فہرست مضامین
- راگ میں آگ
- احمد راہی
- جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
- دل کے سنسان جزیروں کی خبر لائے گا
- دل کے ویران راستے بھی دیکھ
- دن کو رہتے جھیل پر دریا کنارے رات کو
- دن گزرتا ہے کہاں رات کہاں ہوتی ہے
- طویل راتوں کی خامشی میں مری فغاں تھک کے سو گئی ہے
- غم حیات میں کوئی کمی نہیں آئی
- قد و گیسو لب و رخسار کے افسانے چلے
- لمحہ لمحہ شمار کون کرے
- محفل محفل سناٹے ہیں
- کوئی حسرت بھی نہیں کوئی تمنا بھی نہیں
- کوئی ماضی کے جھروکوں سے صدا دیتا ہے
- میں دل زدہ ہوں اگر دل فگار وہ بھی ہیں
- وہ بے نیاز مجھے الجھنوں میں ڈال گیا
- یہ داستان غم دل کہاں کہی جائے
- جاؤ، شیشے کے بدن لے کے کدھر جاؤ گے
- قیام دیر و طواف حرم نہیں کرتے
- عام ہے کوچہ و بازار میں سرکار کی بات
- گردشِ جام نہیں، گردشِ ایام تو ہے
- کبھی حیات کا غم ہے، کبھی تِرا غم ہے
- دل پہ جب درد کی اُفتاد پڑی ہوتی ہے
- جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
- احمد راہی
راگ میں آگ
احمد راہی
جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
دل کے سنسان جزیروں کی خبر لائے گا
درد پہلو سے جدا ہو کے کہاں جائے گا
کون ہوتا ہے کسی کا شب تنہائی میں
غم فرقت ہی غم عشق کو بہلائے گا
چاند کے پہلو میں دم سادھ کے روتی ہے کرن
آج تاروں کا فسوں خاک نظر آئے گا
راگ میں آگ دبی ہے غم محرومی کی
راکھ ہو کر بھی یہ شعلہ ہمیں سلگائے گا
وقت خاموش ہے روٹھے ہوئے یاروں کی طرح
کون لو دیتے ہوئے زخموں کو سہلائے گا
زندگی چل کے ذرا موت کے دم خم دیکھیں
ورنہ یہ جذبہ لحد تک ہمیں لے جائے گا
٭٭٭
دل کے ویران راستے بھی دیکھ
آنکھ کی مار سے پرے بھی دیکھ
چار سو گونجتے ہیں سناٹے
کبھی سنسان مقبرے بھی دیکھ
کانپتی ہیں لویں چراغوں کی
روشنی کو قریب سے بھی دیکھ
سوزش فرقت مسلسل ہے
آنچ دیتے ہیں قہقہے بھی دیکھ
بند ہونٹوں کی نغمگی بھی سن
سوتی آنکھوں کے رت جگے بھی دیکھ
دیکھنا ہو اگر کمال اپنا
آئینہ دیکھ کر مجھے بھی دیکھ
٭٭٭
دن کو رہتے جھیل پر دریا کنارے رات کو
یاد رکھنا چاند تارو اس ہماری بات کو
اب کہاں وہ محفلیں ہیں اب کہاں وہ ہم نشیں
اب کہاں سے لائیں ان گزرے ہوئے لمحات کو
پڑ چکی ہیں اتنی گرہیں کچھ سمجھ آتا نہیں
کیسے سلجھائیں بھلا الجھے ہوئے حالات کو
کتنی تھیں طوفانی راتیں جن میں دو دیوانے دل
تھپکیاں دیتے رہے بھڑکے ہوئے جذبات کو
درد میں ڈوبی ہوئی لے بن گئی ہے زندگی
بھول جاتے کاش ہم الفت بھرے نغمات کو
وہ کہ اپنے پیار کی تھی بھیگی بھیگی ابتدا
یاد کر کے رو دیا دل اس برسات کو
٭٭٭
دن گزرتا ہے کہاں رات کہاں ہوتی ہے
درد کے ماروں سے اب بات کہاں ہوتی ہے
ایک چہرے تو ہوتے ہیں کئی دنیا میں
ایک سی صورت حالات کہاں ہوتی ہے
زندگی کے وہ کسی موڑ پہ گاہے گاہے
مل تو جاتے ہیں ملاقات کہاں ہوتی ہے
آسمانوں سے کوئی بوند نہیں برسے گی
جلتے صحراؤں میں برسات کہاں ہوتی ہے
یوں تو اوروں کی بہت باتیں سنائیں ان کو
اپنی جو بات ہے وہ بات کہاں ہوتی ہے
جیسی آغاز محبت میں ہوا کرتی ہے
ویسی پھر شدت جذبات کہاں ہوتی ہے
پیار کی آگ بنا دیتی ہے کندن جن کو
ان کے ذہنوں میں بھلا ذات کہاں ہوتی ہے
٭٭٭
طویل راتوں کی خامشی میں مری فغاں تھک کے سو گئی ہے
تمہاری آنکھوں نے جو کہی تھی وہ داستاں تھک کے سو گئی ہے
گلا نہیں تجھ سے زندگی کے وہ زاویے ہی بدل چکے ہیں
مری وفا وہ ترے تغافل کی نوحہ خواں تھک کے سو گئی ہے
مرے خیالوں میں آج بھی خواب عہد رفتہ کے جاگتے ہیں
تمہارے پہلو میں کاہش یاد آستاں تھک کے سو گئی ہے
سحر کی امید اب کسے ہے سحر کی امید ہو بھی کیسے
کہ زیست امید و نا امیدی کے درمیاں تھک کے سو گئی ہے
نہ جانے میں کس ادھیڑ بن میں الجھ گیا ہوں کہ مجھ کو راہیؔ
خبر نہیں کچھ وہ آرزوئے سکوں کہاں تھک کے سو گئی ہے
٭٭٭
غم حیات میں کوئی کمی نہیں آئی
نظر فریب تھی تیری جمال آرائی
وہ داستاں جو تری دلکشی نے چھیڑی تھی
ہزار بار مری سادگی نے دہرائی
فسانے عام سہی میری چشم حیراں کے
تماشا بنتے رہے ہیں یہاں تماشائی
تری وفا تری مجبوریاں بجا لیکن
یہ سوزش غم ہجراں یہ سرد تنہائی
کسی کے حسن تمنا کا پاس ہے ورنہ
مجھے خیال جہاں ہے نہ خوف رسوائی
میں سوچتا ہوں زمانے کا حال کیا ہو گا
اگر یہ الجھی ہوئی زلف تو نے سلجھائیں
کہیں یہ اپنی محبت کی انتہا تو نہیں
بہت دنوں سے تری یاد بھی نہیں آئی
٭٭٭
قد و گیسو لب و رخسار کے افسانے چلے
آج محفل میں ترے نام پہ پیمانے چلے
ابھی تو نے دل شوریدہ کو دیکھا کیا ہے
موج میں آئے تو طوفانوں سے ٹکرانے چلے
دیکھیں اب رہتا ہے کس کس کا گریاں ثابت
چاک دل لے کے تری بزم سے دیوانے چلے
پھر کسی جشن چراغاں کا گماں ہے شاید
آج ہر سمت سے پر سوختہ پروانے چلے
یہ مسیحائی بھی اک طرفہ تماشا ہے کہ جب
دم الٹ جائے تو وہ زخموں کو سہلانے چلے
جس نے الجھایا ہے کتنے ہی دلوں کو یارو
ہم بھی اس زلف گرہ گیر کو سلجھانے چلے
٭٭٭
لمحہ لمحہ شمار کون کرے
عمر بھر انتظار کون کرے
کوئی وعدہ بھی تو وفا نہ ہوا
بے وفاؤں سے پیار کون کرے
شب تیرہ و تار کا دامن
دیکھیے تار تار کون کرے
دوستی اک لفظ بے معنی
کس پہ اب انحصار کون کرے
اے غم دوست تیرے ہوتے ہوئے
غم لیل و نہار کون کرے
تیرے اس درد لادوا کا علاج
دل زار و نزار کون کرے
سلسلہ ٹوٹنا تھا ٹوٹ گیا
اب اسے استوار کون کرے
٭٭٭
محفل محفل سناٹے ہیں
درد کی گونج پہ کان دھرے ہیں
دل تھا شور تھا ہنگامے تھے
یارو ہم بھی تم جیسے ہیں
موج ہوا میں آگ بھری ہے
بہتے دریا کھول اٹھے ہیں
ارمانوں کے نرم شگوفے
شاخوں کے ہمراہ جلے ہیں
یہ جو ڈھیر ہیں یہ جو کھنڈر ہیں
ماضی کی گلیاں کوچے ہیں
جن کو دیکھنا بس میں نہیں تھا
ایسے بھی منظر دیکھے ہیں
کون دلوں پر دستک دے گا
یادوں نے دم سادھ لیے ہیں
٭٭٭
کوئی حسرت بھی نہیں کوئی تمنا بھی نہیں
دل وہ آنسو جو کسی آنکھ سے چھلکا بھی نہیں
روٹھ کر بیٹھ گئی ہمت دشوار پسند
راہ میں اب کوئی جلتا ہوا صحرا بھی نہیں
آکے کچھ لوگ ہمیں دیکھ کے ہنس دیتے تھے
اب یہ عالم ہے کوئی دیکھنے والا بھی نہیں
درد وہ آگ کہ بجھتی نہیں جلتی بھی نہیں
یاد وہ زخم کہ بھرتا نہیں رستا بھی نہیں
بادباں کھول کے بیٹھے ہیں سفینوں والے
پار اترنے کے لیے ہلکا سا جھونکا بھی نہیں
٭٭٭
کوئی ماضی کے جھروکوں سے صدا دیتا ہے
سرد پڑتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتا ہے
دل افسردہ کا ہر گوشہ چھنک اٹھتا ہے
ذہن جب یادوں کی زنجیر ہلا دیتا ہے
حال دل کتنا ہی انسان چھپائے یارو
حال دل اس کا تو چہرہ ہی بتا دیتا ہے
کسی بچھڑے ہوئے کھوئے ہوئے ہم دم کا خیال
کتنے سوئے ہوئے جذبوں کو جگا دیتا ہے
ایک لمحہ بھی گزر سکتا نہ ہو جس کے بغیر
کوئی اس شخص کو کس طرح بھلا دیتا ہے
وقت کے ساتھ گزر جاتا ہے ہر اک صدمہ
وقت ہر زخم کو ہر غم کو مٹا دیتا ہے
٭٭٭
میں دل زدہ ہوں اگر دل فگار وہ بھی ہیں
کہ درد عشق کے اب دعویدار وہ بھی ہیں
ہوا ہے جن کے کرم سے دل و نظر کا زیاں
بہ فیض وقت مرے غم گسار وہ بھی ہیں
شہید جذبوں کی فہرست کیا مرتب ہو
شمار میں جو نہیں بے شمار وہ بھی ہیں
دل تباہ! یہ آثار ہیں قیامت کے
رہین گردش لیل و نہار وہ بھی ہیں
حریم حسن کے تزئین تھے جو پیکر ناز
بہ حال زار سر رہ گزار وہ بھی ہیں
وہ جن سے عام ہوئی داستان عہد جنوں
ترے گنہ دل ناکردہ کار وہ بھی ہیں
٭٭٭
وہ بے نیاز مجھے الجھنوں میں ڈال گیا
کہ جس کے پیار میں احساس ماہ و سال گیا
ہر ایک بات کے یوں تو دیے جواب اس نے
جو خاص بات تھی وہ ہر بار ہنس کے ٹال گیا
کئی سوال تھے جو میں نے سوچ رکھے تھے
وہ آ گیا تو مجھے بھول ہر سوال گیا
جو عمر جذبوں کا سیلاب بن کے آئی تھی
گزر گئی تو لگا دور اعتدال گیا
وہ ایک ذات جو خواب و خیال لائی تھی
اسی کے ساتھ ہر ایک خواب ہر خیال گیا
اسے تو اس کا کوئی رنج بھی نہ ہو شاید
کہ اس کی بزم سے کوئی شکستہ حال گیا
٭٭٭
یہ داستان غم دل کہاں کہی جائے
یہاں تو کھل کے کوئی بات بھی نہ کی جائے
تمہارے ہاتھ سہی فیصلہ مگر پھر بھی
ذرا اسیر کی روداد تو سنی جائے
یہ رات دن کا تڑپنا بھی کیا قیامت ہے
جو تم نہیں تو تمہارا خیال بھی جائے
اب اس سے بڑھ کے بھلا اور کیا ستم ہو گا
زبان کھل نہ سکے آنکھ دیکھتی جائے
یہ چاک چاک گریباں نہیں ہے دیوانے
جسے بس ایک چھلکتی نظر ہی سی جائے
کوئی سبیل کہ یہ سحر جاں گسل ٹوٹے
کوئی علاج کہ یہ دور بے بسی جائے
٭٭٭
جاؤ، شیشے کے بدن لے کے کدھر جاؤ گے
لوگ پتھر کے ہیں چھُو لیں گے بکھر جاؤ گے
مسکراہٹ کی تمنا لیے نکلو گے، مگر
اک صفر لے کے فقط شام کو گھر جاؤ گے
چاند سونے کے پہاڑوں سے نہیں اترے گا
تم سمندر ہو،۔۔ ۔۔ بہرحال اتر جاؤ گے
میں تو خوشبو ہوں فضاؤں میں بکھر جاؤں گا
مجھ سے روٹھو گے مرے پھول تو مر جاؤ گے
٭٭٭
قیام دیر و طواف حرم نہیں کرتے
زمانہ ساز تو کرتے ہیں، ہم نہیں کرتے
تمہاری زلف کو سلجھائیں گے وہ دیوانے
جو اپنے چاکِ گریباں کا غم نہیں کرتے
اتر چکا ہے رگ و پے میں زہرِ غم پھر بھی
بپاسِ عہدِ وفا، چشم نم نہیں کرتے
یہ اپنا دل ہے کہ اس حال میں بھی زندہ ہے
ستم کچھ اہلِ ستم، ہم پہ کم نہیں کرتے
ق
گرفتہ دل ہیں بتانِ حرم کہ اب شاعر
نشاط و عیش کے ساماں بہم نہیں کرتے
سنا رہے ہیں جہاں کو حدیثِ دار و رسن
حکایتِ قد و گیسو رقم نہیں کرتے
وہ آستانِ شہی ہو کہ آستانۂ دوست
یہ اب کہیں سرِ تسلیم خم نہیں کرتے
٭٭٭
عام ہے کوچہ و بازار میں سرکار کی بات
اب سر راہ بھی ہوتی ہے، سرِ دار کی بات
ہم جو کرتے ہیں کہیں مصر کے بازار کی بات
لوگ پا لیتے ہیں یوسفؔ کے خریدار کی بات
مدتوں لب پہ رہی نرگسِ بیمار کی بات
کیجیے اہلِ چمن، اب خلشِ خار کی بات
غنچے دل تنگ، ہوا بند، نشیمن ویراں
باعثِ مرگ ہے میرے لیے غمخوار کی بات
بُوئے گل لے کے صبا کنجِ قفس تک پہنچی
لاکھ پردوں میں بھی پھیلی شبِ گلزار کی بات
زندگی درد میں ڈوبی ہوئی لے ہے راہیؔ
ایسے عالم میں کسے یاد رہے پیار کی بات
٭٭٭
گردشِ جام نہیں، گردشِ ایام تو ہے
سعئ ناکام سہی، پھر بھی کوئی کام تو ہے
دل کی بے تابی کا آخر کہیں انجام تو ہے
میری قسمت میں نہیں، دہر میں آرام تو ہے
مائلِ لطف و کرم حسنِ دلآرام تو ہے
میری خاطر نہ سہی، کوئی سرِ بام تو ہے
تُو نہیں میرا مسیحا، میرا قاتل ہی سہی
مجھ سے وابستہ کسی طور تِرا نام تو یے
حلقۂ موج میں ایک اور سفینہ آیا
ساحلِ بحر پر کہرام کا ہنگام تو ہے
تنگ دستو، تہی دامانو، کرو شکرِ خدا
مئے گلفام نہیں ہے، شفقِ شام تو ہے
٭٭٭
کبھی حیات کا غم ہے، کبھی تِرا غم ہے
ہر ایک رنگ میں ناکامیوں کا ماتم ہے
خیال تھا تِرے پہلو میں کچھ سکون ہو گا
مگر یہاں بھی وہی اضطرابِ پیہم ہے
مِرے حبیب، مِری مسکراہٹوں پہ نہ جا
خدا گواہ، مجھے آج بھی تِرا غم ہے
سحر سے رشتۂ امید باندھنے والے
چراغِ زیست کی لو شام ہی سے مدھم ہے
یہ کس مقام پہ لے آئی زندگی راہیؔ
قدم قدم پہ جہاں بے بسی کا عالم ہے
٭٭٭
دل پہ جب درد کی اُفتاد پڑی ہوتی ہے
دوستو! وہ تو قیامت کی گھڑی ہوتی ہے
جس طرف جائیں، جہاں جائیں بھری دنیا میں
راستہ روکے تِری یاد کھڑی ہوتی ہے
جس نے مَر مَر کے گزاری ہو، یہ اس سے پوچھو
- ہِجر کی رات بھلا کتنی کڑی ہوتی ہے
ہنستے ہونٹوں سے بھی جھَڑتے ہیں فسانے غم کے
خشک آنکھوں میں بھی ساون کی جھَڑی ہوتی ہے
جب کوئی شخص، کہیں ذکرِ وفا کرتا ہے
دل کو اے دوستو! تکلیف بڑی ہوتی ہے
اس طرح بیٹھے ہیں وہ آج مِری محفل میں
جس طرح شیشے میں تصویر جَڑی ہوتی ہے
٭٭٭
مآخذ:
http://xericarien.blogspot.com
http://urdupoetrysite.blogspot.com
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید