زَرد رُتوں کا پہلا پھول
سمیرا گل عثمان
ڈاؤن لوڈ کریں
’’اٹھ جاؤ سلویٰ اور کتنا سوؤ گی۔‘‘
عنویٰ نے پردے ہٹاتے ہوئے کشن اس کی جانب اچھالا جو اس کے سر سے ٹکرا کر زمین بوس ہو چکا تھا کھڑکی سے چھن کر آتی سورج کی تیز شعاعیں اس کی خمار آلود آنکھوں میں چبھنے لگی تھیں۔
’’کیا تکلیف ہے تمہیں ؟‘‘ چادر منہ سے ہٹا کر وہ غرا اٹھی۔
’’مجھے …‘‘ شکر ہے اللہ کا کہیں کوئی تکلیف نہیں ہے۔‘‘ عنویٰ نے ہر جانب سے خود کو ٹٹولنے کے بعد انتہائی تشکر آمیز لہجے میں جواب دیا تھا۔
’’تو یہ آفتاب کی مانند صبح سویرے میرے سر پر نازل ہونا ضروری تھا کیا؟ اس کم بخت کو بھی اتنی سویرے ہی اپنا دیدار کروانا ہوتا ہے۔‘‘ اس نے قہر بار نظروں سے چمکتے سورج کو دیکھا جو اس کے بیڈ روم کے بالکل سامنے کھڑکی کے وسط سے طلوع ہو کر ابھرتا تھا۔ آفتاب نے اس بیزاری پر برا سا منہ بناتے ہوئے بادلوں کی چادر اوڑھ لی۔
’’صبح سویرے۔‘‘ عنویٰ کی آنکھیں پھیل گئیں۔
’’آٹھ گھٹنے پورے ہونے سے قبل تو ہرگز نہیں اٹھوں گی۔‘‘ اعلانیہ انداز میں کہتے ہوئے وہ دوبارہ چادر میں غروب ہو گئی۔
’’ایک تو یہ بیوٹیشن کے مشورے … کس کم بخت نے بتا دیا اسے کہ آٹھ گھنٹے نیند لینے سے آپ کی بیوٹی پر کوئی آنچ نہیں آتی۔‘‘ وہ بڑبڑاتے ہوئے پھر سے اس کے سر پر آن کھڑی ہوئی تھی۔
’’سلویٰ۔‘‘ اس نے جھک کر اسے جھنجھوڑ ڈالا۔
’’پھوپھو آ رہی ہیں دس بجے کی فلائیٹ سے۔‘‘ تم ایئرپورٹ ریسیو کرنے نہیں جاؤ گی؟‘‘
’’گھر ہی آئیں گی نا … ! تو مل لوں گی۔‘‘ وہ آنکھیں بند کیے ہوئے بولی۔
’’ثمن کو کتنا برا لگے گا اگر تم نہیں جاؤ گی تو۔‘‘ اس نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری تھی۔ وہ اصل میں مما کے موڈ سے خائف تھی۔
’’ہاں تو اسے برا لگے گا۔ تمہیں کیا مسئلہ ہے ؟‘‘ اس نے پھر سے کروٹ بدل لی اور کانوں پر تکیہ رکھ لیا۔
’’مرو تم۔‘‘ وہ پاؤں پٹختے ہوئے باہر چلی گئی۔
لاؤنج میں مما جانے کو بالکل تیار کھڑی تھیں۔ بابا ہاتھ میں ٹائی لیے اپنے بیڈ روم سے برآمد ہوئے۔
’’سلویٰ نہیں اٹھی؟‘‘ مما نے اسے اکیلا آتے دیکھ کر استفسار کیا تو اس نے مایوسی سے نفی میں گردن ہلا دی۔
’’اس لڑکی کو بھی موقعے کی نزاکت کا کبھی خیال نہیں آتا۔ رات کو میں نے کہا بھی تھا کہ صبح وقت پر تیار ہو جانا۔‘‘ مما کو حسب معمول تپ چڑھی تھی۔
’’جب وہ سو رہی ہے تو اس کی نیند خراب کرنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ بابا نے ٹائی مما کو تھماتے ہوئے فوراً اپنی لاڈلی کی سائیڈ لی، جس پر مما کا پارہ آسمان کو چھونے لگا تھا۔
’’سب آپ کا قصور ہے۔ آپ کی اس ڈھیل نے ہی بگاڑا ہے اسے۔‘‘ ٹائی کی گرہ لگاتے ہوئے مما نے انہیں مورد الزام ٹھہرایا تو وہ ذرا سا ان کی جانب جھکتے ہوئے شرارت سے بولے۔
’’اور تمہیں کس نے بگاڑا ہے ؟‘‘ بس اتنے میں ہی مما کا چہرہ خجالت سے سرخ پڑ گیا تھا۔ انہوں نے جھینپتے ہوئے رخ موڑ لیا تھا۔
عنویٰ اور فاروق حسن اس ادا پر قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔
آج بھی ان کی مما، بابا کسی بھی ذو معنی جملے یا پھر شرارتی نگاہوں پر بلش ہو جاتی تھیں۔ بابا ان کے رخساروں کی یہ سرخی دیکھنے کے شوق میں ان دونوں کا بھی لحاظ نہیں کرتے تھے اور جب مما ان کی موجودگی کا احساس دلاتیں تو وہ معصومیت سے دریافت کرتے۔
’’کیوں بچو! آپ کو کوئی اعتراض ہے ؟‘‘
’’نو بابا! آپ اپنے ڈائیلاگز جاری رکھیے۔‘‘ سلویٰ فراخ دلی سے اجازت دیتی تو کبھی مما اسے جھاڑ دیتیں یا پھر اٹھ کر ہی چلی جاتیں۔
٭٭٭
گیارہ بجے کے قریب جب وہ اٹھ کر نیچے آئی تو پورے گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔
ناشتے کرنے کے بعد وہ پودوں کو کانٹ چھانٹ کرنے لان میں چلی آئی۔ سی ڈی پلیئر پر مہدی حسن کی غزل ’’زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں‘‘ اس کی اور امن کی آل ٹائم فیورٹ گونج رہی تھی۔
کچھ ہی وقت گزرا ہو گا، جب اس نے بابا کی گاڑی کو پورچ میں رکتے دیکھا۔ ثمن نے گاڑی سے نکلتے ہی اس کی جانب دوڑ لگا دی تھی۔
’’بہت بدتمیز ہو تم اتنا ویٹ کیا تھا تمہارا۔ امن تو جہاز سے نکلتے ہی سب سے پہلے تمہیں دیکھنا چاہتا تھا اور تم سنگدل مغرور، بے مروّت لڑکی۔‘‘ والہانہ انداز میں اسے ساتھ لپٹانے اس کے رخسار چومنے کے بعد اب وہ باقاعدہ صلواتوں پر اتر آئی تھی۔
وہ کان لپیٹتے ہوئے پھوپھو سے ملنے لگی، مگر نظریں ان کے عقب میں سرگرداں تھیں۔ مما، بابا اور عنویٰ بھی گاڑی سے نکل کر آئے تھے اور پیچھے تو کوئی بھی نہیں تھا۔
’’امن نہیں آیا؟‘‘ اس کے لبوں سے بے ساختہ پھسلا۔
’’وہ کہہ رہا تھا سلویٰ ہمیں لینے نہیں آئی تو میں بھی بن بلائے مہمان کی طرح ان کے گھر نہیں جاؤں گا۔‘‘ ثمن کی شرارت وہ خوب سمجھتی تھی مگر اس وقت اس کے چہرے پر سنجیدگی کی جو گہری چھاپ نمایاں تھی اس پر اسے ایمان لانا پڑا۔
’’یہ بھلا کیا بات ہوئی؟ آپ کے استقبال کے لیے کسی کو گھر میں بھی تو رہنا تھا۔‘‘
’’نہیں بیٹا! وہ خفا تو نہیں ہوا، بس کہہ رہا تھا، پہلے اپنا گھر دیکھوں گا۔ تھوڑی دیر ریسٹ کروں گا۔ ملنے ملانے کا سلسلہ بعد میں دیکھا جائے گا۔‘‘ پھوپھو نے جلدی سے بیٹے کی صفائی پیش کی۔
’’ریسٹ تو اک بہانہ تھا، ورنہ وہ کیا مریخ سے آیا ہے۔‘‘ ثمن پھر اس کے کان میں گھسی۔
’’ہاں تو مجھے کیا۔‘‘ وہ بے نیازی سے شانے اچکا کر واش روم میں چلی آئی۔
منہ ہاتھ دھو کر کپڑے تبدیل کیے مگر اس کا دھیان ہنوز امن میں الجھا ہوا تھا۔ جس بندے نے اس سے زندگی میں کبھی حال احوال سے زیادہ بات نہ کی تھی وہ محض اس کے نہ آنے پر اتنا خفا کیوں ہوا تھا۔
’’تو کیا اس کے لیے بھی میں اتنی ہی خاص ہوں جتنا وہ …‘‘ عنویٰ نے آ کر اس کے خیالوں کا تسلسل توڑ دیا۔
’’سلویٰ کی بچی! اگر بناؤ سنگھار سے فرصت مل گئی ہو تو کچن میں آ جاؤ۔ بہت کام ہے۔‘‘ وہ کہہ کر الٹے قدموں واپس مڑ گ ئی تھی۔
اس نے مسکرا کر شانوں پر دوپٹہ پھیلایا اور نیچے چلی آئی۔
لنچ خوشگوار ماحول میں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد پھوپھو اور ثمن چلی گئیں۔ مما نے امن کے لیے کھانا ساتھ ہی بھیج دیا تھا۔ ان کے جانے کے بعد وہ کتابیں اٹھا کر اسٹڈی روم میں چلی آئی۔ وہ پری میڈیکل کی اسٹوڈنٹ تھی اور اسے ڈاکٹر بنانا مما اور بابا دونوں کا خواب تھا۔ جس کے لیے وہ خوب محنت کر رہی تھی۔
شام میں اسے اکیڈمی جانا تھا وہاں سے واپسی پر آٹھ بج گئے تھے۔ گاڑی سے اتر کر وہ اپنے گیٹ کی جانب بڑھنے والی تھی جب اس کی نگاہ غیر ارادی طور پر ساتھ والوں کے ٹیرس کی جانب اٹھ گئی۔
وہ ریلنگ پر دونوں کہنیاں ٹکائے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ نظروں کے تصادم پر وہ ہلکا سا مسکرائی تھی جس پر وہ لب بھینچتے ہوئے رخ موڑ گیا تھا۔
’’لگتا ہے موصوف کافی روٹھے ہوئے ہیں۔‘‘ وہ خود کلامی کرتی، کہتی ہوئی کھلے گیٹ سے اندر داخل ہو گئی۔
’’امن تو جہاز سے نکلتے ہی سب سے پہلے تمہیں دیکھنا چاہتا تھا۔‘‘ رات سونے سے قبل ثمن کی بات یاد آنے پر وہ عجیب الجھن میں پڑ گ ئی تھی۔
یہ بات تو اس سے ایک روز قبل چیٹنگ کے دوران ثمن نے کہی تھی، پھر یہ امن کہاں سے آ گیا بیچ میں …
اس نے اٹھ کر کمپیوٹر آن کر لیا۔ وہاں ثمن کی ایک میل بھی آئی ہوئی تھی اس نے لفظوں کو غور سے پڑھا۔
’’ایئرپورٹ لینے ضرور آنا۔ میں چاہتی ہوں سب سے پہلے تمہیں دیکھوں۔‘‘ اس نے کوئی دس بار اس میل کو پڑھا تھا، لیکن ’’چاہتی‘‘ کو ’’چاہتا‘‘ میں بدلتے نہ دیکھا تو وہ دوبارہ بستر پر آ کر لیٹ گئی۔ کچھ بھی تھا، لیکن امن جیسے لیے دیے رہنے والے بندے کی زندگی میں اپنی اہمیت کا اتنا احساس اس کے دل کی تمام کلیاں کھلا گیا تھا۔
٭٭٭
اگلے روز عنویٰ نے کھیر بنائی تھی۔ مما نے ڈونگا بھر کر اسے تھما دیا۔
’’جاؤ! اپنی پھوپھو کو دے آؤ۔‘‘
وہ تو پہلے سے ہی ’’امن لاج‘‘ جانے کا سوچ رہی تھی۔ یہ اچھا بہانہ مل گیا تھا، ورنہ ثمن تو اس کا ناک میں دم کر دیتی کہ وہ خاص طور پر امن سے ملنے آئی ہے۔
’’سلو خالہ آ گئیں۔‘‘ لاؤنج میں قدم رکھتے ہی زیب اور ایمان چہکتے ہوئے اس کی ٹانگوں سے چمٹ گئے تھے۔
’’شکر ہے یار! تم آ گئی ہو، ورنہ تو ان بچوں نے خوب اودھم مچا رکھا تھا کہ سلو خالہ کے پاس چھوڑ کر آؤ۔‘‘ ثمن نے دونوں بچوں کو گھورتے ہوئے سلویٰ سے کہا۔ وہ بچوں کی سگی خالہ تھی اور بچے اسے ذرا بھی لفٹ نہیں کروا رہے تھے۔ اس بات نے اسے اچھا خاصا تپا دیا تھا۔
’’کتنی بار منع کیا ہے کہ خالہ کے ساتھ یہ ’’سلو‘‘ کا دم چھلا مت لگایا کرو۔ توبہ! لگتا ہے جیسے ہوٹل میں کسی ویٹر کو بلا رہے ہو ’’سلو‘‘ وہ ان کی نقل اتارتے ہوئے جھلا کر بولی جس پر ثمن اور امن کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
’’ثمرین باجی آئی ہیں ؟‘‘ صوفے پر بیٹھتے ہوئے اس نے ثمن سے استفسار کیا۔ امن کو وہ پھر نظر انداز کر گئی تھی، جس پر وہ لاتعلق سا ہو کر منہ کے سامنے اخبار پھیلا کر بیٹھ گیا۔ اسے بھی شاید یاد آ چکا تھا کہ وہ اس سے خفا ہے۔ سلویٰ دل میں اس کی حالت پر اچھا خاصا محظوظ ہوئی تھی۔
’’ہاں، وہ اور امی بازار گئی ہیں۔ تم تو جانتی ہو ثمرین باجی کی شاپنگ۔ اب شام ڈھلے ہی واپس ہو گی۔‘‘ وہ باؤل اٹھا کر انگلی سے کھیر چکھتے ہوئے بولی۔
’’ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ثمرین باجی پہلے ہمارے گھر آنے کے بجائے تم لوگوں کے گھر آئی ہیں۔‘‘ اسے ثمرین باجی سے اس قدر طوطا چشمی کی توقع نہیں تھی کہ اپنے بہن بھائی کے آتے ہی وہ انہیں بھول جائیں گی۔
’’اور اب تو ایسا ہر بار ہی ہو گا۔‘‘ وہ اسے چڑانے کو بولی۔ بچوں نے اب کھیر کھانے کا شور مچا دیا تھا۔ وہ انہیں لے کر کچن میں چلی گئی تو سلویٰ نے روئے سخن امن کی جانب موڑا۔
’’تم کیسے ہو امن؟‘‘ وہ اس سے پانچ سال بڑا تھا لیکن سلویٰ نے آپ، جناب کہنے کی زحمت کبھی نہیں کی تھی۔
’’آپ کو خیال آ گیا؟‘‘ وہ طنزیہ بولا۔
’’خیالوں میں ہی تو جی رہی تھی اب تک۔‘‘ وہ محض سوچ ہی سکی۔ کہنے کی جرأت نہیں تھی۔
’’خفا ہو؟‘‘ اسے دوبارہ چہرے پر اخبار پھیلاتے دیکھ کر وہ دھیمے لہجے میں بولی تو وہ اخبار رکھ کر سیدھا ہو بیٹھا۔
’’ہاں، ہوں۔‘‘
’’تو مجھے مٹانے کا ہنر نہیں آتا۔ تم میری سزا بتا دو۔‘‘ وہ انگلیاں چٹخاتے ہوئے گویا ہوئی۔
’’اچھا۔‘‘ وہ سر کے پیچھے ہاتھ لے جا کر سوچتے ہوئے بولا۔
’’تمہاری سزا یہ ہے کہ تم آج ڈنر ہمارے ساتھ کرو گی۔‘‘
’’ارے واہ! یہ تو بڑی خوبصورت سزا ہے۔‘‘ وہ اطمینان سے صوفے پر پھیل کر بیٹھ گئی۔
’’کیا پکاؤں آج؟‘‘ ثمن نے دونوں کی جانب رائے طلب نظروں سے دیکھا۔
’’سلویٰ کو بریانی اور چکن شاشلک بہت پسند ہے۔ ونیلا آئس کریم کے بغیر اسے کھانے کی میز مکمل نہیں لگتی اور سیلڈ میں ہری مرچیں ضرور ہونی چاہئیں اور …‘‘ وہ بولے جا رہا تھا اور سلویٰ منہ کھولے حیرت بھری نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
’بھئی! آج یہ ہماری مہمان ہیں تو مینیو بھی ان کی پسند کا ہونا چاہیے۔‘‘ ثمن اپنا دو من کا سر ہلا کر کچن میں سدھار چکی تھی۔ سلویٰ اٹھ کر اس کے سر پر آن کھڑی ہوئی۔
’’امن کو یہ ساری باتیں تم نے بتائی ہیں ؟‘‘ اس کا انداز تفتیشی تھا۔
’’میں نے نہیں، تم نے۔‘‘ اس کا اطمینان قابل دید تھا۔
’’میں نے ؟‘‘ اس نے انگلی سے اپنی جانب اشارہ کیا۔
’’جی! وہ ٹیکسٹ پرچیٹنگ میں نہیں، امن کیا کرتا تھا۔‘‘ بمشکل اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے اس نے گویا اس کے سر پر بم بلاسٹ کیا تھا۔
’’میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گی۔‘‘ اس کھلی دغا بازی پر وہ تن فن کرتی اپنے گھر چلی آئی تھی اور پھر رات دیر تک اس کا دماغ کھولتا رہا تھا۔
٭٭٭
’’کتنا سکون تھا زندگی میں … میری تنہائی، اکیلا پن، اور یہ خالی اپارٹمنٹ میرے ہم سفر تھے۔ اور میں ان سب کے ساتھ آسودہ تھا۔ مگر تم نے دھڑکنوں میں ہلچل مچا کر میری ذات کو طوفان کی نذر کر دیا ہے۔‘‘ وہ ٹیرس پر کھڑا تصویر سے باتیں کر رہا تھا۔
کیا تھی وہ؟
چاندنی میں ڈھلا پیکر
سبک رواں ندی …
باد نسیم کا کوئی معطر جھونکا
سنگ مرمر کی مورت …
یا پھر کوئی شوخ دھنک …
اس تصویر میں اس نے سندھی کڑھائی اور شیشوں کے کام سے مزین میرون رنگ کا گھیر دار فراک پہن رکھا تھا۔ سر پر شیشوں والی ٹوپی تھی۔ کانوں میں میرون نگوں والے بڑے بڑے آویزے، بازوؤں میں بھری بھری چوڑیاں، گود میں سفید اونی بالوں والا میمنا اٹھا رکھا تھا۔ ہنستے ہوئے اُس کے سرخ گالوں میں پڑنے والے گڑھے بے حد واضح تھے۔ سیاہ کالی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔
اس تصویر کو دیکھتے ہی سلونی شام اپنے تمام تر رنگوں سمیت اس کی آنکھوں میں اتر آئی تھی اور وہ دور کہیں وادی کیلاش میں کھوسا جاتا تھا۔
چھ ماہ قبل کی بات تھی۔ وہ دوستوں کے ساتھ شمالی علاقہ جات کی سیر کو گیا تھا۔ اس کے دوست کیبل کار میں بیٹھے جھولا لے رہے تھے اور وہ وادیوں کا حسن مقید کرنے کے لیے آبادی سے بہت دور نکل آیا تھا۔ تبھی اس نے اس حسین دوشیزہ کو ایک میمنے کے پیچھے بھاگتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس نے مدد کرنے کا سوچا اور میمنے کو پکڑ کر اس کے قریب چلا آیا۔ لڑکی کی سانسیں ابھی تک پھولی ہوئی تھیں۔
’’یہ سارا ریوڑ تمہارا ہے ؟‘‘ اس نے گھاس چرتی خوبصورت پہاڑی بکریوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا تھا۔ جس پر وہ قہقہہ لگا کر ہنسی تھی اور ارسل کو اس کے ساتھ بلبل، پہاڑ، جھڑنے، پھول، ہوا، رنگ، بادل، تتلی ہر شے کھلکھلاتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔
’’میں کوئی پہاڑن تو نہیں ہوں۔ یہ لباس تو میں نے پورٹریٹ بنوانے کے لیے پہنا ہے۔‘‘ اپنے حلیے کی وضاحت کرنے کے بعد اس نے میمنا اس کی گود سے لے لیا۔
ارسل کو دور کھڑی وہ مصورہ دکھائی دے گئی تھی جو اس کا پورٹریٹ بنا رہی تھی۔
’’لگتا ہے آپ فوٹو گرافر ہیں۔ اس گیٹ اپ میں میری تصویر اچھی تو بن جائے گی نا۔‘‘ وہ اس کے ہاتھ میں کیمرہ دیکھ کر معصومیت سے بولی اور اس کا دل اس بھولپن پر نثار ہونے کو چاہا تھا۔
وہ کتنی حسین تھی۔ کیا اسے کبھی کسی نے نہیں بتایا تھا۔ آئینے نے بھی نہیں۔
’’اتنی اچھی کہ اب تو میرا دل بھی چاہنے لگا ہے کہ میں تمہاری ایک تصویر اتار لوں۔ تم قدرتی حسن کا شاہکار ہو۔‘‘ وہ مسکرا کر بولا۔
’’سنو مسٹر! تم کیا مجھ سے فلرٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہو؟‘‘ وہ خوش ہونے کی بجائے فوراً سیخ پاہو گئی تھی۔
’’نہیں، میں نے تو بس اللہ کی قدرت کا اعتراف کیا ہے۔‘‘ وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر بولا۔
وہ اس پر ایک خفگی بھری نگاہ ڈال کر واپس پلٹ گئیں۔
’’جانتی ہو، پہلی نظر میں تم مجھے اتنی خاص نہیں لگی تھیں، پھر تمہاری بچگانہ سی معصومیت اور سیاہ کالی آنکھوں نے میرا دل لوٹ لیا تھا۔ آج بھی مجھے اس ہنسی سے میٹھی کوئی دھن نہیں لگتی۔ تمہاری ریشمی زلفیں مجھے پریشان کرتی ہیں اور تمہارے ہونٹوں کا سیاہ تل میرا قرار لوٹ لیتا ہے۔ میں تمہیں اب مجسم دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ اس کا ایک ایک نقش کھوجتے ہوئے وہ بے خود ساہوچلا تھا۔
٭٭٭
’’تم اپنے خرگوش پنجرے میں بند کر کے نہیں رکھ سکتیں۔‘‘ اندر کی کھولن کہیں پر تو نکالنی تھی۔ لان میں دندناتے خرگوشوں کو دیکھ کر اس کا پارہ چڑھ گیا تھا۔
’’ہائیں ! یہ ظلم میں کیوں کروں ؟ تمہارا کیا بگاڑتے ہیں ؟‘‘ عنویٰ نے محبت پاش نظروں سے اچھلتے کودتے خرگوشوں کو دیکھا۔ ایمان اور زیب ان کے پیچھے بھاگتے بے حد خوش ہو رہے تھے۔
’’میرے لان کا بیڑا غرق کر دیا ہے ان منحوسوں نے۔‘‘ اس نے غصے میں کپ اٹھا کر خرگوش کی جانب اچھالا تو جو منی پلانٹ کی بیلوں سے الجھ رہا تھا۔
’’خالہ! مت مارو مجھے اچھے لگتے ہیں۔‘‘ ایمان نے منہ بسورا۔
’’اتنے ہی اچھے لگتے ہیں تو اپنے گھر لے جاؤ۔‘‘ اس قدر فیاضی پر عنویٰ نے کھا جانے والی نظروں سے سلویٰ کو دیکھا تھا جبکہ بچوں کی آنکھوں میں مارے اشتیاق کے جگنو چمکنے لگے تھے۔
’’سچی عنو خالہ؟‘‘ ایمان اس کا ہاتھ تھامے پوچھ رہی تھی۔
’’میں ان کا بہت خیال رکھوں گا۔ اپنی چاکلیٹ اور آئس کریم بھی کھلاؤں گا۔‘‘ زیب نے پلکیں جھپکاتے ہوئے مکمل اطمینان دلانے کی کوشش کی تھی۔
’’آپ جب اداس ہو جائیں گی تو بابا کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر آپ سے ملوانے بھی لایا کریں گے۔‘‘ ایمان نے اس کی رنجیدگی محسوس کر کے وعدہ کیا تو بے اختیار سلویٰ کی ہنسی نکل گئی، جسے ثمن کو آتے دیکھ کر اس نے نہ صرف سمیٹ لیا تھا بلکہ کھٹ کھٹ کرتی سیڑھیاں بھی چڑھ گئی تھی۔ وہ کچھ دیر عنویٰ کے پاس بیٹھ کر اس کے پیچھے چلی آئی۔
’’اب کب تک منہ پھلائے رکھو گی؟‘‘ کھڑکی میں کھڑی سلویٰ کے گلے میں اس نے بازو ڈال دیا تھا۔
’’جب تک میرا دل چاہے گا۔‘‘ وہ اس کا بازو شانے سے ہٹا کر شان بے نیازی سے بستر پر آ بیٹھی۔
’’کیا بات ہے محترمہ کے دل کی۔ ایسا کرو دل سے دن، تاریخ، مہینہ، سال اور وقت پوچھ کر بتا دو، پھر میں اس روز تشریف لاؤں گی۔‘‘
’’شرم تو نہیں آتی تمہیں۔‘‘ وہ پھاڑ کھانے کو دوڑی۔
’’بہت آتی ہے لیکن صرف ہادی کے سامنے۔‘‘ اس نے سادگی سے بتایا۔ ہادی اس کا منگیتر تھا۔ سلویٰ نے دانت پیستے ہوئے رخ موڑ لیا۔
’’دن رات تو تم نے میرا ناطقہ بند کر رکھا تھا۔ ہر وقت تمہاری سوئی بس امن کے گرد گھوما کرتی تھی۔ امن نے آج کیا کھایا ہے۔ اس نے کس رنگ کی شرٹ پہنی ہے۔ وہ کیسا لگ رہا ہے اس کے کتنے فرینڈز ہیں۔ اس کی کیا ایکٹیوٹیز ہیں اور …‘‘
’’اور تم نے اسے سب بتا دیا؟‘‘ وہ اس کی بات کاٹ کر غرائی، ورنہ یہ فہرست تو ابھی بہت طویل تھی۔
’’نہیں میں نے اسے اپنا آئی ڈی دے کر کہا تھا ’’پلیز بھائی! میری اس مصیبت سے جان چھڑا دو۔‘‘ وہ شرارتی انداز میں کہتی بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور حفظ ما تقدم کے طور پر دونوں تکیے اپنی تحویل میں لے لیے تھے۔
٭٭٭
’’جانے کیا بکواس کرتی رہی ہوں میں امن سے۔ دل بنا کر ہمیشہ اپنا اور اس کا نام لکھتی تھی۔ اف! کس قدر احمقانہ حرکتیں کی ہیں میں نے … کھلا ڈھلا اظہار محبت … کوئی ایک جذبہ بھی تو اس سے پوشیدہ نہیں رہا۔‘‘ پودوں کو پانی دیتے ہوئے وہ مسلسل خود کو ملامت کر رہی تھی۔ جب وہ اچانک اس کے پاس آن کھڑا ہوا تھا۔
’’کیا تمہیں میرا تمہارے بارے میں جاننا اچھا نہیں لگا؟‘‘
وہ کوئی جواب دیے بغیر پودوں کو نہلانے میں لگی ہوئی تھی۔ انداز ایسا تھا جیسے جواب دینے کے لیے بھی وقت نہ ہو یا پھر اس کی بات سنی ہی نہ ہو۔ اسے امن پر بھی غصہ تھا۔ کم از کم اسے تو یہ حرکت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ بندے کی کوئی اپنی ذاتیات بھی ہوتی ہیں۔
’’دور تھا تو ہر پل میرا خیال تھا۔ اب پاس ہوں تو کوئی لفٹ ہی نہیں۔‘‘ اب کی بار اس کی آواز میں ہلکی سی برہمی بھی جھلکنے لگی تھی۔‘‘ اپنا نظر انداز کیا جانا اسے شاید بہت ناگوار گزرا تھا۔
مگر سلویٰ ہنوز اپنے کام میں مگن رہی تو اس نے گلاب کا وہ ننھا پودا جس کے پتے پتے کو وہ بڑی ملائمت سے دھو رہی تھی، جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا تھا۔ اس کوشش میں کتنے ہی کانٹے اس کی ہتھیلی کو فگار کرتے گزر گئے تھے اور اب وہاں خون کی ننھی منی بوندیں دمک رہی تھیں۔ سلویٰ اس قدر شدید رد عمل پر ششدر سی رہ گئی تھی۔
’’یہ کیا حماقت ہے ؟‘‘ اس نے تاسف بھری نظروں سے گھورا۔
’’یہ حماقت نہیں، محبت ہے۔ مجھ پر اگر تم کسی شے کو اہمیت دو گی تو وہ میرے لیے ناقابل برداشت ہو گی۔‘‘ ہتھیلی سے کانٹے نکالتے ہوئے وہ اطمینان سے بولا۔
’’تم پودوں سے جیلس ہو رہے ہو؟‘‘ وہ حیرت زدہ سی گویا ہوئی۔
’’میں تو تمہیں چھو کر گزرنے والی ہوا سے بھی جیلس ہو جاتا ہوں۔‘‘
’’اور اگر میرا کوئی بوائے فرینڈ ہو تو؟‘‘ وہ شرارت سے بولی۔
’’تو میں اس کی جان نکال دوں گا۔‘‘ اب وہ ہاتھ پر رو مال باندھ رہا تھا مگر اس کے لہجے کی ہولناکی سلویٰ کا دل دہلا گئی تھی۔
’’ہائے، امن! پہلے تو تم ایسے نہیں تھے۔‘‘
’’پہلے کب؟‘‘ اس نے الٹا سوال پوچھا تو وہ سوچنے لگی۔
پھوپھو کی فیملی اس کے بچپن سے ہی … جدہ میں مقیم تھی، البتہ گرمیوں کی چھٹیاں وہ لوگ لاہور میں ان کے گھر گزارا کرتے تھے پھر وہ اس کا بچپن کا ’’منہ بولا منگیتر‘‘ بھی تھا۔
مما نے بتایا تھا کہ ’’جب تم چھوٹی تھی تو امن بس ایک ہی ضد کیا کرتا تھا کہ میں سلویٰ سے شادی کروں گا اور تمہاری پھوپھو نے ہنسی ہنسی میں تمہیں امن کے لیے مانگ لیا تھا۔‘‘ یہ قصہ تو وہ بچپن سے سنتی آ رہی تھی، لیکن وہ امن کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتی تھی وہ ہمیشہ اپنی دُنیا میں مگن رہتا۔ ہمیشہ اسے اپنی پڑھائی اور اسپورٹس میں دلچسپی رہی تھی۔
’’سب سے پہلے، جب مما نے تمہیں میرے لیے مانگا تھا، اس وقت تم دو ماہ کی تھیں۔ اب میں پانچ سال کی عمر میں ایک دو ماہ کی بچی کے ساتھ کیا اظہار محبت کرتا۔‘‘ وہ کہہ کر خود ہی ہنسا تھا سلویٰ نے مصنوعی خفگی سے اسے گھورا تو وہ مزید گویا ہوا۔
’’سترہ سال کی عمر میں مجھے تم سے دوسرا پیار ہوا تھا۔‘‘ بات کے اختتام پر اس نے سلویٰ کے تاثرات جانچنے چاہے جو کہ خاصے خطرناک تھے۔
’’بھئی پہلا بھی تم سے ہی ہوا تھا پانچ سال میں اور پھر دوسرا سترہ سال کی عمر میں اور اس وقت جب میں نے تمہیں بتانے کا سوچا تو پتا چلا تم ابھی محض بارہ سال کی ہو۔‘‘
’’امن! تم پٹ جاؤ گے میرے ہاتھوں۔‘‘ وہ اس کے پیچھے لپکی تھی اور امن لان کی جانب آتی ثمن کی اوٹ میں چھپ گیا لیکن اس کی گوہر افشانیاں اب بھی جاری تھیں۔
’’اف خدا! کسی کو اتنی چھوٹی منگیتر بھی نہ دے کہ بندہ …‘‘ سلویٰ نے اب پائپ کا رخ اس کی جانب موڑ دیا تھا اور اگلے ہی پل تینوں لان میں بری طرح سے بھیگ رہے تھے۔
٭٭٭
’’بھائی صاحب! میں چاہتی ہوں کہ سلویٰ کو انگوٹھی پہنا کر اس منہ زبانی بات پر رشتے کا ٹیگ لگا دوں۔‘‘ پھوپھو نے ہنستے ہوئے کہا تھا، جس پر بابا چونکتے ہوئے بولے۔
’’کونسا رشتہ؟‘‘ مما نے اس اداکاری پر قدرے ترچھی نظروں سے انہیں گھورا تھا جس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ سنجیدگی سے گویا ہوئے۔
’’دیکھو رفعت! وہ بچپن میں ہماری تمہاری بات جو بھی تھی میں نے اس پر کبھی غور نہیں کیا۔ اب سلویٰ کی مرضی جانے بغیر میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔‘‘
’’تو ٹھیک ہے، ابھی سلویٰ کی مرضی دریافت کر کے آئیں۔ میں یہیں بیٹھی ہوں اور انگوٹھی پہنا کر ہی جاؤں گی۔‘‘ ان کا اطمینان بھی قابل دید تھا۔
’’آپ بھی عجیب باتیں کرتے ہیں۔ اس میں سلویٰ کی مرضی کیا معلوم کرنی۔ ہم موجود ہیں ابھی اس کی زندگی کا فیصلہ کرنے کے لیے۔‘‘ مما اب بابا سے الجھنے لگی تھیں۔ وہ سیڑھیوں سے ہی واپس پلٹ گئی۔ یہ سب اسی کا کیا دھرا تھا۔
کل وہ پھوپھو کے گھر جا رہی تھی جب گیٹ پر اسے امن کسی دوست کے ساتھ کھڑا نظر آیا۔ وہ اس کی جانب دھیان دیے بغیر اندر چلی آئی تھی اور پھر اگلے ہی پل وہ دندناتا ہوا اس کے سر پر آن کھڑا ہوا تھا۔
’’تمہارے پاس کوئی فل سلیو شرٹ نہیں ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ وہ غیر متوقع بات پر بوکھلا کر رہ گئی۔
’’میں نے فارسی میں نہیں پوچھا۔‘‘ اس نے دانت کچکچائے۔
’’ہاں تو تم کون ہوتے ہو پوچھنے والے۔ میں کچھ بھی پہنوں۔‘‘ اس کا جارحانہ انداز سلویٰ کو بھی تپا گیا تھا۔
’’تم میری منگیتر ہو۔‘‘ اس نے اپنے استحقاق کی وضاحت کر دی تو سلویٰ نے مزے سے اپنی مخروطی انگلیاں اس کے سامنے لہرائیں۔
’’ایسے کسی بندھن کی ڈوری میرے ہاتھوں میں نہیں ہے۔‘‘ اس پر اپنا حق جتانا اسے اچھا لگ رہا تھا۔
’’تم …‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔‘‘ یہ جو دوپٹہ ہے نا، یہ سر پر اوڑھنے کے لیے ہوتا ہے۔ آئندہ یہ مجھے تمہارے گلے میں جھولتا نظر نہ آئے۔‘‘
’’اچھا تو موصوف مجھ پر رعب جمانے کے لیے انگوٹھی پہنا رہے ہیں۔‘‘ بالوں میں برش کرتے ہوئے وہ دل ہی دل میں مسکرائی۔ تب ہی دروازے پر دستک ہوئی تھی۔
آنے والی مما تھیں اور اسے پتا تھا وہ کیا پوچھنے آئی ہیں۔
’’مما آپ کی اور پاپا کی خوشی میں ہی میری خوشی ہے۔‘‘ وہ فلمی انداز میں کہتی ان سے لپٹ گئی تھی۔ مما نے اس کی مرضی جان کر بابا کو گرین سگنل دیا اور پھوپھو نے وہ نازک سی ڈائمنڈ رنگ اس کی انگلی میں سجادی تھی۔ جسے پہن کر اسے ایک عجیب سے تحفظ کا احساس ہوا تھا جیسے وہ کسی حصار میں مقید ہو چکی ہو۔
’’کیسا لگ رہا ہے نئے رشتے میں منسوب ہونا؟‘‘ شام میں اس کی کال آ گئی تھی۔
’’نیا کہاں سے ہو گیا۔ وہ تو سالوں پرانا ہے۔‘‘ وہ تنگ کرنے کو بولی۔
’’ہاں ! پرانا تو ہے، پرسالوں نہیں، صدیوں پرانا … ازل سے آسمانوں پر لکھا گیا تھا اور میں بہت خوش نصیب ہوں کہ جو چاہا اسے بغیر کسی رکاوٹ کے پا بھی لیا۔ تھینک گاڈ کہ ہمارے درمیان کوئی ظالم سماج نہیں تھا۔‘‘ وہ شاید بہت خوش تھا اور سلویٰ سرشار سی تاروں بھرے آسمان کو دیکھتے ہوئے بولی۔
’’اچھا! اگر ظالم سماج ہوتا تو؟‘‘
’’تو پھر لوگ اکیسویں صدی کا مجنوں مجھے کہتے۔‘‘
٭٭٭
دفتر سے نکلتے ہی اس نے عادل کو محو انتظار پایا تھا۔
’’اچھے دوست ہو تم! اتنے دنوں سے شکل ہی نہیں دکھائی۔ اماں بی بھی تمہیں یاد کر رہی تھیں۔ میں نے سوچا، آج تو آفس سے اٹھا کر لاؤں گا۔ محترم تو اپنے اپارٹمنٹ میں بھی نہیں ملتے۔ بس مجنوں ہو گئے ہیں۔ اب آوارہ گردی سے فرصت کہاں۔‘‘ ارسل کو دیکھتے ہی اس کی زبان فرفر چلنے لگی تھی وہ ایک گہرا سانس بھرتے ہوئے گاڑی میں آ بیٹھا۔
’’طعنے تو تم عورتوں کی مانند دیتے ہو۔‘‘
’’کیا کروں یار! بیوی پر تو زور چلتا نہیں کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کاش خدا نے تمہیں لڑکی بنایا ہوتا اور پھر تم میری دوسری بیوی ہوتے۔ کتنے تحمل سے سب سن لیتے ہو۔‘‘ ارسل کی اسی بے تکی حسرت پر وہ بے ساختہ اچھل کر رہ گیا۔
’’لڑکی ہوتا بھی تو تمہاری زوجیت میں آنا قطعاً گوارا نہ کرتا۔‘‘
’’کیوں ؟ کیا کمی ہے مجھ میں ؟‘‘ وہ سڑک کے عین وسط میں بریک لگاتے ہوئے بولا۔ جناب کو اپنی وجاہت پر زیاد ہی بھروسا تھا۔
’’مجھے بھابھی کے ساتھ بھرپور ہمدردی ہے۔‘‘ اس نے صاف آنکھیں بدل لیں۔
’’بڑے طوطا چشم ہو۔ کیا وہ تمہیں بریانی بنا کر کھلاتی ہیں ؟‘‘
’’نہیں یار! نہاری بہت اچھی بناتی ہیں۔‘‘ وہ قہقہہ لگا کر بولا تو عادل نے اسے مصنوعی خفگی سے گھورتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا دی۔
’’نہاری کے لیے دوست سے دغا بازی۔‘‘
’’یار! میں کوئی لڑکی نہیں ہوں، ارسل ہوں۔ اب چھوڑ بھی دو جان۔‘‘ اس نے عاجزی سے ہاتھ جوڑے۔
’’اچھا بتاؤ! بھابھی اور بچے آ گئے ہیں ؟‘‘ وہ بات بدل گیا ورنہ عادل کو یونہی شوق تھا لمبی لمبی ہانکنے کا، حالانکہ اسے ثمرین سے قطعاً کوئی شکایت نہیں تھی۔
’’ہاں ! وہ تو کل شام ہی آ گئے تھے۔ یار مجھے تمہاری بے فکری اور آزادی پر رشک آتا ہے۔‘‘ وہ پھر پٹری سے اترنے لگا تھا ارسل نے گاڑی رکوا کر بچوں کے لیے آئس کریم پیک کروائی۔
’’اس کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
’’تمہارے لیے نہیں ہے۔‘‘ بچوں کے معاملے میں وہ اس کی کوئی بات نہیں سنتا تھا۔ کبھی ویک اینڈ پر انہیں گھمانے لے جاتا تھا تو کبھی ڈھیروں کے حساب سے شاپنگ کروا دیتا۔ دونوں کی دوستی مثالی تھی۔ اسکول کالج کے زمانے سے ساتھ تھے۔ بچے بھی اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ انہیں لان میں کھیلتا دیکھ کر وہ بھی اسی جانب چلا آیا۔ عادل لباس تبدیل کرنے کی غرض سے اندر چلا گیا تھا۔
’’سلو چاچا!‘‘ ایمان کے منہ سے بے ساختہ پھسلا تھا، پھر اس نے گھبرا کر لب بھینچ لیے۔
’’کیا ہوا؟‘‘ ارسل نے تعجب سے پوچھا۔
’’وہ سلویٰ خالہ ہیں نا، وہ سلو کہنے پر بہت خفا ہو جاتی ہیں۔ آپ کو برا تو نہیں لگا؟‘‘ آنکھیں پھیلا کر اس نے معصومیت سے پوچھا تو وہ بے ساختہ مسکرادیا۔
سلو کے قصے وہ اکثر بچوں کے منہ سے سنا کرتا تھا۔ زیب کہتا تھا، وہ بڑا ہو کر سلو خالہ جیسی سائیکل چلائے گا اور ایمان کہتی تھی، وہ سلو خالہ جیسے بال لمبے کرے گی۔
’’چاچو! میرے خرگوش۔‘‘ زیب دونوں خرگوش سنبھالے اس کے پاس چلا آیا تھا۔
’’واؤ! یہ کہاں سے لیے ؟‘‘ اس نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’یہ عنو خالہ کے تھے۔ سلو خالہ نے چوری سے اٹھا کر ہمیں دے دیے۔‘‘ ایمان نے مزے سے بتایا۔
’’یہ سلو خالہ کے پلانٹس خراب کر دیتے تھے نا۔‘‘ زیب نے معلومات میں مزید اضافہ کیا۔ تب ہی ثمرین ہاتھ میں ٹرے اٹھائے چلی آئی تھی۔ پیچھے پیچھے عادل بھی تھا۔ اس کی توجہ بٹ گئی۔
’’چلو بھاگو اپنے خرگوش لے کر۔‘‘ ثمرین نے دونوں کو گھورا تو وہ دوبارہ سے لان میں جا کر کھیلنے لگے۔
’’بھابھی! آج مٹھائی کس خوشی میں ؟‘‘ وہ چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے بولا۔
’’میرے بھائی کی انگیجمنٹ ہو گئی ہے۔‘‘ اس نے خوش ہو کر وجہ بتائی تو ارسل مبارکباد دینے کے بعد خاموش سا ہو گیا تھا۔
جانے کیوں وہ آج پھر بہت یاد آئی تھی۔
٭٭٭
’’تمہارے ایگزامز تو ختم ہو چکے ہیں، پھر اکیڈمی کیوں آ رہی ہو؟‘‘ بابا نے آج ڈرائیور نہیں بھیجا تھا تو امن اسے لینے آیا تھا۔ گاڑی موڑتے ہوئے اس نے سرسری سا دریافت کیا لیکن سلویٰ کے جواب نے اسے چونکا دیا تھا۔
’’میں انٹری ٹیسٹ کی تیاری کر رہی ہوں۔‘‘
’’انٹری ٹیسٹ؟‘‘ اس نے بھنویں اچکائیں۔
’’ہاں بھئی! مجھے ڈاکٹر جو بننا ہے۔‘‘ اس نے فخریہ کالر کھڑے کیے۔ امن کچھ لمحوں کے لیے بالکل خاموش سا ہو گیا تھا۔ وہ اس کے موڈ سے خائف ہو کر بولی۔
’’کیا ہوا؟‘‘
’’میں اتنا لمبا انتظار نہیں کر سکتا اور پھر تمہیں ایم بی بی ایس کی ڈگری لے کر کیا کرنا ہے ؟ جاب کرنے کی اجازت تو میں ہرگز نہیں دوں گا۔‘‘
’’امن!‘‘ وہ اس سے ایسی کسی پابندی کی توقع نہیں کر رہی تھی سو افسردہ ہونا یقینی تھا۔
’’یار کل کو ہماری اپنی فیملی ہو گی۔ مجھے، گھر اور بچوں کو تمہاری ضرورت ہو گی اور تم ہمیں نظر انداز کر کے غیروں کی مسیحائی کرو میں اس کے خلاف ہوں۔‘‘
’’بابا کو بہت شوق ہے کہ میں ڈاکٹر بنوں۔‘‘ وہ لب کاٹتے ہوئے بولی۔
’’اور مجھے بہت شوق ہے کہ تم بس میرے گھر میں رہو۔‘‘
’’گھر … تمہارا بس چلے تو تم مجھے صرف ایک کمرے تک محدود کر دو۔‘‘ اپنے حجاب پر نظر پڑتے ہی اس کا طیش عود کر آیا تھا۔
چند روز قبل امن نے اسے زندگی میں پہلی بار گفٹ دیا تھا۔ وہ بھی عبایا۔ ساتھ ہی کارڈ پر لکھا تھا۔
’’دوپٹہ تم سے سنبھالا نہیں جاتا اس لیے عبایا بھیج رہا ہوں۔‘‘ اور وہ کتنی ہی دیر ساکت نظروں سے اس کو دیکھتی رہی تھی۔
’’کمرہ بھی بہت بڑا ہے۔ میرا بس چلے تو میں تمہیں ایک الماری میں بند کر دوں۔‘‘ وہ ہنستے ہوئے بولا۔
’’ہاں ! جیسے میں موم کی گڑیا ہوں۔‘‘ وہ منہ پھلا کر رہ گئی۔
’’اتنا مشکل لگتا ہے تمہیں میری بات ماننا۔‘‘ اب وہ جذباتیت پر اتر آیا تھا۔
’’مذاق کر رہی تھی۔ اچھا آئس کریم کھائیں ؟‘‘ وہ اس کا موڈ بحال کرنے کو بولی۔
’’ہاں ! لیکن گاڑی میں۔‘‘ یہ بھی ایک پابندی تھی۔
گھر آتے ہی پہلا سامنا عنویٰ سے ہوا جولان کے چکر کاٹتی اس کا انتظار کر رہی تھی۔
’’میرے خرگوش کہاں ہیں ؟‘‘
’’جہنم میں جاؤ! تم اور تمہارے خرگوش۔‘‘ وہ دانت پیستے ہوئے اندر چلی آئی۔
’’مما! دیکھ لیں اس نے میرے خرگوش …‘‘ بال ڈائی کرتی مما کو اس نے درمیان میں گھسیٹا تو وہ عاجزی سے بولیں۔
’’پلیز عنو! تم کوئی بچی نہیں ہو۔ جا کر اپنا حلیہ درست کرو۔ آج تمہیں کچھ لوگ دیکھنے آ رہے ہیں۔‘‘ مما نے گویا ان کے سر پر دھماکا ہی کیا تھا۔ کھٹ کھٹ سیڑھیاں چڑھتی سلویٰ الٹے قدموں واپس آ گئی۔
’’ہیں سچ مما؟ پوری تفصیل بتائیں۔‘‘
’’تمہارے بابا کے دوست ہیں نا احمد صاحب … ان کے کوئی عزیز ہیں اور سنو! تم سامنے مت آنا۔‘‘ مختصراً بتاتے ہوئے آخر میں انہوں نے سلویٰ کو ہدایت کی تو وہ خفا ہو کر بولی۔
’’اف مما! اب مجھ پر تو یہ پابندی عائد نہ کریں۔ ایسا کون ہے جو عنویٰ کو چھوڑ کر مجھے پسند کرے گا۔‘‘ اس نے لاڈسے عنویٰ کے گلے میں بازو ڈالا۔
’’ہٹو پرے ! تم سے کوئی بات نہیں کروں گی۔‘‘ وہ ہنوز خفا تھی۔
٭٭٭
’’میرے تو ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔‘‘ عنویٰ بری طرح گھبرا رہی تھی۔
’’کچھ نہیں ہوتا یار! میری اور تمہاری طرح عام انسان ہیں وہ بھی۔‘‘ سلویٰ نے کھیرا کھاتے ہوئے اس کی پیٹھ ٹھونکی۔
’’کتنی لکی ہو تم کہ اس خوامخواہ کے جھنجھٹ سے بچ گئیں۔‘‘ کچھ دور جا کر وہ پھر رک گئی تھیں۔ ڈرائنگ روم میں خاص مہمان آئے بیٹھے تھے۔
’’جاؤ بھی اب۔‘‘ سلویٰ نے گھورا۔
’’وہ مجھ سے کیا کیا پوچھیں گے ؟‘‘
’’بی اے کی ڈگری کے متعلق تو ضرور پوچھیں گے۔ تمہیں انہوں نے قومی اسمبلی میں جو بٹھانا ہے۔‘‘ وہ چڑ گئی۔
’’سلویٰ پلیز …‘‘ اس نے منت کی۔
’’سوری! میں اس تجربے سے نہیں گزری۔‘‘ اس نے بے نیازی سے شانے اچکائے۔
’’پھر بھی …‘‘ وہ پلٹ کر واپس اس کے پاس چلی آئی۔
’’تمہاری تعلیم، دلچسپیاں، مشاغل۔‘‘ اس نے انگلیوں پر گنوایا۔
’’تعلیم تو ٹھیک ہے، لیکن دلچسپیاں اور مشاغل۔‘‘ وہ ان پر آ کر اٹک گئیں۔
’’خدارا، اب خرگوشوں کا نام نہ لے بیٹھنا۔‘‘ سلویٰ نے بے ساختہ ہاتھ جوڑے تو اس نے ابرو اچکا کر گھورا۔
’’تو کیا تمہاری طرح یہ کہوں کہ فارغ وقت میں سائیکل چلاتی ہوں، پتنگ اڑاتی ہوں، گارڈننگ کرتی ہوں اور …‘‘
’’میوزک سنتی ہوں، کتابیں پڑھتی ہوں اور خواب دیکھتی ہوں۔‘‘ اسے اٹکتے دیکھ کر سلویٰ نے مزے سے جملہ مکمل کیا۔
’’عنویٰ! آ بھی جاؤ۔‘‘ مما اسے بلانے آئی تھیں۔ ان کے جانے کے بعد اس نے سرتاپا خود کو جانچا۔
’’میں کتنا بدل گئی ہوں۔ اب کہاں کی دلچسپیاں، کون سے مشاغل۔ اب تو ہر سلسلہ ان محترم سے شروع ہو کر انہی پر ختم ہوتا ہے۔‘‘ وہ اک گہرا سانس بھرتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی آئی۔ اپنی کتابیں دیکھتے ہی سویا ہوا درد پھر سے جاگ اٹھا تھا۔
اس نے کہا تھا کہ انٹری ٹیسٹ میں فیل ہو جاؤ اور وہ فیل ہو گئی تھی جبکہ اس کے برعکس رزلٹ بہت شاندار آیا تھا۔
وہ خاموش مہر بہ لب مجرموں کی مانند سرجھکائے بیٹھی تھی جبکہ دل چاہ رہا تھا، خوب دہاڑیں مار مار کر روئے۔
’’ایک تو اس کی اتنی محنت ضائع ہوئی ہے اوپر سے آپ ڈانٹے جا رہے ہیں۔ کیا ہوا اگر فیل ہو گئی ہے تو اگلے سال پھر ٹرائی کر لے گی۔‘‘ مما نے پہلی بار بابا کے مقابلے میں اس کی طرف داری کی تھی۔ شاید اس کی روہانسی صورت پر رحم آ گیا تھا، مگر وہ اگلے سال کی بات پر اپنی سابقہ خاموشی برقرار نہ رکھ سکی۔
’’بابا! مجھے ڈاکٹر نہیں بننا۔ میں اتنے کمزور دل کی مالک ہوں کہ سرجن تو کسی صورت نہیں بن سکتی، پھر کیا فائدہ اتنی محنت کرنے کا۔ ویسے بھی اس فیلڈ میں میرا انٹرسٹ نہیں ہے۔‘‘ وہ نظریں چراتے ہوئے دلگرفتگی سے بول رہی تھی۔
’’چلو! پھر دیکھتے ہیں۔‘‘ وہ افسردگی سے کہتے اٹھ کر چلے گئے اور اس کا دل کتنے ہی دن بابا کی آزردگی کا سوچ کر سوگوار رہا تھا۔
٭٭٭
’’تم انٹری ٹیسٹ میں فیل کیسے ہو گئیں۔‘‘ کالج میں پہلے دن ردا تفتیشی انداز میں استفسار کرتی اس کے سر پر آن کھڑی ہوئی تھی۔ جس پر وہ چڑ گئی۔
’’کیوں میں فیل نہیں ہو سکتی کیا؟ جسے دیکھو انویسٹی گیشن کرنے چلا آ رہا ہے۔‘‘ وہ تنگ آ چکی تھی۔ مما اور بابا سے جان چھوٹی تھی تو عنویٰ اور ثمن اس کے سر ہو گئی تھیں اور اب ردا بھی زخموں پر نمک چھڑکنے چلی آئی تھی۔
’’ہاں ! تم فیل نہیں ہو سکتیں۔‘‘ وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے اتنے یقین سے بولی کہ سلویٰ کے دل کا چور اس کی آنکھوں سے جھانکنے لگا۔
وہ اس کی بچپن کی دوست تھی دونوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا۔ ثمرین آپا اس کی بھابھی تھیں اور یہ رشتہ بھی سلویٰ کے توسط سے ہی طے ہوا تھا۔
’’اور اب ہونا پڑا۔‘‘ اس نے کہتے ہوئے منہ لٹکا لیا۔ وہ اس سے کچھ نہیں چھپا سکتی تھی۔
’’کیوں ؟ کس کے لیے ؟‘‘ اس کی ڈارک براؤن آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔
’’امن کے لیے۔‘‘ وہ سابقہ لہجے میں بولی تو ردا نے پہلے تو سر تھام لیا پھر یاد آنے پر چیخی۔
’’تمہاری اس کے ساتھ انگیجمنٹ ہو گئی اور تم نے مجھے انوائیٹ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا؟ اس کی اطلاع مجھے بھابھی سے ملی ہے۔ شرم کرو بلکہ ڈوب مرو۔‘‘
’’کوئی فنکشن نہیں ہوا تھا یار! بس پھوپھو نے آ کر انگوٹھی پہنا دی۔‘‘
’’پھر بھی تمہیں ٹریٹ تو دینی پڑے گی۔‘‘
’’تو وہ کہو نا کہ کچھ ٹھونسنے کو دل چاہ رہا ہے۔‘‘ وہ اپنا والٹ چیک کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی تو ردا نے اپنے گروپ کی فائزہ اور ماہین کو بھی آواز دے ڈالی تھی۔
چھٹی سے کچھ دیر قبل وہ چاروں قریبی ریسٹورنٹ میں چلی آئی تھیں اور وہاں سے نکلتے ہوئے اس نے اسے دیکھ لیا تھا۔ وہ گھبرا گئی تھی کہ اب جانے کیا ہونے والا تھا۔ اس روز اس نے سوچ لیا کہ اگر اسے نہیں پسند تو وہ دوبارہ نہیں آئے گی۔
٭٭٭
’’ارسل! اب تم بھی شادی کر لو۔‘‘ چائے کا کپ اسے تھماتے ہوئے ثمرین نے مشورہ دیا تو ردا بھی پر جوش ہو گئی۔
’’ہاں ارسل بھائی! آپ کو بتاؤں ہمارے کالج میں اتنی پیاری لڑکیاں ہیں اور میں نے تو تین، چار کو اس سلسلے میں پسند بھی کر رکھا ہے۔‘‘
’’تین چار؟‘‘ اس نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
’’زیادہ بنیں مت اور بتائیں کہ آپ کے دل میں کیا ہے ؟‘‘ وہ ٹھٹک کر بولی۔
’’میرے دل میں چار خانے ہیں۔‘‘ وہ ایک گھونٹ لیتے ہوئے مسکرایا۔
’’اور ان خانوں میں کسے بند کر رکھا ہے ؟‘‘ وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی۔
’’دل میں تو نہیں، بٹوے میں اس نے ضرور کسی کو بند کر رکھا ہے۔‘‘ عادل کی پیش گوئی پر اسے اچھو لگ گیا تھا۔ ثمرین نے اسے پانی کا گلاس تھمایا جبکہ وہ دونوں بہن بھائی خاصی مشکوک نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔
’’یار! ایسی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ اس نے دوبارہ چائے کا کپ اٹھا لیا۔
’’کیسی بات؟‘‘ عادل نے کان کھجاتے ہوئے انجان بن کر پوچھا تو وہ زچ ہوا تھا۔
’’ارسل بیٹا! تمہارے بہن بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ یہی مناسب عمر ہے۔ اب اپنا گھر بسانے کی سوچو۔‘‘
اماں بی نے ان کی نوک جھونک سے محظوظ ہوتے ہوئے نصیحت کی تو اس نے تابعداری سے سر ہلا دیا۔
’’گھر بنانے کی خواہش کسے نہیں ہے اماں بی! مگر وہ ملے بھی تو۔‘‘ اس کی سوچ گہری ہو چکی تھی۔ دل کے طاق پر رکھا امید کا دیپ جل اٹھا تو اس کی آنکھوں میں روشنی سی بھر گئی۔ وہ اس سلسلے میں کبھی مایوس نہیں ہونا چاہتا تھا۔
٭٭٭
کشن کے سہارے نیم دراز وہ کوئی ٹاک شو دیکھنے میں مگن تھی جب مما نے آ کر ٹی وی آف کر دیا۔
’’چھوڑو! یہ سب فضول باتیں۔ کچھ گھرداری میں بھی دلچسپی لو۔ پھوپھو کے گھر جانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم پھوہڑ اور بد سلیقہ ہی رہو اور ویسے بھی وہاں کون سا ملازمین کی قطاریں لگی ہیں جو تمہیں مہارانی بنا کر رکھیں گے۔ ثمن اور عنویٰ کو ہی دیکھ لو! دونوں نے سارا گھر سنبھالا ہوا ہے۔‘‘ خوب کھری کھری سنانے کے بعد مثال بھی کن سگھڑ بیبیوں کی دی تھی۔ اسے اچھا خاصا برا لگا۔
’’ہاں ! تو وہ میری طرح کالج بھی تو نہیں جاتیں نا۔‘‘
’’اب تمہاری پڑھائی کا کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔ آج سے رات کا کھانا تم بنایا کرو گی۔‘‘ ساتھ ہی ایک ڈیوٹی بھی لگا دی گئی جس پر وہ بلبلا اٹھی تھی۔
’’مما پلیز! ابھی تو عنویٰ کی محض نسبت طے ہوئی ہے اور آپ نے ساری ڈیوٹیاں مجھے سونپ دیں۔‘‘ اس روز جو لوگ دیکھنے آئے تھے، وہیں بات طے پاگئی تھی۔
’’ساری نہیں، بس ایک۔‘‘ وہ اس کے حتجاج کی پروانہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں اور اسے اپنی تمام تر سستی اور بیزاری کو الوداع کہتے ہوئے بریانی بنانا پڑی تھی جو اتفاق سے اچھی بن گئی تو وہ سسرال میں اپنی دھاک بٹھانے کی خاطر ٹرے سجا کر پھوپھو کے گھر چلی آئی۔
سامنے ہی وہ بیٹھا اپنے لیپ ٹاپ کے ساتھ کھٹر پٹر کر رہا تھا۔ پھوپھو تخت پوش پر نماز ادا کر رہی تھیں اور ثمن کچن میں تھی۔ امن اسے دیکھتے ہی اٹھ کر اوپر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
’’اسے کیا ہوا؟‘‘ اسے حیرت ہوئی۔
’’گھر میں دیے نہ جلاؤں کہ محترمہ تشریف لائی ہیں۔‘‘ ثمن نے کچن سے جھانکتے ہوئے طنز کیا۔ وہ کافی دنوں بعد جو آئی تھی۔
’’نہیں آپ اتنا تکلف بھی نہ کرو۔ گھی پہلے ہی بہت مہنگا ہے۔‘‘ ڈھٹائی سے کہتے ہوئے اس نے ٹرے میز پر رکھی اور خود فریج سے پانی نکال کر پینے لگی۔
’’اس میں کیا ہے ؟‘‘ کہتے ہوئے اس نے ڈش کا ڈھکن اٹھایا۔‘‘ واؤ! بریانی … شکل تو کافی اچھی ہے۔ عنویٰ نے بنائی ہو گی۔‘‘
’’میں نے بنائی ہے۔‘‘ اس نے چہرے سے گلاس ہٹا کر گھورتے ہوئے بتایا۔
’’تم نے ؟‘‘ ثمن کی آنکھوں میں حیرت اتر آئی۔
’’اب ساری ٹھونس مت لینا۔ امن کے لیے بھی رکھنا۔ میں ذرا ان موصوف کی خبر گیری کر لوں کہ کس بات پر مزاج برہم ہیں۔‘‘ وہ دوپٹہ درست کرتی اوپر چلی آئی۔ دروازے پر دستک دی۔ اندر سے کوئی جواب نہیں آیا تھا۔
دوبار … تین بار … بالآخر وہ خود ہی دروازہ کھول کر اندر چلی آئی۔ بیڈ روم خالی تھا اور ٹیرس پر بے چینی سے ٹہل رہا تھا۔ وہ سست قدموں سے چلتی اس کے پاس آکھڑی ہوئی۔
’’خفا ہو؟‘‘ اس نے دھیرے سے پوچھا۔
جواب میں خاموشی۔
’’میری فرینڈز بہت اصرار کر رہی تھیں کہ اپنی انگیجمنٹ کی خوشی میں ہمیں پارٹی دو، اس لیے ہم ریسٹورنٹ چلے گئے تھے لیکن آج کے بعد کبھی نہیں جاؤں گی، پرامس۔‘‘ بہت ہی غورو خوض کرنے کے بعد اسے ناراضی کی جو وجہ سمجھ میں آئی تھی، اسی کے مطابق وضاحت دیتے ہوئے اس نے معذرت کرنے کے ساتھ ساتھ آئندہ کے لیے وعدہ بھی کر لیا تھا مگر وہ غراتے ہوئے بولا۔
’’تم عنویٰ کے سسرال کیوں گئی تھیں ؟‘‘ ماتھے پر شکنوں کا جال بچھا تھا۔ آنکھیں سرخ انگاہ ہو رہی تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے اس ایک بات کی وجہ سے وہ رات بھر سو نہ سکا ہو۔
’’میں تم سے پوچھ کر گئی تھی۔‘‘ اس نے خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے یاد دلایا۔
’’میں نے کہا تھا، اپنی مرضی کر لو جبکہ تمہیں میری مرضی معلوم تھی۔ اس کے باوجود تم نے اپنی من مانی کی۔‘‘ اس کا غصہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا۔
’’عنویٰ میری اکلوتی بہن ہے۔‘‘ اس کے لہجے میں مبہم سا احتجاج تھا۔
’’اس کا یہ مطلب ہے کہ تم اس کے لیے لڑکے دیکھتی پھرو؟‘‘
’’مما اور بابا کے فائنل کرنے کے بعد میں گئی تھی اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ ہم وہاں عنویٰ کی نسبت طے کر چکے ہیں۔‘‘ امن کی بات نے اس کی جان جلا کر رکھ دی تھی۔
’’اٹس اوکے ! لیکن اس کے ساتھ زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ جانتی ہو، کوئی اور تمہیں دیکھے تو میرا دماغ الٹ جاتا ہے اور پھر میں تم سے الجھ پڑتا ہوں۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ تھامے اب کس قدر محبت سے بول رہا تھا۔
سلویٰ نے اس کا موڈ خوشگوار ہونے پر ایک اطمینان بھرا سانس لیا تھا۔
وہ سب برداشت کر سکتی تھی لیکن امن کی ناراضی نہیں۔ شاید اسے بھی سلویٰ کی کمزوری کا اندازہ ہو چکا تھا، اسی لیے تو ہر بات پر خفا ہو کر مزہ لیتا تھا۔
٭٭٭
’’بابا نے ابھی تک گاڑی نہیں بھیجی۔ میں نے یاد بھی دلایا تھا۔‘‘ وہ بڑبڑاتے ہوئے صوفے پر آ بیٹھی لیکن نظریں ہنوز وال کلاک کی جانب اٹھی ہوئی تھیں۔
آج ردا کی سالگرہ تھی۔ وہ تو صبح سویرے فون پر مبارک باد دے کر اپنے فرض سے گویا سبکدوش ہو چکی تھی مگر ردا نے صاف کہہ دیا تھا کہ۔
’’تم یقیناً اپنا گفٹ بچانے کے چکروں میں ہو اور میں ایسا ہونے نہیں دوں گی۔ تمہیں آنا ہی پڑے گا۔‘‘ اور کھٹ سے فون رکھ دیا تھا۔ اب وہ کب سے تیار ہو کر بیٹھی تھی مگر گاڑی کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا۔
’’تو امن کے ساتھ چلی جاؤ۔‘‘ مما کے مشورے پر وہ بدک اٹھی تھی۔
’’وہ تو کبھی نہیں لے کر جائے گا۔ اسے میرا فرینڈز کر کے گھر جانا پسند نہیں ہے۔‘‘
’’یہ امن اتنی روک ٹوک کیوں کرتا ہے۔ میری بچی کو لے کر برقعہ اوڑھا دیا۔‘‘
’’مما! میں اس میں کمفر ٹیبل محسوس کرتی ہوں۔‘‘ اس نے فوراً امن کا دفاع کیا تھا۔ وہ خود اسے کچھ بھی کہتی رہے لیکن کسی اور سے اس کی برائی نہیں سن سکتی تھی۔ کچھ دیر مزید انتظار کرنے کے بعد اس نے گیٹ سے باہر جھانکا تو امن کی گاڑی دکھائی دے گئی۔ اب چھپنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ وہ بھی اسے دیکھ چکا تھا۔
’’کہیں جا رہی ہو؟‘‘
’’وہ مجھے مارکیٹ جانا تھا۔ بابا سے کہا بھی تھا کہ گاڑی بھیج دیں۔ جانے ڈرائیور کہاں رہ گیا ہے۔‘‘ تارکول کی بل کھاتی سڑک پر کسی ذی روح کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔
’’اچھا آؤ! میں لے جاتا ہوں۔‘‘ وہ گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے بولا تو وہ مما کو بتا کر اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔ گاڑی اب مال روڈ کی سڑکوں پر رواں دواں تھی۔
اس نے سوچا تھا وہ ردا کے لیے عنویٰ جیسا سوٹ خریدے گی جو عنویٰ دو روز قبل ہی لے کر آئی تھی اور اسے بہت پسند آیا تھا مگر سوٹ پر لگا چار ہزار کا ٹیگ دیکھ کر وہ پریشان ہو گئی۔ عنویٰ نے تو تین میں لیا تھا۔
’’دو روز میں آپ نے ایک سوٹ کے ہزار روپیہ دام بڑھا دیے۔‘‘
’’نہیں میم! یہ سوٹ ہم نے چار میں ہی سیل کیے ہیں۔‘‘
میری بہن دو روز قبل تین ہزار میں لے کر گئی ہے۔
’’ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ وہ ماننے کو تیار نہیں تھا۔
’’تو کیا میں جھوٹ بول رہی ہوں ؟‘‘ وہ تپ اٹھی۔
’’مجھے کیا پتا۔‘‘ اس نے لاعلمی سے شانے اچکائے۔
’’کیا بدتمیزی ہے یہ؟‘‘ خاموش کھڑے امن کو اس کا انداز بے حد برا لگا تھا۔
’’یہ فکسڈ پرائز ہے۔‘‘
’’اوکے ! تم پیک کرو۔‘‘ وہ پے منٹ کر کے پارکنگ لاٹ سے گاڑی لینے چلا گیا تھا اور وہ عجلت میں باہر نکلتے ہوئے اندر داخل ہوتے ایک شخص سے بری طرح ٹکرا گئی تھی۔
’’ایکسکیوزمی!‘‘ پیشانی پر ہاتھ رکھے وہ اسے پہاڑ کی مانند راستے میں ایستادہ دیکھ کر تحمل سے بولی تو وہ معذرت کرتا ایک طرف کو ہو گیا تھا۔
صد شکر کہ امن نے یہ تصادم نہیں دیکھا تھا ورنہ اس کی مزید شامت آ جانی تھی اور کچھ تو آہی چکی تھی۔
وہ گاڑی میں آ کر بیٹھی تو امن اپنے والٹ سے سارے نوٹ ڈیش بورڈ پر رکھ کر بیٹھا ہوا تھا جس میں ہزار ہزار کے چند نوٹ کے علاوہ کچھ رالڈ اور ڈالر بھی تھے۔
’’تم ان پیسوں کی وجہ سے اس دو ٹکے کے سیلز میں کے ساتھ بات کر رہی تھیں ؟‘‘ اس نے نوٹ ہاتھوں میں لے کر اس کی جانب دیکھا اور پھر ان نوٹوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھڑکی سے باہر اچھال دیے۔ وہ اس کی اس حرکت پر کچھ نہیں بولی تھی۔
وہ اس معاملے میں کتنا جنونی اور پاگل تھا، اسے اچھی طرح اندازہ ہو چکا تھا اور پہلی بار اس کا دل اتنی چاہت پر مغرور ہونے کے بجائے ملال سے بھرگیا تھا۔
’’گاڑی ثمرین آپا کے گھر کی جانب موڑ لو۔‘‘ وہ اسے گھر واپس جاتا دیکھ کر قدرے رکھائی سے بولی تو وہ رخ موڑ کر اس کے بگڑے بگڑے تیور دیکھنے لگا۔
’’وہاں کیا کام ہے ؟‘‘ اس کی بھنویں تن گئیں۔
’’ردا کی برتھ ڈے ہے اور مجھے اسے وش کرنا ہے۔‘‘ وہ سابقہ لہجے میں گویا ہوئی۔
’’چلو تم اسے وش کر کے آ جانا، پھر ہم کہیں گھومنے چلیں گے۔‘‘ اس کا موڈ قدرے بحال ہوا تھا۔
’’گاڑی میں بیٹھ کر؟‘‘ وہ طنز کرنے سے باز نہ آئی۔
’’کاش! اس دنیا کا کوئی ایسا نگر ہوتا، جہاں سے کوئی تمہیں دیکھ نہ سکتا تو پھر میں تمہیں خوب سیر کرواتا۔‘‘ اس کی اپنی مجبوری تھی۔
’’تو پھر ایسا کرو، کسی جنگل ویرانے میں گھر بنا لو۔‘‘ وہ چڑ گئی۔ اتنے میں ردا کا گھر آ چکا تھا۔
’’تمہارے پاس اونلی فائیو منٹس ہیں۔ جلدی وش کر کے واپس آؤ۔‘‘ اترنے سے قبل وہ باور کروانا نہیں بھولا تھا۔
’’امن …‘‘ اس نے کچھ کہنے کو لب وا کیے مگر اس نے ٹوک دیا۔
’’ٹائم! از اسٹارٹ ناؤ۔‘‘
’’بہت کمینے ہو تم …‘‘ وہ ناراضی سے کہتی کھلے گیٹ سے اندر داخل ہو گئی۔
٭٭٭
وہ بہت افسردہ اور ملول سا گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا حالانکہ اسے خوش ہونا چاہیے تھا کہ آج تین سال بعد وہ اسے نظر آئی تھی۔ وہ ردا کے لیے گفٹ لینے مارکیٹ آیا تھا۔ پرفیوم خریدنے کے بعد اس کی نگاہ گلاس وال سے نظر آتے خوش رنگ پھولوں والے ریشمی اسکارف سے ٹکرائی تو اسے یاد آیا کہ ردا کو اسکارف بہت پسند تھے۔ وہ لینے کے ارادے سے اس بوتیک کی جانب بڑھا تو باہر نکلتی ایک لڑکی اچانک اس سے ٹکرا گئی۔ اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی اس کی نظروں میں زمین و آسمان گھوم گئے تھے۔ وہ مسحور ہو کر رہ گیا تھا۔
’’ایکسکیوزمی۔‘‘ مترنم آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تو وہ ہوش میں آیا۔ وہ راستہ مانگ رہی تھی۔ وہ معذرت کرتا ایک طرف ہو گیا اور وہ کسی خوشبودار جھونکے کی مانند گزرتی چلی گئی تھی۔
اس کے جانے کے بعد اس کا پیچھا کرنے کا خیال آیا تو اسے خود پر غصہ آنے لگا جس کی جگہ اب اداسی نے لے لی تھی۔ وہ بے دلی سے ردا کا گفٹ اٹھا کر گھر کے اندر داخل ہوا تھا جب اسے ایک بار پھر ساکت ہونا پڑا۔
بجری کی طویل روش پر دونوں باتیں کرتی گیٹ کی سمت ہی آ رہی تھیں۔ ردا بہت خفا تھی۔
’’تم کیا بس اپنی شکل دکھانے آئی تھیں۔ اس زحمت کی بھی کیا ضرورت تھی؟ وہ تو میں کل کالج میں دیکھ ہی لیتی۔‘‘
’’پلیز یار! تم تو جانتی ہو امن کو۔ جانے کہاں سے اچانک نمودار ہو گیا، ورنہ میں تو ڈرائیور کے ساتھ ہی آنے والی تھی۔ اب پھر کسی روز میں اور عنویٰ پورے دن کے لیے آئیں گے پکا پرامس۔‘‘ محض اسے منانے کی خاطر اس نے وعدہ بھی کر ڈالا تھا جس کے ایفا ہونے کا ردا کو ایک فیصد بھی یقین نہیں تھا، اس لیے ہنوز منہ پھلائے رکھا۔
’’اماں اور ثمرین بھابھی سے تو ملتی جاؤ۔‘‘ وہ اسے جانے کو پر تولتے دیکھ کر چلائی۔
’’پھر کسی روز۔‘‘ وہ اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے بولی۔
’’میں نے کیک بھی منگوا کر رکھا تھا۔ تمہارا فیورٹ پائن ایپل۔‘‘ اس نے ایک اور لالچ دینا چاہا۔
’’ہائے ! کیا کروں، مجبوری ہے۔‘‘ وہ اس کے گلے مل کر پیار کرتے ہوئے اللہ حافظ کہہ کر گیٹ عبور کر گئی۔
’’ارسل بھائی! آپ کب آئے ؟‘‘ واپس پلٹنے پر وہ ارسل کو دیکھ کر کھِل اٹھی تھی جس کی آنکھوں میں ستاروں کی سی چمک تھی اور چہرے پر روشنیاں پھوٹ رہی تھیں اسے اپنی خوش نصیبی پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ وہ جسے راستہ بھر ڈھونڈتا ہوا آیا تھا، وہ سفر کے اختتام پر ملی تھی۔
’’ہیپی برتھ ڈے۔‘‘ وہ اسے وش کرنے کے بعد اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا، ان راہوں پر جس پر ابھی اس کے قدموں کے نشان باقی تھے اور اسے اپنے پاؤں زمین پر نہیں، کہکشاؤں پر پڑتے محسوس ہو رہے تھے۔
دل خوشگوار لے پر دھڑک رہا تھا۔ برسوں بعد آنکھوں میں جیسے ٹھنڈک سی اتر آئی تھی۔
’’واؤ! بہت پیارا، اسکارف ہے اور ٹی روز تو میری فیورٹ خوشبو ہے۔‘‘ وہ اس کا گفٹ کھولنے کے بعد کھلے دل سے سراہ رہی تھی۔
’’ردا! یہ لڑکی کون تھی؟‘‘ اس نے گیٹ کی جانب یوں اشارہ کیا جیسے وہ ابھی تک وہیں کھڑی ہو۔
’’وہ سلویٰ تھی، ثمرین بھابھی کی کزن، میری دوست، کالج میں ہم ساتھ پڑھتے ہیں۔‘‘
’’سلو خالہ۔‘‘ اچانک اس کی سماعتوں میں ایمان اور زیب کی آواز گونجی۔ وہ چونکہ عادل کی شادی میں شریک نہیں ہوا تھا، اس لیے لاعلم تھا ورنہ وہ چھ سال قبل مل چکی ہوتی۔ وہ اپنے خیال پر خود ہی ہنسا۔
ان دنوں وہ انگلینڈ میں زیر تعلیم تھا اس کی مما کا انتقال اس کے بچپن میں ہی ہو چکا تھا اور والد انگلینڈ میں دوسری شادی کر چکے تھے۔ وہ پاکستان میں بالکل تنہا تھا یا پھر عادل اور اس کی فیملی تھی، جہاں وہ کبھی کبھار چلا آتا تھا۔
٭٭٭
’’ جا چکے ہیں مما اور بابا۔ اب تم مصنوعی بیماری کی ایکٹنگ کرنا بند کر دو۔‘‘ عنویٰ نے آ کر ایک جھٹکے سے چادر کھینچی۔
آج اس کے سسرال والوں نے ان لوگوں کو کھانے پر مدعو کیا تھا۔ اس نے سردرد کا بہانہ بنا کر جانے سے انکار کر دیا تھا۔ مما تو اس کا انکارسنتے ہی خفا ہو گئی تھیں۔
’’اکلوتی بہن ہے تمہاری۔ کیا سوچیں گے اس کے سسرال والے جب تم نہیں جاؤ گی۔‘‘
’’بھئی وہ کچھ بھی سوچیں لیکن جب اس کی طبیعت اچھی نہیں ہے تو زبردستی کا کیا جواز۔‘‘ حسب معمول بابا نے فوراً اس کی حمایت کی تھی۔
’’سلویٰ! اٹھ رہی ہو کہ نہیں ؟‘‘ مما نے آنکھیں دکھائیں مگر اسے پروا کب تھی۔
’’مما پلیز! سر میں بہت درد ہو رہا ہے۔‘‘ چہرے پر زبردستی تکلیف کے آثار نمودار کر لیے گئے تھے۔
’’اچھا! ٹھیک ہے۔ تم کوئی پین کلر لے کر آرام کرو۔‘‘ اس سے پہلے مما مزیذ کچھ کہتی پاپا نے اسے کمرے میں بھیج دیا تھا۔ تب سے وہ یونہی لیٹی تھی۔ اگر چلی جاتی تو پھر امن کی ناراضی کون جھیلتا۔ بعد میں پچھتانے سے اچھا تھا کہ پہلے ہی نتائج پر غور کر لیا جائے۔
’’یار سچ میں میرے سر میں درد ہے۔‘‘ وہ کسلمندی سے بولی۔
’’میں پکوڑے اور چائے بنا کر لائی ہوں۔ کھانے ہوں تو ٹیرس پر آ جاؤ۔‘‘
’’پکوڑے۔‘‘ اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ وہ فوراً اٹھ کر اس کے پیچھے بھاگی تھی۔
بادلوں سے ڈھکا آسمان، سبک روی سے چلتی ٹھنڈی خوشگوار ہوا اور چھم چھم برستی بوندیں، موسم نے کروٹ کیا بدلی تھی، ہر شے میں تازگی اور نکھار سمٹ آیا تھا۔ ساری کائنات نارنجی رنگ میں ڈھل چکی تھی۔
’’تمہیں عجیب نہیں لگتا سلویٰ! یہ کیسا پیار ہے، اتنا گھٹن زدہ کہ جس میں سانس لینا بھی دشوار ہو جائے ؟‘‘ اس کا اشارہ امن کی جانب تھا۔ ہتھیلی کی اوک میں جمع کرتی بوندوں کو سپرد ہوا کرتے ہوئے سلویٰ نے چونک کر اسے دیکھا۔
’’نہیں، مجھے کبھی گھٹن کا احساس نہیں ہوتا۔ اس کی چاہت تو میرا غرور ہے۔ اپنے معاملے میں مجھے اس کا پوزیسو ہونا اچھا لگتا ہے۔ اس کا مجھ پر رعب جمانا حق جتانا اس میں اپنائیت کا استحقاق کا اک مان بھرا احساس ہے۔ مجھے اس کی ہر بات مان کر خوشی ہوتی ہے۔‘‘
’’لیکن مجھے لگتا ہے جیسے امن کو پا کر تم ہم سے بہت دور ہو جاؤ گی۔ اگر اس نے کبھی ہم سے ملنے سے روکا تو تم اس کی یہ بات بھی مان لو گی۔‘‘ عنویٰ کو امن کی وجہ سے اس کا عنویٰ کے سسرال نہ جانا کچھ زیادہ ہی برا لگا تھا۔
’’ارے ! وہ ایسا کیوں چاہے گا۔‘‘ وہ برا مانتے ہوئے بولی۔
’’کیونکہ وہ تمہاری توجہ ہر پل صرف خود پر مرکوز چاہتا ہے۔ تم نے تو اگر اپنے بچوں سے بھی اس سے زیادہ محبت کی تو وہ اِن سے بھی نفرت کرنے لگے گا۔‘‘
’’اللہ نہ کرے۔‘‘ اس نے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے عنویٰ کو گھورا۔
’’تو پھر اس کی ہر بات مت مانا کرو۔‘‘
’’میں نہ بھی مانوں تو اسے منوانے کا ہنر آتا ہے۔ تمہیں نہیں پتا، وہ اگر دن کو بھی رات کہہ دے تو میں انکار نہیں کر سکتی۔‘‘
ٹیلی فون کی چنگھاڑتی بیل پر وہ دو، تین پکوڑے ایک ساتھ اٹھا کر نیچے بھاگی۔
’’ہیلو!‘‘ سانسیں بے ترتیب ہو رہی تھیں۔
’’السلام علیکم!‘‘ دوسری جانب شائستگی سے سلام کیا گیا تھا جبکہ گھمبیر مردانہ اجنبی آواز پر وہ سلام کا جواب دیتے ہوئے بھی ہچکچا گئی تھی۔
’’آپ سلویٰ ہیں ؟‘‘ کچھ لمحوں کی خامشی کے بعد استفسار کیا گیا۔
’’جی۔‘‘ وہ محض یہ ہی بول سکی تھی۔
’’میں ارسل ہوں۔‘‘ اپنا تعارف کروایا گیا۔
’’میں کسی ارسل صاحب کو نہیں جانتی۔‘‘ ساتھ ہی اس نے کھٹ سے ریسیور رکھ دیا اور غائب دماغی سے سوچنے لگی۔ ’’یہ ارسل کون ہے۔‘‘
مما اور بابا شام ڈھلے واپس آئے تھے۔ بابا نے بتایا کہ وہ اگلے ہفتے شادی کی تاریخ مقرر کرنے آئیں گے بس عنویٰ بھی اب چند دنوں کی مہمان تھی۔
٭٭٭
وہ ریسور ہاتھوں میں لیے گم صم سا بیٹھا رہ گیا تھا اس نے سوچا اس سلسلے میں ردا سے مدد لینی چاہیے لیکن آفس میں اتنا کام تھا کہ پورا ہفتہ اسے فرصت ہی نہ مل سکی تھی۔ آخر ویک اینڈ پر وہ ان کے گھر آیا تھا۔
’’ارے ! آج تم خود سے کیسے چلے آئے ؟ راستہ تو یاد رہا تھا نا؟‘‘ عادل مصنوعی تعجب کا اظہار کرتے ہوئے قدرے تشویش بھرے لہجے میں بولا۔ ورنہ آج سے پہلے تو وہی زبردستی اسے کھینچ تان کر لاتا تھا۔
’’بکو مت، گھر والے سب کہاں ہیں۔‘‘ اس نے محسوس کیا تھا سارے گھر میں ہی سناٹا چھایا ہوا تھا۔
’’اماں بی تو اس وقت قیلولہ فرما رہی ہیں۔ ثمرین، بچے اور ردا آج فاروق انکل کی جانب گئے ہیں۔ ان کی بیٹی کی شادی کی ڈیٹ فکس ہو رہی ہے نا۔‘‘
’’ان کی کون سی بیٹی؟‘‘ ارسل کا دم سینے میں ہی اٹک گیا تھا۔ فاروق تو سلویٰ کے بابا کا نام تھا۔
’’بڑی بیٹی۔‘‘ وہ بھی اپنے نام کا خبیث تھا۔ اب اسے بھلا کیا پتا کہ بڑی بیٹی کون سی ہے۔
’’وہ جسے بچے سلو خالہ کہتے ہیں ؟‘‘ وہ سر کھجاتے ہوئے سوچنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا تو عادل نے خاصی مشکوک نظروں سے اسے دیکھا تھا۔
’’تمہیں اس کا نام اتنا کیوں یاد ہے ؟‘‘ تفتیشی انداز میں پوچھا۔
’’نام کی مماثلت کی وجہ سے، کیونکہ ایمان مجھے بھی ’’سلو چاچا‘‘ کہتی ہے۔‘‘ اس نے دانت پیستے ہوئے بتایا تو وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔
’’نہیں اس کی بڑی بہن ہے، عنویٰ۔‘‘ ارسل کی کب کی رکی سانس بحال ہوئی تو دھڑکنوں نے اعتدال پکڑا تھا۔
’’میں چائے لے آؤں۔‘‘ وہ اٹھتے ہوئے بولا۔
’’شادی کب تک ہے ؟‘‘ وہ چائے بنا کر واپس آیا تو اس کے لبوں پرپھر وہی سوال تھا۔
’’ایک ہفتے بعد۔‘‘ اس نے پورا بسکٹ منہ میں رکھتے ہوئے بتایا۔
’’مجھے تو مدت ہوئی ہے کوئی فنکشن اٹینڈ کیے ہوئے۔‘‘ کھینچ تان کر چہرے پر مسکینیت اور آواز میں بے چارگی طاری کرنے میں کامیاب ہو ہی گیا تھا۔
’’تو اس میں اتنا افسردہ ہونے کی کیا بات ہے۔ ہمارے ساتھ چلنا۔ تمہاری وجہ سے مجھے بھی کمپنی رہے گی۔‘‘ عادل نے فوراً اس کے حسبِ منشا جواب دیا تھا اور اس نے مروتاً بھی انکار نہ کیا۔ عادل کا کیا بھروسا، اگر وہ مزید اصرار نہ کرتا تو …
گھر آنے کے بعد وہ از سر نو اپنے اپارٹمنٹ کی سیٹنگ کرنے میں مصروف ہو گیا تھا۔ پردے، فرنیچر، کارپٹ سب کچھ تبدیل کروایا تھا۔ گھر کے ہر حصے کی سجاوٹ وہ یوں کر رہا تھا جیسے وہ کوئی نئی نویلی دولہن ہو یا پھر عنویٰ کے بجائے ایک ہفتے بعد اس کی اپنی شادی ہونے والی ہو۔
’’ایک ہفتہ۔‘‘ اس نے انگلیوں پر دن گنے۔ بہت طویل انتظار لگا تھا۔
٭٭٭
گھر میں شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ ایک ہفتہ اور اتنے ڈھیر سارے کام۔ وہ تو گھن چکر بن کر رہ گئی تھی۔ سب سے بڑا مسئلہ تو شاپنگ کا تھا۔ ہر سوٹ امن کئی بار مسترد کر چکا تھا۔ پہلے اسے ساڑھی پر اعتراض ہوا تھا، پھر وہ لہنگا لے کر آئی تو اس نے کہا کہ یہ ڈریس اپنی شادی پر پہننا۔ اب وہ فراک لائی تھی تو اس کے رنگ پر اعتراض تھا۔
’’تمہیں پتا ہے، ریڈکلر میں تم اتنی حسین لگتی ہو کہ میں چاہتا ہوں، جب بھی تم یہ رنگ پہنو تو اس سنگھار پر صرف میرا حق ہو۔‘‘
اب تو مما نے بھی اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا تھا سو وہ ثمن کے ساتھ جا کر ایک ہی بار ساری شاپنگ کر آئی تھی۔ اب کی بار اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ ان چیزوں کی امن کو بھنک بھی نہیں لگنے دے گی، لیکن وہ دونوں ابھی بازار سے آ کر بیٹھی ہی تھیں کہ اس کے آمد ہو گئی۔
’’ماموں کہاں ہیں ؟‘‘ کرسی سنبھالتے ہوئے اس نے تھکے ہوئے لہجے میں استفسار کیا۔ ثمن اس دوران سارے شاپنگ بیگز اٹھا کر غیر محسوس انداز میں اٹھ کر اندر جا چکی تھی۔
’’بابا تو گھر میں نہیں ہیں۔ تمہیں کیا کام تھا؟‘‘ شام کی ٹھنڈی خوشگوار ہوا چل رہی تھی۔ دونوں اس وقت لان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے ہاتھ میں ایک ہی اورنج جوس کا گلاس تھا جو آدھا وہ اس کی آمد سے قبل خالی کر چکی تھی۔ باقی کا آدھا اس نے امن کی جانب بڑھا دیا۔
’’میں نہیں چاہتا کہ لیڈیز کو کھانا ویٹر سرور کریں۔‘‘ اس نے ایک گھونٹ لیتے ہوئے اپنی آمد کی وجہ بتائی تو سلویٰ کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔
’’امن! تم پاگل ہو؟‘‘ وہ جانتی تھی کہ ایسا وہ محض اس کی وجہ سے کہہ رہا ہے۔
’’مجھے جو بات نہیں پسند میں اس پر کمپرومائز نہیں کر سکتا اور کھانا میں سرو کروں گا۔ بس ماموں جان سے اجازت لینا تھی۔‘‘
’’اچھا تو اب تم میرے لیے ویٹر بنو گے ؟‘‘ وہ تپ ہی تو اٹھی تھی۔ وہ خاموش رہا۔
’’امن پلیز میں اس دوران برائیڈل روم میں چلی جاؤں گی۔ تم اس فکر میں خود کو ہلکان مت کرو کہ مجھے کوئی دیکھ لے گا۔‘‘ اس کی یقین دہانی پر وہ قدرے پرسکون سا ہو کر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ سلویٰ نے بے ساختہ شکر ادا کیا۔
تین روز قبل عنویٰ کو مایوں بٹھایا گیا تھا۔ ساتھ ہی ڈھولک بھی رکھ لی گئی تھی۔ خالہ کی فیملی، مما اور بابا کے کزن، عنویٰ کی فرینڈز سب نے مل جل کر خوب ہنگامہ مچائے رکھا۔
مہندی کی تقریب میں بھی اپنی فیملی اور چند قریبی دوست احباب ہی مدعو تھے۔ تقریب رات ایک بجے تک چلی تھی۔ اس کے بعد وہ اور عنویٰ جاگ کر باتیں کرتی رہی تھیں پھر سلویٰ نے اس کی آنکھوں پرہاتھ رکھ دیا۔
’’سوجاؤ اب صبح تمہیں دولہن بننا ہے۔‘‘
٭٭٭
رات سونے سے قبل اس کی آنکھوں میں جیسے رنگوں کی بارات اتر آئی تھی۔ وہ اس کی ایک جھلک دیکھ کر بے خود سا ہو چکا تھا۔
قرمزی رنگ کی فراک میں ملبوس پھولوں کا زیور پہنے وہ اتنی حسین لگ رہی تھی کہ اسے اپنے دل پر قابو رکھنا مشکل ہو گیا تھا۔ کچھ آنکھوں کی چوری کا خدشہ تھا کہ وہ تقریب ادھوری چھوڑ کر گھر چلا آیا۔
اور اب اس کی انگلیاں اک جانا پہچانا نمبر ڈائل کرنے میں مصروف تھیں۔ دوسری جانب بیل جا رہی تھی۔ وہ سانس روک کر جیسے اس کی ’’ہیلو‘‘ کا منتظر تھا۔ پھر کچھ سوچ کر ریسیور واپس رکھ دیا۔ جانتا تھا وہ فون پر کوئی بات نہیں سنے گی۔ اب اسے کل کا انتظار تھا مگر اس کا انتظار لا حاصل ہی رہا۔
پوری تقریب میں وہ اس کی ایک جھلک بھی نہیں دیکھ پایا تھا۔ نہ تو وہ داخلی راستے پر بارات کا استقبال کرنے آئی تھی، نہ ہی اسٹیج پر فوٹو شوٹ کروایا تھا، نہ ہی کسی رسم میں شرکت کی تھی۔ رخصتی کے ساتھ ہی وہ مایوس سا اٹھ کر گھر چلا آیا تھا۔
پھر کچھ روز خواب سجانے میں گزرے، لیکن اب خوابوں سے من نہیں بہلتا تھا، اسی لیے وہ ایک فیصلہ کر کے عادل کی جانب چلا آیا تھا۔
’’ہاں ارسل! آؤ۔‘‘ ہمیشہ کی طرح پرجوش استقبال مگر انداز میں گرمجوشی مفقود تھی۔ فضا میں عجیب سی اداسی رچی ہوئی تھی۔
کچن سے برتنوں کے پٹخنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ دونوں اٹھ کر لان میں چلے آئے۔
’’خیریت۔‘‘ ارسل نے بیٹھتے ہی کھوجتی نگاہوں سے اسے دیکھا۔
’’وہ ثمرین کا بھائی ہے نا امن، اس کی منگنی ٹوٹ گئی ہے۔‘‘
’’اوہ …‘‘ اس نے افسوس سے سر ہلایا۔
’’لیکن یہ کوئی بہت بڑی بات تو نہیں ہے۔‘‘ ارسل کو اس کا اتنا فکر مند ہونا عجیب سا لگا تھا۔
’’ہاں ! لیکن خاندان میں ایسی بات ہو جائے تو دوسرے بھی کئی رشتے اس کی زد میں آ جاتے ہیں۔‘‘
’’ہاں یہ تو ہے۔‘‘ اس نے سرسری سی تائید کر دی ورنہ اسے اس موضوع میں کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی۔
’’اچھا تم سناؤ۔‘‘ وہ چہرے پر بشاشت طاری کرتے ہوئے بولا۔
’’میں تم سے ایک فیور کے سلسلے میں آیا تھا۔‘‘ اس نے کچھ ہچکچاتے ہوئے تمہید باندھی تو عادل نے اسے مصنوعی خفگی سے گھورا۔
’’بلا جھجک کہو یار۔‘‘
’’وہ بھابی کی کزن ہے نا سلویٰ میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ لہجے کی مضبوطی بتا رہی تھی کہ ان میں پوشیدہ جذبے سطحی اور معمولی نہیں تھے۔
ردا اور عادل نے قدرے حیران نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ وہ ابھی ابھی چائے لے کر وہاں آئی تھی۔
’’امن کی نسبت بچپن سے ہی سلویٰ سے طے تھی اور اب سلویٰ نے اچانک اس سے شادی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔‘‘ اس نے گویا اپنی جانب سے دھماکا کیا تھا۔ ارسل ایک پل کے لیے چونکا پھر اطمینان سے چائے کا کپ لبوں سے لگا کر بولا۔
’’اب تم میرا پروپوزل لے کر جاؤ گے۔‘‘
’’ارسل بھائی! سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔ اس لڑکی کا ایک ماضی ہے۔‘‘ ردا کو ان کے اس فیصلے پر جہاں مسرت ہوئی تھی، وہیں وہ یہ بھی چاہ رہی تھی کہ وہ جذبات کے ساتھ ساتھ دماغ سے بھی کام لیں۔
’’ماضی پر میرا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘
اس کے جواب نے دونوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا تھا۔ عادل نے اپنے تعاون کا بھرپور یقین دلایا تھا۔ ثمرین تو کسی بھی صورت اپنے بھائی کی مخالفت کرنے کو تیار نہیں تھی، مگر اماں بی اور ردا کا ووٹ اس کے ساتھ تھا۔
٭٭٭
وہ ٹیرس پر کھڑی خالی نگاہوں سے لان کا جائزہ لینے میں مصروف تھی۔ درختوں کے پتے جھڑچکے تھے۔ ٹنڈ منڈ شاخیں کس قدر اجڑی اور ویران لگ رہی تھیں۔ کسی بھی شاخ پر کوئی پھول نہیں کھلا تھا۔ اداسی تھی جو اس کے وجود کے ساتھ ساتھ زرد موسم سے بھی لپٹی ہوئی تھی۔
’’باجی! آپ کے لیے پھول آئے ہیں۔‘‘ تب ہی ملازمہ ایک خوش رنگ پھولوں کا گلدستہ لیے چلی آئی تھی۔ اس نے پلٹ کر حیرت سے ان پھولوں کو دیکھا۔
’’بھلا اس موسم میں کون پھول بھیجے گا۔‘‘ اس نے کارڈ اٹھا کر دیکھا اس پر ایک نظم تحریر تھی۔
کچھ نئی منزلیں، کچھ نئے راستے
کچھ نئے مرحلے، کچھ نئے ضابطے
اک نئے آسمان کی تلاش میں
کچھ نئے پروں کو سنوار لیں
اک نئی پھر سے اڑان بھریں
نئی زندگی کے واسطے
سب غموں کو بھلا کر
اک نئے آشیاں کی تلاش میں
چلو!
نئے سرے سے سجاتے ہیں زندگی
… ارسل …
’’یہ ارسل کون ہے ؟‘‘ ساتھ ہی ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ مما اس وقت واش روم میں تھیں سو مجبوراً اسے ہی کال ریسیو کرنا پڑی تھی۔
’’ہیلو!‘‘ وہ بے زاری سے بولی تو وہ دوسری جانب انتہائی شوخ لہجے میں فرمایا گیا۔
’’جتنے پھول آپ کو بھیجے ہیں نا! آئندہ برسوں کی زرد رتوں میں آپ کو ایک ایک کر کے سارے پھول لوٹانے ہوں گے۔ میں ہر سال منتظر رہوں گا …‘‘ پوری بات سنے بغیر اس نے کھٹ سے ریسیور رکھ دیا تھا۔
اسے یاد تھا کہ مما دو روز قبل اس پر اس رشتے کے لیے زور دے رہی تھیں۔ اس کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا۔
وہ سب جو ہوا تھا وہ ابھی بھلا نہیں پائی تھی۔
امن نے اس سے ایسا کیا کہہ دیا تھا کہ پھر اس کے بعد سب ختم ہو گیا۔
اسے سوچنے کی ضرورت نہیں تھی وہ بات تو ہرپل اس کے دماغ میں گردش کرتی تھی۔
عنویٰ اپنی شادی کے بعد پہلی بار رہنے کے لیے آئی تھی۔ ایک ہفتے بعد عمر اسے لینے آیا تھا۔
سب لان میں بیٹھے چائے اور پکوڑوں کے ساتھ ساتھ باتوں سے بھی لطف اندوز ہو رہے تھے۔ تب ہی مما فون کال ریسیو کرنے اٹھ کر چلی گئی تھیں۔ عنویٰ کو اپنی پیکنگ کرنی تھی۔ پیچھے وہ اور عمر ہی رہ گئے تھے۔ وہ اخلاقاً مسکراتے ہوئے اسے کچھ دیر کے لیے کمپنی دینے پر مجبور ہوئی تھی، جب اچانک امن چلا آیا تھا۔ اس کے بیٹھنے کے بعد وہ اٹھ کر اندر چلی آئی تھی۔
کچھ دیر بعد عنویٰ کو رخصت کرنے کے بعد مما پھوپھو کی جانب چلی گئی تھیں۔ وہ ٹیرس پر رکھے گملوں کو پانی دینے میں مگن تھی، جب وہ بگڑے تیوروں سمیت اس کے سر پر آن کھڑا ہوا۔
’’میں نے تمہیں عمر کے ساتھ زیادہ فرینک ہونے سے منع کیا تھا اور تم لان میں اس کے ساتھ تنہا بیٹھی قہقہے لگا رہی تھیں۔‘‘ اس کا لہجہ اس قدر ہتک آمیز تھا کہ سلویٰ کو اپنے کانوں کی لوئیں سلگتی محسوس ہوئیں۔
’’امن! مائنڈیور لینگویج۔‘‘ وہ تحمل سے بولی۔
’’تم جیسی لڑکیاں اسی طرح ادائیں دکھا کر دوسروں کے دل میں امید پیدا کرتی ہو۔‘‘ امن نے اس کی جانب انگلی اٹھائی تھی اور سلویٰ کو پورے کا پورا آسمان اپنے سر پر گرتا محسوس ہوا تھا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتی رہ گئی۔
’’امن۔‘‘ ادائیں دکھا کر دل میں امید پیدا کرنے کا الزام … وہ بھی کس کے دل میں … ؟ عمر جو اس کا بہنوئی تھا … اس کی اکلوتی بہن کا محبوب شوہر۔
اسے لگا جیسے منوں کے حساب سے غلاظت اٹھا کر کسی نے اس کے وجود پر مل دی ہو۔ اس کا اپنا دل وجود ہی اس کے لیے تعفن زدہ ہو گیا تھا۔ وہ رات بھر ایک ہی زاویے پر سپاٹ سی بیٹھی رہی تھی۔
تیسرے پہر کے بعد موبائل کی بپ بجی۔ اس نے اٹھا کر دیکھا۔ ایس ایم ایس تھا۔
’’سوری! میں شاید کچھ زیادہ ہی بول گیا تھا۔‘‘ اس نے موبائل اٹھا کر سامنے دیوار پر دے مارا، اور اگلے ہی دن اس نے انگوٹھی اتار کر پھوپھو کو دے دی تھی۔
اس کے بعد دونوں گھروں میں بھونچال سا آ گیا تھا۔ ہر کوئی اسے منانے اور سمجھانے آیا تھا، مگر اس کا انکار، اقرار میں نہیں بدلا تھا۔ بابا تو باقاعدہ اس سے خفا تھے، البتہ مما کو اس نے سب بتادیا تھا۔ وہ اس کے ساتھ تھیں، اسی لیے اب ارسل کے رشتے کے لیے اصرار کر رہی تھیں۔
امن اس روز کے بعد کئی بار آیا تھا، مگر اس نے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ بات اگر اس نے کسی اور کے ساتھ منسوب کی ہوتی تو وہ روتی، خفا ہوتی، لیکن پھر اس کے منانے پر مان جاتی، مگر اس نے رشتوں کا تقدس پامال کیا تھا اور اسے اپنا دل، اپنی عزتِ نفس اور پارسائی سے زیادہ عزیز نہیں تھا۔
پل میں فیصلہ ہوا تھا اور اس نے ارسل کے لیے ہاں کر دی تھی۔
٭٭٭
وہ آج اس قدر خوش تھا کہ اگر اس کا بس چلتا تو برقی قمقموں کی جگہ اپنے اپارٹمنٹ کو ستاروں سے سجا دیتا چاند پر ’’خوش آمدید‘‘ لکھ کر اسے دروازے پر ٹانک دیتا، لیکن اس کی دسترس میں تو محض پھول تھے اور اس نے ان ہی سے سارا اپارٹمنٹ بھر دیا تھا۔
٭٭٭
سلویٰ کے نکاح میں صرف ایک روز باقی تھا۔ زیادہ لوگ مدعو نہیں تھے۔ اس نے سادگی پر اصرار کیا تھا اور بابا نے اس کی بات مان لی تھی۔
مما نے اسے جوس پلا کر کچھ دیر آرام کرنے کے لیے کہا تھا۔ وہ اٹھ کر صوفے پر نیم دراز ہو گئی تھی اور اب اس کے دماغ میں عجیب سی آوازیں گونجنے لگی تھیں۔ وہ آوازیں جنہیں وہ کل سے جھٹکنے کی کوشش کر رہی تھی، مگر شاید وہ اس کی قوت مدافعت سے زیادہ زور آور تھیں۔
اندر کی آوازیں ناقابل برداشت ہوئیں تو وہ باہر لان میں چلی آئی۔ چند گہری سانسیں لے کر اس نے اندر کے غبار کو لان کی فضا میں تحلیل کرنا چاہا، مگر بے سود۔ اس نے لہلہاتے جھومتے پودوں پر نظر ڈالی۔ ڈالی ڈالی پر اس کا لمس ثبت تھا۔ اور پتے پتے پر اس کی یادیں رقم تھیں۔ وہ گلاب کے پودے کے پاس چلی آئی۔ اس کے پتوں پر ہاتھ پھیرا تو اسے وہ وقت یاد آ گیا، جب امن نے اس کی توجہ کھینچ لینے کے جرم میں اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا۔ بعد میں سلویٰ نے اسے دوبارہ وہیں لگا دیا تھا۔ اس نے اسے بغور دیکھا۔ وہ اسے اپنی طرح مرجھایا ہوا محسوس ہوا۔ جڑیں ایک بار اپنی مٹی چھوڑ جائیں تو پھر پہلے کی طرح کہاں پنپ سکتی ہیں بھلا امن اس کی یادوں سے نکل کر اچانک اس کی سماعتوں میں بولا۔
’’سوری پلیز! مجھے معاف کر دو۔ بس غصے میں میرا دماغ الٹ گیا تھا اور میں وہ سب بول گیا۔‘‘
اس نے مڑ کر دیکھا۔ بکھرا بکھرا، ملول سا امن چہرے پر شرمندگی لیے اس کے بالکل پیچھے کھڑا تھا۔ ملگجے کپڑے، بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ اسے پہچاننا مشکل لگا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر سلویٰ کا دل دھک سے رہ گیا۔
چہرے پر شرمندگی تھی۔ ایک پل کے لیے اس کی دنیا ڈگمگائی تھی، مگر اگلے ہی لمحے اس کا فیصلہ ایک چٹان کی صورت اس کے سامنے کھڑا تھا۔ کل اس کا نکاح ہونے والا تھا۔ اب اسے اپنے والدین کی عزت، اپنی خود داری اور ارسل کی بے لوث محبت کا مان رکھنا تھا۔ وہ امن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پورے اعتماد سے گویا ہوئی۔
’’اعتبار، محبت کا سب سے بڑا سنگھار ہے۔ اعتبار کے زیور سے محبت کی دلہن آراستہ ہوتی ہے، مگر جہاں اعتبار نہ ہو، وہاں محبت دلہن کے بجائے ’’بیوہ‘‘ کا روپ دھار لیتی ہے۔ تمہاری بخشی ہوئی زرد رتوں میں کسی نے خوشی کا پہلا پھول کھلایا ہے۔ میں اسے مایوس نہیں کر سکتی۔ جس نے میرا ماضی فراموش کر مجھے محبت کا اعتماد بخشا ہے۔
میں اب ارسل سے منسوب ہو چکی ہوں۔ کل میرا نکاح ہے … اور ایم سوری! مجھے اس طرح لان میں تنہا کھڑے ہو کر تم سے بات نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ میں اب کسی کی امانت ہوں۔‘‘
وہ یہ کہہ کر وہاں رکی نہیں۔ اس نے اس پر نگاہ ڈالے بغیر اندر کی طرف قدم بڑھا دیے۔
امن اپنی ’’بیوہ محبت‘‘ کے ساتھ تھکے تھکے قدموں سے باہر نکل گیا۔
٭٭٭
تشکر: کتاب ایپ
ای پب سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی باز تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں