات کی حفاظت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ مختلف مذاہب میں بھی پودوں اور جانوروں سے پیار پر زور دیا گیا ہے خصوصاً اسلام میں جانوروں کے ساتھ صلہ رحمی پر بڑے وعدے اور وعیدیں ہیں ۔ ہرے بھرے درخت کی جڑوں اور جانوروں کی بلوں وغیرہ میں پیشاب کرنے کی ممانعت ہے۔ اسی طرح محض شوق کی خاطر جانوروں کی جان لینے کو برا بتلا یا گیا ہے۔

            یہ بات خوب ذہن نشین رہے کہ ہر جانور اور پودا اپنے ماحول کا ایک اہم جز ہے اور اس کے ختم ہونے سے دوسروں کا متاثر ہونا بھی ضروری ہے اس میں چھوٹے اور بڑے کی کوئی تخصیص نہیں اس کی مثال سانپ کی دی جا سکتی ہے۔ سانپوں کو بلا سوچے سمجھے مارے جانے سے چوہوں کی آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور یہ چوہے غذائی ذخیرہ اور اس طرح انسانی معیشت کو کھوکھلا کر ڈالتے ہیں اس لیے ہر جانور اور پودے کی اس کے اپنے ماحول میں اہمیت ہے اسی لیے اقبال نے کہا تھا۔

نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں

بُرا نہیں کوئی قدرت کے کارخانے میں

            جنگلات صرف اپنے قدرتی وسائل اور حسن کی بنا پر ہی نہیں بلکہ زندگی کی ان مختلف شکلوں اور پہلوؤں کے باعث بھی جو وہ اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں تہذیب اور معیشت کا بیش قیمت سرمایہ ہیں انواع و اقسام کے چرند، پرند و درند اس کی وسیع اور مشفق گود میں آسودگی اور زندگی پاتے ہیں اور ماحول کو حسین و خوشگوار بناتے ہیں جنگلی جانوروں کو ان کے اپنے ماحول میں دیکھنا ایک الگ ہی تجربہ ہے۔ یہاں کا سکون خامشی، پاکیزگی اور بے تصنع ماحول ڈھونڈھنے والے کور وحانیت اور گیان کی دنیا میں لے جاتے ہیں جنگلو ں کی معاشی اہمیت سے کسے انکار ہے۔ عمارتی لکڑی، ایندھن ، چارہ، جڑی بوٹیاں ، شہد، نیل، گوند، ریزن ، سمور،لاکھ، ربڑ، کوکو، چمڑا وغیرہ جنگلات ہی کے حاصلات ہیں ۔ فرنیچر ، کاغذ ، دباغت وغیرہ کی صنعتیں خام مال کے لیے ان ہی پر انحصار کرتی ہیں ۔ اگر جنگل نہ ہوں تو ملک معاشی اعتبار سے کم زور ہو جائے۔ قسم قسم کے جانوروں کو قدرتی ماحول میں گھومتے پھرتے دیکھنے کا شوق سیاحوں کو ہمارے ملک میں کھینچ لاتا ہے اس طرح یہ سیاحت کو فروغ دینے اور بیرونی زر مبادلہ کمانے کا بھی ذریعہ ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلیوں پر جنگلات کیا اثر ڈالتے ہیں یہ اس سے قبل عرض کیا جا چکا ہے۔ پودوں میں مسلسل چلنے والے عمل شعاعی ترکیب Photosynthesis  کی مدد سے یہ کلوروفل کی موجودگی میں زمین سے حاصل شدہ پانی اور نمکیات سے سورج کی روشنی میں غذا تیار کرتے ہیں جس کا بڑا حصّہ جانوروں کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے۔ پودوں کی تیار کردہ غذا کی مقدار سالانہ کروڑوں ٹن تک پہونچ جاتی ہے اگر درختوں کے کٹنے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ہمیں ایک خطرناک صورت حال کے لیے تیار رہنا چاہیے قدرت میں پائی جانے والی دولت جیسے درخت، نمکیات، معدنیات، کوئلہ، میٹھے پانی کے ذخائر وغیرہ کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

            (۱)       تجدیدی وسائل

            (۲)       غیر تجدیدی وسائل

            قدرتی دولت کی وہ قسم جس کے تصرف کے بعد دوبارہ حاصل کیا جا سکتا ہے اس کا شمار تجدیدی قسم میں ہوتا ہے جیسے درخت ، جانور وغیرہ مگر غیر تجدیدی کے ذخائر ختم ہو جائیں تو ان کی تجدید کاری ممکن نہیں لہٰذا ہمیں ہر دو قسم کے وسائل کو بڑی ہوشیاری ، کفایت شعاری اور منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کا بے دریغ استعمال آنے والی نسلوں کو کہیں ان سے محروم نہ کر دے۔

            جنگلی جانور اور پرندوں کی حفاظت کی خاطر ۱۸۸۷ء میں سب سے پہلے قانون وضع کیا گیا۔ پھر مرکزی اور صوبائی سطحوں پر مختلف ترمیمات کی مدد سے انھیں مزید کارگر اور قابل عمل بنانے کی کوششیں کی گئیں ۔ ہمارا صوبہ(مہاراشٹر) بھی اس جانب سے لاتعلق نہیں رہا ثبوت کے طور پر وائلڈ لائف، ایڈوائزری بورڈ، مختلف نیشنل پارک، مامن(جانوروں کی پناہ گاہیں ) برڈ  سنکوچری، بمبئی نیچرل ہسٹری سوسائٹی وغیرہ کے قیام کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ مہاراشٹر کو ڈاکٹر سالم علی، ڈاکٹر پنڈت جیسے ماہرین کا تعاون حاصل رہا ہے۔ اس طرح مہاراشٹر ماحولیات کے میدان میں دیگر ریاستوں سے پیچھے نہیں ہے۔

            آج علم ماحول پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اسے نئی تعلیمی پالیسی کا لازمی جز قرار دیا گیا ہے تاکہ نئی نسل کو ابتدا ہی سے اس کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے ۔ عوام کو بھی مختلف ذرائع ابلاغ و ترسیل جیسے کتابوں ، اشتہاروں نمائشوں ، فلموں ، میلوں وغیرہ کے انعقاد سے ماحول کی اہمیت سے واقف کروایا جا سکتا ہے۔ عوام کی معمولی سی ہلچل بھی ’’چپکو تحریک‘‘ کی سی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ عوام کو سماجی شجر کاری کی طرف مختلف طریقوں سے راغب کیا جا سکتا ہے لوگوں کو جنگلاتی دولت کو کفایت شعاری سے استعمال کرنے کی تعلیم دی جا سکتی ہے تاکہ وہ کاٹے گئے ہر درخت کے بدلے دو درخت اُگائیں ۔ مقامی حالات اور تقاضوں کو دیکھتے ہوئے اس مہم کو جاری رکھا جا سکتا ہے عام لوگ اگر ایک بار جنگلات اور جانور وں کی اہمیت کو سمجھ لیں تو پھر یہ کام کوئی مشکل نہیں رہ جائے گا۔ انسانی عقل و دانش کا تقاضہ ہے کہ انسان خود بھی اس ماحول کا ایک حصّہ بن جائے اور اپنی فہم اور فراست کو استعمال کرتے ہوئے اس دنیا کو جنت کا نمونہ بنائے۔ جنگلی جانوروں اور جنگلوں کی بربادی خود انسان کی بربادی بلکہ اس کی بقا کے لیے ایک خطرہ بن سکتی ہے اس لیے اس کے حق میں یہی بہتر ہے کہ وہ اب بھی اس سلسلے میں ٹھوس قدم اٹھائے تاکہ صورتِ حال مزید خراب ہونے سے بچ جائے۔

٭٭٭

 

توانائی کے متبادل ذرائع

            ابتدائی ہجری دور سے لے کر موجودہ نیو کلیائی بجلی گھروں کے مرحلے تک توانائی کسی نہ کسی صورت میں انسان کے زیرِ تصرف رہی ہے۔ توانائی کے ذرائع متنوع ہیں ۔ اس کا اولین ماخذ لکڑی کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ رفتہ رفتہ کوئلے نے لکڑی کی جگہ لے لی۔ اور پھر تیل نے کوئلہ کی۔ اور اب ہم تاریخ کے اس دور میں داخل ہو گئے ہیں جہاں تیل کے بھی متبادل کی تلاش ناگزیر ہو گئی ہے اور اس جستجو میں ہندوستانی سائنسداں دنیا کے دیگر سائنسدانوں کے شانہ بہ شانہ سرگرداں ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں پٹرول اور کوئلہ کے کافی ذخائر موجود ہیں ۔ کوئلہ سے حاصل شدہ توانائی پر ایک طویل عرصہ کے لیے تکیہ کیا جا سکتا ہے مگر آخر کب تک؟ یہ ذخیرہ لازوال تو نہیں ! اسے ایک نہ ایک دن تو ختم ہونا ہی ہے۔ لہٰذا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ توانائی کے نئے ذرائع تلاش کئے جائیں تاکہ یہ موجودہ ذرائع کی جگہ لے سکیں ۔ اس ضمن میں زور ایسے ذریعوں پر دیا جائے جن کی تجدید ہو سکے۔

            لکڑی کے بجائے کوئلہ کے استعمال کی ابتدا اور پھر کوئلہ کی جگہ تیل کا استعمال درحقیقت ایک ایسا عمل تھا جو نسبتاً ارزاں و آساں تھا۔ مگر اب ہونے والی تبدیلی قدرے مختلف ہے۔ توانائی کا وہ ذریعہ جواب تیل کو ہٹا کر اس کی جگہ لے گا وہ بذات خود تیل سے فی الوقت مہنگا ہے۔ علاوہ ازیں اس ترتیب و تبدل میں چند تکنیکی دشواریاں بھی سد راہ بنی کھڑی ہیں ۔

            اس میدان کے مسائل کے کھوج اور انھیں حل کرنے کی تدابیر کی خاطر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دو سال قبل سال رواں میں ایک عالمی کانفرنس نیروبی میں منعقد کرنے کی تجویز پیش کی تھی جس کا مقصد توانائی کے نئے اور قابل تجدید ذرائع پر غور و خوض اور بحث کرنا ہے۔ اس میں سب سے بڑی دشواری یہ ہے کہ ان تمام ذرائع کا اطلاق سارے ہی ترقی پذیر ممالک پر یکساں نہیں ہوتا۔ ہر ملک کا مسئلہ جدا گانہ نوعیت کا ہے۔

            وہ ممالک جن کا انحصار درآمد شدہ خام پٹرولیم کی مصنوعات پر ہے جب ایسے ملک تیل کے بحران کا شکار ہوئے اور ماحول کی آلودگی ایک عوامی مسئلہ بن گئی تو توانائی کے ذرائع کی تلاش عالمی پیمانہ پر اور جوش و خروش سے شروع ہو گئی۔

            آزادی سے سے قبل ہمارے ملک میں صنعتوں کو توانائی کی بہت ہی کم مقدار درکار تھی اور ظاہر ہے کہ یہ ساری ضرورت بآسانی پوری ہو جایا کرتی تھی۔ یہ ذرائع زیادہ ترپن بجلی اور حرارتی بجلی کے تھے۔ اس وقت نیوکلیائی کے متعلق بہت ہی کم علم تھا۔ ویسے ڈاکٹر ہومی جہانگیر بھابھا کی دور اندیشیوں کے نتیجے میں اور پنڈت نہرو کی ترقی پسندانہ پالیسیوں کے طفیل اس میدان میں تحقیقی کام اور نوجوان سائنسدانوں کی تربیت کا کام شروع ہو چکا تھا۔ آج جبکہ ہندوستان نے صنعتی ، سائنسی ، تحقیقی و تکنیکی میدان میں قابل رشک ترقی حاصل کر لی ہے۔ لہٰذا یہ مسئلہ ہماری اولین توجہ کا متقاضی ہے۔ تیل کے بحران کو دیکھتے ہوئے حکومت ہند نے نامی کمیشن یعنی توانائی کے زائد یا فاضل ماخذات کا کمیشن تشکیل دیا ہے جس کے ذمہ توانائی کے ’’نئے ‘‘(جدید) اور قابل تجدید ذرائع پر غور و خوض کرنا اور اس سے متعلقہ مختلف مسائل سے نمٹنا ہے۔ اس کام کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چھٹے پنچ سالہ منصوبہ میں اس مقصد کے لیے پبلک سیکٹر کے  %۲۷  حصّہ کی رقم کو مختص کیا گیا ہے۔ خوش قسمتی سے ہندوستان تیسری دنیا کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں ہے کہ وہ ان ذرائع کی کھوج بلا کسی تغیر کے اور کم سے کم خرچ پر کر سکتا ہے۔ اپنے مخصوص محل وقوع کے باعث یہ ایک ایسے گرم علاقہ میں واقع ہے جہاں اسے کافی سورج کی روشنی، بارش کی مقدار اور دیگر حیاتیاتی مادے دستیاب ہیں ۔

            ہندوستان کے کچھ اپنے خاص مسائل بھی ہیں مثلاً توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش کی ذمہ داری مختلف ایجنسیوں اور اداروں کے اختیار میں ہے جہاں اس بات کا زیادہ خدشہ ہے کہ اس کام پر صرف شدہ رقم کا خاطر خواہ استعمال نہ ہونے پائے اور یہ ضائع ہو جائے۔ ان اداروں میں تحقیقی کام مخصوص سمت اور ضروریات کو نظر میں رکھتے ہوئے نہیں کئے جاتے۔ علاوہ ازیں ایسی صنعتوں کی تعداد بھی بہت کم ہے جو ان تجربات اور تکنیکی معلومات کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے پوری ہمت کے ساتھ آگے بڑھیں ۔

            ہندوستانی سائنسدانوں اور تکنک دانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ شمسی ، بادی، سمندری موجوں اور گوبر سے حاصل ہونے والی توانائیوں سے ہمارے دیہاتوں کی توانائی کی بہت سی ضروریات کو جیسے پانی کی فراہمی ، کھانے پکانے، اناج اور دیگر اشیاء کو خشک کرنے اور زرعی مشینوں کو چلانے کو پورا کیا جا سکتا ہے۔

            قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو استعمال کرنے والے اداروں کو مرکزی حکومت ، مالی و تکنیکی امداد دینے پر غور کر رہی ہے کہ ان سے مستقبل میں ہمارے ملک کی %۴۹ توانائی کی ضرورت پوری ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔

            ذیل میں چند ایسے متبادلات دئیے جا رہے ہیں جو توانائی کے بہترین نعم البدل کے طور پر استعمال کئے جا سکتے ہیں ۔

            کرۂ  زمین میں چھپی ہوئی بے پناہ حرارت توانائی پیدا کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک کی کوکھ میں اس کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ اس ارضی حرارتی توانائی کے ذخیرے لداخ سے کولار کی سونے کی کانوں تک پھیلے ہوئے ہیں ۔

            ہندوستان جیسے گرم ملک میں جہاں سال کے بڑے حصّے کے دوران سورج کی کرنیں آس پاس پھیلے سمندر کے پانی کو گرم کرتی رہتی ہیں ۔ ان گرم موجوں سے توانائی کا معتدبہ حصّہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ توانائی کا کبھی نہ ختم ہونے والا ذریعہ ہندوستان جیسے ملک کے لیے بڑا مناسب ہے۔ اس قسم کی توانائی کی شدت ہنوز نامعلوم ہے۔ اس مقصد کے لیے ہندوستان  میں OTEC   نامی ایک کمیشن قائم کیا گیا ہے تاکہ وہ اس پروجیکٹ پر کام کر سکے اور وقتاً فوقتاً اپنی کارگزاریوں سے حکومت کو آگاہ کرتا رہے۔

            سورج توانائی کا بڑا منبع ہے۔ اس سے حاصل شدہ توانائی کا قلیل ترین حصّہ بھی انسان استعمال کرنے پر قادر ہو جائے تو یہ ساری ہاہاکار ختم ہو جائے۔ شمسی توانائی کا ذخیرہ لامحدود ہے۔ اس لیے اس کے ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں ۔ ہندوستان ایک ایسے جغرافیائی حصّہ میں واقع ہے جہاں شمسی توانائی پر تحقیق گاہیں اس توانائی کا بلا تکلف استعمال کر رہی ہیں ۔ احمد آباد کی ایک کپڑے کی مل کی گرم پانی کی بڑی ضرورت انہی شمسی ہیٹروں سے پوری کی جا رہی ہے۔ جنوبی ہند کی چند عمارتوں اور ہوٹلوں میں شمسی توانائی ہیٹر نصب کئے جا چکے ہیں ۔ وزیر اعظم ہند کی رہائش گاہ پر کچھ عرصہ قبل پانی گرم کرنے کے لیے ایک شمسی ہیٹر فٹ کیا گیا ہے۔ غرض کہ شمسی توانائی سے متعلق تحقیقات کی کامیابیوں نے نئی راہوں کو کھول دیا ہے۔

            گوبر کو بھی توانائی حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی توانائی کی اہمیت اس لیے بڑھ گئی ہے کہ یہ دیہی آبادی کی ضرورت کو پورا کر سکتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں گوبر گیس کے 87000   پلانٹ لگائے جا چکے ہیں جن سے حاصل ہونے والی گیس کا تخمینہ 99.82   ملین مکعب میٹر لگایا گیا ہے جو 62   ملین لیٹر مٹی کے تیل سے حاصل ہونے والی توانائی کے برابر ہے۔

گوبر گیس پلانٹ

            ایک گوبر گیس پلانٹ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ سستا ہونے کے علاوہ یہ بڑا سادہ ہوتا ہے۔ اس کے کام کرنے کے طریقے میں بھی کوئی پیچیدگی نہیں نیز اسے مقامی طور پر حاصل شدہ اشیاء سے تیار کر کے بخوبی چلایا جا سکتا ہے۔ اس پلاٹ کی تنصیب کے لیے سب سے ضروری شرط یہ ہے کہ گھر میں مویشیوں کی مناسب تعداد ہوتا کہ تازہ گوبر دستیاب ہو سکے۔ اس سے حاصل ہونے والی گیس (میتھین CH4) کو کھانا پکانے اور گھروں کو روشن کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ گوبر کے سڑنے کے بعد آخر میں بچنے والا مادہ ایک عمدہ کھاد کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح گوبر سے دہرا فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ پلانٹ ایسے دور دراز علاقوں میں کام کی چیز ہے جہاں ابھی تک بجلی (الکٹری سٹی) کی نعمت پہنچ نہیں پائی ہے۔ ریاستی حکومتیں گوبر گیس پلانٹ لگانے کے لیے سرکاری امداد میں چھوٹ یا رعایت کے علاوہ تکنیکی معلومات بھی مہیا کرتی ہے۔

            یوں دیکھا جائے تو ان تمام ذرائع سے حاصل ہونے والی توانائی علیٰحدہ علیٰحدہ کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی مگر بحیثیت مجموعی اس کی کل مقدار اس بحران کو حل کرنے میں ممد د معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

            تیل کے نعم البدل کی تلاش کے لیے ایک دہائی کا عرصہ بہت زیادہ نہیں مگر اس ضمن میں جو کامیابیاں ہاتھ آئی ہیں ان سے اور بہت نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ہمارے چھٹے پنج سالہ منصوبہ میں اس مد کے لیے کافی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اس غرض کے لیے اعلیٰ و وسیع امتیازات کا ایک کمیشن بھی مقرر کیا گیا ہے تاکہ وہ تمام تر ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا سکے اس پروگرام کے ذریعہ شمسی توانائی کو اول درجہ کا مستحق قرار دیا گیا ہے اور وہ دن دور نہیں جب ہندوستانی سائنس داں اس میدان میں بھی نمایاں کامیابیاں حاصل کر لیں گے۔ آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ محض نئے اور قابل تجدید توانائی کے ذریعوں کی کھوج ہی کافی نہیں بلکہ موجودہ توانائی کے ذخائر کو محفوظ رکھنے پر بھی زور دیا جائے اور اس کے فضول استعمال سے گریز کیا جائے۔

ہائیڈروجن ایندھن اور ماحولیات

            دنیا کی سڑکوں پر تیس کروڑ سے زائد کاریں ، گاڑیاں وغیرہ شب و روز دندناتی پھرتی ہیں ۔ بحری اور ہوائی جہاز بھی اپنی فاصلہ پیمائی کے لیے ایندھن کے محتاج ہیں نیز ہمہ اقسام کی مشینوں اور کارخانوں کے دلوں کی دھڑکنوں کے لیے تیل /ڈیزل وغیرہ ہی خون کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ گویا انسانی سرگرمیاں ، ترقی اور تہذیب، توانائی اور بجلی کی مرہون منت ہیں جن کا سرچشمہ رکازی ایندھن ہیں ۔

ٍ            ایک اندازے کے مطابق ساری دنیا میں فی الوقت محض ایک لاکھ کروڑ بیرل تیل کی مقدار موجود ہے جو بمشکل ۲۰۳۶ء تک کے لیے کافی ہے۔ قدرتی گیس کو بھی ان دنوں توانائی کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ چنانچہ ان دونوں ماخذوں کو یکجا کر لیا جائے اور انھیں مجموعی طور پر بڑی سوجھ بوجھ اور حکمت عملی اور کفایت کے ساتھ استعمال کیا جائے تو یہ ذخیرہ زیادہ سے زیادہ ۱۰۰ سال تک کام میں آ سکے گا جس کے بعد توانائی /بجلی کا بحران طے شدہ ہے۔ اس لیے ساری دنیا میں تیل کے نعم البدل کی تلاش بڑی شد و مد سے کی جا رہی ہے جن غیر روایتی ذرائع سے توانائی حاصل ہوتی ہے ان میں ہوا، پانی(آبی)، ایٹم(جوہری)، سورج(شمسی) قابل ذکر ہیں ۔ ان کے علاوہ حیاتی گیس، گوبر گیس، سمندروں کی موجوں ، زیرِ زمین حرارت اور گرم پانی کے چشموں سے بھی کسی حد تک اس ضرورت کو پورا کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں نباتی پٹرول کی چونکا دینے والی خبر کے بعد اس میدان میں ایک دم خاموشی چھا گئی ہے۔ بہر حال توانائی کے اتنے ذرائع کے باوجود ایک ایسے متبادل کی تلاش جاری ہے جس کے ذخیرے لامحدود ہوں ۔

            سورج کو توانائی کا ’’منبع‘‘ کہا جاتا ہے۔ زمین پر ’’زندگی‘‘ اسی کی مرہون منت ہے۔ عرصۂ  دراز سے سورج اسی طرح دمکتا اور دہکتا چلا آ رہا ہے۔ سائنسداں اس گتھی کو سلجھانے میں لگے ہیں کہ آخر اس لا متناہی حرارت اور توانائی کا راز کیا ہے۔ ابھی تک کے تجربات کا نچوڑ یہ ثابت کرتا ہے کہ سورج میں ہائیڈروجن (H2)   اور ہیلیم (He)   کے مابین چلنے والے اتصال اور انشقاق کے تعاملات سے حد درجہ گرمی پیدا ہوتی ہے۔ سورج کی اس توانائی کا بڑا حصّہ بیکار چلا جاتا ہے۔ اگر انسان اس کے مکمل تصرف کی صلاحیت حاصل کر لے یا پھر اس کی سطح پر موجود ہائیڈروجن کے لازوال خزانے کو اپنے لیے توانائی میں تبدیل کرنے پر قادر ہو جائے تو اس کے ایندھن کا مسئلہ پوری طرح حل ہو جائے۔ سائنس دانوں کی نگاہیں سورج کے علاوہ پانی پر بھی لگی ہیں ۔ کرہ ارض کا تین چوتھائی حصّہ پانی ہے اور اس پانی (H2O)   میں آکسیجن کے مقابلہ ہائیڈروجن (H2)   کی مقدار دگنی ہوتی ہے۔ اگر سائنسداں اس ہائیڈروجن کو کم لاگت کے عوض علیٰحدہ کرنے کی کوششوں میں کامیاب ہو جائیں تو اس بحران کو ٹالا جا سکتا ہے۔

            چنانچہ آج دنیا کی سبھی ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں توانائی کے غیر روایتی ذرائع پر جہاں کھوج ہو رہی ہے وہیں ہائیڈروجن کو بھی بطور متبادل ایندھن استعمال کرنے کے ممکنات پر بھی سائنسداں ہر پہلو سے غور کر رہے ہیں خصوصاً آئس لینڈ، امریکہ، جاپان، جرمنی اور اسرائیل تو اس معاملے میں پیش پیش ہیں ۔ مقامی اعتبار سے موزوں قدرتی وسائل اور ضرورتوں کے پیش نظر ہر ملک اس مہم میں جٹا ہوا ہے۔ مثلاً آئس لینڈ قدرتی طور پر آتش فشانی خطہ پر آباد ہے۔ زیر زمین حرارت اور گرم ابلتے پانی کے چشموں کی بہتات کی بدولت وہ اس کو اپنی توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ نیو میکسیکو میں ’’سولر ڈِش‘‘ بنانے اور استعمال کرنے میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔ وہاں کے ٹسٹ فیلڈ میں جاری تجربات بڑے ہمت افزا ثابت ہوئے ہیں ایک اندازے کے مطابق ۲۰ ہزار سولر ڈش سارے امریکہ کو توانائی کی ضرورت پورا کرنے کے لیے کافی ہوں گی۔ جیسا کہ نام سے ظاہر یہ ڈش سورج سے گرمی پاتی ہیں اور نیچے برتن میں بھری ہائیڈروجن کو تپش پہنچاتی ہیں ۔ اس کے باعث ہائیڈروجن میں پھیلاؤ اور انتشار ہوتا ہے اور پسٹن حرکت میں آ جاتا ہے جس سے جنریٹر جڑا ہوتا ہے اور جنریٹر کی حرکت میں آنے سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ یہ ڈش صرف دن میں یا سورج کی موجودگی میں ہی کام کر سکتی ہے۔ مگر ہندوستان جیسے ملک کو قدرتی طور پر اس مواقع زیادہ ہیں کیونکہ ملک کے طول و عرض میں تقریباً سارے ہی سال سورج چمکتا رہتا ہے اور اس طرح ڈش طویل وقت کے لیے کام کر سکتی ہے۔

            تو بات ہو رہی تھی آئس لینڈ کی، جہاں حمل و نقل کے ذرائع کو چھوڑ کر توانائی کی ملک کی 70%   ضرورت ارضی حرارت سے پوری ہو جاتی ہے مگر یہاں کے سائنسداں اس کوشش میں لگے ہیں کہ ملک کو تیل کی معیشت سے آزاد کر دیا جائے اور یہاں کی سو فیصد توانائی کو تیل کے علاوہ کسی اور ذریعہ سے پورا کیا جائے اور نظر انتخاب ہائیڈروجن پر پڑی ہے۔ جو بلا مبالغہ نہایت مناسب تجویز ہے۔ امریکی صدر جارج بش بھی شدید عوامی مخالفت کے باوجود اس طرح کے ایندھن کی حمایت میں ہیں نیز انھوں نے امریکی ہائیڈروجن کی تکنیک کے منصوبے کے لیے 1.3   ارب ڈالر مختص کئے ہیں ۔

            ادھر ہمارا ملک بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں ۔ مرکز میں ایک باقاعدہ شعبہ، وزارت توانائی کے تحت مرکزی اور صوبائی سطحوں پر متبادل ایندھن کے مختلف پروجیکٹ کو ہر طرح سے امداد اور حوصلہ مہیا کر رہا ہے۔ کاشی و شو ودھیالیہ کے ہائیڈروجن انرجی سنٹر نے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ فی الوقت ہمارے یہاں ہلکی گاڑیوں کو شمسی اور ہائیڈروجن کی توانائی پر چلانے کے تجربات چل رہے ہیں ۔ جیسے اودے پور کی سیاحت کو بڑھاوا دینے اور شہر کو آلودگیوں سے پاک رکھنے کے لیے شمسی رکشوں کی ہمت افزائی کی جا رہی ہے۔ ان گاڑیوں کی ساخت میں معمولی سا ردّ و بدل کر دیا جاتا ہے اور پانی سے ہائیڈروجن کو علیحدہ کر کے اسے بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پروجیکٹ کی تکمیل میں بھی اچھا خاصہ وقت لگنے کی توقع ہے۔ صدر جمہوریۂ  ہند جو خود ایک مایۂ  ناز سائنس داں ہیں وہ بھی توانائی کے بحران کو چشم بینا سے دیکھ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم ڈیزل پٹرول پر اپنے انحصار کو ختم کریں ۔ بیرونی زر مبادلہ کے علاوہ ایسا ایندھن فضائی آلودگی کا بھی ذمہ دار ہے اس لیے اس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ابھی یوم جمہوریہ کے موقعہ پر اپنے پیغام میں انھوں نے حیاتی ایندھن کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

            پچھلے دنوں اودے پور میں منعقدہ ’’چاند کی تسخیر اور اس کا تصرف‘‘ (Exploration and Utilization of Moon)  چھٹی بین الاقوامی کانفرنس میں جہاں عالمگیر شہرت کے حامل سائنسداں شریک تھے، موصوف نے کہا:

’’موجودہ اکیسویں صدی کے اختتام تک دنیا کے معدنی تیل کے ذخائر ختم ہونے کے قریب ہیں ۔ اس پس منظر میں چاند کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔‘‘

یہ بات دراصل اس تناظر میں کہی گئی تھی کہ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق چاند پر ہیلیم کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ اس کی مقدار ۱۰ لاکھ ٹن آنکی گئی ہے۔ اس کے برعکس زمینی فضا میں اس کی مقدار بہت ہی کم ہے۔ ہیلیم دراصل ہیلیم۔2 کی ہم جا (آئسو ٹوپ) ہوتی ہے۔ سورج پر ہائیڈروجن اور ہیلیم کے اتصال کے نتیجہ میں حد درجہ حرارت اور توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔ اس مرحلے کے دوران ہائیڈروجن بھی پیدا ہوتی ہے۔ یہ عمل نہ جانے کب سے یوں ہی جاری ہے۔ اس کے باوجود سورج کی توانائی اور حدت ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ چاند پر اسی قسم کے تعاملات کے ممکنات پر غور کیا جا رہا ہے اور ایسا اگر کبھی ہو جائے کہ ہم چاند پر پائی جانے والی ہائیڈروجن کو علیحدہ کر کے توانائی کے لیے استعمال کر سکیں تو یہ دنیا والوں کے لیے ایک خوش آیند بات ہو گی۔ اس لیے صدر محترم نے چاند پر توجہ مرکوز کرنے کی بات کہی ہے۔

            متبادل ایندھن کے بطور ہائیڈروجن کے علاوہ چاند، سورج، پانی کے علاوہ قدرتی گیس اور الکحل بھی ماہرین کے زیر غور ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کی افادیت کو ٹٹولا جا رہا ہے مگر جو ایندھن اپنی جانب توجہ کھینچ رہا ہے وہ ہائیڈروجن ہے کیونکہ اس کے دونوں منابع یعنی پانی اور سورج اس کا لازوال خزانہ رکھتے ہیں جو آنے والی نسلوں کے لیے کافی ہو گا۔ یوں تو ہائیڈروجن کو گیسولین اور آئل سے بھی حاصل کر کے بطور ایندھن استعمال کر سکتے ہیں ۔ اور کہیں کہیں ہو بھی رہا ہے۔ جیسے آئس لینڈ میں ۔ مگر  تنا تان الے کور و  اعجاز عبیدہم کی

اس میں قباححے مرصتیں ہیں ۔ اول تو یہ کہ اس عمل میں لاگت کافی آتی ہے،دوسرے یہ کہ پیدا ہونے والی آلودگی، تیل اور پیٹر ول سے ہونے والی آلودگی سے کہیں زیادہ ہو تی ہے اس اعتبار سے سائنسداں اس بات او لیت دے رہے ہیں کہ ہائیڈروجن کہ سستے داموں پر حاصل کیا جائے اس میدان میں کام کرنے والے سائنسداں کے سامنے یہ چیلنج ہیں :

۱۔         ہائیڈروجن کے یہ منبع لازوال ہوں ۔

۲۔        اس ہائیڈروجن کا حصول اعلیٰ پیمانے پر کم داموں پر ہو۔

۳۔        اس کا حمل و نقل محفوظ اور سہولت بخش ہو۔

۴۔        اس سے بجلی بھی پیدا کی جا سکے۔

۵۔        اس توانائی کو عام لوگ بلا خوف و تردد استعمال کر سکیں ۔

            سائنس دانوں نے ان چیلنج کو قبول کر کے اپنا لائحہ عمل تیار کیا ہے۔

            گیسولین کے علاوہ دیگر افعال و تعاملات کے نتیجہ میں بھی ہائیڈروجن پیدا کی جا سکتی ہے۔ مثلاً

۱۔         حیاتی مادوں کے تجزیے اور پائرولسس کے دوران زرعی فاضلات، لکڑی کے ٹکڑوں وغیرہ کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔یہاں اونچے درجۂ  تپش پر ہائیڈروجن کا حصول ہوتا ہے۔

۲۔        فوٹو بائیولاجیکل (نوری ،حیاتی) عمل کے دوران خورد بینی جانداروں کی مدد سے تماسی عاملوں کی موجودگی میں بھی ہائیڈروجن تیار کی جاتی ہے۔

۳۔        قدرتی گیس اور بھاپ کے باہمی تعامل کے نتیجے میں مخصوص حالات میں بھی ہائیڈروجن پیدا ہوتی ہے۔

۴۔        علاوہ ازیں پانی کے برقی تجزیے (الکٹرولسس) کے دوران بھی اس گیس کا اخراج ہوتا ہے۔

۵۔        میتھائل الکحل اور ایتھائل الکحل سے بھی اس کی تیاری ممکن ہے۔ میتھائل الکحل یا میتھانال کو اگر قدرتی گیس سے کم خرچ پر حاصل کر نے میں کامیابی مل جائے تو یہ سودا سستا ہو گا،اسی طرح ہندوستان میں جہاں شکر کے کئی کارخانے ہیں ان سے نکلنے والا ضمنی مادہ ’’راب‘‘ (شکر کا شیرہ) بھی ایتھانال الکحل کی تیاری کے لیے بطور خام مال استعمال کیا جا سکتا ہے۔

            اس طرح مختلف ممالک میں ہر ممکنہ ذریعے سے کم لاگت لگا کر اس گیس کو حاصل کر نے کے پروجیکٹ چل رہے ہیں تاکہ روایتی ایندھنوں پر انحصار کو کم سے کم کیا جائے ۔ تاہم اس راہ میں کئی دشواریاں ہیں ۔

۱۔         ہائیڈروجن کو کم دباؤ کے تحت کس طرح مائع میں تبدیل کیا جائے نیز بوقت ضرورت کس طرح اسے دوبارہ (کم درجۂ  حرارت) پر گیسی حالت میں لایا جائے۔

۲۔        اس کی ذخیرہ اندوزی اور نقل و حمل کو خاص طور پر چلتی گاڑیوں میں کس طرح محفوظ اور سہولت بخش بنایا جائے۔

۳۔        ایک ایسی تکنیک کھوجی جائے جس میں ہائیڈروجن گیس کوفی الفور اور بوقت ضرورت استعمال، تیار کیا جا سکے۔

۴۔        یہ آتش گیر شئے ہے اس لیے عوامی گاڑیوں میں اس کے ذخیرہ کی سفارش نہیں کی جا سکتی۔ اس خامی پر قابو پانے کی ترکیب ڈھونڈی جائے۔

۵۔        اس ایندھن سے متعلق عام لوگوں کی غلط فہمیوں اور بھرم کو رفع کیا جائے، مثلاً امریکہ جیسے ملک میں اس ایندھن سے متعلق مزاحمت اور ،مخالفت اپنے عروج پر ہے۔

۶۔        پیٹرول پمپ کے طرز پر ہائیڈروجن پمپ کا سڑکوں کے کنارے جا بجا تعمیر کیا جانا بھی ایک دشوار امر ہے۔

            یہ تمام کوششیں مختلف سطحوں پر جاری ہیں اور سائنسداں ، ماہرین اور اس کے حامیوں کو پوری توقع ہے کہ وہ اپنے اس مشن میں ضرور کامیاب ہوں گے۔

            جب ہائیڈروجن کو بطور ایندھن استعمال کرنے کی بات چل رہی ہے تو فیول سیل (ایندھن خانہ) اور ہائیڈروجن جنریٹر کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔

            ہائیڈروجن کو توانائی اور برقی رو میں تبدیل کرنے کا کام ہائیڈروجن فیول سیل میں ہوتا ہے۔ تیزابی پانی سے برقی رو گزرنے پر اس کی تحلیل اس کے اجزا یعنی ہائیڈروجن اور آکسیجن میں ہوتی ہے۔ ہائیڈروجن مثبت بار دار ہونے سے منفیرہ پر اور آکسیجن منفی بار دار ہونے سے مثبیرہ کی طرف جاتی ہے۔ یہ برق پارے متعلقہ قطب پر پہنچ کر بے بار یعنی معتدل ہو جاتے ہیں اور اس طرح پانی میں برقی بہاؤ شروع ہو جاتا ہے۔ عام آبی تجزیے یا آب پاشیدگی کے دوران یہ دونوں گیسی حالت میں خارج ہو جاتے ہیں ۔ مگر ایک فیول سیل میں یہ عمل قدرے مختلف ہوتا ہے۔ اس خانے میں تین خاص حصّے یعنی  (انوڈ)، منفیرہ(کھیتوڈ) مثبیرہ اور الکٹرولائٹ ہوتے ہیں ۔ درمیانی پروٹان ایکس چینج میمبرین (پی ای ایم) ہوتے ہیں ۔ آب پاشیدگی کے دوران خارج شدہ ہائیڈروجن اس جھلی (میمبرین) سے گزرتے وقت اپنی برقی قوت بجلی کی شکل میں منتقل کر دیتی ہے۔ آکسیجن اور ہائیڈروجن کے بے بار جواہر مل کر دوبارہ پانی بناتے ہیں جسے ویسے ہی یا بھاپ کی شکل میں خارج کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح آلودگی کی بنا صاف ستھری توانائی حاصل ہوتی ہے۔ اب اس فیول سیل کو ہائیڈروجن کی سپلائی متواتر ہوتی رہے اس کے لیے ہائیڈروجن جنریٹر بڑے کام میں آتا ہے۔

            چونکہ ہائیڈروجن ایک آتش گیر اور بھڑکنے والی گیس ہے اس لیے عوامی گاڑیوں خصوصاً اسکوٹر، آٹو رکشہ، کار وغیرہ میں اس کا ذخیرہ خطرے سے خالی نہیں اس لیے جتنی ضرورت ہوتی ہے اتنی مقدار میں اسے وہیں تیار کر لیا جاتا ہے اور فوری طور پر اسے بطور ایندھن کام میں بھی لایا جاتا ہے۔ ممکنہ خطرہ کو ٹالنے کا یہ عمدہ طریقہ ہے۔

ہائیڈروجن جنریٹر کی ساخت

            امریکہ کی منی سوٹا یونیورسٹی کے لین شمٹ نامی سائنسداں نے گیس لائٹر کی شکل اور سائز کا ایک ہائیڈروجن جنریٹر تیار کیا ہے (شکل ملاحظہ ہو) یہاں ایتھانال سے ہائیڈروجن حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہاں سے نمودار ہونے والی گیسوں میں بطور خاص ہائیڈروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیسیں ہوتی ہیں ۔ مگر H2   کا تناسب 50%  سے زیادہ ہوتا ہے۔ اسے فیول سیل کے اگلے مرحلے میں بھیج کر توانائی میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ آئس لینڈ میں اس مہم پر زور و شور سے کام ہو رہا ہے اور یہ نشانہ مقرر کیا گیا ہے کہ ساری گاڑیوں کو اس ایندھن پر چلایا جائے۔ اس مہم کی سب سے بڑی مشکل ہے ہائیڈروجن کی ارزاں دستیابی۔ اور جب تک یہ ممکن نہیں ہو گا اس کے عام استعمال کی سفارش نہیں کی جا سکتی۔ مگر ماہرین بھی اس اڑچن کو دور کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور یقیناً وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہو جائیں گے تیل سے آزاد معیشت کا تصور جلد ہی ایک حقیقت کا روپ دھار کر دنیا کے سامنے آئے گا اور ہند جیسے ملک کو اس سے جڑے رہنے میں ہی فائدہ ہے۔

٭٭٭

 

پانی کی اہمیت اور ماحولیات

            ’’زندگی پانی ہے‘‘ اس مقولے سے پانی کی اہمیت و افادیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سائنس کے ایک نظریہ کے مطابق ’’زندگی ‘‘ کی ابتداء پانی میں ہوئی۔ سورہ انبیاء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’بنائی ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز‘‘ (آیت 30) خود انسان کی پیدائش کو قرآن نے پانی کے ایک قطرے سے بتلایا۔ پانی 30) خود انسان کی پیدائش کو قرآن نے پانی کے ایک قطرے سے بتلایا۔ پانی

’’زندگی‘‘ اور زندہ چیزوں کے لیے ایک اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے اس کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اور اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں ’’پانی ہی زندگی ہے‘‘ جانور ہوں یا پودے، اپنی بقا کے لیے پانی کے محتاج ہیں ۔ اس کے بغیر انسانی سماج کی ہلچل تھم جائے۔ پر ترقی کے پہیے کو مسلسل حرکت میں رکھنے والا ہے۔ اس کا اور انسانی تہذیب کا گہرا تعلق ہے۔ دنیا کی تاریخ پر ایک سرسری نظر اس بات کو محسوس کر نے کے لیے کافی ہے کہ عظیم الشان تہذیب کے گہوارے پانی کے منبع اور دریاؤں کے قریب ہی واقع ہوئے ہیں ۔ رومن، یونانی، ایرانی، مصری، عراقی (میسوپوٹامیہ)، چینی یا ہندوستانی ساری ہی تہذیبوں کے مراکز پانی اور اس کے ذخائر کے بہت قریب رہے ہیں ۔اس کے بعد ان کا پھیلاؤ دوسرے مقامات تک ہوا۔ قدیم عرب و حجاز میں جہاں پانی ایک نعمت کی حیثیت رکھتا تھا، ایسے شواہد ملتے ہیں کہ اونٹ کو پہلے پانی پلانے پر جھگڑا شروع ہوتا۔ یہ اکثر خونیں شکل اختیار کر لیتا اور جنگ و جدال کا سلسلہ نسلوں تک جاری رہتا کہ باپ اپنے بیٹے کو بدلہ لینے کی وصیت کر کے ہی مرتا ۔ یہ اختلافات آج بھی جاری ہیں گو ان کی نوعیت بدل گئی ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں کے بیچ تنازعے کی وجوہ ایک پانی بھی ہے۔ بنگلہ دیش ، ہندوستان، نیپال،پاکستان وغیرہ اسی پانی کے چکر میں برسوں سے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں ۔ یہاں تک تو معاملہ غنیمت تھا ایک ہی ملک کی صوبائی حکومتیں اس مسئلے کو لے کر برسوں سے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں اور اس مسئلہ کا حل دور تک سجھائی نہیں دیتا۔ ستلج کا معاملہ ہو یا کاویری سے پانی چھوڑنے کا ہر ریاست کے اپنے اپنے جواز ہیں ۔ اس کے لیے وہ عوام کا حقہ پانی بند کر دینے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے چاہے مخالف ریاست کے عوام بوند بوند پانی کو ترس جائیں ۔ ہاں ایسی ریاستیں وفاقی حکومت سے یہ ضرور توقع رکھتی ہیں کہ اس قبضے میں مرکزی حکومت دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے تاکہ وہ بلا شرکت غیرے ان ذخائر یا سہولیات پر قابض ہو جائیں ۔ بعض دانشوروں کی یہ رائے بے بنیاد نہیں کہ اب تیسری عالمی جنگ تیل وغیرہ کی دولت ہتھیا نے کے لیے نہیں بلکہ پانی کے حصول کے لیے لڑی جائے گی۔ غرضیکہ عالمی سطح پر یہ سلگتا ہوا مسئلہ دن بدن بھڑکتا ہی جا رہا ہے۔افہام و تفہیم ، باہمی سوجھ بوجھ اور فراست کے پانی سے ہی اس آگ کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے۔ یہ پیچیدہ مسئلہ اچھی اچھی حکومتوں کی آنکھوں میں پانی لا دینے کا ذمہ دار ہے۔ انسان کی پیدا کردہ اس کھینچا تانی کے علاوہ پانی سے جڑے دیگر پہلو بھی ہیں جن کو آسمانی قہر سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔ کبھی اس پانی کی قلت (قحط۔ سوکھا) ہنگامی صورت حال کو جنم دیتی ہے تو کبھی اس کی زیادتی (سیلاب) سارے ترقیاتی منصوبوں پر پانی پھیر دینے کے لیے کافی ہے۔ بے یقینی حالات اور تباہی و نقصان بہر حال دونوں صورتوں میں ہیں ۔

پانی کے افعال

            پانی انسانی سماج کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ پینے، پکانے، دھونے،عام استعمال، آب پاشی، بجلی یا توانائی پیدا کر نے کے لیے اور صنعتوں کو متحرک کر رکھنے کے لیے پانی کی اہمیت مسلّم ہے۔ انسانی جسم کا تقریباً 65% حصّہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے خون سمیت انسانی جسم کے سبھی اعضاء چاہے وہ دماغ ہو،آنکھ یا پیٹ یا دوسرے عضو، ہر خلیہ اور نسیج میں پانی کی معتد بہ مقدار موجود ہو تی ہے۔ جسم کے اہم افعال کے لیے پانی درکار ہو تا ہے۔ یہ پانی ہی ہے جو خون کی سیلانیت کو برقرار رکھ کر اس کو جسم میں گردش کے قابل بنا تا ہے غذا کو ہضم کر نے، اسے جذب کر نے اور پھر خون میں شامل کر کے پورے جسم میں گردش کر نے کے لیے پانی ہی خون کو ایک مخصوص سیلانی کیفیت (پتلا پن) میں رکھتا ہے۔ غذائی اجزاء کی ایک ایک عضو تک ترسیل اسی خون کے ذریعے انجام پاتی ہے یہی خون واپسی کے سفر میں جسم کے سارے فاسد اور بیکار مادوں کو اکھٹا کر کے گردے،جلد وغیرہ تک لا تا ہے تاکہ عمل استخراج کے ذریعے اسے پیشاب اور پسینے کی شکل میں باہر نکال دیا جائے۔ یہی پسینہ جسم کے درجہ حرارت کو یکساں طور پر تقسیم کر کے اسے معتدل بنائے رکھتا ہے۔ عمل انہضام، انجذاب، تحوّل، تنفس اور غذائی مادوں کی ترسیل۔ اس کے علاوہ جسم میں قدرتی اور بے قناتی غدود نیز افرازات (ہارمون) کے لیے بھی پانی ضروری ہے۔ پودے بھی پانی کو مختلف اعمال و افعال کے لیے مسلسل استعمال کر تے رہتے ہیں ۔ریگستانی پودے (جیسے کیکٹس وغیرہ) جو پانی کی اقل ترین مقدار میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں ، اپنے رسیلے، لیسدار اور چپچپے  نسیجوں میں پانی کا وافر ذخیرہ رکھتے ہیں اور ہم اس صحرائی حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ عرب کے بدّو  سخت احتیاج کے زمانے میں اونٹ کے جسم میں ذخیرہ شدہ پانی کو حاصل کرنے کے لیے اسے حلال کر ڈالتے ہیں ۔پودے بھی اپنے مختلف اعمال و افعال کے لیے مکمل طور پر پانی پر انحصار کر تے ہیں ۔ نمکیات، معدنیات کا ا نجذاب، عمل تداخل، شعاعی ترکیب، عمل تنفس پانی کے بغیر انجام نہیں پا سکتے۔ زائد پانی پتیوں کی سطح میں موجود دہن خلیوں سے بھاپ کی شکل میں باہر نکل کر فضا کو سرد اور خوشگوار بناتا ہے۔ اسی طرح بیجوں اور پھلوں کے انتشار کا ایک اہم نمائندہ (ایجنسی) ہوا، جانور وغیرہ کی طرح پانی بھی ہے۔ سبزیوں ، اناج ، بیجوں اور پھلوں کا اچھا خاصا حصّہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے۔ تربوز، خربوزہ، کھیرا، نارنگی، موسمی وغیرہ تو گویا پانی کے سوا کچھ اور نہیں ہوتے۔ ان پھلوں کی گرمی میں تواضع فرح بخش، تراوٹ لانے والی ثابت ہوتی ہے۔ اس طرح ہوا اور غذا کی طرح پانی بھی جانداروں کے لیے   بے حد ضروری ہے۔

            یہ عجیب اتفاق ہے کہ کرۂ  زمین کا تین چوتھائی حصّہ پانی سے ڈھکا ہوا ہے مگر یہ پانی اس پر بسنے والے جانداروں خصوصاً انسانوں کے لیے قابل استعمال نہیں ۔ سمندروں اور قطبین پر برف کی شکل میں مقید پانی ان کی جملہ ضرورتوں کے لیے بے معنی ہے۔ دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی کو صاف اور پینے کے لائق پانی دستیاب نہیں ۔ وہ غیر معیاری ، ناقص اور صحت کے نقطہ نظر سے نامناسب پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں ۔ اس پر طرّہ یہ کہ ایسے گھٹیا اور گدلے پانی کے لیے بھی خاص طور پر عورتوں اور بچوں کو دو، دو۔ تین، تین کلو میٹر تک جانا پڑتا ہے۔ اس جنس (پانی) نے انسانوں کی سماجی زندگی پر بھی اپنے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ راجستھان کے ایک گاؤں کی خبر پڑھنے کو ملی جہاں برسوں (تقریباً 20برس) سے کوئی شادی نہیں ہوئی۔ وجہ! اس گاؤں میں پانی کی قلت کے پیش نظر کوئی بھی اپنی لڑکی کو یہاں بیاہ کر دینا نہیں چاہتا۔ ویسے راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کچھ ایسی بھی مثالیں ہیں جہاں کے باشندوں نے اپنی جانفشانی اور محنت کے بل بوتے پر بنجر اور خشک علاقوں کو سرسبز و شاداب بنا دیا ہے۔ شہروں میں ایک بالٹی پانے کے لیے سر پھٹول اور پڑوسیوں میں عداوت ایک عام بات ہے۔ قریوں قریوں ، شہروں شہروں یہی دردناک مناظر عام ہیں ۔ آزادی کے بعد تو حالات اس شعر کی تفسیر بنے ہوئے ہیں ۔

٭٭٭

 

مرض  بڑھتا  گیا  جوں  جوں  دوا  کی

            بہر حال یہ تو ہونا ہی ہے کیونکہ ادھر آبادی میں غیر معمولی اضافہ ہے تو ادھر ماحول کے توازن کو بگاڑ نے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک مہذب اور ترقی یافتہ معاشرہ کے لیے ہے نہ چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے والی بات!

وجوہات

            جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا نام نہاد ترقی نے وہ گل کھلائے کہ اس کے ثمرات آج موسوں کی تبدیلیوں ، ماحولیات کے بگاڑ، آلودگی میں بے پناہ اضافہ حتیٰ کہ خود انسان کے ناپید ہونے کے خطرے کی صورت میں دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ موسم کے مزاج میں ناقابل فہم تبدیلی آ گئی ہے۔ اس کو ماہرین اپنی زبان میں ’’ایل نینو‘‘ حالت کہتے ہیں ۔ اس کے لامحالہ اثرات زراعتی نظام، پیداوار، پانی کی دستیابی، معاش حتیٰ کہ سماجی ڈھانچے پر پڑے ہیں ۔ہر برس نیچے ہی زمین کے کوکھ میں پانی کی سطح اترتی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے استعمال اور پینے کے لیے پانی کا ملنا محال ہو گیا ہے۔ اس کے لیے کون ذمہ دار ہے! بیشک یہی انسان جو شیخ چلی بنا نہ صرف اپنی ڈال کو کاٹ رہا ہے بلکہ دیگر جانداروں کی موت کا سامان تیار کر رہا ہے۔ آبادی میں غیر متناسب اضافہ، انسانوں کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کے لیے کارخانوں ، باندھ، عمارتوں ، سڑکوں کا جال، پیداوار میں اضافے کے لیے قدرتی وسائل خصوصاً پانی کا بے دریغ استعمال، بے سمت نام نہاد ترقی اور اس کی ہوس نے ماحول کو بری طرح متاثر کیا ہے جس کے نتیجے میں موسم میں تبدیلی آئی ہے۔ جنگلات کی اندھا دھند کٹائی نے موسم کے تواتر کو متاثر کیا ہے اور نوبت ایں جا رسید کہ پانی ایک نایاب شئے بن کر رہ گیا ہے۔ صنعتی فاضلات، انسانی فضلہ ، دیگر کثافتیں ، ملوں کارخانوں کی چمنیوں سے نکلتا دھواں اور یہاں سے خارج کیے جانے والے بیکار مادے، ہوا، پانی کو یکساں طور پر آلودہ کر رہے ہیں ۔ ان کے سینوں سے نکلنے والی تپش نے ماحول کو گرمانا شروع کر دیا ہے اور ’’گلوبل وارمنگ‘‘ کے نتیجے میں جو تباہ کاریاں ہوں گی، اس کا صحیح صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے۔ پانی کی قلت نے سائنسدانوں ، ماہرین اور دنیا کے رہنماؤں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس کے سد باب کے لیے مختلف تجاویز پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ اسی کے ساتھ لوگوں کو ضروری معلومات دے کر ان میں ایک بیداری پیدا کی جائے اس کی ضرورت سب سے پہلے ہے۔ کفایت شعاری کے ساتھ پانی (اور دیگر قدرتی وسائل) کے دانشمندانہ استعمال کی عادت پیدا کرنے پر زور دیا جانا چاہیے تاکہ پانی کا تحفظ ہو سکے اور یہ اگلی نسلوں کے لیے اور دیگر کاموں کے لیے باقی رہ سکے۔

اثرات

            پینے کے لیے دستیاب پانی کی قلت نے انسانوں اور جانوروں کو نقل مکانی پر مجبور کیا ہے۔ جنگلات کے خاتمے کے نتیجے میں جنگلی جانور انسانی آبادیوں کا رخ کرتے ہیں اور جانی و مالی نقصان پہنچاتے ہیں ۔ اپنے بچاؤ میں انسان انھیں مار ڈالتے ہیں اور نہ صرف اس سے ماحول کا توازن بگڑ رہا ہے بلکہ چند جانوروں کی نسلیں صفحۂ  ارض سے ناپید ہونے کے قریب ہیں ۔ ہوا اور پانی میں عام آلائندوں کی آمیزش تو غنیمت تھی مگر تابکار آلائندوں نے نسل انسانی کے وجود کو ہی خطرہ میں ڈال دیا ہے۔ ان آلائندوں سے کروموزوم براہِ راست متاثر ہوتے ہیں اور یہ نوعی تبدل انسانوں ، جانوروں ، پالتو جانوروں اور فصلوں میں ایسے عوارض کے ذمہ دار ہیں جن سے چھٹکارا ممکن بلکہ ان کے اثرات اگلی نسلوں تک منتقل ہو جاتے ہیں ۔

پانی اور صحت عامہ

            پانی قدرت کی ایک بے بہا نعمت ہے۔ پچھلی سطروں میں بیان کردہ سرگرمیاں اس کے بغیر انجام نہیں پا سکتیں ، مگر جب گہرائی سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پانی ایک اکسیر ہے۔ اس میں حل شدہ نمکیات، معدنیات اور مرکبات انسانی جسم اور صحت کے لیے جتنے ضروری اور مفید ہیں اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اور خود انسان بھی اس کی افادیت سے بے خبر ہے۔ اس سے قطع نظر بعض مقامات اور چشموں کے پانی میں کچھ ایسے کیمیات گھلے ہوتے ہیں کہ تو ہم پرستی انھیں کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہے۔ جیسے منی کرن(شملہ) اور وجریشوری (مہاراشٹر) کے گرم پانی کے چشمے اپنے اندر گندھک اور کچھ ایسے اجزا رکھتے ہیں جو جلدی امراض کو شفا کلی عطا کرتے ہیں ۔پانی میں نہانے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند وہاں پہنچتے ہیں اور اسے ’’کرامت‘‘ کا نام دیتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ان کرامات کے پیچھے ان کیمیائی مرکبات کا ہاتھ ہوتا ہے جو پانی میں حل شدہ ہوتے ہیں ۔

            جہاں پانی حیات بخش اور صحت بخش ہے وہیں اس کے ذریعے بڑے آسانی سے بعض بیماریوں کا پھیلاؤ بھی ہوتا ہے اور کچھ بیماریوں کے پلنے بڑھنے میں پانی اہم رول ادا کرتا ہے۔ ہیپے ٹائٹس بی، یرقان، ہیضہ، پیچش، امیبائی پیچش، پیٹ کی ہمہ اقسام کی بیماریاں پانی کے ذریعے بڑی تیزی سے پھیلتی ہیں ۔ مختلف بیماریوں کے جراثیم بھی پانی کے ذریعے جسم میں بآسانی پہنچ جاتے ہیں ۔ کچھ بیماریاں اپنے انتشار کے لیے پانی کا سہارا لیتی ہیں جیسے گندے پانی اور رکے ہوئے پانی کے ذخیرے، مچھروں ، ان کے انڈوں ، لاروؤں وغیرہ کی افزائش کے بہترین مقامات ہیں ۔ فیکٹریوں ، کارخانوں خاص طور پر ادویات ، کھاد، کیمیات، رنگ وغیرہ کی فیکٹریوں کے قریب پائے جانے والے پانی میں رنگ، زہریلے مادے، عناصر شامل ہو جاتے ہیں جو انسانوں میں مختلف بیماریاں پیدا کرتے ہیں ۔ فلوروسس، فیل پا، گوایٹر، فائبروسس نیز ہڈی سے متعلق امراض ان کے باعث پھیلتے ہیں ۔ پارہ، سیسہ ، آرسنک پانی کے ذریعے انسانی جسم میں پہنچ کر بہت سی خرابیاں پیدا کرتے ہیں ۔ یہی حال کوئلے اور دھاتوں کی کانوں کے قریب پائے جانے والے پانی کا ہے، جس سے قبض ، سوء ہضم، دمہ اور پیٹ کی کئی شکایتیں پیدا ہوتی ہیں ۔ یہ دیکھا گیا کہ بہار اور ملک کے دیگر علاقوں میں جہاں تابکار عناصر کی خام دھاتیں پائی جاتی ہیں ، آس پاس کی آبادی مختلف امراض اور جسم کی بد وضعی، ہڈیوں کے سخت (غیر متحرک) ہو جانے کے عذاب میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ غرضیکہ پاک صاف اور ہر قسم کی آلائشوں سے مبرا پانی کسی نعمت سے کم نہیں ۔

تدارک اور استحصال

            اپنی صحت سے متعلق فی زمانہ لوگوں کے نقطۂ  نظر میں کافی تبدیلی آ چکی ہے۔ وہ اپنی صحت کا خیال رکھنا اور اس پر خرچ کرنا بھی ضروری سمجھنے لگے ہیں ، اس کا غیر ضروری فائدہ اٹھانے کے لیے بعض کمپنیاں جھوٹے اعداد و شمار شائع کر کے عوام کو تشویش میں مبتلا کر دیتی ہیں ۔ پانی سے متعلق بھی بہت سی بے بنیاد باتیں نیز فرضی نقصانات کو غیر ضروری طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ چنانچہ پچھلی دہائی میں پانی کا کاروبار ایک بڑی ’’صنعت‘‘ کے روپ میں ابھرا ہے۔ اس گیم پلان میں مقامی، قومی اور بین الاقوامی کمپنیوں کے شانہ بہ شانہ چند حکومتیں بھی نظر آتی ہیں ۔ یہ اسی پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے کہ آج 12 – 10   روپوں میں ملنے والی بوتلوں کا چلن عام ہے۔ سہولت کی خاطر تو اب دو۔ دو روپے کے ’’پاؤچ‘‘ بھی بکنے لگے ہیں ۔ مگر شاید ہم میں سے بہت کم لوگوں کو پتہ ہو گا کہ اپنے زعم میں ان ’’منرل‘‘ بوتلوں کو ہم جو یہ سمجھ کر خریدتے ہیں کہ اس میں فائدہ مند معدنیات ملے ہوئے قدرتی منبع کا پانی ہو گا جو صحت کے لیے کارآمد ہے، تو ایسی کوئی بات نہیں ۔ چند کمپنیوں کے ’’منرل واٹر‘‘ کو چھوڑ دیا جائے تو سارے ہی برانڈ پیکیجڈ واٹر ہوتے ہیں ۔ اور اس پر یہ بھی وضاحت کی گئی ہوتی ہے کہ یہ اوزونائزڈ اور یو۔ وی ٹری ٹیڈ یعنی جراثیم سے پاک ہیں ۔ انڈین اسٹینڈرڈ بیورو لکھنؤ کے ڈائر کٹر شری انل جوہری کے مطابق جولائی 2004 ء  تک ہمارے ملک میں ’’منرل واٹر‘‘ کے اجازت نامے صرف 10  کمپنیوں کو دئیے گئے۔ نیز سیل بند (پیکیجڈ پانی) کے لیے لائسنس صرف 1000 کمپنیوں کے پاس ہیں لہٰذا عمومی طور پر بکنے والا پانی فلٹر کیے ہوئے پانی کے سوا کچھ نہیں ہوتا جس کو بڑی نفاست سے دیدہ زیب بوتلوں میں بھر دیا جاتا ہے۔ ایسی کمپنیوں پر عالمی صحت کے ادارے (ڈبلیو۔ ایچ۔ او) اور آئی ایس آئی کی گہری نظر ہے۔ خاطر خواہ قوانین کی عدم موجودگی کا فائدہ ایسی کمپنیاں اٹھا رہی ہیں اور دونوں ہاتھوں سے خون پسینے کی کمائی کو بٹور رہی ہیں ۔ اب صاف ستھرے پانی کے جو بھی ذخائر بچے ہیں ان پر بھی ایسی حریص کمپنیوں کی نظریں ہیں وہ ان پر اپنی اجارہ داری قائم کر کے عوام کو ایک ایک بوند پانی کے لیے ترسا دینے کے فراق میں ہیں تاکہ ان سے من مانی قیمت وصول کی جا سکے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک عام آدمی جو غذا جیسی بنیادی ضرورت پر روپے خرچ کرنے سے قاصر ہے اسے قدرت کی اس مفت دستیاب نعمت کو خریدنے کے لیے اپنی کمائی کا ایک حصّہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے وہ مجبور ہے۔ ترقی کی غلط پالیسیاں ، اول جلول شہری منصوبے، انسانوں کی ہوس پرستی، رشوت ستانی اور قدرت سے کھلواڑ کی عادت نے انسان کو آج اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ اگر یہی صورت حال رہی تو کوئی تعجب نہیں کہ مستقبل میں شہروں میں جا بجا صاف ہوا (آکسیجن) کے ایسے اسٹیشن قائم ہو جائیں گے جہاں کچھ دیر رک کر دنیا کے مصروف انسان اپنے آپ کو تازہ دم کریں گے اس کی قیمت ادا کریں گے اور ’’مسافر نہیں ہوں ٹھہر جانے والا‘‘ کہتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گے۔ پانی کی طرح ہوا بھی مول لینی پڑے ایسی نوبت نہ آئے اس لیے ضروری ہے کہ اپنے ماحول کی ہم حفاظت کریں اور اللہ نے جو بھی نعمتیں عطا کی ہیں ان کو دیکھ بھال کر اور منصوبہ بند طریقے پر استعمال کریں ۔ ایسے ہی مواقع پر انسان خدائے عزوجل کے اس فرمان کی معنویت کو سمجھ سکتا ہے کہ ’’تم خدا کی کون کون سی نعمتوں کو ٹھکراؤ گے‘‘ بے شک مصائب اور عذاب الہٰی بھی اس ذات کی طرف رجوع ہونے کا ذریعہ ہیں ۔

٭٭٭

 

بے کار۔ کارآمد اشیاء

            ایک پرانی کہاوت ہے کہ کھوٹا سکہ اور نالائق بیٹا وقت پر کام آتے ہیں ۔ اب اس میں تھوڑا سا اضافہ اور کرنا پڑے گا کہ بے کار اشیاء بھی وقت پر کام آتی ہیں ۔

            آج سے چند برس قبل تک جو اشیاء بے کار اور بے مصرف سمجھ کر پھینک دی جاتی تھیں انہیں سنبھال سنبھال کر رکھا جاتا ہے کیونکہ ان بے قیمت و بے وقت چیزوں سے انتہائی مفید اور کار آمد اشیاء تیار کی جانے لگی ہیں ۔ کاغذ ، دفتی، ہارڈ بورڈ وغیرہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ ہمیں عرصہ دراز سے ہی بے کار چیزوں کی مدد سے تیار کیا جاتا رہا ہے۔ مگر فاضلات سے تیار ہونے والی اشیاء کی فہرست کو دیکھتے ہوئے یہ ڈر پیدا ہو گیا ہے کہ کہیں ہم بے کار اور غیر ضروری چیزوں کو محفوظ رکھنے کے چکر میں ’’ضروری ‘‘ اور کارآمد اشیاء کو بے دردی کے ساتھ استعمال کرنا شروع نہ کر دیں ! تاکہ آخرالذکر کے استعمال اور خاتمہ کے بعد فاضلات کے ذخیرہ کے لیے کافی جگہ دستیاب ہو سکے۔

            فالتو اور غیر ضروری اشیاء سے کارآمد اور مفید اشیاء کا حصول کوئی آسان کام نہیں ہے اس کے لیے فنی مہارت اور تکنیکی معلومات ناگزیر ہیں ۔ بعض اوقات تو یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ ہمارے نیم ماہرین تو کجا چھوٹے موٹے کاریگر بھی مختلف صنعتوں کی مخصوص تکنیک سے آگاہ نظر آتے ہیں ۔ ٹوٹ پھوٹ جرمن ، ایلومینیم وغیرہ کے برتنوں کو پگھلا کر ہاتھ سے تیار کئے گئے اینٹ کے بُرادے سے بھرے ہوئے سانچوں میں گھریلو سامان جیسے چمچے، کفگیر وغیرہ کی تیاری تو بہت عام بات ہے۔ ان کاریگروں نے اس کا خیال غالباً اس طریقہ سے کیا جس میں لوہے کی بیکار چیزوں سے لوہے اور اسٹیل کی چھوٹی موٹی چیزیں الگ کر کے پگھلانے کے بعد نئی شکل میں ڈھال دی جاتی ہیں یہی طریقہ آج کل ٹوٹی پھوٹی پلاسٹک اور ربر کی چپلوں اور گھر یلو استعمال کی اشیاء کو پگھلا کر ان سے سستے قسم کے جوتے چپلیں ، کھلونے وغیرہ کی تیاری میں استعمال کیا جا رہا ہے اسی طرح ردّی اخبار سے اخباری کاغذ، کپڑے کی دھجیوں سے رسی اور دفتی ، فاضل ریشم سے مخمل مختلف مراحل کے بعد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کاغذ اور دیگر فاضلات کو بھاپ کے ساتھ ۷۰۰ سینٹی گریڈ پر جب کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ساتھ تعمل کرتے ہیں تو اس سے جو تیل حاصل ہوتا ہے، بڑا اچھا ایندھن ثابت ہوتا ہے۔ جانوروں کی ہڈیاں نہ صرف درون ملک اپنی اہمیت منوا چکی ہیں بلکہ پچھلے چند برسوں میں کافی زر مبادلہ کا سبب بنی ہیں ۔ جانوروں کی سینگ اور ہڈیوں سے کنگھی، چاقو چھری کی موٹھ، بٹن وغیرہ تو بہت پرانی باتیں ہیں جیلیٹن مٹھائی ، چاکلیٹ ، صابن و دوا کی تیاری سازی میں استعمال ہوتی ہیں ۔ سنترے کے چھلکے ، لیمو ، آم کی گٹھلی وغیرہ سے مختلف قسم کے تیل حاصل کئے جاتے ہیں ۔ جو مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں ۔ سیب کے چھلکے جیلی کے ماخذ اور ادھ جلے سگریٹ کے ٹکڑے نکوٹین کا اچھا ذریعہ بن سکتے ہیں ۔ نکوٹین سے کھاد تیار کی جا سکتی ہے۔ املی کے بیج پارچہ بافی میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ان سے حاصل ہونے والا آٹا بطور کلف کے استعمال ہوتا ہے۔ کوڑا کرکٹ، سبز پتے، گوبر وغیرہ تو ہماری ایسی جانی پہچانی چیزیں ہیں جن کے بے شمار فائدے ہم برسوں سے دیکھتے چلے آرہے ہیں ۔ سبز پتوں اور نباتات کی کھاد نائٹروجن کی وافر مقدار اپنے اندر رکھتی ہے اور نائٹروجن کھاد کا ایک اہم جز ہے۔ گوبر کو لیپنے اور جلانے کے لیے برسوں سے استعمال کیا جا رہا ہے مگر گوبر گیس پلانٹ اس گوبر کو ہمارے لیے دوہرے فائدہ کا حامل بنا سکتا ہے یعنی گوبر سڑانے سے حاصل ہونے والی بایو گیس Bio-Gas   یا گوبر گیس کا بڑا اچھا ایندھن ہے کیونکہ اس سے تیز آنچ ملتی ہے اور کالک بھی نہیں پیدا کرتی بچا ہوا مادہ بطور کھاد کے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ بچا ہوا مادہ گوبر کے مقابلے میں اچھی کھاد ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح کوڑا کرکٹ وغیرہ سے بھی کچرا گیس، حاصل ہوتی ہے جو گوبر گیس کی طرح خوب حرارت پیدا کرتی ہے۔ کھاد کی بات چل رہی ہے تو یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ ہڈی، خون و پیشاب ، راکھ، چائے کی پتی وغیرہ کو بھی مختلف پودوں کے لیے بطور کھاد استعمال کیا جاتا ہے۔

            آلودگی آج ایک عالمی مسئلہ بن کر رہ گئی ہے خصوصاً فضائی آلودگی نے ہمارے سامنے بہت سے مسائل پیدا کر دئیے ہیں جن میں شہریوں کی صحت پر منفی اثرات ، پودوں میں عمل اخراج، بخارات کی شرح کا گھٹ جانا اور دہن خلیوں کا بند ہو جانا اور جانوروں کو پہنچنے والے دیگر نقصانات قابل ذکر ہیں ۔ اگر ایک طرف دنیا کے ممالک آلائندگی کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں ۔ بین الاقوامی کانفرنسیں بلوائی جا رہی ہیں تو دوسری طرف صنعتی کار خانوں کی چمنیوں سے حاصل ہونے والے دھوئیں کی تحلیل و تجزیہ سے بیش بہا چیزیں حاصل کی جا رہی ہیں اس پریشان کن دھوئیں سے گیلیم اور جرمینیم جیسے عناصر کے مرکبات تیار کئے جا رہے ہیں جو ٹیلی ویژن ، ٹرانزسٹر اور اعلیٰ تپش پر مشتمل تپش پیما حتیٰ کہ دواسازی میں بھی استعمال کئے جاتے ہیں ۔ یورانیم کی سپلائی کے معاہدے کے ساتھ امریکہ کی شرط یہ بھی ہوتی ہے کہ مستعمل یورانیم کے مرکبات (فاضلات) امریکہ کو واپس کئے جائیں گے کیونکہ وہ اس سے کئی قیمتی چیزیں تیار کرتا ہے۔ اسی طرح کوئلے پر چلنے والے حرارتی گھروں میں بچنے والی راکھ سے سیمنٹ کی تیاری کا تجربہ ہندوستان میں کامیاب ہو چکا ہے اور یہ سیمنٹ سے کئی اعتبار سے زیادہ بہتر ہو گا۔ مشینوں سے گرنے والے تیل کو ضائع ہونے نہیں دیا جاتا بلکہ مختلف مدارج  کے بعد اس سے دوبارہ تیل کی تحصیل کی جاتی ہے۔ کول تار کے ضمنی حاصل (By Products)  ہماری زندگی میں بڑا اہم مقام رکھتے ہیں کول تار جو بذات خود پٹرولیم کا ضمنی حاصل ہے اور پتھر کے کوئلے کی تخریبی کشید سے خوشبویات، عطریات، تیل ، سنو پاؤڈر ، خوردنی رنگ ، مصنوعی ریشے، مصنوعی پلاسٹک دیگر ایندھن اور درجنوں اشیاء حاصل کی جاتی ہیں اور سب سے اخیر میں بچنے والے مادے کو بھی کام میں لایا جاتا ہے اسے سڑکوں پر بچھا دیا جاتا ہے۔ شکر کی تیاری کے بعد بچنے والا مادہ اشیاء راب پھینک دیا جاتا تھا مگر پچھلے چند برسوں میں معلومات میں اضافہ نہ ہونے کی بدولت اس سے اب الکحل تیار کیا جاتا ہے اور اب شکر کے کارخانوں کے ساتھ ساتھ شراب الکحل کی کشید خانے بھی پائے جاتے ہیں ۔

            غرض کہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آج سے چند برس بعد کوئی چیز بے کار اور بے مصرف نہیں کہلائے گی بلکہ یہ کارآمد چیزوں سے بھی زیادہ ہمارے نزدیک اہم ہوں گی۔ البتہ ایک بات ضرور ہے کہ فاضلات سے کار آمد اور مفید اشیاء کا حصول اتنا آسان نہیں اس کی کوالٹی اور مقدار کا انحصار ہمارے سائنس دانوں اور ٹیکنیشنوں کی ذہانت و محنت پر ہو گا۔

٭٭٭

 

e۔کچرا:  ایک جدید ماحولیاتی مسئلہ

            خدا کی عطا کردہ ذہانت اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے انسان نے طبعی اور مادّی ترقی کے وہ مدارج طے کیے ہیں کہ اس سے قبل اس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ اس کی کج نظری نہیں تو اور کیا ہے کہ ان ظاہری سربلند یوں کو آج کی معراج سمجھ لیا ہے۔ اس کے برعکس ذہنی، اخلاقی اور روحانی اعتبار سے وہ تحت الثریٰ تک جا پہنچا ہے جس سے آگے تنزل اور پستیوں میں گرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔ بہر حال موجودہ انسان نے نام نہاد ترقی کے جس نقطۂ  عروج کو جالیا ہے وہاں تک پہنچنے میں جدید سائنس و ٹکنالوجی کا پورا پورا ہاتھ ہے۔ پچھے چند برسوں میں نشریات اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی میں زبردست تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں ۔ اس دور میں تقریباً سبھی ممالک شامل ہیں بالخصوص کمپیوٹر کی دنیا میں ہمارے ملک کا نام ایک با وقار حیثیت کا حامل ہے۔

            جدید ترقیات اور انسان کی سائنسی کامیابیو ں نے معاشرہ کو جہاں راحت و آرام ، تیز رفتاری ، سامان تعیش عطا کیا وہیں ان کے سامنے آلودگی ایک خوفناک عفریت کی صورت میں آ کر کھڑی ہو گئی۔ مختلف قسم کے آلائندے (Pollutants)  تو قابلِ برداشت تھے مگر تابکار مادوں (Radioactive Waste)  نے نسل انسانی کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اب اس سے ایک قدم آگے نئے قسم کے فاضل مادوں سے ترقی یافتہ دنیا کا سابقہ پڑ رہا ہے۔ نشریات ، مواصلات اور اطلاعات کے میدان میں انقلاب نے گزشتہ 20   برسوں میں دنیا کے چہرے کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ آج کمپیوٹر ، ٹی وی ، موبائل، الیکٹرانک گھڑیاں اور دیگر ساز و سامان ماڈرن زندگی کے لیے لازم بن کر رہ گئے ہیں ۔ جس کمپیوٹر کے بارے میں آج سے 25-30   برس قبل ہم نے صرف سنا تھا یا کبھی کبھار دیکھا تھا، آج ہمارے گھر میں ضرورت کی ایک چیز بن کر داخل ہو گیا ہے۔ یہی حال کم و بیش موبائل فون اور دیگر الکٹرانک ساز و سامان کا ہے۔ ظاہر ہے جس تیز رفتاری کے ساتھ ان کی ڈھلائی ہو رہی ہے اسی رفتار سے پرانے اور ناکارہ سامان ہمارے گھروں میں فاضل اشیاء کی صورت میں جمع ہوتے جا رہے ہیں ۔ رد کردہ ان بیکار مادوں اور حصّوں کو اگر ہم الیکٹرانک یعنی ای(e)  کچرا کہیں تو کوئی مضائقہ نہیں جو روایتی کچرے سے بالکل ہٹ کر ہے۔ اس کچرے سے نجات حاصل کرنے کی کارگر تدابیر بھی نہیں ہیں ۔

            کمپیوٹر ، موبائل ، ٹی وی وغیرہ سے ہونے والا کچرا نہ صرف ماحول کو آلودہ کرتا ہے اور نقصان پہنچاتا ہے بلکہ یہ انسانی صحت کے لیے بھی مضر ہے۔ مگر شاید ہم ابھی اس کے خطرات کو بھانپ نہیں پائے ہیں ۔ امریکہ کی ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (انوائر منٹل پروٹیکشن ایجنسی[E.P.A] )کے ایک جائزے کے مطابق ہر برس ناقابل استعمال ہو جانے والے الیکٹرانک آلات خصوصاً ناکارہ کمپیوٹروں کو سنبھالنا اور انھیں ٹھکانے لگانا بڑا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس قسم کے الیکٹرانی (e) آلات ہر سال 220  ٹن e۔ کچرا پیدا کر رہے ہیں ۔ یوں تو یہ اس ملک میں نکلنے والے کل فاضلات کا محض 2   تا3   فیصد ہے مگر آئندہ برسوں میں ان میں اضافہ یقینی ہے۔ یہ اعداد و شمار صرف امریکہ کے ہیں ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں نہ تو یہ اعداد و شمار دستیاب ہیں اور نہ ہی ان کو معلوم کرنے کا کوئی پروویژن اور نہ ہی کسی باقاعدہ تنظیم کا وجود۔ لہٰذا یہاں پیدا ہونے والے e۔ کچرے کا تخمینہ لگانا مشکل ہے۔ امریکہ کے مشہور زمانہ سلی کان و یلی میں جو اطلاعاتی انقلاب کا مرکز ہے وہاں زہریلے اجزا کے سروے اور ان سے متعلق معلومات اکٹھا کرنے کا ادارہ ’’سلی کان ویلی ٹاکسکس کلیکشن ‘‘قائم ہے۔ اس کے ایک مطالعے کے مطابق سن 1997   تا 2007  کے عرصے میں دنیا میں 50   کروڑ کمپیوٹر کچرے میں تبدیل ہو جائیں گے بہ الفاظ دیگر 3   ارب کلو پلاسٹک کا پہاڑ جمع ہو جائے گا۔ جیسا کہ ہم واقف ہیں پلاسٹک اور اس قبیل کی اشیاء فضا یا ماحول میں بغیر کسی تغیر کے برسہا برس یوں ہی پڑی رہتی ہیں ۔ ان میں تجزیہ یا فضا میں تحلیل ہونے کا کوئی عمل نہیں ہوتا نہ ہی ان کی بازیابی (Recycle)   ممکن ہے۔ پھر گزرتے وقت کے ساتھ اس کوڑا کرکٹ میں اضافہ ہوتا جائے گا تو تصور کیجیے کہ دنیا کا کیا نقشہ ہو گا! کمپیوٹروں اور دیگر آلات کی بہتر اور ترقی یافتہ کو الٹی کے مارکیٹ میں آتے ہی پرانے سامان متروک سمجھے جاتے ہیں ۔ اب یہ رد کئے ہوئے سامان آخر کہاں جائیں گے! خیر یہاں تک بھی ٹھیک تھا اب موبائل کی آمد نے اپنے دست و پا دور دراز تک پھیلا لیے ہیں ۔ ملک کا بمشکل کوئی ایسا گوشہ ہو گا جہاں یہ استعمال میں نہ ہو۔ نکسلائٹ تحریک سے متاثر اور چند مخصوص علاقوں کو چھوڑ کر ملک کے کسی بھی گاؤں یا آبادی میں لوگوں کے ہاتھ توبہ کے لیے کانوں سے لگے نظر آتے ہیں (یعنی سیل فون ان کے کانوں سے چپکا نظر آتا ہے) آج گھر میں کمپیوٹر کا ہونا اور گھر کے ہر فرد کے لیے علیحدہ موبائل کا ہونا سماجی عزت (اسٹیٹس) کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ پھر آن لائن لاٹری ، ویڈیو گیمز وغیرہ کے شوق دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں ۔ ظاہر ہے e۔ کچرے میں لامحالہ اضافہ ہو گا۔ یہاں یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ایک اندازے کے مطابق 1998  تک دو کروڑ بیکار ہونے والے کمپیوٹروں میں سے محض 13%  کو درستگی کے بعد لایق استعمال بنایا جا سکا اور دوبارہ کام میں لایا جا سکا۔ مگر اس سے کہیں زیادہ کمپیوٹر تو e۔ کچرے میں تبدیل ہو گئے۔ مگر اس کے آگے کیا یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور یہ e۔ کچرا انسانوں کی پریشانیوں میں اضافہ کرتا رہے گا۔!!

            اب آئیے ایک اور پہلو کی طرف ۔ ہر ٹی وی کے اسکرین میں 4 تا8 پونڈ تک لیڈ(سیسہ) استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح کمپیوٹر مانیٹر کے شیشے کا 20%  حصّہ سیسے پر مشتمل ہوتا ہے۔ اپنا عرصۂ  حیات مکمل کر لینے کے بعد جب یہ چیزیں پھینک دی جاتی ہیں تو سیسہ نہ صرف مٹی بلکہ پانی کو آلودہ کر ڈالتا ہے۔ واضح رہے کہ پانی میں سیسے کی موجودگی سم قاتل سے کم نہیں 1980   سے اب تک تقریباً 30  کروڑ کمپیوٹر مانیٹر بیچے جا چکے ہیں جن میں سے خراب ہونے والے کمپیوٹروں میں سے محض 17   لاکھ مانیٹر دوبارہ استعمال میں لائے گئے۔ بقیہ کا کیا!! یہ تو e ۔ کچرے میں تبدیل ہو کر انسانوں کی صحت اور ماحول کو متاثر کرنے لگے ۔ یہی حال بے کار موبائل فون کے معاملے میں ہے۔ امریکہ کی انفو کام، کمپنی کے سروے کے مطابق امریکہ میں اگلے  3 سال میں 13 کروڑ سیل ہر سال کچرے کے ڈبے میں پھینک دئیے جائیں گے جس کا سیدھا مطلب ہے ہر سال 65   ہزار ٹن e۔ کچرا پیدا ہو گا جو خطرناک لیڈ دھات اور مسموم کیمیائی مادّے پھیلانے کا سبب بنے گا۔ یہاں بھی بازیابی کا عمل نہیں ہوتا۔ اقوام متحدہ کے جائزے کے مطابق خطرہ صرف اس بات کا نہیں کہ یہ e۔کچرا ماحول اور انسانی صحت کو متاثر کرے گا بلکہ بڑا خطرہ یہ ہے کہ ان آلات اور سامان کی تیاری کے دوران قدرتی وسائل کی بڑی مقدار کا استعمال ہو گا۔ وہ قدرتی وسائل اور توانائی جو دیگر تعمیری کاموں کے لیے، عوام کی فلاحی اسکیموں کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے وہ ایسے سازو سامان اور آلات کی تیاری میں خرچ ہو گی اور یہ چیزیں مزید درد سر پیدا کریں گی۔ ایک تجزیے کے مطابق ایک ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر اور اس کے مانیٹر کو بنانے میں اس کے وزن سے 10 گنا زیادہ قدرتی توانائی کے ذرائع کا استعمال ہوتا ہے۔ ایک دوسرے تجزیے کے مطابق 24 کلو کمپیوٹر اور 27   انچ کے مانیٹر کی تیاری میں 240 کلو قدرتی ایندھن استعمال ہوتا ہے نیز 22 کلو کیمیائی مرکبات اور 1500 کلو پانی کا استعمال ہوتا ہے۔ اب اندازہ لگائیے کہ تعمیری اور سودمند اشیاء کے بجائے ایسے سامان تعیش اور وہ بھی جن کو Recycle  کرنا مشکل ہے، ایسے آلات کی تیاری کرنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ دنیا میں ہر سال 13 کروڑ سے زائد کمپیوٹر بیچے جاتے ہیں ۔ الکٹرانک ساز و سامان کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔ موبائل فون ضرورت کی چیز سے زیادہ دکھا وے کی چیز بن کر رہ گئے ہیں ۔ ایسی نقصان دہ اشیاء کی تیاری میں جو قیمتی قدرتی وسائل اور توانائی کا استعمال ہو گا وہ انسانی تہذیب اور خود انسانی وجود کے لیے کتنا بڑا چیلنج ثابت ہو گا اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا مگر شاید تب سر پر ہاتھ رکھ کر رونے کی مہلت بھی نہیں ملے گی۔

٭٭٭

 

جراثیم ۔ ہمارے دوست

            چند سادہ قسم کے پودوں کا جسم ریشہ نما ہوتا ہے اور ان کا شمار ابتدائی قسم کے نباتات میں کیا جاتا ہے۔ جراثیم (بیکٹریا) بھی پودوں کے اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ کائی پھپھوند جیسے نباتات بھی اسی زمرے میں آتے ہیں ۔ آئیے ان کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کریں ۔

            جراثیم کا جسم صرف ایک خلیہ (cell) پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور اسے برہنہ آنکھ سے دیکھنا ممکن نہیں ۔ اس لیے انہیں ایک خلوی نباتات کہتے ہیں ۔ یہ اتنے باریک ہوتے ہیں کہ ایک پن کی نوک پر تقریباً دس ہزار جراثیم سما سکتے ہیں ۔ یہ تقریباً ہر اس جگہ جہاں بھی ’’زندگی‘‘ کا امکان ہو حتیٰ کہ جانوروں اور پودوں کے سڑے گلے حصوں پر بھی ان کا وجود ممکن ہے۔ علاوہ ازیں ہوا، پانی، زمین، زیرِ ارض اور خوردنی اشیا وغیرہ ان کے رہنے کی خاص جگہیں ہیں ۔

            جراثیم کی تقسیم ان کے جسم کی ساخت کی بنا پر کی گئی ہے۔ ان کی ہئیت گول، پیچ دار، چکر دار، ’و‘ نما ہو سکتی ہے۔ خلیہ کایٹن نامی ایک سخت شے سے بنا ہوتا ہے اور ان میں سبز مایہ (کلوروفل) نہیں ہوتا جو کہ تمام عام سبز پودوں میں ملتا ہے لہٰذا یہ اپنی غذا تیار کرنے سے قاصر ہیں ۔ یہ اپنی غذائی ضرورت دوسرے پودوں اور جانوروں سے غذائی رس چوس کر پوری کرتے ہیں اور اس طرح وہ طفیلی زندگی گزارتے ہیں ۔ بعض گند خور (سیپروفائٹک) ہوتے ہیں ۔ جو سڑی گلی اشیاء کو ڑا کرکٹ وغیرہ سے اپنی غذا حاصل کرتے ہیں ۔ ان کے اس غذائی استحصال اور خلیہ میں خارج کردہ رطوبت یا زہر کے باعث انسانوں ، ان کے پالتو جانوروں اور پودوں میں کئی قسم کی بیماریاں پھیلتی ہیں جن میں سے بعض وبائی صورت بھی اختیار کر لیتی ہیں اس لیے انھیں ’’نظر نہ آنے والے دشمن‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس طرح جراثیم کی اسی خصوصیت نے سائنسدانوں کی توجہ اپنی طرف مرکوز کی ہے۔

            جراثیم ہوا، پانی، اناج یا زخم کے ذریعہ انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں ۔ انسانوں میں پھیلنے والے عام امراض جیسے ہیضہ ، نمو نیا، ٹائیفائڈ، معیادی بخار، تپ دِق ، سرسام، ڈفتھیریا، اسہال (پیچش) ، جذام، طاعون، ٹیٹانس اسی کے ذریعہ پھیلتے ہیں ۔ بعض صورتوں میں غذائی زہر آلودگی اور خون کے سرخ ذرات کی تباہی کے ذمہ دار بھی یہی ہوتے ہیں ۔

            طفیلی جراثیم مختلف پودوں میں بعض بیماریاں اور نقائص پیدا کرتے ہیں ۔ تمباکو، لیمو، سنترہ، ناشپاتی، گوبھی، آلو وغیرہ کو داغدار بنا کر استعمال کے ناقابل بنا دینے کے ذمہ دار بھی یہی ہوتے ہیں ۔

            انسانوں کے حق میں اتنے مضرّت رساں ہونے کے باوجود جراثیم کی افادیت سے انکار کی گنجائش نہیں ۔ ایسے جراثیم کی تعداد قابلِ لحاظ ہے۔جو ہمارے لیے کئی طریقوں پر مددگار ثابت ہوتے ہیں خاص طور پر زراعت طبی سائنس اور بعض صنعتوں میں ان کی حیثیت مسلم ہے۔

            فضا میں پیٹر پودوں اور جانوروں کے مردہ اجسام پر مختلف قسم کے جراثیم مخصوص تعملات کے نتیجہ میں ہوائیں نائٹروجن گیس لوٹا کر ’’نائٹروجن چکر‘‘ کو گردش میں رکھتے ہیں ۔ چند جراثیم سبز پودوں کے لیے ان میں قابلِ استعمال اشیاء تیار کر کے انھیں بہم پہنچاتے ہیں جو کہ ان کے بغیر فضا میں یوں ہی بے کار پڑی رہتیں ۔ زمین میں مختلف کیمیائی ، طبعی اور مختلف افعال کی بدولت وہ زر خیری میں اضافہ کرتے ہیں ۔ علاوہ ازیں سبز پتوں ، سبز ترکاریوں کے ڈنٹھل، گوبر، فضلات، کوڑا کرکٹ وغیرہ کو جزوی یا کلی طور پر کھاد میں تبدیل کرنے کا اہم کام بھی انجام دیتے ہیں ۔مختصراً یہ کہ وہ فضا کی گندگی کو صاف کر کے جہاں ایک طرف قدرتی توازن کو برقرار رکھتے ہیں تو دوسری طرف گندگی سے ہماری فضا کو صاف کر کے ہمارے لیے ایک صحت مند ماحول تیار کرتے ہیں اس لیے انھیں ’’قدرتی خاکروب‘‘(کوڑا کرکٹ صاف کرنے والے) کہا جاتا ہے۔

            اب آئیے ایسی صنعتوں اور کارخانوں کی جانب جو ان کے مرہونِ منت ہیں ۔ مکھن ، پنیر ، اچار، سرکہ، الکوحل(شراب) وغیرہ کی تیاری میں جراثیم ہی ہماری مدد کرتے ہیں ۔ تمباکو کے پتوں پر خاص قسم کے جراثیم عمل کر کے تمباکو تیار کرتے ہیں اسی طرح پٹ سن، چائے، کوکا، کافی وغیرہ کے قابلِ استعمال حالت میں حصول کے لیے اور چمڑے کی تیاری میں جراثیم کی مدد ناگزیر ہے۔

            جراثیم کی کچھ قسمیں طبعی سائنس اور ادویات کی دنیا میں بڑا اہم مقام رکھتی ہیں ۔ امراض کے علاج کے لیے جن مفید دواؤں کا استعمال آج کل مقبول ہے ان میں جراثیم کش دوائیں سر فہرست ہیں ۔ پینی سیلن اور اسٹرپٹو مائسن جیسی مشہور جراثیم کش دواؤں نے نمونیا، ڈفتھیریا، ٹی بی، ٹائیفائڈ جیسے خطرناک امراض سے کروڑوں انسانوں کی جانیں بچائی ہیں ۔ انسانی جسم خصوصاً آنتوں میں بسنے والے لاتعداد جراثیم بعض ایسی بیماریوں کی روک تھام کرتے رہتے ہیں جو کہ جراثیم سے پھیلتی ہیں ۔ ہمارے جسم کے بہت سے افعال اور خامروں (انزائمس) کے افراز میں یہ مددگار ثابت ہوتے ہیں جیسے چھوٹی آنت میں موجود جراثیم حیاتین بی تیار کرتے ہیں ۔ اس طرح جراثیم ہماری صحت اور ہماری فضا اور ماحول کو ٹھیک ڈھنگ سے چلانے کے لیے ہمارے دوست ہیں ۔

٭٭٭

 

مطابقت پذیری

            ہر جاندار چاہے وہ پودا ہو یا جانور ، ایک مخصوص ماحول کی پیداوار ہوتا ہے اور اس کی ساری زندگی اسی ماحول میں گذرتی ہے۔ جاندار کا اپنے ماحول سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس کی جسمانی ساخت اس کے اپنے ماحول کے مطابق ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسے زندہ رہنے کے لیے ماحول سے مطابقت (ایڈاپٹیشن) پیدا کرنا ضروری ہے۔

            مخصوص ماحول سے مطابقت پیدا کر کے زندگی گزارنے کے عمل کو مطابقت پذیری کہتے ہیں ۔

            اگر ایسا نہ ہو تو جاندار کا باقی رہنا ناممکن ہو جائے۔ اس کی نسل ہی صفحۂ  ہستی سے مٹ سکتی ہے۔ جیسے گرم ممالک میں اُگنے والا آم کا درخت ٹنڈرا کے برفیلے علاقہ میں پنپ نہیں سکتا اور نہ ہی ہمارے ہاں کی بھینس وہاں جانے پر چند دنوں سے زیادہ زندہ رہ سکتی ہے۔ یہی حال دوسرے علاقوں کا ہے جہاں کی گرم آب و ہوا میں اس کی موت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح خود ہماری بقا کے لیے پانی کس قدر ضروری ہے۔

            مطابقت پذیری کی تقسیم کئی طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔ یہ وراثتی ہو سکتی ہے اور کسی بھی تقسیم کا یہ طریقہ زیادہ عام ہے۔ قدرت میں مطابقت پذیری کی بے شمار ایسی مثالیں ملتی ہیں جن کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں ۔ پرندوں میں قوت پرواز کی مطابقت پذیری اور اس عمل میں سہولت کے لیے ان کے جسم میں خصوصی تبدیلی ، جیسے اگلے پیروں کا پروں کی شکل اختیار کر لینا ، ہڈیوں کا کھوکھلا ہونا، ہوائی تھیلیوں کی موجودگی یہ تمام ماحول کی دین ہے۔ یہ تبدیلیاں ذاتی یا مخصوص ماحول، حالات یا ضروریات کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں ۔ شدید دھوپ میں رہنے یا کام کرنے سے جلد کا سیاہ اور موٹا ہو جانا، جسم میں بیماریوں کے جراثیم کے داخل ہونے پر خون کا اینٹی باڈیز تیار کرنا، چند جانوروں میں کھوئے ہوئے یا ضائع شدہ اعضاء کی بحالی وغیرہ اس کی عام مثالیں ہیں ۔

            ایسے جانور جن کے کھوئے ہوئے اعضاء دوبارہ پیدا ہو جاتے ہیں ۔ امکانی خطرہ کے وقت بڑی آسانی سے اپنے جسم کا کوئی حصّہ توڑ کر دشمن کو فریب دے دیتے ہیں اور اس طرح اپنی جان بچا لیتے ہیں ۔ سمندری کوکمبر خطرے میں گھرا محسوس کرنے پر دشمن کو دھوکا دینے کے لیے اپنے تمام اندرونی اعضاء کو خول سے باہر نکال کر ڈال دیتا ہے اور خود ایک ناگزیر بیرونی دیوار (خول) کا ساتھ لے کر فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس خول میں دوبارہ نئے اعضاء پیدا ہو جاتے ہیں چھپکلی کا اپنی دم کے پچھلے حصّے کو توڑ کر دشمن کے سامنے گرا کر بھاگ جانا بھی ایک عام مشاہدے کی بات ہے۔ دشمن کی گرفت میں آنے پر کیکڑا خود ہی اپنا پنجہ توڑ ڈالتا ہے اور اس طرح چالا کی سے اپنی جان بچا لے جاتا ہے۔ جان کے بجائے ایک پنجے کا ضائع ہو جانا اس کے لیے کوئی مہنگا سودا نہیں ہے۔

            مثال کے طور پر پرندوں اور مچھلیوں کی دم خطرہ کے موقع پر ہوا اور پانی کو چیر کر تیزی سے بھاگنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ پرندوں کے جسم کی ساخت پرواز کے لیے بڑی موزوں ہوتی ہے جس کا بیان اوپر کیا گیا ہے۔ بعض ایسے پرندے جو پرواز کے قابل نہیں ہوتے جیسے شتر مرغ، کیوی وغیرہ اسی طرح بعض قسم کے سانپ اور دودھ پلانے والے جیسے گھوس، شیر، گھوڑا، ہرن کی کچھ قسمیں ہیں ، ان تمام جانوروں کی تیز رفتاری ان کے حق میں کچھ کم مفید نہیں ہے۔ اس مقصد کے لیے ان کے پیروں کی ساخت مخصوص ہوتی ہے۔ شتر مرغ ایک پرندہ ہے۔ یہ اپنے وزنی جسم کی بدولت اڑ نہیں سکتا مگر اپنے مضبوط پیروں سے گھوڑے کی طرح فی گھنٹہ ۱۰۰ میل کی رفتار سے دوڑ کر اپنی حفاظت کر سکتا ہے۔ اسی طرح ہرن کے ہلکے پھلکے مگر مضبوط پیر اسے بے شمار دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے میں بڑے مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔

            ان کے علاوہ بھی قدرتی ماحول میں متعدد اقسام کی تبدیلیاں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ مثلاً بعض جانوروں کا رنگ ان کے ماحول سے مشابہ ہوتا ہے۔ اس طرح آس پاس کے ماحول کے پسِ منظر سے فائدہ اٹھا کر اپنے دشمن کی نگاہوں سے پوشیدہ ہو جاتے ہیں ۔ جانوروں کی اس خصوصیت کو ’’ہم رنگی‘‘ کہتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں پائے جانے والے ریچھوں کا رنگ بھورا یا کالا ہوتا ہے۔ لیکن قطبی علاقہ کے زیادہ تر جانور سفید رنگ کے ہوتے ہیں ۔ ہرے پتوں اور گھاس میں زندگی بسر کرنے والے ٹڈوں اور پتنگوں کا رنگ اکثر سبز ہوتا ہے۔ سبز رنگ کے سانپوں کو بھی سبز درختوں میں بآسانی شناخت نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ جانوروں کے ماحول میں تبدیلی خودبخود ان کو رنگ میں تبدیلی کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ جیسے مینڈک کا عام دنوں میں بھورا اور بارش کے موسم میں زردی مائل سبز رنگ اختیار کر لینا کچھ ایسے حیوانات بھی ہیں جو رنگ بدلنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ماحول کا ایک حصّہ بن کر دشمنوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں ۔

            دشمنوں سے بچنے کے لیے بعض جانور (جن میں کچھ پودے بھی شامل ہیں ) اپنے جسم کی ساخت وضع قطع یا رنگ میں ایسی تبدیلیاں پیدا کر کے ظاہری طور پر ان جانوروں کی طرح نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے دشمن کی نگاہوں میں زیادہ طاقتور ہیں ، یا جن کے دشمنوں کی تعداد بہت کم ہو یا جو زہریلے ہوں یا دشمن کونا گوار محسوس ہوتے ہیں ۔ اس حکمت عملی کے نتیجے میں ایسی شکل اختیار کرنے والے جانور اپنے دشمن کا نوالہ بننے سے بچ جاتے ہیں ۔ جانداروں کی شکل اختیار کرنے کی اس صلاحیت کو نقالی( میمکری) کہتے ہیں ۔

            حشرات (کیڑے مکوڑے) اور تتلیوں میں یہ خصوصیت بہت عام ہے۔ چوبی کیڑا(سلک انسیکٹ) اپنی مخصوص جسمانی ساخت کی بنا پر پتلی خشک یا ٹہنیوں کے انبار پر شناخت نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی طرح ایک قسم کی تتلی ڈیڈ لیف بٹر فلائی کی پشت پر خشک زرد پتے کی مانند ایک دھبہ ہوتا ہے جو اسے دشمن کی نگاہ میں سوکھے ہوئے پتوں کے انبار سے امتیاز کرنے میں دشواری پیدا کرتا ہے۔ بحری گھاس اور سمندری نباتات میں پائی جانے والی مچھلیوں اور کیکڑوں کا اسی قسم کا رنگ اور ملتی جلتی بناوٹ انھیں میں گم کر دیتے ہیں اور اس طرح وہ دشمنوں کی دسترس سے دور ہو جاتے ہیں ۔ کچھ غیر زہریلے سانپ ، زہریلے سانپوں کی طرح، کمزور حشرات شہد کی مکھیوں کی مانند اور چند مکھیاں خود کو بھیڑوں کی طرح ظاہر کر کے دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں ۔

            اس طرح قدرت میں بکھری ہوئی لاتعداد تبدیلیوں میں سے چند کی یہ مثالیں ان جانوروں کی بقا کی ذمہ دار بن جاتی ہیں اور اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ جہاں قدرت نے ایک طرف ہر جانور کو اس کے مصنوعی ماحول کے مطابق جسمانی ساخت عطا کر کے اس کی حفاظت کا سامان پیدا کیا ہے وہاں دوسری جانب ان مخصوص تغیرات نے کمزور جانوروں کو پلنے بڑھنے کے مزید مواقع فراہم کر کے ان کی نسل کو نیست و نابود ہونے سے بچا لیا ہے۔

٭٭٭

 

جذام کی بیماری اور سماجی مسائل

            کسی بھی ملک کی خوش حالی اور ترقی کا دارومدار اس کے باشندوں کی صحت و تندرستی پر ہوتا ہے۔ اس کے باسیوں کی ذہنی و جسمانی صحت مندی ہی دراصل اس ملک کی حقیقی دولت ہوتی ہے۔ ہر شخص کو بلا امتیاز رنگ، نسل ، مذہب ، زبان ، سیاسی سماجی و معاشی حالات یہ بنیادی حق حاصل ہے کہ وہ صحت مندی کی نعمت سے فیض یاب ہو سکے۔ اس حق کو بین الاقوامی ادارہ صحت (W.H.O)   بھی تسلیم کرتا ہے اور اس کی صراحت گا ہے بہ گاہے اس کی مختلف مٹینگوں کے دوران کی جاچکی ہے۔ جدید دور میں لفظ ’’صحت‘‘ کی توضیح ایک نئے پیرائے میں کی گئی ہے۔ بیماریوں پر قابو رکھنا اور ان کے انتشار پر روک لگانا آج کی طبی سائنس کا بنیادی مقصد ہے جبکہ بیماریوں کے علاج کا شمار اس کے ثانوی مقصد کے تحت ہوتا ہے۔ Sigerist   نے ایک جگہ اس بیان کی تشریح بڑی خوبی سے کی ہے۔ وہ لکھتا ہے۔

            ’’جسمانی اور ذہنی اعتبار سے متوازن شخص جو اپنے سماجی اور طبیعی ماحول سے مطابقت پیدا کر سکے، وہی صحیح معنوں میں ’’صحت مند‘‘ کہلانے کا مستحق ہے۔ ایسا شخص اپنی طبیعی اور ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے مطابقت پیدا کر سکتا ہے(بشرطیکہ وہ عام حدود سے تجاوز نہ کر چکی ہوں ) اور اپنی قابلیت و صلاحیت کے موافق سماج کے بہبود اور تعمیر کے عمل میں حصّہ لیتا ہے۔ اس لیے محض بیماریوں سے پاک ہونا ہی صحت مندی کی علامت نہیں بلکہ صحت مندی ایک مثبت رویہ ہے، فرائض اور ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے قبول کر کے انجام دینے کا۔‘‘

(Yale University Press page 100)

            مندرجہ بالا تعریف کی روشنی میں جذام اور جذامیوں کے طرز فکر و عمل، اور زندگی سے متعلق ان کے نظریے کا جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اس بیماری سے متاثرہ اشخاص کو جسمانی اور ذہنی اعتبار سے متوازن نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی یہ ملک و قوم کی ٹھوس تعمیری خدمت انجام دیتے ہیں ۔ اس صورت حال کی ذمہ داری ایک طرف اگر ارباب محکمہ صحت عامہ پر ہے تو دوسری طرف حکومت، سیاسی رہنماؤں اور خود سماج کو بھی اس الزام سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس قول کی تصدیق مندرجہ سطور کے مطالعہ سے کی جا سکتی ہے۔

            شاید ہی کوئی اور بیماری ہو جو جذام کی طرح اتنے پوشیدہ طور پر اور اتنی آہستگی اور خاموشی سے مریض کو اپنے شکنجے میں کستی ہو اور جب مریض کو اس بات کا احساس ہوتا ہے اس وقت بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ ایسے مریض میں بد ہئیتی کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں اور اس کا علاج اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہو جاتا ہے۔ مریض اپنے روگ کو ظاہر کرنے میں ایک طرح کی ہتک محسوس کرتا ہے اور اسے یہ خوف کھائے جاتا ہے کہ معاشرہ اس سے نفرت کرنے لگے گا اور لوگ اس سے کتراتے پھریں گے۔ اس کے باعث وہ اپنی اس شکایت کو اوروں سے چھپانے میں ہی بہتری جانتا ہے مگر اس کی یہ نادانی اور لاپرواہی جہاں خود اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے وہیں سماج کے لیے بھی ایک خطرہ بن جاتی ہے وہ اپنے آس پاس کے جلد مغلوب ہو جانے والے صحت مند افراد تک اپنی بیماری کے جراثیم پھیلانے کا ذمہ دار بن جاتا ہے۔ ایسے شخص کو طبی اصطلاح میں ـ’’ مرض بردار‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس سنگین صورت حال کا ذمہ دار سراسر سماج ہے لہٰذا رائے عامہ میں تبدیلی فوری توجہ کی متقاضی ہے۔

            آج ہندوستانی معاشرے میں جذام (اور متعدد بیماریوں ) کے بارے میں بڑے گمراہ کن خیالات پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے ملک سے ابھی تک ان امراض کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ چنانچہ جذام سے متعلق بھی مندرجہ ذیل غلط فہمیاں بڑی عام ہیں

            (۱)       جذام ایک موروثی مرض ہے اور لاعلاج ہے۔

            (۲)       جذام خطرناک حد تک ایک متعدی مرض ہے۔

            (۳)      سماجی بائیکاٹ کا ڈر

            (۴)      بھکاری اس بیماری کو پھیلانے کے ذمہ دار ہیں ۔

            (۵)      جذام ایک سزا ہے جو ان مریضوں کو پچھلے جنموں کے پاپوں کی پاداش میں دی جا رہی ہے۔

            آئیے ! اب ذرا ان غلط فہمیوں کا تجزیہ بھی کرتے چلیں تاکہ ان کی لغویت اور ان کا بے بنیاد ہونا کھل کر سامنے آ جائے۔

            یہ خیال بہت عام ہے کہ جذام ایک خاندانی مرض ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ بھی دیگر متعدی امراض کی طرح مریض سے قریبی ، متواتر اور طویل عرصہ تک ساتھ رہنے سے پیدا ہو سکتا ہے مگر محض مریض سے سر سری تعلقات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

            یہ مائکو بیکٹریم لیپری  Mycobacterium Leprae  نامی جراثیم سے پھیلتا ہے ۔ ابتدا میں جلد اور اعصاب متاثر ہوتے ہیں متاثرہ جلد کا حصّہ بے رنگ یا ہلکے گلابی رنگ کا ہو جاتا ہے۔اس حصّہ پر پسینہ نمودار نہیں ہوتا اور وہاں کے بال جھڑ جاتے ہیں ۔جلد کا یہ حصّہ چکنا اور چمک دار دکھائی دینے لگتا ہے اور اس کی سطح قدرے ابھری ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اسی قسم کے داغ رفتہ رفتہ جسم کے دوسرے حصّوں پر بھی نمودار ہو جاتے ہیں ۔ جذام اپنا اظہار بعض دوسری صورتوں میں بھی کر سکتا ہے۔ جیسے جسم کے چند حصّوں خصوصاً ناک ، ہاتھ اور پیر کی انگلیوں کے سرے اور کان کی لووں کا جھڑ جانا ، ہاتھ اور پیروں پر چھالوں کا نمودار ہونا۔ چہرے کا چھوٹی چھوٹی گانٹھوں  Nodules  سے متاثر ہونا ، انگلیوں پر سوجن آ جانا ، بھوؤں کا جھڑنا ،  ہاتھ اور پیروں پر ایسے چھالوں کا پیدا ہو جانا جن سے ایک قسم کا بدبو دار مادہ بہتا رہتا ہے۔ ایسی تمام صورتوں میں جسم بد وضع اور بد شکل ہو کر رہ جاتا ہے اور مریض سے کراہیت سی محسوس ہوتی ہے۔ مگر یاد رہے یہ تمام تبدیلیاں ابتدائی حملے کے دوران نمو نہیں پاتیں ان سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آگے تحریر کی جانے والی علامات میں سے اگر چند علامتیں بار بار نظر آئیں تو متاثرہ شخص فوراً کسی ڈاکٹر یا قریبی جذام مرکز سے رجوع کر کے اپنا شک رفع کر لے۔ خدانخواستہ جذام کے آثار ہوں تو ان سے بھی نپٹنا اتنا مشکل نہیں ۔

            جذام کی چند علامتیں یہ ہو سکتی ہیں : کمزوری ، الجھن، سردرد، جوڑوں میں درد، بخار، بھوک میں کمی، قبض اور جسم کے حصّوں خصوصاً پیٹھ وغیرہ پر جلد کی رنگت کا تبدیل ہو جانا وغیرہ ۔

            ایک بڑی غلط فہمی جو پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ جذام قابل علاج مرض نہیں ہے اور اس جہالت کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ خود مریض اور اس کے رشتہ دار علاج کی طرف سے لاپرواہی برتنے لگتے ہیں ۔ اس کے بجائے وہ اندھی عقیدت کا شکار ہو کر مقدس مقامات کی سیر اور زیارت کرتے اور متبرک دریاؤں کے پانی سے نہاتے پھرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس سے مرض پیچیدہ سے پیچیدہ تر مرحلہ میں داخل ہو جاتا ہے اور اس کا علاج دن بدن مشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔ مریض اچھی طرح سمجھتا ہے کہ سماج ایسے اشخاص سے تعلقات منقطع کر لیتا ہے اور یہ خوف اسے اپنے روگ کو سماج کی نگاہوں سے چھپا کر رکھنے پر اکساتا ہے۔ اس طرح مرض کو پوشیدہ رکھنے کا سبب سماجی ہے۔

            وقت کے گذرنے کے ساتھ جسم بد وضع و بد ہئیت ہونا شروع ہو جاتا ہے اور ایسی حالت میں مریض مجبوراً کسی دوا خانے کا رخ کرتا ہے۔ اس عرصہ کے دوران وہ خفیہ طور پر جراثیم کے انتشار کا ذریعہ بنا رہا اور اس کا مرض بھی پیچیدہ مرحلے میں داخل ہو چکا۔ لہٰذا معاشرہ اگر اپنا نقطۂ  نظر کو تبدیل کر لے تو ایسے بدنصیب اشخاص بے خوفی کے ساتھ علاج کی طرف مائل ہو سکیں گے اور اس طرح پورا معاشرہ ایک بڑے خطرے سے محفوظ رہ سکے گا۔

            مہاتما گاندھی نے سیوا گرام (وردھا) کے آشرم میں مشہور مدبر اور دیش بھگت پر چورے شاستری کی خدمت اور تیمار داری کر کے یہ مثال قائم کر دی ہے کہ جذام کے مریض، نفرت کے بجائے ہمدردی، توجہ اور علاج کے مستحق ہیں نیز انہوں نے ان بے بنیاد تصورات کا بھی ابطال کیا ہے کہ جذام موروثی مرض ہے اور ناقابلِ علاج ہے۔

            National Leprosy Organisation  نے اس تصور کو ایک نعرہ "Leprosy is Curable” (Slogan)   کے طور پر تسلیم کر کے جذام کے خلاف محاذ جنگ قائم کیا ہے۔ مگر افسوس کہ ۲۵ برس گزر جانے کے بعد بھی یہ مہم کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو پائی ہے اور اس نا کامیابی کے اسباب ہماری جہالت اور اوہام پرستی میں مضمر ہیں ۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ جذام ایک متعدی مرض ضرور ہے مگر احتیاط اور طبی اصولوں کو ملحوظ رکھا جائے تو تعجب نہیں کہ مریضوں کے قریب رہتے ہوئے اور ان کی تیمار داری کرنے کے باوجود ، ایک شخص اس کے حملے سے محفوظ رہ سکے۔

            گھر، خاندان اور سماج سے علیحدگی کا خوف بھی مرض کو چھپا کر رکھنے کا ذمہ دار ہے۔ لہٰذا یہ انتہائی ضروری ہو جاتا ہے کہ عوام میں پائے جانے والے بے بنیاد تصورات کے خاتمہ کی کوشش کی جائے اور ہر ممکنہ وسیلہ کا استعمال کر کے ناخواندہ افراد پر بھی حقیقی صورت حال کو واضح کیا جائے تاکہ یہ غلط فہمیاں جذامیوں کو اپنا مرض پوشیدہ رکھنے پر آمادہ کر کے انہیں علاج سے دور نہ لے جائیں ۔

            گلی ، کوچوں ، سڑکوں ، تفریح گاہوں اور مذہبی مقامات پر نظر آنے والے بھکاریوں کی بھیڑ میں ایسے جذامیوں کو دیکھ کر جن کی ناک کی جگہ گڑھے اور انگلیوں کے سرے جھڑے ہوئے نظر آتے ہیں ، دیکھنے والا یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ واقعی اس موذی مرض کا علاج ممکن نہیں نیز اسے بھکاری ہی پھیلاتے ہیں ۔ یہ دونوں ہی رائے حقیقت سے کوسوں دور ہیں ۔ جذام کے یہ چلتے پھرتے اشتہار دراصل اپنی معذوری اور مجبوری کا استعمال کر کے لوگوں کے مذہبی جذبے اور جذبۂ  ہمدردی کو ابھار کر ان سے زیادہ سے زیادہ خیرات وصول کرنے کے متلاشی ہوتے ہیں ۔ درحقیقت جسم کی یہ خامی یا بد وضعی ان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ۔ اگر وہ ابتدا ہی سے علاج کی طرف مائل ہوتے تو اس میں کامیابی یقینی تھی۔

            یہ خیال بھی نہایت لغو، بے بنیاد اور جہالت پر مبنی ہے کہ جذام کرموں کا ’’پھل‘‘ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی کسی دوسرے مرض کی طرح کسی بھی شخص کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے اس کا تعلق ہماری اسی دنیائے آب و گل سے ہے اور باقاعدگی سے علاج اس کا خاتمہ یقینی طور پر کر سکتا ہے۔

            ہندوستان میں جذام کے مریضوں کی تعداد لگ بھگ بتیس (۳۲) لاکھ اور مہاراشٹر میں سب سے زیادہ یعنی تقریباً چار لاکھ ہے۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ مہاراشٹر خصوصاً بمبئی میں ہر سال آس پاس کے صوبوں سے  ۵  تا  ۶  ہزار جذامی داخل ہوتے ہیں ۔ مہاراشٹر کا دوربھ کا علاقہ دیگر حصّوں کے مقابلے میں زیادہ ہی بدقسمت واقع ہوا ہے کہ ایسے مریضوں کا تناسب یہاں زیادہ ہے اور ستم ظریفی تو دیکھئے کہ وردھا جیسے ضلع میں جہاں کے سیوا گرام آشرم سے گاندھی جی کا برسوں تعلق رہا، وہاں اس کا تناسب اور بھی اونچا ہے۔ یورپی ممالک میں اس کا نام و نشان تک نہیں مگر ایشیائی ممالک خصوصاً ہندوستان آج بھی اس کا ایک محفوظ اور مضبوط گڑھ ہے جیسا کہ آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ اس کی کئی وجوہات ہیں جیسے ملک میں پھیلی عام جہالت طبی و سائنسی اصولوں سے لا علمی رہن سہن کے طریقوں کی خامیاں ، ناقص غذائیں ، وہم پرستی وغیرہ۔

            دنیا کے مختلف ممالک میں یہ تجربات کئے جا رہے ہیں کہ اس بیماری کے جراثیم کو تجربہ خانہ میں پیدا کر کے اسے الگ (Isolate)   کیا جا سکے تا کہ اس کا تفصیلی مشاہدہ و مطالعہ ممکن ہو سکے۔ یہی وہ رکاوٹ ہے جس کے باعث اس کی مدافعت کے لیے اب تک کوئی ٹیکہ تیار نہیں ہو سکا ہے۔ ہاں ڈھیر ساری دوائیں ، انجکشن ، مرہم اور گولیوں کی شکل میں بازار میں دستیاب ہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو اب پلاسٹک سرجری کی مدد سے بد شکلی و بد وضعی کے عیوب کو بھی دور کیا جا سکتا ہے جو حد درجہ علاج کی طرف سے غفلت برتنے کے نتیجے میں پیدا ہو جاتی ہے مگر یاد رہے کہ ہندوستان جیسے غریب ملک کے لیے یہ علاج کچھ زیادہ سودمند نہیں اور پھر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ علاج میں اتنی تاخیر کیوں کی جائے کہ جسم بد وضع ہو جائے۔ اور پلاسٹک سرجری کی نوبت آ جائے۔

            شری منوہر دیوان پہلے ہندوستانی تھے جنہوں نے ۱۰ اپریل ۱۹۳۶ء کو جذام کے خلاف علاج کا ایک عملی پروگرام شروع کیا۔ امراؤتی کے ’’راحت گھر ۔ تپوون(Tapovan)‘‘ کا وجود ۱۹۴۹ء اور  ورورا (Warora)   کے آنندون کا قیام ۱۹۵۱ء میں عمل میں آیا۔ اس ضمن میں سورگیہ انا صاحب دستانے ، ڈاکٹر واڑیکر، بابا صاحب آمٹے، ڈاکٹر بندور والا، ڈاکٹر پٹوردھن۔ یہ چند ایسے نام ہیں جنہوں نے اس مرض کے خلاف عملی کوششیں کیں ۔ ان کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ امراؤتی کے تپوون جذام مرکز میں تین سو افراد کے رہنے سہنے ، کھانے پینے اور علاج میں ہر طرح کی سہولیات میسر ہیں ۔ دتاپور کے ’’کشٹ دھام‘‘ اور ورورا کے آنند ون کا ذکر بھی یہاں ناگزیر ہے جہاں بڑی محنت ، لگن، محبت اور خلوص کے ساتھ جذامیوں کا علاج کیا جاتا ہے اور ان کی دیکھ بھال عمدہ ڈھنگ سے کی جاتی ہے۔ پونے کے ڈاکٹر بندور والا جذام اسپتال کا نام سارے ملک کے لیے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے جہاں نہ صرف ان مریضوں کو جسمانی اعتبار سے توانائی و تندرستی عطا کی جاتی ہے بلکہ زندگی سے بیزار ان اشخاص میں ایک عزم اور کچھ کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کیا جاتا ہے۔ انہیں زراعت ، باغبانی، ڈیری فارمنگ وغیرہ پیشوں سے منسلک کر کے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل بنایا جاتا ہے تاکہ یہ خود کو جذباتی اور ذہنی اعتبار سے واقعی ’’صحت مند‘‘ محسوس کر سکیں اور سماج و ملک کی تعمیر و تشکیل میں عملی طور پر حصّہ لے سکیں ۔

            یہاں اس تلخ حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ ان تمام اداروں کو ملنے والی امداد اتنی قلیل ہوتی ہے کہ اس کام سے منسلک رضاکار رفتہ رفتہ بددلی کا شکار ہونے لگے ہیں اور اب نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ عنقریب ان میں سے بعض مراکز کو بند کر دینا پڑے۔ ایسی صورت میں حالات کون سی شکل اختیار کر لیں گے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ عوام اور رضا کارانہ تنظیمیں اس عظیم کام میں اہم رول ادا کر سکتے ہیں ۔ مالی و تکنیکی امداد کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ اس مہم میں عوام اس طرح بھی تعاون کر سکتے ہیں کہ سب سے پہلے تو وہ ان توہمات سے چھٹکارہ حاصل کریں اور پھر اپنے رشتہ داروں ، پڑوسیوں وغیرہ کو علاج کی ترغیب دلائیں ۔ اگر وہ اس طرف سے غفلت برت رہے ہیں نیز مشکوک اشخاص کو ہر ضلع پر قائم شدہ تشخیصی مراکز میں بھجوانے کا انتظام کریں ۔ حکومت اور ارباب صحت عامہ کا یہ فرض بنتا ہے کہ ان سہولیات اور مراعات کی خوب تشہیر کی جائے جو اس مرض کے علاج کے سلسلے میں پرائمری ہیلتھ سنٹر یا ضلعی مرکز وغیرہ کی سطح پر دستیاب ہیں ۔ قومی تعلیم بالغاں کی اسکیم کے تحت اگر لوگ معمولی طور پر لکھنا پڑھنا سیکھ جائیں تو ان میں سماجی شعور بیدار کیا جا سکتا ہے۔ وہ خاندانی منصوبہ بندی کی اہمیت کو سمجھ سکیں گے، جہیز کی لعنت سے اپنا دامن بچا سکیں گے طبی اصولوں اور صفائی کی اہمیت سے واقف ہو سکیں گے اور دھیرے دھیرے ان میں عقلی و سائنسی طرز فکر پیدا ہو سکے گا۔

            ۲ اکتوبر ۱۹۷۷ء سے شروع کی گئی۔ دیہی صحت ، سکیم (Rural Health Scheme)  کے تحت تیار کئے گئے ہیلتھ ورکر بھی اس مہم میں موثر رول ادا کر سکتے ہیں ۔ ان کے علاوہ یوم جذام ، عشرہ جذام ، ہفتہ ، جذام، نمائشیں ، فلم شو وغیرہ کے انعقاد سے بھی مددلی جا سکتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد اس خاص مرض کے ساتھ ساتھ صحت کے عام اصولوں سے بھی واقف ہو سکیں ۔ ہر علاقے کے سرکردہ افراد بھی اس ضمن میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتے ہیں ۔ اگر اس ملک کے عوام، سرکاری ادارے، رضاکارانہ تنظیمیں وغیرہ جو اس عظیم کام میں مصروف ہیں منظم ہو کر ایک خاص تنظیم و ترتیب کے ساتھ کام کریں تو بہت جلد ’’جذام سے پاک معاشرہ‘‘ ایک حقیقت کا روپ اختیار کر لے گا اور ہندوستان اس لعنت سے ہمیشہ کے لیے پاک ہو جائے گا۔

٭٭٭

 

پرندوں کا طویل سفر اور مسائل

            غذا حاصل کرنا اور اپنی نسل کو قائم رکھنا جانوروں کی زندگی کے د و اہم مقاصد ہوتے ہیں ۔ ہر جانور میں یہ خواہش شعوری یا غیر شعوری طور پر چھپی ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیچھے اپنے جیسے بے شمار ہم جنس چھوڑ جائے تاکہ اس کی نسل کا سلسلہ جاری رہ سکے گویا یہ ایک جبلی خاصیت ہوتی ہے۔ اس خاص مقصد کی تکمیل کے لیے بعض اوقات جانوروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل بھی ہونا پڑتا ہے۔ بعض صورتوں میں یہ فاصلہ ہزاروں کلو میٹر تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ جانوروں کے اس قسم کے نقل مکانی کو مقام بدلنا یا ’’ہجرت‘‘ کہتے ہیں ۔ کبھی کبھی یہ نقل مکانی عارضی نوعیت کی بھی ہوتی ہے جسے خانہ بدوشی سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔ عام طور پر پرندوں ، دو ئیلوں (دو غلوں ) مچھلیوں اور پستانیوں میں ہجرت کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ مچھلیوں اور پرندوں کی ہجرت ماہرین اور فطرت کے مشاہدوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی رہی ہے خصوصاً ماہرین طیور نے پرندوں کی ہجرت کے ہر ہر پہلو کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔

            ہجرت کی انسانی زندگی میں بڑی اہمیت ہے۔ اس کی ایک قدیم اور لمبی تاریخ بھی ہے۔ تاریخ کے قدیم ماخذ میں اس بات کے ثبوت ملے ہیں کہ مختلف حالات کے زیر اثر انسانوں نے بھی اپنے وطن عزیز کو چھوڑا ہے۔ آریوں کی ہند میں آمد ایک متنازعہ مسئلہ بن کر رہ گئی ہے اور موجودہ نظریات کے مطابق آریوں کی آمد نے ہند کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ یہ بات بھی پایۂ  ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ یہاں کے بنجارے مختلف حالات کے تحت اپنے اصلی ملک ہندوستان سے نکل کر دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچ گئے۔ ان کے لباس ، رکھ رکھاؤ اور عائلی طریقوں میں مشابہت اور مماثلت ماہرین عمرانیات کے لیے تحقیق کا موضوع ہے۔

            چند چیزیں تفصیل کے نقطۂ  نظر سے جو اب تک پوشیدہ ہیں مثلاً حصول غذا، سازگار ماحول کی تلاش ، عمل تولید، دشمنوں سے حفاظت وغیرہ ہیں ۔ علاوہ ازیں موسمی حالات میں تبدیلی ، روشنی کی شدت و کمی و بیشی، دن کی روشنی کا وقفہ، روشنی کی نوعیت، ہوا کی رفتار اور اس کی سمت کے علاوہ بھی کئی عوامل پرندوں کو ہجرت پر مجبور کرتے ہیں ۔ اس طرح ہجرت ایک موسمی عمل ہے جس کے دوران پرندے گروہوں کی شکل میں حرکت کرتے ہیں ۔ اور یہ بات اب پایۂ  ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ اس دوران پرندے ہزاروں کلو میٹر کا سفر طے کرتے ہیں ۔ قطب شمالی (آرکٹک)حصّے کے پرندے کرۂ  ارض کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک یہ طویل سفر طے کرتے ہیں ۔ یہ گرمیاں گزارنے کی خاطر منطقہ معتدلہ اور حارّہ کو بھی پار کر جاتے ہیں ۔ سنہری رنگت والے پلوور کینیڈا کے اپنے افزائشی ٹھکانوں سے اڑ کر سردیوں میں ہوائی جزائر تک ۲۰۰۰ میل کا سفر کرتے ہیں ۔ نیلے پر والی چھوٹی بطخ کے بارے میں یہ معلوم کیا گیا ہے کہ یہ ہر دن ۱۲۵ میل کی اڑان بھر سکتی ہے۔ ہنگری کے گلابی بیسٹور ایک گلابی بادل کی مانند ہنگری جیسے دور دراز ملک سے اڑتے ہوئے کم و بیش ۵۰۰۰ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے آتے ہیں ۔ دنیا میں چند پرندے اپنے لمبے ہجری سفر کے لیے بڑی شہرت رکھتے ہیں ۔ قطب شمالی کا ٹرن نامی پرندہ گرمیوں کے آخیر میں اپنی شمالی کالونیوں کو خیر باد کہہ کر قطب جنوبی تک جاتا ہے۔ اس کا طے کردہ ریکارڈ فاصلہ ۷۶۰۰ا کلومیٹر ہے۔ سفید رنگ کا اسٹرک اپنی گرمیاں یوروپ میں گزارتا ہے مگر سردیاں جنوبی افریقہ میں ۔ یہ بڑا اچھا ہوا باز (گلائیڈر) ہوتا ہے۔ پیکٹورل سیڈ بائیریا نامی پرندہ جو اپنی نسل آرکٹک میں بڑھاتا ہے اپنے وقت پر جنوبی امریکہ لوٹ جاتا ہے۔ بوبولنگ شمالی امریکہ میں افزائش نسل کا کام کرتا ہے اور پھر ارجنٹائنا کے کوہستان تک چلا جاتا ہے۔ ہر سال ستمبر تا اپریل ہندوستان کو لاکھوں پرندوں کی میزبانی کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ یہ پرندے بڑے تو اتر کے ساتھ اپنے مقرر ہ مستقر پر وارد ہوتے ہیں اور مختصر سے قیام کے بعد اپنے اصلی وطن لوٹ جاتے ہیں ۔ ان پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ وسطی و مغربی ایشیا اور مشرقی یوروپ سے یہاں آ پہنچتے ہیں اور کچھ تو ہمالہ کو پار کر کے آتے ہیں ۔ گجرات کی مان سروور جھیل موسم سرما میں ہجرت کر کے آنے والے مہاجروں کی آماجگاہ بن جاتی ہے اور وہاں کی فضائیں ان کی نغمہ طرازیوں سے گونج اٹھتی ہیں ۔ بھرت پور کی مشہور زمانہ جھیل ان مہاجر پرندوں کی جنت ہے اور ان کے مطالعے، مشاہدے اور لطف اندوزی کے لیے سیاح دور دور سے یہاں آتے ہیں ۔ پیلی کسری (آندھرا پردیش)، ویرن تھنگل اور باندی پور (تامل ناڈو) اور کرنالہ (مہاراشٹر) بھی مہاجر پرندوں اور سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں ۔ ہندوستان میں مہاجر پرندوں کی کمی نہیں ، یہ بھی موسم کے تغیر کو محسوس کرتے ہیں ۔ یہاں سے ہجرت کر جاتے ہیں اور موسم سرما کی آمد کے ساتھ اپنے آشیانوں کو لوٹ آتے ہیں ۔ ان انواع میں بطور خاص ہمالیائی بطخ، مختلف قسم کی مرغابیاں ، لمبی چونچ والی جل مرغی، مختلف قسم کے بگلے، سارس وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔

            یہ بات بڑی تعجب خیز ہے کہ پرندے کس طرح اتنا طویل سفر بعض اوقات بغیر غذا کے اور راستہ بھٹکے بغیر کر پاتے ہیں ۔ اس راز کے پیچھے کون سے محرکات کام کر رہے ہیں ۔ وہ نہ راستے سے بھٹکتے ہیں اور نہ ہی راستے کی سمت۔ اور مقرر وقت پر پہنچتے ہیں ۔ آخر وہ کون سے محرکات میں جو ان کی اس باقاعدگی اور پابندی کے پیچھے مضمر ہیں ؟ ماہر طیور ڈاکٹر سالم علی نے ایک خاص مرغابی ویگ ٹیل کو ممبئی کے ایک مخصوص پارک میں مسلسل پانچ برسوں میں ایک ہی خاص تاریخ کو موجود پایا۔ انھوں نے اس کے پیر میں ایک مخصوص پٹی لپیٹ دی تھی تاکہ شناخت میں کسی غلطی کا امکان نہ ہو۔ اس ضمن میں تجربات اور تحقیق کے لیے تو اب نمو یافتہ آلات اور طریقۂ  کار پیش کیے جا چکے ہیں ۔ اسی طرح مغرب کے ماہرین نے بھی بعض خاص پرندوں کو اسی تاریخ اور مقام پر کئی برسوں تک دیکھا ہے جو ظاہر ہے کہ اتفاق نہیں ہو سکتا۔ ماہرین نے جو حالیہ مطالعے، مشاہدات اور تجربات راڈار کی مدد سے کیے ہیں ان کے بمو جب پرندے عام طور پر رات میں اڑتے ہیں اور ان بلندیوں پر پرواز کرتے ہیں جہاں وہ خود کو آرام دہ اور محفوظ محسوس کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود آج بھی ماہرین ہجرت کی تمام تر تکنیک اور تفصیلات سے ناواقف ہیں ۔

مقام تبدیل کرنے (ہجرت) کی وجوہات

            جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے، جانور بالخصوص پرندے کیوں مقام تبدیل کرنے کے لیے مائل ہوتے ہیں ، سائنسداں اور ماہرین طیور اس کا تشفی بخش جواب تلاش کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوئے، نیز ہجرت کے طریقۂ  عمل اور اس پورے مرحلے کے دوران پرندوں کے مخصوص برتاؤ اور ان کے جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے متعلق بھی تار یکی میں ہیں ۔ایک مقبول عام نظریہ کے مطابق ہجرت کا رجحان فطری ہے اور یہ ہزار ہا برس کے طویل عرصہ کے دوران پیدا ہوا ہے نیز موجودہ حالات اور کسی مخصوص پرندے کو در پیش موسمی کوائف بھی اس عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ یہ بات طے ہے کہ مخصوص ماحول،موسم وغیرہ کسی بھی جانور پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ناسازگار ماحول ہونے کی صورت میں وہ جانور اپنے اندر مطابقت پیدا کر لیتا ہے اور پرندے بھی اس سے الگ نہیں ہیں ۔ خصوصاً ہجری پرندے تو مطابقت (میل لگاؤ) کی غضب کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اسی عمل اور رد عمل کو ’’بقائے اصلح ‘‘ کہا جاتا ہے اور اس طرح اپنے گردو پیش سے خود کو خوگر نہ کرنے والے جانور (اور پرندے) صفحۂ  ہستی سے نیست و نابود کر دئیے جاتے ہیں ۔ زراف، پرندے، سانپ کچھ ایسے ہی جانور ہیں جو اپنے پرکھوں سے حد درجہ مختلف ہیں اور ان میں یہ تبدیلیاں اپنے گرد و پیش میں ہونے والے تغیرات سے ہی ہوئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ انواع آج ہمیں کرۂ ارض پر نظر آتی ہیں ۔ میمتھ اور ڈائنا سور وغیرہ اس کے برعکس چونکہ خود کو ماحول کے مطابق نہ ڈھال سکے اس لیے وہ اس دنیا سے ناپید ہو گئے۔ یہ مطابقت کی صلاحیت اس طرح بڑی سود مند ثابت ہوتی ہے مگر بعض صورتوں میں اس نے منفی رول بھی ادا کیا ہے جس کی واضح مثالیں بالخصوص مچھر اور فصلوں پر پائے جانے والے حشرات میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ مختلف قسم کی سریع الاثر اور مہلک جراثیم کش اور کیڑا مار دواؤں کے مسلسل استعمال نے ان حقیر کیڑوں میں ان کے خلاف مدافعت کی قوت پیدا کر دی ہے چنانچہ مارکیٹ میں ایک سے ایک فارمولے سامنے آتے ہیں مگر کچھ دنوں بعد یہ کار گر نہیں رہ پائے کیونکہ یہ حشرات اپنے اجسام میں ان کے خلاف لڑنے کی صلاحیت پیدا کر لیتے ہیں ۔ اس طرح ضرورتوں کے زیر اثر پرندوں میں ہجرت کر جانے کے عمل کی بنیاد پڑی۔ حالات کی پیچیدگی کے سبب اور دیگر عوامل کے زیر اثر یہ عمل تواتر اختیار کر گیا اور اس نے باقاعدگی کا کلیہ اختیار کر لیا۔ ہجرت کی عادت پرندوں میں اس دور میں ہوئی جسے ماہرین ارضیات ایسے دور سے تعبیر کرتے ہیں ۔ یہ دور تودۂ  برف (گلیشیر) کے بننے بگڑنے کے عمل سے وجود میں آتا ہے جو تقریباً ۱۱۰۰۰ برس قبل ختم ہو چکا ہے۔ مگر نقل مکانی کی یہ خصوصیت دھیرے دھیرے پرندوں میں شامل ہو گئی۔ ادھر ماہرین کا ایک ایسا گروہ ہے جو اس نظریہ سے اختلاف کرتا ہے۔ اس گروہ کی دلیل یہ ہے کہ پرندے ایسے مقامات سے بھی ہجرت کرتے ہیں جہاں گلیشیر بننے کا عمل کبھی ہوا ہی نہیں ۔ پھر ان کی ہجرت کے لیے کیا جو از پیش کیا جا سکتا ہے۔

            ایک دوسرے نظریے کے مطابق جانوروں کے اندرونی اعضا کا نظام عمل انھیں ہجرت پر مجبور کرتا ہے۔ ہمارے جسم میں تحولی اعمال مسلسل چلتے رہتے ہیں ۔ یہ عمل دو مرحلوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ پہلے عمل کے دوران حاصل شدہ غذا کی توڑ پھوڑ اور تجزیہ کیا جاتا ہے بعض جانوروں میں تخریبی تحول، ترکیبی تحول سے تجاوز کر جاتا ہے۔ نتیجتاً انھیں غذا کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے اور اطراف و اکناف میں غذا کی عدم دستیابی کے نتیجے میں ایسے جانوروں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ پرندے بھی ایسے ہی جانوروں کے زمرے میں آتے ہیں ۔ اگر عارضی طور پر نقل مکانی کے نتیجے میں مناسب غذا دستیاب ہو جائے تو یہ پرندے واپس اپنے مقام کو لوٹ جاتے ہیں ورنہ انھیں طویل سفر (ہجرت) کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے۔ پرندے بعض اوقات ان مقامات سے بھی ہجرت کر جاتے ہیں جہاں غذا کم مقدار میں موجود ہوتی ہے۔ اسی ضمن میں غذا کی مشکل حصولیابی بھی پرندوں کو ہجرت پر مجبور کرتی ہے۔ شمالی کرّہ کی شدید سردی غذا کے حصول کو تقریباً ناممکن بنا دیتی ہے۔ جیسے جیسے برف کی چادر پھیلتی چلی جاتی ہے اور پھر دبیز ہو جاتی ہے تو ان یخ بستہ جھیلوں سے بھی غذا کا حصول ناممکن ہو جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ رات کا وقفہ طویل اور دن کا مختصر ہوتا جاتا ہے اور ان سب کالا محالہ نتیجہ یہ نکلتا ہے غذا کی قلت یا فقدان ۔ لہذا ہجرت کے سوا کوئی اور چارہ نہیں رہ جاتا ۔ شمالی ہند میں ہمالہ کی وادیوں میں بسنے والے پرندے موسم سرما کی شدت سے بچنے کے لیے جنوب کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں اور موسم گرما کی آمد کے ساتھ ان کی واپسی بھی ہو جاتی ہے کیونکہ اب غذا کے حصول کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں ۔ یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ اگر پرندوں کے پیٹ بھرے ہوں تو موسم کے شدید اثر خصوصاً سردی ان پر کوئی اثر نہیں کرتی ۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ منفی دس ڈگری سیل سی یس جیسے سردی کے ماحول میں بھی پرندے چہچہاتے اور گاتے ہیں بشرطیکہ ان کے پیٹ بھرے ہوئے ہوں ۔

            ہجرت ایک دو طرفہ عمل ہے یعنی جنوبی نصف کُرے سے شمالی نصف کُرے کی طرف اور اس کے برعکس ۔ سرمائی شاہدین وہ پرندے کہلاتے ہیں جو آرکٹک علاقے میں گرما گزارتے ہیں جیسے ہنس وغیرہ نقل مکانی کا عمل محض پرندوں تک محدود نہیں ، ان جانوروں میں پستانیے ، ٹڈی دل ، جھل تھلیے ، تتلیاں ، حشرات وغیرہ بھی شامل ہیں ۔ ان کا ہجری وقفہ بھی مختلف ہوتا ہے ۔ اسی طرح ان کے ذریعے طے کردہ فاصلہ بھی ۔ ان سب کا انحصار مختلف ماحول ، حالات اور عوامل پر ہوتا ہے۔ مینڈک ٹوڈ جیسے دوئیلے سرما اور گرما کا زمانہ حالت نوم میں گزارتے ہیں جسے موسم کی مناسبت سے گرما خوابی اور سرما خوابی کہا جاتا ہے۔ اس کے لیے وہ نم اور مرطوب جگہ کا انتخاب کرتے ہیں ۔ بام اور سامن مچھلیاں خصوصاً انڈے دینے کے لیے عارضی طور پر اپنے مسکن کو خیرباد کہتی ہیں ۔ سمندری مچھلیوں کی کچھ قسمیں انڈے دینے کے لیے سینکڑوں کلومیٹر کا سفر طے کر کے بحر اٹلانٹک میں جاتی ہیں ۔ انڈے دینے کے بعد یوروپ کی بام مچھلی کی موت واقع ہو جاتی ہے لیکن نوزائیدہ بچے دوبارہ بڑی مچھلیوں کے بغیر ندیوں میں واپس لوٹ جاتے ہیں ۔ یہ تعجب خیز بات ہے کہ ماں کی غیر موجودگی میں اور اس کی تربیت کے بغیر ہی یہ بچے کس طرح ایک طویل ان دیکھا اور ان جانا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہجرت کی خصلت جبلی ہوتی ہے۔ دھوبی پرندے شمالی ایشیا اور روس سے ہر سال آتے ہیں اسی طرح وہ ہمالیہ کے علاقے سے بھی آتے ہیں اور اگست سے ستمبر کے دوران پورے ہندوستان میں پھیل جاتے ہیں اور مارچ۔ اپریل میں واپس لوٹ جاتے ہیں ۔

            جیسا کہ اس سے قبل عرض کیا جا چکا کہ دن کی تپش، روشنی کی شدت اور مدت بھی ہجرت سے گہرا تعلق رکھتے ہیں ۔ اعداد شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جنوبی نصف کرہ میں مستقلاً قیام کرنے والے پرندوں کے مقابلے میں مہاجر پرندوں میں بچوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ ایک مسئلہ اب بھی سوال بنا ہوا ہے کہ ایک ہی قسم (نوع) کے بعض پرندے کیوں ہجرت کرتے ہیں اور بعض کیوں نہیں ؟

            یوں تو ہجرت کا عمل بہت سے جانوروں میں دیکھا جا سکتا ہے، مگر پرندوں کی ہجرت جتنی منظم، باقاعدہ ، اوقات کی پابند اور حیران کن ہے کہ اس نے ماہرین طیور کو اس کے مزید مطالعہ پر مجبور کیا ہے۔ طویل مطالعے اور مشاہدے کے نتائج خاصے دلچسپ ہیں اور پریشان کن بھی۔ نیز مزید وضاحت طلب بھی یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ پرندے کس طرح اتنا طویل سفر بھٹکے بغیر اور محدود غذائی ذخیرے کے ساتھ طے کرتے ہیں ۔ بعض اوقات واپسی کے سفر میں ان کی اچھی خاصی تعداد ناگہانی حادثات اور دشمنوں کی بدولت ختم ہو جاتی ہے۔ اس کی مثال جاٹنگا (آسام) میں دیکھنے کو ملی جبکہ پرندوں کا ایک گروہ تیز روشنی کے ماخذ کی طرف بری طرح کھینچا چلا گیا اور اس ہڑبونگ میں ہزاروں کی موت واقع ہو گئی۔ ماہرین نے اسے پرندوں کی ’’اجتماعی خود کشی‘‘ سے تعبیر کیا ہے تاہم وہ اس ’’کشش‘‘ کی بنیادی وجہ تک آج تک نہیں پہنچ پائے۔ ادھر ان دنوں ماہرین طیور اور ماحولیات کو ایک تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یوروپ سے ہجرت کر کے برصغیر کی جانب آنے والے بعض پرندے حریص شکاری اور بیوپاریوں کی نگاہوں کے مرکز بن گئے ہیں اور اس ’’نرم‘‘ نوالے کی  پذیرائی کے لیے غیر ملکی خصوصاً عرب ملکوں کے سیاح پاکستان کے ان علاقوں میں ہر سال پہنچ جاتے ہیں جو ان پرندوں کی گزر گاہ ہے۔ جدید ہتھیاروں اور آلات سے راستہ میں ہی ان مہاجر پرندوں کا شکار کر لیتے ہیں ۔ مقامی آبادی کو اس طرح بیٹھے بٹھائے معاش کا ایک ذریعہ مل گیا ہے۔ اس غیر قانونی شکار سے ان مہاجر پرندوں کی نسل کو خطرہ ہو گیا ہے اور اس معاملے میں سرکاری بے حسی اور بے توجہی جتنی جلدی دور ہو جائے بہتر ہے۔

            پرندے سورج اور ستاروں کی مدد سے اپنا راستہ طے کرتے ہیں ۔ زمین کی مقناطیسی قوت بھی ان کے لیے راہنما ثابت ہوتی ہے۔ بعض اوقات کہر، طوفان اور باد باراں کے باعث تنہا پرندہ اپنا راستہ بھول جاتا ہے۔ رات میں اڑنے والے پرندے عموماً تنہا اڑتے ہیں جبکہ دن میں پرواز ایک گروہ کی شکل میں ہوتی ہے۔ یہ ندیوں ، وادیوں ، ساحل وغیرہ کو بطور نشانی استعمال کرتے ہوئے پہاڑی سلسلوں اور سمندروں کو بھی پار کر جاتے ہیں ۔ پرواز کرنے والے پرندوں کے لیے جغرافیائی نشانیاں بہت سودمند ثابت ہیں ۔ سفر کرنے والے پرندوں کی راہوں اور سمتوں کا تعین کون سی چیز کرتی ہے، اس کے متعلق کوئی صحیح فیصلہ نہیں ہو پایا ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ فطرت میں یہ جذبہ ودیعت ہونے کے علاوہ تجربہ بھی ان کے اس عمل میں رہنمائی کرتا ہے۔ بعض سائنسدانوں کا یہ خیال ہے کہ زمین کے مقناطیسی میدان کا پرندوں کو احساس ہوتا ہے اور اس مقناطیسی اثر اور زمین کی گردش کے اثر کا استعمال سمتوں کے تعین میں کرتے ہیں ۔ کچھ پرندے سورج اور دوسرے اجسام فلکی کی مدد سے بھی سمت کا تعین کرتے ہیں ۔

            غرضیکہ سائنس داں جانوروں خصوصاً پرندوں کی ہجرت سے متعلق تمام تر تفصیلات مع شواہد و دلائل کے اکٹھا کرنے میں سرگرداں ہیں تاہم کئی پہلو اب بھی مکمل تاریکی میں ہیں مگر امید کی جاتی ہے کہ اس میں بھی کامیابی حاصل ہو جائے گی۔

٭٭٭

 

خطرناک شارک مچھلیاں

            حیوانات سب سے زیادہ سمندر میں پائے جاتے ہیں لیکن ساٹھ فٹ لمبی شارک کے سامنے ہاتھی کی بھی کوئی حقیقت نہیں ۔ کرہ زمین کے سمندروں میں شارک مچھلی کی تین سو کے لگ بھگ اقسام ملتی ہیں ۔ دریائے گنگا میں پائے جانے والی شارک کی قسم کی بعض مچھلیاں تو ایسی ہیں جو گنگا دجلہ اور ایسی بڑی ندیوں میں بہاؤ کے الٹے رخ نقل مکانی کرتی ہیں ۔بعض قسم کی شارک مچھلیاں ساحل سے دور کھلے سمندروں میں رہنا پسند کرتی ہیں ۔ کچھ شارک مچھلیاں ایسی ہیں جو زیادہ تر وقت سمندر کی تہہ میں یا اس کے قریب گزارتی ہیں ۔ بیشتر شارک مچھلیاں مقابلتاً کم گہرے سمندروں میں رہتی ہیں مگر چند ایک ایسی بھی ہیں جو سینکڑوں گز کی گہرائی پر براعظموں کی ڈھلانوں کے ساتھ سمندر کے اندر گزر بسر کرتی ہے۔ شارک مچھلی زیادہ سے زیادہ جس گہرائی سے پکڑ لی گئی ہے وہ ہے ۱۵۰۰ فیدم (چھ فٹ ناپ کا پیمانہ) شارک سب جگہ ملی جلی اقسام کی پائی جاتی ہیں مگر ان کی اکثریت تین سمندروں بحر الکاہل، بحر ادقیانوس اور بحر ہند کے سمندری علاقوں میں ملتی ہے۔ شارک کی صرف ایک قسم ایسی ہے جو پورے سال قطبین کے سرد سمندروں میں رہتی ہیں ۔

            دوسری مچھلیوں کے برعکس شارک مچھلیوں کے پنکھے نہیں ہوتے جو ایک ایسا عضو ہے جو تیرنے میں کام دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ہمیشہ بھاگتی پھرتی ہیں ۔ ان کا مہیب ہتھیار ان کے دانت ہیں ۔ شکار خور شارک مچھلی کے جبڑے کا بغور معائنہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ اس کے منہ میں تلوار کی دھار جیسے تیز دانتوں کی خوفناک قطاریں لگی ہیں ۔ کسی بھی وقت دانتوں کی ایک سے لے کر پانچ تک قطاریں زیر استعمال رہتی ہیں ۔ منہ کے اندر کے رخ دانتوں کی اور قطاریں بھی محفوظ ہوتی ہیں جب کبھی سامنے والی قطار کے دانت استعمال کے باعث یا کسی حادثے کی وجہ سے ٹوٹ جاتے ہیں ۔ اس سے اگلی قطار کے دانت ان کی جگہ سامنے والی کی طرف آ جاتے ہیں ۔ یہ سلسلہ شارک کی زندگی بھر جاری رہتا ہے۔

            بعض شارک مچھلیوں کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا۔ اسی وجہ سے انھیں ’’بھوکے سمندری بھیڑیے‘‘ اور بحری شیر کہہ کر بھی پکارا جاتا ہے۔ عظیم سفید شارک مچھلیاں ہر طرح کے جانور ہڑپ کر جاتی ہیں ۔ اور کچھوے نیز دریائی بچھڑے تک بھی نہیں چھوڑتیں ۔

            ٹائیگر شارک بھی بڑی پیٹو مچھلی ہے۔ یہ صحیح معنوں میں کھلے سمندروں کی عجیب مچھلی ہے اور ہر قسم کے جاندار مثلاً کچھوے ، ڈالفن مچھلیاں ، سنگ پشت، سمندری پرندے اور ہر قسم کی مچھلیاں کھا جاتی ہیں ۔ بعض اوقات یہ مردار خور بھی بن جاتی ہیں ۔ شارک مچھلی کی تمام اقسام میں سے سب سے زیادہ خطرناک ہوتی ہیں سفید شارک مچھلیاں (جنھیں اکثر آدم خود بھی کہتے ہیں ) ٹائیگر شارک ، منیالی شارک اور مونگری جیسے سروالی شارک مچھلیاں ۔

            جس طرح ان سے احمقانہ داستانیں وابستہ ہیں اسی طرح شارک ایک احمق مچھلی واقع ہوئی ہے۔ اس میں عقل بے حد کم اور درد کا کوئی احساس نہیں تھا۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ شارک مچھلی کا پیٹ چاک کر دیا گیا مگر وہ اپنے اندرونی اعضا کھاتی چھلی گئی یا شارک کے کٹے ہوئے سر، لقمہ پھینکے جانے پر اسے پکڑنے کی کوشش کرتے رہے۔ نیلے رنگ کی شارک مچھلیوں کے جگر نکال لینے کے بعد جب انھیں پھر سے سمندر میں پھینکا گیا تو وہ میکرل نام کی لذیذ مچھلیوں کے پیچھے بھاگ نکلیں اور انھیں پکڑ کر کھانے لگیں اس کے برعکس، شارک مچھلیوں کی سونگھنے کی قوت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ پانی کے ارتعاش سے سمجھ جاتی ہیں کہ ان کے آس پاس کیا ہے۔ چنانچہ اگر کسی سمندری جانور کے جسم سے خون بہہ رہا ہو اور وہ مصیبت زدہ ہونے کے باعث صحیح ڈھنگ سے تیر نہ رہا ہو تو یقیناً شارک اس پر حملہ آور ہو گی کیونکہ شارک خون کی بو کو بہ آسانی سونگھ لیتی ہے اور پھر حملہ کر دیتی ہے۔ ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں شارک مچھلیوں نے اس قسم کے حالات میں لوگوں پر حملے کئے ہیں ۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ شارک مچھلیاں ایسی وھیل مچھلیوں پر حملہ آور ہوئی ہیں جن کے جسم سے خون بہہ رہا تھا یا پھر ان مچھلیوں پر جھپٹی ہیں جو کانٹوں میں پھنسی ہوئی تھیں کیونکہ ایسی مچھلیوں کانٹا نگل لینے پر کانٹا نکالنے کے لیے جدوجہد کرتی ہیں ۔ ان کی جدوجہد سے سمندر میں بے ڈھب ارتعاش پیدا ہوتا ہے جو شارک مچھلیوں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کراتا ہے۔

            شارک کو دور رکھنے کے لیے کئی طرح کی تدبیریں نکالی گئی ہیں ۔ ان میں سے ایک ہے شارک کو بھگانے والا کمپاؤنڈ۔ اس میں کاپر ایسی ٹیٹ اور نگروسین رنگ ملا ہوتا ہے۔ شارک کو اس کی بو بہت بری لگتی ہے۔ آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں جہاں ساحل سمندر پر لوگ جا کر نہاتے ہیں وہاں سمندر میں لوہے کے جال لگا دئیے گئے ہیں تاکہ شارک مچھلی انھیں پار کر کے اندر نہ گھسنے پائے۔

            حالانکہ سمندر میں نہانے کے شائقین اور ملاحوں کے لیے شارک مچھلیاں خطرناک ہوتی ہیں تاہم یاد رکھنا چاہیے کہ وہ خوراک کا ایک اہم ماخذ بھی ہیں ۔ ان میں حیاتین، پروٹین ، تیل اور دیگر کارآمد اشیا کی کوئی کمی نہیں ۔ پرانے زمانے میں شارک کا شکار محض شکار کے طور پر کیا جاتا تھا۔ آج کل اس مچھلی کا شکار بڑے منظم ڈھنگ سے کیا جاتا ہے اور دنیا بھر میں تقریباً چار لاکھ ٹن شارک مچھلی ہر سال پکڑی جاتی ہے۔ ہندوستان میں تازہ ترین تخمینوں کے مطابق ہر سال ۵۸ ہزار ٹن شارک کا شکار کیا جاتا ہے جو سمندر سے پکڑی جانے والی مچھلی کے ۶ئ۴ فی صدی کے برابر ہے۔ ہندوستان میں ساحل سمندر پر واقع صوبوں میں سے تامل ناڈو، گجرات اور مہاراشٹر ایسے صوبے ہیں جہاں سب سے زیادہ شارک مچھلی پکڑی جاتی ہے۔ جنوبی کنارے میں منگلور، سورتکل، کوپ اور گنگولی ایسے مرکز ہیں جہاں شارک مچھلی اچھی خاصی مقدار میں پکڑی جاتی ہے۔

            بہت سے ملکوں میں جن میں یورپ کے ممالک بھی شامل ہیں شارک مچھلیوں کی بطور خوراک بہت مانگ ہے۔ اس مچھلی کا ہر حصّہ۔۔ گوشت، پنکھ، کھال، جگر اور آنتیں ۔۔ استعمال میں آ جاتا ہے۔ امریکہ میں اس کے گوشت کے قتلے زیادہ پسند کئے جاتے ہیں جبکہ دوسرے ملکوں میں کوفتے۔ ہندوستان میں اس کے گوشت کو نمک لگا کر کھایا جاتا ہے اور پھر اسے دوسری اشیا کے ساتھ ملاکر پکایا جاتا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میں اس کے پیروں کی مانگ بہت ہے۔ بڑی شارک مچھلیوں کے پروں کے ریشوں سے اعلیٰ درجے کا شوربہ بنتا ہے۔ چینی نسل کے لوگوں میں پروں کے سوپ کی مانگ سپلائی کے مقابلے میں ہمیشہ زیادہ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مناسب طریقے سے سکھائے گئے مچھلی کے پروں کی قیمت نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان سے شارک مچھلی کے پروں کی برآمد ۱۵۵ ،ٹن سے بھی زیادہ ہے۔ جس کی قیمت ڈیڑھ کروڑ روپیہ کے برابر ہے۔ شارک کے چمڑے سے نہایت عمدہ قسم کے جوتے، ہینڈ بیگ، بٹوئے، گھڑیوں کے فیتے اور پٹّیاں بنتی ہیں ۔ ان کے علاوہ درانتی کی قسم کی ریتی اور لکڑی کا پالش بھی تیار ہوتا ہے۔ اس کے دانت اور ریڑھ کی ہڈی کے حصّے بطور آرائشی اشیاء کے استعمال میں آتے ہیں ۔ اس کے جگر میں تیل بہت ہوتا ہے جو وٹامن اے، کا اصل ذخیرہ ہے۔ شارک مچھلی کے خشک پر آٹھ ڈالر(امریکی) فی کلوگرام ، اس کی کھال نو ڈالر فی کلو اور گوشت کے خشک قتلے یا کوفتے ایک ڈالر فی کلو فروخت ہوتے ہیں ۔

            شارک مچھلیوں کا خوب شکار کیا جانا چاہیے یہ بات اقتصادی لحاظ سے اہم ہے کیونکہ شارک شکار کی جانے والی مچھلیوں اور شکاریوں کے جانوں کو سخت نقصان پہنچاتی ہے سمندر سے ملنے والی مرغوب غذا کو ہڑپ کرنے میں شارک مچھلی انسان کی حریف ہے۔ چنانچہ سمندری مچھلیوں اور ان کے شکار کے باقاعدہ انتظام کے لیے ضروری ہے کہ شارک مچھلیوں کی تعداد پر برابر قابو رکھا جائے۔

٭٭٭

 

لاکھوں خوبیوں والا لاکھ

            قدرت نے انسان کو بیش قیمت انعامات سے نوازا ہے۔ ان قدرتی عطیات کے مناسب اور موزوں استعمال سے انسانی زندگی کو خوشگوار، پُر سکون اور آرام دہ بنایا جا سکتا ہے۔ قدرت کے انھی مظاہر میں حشرات یعنی کیڑوں مکوڑوں کا شمار ہوتا ہے۔ یوں تو کیڑوں کی ہزاروں قسمیں پائی جاتی ہیں جن میں سے بہت سارے انسانوں کے کام کے اور فائدے مند بھی ہیں مگر کچھ حشرات ایسے بھی ہیں جنھوں نے انسانی زندگی کو ایک نیا طرز و آہنگ عطا کیا ہے۔ ریشم کے کیڑوں سے ملنے والے ریشم ، شہد کی مکھیوں کا میٹھا تحفہ اور ایک قدرتی ٹانک شہد اور نیل اور لاکھ سے ملنے والے نیل اور لاکھ جیسی قدرتی حاصلات اور ان کے فوائد سے ایک عام آدمی بھی واقف ہے۔ زیر نظر مضمون میں ’’لاکھ‘‘ جیسی کار آمد شئے کا تفصیلی جائزہ لیا جا رہا ہے۔

            لاک ، لاکا، لاکھ یا لکش کی تاریخ بڑی قدیم ہے۔ پر اتن اور ویدوں کے دور میں اس کا ذکر پہلی بار ملتا ہے۔ ’’مہابھارت‘‘ میں ’’لکھش گرہ‘‘(لکھی محل) کا تذکرہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ پرانے ہندوستانی اس کے استعمال سے بخوبی واقف تھے۔ ہندوستان کے کئی عجائب گھروں میں لاکھ کی بنی ہوئی اشیا آج بھی موجود ہیں جنھیں مختلف تہذیبی مقامات پر کھدائی کے دوران حاصل کیا گیا تھا۔ یہ اس دعوے کو مزید تقویت دیتی ہیں ۔

            لاکھ دراصل ایک قسم کا استخراجی مادہ ہے جو لیسدار اور چپچپا ہوتا ہے اور مخصوص کیڑوں کے جسم سے نکل کر ان کو جسم کو خول کی مانند ڈھک لیتا ہے۔ ان کیڑوں میں ایک کا نام لوسی فرلاکا ہے جنھیں عام زبان میں ’’لاکھ کے کیڑے‘‘ کہا جاتا ہے اس کے علاوہ بھی (یعنی لوسی فرلاکا کے علاوہ) تیرہ قسم کے کیڑے پائے جاتے ہیں مگر عرف عام میں ان سبھی چودہ قسم کے کیڑوں کو لاک کے کیڑے کہا جاتا ہے۔ اس کیڑے کا جسم بڑا ہی منحنی ہوتا ہے اور لمبائی تقریباً آدھا ملی میٹر ہوتی ہے نیز جسم کی بناوٹ کشتی نما ہوتی ہے یہ کیڑے بڑے پھرتیلے ہوتے ہیں اور چند مخصوص درختوں پر ہی منڈلاتے رہتے ہیں مگر جلد ہی ان درختوں کی شاخوں اور ٹہنیوں پر اپنا بسیرا کر کے مادہ انڈے دینے کے عمل کو شروع کر دیتی ہے۔ یہ اپنی سونڈ کے ذریعے انھی پودوں سے غذائی رس حاصل کرتے ہیں ۔ یہی ان کی غذا ہوتی ہے۔ دوسرے درختوں پر یہ پنپ نہیں سکتے۔ عام طور پر یہ بیر، پلسا، کسم اور کھیر(جس سے پان کا کتھا حاصل ہوتا ہے) کے درختوں پر اچھی طرح نشو و نما پا سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ شیشم ، پیپل، لیچی اور ببول بھی ایسے درخت ہیں جن پر یہ کیڑے پل سکتے ہیں چنانچہ یہ متحرک کیڑے جلد ہی ان میں سے کسی ایک پر بھی اپنا ٹھکانہ بنا کر ان کی ٹہنیوں اور شاخوں کو آباد کر لیتے ہیں اور جسم پر ایک خول بنا لیتے ہیں ۔ یہ کیڑے ایک دوسرے کے اتنے قریب ہوتے ہیں کہ خول یہاں سے وہاں تک ایک جان ہو کر ایک پرت کی شکل اختیار کر لیتا ہے انھی پرتوں کو کھرچ کر اکٹھا کر لیا جاتا ہے، یہی لاکھ ہے۔ مگر اسے قابل استعمال بنانے کے لیے کئی مراحل سے گزرنا ہوتا ہے۔ عموماً کیڑے ٹہنیوں پر خول بنا کر انڈے دینے کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بنا لیتے ہیں ۔ لاکھ کے علاوہ ان مادوں (کیڑوں ) سے ایک خاص قسم کا رنگ بھی حاصل ہوتا ہے۔ جس طرح مختلف درختوں پر بسنے والے کیڑوں سے ملنے والا لاکھ مختلف ہوتا ہے اسی طرح الگ کیڑے سے الگ قسم کا لاکھ حاصل ہوتا ہے نیز رنگ بھی۔ ان رنگوں کا بھی استعمال خوب ہوتا ہے۔

            لاکھ حاصل کرنے کے لیے ان درختوں کی ٹہنیوں اور شاخوں کو اکٹھا کر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے اور چھاؤں میں سوکھنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پھر ان ٹہنیوں سے لاکھ کی پرت (یا پپڑی) کھرچ کھرچ کر علیحدہ کر لی جاتی ہے۔ اسے ’’خام لاکھ‘‘ یا ’’سلاخی لاکھ‘‘ کہتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں اس کی سالانہ پیداوار تقریباً ۱۵۰۰۰ میٹرک ٹن ہوتی ہے۔ اس کچی لاکھ کو کارخانوں میں لا کر باریک پیسا جاتا ہے جسے خام سفوف کا نام دے دیتے ہیں ۔ اسے پانی میں ڈال کر خوب دھویا جاتا ہے اور سوکھنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے جس سے ’’دانے دار‘‘ لاکھ تیار ہوتی ہے۔ اس لاکھ کو خالص بنانے کے لیے مختلف تعملات سے گزارا جاتا ہے۔ خالص لاکھ کے استعمال الگ طرح کے ہوتے ہیں ۔ غیر خالص لاکھ جس میں رنگ دار مادے اور گوند کی آمیزش نہ ہو پتلی پتلی پرتوں میں تبدیل کر دی جاتی ہے۔ جسے چپڑا یا  شیلاک کہتے ہیں اور یہی غیر ممالک کو بر آمد کی جاتی ہے۔ کبھی کبھی دانہ دار لاکھ کو مختلف شرائط (جیسے درجۂ  حرارت وغیرہ) کے تحت سوڈیم ہائپو کلورائٹ کے ساتھ تعمل کروایا جاتا ہے تاکہ یہ بے رنگ ہو جائے۔ اسے بھی سفوف یا بٹیوں کی شکل میں برائے فروخت بازاروں میں روانہ کر دیا جاتا ہے۔ یوں تو لاکھ کی کئی قسمیں ہیں مگر ہندوستان میں عام طور پر اس کی سات قسمیں پائی جاتی ہیں ۔ ان قسموں کو پہچاننے کے الگ الگ معیار اور کسوٹیاں ہیں ۔

            لاکھ دراصل ایک ’’قدرتی پلاسٹک‘‘ ہے۔ یہ در حقیقت مختلف رال (ریزن) کے تیزابوں کا مجموعہ ہے۔ حرارت دیں تو یہ پگھلتا ہے مگر اس کا کوئی مخصوص درجۂ  جوش نہیں ۔ کیونکہ یہ کوئی ہم جنس مرکب نہیں ۔ حرارت دینے پر یہ ربر کی سی حالت اختیار کر لیتی ہے۔ اور اس مخصوص درجۂ  تپش کو اس لاکھ کا ’’عرصۂ  حیات‘‘ کہا جاتا ہے۔ عام طور پر درجۂ  جوش جتنا کم ہو گا، اس لاکھ کا عرصۂ  حیات اتنا ہی زیادہ ہو گا۔ ۵۰ا ڈگری کو ایک مثالی درجۂ  حرارت تصور کیا جاتا ہے اور اسی ۱۵۰ ڈگری پر لاکھ کا عرصۂ  حیات متعین کیا جاتا ہے۔ بٹن نما لاکھ کا عرصۂ  حیات ایک گھنٹہ ہوتا ہے۔ مگر اونچے درجۂ  حرارت پر اس میں کمی ہوتی جاتی ہے۔ پگھلی ہوئی حالت کے دوران ہی کسی بھی لاکھ کا درجہ یا اس کی قسم متعین کر لی جاتی ہے۔ اچھے قسم کے لاکھ میں زیادہ سیلانیت پائی جاتی ہے۔ سیلانیت جتنی کم ہو گی، لاکھ عرصۂ  حیات یا وقفۂ  حیات اتنا زیادہ ہو گا۔

            پرانے زمانے سے ہی انسان لاکھ کو کنگن ، زیورات ، کھلونے کی تیاری میں استعمال کرتا چلا آیا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے آس پاس اس کا استعمال بطور خاص گراموفون کے ریکارڈ بنانے میں کیا جاتا تھا۔ تب سے ہی یہ غیر ملکی زر مبادلہ کمانے کا ذریعہ رہا ہے۔ دنیا کی لاکھ کی ضرورت کا تقریباً ۷۵ فی صد حصّہ ہندوستان ہی پیدا کرتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک جہاں لاکھ کی کاشت ہوتی ہے، میانمار، تھائی لینڈ اور بنگلہ دیش ہیں ۔ ہندوستان میں بہار اور جھارکھنڈ پیداوار کے اہم مراکز ہیں مگر مہاراشٹر اتر پردیش ، مدھیہ پردیش ، آسام، اڑیسہ اور مغربی بنگال میں بھی اس کی کاشت کی جاتی ہے۔ ہندوستان سے خالص لاکھ کو جرمنی، مصر، انڈونیشیا اور امریکہ بھیجا جاتا ہے۔ جبکہ چپڑا، بے رنگ لاکھ، غیر مومی لاکھ اور دانہ لاکھ دنیا کے دیگر ممالک کو بھیجے جاتے ہیں ۔ لاکھ غیر ملکی زرمبادلہ کمانے کا اہم ذریعہ ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نئے حالات میں پوری لاکھ پالیسی پر نظر ثانی کی جائے۔ لاکھ پیداوار میں اضافہ ، اس کی کوالٹی میں سدھار اور اس سے متعلق بنیادی اجزا یعنی کیڑوں اور اس کے پروردہ درختوں پر جدید نقطۂ  نظر سے تحقیق ضروری ہے تاکہ ہندوستان دنیا کے ملکوں میں سر فہرست بنا رہے۔

            اس مقصد کے لیے حکومت ہند کے آئی۔ سی۔ اے۔ آر (زرعی تحقیقی ادارہ) کے تحت لاکھ کے لیے مخصوص تحقیقی ادارہ ۱۹۲۵ء میں رانچی (جھارکھنڈ) میں ’’نام کم‘‘ مقام پر قائم کیا گیا ہے۔ اس سے قبل ۱۹۲۱ء میں ’’بھارتیہ لاکھ انجمن‘‘ کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ اس کے علاوہ باہمی امداد کی بنیاد پر بہت سی انجمنیں بھی کام کر رہی ہیں ۔ اس طرح لاکھ کی کھیتی اور اس سے متعلقہ کاروبار سے لاکھوں لوگ جڑے ہوئے ہیں ۔ یہ تحقیقی ادارہ بڑا اہم کام انجام دے رہا ہے۔ اس ادارہ کے زیر نگرانی لاکھ کے کیڑوں کا باقاعدہ اور سائنسی مطالعہ کیا جاتا ہے تاکہ اس کی نسل کی افزائش اچھے ڈھنگ سے ہو۔ ان کے دشمنوں یعنی دیگر کیڑے، پرندے یا پھر طفیلی جاندار سے متعلق بھی مطالعہ کیا جاتا ہے تاکہ لاکھ کے کیڑوں کی نسل متاثر اور برباد نہ ہو۔ ان کیڑوں سے کس طرح بہتر سے بہتر اور زائد مقدار میں لاکھ دستیاب ہو، اس کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے۔ اسی طرح ان درختوں کا بغور سائنسی مطالعہ کر کے ان کی بقا کی بھی کوشش کی جاتی ہے، جن درختوں پر یہ کیڑے پلتے ہیں ۔ کیڑوں اور درختوں کو جو بیماریاں لاحق ہوتی ہیں ان کے دفیعے کے لیے بھی تجربات چلتے رہتے ہیں ۔ اس طرح لاکھ کی پیداوار میں اضافے کے لیے سازگار ماحول اور حالات پیدا کیے جاتے ہیں اور یہ ساری تکنیکی معلومات اس سے جڑے افراد کودی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی کوششوں سے ہندوستان کو سر فہرست بنائے رکھنے میں اپنا اپنا کردار ادا کر سکیں ۔ ان کوششوں کے نتیجے میں دیہی اور قبائلی علاقے کے لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے اور اس طرح ان کا معیار زندگی بلند ہوا ہے۔ اسی کے ساتھ ہندوستان کی سالانہ آمدنی اور غیر ملکی سرمایہ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

            جیسا کہ عرض کیا جا چکا، لاکھ کا استعمال آزادی کے قبل چند مخصوص مقاصد کے لیے ہوتا تھا یعنی گراموفون کے ریکارڈ بنانے میں ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ریڈیو وغیرہ کی ایجادات کے بعد گراموفون کا چلن کم ہوتا چلا گیا اور ریکارڈ بنانے میں لاکھ کا بھی ۔ لیکن روز بروز نئی سائنسی تحقیقات اور ضرورتوں نے لاکھ کے استعمال کے نئے نئے گوشے تلاش کر لیے اور آج اسی لاکھ کا استعمال اتنے متنوع مقاصد کے لیے ہوتا ہے کہ مانگ اور سپلائی کے درمیان ہمیشہ ایک فاصلہ بنا رہتا ہے۔ یہ بڑا تعجب خیز امر ہے کہ لاکھ کا استعمال طبی دنیا میں بھی ہونے لگا ہے۔

            بڑے پیمانے پر بجلی روک آلات کی تیاری میں (ابرق کے باہمی عمل سے لاکھ میں بجلی کے خراب موصل کی صفت پیدا ہو جاتی ہے) مختلف قسم کے برتن (اینیمل ویئر) بنانے میں اسی طرح مختلف قسم کی وارنش ، ٹشو پیپر ، موم ، ویکس کریانس (مومی پنسلوں ) سینٹر پیپر ، چھاپے خانے کی سیاہی ، جوتا پالش ، دھاتی سامان ، اور لکڑی کے فرنیچر کی ملمع کاری ، اشیا کو سیل بند ( ہوا بند) کرنے ، آئینوں کو مجلّیٰ کرنے وغیرہ میں لاکھ کا بکثرت استعمال ہوتا ہے۔ مختلف اشیا کو موڑنے کے لیے کارآمد گوند بنانے میں جیسے جوتوں کے تلوؤں کی جڑائی ، دھاتی برتن اور ہاتھی دانت کی نبی اشیا کی سجاوٹ کے لیے بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔ حسن و زیبائش کی اشیا جیسے کاجل، آئی لائیز، نیل پالش، اسپرے کی تیاری میں نیز سیب، لیموں سنترے وغیرہ پر پتلی لاکھی تہہ چڑھا کر اس کے تحفظ میں بھی ہوتا ہے۔ نیز چیونگ گم، چاکلیٹ وغیرہ کو لپیٹنے والے کاغذ کی تیاری میں بھی لاکھ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ چپڑے میں پایے جانے والے الیوری ٹک ترشوں سے خوشبودار اشیا تیار کی جاتی ہیں ۔مختلف تعمل کی مدد سے لاکھ سے رنگ کوسہ، اون، ریشم اور مختلف کپڑوں کی رنگائی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ یہی رنگ مختلف صنعتوں اور ادویہ میں بھی استعمال ہوتے ہیں ۔ جیم، ساس، مختلف مشروبات وغیرہ کو رنگین بنانے میں لاکھ سے ملنے والے رنگوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ گولیوں اور کیپسول کے خول کی تیاری میں مخصوص قسم کے لاکھ کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔ لاکھ سے بنے تیل بعض امراض میں شفا بخش ثابت ہوئے ہیں ۔ غرضیکہ لاکھ انسانی زندگی میں بڑی حد تک دخیل ہے۔ صحیح معنوں میں لاکھ قدرت کا ایک ایسا تحفہ ہے جو اپنے اندر لاکھ گن رکھتا ہے۔

٭٭٭

 

کمپیوٹر کا شہنشاہ: بل گیٹس

            بل گیٹس کے نام سے کون پڑھا لکھا شخص واقف نہیں ؟ خاص طور پر کمپیوٹر کے میدان سے جڑے افراد کے لیے تو یہ نام جانا پہچانا ہے۔

            بل گیٹس کا پورا نام ولیم ہنری گیٹس ہے۔ ان کی پیدائش ۲۸ اکتوبر ۵۵ء میں واشنگٹن کے ایک مضافاتی علاقے نیسٹل میں ایک معمول خاندان میں ہوئی۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ پالنے میں ہی بچے کے پیر پہچانے جاتے ہیں ۔ یعنی اس کی صلاحیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ ولیم ہنری کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اسے بچپن سے ہی کمپیوٹر چلانے اور اس کی معلومات حاصل کرنے کا شوق تھا۔ آج کی طرح کمپیوٹر نہ اتنے ترقی یافتہ تھے اور نہ ہی کمپیوٹروں کی دنیا، محض ۱۳ برس کی عمر میں وہ پروگرامینگ کا ہنر سیکھ چکا تھا۔ اتفاق سے دوستی بھی ایک ایسے لڑکے سے تھی جو خود بھی کمپیوٹروں کا دیوانہ تھا۔ اس دوست کا نام پال ایلن تھا۔ یہ دونوں دوست ہاروڈ یونی ورسٹی میں زیرِ تعلیم تھے مگر کمپیوٹروں کے شوق نے پڑھائی کی بیچ میں سے ہی چھوڑنے پر مجبور کیا اور آخر کار یہ دونوں دوست کالج کو خیر باد کہہ کر ہمہ وقت کمپیوٹروں کی دنیا میں کھو گئے۔ ان کا خاص پروجیکٹ کمپیوٹر کی ایک خاص زبان کو ترتیب دینا تھا جس سے کمپیوٹر کو چلانے میں آسانی ہو۔ ان کی محنت رنگ لائی اور انھوں نے ایک خاص ’’بیسک لنگویج‘‘ مرتب کر لی جس نے کمپیوٹروں کو عام کرنے میں اہم رول ادا کیا۔

            اس اہم کارنامے کے بعد پال ایلن اور ویلم ہنری (بل گیٹس) البو قرق (نیو میکسکو) چلے گئے۔ یہاں انھوں نے ’’مائکروسافٹ کارپوریشن‘‘ کی نیو ڈالی ۔ اس کے تحت وہ کمپیوٹر کے مختلف سافٹ ویئر تیار کرنا چاہتے تھے جس کی ساری دنیا میں بڑی مانگ تھی کیونکہ پرسنل کمپیوٹر کا استعمال دنیا میں تیزی سے بڑھتا چلا جا  رہا تھا۔ ہارڈ ویئر تو مارکیٹ میں بہت دستیاب تھے مگر سافٹ ویئر کی بڑی کمی تھی۔ اس کی زبردست مانگ کے پیش نظر دونوں دوستوں نے اس میدان میں خوب ترقی کی اور آخرکار انھیں ایک ایسا سافٹ ویئر بنانے میں کامیابی ملی جس کو ساری دنیا میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔

            اس کامیابی سے متاثر ہو کر دنیا کی مشہور کمپنی انٹرنیشنل بزنس مکینکس (آئی۔ بی۔ ایم)نے انھیں ایک مائیکرو سافٹ آپریٹنگ سسٹم بنانے کے لیے مدعو کیا جس کو پرسنل کمپیوٹر میں استعمال کیا جا سکے۔ یہاں بل گیٹس کی ذہانت، لگن اور محنت نے اپنا کرشمہ کر دکھایا اور انھوں نے اس مقصد کو حاصل کرنے میں اولیت حاصل کر لی۔ اس آپریٹنگ سسٹم کو انھوں نے نے مائکرو سافٹ۔ ڈسک آپریٹنگ سسٹم (ایم۔ ایس۔ ڈوسMS-DOS) کا نام دیا اور نتیجے میں آئی بی ایم کمپنی نے لاکھوں کمپیوٹر فروخت کر کے بے تحاشہ منافع حاصل کیا جس سے بل گیٹس اور ان کے دوست بھی مستفیض ہوئے۔ چند وجوہات کی بنا پر پال ایلن علیحدہ ہو گیا اور بل گیٹس نے اس سمت میں اپنا سفر تنہائی جاری رکھا۔ انھوں نے بہت جلد بزنس کی دنیا میں استعمال ہونے والے اور تفریحی سافٹ وئیر تیار کر کے آئی بی ایم کمپنی کے علاوہ دنیا کی مختلف کمپیوٹر کمپنیوں کو بیچا جس سے ان کی آمدنی میں حیران کن اضافہ ہو گیا۔

            ۱۹۸۴ء میں ان کی اپنی کمپنی ، مائکروسافٹ کا ۱۰ کروڑ ڈالر کا بزنس محض دو برسوں میں دگنا ہو گیا۔ اس کمپنی کے حصص(شیئر) بھی اسٹاک ایکس چینج سے فروخت ہونے لگے۔ اس کے بعد تو گویا آسمان سے ہوں برسنے لگا۔ ۱۹۹۴ء میں بزنس کا نشانہ ۲ بلین ڈالر پر پہنچ گیا جو محض ایک سال بعد ۱۰ بلین ڈالر ہو گیا۔ دنیا نے اس سے قبل آمدنی میں اضافہ کی یہ رفتار کبھی نہیں دیکھی تھی۔ حتیٰ کہ تیل سے ملنے والی آمدنی کے شیوخ بھی پیچھے رہ گئے۔ بل گیٹس نے دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں اول مقام حاصل کر لیا۔ یہ اس لیے ممکن ہوا کہ بل گیٹس نے ہوا کے رخ کو پہچان لیا تھا۔ خود ہمارے ملک کے عظیم پر یم جی (ویپرو) اور این ۔ رامامورتی (انفوسس) کے نام بھی اسی فہرست میں نظر آتے ہیں مگر کافی نیچے۔

            ان لوگوں میں بالخصوص بل گیٹس کو یہ عظیم کامیابی محض ان کی ان تھک محنت ، کوشش لگن، سوجھ بوجھ اور اپنے کام سے بے پناہ لگاؤ کے نتیجے میں حاصل ہوئی۔ اس سے ہمارے نوجوانوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔ ان کی مثالیں اگر ہمارے سامنے ہوں تو یقیناً ہم بھی ایسے کارنامے انجام دے سکتے ہیں ۔ بل گیٹس نے اپنی بے پناہ دولت کا ایک حصّہ سماجی کاموں کے لیے بھی مختص کیا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں اپنے ہندوستان کے دور ے کے موقع پر انھوں نے ایڈز کی تحقیقات اور علاج کے لیے لاکھوں ڈالر دئیے ہیں ۔ عظیم پریم جی کی زندگی کی داستان بھی کچھ کم دلچسپ نہیں مگر اس کا تذکرہ کسی اور موقع پر۔ فورڈ موٹر کے مالک فورڈ، بل گیٹس، عظیم پریم جی اور ایسے نہ جانے کتنے افراد ہیں جنھوں نے ایک معمولی حیثیت سے ترقی کر کے دنیا میں اپنا ایک مقام بنایا۔ ہمیں ان سے واقفیت اور حوصلہ لینے کی ضرورت ہے۔

٭٭٭

 

e ۔ نظام تعلیم

            آج ہم اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں ۔ زندگی کے ہر میدان میں جدید علوم، سائنس و ٹکنالوجی بالخصوص اطلاعاتی و مواصلاتی ٹکنالوجی  (ICT)  Information & Communication Technology  نے اپنے تانے بانے پھیلا کر عملاً زندگی کے ہر شعبہ کو اپنے جال میں محصور کر لیا ہے۔ درس و تدریس جیسا اہم میدان بھلا کس طرح اس سے اچھوتا رہ جاتا!! آیندہ  ۱۵۔۲۰  برسوں میں اس سے جڑے سبھی پہلو یعنی طلبہ، اساتذہ، تعلیمی ادارے، طریقۂ  امتحانات اور تعلیمی و سائل و طریقے کس طرح متاثر ہوں گے اس کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے معزز صدر (جمہوریہ ہند) کی شدید خواہش ہے کہ ۲۰۱۵ء تک ہندوستان کا شمار صف اوّل کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہو جائے۔ ظاہر ہے اس کی منصوبہ بندی ابھی سے شروع کرنی ہو گی۔ مختلف سرکاری دفتروں کی سطح پر الکڑانک انتظامیہ (-eگورننس)، -e کامرس، -e بینکنگ نیز آواز(وائس) اور معلومات (ڈاٹا) کے محفوظ (اسٹوریج) کی صلاحیت میں اضافہ کی کوششیں اسی ضمن میں اٹھائے جانے والے اقدام ہیں ۔ اطلاعاتی ٹکنالوجی کی برق رفتار ترقی کے پیش نظر تعلیمی نظام کو اسی تناظر میں دیکھنا ہو گا۔ اگر اس پر عمل درآمد ہوتا ہے تو ہندوستان معاشی، اقتصادی، صنعتی، تکنکی ، سائنسی اور پھر سیاسی اعتبار سے ایک عظیم طاقت بن کر ابھر سکے گا تب یہ خواب شرمندۂ  تعبیر ہو سکے گا۔

            کسی بھی ملک کی خوشحالی اور ترقی وہاں پر مروجہ نظام تعلیم پر منحصر ہوتی ہے۔ اسے بنیادی طور پر ملکی ضرورتوں کو پورا کرنے کے علاوہ عالمی سطح پر مسابقتی طور پر صلاحیت افراد پیدا کرنے والا ہونا چاہیے۔ عہد جدید میں اطلاعاتی و مواصلاتی ٹکنالوجی کی معلومات نیز کمپیوٹر شناسی ناگزیر ہو کر رہ گئی ہے۔ فی زمانہ خواندگی کا مفہوم بھی بدل گیا ہے۔ اب دنیا میں دو ہی قسم کے لوگ ملیں گے۔ خواندہ، جو کہ کمپیوٹر کی معلومات رکھتے ہوں اور دوسرے جو اس سے نابلد ہوں ۔ کمپیوٹر دھیرے دھیرے ہماری ضرورت نہیں بلکہ مجبوری بن جائیں گے اور یہ ہماری زندگی میں کچھ اس طرح دخیل ہو جائیں گے کہ ان کے بغیر ایک اچھی زندگی کا تصور محال ہو جائے گا۔ ہر گھر، دفتر اور کام کی جگہ پر اس کی حاکمیت قائم ہو جائے گی۔سحر خیزی کی اطلاع کے ساتھ ہی کمپیوٹر سے ہمارا تعلق شروع ہو جائیگا۔ یہ آپ کو’’ گڈ مارننگ‘‘ کہہ کر ایک بہتر دن کی خواہشات پیش کرے گا۔ کمپیوٹر پورے دن کی مصروفیات کا خاکہ تیار کر کے ضرورت کے اعتبار سے کسی مخصوص کام کی یاد دہانی کروائے گا اور آپ کے کاموں کی منصوبہ بندی بھی کریگا۔ کمپیوٹر کی کام کرنے کی صلاحیت اور رفتار دونوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ انھیں ساتھ لے کر چلنا بھی ممکن ہو سکے گا۔ آپ دفتر سے روانہ ہونے کے قبل ہی کمپیوٹر کے ذریعے گھر کے فریج، اے سی، وغیرہ کو احکام دے سکیں گے تاکہ آپ کے پہنچتے پہنچتے یہ سارے کام انجام دئیے جا چکے ہوں ۔ اسی طرح گھر سے روانہ ہوتے وقت آپ کا کمپیوٹر آپ کے دفتر/کارخانے میں ہدایات جاری کر چکا ہو گا تاکہ وہاں بھی انتظار کی زحمت سے بچ پائیں ۔

            کمپیوٹر اور اطلاعاتی ٹکنالوجی نے درس و تدریس اور تحقیق کے میدان میں ایک اہم حیثیت حاصل کر لی ہے۔ صرف کمپیوٹر ہی کیوں ، پرسنل ڈیجیٹل اسٹنٹ (پی۔ڈی۔اے) کمپیوٹر نوٹ بک، وائس ریکگ نیشن سسٹم (وی۔آر۔ایس) وغیرہ نے اپنی اہمیت منوا لی ہے نیز آنے والے دنوں میں ان کی کارکردگی میں اور اضافہ ہو گا۔ انٹرنیٹ کے نیٹ (یعنی جال) میں تقریباً ہر کمپیوٹر داں پوری طرح اسیر ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ وہ

؎  ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

ادھر کمپیوٹروں اور متعلقہ سامان کی قیمتوں میں گراوٹ کے نتیجے میں ان تک عام آدمی کی بھی رسائی ہو چکی ہے۔ اُدھر نت نئے سافٹ وئیر کے مارکیٹ میں آ جانے سے اور دنیا کے کسی بھی موضوع پر کئی کئی ویب سائٹ کے کھل جانے سے انٹرنیٹ سے ہر طرح کی معلومات کا حصول بہت آسان اور سستا ہو گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں درس و تدریس میں ان کا استعمال اور بڑھے گا۔ طلبہ کتابوں ، کلاس روم، لکچر اور ٹیچرز پر تکیہ نہ کرتے ہوئے اپنے اسباق خود تیار کریں گے۔ اسکول میں جا کر کلاسیس اٹینڈ کرنے کی پابندی نہیں ہو گی۔ گھر بیٹھے اپنے من پسند موضوع اور مضمون سے خود کو جوڑ سکیں گے۔ اس خاص موضوع کے دنیا کے مانے ہوئے ماہرین کے تجربات ، خیالات ، لکچر اور عملی تجربات (جیسے آپریشن، ڈی مانسٹریشن ) وغیرہ سے وہ مستفیض ہو سکیں گے۔ لائیو چلنے والے ان پروگراموں کو اپنے ’’ایکٹیو ڈیسک ٹاپ‘‘ پر منتقل کرنے کے نتیجے میں ان کو پل پل کی جانکاری اور رونما ہونے والی تبدیلی سے واقفیت ہوتی رہے گی۔ ویڈیو کا نفرنسنگ کی موجودگی ان کے لیے بڑی مفید اور کارگر ثابت ہو سکے گی کیونکہ وہ دور دراز چلنے والی کسی بھی میٹنگ /کانفرنس میں بہ نفس نفیس حاضر نہ ہوتے ہوئے بھی شریک ہو پائیں گے اس طرح کافی پیسوں ، وقت اور محنت کی بچت ہو گی۔ انھیں ’’آن لائن‘‘ ہی مشورے مل سکیں گے اور شکوک کا ازالہ ممکن ہو سکے گا۔ اس طرح ’’چیٹ باکس‘‘ کا استعمال خوب رواج پائے گا۔ وائس ریکگنشن سسٹم کی بدولت کمپیوٹر پر کام کرنا نسبتاً آسان ہو جائے گا کہ ’’کی بورڈ‘ ‘اور ’’معلومات فراہم‘‘ (فیڈ) کرنے کے دردِ سر سے نجات ملے گی۔ اس کی مدد سے غیر ملکی زبانوں کو سیکھنا آسان ہو جائیگا نیز کسی بھی غیر ملکی زبان میں چلنے والے پروگرام کو اپنی زبان میں منتقل کرنے اور اس کو براہ راست ترجمہ کے بعد سمجھ لینے میں کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔

            دنیا کی معروف لائبریریوں میں جن نادر اور نایاب کتابوں کا ذخیرہ ہے اس تک پہنچ پانا ایک عام طالب علم کے لیے کسی خواب سے کم نہیں مگر ای۔ٹیکسٹ کی بدولت ان تحریروں کو وہ اپنے پردوں پر دیکھ سکیں گے بلکہ انھیں مندرج (ڈاؤن لوڈ) بھی کر سکیں گے۔ اس طرح ساری دنیا کی ’’ورچوئیل لائبریریوں ‘‘ کا وجود علم کے متوالوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہ ہو گا اور اس طرح ان کی علمی پیاس کے بجھانے کا سامان مہیا ہو جائے گا۔ ترقی یافتہ ٹی۔وی یعنی پی۔سی۔ٹی۔وی کی بدولت مطلوبہ تصویر یا ٹیکسٹ کو ’’فریز‘‘ کر کے ان کے تصاویر حاصل کر لینا ممکن ہو سکے گا۔ حال ہی میں ہندوستان نے ایک خصوصی مصنوعی سیارہ Edusat   چھوڑ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ تعلیم کے میدان میں ان تمام چیلنج کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ آنے والے چند برسوں میں اس میں اور اضافہ متوقع ہے۔

            ان تبدیلیوں اور اصلاحات کے نتیجے میں اسکول /کالجوں بورڈ، یونی ورسٹیز وغیرہ کے انتظام و انصرام اور اساتذہ و ملازمین کی تنخواہوں پر ہونے والے خرچ میں کافی تخفیف کی جا سکے گی۔ امتحانات کا نظام بھی یکسر بدل جائے گا۔ امیدواروں کو امتحان گاہ تک پہنچنے کی اتنی فکر نہیں کرنی ہو گی۔ ’’آن لائن‘‘ امتحان بہت سی بے ایمانیوں اور بدعنوانیوں کا خود بخود خاتمہ کر دیں گے۔کسی بھی ’’صحیح‘‘ (جینوین ) امیدوار کو اپنا ’’پاس ورڈ‘‘ (پہچان) بتلانے پر ہی پرچے کا دیدار ہو گا اور مخصوص کوڈ نمبر کے اندراج کے بعد ہی کمپیوٹر جوابات لینا شروع کریگا ورنہ نہیں ۔ وقت پورا ہونے پر کمپیوٹر خود بخود بند ہو جائے گا۔ ممتحن حضرات کو اس ’’ای۔انوی جیلیشن‘‘ کے نتیجے میں بہت سی پریشانیوں سے نجات مل جائے گی۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ کامیابی اور ناکامی کی امید و بیم کی کیفیت میں پھنسے طلبہ اور ان سے بڑھ کر ان کے والدین کو انتظار کے عذاب سے نہیں گزرنا ہو گا۔ نہ ان کا دورانِ خون بڑھے گا اور نہ ہی وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہونگے۔ نتیجے کے لیے مہینوں انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ کمپیوٹر ٹیبل سے اٹھنے سے قبل ہی نتیجے کا علم ہو جائے گا۔ غرض کہ تعلیم کا نظام روایتی انداز سے ہٹ کر ہو گا جو کہ طلبہ کے لیے بوریت اور ذہنی بوجھ کا سبب نہ بنتے ہوئے ’’آنند دائی‘‘ ہو جائے گا۔ طلبہ پورے مرحلے کے دوران لطف اندوز ہونگے اور ہر سرگرمی کو شوق   اور دلچسپی کے ساتھ انجام دیں گے۔ گویا علم کے حصول کے ساتھ ساتھ یہ لطف اندوزی اور تقریح کا بھی سبب بنے گا اس لیے بعض ماہرین اسے Edutainment  کے نام سے بھی موسوم کر رہے ہیں ۔

            یہ تغیر اپنے ساتھ بہت سے مسائل بھی لائے گا۔ ماہرین اس پہلو کی طرف سے غافل نہیں ہیں ۔ جیسے تعلیم کا مرحلہ بند کمروں اور کمپو لیب میں چلے گا جہاں جسمانی محنت، کھیل کود، ورزش وغیرہ کی گنجائش بہت کم ہو گی۔ اسکے منفی اثرات نئی نسل کی جسمانی حالت اور صحت و تندرستی پر پڑیں گے۔ ایسے طلبہ ہم جماعت اور ہم عمر ساتھیوں کی صحبت سے بھی محروم رہیں گے جس سے سماجی زندگی کی عملی تربیت بھی نہیں ہو پائے گی نیز اخلاقیات اور جذباتی بالیدگی میں بھی کمی رہ جائے گی۔ان کی زباندانی خصوصاً اپنے خیالات کو جامع اور مبسوط انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت بھی مفقود ہو جائیگی۔ انٹرنیٹ اور سی۔ڈی کے ذریعے بے حیائی اور عریانی و فحاشی کے بازار میں اور گرمی پیدا ہو جائے گی گویا ایسے طلبہ کی شخصیت کی ہمہ گر ترقی نہیں ہو سکے گی۔ ان اصلاحات سے جڑے ہمہ اقسام کے جرائم (سائبر کرائم) میں بھی اضافے کے خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں ۔ لہٰذا ان سبھی امور کو ذہن میں رکھتے ہوئے ای۔ تعلیم اور ای۔اسکول کی طرف متوجہ ہوں تو ہم ان جدید نعمتوں سے صحیح معنوں میں بہرہ ور ہو سکیں گے۔

٭٭٭

 

زراعت میں ڈرپ سسٹم کی اہمیت

            ہمارا ملک بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ مخصوص آب و ہوا خصوصاً مانسونی خطہ ہونے کی بنا پر ملک کی آبادی کا قابل لحاظ زراعت کے پیشے سے جڑا ہوا ہے۔ اس ملک میں زراعتی پیشے کے قدیم آثار تاریخ کے اوراق میں تلاش کیے جا سکتے ہیں ۔ ہڑپا اور مہنجد اڑو کی تہذیب نے اس کے واضح ثبوت فراہم کر دئیے ہیں ۔ ہندوستان ایک بڑا ملک ہے۔ مذاہب ، تہذیب ، زبانوں وغیرہ کے اعتبار سے ہی نہیں آب و ہوا کے اعتبار سے بھی۔ اس کی آب و ہوا اور موسموں میں بڑا تضاد ہے۔ اگر ایک طرف ہر سال طغیانی سے بے پناہ نقصان ہوتا ہے تو دوسری جانب پانی کی قلت اور قحط سالی سے ہزاروں جانیں جاتی ہیں ۔ گو کہ ہندوستانی کاشتکار جدید ترقی و روز نئی ایجادات سے بے بہرہ تو نہیں رہے مگر دیگر ملکوں کے کسانوں کے مقابلے میں وہ کم ہی فائدہ حاصل کر سکے اور ہندوستانی کسانوں کی بڑی اکثریت آج بھی کاشتکاری کے روایتی طریقوں اور قدرتی (بارش کے)پانی پر انحصار کرتی ہے۔ یہاں کا کسان بنیادی طور پر کسی بھی بڑی تبدیلی کو قبول کرنے میں خاص ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے جس کا ثبوت موجودہ زمانہ ’’ڈنکل کی تجاویز‘‘ پر چھڑی بحث ہے۔ اتنی دُشواریوں کے باوجود ہندوستان نے ’’سبز انقلاب‘‘ اور ’’آپریشن فیلڈ‘‘ کے ذریعے زرعی پیداوار اور دودھ کی پیداوار میں ترقی کے جو مراحل طے کیے ہیں وہ قابل تعریف ہیں ۔ مختلف جانوروں ، پودوں ، آرائشی پودوں وغیرہ کی مخلوط نسلوں کی تیاری کے سلسلے میں سائنسی و جینٹیک انجینئرنگ کی جو مدد لی جا رہی ہے اس سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ اب عام کسانوں کے ذہنوں سے بھی جدید تحقیقات و انکشافات کی ہواؤں کا گزر ہونے لگا ہے اور اب انھیں جدید نظریات و ایجادات کو قبول کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہو گا۔ اسی طریقے کا ایک قدم آب رسانی کے جدید ترین طریقے ڈرپ سسٹم کی سمت میں اٹھایا گیا ہے۔

            آب پاشی کا یہ طریقہ حال ہی کی دریافت ہے اور اس کی ابتدا و ارتقا کا سہرا اسرئیل کے سر ہے جہاں اس طریقہ نے اس ملک کی زرعی ہی نہیں معاشی حالت کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ ہندوستان جیسے ملک میں خصوصاً راجستھان ، پنجاب وغیرہ کے کم پانی والے بعض علاقوں کے لیے یہ ایک مثالی طریقہ ثابت ہو سکتا ہے جس سے ملک ، اناج کی ہر قسم کی خود کفالت کے نشانے کو پورا کر سکتا ہے۔ ڈرپ سسٹم نے امریکہ اور آسٹریلیا میں بھی بڑی مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ ہندوستان میں بھی اس سمت میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔

            پانی کے قطرے قطرے رساؤ سے کی جانے والی آب پاشی کا مذکورہ طریقہ دنیا میں سب سے زیادہ امریکہ میں رائج ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق ۱۹۸۸ء میں دنیا میں ۱۰۵۵۰۰  ہیکٹر زمین اس قسم کی آب پاشی کے تحت سینچی جا رہی تھی۔ ہندوستان میں گو کہ اس طریقے کا استعمال ۷۰ کی دہائی میں کیا گیا مگر ۸۰ کے دوران ہی اس میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ ۱۹۸۵ء میں ۱۵۰۰  ہیکٹر سے ۱۹۸۸ء میں ۶۰۰۰ ہیکٹر زمین کو سینچا جانے لگا نیز ۱۹۹۱ء میں یہ رقبہ بڑھ کر ۲۴۵۰۰ ہیکٹر ہو گیا جس سے اس کی مقبولیت کا پتہ چلتا ہے۔ یہ ساری تبدیلیاں مہاراشٹر ، تامل ناڈو اور کرناٹک کے ان علاقوں میں ہوئی ہیں جو پانی کی شدید قلت سے دو چار ہیں اور یہاں کی ناریل ، گنے، انگور ، کیلے وغیرہ کی فصلوں کو ان سے فائدہ پہنچا ہے۔ خصوصاً باغاتی اور نقد فصلوں کے لیے یہ بڑا سود مند ثابت ہوا ہے۔ اس کے علاوہ آم، لیمو، پپیتا، ٹماٹر، سیب، ککڑی، آلو، مٹر، اسپیرے گیس، مولی، کپاس وغیرہ پر اس کے حیرت انگیز اثرات نوٹ کیے گئے ہیں ۔ زراعت میں پانی کی اہمیت کو بھلا کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ مناسب مقدار میں بہم پہنچانا اچھی پیداوار کا ذمہ دار ہے۔ نہ صرف اس سے پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ ایک سال کی مدت میں تین مختلف فصلیں بھی حاصل کی جا سکتی ہیں ۔

            آج دنیا کے سبھی ممالک خصوصاً ترقی یافتی و ترقی پذیر ممالک پانی کی اہمیت کو سمجھنے لگے ہیں ۔ اس کی روز افزوں گھٹتی ہوئی مقدار نے دنیا کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اسی تشویش نے پانی کو بھی دیگر قدرتی وسائل کی فہرست میں شامل کرنے پر مجبور کیا ہے تاکہ اس کا استعمال کفایت شعاری سے کیا جا سکے۔ ہم نے قدرتی توازن کو بگاڑ کر ایک ایسا مصنوعی ماحول پیدا کر دیا ہے جس کا براہِ راست اثر موسموں کی آمد و ترتیب اور انسانی زندگی کے ہر شعبہ پر پڑا ہے۔ خود ہمارے ملک میں زیرِ زمین پانی کی سطح کافی حد تک نیچے جاچکی ہے اور بیشتر ملک بھی اسی صورتِ حال سے دو چار ہیں ۔ اس خطرناک صورتِ حال نے ساری دنیا میں ماحولیات سے متعلق انسان کو ٹھوس عملی قدم اٹھانے پر مجبور کیا ہے۔ چنانچہ پانی کی اسی قلت نے اسی جدید آب پاشی کے طریقہ کی اہمیت کو حد درجہ بڑھا دیا ہے۔ ہندوستان میں اناج کی پیداوار کو دوگنا اور سہ گنا کرنا کچھ ایسا مشکل نہیں ۔ مہاراشٹر میں خصوصاً اس نوعیت کے کئی کامیاب تجربے کیے جا چکے ہیں اور اس ریاست میں ایک نئی صنعت تیزی سے وجود میں آ رہی ہے بلکہ اس کے ساز و سامان کی ایک ایسی کمپنی کے حصص(سینٹر) تو بازار میں فروخت کیے جا چکے ہیں اور شیئر بازار میں یہ کمپنی لسٹ پر بھی آ چکی ہے۔

            آیئے اب یہ دیکھتے چلیں کہ ڈرپ سسٹم کا آب پاشی (سنچائی) کا طریقہ کس طرح کام کرتا ہے۔ اس طریقے میں آب رسانی میں ایک ایک پودے تک پانی قطرہ بہ قطرہ بڑی کفایت شعاری سے یا تو براہ راست جڑوں تک یا اوپر سے ٹپکایا جاتا ہے جس سے پانی ضائع نہیں ہونے پاتا۔ یہ بچا ہوا پانی مزید پودوں کی پیاس بجھانے کے کام آتا ہے۔ اس پانی کو مریض کو گلوکوز دی جانے والی نلی کی طرح قطرہ بہ قطرہ یا فوارہ کی شکل میں یا نبض نما طریقہ (پلس سسٹم) کے ذریعے ہر پودے تک پہنچایا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے پورے کھیت میں پلاسٹک کے پائپ کا ایک جال س ابچھا دیا جاتا ہے جو پودے کا گھراؤ کرتا ہے۔ایک خاص پائپ ہوتا ہے جس سے نامیاتی کھاد اور پانی کے ٹینک اور دباؤ بر قرار رکھنے والے ریگولیٹر لگے ہوتے ہیں ۔ سارے قطعہ اراضی میں چھوٹے چھوٹے پائپ میں اہم پوائنٹس پر والو لگے ہوتے ہیں جو دباؤ کو بر قرار رکھتے ہیں ۔ ہر ثانوی پائپ کے انتہائی سرے پر انجکشن کی طرح کی نلی مع تنگ منہ کی نلی (نوزل) کے نصب ہوتی ہے جو پانی کو بوند کی شکل میں گراتی رہتی ہے۔ ان آلات کو بچھانے، چلانے اور انتظام کے لیے فنی مہارت اور کافی خرچ کی ضرورت ہوتی ہے۔

فوائد

۱۔         پانی کا استعمال بے حد کفایت شعاری سے کیا جاتا ہے یعنی بہت کم پانی سے زیادہ سے زیادہ پودوں کی پیاس بجھائی جا سکتی ہے۔

۲۔        پانی کی بڑی مقدار ضائع ہونے سے بچ جاتی ہے جو مزید پودوں کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔

۳۔        غیر ضروری گھاس اور خود رد پودوں کو پانی ملنے نہیں پاتا جس سے آگے چل کر ان کو اکھاڑنے کا مزدوروں کا خرچ بچ جاتا ہے۔

۴۔        خاص پودے تک پانی پہنچنے کے باعث پیداوار میں حیرت انگیز تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے۔

۵۔        حاصل ہونے والی فصل عمدہ قسم کی ہوتی ہے۔

۶۔        بارش پر انحصار ختم ہو جاتا ہے جس سے پیداوار کی کامیابی یقینی ہو جاتی ہے۔

۷۔        دیگر طریقہ کے مقابلہ میں اس طریقہ سے پانی پہنچانے کی صورت میں زمین کی نمی میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کا فائدہ مستقل طور پر پودے کو پہنچتا رہتا ہے۔

۸۔        کھادوں سے بھر پور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ خود رو پودوں تک اس کی کوئی مقدار کو پہنچنے نہیں دیا جاتا۔

۹۔        فصلوں کے تیار ہونے اور پکنے کے عرصہ کو کم کر دیا جاتا ہے اور کسان کو اس کی محنت کا صلہ جلدی مل جاتا ہے۔

۱۰۔       فصل، غیر ضروری گھاس اور طفیلی پودوں سے محفوظ رہتی ہے۔

۱۱۔        زمین کی جھیج میں کم واقع ہو جاتی ہے جس سے کھیت کو فائدہ پہنچتا ہے۔ نتیجتاً پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔

۱۲۔       ایسی زمین جس میں پانی جذب کرنے اور اسے روکے رکھنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے اس میں بھی پیداوار بڑھ جاتی ہے۔

۱۳۔       آب پاشی کا یہ طریقہ ’’گرین ہاؤس‘‘ کے لیے بہت مناسب ہے۔

۱۴۔       ضرورت کے مطابق پانی کم یا زیادہ کیا جا سکتا ہے ۔ گویا اس کا کنٹرول ہمارے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔

در پیش مشکلیں

            ان سب فوائد کے ساتھ ساتھ ڈرپ سسٹم کے ذریعے کی جانے والی آب پاشی کی کچھ خامیاں پابندیاں اور حدود بھی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔         پائپوں ، چھوٹی نلیوں خصوصاً تنگ نلیوں (نوزل) کے بند (بلاک) ہو جانے کا خطرہ ہمیشہ بنا رہتا ہے اور وقتاً فوقتاً اس کی صفائی ضروری ہے جس سے خرچ میں اضافہ لازمی ہے۔

۲۔        شروع میں خرچ بہت زیادہ آتا ہے۔

۳۔        اس کی دیکھ ریکھ اور فاضل پرزوں کی خرید بھی کافی مہنگی پڑتی ہے۔

۴۔        روزمرہ کام کاج میں احتیاط لازمی ہے۔ تکنیکی معلومات ہونی ضروری ہے ورنہ خاطر خواہ فائدہ حاصل نہ ہو سکے گا۔

۵۔        ایک معمولی حیثیت کے کاشتکار کی رسائی ممکن نہیں کیونکہ اس طریقے کی تیاری میں خاصا سرمایہ درکار ہوتا ہے۔

            ان ساری پابندیوں اور دقتوں کے باوجود ڈرپ سسٹم سے ایریگیشن کا طریقہ بے حد سود مند ثابت ہوتا ہے اور اسے ہندوستان جیسے ملک میں پھیلانا چاہیے تاکہ قدرتی پانی پر انحصار ختم ہو سکے اور فصل کی کامیابی کی بے یقینی کے بدلے ایک اچھی فصل حاصل کی جا سکے۔ زراعت کے میدان میں ترقی سے ہی ملک کی مسلسل ترقی اور خوش حالی جڑی ہوئی ہے جس کا سلسلہ ڈرپ سسٹم سے جا ملتا ہے۔

٭٭٭

تشکر: محمد اسدا اللہ جن کے توسط سے ان پیج فائل کا حصول ممکن ہوا

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید