فہرست مضامین
- انتخاب کلام ظہیرؔ دہلوی
- جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
- ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ
- ابھی سے آ گئیں نام خدا ہیں شوخیاں کیا کیا
- بزم دشمن میں جا کے دیکھ لیا
- حسینوں میں رتبہ دوبالا ہے تیرا
- خط اس کو لکھا ہوتا مانا کہ خفا ہوتا
- دل گیا دل کا نشاں باقی رہا
- رقیبوں کو ہم راہ لانا نہ چھوڑا
- رنگ جمنے نہ دیا بات کو چلنے نہ دیا
- رہتا تو ہے اس بزم میں چرچا مرے دل کا
- سخت دشوار ہے پہلو میں بچانا دل کا
- غوغائے پند گو نہ رہا نوحہ گر رہا
- کچھ شکوے گلے ہوتے کچھ طیش سوا ہوتا
- گل افشانی کے دم بھرتی ہے چشم خوں فشاں کیا کیا
- نصیحت گرو دل لگایا تو ہوتا
- ہاتھ سے ہیہات کیا جاتا رہا
- بگڑ کر عدو سے دکھاتے ہیں آپ
- حریف راز ہیں اے بے خبر در و دیوار
- ملنے کا نہیں رزق مقدر سے سوا اور
- دے حشر کے وعدے پہ اسے کون بھلا قرض
- گل ہوا یہ کس کی ہستی کا چراغ
- کفر میں بھی ہم رہے قسمت سے ایماں کی طرف
- بھول کر ہرگز نہ لیتے ہم زباں سے نام عشق
- فتنہ گر شوخی حیا کب تک
- عشق اور عشق شعلہ ور کی آگ
- ہائے اس شوخ کا انداز سے آنا شب وصل
- جاتے ہو تم جو روٹھ کے جاتے ہیں جی سے ہم
- گیسو سے عنبری ہے صبا اور صبا سے ہم
- پان بن بن کے مری جان کہاں جاتے ہیں
- پھٹا پڑتا ہے جوبن اور جوش نوجوانی ہے
- تلافی وفا کی جفا چاہتا ہوں
- تلخ شکوے لب شیریں سے مزا دیتے ہیں
- دل کو آزار لگا وہ کہ چھپا بھی نہ سکوں
- دل کو دار السرور کہتے ہیں
- ساقیا مر کے اٹھیں گے ترے مے خانے سے
- مرادیں کوئی پاتا ہے کسی کی جان جاتی ہے
- نو گرفتار قفس ہوں مجھے کچھ یاد نہیں
- ہم نشیں ان کے طرف دار بنے بیٹھے ہیں
- وہ کس پیار سے کوسنے دے رہے ہیں
- جہاں میں کون کہہ سکتا ہے تم کو بے وفا تم ہو
- وہ جھوٹا عشق ہے جس میں فغاں ہو
- وہ کسی سے تم کو جو ربط تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
- ان کو حال دل پر سوز سنا کر اٹھے
- اے مہرباں ہے گر یہی صورت نباہ کی
- ایسے کی محبت کو محبت نہ کہیں گے
- رنج راحت اثر نہ ہو جائے
- کچھ نہ کچھ رنج وہ دے جاتے ہیں آتے جاتے
- کیوں کسی سے وفا کرے کوئی
- ہائے کافر ترے ہم راہ عدو آتا ہے
- واں طبیعت دم تقریر بگڑ جاتی ہے
- وہ جو کچھ کچھ نگہ ملانے لگے
- وہ نیرنگ الفت کو کیا جانتا ہے
- جب آنکھیں چار ہوتی ہیں مروت آ ہی جاتی ہے
- ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ
- جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
انتخاب کلام ظہیرؔ دہلوی
جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ
ڈاؤن لوڈ کریں
ابھی سے آ گئیں نام خدا ہیں شوخیاں کیا کیا
مری تقدیر بن بن کر بدلتی ہے زباں کیا کیا
مجھے گردش میں رکھتی ہے نگاہ دلستاں کیا کیا
مری قسمت دکھاتی ہے مجھے نیرنگیاں کیا کیا
نگاہوں میں حیا ہے اور حیا میں ہے نہاں کیا کیا
طبیعت میں بسی ہیں خیر سے رنگینیاں کیا کیا
فقط اک سادگی پر شوخیوں کے ہیں گماں کیا کیا
ادائے خامشی میں بھر دیا رنگ بیاں کیا کیا
دل خوں گشتہ حسرت نے کیا کچھ گل کھلائے ہیں
بہار آگیں ہے کچھ اب کی برس فصل خزاں کیا کیا
نگاہیں بدگمانی سے کہاں جا جا کے لڑتی ہیں
مری آنکھوں میں ہیں دشمن کی بزم آرائیاں کیا کیا
تصور میں وصال یار کے سامان ہوتے ہیں
ہمیں بھی یاد ہیں حسرت کی بزم آرائیاں کیا کیا
ابھی سے بن گئی مشکل ابھی تو دور ہے منزل
مجھے رسوا کریں گی دیکھیے بیتابیاں کیا کیا
وہ جتنے دور کھنچتے ہیں تعلق اور بڑھتا ہے
نظر سے وہ جو پنہاں ہیں تو دل میں ہیں عیاں کیا کیا
٭٭٭
بزم دشمن میں جا کے دیکھ لیا
لے تجھے آزما کے دیکھ لیا
تم نے مجھ کو ستا کے دیکھ لیا
ہر طرح آزما کے دیکھ لیا
ان کے دل کی کدورتیں نہ مٹیں
اپنی ہستی مٹا کے دیکھ لیا
کچھ نہیں کچھ نہیں محبت میں
خوب جی کو جلا کے دیکھ لیا
کچھ نہیں جز غبار کین و عناد
ہم نے دل میں سما کے دیکھ لیا
نہ ملے وہ کسی طرح نہ ملے
غیر کو بھی ملا کے دیکھ لیا
کیا ملا نالہ و فغاں سے ظہیرؔ
حشر سر پر اٹھا کے دیکھ لیا
٭٭٭
حسینوں میں رتبہ دوبالا ہے تیرا
کہ بیمار الفت مسیحا ہے تیرا
تماشا ہے جو ہے تماشائے عالم
وہ اس طرح محو تماشا ہے تیرا
ستم اس پہ کیجو مری جاں سمجھ کر
نہیں دست و داماں ہمارا ہے تیرا
مگر کچھ نہ کچھ چال کرتا ہے تجھ پر
وہ دم باز یوں دم جو بھرتا ہے تیرا
٭٭٭
خط اس کو لکھا ہوتا مانا کہ خفا ہوتا
ہوتا تو یوں ہی پورا قسمت کا لکھا ہوتا
دل کی تو نکل جاتی گو حق میں برا ہوتا
کچھ تم نے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا
امید نہ بر آتی حسرت تو نہ رہ جاتی
ہوتا تو خفا ہوتا شکوہ تو کیا ہوتا
جاتے تو قلق ہوتا آتے تو خفا ہوتے
ہم جاتے تو کیا ہوتا وہ آتے تو کیا ہوتا
اس جور و ستم پر تو ہے پیار چلا آتا
گر مہر و وفا ہوتی کیا قہر خدا ہوتا
لکھا تھا مقدر میں اندوہ و الم ناصح
میں کیوں نہ حسینوں کا پامال جفا ہوتا
ہے لطف تغافل میں یا جی کے جلانے میں
وعدہ تو کیا ہوتا گو وہ نہ وفا ہوتا
٭٭٭
دل گیا دل کا نشاں باقی رہا
دل کی جا درد نہاں باقی رہا
کون زیر آسماں باقی رہا
نیک ناموں کا نشاں باقی رہا
ہو لیے دنیا کے پورے کاروبار
اور اک خواب گراں باقی رہا
رفتہ رفتہ چل بسے دل کے مکیں
اب فقط خالی مکاں باقی رہا
چل دیے سب چھوڑ کر اہل جہاں
اور رہنے کو جہاں باقی رہا
کارواں منزل پہ پہنچا عمر کا
اب غبار کارواں باقی رہا
مل گئے مٹی میں کیا کیا مہ جبیں
سب کو کھا کر آسماں باقی رہا
مٹ گئے بن بن کے کیا قصر و محل
نام کو اک لا مکاں باقی رہا
آرزو ہی آرزو میں مٹ گئے
اور شوق آستاں باقی رہا
عیش و عشرت چل بسے دل سے ظہیرؔ
درد و غم بہر نشاں باقی رہا
٭٭٭
رقیبوں کو ہم راہ لانا نہ چھوڑا
نہ چھوڑا مرا جی جلانا نہ چھوڑا
بلائیں ہی لے لے کے کاٹی شب وصل
ستم گار نے منہ چھپانا نہ چھوڑا
وہ کہتے ہیں لے اب تو سونے دے مجھ کو
کوئی دل میں ارماں پرانا نہ چھوڑا
وہ سینے سے لپٹے رہے گو شب وصل
دل زار نے تلملانا نہ چھوڑا
محبت کے برتاؤ سب چھوڑ بیٹھے
مگر ہاں ستانا جلانا نہ چھوڑا
٭٭٭
رنگ جمنے نہ دیا بات کو چلنے نہ دیا
کوئی پہلو مرے مطلب کا نکلنے نہ دیا
کچھ سہارا بھی ہمیں روز ازل نے نہ دیا
دل بدلنے نہ دیا بخت بدلنے نہ دیا
کوئی ارماں ترے جلووں نے نکلنے نہ دیا
ہوش آنے نہ دیا غش سے سنبھلنے نہ دیا
چاہتے تھے کہ پیامی کو پتا دیں تیرا
رشک نے نام ترا منہ سے نکلنے نہ دیا
شمع رو میں نے کہا تھا مری ضد سے اس نے
شمع کو بزم میں اپنے کبھی جلنے نہ دیا
٭٭٭
رہتا تو ہے اس بزم میں چرچا مرے دل کا
اچھا ہے یہ اچھا ہو نہ سودا مرے دل کا
ہے جوش قلق معرکہ آرا مرے دل کا
ہنگامہ ہے دل پر مرے برپا مرے دل کا
ہے سیر نگاہوں میں شبستان عدو کی
کیا مجھ سے چھپاتے ہو تماشا مرے دل کا
اک مشغلہ ٹھہری ہے تمہیں رنجش بے جا
اک کھیل ہوا تم کو ستانا مرے دل کا
بے خود ہوں تصور میں کسی برق ادا کے
سرمایۂ تسکیں ہے تڑپنا مرے دل کا
برباد نہ جائے گی ظہیرؔ اپنی مصیبت
آخر تو کہیں صبر پڑے گا مرے دل کا
٭٭٭
سخت دشوار ہے پہلو میں بچانا دل کا
کچھ نگاہوں سے برستا ہے چرانا دل کا
ہائے دل اور دل زار کے ہم سے برتاؤ
اور پھر تم سے دل زار پہ آنا دل کا
شمع سے زینت پہلو ہے نہ پروانے سے
تم کو منظور ہے ہر طرح جلانا دل کا
ناصحو زلف کے الجھاؤ برے ہوتے ہیں
کچھ ہنسی کھیل سمجھتے ہو چھڑانا دل کا
قہر ڈھائے ترے اظہار تمنا نے ظہیرؔ
حال کہتا ہے کسی سے کوئی دانا دل کا
٭٭٭
غوغائے پند گو نہ رہا نوحہ گر رہا
ہنگامہ اک نہ اک مرے بالین پر رہا
اعجاز دل فریبیِ انداز دیکھنا
ہر ہر ادا پہ مجھ کو گمان نظر رہا
قاصد بھی کوئی صبر دل نا شکیب تھا
آتے ہی آتے راہ میں کمبخت مر رہا
پرہیز عشق سے مجھے وحشت فزوں ہوئی تو
میں کچھ دوا سے اور بھی رنجور تر رہا
ہے پائے ہرزہ ناز میں کیا گردش نصیب
دو دن نہ چین سے سر شوریدہ سر رہا
اٹھ اٹھ کے ساتھ ساتھ مرے تھک کے رہ گیا
میں کچھ تپش میں درد سے بیتاب تر رہا
٭٭٭
کچھ شکوے گلے ہوتے کچھ طیش سوا ہوتا
قسمت میں نہ ملنا تھا ملتے بھی تو کیا ہوتا
جاتے تو قلق ہوتا آتے تو خفا ہوتے
ہم جاتے تو کیا ہوتا وہ آتے تو کیا ہوتا
شکوؤں کا گلا کیا ہے انصاف تو کر ظالم
کیا کچھ نہ کیا ہوتا گر تو میری جا ہوتا
گر صلح ٹھہر جاتی سو فتنے اٹھے ہوتے
اچھا ہے نہ ملنا ہی ملتے تو برا ہوتا
سوچو تو ظہیرؔ آخر وہ جور تو کرتا ہے
میں اس سے گلا کر کے محروم جفا ہوتا
٭٭٭
گل افشانی کے دم بھرتی ہے چشم خوں فشاں کیا کیا
ہمارے زیب دامن ہے بہار گلستاں کیا کیا
کشود مطلب عاشق کے ہیں لب پر گماں کیا کیا
ادائے خامشی میں بھر دیا رنگ بیاں کیا کیا
فقط اک سادگی پر شوخیوں کے ہیں گماں کیا کیا
نگاہ شرمگیں سے ہے نہاں کیا کیا عیاں کیا کیا
دل خوں گشتہ حسرت نے کیا کچھ گل کھلائے ہیں
بہار آگیں ہے کچھ اب کی برس فصل خزاں کیا کیا
جنوں سے کم نہیں ہے کچھ ہجوم شادمانی بھی
ہوائے گل میں ہے جامہ سے باہر باغباں کیا کیا
تصور میں وصال یار کے سامان ہوتے ہیں
ہمیں بھی یاد ہیں حسرت کی بزم آرائیاں کیا کیا
چلی آتی ہے اترائی ہوئی کچھ کوئے جاناں سے
بسی ہے رشک کی بو میں نسیم بوستاں کیا کیا
قدم رکھتے نہیں ہیں وہ زمیں پر بے نیازی سے
بڑھا جاتا ہے یاں شوق سجود آستاں کیا کیا
ظہیرؔ خستہ جاں سچ ہے محبت کچھ بری شے ہے
مجازی میں حقیقی کے ہوئے ہیں امتحاں کیا کیا
٭٭٭
نصیحت گرو دل لگایا تو ہوتا
کبھی خنجر عشق کھایا تو ہوتا
نہ آتا کہ آتا شکایت نہ رہتی
مجھے انجمن میں بلایا تو ہوتا
نہ مانوں گا ناصح کہ دل پر ہے قابو
لگا کر کسی سے دکھایا تو ہوتا
یہ مانا عدو پر ہے میلان خاطر
کوئی روز اس کو ستایا تو ہوتا
نہ آتے تو خنجر ہی وہ بھیج دیتے
کہ ہم نے گلے سے لگایا تو ہوتا
مری سخت جانی کے شکوے بجا تھے
کبھی دست نازک اٹھایا تو ہوتا
ظہیرؔ آج دعویٰ ہے جن کو زباں کا
سخن اپنا ان کو سنایا تو ہوتا
٭٭٭
ہاتھ سے ہیہات کیا جاتا رہا
مرنے جینے کا مزا جاتا رہا
زندگی کا آسرا جاتا رہا
ہائے جینے کا مزا جاتا رہا
لے گیا سرمایۂ صبر و قرار
مایہ دار اب صبر کا جاتا رہا
عمر بھر کی سب کمائی لٹ گئی
زیست کا برگ و نوا جاتا رہا
دل اگر باقی رہا کس کام کا
چین دل کا اے خدا جاتا رہا
زندگانی کی حلاوت اٹھ گئی
دانہ پانی کا مزا جاتا رہا
جو سہارا تھا دم درماندگی
وہ بڑھاپے کا عصا جاتا رہا
کیجیے کس بات کی اب آرزو
آرزو کا مدعا جاتا رہا
گل ہوا اپنا چراغ آرزو
نور گھر کا اے خدا جاتا رہا
ہائے کیسا لٹ گیا باغ مراد
کیا شجر پھولا پھلا جاتا رہا
روئیے کیا زندگانی کو ظہیرؔ
موت کا بھی اب مزا جاتا رہا
٭٭٭
بگڑ کر عدو سے دکھاتے ہیں آپ
بناوٹ کی باتیں بناتے ہیں آپ
بڑھانے کو قصے شب وصل میں
فسانے عدو کے سناتے ہیں آپ
کسی کو تجلی کسی کو جواب
عجب کچھ لگاتے بجھاتے ہیں آپ
بگڑنے کے اسباب لازم نہیں
نئی بات دل سے بناتے ہیں آپ
نہ آنا تھا گر آئے کیوں خواب میں
مگر سوتے فتنے جگاتے ہیں آپ
بندھے کیا کسی سے امید وصال
نظر سے نظر کب ملاتے ہیں آپ
٭٭٭
حریف راز ہیں اے بے خبر در و دیوار
کہ گوش رکھتے ہیں سب سر بہ سر در و دیوار
نوید مقدم فصل بہار سن سن کر
اڑیں گے شوق میں بے بال و پر در و دیوار
شب فراق میں گھر مجھ کو کاٹے کھاتا ہے
بنا ہے اک سگ دیوانہ ہر در و دیوار
تمہارے غم نے وہ صورت مری بنائی ہے
کہ رو رہے ہیں مرے حال پر در و دیوار
ہجوم رنج و قلق میں ظہیرؔ کیا کہئے
نہیں ہیں مونس خلوت مگر در و دیوار
٭٭٭
ملنے کا نہیں رزق مقدر سے سوا اور
کیا گھر میں خدا اور ہے غربت میں خدا اور
تم سامنے آتے ہو تو چھپتے ہو سوا اور
پردے کی حیا اور ہے آنکھوں کی حیا اور
کچھ آگ لگائے گا نئی شعلۂ رخسار
کچھ رنگ دکھائے گا ترا رنگ حنا اور
انسان وہ کیا جس کو نہ ہو پاس زباں کا
یہ کوئی طریقہ ہے کہا اور کیا اور
آ پہنچے ہیں منزل کی نواہی میں ظہیرؔ اب
ہاں پائے طلب ہار یو ہمت نہ ذرا اور
٭٭٭
دے حشر کے وعدے پہ اسے کون بھلا قرض
تم لے کے نہ دیتے ہو کسی کا نہ دیا قرض
ہے دل میں اگر اس سے محبت کا ارادہ
لے لیجئے دشمن کے لئے ہم سے وفا قرض
عاشق کے ستانے میں دریغ ان کو نہ ہو گا
موجود ہیں لینے کو جو مل جائے جفا قرض
اس ہاتھ سے دو قول تو اس ہاتھ سے لو دل
دیتا ہے کوئی حشر کے وعدے یہ بھلا قرض
مانا کہ جفاؤں کی تلافی ہیں وفائیں
ہو گا نہ ظہیرؔ ان کی اداؤں کا ادا قرض
٭٭٭
گل ہوا یہ کس کی ہستی کا چراغ
مدعی کے گھر جلا گھی کا چراغ
خیر سے رہتا ہے روشن نام نیک
حشر تک جلتا ہے نیکی کا چراغ
وہ حقیقت ہے دل افسردہ کی
ٹمٹمائے جیسے سردی کا چراغ
ہم سے روشن ہے تمہاری بزم یوں
نا گوارا جیسے گرمی کا چراغ
ہو قناعت تجھ کو تو بس ہے ظہیرؔ
خانہ آرائی کو دمڑی کا چراغ
٭٭٭
کفر میں بھی ہم رہے قسمت سے ایماں کی طرف
شکر ہے کعبہ بھی نکلا کوئے جاناں کی طرف
کچھ اسیران قفس کے بخت ہی برگشتہ ہیں
بوئے گل پھر پھر گئی الٹی گلستاں کی طرف
دیکھتے مر کر کسی پر لطف عمر جاوداں
کیوں گئے خضر و سکندر آب حیواں کی طرف
دیکھیے کیا گل کھلائے فصل گل آتی تو ہے
ہاتھ ابھی سے دوڑتے ہیں جیب و داماں کی طرف
رشک کہتا ہے کہ پونچھے ہوں گے اس سے اشک غیر
ہاتھ اٹھ کر رہ گیا سو بار داماں کی طرف
٭٭٭
بھول کر ہرگز نہ لیتے ہم زباں سے نام عشق
گر نظر آتا ہمیں آغاز میں انجام عشق
واے قسمت دل لگاتے ہی جدائی ہو گئی
صبح ہوتے ہی ہوئی نازل بلائے شام عشق
ناصح ناداں تری قسمت میں یہ وقعت کہاں
خوش نصیبوں کے لیے ہے ذلت و دشنام عشق
حال میرا سن کے پیغامی سے وہ کہنے لگے
گر نہ تھی تاب جدائی کیوں لیا تھا نام عشق
٭٭٭
فتنہ گر شوخی حیا کب تک
دیکھنا اور نہ دیکھنا کب تک
بت کدہ کچھ در قبول نہیں
یاس ناکامیِ دعا کب تک
درد اور درد بھی جدائی کا
ایسے بیمار کی دعا کب تک
ایک میں کیا عدو بھی مرتے ہیں
نگہ لطف آشنا کب تک
دل میں جوش حدیث کفر ظہیرؔ
لب پہ شور خدا خدا کب تک
٭٭٭
عشق اور عشق شعلہ ور کی آگ
آگ اور الفت بشر کی آگ
جس کو کہتے ہیں برق عالم سوز
ہے وہ کافر تری نظر کی آگ
ہائے رے تیری گرمئ رفتار
خاک تک بھی ہے رہ گزر کی آگ
لو شب وصل بھی تمام ہوئی
آسماں کو لگی سحر کی آگ
عشق کیا شے ہے حسن ہے کیا چیز
کچھ ادھر کی ہے کچھ ادھر کی آگ
طور سینا بنا دیا دل کو
اف رے کافر تری نظر کی آگ
حق تعالیٰ بچائے اس سے ظہیرؔ
قہر ہے الفت بشر کی آگ
٭٭٭
ہائے اس شوخ کا انداز سے آنا شب وصل
اور رہ رہ کے وہ احسان جتانا شب وصل
قہر ہے زہر ہے اغیار کو لانا شب وصل
ایسے آنے سے تو بہتر ہے نہ آنا شب وصل
دور کوسوں میری بالیں سے اڑی پھرتی ہے
کیا کوئی ڈھونڈ لیا اور ٹھکانا شب وصل
حاصل اس ذکر تغافل سے گزشت انچہ گزشت
فائدہ فتنۂ خفتہ کو جگانا شب وصل
یہ لگاوٹ تو رقیبوں کے رقیبوں سے رہے
اب کبھی آ کے مجھے منہ نہ دکھانا شب وصل
٭٭٭
جاتے ہو تم جو روٹھ کے جاتے ہیں جی سے ہم
تم کیا خفا ہو خود ہیں خفا زندگی سے ہم
کچھ ایسے بدحواس ہیں دل کی لگی سے ہم
کہتے ہیں مدعائے دل مدعی سے ہم
بے زار ہو چکے ہیں بہت دل لگی سے ہم
بس ہو تو عمر بھر نہ ملیں اب کسی سے ہم
یہ جانتے تو شکوے نہ کرتے رقیب کے
کہتے ہیں تیری ضد سے ملیں گے اسی سے ہم
مجرم ہے کون دونوں میں انصاف کیجیے
چھپ چھپ کے آپ ملتے ہیں یا مدعی سے ہم
ہم اور چاہ غیر کی اللہ سے ڈرو
ملتے ہیں تم سے بھی تو تمہاری خوشی سے ہم
٭٭٭
گیسو سے عنبری ہے صبا اور صبا سے ہم
مہکی ہوئی ہے آج ہوا اور ہوا سے ہم
شوخی سے ایک جا تجھے دم بھر نہیں قرار
بے چین تجھ سے تیری ادا اور ادا سے ہم
آرائشوں سے کشتن عاشق مراد ہے
ہوتی ہے پائمال حنا اور حنا سے ہم
ہم سے وصال میں بھی ہوئے وہ نہ بے حجاب
لپٹی رہی بدن سے ردا اور ردا سے ہم
کس منہ سے ہاتھ اٹھائیں فلک کی طرف ظہیرؔ
مایوس ہے اثر سے دعا اور دعا سے ہم
٭٭٭
پان بن بن کے مری جان کہاں جاتے ہیں
یہ مرے قتل کے سامان کہاں جاتے ہیں
سر اگر جائے تو جائے مگر اے خنجر یار
سر سے اپنے ترے احسان کہاں جاتے ہیں
بعد مرنے کے بھی مٹی مری برباد رہی
مری تقدیر کے نقصان کہاں جاتے ہیں
حال کھلتا نہیں ان خویش فراموشوں کا
روز کے روز یہ مہمان کہاں جاتے ہیں
کس کی آشفتہ مزاجی کا خیال آیا ہے
آپ حیران پریشان کہاں جاتے ہیں
آج کس منہ سے مری دل شکنی ہوتی ہے
آج وہ آپ کے مہمان کہاں جاتے ہیں
اے ظہیرؔ اب یہ کھلا حال بڑی دور ہیں آپ
آپ جاتے ہیں جہاں دھیان کہاں جاتے ہیں
٭٭٭
پھٹا پڑتا ہے جوبن اور جوش نوجوانی ہے
وہ اب تو خودبخود جامے سے باہر ہوتے جاتے ہیں
نظر ہوتی ہے جتنی ان کو اپنے حسن صورت پر
ستم گر بے مروت کینہ پرور ہوتے جاتے ہیں
بھلا اس حسن زیبائی کا ان کے کیا ٹھکانا ہے
کہ جتنے عیب ہیں دنیا میں زیور ہوتے جاتے ہیں
ابھی ہے تازہ تازہ شوق خود بینی ابھی کیا ہے
ابھی وہ خیر سے نخوت کے خوگر ہوتے جاتے ہیں
وہ یوں بھی ماہ طلعت ہیں مگر شوخی قیامت ہے
کہ جتنے بد مزہ ہوتے ہیں خوشتر ہوتے جاتے ہیں
٭٭٭
تلافی وفا کی جفا چاہتا ہوں
تمھیں خود یہ کہہ دو برا چاہتا ہوں
کوئی مول لے تو بکا چاہتا ہوں
میں صاحب سے بندہ ہوا چاہتا ہوں
تمھیں چاہو مجھ کو تو کیا چاہیے پھر
میں اس کے سوا اور کیا چاہتا ہوں
مرا مدعا کیا سمجھتے نہیں ہو
تمہیں چاہتا ہوں تو کیا چاہتا ہوں
مسیحا ہو گر تم تو اپنے لیے ہو
میں اپنے مرض کی دوا چاہتا ہوں
تمہیں چاہوں میں تم رقیبوں کو چاہو
یہ انصاف پیش خدا چاہتا ہوں
٭٭٭
تلخ شکوے لب شیریں سے مزا دیتے ہیں
گھول کر شہد میں وہ زہر پلا دیتے ہیں
یوں تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
پردہ اٹھے کہ نہ اٹھے مگر اے پردہ نشیں
آج ہم رسم تکلف کو اٹھا دیتے ہیں
آتے جاتے نہیں کم بخت پیامی ان تک
جھوٹے سچے یوں ہی پیغام سنا دیتے ہیں
وائے تقدیر کہ وہ خط مجھے لکھ لکھ کے ظہیرؔ
میری تقدیر کے لکھے کو مٹا دیتے ہیں
٭٭٭
دل کو آزار لگا وہ کہ چھپا بھی نہ سکوں
پردہ وہ آ کے پڑا ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
مدعا سامنے ان کے نہیں آتا لب تک
بات بھی کیا غم دل ہے کہ سنا بھی نہ سکوں
بے جگہ آنکھ لڑی دیکھیے کیا ہوتا ہے
آپ جا بھی نہ سکوں ان کو بلا بھی نہ سکوں
وہ دم نزع مرے بہر عیادت آئے
حال کب پوچھتے ہیں جب کہ سنا بھی نہ سکوں
زندگی بھی شب ہجراں ہے کہ کٹتی ہی نہیں
موت ہے کیا ترا آنا کہ بلا بھی نہ سکوں
دم ہے آنکھوں میں اسے جان میں لاؤں کیونکر
کب وہ آئے کہ انہیں ہاتھ لگا بھی نہ سکوں
شرم عصیاں نے جھکایا مری گردن کو ظہیرؔ
بوجھ وہ آ کے پڑا ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
٭٭٭
دل کو دار السرور کہتے ہیں
جلوہ گاہ حضور کہتے ہیں
نہ کہیں باوفا مجھے منہ سے
ہاں وہ دل میں ضرور کہتے ہیں
وہ مجھے اور کچھ کہیں نہ کہیں
شیفتہ تو ضرور کہتے ہیں
اک خدائی کہا کرے قہار
ہم تو اس کو غفور کہتے ہیں
پی کے دیکھی بھی حضرت واعظ
آپ جس کو طہور کہتے ہیں
٭٭٭
ساقیا مر کے اٹھیں گے ترے مے خانے سے
عہد و پیماں ہیں یہی زیست میں پیمانے سے
تو کہاں آئی مرا درد بٹانے کے لیے
اے شب ہجر نکل جا مرے غم خانے سے
کون ہوتا ہے مصیبت میں کسی کا دل سوز
اٹھ گئی شمع بھی جل کر مرے کاشانے سے
کچھ یہی کوہ کن و قیس پہ گزری ہو گی
ملتی جلتی ہے کہانی مرے افسانے سے
جبہ فرسائے در کعبہ تھے کل تک تو ظہیرؔ
گرتے پڑتے ہوئے آج آتے ہیں میخانے میں
٭٭٭
مرادیں کوئی پاتا ہے کسی کی جان جاتی ہے
ہزاروں دیکھنے والے تری چتون کے بیٹھے ہیں
عدو عاشق سہی مانا اسی پر منحصر کیا ہے
ابھی تو چاہنے والے بہت بچپن کے بیٹھے ہیں
صبا کیا خاک اڑائے گی عدو کیا قہر ڈھائیں گے
وہ خود پامال کرنے کو مرے مدفن کے بیٹھے ہیں
سراغ نقش پائے غیر شاید اپنا رہبر ہو
سر راہ طلب ہم منتظر رہزن کے بیٹھے ہیں
٭٭٭
نو گرفتار قفس ہوں مجھے کچھ یاد نہیں
لب پہ شیون نہیں نالہ نہیں فریاد نہیں
نازنیں کوئی نئی بات تو پیدا ہو کبھی
ظلم میں لطف ہی کیا ہے اگر ایجاد نہیں
میں بشر ہوں مرے ملنے میں برائی کیا ہے
آپ کچھ حور نہیں آپ پری زاد نہیں
وائے تقدیر کہ جب خوگر آزار ہوئے
وہ یہ فرماتے ہیں ہم مائل بیداد نہیں
٭٭٭
ہم نشیں ان کے طرف دار بنے بیٹھے ہیں
میرے غم خوار دل آزار بنے بیٹھے ہیں
بات کیا ان سے کروں ان کے اٹھاؤں کیوں کر
مدعی بیچ میں دیوار بنے بیٹھے ہیں
ناتوانی نے ادھر پاؤں پکڑ رکھے ہیں
وہ نزاکت سے گراں بار بنے بیٹھے ہیں
کیا بری شے ہے محبت بھی الٰہی توبہ
جرم ناکردہ خطاوار بنے بیٹھے ہیں
بے وفائی کے گلے جن کے ہوئے تھے کل تک
آج دنیا کے وفادار بنے بیٹھے ہیں
وہ ہیں اور غیر ہیں اور عیش کے سامان ظہیرؔ
ہم الگ سب سے گنہ گار بنے بیٹھے ہیں
٭٭٭
وہ کس پیار سے کوسنے دے رہے ہیں
بلائیں عداوت کی ہم لے رہے ہیں
پڑے ہیں وہ عشرت کدے آج ویراں
جہاں یار لوگوں کے جلسے رہے ہیں
برے اور اچھوں کے ہیں ذکر باقی
برے ہی رہے ہیں نہ اچھے رہے ہیں
پیامی سے کہتے ہیں کس نے کہا تھا
وہ کیوں رات بھر یوں تڑپتے رہے ہیں
زباں تھک گئی کوسنے دیتے دیتے
بس اب خیر سے چٹکیاں لے رہے ہیں
نئے داغ کھائے ہیں کیا آج دل پر
یہ گل تو ہمیشہ ہی کھلتے رہے ہیں
جہاں مل کے بیٹھے ہیں دو چار ہم سن
ہمارے تمہارے ہی چرچے رہے ہیں
ظہیرؔ آہ دن زندگانی کے اپنے
بہت جا چکے اور تھوڑے رہے ہیں
٭٭٭
جہاں میں کون کہہ سکتا ہے تم کو بے وفا تم ہو
یہ تھوڑی وضع داری ہے کہ دشمن آشنا تم ہو
تباہی سامنے موجود ہے گر آشنا تم ہو
خدا حافظ ہے اس کشتی کا جس کے ناخدا تم ہو
جفا جو بے مروت بے وفا نا آشنا تم ہو
مگر اتنی برائی پر بھی کتنے خوش نما تم ہو
بھروسا غیر کو ہو گا تمہاری آشنائی کا
تم اپنی ضد پہ آ جاؤ تو کس کے آشنا تم ہو
کوئی دل شاد ہوتا ہے کوئی ناشاد ہوتا ہے
کسی کے مدعی تم ہو کسی کا مدعا تم ہو
ظہیرؔ اس کا نہیں شکوہ نہ کی گر قدر گردوں نے
زمانہ جانتا ہے تم کو جیسے خوش نوا تم ہو
٭٭٭
وہ جھوٹا عشق ہے جس میں فغاں ہو
وہ کچی آگ ہے جس میں دھواں ہو
عدو تم سے تم ان سے بدگماں ہو
تمھارے وہ تم ان کے پاسباں ہو
بھلا تم اور مجھ پر مہرباں ہو
عنایت یہ نصیب دشمناں ہو
مرا حال اور پھر میرا بیاں ہو
عجب کیا گر عدو بھی ہم زباں ہو
کہیں کس سے خودی میں تم کہاں ہو
گلہ جب ہو کہ قابو میں زباں ہو
تمھاری بے رخی شکوے ہمارے
قیامت تک نہ پوری داستاں ہو
زباں بہکی ہوئی حیراں نگاہیں
خیال دل کہاں ہے تم کہاں ہو
مزہ جب آئے ان سے گفتگو کا
پیامی کا دہن میری زباں ہو
کشیدہ کیوں نہ ہو بازار یوسف
کہ جب تم سا متاع کارواں ہو
کہوں کیا راز دل کیوں کر ہو باور
کہ تم سا ہی تمھارا راز داں ہو
ابھی سے کس لیے دل چھوڑ بیٹھیں
جہاں تک ہو سکے آہ و فغاں ہو
٭٭٭
وہ کسی سے تم کو جو ربط تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ کسی پہ تھا کوئی مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم میں تم میں بھی پیار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم بھی تم بھی تھے ایک جا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ بنانا چہرہ عتاب کا وہ نہ دینا منہ سے جواب کا
وہ کسی کی منت و التجا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تمہیں جس کی چاہ پہ ناز تھا جو تمھارا محرم راز تھا
میں وہی ہوں عاشق باوفا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم میں تم میں بھی ساز تھے کبھی ہم بھی وقف نیاز تھے
ہمیں یاد تھا سو جتا دیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی بولنا وہ خفا خفا کبھی بیٹھنا وہ جدا جدا
وہ زمانہ ناز و نیاز کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ابھی تھوڑے دن کا ہے تذکرہ کہ رقیب کہتے تھے برملا
مرے آگے تم کو برا بھلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہنس کے منہ کو چھپا لیا کبھی مسکرا کے دکھا دیا
کبھی شوخیاں تھیں کبھی حیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جو بنا ہے عارف با خدا یہ وہی ظہیرؔ ہے بے حیا
وہ جو رند خانہ بدوش تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
٭٭٭
ان کو حال دل پر سوز سنا کر اٹھے
اور دو چار کے گھر آگ لگا کر اٹھے
تم نے پہلو میں مرے بیٹھ کے آفت ڈھائی
اور اٹھے بھی تو اک حشر اٹھا کر اٹھے
وعدۂ وصل سے ہے نعش پہ آنے کی امید
مژدۂ قتل مرا مجھ کو سنا کر اٹھے
منہ چھپانے میں تو ہے شرم و حیا کا پردہ
ہاں مگر دل بھی نگہ تھا کہ چرا کر اٹھے
آج آئے تھے گھڑی بھر کو ظہیرؔ ناکام
آپ بھی روئے ہمیں ساتھ رلا کر اٹھے
٭٭٭
اے مہرباں ہے گر یہی صورت نباہ کی
باز آئے دل لگانے سے توبہ گناہ کی
الٹے گلے وہ کرتے ہیں کیوں تم نے چاہ کی
کیا خوب داد دی ہے دل داد خواہ کی
قاتل کی شکل دیکھ کے ہنگام باز پرس
نیت بدل گئی مرے اک اک گواہ کی
میری تمہاری شکل ہی کہہ دے گی روز حشر
کچھ کام گفتگو کا نہ حاجت گواہ کی
اے شیخ اپنے اپنے عقیدے کا فرق ہے
حرمت جو دیر کی ہے وہی خانقاہ کی
٭٭٭
ایسے کی محبت کو محبت نہ کہیں گے
اس عام عنایت کو عنایت نہ کہیں گے
کہئے تو کہوں انجمن غیر کو روداد
کیا اب بھی اسے آپ کرامت نہ کہیں گے
سمجھیں گے نہ اغیار کو اغیار کہاں تک
کب تک وہ محبت کو محبت نہ کہیں گے
جب عربدہ جو تم ہو تو کیوں صبر سمیٹیں
ہم اس میں رقیبوں کی شرارت نہ کہیں گے
ہے یاد ظہیرؔ ان کا شب وصل بگڑنا
وہ تلخیِ دشنام کی لذت نہ کہیں گے
٭٭٭
رنج راحت اثر نہ ہو جائے
درد کا دل میں گھر نہ ہو جائے
منہ چھپانا پڑے نہ دشمن سے
اے شب غم سحر نہ ہو جائے
کفر منظور ہے مجھے دل سے
وہ مسلمان اگر نہ ہو جائے
ہاتھ الجھا رہے گریباں میں
چاک دامن ادھر نہ ہو جائے
ہے ظہیرؔ ایک مرد سنجیدہ
ہاں جو آشفتہ سر نہ ہو جائے
٭٭٭
کچھ نہ کچھ رنج وہ دے جاتے ہیں آتے جاتے
چھوڑ جاتے ہیں شگوفے کوئی جاتے جاتے
شوق بن بن کے مرے دل میں ہیں آتے جاتے
درد بن بن کے ہیں پہلو میں سماتے جاتے
خیر سے غیر کے گھر روز ہیں آتے جاتے
اور قسمیں بھی مرے سر کی ہیں کھاتے جاتے
ہائے ملنے سے ہے ان کے مجھے جتنا اعراض
وہ اسی درجہ نظر میں ہیں سماتے جاتے
نہیں معلوم وہاں دل میں ارادہ کیا ہے
وہ جو اس درجہ ہیں اخلاص بڑھاتے جاتے
لو مرے سامنے غیروں کے گلے ہوتے ہیں
لطف میں بھی تو مجھی کو ہیں ستاتے جاتے
آج رکتی ہے مریض غم الفت کو شفا
چارہ گر درد بھی جائے گا تو جاتے جاتے
یہی ہم دم مجھے پیغام قضا دیتے ہیں
یہ جو سینے میں دم چند ہیں آتے جاتے
یوں ہی آخر تو ہوا نام عزا کا بدنام
آئے تھے آ کے جنازہ بھی اٹھاتے جاتے
٭٭٭
کیوں کسی سے وفا کرے کوئی
خود برے ہوں تو کیا کرے کوئی
جان دینے پہ جان دیتا ہوں
ایسے جینے کو کیا کرے کوئی
نامہ بر کی زباں سے ڈرتا ہوں
کچھ نہ پوچھے خدا کرے کوئی
لطف جب آئے شکوہ سنجی کا
ہم کہیں اور سنا کرے کوئی
حاصل مدعائے دل معلوم
کیوں کہیں التجا کرے کوئی
موت کا نام بے وفائی ہے
ہائے کب تک وفا کرے کوئی
٭٭٭
ہائے کافر ترے ہم راہ عدو آتا ہے
کیا کہوں پاس یہ تیرا ہے کہ تو آتا ہے
نکہت عطر میں بس بس کے جو تو آتا ہے
اپنے ہم راہ لیے رشک کی بو آتا ہے
ناتوانی سے نہیں آہ و فغاں کی طاقت
نالہ تھم تھم کے مرا تابہ گلو آتا ہے
چونک پڑتا ہوں شب وعدہ ترے دھوکے میں
ہر قدم پر یہی کھٹکا ہے کہ تو آتا ہے
دختر رز کے قدم تک تو رسائی معلوم
محتسب سنگ در مے کدہ چھو آتا ہے
زخم دل پر کبھی ٹانکا نہ لگایا تم نے
ہم تو سمجھے تھے تمہیں خوب رفو آتا ہے
٭٭٭
واں طبیعت دم تقریر بگڑ جاتی ہے
بات کی بات میں توقیر بگڑ جاتی ہے
چونک پڑتا ہوں خوشی سے جو وہ آ جاتے ہیں
خواب میں خواب کی تعبیر بگڑ جاتی ہے
کچھ وہ پڑھنے میں الجھتے ہیں مرا نامۂ شوق
کچھ عبارت دم تحریر بگڑ جاتی ہے
چارہ گر کیا مری وحشت سے جنوں بھی ہے بتنگ
روز مجھ سے مری زنجیر بگڑ جاتی ہے
داغ الفت وہ بری شے ہے کہ کہنے سے ظہیرؔ
مہر و مہتاب کی تنویر بگڑ جاتی ہے
٭٭٭
وہ جو کچھ کچھ نگہ ملانے لگے
ہم ہر اک سے نظر چرانے لگے
دیکھیے کیا ہو جور کا انجام
وہ مرے حوصلے بڑھانے لگے
یہ وہ کافر ہے عشق خانہ خراب
تم مرے غم کدے میں آنے لگے
کاوشوں میں بھی اب مزا نہ رہا
ہر کسی کو وہ جب ستانے لگے
موت آئی ظہیرؔ کب ہم کو
جب محبت کے لطف آنے لگے
٭٭٭
وہ نیرنگ الفت کو کیا جانتا ہے
کہ اپنے سے مجھ کو جدا جانتا ہے
کچھ ایسی تو دشمن میں خوبی نہیں ہے
مگر تو خدا جانے کیا جانتا ہے
یہ منہ سے تو کہتا ہوں چھوڑی محبت
مگر حال دل کا خدا جانتا ہے
تمہاری شرارت کو کیا جانے کوئی
یہ میں جانوں یا دل مرا جانتا ہے
ظہیرؔ اپنے عیبوں کو میں جانتا ہوں
زمانہ مجھے پارسا جانتا ہے
٭٭٭
یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ہم ان کو چھوڑ بیٹھے ہیں
جب آنکھیں چار ہوتی ہیں مروت آ ہی جاتی ہے
وہ اپنی شوخیوں سے کوئی اب تک باز آتے ہیں
ہمیشہ کچھ نہ کچھ دل میں شرارت آ ہی جاتی ہے
نہ الجھو طعنۂ دشمن پہ ایسا ہو ہی جاتا ہے
جہاں اخلاص ہوتا ہے شکایت آ ہی جاتی ہے
لیا جب نام الفت کا بدل جاتی ہے سیرت بھی
نگاہ شرم آگیں میں شرارت آ ہی جاتی ہے
کبھی چتون سے ان بن ہے کبھی سودا ہے گیسو کا
نصیبوں کی یہ شامت ہے کہ شامت آ ہی جاتی ہے
ہمیشہ عہد ہوتے ہیں نہیں ملنے کے اب ان سے
وہ جب آ کر لپٹتے ہیں محبت آ ہی جاتی ہے
کہیں آرام سے دو دن فلک رہنے نہیں دیتا
ہمیشہ اک نہ اک سر پر مصیبت آ ہی جاتی ہے
حساب دوستاں در دل تقاضا ہے محبت کا
مثل مشہور ہے الفت سے الفت آ ہی جاتی ہے
٭٭٭
ماخذ:
ریختہ ڈاٹ آرگ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں