خوف
نوشاد عادل
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں
ایک طویل سسکاری اس کے حلق سے خارج ہو گئی، وہ بری طرح ہانپنے لگا۔
اس کی کنپٹی سے پسینے کی بوندیں بہہ بہہ کر ٹھوڑی کے نیچے جمع ہونے لگیں۔ گرمی کی حدت اسے اس حد تک محسوس ہو رہی تھی، جیسے اس کے قریب آگ کا بہت بڑا لاؤ روشن ہو اور وہ اس کی تپش سے بری طرح جھلس رہا ہو۔
آج موسم بڑا خوش گوار تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں، مگر اس کا وجود جیسے پسینے سے بھیگ گیا تھا۔ اس نے ایک ہاتھ موٹی شاخ پر مضبوطی سے جما لیا اور دوسرے ہاتھ کے بازو سے ماتھے پر اُبھرنے والی ننھی ننھی بوندوں کو صاف کیا۔ پھر اپنی ہتھیلی کا جائزہ لیا، جو نوک دار ٹہنیوں میں اُلجھنے کے باعث چھل گئی تھی، اور اس میں سے ہلکا ہلکا خون رِسنا شروع ہو گیا تھا۔ اس نے ایک نظر اوپر ڈالی۔ گیند اوپر ٹہنیوں میں اٹکی ہوئی تھی اور اسے اُتار لانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ ناصر کا چیلنج اس نے دوسرے دوستوں کے سامنے قبول کیا تھا۔ اس نے کن انکھیوں سے نیچے دیکھا۔ تمام دوست منہ اٹھائے اس کی جانب دیکھ رہے تھے۔ کاشف، فہیم، سمیع، جنید اور ناصر… اس نے نفرت زدہ انداز میں ہونٹ کاٹتے ہوئے ناصر کو ترچھی نگاہوں سے گھورا اور اوپری شاخ پر چڑھنے کے لیے جد و جہد کرنے لگا۔ ناصر نے اس کی چبھتی ہوئی نگاہوں کے مفہوم کو سمجھ لیا تھا اور اس لیے اس سے خاموش نہ رہا گیا، وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔
’’ماجد بچے … کیا ہوا… چوٹ تو نہیں لگ گئی کہیں … یا ڈر لگ رہا ہے ؟‘‘۔
’’نہیں میں ٹھیک ہوں …‘‘ اس نے بمشکل اپنی آواز میں سکون بناتے ہوئے کہا، مگر اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو پایا۔
’’ارے دیکھو تو ذرا… چہرے کا رنگ خوف کے مارے کیسا پیلا پڑ گیا ہے … بچے نیچے اتر آؤ، یہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔ ‘‘ ناصر استہزائیہ انداز میں بولا ’’زیادہ ڈر لگ رہا ہے تو سیڑھی لے آؤں ؟‘‘۔
’’نہیں میں گیند اتار کر ہی آؤں گا۔ ‘‘ ماجد نے مضبوط لہجے میں کہا، حالاں کہ اس وقت اس کے جسم کا رواں رواں کانپ رہا تھا، مگر اس نے اپنے لہجے سے ظاہر نہیں ہونے دیا۔
’’آپ لوگوں نے دیکھی ماجد کی بہادری… کیسے عزم کے ساتھ کہہ رہا ہے کہ گیند لے کر اتروں گا مگر دیکھو تو سہی… بہادر کی ٹانگیں تو نہیں کپکپا کرتیں۔ ‘‘ ناصر کی باتیں سن کر دیگر لڑکے بھی ہنسنے لگے۔
ماجد ساکت رہ گیا اور حتی الامکان اپنے کانپتے وجود پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگا۔
’’ماجد مرغی… درخت پر چڑھی بانگ لگانے …‘‘ اچانک ایک تیز آواز ابھری، سارے لڑکے قہقہے لگانے لگے۔
وہ تلملا کر رہ گیا، خوف کے احساس پر غصہ غالب آنے لگا۔
’’خاموش…‘‘ اس نے چلا کر کہا ’’میں ماجد صدیقی ہوں … میرا نام کیوں بگاڑ رہے ہو…؟‘‘۔
’’لیکن تمہارے کام سارے مرغیوں والے ہیں ڈرپوک مرغی۔ ‘‘ ناصر نے تحقیر آمیز انداز میں منہ بنایا، ماجد دانت پیس کر رہ گیا۔
ایک عرصے سے وہ ان کی بکواس سنتا آیا تھا۔ وہ اس کے دوست تھے، مگر دوستوں میں مذاق برابر سے ہوتا ہے اور وہ صرف اور صرف اسے ہی نشانہ بناتے تھے۔ خاص طور پر ناصر اسے چھیڑنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔ اسے ان سب سے نفرت محسوس ہونے لگی تھی۔
’’ماجد مرغی‘۔ ‘ کوئی دوبارہ چلایا اور پھر سب کے قہقہے گونجنے لگے، تمسخر اڑاتے قہقہے … ماجد نے شدت سے اپنی آنکھیں بھینچ لیں۔ اسے ناصر کی آواز سے ہی نفرت محسوس ہونے لگی تھی اگرچہ وہ اس کا پرانا دوست تھا، اور کلاس فیلو ہونے کے ساتھ ساتھ پڑوسی بھی تھا، مگر پھر بھی بہترین دوست ثابت نہیں ہوا، بلکہ ماجد کا تو کوئی بھی بہترین دوست نہ تھا اور اب وہ سب دوست اس کے دشمن بنتے جا رہے تھے، جو نیچے کھڑے طرح طرح کی آوازیں کس رہے تھے۔
’’ماجد… کب تک لٹکے رہو گے ٹارزن کی طرح… گیند اُتارنا تمہارے بس کی بات نہیں …‘‘ فہیم نے آواز لگائی۔
’’لو بھئی لو… ماجد مرغی ترقی کر کے ٹارزن بن گیا… ڈیڑھ پسلی کا ٹارزن…‘‘ سمیع نے قہقہہ لگایا۔
’’تم لوگوں نے اسے پہچاننے میں غلطی کر لی۔ ‘‘ ناصر کی کاٹ دار آواز اس کے کانوں میں چبھنے لگی۔ ’’ماجد تو ٹارزن کا بندر ہے … منکو بندر…‘‘۔
’’ارے واقعی ہم نے تو غور ہی نہیں کیا…‘‘ جنید مصنوعی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بولا۔
’’خاموش…‘‘ ماجد کی قوت برداشت جواب دے گئی۔ طیش کے عام میں خود بہ خود ٹہنیوں پر سے اس کے ہاتھوں کی گرفت چھوٹی اور وہ اپنے دوستوں کو مکا دکھاتے ہوئے بولا۔ ’’خاموش ہو جاؤ ورنہ…‘‘۔
عالم اشتعال میں پہلے ہی اس کے وجود میں لرزہ طاری تھا اور پھر وہ اس وقت پتلی سی جھولتی ٹہنی پر قدم جمایا ہوا تھا۔ ہاتھوں کی گرفت چھوٹ جانے کے باعث وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا۔ اس کے پیر ٹہنی پر سے پھسلے اور وہ شاخوں اور ٹہنیوں سے الجھتا ہوا دھپ سے زمین پر آ گرا۔ اس طویل چھلانگ نے اس کے پیروں کی قوت چھین لی۔ ان میں اتنی سنسنی پیدا ہو گئی کہ وہ بے حس ہو کر گر گیا۔ اس کی پینٹ گھٹنوں کے پاس سے پھٹ چکی تھی اور اس کی قمیص بھی درخت کے کانٹوں کے باعث جگہ جگہ سے اُدھڑ گئی تھی اور ان جگہوں سے خون رسنا شروع ہو گیا تھا۔
’’واہ بھئی واہ…‘‘ سارے دوست یوں اچھلے، جیسے اس کے کرتب سے محظوظ ہوئے ہوں ’’ مزہ آ گیا…کیا شاندار چھلانگ لگائی تم نے ‘‘۔
’’ذرا دوبارہ لگا کر دکھانا چھلانگ…‘‘ناصر خوشی سے بولا۔
اس کے بدن میں جلن اور ٹیسیں اس شدت کے ساتھ اٹھ رہی تھیں کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آنے کو تھے اور کراہیں بلند ہونے کو تھیں، مگر اس نے کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی کراہوں کو دبا لیا۔ ورنہ وہ جانتا تھا کہ اس کی ایک کراہ پر ڈرپوک مرغی کی آوازیں اور استہزائیہ قہقہے پھر بلند ہو جائیں گے۔ اس نے مشتعل نظروں سے ناصر کو گھورا اور بولا ’’مجھے سہارا دو…‘‘۔
مگر وہ کھڑا طیش دلانے والی مسکراہٹ سجائے ماجد کی بے بسی کا تماشا دیکھتا رہا۔ وہ تھا ہی ایسا کم ظرف اور تنگ نظر جس کی شہہ پا کر دوسرے دوست بھی ماجد کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ اسے نیچے دکھانے کی کوشش کرتا تھا۔ ماجد پڑھائی میں بس مناسب تھا اور ناصر بالکل گورا تھا اور ماجد کرکٹ میں اپنی ٹیم کا بہترین بیٹسمین تھا تو ناصر خطرناک باؤلر تھا۔ جب ہی ایک ہی کرکٹ ٹیم میں ان کی موجودگی چل جاتی تھی۔
ناصر ہمیشہ اس سے طرح طرح کے چیلنج کیا کرتا تھا اور دوسرے دوستوں کے سامنے ہمیشہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا کہ وہ کتنا بہادر ہے، اور ماجد بے وقوف اور ڈرپوک ہے۔ ماجد ہمیشہ اس کی بدتمیزی کو نظر انداز کر دیا کرتا تھا اور تمسخر اڑانے والی با توں کو ضبط کر لیا کرتا تھا۔ اسے ناصر کے رویے پر افسوس اور دکھ بھی ہوتا تھا۔ وہ ناصر کو سمجھانے کی کوشش کرتا، مگر ناصر اپنے آپ کر رستم زماں سمجھنے لگا تھا۔ وہ ماجد کے خلوص کو مذاق میں اُڑا دیا کرتا تھا۔ نا جانے اسے کس بات کا غرور تھا۔
سب دوست اس کو تنہا چھوڑ کر چلے گئے تھے، وہ نہ جانے کتنی دیر تک زخم خوردہ جانور کی طرح زمین پر پڑا سستاتا رہا، مغرب ہو چلی تھی۔ شام کے دھندلکے رات کے اندھیرے میں ڈھل رہے تھے۔ اس وقت وہ گراؤنڈ کے آخری کونے پر درخت کے نیچے پڑا تھا اور طیش کے عام میں بڑبڑا رہا تھا۔ وہ یہ بات فراموش کر چکا تھا کہ اس کے دوست اسے تنہا کیوں چھوڑ گئے تھے ؟
کرکٹ کے اس میدان سے آگے لکڑیوں کا ٹال کا سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ پھر اس کے بعد جنگل بیابان اور میدانی علاقہ تھا، کیوں کہ اس سے آگے فوجی چھاؤنی لگتی تھی۔ لکڑیوں کی ٹال کا یہ سلسلہ کچی آبادی کہلاتا تھا اوراس طرح بجلی کی سہولت نہ ہونے کے برابر تھی۔
دور پکے علاقے کی مسجد میں اذان کی آواز آنے لگی، تو اسے کچھ ہوش آیا۔ پیروں میں سنسنی ختم ہو گئی تھی اور وہ چلنے کے قابل ہو گئے تھے۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اسی وقت ہوا کے شوریدہ سے جھونکے اس کے چہرے سے ٹکرائے۔ اس کے بال ادھر ادھر بکھر گئے اور کٹی پھٹی قمیص ہوا کے زسر پر پھڑپھڑانے لگی۔ یہ رات کا طلسم تھا، جس نے تاریکی کی قبا اوڑھ کر موسم کو گستاخی کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ درخت زور زور سے جھوم کر ہوا سے چیخ چیخ کر باتیں کرنے لگے۔ ماحول کے اچانک تیور بدلتے دیکھ کر ماجد سہم گیا۔ اس نے ایک نظر میدان میں ڈالی۔ طویل و عریض کرکٹ کے میدان میں درختوں کے خشک پتے اور خاک و دھول ہوا کے دوش پر اڑتے پھر رہے تھے۔ اس نے ڈرے ڈرے انداز میں اپنے اوپر نگاہیں ڈالیں۔ درخت کی شاخیں کسی زہریلے سانپ کی دو شاخہ زبان کی طرح ادھر ادھر لپک رہی تھیں، پتے اور ببول کے کانٹے آپس میں ٹکڑا کر ٹخ ٹخ بج رہے تھے۔
اچانک درخت کی اوپری شاخ سے زن کی تیزی سے کوئی چیز نیچے کی طرف لپکی اور اس کے چہرے پر آ کر پڑی ’’ٹھک…‘‘۔
ماجد کا دماغ گھوم گیا۔ اس کے حلق سے ایک دہشت ناک فلک شگاف چیخ بلند ہوئی، اور وہ اندھا دھند ایک جانب بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کے کمزور وجود پر خوف نے غلبہ پایا تو وہ اپنی تکالیف بھول گیا۔ وہ بھاگتا رہا، خالی اور پر تاریک وسیع گراؤنڈ میں ہر قدم پر ایک آواز گونجتی تو یوں محسوس ہوتا، جیسے اس کے پیچھے کوئی نادیدہ لشکر دوڑا چلا آ رہا ہے۔ خوف اگر اپنی پوری قوت سے انسان پر حاوی ہو جائے تو وہ بے وجود اور اَن دیکھی چیزوں سے بھی دہشت زدہ ہو جاتا ہے۔ سراسیمگی کے ان لمحات میں وہ غلط سمت کا رح کر چکا تھا۔ اب وہ کچی آبادی کی طرف دوڑا جا رہا تھا۔ غلط وقت پر غلط سمت کا انتخاب اسے حواس باختہ کرنے کے لیے کافی تھا اور جب وہ کچی آبادی میں داخل ہوا تو اندھی پر پیچ اور تاریک گلیوں نے اس کا استقبال کیا۔ وہ سخت ہراساں ہو گیا، مگر اپنی رفتار میں کمی نہ کی۔ ان تاریک گلیوں میں کوئی ذی روح موجود نہیں تھا۔ وہ مزید دہشت سے ایک کے بعد دوسری گلی میں بھاگتا رہا۔ اسے یہ کچی آبادی کسی شہر خموشاں کی مانند لگ رہی تھی، جس کے مکین آرام گاہوں میں ابدی نیند سو رہے ہوں۔ اس کی نظریں کسی انسان کو دیکھنے کے لیے بے تاب تھیں۔ اس کا دماغ چلا چلا کر مسلسل خطرے کا احساس دلا رہا تھا۔ ’’دوڑو دوڑو رکنا نہیں … موت سے فرار نہیں، لیکن جب تک دم میں دم ہے، ہمیں نہیں ہارنی… پیچھے مڑ کر دیکھا اور گئے …‘‘۔
یہ آواز دہشت موت کی پیامبر بن کر اس کے شعور میں بھٹکتی رہی اور وہ بھاگتا رہا۔
اچانک ایک گلی کا موڑ کاٹتے ہی وہ کسی سے پورے زور سے جا ٹکرایا۔ مخالف سمت سے آنے والے کے ہاتھ میں لالٹین تھی، جو اچھل کر دور جا گری۔ ایک چھناکے کے ساتھ اس کے بیچ میں لگے کانچ کے ٹکڑے ہو گئے، مگر اس کی لو نہیں بجھی وہ ایک بوڑھا پٹھان جو خود جھٹکے سے لڑکھڑایا، مگر گرا نہیں۔ جبکہ ماجد وہیں ڈھیر ہو گیا اور منہ کھولے بری طرح ہانپنے لگا۔
’’او بیڑہ غرق… یہ کیا کیا؟‘‘ بوڑھے کی اشتعال انگیز آواز ابھری، وہ لالٹین کی طرف لپکا، جس کی ٹمٹماتی لو بجھنے کو تھی۔ شیشے کی کرچیوں کی کھنک ابھری، وہ لالٹین کی لو تیز کر کے ماجد کے قریب آیا۔ ماجد خوف زدہ نظروں سے اپنے عقب میں دیکھ رہا تھا۔
’’کیا بات ہے …؟‘‘ اس کی حالت دیکھ کر بوڑھے پٹھان نے نسبتاً نرم لہجہ اختیار کیا ’’کس کو دیکھ رہے ہو…؟‘‘۔
’’پتا نہیں …‘‘ ماجد نے پھنسی پھنسی آواز میں کہا، اپنے ساتھ کسی شخص کو دیکھ کر اس کا خوف کسی قدم کم ہوا تھا۔
’’پتا نہیں …!‘‘ بوڑھے پٹھان کی تیوریاں چڑھ گئیں۔ ماجد نے گلی کے نکڑ کی جانب ہاتھ سے اشارہ کیا اور بولا ’’وہ… دیکھو‘‘۔
بوڑھے نے الجھن بھرلے انداز میں لالٹین کا رخ آگے کی جانب کیا، مگر اسی وقت کسی سرپٹ دوڑتے ہوئے گھوڑے کی طرح ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور لالٹین بجھ گئی۔
ٹھپ ٹھپ ٹھپ… وہاں دوڑتے قدموں کی آوازیں ابھریں، بوڑھے پٹھان کی آنکھوں میں الجھن اتر آئی، مگر ان میں خوف کا شائبہ تک نہ تھا۔
’’کون ہے وہاں …؟‘‘ وہ کڑک کر چیخا،
’’ٹھک، ‘‘ وہی چیز امجد کی پسلیوں سے شدت سے ٹکرائی، ماجد گھبرا کر چند قدم پیچھے ہٹ گیا۔ اس بار وہ چیز اسے مانوس سی لگی۔ ’’ٹینس بال…‘‘ اس کے ذہن میں خیال ابھرا۔
پھر یکایک اسے ناصر اور فہیم کے قہقہے سنائی دئیے۔ ’’ماجد ڈرپوک مرغی…‘‘ وہ ہنستے ہوئے فرار ہو گئے۔
خوف زدہ لمحات کے اس ڈراپ سین پر ماجد کا چہرہ غصے سے لال بھبھوکا ہو گیا۔
’’مم…میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ ‘‘ ماجد دانت کچکچا کر آگے بڑھا، مگر کسی چیز سے پھسل کر گر پڑا۔ ٹینس بال اس کے پیروں میں پڑی تھی۔
’’ٹھہر جاؤ…‘‘ بوڑھے نے اس کا بازو تھام کر سہارا دیا۔ ’’وہ بھاگ گئے ہیں … اور تمہیں پہلے ہی چوٹ لگی ہوئی ہے …‘‘۔
’’مم میں ان کو جان سے مار دوں گا…‘‘ ماجد نے بے چارگی سے اندھیرے کو گھورا۔
’’کون تھے وہ لوگ؟‘‘ بوڑھے نے دیا سلائی جلا کر لالٹین کو روشن کیا اور اسے لے کر ایک جانب چلنے لگا، روشنی کی لو کو ہوا کی شدت سے بچانے کے لیے اس نے ایک ہاتھ سامنے رکھ لیا تھا۔
’’میرے دوست کلاس فیلو اور پڑوسی بھی…‘‘ ماجد لڑکھڑا کر چلنے لگا۔ اس کے دائیں پیر میں ٹیسیں اٹھنے لگیں تھیں۔ شاید پتھروں کی رگڑ سے گھٹنے کے پاس سے دوبارہ خون رسنا شروع ہو گیا تھا۔
وہ بولا۔ ’’مگر اب یہ سب میرے بدترین دشمن ہیں۔ میں ایک ایک کو مزہ چکھا کر رہوں گا…‘‘۔
چند قدم چلنے کے بعد بوڑھا اسے لے کر ایک گھر میں داخل ہوا۔ یہ ایک پکی اینٹوں کا گھر تھا، کافی شکستہ حال تھا۔ اس کے صحن میں ساٹھ والٹ کا نحیف و نزار بلب زرد روشنی پھینک رہا تھا۔ ماجد صحن میں پڑی ایک جھلنگا سی چارپائی پر نیم دراز ہو گیا۔ اس کی خود اعتمادی بحال ہو گئی تھی اور پھر اس بوڑھے کا رویہ بھی نرم و شفیق تھا۔ اس لیے وہ ایک اجنبی گھر میں خوف محسوس نہیں کر رہا تھا۔
’’کافی بدتمیز اور شیطان لڑکے تھے …‘‘۔
بوڑھے پٹھان کا وجود روشنی کی زد میں آیا تو ماجد اس کا جائزہ لینے لگا۔ بوڑھے پٹھان کا جھریوں زدہ چہرہ بہت سفید تھا، لیکن کسی لاش کی طرح سفید… اس کی بے نور آنکھوں میں بے حسی اور سفاکی جھلک رہی تھی۔ اس کا جسم متناسب تھا اور محنت و مشقت کا عادی معلوم ہوتا تھا۔
’’ہاں انتہائی بد طینت…‘‘ ماجد نے نفرت زدہ انداز میں ہونٹ سکیڑے۔
’’تم ان کے خراب کردار اور رویے کا انتقام لو گے ؟‘‘ بوڑھے نے سوال کیا۔
’’ہاں …‘‘ ماجد نے کہا۔
’’یعنی کہ تم ان سے لڑائی جھگڑا کرو گے …؟‘‘ بوڑھا اسی انداز میں بولا۔
’’ہاں …‘‘ ماجد نے تائید طلب نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔ ‘‘ آپ نے دیکھا انہوں نے مجھے کس طرح ہراساں کیا تھا۔ ‘‘
’’اور تم ان سے جھگڑا اور مار پیٹ کر کے ثابت کرو گے کہ تم بھی بدتمیزی کی صف میں شامل ہو…‘‘ بوڑھے کے غیر متوقع جواب نے اسے چونکا دیا۔
’’مگر میں ان سے بدلہ لوں گا۔ ‘‘ ماجد نے کہا۔
’’سب سے اچھا بدلہ معاف کر دینا ہوتا ہے …‘‘بوڑھے نے ناصحانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا۔
’’میں اب تک ان کی ہر غلطی اور بدتمیزی کو برداشت کرتا آیا ہوں …‘‘ ماجد بولا۔ ’’ہر دفعہ میں یہ سوچ کر درگزر کر لیا کرتا تھا کہ وہ سب میرے دوست ہیں … مگر وہ ہر دفعہ مجھے ہی مذاق کا نشانہ بناتے رہے اور آج تو انہوں نے شرارت کی انتہا کر دی… بہت تکلیف پہنچائی ہے انہوں نے مجھے …‘‘ ماجد نے اسے اپنی ظاہری حالت پر توجہ دلائی، اس کی قمیص اور پینٹ جگہ جگہ سے پھٹ چکی تھی اور خراشیں اور نیل بھی پڑ گئے تھے۔
’’ٹھیک ہے … مگر وہ سب پھر بھی تمہارے دوست ہیں۔ ‘‘
بوڑھا سر کو جھٹکتے ہوئے بولا اور ماجد کو پہلی بار محسوس ہوا کہ بوڑھے کے لمبے لمبے بالوں کی لٹیں اس کے شانوں تک سنپولیوں کی طرح کلبلا رہی تھیں۔ ’’دوست کا مطلب جانتے ہو تم…؟‘‘۔
’’پھر… پھر میں کیا کروں …؟‘‘ ماجد نے الجھن آمیز لہجے میں کہا۔
’’ان کو ایسا سبق سکھاؤ کہ نہ صرف وہ تمہارے دوست بن جائیں اور انہیں اپنی غلطی کا احساس بھی ہو جائے …‘‘ دور کہیں سے گیڈروں کے ہوکنے کے آوازیں آ رہی تھیں۔ ہوا کے جھونکے پل پل کے حساب سے گزر رہے تھے۔
’’ٹھیک ہے … میرا دوست ناصر ہی اکڑتا پھرتا ہے، دوسرے تو محض اس کی شہہ پا کر آگے بڑھتے ہیں …‘‘ ماجد نے سر ہلایا۔ ’’ناصر کو ہی سبق سکھانا ہو گا… مگر میں کیا کروں … کس طرح اسے سبق سکھاؤں …؟‘‘۔
’’بہت سے طریقے ہیں …‘‘ بوڑھے کا جھریوں بھرا چہرہ سپاٹ تھا۔ ’’ایک طریقہ ہے میرے پاس…‘‘۔
معاً قریب ہی کسی کتے کے بھونکنے کی آواز ابھری۔
ماجد اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے اچھل پڑا۔ چند ثانیے کے لیے اس کے چہرے پر خوف کے آثار ابھر آئے۔ خوف کی ان اچانک آن پڑنے والی ساعتوں نے اس کے حواس معطل کر کے رکھ دئیے تھے۔
’’یہ … یہ پیچھے کون سا علاقہ ہے ؟‘‘ اس نے اٹکتے ہوئے پوچھا۔
’’پیچھے …؟‘‘ بوڑھے نے استفہامیہ نظروں سے گھورا۔ پھر اس کے ہونٹوں پر نحیف سی مسکراہٹ ابھری۔ ’’تم کتے کی آواز سے ڈر گئے تھے …؟‘‘
’’ہاں …‘‘ ماجد نے اعتراف کیا۔ وہ بہت متذبذب ہو رہا تھا۔
’’انسان ہمیشہ جب خوف محسوس کرتا ہے تو خوف زدہ ہوتا ہے … یہ اس کے حواس خمسہ کا کمال ہے کہ اسے خطرے اور خوف سے مطلع کرتی ہے … مگر جو دہشت زدہ کرنے والی چیزیں انسانی حواس کی گرفت میں نہیں آتیں تو آدمی ان سے ڈر محسوس نہیں کرتا…‘‘ بوڑھے نے کہا۔ نا جانے ان با توں کے پس پردہ کیا مفہوم پوشیدہ تھا، مگر جو کچھ بھی تھا نہایت بھیانک تھا۔
’’پیچھے کیا ہے ؟‘‘ ماجد نے سوال دہرایا۔ اس کی دماغی پیچیدگیوں میں خطرے کا الارم بجنے لگا تھا۔
بوڑھے نے اسے سپاٹ نظروں سے گھورا اور پھر اس کے لب ہلتے نظر آئے ’’قبرستان…‘‘
اس کے سرسراتے لہجے میں ایک بھیانک دھمکی پوشیدہ تھی کہ ماجد کے وجود پر یک لخت دہشت کا بار گراں آ پڑا۔ ٹھنڈے پسینے کی دھاریں اس کے ماتھے سے پھوٹ پڑیں۔
’’قبرستان…‘‘ اس کی کنپٹی کی نسیں دھڑا دھڑ بجنے لگی۔
’’ہاں …‘‘ بوڑھا ہنسا، اس کی ہنسی میں یاسیت اور تشنگی تھی۔ ساتھ ہی سرد مہری اور درشتگی بھی۔ ’’پیچھے قبرستان ہے اور میں اس کا گورکن ہوں …‘‘۔
اس کی آنکھیں کھلی تو معلوم ہوا وہ کافی دیر سے بیدار ہوا ہے۔ صبح کا وقت گزر چکا تھا۔ گھڑی کی سوئیاں ساڑھے بارہ سے تجاوز کر دچکی تھیں۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ آج اتوار کا دن تھا، لہٰذا اسکول جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، اس لیے وہ بہت ڈٹ کر سویا تھا۔ گذشتہ روز کی ساری تھکن اور کسل مندی دور ہو گئی تھی۔
رات کے واقعات ابھی تک اس کے ذہن میں تازہ تھے، اور اس کے تخیل کے پردے پر کسی فلم کی طرح چل رہے تھے۔ اسے جب علم ہوا کہ وہ ایک گورکن کے گھر میں بیٹھا ہے تو اس کے لیے ایک سیکنڈ ٹھہرنا بھی دوبھر ہو گیا۔ ہلکی سرسراتی ہوا بھی اس کی سماعت میں شور و غلغلہ برپا کر رہی تھی، بوڑھے نے بھی اس کے خوف کو محسوس کر لیا تھا۔ بوڑھے گورکن نے ہی اسے گراؤنڈ کے پار پہنچایا تھا، کیونکہ کچی آبادی کا راستہ اسے معلوم نہ تھا، وہ بھول چکا تھا کہ وہ کن راستوں سے ہوتا ہوا وہاں تک پہنچا تھا، مگر واپسی پر وہ راستوں کو نوٹ کرتا ہوا آیا۔
سہ پہر کے وقت ہی سب لڑکے گراؤنڈ میں جمع ہو گئے، آج کسی ٹیم سے میچ نہ تھا، چنانچہ سب آپس میں ہی پریکٹس کرنے لگے۔ ناصر اور دیگر لڑکوں کی استہزائیہ نظریں ماجد کو گھور رہی تھیں۔ میچ شروع ہونے سے پہلے انہوں نے اسے کئی بار مختلف حیلے بہانوں سے چھیڑا بھی تھا، اور ہر دفعہ ماجد خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا۔
جب وہ بیٹنگ کرنے کے لیے آیا، تو ناصر اوور کرانے لگا۔
’’ڈرپوک مرغی بچ کر رہنا… آج میں تمہارے دانت توڑ کر ہی رہوں گا۔ ‘‘ ناصر نے ٹیپ بال کو انگلیوں پر گھماتے ہوئے کہا۔ اس کے چہرے پر شیطانیت ناچ رہی تھی۔
ماجد نے اس کے سنگین عزائم کے جواب میں بیٹ گھمایا۔ گویا وہ اس کی دھمکی سے مرعوب نہیں ہے۔ ناصر دانت پیستے ہوئے اسٹارٹنگ پوائنٹ پر جا کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے چیلنج کے سے انداز میں دوبارہ اپنے عزائم کا اظہار کیا۔ ماجد نے اسے نظرانداز کرتے ہوئے بیٹ ٹھونک کر اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ ناصر نے پہلی بال باؤنسر پھینکی، جو زناٹے سے ماجد کے کان کے پاس سے گزر گئی۔ ناسر کے گیند کرانے کا انداز جارحانہ تھا۔
’’بچ گئی مرغی…‘‘ اس نے ایک قہر آلود نظر ماجد پر ڈالی۔ ’’مگر اب کے اپنی چونچ سنبھال لینا…‘‘۔
اس کی طوفانی باؤلنگ سے ماجد واقعی گھبراہٹ کا شکار ہو گیا تھا۔ اس نے گھبراہٹ پر قابو پانے کی کوشش میں زمین پر قدم جمائے اور بیٹ پر اپنے ہاتھوں کی گرفت مضبوط کر لی۔ وہ پوری توجہ سے ناصر کی گیند پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ ناصر کی دوسری گیند سرعت سے اس کے کندھوں تک آئی اور ماجد نے بیٹ کو اس کے متوازی رکھ کر لیگ پر اس طرح گھمایا کہ اس کا پورا وجود بھی گھوم گیا، اور اسی انداز میں اس کی ایک ٹانگ اٹھ گئی تھی… یہ ایک بھرپور قسم کا شاٹ تھا۔ گیند گولی کی رفتار سے گراؤنڈ کی حد پار کر گئی۔ اس طرف درختوں کی بہتات تھی اور اس کے پیچھے کسی کچی آبادی کا علاقہ تھا۔
اس شان دار چھکے پر زوردار قسم کا شور بلند ہوا۔ دوسرے لڑکے ناصر کو طیش دلانے کے لیے چھکے کی تعریفیں کر رہے تھے۔ اس طرف کاشف گیند لینے گیا ہوا تھا۔ ناصر جھنجلا کر ماجد سے کچھ کہنے والا تھا کہ یکایک کاشف کی دل خراش چیخ ان کو سنائی دی۔ سب ایک دم بوکھلا گئے۔
’’کاشف…‘‘ ماجد بلا پھینک کر درختوں کے جھنڈ کی طرف بھاگا۔ سب کے چہرے کسی انجانے خدشے کے تحت دھواں ہو گئے تھے۔ وہ ماجد کے پیچھے بھاگے۔ ناصر اپنا غصہ بھول گیا۔ وہ بھی ماجد کے ساتھ ساتھ بھاگ کر درختوں کے جھنڈ کی جانب پہنچا۔ وہاں کاشف ایک جگہ منجمد کھڑا تھر تھر کانپ رہا تھا۔
’’کاشف… کاشف کیا ہوا تمہیں … تم ٹھیک تو ہو؟…‘‘ ناصر نے اسے جھنجوڑ ڈالا۔
’’نن… وہ… وہ…‘‘ کاشف کی آواز میں خوف کی لرزش تھی، اس نے کپکپاتے ہاتھ سے ایک جانب اشارہ کیا۔ وہاں کسی آدمی کا ساکت وجود پڑا تھا، بالکل بے حس و حرکت…۔
’’لاش… لاش‘‘ مختلف قسم کی دہشت زدہ آوازیں ابھریں، لاش کو دیکھ کر سب پتھر کے بتوں کی مانند جامد رہ گئے۔
خزاں رسیدہ پتوں کے ڈھیر میں اس آدمی کی لاش بالکل سیدھی پڑی تھی۔ اس کے اعضاء اکڑے ہوئے تھے اور بظاہر اس کے جسم سے زندگی کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔
’’کک کیا یہ زندہ ہے …؟‘‘ ناصر حواس باختہ لہجے میں بولا۔
’’نہیں …‘‘ ماجد نے جھرجھری لے کر کہا۔ ’’یہ ایک لاش ہے …‘‘۔
’’ہنہ… ڈرپوک۔ ‘‘ ناصر نے حقارت سے کہا۔ ’’تم واقعی بہت بزدل ہو…‘‘
’’اچھا… ‘‘ ماجد بولا۔ ’’تم کتنے بہادر ہو… لاش کے پاس جو گیند پڑی ہے وہ اٹھا کر لاؤ ذرا…‘‘‘۔
ناصر کے کہنے سے پہلے ہی ماجد نے اسے چیلنج کر دیا۔
’’گیند ہی لانی ہے نا…؟‘‘ ناصر اپنے حواس پر قابو پانے لگا۔
’’کیا بات ہے ناصر؟…‘‘ تم تو اس طرح کپکپا رہے ہو، جیسے میں نے تمہیں لاش اٹھا کر لانے کو بولا ہو۔ ’’ماجد نے اس کے انداز میں چیلنج کیا۔
ناصر اسے گھورتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
’’ذرا خاموشی اور احتیاط سے …‘‘ ماجد نے لہجے کو گھمبیر بناتے ہوئے اسے تنبیہ کی۔
’’تمہارے قدموں تلے پیدا ہونے والے پتوں کی چرچراہٹ سے کہیں وہ لاش جاگ نہ جائے۔ ‘‘
’’اور کہیں تمہارے اس دخل در معقولات پر مردہ آدمی اچھل کر تمہارا گلا نہ پکڑ لے۔ ‘‘ دوسرے لڑکوں کی بھی رگ شرارت جاگ اٹھی۔
’’اے خاموش ہو جاؤ…‘‘ دہشت کے مارے ناصر سے آگے قدم بڑھانا دوبھر ہو گیا۔ ‘‘ اب کوئی بولا تو … میں اسے کچا چبا جاؤں گا۔ ‘‘
’’اچھا… تم آدم خور ہو؟‘‘ ماجد تیز لہجے میں بولا۔ ’’مگر تمہاری دھونس نہیں چلے گی ناصر…‘‘۔
’’ڈرپوک مرغی میں تمہیں اس جرأت کا مزہ چکھاؤں گا۔ ‘‘ ناصر بڑبڑایا۔
’’پہلے لاش سے تو بچ جاؤ بچے …‘‘ ماجد طنزیہ لہجے میں بولا اور ناصر تلملا کر آگے بڑھ گیا۔
ماحول کی نزاکت کے باعث سب نے خاموشی اختیار کر لی۔ کھلے میدان میں ہوا مکمل آزادی سے تیز تیز چل رہی تھی، نیچے زرد پتے لاش کے اردگرد دیدہ دلیری سے اڑتے پھر رہے تھے۔ کبھی کبھی لاش کے لمبے لمبے بال اس کے چہرے پر بکھر جاتے اور کبھی اس کا بالکل سرد و سفید چہرہ نما ہو جاتا۔
ناصر آہستہ آہستہ چلتا ہوا لاش کے قریب پہنچ گیا۔ سب دم سادھے اسے دیکھ رہے تھے، گیند لاش کے پہلو میں پڑی ہو ئی تھی۔ صرف چند قدم کی مسافت میں ناصر کی سانسیں بے قابو ہو گئی تھیں۔ اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے گیند کی طرف لاش کے پہلو میں ہاتھ بڑھایا۔ ان جاں گسل ساعتوں میں اس کا دم لبوں پر آ گیا تھا۔ اس کے لرزتے ہاتھ گیند سے ٹکرائے تو لاش کے اکڑے ہوئے ہاتھ کو بھی چھو گئے اور پھر اس ثانیے وہ کچھ ہوا جس کے اندیشے اور اوہام اس کے دماغ میں پیدا ہو رہے تھے۔ دفعتاً اس آدمی کے مردہ جسم میں حرکت ہوئی اور اس کے سرد ہاتھوں نے ناصر کو جکڑ لیا۔
خوف سے ناصر کا دل گویا دھڑکنا ہی بھول گیا۔ اس کی قوت گویائی جیسے معطل ہو کر رہ گئی تھی، وہ بے ربط آواز میں پوری قوت سے چلایا ’’بب… بچاؤ… موت… لاش…‘‘ ڈر کے مارے وہ بے جان لاش کی طرح وہیں گر گیا۔
اس اچانک افتاد پر سب دوستوں میں بھگدڑ مچ گئی، وہ سب سراسیمہ حالت میں چلاتے ہوئے وہاں سے فرار ہو گئے۔ صرف ماجد اپنی جگہ ساکت کھڑا تھا۔ اس کا چہرہ ہر قسم کے جذبات سے عاری تھا۔
’’مم…ماجد…مجھے بچاؤ… خدا کے لیے ‘۔ ‘ ناصر گھگھیائے ہوئے بولا۔ ماجد کو یوں محسوس ہوا، جیسے ناصر کا جسم موت کی یخ بستگی کے باعث کانپ رہا ہو… ٹھنڈی سرد دہشت کی لہریں … جو اس کے وجود کو اکڑا رہی تھیں، ماجد یک ٹک اسے گھورتا رہا۔
’’میں تو ڈرپوک ہوں … ڈرپوک مرغی…‘‘ ماجد خوف زدہ ہونے کی اداکاری کرتا ہوا بولا ’’ میں کیوں بچاؤں … مجھے تو خود ڈر لگ رہا ہے۔ ‘‘
’’نہیں ماجد… رک جاؤ…‘‘ ناصر تقریباً رونے لگا۔ ’’مجھے بچا لو… تم واقعی بہادر ہو… میرے دوست بزدل نکلے جو یوں جان بچا کر بھاگ نکلے ہیں۔ ‘‘
’’ہشت زدہ کرنے والی چیزوں سے آلام و مصائب سے خوف کھانا ہر انسان کا فطری عمل ہے … مگر کچھ لوگ مخلص اور ہمت والے ہوتے ہیں، جو نہ صرف خود ان مصیبتوں کا مقابلہ کرتے ہیں، بلکہ دوسرون کو بھی پریشانیوں کے چنگل سے بچانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ‘‘ یہ کہہ کر ماجد آگے بڑھا اور ناصر کا ہاتھ تھام لیا۔ ’’چلو ہمت کرو…‘‘
ماجد اسے کھینچنے لگا، مگر لاش کی گرفت ناصر کے ہاتھ پر کافی سخت تھی، ماجد نے ناصر کا ہاتھ چھوڑ کر لاش کا ہاتھ دبوچ لیا اور اس کی گرفت سے آزاد ہونے کی جد و جہد کرنے لگا۔ لاش کے ہاتھ اس قدر ٹھنڈے تھے کہ چھونے سے برف کی سل کا گمان ہو رہا تھا۔ ماجد خوف سے پھریری لے کر رہ گیا، اس کا ذہن متضاد سوچوں کا شکار ہونے لگا۔
اس نے پوری قوت صرف کر کے آخر کار گرفت ڈھیلی کر ہی دی۔ اس کی گرفت سے ناصر جیسے ہی آزاد ہوا مردہ آدمی کے حلق سے یکایک خوف ناک دھاڑ برآمد ہوئی۔ اس کی آواز میں نہ جانے کیسا کٹیلا پن تھا کہ ماجد کو یوں محسوس ہوا، جیسے کوئی اسے کان کے پردوں کو برچھی سے زخمی کر رہا ہو۔ ناصر ایک جھٹکے اوندھے منہ زمین بوس ہو گیا۔
ماجد نے گھبرا کر لاش کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور اس کے کان میں سرگوشی کی۔ ’’بس اتنا ہی سبق کافی ہے … اب آپ چلے جاؤ… ہو سکتا ہے کہ لڑکے اپنے بڑوں کو لے کر یہاں آ جائیں …‘‘
اس کی آواز پر مردہ آدمی خاموش ہو گیا۔ اس نے اثبات میں سر کو ایک جھٹکا دیا اور بالوں کی لٹوں کو شانوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ بوڑھے گورکن کا سفید اور سپاٹ چہرہ اس کے سامنے زیر لب مسکرا رہا تھا۔ پھر وہ تیزی کے ساتھ درختوں کے جھنڈ میں غائب ہو گیا۔
ماجد نے ایک گہری سانس لی اور ناصر کی طرف متوجہ ہوا ’’ناصر … ناصر… تم ٹھیک تو ہو نا؟‘‘۔
’’ہاں … ہاں …‘‘ صدمے کی شدت سے ناصر نے بچوں کی طرح بلک بلک کا رونا شروع کر دیا۔ ’’ماجد تم بہت اچھے ہو… تم نے مجھے بچا لیا… ماجد… مجھے یہاں سے لے چلو۔ ‘‘
پہلی بار اس کے منہ سے ماجد کا لفظ سن کر اسے خوشی محسوس ہونے لگی۔ وہ اب اپنے آپ کو پرسکون محسوس کر رہا تھا کہ اس نے نہ صرف ایک مغرور لڑکے کو اس کے غرور پر سبق سکھایا تھا، بلکہ اپنی دوستی کو بھی مستحکم کر لیا تھا۔
تھوڑی دیر بعد جب سب لڑکے اپنے اپنے گھروں میں جا دبکے تو ماجد نے کچی آبادی کا رخ کیا۔ وہ بوڑھے گورکن کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا کہ اس نے ماجد کی مدد کی تھی اور دوستی کے معاملے میں رہنمائی کی تھی۔ بوڑھا گورکن واقعی بہت اچھا آدمی تھا، جس نے اسے انتقام لینے سے گریز کرنا سکھایا تھا اور دوسرے طریقے سے معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کرنے کی تلقین کی تھی۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا بوڑھے گورکن کے گھر کی جانب جا رہا تھا۔ رات کو بوڑھے گورکن کے گھر سے واپس آتے وقت اس نے راستہ ذہن نشین کر لیا تھا۔
وہ خوشی خوشی گنگناتا ہوا بوڑھے گورکن کے گھر کے سامنے پہنچا، مگر یکلخت ٹھٹک کر رہ گیا۔ اس گھر کے باہر کئی آدمی موجود تھے۔ ان سب کے چہروں پر سوگواری چھائی ہوئی تھی اور گھر کے اندر سے رونے کی ماتم کناں چیخیں بلند ہو رہی تھیں، ماجد سخت الجھن کا شکار ہو گیا۔
’’بھائی صاحب کیا ہوا ہے یہاں …؟‘‘ اس نے ایک آدمی سے دریافت کیا۔
’’ارے بھئی کیا بتاؤں …‘‘ وہ آدمی پژمردہ لہجے میں بولا، ’’بے چارہ گورکن مر گیا…‘‘
’’مر گیا…!‘‘ غیر متوقع خبر سے ماجد دھک رہ گیا‘‘ کب انتقال ہوا…؟‘‘
’’کل… کل رات کو…‘‘ اس آدمی نے گویا لفظوں کا بم دے مارا۔
حیرت اور دہشت کی شدت سے ماجد چکرا کر رہ گیا۔ ’’کل رات کو … گویا جب میں ملا تو وہ مر چکا تھا اور پھر ابھی کچھ دیر قبل ناصر کے ساتھ…؟‘‘ ماجد کا دماغ ماؤف ہونے لگا۔
’’بے چارہ بہت نیک دل اور سادہ لوح تھا۔ ‘‘ وہ شخص متاسفانہ لہجے میں بولا۔ ’’اپنے قصبے کے قبرستان کا گورکن تھا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر قبل نئے گورکن کا بندوبست ہوا ہے۔ ‘‘
’’واقعی بہت نیک اور اچھا آدمی تھا۔ ‘‘ ماجد کے چہرے پر رنج سے زیادہ دہشت کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ وہ سراسیمہ انداز میں واپس مڑ گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے بوڑھے گورکن کا سفید اور سردوسپاٹ چہرہ گھوم رہا تھا اور اس کی ہذیانی چیخیں اس کی سماعت سے ٹکرا رہی تھیں۔
دور کہیں مغرب کی اذان کی آواز آنے لگی تھی۔ اندھیرے نے چپکے چپکے اس کے گرد حصار قائم کر لیا تھا۔ وہ دہشت کے مارے تیز تیز قدموں سے چلنے لگا… اس کے اپنے قدموں کی چاپیں اس کے تعاقب میں تھیں۔
٭٭٭
تشکر: کتاب ایپ
www.kitaabapp.com
ای پب سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں