FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

پاکستانی ادب کے معمار

 

شیخ سرعبدالقادر

 

شخصیت اور فن

 

                ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ

 

 

 

 

 

پیش نامہ

 

پاکستانی زبانوں میں ہمارے مشاہیر نے پاکستانی ادب کے حوالے سے جو کام کیا ہے کسی بھی بین الاقوامی ادب کے مقابلے میں پیش کیاجا سکتا ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے ان مشاہیر کے علمی و ادبی کام اور اُن کی حیات کے بارے میں معلومات کو کتابی صورت میں لانے کے لیے پاکستانی ادب کے معمار کے نام سے اشاعتی منصوبہ شروع کیا ہے جس کے تحت پاکستانی زبانوں کے مشاہیر پر کتابیں شائع کی جا رہی ہیں۔

شیخ عبد القادر ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ وہ ماہرِ  تعلیم، مدیر، محقق، نقاد، مقالہ نگار، انشائیہ نگار، سفر نامہ نگار، مقدمہ نگار اور مترجم تھے۔ وہ کئی سرکاری و غیر سرکاری ادبی، لسانی، علمی، سیاسی اور سماجی تنظیموں سے مختلف حیثیات میں وابستہ رہے۔ شیخ عبد القادر جدید اردو ادب کے بہت بڑے محسن تھے۔

اس اشاعتی منصوبے کی پیشِ نظر کتاب ’’شیخ سرعبدالقادر:شخصیت اور فن‘‘  اکادمی ادبیات پاکستان کی درخواست پر معروف نقاد، محقق اور ادیبہ ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ نے تحریر کی ہے۔ اس  کتاب سے یقیناً اہلِ ادب اور عام قاری، شیخ سرعبدالقادر:شخصیت اور فن سے بہتر طور پر آگاہ ہو سکیں گے۔

یہ کتاب شیخ سرعبدالقادر کے بارے میں ایک اہم دستاویز کی حیثیت کی حامل ہے۔ امید ہے کہ اکادمی ادبیات پاکستان کے اشاعتی منصوبے’’پاکستانی ادب کے معمار‘‘سلسلے کی کتاب ’’شیخ سرعبدالقادر:شخصیت اور فن‘‘ کو ملک اور بیرونِ ملک یقیناً پسند کیا جائے گا۔

عبدالحمید

 

 

 

پیش لفظ

 

مجھے اکادمی ادبیات کے ’’ معمارِ ادب‘‘ سلسلے کے لیے محترمہ پروین قادر آغا کے توسط سے’’ شیخ عبد القادر، شخصیت اور فن‘‘ پر کام کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ محترمہ پروین قادر آغا شیخ سر عبد القادر کے بڑے صاحب زادے جناب احسان قادر کی بیٹی اور اپنے دادا کی طرح متاثر کن شخصیت کی مالک ہیں۔   میں نے خوشی سے یہ ذمہ داری قبول کر لی۔ خیال تھا کہ چار چھ ماہ میں کام مکمل کر لوں گی اور وہ جو میری عادت ہے کہ پندرہ بیس صفحے کے مقالے پر سالوں لگا دیتی ہوں اس سے گریز کروں گی۔

شیخ سر عبد القادر سے عمومی واقفیت اتنی ہی سی ہے کہ آپ نے عہد ساز رسالے’’مخزن ‘‘کا اجرا کیا اور علامہ اقبال کو تمام دنیا سے متعارف کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ شیخ صاحب کی ذات و صفات اور ان کے کارہائے نمایاں کا اندازہ تو اس وقت ہوا، جب ان پر کام کرنے کے لیے مطالعے کا آغاز کیا۔ شیخ صاحب ایک ہمہ جہت، ان تھک، نڈر، بے باک، ذہین و فطین شخصیت کے مالک تھے۔ وہ بیرسٹر بھی ہیں اور مدیر بھی، بہترین مقرر بھی ہیں اور ادیب بھی، بے شمار ادبی، سیاسی، علمی اور سماجی تنظیموں کے رکن بھی رہے اور صدر بھی، انگریزی زبان پر عبور، لیکن ان کی ساری خدمات کا محور و مرکز اردو زبان و ادب کا فروغ…اور اس کے لیے تمام زندگی کوشاں رہے۔ ان کی ہشت پہلو شخصیت کو سمیٹنا آسان نہیں تھا اور یہ وقت طلب مرحلہ بھی تھا۔ مطالعے کے دوران احساس ہوا کہ جناب حمید شاہد نے غالباً اپنی زندگی کا مقصد ہی یہ بنا رکھا ہے کہ شیخ صاحب کی زندگی کے ہر لمحے اور ان کے تحریر کردہ ہر لفظ کو محفوظ کر دیا جائے۔ چنانچہ اس کتاب کی تیاری میں بنیادی مآخذ یقیناً محمد حنیف شاہد کی مرتب کردہ کتب ہی ہیں۔   متعلقہ کتب و رسائل کی بازیافت کا مرحلہ جناب احمد سلیم کی وجہ سے کافی سہل ہو گیا، پھر محترمہ پروین قادر آغا اور جناب بشارت قادر ہمہ وقت مدد کے لیے تیار رہے۔ اس کے لیے میں ان تمام شخصیات کی تہ دل سے ممنون ہوں۔

شاہد محمود صاحب کہ جن کی رہنمائی ایک ایک لمحہ اور ایک ایک حرف تحریر کرتے ہوئے میرے ساتھ رہتی ہے اور پھر ہم سے وابستہ سبھی پیارے، دانش، آمنہ، سرمد، ماریہ، فارد اور سب سے بڑھ کر رائم ، روا، نوفل اور نافع کی شکر گزار ہوں اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بہت احساس ہو رہا ہے کہ یہ سب ہمہ وقت مجھے کتابوں میں گھرا ہوا، لیب ٹاپ پر مصروف دیکھ کر کتنے ضبط سے کام لیتے ہوں گے، صرف یہ سوچ کر کہ میری خوشی میری اس مصروفیت میں ہی ہے۔

 

ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ

 

 

 

 

شیخ سر عبدالقادر  توقیت

 

۱۵ مارچ ۱۸۷۴ء پیدائش، مقام لدھیانہ۔

۱۸۹۰ میٹرک، ایم بی ہائی سکول۔ فر سٹ ڈویژن۔ وظیفہ حاصل  کیا۔

۱۸۹۳ء ینگ مینز  محمڈن ایسوسی ایشن لاہور کے اجلاس میں اردو  ادب پر لیکچر دیا، جو بعد ازاں پنجاب میگزین میں شائع ہوا۔

ایضاً رکن انجمن حمایتِ  اسلام۔

۱۸۹۴ء بی اے کر سچین کالج فار مین لاہور۔ فرسٹ ڈویژن۔

صوبے میں پانچویں پوزیشن۔ البرٹ وکٹر پٹیالہ سکالر شپ حاصل کیا۔

۱۸۹۵ء انگریزی ہفت روزہ ’’پنجاب آبزرور ‘‘کے اسسٹنٹ ایڈیٹر۔

…… پہلی شادی۔

۱۸۹۸ء پنجاب آبزرور کے ایڈیٹر۔

۱۸۹۹ء اعزازی سکریٹری انجمن حمایتِ  اسلام۔

۱۹۰۰ء اعزازی پروفیسر انگریزی ادبیات، اسلامیہ کالج لاہور۔

۱۹۰۰ء رکن ندوۃ العلما لکھنو۔

اپریل۱۹۰۱ء  مخزن لاہور کا اجرا۔

فروری۱۹۰۴ء ٹرسٹی علی گڑھ کالج۔

۱۹۰۴ء بیرسٹری کی تعلیم کے لیے انگلستان روانگی۔

۲۹ اگست۱۹۰۶ء نشانِ عثمانی کا اعزاز عطا ہوا۔

اپریل ۱۹۰۷ء بیرسٹری کی سند کے ساتھ وطن واپسی۔

مئی ایضاً ً وکالت کا آغاز، دہلی۔

جون ایضاً  مخزن کی دہلی منتقلی۔

دسمبر ۱۹۰۸ء اردو سبھا قائم کی۔

۱۹۰۹ء لاہور واپسی۔ وکالت کا آغاز۔

ایضاً شیخ محمد عمر کی صاحب زادی انوری بیگم سے عقدِ  ثانی۔

مارچ۱۹۱۰ء  فیلو پنجاب یونی ورسٹی۔

دسمبرایضاً رکن پنجاب، ہسٹاریکل سوسائٹی۔

۱۹۱۱ء فیلو اوریئنٹل ولا فیکلٹی۔

مئی ایضاًقائم مقام ڈین اوریئنٹل فیکلٹی۔

اکتوبر ۱۹۱۱ء        لائل پور( فیصل آباد) اور جھنگ سرکاری وکیل کی حیثیت سے روانگی۔

۱۹۱۷ء صدر اردو کانفرنس، کلکتہ۔

۱۹۱۹ء خان بہادر کا خطاب۔

۱۹۲۰ء سرکاری ملازمت ترک کر کے لاہور سے بیرسٹری کا  آغاز۔

اپریل ایضاً اعزاری مدیر ’’ شبابِ  اردو ‘‘

۲ جنوری۱۹۲۴ء رکن پنجاب لیجسلیٹو کونسل کا دوسرا دور۔

۵ جنوری۱۹۲۴ء نائب صدر، لیجسلیٹو کونسل۔(واحد امید وار کی حیثیت سے کامیاب ہوئے)

اپریل ایضاًہائی کورٹ جج لاہور۔

ایضاً اعزازی صدر انجمنِ اربابِ  علم پنجاب۔

۱۶ جنوری ۱۹۲۵ء صدر، لیجسلیٹو کونسل۔(ڈاکٹر گوکل چند نارنگ نے ۳۲ اور سر عبدالقادر نے ۴۱ ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی)

ستمبر۱۹۲۵ء  وزیرِ  تعلیم، پنجاب۔ کونسل کی صدارت سے دستبرداری

ایضاً اجلاس مجلسِ اقوام، جینوا میں ہندوستان کی نمائندگی۔

ایضاً صدارت، اجلاس آل انڈیا، مسلم لیگ۔

۱۹۲۷ء رکن، گورنر ایگزیکٹو کونسل۔

ایضاً صدارت، اجلاس آل انڈیا، مسلم ایجوکیشنل کانفرنس، مدراس۔

ایضاً رکن قائم مقام ریونیو۔

ایضاً ’’ سر ‘‘ کا خطاب۔

۱۹۲۸ء رکن پنجاب ایگزیکٹو کونسل، پنجاب۔

ایضاً رکن فلم سنسر بورڈ پنجاب۔

۱۹۲۹ء  رکن مر کزی پبلک سروس کمیشن۔

۱۹۳۰ء ایڈیشنل جج لاہور ہائی کورٹ۔

۱۹۳۲ء صدر انجمن حمایتِ  اسلام۔

اپریل ۱۹۳۴ء صدارت اجلاس، آل انڈیا، مسلم ایجوکیشنل کانفرنس،

میرٹھ۔

ایضاً ہندوستانی سپیکنگ یونین قائم کی۔

ایضاً         ممبر انڈیا کونسل، وزیر ہند کی حیثیت سے لندن روانگی اور پانچ سال قیام۔

۱۹۳۹ء رکن وائسرائے ایگزیکٹو کونسل۔

۱۹۴۰ ء انجمن حمایت اسلام کا دوبارہ صدر منتخب کیا گیا۔

۴۵۔۱۹۴۲ء چیف جسٹس بہاولپور۔

۱۹۴۵ء لاہور واپسی۔

۱۹۴۸ء  اجرا ’’مخزن‘‘ دورِ  سوم۔

ایضاً صدارت اردو کانفرنس لاہور۔

۹ فروری ۱۹۵۰ء وفات، ٹمپل روڈ، لاہور۔

٭٭

 

 

 

 سوانح

 

                Abstract

 

As Editor of "Makhzan”, Sheikh Sir Abdul Qadir, keeps an authentic place in Urdu world. He introduced Allama Iqbal and Abul Kalam Azad through Makhzan. This was one of his excellent deeds to unite all potential writers of the age in Makhzan. The chapter in focus contains review of family background, birth, education, employment, marital life, foreign travels, language proficiency, religious possession, authorship and awards of sir Sheikh Abdul Qadir.

 

                خاندانی پس منظر، تعلیم

 

شمع کی طرح جییں بزم گہِ  عالم میں

خود جلیں دیدۂ  اغیار کو بینا کر دیں ۱؎

شیخ سر عبدالقادر کا تعلق قصور کے ایک متوسط طبقے کے خاندان سے تھا۔ آپ کی پیدائش ۱۵ مارچ ۱۸۷۴ء لدھیانہ میں ہوئی۔ والد شیخ فتح الدین احمد محکمہ مال سے منسلک تھے۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ان کا عہدہ یا درجہ زیادہ اونچا نہ ہو گا کیونکہ اس زمانے میں محکمہ مال میں بھرتیاں تو ہوا کرتی تھیں لیکن اعلیٰ سطح پر مسلمانوں کا استحقاق کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ ہاں ان کی عزت و احترام کا پتا ایک فارسی قلمی نسخے سے لگایا جا سکتا ہے۔ قدیم فارسی زبان میں لکھے گئے اس ضخیم نسخے کے آخری دو صفحات میں شیخ فتح الدین احمد کی ادب دوستی اور ادب شناسی کی تعریف کی گئی ہے ۲؎ جبکہ مخزن کے منتخب مضامین کی اشاعتِ ثانی ’’مخزنِ ادب‘‘ کے اداریے میں رقم ہے کہ آپ کے والد ماجد گورنمنٹ سروس میں ایک ممتاز عہدے پر مامور تھے۔۳؎

آپ کا تعلق ’’شیخ قانون گو خاندان‘‘ سے تھا۔ واضح رہے کہ قانون گو ذات ہے پیشہ نہیں ہے۔اس خاندان کے لوگ اپنی ذات پر فخر کرتے ہیں۔   شادیاں بھی زیادہ تر اپنے خاندان میں ہی کرتے ہیں۔   شیخ فتح الدین احمد ۱۸۷۹ء میں ملازمت سے سبکدوشی کے بعد اپنے وطن قصور آ گئے۔شیخ عبد القادر نے ابتدائی تعلیم قصور سے حاصل کی۔ ۱۸۹۰ء میں ایم بی سکول لاہورسے میٹرک کا امتحان درجہ اول میں پاس کیا۔یہاں خوش نصیبی سے مولانا شیخ غلام قادر گرامی سے فارسی زبان سیکھنے کا موقع ملا اور اس پر وہ تمام عمر فخر کرتے رہے۔ یہ وہی مولانا گرامی ہیں کہ جنھیں اقبال سے اور علامہ اقبال کو ان سے حد درجہ عقیدت و محبت تھی۔علامہ اقبال کی خواہش تھی کہ وہ اپنی تازہ تخلیق گرامی سے بحث و مباحثے کے بعد اشاعت کے لیے دیں۔  ایسے اساتذہ کے فیض نے آگے چل کر شیخ عبد القادر کے ادبی ذوق کو جلا بخشنے میں اہم کردار ادا کیا۔

زندگی میں بہت سے واقعات ایسے رونما ہوتے ہیں جن کی توقع ہوتی ہے نہ خواہش لیکن ان سے مفر نہیں ، چودہ پندرہ سال کی عمر میں یتیم ہو جانے والے اس بچے کے لیے جس نے اپنی ابتدائی ز ندگی بے فکری و لا  ابالی انداز میں گزاری تھی، یکایک ذمہ داریوں کا ایک نہ ٹوٹنے والے سلسلے میں خود کو مقید تصور کرنا، آسان نہ تھا۔ بوڑھی والدہ اور بیوہ بہنوں کی کفالت سامنے ہو اور ذرائع آمدن دکھائی نہ دیتے ہوں ، رشتہ دار منہ پھیر چکے ہوں اور سفید پوشی کا بھرم بھی رکھنا ہو تو زندگی کیسے کیسے امتحان لیتی ہے۔

’’میری دادی اکثر ذکر کرتی رہتی تھیں کہ والد کے انتقال کے بعد خاندان کی تمام ذمہ داری تمھارے دادا جی پر آ گئی، دادا جی کی ایک بہن تھیں جو ان سے بیس برس بڑی تھیں۔   ‘‘۴؎

جبکہ شیخ عبد القادر اپنے خود نوشت سوانحی خاکے میں دو بہنوں کا ذکر کرتے ہیں ، دوسری بہن ان سے عمر میں پندرہ برس بڑی تھیں۔   ۵؎

ماں خود دار تھی لیکن مسائل کے پہاڑ سامنے دیکھتی تھی۔ لاڈلے بیٹے کو ایک انگریز افسر کے پاس نوکری کے لیے بھجوایا، انگریز افسر مردم شناس تھا، پہلی ہی نگاہ میں بچے میں چھپی صلاحیتوں کو شمار کر لیا اس نے جواب میں کہلا بھیجا کہ میں اس بچے میں ایک عظیم الشان شخصیت کو دیکھتا ہوں اسے ہر حال میں تعلیم حاصل کرنی چاہیے، چاہے اس کے لیے محنت کی جائے یا ڈاکہ ڈالا جائے، تعلیم سے محرومی اس بچے کے ہی نہیں ملک و قوم کے حق میں بھی نقصان دہ ہو گی۔ ماں نے جواب سنا اور ایک نئے جذبے کے ساتھ بچے کو حصولِ علم کی طرف راغب کیا۔ میٹرک کے امتحان میں وظیفہ حاصل کیا تھا، فارمین کرسچن کالج میں داخلہ مل گیا۔عبدالقادر کتابی کیڑے ہی نہ تھے بلکہ ہم نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے تقریری مقابلے ہوں یا مباحثے، ایک مقرر کی حیثیت سے ان کی شہرت سکول کالج کی چا ر دیواری سے باہر پہنچ گئی تھی۔ینگ مین محمڈن ایسو سی ایشنز کے ایک اجلاس میں آپ نے ’’اردو ادب ‘‘ کے موضوع پر ایک لیکچر دیا اور طلبہ ہی نہیں اساتذہ نے بھی اسے پسند کیا، بعد ازاں یہ مضمون پنجاب میگزین میں اشاعت کے لیے منتخب کیا گیا۔اس حوصلہ افزائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ نے اسی فورم سے معروف اردو مصنفین پر انگریزی زبان میں لیکچرز کا اہتمام کیا۔ یہ لیکچرز بعد میں کتابی صورت میں ’’ نیو سکول آف اردو لٹریچر‘‘۱۸۹۸ء میں شائع ہوئے۔ شیخ سر عبدالقادر نے فارمین کرسچن کالج سے۱۸۹۴ء میں اعزاز کے ساتھ بی اے کیا۔

 

                اساتذہ

 

سکول میں آپ کو مولانا غلام قادر گرامی جیسے اساتذہ میسر آئے تو کالج کی سطح پر ڈاکٹر جے سی آر ایونگ، جو ایف سی کالج کے پرنسپل اور بعد ازاں پنجاب یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے، ڈاکٹر آربسن اور ڈاکٹر ایچ سی ویلٹ جیسے معتبر اساتذہ نے اس با ادب بانصیب طالبِ علم کی ذہنی پرداخت میں نمایاں کردار ادا کیا۔

 

                ملازمت کی ابتدا:صحافت و ادارت اور تدریس

 

معاشی حالات فوری ملازمت کا تقاضا کرتے تھے، ساہیوال کے سرکاری سکول میں عارضی تقرری کی خبر نے پر لگا دیے، شیخ عبدالقادر پہنچے لیکن ساہیوال پہنچنے پر جس شخص سے پہلی ملاقات ہوئی، وہی استاد تھا کہ جس کی جگہ آپ کی تعیناتی ہوئی تھی لیکن اس نے اپنی چھٹی منسوخ کرا لی تھی۔ عبد القادر کے لیے یہ ایک بڑا صدمہ ہوسکتا تھا لیکن صبر و قناعت نے اس مایوسی کو شکستگی میں بدلنے نہ دیا۔

تلاش معاش ساتھ ساتھ جاری تھی۔ ذہن میں خیالات کا ازدحام تھا جو ملک کے تعلیمی، سیا سی اور اخلاقی زوال کے اسباب و علل، ان کی توجیہ اور ان کے حل کے لیے پراگندہ رہتا، اس پراگندگی کا حل یہی تھا کہ زندگی کے ان تمام پہلو ؤ ں پر منضبط انداز میں سو چا جائے۔ ان پر لکھا جائے اور ملک کے مقتدر طبقے تک عوام کی آواز پہنچائی جائے، پھر شیخ سر عبد القادر، برصغیر کے سیاسی منظر نامے سے پوری طرح آ گاہ تھے۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی علمی، ادبی و صحافتی حلقوں میں اپنی پہچان کرا چکے تھے، انگریزی زبان پر دسترس تو تھی ہی، ۱۸۹۵ء میں ’’ دی پنجاب آبزرور‘‘ کی جانب سے ادارت کی پیش کش ہوئی جو فورا  اً قبول کر لی گئی۔انتھک محنت، راست بازی اور کام میں پرفیکشن کے سبب ۱۸۹۸ء میں چیف ایڈیٹر کے عہدے تک پہنچے۔ پنجاب آبزرور سے ۱۹۰۴ء تک وابستہ رہے۔عاشق حسین بٹالوی شیخ صاحب کی ابتدائی ملازمت کی روداد اپنے انداز میں کہتے ہیں۔  ’’ سر شادی لال جو بعد میں لاہور ہائی کورٹ کے پہلے ہندوستانی چیف جج بنے، شیخ صاحب کے ہم جماعت تھے۔ شادی لال تو کالج سے نکلتے ہی بیرسٹری کی تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے لیکن اس سلسلے میں تعجب کی بات یہ ہے کہ شیخ صاحب نے اس وقت قانون کے پیشے کی طرف کسی رغبت کا اظہار نہ کیا سال بھر انھوں نے ضلع میانوالی میں عیسیٰ خیل ایسے دور افتادہ مقام پر بسر کیا۔ پھر لاہور تشریف لائے اور ہفت روزہ اخبار ’’ آبزرور کے ایڈیٹر ہو گئے۔ شیخ صاحب چاہتے تو اچھی سے اچھی سرکاری ملازمت حاصل کر لینا کچھ مشکل نہ تھا، لیکن اس ضمن میں بھی انھوں نے بے نیازی اور بے پر وائی کا حیرت انگیز ثبوت دیا۔‘‘ ۶؎

عاشق حسین بٹالوی نے جسے شیخ صاحب کی بے نیازی اور بے پر وائی کہا ہے وہ ان کی مجبوری بھی ہوسکتی ہے اور ضرورت بھی۔ یہ ان کی خوش قسمتی کہ انھیں وہ ملازمت ملی جو ان کے مزاج سے مطابقت رکھتی تھی۔ رہی یہ بات کہ وہ شادی لال کے ہمراہ ہی بیرسٹری کے لیے کیوں نہ چلے گئے اس کا جواب شیخ صاحب کے الفاظ میں یہ ہے۔’’ جب میں کالج سے نکلا تو میری مالی حالت ایسی تھی کہ میں کسی چھوٹی موٹی ملازمت پر مامور ہو جاؤ ں محکمہ تعلیم میں مجھے ایک نوکری مل گئی………‘‘ ۷؎ یہ وہی نوکری ہے جو وہ کر نہ سکے تھے۔

۱۸۹۶ئ۔ ۱۸۹۵ء میں سرسید احمد خان نے انھیں ایڈیٹر آبزرور علی گڑھ کالج کا ٹرسٹی مقرر کیا۔ لاہور کے ایک اخبار نے لکھا کہ اتنی کم عمری میں اب تک کوئی ٹرسٹی مقرر نہیں ہوا تھا۔ اس وقت شیخ صاحب کی عمر لگ بھگ ۲۴ سال تھی۔ ۸؎

۱۹۰۰ء میں اسلامیہ کالج لاہور، انجمن حمایت اسلام میں بی اے کی جماعتوں کا اجرا ہوا آپ کو وائس پرنسپل کے عہدے کی پیش کش ہوئی، تو آپ نے صرف پچاس روپے ماہانہ پر یہ ذمہ داری قبول کر لی۔’’شیخ عبد القادر ان دنوں اخبار آبزرور ( دی پنجاب آبزرور ) کے ایڈیٹر اور اسلامیہ کالج میں ادبیات انگریزی کے پرو فیسر تھے۔ انہیں چند روز کی رخصت لینی پڑی تو ان کی جگہ اقبال ( علامہ) مرحوم یہ خدمت انجام دیتے رہے۔‘‘ ۹؎

’’ پنجاب میں اعلیٰ صحافت کا مقام انھوں نے ہی متعین کیا انھوں نے زندہ اور آزاد صحافت کے لیے بڑی بڑی قربانیاں دیا آبزرور کی ادارت اس بات کی شہادت ہے ‘‘ ۱۰؎

 

                مخزن کا اجرا

 

۱۹۰۱ء لاہورسے جاری ہونے وا لے جریدے مخزن کی ادارت نے شیخ عبد القادر کو دنیائے ادب میں زندۂ  جاوید کر دیا۔ نہ صرف شیخ عبد القادر بلکہ اس دور کے بزرگ اور اہم لکھنے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کیا بلکہ نئے لکھنے والوں کو متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی بنا پر انھیں صوبۂ  پنجاب کا سرسید کہا گیا۔ ۱۱؎

ابو الکلام آزاد اور علامہ اقبال کو انھی کی جوہر شناس نگاہ نے پہچانا اور مخزن کے ذریعے ہندوستان ہی نہیں بیرونی دنیا میں ان نابغہ روزگار ہستیوں کے تعارف کا خوشگوار فریضہ سر انجام دیا۔اردو شعر و ادب نے ان کی تخلیقات کے سبب عالمی ادب میں معتبر مقام حاصل کیا۔ شیخ عبد القادر نے اردو دنیا کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں انھیں فراموش کرنا ممکن نہیں۔   یہ نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں وہ اردو زبان و ادب کی قلمی و لسانی ذرائع سے مدد کرتے رہے۔ مخزن کے لکھاری اردو زبان کے محافظ تھے اور شیخ عبد القادر ان میں سپہ سالار کی حیثیت رکھتے تھے۔۱۲؎

اپریل ۱۹۲۰ء میں ’’شبابِ اردو ‘‘ کے اعزازی چیف ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ ’’ادبی دنیا‘‘ ۱۹۲۳ء میں جاری ہوا، جلد نمبر ۲ پر مدیر تاجور نجیب آبادی اور نگران سر عبد القادر ہیں۔  ‘‘ ۱۳؎

ادبی دنیا کی ادارت کی حقیقت عاشق حسین بٹالوی یوں رقم کرتے ہیں۔  ’’ جب انھو ں ( تاجور نجیب آبادی)نے ادبی دنیا جاری کیا تو سر ورق پر شیخ عبد القادر کا نام بطور ’’ ڈائرکٹر آف پالیسی کے درج تھا۔ انھیں ہرگز اتنی فرصت نہ تھی کہ ادبی دنیا کی پالیسی کو ڈائریکٹ کریں۔   مولانا نے رسالہ نکالتے ہی اورئنٹل کالج کے اساتذہ خصوصاً محمود شیرانی پر برسنا شروع کر دیا۔ اختر شیرانی نے خیالستان میں گلہ کیا تو شیخ صاحب نے قابلِ اعتراض مضامین سے اپنی برات کا اظہار کیا۔ ۱۴؎

 

                اعلیٰ تعلیم

 

زندگی میں معاشی طور پر کچھ آسودگی ہوئی تو شیخ صاحب کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کا خیال آیا۔ تیس سال کی عمر میں ۱۹۰۴ء میں بیرسٹری کی اعلیٰ تعلیم کے لیے عازمِ  لندن ہوئے۔ ۱۹۰۵ء میں علامہ اقبال بھی انگلستان پہنچے، جہاں ان دونوں محبِ وطن شخصیتوں نے وطن کی بگڑی ہوئی صورتِ  حال کو ہمیشہ مدِ نظر رکھا اور وطن سدھار کے لیے مختلف اقدامات کے متعلق سوچتے رہے۔ اقبال اور شیخ عبد القادر ہندوستان کی سیاسی، سماجی، اقتصادی، معاشی تعلیمی، اخلاقی، مذہبی اور ادبی صورت حال کا موازنہ کرتے، اقبال ابھی لندن نہ پہنچے تھے لیکن ان کی شہرت وہاں کے علمی حلقوں میں پھیل چکی تھی، ’’اقبال لٹریری ایسوسی ایشن‘‘ کی بنیاد نیاز محمد خان نے رکھی تھی، اقبال لندن پہنچے تو اس تنظیم کی جانب سے پ رتکلف عصرانے کا اہتمام کیا گیا جس میں گاندھی اور سر آغا خان کے علاوہ مختلف مذاہب کی سربرآوردہ شخصیات نے شرکت کی، ان میں سرتیج بہادر سپرو، سروجنی نائڈو، ڈاکٹر نکلسن، شریک تھے، کیمرج سے چوہدری رحمت علی بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس تقریب میں شرکت کے لیے پہنچے، اس شاندار تقریب کے میزبانِ خصوصی، سر عمر حیات خان ٹوانہ اور میرِِ مجلس علامہ اقبال کے دیرینہ دوست شیخ عبد القادر تھے۔ ۱۵؎ وہ عرصہ جو شیخ عبد القادر نے وطن سے دور گزارا، خوش قسمتی سے انھیں اقبال کی ہمراہی نصیب ہو تی رہی۔ ہر چند اقبال کیمبرج اور شیخ صاحب لندن میں قیام پذیر تھے لیکن ملنے کے مواقع پیدا کر لیتے تھے۔ پھر یہ وہی دور ہے کہ جب عطیہ فیضی بھی لندن میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں اور ان کی ذہانت و فطانت کے اقبال قائل تھے اور عطیہ فیضی کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ علامہ نے انھیں اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ بھی سنایا، شیخ عبد القادر، اقبال اور عطیہ فیضی بیشتر محفلوں میں اکھٹے ہوتے اور علم و فلسفے کے دقیق نکات زیرِ  بحث آتے۔ ’’۲۲اپریل ۱۹۰۷ء کو علامہ، شیخ عبد القادر اور عطیہ بیگم کیمبرج گئے۔ دوپہر کے وقت سید علی بلگرامی کے ہاں پہنچے، وہاں تمام وقت بصیرت افروز اور علم پرور گفتگو نے روحانی بالیدگی میں اضافہ کیا۔‘‘۱۶؎ محمد عبداللہ چغتائی ’’ اقبال کی صحبت میں ‘‘ رقم طراز ہیں کہ اس تقریب میں لی گئی تصویر میں اقبال، عطیہ فیضی اور شیخ عبد القادر نمایاں ہیں ، یہ تصویر عطیہ فیضی کی کتا ب میں دی گئی ہے۔ ۱۷؎۱۹۰۷ء میں انھوں نے بیرسٹری کا امتحان، لنکنز ان سے اعلیٰ درجے میں پاس کیا اور مختلف ملکوں کی سیاحت کرتے ہوئے لاہور پہنچے۔

سر جلال الدین شیخ عبد القادر کے لاہور استقبال کی روداد یوں بیان کرتے ہیں کہ شیخ صاحب علامہ اقبال سے پہلے بیرسٹری پاس کر کے لاہور آ گئے۔لاہور میں انھیں شاندار ا نداز میں خوش آمدید کہا گیا، بہت بڑا استقبالیہ جلوس نکالا گیا۔ ایسے مناظر کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔   انگریز افسران بھی بہت متاثر نظر آتے تھے۔ اگلے روز گورنمنٹ ہاؤس میں ایک پارٹی تھی، ہم نے شیخ صاحب کو بھی دعوت نامہ بھجوا دیا۔ پارٹی میں موجود چیف کورٹ نے مجھ سے پوچھا کل لاہور میں کون شخص وارد ہوا ہے کہ جس کے استقبال کی گونج مدتوں یاد رکھی جائے گی۔ میں نے کہا ابھی ملوائے دیتا ہوں ، ان کی ملاقات شیخ صاحب سے کراتے ہوئے کچھ تعارفی کلمات بھی کہے، جن کی متقاضی شیخ صاحب کی ذات تھی۔چیف صاحب نے مسکرا کر کہا، شیخ صاحب آپ کا استقبال آپ کے شایانِ شان ہوا۔۱۸؎

 

                 بیرونِ  ملک اسفار

 

بیرون ملک آپ کا پہلا سفر تعلیمی نقطۂ نگاہ سے کیا گیا تھا۔ ۱۹۰۴ء میں آپ بیرسٹری کی تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان تشریف لے گئے تھے۔ امتحان میں نمایاں کامیابی کے بعد سیر و سیاحت کی غرض سے ترکی گئے اور وہاں بھی آپ کی رسم و راہ، علمی و ادبی و مذہبی شخصیات کے علاوہ سیاسی قائدین سے بھی رہی۔ سلطان عبد المجید ثانی نے آپ کی ذہانت و فطانت، علم و انسان دوستی اور قابلیت کے اعتراف میں نشانِ عثمانی عطا کیا۔

مون بیلے فرانس کی سیاحت کے دوران وہاں کا تاریخ جغرافیہ ہی زیرِ  مطالعہ نہیں رہا بلکہ آپ نے فرانسیسی ادب و ثقافت، تہذیب و تمدن وہاں کے بود و باش سبھی کو جاننے سے پہلے فرانسیسی زبان سے آگاہی زیادہ مناسب سمجھی، اسی دور میں مخزن میں آپ کے فرانسیسی تراجم بھی شائع ہوئے۔ کائنات کے حسین ترین خطوں میں شمار ہونے والی سیاحوں کی جنت سوئٹزر لینڈ اور اٹلی بوڈا پسٹ، ویانا اور برلن کی سیاحت نے ان کے تجربات میں ہی اضافہ نہ کیا بلکہ انھیں نئے موضوعات بھی سجھائے۔

۱۹۲۶ء میں جینوا کانفرنس میں آپ نے ہندوستان کی نمائندگی کے لیے یورپ کا سفر کیا۔

مئی۱۹۳۴ء سے ۱۹۳۹ء تک انڈیا کونسل لندن کے ممبر منتخب ہوئے اور ان پانچ سالوں میں اپنے وطن کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ بیرون ملک رائج اصول و قواعد کی پابندیوں کا بھی غائر مطالعہ کیا۔بیرون ملک قیام کے دوران یہ ایک فطری امر ہے کہ فرد ا پنی قوم کا موازنہ اور مقابلہ ان سے کرتا اور کڑھتا رہتا ہے۔ شیخ صاحب جہاں بھی گئے ان اقوام کے اندازِ زیست کا مطالعہ کرتے رہے۔ پھر حصول علم کے لیے ان کی تڑپ، آزادی کی لگن اور آزادی کی حفاظت کے لیے ان کی جدوجہد، عوام کی خوش حالی اور سرکار کی جانب سے دی گئی سہولتیں … دیکھتے تو خیال آتا، کیا اپنے ملک کے حالات ایسے نہیں ہو سکتے۔ کیا ہماری نوجوان نسل صرف روٹی روزی کے چکر میں تمام عمر گنوا دے گی۔ کیا ہماری آزادی کی منزل ہمیں اس نصب العین کے قریب کر دے گی، جس کے لیے ہم کوشش کر رہے ہیں۔   کیا ہماری قوم تعلیمی، معاشی اور اخلاقی اعتبار سے ان کے ہم پلہ ہوسکتی ہے۔ صنعت و حرفت، تجارت و کاروبار کے لیے اہلِ  ہند دوسری اقوام سے پیچھے کیوں ہیں۔   انگریزوں ، پرتگالیوں اور فرانسیسیوں نے ہند کی سر زمین کوخام مال کی منڈی ہی کیوں سمجھے رکھا، کیا یہاں ہنر مند ہاتھوں کی کمی ہے۔ یہاں کارخانے قائم کرنا کیا گھاٹے کا سودا ہے۔ اگر غیر ملکی یہاں آ کر دولت کما سکتا ہے تو یہاں کا باشندہ ان کے ملک جا کر کیوں اپنا کاروبار نہیں پھیلا سکتا۔ ایران و روم مسلم ممالک ہیں اور ہم سے بہت دور نہیں پھر کیا وجہ ہے کہ دوسرے ممالک کے تاجر تو وہاں لا تعداد ہوں اور ہندوستان کا ایک بھی نہ ہو۔ یہ وہ سوال ہیں جو شیخ صاحب کو بے چین رکھتے تھے، وہ چاہتے تھے کہ ہر مقام پر ہم سر جھکا کر نہیں سر اٹھا کر اپنے ملک کا تعارف بنیں۔   بیرونِ ملک ہونے والی صنعتی نمائشوں میں بھی ان کی نگاہیں اپنے وطن کے سٹال کی متلاشی رہتی ہیں۔   اور وہ اس فخر سے لذت آشنا ہونے کے خواہش مند نظر آتے تھے، جو دیارِ غیر میں اپنے ملک کے نام اور اس کی مصنوعات کی تعریف سن کر انھیں حاصل ہوتا۔ محنت اور قابلیت کامیابی کی اس منزل تک راستہ آسان کر دیتی ہے، جس کا تعین آغازِ سفر کے موقع پر کر لیا جاتا ہے۔ ’’ گھر سے نکل کے دیلھو‘‘ شیخ صاحب اپنے ہم وطنوں کو ترغیب دیتے ہیں ، تلقین کرتے ہیں ، ان کا بس چلے تو ایک ایک کو ہاتھ پکڑ کرباہر کی دنیا دیکھنے پر آمادہ کریں ، ان کے شاعر دوست علامہ اقبال بھی اپنی قوم کو حرکت و عمل کا درس دیتے رہے، شیخ صاحب بھی سفر کو وسیلۂ  ظفر قرار دیتے رہے۔

’’… جو لوگ سفر سے مستفید ہوں وہ اس کے فوائد کے اخذ کرنے کی قابلیت بھی رکھتے ہوں۔   سفر چین کا ہو یا جاپان کا، روم کا ہو یا ایران کا، یورپ کا ہو یا افریقہ کا سب سے سبق مل سکتا ہے۔ سب سے فائدہ ہو سکتا ہے بشرطیکہ کوئی محنت اور لیاقت کے جوہر لے کر نکلے اور ہمت کی رفاقت نہ چھوڑے۔ ‘‘ ۱۹ ؎

 

                زبان دانی

 

شیخ صاحب کو بچپن میں کچھ اس قسم کے حالات کا سامنا تھا کہ گھر میں سب سے چھوٹی ا ولاد ہونے کے سبب انھیں کھیل کود اور ان مشاغل کے مواقع نصیب نہ ہوئے جو عموماً بچوں کو ملتے ہیں ، لیکن شیخ صاحب اسے بھی خدا کا انعام تصور کرتے ہیں ، خصوصاً اس بات پر اپنے والد کے شکر گزار ہیں کہ والد جو خود علم دوست انسان تھے، فرصت کے اوقات میں انھیں اپنے ساتھ رکھتے، چونکہ ملنسار شخصیت تھے، مشاہیرِ شہر سے ان کی ملاقات کا سلسلہ تھا۔ اکثر شیخ صاحب بھی ان کے ہمراہ ہوتے۔ لدھیانہ میں افغانستان سے آئے ہوئے شاہ شجاع کی اولاد میں شاہ زادہ شاہ پور کی وجیہہ شخصیت نے انھیں بہت متاثر کیا، اس اثر پذیری میں اس زبان کو بہت دخل تھا جو شاہزادہ صاحب بولا کرتے تھے۔ شیخ صاحب کے لیے یہ زبان اجنبی نہ تھی۔ فارسی ان کے گھر میں بھی بولی جاتی تھی، والد فارسی نہ صرف بولتے بلکہ ان کا فارسی ادب کا مطالعہ بھی وسیع تھا۔ وہ اکثر اپنے بیٹے کو فارسی زبان کی طرف راغب کرتے اور کہا کرتے جب بھی فارغ ہو، میرے پاس فارسی کتب لے آیا کرو، یہ تمھارے بہت کام آئے گی، شیخ صاحب نے فارسی میں کافی استعداد پیدا کر لی لیکن اس کا انھیں دکھ رہا کہ والد جب ان کی عمر چودہ پندرہ برس کی تھی، داغِ مفارقت دے گئے اور وہ دیکھ نہ سکے کہ اس بچے نے بعد ازاں کتنی زبانوں میں قابلیت حاصل کر لی۔ اسی زمانے میں کہ جب افغان شہزادوں کے ہاں آمد و رفت تھی، لودھیانہ میں دہلی کے لٹے پٹے شرفا بھی آباد ہوئے، یہ محلہ خاص اردو والوں کا محلہ معلوم ہوتا۔بہت خوب صورت اور نستعلیق اردو بولی جاتی اور انداز ایسا کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ یہاں شیخ صاحب کو شین قاف سے درست اچھی اردو بولنے کا شوق پیدا ہوا۔لودھیانہ میں اہل کشمیر بھی آبسے تھے یہ مقامی افراد سے اردو یا پنجابی میں بات کرتے لیکن آپس میں کشمیری میں بات کرتے، کشمیری زبان کا آہنگ انھیں اچھا لگتا لیکن مکمل طور پر سمجھ نہ پاتے۔ شیخ صاحب کے والد شعوری طور پر اپنے بیٹے کی پرورش اس انداز میں کر رہے تھے کہ ان کا بیٹا دنیا اور معاملات دنیا کو برتنا سیکھ لے اور ساتھ ہی مختلف النسل و مختلف اللسان لوگوں سے میل جول اس کی ذہنی پرداخت میں اہم کردار ادا کرے گی۔ والد کی تربیت کا یہ انداز ان کی آئندہ زندگی میں ان کے بہت کام آیا، بار ہا اس کا اعتراف بھی انھوں نے کیا کہ مختلف لوگوں سے ملنے ان کی طبیعتوں کو جاننے اور ان کی بولیوں سے مانوس ہونے کے سبب مجھے مختلف زبانوں کے اشتراک و اختلاف پر غور و فکر کی عادت ہو گئی۔ خاص طور پر اردو کی جانب رجحان اسی دور کی عطا ہے کیونکہ تمام لوگ رابطے کے لیے اپنے اپنے لہجوں میں اردو ہی بولا کرتے تھے۔ ۲۰ ؎

ادب و السنہ سے دلچسپی ہی کی بنا پر شیخ عبد القادر نے بی۔ اے میں عربی، فارسی اور انگریزی زبان کا بطور اختیاری مضمون انتخاب کیا، بی اے میں آپ کی پانچویں پوزیشن تھی اور ’’البرٹ وکٹر پٹیالہ سکالر شپ‘‘ حاصل کیا۔

شیخ صاحب کی اردو زبان سے وارفتگی و شیفتگی قابلِ دید تھی۔ اہل پنجاب کی ایک صفت یا خامی کہہ لیجیے یہ ہے کہ وہ اردو زبان کی محبت میں شرابور ہیں اور اپنی مادری زبان کو پسِ پشت ڈال کر اردو کی ترویج و ترقی میں کوشاں رہتے ہیں۔  اردو زبان ہی پڑھتے، پڑھاتے اور اسی کو اپنے تخلیقی اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں۔

اباجی ( دادا جی، شیخ عبد القادر ) گھر میں میری دادی کے ساتھ پنجابی میں بات کیا کرتے، ہم بچوں کے ساتھ ہمیشہ اردو میں بات کی۔ گھر سے باہر اردو بولا کرتے تھے یا بوقتِ ضرورت انگریزی، ان کے احباب یہ سن کر حیران ہوتے تھے کہ شیخ صاحب پنجابی بھی بولتے ہیں۔   ۲۱؎

بات چیت کے لیے ان کی پسندیدہ زبان اردو ہی تھی۔لیکن اگر یہ خیال کیا جائے کہ وہ پنجابی زبان کو کم مایہ سمجھتے تھے تو درست نہ ہو گا۔ صرف وارث شاہ کے حوالے سے ہی بات کی جائے تو وہ اسے سعدی وشیکسپیئر کے ہم پلہ قرار دیتے ہیں۔  ’’ اگر پنجاب میں سعدی یا شیکسپیئر سے کسی کو تشبیہ دینی ہو تو وارث شاہ سے زیادہ مستحق اس تشبیہ کا کوئی نہیں مل سکتا۔ وارے شاہ اپنی محدود اور تا حال ان گھڑ زبان کا ویسا ہی استاد ہے جیسا سعدی فارسی جیسی شیریں اور شیکسپیئر انگریزی جیسی وسیع زبان کا۔ الفاظ اور لغات کی کثرت وارے شاہ میں اپنی زبان کے موافق ویسی ہی ہے جیسی ان مسلم الثبوت استادوں میں۔   محاورات اور ضرب الامثال وارے شاہ نے بھی اس کثرت سے اپنی کتاب میں جمع کی ہیں کہ ان کے مجموعہ سے پنجابی زبان کی ایک خاصی کتاب الامثال تیار ہوسکتی ہے …‘‘ ۲۲؎

پورے مضمون کا مطالعہ کرتے جائیے شیخ صاحب کی وارث شاہ سے عقیدت و محبت اور پنجابی زبان سے گہری وابستگی اور واقفیت کھلتی جائے گی۔

شیخ صاحب کی اردو زبان سے محبت ایسی تھی اور لہجہ، الفاظ کی ادائگی اور نشست و برخاست پر ایسا عبور تھا کہ سامع ان کی روز مرہ بے تکلف گفتگو ہو یا کسی علمی و ادبی موضوع پر تقریر، متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔ ’’ آپ ہر موضوع پر اور ہر پہلو سے گفتگو کر سکتے تھے اور یہی بات ان کی تقریروں میں کامیابی کا راز تھی۔ جس بے تکلفی کے ساتھ اردو لکھتے تھے اسی بے تکلفی کے ساتھ بولتے بھی تھے اور ان کے لب و لہجہ سے ہرگز معلوم نہیں ہوتا تھا کہ اردو ان کی مادری زبان نہیں ہے۔‘ ‘ ۲۳؎

’’ زندہ دلوں کا وطن ‘‘ پنجاب کی زبان کی بات کرتے ہیں تو پنجابیوں کی اس صفت کا بطورِ  خاص تذکرہ کرتے ہیں کہ پنجاب میں کئی گھرانے ایسے ہیں کہ جہاں کے مرد ہی نہیں عورتیں بھی جب ایرانیوں اور افغانیوں سے ملیں گے تو فارسی، کشمیریوں سے کشمیری اور ہندوستانیوں سے اردو بولتے ہیں خالص پنجابی محفل ہو تو پنجابی کا رنگ جمتا ہے۔ پنجابی ہر زبان کے تلفظ کو باآسانی اپنا لیتے ہیں اور ایسی روانی سے اور ایسے انداز میں بولتے ہیں کہ لگتا ہے یہ ان کی اپنی زبان ہے۔ ۲۴ ؎ شیخ صاحب کی اردو سے محبت، اور اردو کے لیے محنت کے سبب انھیں بابائے اردو کا درجہ دیا جا سککتا ہے۔پنجاب میں اردو کی ترویج کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ، ہیں ، اردو کے خوش آئند حال و مستقبل میں اہلِ پنجاب کی کاوشوں سے انکار ممکن نہیں۔   ہندوستان و پاکستان دونوں ممالک میں پنجابیوں نے جو اردو زبان کی خدمت کی ہے ملا واحدی کے نزدیک پنجابیوں میں اردو کی موجودہ لگن کی جوت شیخ عبد القادر نے ہی جگائی تھی اور صرف پنجاب ہی نہیں سارے ہند و پاک میں یومِ عبد القادر منایا جائے تو اس طرح محسنِ اردو کی خدمات کے اعتراف کا حق ادا کیا جا سککتا ہے۔ ۲۵؎

عابد علی عابد ان کی اردو خدمات کا اعتراف بہت کشادہ دلی سے کرتے ہیں ’’ پنجاب میں اردو جس طرح پروان چڑھی ہے اس میں پہلا حصہ آزاد کا ہے اور دوسرا شیخ عبد القادر کا۔‘‘ ۲۶؎ انگریزی زبان پر دسترس ان کی تحریر و تقریر سے ہویدا تھی۔ ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین برملا کہتے ہیں کہ شیخ عبد القادر سے اردو یا انگریزی زبان میں فی البدیہہ بہترین تقریر سنی جا سککتی ہے۔ ۲۷؎

مشاعرے کا ادارہ ہمارے تہذیب و تمدن کی بہترین نمائندگی کرتا رہا ہے۔ اب اس میں کسی قدر تبدیلی آ چکی ہے، فرشی نشست کے اہتمام کی بجائے سامعین کر سیوں پر متمکن ہوتے ہیں ، شعرا نازک مزاج ہوا کرتے تھے، داد چاہتے تھے لیکن سلیقے سے، اب حالات بدل چکے ہیں ، اب ہجوم بے پناہ و بے قابو ہوتا ہے۔ داد کا اظہار تالیوں سے ہوتا ہے اور ناپسندیدگی مصنوعی کھانسی سے ظاہر کی جاتی ہے۔ شیخ صاحب مشاعرے کو فروغِ اردو کا وسیلہ جان کر خوش ہوتے ہیں کہ اردو کو مقبول اور ہر دلعزیز بنانے میں اس کا اہم کردار ہے۔۲۸؎

اردو سے محبت ان کی لہو میں سرایت کیے ہوئے تھی اس وقت سے جب وہ محض ایک طالب علم تھے، پھر جب آپ ایک انگریزی ہفت روزہ کے مدیر ہوئے۔ جب آپ نے فقید المثال جریدے مخزن کا اجرا کیا، جب آپ بیرونِ ملک اعلیٰ تعلیم کے لیے تشریف لے گئے، جب آپ مختلف سرکاری و غیر سرکاری ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوتے رہے۔ اردو زبان سے عشق پروان چڑھتا رہا۔  ان کی گفتگو میں ، ادبی محفلوں میں ، ان کی تحریروں میں حتیٰ کہ نجی و سرکاری خط و کتابت میں اس کا اثر و نفوذ دیکھا جا سکتا ہے۔ نواب محسن الملک ایک ایماندار، نڈر اور بے باک شخصیت کے مالک تھے اصولوں پر سودے بازی ان کی لغت میں نہ تھی، سر انٹونی میکڈانل کی اردو دشمنی، کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی، ۱۸۹۸ء میں ہندی زبان کے حامیوں نے ان گنت دستخطوں کے ساتھ ایک عرض داشت پیش کی کہ عدالتی و دفتری زبان ہندی کو قرار دیا جائے۔ محسن الملک نے علی گڑھ ٹائن میں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا جس میں انٹونی کے اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے اردو کی حمایت میں ایک تنظیم ’’ اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن ‘‘ قائم کی۔ لکھنو میں بھی محسن الملک کی صدارت میں اردو کی حمایت میں ایک جلسے کا انعقاد کیا گیا، جس میں اعجاز حسین، غلام بھیک نیرنگ اور شیخ عبد القادر مجروح اردو کی پکار پرپنجاب کی نمائندگی کر رہے تھے۔یوپی میں اردو کے قتل کا ارادہ ہوا تو پنجاب کی اردو کو اس کی مدد کے لیے آنا ہی تھا۔ محسن الملک کہنے پر مجبور ہوئے کہ اگر حکومت اردو کے خاتمے پر مصر ہی ہے تو ہم بھی اردو کی لاش کو دریائے گومتی میں سپردِ آب کرنے کے بعد خود بھی مٹ جائیں گے۔

محسن الملک کو انگریز حکومت کے جبری احکامات کی تعمیل سے بہتر حل استعفیٰ نظر آیا۔ جس کا سبھی کو دکھ تھا کہ ایک قابل آدمی یوں رخصت کر دیا جائے، شیخ عبد القادر نواب وقار الملک کو ۱۳ دسمبر ۱۹۰۰ء کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ہوم سکریٹری مسٹر رولز کو اس استعفیٰ کا سن کر دکھ ہوا ان کا خیال ہے کہ محسن الملک کو بدستور ا پنی ذمہ داریاں نبھانی چاہییں۔   اسی موضوع پر ۹ ستمبر ۱۹۰۰ء کو وقار الملک کو دوسرے خط میں ہوم سکریٹری مسٹر رولزکی بابت تحریر کرتے ہیں کہ سر وانٹی اردو ڈیفنس کی وجہ سے شاید ناراض ہوں گے لیکن وہ کالج کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ سر رولز نے اس بات کی بھی تائید کی کہ نواب محسن الملک نے اپنی تقریر میں جو تجاویز اردو کے متعلق پیش کی تھیں درست تھیں۔   شیخ صاحب نواب وقار الملک کو اردو زبان کی ترویج کے لیے دو سفارشات سوال کی صورت تحریر کرتے ہیں جو ۵ اکتوبر ۱۹۰۰ء کی کونسل عالیہ میں پیش کیے جائیں۔   ’’ کیا گورنمنٹ آف انڈیا کو اس اضطراب سے آگاہی ہے جو ممالک مغربی و شمالی کے مسلمانوں میں لوکل گورنمنٹ کے ریزو لیوشن ۱۸ اپریل ۱۹۰۰ء کے نفاذ سے پیدا ہوا ہے۔ جس کے ذریعے سے ناگری کا رواج عدالتوں میں جائز کیا گیا ہے اور جس کی ترمیم میں عدالتی عہدوں کے لیے ہندی زبان کا جاننا لازمی ٹھہرایا گیا ہے۔ … میں جانتا ہوں کہ یہ سوالات عین آپ کی منشا کے مطابق ہوں گے۔‘‘۲۹؎

ملک و بیرونِ ملک اردو کے فروغ کے لیے انجمنوں کا قیام ہو یا کانفرنسوں کا انعقاد، ، شیخ عبد القادر ہمیشہ فعال اور متحرک رہے۔

اردو سے محبت اور دیگر زبانوں سے دلچسپی نے ا ن کی تخلیقاتی زندگی کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا۔اردو زبان سے محبت ابتدائی عمر سے ہی تھی۔شیخ صاحب کالج کے ابتدائی زمانے میں انگریزی میں ایک کتاب لکھتے ہیں لیکن موضوع ہے ’’ انیسویں صدی کا اردو ادب‘‘ انھی دنوں ادبی مجلس کا قیام، اردو زبان و ادب کی ترویج ہی کے لیے تھا۔اس ادبی مجلس کی کامیابی نے بہت سی انجمنوں کو اردو شعر و ادب کی جانب مائل کیا، لندن کے زمانۂ  قیام میں ہندوستانی سپیکنگ یونین کے انعقاد کا مقصد دیارِ  غیر میں اردو زبان ادب کو متعارف کرانا اور یہ احساس بیدار کرنا تھا کہ اردو زبان ہر قسم کے ادبی، مذہبی، سیاسی، و سائنسی خیالات و نظریات کے ادا کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے، پھر اس تنظیم کے قیام کا ایک مقصد وہاں موجود ہندوستانیوں کو اپنی زبان سے ساتھ منسلک رکھنا بھی تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر وہ زبان کے ساتھ اپنا رشتہ برقرار رکھیں گے تو وہ اپنی تہذیب، روایات اور اور اقدار سے کبھی رو گردانی نہ کر سکیں گے۔ اس کا احوال شائستہ اکرام اللہ لیڈی عبدالقادر کو لکھے گئے تعزیتی خط میں رقم کرتی ہیں ’’ لندن میں جو شفقت اور محبت آپ دونوں نے میرے ساتھ کی ہے، وہ کبھی نہیں بھولوں گی، شیخ صاحب ہی کی ہمت افزائی سے ہی ہمیں پہلے پہل تقریر کرنے کی جرات پیدا ہوئی اور جس پہلی میٹنگ میں ، میں بولی وہ ہندوستانی سپیکنگ یونین تھی، لیکن ایک میں کیا مجھ سے کئی درجہ قابل لوگوں کو راہِ ترقی پر گامزن کرنے کے مانی مبانی شیخ صاحب تھے۔‘‘ ۳۰؎

دسمبر۱۹۰۸ء میں اردو سبھا کا قیام اردو زبان کی ترویج و ترقی اور فروغ کے لیے عمل میں لایا گیا۔ مارچ ۱۹۰۹ء کے مخزن میں اردو سبھا سے متعلق معاصرین کی آرا اور ان پر بحث شائع کی گئی اور مئی کے شمارے میں اردو سبھا کے بارے میں اطراف و جوانب سے لکھے گئے خطوط کا انتخاب شائع ہوا۔ شیخ صاحب اس مضمون کے تعارف میں رقم طراز ہیں خوش آئند امر یہ ہے کہ اردو سبھا کی تائید میں صرف مسلمان تخلیق کار ہی نہیں ، ہندو اور عیسائی تخلیق کار بھی پوری طرح اعانت پر آمادہ ہیں۔   شیخ صاحب اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ اس کا مقصد اردو کی ترویج و ترقی ہے نا کہ کسی اور زبان کی مخالفت۔ بنگالی مرہٹی گجراتی اور دیگر زبانوں کے بولنے اور لکھنے والوں سے صرف اتنی التماس ہے کہ اپنی زبان برابر بولتے اور لکھتے رہیں لیکن تھوڑا سا وقت اردو کو بھی دیں ، اگر وہ اردو کی طرف توجہ دیں گے تو اردو سبھا انھیں خوش آمدید کہے گی اور یہی خصوصیت اسے دوسری انجمنوں سے ممتاز کرے گی۔ اس شذرے کے بعد شیخ صاحب ان خطوط کا خلاصہ درج کر تے ہیں جو انھیں موصول ہوئے، چند مکتوب نگاروں کے نام، عزیز لکھنوی، سید علی احسن، حامد حسن قادری، سید احمد دہلوی، وغیرہ کہ جنھوں نے شیخ صاحب کی تجویز کی تائید کی۔

 

                 فرانسیسی زبان

 

قیامِ یورپ کے دوران جب کبھی تعلیمی مصروفیات سے تھوڑی سی بھی فراغت ملی، شیخ صاحب نے سیر و سیاحت کے شوق کو اولیت دی۔ یہ شوق جہاں انھیں ایک جہانِ  دگر سے متعارف کراتا وہیں ان پر زبان وا دب سے آگاہی کی خواہش بھی بیدار کرتا۔ فرانس ( مون بیلے ) میں قیام کے دوران آپ نے فرانسیسی طرز معاشرت اور وہاں کے تاریخی آثار اور تفریحی مقامات ہی پیشِ نظر نہ رکھے بلکہ آپ نے فرانسیسی زبان میں بھی استعداد حاصل کر لی اور چند ایک فرانسیسی کی منتخب ادبی تخلیقات کو اردو کا جامہ پہنایا۔مخزن میں تین فرانسیسی تحریروں کے تراجم شائع ہوئے۔ لندن سے علامہ اقبال کے نام لکھے گئے ۲ستمبر۱۹۰۴ء کے خط میں شیخ صاحب تحریر کرتے ہیں۔  ’’آرنلڈ صاحب سے اب میں اکثر ملتا رہتا ہوں کیوں کہ میری طبعیت نے اجازت نہ دی کہ ان کی شاگردی سے محروم رہوں …اور کچھ نہیں تو فرنچ ہی شروع کر دی ہے۔ کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگی ہے۔آپ کے آنے تک خوب واقف ہو جاؤں گا۔ ۳۱؎

شیخ صاحب عالمی زبانوں سے دلچسپی کے سلسلے کی ایک کڑی’’ ہماری اسپرانٹو‘‘ ہے۔اس عنوان سے لکھے گئے مضمون میں وہ اسپرانٹو کا تعارف کراتے ہیں ، اسپرانٹو زبان یورپی ممالک کی ضرورت بن چکی ہے۔ یہ دنیا کی پہلی مصنوعی زبان ہے، مختلف زبانوں کے اختلاف کے سبب سیر و سیاحت اور تجارت میں درپیش مشکلات کے حل کے لیے اس زبان کی ضرورت ایک طویل عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی۔اسپرانٹو ایک روسی ماہرِ  لسانیات کی کوششوں کے نتیجے میں سامنے آئی۔ ان صاحب نے روسی، فرانسیسی، جرمن، انگریزی اور اطالوی زبانوں کے اشتراک سے ایک نئی زبان ایجاد کی جس کے قواعد و ضوابط بے حد آسان ہیں اسپرانٹو کے معنی امید کے ہیں ، یعنی تمام نوع انسانی کے لیے آسانیوں کی امید اور توقع لیے یہ زبان بہت تیزی سے اپنی جگہ بنا رہی ہے۔ اس کے حامی ہر سال یورپ کے کسی بھی ملک میں ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد کرتے ہیں اور سبھی اسی زبان کو ذریعۂ  اظہار بنائے ہوئے ہیں۔

اسپرانٹو کی ترقی اور فروغ کے لیے مختلف انجمنیں کام کر رہی ہیں۔   یورپی زبانوں کی مشہور کتب کا ترجمہ، ہو یا مقبولِ  عام گیتوں کا ترجمہ، سبھی کام ہو رہے ہیں۔   کئی رسائل بھی اس زبان میں شائع ہو رہے ہیں ، خواہ مقاصد تجارتی اغراض و سیاحتی امور ہی کیوں نہ ہوں۔

شیخ صاحب اسپرانٹو کو اردو کی بہن تصور کرتے ہیں کہ یہ زبان بھی کئی زبانوں کا مجموعہ اور مرکب ہے اور اس میں اب بھی دیگر کئی زبانوں کو جذب کرنے کی صلاحیت ہے۔ شیخ صاحب کہتے ہیں کہ ہمیں یہ سوچ کر مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ جانا چاہیے کہ یہ خود رو زبان خود بخود بڑھے گی بلکہ ہمیں اسپرانٹو سے لگاؤ رکھنے والوں کی طرح کوشش کرنا ہو گی۔ اس کی ترقی اور نشو و نما کے لیے مختلف شہروں میں انجمنیں قائم کرنا ہوں گی۔ جلسے اور کانفرنسوں کا انعقاد بھی ضروری ہے وہ صوبے جہاں اردو کا چلن عام نہیں ہے وہاں باقاعدہ اجلاس ہونے چاہییں ، جہاں تکلم کی مشق بھی ہو اور ادب پاروں کا انتخاب بھی پڑھ کر سنایا جائے تا کہ تلفظ کا مسئلہ حل ہو سکے۔

شیخ صاحب نے مضمون کا آغاز تو اسپرانٹو کی تعریف و تعارف سے کیا لیکن جیسا کہ مضمون کے عنوان ’’ ہماری ا سپرانٹو ‘‘ سے عیاں ہے وہ اپنی زبان اردو کی نشو و نما اور ترقی کے لیے تجاویز پیش کرتے اور ان پر عمل ہوتا بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔

شیخ عبد القادر کے سفر ناموں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں سماجی و جغرافیائی حالات کا ہی بیان نہیں بلکہ لسانی تغیرات کا ذکر اس انداز میں کیا گیا ہے کہ جس سے شیخ صاحب کی اس موضوع سے دلچسپی عیاں ہے۔جپسی خاندان کا تذکرہ ایک تحیر آمیز فضا کو جنم دیتا ہے۔ ان کی تاریخ دنیا کے کسی ایک علاقے سے وابستہ نہیں رہی ہے، انگلستان اور یورپ کے کئی مما لک میں اب بھی ان کے نقوش ملتے ہیں ، ایک خیال کے مطابق ان نفوس کا تعلق اول اول سرزمینِ مصر سے تھا۔ دوسری رائے یہ تھی کہ یہ لوگ ایشیا سے یورپ مصر کے راستے داخل ہوئے تھے۔ اور پورے یورپ میں پھیل گئے، ان کے انداز زیست، بود و باش اور عادات و اطوار کو شائستہ اور شگفتہ اندار سے رقم کرتے ہوئے بیشتر توجہ ان کی زبان پر مرکوز رکھی ہے۔ جپسی انگلستان میں انگریزی زبان گنوار لہجے میں بولتے ہیں۔   فرانس میں فرانسیسی اور اسپین میں ہسپانوی، لیکن جب اپنے لوگوں میں ہوتے ہیں تو ان کی بولی بھی اپنی ہی ہوتی ہے اور یہ وہ بولی ہے کہ مختلف زبانوں کے الفاظ کہ جہاں جہاں وہ قیام کرتے رہے۔ اپنے استعمال میں لاتے رہے۔ اب جس بھی زبان کے بولنے والا ان کی زبان سنے گا تو یہی خیال کرے گا کہ اس کی اصل تو اس کی اپنی زبان ہے، سرزمینِ ہند کی زبان کے کئی الفاظ وہ بلا تکلف استعمال کرتے ہیں۔   مشہور مستشرق اور ماہرِ  لسانیات ڈاکٹر گیریسن اپنی تحقیق میں ایک بڑی تعداد ان الفاظ کی بتاتے ہیں جو جپسی ہندی/ اردو کے بولتے رہے ہیں۔

شیخ صاحب کے نزدیک جپسیوں کی سلینگ زبان کے کئی الفاظ کا استعمال انگریزی زبان بولنے والوں کے ہاں بھی ملتا ہے۔ کچھ عرصہ ہوا کہ انگریزی زبان میں ان سلینگ، بازاری و سوقیانہ الفاظ کی لغت شائع ہوئی تھی، جس میں ایک معقول تعداد ان الفاظ کی تھی جو جپسی لوگوں کی طرف سے زبان میں دخیل ہوئے تھے۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زبان کی پیدائش ایک فطری عمل کے ذریعے وجود میں آتی ہے اسے بنایا نہیں جاتا یہ خود رو پودوں کی طرح بڑھتی پھیلتی پھولتی رہتی ہے لیکن کہیں کہیں خود ساختہ زبان کے نمونے بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔   بعض مروجہ لفظ میں مستعمل حرف میں حروف کی ترتیب بدل دیتے ہیں بعض ہر لفظ کے شروع میں ف یا لام لگا کر ایک نئی بولی کی تشکیل کرتے ہیں۔   انگریز مصنف ڈی۔ کونسی کہتے ہیں کہ ان کے پچپن میں اس بولی کا خاص رواج تھا، کالج کے طلبا بھی اسے بے تکلف بولا کرتے، پچاس سال بعد اسے لاڈ وسٹ پوسٹ سے ملاقات کا موقع ملا تو دونوں اسی زبان میں رواں ہو گئے۔ اس زبان کا اصطلاحی نام زف ہے۔۳۲ ؎ برصغیر میں یہ ’’ف‘‘ کی بولی کے نام سے معروف ہے۔

 

                 پیشہ ورانہ مصروفیات

 

محمد حنیف شاہد شیخ سر عبد القادر( کتابیات)کے عنوان سے مختصر سوانحی حالات میں شیخ صاحب کی سرکاری و غیر سرکاری مصروفیات کا ذکر کرتے ہیں ، جن میں سے ۲۸ تو صرف وہ انجمنیں ہیں جن کے ساتھ آپ اعزازی طور پر وابستہ رہے۔ شیخ صاحب کی زندگی کا مطالعہ کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تعلق برائے نام نہ تھا بلکہ آپ ان تنظیموں کے فعال رکن اور روح رواں تھے اور آپ کی ذات انجمن کے بنیادی اراکین کو ہمہ وقت عمل پر آمادہ رکھتی۔آپ کی ملازمت کا باقاعدہ آغاز اس وقت ہوتا ہے کہ جب آپ اپریل ۱۹۰۷ء میں بیرسٹری کی سند کے ساتھ وطن لوٹے۔مئی میں آپ نے وکالت کا آغاز دہلی شہر سے کیا اور ساتھ ہی مخزن کو بھی دہلی لے گئے۔ ۱۹۰۹ء میں لاہور آ کر وکالت کا آغاز کیا۔مارچ۱۹۱۰ء میں فیلو پنجاب یونی ورسٹی منتخب ہوئے۔ اسی سال دسمبر میں رکن پنجاب، ہسٹاریکل سوسائٹی مقرر ہوئے۔۱۹۱۱ء میں فیلو اوریئنٹل ولا فیکلٹی بنائے گئے۔اسی سال مئی میں قائم مقام ڈین اوریئنٹل فیکلٹی کی ذمہ داری بھی نبھانی پڑی۔اکتوبر ۱۹۱۱ء میں لاہور کو خیرباد کہا  اور لائل پور( فیصل آباد) اور جھنگ سرکاری وکیل کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔ شیح غلام رسول کی نگرانی میں ’’ مخزن‘‘ لاہور سے باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا۔ وہاں رہتے ہوئے بھی شیخ صاحب کی توجہ مخزن پر رہی، یہی و جہ ہے کہ اس کا معیار برقرار رہا۔ سرکاری ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ شیخ صاحب عوام کے مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ تعلیمی پس ماندگی کی سب سے بڑی وجہ درس گاہوں کا نہ ہونا تھا، شیخ صاحب نے اپنے زمانۂ قیام میں لائل پور میں تین سکول، زمیندارہ سکول، اسلامیہ ہائی سکول اورمسلم ہائی سکول قائم کروائے۔ ۱۹۱۹ء میں خان بہادر کا خطاب ملا۔۱۹۲۰ء میں سرکاری ملازمت ترک کر کے واپس لاہور آئے اوربیرسٹری کا آغاز کیا۔۱۹۲۲ء میں رکن پنجاب لیجسلیٹو کونسل مقرر ہوئے۔ اسی سال اپریل میں لاہور ہائی کورٹ کے جج کے عہدے پہ متمکن ہوئے۔۱۹۲۴ء میں نائب صدر، لیجسلیٹو کونسل اور۱۹۲۵ء میں صدر، لیجسلیٹو کونسل مقرر ہوئے۔۱۹۲۶ء وزیرِ  تعلیم، پنجاب کی ذمہ داری نبھائی واضح رہے کہ اس دور میں تعلیم کا شعبہ اہمیت رکھتا تھا، عصر موجود کی طرح نہیں کہ جسے کوئی وزارت نہ ملی اسے کہہ دیا جاتا ہے کہ تعلیم کی وزارت آپ کی ہوئی، شیخ صاحب کی تعلیمی معاملات پر گہری نگاہ تھی۔ آپ نے اس ذمہ داری کو بطریقِ  احسن نبھایا۔ اسی سال اجلاس مجلسِ اقوام، جینوا میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔۱۹۲۷ء میں رکن، گورنر ایگزیکٹو کونسل اور رکن قائم مقام ریونیو مقرر ہوئے۔ اسی سال ’’ سر ‘‘ کا خطاب بھی ملا۔

۱۹۲۸ء میں رکن پنجاب ایگزیکٹو کونسل، پنجاب اور اسی سال رکن فلم سنسر بورڈ پنجاب بنے۔۱۹۲۹ء میں رکن مرکزی پبلک سروس کمیشن کی حیثیت سے فرائض سر انجام دیے۔۱۹۳۰ء میں ایڈیشنل جج لاہور ہائی کورٹ مقرر ہوئے۔۱۹۳۴ء میں ممبر انڈیا کونسل، وزیر ہند کی حیثیت سے لندن روانگی اور پانچ سال قیام کیا۔۱۹۳۹ء میں رکن وائسرائے ایگزیکٹو کونسل مقرر ہوئے۔ مارچ ۱۹۴۲ء تا ۱۹۴۵ء چیف جسٹس بہاولپور کی حیثیت سے خدمات سرانجم دیں۔  اس دوران کئی سرکاری و غیر سرکاری ادبی، لسانی، علمی، سیاسی، سماجی تنظیموں کے مختلف حیثیات میں فعال رکن رہے اور اپنی زندگی۹ فروری ۱۹۵۰ء کے اختتام تک مصروفِ کار رہے۔۳۳؎

شیخ صاحب کی پیشہ ورانہ قابلیت و صلاحیت کا بر ملا  اعتراف ان کے معاصرین زبانی ہی نہیں تحریری طور بھی کرتے رہے ہیں ، ان معاصرین کے نجی و سرکاری خطوط میں شیخ صاحب کا ذکر ایک ایمان دار، محنتی، مخلص، کام میں بے داغ تکمیلیت کی خواہش رکھنے والے کے طور پر سامنے آتا ہے۔ڈاکٹر وحید احمد کے انگریزی زبان میں مرتب کردہ’’ میاں فضلِ  حسین کے خطوط ‘‘ میں مختلف اصحاب کو لکھے گئے مکتوبات میں دس سے زائد مرتبہ شیخ صاحب کا ذکر ہے اور ہر مقام پر انھیں بہترین الفاظ میں یاد کیا گیا ہے۔ کسی شخص کی عدم موجودگی میں اس کا مستحسن انداز میں ذکر، یقیناًاس شخصیت کے قد آور ہونے کی دلیل ہے۔ پنجاب کے پہلے وزیر تعلیم میاں سر فضلِ حسین کے۔ ای۔ ایس۔ آئی، گورنمنٹ کالج لاہور میں علامہ اقبال کے ہم جماعت اور دوست تھے۔ میاں صاحب سے بہتر زیرک ہوشیار اور ذہین سیاست دان پنجاب میں کوئی اور نہیں ہوا۔ان کی خواہش ہوا کرتی تھی کہ اعلیٰ سرکاری عہدوں پر انگریزوں کے بجائے ہندوستانیوں کا تقرر کیا جائے۔۳۴؎

میاں فضل حسین ۵ اگست ۱۹۲۵ء کو سر ہیلی میلکم کے نام خط میں تحریر کرتے ہیں کہ پنجاب میں شیخ عبد القادر، شیخ محمد اقبال، سر شاہنواز اور شہاب الدین باصلاحیت قانون دان ہیں اور حکومت کی جانب سے تفویض کردہ فرائض نبھانے کے پوری طرح اہل ہیں۔  ۳۵؎ سر عبد اللہ سہروردی فضلِ حسین کے نام ایک ۱۰ مئی ۱۹۳۰ء کے خط میں تحریر کرتے ہیں کہ پنجاب حکومت ایک لمحے کے لیے بھی سر عبد القادر کی گراں قدر خدمات کو فراموش نہیں کر سکتی۔۳۶؎

بشارت قادر کے بیان کے مطابق شیخ صاحب کبھی سول سرونٹ نہ رہے۔ اگر انھیں سرکاری خطابات و اعزازات ملے ہیں تو وہ انھیں انگریز سرکار کی خدمات کے عوض نہیں بلکہ ان کی سماجی و تعلیمی خدمات کے پیشِ نظر عطا ہوئے ہیں۔   احسان قادر کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے احمد سلیم کہتے ہیں کہ باپ حکومت کا وفا دار، بیٹا حکومت کا باغی اس تناظر میں دونوں میں اختلافات کی خلیج گہری ہوسکتی تھی۔ ۳۷؎ پھر احسان قادر کے حوالے سے بھی یہ بات گردش کرتی رہی کہ بطور جج انھوں نے بھگت سنگھ کی پھانسی کا فیصلہ کس اذیت سے کیا ہو گا۔ ایک فرد بیٹے کے نزدیک قابلِ  تقلید اور وہی شخص باپ کے لیے قابلِ دار …

شیخ صاحب کے احباب اور ان کے سوانحی حالات لکھنے والوں نے برملا یہ بات کہی ہے کہ شیخ صاحب سرکار کے وفادار ملازم تھے جس کا ثبوت مخزن ہے کہ جس میں کبھی سیاسی نوعیت میں مضامین شائع نہ ہوئے اور اگر ہوئے بھی تو وہ انگریز حکومت کی وفاداری کا اظہار لیے ہوئے تھے۔

 

                 عادات

 

دعوت رد کرنا یا معذرت کر دینا اسلام میں پسندیدہ نہیں۔   اگر بلاوا قبول نہ کیا جائے تو دعوت دینے والا بہت سے وسوسوں اور اندیشوں کا شکار ہو جاتا ہے اور خود کو اپنی ہی نگاہوں میں حقیر سمجھنے لگتا ہے، اس کے برعکس دعوت قبول کر لی جائے تو اس کی خوشی قابلِ دید ہوتی ہے۔ شیخ صاحب اپنے دور کی ہر دلعزیز شخصیت شمار ہوتے تھے اس میں ان کے اخلاق و کردار کا بڑا دخل تھا

شیخ صاحب کو اپنی زندگی میں ہر قسم کا دنیاوی اعزاز حاصل ہوا لیکن ان کے مزاج کی افتاد ایسی تھی کہ جوں جوں مراتب میں اضافہ ہوتا گیا ان کا انکسار بڑھتا اور مروت ترقی کرتی گئی۔ غرض مند لوگ بے تکلف ان کے مکان پر جا کر اپنی ضرورتیں بیان کرتے تھے۔ وہ ہر ایک کے دکھ درد کی داستان توجہ سے سنتے اور حتی الامکان مدد بھی کرتے تھے۔ ہر ہفتے ان کے پاس شادی بیاہ کی دعوتوں کے بہت سے خطوط آ جاتے تھے۔ اکثر لوگوں کو وہ جانتے بھی نہ تھے۔ لیکن کیا مجال کوئی دعوت رد کریں۔   غریب امیر یا واقف یا ناواقف کی کوئی تمیز نہ تھی۔وہ ہر ایک کے گھر جا کر صاحب خانہ کی عزت افزائی کا موجب بنتے تھے۔ میں نے ایک روز انہیں تانگے میں سوارموچی دروازے کے اندر ایک چھوٹی سی گلی میں جاتے دیکھا۔ میں نے تعجب سے پوچھا آپ یہاں کیوں تشریف لائے؟ تانگہ روک لیا اور جیب سے ایک چھپا ہوا رنگین خط نکال کر کہنے لگے۔ بھئی دیکھو ان صاحب نے دعوت ولیمہ پر بلایا ہے لیکن مکان کا پتہ نہیں چلتا۔ تم ذر ا ٹانگے میں بیٹھ جاؤ تا کہ مکان کی تلاش کر لیں۔  ۳۸؎

شیخ عبد القادر کے کردار میں حوصلہ مندی، راست بازی اور قوتِ  فیصلہ کی مثبت اقدار نے ایک ایسی شخصیت کی تخلیق کی جس کے فیصلوں کوسبھی بے چون و چرا مان لینے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کے تحفظ کے لیے علی برادران میدانِ  سیاست میں مصروفِ  عمل تھے، علی گڑھ یونی ورسٹی کے مقابل انھوں نے جامعہ ملیہ قائم کیا۔ لاہور آئے تو ان کا مقصد اسلامیہ کالج کو جو اپنی تعلیمی اور ادبی خدمات کے لیے بہت شہرت رکھتا تھا، بند کروا کر، ایک نیا تعلیمی ادارہ قائم کرنا تھا، جسے وہ اپنے خطوط پر چلا سکیں۔   سارے ہندوستان میں علی برادران کا طوطی بولتا تھا، ان کے نظریات کی نفی، کی جرات کسی میں نہ تھی، یہ شیخ صاحب ہی تھے جنھوں نے برملا کہا کہ اسلامیہ کالج کو بند نہیں کیا جا سکتا۔ علی برادران اپنے افکار و نظریات کی ترویج کے لیے کوئی دوسرا ادارہ قائم کر لیں ، ان کی بات کی تائید جلسے میں موجود مجمع نے زور شور سے کی اور علی برادران جن کی بات موڑنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا، خاموشی سے رخصت ہو گئے۔۳۹؎

اس واقعے کی تفصیل عبداللہ چغتائی نے بھی بیان کی ہے وہ کہتے ہیں تحریک ترک موالات میں شرکت کے لیے اصرار بڑھتا جا رہا تھا ساتھ ہی اسلامیہ کالج لاہور کے اساتذہ اور طالبِ  علموں کو غیرت دلائی جا رہی تھی کہ وہ بھی کالج بند کریں اور تحریک ترک موالات میں شامل ہو کر اخوت کا مظاہرہ کریں۔   یہ صورت حال میاں فضل حسین، علامہ اقبال اور شیخ عبد القادر جیسے اکابرین کے لیے سخت تکلیف دہ تھی۔ دونوں پارٹیاں اپنے اپنے موقف کو درست تسلیم کر رہی تھیں۔   اس سلسلے میں ۱۹۲۰ ء میں انجن حمایت اسلام میں ایک مناظرے کا اہتمام کیا۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور مولانا ابو الکلام آزاد نے ترک موالات کے حق میں جوش و جذبے سے بھر پور تقریریں کیں ، ان تقاریر کے جواب میں سر عبد القادر نے نہایت برد باری اور تحمل کے ساتھ مدلل تقریر کی اور انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ مسلمان پہلے ہی پس ماندہ قوم شمار ہوتی ہے، ترک موالات تحریک میں شمولیت سے طلبا کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ اسلامیہ کالج کا بند کیا جانا کسی طرح بھی مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ان کی تقریر کی تائید علامہ اقبال اور دیگر ہم خیال لوگوں نے بھرپور انداز میں کی۔ ۴۰؎

محمد رفیق افضل’’ گفتارِ اقبال ‘‘میں تحریر کرتے ہیں ، پنجاب ہائی کورٹ کی جانب سے توہین رسالت سے متعلق مقدمہ خارج کیے جانے کی بنا پر مسلمان شدید رنج وغم سے دوچار ہوئے۔ حکومت نے فساد کے خوف سے دفعہ ۱۴۴ نافذ کر دی، مجلسِ خلافت پنجاب نے سول نافرمانی کا فیصلہ کیا۔ اس تحریک سے پیدا ہونے والی متوقع صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے سر عبدالقادر کی صدارت میں برکت علی اسلامیہ ہائی سکول میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس میں اہم اراکین نے شرکت کی۔ اقبال نے کہا کہ مسلمان توحید پر مجتمع نہیں ہوئے لیکن نبوت پر متفق ہو گئے ہیں ، یہ بھی مقامِ شکر ہے۔انھوں نے کہا کہ میرے دوست سر عبد القادر کا یہ مشورہ صائب تھا کہ عام جلسہ منعقد کرنے کے بجائے، تمام انجمنوں کے اہم اراکین کو جمع کر کے بات کر ی جائے، اقبال نے مزید کہا کہ مجھے مجلسِ خلافت کے اراکین سے ہمدردی ہے، وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ بھلائی کر رہے ہیں مگر ایسا نہیں ہے، میں ان سے ملتمس ہوں کہ دفعہ ۱۴۴ کی خلاف ورزی کا جو ارادہ انھوں نے کیا ہوا ہے اسے ملتوی کر دیا جائے۔ شیخ عبد القادر نے اپنے خطبۂ صدارت میں بھی یہی بات دہرائی کہ مجلسِ خلافت سول نافرمانی کے جس پروگرام پر عمل کرنا چاہتی ہے وہ راستہ بہت خطرناک اور مسلمانوں کو مزید مشکلات کی طرف لے جانے والا ہے اس لیے اس تحریک کو ملتوی کیا جانا چاہیے۔ ۴۱؎

جرات و بے خوفی شیخ صاحب کا وصف تھا، ۱۹۴۷ء کے دل دہلا دینے والے واقعات رونما ہو رہے تھے۔ انہیں کہا گیا کہ آپ اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی حفاظت کے لیے کوئی اسلحہ کوئی ہتھیار، گھر میں رکھا کریں تو آپ نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ بھئی جو بھی آئے گا وہ میرے ہی ہتھیار سے مجھے مار جائے گا اس لیے میں کسی ایسی تدبیر پر یقین نہیں رکھتا، اللہ مالک ہے۔۴۲؎

شیخ صاحب کئی ادبی، علمی، سماجی اور مذہبی انجمنوں کے رکن تھے بیک وقت سب کو راضی رکھنا ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ پھر ان کی آپس کی چپقلش اور ہنگامہ آرائی آداب و تہذیب کو سر د و گرم سے آشنا کرتی رہتی ہے برکت علی محمڈن ہال لاہور میں منعقد ہونے والے جلسے میں فریقین کے جذبات کا اتار چڑھاؤ ناخوشگوار حالات میں بدلنے والا تھا کہ شیخ صاحب اپنی نشست سے اٹھے، مائک سنبھا لا اور اپنے مخصوص اندار میں یہ شعر پڑھا:

میں بھی جھوٹا، مرے وعدے بھی سراسر جھوٹے

تم ہی سچے سہی اس بات کا جھگڑا کیا ہے

شعر سننا تھا کہ بحث و مباحثے میں بڑھ چڑھ کر حصے لینے والے کھلکھلا کر ہنس پڑے اور کدورتیں ختم ہو گئیں۔   ۴۳؎

ایسا ہی ایک اور واقعہ بھی ان کی زندگی میں پیش آیا کہ جہاں ایک ایسا فیصلہ کرنا تھا کہ جس کے تحت خود ان پر فتویٰ لگ سکتا تھا  اور انھیں بے پناہ مذہبی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا، لیکن انھوں نے جو فیصلہ کیا اس پر آخر وقت تک قائم رہے۔۱۹۲۶ء میں احمدیوں نے لندن میں ایک لاکھ روپے کی لاگت سے ایک مسجد ’’ مسجدِ فضل‘‘ کے نام سے تعمیر کرائی۔ افتتاح کے لیے سلطان ابنِ سعود والی ء حجاز کو دعوت دی۔ انھوں نے اپنے بیٹے امیر فیصل کو افتتاح کے لیے لندن بھیج دیا، ہند و مصر کے علما نے سلطان کو تار بھیج کر معاملے کی نزاکت سے آگاہ کیا، انھوں نے فوری طور پر بیٹے کو افتتاح سے روک دیا اور امیر فیصل نے اما م مسجد سے معذرت کر لی۔ شیخ صاحب اسی روز چند دنوں کے لیے لندن پہنچے تھے۔آپ نے اما م مسجد سے مسجد دیکھنے کی خواہش کا اظہار خط کے ذریعے کیا تو امام صاحب نے اسے تائید غیبی سمجھا۔ شیخ صاحب مسجد پہنچے تو امام صاحب نے مسئلہ آپ کے سامنے رکھا کہ تمام دنیا میں یہ بات مشتہر ہو چکی ہے کہ امیر فیصل افتتاح کریں گے، اب انھوں نے معذرت کر لی ہے۔ شیخ صاحب نے وعدہ کر لیا کہ میں سلطان ابنِ  سعود کو آمادہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ انھیں تار بھیجا، خود امیر فیصل کی رہائش گاہ، انھیں سمجھانے کے لیے گئے لیکن بے سود، ۳ اکتوبر، سہ پہر تین بجے افتتاح کا وقت مقرر تھا۔ مہمانوں کی آمد شروع تھی لیکن یہ کسی کے علم میں نہ تھا کہ مہمانِ  خصوصی کون ہے۔ شیخ صاحب امیر فیصل کے بغیر مسجد پہنچے، امام مسجد نے شیخ صاحب سے افتتاح کی درخواست کی، یہ ایک مشکل مرحلہ تھا کہ وہ کام جس کی جرات سلطان ابنِ  سعود اور امیر فیصل نہ کرسکے۔ شیخ صاحب نے بے تعصبی اور دلیری سے کر دیا۔ پہلی نماز کی امامت کروانے کی ذمہ داری بھی انھیں سونپی گئی۔ واضح رہے کہ اس واقعے کے چوبیس برس بعد ان کی وفات پر انجمن احمدیہ کا تعزیتی اجلاس منعقد کیا گیا  اور اس حوالے سے بھی بات کی گئی کہ انھوں نے نامساعد حالات میں لندن میں ان کی مسجد کا افتتاح کیا تھا۔۴۴؎

عاشق حسین بٹالوی راوی ہیں۔  ’’ جس زمانے میں شیخ صاحب وزیرِ  ہند کی کونسل کے رکن تھے اور انگلستان میں مقیم تھے تو انھوں نے ایک دفعہ مسجد وکنگ میں نماز کی امامت بھی کی تھی۔ جب اس واقعے کی خبر لاہور میں علامہ اقبال کو دی گئی تو پنجابی زبان میں اپنے مخصوص لہجے میں کہنے لگے۔’’ لو جی اک ا مامت ای رہ گئی سی، اودھے تے وی عبد القادر نے ہتھ صاف کر لئے نیں ‘‘ بعد میں جب یہ واقعہ شیخ صاحب کو سنایا گیا تو بہت ہنسے اور جواب میں اقبال ہی کا یہ شعر پڑھا

نماز جب کبھی پڑھتے ہیں بے نماز اقبال

بلا کے دیر سے مجھ کو امام کرتے ہیں

بشارت قادر مزید کہتے ہیں جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے وہ مسجد جس کا افتتاح ابا جی نے کیا تھا، ووکنگ مسجد نہیں بلکہ یہ مسجد   Borough of Wandsworth پٹنی سٹیشن کے قریب واقع ہے۔ ۴۵؎

افتتاح کے وقت شیخ صاحب کو سمبالک چابی دی گئی تھی، بڑے سائز کی چابی، شیشے کے کیس میں محفوظ تھی پہلے وہ چابی میرے پاس تھی، جب میں امریکہ گئی تو اپنی بڑی بہن نیلو فر کو دے آئی تھی، اس وقت سے وہ چابی ان کی تحویل میں ہے، لیکن اس کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں کہ شیخ صاحب کی جیسے دیگر یاد گار چیزوں میں سے کچھ ہم نے سنبھالی ہوئی ہیں ، یہ بھی ان میں سے ایک ہے۔ ۴۶؎

بے تعصبی ایک ایسا وصف ہے کہ جسے اپنا کر بہت سے مسائل کو امن و آشتی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ ان کے رسالے مخزن کی فائیلیں ان کی انسان دوستی اور بے تعصبی کی آئینہ دار ہیں۔   مخزن کے لکھاریوں میں ہندو مسلم سکھ عیسائی سبھی کی نگارشات شائع ہوتی رہی اور ان موضوعات پر، جو ان کی مذہبی اقدار اور سیاسی تصورات کی نمائندگی کرتی تھیں لیکن اگر وہ ادبی معیار پر پورا اترتی ہیں تو شیخ صاحب انھیں بلا تامل شاملِ اشاعت کر لیتے۔ ہندوؤں کے قومی ترانے بندے ماترم کا اردو ترجمہ ہویا رامائن کا منظوم ترجمہ وہ بلا تخصیص مذہب و سیاست انھیں اپنے رسالے میں شائع کرتے۔

اباجی ایک وسیع النظر، وسیع القلب اور کشادہ ذہن کے مالک تھے۔ صنفی، مذہبی، گرو ہی، لسانی اور فرقہ واریت کا کوئی امتیاز ان کے لیے قابلِ قبول نہ تھا۔۴۷؎

شیخ صاحب کا یہ نظریہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اردو زبان کو حدود و قیود میں رکھ کر اسے فنا کی وادی میں دھکیلنے کے بجائے، تمام ہندوستان کی زبان بنا کر اسے دنیا میں ایک اہم مقام دلانا چاہتے تھے اور اس مفروضے کو، کہ اردو صرف مسلمانوں کی ز بان ہے، غلط ثابت کرنا چاہتے تھے۔

میں نے شیخ صاحب کو خلوت و جلوت میں بار ہا دیکھا۔ گھر میں دیکھا۔دفتر میں دیکھا۔ صدارت کرتے دیکھا۔ بچوں سے گفتگو کرتے دیکھا۔د یس میں دیکھا۔پردیس میں دیکھا انہیں جس حالت میں دیکھا ایک ہی طرح کا پا یا۔ بلند آہنگ نہ تھے مگر ہر جگہ سنے جا تے تھے۔اکڑفوں نہیں تھی مگر رعب قائم تھا۔شفقت کرتے تھے اور عقیدت کا مرکز تھے۔ ان کی محفل ایک دربارِ عام تھا۔ یہاں سے ہر کوئی اپنے ظرف کے مطابق متمتع ہو تا تھا۔۴۸؎

 

                 مذہب سے وابستگی

 

شیخ صاحب حنفی مسلمان اور بے تعصب مسلمان تھے حقوق اللہ پر یقین رکھتے تھے لیکن عملی طور پر حقوق العباد کی مکمل تفسیر تھے۔ اقبال کو سمجھنے کے لیے قران فہمی ضروری ہے شیخ صاحب کو جاننے کے لیے علم الانسانیت سے آگہی لازم ہے۔ دیکھا جائے تو بات ایک ہی ہے کہ قرآن نے بھی محسنِ  انسانیت کے ذریعے بنی نوع انساں کو آدابِ زیست سے آگاہی بخشی۔ لاچار و بے بس مخلوقِ  خدا کی بے سرو سامانی ہمیشہ شیخ صاحب کے پیشِ  نظر رہی۔خدا اپنے شکر گزار بندوں پر اپنی نگاہِ  کرم رکھتا ہے۔ شیخ صاحب اللہ کی لاتعداد نعمتوں کا شکر یوں ادا کر نے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ سوچتے ہیں اللہ نے مجھے بہترین زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیے ہیں ، میں خود کو موسم کے سرد و گرم سے محفوظ رکھ سکتا ہوں ، تو کیا میں تپتے موسم میں کسی پیاسے کی پیاس بجھانے کا کام نہیں کرسکتا، اللہ نے مجھے بہترین لباس پہننے کا موقع فراہم کیا ہے تو کیا میں اپنے بھائیوں کو سرما کی شدید برفانی ہواؤں سے بچانے کے لیے لباس مہیا نہیں کرسکتا۔ یہ شیخ صاحب کی سوچ ہی نہ تھی بلکہ وہ اس پر عمل پیرا بھی تھے۔سنت کی پیروی اور اسلامی احکامات کی بجا آوری کے لیے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی غائر توجہ دیتے۔ شیخ صاحب اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا رہے۔ ان کے نزدیک شراب سے پرہیز خلافتِ عثمانیہ کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ان کی سپاہ ہو یا انتظامیہ شراب سے دور رہ کر اپنے تمام فیصلے ہوش مندی سے کرتی ہے۔ خود شیخ صاحب تو سگرٹ و سگار سے بھی نفور رہے۔ ایک مرتبہ دورانِ سفر طبیعت بگڑ گئی ڈاکٹر نے دوا دی، آپ کو علم ہوا کہ اس میں کچھ مقدار برانڈی کی بھی ہے تو خاموشی سے دوا گرا دی۔ شیخ صاحب کا زمانہ انگریز اقتدار کی حکمرانی کا تھا۔ آپ نے انگریزی تعلیم پائی لیکن اس کے باوجود مذہب سے وابستگی اپنی جگہ تھی۔ اس دور میں مسلم گھرانوں میں نماز، روزے، خیرات و زکوۃ پر بہت توجہ دی جاتی تھی۔ شیخ صاحب کے گھر کا بھی یہی دستور تھا، بچہ چار سال کا ہوا بسم اللہ کی رسم ادا کی گئی۔ سات سال کا ہوا روزہ رکھوایا گیا۔ انگریز حاکم تھا لیکن ہمیں مذہب کی اہمیت سے عملی طور پر آگاہ کیا جاتا رہا۔ آج کے دور میں ایسا نہیں ہے۔ سکول میں انگریزی بولنا ہماری مجبوری تھی، اب ہم آزاد لیکن ہمیں انگریزی بولنا پڑتی ہے۔ مغربیت کا شکار ہم اس وقت اس حد تک نہ تھے جب انگریزوں کے غلام تھے۔۴۹؎

شیخ صاحب اس بات پر آزردہ رہے کہ اسلام کے اصولوں کو مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں نے اپنا لیا ہے۔ہر چند کہ وہ یہ بات تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں لیکن انھوں نے بہت سی باتیں ہمارے مذہب اور شعائر سے اخذ کی ہیں۔

ان کا  انگریزوں اور اور انگریزی خوانوں سے ربط و ضبط اپنی جگہ، پانچوں وقت کی نماز کی پابندی کی خواہش رکھتے اور کوشش بھی کرتے تھے، البتہ فجر اور عشا کی نماز پڑھنے میں اکثر کامیاب رہتے۔ انگریزی سوٹ پہنتے تھے لیکن چہرہ ریش سے سجا تھا، اسلام کی حقانیت اور انسا ن دوستی ہر اس شخص کو متاثر کرتی ہے جس کا واسطہ کسی صحیح مسلمان سے رہا ہو یا اس نے اسلام کا مطالعہ سنجیدگی سے کیا ہو۔ شیخ صاحب جرمنی گئے تو مسجدِ  برلن میں ایک جرمن عیسائی نے آپ کے ہاتھ اسلام قبول کیا۔

 

                شوقِ کتب

 

ایک سوال کے جواب میں کہ اس دور میں مشہور ادبا اور صاحبِ  ذوق حضرات کے ذاتی کتب خانے ہوا کرتے تھے کیا شیخ صاحب کو بھی کتابیں خریدنے کا شوق تھا، کیا انھوں نے کوئی کتب خانہ ترتیب دیا تھا اور اگر ایسا ہے تو وہ کتب خانہ کس کی تحویل میں ہے، محترمہ برجیس ارشاد کہتی ہیں کہ ان کے پاس بے حساب کتابیں تھیں ، قانون کی کتابوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، ادبی کتابیں بھی بڑی تعداد میں تھیں ، پڑھنے والوں کو بہت فراغ دلی سے کتابیں دیا کرتے تھے، کوئی واپس کرتا کوئی نہ کرتا، بڑی بڑی شیشے کی الماریاں کتابوں سے بھری رہتیں ، رہ گئی یہ بات کہ اب کس کی تحویل میں ہیں ، اس کا مجھے کچھ پتا نہیں ، بھائی منظور قادر اور پھر بشارت قادر کے پا س ان کتب کا کچھ حصہ ہو سکتا ہے۔بشارت قادر کہتے ہیں کہ اباجی وسیع کتب خانے کے مالک تھے، سب کتابیں اولاد میں بٹ گئیں کسی لائبریری کو ڈونیٹ نہیں کی گئیں۔   ان کی یہ وراثت اولاد میں اس طرح تقسیم ہوئی : احسان قادر اور منظور قادر کو سب سے زیادہ کتابیں ملیں ، کچھ ریاض قادر نے لیں ، ارشاد قادر نے بالکل نہیں لیں ، الطاف قادر نے بھی نہیں لی ہوں گی۔ قانون کی بہت سی کتب ڈیڈی کے وسیلے سے میرے حصے میں آئیں ، احسان قادر کی کتابیں ان کی اولاد کے پاس ہوں گی … مجھے یاد ہے ایک زمانے تک میرے پاس عربی زبان میں الف لیلیٰ کی تمام جلدیں تھیں معلوم نہیں وہ کتابیں کہاں گئیں ، اب بھی میرے پاس کتب کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے لیکن سب بے ترتیب، کچھ تلاش کرنا ہو تو پانا ممکن نہیں۔  ۵۰؎

 

                ذوقِ  مطالعہ

 

شیخ صاحب کی بہو برجیس ارشاد کہتی ہیں کہ وہ صاحبِ  ذوق شخصیت تھے اور مطالعے کا ذو ق رکھتے تھے۔ ادب سے دلچسپی تھی، اگر دیکھا جائے تو ان کی کسی موضوع پر مکمل اور مبسوط کتاب تحریر نہیں کی، لیکن متفرق موضوعات پر مضامین موجود ہیں۔   جو ان کی وفات کے بعد کتابی شکل میں یکجا کیے گئے۔ وہ ادب اور ادیب نواز شخصیت تھے ادیبوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ بہت سی کتابوں کے دیباچے کتاب سونگھ کر نہیں بلکہ پڑھ کر لکھے۔ نصیحت بھی کر تے تھے، اور مزید بہتری کے لیے رائے بھی دیتے تھے۔ ۵۱؎

 

                 لباس

 

شیخ صاحب کو لباس کے معاملے میں بے نیاز تو نہیں کہہ سکتے لیکن، لباس کو اولیت نہ دیتے تھے سادگی مزاج میں بھی تھی اور لباس میں بھی۔ اکثر باہر جاتے ہوئے بیگم صاحبہ کی خواہش ہوتی کہ لباس تو بدل لیں ، لیکن آپ کہتے لوگ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں میرے لباس سے نہیں۔

ایک مرتبہ لیڈی عبد القادر نے انھیں اس خیال سے کہ غیر ملک میں انھیں دھونے، استری کرنے میں آسانی رہے گی، کچھ ریشمی قمیصیں سلوا دی تھیں لیکن انھوں نے اسلامی تعلیمات کے پیشِ نظر ان کے استعمال سے انکار کیا۔

سر عبدالقادر کی ذات میں مشرقی اور مغربی تہذیبوں کا امتزاج تھا، ڈاڑھی، رو می ٹوپی، سوٹ، نکٹائی، آپ اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جو سر سید کی نسل کے بعد آئی سر سید برطانیہ کی تہذیب متاثر بلکہ مر غوب تھے لیکن انھوں نے سوٹ کبھی نہ پہنا، نہ ہی انگریزی سیکھی، پر دے کے بھی وہ حامی تھے سر عبدالقادر نے انگریزی سیکھی، وکالت کی تعلیم لندن میں پا ئی، ان کے گھر میں مردانہ اور زنانہ بیٹھک کا امتیاز سر سری تھا۔ ۵۲؎ ’’ میں کالج میں پڑھتا تھا اور اور تقسیمِ  انعامات کے سالانہ جلسے کی تقریب کے لیے شیخ صاحب تشریف لائے تھے۔ وہیں پہلی بار ان کی زیارت ہوئی تھی۔ دوہرا بدن، میانہ قد، رعب دار شخصیت تھی، اعلیٰ درجے کا انگریزی سوٹ زیب تن تھا۔ کشادہ پیشانی کے ساتھ چہرے پر گھنی داڑھی بھی تھی جس نے شکل و صورت کو زیادہ پر وقار بنا دیا تھا۔ ۵۳؎

 

                 ازدواجی زندگی

 

پہلی شادی کم عمری میں رشتہ داروں میں ہوئی، ان سے اولاد بھی ہوئی۔ بعد ازاں بیرسٹری کی تعلیم کے بعد جب ہندوستان آ کر وکالت کا آغاز کیا تو شیخ محمد عمر، جو اس وقت وکالت میں ہی نہیں ، سیر و سیاحت میں بھی ایک اہم مقام رکھتے تھے، کے ساتھ کام کرنے لگے۔ شیخ محمد عمر اپنی ذہین بیٹی کے لیے جیسا شوہر چاہتے تھے شیخ عبد القادر میں وہ تمام خصوصیات موجود تھیں ، انھوں نے اس امر سے بھی صرف نظر کیا کہ شیخ صاحب پہلے سے شادی شدہ ہیں ، شیخ صاحب بھی جانتے تھے کہ ان کی پہلی بیوی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ ان کی سماجی زندگی میں ان کا ساتھ دے سکے، یوں شیح محمد عمر بیرسٹر کی صاحب زادی۱۹۰۹ء میں لیڈی عبد القادر کے نام سے متعارف ہوئیں اور اپنی ذہانت و فطانت اور سماجی و علمی خدمات کے باعث ملک گیر شہرت حاصل کی۔

برصغیر کی نامور شخصیت شیخ عبد القادر سے شادی نے ان کی صلاحیتوں کے لیے مہمیز کا کام دیا۔ وہ شیخ صاحب کے ساتھ انگریز لارڈز کی دعوتوں میں جاتیں اور ان کی دیگر مصروفیات میں ان کا ساتھ دیتیں۔   غیر ملکی دوروں میں ان کے ہمراہ ہوتیں اور اپنی ذاتی مصروفیات، جو ملک و قوم سے ہی متعلق تھیں ، انھیں بھی وقت دیتیں ، وہ وقت کی پابند ہی نہیں بلکہ تقسیمِ کار کے اصولوں سے بھی واقف تھیں ، گھر کو، شیخ صاحب کو، بچوں کو بھی مکمل اہمیت دیتیں اور فلاحی کاموں کے لیے بھی وقت نکال لیتیں۔

پروین قادر آغا اپنی دادی کا خاندانی پس منظر یوں بیان کرتی ہیں۔

’’ ان کے والد شیخ محمد عمر، وکلا میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے بلکہ ان کے متعلق کہا جاتا تھا کہ فرسٹ ملینیئر  لائر آف دی سب کانٹینٹ ہیں ، لاہور میں ان کے نام سے ایک سڑک بھی منسوب ہے۔شیخ محمد عمر کوسیاحت کا شوق بے انتہا تھا، چھ ماہ پریکٹس کرتے اور چھ ماہ سیر و سفر میں گزارتے، تمام دنیا دیکھ رکھی تھی، آئس لینڈ تک ہو آئے تھے۔ ان کی بھی دو بیویاں تھیں ، میری دادی ایک بہن بھائی تھے۔ انکل سلیم بھی بہت لائق وکیل تھے اور بے انتہا خوش لباس بھی۔ میری دادی کی والدہ کا تعلق افغانستان سے تھا۔ وہ بے حد خوب صورت خاتون تھیں اور انھیں بجا طور پر حسن کی ملکہ کہا جاتا تھا۔ وہ صاحب علم خاتون تھیں ، سند یافتہ تو نہیں لیکن شعر و ادب سے خصوصی لگاؤ رکھتی تھیں۔   خود بھی فارسی زبان میں شعر کہتی تھیں اور لطف کی بات یہ کہ ملازموں کے سامنے راز داری کے خیال سے دونوں ماں بیٹیاں ’’ف ‘‘ کی زبان بولا کرتیں تھیں۔   ابتدا میں ہم بچے حیرت سے انھیں تکتے تھے، بعد میں ہم بھی آپس میں ’’ف ‘‘ کی بولی بولنے کی کوشش کرتے، یوں ہمیں ایک اچھا خاصا کھیل ہاتھ آ گیا تھا۔۵۴؎

انوری بیگم ۱۸۸۴ء میں ملتان میں پیدا ہوئیں۔   یہ وہ دور تھا کہ جب مسلمان گھرانے لڑکیوں کو تعلیم کے لیے مشنری سکول بھیجنا مناسب خیال نہ کرتے تھے۔

انوری بیگم کے والد شیخ محمد عمر عورتوں کی تعلیم کے حق میں تھے انھوں نے اپنی بیٹی کی تعلیم کے لیے گھر پر اساتذہ کا بندو بست کیا جو انھیں اردو فارسی، انگریزی اور اسلامیات کی تعلیم دیتے۔ علمی اور دیندار گھرانے سے تعلق کی بنا پر آپ صوم و صلوۃ کی پابند تھیں اور اردو انگریزی اور فارسی میں آپ کی استعداد قابلِ رشک تھی۔ انگریز گورنس کی نگرانی نے انوری بیگم کی تعلیم و تہذیب میں نمایاں کردار ادا کیا۔ انھیں پڑھنے ہی نہیں لکھنے کا بھی شوق تھا۔ بارہ سال کی عمر میں ’’ تہذیبِ  نسواں ‘‘ میں آپ کے تحریر کردہ مضمون ’’سمندر کی کہانی ‘‘ کے اسلوب و موضوع نے ادب دوستوں کو متوجہ کیا اور پھر تواتر کے ساتھ ان کے اصلاحی مضامین مختلف اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ ان مضامین میں مسلمان عورتوں کے حقوق اور ان کی معاشرتی حیثیت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اسلام نے عورت کو آزادی دی ہے، اس کے معاشی معاشرتی و سماجی رتبے کا تعین کیا ہے لیکن مرد معاشرے نے اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر عورت کو محض ایک بلا معاوضہ خدمت گار کی حیثیت دے دی ہے۔ ان مضامین میں انھوں نے عورت کی حیثیت اور قدر متین کرنے کی کوشش کی ہے۔

انوری بیگم نے بہت ذوق و شوق سے تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد مسلمان عورتوں کی فلاح و بہبود، معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے معنی و لا یعنیِ  رسوم کی اصلاح، عورتوں کے سماجی و معاشی حقوق کے تحفظ کو اپنا نصب العین بنایا۔ عورتوں کو اسلامی روایات پیشِ نظر رکھتے ہوئے معاشرے کا ایک فعال اور متحرک فرد بنانے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیں۔   انھوں نے اس عمل کے لیے اپنے علم کو رہنما بنایا اور قلم کے ذریعے ہندو ستان کی سنجیدہ اور تعلیم یافتہ خواتین کو اپنا ہم نوا بنایا اور انھیں آمادہ کیا کہ وہ ہند کی ایک عام عورت کو جس کی زندگی کا مقصد خود اس پر بھی عیاں نہیں ہے، اسے ایک با مقصد زندگی گزارنے اور خود کو معاشرے کا ایک اہم اور فعال رکن ہونے کا احساس دلائیں۔

شیخ صاحب کی زندگی کا ہر لمحہ قوم کی امانت تھا، وہ اپنی قوم کو معاشی پستی سے نکالنا چاہتے تھے، انھیں سیاسی و سماجی طور پر مستحکم دیکھنا چاہتے تھے اور ان سب کے لیے انھیں حصول تعلیم کے لیے آمادہ کرنا لازم تھا پھر شیخ صاحب اردو زبان کی قدر و قیمت سے بھی آگاہ تھے۔ شیخ صاحب کا آدرش بلند تھا ان مقاصد کے حصول کے لیے انھیں جیسے ساتھی کی ضرورت تھی وہ تمام خوبیاں انوری بیگم میں موجود تھیں۔   انوری بیگم نے خواتین کا شعبہ سنبھا لا، ان کی آواز پر دور و نزدیک کی بے شمار خواتین نے لبیک کہا۔ بیگم صاحبہ کہیں انھیں تعلیم دے رہی ہیں تو کبھی سینا پرونا، کھانا بنانا، گوٹے کناری کا کام سکھا رہی ہیں اور کبھی وقت نکال کر مضامین لکھ رہی ہیں۔   انھوں نے عورتوں کو معاشی طور پر خود کفیل بننے کی وہ راہ سجھائی کہ جس نے انھیں خوشی کے ساتھ ساتھ احساسِ  فخر بخشا کہ وہ اپنے اور اپنے اہلِ  خانہ کی آسودگی کے لیے بھی کام کر رہی ہیں۔

آل انڈیا وومن ایسوسی ایشن کی فعال رکن ہونے کی حیثیت سے بیگم صاحبہ نے بمبئی، کلکتہ، لکھنؤ دہلی اور دیگر شہروں میں خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے کانفرنسوں اور اجلاسوں میں شرکت کر کے اپنی علمی لیاقت اور قوم سے محبت اور خلوص کا احساس اجاگر کیا۔

آپ نے استنبول ترکی میں خواتین کی بین الاقوامی کانفرنس میں پاکستانی خواتین کی نمائندگی کی۔ اپنے مقالے میں پاکستان کی عورت کے مسائل ان کا حل پیش کرتے ہوئے پاکستانی عورت کی وفا، اس کی جفا کشی، محنت، محبت، ایثار اور قربانی کا ذکر بھی کیا اور اس امر پر زور دیا کہ اگر اسے مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ معاشرے کا ایک فعال رکن بن کر اپنے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

آل و ومنز کانفرنس، برطانیہ میں آپ نے برصغیر کی خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے یہاں کی عورت کو پیش آنے والے تمام مسائل کی وضاحت کی اور ان کے حل بھی پیش کیے۔ آپ کا پہلے مطالبہ یہی تھا کہ ہند کی عورت کو بھی ایک مکمل فرد تسلیم کرتے ہوئے اسے ووٹ دینے کا حق دیا جائے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آپ نے محسوس کیا کہ یہ انجمن، تو مکمل کانگریسی لائحۂ  عمل پر کاربند ہے۔ بندے ماترم اور جے ہند اس کا نعرہ ہے تو آپ نے اس تنظیم سے علیحدگی اختیار کی اور اپنی الگ راہ اپنائی جہاں خواتین اپنے مسلم تشخص کے ساتھ اپنی قوم کے لیے کام کرسکتی تھیں۔   آپ نے اپنی ساتھیوں کے ہمراہ گرل گائیڈ اور ریڈ کراس کی رکن ہونے کی حیثیت سے بنی نوع انسان کی خدمت کا بیڑہ اٹھایا۔

لاہور لیڈیز کلب نے ایک مدت تک آپ کو صدارت کا اعزاز بخشا، یہی وہ زمانہ ہے کہ جب بیگم عبدالقادر کی پردہ پارٹیاں جن میں عورتوں کے معاشی، معاشرتی اور سماجی مسائل پر بات ہوتی اور سیاسی طور پر انھیں فعال و متحرک کرنے کی کوشش کی جاتی، بہت مشہور ہوئیں۔

اس دور کی اہم اور جواں مرگ مصور، امرتا شیر گل کی زندگی پر لکھا گیا احمد سلیم کا سکرین پلے، اس فنکار کی ذاتی زندگی کے تلخ و ترش لمحات سے ہی آگاہی نہیں بخشتا، بلکہ اپنے دور کے سیاسی اور سماجی منظر نامے کی جھلک بھی دکھاتا ہے …امرتا  کا شوہر وکٹر گھنٹی بجنے پر بیزاری سے فون اٹھاتا ہے اور تمسخر آمیز انداز میں اسے مطلع کرتا ہے۔ ’’ لیڈی عبد القادر… تھینک گاڈ تمھیں کسی لیڈی کا فون تو آیا‘‘ اسی سکرین پلے کے بتیسویں سین میں لیڈی عبدالقادر کے گھر منعقد ہونے والی اس پردہ پارٹی کا منظر پیش کیا جا رہا ہے جہاں ، امرتا پکوڑوں کی تعریف کرتے ہوئے کچھ زیادہ پکوڑے کھا لیتی ہے۔ امرتا آخری لمحوں تک یہی سمجھتی رہتی ہے کہ اس کی طبعیت زیادہ پکوڑے کھانے کی وجہ سے بوجھل ہو گئی ہے اور جب اسے احساس ہوتا ہے کہ اسے زہر دیا گیا ہے تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے… ۵۵؎’’اس زمانے میں لیڈی عبدالقادر کی پردہ پارٹیاں بہت مشہور تھیں۔   ایسی ہی ایک پارٹی کا ذکر مشہور آرٹسٹ امرتا شیر گل کے ایک خط میں بھی ملتا ہے دسمبر۱۹۴۱ء کی یہ پکوڑا پارٹی امرتا کی زندگی کی آخری پارٹی ثابت ہوئی کیونکہ اس کے چند ہی روز بعد اس کا انتقال ہو گیا۔ ۵۶؎

مسلم لیگ خواتین کے قیام میں بھی آپ کی سعی و عمل نے کامیابی کی منزل آسان کی، آپ کے ہمراہ بیگم شاہنواز، بیگم شفیع، فاطمہ بیگم اور گیتی آرا نے برصغیر کی خواتین کو مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع کرنے کا کام شروع کیا۔ خواتین نے دامے درمے سخنے ہر طرح مدد کی۔ قیامِ  پاکستان کے بعد کاموں میں اور اضافہ ہوا مہاجرین کی آباد کاری میں گھر، سکول، صنعت و حرفت کے اداروں کا قیام ان سب کاموں میں خواتین نے بیگم ا نوری عبد القادر کی بے پناہ مدد کی۔ بیگم صاحبہ ایک درد مند دل کی مالک تھیں یہی سبب ہے کہ ان کے قائم کردہ یتیم خانے، لائبریریاں اور درس گاہیں قوم کے لیے ایک تحفہ ہیں۔

لیڈی عبد القادر شیخ صاحب کی اردو زبان سے محبت سے آگاہ تھیں ، خود انھیں بھی قوموں کی زندگی میں زبان کی اہمیت سے آگاہی تھی، اس لیے آپ شوہر کی وفات کے بعد ان کے اس مقصد کی تکمیل میں عملی طور پر شامل رہیں۔   اپریل ۱۹۵۶ء میں اردو زبان کے فروغ کے لیے نکلنے والے جلوس کی قیادت کی اور حکام بالا تک عوامی جذبات و احساست پہنچائے اور حکومت پر زور دیا کہ اردو کو سرکاری و دفتری زبان کی حیثیت دی جائے۔

لیڈی عبد ا لقادر کی دلچپسی علم اللسان سے ابتدا ہی سے تھی۔ شیخ عبد القادر ان کی اس دلچسپی اور ذوق کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ چنانچہ شادی کے دوسرے ہی سال دسمبر ۱۹۱۰ء میں عظیم مستشرق، سنسکرت زبان کے ماہر میکس مولر کی زندگی پر ایک تعارفی خاکہ تحریر کرتی ہیں جس سے جرمنی کے اس علم دوست دانشور کے حالات سے آگاہی ہوتی ہے۔ رگ وید کے مترجم، فرڈرک میکس مولر ۶ دسمبر ۱۸۲۳ء کو جرمنی کے شہر ویسو میں پیدا ہوا۔ بچپن میں ہی یتیم ہوا، غربت کسے کہتے ہیں۔  یخ بستہ ہوا ناکافی کپڑوں میں چھید کرتے ہوئے اسے ستاتی۔ کم خوراکی پچپن سے ہی ساتھ رہی جو زندگی کے آخری لمحوں تک وفا کرتی رہی۔ ماں بچے کو اعلیٰ تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتی تھی۔ ۱۸۳۸ء میں اسے لائمزگ بھیجا گیا، جہاں اس نے لاطینی زبان میں مہارت حاصل کی۔ میکس کی ایک عادت تمام زندگی اس کے ساتھ رہی، اس نے ماں کی آخری سانسوں تک خط کا رشتہ منقطع نہ ہونے دیا۔ ایک ایک بات کی تفصیل اور ہر معاملے پر مشورہ، ماں سے محبت کا گہرا احساس ہر سطر سے جھلکتا ہے۔ ان خطوط میں ایک مفلس لیکن پر امید انسان کا عزم دکھائی دیتا ہے۔ سکول کو خیر باد کہتے ہی وہ کسی ایسے علم میں خصوصیت حاصل کرنا چاہتا تھا جس میں اس کی دلچسپی بھی ہو اور جو اسے روزگار دلانے میں معاون بھی ہو، اس نے فلالوجی کا انتخاب کیا اور سنسکرت سے تعلیم کا آغاز کیا ابھی بیس برس کا بھی نہ ہوا تھا کہ ڈ اکٹر آف فلالوجی کی ڈگری حاصل کر لی۔ ۱۸۴۴ء میں برلن گیا اور ایک سال تک وہاں سنسکرت کی تعلیم دیتا رہا اور کتب خانوں میں سنسکرت کے قدیم نسخوں کا مطالعہ کرتا رہا۔ پیرس کے قیام کے دوران اس نے ایک ہندو دوست سے انگریزی اور بنگالی زبان کی بھی مشق کی، فارسی بھی سیکھی۔ یہ دن فارغ البالی کے ہونے چاہیے تھے مگر ایسا نہ ہوا، شدید محنت، کم خوراکی و کم خوابی نے ا س کی صحت پر بہت برا اثر ڈالا مگر آفرین ہے اس پر کہ اس نے کبھی ہمت نہ ہاری۔

لیڈی عبد القادر کے اس مضمون سے ایک قدیم اور فنا ہوتی زبان سے ایک جرمن کی محبت اور علم اللسان سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی رہنمائی کے بہت سے پہلو نکلتے ہیں اور ساتھ ہی نئی نسل کے لیے یہ پیغام بھی کہ انھیں مصائب سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ مشکلات پر قابو پا کر ہی انسان حیاتِ  جاوید حاصل کرتا ہے۔

وہ ایک بہترین مقررہ بھی تھیں ، درد مند دل سے نکلی پُر خلوص و پر تاثیر صدا پر سبھی خواتین لبیک کہتیں۔   یہی انداز تحریوں کا تھا آپ کے مضامین نصیحت آموز ہونے کے باوجود شوق سے پڑھے جاتے۔ شاعری میں بھی آپ کا نام خصوصاً نعتیہ حوالے سے معتبر و محترم ہے۔ تخلص عاجزہ تھا۔ ریڈیو سے بھی آپ کا خطاب پسندیدہ رہا، آپ کے مخاطب خواتین ہی نہیں بچے بھی تھے موضوع اصلاحِ  احوال ہی تھا۔

لیڈی عبد القادر نے ان تمام مصروفیات کے باوجود خود کو اور گھر کو کبھی نظر انداز نہ کیا وہ ایک اچھی بیٹی، اچھی بیوی، اچھی ماں اور اچھی خاتونِ  خانہ تھیں ، انھوں نے شوہر کے اعلیٰ مقاصد کی تکمیل میں ان کا ساتھ دیا اور بچوں کی بہترین پرورش کی۔شیخ صاحب کی پہلی بیوی سے اولاد کو بھی انھوں نے بے حد توجہ، محبت اور شفقت دی۔ آپ نے اپنی بہوؤں کو بیٹیوں کا درجہ دیا، بیالیس سالہ خوشگوار رفاقت کا بہترین ثمر وہ ذہین اور متوازن مزاج کے حامل بچے، جن کی پرورش بغیرکسی تناؤ اور کھچاوٹ کے ماحول میں ہوئی۔ اولاد ہی نہیں ، دیگر افرادِ  خانہ، جن میں ملازمین بھی شامل ہیں ان کا رویہ بہت اچھا رہا۔ بیگم عبد القادر کے متعلق یہ کہنا یقیناً درست ہو گا کہ وہ اللہ کی جانب سے نوازی گئی شخصیت تھیں۔   اللہ نے انھیں بہترین تعلیم، بہترین اوصافِ حمیدہ اور بہترین اخلاق اور بہت خوبصورت دل سے نوازا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے بہترین مو اقع بھی فراہم کیے۔یہی وجہ ہے کہ خوش سے متعلق تقریباً سارے ہی لا حقے خوش سلیقہ، خوش لباس، خوش طالع، خوش قدم، خوش خلق، خوش خصال شخصیت کی حیثیت سے وہ اپنے حلقے میں مقبول و ممتاز رہیں۔

 

                 اولاد

 

۱۲ ستمبر ۱۹۱۲ء ؁ کو لدھیانہ میں پیدا ہونے والے اس بچے کا نام احسان ر کھا گیا۔واقعی شیخ عبدالقادر اور لیڈی عبدالقادر پر یہ قدرت کا بہت بڑا احسان تھا۔سنٹرل ماڈل سکول سے تعلیم کا آغاز کر نے والے احسان قادر نے ۱۹۲۸ء میں میٹرک مارٹن ہائی سکول سے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ۱۹۳۲ء میں بی۔اے کیا۔خوش لباس و ذہانت و متانت سے بھر پور احسان قادر کو اعلیٰ تعلیم کے لیے کیمبرج یو نیو رسٹی میں داخلہ مل گیا، لیکن جیسے ہی انھیں ڈ یرہ دون میں فو جی اکیڈمی کے قیام کی اطلاع ملی انھوں نے فوج میں جانے کا فیصلہ کر لیا۔احسان قادر کے چھوٹے بھائی منظور قادر بھی تعلیمی مدارج طے کرتے اس مقام پر آ پہنچے تھے کہ وا لد ین کے کیمبرج یو نیو ر سٹی کے خواب کو پو را کر سکیں۔

چنا نچہ احسان قادر فو جی اکیڈمی اور منظور قادر کیمبرج یو نیو ر سٹی سے وا بستہ ہو گئے۔ احسان فو جی زندگی کے مرا حل اچھی شہرت کے ساتھ طے کر تے رہے۔

اسی دو ران ان کی شا دی قریبی عزیزوں میں ہو ئی۔ آپ کا سہرا حفیظ جالندھری نے لکھا جو پرنٹ بھی ہوا اور بہت پسند کیا گیا۔ ۱۹۳۹ئ؁ میں دو سری جنگِ عظیم کے آغاز پر انھیں ا نگر یز فو ج کے ہمراہ ملایا بھیج د یا گیا۔ اسی دوران سیاسی نشیب و فراز کی رقم ہوتی داستان کے ایک کردار احسان قارد کا شمار ’’مسنگ پرسنز‘‘ میں ہوا۔ نامساعد حالات سے گزرتے احسان قادر گھر پہنچے قیامِ پاکستان کے بعد ڈیفنس ٹریننگ سکول کے کمانڈنٹ کی حیثیت سے فرائضِ منصبی انجام دیتے رہے۔ ۲۳ دسمبر ۱۹۶۹ء کو وفات پائی۔ احسان قادر کی تین بیٹیاں ہیں ، نیلو فر آج کل امریکہ میں مقیم ہیں ، ان کے شوہر ڈاکٹر اعجاز شفیع مشہور ماہر امراض چشم ہیں۔   دوسری بیٹی سونیا لاہور میں مقیم ہیں۔   تیسری بیٹی پروین قادر آغا سول سرونٹ، محکمہ انکم ٹیکس سے وابستگی رہی، ٹیکس سروس میں غالباً پہلی خاتون ہیں جو اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئیں۔   پروین شاکر ان کے بعد آئیں بلکہ پروین کی سر پرست کی حیثیت سے معروف ہوئیں۔   ریٹائر منٹ کے بعد انٹر نیشنل اسلامک یونی ورسٹی اسلام آباد کی وائس پریزیڈنٹ کی حیثیت سے انتظامی فرائض بہ حسن و خوبی سرانجام دیتی رہی ہیں۔   ان کے شوہر آغا افضال حسین فارمر سول سرونٹ ریٹائرڈ سکریٹری سینٹ ہیں۔

میاں منظور قادر، ۲۸ نومبر۱۹۱۳ ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ وفات ۳ ۱اکتوبر ۱۹۷۴ء لندن میں ہوئی۔ لندن سے بیرسٹری کی تمام زندگی وکالت کے پیشے سے وابستہ رہے اور بہت نیک نامی کمائی۔ بہت ہی سلجھے ہوئے انسان اور بہت زبردست شخصیت کے مالک تھے اور ہر کسی کو متاثر کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے تھے۔ اپنے پروفیشن کا جگمگاتا ستارہ تھے۔ عمر کا پیشتر حصہ لاہور میں ہی گزرا، احسان بھائی کی عدم موجودگی میں گھر کے بڑے بیٹے یہی تھے۔ ماں باپ کی دل جوئی اور گھر بھر کی ذمہ داری انھی پر تھی۔ جو انھوں نے بہت احسن طریقے سے نبھائی۔ وفات ۳ ۱اکتوبر ۱۹۷۴ء لندن میں ہوئی۔۵۷؎ان کی شادی سر فضلِ حسین کی صاحبزادی کے ساتھ ہوئی۔ وہ بتاتی ہیں ’’ سروجنی نائڈو ہمارے ہاں آ کر مہمان ٹھرتی تھیں تو جامع مسجد کے نان کباب بڑے شوق سے منگوا کر کھاتی تھیں اور جب مہاتما گاندھی ہمارے مکان پر تشریف لائے تھے تو والد صاحب ( سر فضلِ  حسین ) نے ان کے آنے سے پہلے بکری کا دودھ اور کھجوریں منگوا کر رکھی تھیں ، کیونکہ گاندھی جی کی یہی غذا تھی۔‘‘ ۵۸؎

منظور قادر کو ان کی خدمات کے اعتراف میں ہلالِ  پاکستان کا اعزاز عطا ہوا۔، وزیرِ خارجہ بھی رہے اور چیف جسٹس مغربی پاکستان ہائی کورٹ بھی۔ ان کے دو بیٹے ہیں ، بشارت قادر وکالت کے پیشے سے منسلک ہیں اور ڈاکٹر اصغر قادر فزکس اور میتھس بنیادی مضامین ہیں ، دو نوں کا قیام اسلام آباد میں ہے۔ دونوں ہی اپنے نانا سر فضلِ  حسین کی عکسی تصویر کہے جا سکتے ہیں۔   بیٹی شیریں قادر کی شادی مشہور مورخ اور ادیب ڈاکٹر ایس ایم اکرام کے بیٹے سے ہوئی۔

لیفٹیننٹ جنرل الطاف قادر، ۶ جون۱۹۱۵ء کی پیدائش، لاہور میں پیدا ہوئے اور وہیں ۱۹۸۲ء میں آسودۂ  خاک ہوئے۔ کم عمری ہی میں فوج سے منسلک ہو گئے تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچے، ترکی میں پاکستان کی جانب سینٹو کے ادارے سے اہم عہدے پر فائز رہے۔ ان کے بھی دو بیٹے ہیں پرویز قادر، ان کے انتقال کو کوئی چودہ برس ہو گئے ہیں دوسرے بیٹے شاہد قادر، انگلستان سے شائع ہونے والے جریدے، تھرڈ ورلڈ کواٹر لی کے مدیر ہیں۔  ۵۹ ؎

ارشاد قادر، ۱۹۱۸ء کی پیدائش ہیں۔   ان کی وفات ۱۹۹۶ء میں ہوئی۔فعال شخصیت تھے، ان کے بڑے بیٹے بریگیڈیئر ریٹائرڈ شوکت قادر ہیں چھوٹے صاحب زادے ڈاکٹر خرم قادرنے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ ہسٹری کمیشن اسلام آباد میں کلیدی عہدے پر فائز ہیں۔   بیٹی ڈاکٹر فرح قادر سائیکالو جسٹ ہیں اور فاطمہ جناح یونی ورسٹی سے منسلک ہیں۔   کلینیکل سائیکالو جی کی پریکٹس بھی کرتی ہیں۔

ریاض قادر شاعر، ادیب، ’’ اوراقِ نو‘‘ بھی آپ کے زیرِ نگرانی شائع ہوا۔ کچھ عرصہ فوج سے وابستہ رہے، لیکن فوج کی سخت نظم و ضبط اور پابندِ کار والی زندگی ان کی طبعیت سے مناسبت نہ رکھتی تھی اس لیے جلد ہی کنارہ کش ہو گئے اور بقیہ عمر شاعرانہ انداز سے گزاری، ’’ میرے دادا کے پانچ بیٹے تھے، ان میں سب سے ہونہار احسان تصور کیے جاتے تھے۔ وہ تھے بھی بہت ذہین … ہر خطرے کو مشغلہ سمجھتے رہے، پڑھنے لکھنے کے بے حد شائق تھے۔ ٹینیس اور سائیکلنگ کے بہت ماہر تھے۔ دوسری طرف ریاض قادر اباجی ( دادا جی ) کی سب سے ناکام اولاد کہے جا سکتے ہیں۔   ناکام زندگی گزاری، ازدواجی زندگی ناکام، ذریعہ معاش تقریباً تقریباً کوئی نہ تھا شاید ہی کوئی ملازمت ہفتوں ، مہینوں تک چلی ہو۔ کسی قسم کا ڈسپلن نہیں تھا ان کی زندگی میں ، مگر شاعری متاثر کرتی تھی۔ میں نے ان کی زندگی میں اپنے چچا سے تو کوئی شعر نہ سنا مگر ان کی وفات کے بعد کسی جریدے میں ان کے دو اشعار پڑھے جو ان کی ناکام زندگی کے آئینہ دار ہیں اور میرے دل پر لکھے ہیں۔

زمانے کے پہلو میں وعدے تو لاکھوں ہیں نشو و نمو کے

مگر یہ جو دن جا رہا ہے ہمارا تمھارا نہیں ہے

تمنا تو اپنی بھی تھی ہم بناتے چمن میں نشیمن

مگر وہ چمن جو قفس بن چکا ہو گوارا نہیں ہے‘‘ ۶۰؎

شعری مجموعہ ’’ کربِ نشاط‘‘ ادبی حلقوں میں پسند کیا گیا۔ ان کی اولاد میں ڈاکٹر عائشہ قادر، ڈاکٹر سعدیہ قادر اور رفعت مقبول قادر اپنے اپنے شعبوں میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔   ۶۱؎

شیخ صاحب کی اولاد میں سے منظور قادر اور الطاف قادر نے اپنے نام کے ساتھ شیخ کے لاحقے کو حذف کر دیا۔ احسان، ارشاد اور ریاض نے برقرار رکھا۔ بشارت قادر کہتے ہیں ایک مرتبہ ادارۂ حقوقِ  قانون گو شیخاں نے بہت اصرار سے میرے والد کو کسی تقریب کے لیے مدعو کیا انھوں نے انھوں نے معذرت کر لی کہ میں جانتا ہی نہیں کہ شیخوں کے کیا حقوق ہیں۔   وہ ذات پات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

شیخ صاحب کی اولاد کے سلسلے میں اس بات کی وضاحت ضروری ہے، محمد حنیف شاہد رقم طراز ہیں کہ ان کی اولاد میں چھ بیٹوں او ر ایک بیٹی کا ذکر ملتا ہے۔ ۶۲؎ یہی تعداد ان کی وفات پر روز نامہ امروز لاہور ۱۰ فروری ۱۹۵۰ء کو شائع ہونے والے طویل مضمون میں درج ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پہلی بیوی سے ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں ، لیڈی عبد القادر کے بطن سے پانچ بیٹے تھے، پروین آغا کہتی ہیں کہ میری دادی کو بیٹی کی بہت تمنا تھی لیکن اللہ نے انھیں ادلادِ نرینہ ہی بخشی، بیٹی کی کمی وہ ہم پوتیوں سے لاڈ کر کے پوری کر لیتی تھیں۔  ۶۳؎ شیخ صاحب نے دوسری شادی اپنی پہلی بیگم کو بتا کر نہ کی تھی، بیگم صاحبہ کی ناراضی فطری تھی، شیخ صاحب سے قطع تعلق کی یہ صورت پیدا کی کہ وہ بھاٹی گیٹ میں واقع اپنے گھر جاتے تو ان سے بالکل بات چیت نہ کرتیں البتہ وہ بچوں سے مل لیتے تھے۔ وہ کم جاتے تھے، بچے ہی آ کر مل لیتے تھے ان کی ضروریات کا خیال رکھتے، انھی باقاعدہ خرچ دیتے۔۶۴؎ بیٹوں کے نام محمد رفیع اور محمد بشیر تھے، بڑی بیٹی وزیر بیگم کی شادی عبد الطیف تپش سے ہوئی جو شاعر کی حیثیت سے شعر و ادب میں نمایاں مقام رکھتے تھے اور ان کا قیام بہاول پور میں تھا۔ چھوٹی بیٹی کنیز فاطمہ کی شادی شیخ عالم گیر سے ہوئی جو لائل پور( فیصل آباد) کے مشہور وکیل تھے۔ ان کی پہلی اولاد نے اب دو نسلوں کے بعد اپنے نام کے ساتھ قادر کا اضافہ کر دیا ہے۔ ۶۵؎

 

                اہم اعزازات

 

۲۹ اگست۱۹۰۶ء نشانِ عثمانی، ترکی۔

۱۹۱۹ء خان بہادر کا خطاب۔

۱۹۲۷ء’’ سر ‘‘ کا خطاب۔

بشارت قادر کے اس احساس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اباجی نے علم و ادب کے لیے خود کو وقف کر دیا تھا، اسی وجہ سے معاشرے میں ان کا اتنا مقام تھا اور اسی سبب سے سرکار نے انھیں اعزازات سے نوازا۔۶۶؎ حکومتی اعزازات کسی بھی فرد کے لیے باعثِ  فخر ہو سکتے ہیں لیکن اس محبت کو کوئی عنوان نہیں دیا جا سکتا جو اسے عوام کی جانب سے ملتی ہے، جس میں طالبِ علم بھی شامل ہوسکتے ہیں اور بڑے بڑے دانشور و رہنما بھی۔ شیخ صاحب تعلیم سے فراغت کے بعد یورپ سے وطن واپس آتے ہیں تو استقبال کرنے والوں میں نواب محسن الملک بہادر موجود تھے۔ گوالیار، دہلی، جالندھر، امرتسر لاہور ہر جگہ پر تپاک استقبال ہوا۔لاہور میں انھیں خوش آمدید کہنے والوں میں میاں محمد شفیع اور جسٹس شاہ دین ہمایوں بھی تھے۔ طالب علموں کی عقیدت کا یہ حال تھا کہ انھوں نے گاڑی کا گھوڑا کھول دیا اور گاڑی کو خود کھینچ لائے۔ شیخ عبد القادر کی زندگی کے یہ لمحات ان کے لیے کسی بھی ملکی و غیر ملکی اعزاز سے بڑھ کر تھے۔ ۶۷ ؎

 

                 وفات

 

زندگی کتنی ہی فعال، متحرک، کامیاب اور مصروف گزری ہو، موت کی آغوش میں سمانا اس کا مقدر ہوتا ہے۔ زندگی کے آخری حصے میں جب انسان یہ سوچ کر کہ مجھے جو کچھ کرنا تھا کر لیا ہے، اب رختِ سفر باندھنا چاہیے، ایسی کوئی کیفیت ان پر طاری نہ تھی کہ وہ موت کے منتظر ہوں۔   ۷۵ برس کی عمر میں بھی ان کے چہرے پر تازگی اور باتوں میں شگفتگی تھی۔ ان سے ان کی اس شادابی اور بہترین صحت کا سبب پوچھا جاتا تو کہتے ورزش کرنے کا وقت تو ملا نہیں ، البتہ دوستوں کی محفلوں میں دل کھول کر قہقہے لگائے ہیں۔   لیکن موت کو بہانہ چاہیے۔ آخر ی تین ماہ دردِ گردہ میں مبتلا رہے۔ یہ مرض جان لیوا ثابت ہوا۔ ۹ فروری ۱۹۵۰ کی صبح وفات پائی، اسی روز سہ پہر چار بجے میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔ نماز جنازہ میں پانچ ہزار سے زائد آدمیوں نے شرکت کی۔ لاہور ہائی کورٹ کے جج، اساتذہ، اہلِ  علم و دانش اور سیاسی رہنماؤں کے علاوہ گورنر پنجاب سردار عبد الرب نشتر بھی شریک تھے۔ پروفیسر سید عابد علی عابد انھیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اردو کی گذشتہ پچاس سال کی جیتی جاگتی تاریخ تھے۔ عبد المجید سالک کہتے ہیں کہ جن بزرگوں نے اہلِ  پنجاب میں اردو زبان کا ذوق پیدا کیا ان میں شیخ صاحب سرِ فہرست ہیں ، صوفی تبسم کے نزدیک شیخ صاحب قدیم مشرقی تہذیب کا زندہ مجسمہ تھے۔ وہ ایک متین ماہرِ صحافت، مخلص سیاسی رہنما اور اور با ذوق ادیب تھے، پنجاب کی سر زمین ان کی علمی و ادبی خدمات کبھی فراموش نہ کر سکے گی۔ ۶۸ ؎

٭٭

 

 

حوالہ جات

 

۱۔       علامہ اقبال کی نظم ’’عبدالقادر کے نام‘‘ سے ایک شعر۔ یہی شعر شیخ عبد القادر کے کتبہ پر  رقم ہے۔

۲۔ بشارت قادر سے مکالمہ، ۷ اپریل ۲۰۱۱ء

۳۔  اداریہ ’’انتخاب مخزن‘‘، ص ا

۴۔ بشارت قادر سے مکالمہ، ۷ اپریل ۲۰۱۱ء

۵۔  احمد سلیم، ۲۰۰۴ء ، ’’ انتخاب مخزن‘‘، لاہور سنگِ میل پبلی کیشنز، ص۲۰

۶۔عاشق حسین بٹالوی۱۹۹۲ء ’’چند یادیں ، چند تاثرات ‘‘ لاہور سنگِ میل، ص ۲۹

۷۔احمد سلیم، ۲۰۰۴ء ’’ انتخاب مخزن‘‘ لاہور سنگِ میل، ص ۱۰

۸۔ سید معشوق حسین، ’’ آہ شیخ عبد القادر ادیب شہیر ملک‘‘ مشمولہ اوراقِ  نو، ص ۱۱۵

۹۔عبدالسلام خورشید، ڈاکٹر، ۱۹۷۷ء ، ’’سرگذشتِ  اقبال‘‘ لاہور، اقبال اکادمی، ص ۴۴

۱۰۔ گوہر نوشاہی، ۱۹۹۱ء ، ’’لاہور میں اردو شاعری کی روایت‘‘، لاہور، مکتبۂ  عالیہ، ص ۱۰۰

۱۱۔ محمد حنیف شاہد، شیخ سر عبد القادر، کتابیات، ص ۹

۱۲۔ گوہر نوشاہی، ۱۹۹۱ء ، ’’لاہور میں اردو شاعری کی روایت‘‘، لاہور، مکتبۂ  عالیہ ص ۱۰۰

۱۳۔ گوہر نوشاہی، ۱۹۹۱ء ، ’’لاہور میں اردو شاعری کی روایت‘‘، لاہور، مکتبۂ  عالیہ ص ۱۲۳

۱۴۔ بٹالوی، عاشق حسین، ۱۹۹۲ء ’’چند یادیں ، چند تاثرات ‘‘ لاہور سنگِ میل، ص ۴۱

۱۵۔خورشید، ، ڈاکٹر، عبد السلام ۱۹۷۷ء ، ’’سرگذشتِ  اقبال‘‘ لاہور، اقبال اکادمی، ص ۳۶۰

۱۶۔خورشید، ڈاکٹر، عبد السلام ۱۹۷۷ء ، ’’سرگذشتِ  اقبال‘‘ لاہور، اقبال اکادمی، ص۶۲

۱۷۔چغتائی، محمد عبداللہ، روایاتِ اقبال، لاہور مجلسِ ترقی ادب، ص ۵۴

۱۸۔  چغتائی، محمد عبداللہ، روایاتِ اقبال، لاہور مجلسِ ترقی ادب، ص ۱۰۳

۱۹۔ہمایوں ، شیخ محمد نصیر ( مولف)۱۹۶۰ء ’’شیخ عبد القادر‘‘، لاہور، قومی کتب خانہ، ص ۵۱۔۵۲

۲۰۔احمد سلیم، ’’ انتخاب مخزن‘‘، ۲۰۰۴ء ، لاہور سنگِ میل پبلی کیشنز، ص ۲۱۔۲۲

۲۱۔  بشارت قادر سے مکالمہ، ۱۳ اپریل ۲۰۱۱ء

۲۲۔      شیخ عبد القادر، ہیر و رانجھا، مشمولہ، ’’انتخاب مخزن‘‘، ۲۰۰۴ء ، لاہور سنگِ میل پبلی کیشنز،  ص ۴۸

۲۳۔      شیخ عبد القادر، ہمایوں ، شیخ محمد نصیر ( مولف)۱۹۶۰ء ’’شیخ عبد القادر‘‘، لاہور، قومی کتب خانہ، ص۳۳۔۳۴

۲۴۔ا حمد سلیم، ’’انتخاب مخزن‘‘، ۲۰۰۴ء ، لاہور سنگِ میل پبلی کیشنز، ص۴۶

۲۵۔ ملا واحدی، ۲۰۰۴ء ، ’’دلی جو ایک شہر تھا‘‘، کراچی اکسفورڈ یونی ورسٹی پریس ص ۱۰۷

۲۶۔گوہر نوشاہی، ۱۹۹۱ء ، ’’لاہور میں اردو شاعری کی روایت‘‘، لاہور، مکتبۂ  عالیہ، ص ۱۰۰

۲۷۔ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین، ، ۱۹۵۰ء ، تعزیت نامہ مشمولہ، ’’ اوراقِ  نو ‘‘، ص ۱۴۱

۲۸۔احمد سلیم، ۲۰۰۴ء ’’ انتخاب مخزن‘‘ لاہور سنگِ میل، ص ۲۹

۲۹۔    مکتوب شیخ عبد القادر بنام وقار الملک، نقوش، مکاتیب نمبر شمارہ ۱۰۹۔ اپریل مئی ۱۹۶۸ء ص ۳۳۳۔ ۳۳۴

۳۰۔ریاض قادر، ناصر کاظمی، مدیران، ۱۹۵۰ء ’’ اوراقِ  نو ‘‘، ص ۱۴۶

۳۱۔ شاہد، محمد حنیف، ۱۹۷۲ء ، ’’نذرِ اقبال‘‘ لاہور، بزمِ  اقبال، کلب روڈ، ۱۷۶

۳۲۔ شیخ عبد القادر ’’ خانہ بدوش جپسی‘‘ مشمولہ انتخاب مخزن، ص ۱۹۵

۳۳۔ محمد حنیف شاہد، ۱۹۹۲ء ’’کتابیات‘‘، مقتدرہ قومی زبان اردو، ص۶ تا ۱۱

۳۴۔ عاشق حسین بٹالوی، ۱۹۸۵ء ، ’’ میاں فضلِ حسین ‘‘ مشمولہ’’ چند یادیں ، چند تاثرات‘‘  لاہور، واجد علیز، ص ۴۹۔۴۷

۳۵۔ڈاکٹر وحید احمد: مرتب، ۱۹۷۶ء ، خطوطِ میاں فضلِ حسین( انگریزی)، لاہور، ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان، یونی ورسٹی آف دی پنجاب، ص ۱۳

۳۶۔ ڈاکٹر وحید احمد: مرتب، ۱۹۷۶ء ، خطوطِ میاں فضلِ حسین( انگریزی)، لاہور، ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان، یونی ورسٹی آف دی پنجاب، ص ۶۵

۳۷۔ بشارت قادر سے مکالمہ، ۱۳ اپریل ۲۰۱۱ء

۳۸۔ عاشق حسین بٹالوی، ۱۹۹۲ء ، ’’چند یادیں ، چند تاثرات‘‘ لاہور، سنگ میل، ص ۴۳۔۴۴

۳۹۔ ہمایوں ، شیخ محمد نصیر ( مولف)۱۹۶۰ء ’’شیخ عبد القادر‘‘، لاہور، قومی کتب خانہ، ص۱۴

۴۰۔ چغتائی، محمد عبداللہ، ’’ اقبال کی صحبت میں ‘‘، لاہور مجلسِ ترقی ء ادب، ص ۱۱۲

۴۱۔محمد رفیق افضل، ۱۹۶۹ء ، ’’ گفتارِ اقبال ‘‘ لاہور، ادارۂ تحقیقاتِ پاکستان، ص۴۰۔۴۱

۴۲۔بشارت قادر سے مکالمہ، ۱۳ اپریل ۲۰۱۱ء

۴۳۔ ہمایوں ، شیخ محمد نصیر ( مولف)۱۹۶۰ء ’’شیخ عبد القادر‘‘، لاہور، قومی کتب خانہ، ص۱۴

۴۴۔ شیخ محمد اسماعیل پانی تپی، ’’شیخ عبد القادر‘‘ مشمولہ اوراقِ نو، مرتبین ریاض قادر، ناصر کاظمی، ص ۱۱۲

۴۵۔ بشارت قادر سے مکالمہ، ۱۳ اپریل ۲۰۱۱ء

۴۶۔ پروین قادر آغاسے گفتگو:۳ نومبر ۲۰۱۰

۴۷۔ بشارت قادر سے مکالمہ، ۱۳ اپریل ۲۰۱۱ء

۴۸۔ڈاکٹر تا ثیر مرحوم، ’’شیخ سر عبدالقادر’’، ایک مکمل شخصیت، مشمولہ اوراقِ نو، مرتبین

ریاض قادر، ناصر کاظمی، ص۸۹

۴۹۔پروین قادر آغاسے گفتگو:۳ نومبر ۲۰۱۰

۵۰۔بشارت قادر سے مکالمہ، ۱۳ اپریل ۲۰۱۱ء

۵۱۔ برجیس قادر سے گفتگو:۳ نومبر ۲۰۱۰

۵۲۔ ماہنامہ چہار سو، داؤد رہبر، ص۲۱

۵۳۔بٹالوی، عاشق حسین، ۱۹۹۲ء ’’چند یادیں ، چند تاثرات ‘‘ لاہور سنگِ میل، ص ۲۸

ْ ۵۴۔ پروین قادر آغا، سے مکالمہ، ۲۵ اگست ۲۰۱۰ء

۵۵۔ احمدسلیم، امرتا شیر گل، مشمولہ ’’لفظ لوگ ‘‘، اسلام آباد، پروین شاکر ٹرسٹ

ِِ۵۶۔ احمد سلیم، ۲۰۰۳ ء ؁ ’’تا ر یخ کا ایک گم شدہ ورق‘‘ دو ست پبلی کیشنز، اسلام آ باد، ص ۶۰

۵۷۔برجیس ارشادسے مکالمہ، ۳ نومبر ۲۰۱۰

۵۸۔بٹالوی، عاشق حسین، ۱۹۷۰ء ، ’’چند یادیں ، چند تاثرات‘‘ جلد اول، لاہور واجد علیز  ص۔ ۱۰۔۱۰۸

۵۹۔ برجیس ارشاد سے مکالمہ، ۳ نومبر ۲۰۱۰

۶۰۔ بشارت قادر سے مکالمہ، ۱۳ اپریل ۲۰۱۱ء

۶۱۔ برجیس ارشاد سے مکالمہ، ۳ نومبر ۲۰۱۰

۶۲۔ محمد حنیف شاہد ’’شیخ سر عبد القادر، کتابیات ‘‘ مقتدرہ، ص ۱۲

۶۳۔  پروین قادر آغاسے مکالمہ، ۲۵ اگست ۱۰

۶۴۔ پروین قادر آغاسے مکالمہ، ۲۵ اگست ۱۰

۶۵۔  بشارت قادر سے مکالمہ، ۱۳ اپریل ۲۰۱۱ء

۶۶۔ بشارت قادر سے مکالمہ، ۱۳ اپریل ۲۰۱۱ء

۶۷۔ہمایوں ، شیخ محمد نصیر ( مولف)۱۹۶۰ء ’’شیخ عبد القادر‘‘، لاہور، قومی کتب خانہ، ص۳۰۔

۶۸۔ ریاض قادر، ناصر کاظمی، مدیران، ۱۹۵۰ء ’’ اوراقِ  نو ‘‘، ص ۱۲۹۔ ۱۳۲

٭٭٭

 

 

 

 

علامہ اقبال اور شیخ سر عبد القادر ۔ دو نابغۂ روز گار ہستیاں

 

                 Abstract

 

Twentieth Century and the Eastern world are equally lucky to produce Allama Iqbal; a dignified thinker, philosopher and poet. This Century has also big names of knowledge and wisdom. This chapter contains the mention of two dignified personalities; Sir Abdul Qader and Allama Iqbal from their initial meeting till last; the mention of their colleagues and friends.

 

اقبال نے کہا تھا … ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی … علامہ محمد اقبال کا دور یقیناً زرخیزی و بالیدگی کا دور تھا۔ ذہانت و فطانت، فہم و ادراک، شعور و آگہی لیے بڑے بڑے نام سر زمینِ علم سے سر اٹھاتے اور تناور درخت بنتے دکھائی دیتے ہیں۔   خود اقبال ایسا چھتنار تھے کہ جس کے سائے میں اگنے والے پودے اپنے قد و قامت سے محروم رہنے کے بجائے پوری شدت اور آب و تاب سے جلوہ ریز ہوتے اور اپنی چھتر چھایا سے نسلِ  نو کو مستفید کرتے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ اقبال جوہر شناس تھے، وہ انسان میں ایسی صلاحیتیں بھی تلاش کر لیتے جو خود اس پر بھی منکشف نہ ہوئی تھیں ، اقبال کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کے سبب وہ اس راہ کا انتخاب کر لیتے جس کے متعلق انھوں نے سوچا بھی نہ ہوتا، اقبال نے ہمیشہ اپنے دوستوں ، بزرگوں ، ہم عصروں اور نوجوان نسل کی ہمت افزائی کی اور انھیں زمانے کے بے مہر روّیوں سے نبرد آزما ہونے پر آمادہ کیا۔ انھیں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا مشورہ دیا، ان کے لیے آسمانوں پر کمندیں ڈالنے کی خواہش کی، دنیا پر امامت کرنے کی توقع رکھی، انھیں باور کرایا کہ تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں۔  ایسے میں شیخ عبد القادر جیسی ذہین و فطین اور نابغۂ روزگار شخصیت کے لیے، اقبال سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہ تھا۔ وہ اقبال کے عہدِ  نوجوانی سے ہی ان سے توقعات قائم کر لیتے ہیں … انھیں اس امر کا اندازہ تھا کہ یہ فعال اور ہمہ جہت انسان امتِ  مسلمہ کے لیے بہت کچھ کرسکتا ہے۔ ا قبال سے اولیں ملاقاتوں کا احوال اور شعر گوئی کا انداز شیخ صاحب سے زیادہ بہتر اور کون بیان کر سکتا ہے۔ شیخ صاحب کو ہمیشہ اس بات پر فخر رہا کہ انھوں نے ستارۂ اقبال کا طلوع دیکھا اور ان کی شاعری کے ابتدائی دور میں وہ ان کے ساتھ تھے۔ ۱ ؎

اقبال نے اپنی نظم ’’ہمالہ‘‘ انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں پڑھی، شیخ عبد القادر اس نظم کے متعلق کہتے ہیں کہ انگریزی خیالات اور فارسی بندشیں پھر سر زمینِ وطن سے محبت اور اس پر فخر کا احساس، لوگوں کے اصرار پر ترنم سے پڑھی گئی اس نظم نے عوام و خواص دونوں کو مبہوت کر کے رکھ دیا۔ میں نے رسالہ مخزن کا اجرا کیا تو اقبال کی یہ نظم جلد اول، اپریل ۱۹۰۱ء میں شائع کر دی ہر چند کہ وہ اجازت دینے میں متعمل تھے کہ ایک مرتبہ اور دیکھ لوں ، ابھی کچھ خامیاں ہیں ، لیکن میں جانتا تھا کہ نظم بہت پسند کی گئی ہے اور بے داغ تکمیلیت کی خواہش کے حصار سے شاعر اور وہ بھی اقبال جیسا شاعر کبھی نکل نہ سکے گا۔ ۲ ؎

شیخ صاحب کو’’ ہمالہ‘‘ ہی نہیں انجمن اور دیگر مقامات پر منعقدہ پیشتر جلسوں میں پڑھی جانے والی تخلیقات کی سماعت اور پھر مخزن میں اشاعت کا شرف حاصل ہے۔

مخزن کا اجراء کیا گیا تو شیخ صاحب کی کوشش اور خواہش یہی تھی کہ اس کے ہر شمارے کے لیے علامہ اقبال سے کچھ نہ کچھ ضرور حاصل کر لیں اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے۔

’’ علامہ اقبال مخزن کے مستقل لکھنے والوں میں سے تھے اور یہ تعلق اس وقت تک قائم رہا جب تک مخزن پر سر عبد القادر کا نام چھپتا رہا …… ۱۹۱۷ء تک سر عبد القادر بطور ایڈیٹر اپنا نام چھپواتے رہے مولانا تاجور اسی سال اپنی نئی پالیسی لے آئے تھے مخزن کے بعض اہلِ قلم کو یہ روش مختلف معلوم ہوئی، چنانچہ ۱۹۱۸ء کے بعد بعض نام مخزن میں نایاب ہو گئے ان اہلِ قلم میں ایک نام علامہ اقبال کا بھی ہے۔ تاجور کی کسی محفل میں علامہ اقبال کی شرکت نظر نہیں آتی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ علامہ محض سر عبد القادر کے لیے ہی لکھتے تھے اور مخزن سے انھیں اسی لیے پیار تھا کہ سر عبد القادر اس کے مدیر تھے۔‘‘ ۳؎

دیباچۂ ’’بانگِ درا ‘‘ کے لیے علامہ اقبال نے شیخ صاحب ہی کا انتخاب کیا۔ ان کا تحریر کردہ دیباچہ اقبال کے اشعار کی تفہیم و تعبیر میں ، ان کے ذہنی و فکری ارتقا کو سمجھنے میں وہ فضا جو ان تخلیقات کا محرک بنی، وہ مسائل جو امتِ مسلمہ کو اور بنی نوع انساں کو در پیش تھے، سبھی کا احاطہ کرتا ہے۔ بانگِ درا کا دیباچہ شیخ عبد ا لقادر کی شاہکار تخلیقات میں سے ایک ہے، جس کی وجہ یقینا یہی ہے کہ کتاب اور صاحبِ کتاب دونوں سے ہی شیخ صاحب کی دلی وابستگی، محبت اور احترام کا رشتہ ہے۔ اہم بات یہ ہے شیخ صاحب ہی نہیں بلکہ عوام و خواص بھی صاحب کتاب سے عقیدت و محبت کا رشتہ رکھتے ہیں۔   شیخ صاحب کا تحریر کردہ دیباچہ علامہ اقبال اور ان کے قارئین کے درمیان مزید یگانگت کا سبب ہے۔ دیباچے کے آخر میں شیخ صاحب اقبال سے ملتمس ہیں کہ وہ فارسی کے ساتھ ساتھ اردو شاعری کی طرف متوجہ ہوں ، ان کی خواہش پوری ہوئی اور علامہ کے اردو شعری مجموعے بالِ جبرئیل، ضربِ  کلیم ا ور ارمغانِ حجاز کے عنوان سے شاعر مشرق، ترجمانِ حقیقت، حکیم الامت کی قدر و منزلت میں اضافے کا سبب ہوئے۔

۱۹۰۷ء میں علامہ اقبال اور شیخ صاحب کو انگلستان میں یکجا رہنے کا اتفاق ہوا۔ علامہ اقبال کیمرج میں اور شیخ عبد القادر لندن میں ، لیکن ملاقات کے مواقع نکال لیتے۔ان ملاقاتوں کا احوال اس عہد کے کئی ادبی مورخوں کی تحریروں میں ملتا ہے۔عطیہ بیگم بھی ان دنوں لندن میں تھیں ، ان کی ڈائری کے اوراق میں ان دونوں دوستوں کی فصاحت و بلاغت کی خوبی اور قابلیت و علمیت کا جا بجا اعتراف کیا گیا ہے۔ یہ دونوں نوجوان امت مسلمہ کی زبوں حالی پر کڑھنے کی بجائے عملی قدم اٹھا نا چاہتے تھے۔ اقبال، عبدالقادر کی اس خوبی سے آشنا تھے کہ یہ شخص ہمدرد ہے اور کسی کی بھی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔بانگِ درا میں شامل، ۱۹۰۸ء کی تخلیق، ’’عبد ا لقادر کے نام‘‘ گیارہ اشعار پر مشتمل نظم، کہ جس کا آخری شعر فارسی میں نظم کیا گیا ہے، اقبال کی شیخ صاحب سے وابستہ امیدوں کا اظہار ہے۔ شیخ عبد القادر کے لیے کہی گئی نظم خطابیہ انداز میں ہے اور اس میں ایک عزمِ نو کی پکار بھی سنائی دیتی ہے۔یہ وہ دور ہے کہ جب ہند کے عوام، بالخصوص مسلمان، نہایت دگرگوں حالات سے گزر رہے تھے۔علامہ اقبال اپنے ہمراہ ان سرکردہ رہنماؤں کو لے کر چلنا چاہتے تھے کہ جو خوابِ غفلت کی شکار قوم میں احساس غیرت و حمیت بیدار کریں۔  نظم میں شیخ عبد القادر کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عوام کی زندگی سے جہالت کی تاریکی دور کر کے اسے عشقِ رسول کے نور سے آشنا کیا جائے، اگر ہم اس مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو امید بندھ جاتی ہے کہ یہ قوم حیاتِ  نو پا لے گی۔ اگر مسلمان جدوجہد کو شعار بنا لیں ، غیر اسلامی روایات و تہذیب سے گریز کریں ، انقلابِ نوکو زندگی کی بقا کا ذریعہ جانیں ، عشقِ  رسول کو رہنما بنا لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی ان کے قدم نہ چومے۔ مسلمانوں کی بیداری کے لیے وہ شیخ عبد القادر کو اپنے ہمراہ لے کر چلنا چاہتے ہیں ، نظم میں فارسی الفاظ و تراکیب، تشبیہات و تلمیحات نے ایک ایسی فضا تخلیق کی ہے جس میں غنائیت و موسیقیت، ترنم و آہنگ بھی ہے اور اس پیغام کی کرنیں بھی جو آگے چل کر خضر راہ اور طلوعِ اسلام، میں زیادہ روشن ہو کر سامنے آتی ہیں۔

اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افقِ  خاور پر

بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں

اہلِ محفل کو دکھا دیں اثرِ  صیقلِ  عشق

سنگِ  امروز کو آئنۂ  فردا کر دیں

گرم رکھتا تھا ہمیں سردی ء مغرب میں جو داغ

چیر کر سینہ اسے وقفِ  تماشا کر دیں

شمع کی طرح جیئیں بز م گہِ عالم میں

خود جلیں دیدۂ اغیار کو بینا کر دیں

خود شیخ عبد القادر اقبال کی آرزو کی تکمیل میں کس طرح کوشاں رہے، انھی کی زبان سے سنیے۔ ’’   علامہ اقبال مرحوم نے جو میرے نام پیغام دیا تھا۔

اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افقِ خاور پر

بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں

اگرچہ ہماری زندگی کی راہیں الگ الگ رہیں او رمستقل طور پر ہم نشینی حاصل نہیں رہی لیکن ایک طرح ان کا منشا پورا ہو کر رہا، میری زندگی بھی خدمتِ اردو میں صرف ہوئی۔‘‘ ۴؎

علامہ اقبال کی شاعری کا آفتاب نصف النہار پر تھا، طبعیت زوروں پر تھی شعر کہنا شروع ہو تے تو ایسے محسوس ہوتا کہ اشعار کی بارش ہو رہی ہے۔ اہلِ  علم اور با ذوق افراد اقبال کو گھیرے رہتے۔ شعر خود کبھی نہیں لکھتے تھے، دوست احباب کاغذ قلم تھامے تیار بیٹھے ہوتے۔قوم کا درد ایک ایک مصرع سے چھلکتا۔ مسلمانوں کا شاندار ماضی بھلائے نہ بھولتا اور حال کا زوال آمادۂ گریہ کرتا لیکن اس خوابیدہ قو م کو رونے رلانے کے بجائے بیدار کرنے کی ضرورت تھی۔ برصغیر کے سیاسی حالات دگرگوں تھے۔ سامراجی قوتیں عوام سے خوفزدہ ہو کر دفعہ ۳۰ کا نفاذ کرچکی تھیں جس کے باعث کہیں اجتماع نہیں ہو سکتا تھا۔ اسلامی ممالک مظالم کے ایک نہ رکنے والے سلسلے کا شکار تھے۔ مسلمان شاہی مسجد لاہور میں بجھے دلوں کے ساتھ نماز عصر کے لیے جمع تھے۔ بادشاہی مسجد میں نمازِ عصر کی ادائگی کے بعد علامہ اقبال کے گرد عقیدت مندوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ اس جلسے میں علامہ اقبال نے اپنی نظم ’’ حضورِ  رسالتِ  مآب میں ‘‘ اپنے مخصوص انداز میں پڑھی۔ میاں سر محمد شفیع، انجمن حمایت اسلام کے بہت سے اہم اراکین اور شیخ عبد القادر بھی اس موقع پر موجود تھے۔ اس نظم نے اہل دل مسلمانوں کو رلا رلا دیا کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو جنگِ بلقان اور طرابلس کے مسلمانوں کی بے چارگی اور مظلومیت پر لبریز نہ ہو۔ ایک ایک آنسو ایمان کی تازگی اور نئے ولولوں کا امین تھا۔ شیخ عبد القادر علامہ اقبال کی کیفیتِ  حاضری و حضوری کے راز دار تھے، عشقِ  رسول ہی نے انھیں وہ جرأتِ  رندانہ بخشی تھی کہ وہ اپنے اور تمام مسلمانوں کے دلوں میں اٹھنے والے سوالوں ، تمام گلے شکووں اور آرزوؤ ں کو آپﷺ کی خدمت میں پیش کر دیتے۔

علامہ اقبال نے اپنی نظم ’’خضرِ راہ‘‘ اپریل ۱۹۲۲ء انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں ، جو اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ گیٹ کے صحن میں منعقد ہوا، پڑھی۔ سامعین کا پُر شوق اور پُر جوش ہجوم آپ کی نظم سننے کا متمنی تھا۔ علامہ اقبال تشریف لائے تو آپ کے ہمراہ سر ذوالفقار علی خان اور خان بہادر سر عبد القادر دائیں بائیں موجود تھے۔آپ نے ترنم کے ساتھ نظم پڑھی اور جب آپ اس شعر پر پہنچے تو ہر طرف آہ و بکا کا شور بلند ہوا خود علامہ کی ہچکی بندھ گئی اور کوئی آدھ گھنٹے کے بعد دوبارہ نظم کا وہیں سے آغاز ہوا، جہاں سے سلسلہ منقطع ہوا تھا۔ شیخ عبد القادر علامہ اقبال کے اس درد سے آگاہ تھے جو امتِ مسلمہ کی اپنے شاندار ماضی سے بے نیازی و بے اعتنائی کے سبب روز افزوں تھا۔

کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں

مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز

لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل

خشتِ بنیادِ کلیسا بن گئی خاکِ حجاز۵؎

اقبال جانتے تھے کہ نوجوان نسل میں احساس بیدار کرنے کی ضرورت ہے، کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہے، یہ سب سے بڑی بدقسمتی ہے، شیخ صاحب علامہ اقبال کی بہت سی نظموں کے تخلیقی پس منظر سے آگاہ تھے۔ایک زمانے میں یہ بحث بھی چلی تھی کہ جوابِ  شکوہ علامہ نے کس کے ایما پر کہی۔ ملفوظات قدسی اور نیاز مندانِ لاہور میں درج کیا گیا ہے کہ شکوہ کے بعد جوابِ شکوہ علامہ نے محض حضرت شاہ اسد الرحمن قدسی کے کہنے پر اور ان کی خواہش کے احترام میں لکھی۔ اس کی تردید نذیر ناجی نے بھی کی اور شیخ اعجاز احمد نے بھی، ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۵ء کو صہبا لکھنوی کے نام خط میں لکھتے ہیں :’’ … نہ تو علامہ نے اور نہ سید راس مسعود مرحوم نے کبھی یہ فرمایا کے علامہ نے قدسی صاحب کے ایما پر ’’ جوابِ شکوہ ‘‘لکھا تھا، میرے خیال میں یہ بات صحیح نہیں ہے۔ ’’ شکوہ کے بعد جوابِ شکوہ لکھا جانا یقینی امر تھا کسی کے ایما پر نہیں لکھا گیا۔ … میرے خیال میں علامہ نے شاعری کے سلسلے میں اگر کسی شخص کی بات مانی تھی تو وہ تھے شیخ سر عبد القادر، مرحوم، لیکن ’’جوابِ شکوہ‘‘ ان کے ایما پر بھی نہیں لکھا گیا …‘‘ ۶؎

علامہ اقبال کو ’’ ترجمانِ حقیقت‘‘ کا لقب، شیخ صاحب ہی کا عطا کردہ ہے۔۷؎

قیام مغرب کے زمانے میں مغرب کی ترقی اور ان کے زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط دیکھتے ہوئے اقبال شعر و شاعری سے کچھ دور ہو گئے، شیخ صاحب بلکہ پوری قوم کے لیے یہ فیصلہ قابلِ  قبول نہ تھا۔ شیخ صاحب اصرار کیے جاتے، اقبال ٹالتے رہتے، آخر ایک روز اقبال نے شیخ صاحب کو مخاطب کیا۔

مدیر’’ مخزن ‘‘ سے جا کے اقبال کوئی میرا پیام کہہ دے

جو کام کچھ کر رہی ہیں  قومیں انھیں مذاقِ سخن نہیں ہے ۸؎

اس وقت شیخ صاحب ہی کی ذات تھی کہ جس نے علامہ ا قبال کو ترک شعر سے گریز کے فیصلے کو بدلنے پر مجبور کیا، اس کے لیے شیخ صاحب نے یہ کمال کیا کہ اقبال کو اس امر پر آمادہ کر لیا کہ ان کے استاد تھامس آرنلڈ صاحب پر فیصلے کو چھوڑ دیا جاتا ہے اگر وہ کہیں کہ اقبال کا فیصلہ درست ہے اور قوم کو اس وقت شعر و شاعری کی قطعی ضرورت نہیں ہے تو اقبال بلا تکلف اسی لمحے شاعری سے گریز کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔   شیخ صاحب جانتے تھے کہ سر آرنلڈ کبھی اقبال کو شعر گوئی ترک کرنے کا مشورہ نہیں دے سکتے۔ یہی ہوا۔ انھوں نے شاعری کو صرف علامہ اقبال کے لیے ہی نہیں پوری قوم کے لیے مفید قرار دیا۔ ایک تغیر البتہ یہ ہوا کہ توجہ اردو میں شعر کہنے کی بجائے فارسی کی طرف مبذول ہو گئی۔

شیخ عبد القادر فارسی زبان پر بھی دسترس رکھتے تھے۔شعرِ  اقبال اردو زبان میں ہو یا فارسی میں ، شاعر کا خلوص، جذبہ و احساس، زندگی کی صداقتوں کی تفسیر، وارداتِ قلبی کی تشریح، سبھی ان پر منکشف ہو جاتے۔ مولانا عبدالمجید سالک اقبال و شیخ صاحب کے دلی تعلق اور اس محبت و عزت کا تذکرہ کرتے ہیں جو ان دونوں دوستوں میں ابتدائی دور سے ہی تھی ’’ جن بزرگوں نے پنجاب میں لوگوں کے اندر اردو زبان کا صحیح ذوق پیدا کیا ان میں شیخ صاحب کا نام صفِ  اول میں آتا ہے۔ وہ علامہ اقبال کے ہم نشیں اور عمر بھر کے ساتھی تھے۔ علامہ ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ علامہ اقبال کی طبعیت کا یہ خاص انداز سب کو معلوم تھا کہ وہ کبھی کسی کے کہنے پر اپنا کلام نہیں سناتے تھے، لیکن میں نے خود دیکھا ہے کہ جب بھی شیخ صاحب ان سے ملنے کے لیے آتے تو علامہ اقبال نے خود بخود چند اشعار ان کو سنا دیے، وہ انھیں حقیقی سخن فہم سمجھتے تھے۔۹؎ ؎

شیخ عبد القادر علامہ اقبال کے خلوت و جلوت کے ساتھی تھے۔ نجی محفلوں کے قصے، حاضر جوابیاں اور بدیہہ گوئی کے واقعات اہل پنجاب سے منسوب ہیں۔   لاہور میں منعقدہ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے یوپی سے نواب نوشاد علی خان تشریف لائے۔ ان کا قیام سر محمد شفیع کے ہاں تھا۔ ایک دن وہ شکوہ کر بیٹھے کہ سر سید تو اہل پنجاب کی زندہ دلی کے بہت واقعات سنایا کرتے تھے، مجھے تو ایسا کچھ محسوس نہ ہوا۔ شیخ عبد القادر نے برجستہ کہا کہ آپ نے قیام کے لیے غلط جگہ کا انتخاب کیا ہے۔ ہمارے ساتھ رہتے تو علم ہو جاتا کہ زندہ دلی کسے کہتے ہیں ، چنانچہ کانفرنس سے فارغ ہوتے ہی سر جلال الدین نے اپنے ہاں کھانے کا اہتمام فرمایا۔ علامہ اقبال کی موجودگی میں اس دور کی خوش گلو بہارو طوائف کو بلوایا گیا۔ دن بھر اسے علامہ کا کلام یاد کروایا گیا۔ کھانے کے بعد محفل جمی، اس نے بہت خوبصورتی سے کلام اقبال پیش کیا۔ محفل رونق پر آتی جا رہی تھی کہ نوشاد علی خان نے اشارہ کیا کہ اسے رخصت کر دیا جائے۔ اقبال سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے، میں کلام اقبال بزبانِ اقبال سننے کا خواہش مند ہوں۔   اقبال کا انکار اقرار میں تبدیل نہ ہوا یہ بات سبھی جانتے تھے کہ اقبال شعر سنانے کے معاملے میں بہت محتاط تھے، ہاں گرامی اور شیخ عبد القادر کی بات دوسری تھی۔۱۰؎

واقعی شیخ عبد القادر کی بات دوسری تھی، اقبال کو شیخ صاحب پر کامل بھروسا تھا، وہ جانتے تھے کہ جسے شعر سنانے جا رہا ہوں وہ سخن فہم ہی نہیں جوہر و قدر شناس بھی ہے۔ ادھر اقبال سے دلی تعلق کی بنا پر شیخ صاحب کو اتنا مان تھا کہ بھرے مجمع میں اقبال کی طرف سے خود ایسے اعلان کر دیتے تھے کہ کوئی اور اقبال کی اجازت کے بغیرایسی جرات نہ کرسکے۔محمد عبد اللہ قریشی رقم طراز ہیں۔   یکم تا ۳ اپریل ۱۹۰۴ء انجمن حمایتِ  اسلام کا انیسواں جلسہ اسلامیہ کالج لاہور کے لالہ زار میں منعقد ہوا۔ علامہ اقبال نے اپنی نظم ’’ تصویرِ درد ‘‘ پیش کی، کلام اقبال بزبانِ اقبال ہو، موضوع بھی دل کو چھو لینے والا ہو تو سامعین کا جوش و خروش اور جذبہ و احساس دیدنی تھا۔ مولانا حالی نے دس روپے کا نوٹ عطا فرمایا، جسے حاصل کرنے کے لیے عمائدینِ  شہر نے بڑھ بڑھ کر بولیاں دیں۔   مولانا حالی کو سننے کے لیے سبھی بے تاب تھے انھوں نے پڑھنا شروع کیا لیکن ضعیف العمری کے سبب ان کی آواز سامعین تک نہ پہنچ پاتی تھی، مجمع انھیں سننے کے لیے اپنی نشستوں سے اٹھ کر آگے بڑھنے لگا، اس ہنگامے میں آواز اور دب دب جاتی تھی۔ اس بدنظمی کو روکنا ضروری تھا، شیخ عبد القادر فوری طور پر اٹھے اور یہ اعلان کیا کہ آپ خاموشی سے مولانا حالی کو جتنا سنا جا سککتا ہے سنیے اور ان کی زیارت کیجیے۔ بعد میں یہی نظم اقبال آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔ شیخ صاحب کی تدبیر کار گر ہو ئی اور مجمع پُر سکون ہو گیا، نظم کے اختتام پر اقبال اٹھے اور انھوں نے اپنی بلند اور توانا آواز میں نظم سنائی۔ رباعی سنانے سے پہلے انھوں نے فی البدیہہ یہ رباعی کہی:

مشہور زمانے میں ہے نامِ حالی

معمور مے حق سے ہے جامِ حالی

میں کشورِ شعر کا نبی ہوں گویا

نازل ہے میرے لب پہ کلامِ حالی ۱۱؎

گویا اس رباعی کی شانِ نزول شیخ صاحب ہی کی مرہونِ  منت ہے۔

خود شیخ صاحب اقبال کے ایک ایک شعر ایک ایک مصرع کے منتظر رہتے۔اقبال بنام فوق اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں ’’ شعر ہے جو کبھی کبھی خود موزوں ہو جاتا ہے شیخ سر عبدالقادر لے جاتے ہیں۔  ‘‘ ۱۲ ؎

شیخ برادری میں اہلِ علم حضرات کی کمی نہیں۔   استاد، شاعر ادیب و ادب گر با ذوق تخلیق کار اور قاری اردو ادب کے لیے گنجِ گراں مایہ رہے۔’’ خواجہ حسن نظامی شیخ عبد القادر اور شیخ محمد اقبال کو ’’شیخین پنجاب کہا کرتے تھے۔‘‘۱۳؎

یہ وہی حسن نظامی ہیں کہ ان کی پنجاب آمد پر شیخ صاحب سے جب پہلی ملاقات ہوئی تو انھوں نے برجستہ کہا علامہ اقبال کا خیال تھا کہ وہ ضعیف العمر شخص ہیں اور میں کہتا تھا تھا کہ وہ نو عمر ہیں۔  آج انھیں دیکھ کر اندازہ ہو گیا ہے کہ میں درست تھا۔ ۱۴ ؎

اور خود علامہ اقبال شیخ عبد القادر کو ان کی تمام دنیا کو موہ لینے والی عادات کی بنا پر شیخ عالم گنڈھ کہا کرتے تھے، یعنی شیخ صاحب اپنے دوستوں کو محبت کی نہ کھلنے والی گرہ میں باندھنے کا فن جانتے تھے۔اقبال سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ذکرِ اقبال ہو اور شیخ صاحب ہوں ، وہ کہیں اور سنا کرے کوئی، والی کیفیت ہوتی، وزیرِ  تعلیم اس امر سے آگاہ تھے کہ اقبال سے قربت کے علاوہ اقبال شناسی اور اقبال فہمی، میں شیخ صاحب اپنی مثال آپ ہیں۔   انھوں نے اقبال کی شاعری پر چھ لیکچرز کا اہتمام کیا۔ ہر چند کہ جانتے تھے کہ شیخ صاحب سال بھر سے علیل چلے آرہے ہیں۔   ایسے میں انھیں اس مشقت میں ڈالنا زیادتی ہو گی لیکن اقبال سے محبت و عقیدت کے پیش نظر شیخ صاحب نے ان لیکچرز کا دینا منظور فرمایا۔ بدقسمتی سے زندگی نے وفا نہ کی، وہ اس سلسلے کو مکمل نہ کرسکے۔ لیکن یہ سبھی جانتے ہیں کہ انھیں ا ن لیکچرز کو قلمبند کرتے ہوئے محض اپنی یادداشت پر بھروسا کرنا پڑتا تھا، کیونکہ ناتوانی اور بیماری انھیں ، حوالے تلاش کرنے کی مہلت نہ دیتی تھی۔ ۱۵؎؎

فضل الرحمٰن انتہائی دکھ کے ساتھ کہتے ہیں ، ہمیں ان کی موت کی خبر اس وقت موصول ہوئی جب بنیادی کمیٹی کو اقبال میموریل لیکچرار کی حیثیت سے ان کی نفسیاتی تعلیم کی توثیق کرنا تھی۔ ۱۶ ؎

شیخ عبدالقادر نے اقبال اور شعر اقبال کی تفہیم و تعبیر میں مثبت کردار ادا کیا۔ اقبال ان کا پسند یدہ موضوع تھے۔ علامہ اقبال پر ان کے لکھے گئے مقالات و مضامین اور مختلف کتب کے دیباچوں کے عنوانات پر ایک نگاہ ڈالنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ اقبال کو کتنی متنوع جامع شخصیت تصور کرتے تھے اور اقبال پر کیے گئے کام کو کتنی وقعت دیتے تھے۔مثنوی رموزِ بے خودی(تنقیدی نظر)، بانگِ درا، نذرِ اقبال، دانائے راز، یادِ اقبال، اقبال اس کی شاعری اور پیغام، اقبال کا فلسفہ حیات و مو ت، اقبال کی شاعری کا ابتدائی دور، شاعرِ مشرق سے میری آخری ملاقات، چند پیش گوئیاں ، فکرِ اقبال کا ارتقا، کیفِ غم، اقبال فلسفی شاعر اور مال اندیش کی حیثیت سے، ہم عصر شعرا پر اقبال کا اثر، طلوعِ اقبال، میر کی واسوخت اور اقبال کا شکوہ وغیرہ۔

شیخ عبد القادر اقبال کی شخصیت، ان کی مفکرانہ اور شاعرانہ عظمت، ملکی و بین الاقوامی سیاست، ملتِ اسلامیہ کے مشترکہ مسائل اور فکر اسلامی کے مثبت اسرار و رموز کو شعر اقبال کی روشنی میں سمجھنے اور سمجھانے میں ہمیشہ کوشاں رہے۔ ۱۹۵۷ء اور بعد ازاں ۲۰۰۶ء میں شائع ہونے والی انگریزی کتاب ’’ اقبال، دی گریٹ پوئٹ ‘‘ میں علامہ اقبال کے فکر و فلسفہ کے ارتقائی مدارج کا جائزہ لیتے ہیں۔   نو مضامین پر مشتمل اس کتاب میں انھوں نے اقبال کے وجدان، جذب و جنوں شوق، آرزو مندی، جستجو، خرد، علم اور عزم و یقین سے متعلق ان کے نظریات کی وضاحت کی ہے۔

شیخ سر عبدالقادر کا انگریزی زبان پر مکمل قدرت کے مظاہرہ ان کے انگریزی زبان میں لکھے گئے مضامین سے ہوتا ہے۔ ان کے یہ مضامین عصری تقاضوں پر عمیق نظر کے ساتھ ساتھ فکری، علمی اور تخلیقی توانائیوں کے مظہر ہیں۔   ان کی زندگی میں علامہ اقبال کا حوالہ اور ان کاساتھی و ہم عصر ہونا نہ صرف اقبال کے شیدائیوں اور محققوں کے لیے اہم ہے بلکہ قومی اور ادبی لحاظ سے اس کا درجہ بہت بلند ہے۔ اردو زبان و ادب پر ا ن کا یہ بلند پایہ کام اپنی نظیر آپ ہے۔

شیخ عبد القادر کے علامہ اقبال پر لکھے گئے نو مضامین کا دوسرا ایڈیشن جناب محمد حنیف شاہد کی ادارت میں "Iqbal; The Great Poet of Islam”کے عنوان کے ساتھ ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا ہے۔ ان مضامین کے عنوانات مندرجہ ذیل ہیں :

1.Dr. Sir Muhammad Iqbal

2.The Great Poet of Islam

3.Sir Muhammad Iqbal

4.Iqbal as a Poet Philosopher and Seer

5.Iqbal as a Poet and Philosopher

6.The Seer and the Mystic

7.The Influence of Iqbal on Urdu Literature

8.Iqbal and Modern Civilization

9.The Devil’s Conference

10.A Letter from London

 

Dr. Sir Muhammad Iqbal

 

اس سلسلے کا پہلا مضمون  Dr. Sir Muhammad Iqbalکے عنوان سے تحریر کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال پنجاب کے ان نامور سپوتوں میں ایک ہیں ، جنھوں نے عہد کی سوچ اور تہذیب میں لاثانی نقش چھوڑے۔ وہ کشمیری برہمن خاندان کے چشم و چراغ، جنھوں نے اسلام قبول کیا اور سیالکوٹ میں سکونت اختیار کی۔ آپ دو بھائی تھے، بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے انجینیرنگ کی تعلیم حاصل کی اور فوجی ملازمت میں عمر گزاری جب کہ چھوٹے شیخ محمد اقبال نے فنون میں اعلی تعلیم حاصل کی۔ ان کی عربی اور فارسی تعلیم کی تحصیل میں مولوی سید میر حسن کے کردار کا نمایاں مقام ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں انھیں فلسفہ کے استاد سر تھامس آرنلڈ سے فیض یاب ہونے کا بھر پور موقع ملا۔ فلسفہ میں ایم اے کرنے کے بعد اقبال گورنمنٹ کالج اور اوریئنٹل کالج میں تدریس سے وابستہ ہوئے۔

شیخ صاحب لکھتے ہیں کہ اقبال کو شاعری کا تخلیقی ادراک کالج کے زمانے سے ہی ہو گیا تھا۔ شاعری کی اصلاح کے لیے داغ سے مراسلت رکھی۔ داغ نے ان کی شاعری پرکھ کر انھیں مشورہ دیا کہ معمولی مشق ان کی اعلیٰ شاعرانہ صلاحیت کو جلا بخش دے گی۔ انھیں کسی اصلاح کی ضرورت نہیں۔   اور ان کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی اور زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ ان کی شاعری کے انگریزی زبان میں تراجم مسز سرو جنی نائیڈو، سر راس مسعود، جوگندرا سنگھ، سردار امراؤ سنگھ نے کیے۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ کا ترجمہ ملک محمد اشرف نے کیا جس کا دیباچہ( Forward )شیخ سر عبدالقادر نے لکھا۔ یہ کتاب اردو سے نابلد اصحاب کے لیے اقبال کی شاعری سمجھنے کا اچھا ذریعہ ہے۔ مخزن اور انجمن حمایت اسلام نے اقبال کی شاعری کی نہ صرف نمایاں ترویج اور اشاعت کی بلکہ نام اورپیسہ کمایا۔

۱۹۰۵ ء میں اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ گئے، جہاں پروفیسر آرنلڈ پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ اقبال کے آنے سے وہ بہت خوش ہوئے۔ ان کے مشورے پر اقبال نے Persian Mysticism  پر تحقیقی مقالہ لکھا جس پر انھیں میونخ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی۔ اسی دوران ڈاکٹر اقبال نے نہ صرف جرمن زبان اور ادب میں مہارت حاصل کی، بلکہ ا ن کی شاعری نے اس نئی جہت کی طرف سفر کیا جو آپ کی بین الاقوامی ادبی شخصیت کے طور پہچان کا باعث ہوئی۔

ڈاکٹر اقبال کا سیاسی کردار ان کے دوسری گول میز کانفرنس، لندن میں شرکت سے شروع ہوتا ہے پھر دوستوں کے اصرار پر پنجاب قانون ساز کونسل کے ممبر منتخب ہو کر پوری میعاد کام کیا۔ مگر یہ سیاسی مصروفیت اس کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔ ہاں البتہ ایک مدبر کے طور انھوں نے مسلم لیگ کے الٰہ آباد کے اجلاس کی بھی صدارت کی اور خطبہ صدارت میں تقسیم ہندوستان کا تصور پیش کیا، جو پاکستان کی بنیاد بنا۔

شیخ سر عبدالقادر کے اس مضمون کی خاص بات اس کے حوالہ جات اور مفصل حواشی ہیں جو بجائے خود الگ مضمون ہے۔

 

The Great Poet of Islam

 

یہ مضمون ڈاکٹر شیخ محمد اقبالؒ کے مختصر حالات زندگی پیش کرتے ہوئے ان کے کلام پر سیر حاصل بحث کرتا ہے۔ ان کی کتابوں کی مرحلہ وار اشاعت اور ان کے پس منظر کو اجاگر کرتا ہے۔

علامہ اقبال کی شاعری کی ابتدا دور طالب علمی سے ہوتی ہے۔ سب سے پہلے اردو زبان میں غزل کہتے ہیں اور اصلاح کے لیے مشہور شاعر حضرت داغ کو اپنا کلام ارسال کرتے ہیں۔   جن کی شاعری کی شہرت ان دنوں نظام دکن کے دربار سے پھوٹ رہی تھی۔ حضرت داغ آپ کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں اور آپ کو جواب میں لکھتے ہیں کہ اس کلام میں اصلاح کی مزید گنجائش نہیں۔  لاہور منتقل ہونے سے پہلے ہی آپ بحیثیت شاعر اپنی شناخت کروا چکے ہوتے ہیں۔   لاہور میں مشاعروں میں حصہ لیتے ہیں اور اپنی شاعری سے ادبی حلقوں کو چونکا دیتے ہیں۔   انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسے آپ کے بغیر نہیں ہوتے۔اسی دوران آپ کا معر کۃ  الآرا کلام ’’ہمالہ‘‘ ’’تصویر درد‘‘ ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ منظر عام پر آتا ہے۔ انجمن حمایت اسلام کا پلیٹ فارم اور مخزن آپ کے کلام کی شناخت و اشاعت کا باعث بنتا ہے۔

آپ کی اردو شاعری شیخ سر عبدالقادر مندرجہ ذیل تین ادوار میں منقسم کرتے ہیں :

۱۔انگلستان مراجعت سے پہلے کا زمانہ (قبل ۱۹۰۵ ء)

۲۔قیام یورپ کا عرصہ (۱۹۰۸ ء تک)

۳۔۱۹۰۸ ء سے بعد اور فارسی کلام کی شروعات سے پہلے کا عرصہ۔

علامہ اقبالؒ نے اپنے شعری مجموعوں کی ترتیب و تزئین و اشاعت میں خصوصی     دلچسپی لی۔

’’بانگِ درا‘‘ ۱۹۲۴ ء میں پہلی بار، ۱۹۲۶ء میں دوسری بار اور ۱۹۳۰ء میں تیسری بار شائع ہوئی۔ یہ کتاب اور اس میں شامل کلام اقبال ؒ کی شہرت کے شعری سفر میں بانگِ  درا ثابت ہوئی اور برصغیر کے اطراف و اکناف میں علامہ اقبال کی ذات ایک فلسفی، اسلامی مفکر کے ساتھ ساتھ بچوں کا شاعر کے طور پر ادبی دنیا کے منظر نامے پر ابھری۔قیامِ انگلستان کے دوران آپ پر یہ منکشف ہوا کہ اردو کی بجائے فارسی زبان آپ کے کلام و افکار کی ترسیل و ابلاغ کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ لہٰذا آپ نے اب شاعری کے لیے فارسی زبان کا انتخاب کیا۔

’’اسرار خودی‘‘ آپ کے فارسی کلام پر مبنی شعری مجموعہ ۱۹۱۵ ء میں پہلی بار شائع ہوا۔ اس کتاب سے آپ کی شہرت ہندوستان سے باہر ایران، افغانستان، روس اور ترکی تک پہنچا دی اور آپ کے افکارِ عالیہ، احیائے امت، نشاۃ الثانیہ، مردِ  درویش، خودی، ضبطِ  نفس، امتِ مسلہ کا اتحاد، وغیرہ موضوعات نے فارسی ادب کو ایک نئے ذائقے سے رو شناس کیا ……کیمرج یونیورسٹی کے پروفیسر نکلسن نے اسرار خودی کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا جو ۱۹۲۰ ء میں چھپا اور اقبالؒ کو برطانیہ اور امریکہ میں متعارف کروانے میں معاون ثابت ہوا۔ اسی کتاب کے جرمن اور اطالوی زبانوں میں تراجم اقبال کی شہرت چار دانگ عالم میں پھیل گئی۔

اسی کتاب کے تسلسل میں ’’رموز بے خودی‘‘ شائع ہوئی جس نے اسلامی قانون کوانسانی مسائل کے بہترین حل کے طور پیش کیا۔ یہ دونوں کتابیں اقبالؒ کے ’’فلسفہ خودی‘‘ کی مظہر ہیں جو اقبال شناسوں کا سب سے بڑا مضمون ہے۔

’’پیامِ  مشرق‘‘ گوئٹے کی”West-Ostlicher Diwan” کے جواب میں لکھی گئی۔ جس کی ۱۹۵۸ ء تک نو اشاعت مکمل ہو چکی تھیں۔   اس کتاب کے اردو، انگریزی، پشتو، عربی، ترکی اور فرنچ زبانوں میں تراجم شائع ہو چکے ہیں۔

’’زبور عجم ‘‘اور ’’جاوید نامہ‘‘ اقبال کی روحانی دنیا سے متعارف کرواتی ہیں جس کی سیر آپ مولانا جلال الدین رومی کی معیت میں کرتے ہیں۔   آپ کے فارسی کلام میں مثنوی مولانا روم جھلک دکھلاتی ہے۔

جب اقبال فارسی کلام میں مصروف تھے اردو زبان میں کلام کا تقاضا زور پکڑتا جا رہا تھا۔ جس کے جواب میں ’’بالِ جبریل‘‘ اور پھر ’’ضرب کلیم‘‘ بالترتیب ۱۹۳۵ ء اور ۱۹۳۶ ء میں اشاعت پذیر ہوئیں۔   کلام کے اس حصہ میں فارسی اندازِ بیان نمایاں ہے۔

آخری کتاب جو حضرت علامہ اقبال نے خود ترتیب دی اور شائع کی وہ ’’پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق‘‘ جو مغرب کی اقوامِ مشرق پر جارحانہ یلغار کے خلاف احتجاج رقم کرتی ہے۔ یہ کتاب بھی فارسی کلام پر مشتمل ہے۔ واضح رہے کہ سوز و گداز سے بھر پور یہ نظم علامہ اقبال نے ایک رات میں مکمل کی۔ اس کے معیار میں کسی کو شبہ نہیں ، اگر علامہ کو الہامی شاعر کہا جاتا ہے تو اس میں بھی دو رائے نہیں ہو سکتیں۔

’’ارمغانِ حجاز‘‘ اقبال کے قطعات اور مختلف ادوار میں کہے گئے متفرق کلام پر مشتمل ہے جں کی ترتیب و تدوین علامہ اقبالؒ نے خود کی مگر ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکی۔یہ کتاب ۱۹۳۸ ء میں ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔ سر زمینِ  حجاز کی محبت علامہ اقبالؒ کا نمایاں اظہار رہا ہے مگر خواہش کے باوجود عرب جا نہ سکے۔ شیخ سر عبدالقادر لکھتے ہیں کہ شاید علامہ اپنی شاعری کا یہ حصہ بذات خود دیارِ  نبیﷺ لے جا کر پیش کرنا چاہتے تھے۔ اقبال کا یہ کلام رسول عربی ﷺ کی محبت سے شرابور ہے۔ کتاب کا عنوان اسی محبت کا مظہر ہے۔

ڈاکٹر اقبال کی شاعری ہی ان کی وجہ شہرت ہے مگر ان کی انگریزی زبان میں نثری تحریر "Reconstruction of Religious Thought in Islam”  کا تذکرہ بھی نہایت ضروری ہے۔ یہ ان چھ لیکچرز پر مشتمل کتاب ہے جس میں اسلامی مذہبی فلسفہ کا موازنہ مغربی فلاسفی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی یورپ میں توصیف ہوئی اور اسی کی وجہ سے اقبالؒ کوآکسفورڈ یونیورسٹی نے "Rhodes Lecturership”  کے لیے دعوت دی، جو اقبال نے قبول بھی کر لی مگر بعد میں مصروفیت اور صحت کی بنا پر معذرت چاہی۔

شیخ سر عبدالقادر نے اقبال اور بنگالی شاعر رابنrاآران آپ کا معر کت  فظقر در ناتھ ٹیگور کا موازنہ ان دونوں کے کلام کی مقبولیت، مشابہت، قومیت، انسانیت اور خوابوں میں یکسانیت ہونے کے باوجود مختلف عمل کے متقاضی ہیں۔   ٹیگور پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہیں جبکہ اقبالؒ جارحانہ جدوجہد پر بھی یقین رکھتے ہیں۔

شیخ سر عبدالقادر نے اقبال ؒ کے فلسفہ خودی کو بھی زیر بحث لائے ہیں جو بظاہر جرمن فلاسفر Nietzsche  سے متاثر معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت میں اس کا اصل مآخذ اسلام کی روح ہے جبکہ نطشے مذہب کو نہیں مانتا۔

شیخ سر عبدالقادر نے اس بحث پر بھی اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے کہ اقبال کی پہلی شاعری ہندوستانی قومیت لیے ہوئے ہے جبکہ بعد کی شاعری اسلامی اصولوں کی پیغام بر ہے۔ پھر یہ کہ اقبال اردو شاعر تھے کہ فارسی؟ مزدور اور آجر تعلقات پر اقبال کا نقطہ نظر مارکسی نظریہ سے متاثر ہے اور سرمایہ داریت کی نفی کرتا ہے۔ وغیرہ۔

اقبالؒ کی سیاسی کار گزاریوں میں پنجاب مجلس قانون ساز میں لاہور کی نمائندگی، خطبہ الٰہ آباد، دوسری گول میز کانفرنس لندن میں نمائندگی کا تذکرہ ہے۔

اقبال کا ارتقائی سفر تعلیمی میدان میں عملی شراکت سے ہوتا ہے جو بظاہر جلد ہی منقطع ہو جاتا ہے مگر اس میدان میں ان کی مشاورت آخری ایام تک بحیثیت ممبر سینٹ اور سنڈیکیٹ، ڈین پنجاب یونیورسٹی کا ریکارڈ موجود ہے۔ سب سے نمایاں آپ کا کلام ہے جو سراسر تعلیم گنا جا سکتا ہے۔ اقبال کی تعلیمی فلاسفی پر Mr. K.G. Saiyidain  کی کتاب کو بھی شیخ سر عبدالقادر نے اس بحث کا حصہ بنایا ہے۔

’’سر‘‘ کے خطاب کے بارے میں شیخ عبدالقادر بیان کرتے ہیں کہ ایک یورپی سیاح نے، جو ایران اور روس کے علاقوں سے گذر کر آیا تھا، اس وقت کے انگریز گورنر پنجاب سے ایک ہندی شاعر اقبال سے ملنے کی خواہش ظاہر کی کیونکہ ہر دو ممالک میں لوگ اقبال کے فارسی کلام پر ر طب ا للسان تھے۔گورنر نے ملاقات کروا دی اور دورانِ گفتگو اقبال کے علم اور مرتبے سے اتنا متاثر ہوا کہ سرکارِ برطانیہ سے آپ کے لیے اعزاز عطا کرنے کی درخواست کی، جو قبول کر لی گئی۔

اقبال ؒ کی زندگی کے آخری چند سالوں میں ، بیوی کی وفات کا صدمہ اور خراب صحت نے ادبی حلقوں اور ملاقاتیوں سے دور کر دیا۔ آپ ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ ء کو وفات پا گئے۔ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد کے درمیان باغ میں آسودہ خاک ہیں۔

شیخ سر عبدالقادر کا یہ مضمون ایک ادبی اور تحقیقی شاہکار ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ ۳۰ صفحات کے اس مضمون کے میں ۱۳ صفحات صرف پا ورقی اور دیگر حوالہ جات کے لیے مختص ہیں۔

 

Sir Muhammad Iqbal

 

یہ مختصر مضمون اقبالؒ کی وفات کے چند سال بعد لکھا گیا جس میں اقبال کی اردو فارسی انگریزی زبان میں شائع شدہ کلام و کتب اور ان کے تراجم کا بیان ہے۔ جو دنیا بھر کے ادبی و علمی کینوس پر آپ کے مقام اور خدمات کا تعین کرتے ہیں۔   انگلینڈ سے واپسی پر آپ کچھ عرصہ وکالت بھی کرتے ہیں جو جلد ہی ادبی مصروفیت کی وجہ سے ختم ہو جاتی ہے۔

آپ کا اردو کلام ابتدا میں آپ کی ہندوستانی شناخت قائم کرتا ہے۔جو تدریجی مراحل میں شاعر مشرق عمومی طور پر اور خصوصی طور پر شاعر اسلام قرار پاتا ہے۔ شیخ سر عبدالقادر اقبالؒ کو شاعرِ مشرق کہنا زیادہ مناسب خیال کرتے ہیں۔   آپ کا فارسی کلام اور اس کے دیگر زبانوں میں تراجم آپ کو ساری دنیا میں متعارف کروا تے ہیں۔   مگر آپ کا ابتدائی اور آخری اردو کلام ہندوستان میں آپ کی شناخت کا باعث ہوتا ہے۔

مذہبی فلسفہ پر آپ کے افکار مغرب کو متاثر کرتے ہیں اور با قاعدہ آپ کو عملی طور پر شراکت کی دعوت دیتے ہیں۔

شیخ سر عبدالقادر اقبال کی عوام الناس میں مقبولیت اور مقام پر آپ کو خوش قسمت قرار دیتے ہیں۔   مشاعروں میں آپ کے ترنم کو بھی سراہتے ہیں اور اضافی خصوصیت گردانتے ہیں۔   جو بجا بھی ہے۔ اقبال ؒ ہم میں موجود نہیں مگر ان کا کلام ہماری نسلوں تک زندہ و تا بندہ رہے گا۔

 

Iqbal as a Poet Philosopher and Seer

 

علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال ایک ایسی مایۂ ناز شخصیت، جن کے اساتذہ ان کے استاد ہونے پر فخر کرتے ہیں۔   جہاں استاد داغ کو اپنے شاگرد پر فخر تھا وہیں اقبال کا تعلق ان کی وفات پر ان تاثرات سے نمایاں ہے۔

لکھی جائیں گی کتاب دل کی تفسیریں بہت

ہوں گی اے خواب جوانی، تیری تعبیریں بہت

ہو بہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون؟

اٹھ گیا ناوک فگن مارے گا دل پر تیر کون؟

اقبال کا ابتدائی کلام اس دور کی مروجہ ہیئت میں حسن و خوبصورتی لیے ہوئے تھا، جو وقت کے ساتھ اپنی گہرائی اور وسعت نمایاں کرتا گیا۔ ’’ ہمالہ‘‘ ان کے کلام کی شوکت، قدرتی خوبصورتی اور وطنیت کے بیان کا خوبصورت مرقع ہے جس کا اگلا قدم اس بند میں بیان کیا گیا ہے۔

چشتی ؒ نے جس زمین میں پیغام حق سنایا

نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا

میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے

اس سے آگے اقبال مسلم وحدت کے ترجمان بن جاتے ہیں۔

چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

مسلم دنیا پراس نظم کے اثر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ملی نظم کا درجہ اختیار    کر لیتی ہے اور اکثر مسلم ممالک کے سکولوں میں یہ ملی نظم اور اس کے تراجم ملی وحدت کے طور گائے جاتے ہیں۔

سر عبدالقادر نے اقبال کے کام کو تین ادوار میں منقسم کیا ہے۔ یورپ جانے سے پہلے کا زمانہ۔ یورپ میں اعلیٰ تعلیم کا زمانہ اور بقیہ دور زندگی۔ اس مضمون کا زیادہ حصہ سر عبدالقادر نے اقبال کے تدریجی ارتقا ان کے فلسفہ حیات، ملی وحدت، اسلامی تشخص اور ءان سب کا مغربی دنیا سے تعلق پر بحث کی ہے

 

Iqbal as a Poet and Philosopher

 

اس مضمون میں سر عبدالقادر نے اقبال کی شاعری کے مآخذ قرآن کریم اور فلسفہ اسلامی بتایا۔ جس سے کسی کو انکار نہیں۔   قائد اعظم نے ’’علی گڑھ میگزین ‘‘کو اپنے پیغام میں اقبال کو اعلیٰ ترین مترجمِ اسلام بتایا۔ اقبال کا فلسفہ خودی اخلاقی اور اسلامی اقدار، خود انحصاری، جذبہ آزادی، عزت اور عملیت اور روحانی بیداری پر استوار ہے۔ نوجوانوں کے لیے ’’شاہین‘‘ کا استعارہ بے پناہ مفاہیم لیے ہوئے ہے۔ طارق اور ٹیپو کی مثالیں نوجوانوں کا خون گرمانے کے لیے ہیں۔  تاریخ کے ان کرداروں کی اقبال ؒ اس قدر تکریم کرتے تھے کہ جب ایک عسکری کالج کے نام کے لیے اقبال سے ان کا نام استعمال کر نے کی اجازت طلب کی گئی تو اقبال نے لکھا کہ مجھ جیسے ایک عام شاعر پر ایک عسکری کالج کا نام رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں بہتر ہے کہ اس کا نام ٹیپو سلطان کے نام پر رکھا جائے۔

ایک باپ کی حیثیت سے سر عبدالقادر اقبال کو یوں سراہتے ہیں کہ جب بیگم اقبال فوت ہوئیں تو منیرہ اور جاوید بالترتیب پانچ اور گیارہ سال کے تھے۔ بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’تم مرد ہو اور مرد روتے نہیں ‘‘۔ اور جب اقبال رحلت فرماتے ہیں تو جاوید کہتے ہیں ’’میرا دل پھٹ رہا ہے اور کوئی چیز مجھے رونے سے روکتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ابو اٹھ جائیں گے اور میرے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہیں گے۔ ’’تم مرد ہو اور مرد روتے نہیں ‘‘۔

 

The Seer and the Mystic

 

سر عبدالقادر کا یہ آخری مضمون انگریزی زبان میں لکھا گیا جو شائع نہ ہوا۔

اقبال ؒ اپنے خاندانی پس منظر اور ابتدائی تعلیم کے زیر بار فارسی زبان و ادب، خاص طور پر حافظ کے کلام کے مداح تھے۔ ایک دفعہ اقبال نے شیراز کے اس شاعر کی توصیف میں کچھ شعر کہے اور مجھے (عبدالقادر) بجھوا دیے۔یورپ سے واپسی پر اقبال کا نقطہ نظر بدل چکا تھا۔ اب حافظ کا کلام نیند آور اور قومی جذبہ کے لیے مہلک تھا۔

اس تناظر میں سر عبدالقادر نے فارسی فلسفہ تصوف پر بحث کی ہے۔ چونکہ آپ کا مقالہ پی ایچ ڈی اسی موضوع پر تھا جس کے لیے آپ نے موضوع سے انصاف کرتے ہوئے گہرا مطالعہ کیا تھا۔ جس بنا پر صوفی ازم کے ملی ترویج پر نقصان دہ پہلوسے روشناس ہوئے۔

’’اہل بصیرت کا کردار ‘‘ کے ذیلی عنوان سے سر عبدالقادر نے اقبال کے مغربی معاشرت سے تقابلی فلسفہ پر بحث کی ہے۔ ’’جدید عورت‘‘ کے عنوان سے علامہ کے اس کلام کو زیر بحث لائے ہیں جو جاوید نامہ میں ہے۔اسی مضمون میں ’’آزادیِ رائے‘‘، ’’مغربی تہذیب‘‘، ’’جاگتا ایشیا‘‘ وغیرہ کے ذیلی عنوانات کے تحت سر عبدالقادر نے علامہ اقبال کے فرمودات کو بیان کیا ہے۔

 

The Influence of Iqbal on Urdu Literature

 

اقبالؒ چوبیس سال کے تھے جب آپ اردو شاعر کی حیثیت سے معروف اور مستند تسلیم کیے جانے لگے۔ باقی کی ساری زندگی انہوں نے ادب کے نام کر دی۔ بانگِ درا میں شامل نظمیں آپ کو پورے ہندوستان میں متعارف کروا گئیں جبکہ آپ کا فارسی کلام اور اس کے تراجم آپ کی بین الاقوامی شہرت کا سبب بنے۔ جب اقبال نے فارسی زبان کو ذریعہ اظہار و ابلاغ منتخب کیا تو یہ عمل اردو زبان سے محبت رکھنے والوں کے لیے دلشکنی کا سبب ہوا اور وہ محسوس کرنے لگے کہ اقبال نے انھیں نظر انداز کر کے اردو شاعری اور اور خود ان کے ساتھ ہی نہیں اپنے ساتھ بھی کچھ اچھا نہیں کیا۔آپ پر اردو زبان میں شاعری کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا تھا، جس پر ’’بال جبریل‘‘ اور ’’ضربِ کلیم‘‘ کی اردو شاعری نے اردو داں طبقے کو آسودہ کیا۔پیش ہوئی۔ گو یہ شاعری اردو میں ہے مگر فارسی رنگ لیے ہوئے ہے۔ آپ کی آخری کتاب ’’ارمغانِ حجاز‘‘ آپ کے اردو اور فارسی میں متفرق کلام کا مجموعہ ہے۔ جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہے یہ شاعری بنیادی طور پر مذہبی موضوعات، امتِ  مسلمہ کے زوال و انحطاط، احیائے دین اور مسلم نشاۃ الثانیہ کی آرزو لیے ہوئے ہے۔

علامہ اقبال کی اردو شاعری پر بحث کرتے ہوئے سر عبد القادر کے نزدیک آپ کی بہترین نظمیں سادگی وسلاست کا نمونہ ہیں۔   آپ ’’نوجوانوں سے خطاب‘‘ اور ’’پرندے کی فریاد‘‘ کو تمثیلی درجہ دیتے ہیں۔

علامہ اقبال کے کلام کی گہرائی میں فلسفہ اور مغربی شاعری کا عمیق مطالعہ کار فرما ہے جو نوجوان لکھاریوں کے لیے منبعِ ہدایت ہے۔ حفیظ جالندھری نے اس بات کا اقرار کیا ہے۔ ان کی کئی نظمیں اقبال کی زمینوں میں کہی گئی ہیں اور اقبال کے خیالات و نظریات سے وہ متاثر رہے ہیں۔

سر عبدالقادر کے نزدیک اقبال کا اردو ادب میں کلیدی مقام ہے اور زبان و ادب میں توانائی کا باعث ہے۔ اس بات کا اعتراف ہر سطح پر جائز اور ضروری ہے۔

 

Iqbal and Modren Civilization

 

یہ مضمون در اصل اس تقریر پر محیط ہے جو سر عبدالقادر کو ’’اقبال اور مغربی تہذیب‘‘ کے عنوان کے تحت اظہار خیال کے لیے دیا گیا۔ اقبال کے شاعری کے پہلے دور کو ہندوستانی دور کہا جاتا ہے جہاں ہندوستانی قومیت کو فوقیت اور قومی جذبہ کو اولیت ہے۔ جبکہ دوسرا دور اقبال کے مغربی مطالعے اور ارتقائی منازل طے کرنے کا دور ہے۔ جبکہ تیسرا دور آپ کی اصل شاعری کا دور ہے جس میں آپ کا مطالعہ اور خیالات مکمل بلوغت میں ہیں۔   اقبال شاعر تھے سیاسی تجزیہ کار نہیں لیکن عالمی سیاسی نشیب و فراز سے پوری آگاہی رکھتے تھے۔ ان کی نظموں میں اخلاقی، سیاسی، اقتصادی، مذہبی، قومی، بین الاقوامی اور اسلامی موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔

 

The Devil’s Conference

 

یہ علامہ اقبالؒ کی مشہور نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ کا انگریزی ترجمہ کا عنوان ہے۔سر عبدالقادر نے ملک محمد اشرف کے اس ترجمے کو ملٹن کی نظم "Paradise Lost” کے ساتھ تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔ ملٹن کی نظم حضرت آدم اور حوا کے جنت سے نکالے جانے کے واقعہ کی بنیاد پر ہے۔ جب کہ اقبال کی نظم خیر و شر کی قوتوں کے مابین کشمکش، مخالف اور منفی قوتوں کی مثبت روّیوں پر تسلط کی کوشش، جو ازل سے جاری ہے اور ابد تک رہے گی، کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس مضمون میں سر عبدالقادر نے جہاں اس ترجمے کا سیر حاصل جائزہ پیش کیا ہے وہیں اقبال کی شاعری اور فلسفہ پر بھی اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اقبال خود کہا کرتے تھے کہ میں شاعری میں استعمال ہونے والی تراکیب کا خصوصی مطالعہ نہیں کر سکا اور یہ کہ میری توجہ کا اصل مرکز میرے خیالات رہے ہیں نہ کہ ادائگی۔ اس سب کے باوجود یہ ماننا پڑتا ہے کے اقبال قدرت کی طرف سے ایک بہت بڑے شاعر تھے۔ آخر میں ملک اشرف کے اس ترجمے کی توصیف کرتے ہیں اور اقبال کی نظم کی روح کو اس ترجمے میں سمو دینے کے کام کو وہ نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اوراس کام کی وسیع قبو لیت کی امید کرتے ہیں۔  ۱۷؎

اردو ادب سے متعلق انگریزی زبان میں لکھے گئے مضامین میں I Meet the Poet بھی شامل ہے جس میں علامہ اقبال سے اپنی ملاقاتوں کا احوال ہی درج نہیں بلکہ ان کی شاعری کا جائزہ بھی  لیا گیا ہے۔

شیخ صاحب اپنی زندگی کے آخری دنوں تک علامہ اقبال سے محبت کا حق ادا کرتے رہے۔  ’’اقبال فلسفی ، شاعر  اور مآل اندیش کی حیثیت  سے ‘‘ کے عنوان سے لیکچر کے دوران شیخ صاحب نے اقبال کی شاعری کے مختلف مجموعوں کے حوالے سے ٹیگور ، گوئٹے ، رومی ،  نطشے اور دیگر فیلسوف  کے افکار و خیالات کا جائزہ لیتے ہوئے مدلل رائے قائم کی ہے کہ اقبال  ماضی و حال کا  ہی نہیں مستقبل  کے مناظر دکھانے کی پوری قوت رکھتے تھے۔  ’’…… یہ اس کی نظموں میں کی ہوئی غیر مبہم پیش گوئیوں میں سے ایک ہے ،  جیسے کہ آنے والے واقعات  اسے مستقبل کی چلمن سے صاف  صاف  نظر آرہے ہوں۔  ‘‘۱۸؎

 

                 مشترکہ حلقۂ  احباب

 

علامہ اقبال اور شیخ عبد القادر مشترکہ حلقۂ احباب رکھتے تھے۔

عبد الرحمن چغتائی فنِ مصوری میں اپنے قلم کی ایک ایک جنبش سے پہچانے جاتے ہیں اور خود وہ بھی غضب کے مردم شناس تھے۔   سر عبد القادر اور علامہ اقبال کی وطن اور اہل وطن کے لیے کی جانے والی پر خلوص کوششوں کو ہمیشہ سراہتے رہے۔ پردیس میں ان دو حضرات سے ملاقات کا احوال  یوں سناتے ہیں۔

’’ ۱۹۳۶ء کا واقعہ ہے  کہ میں سر عبدالقادر کو  لندن میں ملا تھا۔   اسی طرح ۱۹۳۰ کا واقعہ ہے کہ جب اقبال راونڈ ٹیبل کانفرنس  کے سلسلے میں  لندن گئے تو میں لندن میں موجود تھا اور ان سے ملا تھا۔   لندن اور اس طرح کے کئی شہروں  میں مجھے  اپنے ہم وطنوں سے ملنے کا اتفاق  ہوا اور سوائے  ان دو شخصیتوں  کے میں نے  اپنے ہر ہم وطن کو  انگریز اور  لندنی پایا۔  ‘‘   ۱۹؎

حیاتِ اقبال اور کلامِ  اقبال کے مبصرین جب بھی ستارۂ اقبال کے شعری افق پر نمودار ہونے کا ذکر کرتے ہیں ، شیخ صاحب سے صرف نظر نہیں کر سکتے۔ سرگذشتِ اقبال میں عبد اسلام خورشید اقبال کے پہلے دور کے دوستوں میں مرزا جلال الدین، سر عبد القادر، سر شہاب الدین نواب ذو الفقار علی خان اور سر محمد شفیع وغیرہ کا تذکرہ کرتے ہیں۔   ۲۰؎

شیخ صاحب کو مرزا داغ، اکبر الہ آبادی اور علامہ اقبال سے دلی تعلق تھا، ان کے بارے میں لکھتے ہیں۔

’’ یہ تینوں حضرات میرے جگری دوست تھے، جو وقت میں نے ان کے ساتھ گزارا ہے وہ میری زندگی کے بہترین لمحات میں سے ہے۔ داغ اپنے عہد کے غزل گو شعرا میں ممتاز تھے۔ انھیں دو اور بھی امتیاز حاصل تھے۔ نظام دکن کے استاد کی حیثیت سے انھوں نے جو تنخواہ پائی وہ ہمارے ملک میں کسی شاعر کو صرف شاعری کے عوض آج تک نہیں ملی۔ ان کا دوسرا امتیاز اس سے مختلف ہے یعنی اقبال جیسا شاعر ابتدا میں ان کا شاگرد تھا‘‘ اور اقبال کے بارے میں وہ ہمیشہ پرامید رہے اور ان کا کہنا تھا کہ اقبال نے مسلمان قوم پر جو اثرات مرتب کیے ہیں آئندہ نسلیں اسے ہم سے کہیں زیادہ بہتر انداز میں مستفید ہو سکیں گی۔۲۱؎

مولانا حبیب الرحمن خان شیرانی شیخ عطا اللہ کے مرتب و مدون کردہ مجموعۂ خطوط ’’ اقبال نامہ‘‘ کا مقدمہ تحریر کرتے ہوئے ان کے دوستوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔   ’’شیخ عبد القادر کی خانقاہ اردو ادب کے اہلِ ذوق کا مرجع بنی ہوئی تھی۔ اقبال، نیرنگ، احمد حسن مصنف، خود شیخ یہ اربعہ عناصر ذوق ادب کے وہاں جمع ہوتے۔مجھ کو اس صحبت میں ان احباب کو دیکھنے ملنے اور ان سے خصوصیت حاصل کرنے کا موقع ملتا رہتا۔‘‘ ۲۲؎

جسٹس شاہ دین ہمایوں ، ایک علمی و ادبی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، ذہانت و فطانت میں اپنی مثل آپ تھے، انتہائی لائق طالب علم تھے، ان کے ایک لیکچر سے متاثر ہو کر جو انھوں نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں مسلمانوں کے تعلیمی زوال پر دیا تھا، سرسید نے انھیں کانفرنس کی صدارت کی پیش کش کی، اس وقت ان کی عمر صرف چھبیس برس تھی۔۱۸۹۰ء میں لندن سے بیرسٹری کرنے کے بعد ان کی متاثر کن شخصیت لاہور کے قابل نوجوانوں کے لیے مرکزی حیثیت رکھتی تھی، انھیں بھی ان نوجوانوں سے بہت سی امیدیں تھیں ، مخزن میں شائع ہونے والی بیشتر نظمیں اس کا ثبوت ہیں۔   ’’شالامار باغ کشمیر‘‘ مخزن جون۱۹۰۳ء میں شائع ہوئی:

ناظر بڑا مزا ہو جو اقبال ساتھ دے

ہر سال ہم ہوں شیخ ہو اور شالامار ہو

شیخ سے مراد شیخ عبد القادر ہیں۔   ۲۳؎

۱۹۲۷ء میں سید سلیمان ندوی انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں شرکت کے لیے لاہور آئے، یہاں ان کا بہت محبت کے ساتھ استقبال کیا گیا۔ علمی و ادبی محفلوں او ر بے تکلف دعوتوں میں لاہور کے مشاہیر شریک ہوتے اور سید صاحب کی صحبت سے مستفید ہوتے۔ اعظم گڑھ واپسی پر سید صاحب نے معارف میں ان ادبی و علمی مجالس کا احوال رقم کیا اور شہر لاہور میں ان کاملینِ  فن کے اجتماع کو بے مثل قرار دیا۔ آپ لکھتے ہیں :

’’ اصحابِ  علم اور اربابِ  علم و ادب کی جمعیت کے لحاظ سے بھی وہ آج کل ہندوستان کی سب سے بہتر مجلس ہے ڈاکٹر سر محمد اقبال، شیخ عبد القادر، پرنسپل عبد اللہ یوسف علی، پروفیسر حافظ محمود شیرانی، … مولوی ظفر علی خان اور متعدد ایسے باکمال اصحاب کی سکونت کا اس کو فخر حاصل ہے جن کے یکجا مرقع کی مثال کسی اور شہر میں نظر نہیں آتی۔۲۴ ؎

۱۹۰۸ء میں اقبال پی ایچ ڈی اور بیرسٹری کی سند کے ساتھ وطن واپس آئے، میر غلام بھیک نیرنگ انبالے سے اقبال کے استقبال کے لیے دہلی پہنچے۔ اقبال کی آمد سبھی اہلِ وطن کے لیے خوش آئند تھی، سبھی شدت سے ان کی آمد کے منتظر تھے، میر نیرنگ کا تخلیقی ذ ہن دورانِ سفر مصروف رہا، سفر کے اختتام پر ایک خوب صورت نظم آپ کے ہمراہ تھی، جو اقبال کی پسندیدہ زمین میں تھی، بعد ازاں انھوں نے یہ نظم ۲۶ جولائی ۱۹۰۸ء درگاہ خواجہ نظام الدین اولیا میں احباب کی محفل میں سنائی، سامعین میں خواجہ حسن نظامی، شیخ عبد القادر، راشد الخیری، شیخ محمد اکرام اور سید جالب دہلوی نمایاں تھے۔

پھر تیرے دم سے ہوں گے تازہ سخن کے چرچے

پھر رونقیں رہیں گی یاروں کی انجمن میں ۲۵؎

کئی ایسے نام جو بعد ازاں اپنے شعبے میں بہت نامور اور باکمال مشہور ہوئے، علامہ اقبال سے ملاقات کو اپنی زندگی کی اہم اور خوش گوار ترین حقیقت بتاتے ہیں۔   شیخ عبدالقادر علامہ کے قریبی دوستوں میں سے تھے ان کی ذات، ان احباب کی علامہ سے ملاقاتوں کا وسیلہ بنی، وہ جب بھی اقبال سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہیں ، شیخ صاحب کا حوالہ دیتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔   مرزا جلال الدین بیرسٹر ایٹ لا کہتے ہیں کہ ۱۹۰۰ ء میں ، میں بیرسٹری کے لیے لندن میں مقیم تھا، دیرینہ کرم فرما شیخ عبد القادر کے لندن آنے کی اطلاع ملی، ان کے استقبال کے لیے سٹیشن پہنچا، بارش شدید تھی، ان سے ملاقات ہی نہ ہو پائی انھیں تلاش کرتے کرتے ان کے ہوٹل پہنچ گیا، اور انھیں اپنے ہاں لے آیا یہ میرے لیے بڑے فخر کا مقام تھا کہ شیخ صاحب دو ہفتے میرے ہاں مقیم رہے۔ جلال الدین کہتے ہیں کہ ۱۹۰۵ء میں لاہور واپسی کا ارادہ ہوا تو شیخ عبد القادر نے علامہ اقبال سے ملاقات کی تاکید کی کہ اقبال بھی لندن آنا چاہتے ہیں ، انھیں مطلوبہ معلومات بہم پہنچانے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی، شیخ عبد القادر نے علامہ اقبال کو براہِ راست بھی خط لکھ دیا۔ دو مرتبہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا، جن میں زیادہ تر انگلستان کی زندگی کے بارے میں بات ہوتی رہی۔ میری خوش نصیبی کہ شیخ سر عبد القادر کی بدولت علامہ اقبال سے شناسائی کے مراحل طے ہوئی۔ ۲۶؎

ڈاکٹر محمد دین کہتے ہیں کہ میری علامہ اقبال سے اس زمانے میں ملاقات ہوئی جب وہ بھاٹی دروازے میں مقیم تھے یہ وہ دور تھا کہ جو علامہ کی سر عبد القادر اور مولوی انشا اللہ سے بہت گہری دوستی تھی۔ میں سر عبد القادر کے ہمراہ علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا۔ ۲۷ ؎

اس زمانے کے اہم نام قانون کے شعبے سے وابستہ تھے، لاہور کا بار روم ایک قابلِ قدر مقام تھا جہاں لالہ شادی لال، مولوی شاہ دین، میاں محمد شفیع، سر فضل حسین اپنی قانونی موشگافیوں کے ساتھ ساتھ ملک کی علمی، سیاسی و سماجی حالت پر بھی رائے زنی کرتے۔ علامہ اقبال کی وابستگی نے اس کے وقار میں مزید اضافہ کیا۔علامہ اقبال سر جلال الدین اور نواب ذوالفقار علی خان کی بلا ناغہ ملاقاتوں کے باعث سر فضل حسین انھیں TRIO(اصحابِ  ثلاثہ)کہتے۔ سر عبد القادر بھی اکتوبر ۱۹۱۲ء میں سرکاری وکیل کی حیثیت سے لائلپور جانے سے پہلے ان محفلوں میں شریک ہوتے۔۲۸ ؎

عبداللہ چغتائی اقبال کی صحبت میں رقم طراز ہیں کہ ایک مرتبہ جلیل لکھنوی جو میر انیس کے نواسے تھے محلہ چہل بیبیاں کی ناصر حویلی میں منعقدہ مجلس میں شریک تھے اس مجلس میں علامہ اقبال شیخ سر عبد القادر، ڈاکٹر تاثیر اور سالک مرحوم بھی شریک تھے۔۲۹؎

اس دور میں بھی شیعہ سنی، وہابی، حنفی اختلافات چلتے رہتے تھے لیکن ایک دوسرے کے خیالات و نظریات کا احترام بھی کیا جاتا تھا۔

چغتائی صاحب لکھتے ہیں کہ ۱۹۲۵ء کے لگ بھگ کا ذکر ہے مولانا احمد علی مرحوم کے قائم کردہ ادارے ’’خدام الدین ‘‘ کی شہرت نیک نیتی و دیانت داری او ر کارکنان کی محنت کے سبب بہت تھی، پھر مختلف مواقع پر اس کے روح پرور اجتماعات اہل لاہور کو بے حد متاثر کرتے ان میں شہر کے چیدہ چیدہ مشاہیر بھی شریک ہو تے ان میں سر محمد شفیع، علامہ اقبال اور شیخ سر عبد القادر تشریف لا تے اور دور و نزدیک سے آئے ہوئے علما کے خیالات سے مستفید ہوتے۔ ۳۰ ؎

بیسویں صدی کی ابتدا میں لاہور کی ادبی فضا میں مشاعروں کی گونج باقی تھی، میر ناظم حسین لکھنوی دبستان لکھنو کی نمائندگی کرتے اور مرزا ارشد گورگانی دبستانِ دہلی کی اقبال ان محفلوں میں چلنے والی معاصرانہ چشمکوں اور ادبی چپقلشوں سے دور رہتے۔’’اردو بزم مشاعرہ‘‘ کے تحت مشاعروں کا سلسلہ چلتا رہتا اور نوک جھونک بھی قائم رہتی۔ جب اس بزم کے تحت مشاعروں کا سلسلہ تھما تو حکیم شہباز دین کے ہاں ہر شام نشست جمنی شروع ہوئی اور اکابرینِ ادب اور با ذوق اصحاب کا اجتماع ہوتا جن میں حکیم امین الدین، حکیم شہباز دین، سر عبد القادر، سر شہاب الدین، خواجہ رحیم بخش، خواجہ کریم بخش، خواجہ امیر بخش، خلیفہ نظام الدین، شیخ گلاب دین، مولوی احمد دین، مولانا عبد الحکیم، کلا نوروی، مولوی محمد، محمد حسن جالندھری، مفتی محمد عبداللہ ٹونکی فقیر سید افتخار الدین، خان احمد حسین خان، منشی محمد دین فوق، مولانا اصغر علی روحی اور شید وکیل باقاعدگی سے شرکت کرتے، سر عبد القادر ادب کا بہت اعلیٰ ذوق رکھتے تھے ’’ مخزن ‘‘ کا اجرا ان کا وہ کارنامہ ہے کہ جس کے سبب وہ اردو زبان و ادب کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھ جائیں گے۔۳۱

خواجہ فیروز الدین بیرسٹر ایٹ لا علامہ اقبال کے ہم زلف بھی تھے اور دوست بھی۔ علامہ اقبال کی دوستانہ اور بے تکلف محفلوں کا احوال بیان کرتے ہیں بازار حکیماں میں شہباز الدین کے مکان پر جو حلقۂ احباب کا اجتماع ہوتا ان میں علامہ اقبال، خود صاحب مکان حکیم شہباز الدین، مولوی احمد دین، شیخ گلاب دین خلیفہ نظام الدین، خواجہ رحیم بخش، خواجہ امیر بخش اور خواجہ کریم بخش چودھری شہاب الدین، سر فضل حسین اور شیخ عبد القادر نمایاں تھے۔ اس مجمع احبا ب کو لوگ ’’ ہاؤس آف لارڈز ‘‘ کے نام ے یاد کرتے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ اس بزم دوستاں میں شریک کئی شخصیات ’’سر‘‘ کے خطاب سے نوازی گئیں جیسے سر محمد اقبال، سر عبد القادر، سر فضل حسین اور سر شہاب الدین وغیرہ…۳۲ ؎

احباب کا اجتماع ہر شام ہوتا لیکن کیفیت یہ ہوتی کہ کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا کسی مسیحا و خضر سے زیادہ دل خوش کن ہوتا۔ سبھی یوں ملتے جیسے برسوں کے بچھڑے رفیق اچانک مل بیٹھے ہوں۔   ۱۹۰۵ ء کے لگ بھگ کا ذکر ہے۔ لاہور میں ایک مکان للی لاج کے نام سے ان احباب ذوق کا مرکز تھا۔ بازارِ  حکیماں سے بازارِ سیدمٹھا کے مشرقی حصے سے کچھ پہلے سیدھے ہاتھ ’’ تھڑیاں بھا بھڑیاں ‘‘ محلہ تھا جس کی بیشتر آبادی جینیوں کی تھی اس مکان میں لاہور کے روشن خیال مسلمان بزرگ ہر شام اکٹھے ہوتے اور اہم علمی ادبی قومی مسائل پر گفتگو ہوتی شرکا میں علامہ اقبال سر عبد القادر سر شہاب الدین شا مل تھے، یہیں مولانا ظفر علی خان نے زمیندار لاہور سے شائع کرنے کا اعلان کیا تھا، زیادہ تر بزرگ شہر کے اسی حصے میں رہتے سر عبد القادر ’’ تھڑیاں بھابڑیاں ‘‘ سے ملحق ایک گلی میں رہتے۔ واضح رہے کہ للی لاج تین بھائیوں خواجہ رحیم بخش، خواجہ امیر بخش اور خواجہ کریم بخش کی مشترکہ جائداد تھی۔ ۳۳؎

شیخ و اقبال کی اڑتیس سال سالہ رفاقت کی رو داد کی ابتدا اور اختتام شیخ صاحب کی زبانی ہی سنیے جس میں محبت، عقیدت اور بے تکلفی گھلی ملی نظر آتی ہے۔

’’ جوانی کی دلچسپیوں میں ایک نہایت قابلِ  داد یاد دل چسپی اقبال مرحوم کی دوستی سے پیدا ہوئی، جس نے دور تک ساتھ دیا، وہ اس وقت کالج میں پر و فیسر تھے۔ انھوں نے شہر میں میرے پرانے مکان کے قریب ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر لیا۔ ہماری ملاقات تو پہلے ہو چکی تھی، شہر کی ہمسائیگی نے ہم نشینی کے مزید مواقع پیدا کر دیے۔ میں شام کو ان کے ہاں بیٹھتا، ان کے دو تین اور دو ست عموماً وہاں موجود ہوتے تھے، ان میں ایک تو ان کے استاد مولانا کے فرزند سید محمد تقی تھے ان کی دوستی پرانے تعلقات پر مبنی تھی۔ سیالکوٹ کے ایک اور صاحب سید بشیر حیدر بھی تھے جو اس وقت طالبِ  علم بھی تھے، بعد ازاں ڈپٹی ہو گئے، ایک اور طالب علم، سردار عبد الغفور تھے جو’’ ابو صاحب ‘‘ کہلاتے تھے۔یہ سب اقبال کی شاعری کے مداح تھے۔ میں جاتا تو سلسلۂ شعر و سخن شروع ہو جاتا۔ میں کوئی شعر یا مصرع اقبال کو سنانے کے لیے ڈھونڈ رکھتا جو طرح کا کام دیتا، حقہ پیتے جاتے اور شعر کہتے جاتے، ابو صاحب کاغذ اور پنسل لے کر لکھنا شروع کر دیتے۔ اقبال کے ابتدائی کلام کا بیشتر حصہ اسی طرح لکھا گیا، ابو صاحب ایک مجلد بیاض میں اپنی پنسلی یادداشتیں صاف کر کے لکھ لیتے تھے، اگر ابو صاحب کا تیار کیا ہوا مسالہ اگر موجود نہ ہوتا تو ہمارے مرحوم دوست کا بہت سا کلام چھپنے سے رہ جاتا، کیونکہ وہ اس زمانے میں کوئی مسوّ دہ نہیں رکھتے تھے… اب زیادہ شامیں اقبال کے ہاں صرف ہونے لگیں۔   ۳۴؎

اور مدتوں بعد ۱۹۳۷ء کے آخری دنوں میں اقبال سے آخری ملاقات کا تذکرہ شیخ صاحب یوں کرتے ہیں۔  ’’ میں جب ۱۹۳۴ء میں ہائی کورٹ کے کام سے سبک دوش ہو کر پانچ سال کے لیے اس وقت کے وزیرِ ہند کے محکمے میں لندن گیا تو میرے محترم دوست سر محمد اقبال بحیثیتِ  مجموعی بخیریت تھے ان کی علالتوں کا دور میری غیر حاضری میں شروع ہوا اور…۱۹۳۷ء کے اواخر میں ہندوستان آیا تو میں یہاں آنے کے بعد جلد ان سے ملنے گیا۔ میں جب وہاں پہنچا تو وہ ایک پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے … مرحوم مجھ سے بہت محبت سے ملے اور لیٹے لیٹے مجھے گلے لگایا اور اپنی چارپائی پر ہی بٹھا لیا۔‘‘ ۳۵؎

شیخ صاحب کے نام علامہ اقبال کے خطوط بھی موجود ہیں ، یہ خطوط علمی اور ادبی نوعیتوں ہی کے نہیں بلکہ نجی زندگی کے بعض کوائف بھی فراہم کرتے اور دونوں احباب کے درمیان دلی تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔  ’’روایاتِ اقبال‘‘ میں عبداللہ چغتائی کانگڑہ کے زلزلے کا ذکر کرتے ہیں جس کے اثرات لاہور شہر پر بھی ہوئے شدت اتنی زیادہ تھی کہ کئی مکانات منہدم ہوئے، علی بخش کا کہنا ہے کہ میں کبھی اوپر جاتا کبھی نیچے بھاگا آتا، اقبال آرام سے مطالعے میں مصروف تھے۔ میری پریشانی دیکھ کر صرف اتنا کہا بھاگو مت، سیڑھیوں میں کھڑے ہو جاؤ۔ زلزلہ تھما تو صورت حال پتا کرنے نکلا دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب کے دوست شیخ عبد القادر کا مکان گر چکا تھا خود شیخ صاحب تو ان دنوں ولایت میں تھے علامہ اقبال کو بتایا تو وہ خبر سن کر بہت پریشان ہوئے اور اسی وقت شیخ صاحب کوتمام حالات لکھ بھیجے۔ ۳۶؎

اقبال کے مشترکہ احباب کو لکھے گئے کچھ خطوط ایسے بھی موجود ہیں جن میں شیخ عبدالقادر کا ذکر محبت، خلوص اور بے تکلفی سے کیا گیا ہے۔ بعض سے عبد القادر کی علمیت و لیاقت پر اقبال کو جو بھروسا تھا، وہ بھی ہویدا ہے، کچھ خطوط اس بات کے غماز ہیں کہ شیخ صاحب اقبال کے ان دیرینہ دوستوں میں سے ہیں جن کی اقبال کے ہاں تواتر سے آمد و رفت تھی اور، وہ اقبال کے خلوت و جلوت کے ساتھی تھے۔ ۱۹۰۲ء میں میر منشی سراج الدین کو اپنے خط میں لکھتے ہیں ، ’’آج عید کا دن ہے اور بارش ہو رہی ہے۔ گرامی صاحب تشریف رکھتے ہیں اور شعر و سخن کی محفل گرم ہے۔ شیخ عبد القادر ابھی اٹھ کر کسی کام کو گئے ہیں …‘‘ ۳۷؎

ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے ہم نفسو، وہ خواب ہیں ہم

کے خالق خان بہادر شاد عظیم آبادی اقبال اور شیخ صاحب کے مشترکہ دوستوں میں سے تھے۔ ۳۲ برس آنریری مجسٹریٹ کی حیثیت سے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ اقبال ان کی شعری صلاحیتوں کے بڑے معترف تھے، لاہور سے ۲۵ اگست ۱۹۲۴ء کو لکھے گئے خط میں ان کی خدمات کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا گیا ہے اور شیخ صاحب کی تفصیلی خیریت کی اطلاع بھی دی گئی ہے۔ ’’ آپ کی ہمہ گیر دماغی قابلیت اور اس کے گراں بہا نتائج اس ملک کو ہمیشہ یاد دلاتے رہیں گے کہ موجودہ نظامِ  تمدن، پرانے نظام کا نعم البدل نہیں ہے کاش عظیم آباد قریب ہوتا، اور مجھے آپ کی صحبت سے مستفیض ہوے کا موقع ملتا، ۔ شیخ عبدالقادر صاحب مع الخیر ہیں اور خدا کے فضل و کرم سے ( ان کے) بہت سے بال بچے ہیں۔   تھوڑے عرصے کے لیے ہائی کورٹ لاہور کے جج بھی ہو گئے تھے مگر اب پریکٹس کرتے ہیں ، آج کل لاہور سے باہر ہیں۔   انشاء اللہ جب ان سے ملاقات ہو گی آپ کا سلام ان تک پہنچا دوں گا اور مجھے یقین ہے کہ آپ کی خیریت کا سن کر وہ بھی میری طرح بے انتہا مسرور ہوں گے۔ ۳۸؎

۱۷ اپریل ۱۹۰۹ کو لاہور سے عطیہ فیضی کو خط کے جواب میں لکھتے ہیں۔  ’’… عبدالقادر سے اکثر چیف کورٹ کے کمرۂ وکلا میں ملاقات ہوتی ہے، تقریباً روزانہ ہی، مگر عرصۂ دراز سے ہم نے آپ کے بارے میں گفتگو نہیں کی …‘‘ ۳۹ ؎

خطوط شیخ عبد القادر بنامِ  اقبال میں باہمی تعلقات، ذاتی معاملات اور نجی زندگی کے کیف و کم کے ساتھ ساتھ ادبی، علمی سیاسی اور معاشرتی مسائل بھی موضوعِ بحث آئے ہیں۔   محمد حنیف شاہد کی مرتب کردہ کتاب ’’ مقالاتِ قادر‘‘ میں شیخ صاحب کے اقبال اور فرزندِ اقبال کے نام چند خطوط بھی تبرکاً شامل ہیں۔  پہلا خط۱۷ مئی ۱۹۰۴ کو بحری جہاز مالدیویہ سے لکھا گیا ہے۔ انداز تخاطب، پیارے اقبال سے بے تکلفی اور محبت مترشح ہے۔ لکھتے ہیں ایک مدت سے امید یہی تھی کہ اکٹھے سفر کریں گے اب آپ کی عدم موجودگی بے حد کھل رہی ہے۔ جہاز پر کوئی رفیقِ سفر نہیں جو ہیں ان کی زبان ملاحظہ کیجیے، یہ باجو بیٹھو، آج پون ذرا جا ستی ہے۔ آپ ہوتے تو سارا مجمع زیرِ قلم ہوتا۔ سفر اور ہمراہانِ  سفرپر وہ گلکاریاں کی جاتیں کہ یاد گار ہوتیں۔   سمندر کے سفر سے لوگ خوامخواہ خوف زہ رہتے ہیں ، سمندر انتہائی پر سکون ہے۔ خط لکھتے ہوئے کوئی مسئلہ نہیں ہو رہا۔ آخر میں وہ فرمائش جو اس خط کا لازمی عنصر یعنی تازہ کلام برائے مخزن۔ خط کیا ہے دو بے تکلف اور ذہنی ہم آہنگی رکھنے والے دلی دوستوں کی وقتی جدائی، مستقبل کی منصوبہ بندی اور مشترکہ دوستوں کی محبتوں کا بیان ہے۔ دوسرا خط دراصل پہلے خط ہی کا ضمیمہ معلوم ہوتا ہے۔ خط پر تاریخ اور مقام درج نہیں ہے لیکن چونکہ یہ خط مخزن کے اگست ۱۹۰۴ کے شمارے میں شائع ہوا تھا اس لیے یہ اگست سے قبل… ہی علامہ اقبال کے خط کے جواب میں لکھا گیا ہے۔

آغاز فارسی شعر سے کرتے ہیں

یکے دریا، نہ وے را بُن پدید وبے کراں پیدا

در و اندیشہ حیراں ، وہم سرگرداں ، خرد شیدا

خط میں اس محرومی کا ذکر کیا گیا ہے کہ ہندوستان کے اندرونی علاقے سمندر سے سیکڑوں میل دور ہونے کے سبب یہاں کے باشندوں کی وسیع تعدادسمندر کی کیفیت، ہیبت اور خدا کے جلال و جمال کے نظاروں سے یکسر محروم و لا علم ہے۔ ان کا علم جغرافیے کی کتابوں تک محدود ہے۔ اس خط سے شیخ عبد القادر کے اسلوب کی جولانی اور بہاؤ کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ صانع حقیقی کی صنعت کاملہ جس کا ایک واضح مظہر سمندر ہے، انسانی علم اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ استفہامیہ انداز میں اللہ کی قد رت و صناعی کی داد لفظ لفظ سے پھوٹی پڑ رہی ہے۔

شیخ صاحب کے اس طویل خط میں مذہب، فلسفہ، منطق، شعر و ادب سبھی گھلے ملے نظر آتے ہیں۔   خط کیا ہے سمندر کی ہیئت و ہیبت کا ایک تاثراتی و تجزیاتی مطالعہ ہے۔ سمندر کے صبح و شام، لمحہ لمحہ بدلتے رنگوں کا بیان ہو یا وہاں موجود مہجور و خوش نصیب لوگوں کی کیفیات کا احوال۔ ان کی تحریروں میں ایسی جذباتیت کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ خط کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے۔’’خیر یہ تو با  اقبال لوگوں کی کیفیتیں ہیں۔   ہمیں ان سے کیا میں تو زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتا ہوں کہ اقبال کو بلاؤں کہ ’’ آ اور دیکھ‘‘ ۴۰؎

اقبال کے نام تیسرا خط۲ ستمبر ۱۹۰۴ء لندن سے لکھا گیا ہے۔جس میں اقبال کے ۹ اگست کو لکھے گئے خط کے ۲۹ اگست کو ملنے کی اطلاع دی گئی ہے اور اس خواہش کا اظہار کیا گیا ہے کہ خط کا جوا ب خواہ مختصر ہی لکھیے لیکن دیجیے ضرور کہ ایک تو اپنا خط ملنے کی رسید، دوسرے سلسلہ نہیں ٹوٹتا۔ خط میں آئندہ د سمبر کے انتظار کا تذکرہ ہے کہ اقبال کا سمبر ۱۹۰۵ء میں انگلستان جانے کا منصوبہ ہے۔ چند احباب کے آ جانے سے خط مختصر لکھنے کی توجیہ بھی پیش کی گئی ہے اور آئندہ مفصل خط لکھنے کا وعدہ بھی۔

شیخ صاحب کو ایک خط ایسا بھی لکھنا پڑا جو وہ کبھی لکھنا نہیں چاہتے تھے، ان کے احباب       کو لکھے گئے خط ہوں یا دیگر تحریریں ، علامہ اقبال کا ذکر کس محبت، شوق و وارفتگی           اور بے تکلفی کے باوجود عزت و احترام کے ساتھ کرتے ہیں۔   مذکورہ تعزیتی خط اقبال کے فرزند آفتاب اقبال کے نام ہے اور انگریزی میں لکھا گیا ہے۔ ۵ مئی ۱۹۳۸ء کو لکھے گئے اس خط میں دوست کی جدائی کا نوحہ بھی ہے اور ان کی عظمت کا احساس بھی۔ لندن میں ان کی یاد میں ہونے والی تقریبات کا احوال بھی درج ہے اور اس مرد مومن، شاہین صفت انسان اور محبوب دوست  کے دنیا سے رخصت ہو جانے کا دکھ ہویدا ہے۔ ۴۱؎

٭٭

 

 

حوالہ جات

 

 

۱۔ شیخ عبد القادر’’ میں نے ستارۂ اقبال کا طلوع دیکھا‘‘ مشمولہ اوراقِ  نو ص ۶۶

۲۔ شیخ عبد القادر، مشمولہ’’ دیباچہ بانگِ درا‘‘، ص ۲۴

۳۔گوہر نو شاہی، ’’ لاہور میں اردو شاعری کی روایت‘‘ مکتبۂ عالیہ ص۹۷۔ ۱۰۹

۴۔ریاض قادر، ناصر کاظمی، مدیران، ۱۹۵۰ء ’’ اوراقِ  نو ‘‘ ص ۵

۵۔ عبداللہ چغتائی، ’’اقبال کی صحبت میں ‘‘، ص ۱۱۶۔۱۱۷

۶۔ صہبا لکھنوی، ’’اقبال اور بھوپال‘‘، لاہور اقبال اکادمی، ص ۳۸

۷۔ سید معشوق حسین اطہرہاپوڑی’’ آہ شیخ عبد القادر ادیبِ شہیر ملک‘‘، مشمولہ اورققِ نو، ص ۱۱۶

۸۔ ادار یہ ادب لطیف مارچ ۱۹۵۰ء ، ص ۳

۹۔ مولانا عبد المجید سالک، اوراق نو، ص ۱۳۱

۱۰عبداللہ چغتائی، ’’ اقبال کی صحبت میں ‘‘، ص۱۲۰

۱۱۔ محمد عبداللہ قریشی، ’’ معاصرین اقبال کی نظر میں ‘‘، ص۸۷

۱۲۔ انوارِ اقبال ص ۵۳

۱۳۔ ملا واحدی، ’’میرا افسانہ‘‘، ص ۷۵

۱۴۔ محمد عبداللہ قریشی، ’’ معاصرین اقبال کی نظر میں ‘‘، ص۴۰۳

۱۵۔ اوراقِ  نو، ص۲۲۔ ۲۳

۱۶۔ شیخ عبدالقادر، ’’ اقبال فلسفی، شاعر اور مآل اندیش کی حیثیت سے‘‘ مترجم انیس جہاں ، مشمولہ اوراق نو، ص ۳۹

۱۷۔  SHAIKH SIR  ABDUL QADIR . EDITED BY  MUHAMMAD HANIF SHAHID 2006 IQBAL, THE GREAT POET OF ISLAM , ISLAMABAD , LAFZ LOG PUBLICATIONS

۱۸۔ شیخ عبدالقادر، ’’ اقبال فلسفی، شاعر اور مآل اندیش کی حیثیت سے‘‘ مترجم انیس جہاں ، مشمولہ اوراق نو، ص ۳۹

۱۹۔  چغتائی ، عبدالرحمن، ’’ طرزِ نشست‘‘ مشمولہ ’’ اوراقِ نو‘‘ ص ۹۱

۲۰۔عبد اسلام خورشید، ’’سرگذشتِ اقبال‘‘، ص ۵۶۱

۲۱۔اقتباس، امروز، مشمولہ اوراقِ نو، ص۱۳۸

۲۲۔ مولانا حبیب الرحمن خان شیرانی ۱۹۷۷ء شیخ عطا اللہ کے مرتب و مدون کردہ مجموعۂ خطوط ’’ اقبال نامہ‘‘ لاہور، اقبال اکادمی۔

۲۳۔ محمد عبداللہ قریشی، ’’معاصرین اقبال کی نظر میں ‘‘، ص ۱۱۳۔۱۱۴

۲۴۔ محمد عبداللہ چغتائی، ’’ اقبال کی صحبت میں ‘‘، لاہور مجلسِ ترقی ء ادب

۲۵۔ محمد عبداللہ قریشی، معاصرین اقبال کی نظر میں ، ص ۷۳

۲۶۔ محمد عبداللہ چغتائی، ’’روایاتِ اقبال‘‘، ص ۱۰۲

۲۷۔ ایضاً، ص ۱۶۵

۲۸۔ ایضاً، ص ۱۰۸

۲۹۔ محمد عبداللہ چغتائی، ’’ اقبال کی صحبت میں ‘‘، لاہور مجلسِ ترقی ء ادب ص ۹۰

۳۰۔ ایضاً، ص ۱۲۶

۳۱۔رفیع الدین ہاشمی، ’’ تصانیفِ اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ‘‘، لاہور، اقبال اکادمی، ص ۱۱

۳۲۔ محمد عبداللہ چغتائی، ’’روایاتِ اقبال‘‘، ص ۹۷

۳۳۔ رحیم بخش شاہین، اوراقِ  گم گشتہ، لاہور اسلامک پبلی کیشنز

۳۴۔محمد حنیف شاہد ’’نذرِ  اقبال‘‘، ص ۳۔ ۴

۳۵۔حنیف شاہد، ’’نذرِ  اقبال‘‘، ص۱۶

۳۶۔محمد عبداللہ چغتائی، ’’روایاتِ اقبال‘‘، ص۸۴

۳۷۔ محمد عبداللہ چغتائی’’ اقبال کی صحبت میں ‘‘، ص ۸۸

۳۸۔محمد عبداللہ قریشی، ’’ معاصرین اقبال کی نظر میں ‘‘، ص ۲۱۰۔۲۰۹

۳۹۔ عطیہ فیضی، ۱۹۷۵ء ، ’’اقبال‘‘، لاہور، آئینۂ ادب

۴۰۔ حنیف شاہد، ’’نذرِ  اقبال‘‘، ص۱۷۴

۴۱۔حنیف شاہد، ’’نذرِ  اقبال‘‘، ص۱۸۱

٭٭٭

 

 

 

 

شیخ عبد القادر بحیثیت مدیرِ مخزن و مصنف

 

                ABSTRACT

"Makhzan” started in 1901 from Lahore. Sir Sh. Abdul Qadir was its  Editor. This was purely urdu literary journal; without political or religious touch. This journal got the honor to introduce Sir Allama Iqbal and Maulana Abul Kalam Azad. The main objective of the journal was to prosper the Urdu language and literature; to declare urdu a common language of Hindues and Muslims; to convince and divert the english oriented group of society towards urdu and to prove that urdu can do equally in all walks of life. Sir abdul Qadir not only gathered all potential writers in Mukhzan, but also wrote extensively on deserving issues. This chapter offers a review of  multifarious articles and reviews on books written by Sir abdul Qadir.

 

شاہراہِ زندگی پر کامیابی و کامرانی کے ساتھ سفر کرنے کا ارادہ باندھنے والوں کی تعداد لامحدود ہوسکتی ہے لیکن اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے والے انگلیوں پر گنے جا سککتے ہیں۔   سبب … خلوص، دیانت، صداقت، خود احتسابی کی عادت، وقت کی اہمیت کا احساس، کام پر مکمل ارتکاز، نصب العین پر بھر پور توجہ، منزل کا تعین، اپنے شوق کی انتہا کی خواہش، ستاروں پر کمند ڈالنے کی آرزو اور اس آرزو کے حصول کے لیے محنت اور ان تھک محنت… سب اس امتحان میں پورا نہیں اترتے۔ بر صغیر میں انیسویں اور بیسویں صدی اس لحاظ سے بہت اہم کہی جا سکتی ہے کہ شعر و ادب کی دنیا میں ایسے اہلِ  نظر منظر عام پر آئے جنھیں بجا طور پر نابغۂ  روزگار کہا جا سکتا ہے اور جنھوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے دن رات ایک کر دیے۔ان اصحابِ  فکر و نظر اور اہلِ  علم و دانش میں ایک نام شیخ عبد القادر کا ہے۔ بیرسٹر شیخ سر عبدالقادر ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، دیگر سرکاری و غیر سرکاری مصروفیات کے ساتھ ساتھ برصغیر کے پس ماندہ عوام میں تعلیمی شعور اجاگر کرنے اور اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے ان کی سعی و کو شش کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لندن کے زمانۂ  قیام میں ہندوستانی سپیکنگ یونین کا انعقاد کا مقصد دیارِ  غیر میں اردو زبان و ادب کو متعارف کرانا اور یہ احساس بیدار کرنا تھا کہ اردو زبان ہر قسم کے ادبی، مذہبی، سیاسی، و سائنسی خیالات و نظریات ادا کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے، پھر ان کی جانب سے دسمبر۱۹۰۸ء میں اردو سبھا کے قیام میں بھی اردو زبان کی ترویج و ترقی ہی پیشِ نظر تھی، اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ان کی سب سے اہم کوشش ’’ مخزن ‘‘ کا اجرا تھا۔

شیخ عبد القادر کے ذہن میں ’’مخزن ‘‘ کا خیال ا س پس منظر سے ابھرتا ہے کہ بھارت، جہاں اردو اور ہندی دو الگ الگ زبانوں کی حیثیت سے نزاع کا باعث بن رہی تھیں ، بیشترمسلم تخلیق کاروں کی تحریریں اس بات کی غماز تھیں کہ اردو صرف ان کی زبان ہے جس کی آب یاری انھوں نے اپنے خونِ  جگر سے کی ہے، جب کہ شیخ صاحب تجزیہ کرتے ہیں کہ اگر صرف لکھنو کو ہی لیا جائے تو وہاں کے پیشتر مسلم ہی نہیں ہندو گھرانوں کی زبان اردو ہے اور ہندو اردو لکھاری بھی لکھنؤ میں بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن جب اسی شہر میں اردو کی حمایت میں جلسہ ہوتا ہے تو چند ایک لوگ ہی اس میں شریک ہوتے ہیں … وجہ… ہندو انتہا پسند مسلم دشمنی میں اردو زبان کو بنیاد بنائے ہوئے ہیں۔   انگریز حکومتی عہدے داروں کی حمایت بھی انھیں حاصل ہے۔اردو مخالفت پنڈت مدن موہن مالوی سے شروع ہوئی اور سرکار انگلیسیہ کے ایک رکن لیفٹیننٹ گورنر میکڈانل نے سرکاری طور پر اردو کی جگہ ہندی کی تجویز پیش کی۔ اس اردو مخالف ماحول میں اردو اور ہندی بولنے اور لکھنے والوں کے درمیان خلیج کو دور کرنے کے لیے، شیخ صاحب نے بہتر جانا کہ ایک ایسے رسالے کا اجرا کیا جائے جو اردو کو ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ زبان کے طور پر پیش کرے۔’’مخزن ‘‘ کا پہلا شمارہ اپریل ۱۹۰۱ء میں منظرِ عام پر آیا، جس میں مخزن کے اجرا کا جواز اور اس کے مقاصد بیان کیے گئے تھے۔ اس کا بنیادی اصول یہ تھا کہ مخزن، سیاست و مذہب سے الگ ہو کر صرف ادبی ذوق پیدا کرنے کی طرف مائل کرے گا۔ شیخ عبد القادر سیاست پر گہری نگاہ رکھتے تھے لیکن مخزن کو سیاسی موضوعات اور بحث مباحثے سے پاک رکھنا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ضرورت ہوئی تو وہ سیاست کے لیے ایک الگ رسالہ جاری کر لیں گے، یہی نظریات ان کے مذہب کے بارے میں تھے۔ اسلامی تعلیمات کے منافی تحریروں یا تفرقانہ موضوعات کی مخزن میں قطعاً کوئی گنجائش نہ تھی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ خالص اسلامی رنگ ’’مخزن‘‘ میں اس لیے بھی موجود نہیں کہ قارئین میں ہندو بھی ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں ، قدیم شعری کلاسک کے انتخاب کی اشاعت، اردو نثر کے فروغ میں معاونت، ہندو اور سکھ ہم وطنوں سے اردو تخلیقات کا حصول اور ان کی اشاعت، انگریزی، فرانسیسی جرمن اور دیگر زبانوں کے بہترین ادب پاروں کے اردو تراجم کی اشاعت، غرض شیخ عبد القادر کے نزدیک مخزن کے اجرا کا مقصد عوام کو یہ باور کرانا تھا کہ اردو زبان دنیا کی ترقی پذیر زبانوں میں سے ایک ہے اور اس پر توجہ دے کر ہم اسے ترقی یافتہ زبانوں کی صف میں کھڑا کر سکتے ہیں۔   ۱؎

پھر مغربی شعر و ادب سے تعارف، عالمی ادب میں اٹھنے والی تحریکوں کے اثرات کا جائزہ بھی اس کے مقاصد میں سے ایک تھا۔اردو نظم میں مغربی خیالات کی ترویج تا کہ انگریزی داں طبقے کے لیے اردو شاعری قصۂ  پارینہ نہ ہو۔ شیخ عبد القادر کی اردو سے عملی محبت کا ثبوت اس امر سے عیاں ہے کہ انھوں نے کتنے ہی انگریزی دانوں کو اردو کا ادیب و قاری بنا دیا، ان کے حلقۂ احباب میں جو اہم ادبی شخصیات تھیں انھیں تابناک بنانے میں ان کا بڑا حصہ ہے۔۲؎

جہاں تک ’’مخزن ‘‘ کے نام کا تعلق ہے سر عبد القادر نے بہت غور و خوض کے بعد اس کا انتخاب کیا۔ کھوج و جستجو کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ انگریزی لفظ’’ میگزین ‘‘عربی لفظ مخزن ہی کی ایک صورت ہے۔ یہ نام منتخب ہوا اور ایسا سعد ٹھہرا کہ ہر ایک کی زبان پر چڑھ گیا۔

مخزن کے سر ورق پر ہندوستان کا نقشہ بنایا گیا ہے جس میں ہندوستان (و پاکستان) کے اہم شہر اور اردو بولنے والے قرب و جوار کے ممالک مثلاً لاہور، دہلی، کشمیر، پشاور، کراچی، آگرہ، لکھنو، الہ آباد پٹنہ کلکتہ کانپور بمبئی، بنگلور، مدراس، سیلون، حیدر آباد دکن، نقشے پر دکھائے گئے ہیں۔   ہر شہر یا علاقے کی نمائندگی ایک مکمل سفید( ان شہروں میں اردو مادری زبان ہے) آدھا سیاہ اور آدھا سفید ( ان شہروں میں اردو مروج ہے )مکمل سیاہ( ا ن شہروں میں اردو سمجھی جاتی ہے)یہ نقشہ پہلے شمارے سے لے کر مولانا تاجور نجیب آبادی کی ادارت کے عہد تک شائع ہوتا رہا۔ یہ فقرہ بھی ہر شمارے کی زینت ہوا کرتا تھا ’’ اردو علم و ادب کی دلچسپیوں کا ایک ماہوار مجموعہ‘‘ سر ورق پر ہی نظم و نثر کی فہرست اور پبلشر کا نا م و ادارہ بھی درج ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ابتدا سے ہی ا س جریدے نے اپنا اعتبار قائم کر لیا تھا جہاں اسے اہم لکھنے والوں کی سر پر ستی حاصل رہی وہیں اس دور کے کاروباری طبقوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ہر شمارے میں اشتہارات کی بہتات ظاہر کرتی ہے کہ اسے مالی مسائل سے نبرد آزما نہیں ہونا پڑا ہو گا۔ اتنے اشتہار کبھی کسی ادبی جریدے کو موصول نہیں ہوئے جتنے مخزن میں شامل ہوتے تھے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آج ایک سو بارہ سال گزرنے کے بعد بھی اتنے اشتہار کسی ادبی جریدے کو موصول نہیں ہوئے۔

مخزن صوری و معنوی ہر دو اعتبار سے اپنی مثال آپ تھا۔ شیخ صاحب جہاں تخلیقات کے انتخاب میں بہت باریک بینی سے کام لیتے وہیں اس کے ظاہری حسن و دلکشی کا بھی خیال رکھتے۔

’’ سید سلیمان ندوی نے ایک مرتبہ ذکر کیا تھا کہ جب مخزن نکلا تو وہ ندوہ کے طالبِ علم تھے اور حماسہ ان کے درس میں تھی۔ مخزن کے حسن و جمال کو دیکھ کر ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔   بلا شبہ یہ حسن و جمال ظاہری اور معنوی دونوں پہلوؤں پر چھایا ہوا تھا۔ مخزن کے پرانے پرچے آج بھی موجود ہیں کتابت و طباعت دیکھیے تو یوں معلوم ہوتا ہے گویا موتیوں کی کہکشاں چنی ہوئی ہے۔ کاغذ ولایتی تھا اور ہر پرچے میں بلاک کی ایک تصویر چھپتی تھی۔ لاہور میں بلاک سازی کا کوئی کارخانہ نہیں تھا۔ تصویریں کلکتہ بھجی جاتی تھیں اور وہاں سے بلاک بن کر آتے تھے اس اہتمام پر بے دریغ روپیہ صرف ہوتا تھا اور خود عبد القادر تنگی ترشی کی زندگی بسر کرتے تھے لیکن مخزن پر ایک ایک پیسہ خرچ کر ڈالتے تھے۔‘‘ ۳؎

مخزن کے حلقۂ تحریر میں ا پنے عہد کے تقریباً تمام ہی مشاہیرِ ادب شامل تھے، پھر شیخ صاحب نے بہت سے نئے لکھنے والوں کو متعارف کر ا کے انھیں بامِ  عروج تک پہنچایا۔ اسے ہمیشہ مشاہیر اور بزرگ اہل قلم کی محبت و شفقت اور سر پرستی حاصل رہی۔ بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ تمام اہلِ  قلم، کسی ایسے کی ادبی جریدے کے منتظر تھے جو مؤقر بھی ہو اور معتبر بھی شیخ صاحب کا جریدہ ’’مخزن‘‘ وقت کی اہم ضرورت تھا۔

مولانا حالی، مولانا شبلی، حسرت موہانی، ، تلوک چند محروم، پنڈت برج موہن دتاریہ، مولوی سید احمد، نادر کاکوروی، آزاد عظیم آبادی، شاد عظیم آبادی، اکبر الہ آبادی، حافظ محمود شیرانی، ، علامہ راشد الخیری، داغ دہلوی، سجاد حسین یلدرم،  خوشی محمد ناظر، مولانا ذکا اللہ، وحید الدین سلیم، مولانا ابو الکلام آزاد کے علاوہ آغا شاعر دہلوی، سید شریف حسین، لطیف احمد، سید علی بلگرامی، احمد دین بی اے، ، سجاد حیدر، سری رام، محمدسعید، محمد اکرم، عبدالرشید چشتی، جیا رام، عزیز مرزا، مہدی حسن لکھنوی، نذیر حسین، تسلیم احسان، مولوی فدا علی خان، مولوی عبدالرشید، سید محمود حسین جعفری، سلطان حیدر صاحب جوش، ڈاکٹر شیخ محمد اقبال، منشی کندن لال صاحب، شیخ غلام محمد، حکیم ناصر فراق دہلوی، مہدی حسن افادی الاقتصادی، شمس اللہ قادری، سید غلام مصطفے وغیرہم یہ وہ ہستیاں ہیں جنھوں نے اپنی تحریروں سے مخزن کو اعتبار بخشا۔ خود شیخ صاحب بھی جب تک مخزن سے وابستہ رہے، ان کی نگارشات کا یہی زمانہ عروج کا تھا۔یہ وہ دور تھا کہ جب علامہ اقبال کے افکار و نظریات اردو شعری منظر نامے پر طلوع ہو رہے تھے اور خود شیخ صاحب کے الفاظ میں میں نے ستارۂ اقبال کا طلوع دیکھا اور چند ابتدائی منازلِ  ترقی میں اقبال کا ہم نشین اور ہم سفر تھا۔ اقبال نے اپنی نظم ’’ہمالہ‘‘ انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں پڑھی، شیخ عبد القادر اس نظم کے متعلق کہتے ہیں کہ انگریزی خیالات اور فارسی بندشیں پھر سر زمینِ وطن سے محبت اور اس پر فخر کا احساس، لوگوں کے اصرار پر ترنم سے پڑھی گئی اس نظم نے عوام و خواص دونوں کو مبہوت کر کے رکھ دیا۔ میں نے رسالہ مخزن کا اجرا کیا تو اقبال کی یہ نظم جلد اول، اپریل ۱۹۰۱ء میں شائع کر دی ہر چند کہ وہ اجازت دینے میں متأمل تھے کہ ایک مرتبہ اور دیکھ لوں ، ابھی کچھ خامیاں ہیں ، لیکن میں جانتا تھا کہ نظم بہت پسند کی گئی ہے اور بے داغ تکمیلیت کی خواہش کے حصار سے شاعر اور وہ بھی اقبال جیسا شاعر کبھی نکل نہ سکے گا۔ ۴؎

شیخ صاحب کو’’ ہمالہ‘‘ ہی نہیں انجمن اور دیگر مقامات پر منعقدہ پیشتر جلسوں میں پڑھی جانے والی تخلیقات کی سماعت اور پھر مخزن میں اشاعت کا شرف حاصل ہے۔

مخزن کا اجراء کیا گیا تو شیخ صاحب کی کوشش اور خواہش یہی تھی کہ اس کے ہر شمارے کے لیے علامہ اقبال سے کچھ نہ کچھ ضرور حاصل کر لیں اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے۔

علامہ اقبال مخزن کے مستقل لکھنے والوں میں سے تھے اور یہ تعلق اس وقت تک قائم رہا جب تک مخزن پر سر عبد القادر کا نام چھپتا رہا۔ یوں علامہ اقبال کے سر زمین ہند بلکہ بیرونی دنیا سے تعارف کے سلسلے میں مخزن کا بنیادی کردار رہا۔

اردو نثر کی بات کی جائے تو مخزن کے سب سے توانا انشا پرداز ابوالکلام آزاد ہیں ، جو ایک پر شکوہ اسلوب کے مالک ہیں ، ان کی تحریر میں علمی نثر کے بہترین نمونے ملتے ہیں۔  جذبے کی شدت اور اعلیٰ تخیل اور نثر میں شاعری ان کے اسلوب کی نمایاں خصوصیات ہیں۔  انھوں نے اردو نثر کو ایک نئے ذائقے سے روشناس کرایا۔ اس اسلوب نے اردو کے نثری ادب کو حیاتِ  تازہ عطا کی۔

’’ ان کے زمانے میں رومانیت کی تحریک وجود میں آئی اور دیکھتے دیکھتے اپنے شباب پر پہنچ گئی۔ سنجیدہ نثر میں اس تحریک کے اثرات سب سے زیادہ مولانا ابو الکلام آزاد کے ہاں ملتے ہیں ، ان کی آواز اس زمانے کی ادبی فضا میں گونجتی ہوئی دور دور تک سنائی دیتی ہے، تخیل کی ساحری اور اس کے اثر سے الفاظ کی مرصع کاری کا کمال دیکھنا ہو تو وہ ابو ا لکلام کی نثر میں دیکھا جا سکتا ہے۔وہ رنگینی اور رعنائی وہ بلندی اور بلند آہنگی اور وہ جگمگاہٹ اور تابانی جو ہمیں ابو الکلام کی نثر میں ملتی ہے وہ اردو نثر لکھنے والوں میں کہیں اور نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ بیسویں صدی کے ابتدائی تیس چالیس برسوں میں ابو الکلام اردو نثر پر چھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔   ‘‘ ۵ ؎

یہاں اس امر سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ ابو ا لکلام آزاد کو ادبی دنیا سے متعارف کرانے والے شیخ عبد القادر ہی تھے جن کی مردم شناس نگاہوں نے اس جوہر کو پہچان لیا تھا۔

’’ سب سے بڑے شاعر یعنی اقبال اور سب سے بڑے نثر نگار یعنی ابو الکلام آزاد نے اپنی پہلی نظم اور اور اپنا پہلا مضمون مخزن میں ہی لکھا۔‘‘ ۶؎

اس کی تفصیل جگن ناتھ آزاد کے شیخ صاحب سے کیے گئے ایک مکالمے سے ہویدا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ ۱۹۰۱ء میں ندوۃ العلما کلکتہ کی دعوت پر پہنچا۔ سلسلۂ  تقاریر جاری تھا۔ جب میں تقریر ختم کر چکا تو ایک نو عمر صاحب میرے پا س آئے اور میرے لیکچر کی تعریف کی۔ تقریب میں سولہ سترہ سالہ اس بچے کی لیکچر میں دلچسپی نے مجھے متاثر کیا۔ چند منٹوں کی گفتگو میں ، میں جان چکا تھا کہ بچہ علمی پس منظر رکھتا ہے اور ادب و فلسفہ سے شغف رکھتا ہے، میں نے اسے مخزن میں لکھنے کی دعوت دی۔ میرے ساتھی بہت جز بز ہو رہے تھے کہ میں ایک معمولی لڑکے کو اتنی اہمیت کیوں دے رہا ہوں ، اور پھر مخزن میں ان کا مضمون NEWS سے متعلق شائع ہوا جو اپنے اچھوتے خیال کے سبب پسند کیا گیا۔ آزاد کی تربیت میں شبلی کی فیضِ صحبت نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ پھر جب میں نے اردو سبھا کی تحریک شروع کی تب بھی انھوں نے ہماری مدد کا بیڑہ اٹھایا۔۷؎

ابوالکلام کی تحریر پر تنقید کرنے والے بھی خاموش نہ رہے۔ شیخ صاحب کے لندن جانے سے قبل ہی مخزن کی دھومیں مچی ہوئی تھیں۔   اعلیٰ پائے کے ادیب اس میں اپنی تخلیقات کی اشاعت باعثِ اعزاز سمجھتے۔ مولانا غلام بھیک نیرنگ کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ تفصیل سے مخزن کا مطالعہ کرتے اور ہر تخلیق کے بارے میں تفصیلی رائے دیتے۔ آزاد کا مضمون شائع ہوا تو، انھوں نے واضح طور سے لکھا کہ پندرہ سولہ برس کے لڑکے کی حوصلہ افزائی، جو مدیرِ  مخزن کا شعار ہے، مخزن کے معیار کو تباہ ہی نہ کر دے …

شیخ صاحب کی دور بین نگاہوں نے جانچ لیا تھا کہ ابوالکلام آزاد سہ روزہ ’’وکیل ‘‘امرتسر، ’’ الندوہ‘‘ لکھنو کے ایڈیٹر بننے والے تھے اور تئیس برس کی عمر میں ان کا اپنا ہفت روزہ ہلال، ادبی و صحافتی دنیا میں ہلچل مچا دے گا۔ ۸؎

ایک ابوالکلام آزاد ہی نہیں نہ جانے کتنوں کو شیخ صاحب کی نگاہِ انتخاب نے بامِ عروج پر پہنچایا۔

’’ ابو الکلام آزاد، سجاد حیدر یلدرم، سلیمان ندوی، اور حسن نظامی کے مضامین پہلی بار مخزن ہی میں شائع ہوئے۔ سید سلیمان ندوی کہتے ہیں کہ ندوۃ کی طالب علمی کے زمانے میں میں نے اپنا پہلا مضمون ’’ وقت ‘‘ کے عنوان سے لکھ کر مخزن کو بھیجا تو شائع ہو گیا۔ اس کے چھپنے سے جتنی مجھے خوشی ہوئی بیان سے باہر ہے۔ اس کے بعد میں نے اپنی زندگی میں ہزاروں صفحے سیاہ کیے۔ بڑی بڑی ضخیم کتابیں لکھیں۔   دنیا نے توقع سے بڑھ کر داد بھی دی، لیکن جو خوشی مخزن میں اپنا پہلا مضمون چھپنے کے بعد ہوئی تھی، وہ دوبارہ حاصل نہ ہوئی۔‘‘ ۹ ؎

ملا واحدی کی معرکۃ الآرا کتاب دلی جو ایک شہر تھا … کا مطالعہ کیجیے تو کیا کیا نادر روز گار شخصیتوں کی زندگی کے وہ پہلو سامنے آتے ہیں جو زمانے کی نگاہوں سے پوشیدہ تھے، وہ کہتے ہیں کہ جب بیرسٹری کے لیے شیخ صاحب نے دہلی کا انتخاب کیا تو ’’ مخزن ‘‘ بھی دہلی لے گئے خواجہ حسن نظامی اور مولانا راشد الخیری مخزن میں چھپا کرتے تھے، خواجہ صاحب سے شیخ صاحب کی یاد اللہ تھی لیکن مولانا راشد الخیری سے چہرہ شناسی نہ تھی۔ شیخ صاحب نے دلی پہنچتے ہی فرمائش کی کہ راشد الخیری سے ملائیے۔ ابوالکلام آزاد اور خواجہ حسن نظامی کو اگر شیخ صاحب متعارف نہ کراتے ان کی حوصلہ افزائی نہ فرماتے، تب بھی ان کا تخلیقی بہاؤ کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈ نکالتا لیکن مولانا راشد الخیری اتنی آسانی سے قابو میں آنے والے نہ تھے، شیخ صاحب اگر انھیں نہ گھسیٹتے تو وہ کبھی منظرِ  عام پر نہ آتے۔ مولانا شیخ عبد القادر کا راشد الخیری کو ادبی دنیا سے متعارف کرانا ایک اہم کارنامہ ہے ورنہ ہم ایک عظیم صحافی، بے مثل مصنف، مصورِ غم اور بابائے طبقۂ نسواں کی گراں قدر تخلیقات سے محروم رہ جاتے۔ شیخ صاحب کے اصرار پر مولانا راشد الخیری نے اچھی بھلی سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دیا اور مخزن کی ادارت سنبھالی۔ یہ الگ قصہ ہے کہ مخزن پر بطور مدیر ان کا نام کبھی سامنے نہ آیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ملازمتِ سرکار کو استعفیٰ انھوں نے کئی سال لٹکا کر دیا۔ کبھی کسی بہانے چھٹی لے لیتے اور کبھی کسی اور۔ ۱۰؎

مخزن کے مستقل لکھنے والوں میں میر غلام بھیک نیرنگ بھی شامل تھے، ان کی تخلیقاتِ نظم و نثر مخزن کے ہر شمارے کی زینت بنتیں اور ایک مدیر کے لیے یہ لمحہ انبساط سے پر ہوتا ہے کہ جب قاری یا تخلیق کار اس کے جریدے پر اپنی مفصل رائے پیش کرے۔ مخزن کے ہر شمارے پر شیخ صاحب کو میر صاحب کی جانب سے مفصل تجزیہ موصول ہوتا۔ شیخ صاحب میر نیرنگ کے علمی و ادبی مرتبے کے معترف تو تھے ان کی مدیرانہ صلاحیتوں پر بھی کامل بھروسا رکھتے تھے۔۱۹۰۴ء میں شیخ صاحب بیرسٹری کے لیے لندن گئے تو میر نیرنگ کو لاہور بلوا کر مخزن کی ادارت ان کے سپر د کی۔ یہ میر صاحب ہی کا اعجاز تھا کہ بلا اظہارِ نام مخزن کی ادارت بہ حسن و خوبی کرتے رہے، شیخ محمد اکرام، نائب مدیر، تمام مضامین انھیں بذریعہ ڈاک، ارسال کر دیتے۔ آپ نہایت عرق ریزی سے ان کا مطالعہ کرنے کے بعد انھیں منتخب فرماتے اور قارئین کو شیخ صاحب کی کمی محسوس نہ ہونے دیتے۔

مخزن کے سلسلے میں شیخ محمد اکرام کی خدمات سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں ، ملا واحدی اس کی تفصیل بہت خوب صورتی سے بیان کرتے ہیں۔   ان کا کہنا ہے کہ شیخ محمد اکرام میں مدیرانہ صلاحیت سے کہیں زیادہ انتظامی قابلیت تھی، یہ وہ دور تھا کہ جب پریس میں ہاتھوں کی مشین سے کام کیا جا تا تھا اور پریس کے کارکن جی نہ چاہتا تو تساہل سے کام لیتے، انھیں قابو میں رکھنا ایک فن تھا۔ جب دیکھتے کہ کارکن مستی کر رہے ہیں تو انھیں کچھ کہنے کے بجائے سوٹ اتار بنیان تہہ بند باندھتے اور خود پریس مشین پر کھڑے ہو جا تے، اب کارکنوں کے لیے جائے مفر نہ ہوتی، دفتری معاملات اور چھاپے خانے کے سارے مسائل حل کرنا ان کے لیے ایک دلچسپ مشغلہ تھا، کسی بھی رسالے کی کامیابی کا دار و مدار خریداروں کی تعداد پر بھی ہو سکتا ہے۔ مخزن کے خریدار بنانے کا کام بھی انھوں نے اپنے ذمہ لیا ہوا تھا، کسی بھی شہر کا ٹکٹ خریدتے اور وہاں موجود خریدار کو اپنے آنے کی اطلاع کر دیتے۔خریدار خوشی خوشی استقبال کرتا اور اپنی ذمہ داری بھی نبھاتا یعنی جس قدر ممکن ہوتا خریدار بھی بنوا دیتا، وہیں سے شیخ محمد اکرام کسی دوسرے شہر اور پھر تیسرے روانہ ہو جاتے اور واپسی پر مخزن کے کئی مہینوں کا خرچا پورا کر دیتے۔ صرف اخراجات کا معاملہ ہی نہیں ، مضامین کے حصول کے لیے بھی جو تگ و دو انھوں نے کی وہ بھی قابلِ  تقلید ہے۔ جہاں انھیں پتہ چلتا کہ کسی شہر میں کسی ا ہم تخلیق کار کی کوئی نایاب، غیر مطبوعہ تحریر کسی کے پاس موجود ہے یا کوئی تحلیق کار کسی اہم موضوع پر کا م کر رہا ہے تو دور دراز کا سفر کر کے اس کے پاس پہنچ جاتے اور اپنا مشن پورا کیے بغیر نہ ٹلتے۔ ۱۱؎

مخزن اور شیخ عبد القادر لازم و ملزوم تھے۔مخزن ایک رجحان ساز جریدہ تھا، اس نے اپنے لکھنے والوں کا مذاق بلند کرنے کے ساتھ ساتھ قاری کے ادبی ذوق کی آبیاری کے سلسلے میں بہت کام کیا، یہی نہیں بلکہ بعد میں آنے والوں کے لیے بھی راہ ہموار کر دی چنانچہ مخزن کے بعد رسائل کی ایک قطار نظر آتی ہے جو اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ زمانہ، ہمایوں ، عالم گیر، ادبی دنیا، معارف، نگار، نقوش، شاعر، شب خون، نیرنگِ  خیال، ادبِ  لطیف، ساقی، فنون، اوراق و سیپ غرض ہند و پاک کی سرزمین سے کئی بڑے رسائل شائع ہوئے اوریوں تخلیق کاروں کا ایک عظیم کاروان شاہراہ اردو پر کامیابی سے سفر طے کرتا نظر آیا۔ اردو نثر کا اولین، اپنے مخصوص انداز کا ماہنامہ مخزن تھا۔رسالے یا میگزین کا لفظ ’’مخزن ‘‘سے ہی منظرِ  عام پر آیا۔۱۲؎

نذیرنیازی کے نزدیک مخزن ایک ایسی شاہراہ تھی جسے اردو زبان و ادب کے کاروان کے لیے شیخ صاحب نے تعمیر کیا تھا، بد قسمتی سے جب یہ کاروان اس شاہراہ سے ہٹا تو بکھر کر رہ گیا۔ مخزن ایک عہد کا ترجمان تھا اور عبدالقادر اس کی روح تھے۔ ۱۳؎

ملا واحدی نے دلی کی سیاسی سماجی ادبی صحافتی زندگی کا غائر مطالعہ کیا اور مخزن کے عروج و زوال کی ساری داستان انھی کے سامنے رقم ہوئی۔’’ … یکایک شیخ عبد القادر کو حالات نے مجبور کیا کہ دلی سے لاہور چلے جائیں اور مخزن کا دفتر بھی لاہور لے جائیں۔   مولانا راشد الخیری اور شیخ محمد اکرام لاہور نہیں گئے دونوں نے زنانہ رسالہ ’’ عصمت پر اپنی قابلیتیں صرف کیں۔   لاہور جا کر شیخ عبد القادر نے بڑی کام یابی اور ناموری کے ساتھ عمر بسر کی … مگر مخزن کو لاہور واپس جانا راس نہیں آیا آہستہ آہستہ دم توڑ گیا۔ بہر حال مخزن کو بھلایا نہیں جا سکتا، وہ اردو کے ماہناموں کا باپ نہیں تو بڑا بھائی ضرور تھا۔‘‘ ۱۴؎

مخزن میں شائع ہونے والی منظوم و منثور تخلیقات میں اس امر کا لحاظ رکھا جاتا تھا کہ ان سے قارئین میں کسی پہلو میں بھی منفی تاثر نہ پھیلے۔ ایسی تحریر اشاعت کے لیے منتخب ہو جو مشرقی روایات سے متصادم نہ ہو اور مغربی ادب کے افق پر ابھرنے والی نئی تحریکوں ، خیالات و نظریات سے آگہی بخشتی ہو۔ ان کی اس کوشش کو ہر پلیٹ فارم پہ سراہا گیا۔

مر حوم نے ر سالہ مخزن کا اجراء اس زمانے میں کیا تھا۔ جب لوگوں کو رسالہ بینی کا کوئی شوق نہیں تھا۔ اس وقت مذہبی رسائل اور جرائد تو مو جو د تھے مگر کوئی پر چہ نہیں تھا، جسے ادبی نقطہ نظر سے بلند معیار رسالہ کہہ سکیں۔   ایسے ہمت شکن ماحول میں رسالہ جاری کرنا اور اسے وقت کے تقاضے کے مطابق معیار کی انتہائی بلند یوں تک پہنچا دینا کو ئی معمو لی بات نہیں ہے۔ مرحوم نے مسلسل جدوجہد سے اس رسالے کو کامیاب بنا یا۔ جمہور میں رسالہ بینی کا شوق پیدا کیا۔۱۵؎

عموما کسی بھی جریدے میں تخلیق کے عنوان کے ساتھ ہی تخلیق کار کا نام دیا جاتا ہے۔مخزن کا ایک انداز یہ رہا کہ لکھنے والے کا نام مضمون یا نظم و غزل کے اختتام پر دیا جاتا ہے۔ غالباً شیخ صاحب کی خواہش ہو گی کہ قاری لکھاری کے نام و مرتبہ کے رعب میں آئے بغیر تخلیق کا مطالعہ کرے اور اگر اس نے فہرست سے صرفِ  نظر کیا ہے تو تحریر کے اختتام پر ہی اسے آگاہی ہو۔

 

                 مدیرانِ مخزن

 

اردو ادبی جرائد کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ وہ غنچے ہیں جو عموماً بن کھلے مرجھا جاتے ہیں۔  کسی مدیر میں بہت ہمت ہوئی تو دو چار چھ شمارے منظرِ عام پر آئے اور پھر بات رفت گذشت ہوئی۔ مخزن ان پرچوں میں سے ایک تھا جو نامساعد حالات کا مقابلہ بڑی تندہی سے کرتے ہیں اور اپنے لکھاریوں اور قاریوں کو مایوس نہیں ہونے دیتے۔ تقریباً نصف صدی تک مختلف ادوار میں جاری رہنے والے مخزن کا مختصر احوال کچھ یوں ہے۔

 

 پہلا دور

۱۹۰۱ء۔لاہور شیخ عبد القادر۔

۱۹۰۴ء۔لاہور میر غلام بھیک نیرنگ، شیخ محمد اکرام(بطور اسسٹنٹ)

۱۹۰۷ء۔ دہلی شیخ عبد القادر شیخ محمد اکرام ( ان کے انگلستان جانے کے بعد راشد الخیری، لیکن راشد الخیری کا نام سرکاری وجوہ کی بنا پر بطور مدیر کبھی مخزن پر درج نہ ہوا )

۱۹۱۰ء لاہور شیخ عبد القادر

۱۹۱۶ء لاہورشیخ عبد القادر، میر نثار علی(بطور اسسٹنٹ)

۱۹۱۷ء لاہورشیخ عبد القادر، مولانا تاجور نجیب آبادی( معاون مدیر)

 

 دوسرا دور

 

۱۹۱۸ء لاہور تاجور نجیب آبادی(شیخ عبد القادر نگران یا اعزازی مدیر کے طور پر سامنے آتے ہیں )

۱۹۲۱ء لاہور ابو البیان شاہجہان پوری

 

 تیسرا دور

 

۱۹۲۶ء لاہور ابو الاثر حفیظ جالندھری

 

 چوتھا دور

 

۱۹۴۸ء لاہور حامد علی خان

 

ان کے علاوہ بھی مخزن کو با ذوق اور باصلاحیت ادیبوں کی ادارت کے سلسلے میں معاونت حاصل رہی۔ ۱۹۱۲ء میں قیام لائل پور کے دوران شیخ غلام رسول اس کی نگرانی کے فرائض انجام دیتے رہے۔

’’ وہ عمر بھر مخزن سے وابستہ رہے اس اثنا میں مخزن دو بار بند ہوا قیامِ  پاکستان کے بعد تیسری بار اس کے اجرا کی بات چلی تو سر عبد القادر اس میں پیش پیش تھے ان کے اپنے لفظوں میں :

اب ایک عرصے سے مخزن بند تھا جب دور سوم کے آغاز کا خیال متذکرہ احباب کو آیا۔ میری دعا ہے کہ یہ نئی کوشش کامیاب ہو اور اردو کی ترقی اور استحکام کو اس سے مدد پہنچے۔، جو حضرات اس کی عنانِ ادارت سنبھالیں گے، اگر وہ یہ کوشش کریں کہ مخزن کی روح ان کے قبضے میں آ جائے تو ان کی کامیابی انشا  اللہ یقینی ہو گی… اور مخزن کی روح تھی دوستی اور محبت کے ذریعے لوگوں کو اردو کی طرف رغبت دلانا اور ان میں اردو کا شوق پیدا کرنا۔ ‘‘۱۶؎

’’ رسالہ مخزن کئی مدیران کی سرکردگی میں برسوں نکلتا رہا حقیقت یہ ہے کہ’’ شیخ عبد القادر، شیخ اکرام اور مولانا راشد الخیری کے زمانے کے مخزن کا کیا مقابلہ۔‘‘۱۷؎

 

                 مخزن:زبان اور اردو زبان

 

شیخ عبد القادر اردو زبان کی سخت جانی کو بنیاد بنا کر، کہ ہر حملے کے بعد زیادہ توانائی سے ابھر کر سامنے آتی ہے، برصغیر اور بیرونی دنیا میں بھی اس کا مستقبل روشن دیکھتے ہیں ، شرط صرف یہ ہے کہ اسے نظر انداز نہ کیا جائے۔

’’لندن میں اردو‘‘ شیخ صاحب اس مضمون میں اردو کی مغرب میں ضرورت اور پذیرائی کا ذکر کرتے ہیں۔   ؎ سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے۔ شیخ عبد القادر نے نواب مرزا داغ کے زبان زد عام مصرع ہندوستان میں دھوم ہماری زباں کی ہے میں ذرا سا تصرف کیا ہے۔   شیخ صاحب اردو زبان کی ہندوستان ہی نہیں ساری دنیا میں اس کی موجودگی کا ذکر کرتے ہیں کہ جہاں جہاں باشندگانِ ہند سیر و سفر یا روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں اور ان کے وسیلے سے اردو زبان دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گئی ہے۔ اس زبان میں اخبارات بھی شائع ہوتے رہے۔ خود شیخ صاحب نے لندن و اکسفورڈ کی ہندوستانی مجالس میں کئی مرتبہ اس زبان کی اہمیت اور اس کے روشن مستقبل کے بارے میں تقاریر کیں۔   شیخ صاحب نے لندن میں ’’ ہندوستانی سپیکنگ یونین ‘‘ قائم کی۔ جہاں اردو بولنے والے مختلف علاقوں کے لوگ جمع ہوتے ہیں مختلف موضوعاتِ  نظم و نثر میں احباب اپنے خیالات پیش کرتے ہیں۔   اساتذہ کا کلام بھی اکثر و پیشتر پڑھا جاتا ہے۔

شیخ صاحب کہتے ہیں کہ اردو کی وسعت و ہمہ گیری دیکھتے ہوئے یہ کہنا بجا ہے کہ سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے۔۱۸؎

شیخ صاحب کا پسندیدہ موضوع لسانیات رہا ہے۔ مخزن میں مسائلِ زبان اور اردو زبان سے متعلق لکھے گئے مضامین، ان کی دلچسپی کے مظہر ہیں۔

’’ حروف کی بحث‘‘ مخزن، شیخ عبد القادر اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۱ تا ۹

بعد ازاں یہی مضمون ابو الکلام کے پرچے ’’وکیل، امرتسر‘‘ میں ۶ ۲ نومبر ۱۹۱۱ء میں صفحہ ۶ تا ۷ شائع ہوا۔

’’اردو سبھا ‘‘، مخزن، جنوری ۱۹۰۹ئ، جلد ۱۶ نمبر ۳، صفحات ۱ تا۸

’’اردو سبھا ‘‘، مخزن، مئی ۱۹۰۹ئ، جلد۱۷ نمبر۲، صفحات ۵۱ تا۵۸

’’اردو سبھا ‘‘، مخزن، اگست ۱۹۰۹ئ، جلد ۱۷ نمبر ۵، صفحات۵۹تا۶۶

اردو ٹائپ مخزن مارچ ۱۹۱۲ء جلد ۲۳ نمبر ۶ صفحات ۱ تا ۵

اردو ٹائپ مخزن جولائی ۱۹۵۰ئ، صفحات ۶۹ تا ۷۰

دکن میں اردو، مخزن، سالگرہ نمبر، جلد ۲ نمبر ۱ مارچ ۱۹۲۸ء

شیخ صاحب کے زبان اور اردو زبان سے متعلق مضامین کی ایک بڑی تعداد اس دور کے اہم اخبارات و جرائد سے دستیاب ہے جن میں شبابِ اردو ( ہندوستان کی ایک زبان، اگست ستمبر ۱۹۲۰ء، روحوں کی تذکیر و تانیث، مئی ۱۹۲۰ ) ہمایوں ( پنجاب میں اردو ۱۹۲۲ء) حمایت اسلام ( زبان اور رسم الخط، ۱۰ اپریل ۱۹۴۱ء) نیرنگِ خیال (اردو کا مستقبل، سالنامہ ۱۹۴۲ء) نرگس ( پاکستان کی زبان، مارچ ۱۹۸۴ء) نوائے وقت ( ۱۱ اکتوبر ۱۹۴۸ء)

شیخ عبد القادر زبان، اردو زبان اور اس کے متعلقات پر لکھے گئے مختلف مصنفین کے مضامین بھی بہت اہتمام سے مخزن میں شائع کرتے رہے۔

زبان کی تمیز اور اس کا فرق: سید احمد دہلوی … اس مضمون کا مطالعہ کرتے ہوئے بابائے اردو مولوی عبد الحق کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ زندگی میں زبان کی ضرورت و اہمیت سے جس قدر وہ آگاہ تھے اور اپنے ہموطنوں میں اس کا شعور بیدار کرنا چاہتے تھے، سبھی کا تذکرہ موجود ہے۔

اردب زبان اور ہندو مسلمان، سید محمد فاروق جنوری ۱۹۰۷ء ص ۳۷۔ ۴۵، اردو تحریر کی ابتدائی مشق کے چند نمونے۔ مشرف الحق، فروری ۱۹۰۶ئ، وغیرہ

 

                 مخزن اور آزادیِ نسواں

 

مخزن میں شائع ہونے والے مضامین متنوع موضوعات سے تعلق رکھتے ہیں۔   خود شیخ صاحب مخزن کے اہم لکھاریوں میں سے ایک ہیں اور ان کی نگارشات ذات و کائنات کے تال میل سے قاری کے لیے ا یک دلچسپ اور معلومات سے لبریز فضا تخلیق کرتی ہیں بلکہ اسے سوچنے پر مجبور بھی کرتی ہیں۔   شیخ صاحب نے مخزن میں تحریر کردہ مضامین میں اپنی زندگی کے واقعات بیان کیے ہیں ، جن کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ مثبت سوچ رکھنے والی ایسی ہستی تھے کہ جن کے پیشِ نظر ہمہ وقت دوسروں کی فلاح تھی۔

شیخ صاحب خواتین کے ادب و احترام اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ ان کی خواہش اور کوشش یہی تھی کہ کہ جس طرح وہ اپنی والدہ، اپنی بہنوں اور لیڈی عبد القادر کا احترام کرتے ہیں ، محبت کرتے ہیں ، اسی طرح ہندوستان کے تمام مرد، خواتین کا جو ان کی زندگی کا فعال حصہ ہیں ، ان کی دلشکنی کے بجائے دل جوئی کریں۔   ان کے حوصلہ بڑھانے سے ان کی صلاحیتوں میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔ انھوں نے اپنے دور کے اہم لکھاریوں کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کر ائی کہ خواتین کے فرائض کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق کی نشان دہی بھی کی جائے، ان کی خدا داد صلاحیتوں اور صفات کو تسلیم کیا جائے۔ شیخ صاحب عورتوں کی ایک عالم گیرخو بی یعنی ہمدردی کا اپنے ایک مضمون’’ عورتوں میں ہمدردی‘‘، مطبوعہ مخزن، جنوری ۱۹۰۲ء جلد ۲ نمبر ۴ میں تذکرہ کرتے ہیں۔   ان کا خیال ہے کہ عورتیں جس تحمل بردباری اور سچی ہمدردی سے ایک دوسری کے دکھ سکھ سنتی اور اور اس کے دکھوں سے متاثر ہوتی اور ان کے تدارک کا سوچتی ہیں ، مردوں میں اس کی مثال کم ملے گی۔ ہمدردی کا یہ میلان ہندوستانی عورت ہی نہیں ، مغربی عورت میں بھی بدرجہ اتم پایا جا تا ہے، حالانکہ برصغیر میں یہ تاثر عام ہے کہ مغربی دنیا کی مادیت پرست زندگی میں مشترکہ خاندانی نظام نابود ہو چکا ہے اور اس سے وابستہ محبت، ہمدردی اور شفقت کے تمام جذبے بھی منوں مٹی میں دفن ہو چکے ہیں۔   شیخ صاحب کا مضمون در حقیقت ایک کینیڈین خاتون کے خط کے ترجمے پر مشتمل ہے، جو انھوں نے اپنی ایک ہندوستانی دوست کو لکھا ہے، اس میں وہ بتاتی ہیں کہ اپنے گھر والوں کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنے گرد و پیش میں رہنے والوں کے لیے آپ کی ذات کس کس طرح فائدہ مند ہو سکتی ہے۔ خصوصاً ان کے لیے جنھیں واقعی آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ خط کا آغاز مکتوب نگار اس خوش خبری سے کرتی ہیں کہ شمالی امریکہ میں رہنے والے مذہب کی طرف تیزی سے پلٹ رہے ہیں ، مذہب کی طرف میلان جسے انھوں نے’’ سورج کی روشنی ‘‘ سے تعبیر کیا ہے، اس نظریہ کو فروغ دیا گیا ہے کہ اگر کسی کو کوئی خوشی نصیب ہوتی ہے تو اس میں سے اپنے ساتھیوں کو بھی شریک کرے۔

انھوں نے ایک ایسی انجمن کے قیام کی طرف متوجہ کیا ہے کہ جس میں ایک دوسرے کے مسائل کو غیر محسوس طریقے سے حل کرنے پر آمادہ کیا جا سکے۔ شیخ صاحب نے اس خط کے ترجمے کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ خط پڑھتے ہوئے قاری لاشعوری طور پر ان تمام نکات سے متفق ہوتا جاتا ہے جو مکتوب نگار نے پیش کیے ہیں اور ساتھ ہی احساسِ  ندامت بھی جاگتا ہے کہ، اتنے معمولی کاموں کا خیال اس کے ذہن میں پہلے کیوں نہ آیا کہ جو اس کی ذات کے لیے تو معمولی ہو سکتے ہیں ، لیکن کسی دوسرے کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔   مکتوب نگار خاتون لکھتی ہیں ، کہ جب وہ کم عمر تھیں تو ان کی ایک بزرگ رشتہ دار نے ایک روزانہ اخبار ان کے نام جاری کروا دیا تھا، اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی وہ ان کی اس نیکی کو نہیں بھولیں اور آج بھی اس کے ثمر سے بہرہ ور ہو رہی ہیں۔   شادی کے موقع پر وہ ان مول تحفہ بھی انھیں بہت عزیز رہا جو ان کے شوہر کے دوست نے ماہانہ رسالے کی صورت میں انھیں دیا تھا جو عرصۂ  دراز تک انھیں پابندی سے ملتا رہا، جو ان کے لیے اور ان کے بچوں کے لیے بہت کار آمد ثابت ہوا۔ اسی طرح ان کے حلقۂ احباب میں یہ عمل بھی بہت پسندیدہ ہے کہ وہ روزانہ اخبارات ہوں یا ماہانہ رسائل، پڑھ کر ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کے بجائے، ایک دوسرے کو بھجوا دیتے ہیں جن سے وہ مستفید ہو کر آگے ارسال کر دیتے ہیں۔   وہ مکتوب الیہ کو وہاں کے اخبار بھیجنے کی خبر بھی دیتی ہیں۔

یہاں وہ ایک سوال بھی اٹھاتی ہیں کہ ان کے ملک کی عمر ہی کتنی ہے، ابھی آباد ہوئے چند سو برس ہی ہوئے ہیں اور ان کے آباوء اجداد کا علم سے کوئی واسطہ بھی نہ تھا جبکہ آپ کا ملک ہزار ہا سال سے آباد ہے اور آپ کے ہاں تعلیم کا رواج بھی تبھی سے ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہاں تہذیب روز افزوں ترقی کر رہی ہے اور آپ کے ہاں صورتِ  حال برعکس ہے پھر وہ اپنے سب سے پس ماندہ صوبہ ویسٹ ماؤنٹ کیوبک کا حوالہ دیتی ہیں جو اب شاہراہ ترقی پر نہایت تیزی سے سفر کر رہا ہے۔ اس قدرے پسماندہ تسلیم کیے جانے والے قصبے میں سات گرجا گھر، تین بڑے مدرسے اور ایک کتب خانہ خا ص و عام کے لیے موجود ہے۔ مطالعہ کا کمرہ اس کے علاوہ ہے کہ جہاں اخبار بینی کی سہولت سے گھریلو خواتین کے علاوہ دیگر مرد و زن مستفید ہوتے ہیں۔   جلسوں کے لیے ایک بڑا ہال بھی موجود ہے۔ تالاب بھی ہے اور جھیل بھی جہاں تفریح کے تمام مواقع میسر ہیں ، نوجوانوں کے لیے ورزشی کھیل کود کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ صفائی اس قصبے کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔’’ مجلس خواتین ‘‘ میں خواتین ان امور پر غور و خوض کرتیں ہیں جن پر عمل کر کے خواتین اور بچوں کی زندگی میں بہتری لائی جا سککے۔ ’’میں اس بات پر فخر کرتی ہوں کہ میں ایک عورت ہوں۔  ‘‘ مکتوب نگار قصبے کے تفصیلی تعارف کے بعد اپنے اہلِ  خانہ سے متعارف کرواتی ہیں ، جو تعلیم کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔   میں اور میرے شوہر آپ کا خط پڑھ کر بہت محظوظ ہوئے، ہر چند کہ بہت سی باتیں ایسی تھیں کہ جو ہمیں عجیب معلوم ہوئیں بالکل اسی طرح جیسے آپ کو ہماری باتیں نامانوس معلوم ہوئی ہوں گی۔ لیکن ہمیں ایک دوسرے کے رسم و رواج سے ضرور آگاہ ہونا چاہیے اور اس کا لحاظ بھی رکھنا چاہیے۔

اس تفصیلی خط سے ایک عورت کی اپنے وطن سے، اس کی بو باس، اس کی تاریخ و ادب سے، اس کی تعمیرات سے اور وہاں کے افراد سے محبت عیاں ہے۔ وہ اپنے وطن کے ذرے ذرے کا تعارف کرانا چاہتی ہے۔ اسے یہ بھی خواہش ہے کہ وہ جان سکے کہ اس کا وطن اور اس کے مرد و زن، دنیا کے مختلف مقامات پر بسنے والے لوگوں سے کتنے آگے ہیں اور وہ اس پر فخر کرنا چاہتی ہے۔ شیخ صاحب نے اس خاتون کے خط میں موجود تمام کیفیات، اس کے جوش و جذبے کی عمدہ تصویر کشی کی ہے۔بین السطور شیخ صاحب کی وہ خواہش اپنی جھلک دکھلا جاتی ہے کہ کاش ان کے اپنے ملک کے مرد و زن بھی ایسے ہی سوچیں ، ایسے ہی عمل کریں۔

’’کیا ستی کی رسم بند ہو گئی ہے۔‘‘ مضمون کی ابتدا شیخ صاحب نے فارسی کے اس شعر سے کی ہے۔

در محبت چوں زنِ  ہندی کسے مردانہ نیست

سوختن بر شمع مردہ کار ہر پروانہ نیست

ہندو ستان میں قانوناً ستی کی رسم جرم قرار دی جا چکی ہے، لیکن کیا یہ حقیقت ہے کہ اس رسم کا خاتمہ ہو گیا ہے، وہ عورتیں جو وفورِ  عشق میں خاوند کے ساتھ جل مرتی تھیں وہ آدھ گھنٹے کا دکھ اور تکلیف جھیل کر دنیا سے سرخ رو رخصت ہو جاتی تھی، یہ الگ بات کہ اسی فیصد مجبوراً ایسا کرتی تھیں ، وہ جو خاوند کے ساتھ ستی نہیں ہوتیں وہ ساری عمر جلنے پر مجبور ہیں ، پھر ان عورتوں کی اذیت کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا جو خاوند کی بے اعتنائی کے سبب ساری زندگی جلتے گزار دیتی ہیں۔   شیخ صاحب اس مضمون میں عورت کے ان حقوق کی بات کرتے ہیں جن کی جانب کسی کی توجہ ہی نہیں۔

مخزن کے ابتدائی شماروں اپریل، مئی، جولائی، ۱۹۰۱ء میں خاتونوں کے ورق کا ایک سلسلہ بھی ملتا ہے جس کا مقصد خواتین کی اہمیت واضح کرنا ہے

مرحومہ مس میننگ مخزن کے دسمبر ۱۹۰۵ء میں شائع ہوا، مس میری کوریلی مخزن اپریل ۱۹۱۱ء میں اشاعت پذیر ہوا جس میں انھوں نے ان خواتین کی عملی زندگی کے ان گوشوں پر نگاہ کی ہے کہ جس کے سبب کامیابی ان کا مقدر ٹھہری۔

شیخ صاحب نے حریتِ  نسواں کے موضوع پر اپنے دور کے مقتدر اہلِ قلم سے بھی مضامین لکھوائے۔ چنانچہ مخزن میں شائع ہونے والے اہم مضامین میں سید سجاد حیدر یلدرم کا ’’ لڑکیاں اور یورپی تربیت ‘‘ م۔خ کا ’’ سب سے قیمتی جہیز‘‘ خواجہ حسن نظامی کا ’’ نقاب اور گھونگٹ ‘‘ مسز کیلب کا ’’ جاپان میں نسوانی تعلیم ‘‘ راشد الخیری کا ’’کثرتِ  ازدواج‘‘ شامل ہیں۔   حامد حسن قادری کی نظم’’ عورت‘‘ میں عورت کے خیر و شر پر مبنی دونوں روپ پیش کیے گئے ہیں۔

 

                 شخصیت نگاری

 

شخصیت نگاری و خاکہ نگاری، کے لیے انسان انھی افراد کا انتخاب کرتا ہے جن سے وہ ذہنی مطابقت پاتا ہے یا وہ جو اسے دوسروں سے سے الگ محسوس ہوتے ہیں ، بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ لکھنے والے اپنی ممدوح شخصیت کے اوصاف کی ا تھاہ پا لیتا ہے، جن تک عام شخص کی رسائی نہیں ہوتی۔

آج کی دنیا میں احسان ماننے کی روایت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہم کسی سے کچھ سیکھتے ہیں ، کچھ حاصل کرتے ہیں تو دوسرے ہی لمحے اس بات کو بھول جاتے ہیں اور اپنی ہر کامیابی کو اپنی محنت اور صلاحیت کا ثمر بتاتے ہیں ، شیخ صاحب ’’ وہ حضرات جن کا مجھ پر اثر ہوا ‘‘ میں کھل کر اعتراف کرتے ہیں کہ انھوں نے زندگی میں کن کن اصحاب سے فیض حاصل کیا۔ ماں باپ، اساتذہ اور دیگر قریبی اعزا سے متاثر ہونا فطری عمل ہے۔ شیخ صاحب نے اختصار کے خیال سے چھ نام منتخب کیے ہیں جنھوں نے ان کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کیے یہ اصحاب وہ ہیں جو اب اس دنیا میں موجود نہیں لیکن وہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں آج بھی مصروفِ عمل ہیں ، جنھوں نے ان اصحاب سے کسبِ  فیض کیا۔ ان نیک نام رفتگاں میں سرسید سرِ فہرست ہیں پہلا دیدار اس وقت نصیب ہوا جب سرسید تعلیمی کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور تشریف لائے تھے اور ایک پنڈال میں کرسیء صدارت پر رونق افروز تھے اور شیخ صاحب نے انھیں دوسرے بچوں کے ساتھ شامیانے کے رخنوں میں سے دیکھا اور اس بات کو بھی اعزاز جانا کہ وہ مصلح قوم جس کا طوطی تمام ہند میں بولتا ہے اس کے دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی، برسوں بعد جب شیخ صاحب صحافت سے وابستہ ہوئے تو شاہجہان پور میں منعقدہ ایک کانفرنس میں ان سے گفتگو کا موقع ملا۔ انھیں قریب سے جاننے کا موقع ملا تو شیخ صاحب پر کھلا کہ محنت کرنا اور وقت کو بے شمار کاموں میں تقسیم کرنے کا فن کسے کہتے ہیں۔   سرسید کو یہ گر بخوبی آتا تھا۔سرسید ایک ان تھک انسان تھے۔ ہمہ جہت شخصیت تھے۔قوم کی بھلائی ہمیشہ پیشِ نظر رہتی۔ اہم بات یہ تھی کہ خود تو مصروف رہتے ہی تھے، اپنے گرد اصحابِ  فکر و نظر کا ایک ایسا حلقہ تشکیل دیا جو اپنے اپنے فکری و تخلیقی اور نظریاتی سفر پر گامزن رہے۔ انھی ساتھیوں میں نذیر احمد، جن کی نثری تخلیقات، مولانا شبلی، جن کا سیر و تاریخ کا مطالعہ اور مولانا حالی، جن کی قومی شاعری ہم وطنوں کو فکر و عمل کی نئی راہیں سجھا رہی تھی۔ حالی کے اشعار کی سادگی، کے علاوہ شعر میں تاثیر اور مقصد براری نے شیخ صاحب کو متاثر کیا۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ مولانا حالی، بہترین صفات کا مجموعہ تھے۔

تیسری شخصیت جن کی شاگردی کا فخر شیخ صاحب کو حاصل ہوا، امریکہ کے ڈاکٹر، جے۔ سی۔ آر۔ ایونگ تھے، فورمین کالج لاہور کے پرنسپل، اپنے وطن سے کوسوں دور، معمولی مشاہرے پر ہندوستان میں تعلیمی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ ان کی ایک نگاہ کسی کی ڈانٹ پھٹکار سے کہیں زیادہ مو ء ثر تھی۔ طالب علموں سے بہت قریب تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنے سامنے کھڑے طالب علم کے دل کا حال پڑھ رہے ہیں۔   چوتھی شخصیت، مسٹر گوکھلے کی تھی، شیخ صاحب ان کی سیاسی بصیرت کے قائل ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ اگر ان کی عمر نے وفا کی ہوتی تو آج ہندوستا نِ  جدید کی تاریخ کچھ اور ہی ہوتی۔ تدریس سے سیاست کی طرف آئے تو ان کی قابلیت، ان کی خطابت اور زورِ  بیان کا لوہا ماننے والوں میں وائسرائے لارڈ کرزن بھی شامل تھے۔ انھی کی پیش کردہ تجاویز، وائسرائے کی ایگیزیکٹو کے ممبروں میں ہندوستانیوں کا حصہ اور وزیرِ ہند کی کونسل میں ہندوستانیوں کی شرکت، برطانوی حکومت کو تسلیم کرنا پڑیں۔   ہندوستان کے لیے ان کے ذہن میں بہت سے سیاسی و تعلیمی ترقیاتی منصوبوں کے قیام کا سلسلہ جاری تھا لیکن موت نے انھیں مہلت نہ دی۔ پانچویں شخصیت مشہور پارسی دانشور، مسٹر ناروجی ہیں ، جو پہلے ہندوستانی ہیں جنھیں انگلستان کی پارلیمنٹ کا ممبر منتخب کیا گیا۔ جہاں انھوں نے اپنے ہندوستانی ہونے کا حق بہت کامیابی سے ادا کیا۔ آخری شخصیت، تصوف میں رفاعی مسلک سے تعلق رکھنے والے حضرت ابو الہدیٰ تھے۔ جن کا تعلق بغداد سے تھا لیکن ترکی کے سلطانِ  اعظم نے ان کی قابلیت کا شہرہ سن کر انھیں اپنے ہاں بلوا لیا۔استنبول میں ان کے قیام کو تیس سال گزر چکے تھے۔ عربی زبان کے علاوہ ترکی میں بھی رواں تھے، ہر قسم کی آسائش میسر تھی لیکن اندازِ  زیست درویشانہ ہی رہا۔ اہل دل انھیں گھیرے رہتے، لکڑی کے بنچ پر بیٹھے آپ رشد و ہدایت میں مصروف رہتے۔ پیشتر وقت یادِ  الہی میں بسر ہوتا، مذہبی علوم پر کئی کتابیں آپ کی یاد گار ہیں۔   ۱۹۰۸ء کے انقلاب کے وقت عوام کی طرف سے آئینی حکومت کا مطالبہ پیش کیا گیا سلطان نے مشاورت کے لیے وزرا کو بلایا۔ آپ بھی مدعو کیے گئے۔ سلطان نے رائے طلب کی سب کہنا چاہتے تھے لیکن جرات کسی میں نہ تھی۔ یہ ابو الہدیٰ ہی تھے جنھوں نے آئینی حکومت بنانے کی صلاح دی یوں ترکی کا یہ انقلاب بغیر کسی کشت و خون کے بر پا ہوا۔ شیخ ابو الہدیٰ کے دنیا سے جانے کے بعد بھی مشرقِ  وسطیٰ میں ان کے چاہنے والے اور ان کی تعلیمات سے بہرہ ور ہونے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے۔

شیخ عبد القادر، کی منتخب کردہ شخصیات میں ایک قدرِ مشترک پائی جاتی ہے کہ یہ سب سادہ شعار تھے، زندگی اور وقت کے تقاضوں کو سمجھتے تھے۔ اپنی ذات کو اہم نہیں جانتے تھے، اس اعلیٰ و ارفع مقصد اور عزم کو اہمیت دیتے تھے جس کی تکمیل ان کے پیشِ نظر ہوتی تھی۔ شیخ صاحب اپنے ان رہنماؤں کا شعوری یا غیر شعوری طور پر تتبع کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔

شیخ صاحب مذہبی، لسانی، علاقائی تعصبات سے مبرا شخصیت تھے، ان کی ان چھ پسندیدہ شخصیات میں سے تین کا تعلق دیگر مذاہب، ہندو مت، پارسی اور عیسائیت سے تھا لیکن ان کی فرض شناسی، کام سے وفا داری، ان تھک محنت، وقت کی قدر و قیمت سے آگاہی، بے لوث خدمات اور ہندوستان کے لیے دامے درمے سخنے رہنے کی عادت کے سبب وہ انھیں عظیم ہستیوں میں شمار کرتے ہیں۔

 

                مضامینِ  عبد القادر

 

محمد حنیف شاہد کے مرتبہ مقالاتِ عبدالقادر، ۱۹۸۶ء تین حصوں میں منقسم ہے۔پہلا حصہ خود نوشت سوانحی خاکوں پر مشتمل ہے۔ دوسرے طویل حصے میں اپنے عہد کے اکابرین کا تذکرہ ہے جن کے اوجِ  کمال نے انھیں متاثر کیا۔تیسرے حصے میں مضامین کا ن انتخاب شامل کیا گیا ہے جو انھوں نے فنِ  تنقید، نئے ادبی رجحانات اور اہم کتابوں پر لکھے گئے ان کے تجزیاتی مضامین پر مشتمل ہے۔نظم آزاد، حیاتِ جاوید، حالی اور غزل، شعر العجم، کلیاتِ  اکبر، دیوانِ سید محمد کاظم حبیب، جنگِ روس و جاپان پر ایک تنقیدی نظر، مغرب کا اثر ادبِ اردو پر، ہماری شاعری کا ایک نیا میلان ( اشاریت اور ابہام ) ان مضامین میں شعر و ادب کے جمالیاتی پہلو اور معاصراتی زاویوں کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔

خود نوشت سوانحی خاکے ’’شباب سے پہلے‘‘ کا ایک اقتباس پیش کرتے ہوئے محمد حنیف شاہد نے اسے شوخی ظرافت اور صفائی کا مرقع کہا ہے۔

’’ پطرس نے ایک دفعہ لاہور کا جغرافیہ لکھا تھا اور طنزاً یہ کہا تھا کہ جغرافیۂ لاہور میں آب و ہوا کا باب نہیں ، کیونکہ لاہور میں آب و ہوا ہی نہیں ہے۔ اس طرح میرے بچپن کی تاریخ انوکھی ہے۔ اس میں بچپن کا باب ہی نہیں ملتا۔‘‘۱۹؎

راقمہ کے نزدیک یہ جملہ’’ میرے بچپن کی تاریخ انوکھی ہے۔ اس میں بچپن کا باب ہی نہیں ملتا ‘‘ ایک محرومی اور کسک لیے ہوئے ہے۔ اس جملے کی وضاحت خود شیخ صاحب یوں کرتے ہیں کہ میں اپنے ماں باپ کی بڑھاپے کی اولاد تھا گھر میں سب بڑے تھے میں اکیلا بچہ تھا، گھر میں والدین کے علاوہ دو بڑی بیاہی بہنیں تھیں۔  ‘‘ شیخ صاحب کا یہ سوانحی خاکہ ان کی زندگی کے ابتدائی دور کی ایک واضح جھلک دکھا تا ہے۔

’’ جب آتش جواں تھا‘‘ میں انھوں نے ماضی کے حوالے سے ان سہولتوں اور آسائشوں کا ذکر کیا ہے، جن سے اب سے پچاس سال پہلے کے جوان محروم تھے۔کالج سے فراغت کے بعد ایک انگریزی اخبار کی ادارت تھی، محدود آمدن کے سبب وہی حالات تھے کہ یاراں فراموش کردند عشق، ایسے میں شاعری، اپنی نہیں دوسروں کی، پڑھنا انھیں اچھا لگتا، دوست بھی فرمائش کر کے ان سے شعر سنا کرتے کہ وہ لے میں غزل خوانی کیا کرتے۔ اس زمانے میں ایک شوق تھیٹر کا بھی تھا۔ امرتسر میں ایک کھیل کا بڑا چرچا تھا لاہور سے کا فی شائقین روزانہ امرتسر جاتے۔ شیخ صاحب بھی اپنے دوستوں کے ہمراہ امرتسر تھیٹر دیکھنے گئے اور صبح کی پہلی گاڑی سے لاہور واپس ہوئے۔اسٹیشن پر چند لوگوں نے پہچان کر آوازہ کسا۔’’ لیڈرانِ قوم کہاں سے تشریف لا رہے ہیں ؟‘‘ شیخ صاحب نے برجستہ جواب دیا، ’’ لیڈر یہ دیکھنے گئے تھے کہ قوم دوسرے شہر کیا کرنے گئی تھی۔‘‘ جوانی کی یادوں میں سب سے حسین یاد علامہ اقبال کی قربت تھی کہ جب وہ کالج میں پروفیسر ہوئے تو انھوں نے شیخ صاحب کی ہمسائیگی اختیار کی، اب روزانہ ملاقات ہونے لگی۔ پھر مخزن کا اجرا بھی ایک اہم واقعہ تھا جو انھی دنوں ہوا۔حصولِ تعلیم کے لیے انگلستان کا سفر بھی جب آتش جوان تھا کا ایک دل خوش کن مرحلہ رہا۔ ’’ ادبی زندگی‘‘ کا آغاز آزاد کی ’’ قصصِ  ہند ‘‘ کے مطالعے سے ہوا اور تب سے ہی مولانا سے ملاقات کا شوق تھا جو پورا ہوا۔آزاد ا س وقت گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تھے۔ افسوس چند سال بعد ان کی دماغی حالت بدل گئی اور دنیا ان کی ادبی خدمات سے محروم ہو گئی۔ مولانا حالی ، اکبر الہ آبادی، سرسید احمد خان، اقبال، شاد، جگر، امتیاز علی تاج، حکیم احمد شجاع، جوش اور حفیظ وغیرہ جیسی عہد آفرین شخصیات سے ملاقات، محبت اور فیض یاب ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

’’ مغرب کا اثر ادبِ اردو پر‘‘ آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس نے انگریزی زبان میں ایک کتاب بعنوان ’’ موڈرن انڈیا اینڈ دی ویسٹ‘‘ شائع کی ہے جس کا ایک باب ’’ ادبیاتِ  اردو‘‘ شیخ صاحب نے تحریر کیا اور اس کا ترجمہ ڈاکٹر سید عبد اللہ نے کیا ہے۔ شیخ صاحب نے اس مضمون میں اردو ادب ہی نہیں اردو زبان کے آغاز پر بھی مفصل و مربوط بحث کرتے اور اس کے عہد بہ عہد ارتقا کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔   اردو ادب کی تاریخ کوئی بہت قدیم نہیں ، حقیقت تو یہ ہے کہ بیسویں صدی سے پہلے تو نثر میں چند مذہبی کتابچے ہی دستیاب تھے انیسویں صدی کے وسط میں فسانۂ  عجائب اور باغ و بہار اور دیگر کتب، فورٹ ولیم کالج کے ڈاکٹر جان گلکرائسٹ کی اردو زبان سے محبت یا وقت کے تقاضوں کے تحت لکھوائی گئیں۔   جدید معیاری نثر کا آغاز مرزا غالب کے خطوط سے ہوتا ہے۔ بے نظیر اسلوبِ  بیان نے اس کی وقعت میں اضافہ کیا ہے۔ شیخ صاحب سرسید اور ان کے رفقا کی ادبی خدمات کا تفصیلی تعارف پیش کرتے ہوئے اردو ادب کے فروغ میں ان کے کردار کو سراہتے ہیں۔   ہادی رسوا نے اردو ناول نگاری کو ایک معتبر مقام عطا کیا۔ اردب زبان میں مغربی ادب پاروں کے تراجم کے سلسلے نے بھی بار پایا۔ مغرب کے زیرِ اثر، صحافت نے بھی فروغ پایا۔ اخبارات کے علاوہ ادبی رسائل، دلگداز، معارف، مخزن، زمانہ، ادیب، نگار، ادبی دنیا، نیرنگِ خیال، ہمایوں ، اور شاہکار کے ساتھ ساتھ بچوں اور عورتوں کے لیے نکلنے والے رسالوں نے زبان و ادب کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ طنز و ظرافت سے بھی اردو شعر و ادب کا دامن تہی نہیں۔   اردو ادب، بلکہ بین الاقوامی ادب بھی جس پر رشک کرسکتا ہے وہ ہستی علامہ اقبال کے  نام سے اپنے حکیمانہ اور فلسفیانہ خیالات و نظریات سے شعری افق پر نمایاں ہوتی ہے۔ اقبال نے انگریزی علم و ادب ہی کا غائر مطالعہ نہ کیا تھا بلکہ وہ جرمن زبان ادب سے نہ صرف آگاہ تھے بلکہ متاثر بھی تھے، ان کے افکار و نظریات پر برگساں و نطشے کا اثر محسوس کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سککتی وہ بنیادی طور پر صوفی تھے اسلامی تصوف اور فقر و طریقت ان کے اہم موضوعات تھے اور مغرب کی مادہ پرست زندگی پر انھوں نے کڑی تنقید کی۔ جدید شاعری اور شاعروں کے تذکرے میں وہ لکھتے ہیں۔  یہ وہ دور ہے کہ جب حفیظ جالندھری اور جوش ملیح آبادی اہم شاعر کی حیثیت سے اردو شاعری کے منظر نامے میں اپنی شناخت قائم کر رہے ہیں اور دو خاص طرزوں کی نمائندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔  حفیظ جالندھری کی شاعری میں ہند کی معاشرتی و سیاسی زندگی کی تصاویر نہایت سادہ الفاظ میں کھینچی گئی ہیں موسیقیت، روانی اور ترنم ان کا خاص وصف ہے۔ جوش ملیح آبادی زبردست وطن دوست اور وطن پرور کے روپ میں سامنے آتے ہیں استعمار، ملوکیت اور سرمایہ داری کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔   شیخ صاحب اردو ڈراما کی مختصر تاریخ و تعریف کے بعد نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اردو ڈرامے نے غنائی تمثیل ( اوپرا ) کے طرز پر ترقی کی ہے۔ قدیم نثری ڈراموں میں بھی کردار مقفیٰ و مسجعٰ گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اوپرا میں بھی نغمگی کی طرف توجہ دی جاتی ہے۔ جدید ڈراما کی ترقی یافتہ شکل سینما ہے، جس میں کہانی کے معیار پر زور دیا جا رہا ہے۔

ماہنامہ نگار کے شمارہ جنوری فروری ۱۹۵۰ء میں شائع ہونے والے مضمون ’’ ہماری شاعری کا ایک نیا میلان، اشاریت اور ابہام ‘‘ میں شیخ صاحب کی عالمی شعری افق پر نمودار ہونے والی تحریکوں اور ان کے اردو شاعری پر اثرات کا احاطہ کرتا ہے۔ اشاریت اور ابہام اردو شاعری کے قدیم ترین روّیوں میں سے ایک اور شعر کی اس خوبی کا اعتراف بھی کہ وہ ہمیں مطالعے کے بعد غور و فکر کی دعوت دے، ملارمے کا نظریۂ شعر بھی یہی ہے کہ کسی شے کو اس کے اصل نام سے مخاطب کر نا شعر کے حسن کو غارت کر دیتا ہے … اشاروں ہی سے سوئے ہوئے خواب جاگ اٹھتے ہیں … اس ابہام کے استعمال سے اشاریت وجود میں آتی ہے۔۲۰؎

فرانسیسی، جرمن، روسی اور انگریزی ادب کے تخلیق کار اس بات پر متفق ہوتے گئے کہ آرٹ ایک انفرادی مشغلہ ہے۔ دوسروں کے لیے نہیں ، اردو ادب بھی اس تحریک سے اثر پذیر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور گذشتہ چند برسوں سے ایسی لا تعداد نظمیں شائع ہو کر قارئین کے لیے چیستان کا سماں پیدا کر رہی ہیں۔   شیخ صاحب بہت دھیمے لہجے میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ شاعری یا نثر صرف جذبہ واحساس کے اظہار کا نام نہیں بلکہ وہ قاری سے مخاطب ہونے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ کہانی، کہانی اس لیے ہے کہ دوسروں کو سنائی جا سکے، اور اس سے حظ اٹھایا جا سککے، لیکن اگر وہ مقصد براری یا تفریح کا کوئی بھی پہلو پورا نہیں کر رہی تو اس کی تخلیق کا کیا جواز ہے۔ تخیل کی کارگزاری بے شک شعر کی تخلیق میں لازمی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔جو اس کے حسن و خوبی میں اضافے کا سبب بھی بنتی ہے غالب کے اس شعر میں تین مختلف تصور پیش کیے ہیں اور اس کے بعد شاعر نے اپنے مقصد کو ظاہر کیا ہے۔ یوں ایک مکمل تصویر قاری کے سامنے آ جاتی ہے۔

بوئے گل، نالۂ دل و  دودِ چراغِ محفل

جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا

اس مضمون میں شیخ صاحب نے مغربی مفکرین و شعرا کے اشاریت اور ابہام سے متعلق تمام نظریات کے مدلل جواب دینے کی کوشش کی ہے، ملارمے نے کہا کہ کسی چیز کو واضح بیان کر دینے سے اس کا تین چوتھائی لطف غارت ہو جاتا ہے، شیخ صاحب کہتے ہیں اگر ان کے اس اصول پر عمل کیا جائے تو آرٹ کا مقصد یعنی ابلاغ ہی فوت ہو جاتا ہے۔ اس مکمل و مبسوط مضمون میں شیخ صاحب نے کالنگ وڈ، ایڈ منڈ ولسن، شیکسپئر، یٹیس اور ٹی ایس ایلیٹ وغیرہ کی تخلیقات کو موضوع بحث بناتے ہوئے اردو کی کلاسیکی و جدید شاعری کا جائزہ لیا ہے اور نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نئی شاعری کا یہ تجرباتی دور ہے، ابھی منزل سے دور ہے اور اس تجرباتی دور میں خوبیوں اور خامیوں کا تعین کر کے نقادان فن کی رہنمائی س سے  شاعری کو  نقائص سے  پاک کیا جا سکتا ہے۔

’’ دنیا کی دلچسپیاں ‘‘ دنیا کی کلفتوں ، آزمائشوں اور فرائض کے انبار میں اگر انسان اپنے لیے کچھ مشغلے، چند دلچسپیاں منتخب کر کے اپنی زندگی کو قابل قبول بلکہ خوشگوار بنانا چاہتا ہے تو شیخ صاحب اس عمل کو سراہتے ہیں۔   ان دلچسپیوں اور مشاغل میں سرِ  فہرست پرندوں اور پالتو جانوروں سے لگاؤ ہے یہ پرندے اور جانور کس کس طرح اپنے مالکان کا دل جیتتے ہیں کہ بسا اوقات انسان سے ان کا تعلق اتنا مضبوط نہیں رہتا، جتنا ان معصوموں سے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وافر مقدار میں اپنی نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان کی فراوانی کے سبب انسان ان کی قدر و اہمیت سے لاتعلق سا رہتا ہے۔ موسم کے بدلتے رنگ، آب و ہوا کی متنوع کیفیات، ذائقے دار پھلوں کی موجودگی، پھولوں کا حسن اور خوشبو سبھی دلچسپی اور شوق کے خزینے اسے جینے پر آمادہ کرتے ہیں۔   شیخ صاحب نے اس مضمون میں ہر نعمت، ہر دلچسپی کا ذکر اس پیرائے میں کیا ہے کہ یہ نعمتیں ، آسائشیں اور سہولتیں اللہ تعالیٰ نے صرف طبقۂ امرا کے لیے ہی نہیں اتاریں بلکہ غریب بھی ان سے مستفید ہوتے ہیں ، فرق صرف یہ ہے کہ امیر، ہر نعمت کے بعد ’’ مزید ‘‘کا نعرہ بلند کرتا ہے اور غریب دل کی گہرائیوں سے شکر ادا کرتا ہے۔

شیخ صاحب مضمون کا اختتام بڑے متوازن انداز میں کرتے ہیں کہ زندگی مجموعۂ  اضداد ہے اگر انسان کا شعور و ادراک وسیع اور عمیق ہو تو وہ ہر منفی پہلو میں کوئی نہ کوئی مثبت زاویہ تلاش کر لیتا ہے اور داغ مرحوم سے اتفاق کرتا ہے کہ دنیا بھی ایک بہشت ہے۔

 

                 معاصرینِ شیخ عبد القادر

 

شخصیت و سوانح کے عنوان سے شیخ صاحب نے اپنے دس معاصرین و متقدمین کی شخصیات کا خاکہ کھینچا ہے اور ان کے بھرپور تعارف کے ساتھ ساتھ ان کی تخلیقات کا بھی جائزہ لیا ہے۔ مضامین کے اس سلسلے کا آغاز داغ دہلوی سے ہوتا ہے۔ ادبی دنیا ستمبر ۱۹۲۹ء میں شائع ہونے وا لا یہ مضمون دو اقساط میں شائع ہوا۔ شیخ صاحب داغ کے کلام کی اس خصوصیت سے اپنے مضمون کی ابتدا کرتے ہیں کہ انیسویں صدی کے نصف آخر میں جب زمانہ بدلتے وقت کے تقاضوں کا ساتھ دینے کے لیے مصروفِ  عمل تھا، داغ کی غزل اپنی کلاسیکی روایات کی پا سکداری کرتی رہی۔ انھوں نے اپنی زبان کو انگریزی کی یلغار سے محفوظ رکھا۔ داغ و امیر وہ شاعر ہیں کہ جنھوں نے زبان و بیان کے بارے میں اصول و ضوابط ابتدا ہی سے اختیار کر رکھے تھے اور وہ ہمیشہ ان پر کاربند رہے۔ایک وجہ یہ بھی رہی کہ دہلی سے تعلق رکھنے والے مرزا داغ کی زندگی کا ایک بڑا حصہ رام پور میں گزرا، جہاں مغربی افکار و زبان و علما کا اتنا چلن نہ تھا۔ داغ کی تعلیم و تربیت قدیم انداز میں ہی ہوئی۔ خوش نویسی، شمشیر زنی، شہسواری اور نشانہ بازی میں اپنی مثال آپ تھے۔ شاعری بھی شرفا میں مروج تھی۔شعر گوئی کا آغاز کیا تو بڑے بڑے اساتذۂ فن نے کھل کر داد دی۔ انقلاب دہلی کے بعد داغ نے رام پور کی طرف رخ کیا۔ نواب یوسف علی خان نے انھیں داروغۂ اصطبل مقرر کیا۔ اس غیر شاعرانہ عہدے کے پیچھے یہ رمز تھی کہ داغ جیسا خود دار شاعر یہ خیال نہ کرے کہ اسے نواب کی طرف سے محض وظیفہ عطا کیا جا رہا ہے، پھر داغ بچپن سے ہی فنِ  شہسواری میں طاق تھے اور عمدہ گھوڑوں کی پہچان رکھتے تھے۔ یہ عہدہ انھیں ایک شاہی مشغلے کی طرح لگا۔ دربار رام پور کے مشاعرے تمام ہندوستان میں شہرت رکھتے تھے۔ تسلیم و امیر و داغ کی غزل گوئی اور داغ و امیر کی معاصرانہ چشمک نے رام پور کی ادبی فضا کو ہمیشہ سر گرم رکھا۔ ہر دو شاعر ایک دوسرے سے بڑھ کر غزل کہنے کی کوشش کرتے، اس زمانے کی یادگار ان کا مجموعۂ کلام، ’’ گلزارِ داغ‘‘ ہے جس میں شیخ صاحب کی نظر میں داغ کا بہترین کلام موجود ہے۔ داغ کی غزلوں میں موسیقیت، غنائیت اور نرم و مدھم لہجے کی پھوار نے انھیں موسیقاروں اور مغنیوں سے بے حد قریب کر دیا۔ ان کی غزلیں گائی جانے لگیں اور ان کی شہرت پورے برِ صغیر میں پھیل گئی۔ دربار رام پور میں ہونے والے سیاسی اتار چڑھاؤ کے اثرات دربار سے وابستہ شعرا پر بھی ہوتے رہے۔ داغ کی مصروفیت میں حضور نظام کی غزلوں کی اصلاح کا دماغ سوزی سے پرُ کام، پھر ہندوستان بھر سے ان کے سیکڑوں شاگردوں کی اصلاحِ شاعری کی مشقت، اس میں ان کے تنخواہ دار اور رضاکارانہ کام کرنے والے مدد گار بھی شامل ہوتے اور داغ انھیں اپنی رائے لکھواتے اور غزلوں پر اصلاح دیتے جاتے۔ شیخ صاحب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حیدرآباد میں حضرت داغ سے ملنے کا اتفاق ہوا، جہاں میں نے ان سے ایک مکالمہ کیا۔ اس ملاقات میں وہ علامہ اقبال ب کے بارے میں متجسس بھی تھے اور پُر شوق بھی۔ علامہ اقبال نے ابتدائی دور میں داغ کو اپنی غزلیات اصلاح کی غرض سے بھجوائی تھیں جس پر داغ کو بڑا فخر تھا۔شیخ صاحب داغ کی شاعری کی ارتقائی مدارج کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔

’’ گلزارِ داغ شاعر کی جوانی کے جذبات سے لبریز ہے، جب کہ عشق اس کے لیے محض پرواز تخیل کا دوسرا نام نہیں تھا بلکہ حقیقت کا درجہ رکھتا تھا، ’’ آفتابِ  داغ ‘‘ بھی قریب قریب ا سی زمانے کی تصنیف ہے اور یہ ذہنی کیفیات کی روشن تصویروں سے منور ہے ’’ مہتابِ داغ میں نہ تو’’ گلزار ‘‘ کی سی مسحور کن خوشبو ہے اور نہ ’’ آفتاب‘‘ کی سی خیرہ کن روشنی … چاند کی سی ٹھنڈی روشنی اپنے گرد برساتا ہے اور اس طرح بڑھاپے کی مطمئن زندگی کی پر سکون فضا پیش کر دیتا ہے۔ اس آخری تصنیف میں آپ کو ایک مسلم الثبوت استاد کی پختہ مشقی کے نادر نمونے نظر آئیں گے۔‘‘۲۱؎

ان کے علاوہ ان کی مثنوی ’’ فریادِ داغ‘‘ سے صرف نظر ممکن نہیں شیخ صاحب کہتے ہیں کہ جن اصحاب نے اب تک اس کا مطالعہ نہیں کیا وہ اسے ضرور پڑھیں ، اگر داغ تین ضخیم دیوان یادگار نہ بھی چھوڑتے، یہ مختصر مثنوی انھیں اردو شاعری میں حیاتِ  دوام بخش سکتی تھی۔

مضمون کا اختتام وہ داغ کے بارے میں علامہ اقبال کی رائے سے کرتے ہیں کہ شاعر تو بہت ہیں لیکن ایسا کوئی نہ ہو گا جو جذبۂ  عشق کی تصویر کشی اتنی صحت و صفائی کے ساتھ کر سکے جو داغ کا سرمایۂ  افتخار تھی۔ داغ کی عشقیہ غزل کا ایک ایک لفظ حقیقت و واقعیت کا ایک جہان سمیٹے ہوئے ہے۔ اس لحاظ سے یقیناً داغ دبستانِ  دہلی کے آخری بڑے شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں۔

داغ بہترین شاعر، کہ جس کا جان دار تغزل بے باک و بے خوف اپنے جذبہ و احساس کے اظہار پر قدرت رکھتا ہے۔ شیخ صاحب نے داغ کی زندگی کے اس پہلو کی جانب توجہ نہیں کی جس سے پیشتر ناقدینِ  فن بھی بے نیاز رہے ہیں وہ ان کا خدا کی ذات پر کامل یقین اور بھروسا تھا۔ داغ کو فسق و فجور اور عیش و عشرت کا دلدادہ کہہ کر الگ نہیں ہوا جا سکتا، ان کے ہاں نعتیہ اشعار کی جلوہ گری بھی ہے اور حمد و ثنا کی واضح جھلک بھی۔ داغ کے بہت سے مصرعے اور اشعار ضرب المثل کا درجہ اختیار کر گئے ہیں۔

بہت دیر کی مہرباں آتے آتے …کس قیامت کے یہ نامے میرے نام آتے ہیں … نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے … اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

میر انیس وہ شاعر کہ جن کا ذخیرۂ الفاظ تمام اردو شعرا سے زیادہ تھا لیکن غیر فصیح یا عامیانہ الفاظ نہ ہونے کے برابر، پھر الفاظ کے استعمال کا سلیقہ بھی جانتے تھے واقعہ نگاری میں کمال حاصل تھا واقعات و سانحات کا یوں بیان کرتے کہ تمام مناظر میں قاری یا سامع خود کو وہیں موجود پاتے۔ میدانِ جنگ کا بیان ہو یا انسانی کردار و افعال کا، تفصیل، موجود لیکن کہیں تکرارِ  بے جا کا احساس نہیں۔   شیخ صاحب بھی میر انیس کی ان خوبیوں کے قتیل ہیں اور واقعاتی صداقت کے ساتھ ساتھ وہ انیس کی اسلوبیاتی دسترس کو بھی سراہتے ہیں۔

شبلی نعمانی مو ء رخ، نقاد، شاعر اور سوانح نگار کی حیثیت سے اردو ادب میں معتبر مقام رکھتے ہیں۔  ’’ اوراقِ نو ‘‘ میں شائع ہونے والے اس مضمون میں شیخ صاحب شبلی کو ایک غیر معمولی قابلیت رکھنے والے انسان کے روپ میں دیکھتے ہیں اور اپنی بات کے ثبوت میں شبلی کی ہمہ جہت شخصیت ان کے کاموں کی تفصیل اور ان کی ذہانت و صلاحیت جو مختلف النوع تخلیقات کی صورت میں جلوہ گر ہوئی پیش کرتے ہیں۔   ابتدا میں مولوی فیض الحسن سہارن پوری کے فیض صحبت سے مستفید ہوئے۔ فارسی شاعری سے ادبی زندگی کا آغاز کیا اور تمام عمر اس کے اسیر رہے۔ ان کا فارسی کلام اپنی شیرینی و جاذبیت کی وجہ سے پسندیدہ رہا اور وہ ہندوستان کے اہم فارسی گو شعرا میں شمار ہوئے۔ وہ ایک عالم و محقق کا دماغ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ تاریخ کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے، عربی و فارسی زبانوں پر دسترس تھی۔ فرانسیسی زبان بھی اسی شوقِ تحقیق میں سیکھی۔ ذوقِ تحقیق نے آمادۂ  سفر کیا تو سفر نامہ مصر و روم و شام لکھ کر سفر نامہ نگاری میں ایک نیا باب رقم کیا، سوانح کی طرف رجحان ہوا تو حضرت عمر فاروق جیسے جری سپہ سالار، لیکن خدا ترس انسان کو موضوع بنایا۔ اس کتاب کی تصنیف سے شبلی ایک مو رخ، سوانح نگار اور محقق کے طور پر ہی نہیں بلکہ ایک انشا پرداز کے روپ میں سامنے آتے ہیں۔   ’’المامون ‘‘’’ الغزالی‘‘ ’’ سیرتِ  نعمان ‘‘’’ سوانح مولانا روم‘‘ اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔   ’’سیرۃ النبی ‘‘ میں شبلی نے آپﷺ کی حیاتِ  طیبہ کا جائزہ ہی نہیں لیا بلکہ آپ کی ذات کی خوبیوں کو اجاگر کرتے ہوئے ان اعتراضات کا جواب بھی د یا تھا جو مغربی ناقدین آپ ﷺ کی ذات پاک پر کرتے۔ بہت کاوش اور شدید محنت کے بعد پہلی جلد مکمل کی لیکن اس کی اشاعت ان کی وفات کے بعد ہوئی، بقیہ جلدوں کو ان کے شاگردِ  رشید سید سلیمان ندوی نے پایۂ  تکمیل تک پہنچایا۔ شعر العجم شبلی کا ایک اور کارنامہ ہے۔ شعر العجم میں انھوں نے پروفیسر براؤن کی ’’تاریخِ ادبیاتِ ایران ‘‘ کے بعض پہلوؤں پر اختلاف کیا اور اپنی رائے پیش کی ہے۔ شیخ صاحب کہتے ہیں کہ ایک مشہور یورپین عالم کا اس کتاب کی ان الفاظ میں تحسین کرنا کہ ہندوستان میں بیٹھ کر ایک شخص کیونکر اتنی مستند اور معلومات سے پر کتاب لکھ سکتا ہے جبکہ اسے وہ سہولیات بھی میسر نہیں جو یورپی محققین کو ہوتی ہیں۔   شبلی کی ’’ علم الکلام ‘‘ ہویا ’’ موازنۂ  انیس و دبیر‘‘ وہ مغرب کے تحقیقی و تنقیدی معیارات کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھتے ہیں اور اسی سبب وہ ایک غیر معمولی صلاحیتو ں کے انسان کہلانے کے حقدار ہیں۔

’’اکبر الہ آبادی‘‘ ادبی دنیا جون ۱۹۲۹ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ جو درحقیقت پنجاب یونی ورسٹی میں انگریزی زبان میں دیا گیا ایک لیکچر ہے جس کا ترجمہ شیخ صاحب کی رضا مندی سے شائع کیا جا رہا ہے۔ ’’لسان العصر‘‘ اکبر الہ آبادی کے سوانحی تعارف کے بعد شیخ صاحب اکبر کی شاعری کی طرف توجہ کرتے ہیں ، اکبر کی شاعری کے لیے سرسید احمد خان کا وجود زبردست محرک ثابت ہوا۔ وہ سرسید کے خلوص کا اعتراف کرتے ہیں لیکن اختلاف اس طریقۂ  کا ر سے رکھتے ہیں جو علی گڑھ میں اختیار کیا گیا۔ فقط کتابی علم آدمی کو انسان کے درجے تک نہیں پہنچا سکتا۔ مذہب ان کے نزدیک سب سے اہم ہے۔ بزرگان دین کا فیض دینی و دنیاوی کامیابیوں کے لیے ضروری ہے۔

اکبر کا پہلا مجموعۂ کلام ۱۹۰۸ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد مطبع مخزن کی جانب سے ان کی رباعیات کا مجموعہ شائع ہوا۔

۱۹۱۲ء میں ’’کلیات اکبر‘‘ کا حصہ دوم اشاعت پذیر ہوا۔ ان کلیات کی اشاعت ان کے بیٹے عشرت حسین کی مساعی کا نتیجہ ہے۔ نوجوانی ہی میں اشعار کی پختگی ان کے قادر الکلام ہونے کا پتہ دے رہی تھی، بہ حیثیت غزل گو ان کا تعارف بڑے شعرا کے ساتھ ہونے لگا تھا، پھر انگریزی منظومات کے ترجمے نے لوگوں کو چونکایا، یہ ترجمہ جہاں اردو زبان کے وسیع امکانات کو ظاہر کرتا ہے وہیں اکبر کی انگریزی زبان پر قدرت ظاہر کرتا ہے۔ شیخ صاحب اکبر کی شعری خصوصیات کو چار عنوانات کے تحت منقسم کرتے ہیں۔   یعنی، طنز و ظرافت، خیالات اور اسلوب کی جدت، حبِ وطن کا جذبہ اور مذہب سے عقیدت اور محبت۔ انگریزی الفاظ کے استعمال کو وہ اکبر کا کرتب بتاتے ہیں ، نت نئے الفاظ کو اس طرح برتنا کہ نئی معنویت آشکار ہو، اکبر کا ہی کمال ہے۔

مرزا ارشد گورگانی شعرائے دہلی کے دورِ آخر کی یادگار مرزا ارشد گورگانی ہمہ جہت شخصیت تھے، پُر گو شاعر تھے۔ اگر شاعری کا انتخاب ہی شائع کیا جائے تو دو جلدیں تیار ہوسکتی ہیں۔   نظم، غزل، مرثیہ، قومی مسدس، علمی و اخلاقی نظمیں ، رباعیات، غرض ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی اور لوہا منوایا۔ نثر میں ناول بھی لکھے اور مختصر مضامین بھی۔ دہلی اجڑنے پر اس دیار سے نکلے اور پنجاب نے انھیں ایسے اپنایا کہ وہ یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ قیام فیروز پور میں تھا، لاہور آنا جانا لگا رہتا تھا، بے شمار شاگرد تھے، ہر انجمن میں ، ہر مشاعرے اور مجالس میں بلائے جاتے اور آپ انکار نہ کر پاتے۔ طبعیت میں بلا کی آمد تھی۔ دورانِ  سفر شعر کہتے بسا اوقات مشاعرہ گاہ میں پہنچ چکے ہیں اور اشعار ہو رہے ہیں۔   شیخ صاحب کہتے ہیں کہ ان کی بدیہہ گوئی کا تو میں بھی چشم دید گواہ ہوں۔   ایک مرتبہ محفل میں میں نے ان سے غزل سنانے کی فرمائش کر دی۔ کہنے لگے کوئی تازہ غزل نہیں کہی، ایک صاحب نے مجھے مشورہ دیا کوئی مصرع طرح دیجیے اور پھر کمال دیکھیے۔ میں نے امیر مینائی کی غزل کا ایک شعر پڑھ دیا اور انھوں نے گیارہ اشعار پر مشتمل غزل اسی وقت کہہ ڈالی۔ شیخ صاحب کہتے ہیں پھر تو ہمیں مشغلہ ہاتھ آ گیا، ا ن کے سامنے کوئی شعر پڑھ دیا جاتا اور مشکل سے مشکل زمین بھی ان کے سامنے پانی ہو جاتی اور ہمیں اچھے اشعار سے محظوظ ہونے کا موقع مل جاتا۔ ارشد گورگانی نے گلا اچھا پایا تھا۔موسیقی سے بھی واقفیت تھی، لیکن محفلوں میں تحت اللفظ ہی پڑھا کرتے، ایک مرتبہ اتفاقاً انھیں لے سے پڑھتا سن لیا، فرمائش کی جو در نہ ہوئی، لیکن دوسری مرتبہ سننا نصیب نہ ہوا۔ ان کا کلام شگفتہ، سادہ اور عام فہم تھا، اگر کچھ نقائص تھے تو وہ پُر گوئی کا نتیجہ تھے۔ کلام پر غور و فکر کرنے کی عادت و مہلت نہ تھی۔ شیخ صاحب کہتے ہیں ، ان کا مجموعۂ کلام اب تک شائع نہیں ہوا، اس کی کوئی سبیل ہونی چاہیے۔

’’ پٹنہ اور خان بہادر مولانا شاد‘‘ کے عنوان سے شاد عظیم آبادی کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے لکھا گیا یہ مضمون مخزن اگست، ۱۹۰۴ء کی اشاعت میں شامل ہے۔ شاد ایک عظیم شاعر ہونے کے علاوہ مادرِ وطن سے جو لگاؤ رکھتے تھے، اسے ان کے اشعار میں واضح طور سے دیکھا جا سککتا ہے۔ تمام اصنافِ  سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ تصانیف و تالیفات کی ایک کثیر تعداد آپ کی یاد گار ہے۔ فارسی، عربی اور اردو میں ساڑھے تین سالہ کورس پر مشتمل درسی کتب جس سے طالب علم ایک فاضل جید کی طرح لکھ پڑھ سکتے ہیں۔   اردو زبان ابھی ناول کے ذائقے سے آشنا نہ تھی۔ ۱۸۷۴ء میں ناول ’’ صورۃ الجنان ‘‘ تصنیف کیا جو تین جلدوں پر مشتمل تھا اور جس کی توصیف ڈائریکٹر سر رشتۂ  تعلیم نے بھی کی۔ نظم گوئی میں قادرالکلامی کی داد محمد حسین آزاد دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے چاہا تھا کہ نثر میں انھی خوبیوں کے ساتھ یہ مضامین ادا کرسکوں لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔۲۲؎

مرثیہ گوئی میں انھیں میر انیس کا ثانی کہا جاتا۔ اردو و فارسی کلام پر اہل فن سے وہ داد حاصل کی جو بہت کم شعرا کے حصے میں آئی۔ شیخ صاحب منتظر ہیں کہ شاد عظیم آبادی پنجاب تشریف لائیں اور اہل پنجاب کو اپنے اردو و فارسی کلام سے مستفید کریں۔

راس مسعود کی وفات پر رسالہ ’’ اردو‘‘ میں لکھے گئے مضمون بعنوان ’’نواب سرسید راس مسعود ‘‘ میں شیخ صاحب اس امر پر متاسف ہیں کہ وہ بہت جلد اس دنیا سے رخصت ہوئے اگر انھیں اپنے باپ دادا جیسی عمر نصیب ہوتی تو ملک و قوم کی ترقی اور فلاح و بہبود کے نہ جانے کتنے مرحلے طے کروا جاتے۔ شیخ صاحب سر مسعود سے پہلی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہیں کہ سرسید پلنگ پر دراز ہیں اور ان کا یہ پوتا ان کے ساتھ لیٹا ہوا ہے دادا جو ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ رکھتے تھے اور یہ جذبہ سینہ بہ سینہ پوتے تک پہنچا۔ دوسری ملاقات ان کے عہد شباب میں انگلستان میں ہوئی، مسعود آکسفورڈ یونی ورسٹی کے اساتذہ اور شاگردوں دونوں میں بے حد مقبول تھے۔بیرسٹری کی اعلیٰ سند بھی حاصل کی لیکن ہندوستان آ کر باپ کے بجائے دادا کی راہ پر چلے اور وکالت کے بجائے محکمۂ  تعلیم سے رشتہ جوڑا۔ نظام حیدرآباد ان کی صلاحیتوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انھیں اپنے ہاں بلا لیا۔ شیخ صاحب کو حیدرآباد میں ان سے ملاقات کا موقع نصیب ہوا، بابائے اردو ہمراہ تھے۔ شیخ صاحب نے ان میں قدامت و جدت کا  امتزاج پایا۔ ۱۹۲۹ء میں جب سر مسعود دہلی تشریف لائے تو شیخ صاحب نے انھیں کھانے پر مدعو کیا، یہاں ان کی گفتگو کے جوہر کھلے، ہاں وہ ہر شخص سے کھلتے نہ تھے۔ مرعوبیت نام کو نہ تھی، انگریز فطری طور پر ایسی قوم ہے جوہر قیمت پر خود کو بلند سطح پر رکھنا چاہتی غرور و فخر اس قوم کی گھٹی میں پڑا ہے، سر مسعود کو یہ احساس ہو جاتا تو وہ ان سے کھنچ جاتے، یہ بات بلاشبہ درست ہے جو حالی نے سرسید کے بارے میں لکھی تھی کہ لوگ انگریزی داں ہوں گے وہ انگریز داں تھا، شیخ صاحب کہتے ہیں یہ بات سر مسعود پر بھی صادق آتی ہے۔ لاہور میں وہ تعلیمی کانفرنس کے لیے تشریف لائے اور نہایت مفید تقریر کی۔ آخری ملاقات میں شیخ صاحب سر مسعود کی قوتِ ارادی اور احساسِ  ذمہ داری کا واقعہ رقم کرتے ہیں کہ کس طرح انھوں نے کمر کی شدید تکلیف کے باوجود یونی ورسٹی کونسل کے جلسے کی صدارت کی۔ سر مسعود اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے، بابائے اردو جو اردو کو مخالفین کی زد سے بچانے میں کوشاں رہے، سر مسعود نے ہمیشہ ان کی آواز پر لبیک کہا اور آج مولوی عبد الحق اپنے اسی محسن کی یاد میں رسالہ اردو کا ایک خاص نمبر شائع کر رہے ہیں۔

جسٹس محمد شاہ دین ہمایوں بے شمار خوبیوں کے مالک تھے، ان کے صاحب زادے میاں بشیر احمد نے ان کی یاد میں ’’ ہمایوں ‘‘ کا اجرا کیا جو اپنے عہد کا معتبر و مؤقر جریدہ تھا، جسٹس ہمایوں اعلیٰ پائے کے شاعر اور مضمون نگار تھے اور مخزن کے اولین مضمون نگاروں میں سے ایک۔ پہلے پہل وہ اپنی انگریزی دانی اور انگریزی زبان میں تقریروں سے عام و خواص سے متعارف ہوئے، بعد میں یہ فن اردو زبان میں منتقل ہوا آپ شعلہ بیان مقرر نہ تھے، تقریر کرتے تو یوں محسوس ہوتا، آبِ رواں بغیر کسی شور غل کے بہ رہا ہو۔ شاہ صاحب نے یہ فن خود تک محدود نہ رکھا۔ بلکہ لاہور مجلس ’’ محمڈن ینگ ایسوسی ایشن ‘‘کے نام سے قائم کی جس میں منتخب نوجوانوں کو انگریزی زبان میں تقریر کرنے کی مشق کرائی جاتی اور مفید و اصلاحی عنوانات پر مضامین پر طبع آزمائی کی دعوت دی جاتی۔

شیخ صاحب نے اپنے ابتدائی عہد میں لکھے جانے والے مضامین اور تقریروں کو جسٹس ہمایوں کی حوصلہ افزائی کا مرہونِ  منت قرار دیا ہے۔ جسٹس ہمایوں انگریزی اور اردو زبان و ادب کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے تحریر و تقریر میں وہ تاثیر تھی جو سامع اور قاری کو ہمنوا بنا لیتی ہے۔ ان کی اصول پسندی اور ملک و قوم کو ترقی یافتہ اقوام میں دیکھنے کا جذبہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

’’ حافظ محمود شیرانی‘‘ کے اردو زبان و ادب پر ناقابلِ  فراموش احسانات ہیں اردو زبان کی ابتدا اور زمان و مکان کا معاملہ ہویا اردو کی ارتقائی منازل میں مختلف ناموں سے اس کی پہچان کا سلسلہ، حافظ محمود شیرانی کی تحقیق نے اہم نتائج اخذ کیے ہیں۔   شیخ صاحب اپنے مضمون ’’ حافظ شیرانی مرحوم‘‘ مطبوعہ اوریئنٹل کالج میگزین میں ان کی علم و تحقیق سے محبت اور لگن کو بے مثل قرار دیتے ہیں۔   مطالعے کے بے حد شوقین تھے۔فارسی اور اردو میں دسترس تو ہندوستان میں حاصل کر لی تھی انگریزی زبان و ادب پر عبور انگلستان میں حاصل کیا۔ برٹش میوزیم اور انڈیا آفس میں کتب کا بڑا ذخیرہ ہے اور حافظ صاحب کا پیشتر وقت وہیں گزرتا۔ برطانیہ میں انھیں ایک کتب خانے کی فہرستِ کتب سازی کا کام معمولی مشاہرے پر کرنے کی پیشکش ہوئی جو انھوں نے خوش دلی سے قبول کی کہ اس طرح انھیں نادر و نایاب و مطبوعہ کتابوں اور قلمی نسخوں سے واقفیت کا موقع میسر آئے گا، یہیں سے ان کے ذوقِ  تحقیق کو جلا ملی۔

لندن میں رہ کر انھوں نے اقتصادی طور پر تو کوئی کامیابی حاصل نہ کی لیکن زبان و ادب سے متعلق ان کی وسیع معلومات بعد ازاں ان کے تحقیقی مقالات سے مترشح ہوتی رہیں۔   انگلستان سے واپسی پر اپنے وطن ریاست ٹونک میں قیام رہا لیکن تمام وقت گوشہ نشینی میں گزارا کہ مطالعۂ  کتب انھیں کسی اور طرف توجہ کرنے کی فرصت نہ دیتا تھا۔ وہاں کے لوگوں کو یہ بات عجیب معلوم ہوئی اور بدگمانی اتنی بڑھی کہ انھیں اپنا وطن خیر باد کہہ کر لاہور آنا پڑا۔ اس صاحبِ  علم کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، اسلامیہ کالج میں فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے اور جلد ہی ان کی قابلیت کا شہرہ لاہور بھر میں پھیل گیا۔ لاہور سے انھیں عشق تھا۔ معقول مشاہرے پر کئی مرتبہ پیشکش ہوئی لیکن آپ نے رد کر دی۔کتابوں سے عشق اس حد تک بڑھا کہ جہاں سنا کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے اور خریدا جا سکتا ہے۔ تعطیلاتِ گرما میں وہاں پہنچ جاتے۔ رفتہ رفتہ ان کے کتب خانے میں کتابوں کی تعداد بڑھتی گئی جو بعد میں انھوں نے پنجاب یونی ورسٹی کے کتب خانے کو پیش کر دیا۔ کتابیں ہی نہیں قدیم فرامین، سکے اور کتبے بھی ان کے پاس بڑی تعداد میں موجود تھے۔ایسا ذخیرہ اداروں کے پا س تو ہو سکتا ہے، تنہا کسی شخص کے بس کی بات نہیں۔   حافظ صاحب نے شیخ صاحب کو ان نوادرات دیکھنے کی دعوت دی، شیخ صاحب کو ان نوادرات میں حافظ محمود شیرانی کا وجود بھی کسی نوادر سے کم محسوس نہ ہوا۔ یہی علمی و ادبی ذخیرہ کسی مغربی پروفیسر کے پاس ہوتا تو وہ اس کے بل پر پِر آسائش زندگی بسر کر رہا ہوتا لیکن حافظ صاحب کا اندازِ زیست کسی دیہاتی مسجد کے ملا سے کہیں زیادہ سادہ تھا۔

منشی دیا نرائن نگم کانپوری کی اردو زبان و ادب کے لیے کی گئی خدمات کا اعتراف شیخ صاحب اپنے مضمون ’’منشی دیا نرائن نگم کانپوری ‘‘ مطبوعہ زمانہ کانپور، فروری مارچ ۱۹۴۳ء میں کرتے ہیں۔   منشی صاحب مخزن کے اولین مضمون نگاروں میں سے تھے۔ ان کا اپنا رسالہ کانپور سے ’’زمانہ‘‘ کے نام سے شائع ہوتا، مخزن و زمانہ کی تمام خصوصیات مشترک تھیں سوائے اس کے کہ’’ زمانہ ‘‘میں سیاسی مضامین بھی شاملِ  اشاعت کر لیے جاتے۔ منشی صاحب ’’زمانہ‘‘ کے لیے مضامین کے حصول میں بہت کدو کاوش کرتے۔ انھوں نے بہترین نظم و نثر لکھنے والوں کا ایک حلقہ قائم کر لیا تھا۔ وہ اردو اکادمی الہ آباد کے مخلص کارکنوں میں سے ایک تھے۔ شیخ صاحب کہتے ہیں کہ کوئی ملاقات ایسی نہیں کہ جس میں منشی صاحب نے اردو ادبیات کی ترقی کی تجاویز کے علاوہ کوئی اور بات کی ہو۔

شیخ صاحب نے جن دس ہستیوں کو شخصیت و سوانح کے لیے منتخب کیا ہے ان میں ایک قدرِ  مشترک ہے اور وہ ہے ا پنے زبان و ادب سے محبت، دوسر ی قدرِ مشترک، اپنے کام سے، اپنی ذمہ داری سے مخلص ہونا اور اپنی مثال آپ ہونا، تیسرا مشترکہ وصف اپنی مٹی اپنی زمین سے وفا دار ہونا اور ملک و قوم کو ترقی یافتہ اقوام کی صف میں جا گزیں دیکھنا۔ کمال فن رکھنے والی یہ تمام شخصیات، اپنے اپنے میدانِ عمل میں زندگی کے آخری سانس تک مصروف رہیں۔   شیخ صاحب نے ان کے مذہب و مسلک، ان کے ادبی نظریات، اور افکار و خیالات کو تعصب کی نگاہ سے نہیں دیکھا اور وہ غالب کے اس شعر سے مکمل متفق نظر آتے ہیں :

وفا داری بشرط استواری اصل ایمان ہے

مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو

آج کے دور میں معاصرین کی خدمات کا اعتراف اور نوجوان نسل کی حوصلہ افزائی سے بڑے بڑے اساتذہ بھی گریز کرتے ہیں مبادا ان کا ادبی قد ہم سے بڑا ہو جائے، شیخ صاحب جو ہر قابل کی تلاش میں رہتے ہیں اور وہ جو زمانے میں اپنی دھاک بٹھا چکے ہیں ان کی قابلیت اور صلاحیتوں کا اعتراف اپنا فریضہ جانتے ہیں۔   شیخ صاحب نے ان تعارفی مضامین میں ان کی زندگی اور ادبی زندگی کے ایسے پہلو بھی روشناس کرائے ہیں جو عوام الناس کی نگاہوں سے اوجھل تھے۔

 

                تعارفِ کتب

 

مخزن میں شائع ہونے والی کتابوں کے تعارف اور تبصرے سے متعلق شیخ عبد القادر کی یہ اپیل، جو انھوں نے اپنے ایک مضمون ’’ فنِ  تنقید ‘‘ میں کی ہے، دلچسپ ہی نہیں فکر انگیز بھی ہے اور اس صورتِ  حال کا سا بقہ مدیران اور تبصرہ نگاروں کو اکثر کرنا پڑتا ہے۔

’’ ہم سر دست یہ تجویز کرتے ہیں کہ ہمارے پاس جو کتابیں ’’ ریویو ‘‘ کے واسطے بھیجی جائیں گی ان کو دو قسم میں تقسیم کریں گے، ایک وہ جن پر ہم ناقدانہ نگاہ ڈالیں گے اور ناظرین کو اس کے حسن و قبح صاف دکھا دیں گے۔ اس صیغے میں ہماری سخن فہمی غلطی کرے مگر نیت کبھی غلطی نہ کرے گی … جو صاحبانِ  تصانیف یا صاحبانِ مطابع اس معیار کو منظور فرمائیں ، تنقید کی فرمائش کریں ورنہ لکھ دیں کہ وہ صرف تقریظ چاہتے ہیں ، اس تقریظ کی تعریف یہ ہو گی۔ یہ بتا دیا جائے گا کہ کس مضمون کی کتاب ہے کون صاحب مصنف ہیں ، کیسی چھپی ہے، کیا قیمت ہے، شاید تقریظ کا یہ بہت درست مفہوم نہیں مگر چونکہ تقریظ اپنے آپ کو ا س درجے سے بھی گرا چکی ہے اس لیے ہم یہ اصطلاحی مطلب لیتے ہیں۔  ‘‘ ۲۳ ؎

داؤد رہبر اردو میں تبصرہ نگاری کا سرِ آغاز مخزن اور شیخ عبد القادر سے کرتے ہیں۔

’’آج کل کسی تصنیف کے شائع ہو تے ہی اس پر تبصرے چھپنے لگتے ہیں کسی تبصرے میں تعریف ہو تی ہے کسی میں تنقیص، کسی میں دونوں کو شامل کر کے تبصرہ کر نے کا د ستور اردو میں غالباََسر عبدالقادر مرحوم کی تبصرہ نگاری سے شروع ہوا مخزن میں آپ نے نئی تصنیفوں پر خود بھی تبصرے لکھے اور دو سروں سے بھی لکھوائے۔مو لا نا حالی کی تصنیف ’’حیات جاوید‘‘ پر ان کا لکھا ہوا تبصرہ مخزن میں چھپا (اکتوبر ۱۹۰۳ء)اس سے پہلے انھوں نے ’’فن تنقید‘‘ پر ایک مستقل مضمون لکھ کر شائع کیا(ستمبر ۱۹۰۱ء)اس میں انھوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ تقریظیں لکھنے والے تصنیف کی تعریف کیے جا تے ہیں کمزوریاں نہیں دکھاتے۔‘‘ ۲۴ ؎

مطبعء مفیدِ عام آگرہ سے شائع ہونے والی’’ کلیاتِ  اکبر‘‘ پر شیخ صاحب کا تبصرہ مخزن کی جلد ۷۱ نمبر ۱ میں درج ہے۔ شیخ صاحب نے صاحبِ  کتاب کے فرزند سید عشرت حسین کو ہدیۂ تبریک پیش کیا ہے۔ کتاب مختلف حصوں میں منقسم ہے۔پہلے حصے میں مو جو دہ عہد کی غزلیں ہیں جبکہ دو سرے حصے میں بیس پچیس سال پہلے کا کلام ہے۔تیسرے حصے میں اکبر کا ابتدائی کلام درج ہے۔اس طرح اکبر الہٰ آبادی کی ذہنی پرداخت اور تخلیقی نشو  و نما، ان کے نظریات و خیالات کا ار تقا سبھی قاری کے سامنے آ جا تا ہے۔کلیاتِ اکبر میں رباعیات و قطعات اور متفرقات بھی شاملِ اشاعت ہیں۔  شیخ صاحب کے نزدیک ز یا دہ اہم حصہ وہی ہے جو شاعر کے عہدِ آخر کا کلام ہے۔ یعنی ’’شاعر کا بڑھا پا، اس کے کلام کا شباب ہے۔‘‘شیخ صاحب اکبر کی افتادِ طبع اور ذہنِ رسا کی داد دیتے ہیں۔  تہذیب و ثقافت ہو، مذہب ہو یا معاشرت، سیا ست ہو یا تعلیمی میدان اکبر کا اشہب قلم ہر میدان میں بغیر رکے دوڑتا ہے۔جن پر طنز ہے وہ بھی منہ پھیر کر مسکرانے پر مجبور ہیں۔  عوام کے دل کی آواز ہے۔اس لیے وہ داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتے۔شیخ صاحب اس بات پر مسرور ہیں کہ اکبر کو انھوں نے جو لسان العصر کا لقب دیا وہ زبان فردِ عام ہوا اور اب سبھی انھیں اس لقب سے پکا ر تے ہیں۔  ’’کلیات اکبر‘‘ کے سر ورق پر بھی یہ لقب مو جود ہے۔

شیخ صاحب اکبر کے لسان العصر ہو نے کی سند میں چند شعر بھی منتخب کرتے ہیں۔

بتوں کے پہلے بندے تھے، مسوں کے اب ہوئے خادم

ہمیں ہر عہد میں مشکل رہا ہے با خد ا ہو نا

طریق مغربی کی کیا ہے یہ روشن ضمیری

خدا کو بھول جانا اور محو ماسوا ہو نا

کلام اکبر میں مس اور بت کے استعا رے کئی مفاہیم رکھتے ہیں۔   یہی حال ان کے ہاں مستعمل دیگر الفاظ کا ہے۔ انھوں نے عمو می الفاظ اور عمومی انداز تخاطب کو ایک نیا انداز دیا۔ واعظ و زاہد و شیخ سے مخا طب ہو تے ہوئے وہ سید صاحب سے خطاب کر نے لگے۔عوام ساری صورت حال سے آگاہ ہے، اس لیے اکبر کے اشعار سے زیادہ لطف لیا جا نے لگا۔شیخ صاحب اکبر کی شاعری کا تجربہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اکبر کے اشعار وعظ و نصیحت کے پلندے ہیں۔  نصیحت ہو تی بھی ہے تو اس کی تلخی کو یہ احساس دبا لیتا ہے کہ بات کہی تو درست گئی ہے۔اکبر کی دور اندیشی کے قائل تو سبھی تھے کہ انگریزی لباس، خوراک، فر نیچر، غرض انگریزی طرز بود و باش اور انگریزی تعلیم کا سیلاب ہماری تہذیب و روایت کو بہا لے جائے گا۔ہم کیوں ان کی ہر چیز کو بہتر ین بنا کر پیش کر رہے ہیں۔  یہی حال مذہب کا ہے کہ جد ید تہذیب اپنا نے کے شوق میں ہندو ہو یا مسلما ن، سبھی مذہب سے گر یز کرتے جا رہے ہیں۔

شعر میں اکبر یہ ہی مضمون تو ہر بار باندھ

اے مسلماں سبحہ لے اے برہمن زنار باندھ

سیاسی مسائل پر اکبر کا تجزیہ ان کی بصیرت اور دور اندیشی کا آئینہ دار ہے۔

اس تجزیاتی مضمون کے آ خر میں شیخ صاحب کی رائے قا بل توجہ ہے وہ کہتے ہیں کہ کلیات کے حصہ ظرافت میں چند اشعار ایسے بھی ہیں جنھیں حذف کر دیا جاتا تو بہتر ہے۔اشاعت ثانی میں میں اس امر کا خیال رکھنا بہتر ہو گا۔

شیخ صاحب تبصرہ نگاری کو صرف مصنف کی خواہش ہی نہ جانتے تھے بلکہ اسے ایک امانت تصور کرتے تھے جو قاری نے ایک تبصرہ نگار کے سپرد کی ہے۔ وہ کسی کتاب کو اردو ادب کا بیش بہا خزینہ کہہ کر، اسے اپنے عہد کی بہترین کاوش قرار دے کر، قاری کو گمراہ نہیں کرتے۔ کسی اخبار یا جریدے میں کسی کتاب کا تعارف چھپ جانا، صرف اطلاع کی ذیل میں آتا ہے کہ زید کی کتاب زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر بازار میں مہیا کر دی گئی ہے۔ بلکہ تبصرہ نگار اس کتاب کو افراد پسندی، تعلق داری، ادبی اجارہ داری سے بلند ہو کر جانچتا ہے۔ اسے اپنے ماحول اور دیگر تخلیق کاروں سے موازنہ بھی کرتا ہے، خواہ تبصرے میں اس بات کو نمایاں کیا گیا ہو یا نہیں ، لیکن شعوری طور پر وہ جائزہ لیتا ہے کہ اس کتاب کی موجودہ ادبی صورتِ  حال میں کیا قدر و قیمت ہو گی۔ ایک مختصر تبصرے میں ان تمام امور کو پیشِ نظر رکھنا ممکن نہیں لیکن شیخ صاحب کے تبصرے یا تعارف کتب، میں سرسری انداز کہیں نہیں ہے۔ وہ کتاب کا بھرپور تجزیہ اور مصنف کا ممکن حد تک مکمل تعارف کراتے ہیں۔

شیخ صاحب نے بزرگ مصنفین کی کتابوں پر تبصرے بھی لکھے اور ان بزرگ معاصرین کا تخلیقی عروج و ز وال بھی دیکھا۔ مولانا محمد حسین آزاد نے شعر و ادب کی سلطنت میں ایک طویل عرصے تک حکمرانی کی۔ ’’نظم آزاد ‘‘، مطبوعہ مخزن، نومبر ۱۹۰۱ء یہ تبصرہ در حقیقت مولانا آزاد کے منظوم کلام’’ نظمِ  آزاد جو قیدِ  حسن و عشق سے آزاد ہے‘‘ کو بنیاد بنا کر لکھا گیا ہے، شیخ صاحب متاسف ہیں کہ دماغی عارضے کے سبب اردو دنیا ان کی شعری و نثری تخلیقات سے محروم ہو گئی ہے، لیکن یہ خیال کرنا کہ اس عارضے کے سبب آپ کی تخلیقی سرگرمیاں یکسر معطل ہو گئی تھیں درست نہ ہو گا۔ وہ پرانی غزلیں نکال نکال کر پڑھتے رہتے اور نئی غزلیں بھی کہتے۔

انجمنِ پنجاب کے مشاعروں میں آزاد کا فعال کردار، قصصِ  ہند کی سادگی و پر کاری، نیرنگِ خیال کی تمثال آفرینی، آبِ حیات میں دریا کو کوزے میں بند کر دینے کی کوشش، ، دربارِ اکبری میں اکبر کے نورتنوں کا حال احوال، دیوانِ ذوق کی تمہید و حواشی کے ساتھ تکمیل اور کئی درسی کتب کی تالیفات آزاد کے کارہائے نمایاں ہیں۔

’’حیاتِ جاوید‘‘ پر ایک تنقیدی نظر، شیخ صاحب سوانح کے عنوان کے انتخاب پر حالی کے ذہن رسا کی داد دیتے ہیں ، کہ اس سے بہتر نام نہیں ہوسکتا تھا۔وہ اس بات پر بھی حالی کے احسان مند ہیں کہ کتاب کی اشاعت کے ساتھ ہی اس کا ایک نسخہ برائے تنقید( تقریظ نہیں ) مخزن کو بھیجا گیا۔ مخزن کو کتاب پر تبصرہ شائع کرنے میں دیر ہوئی اس اثنا میں حیاتِ  جاوید پر چند ایک مضامین دیگر جرائد میں شائع ہوئے۔ وحید الدین سلیم، مولوی ذکا اللہ ئ، حبیب الرحمن خان حسرت کے مضامین شیخ صاحب کی نگاہ میں وہ مرتبہ نہیں رکھتے جن کی متقاضی، حالی کی یہ کاوش ہے۔ شیخ صاحب اس طویل تبصراتی و تجزیاتی مضمون میں انگریزی سوانح عمری کے اصول و ضوابط کو سامنے رکھتے ہوئے ’’حیاتِ  جاوید‘‘ کو پرکھتے ہیں۔   شیخ صاحب نے کتاب کا مطالعہ بہت باریک بینی سے کیا ہے۔ سرسید کے خطاب سے متعلق ان کی رائے یہ ہے کہ حالی اس امر کا لحاظ رکھتے تو بہتر تھا کہ دیباچے کے علاوہ سید احمد خان کے نام کے ساتھ سر کا خطاب اس وقت تک نہ استعمال کیا جاتا جب تک کہ انھیں خطاب عطا ہوا اور سر کا لفظ ان کے نام کا جزو بن گیا۔ سرسید کے حالاتِ زندگی، ملازمت و تصنیف و تالیف کا بیان بہت گہرائی و گیرائی سے کیا گیا ہے اور سرسید پر آئندہ کام کے سلسلے میں کوئی نقاد و محقق ’’حیاتِ  جاوید‘‘ کو نظر انداز نہ کر سکے گا۔ شیخ صاحب جب ’’حیاتِ  جاوید‘‘ کے اسلوب کی بات کرتے ہیں تو کھل کر کہتے ہیں کہ یہ کتاب حالی جیسے کہنہ مشق لکھاری کی تصنیف معلوم نہیں ہوتی۔ انگریزی الفاظ کا بے ضرورت استعمال ’’ اس کتاب کے رخسارِ زیبا پر بد نما داغ ہے۔ ‘‘ تکرارِ لفظی اور بسا اوقات فقروں کا اعادہ ناگوار گزرتا ہے۔ شیخ صاحب توقع رکھتے ہیں کہ حالی آئندہ اشاعت میں ان کوتاہیوں کو دور کر دیں گے اور قارئین اس تصنیف کو کتبِ نثر میں بلند پایہ پر پائیں گے۔

حالی اور غزل، شیخ صاحب کا ’’دیوانِ حالی‘‘ پر تبصرے کا انداز دیکھیے، مضمون کا آغاز ایک مکالمے سے کرتے ہیں جو خود شیخ صاحب اور ان کے دوست کے درمیان ہو رہا ہے۔ دوست موصوف حالی کے مسدس کے قائل ہیں اس لیے ان کی غزلوں کو در خور اعتنا نہیں سمجھتے، لیکن جب شیخ صاحب چند اشعار سناتے ہیں تو وہ حالی کی غزل گوئی کے قائل ہی نہیں مداح بھی ہو جاتے ہیں۔   یہاں غیر محسوس طریقے سے وہ قاری کو حالی کی غزل گوئی سے متعارف ہی نہیں کروا رہے بلکہ پیشتر قارئین جو ان کے دوست کی سی آراء رکھتے تھے، ان پر حالی کی غزل کے جوہر بھی کھولتے جا رہے ہیں۔   حالی کی قدیم و جدید غزلوں میں قدرِ مشترک یہی ہے کہ وہ سنجیدگی و متانت کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔حالی کی غزلیات کو دو ادوار میں منقسم کیا جا تا ہے۔ ایک قیامِ دہلی کی جب وہ غالب اور ان کے معاصرین کی صحبت سے فیض یاب ہو رہے تھے اور دوسرا دور لاہور آنے کے بعد، یعنی مولانا آزاد کی انجمنِ  پنجاب کے مناظموں کے لیے کہی گئی نظموں کے شہرہ سے ہوتا ہے۔ اس دور میں جو غزلیں کہی گئیں ہیں ان کی اٹھان ایک نیا انداز لیے ہوئے ہے، سرسید تحریک کے زیرِ اثر اب ان کی غزلوں میں ذوقِ عمل اور تحرک کی فضا تشکیل دینے کو خواہش جڑ پکڑتی جا رہی ہے۔ نوجوان نسل میں وہ کیا کیا اوصاف دیکھنا چاہتے ہیں اس کی مثال دیکھیے۔

عالم آزاد گاں ہے اک جہاں سب سے الگ

ہے زمیں ان کی اور آسماں سب سے الگ

شیخ صاحب حالی کی مشکل زمین میں کہی گئی اس غزل کے مطلع کا حوالہ، جو ان کے نزدیک واقعہ کربلا کے بیان کرنے کا اس سے بہتر قرینہ مشکل ہی سے کسی اور کے ذہن میں آسکتا ہے، درج کرتے ہیں۔

پردہ ہو لاکھ کینۂ  شمر و یزید کا

چھپتا نہیں جمال تمھارے شہید کا

شیخ صاحب کے دیوانِ حالی پر تبصرے کی اہم خوبی یہ ہے کہ تبصرہ قاری کو کتاب سے متنفر نہیں کرتا بلکہ وہ اسے پہلی فرصت میں مکمل پڑھنا چاہتا ہے۔

’’شعر العجم‘‘ اردو ادب کے لیے سرمایۂ  ناز ہے۔ اردو ادب ہی نہیں فارسی ادب کا دامن بھی اس سے تہی تھا۔ فارسی شعرا کے تعارف اور شاعری کی تاریخ پر اس سے قبل کوئی اہم کتاب نظر نہیں آتی۔ شیخ صاحب مولانا شبلی کی فارسی زبان و ادب سے آگاہی، ان کی محنت کا اعتراف کرتے ہوئے امید کرتے ہیں کہ شائقین ادب اس سے ضرور مستفید ہوں گے۔

’’دیوانِ سید محمد کاظم حبیب‘‘، مخزن کے شمارے فروری ۱۹۰۲ء میں شائع ہونے والے اس مضمون میں وہ سید محمد کاظم کے کہنہ مشق ہونے اور قوتِ  سخن خدا داد ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے مثال میں ان کے اشعار کا انتخاب پیش کرتے ہیں ، مشکل زمینوں میں کہی گئی غزلیں بھی ان کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

عیاں ہے سنگ سے آہن کے اشتیاق کا درد

ہر ایک نوع میں موجود ہے فراق کا درد

قیدِ  تکیل سے ہیں اہلِ  طریقت آزاد

غمِ دنیا سے یہ رکھتے ہیں طبیعت آزاد

مہر و الفت ہے مآلِ تہذیب

خاکساری ہے کمالِ تہذیب

کیوں نہ آ جائے فرو مایہ کو غصہ جلدی

آگ لگتے ہی بھڑکتی ہے خس و خار کی آنچ

شیخ صاحب ان کی غزلوں کے متعدد ا شعار نقل کر کے ان کی قادر الکلامی کا ثبوت مہیا کرتے ہیں اور ان کے تغزل اور ذوقِ سخن کی داد دیتے ہیں۔   تعلی اردو شاعری کی وہ صنعت کہ جس میں شعر خود اپنی سخن، فہمی و سخن سنجی کی تعریف کرتا ہے اور یہ ناپسندیدہ بھی نہیں ہے۔

دانائے فن سنیں گے تو فرمائیں گے حبیب

پختہ کلام ہے کسی نازک خیال کا

شیخ صاحب کہتے ہیں یہ سب بجا سہی لیکن یہ بات انتہائی نامناسب ہے کہ شاعرانہ رقابت کے جوش میں جو انھوں نے اپنے معاصرین کی جانب واضح اشارے اتنے تحقیر آمیز انداز میں کیے ہیں جو خود ان کی شخصیت کو اپنے مقام سے ہٹانے کا سبب ہیں ، شیخ صاحب مشورہ دیتے ہیں کہ ان اشعار کو آئندہ اشاعت میں نکال دیا جائے وجہ یہ ہے کہ ان کے ایسے شعر بہترین اشعار کی تاثیر میں بھی کمی لانے کا باعث ہوسکتے ہیں۔

’’ جنگِ روس و جاپان پر ایک تنقیدی نظر‘‘، یہ درحقیقت ایک طویل مضمون ہے جسے شیخ صاحب کے مطابق’’ اردو میں پہلا پولیٹیکل ڈراما کہہ سکتے ہیں ‘‘ مولانا ظفر علی خان کے رسالے ’’دکن ریویو ‘‘ میں شائع ہوا۔ یہ ڈراما مصنف کی اس خواہش کا غماز ہے کہ وہ اپنے ملک کے نوجوانوں میں کس طرح ترقی کا شوق ابھار سکتا ہے۔ شیخ صاحب اس بات پر مصر ہیں کہ اردو ادب کو ایسی کتابوں کی ضرورت ہے کہ جو سیاسی مسائل دلچسپ انداز میں قارئین کے سامنے پیش کریں۔   مصنف نے شعری اور نثری پیرائے میں اپنا ما فی الضمیر بہترین اسلوب میں پیش کیا ہے لیکن وہیں کچھ جملے، کچھ اشعار ایسے قلمبند ہو گئے ہیں جو کسی صورت مناسب نہیں۔   پھر مصنف کا مقصد ہندوستان میں حبِ وطن گرم جوشی پیدا کرنا ہے لیکن ڈرامے کا کوئی منظر ہندوستان کا نہیں رکھا گیا۔ صرف دو ہندوستانی کرداروں کے حوالے سے کی گئی بات چیت کم معلوم ہوتی ہے۔

 

                انگریزی مضامین

 

شیخ عبدالقادر نے اقبال اور شعر اقبال کی تفہیم و تعبیر میں مثبت کردار ادا کیا۔ اقبال ان کا پسند یدہ موضوع تھے۔ علامہ اقبال پر ان کے لکھے گئے مقالات و مضامین اور مختلف کتب کے دیباچوں کے عنوانات پر ایک نگاہ ڈالنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ اقبال کو کتنی متنوع جامع شخصیت تصور کرتے تھے اور اقبال پر کیے گئے کام کو کتنی وقعت دیتے تھے۔مثنوی رموزِ بے خودی(تنقیدی نظر)، بانگِ درا، نذرِ اقبال، دانائے راز، یادِ اقبال، اقبال اس کی شاعری اور پیغام، اقبال کا فلسفہ حیات و مو ت، اقبال کی شاعری کا ابتدائی دور، شاعرِ مشرق سے میری آخری ملاقات، چند پیش گوئیاں ، فکرِ اقبال کا ارتقا، کیفِ غم، اقبال فلسفی شاعر اور مال اندیش کی حیثیت سے، ہم عصر شعرا پر اقبال کا اثر، طلوعِ اقبال، میر کی واسوخت اور اقبال کا شکوہ وغیرہ۔

شیخ عبد القادر اقبال کی شخصیت، ان کی مفکرانہ اور شاعرانہ عظمت، ملکی و بین الاقوامی سیاست، ملتِ اسلامیہ کے مشترکہ مسائل اور فکر اسلامی کے مثبت اسرار و رموز کو شعر اقبال کی روشنی میں سمجھنے اور سمجھانے میں ہمیشہ کوشاں رہے۔ ۱۹۵۷ء اور بعد ازاں ۲۰۰۶ء میں شائع ہونے والی انگریزی کتاب ’’ اقبال، دی گریٹ پوئٹ ‘‘ میں علامہ اقبال کے فکر و فلسفہ کے ارتقائی مدارج کا جائزہ لیتے ہیں۔   نو مضامین پر مشتمل اس کتاب میں انھوں نے اقبال کے وجدان، جذب و جنوں شوق، آرزو مندی، جستجو، خرد، علم اور عزم و یقین سے متعلق ان کے نظریات کی وضاحت کی ہے۔

شیخ سر عبدالقادر کا انگریزی زبان پر مکمل قدرت کے مظاہرہ ان کے انگریزی زبان میں لکھے گئے مضامین سے ہوتا ہے۔ ان کے یہ مضامین عصری تقاضوں پر عمیق نظر کے ساتھ ساتھ فکری، علمی اور تخلیقی توانائیوں کے مظہر ہیں۔   ان کی زندگی میں علامہ اقبال کا حوالہ اور ان کاساتھی و ہم عصر ہونا نہ صرف اقبال کے شیدائیوں اور محققوں کے لیے اہم ہے بلکہ قومی اور ادبی لحاظ سے اس کا درجہ بہت بلند ہے۔ اردو زبان و ادب پر ا ن کا یہ بلند پایہ کام اپنی نظیر آپ ہے۔

شیخ عبد القادر کے علامہ اقبال پر لکھے گئے نو مضامین کا دوسرا ایڈیشن جناب محمد حنیف شاہد کی ادارت میں "Iqbal; The Great Poet of Islam”کے عنوان کے ساتھ ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا ہے

شیخ سر عبدالقادر کے انگریزی زبان میں تخلیق کیے گئے درج ذیل مضامین بھی اردو شعر و ادب سے ان کے گہرے تعلق کو ظاہر کرتے ہیں :

1.I Meet the Poet

2.Munshi Prem Chand, the Novelist

3.Dr. Sir Mohammad Iqbal;  the Great Poet of Islam

4.Sir Syed Ahmed Khan; Founder of Aligarh University

5.The development of Urdu Literature in Modern Times.

6.The importance of Urdu Literature

شیخ سر عبدالقادر کی کتاب”Urdu Literature of Nineteenth Century”  جو ۱۹۴۱ ء میں تیسری بار شائع ہوئی۔ یہ کتاب اس سے پہلے”The New School of Urdu Literature”  کے نام سے ۱۸۹۸ ء میں اور اس کے بعد ۱۹۲۱ ء میں شائع ہو چکی ہے۔ چونکہ یہ کتاب شیخ سر عبدالقادر کی حیات میں شائع ہوئی اس لیے اس میں شیخ صاحب کے اپنے لکھے ہوئے تینوں PREFACE  بھی شامل ہیں۔   اس کتاب میں درج ذیل مضامین شامل ہیں :

1.Preface to the Third Edition

2.Preface to the Second Edition

3.Preface to the First Edition

4.Urdu Literature

5.The Writings of Hali

6.Azad and his Works

7.Maulvi Nazir Ahmad and his Works

8.Pandit Ratan Nath Sarshar

9.Maulvi Abdul Halim Sharar

انگریزی زبان میں ان کی تالیفات انگریزی زبان و بیان کا شاندار مرقع ہیں۔   جو قاری کو اپنا مقام تسلیم کرواتی ہیں۔   ان میں شامل مواد اور پیش کش کا محققانہ انداز پڑھنے والے کو باور کرواتا ہے کہ لکھنے والے علامہ اقبالؒ کے عاشقِ صادق اور محرم راز شیخ سر عبدالقادر ہیں۔

راقمہ کے پاس شیخ صاحب کے ایک مضمون بعنوان’’I Meet the Poet ‘‘کا بیالیس صفحات پر مشتمل ٹائپ شدہ مسودہ موجود ہے۔ اس مسودے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیخ صاحب قلم برداشتہ نہیں لکھتے تھے اور لکھنے کے فوراً بعد اشاعت کے لیے نہیں دے دیتے تھے۔ فاؤ نٹن پین اور کہیں کہیں پنسل سے، بعض مقامات پر لفظ بدلے گئے ہیں اور کہیں جملے۔ بسا اوقات پورا پیراگراف بڑھا یا گیا ہے۔ ان تبدیلیوں کو دیکھنے سے احساس ہوتا ہے کہ شیخ صاحب اپنی تحریر کے پہلے ناقد خود ہی تھے۔

اردو زبان اور اس کے محسنوں سے محبت اور انھیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کا یہ احساس ان کے ابتدائی تخلیقی زمانے سے ان کے ساتھ تھا۔ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں انھوں نے اردو زبان و ادب کے مسائل، اردو اصناف اور تخلیق کاروں کے تجزیاتی مطالعے سے قارئین کو بہرہ ور کیا۔

اردو زبان و ادب سے متعلق شیخ صاحب کے لکھے گئے دو سو سے زائد مضامین اور مقالات انھیں اردو ادب میں معتبر مقام پر فائز کرتے ہیں۔

مخزن میں شائع ہونے والے مضامین متنوع موضوعات سے تعلق رکھتے ہیں۔   خود شیخ صاحب مخزن کے اہم لکھاریوں میں سے ایک ہیں اور ان کی نگارشات ذات و کائنات کے تال میل سے قاری کے لیے ا یک دلچسپ اور معلومات سے لبریز فضا تخلیق کرتی ہیں بلکہ اسے سوچنے پر مجبور بھی کرتی ہیں۔   الفاظ کا استعمال اور انتخاب کا سلیقہ اور مہا رت اس کی روداد ملا واحدی سناتے ہیں۔

’’… مخزن کے ابتدائی آٹھ صفحے خالی رکھے جاتے تھے اور شیخ عبد القادر پرچہ شائع ہونے دو چار دن پہلے کسی بر محل اور با موقع موضوع پر پورے آٹھ صفحوں کا مضمون دے دیتے تھے۔ نہ ایک سطر کم نہ ایک سطر بیش …‘‘ ۲۶ ؎

آپ نے متفرق سماجی، اصلاحی، ادبی و علمی موضوعات پر مضامین و مقالات لکھے اور ان ہی کے سبب اردو کے جناح، مذہبِ  اردو کے پیغمبر، ، جامع کمالات، بہترین انشا پرداز، اردو کے محسن، ادیبوں اور شاعروں کے مربی کہلائے۔

٭٭

 

 

حوالہ جات

 

۱۔         ہمایوں ، شیخ محمد نصیر ( مولف)۱۹۶۰ء ’’شیخ عبد القادر‘‘، لاہور، قومی کتب خانہ،  ص ۸۵۔۸۶

۲۔ عبد المجید سالک، ’’شیخ عبد القادر‘‘، مشمولہ اوراقِ  نو ہمایوں ، ۳۳ص

۳۔بٹالوی عاشق حسین، ، ۱۹۹۲ء ، ’’چند یادیں ، چند تاثرات‘‘، لاہور سنگِ میل، ص، ۳۳

۴۔ شیخ عبد القادر، ۱۹۹۹ء دیباچہ بانگِ  درا مشمولہ، ’’ کلیاتِ اقبال‘‘، لاہور نیشنل بک فاؤنڈیشن، ص ۲۵

۵۔عبادت بریلوی، ۱۹۷۷ء ، ’’اقبال کی اردو نثر‘‘، لاہور، مجلس ترقی ء ادب، ص ۲۷۲

۶۔ مولانا صلاح الدین احمد، ’’عبد القادر شیخ اور ان کی تحریک‘‘، مشمولہ اوراقِ  نو، ص، ۱۰۱

۷۔ جگن ناتھ آزاد، ’’ شیخ عبد القادر سے چند یاد گار ملاقاتیں ‘‘، مشمولہ’’ اوراق نو‘‘ ص ۱۱۹

۸۔ملا واحدی، ۲۰۰۴ء ، ’’دلی جو ایک شہر تھا‘‘، کراچی اکسفورڈ یونی ورسٹی پریس، ص ۱۰۸

۹۔بٹالوی، عاشق حسین، ۱۹۹۲ء ، ’’چند یادیں ، چند تاثرات‘‘، لاہور سنگِ میل، ص ۳۴

۱۰۔ملا واحدی، ۲۰۰۴ء ، ’’دلی جو ایک شہر تھا‘‘، کراچی اکسفورڈ یونی ورسٹی پریس، ص ۱۰۸

۱۱۔ ایضاً، ص ۱۱۰

۱۲۔ ایضاً ۱۰۷

۱۳۔ نصیر ہمایوں۔   ص ۱۹

۱۴۔ ملا واحدی، ص ۱۱۱

۵ا۔اقتباس از ’’اداریہ‘‘ ماہنامہ ’’ادبِ لطیف‘‘۔مارچ ۱۹۵۰؁ء ، اوراقِ نو

۱۶۔احمد سلیم، ۲۰۰۴ء ، ’’ سر عبد القادر اور مخزن‘‘، مشمولہ’’ انتخاب مخزن‘‘ لاہور سنگِ میل، ص ۱۹

۱۷۔ ملا واحدی، ص ۱۰۷

۱۸۔شیخ عبد القادر، سالنامہ ادبی دنیا، ۱۹۳۸ء ، ’’ لندن میں اردو ‘‘، مشمولہ ’’سالنامہ ادبی دنیا ‘‘ ص ۱۷۱۔۱۷۲

۱۹۔شاہد، محمد حنیف، ۱۹۸۶ء ، ’’مقالاتِ عبدالقادر‘‘، مجلس ترقی ادب لاہور، ص ۱۸

۲۰۔شیخ عبد القادر، ماہنامہ نگار، شمارہ جنوری فروری ۱۹۵۰ء ص ۳۲۲

۲۱۔ شاہد، محمد حنیف، ۱۹۸۶ء ، ’’مقالاتِ عبدالقادر‘‘، مجلس ترقی ادب لاہور، ص ۹۸

۲۲۔شیخ عبد القادر’’ پٹنہ اور خان بہادر مولانا شاد‘‘، مشمولہ مقالاتِ  عبدالقادر، ص ۱۶۱

۲۳۔شیخ عبد القادر، ’’فن تنقید‘‘، مشمولہ مقالاتِ  عبد القادر ص ۲۰۵

۲۴۔داؤد رہبر، چہار سو، ص۲۱

۲۵۔ شاہد، محمد حنیف، ۱۹۸۶ء ، ’’مقالاتِ عبدالقادر‘‘، مجلس ترقی ادب لاہور، ص ۷

۲۶۔ملا واحدی، ۲۰۰۴ء ، ’’دلی جو ایک شہر تھا‘‘، کراچی اکسفورڈ یونی ورسٹی پریس، ص ۱۰۹

٭٭٭

 

 

 

 

 

شیخ سر عبدالقادر مقدمات اور دیباچے

 

                ABSTRACT

 

As Editor of Mukhzan, Sheikh Abdul Qadir played a vital role in identifying important and potential writers and to deliver their creations to common readers. This was the honour of Mukhzan to introduce Allama Iqbal and Maulana Abul Kalam Azad along many others. If one has to view the critical vision of Sheikh Abdul Qadir, he should study the forewords (Deebachas) written by him. Sheikh Abdul Qadir always remained ready for the prosperity of Urdu language and literature. He wrote forewords to writings of new as well as admitted writers. The forewords written by Sir Abdul Qadir narrates the specific features of the books and provide guidance not only to readers but also to critics. The name of Sheikh Abdul  Qadir keeps a vital place in deebacha nigari. The forewards written by Sheikh are not merely an introduction to book or its author, but also reflects the command of  his knowledge on the subject and research capabilities.

 

مقدمہ، دیباچہ، پیش لفظ، تقریظ، تمہید، تقریب، جواز، افتتاحیہ، اظہاریہ، بیانِ  حقیقت، حرفِ آغاز، عنوان، خطبۂ  کتاب، اظہارِ عقیدت، نوائے راز، سرنامہ، پیش گفتار، نقشِ اول، حرفِ  اول، حرفِ  اولیں ، عرضِ  حال، سخن ہائے گفتنی، تعارف، ابتدائیہ، اہم باتیں ، غرض، دیباچہ کسی نام سے لکھا جائے، عموماً کتاب کا لازمی جزو تصور کیا جاتا ہے۔ دیباچہ صرف کتاب کا تعارف ہی نہیں بلکہ دیباچہ نگار کے فکر و خیال اور جذبہ واحساس کے ساتھ ساتھ اس کے اسلوب کا بھی عکاس ہوتا ہے۔دیباچہ؍ پیش لفظ یا مقدمہ کبھی مصنف اپنے نقطہ ہائے نگاہ کی وضاحت کے لیے خود تحریر کرتا ہے اور کبھی اس کے لیے اپنے دور کی کسی نامور ہستی کو تکلیف دیتا ہے کہ جو کچھ اس نے تخلیق کیا ہے اس کا تعارف اور تعریف اس کے لیے باعثِ اعزاز ہو گی۔

شیخ سر عبد القادر کا نام اردو دیباچہ نگاری میں بے حد اہمیت کا حامل ہے۔یہ دیباچے محض کتاب یا صاحب کتاب کا سرسری تعارف نہیں بلکہ شیخ صاحب کے وسیع المطالعہ ہونے اور ان کی تنقیدی و تحقیقی بصیرت کے آئینہ دار ہیں۔

’’ شیخ عبد القادر کے مضامین، مقالات اور مقدمات کے بارے میں اتنا کہنا کافی ہے کہ جب بھی انھوں نے کوئی مضمون تحریر کیا یا کسی ممتاز ادیب کی تصنیف کا دیباچہ لکھا، اس کی ایسی خصوصیات گنوائی ہیں اور ایسی مثالیں منتخب کی ہیں جو مدتوں تک اس مصنف کی تخلیقات کے ضمن میں عام نقادوں کے لیے مشعلِ  راہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان کی یہ خوبی ایک بلند تنقیدی صلاحیت کا پتہ دیتی ہے۔ ۱ ؎

بانگِ درا کا دیباچہ شیخ عبد القادر کی شاہکار تخلیقات میں سے ایک ہے، جس کی وجہ یقیناً یہی ہے کہ کتاب اور صاحب کتاب دونوں سے ہی شیخ صاحب کی دلی وابستگی، محبت اور احترام کا رشتہ ہے۔ اہم بات یہ ہے شیخ صاحب ہی نہیں بلکہ عوام و خواص بھی صاحب کتاب سے عقیدت و محبت کا رشتہ رکھتے ہیں۔   شیخ صاحب کا تحریر کردہ دیباچہ علامہ اقبال اور ان کے قارئین کے درمیان مزید یگانگت کا سبب ہے۔ دیباچے کا آغاز غالب کے بے مثل تخیل، بے نظیر اسلوب اور ہند و فارس میں ان کی بے پناہ مقبولیت جو بعد ازاں مغرب تک پھیل گئی، کا ذکر کرتے ہیں۔   وہ کہتے ہیں کہ اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو اس بات پر یقین رکھتا کہ غالب نے اقبال کی صورت میں جنم لیا ہے۔ اقبال کے والدین اس امر سے آگاہ تھے کہ جس بچے نے ان کے گھر جنم لیا ہے اس کا نام اقبال کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتا۔طلبِ علم کی جستجو اقبال کو یورپ لے گئی۔ جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی سند لے کر لوٹے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ سر کا خطاب بھی ان کے لیے تجویز ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر اور سر کے سابقے ان کے لیے اہم نہیں کہ وہ اپنے نام اقبال سے زیادہ ہر دلعزیز ہیں۔   شیخ صاحب علامہ اقبال کے استاد مولوی میر حسن کے اس وصف کا تذکرہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے عربی و فارسی زبان کے طالبِ علموں میں ادب کا ایسا ذوق اور شعور پیدا کر دیتے تھے جو تا حیات ان کے لیے رہنما ثابت ہوتا تھا۔ اقبال نے اپنی شعری شناخت سیالکوٹ میں ہونے والے مشاعروں سے قائم کی۔ داغ کی شاگردی بھی اختیار کی لیکن داغ جان گئے تھے یہ کوئی معمولی غزل گو نہیں ہے استادی شاگردی کا سلسلہ تو جلد ہی ختم ہو گیا لیکن داغ تمام عمر اس بات پر فخر کرتے رہے کہ اقبال ان کے شاگرد رہے ہیں۔   شیخ صاحب کہتے ہیں کہ دکن میں داغ سے ملاقات کے دوران یہ فخریہ الفاظ خود انھوں نے داغ کی زبان سے سنے۔ سیالکوٹ سے لاہور تک کے تعلیمی سفر میں ، میر حسن کے بعد جو دوسرے اہم استاد انھیں نصیب ہوئے وہ تھامس آرنلڈ تھے، جن کی جوہر شناس نگاہوں نے اس ہیرے کو پہچان لیا اور وہ بھی اس بات پر مسرور رہے کہ شاگرد ان کی توقعات سے بڑھ کر ثابت ہوا۔ شیخ صاحب پروفیسر نکلسن کے بھی شکر گزار ہیں ، جنھوں نے اقبال کی فارسی نظم ’’ اسرارِ  خودی ‘‘ کا انگریزی ترجمہ دیباچہ اور حواشی کے ساتھ شائع کیا، یوں اقبال کو بیرونی دنیا سے متعارف کرانے کا ایک اہم ذریعہ بنے۔

یہاں اس واقعے کا ذکر بھی بے محل نہ ہو گا اقبال ایک خط کے مطالعے کے بعد آب دیدہ ہوئے۔ احباب نے سبب معلوم کرنا چاہا تو بولے کہ پروفیسر اے آر نکلسن کا خط ہے وہ اسرارِ خودی کا ترجمہ انگریزی زبان میں کرنا چاہتے ہیں۔   کہا گیا، یہ تو فخر کی بات ہے، اس میں افسردگی کیسی۔ علامہ کہنے لگے رونے کی وجہ یہ کہ میں نے جو کچھ اپنے لوگوں کے لیے کہا وہ تواسے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور غیر میری فکر کو اپنے عوام تک پہنچانا چاہتے ہیں جبکہ اس کی ضرورت یہاں ہے۔ بعد ازاں یہ منظوم تر جمہ’’ The Secret  of Life‘‘ کے نام سے شائع ہوا اورپروفیسر اے آر نکلسن نے اس پر ایک بھر پور مقدمہ بھی لکھا۔

اقبال کے بزرگ معاصرین شبلی، حالی واکبر سبھی نے کلامِ  اقبال کے معترف ہیں۔   شیخ صاحب اقبال سے اپنی پہلی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہیں ، ملاقات کیا تھی ایک مشاعرے کا انعقاد ہوا تھا کہ جہاں ان کے دوست انھیں زبردستی لے گئے تھے اور ان سے ایک غزل بھی پڑھوائی تھی۔ غزل سادہ سی تھی لیکن کلام میں شوخی اور بے ساختہ پن نے انھیں اہل لاہور سے متعارف کرایا اور انھیں بار بار مشاعرے میں مدعو کیا جانے لگا۔ پھر نظم ’’ہمالہ‘‘ مخزن کے پہلے شمارے، اپریل ۱۹۰۱ میں شائع ہوئی اور یوں اقبال کی مقبولیت کا باقاعدہ آغاز ہوا۔۱۹۰۵ تک وہ مخزن کے ہر نمبر کے لیے نظم کہتے رہے۔ ادبی انجمنیں اور رسائل سبھی کی خواہش تھی کہ اقبال کا کلام حاصل کریں ، ان کی محفلوں میں شریک ہوں۔  یہ وہ دور تھا کہ طبعیت زوروں پر تھی، غضب کی آمد تھی، شعر ہو رہے ہیں اور دوست اور طالبِ علم، پنسل کاغذ لے کر لکھتے جاتے ہیں ، خود انھیں لکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ خاص کیفیت طاری ہوتی، اشعار ترنم سے پڑھتے خود بھی وجد میں آ جاتے اور دوسروں پر بھی ایک سحر طاری کر دیتے۔ ایک اور خصوصیت جو صرف اقبال سے مخصوص تھی کہ مسلسل نظم کے اشعار اگر کسی دوسری نشست میں سنانا ہوں تو اسی ترتیب سے سناتے جائیں گے۔ حالانکہ انھوں نے انھیں قلمبند بھی نہیں کیا تھا۔ دوسری اہم بات یہ کہ فرمائش پر وہ کبھی کچھ نہ لکھ سکتے تھے۔ انجمن حمایتِ اسلام کے جلسوں میں سامعین کی تعداد دس ہزار سے زائد ہوتی تھی۔مجمع دم بخود اور اقبال کی آواز کی گونج، ایک سماں بندھ جاتا تھا۔

اقبال کی شاعری کا دوسرا دور ۱۹۰۵ سے ۱۹۰۸ تک ہے قیام یورپ کے دوران انھوں نے بہت کم شعر کہے۔ ایک روز تو بات یہاں تک پہنچی کہ اقبال کہنے لگے میں شاعری ترک کرنا چاہتا ہوں ، شیخ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے انھیں اس ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی، فیصلہ سر آرنلڈ پر چھوڑا گیا، سر آرنلڈ نے انھیں سمجھایا کہ جو وقت آپ شاعری کو دے رہے ہیں ، ملک و قوم کے لیے اس سے بڑی کوئی اور خدمت نہیں ہوسکتی۔ اقبال کی شعری زندگی میں اسی موقع پر یہ ایک اہم موڑ آیا کہ انھوں نے اردو کے بجائے فارسی کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ شیخ صاحب نے اس تبدیلیِ زبان کی کئی وجوہ پیش کی ہیں۔   پہلا سبب یہ کہ انھوں نے تصوف پر کتاب لکھنے کا ارادہ کیا  اور اس سلسلے میں غائر مطالعہ کیا تو اس میں بھی اس تغیر مذاق کا دخل ہو گا، پھر فلسفے کے مطالعے نے بھی اس امر کی توثیق کی کہ فارسی کے مقابلے میں اردو زبان کا سرمایہ بہت کم ہے۔فارسی گوئی کے آغاز میں اس چھوٹے سے واقعے نے بھی اہم کردار ادا کیا کہ ایک دعوت میں ان سے فارسی میں اشعار سنانے کی فرمائش ہوئی اور اقبال نے ندامت محسوس کی کہ ایک آدھ شعر کے سوا ان کا فارسی سرمایہ کچھ بھی نہ تھا۔ وہ اس کے بارے میں سوچتے رہے اور اس فکر کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیخ صاحب کہتے ہیں کہ صبح ہوتے ہی انھوں نے مجھے اپنی دو فارسی غزلیں زبانی سنائیں۔   اقبال کو خود بھی اپنی فارسی گوئی کی قوت کا اندازہ ہو گیا۔ ۲؎

ممتازحسن ’’اقبال اور عبد الحق‘‘ میں شیخ عبد القادر سے کسی قدر اختلاف کرتے ہوئے رقم طر از ہیں جواسباب شیخ صاحب نے علامہ اقبال کی فارسی شعر گوئی کے بتائے ہیں وہ درست سہی لیکن اہم سبب یہ تھا کہ ملتِ اسلامیہ کے درمیان فرق اور نفاق کی صورتِ حال کو ختم کرنا چاہتے اور اسے ایک جسم کے روپ میں دیکھنے کے خواہش مند تھے ملتِ اسلامیہ کو حرکت و عمل پر آمادہ کرنا دین اور دنیا میں غلامی کے بجائے سرخروئی اور سرداری کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لیے آمادہ کرنا ان کی تعلیمات تمام مسلمانوں کے لیے تھیں اور اردو ذرائع ابلاغ میں ابھی اس سطح تک نہ پہنچی تھی۔۳؎

پھر شیخ صاحب کہتے ہیں کہ اس وقت ان کے پاس اس وقت چند ایک فارسی اشعار کے علاوہ اس زبان میں کچھ سرمایہ نہ تھا، جبکہ تحقیق سے ثابت ہے کہ فارسی اشعار کی تعداد کم و بیش سو ہو گی۔ شیخ صاحب کہتے ہیں ، بعد میں انھوں نے اردو میں بھی اچھی نظمیں کہیں لیکن توجہ فارسی زبان پر ہی مرکوز تھی۔ یہ ان کی شاعری کا تیسرا دور ہے کہ جب اسرارِ  خودی، رموزِ بے خودی اور پیام مشرق سامنے آتی ہیں ، ہر کتاب دوسری سے بڑھ کر ہے فارسی نے وہ کام کیا جو اردو سے نہیں ہوسکتا تھا، اس کے وسیلے سے اہلِ مشرق و مغرب اقبال سے متعارف ہوئے۔ اقبال کی تیسرے دور کی شاعری میں اردو کلام پر فارسی تراکیب اور بندشوں کا اثر واضح ہے۔

شیخ صاحب کہتے ہیں کہ بار بار کے تقاضوں کے بعد ان کا پہلا اردو شعری مجموعہ ’’ بانگِ درا ‘‘ کے نام سے منصۂ شہود پر آ رہا ہے اور یہ بات دعویٰ کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اردو میں یہ واحد کتاب ہے کہ جس میں خیالات کی فراوانی اور مطالب کی ایک دنیا آباد ہے۔ شیخ صاحب اس بات کے آرزو مند ہیں کہ یہ مجموعہ ان کے ایک دوسرے اردو کلیات کا پیش خیمہ ہو۔ ۴؎

مولوی عبدالحق نے بانگِ درا پر مبسوط تبصرہ کیا ہے۔ شیخ صاحب کے انداز تحریر کوسراہتے ہوئے مولوی صاحب کہتے ہیں۔

’’جناب شیخ عبدالقادر(صاحب) نے اس مجموعے کے شروع میں ایک پر لطف دیباچہ لکھا ہے جو صرف شیخ صاحب ہی لکھ سکتے تھے۔اس میں انھوں نے اقبال کے کلام پر تنقید نہیں کی بلکہ ان کی شاعری کا نشوونما اور تدریجی ترقی دکھائی ہے جو پڑھنے کے قابل ہے۔‘‘ آگے چل کر مولوی صاحب علامہ اقبال کی فارسی شعر گوئی کی طرف ہونے کی روداد بزبانِ شیخ عبد القادر سنانے کے بعد اس امر کی تائید کرتے ہیں کہ علا مہ اپنے فکر و تخیل سے اردو کو اس کا حصہ ضرور دیں اور قارئین اردو کو مایوس نہ کریں۔  ۵؎

بانگِ درا کا دیباچہ اقبال کے اشعار کی تفیم و تعبیر میں ، ان کے ذہنی و فکری ارتقا کو سمجھنے میں وہ فضا جو ان تخلیقات کا محرک بنی، وہ مسائل جو امتِ مسلمہ کو اور بنی نوع انساں کو در پیش تھے، سبھی کا احاطہ کرتا ہے۔ شیخ صاحب کی دعا پوری ہوئی اور اردو داں طبقے کے لیے علامہ کے اردو شعری مجموعے بالِ جبرئیل، ضربِ  کلیم ا ور ارمغانِ حجاز کے عنوان سے شاعر مشرق، ترجمانِ حقیقت، حکیم الامت کی قدر و منزلت میں مزید اضافے کا سبب ہوئے۔

شیخ صاحب سے علامہ اقبال کی محبت کا یہ عالم تھا کہ علامہ اقبال کی زندگی میں اور ان کے بعد ان کی شخصیت اور فن پر لکھی گئی متفرق کتب کے دیباچے بھی تحریر کیے اور مصنفین کی حوصلہ افزائی کی۔

تلوک چند محروم کے صاحبزادے جگن ناتھ آزاد، علامہ اقبال کے شیدائیوں میں سے تھے۔ انھوں نے ایک مختصر سا شعری مجموعہ ’’ نذرِ اقبال ‘‘ کے نام سے ترتیب دیا جس کا پیش لفظ شیخ صاحب کا تحریر کردہ ہے ۱۹۴۷ء کے ہنگام نے اشاعت کی مہلت نہ دی، لیکن دیباچہ حمیدہ سلطان کی کتاب ’’ جگن ناتھ آزاد اور اس کی شاعری ‘‘ میں شامل ہو نے کی وجہ سے محفوظ ہو گیا، شیخ صاحب دیباچے کے آخر میں دعا گو ہیں ’’ امید ہے کہ یہ چھوٹا سا مجموعہ بڑے مجموعوں کی اشاعت کا پیش خیمہ ہو گا اور آزاد اپنی ادبی خدمت کو جاری رکھیں گے، جس کا بیج ان کے دل میں ان کے باپ کے فیضِ صحبت سے جما اور جس کی آبیاری کلامِ اقبال کے اثر نے کی ہے۔ ۶؎

’’یاد اقبال‘‘ مؤلفہ، چوھدری غلام سرور فگار ایڈیٹر ر سالہ ’’ پیغام حق‘‘ شائع کردہ اقبال اکیڈمی لاہور، پہلا ایڈیشن ۱۹۴۰ء، دو سرا ایڈیشن ۱۹۴۴ء۔ چودھری غلام سرور فگار کی اس تالیف میں سر زمینِ  ہند کے مقتدر شعرا نے اقبال کی وفات پر اپنے غم کا اظہار کیا ہے، اظہارِ عقیدت و محبت سے لبریز ان منظومات کے قیامِ پاکستان سے قبل دو ایڈیشن شائع ہو چکے تھے۔ شیخ صاحب کی اقبال سے وابستگی اس امر میں مانع ہے کہ وہ اقبال سے متعلق کسی بھی تحریر کو نظر انداز کریں۔   یہ اس دور کے اہم شعرا کے درد و اندوہ سے پُر تاثرات تھے، جو انھیں اقبال کی جدائی میں سہنے پڑے۔ شیخ صاحب دیباچے میں لکھتے ہیں کہ کلام اقبال کو جو شہرت ان کی زندگی میں نصیب ہوئی تاریخ عالم میں اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ ان کی وفات کے موقع پر جتنی منظومات کہی گئی ہیں اس کی نظیر بھی کہیں دستیاب نہیں ہے۔ اقبال کے ارادت مندوں میں ایک غلام سرور فگار بھی ہیں اس مرتبہ کتاب میں ان کی اپنی نظموں کے علاوہ دیگر شعرا کے مرثیے یکجا کیے گئے ہیں۔   حسرت موہانی کا ایک مصرع دیکھیے۔

دل پہ ذوقِ  شاعری اک بار ہے تیرے بغیر

اس مجموعے میں مختلف شعرا کی تاریخیں بھی درج کی گئی ہیں مثلاً خواجہ دل محمد اقبال کی ہجری و عیسوی تاریخیں ایک شعر میں یوں رقم کرتے ہیں

’’ شمعِ خاموش‘‘ سالِ ہجری ہے

۱۳۵۷ھ

عیسوی ’’ شمع شاعری خاموش‘‘

۱۹۳۸ع۷؎

ایڈوکیٹ ہائی کورٹ شیخ اکبر علی نے علامہ اقبال کی شاعری پر انگریزی زبان میں چھ لیکچر دیے تھے۔ یہ کتاب انگریزی زبان میں ’’اقبال۔ ہز پوئٹری اینڈ میسج ‘‘ کتابی صورت میں ۱۹۲۳ء میں شائع ہوئی بعد ازاں اس کا اردو ترجمہ’’ اقبال۔ اس کی شاعری اور پیغام ‘‘ کمال پبلشرز کی جانب سے ۱۹۴۶ء میں شائع ہوا، شیخ صاحب دیباچے میں شیخ اکبر علی کے زاویہ نگاہ کو سراہتے ہیں کہ انھوں نے اس انگریزی خواں طبقے کو جس کا میلان اردو اور فارسی کی جانب کم تھا، انگریزی میں اقبال کے کلام کو متعارف کرا یا اور انھیں باور کرایا کہ فکر و فلسفہ کی تلا ش میں مغرب کی جانب بھٹکنے والوں کو مشرق کے اس نابغۂ  روزگار کو بھی نگاہ میں رکھنا چاہیے۔ کتاب انگریزی زبان میں شائع ہوئی لیکن طلب بڑھتی رہی، پھر اسے اردو داں طبقے کے لیے اردو میں ترجمہ کیا گیا۔ چار سو صفحات سے زائد پر مشتمل اس کتاب میں اقبال کی اردو و فارسی تصانیف کو موضوع بنایا گیا ہے۔ پہلے باب میں انھوں نے حیاتِ  اقبال کا تفصیلی جائزہ لیا ہے دوسرے باب میں اقبال کے اولیں مجموعے ’’ بانگِ درا‘‘ کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی دیگر تصانیف کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے۔ شیخ عبد القادر تیسرے باب کا تجزیہ یوں کرتے ہیں کہ اقبال کے نظریہ فن پر اکبر علی نے سیر حاصل بحث کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تخلیق کار کا مقصد یہی ہونا چاہیے کہ اس کا فن ملک و ملت کے لیے باعثِ ثمر ہو۔

پروفیسرمحمد حسین الاعظمی، الازہر یونی ورسٹی قاہرہ سے وابستہ، اعظم گڑھ یوپی سے تعلق لیکن شوق علم مصر لے گیا جہاں الازہر یونی ورسٹی قاہرہ میں پروفیسر مقرر ہوئے، ان کی عربی تالیف ’’ الحیاۃ و الموت فی فلسفہ اقبال‘‘ جس کا اردو ترجمہ بھی ساتھ ہی شائع ہوا۔ کتاب کے دیباچے میں پروفیسر صاحب کے تفصیلی تعارف کے بعد کتاب کی جانب توجہ کرتے ہیں شیخ صاحب کہتے ہیں۔

اس کتاب کی یہ عجب صفت ہے کہ یہ اردو میں بھی ہے اور عربی میں بھی، نظم میں بھی اور نثر میں بھی … یہ کتاب اپنی طرز کی ایک نرالی چیز ہے اور امیدِ  قوی ہے کہ یہ ہندوستان اور مصر دونوں ملکوں میں مقبول ہو گی… بلکہ جہاں کہیں عربی بولی یا سمجھی جاتی ہے وہاں اقبال کا پیام اس کے ذریعے پھیل جائے گا۔ ‘‘ ۸؎

شیخ صاحب، صاحبِ  کتاب کی علمی و ادبی فتوحات کا ذکر کرتے ہیں اور ان کی اقبال سے محبت و عقیدت کے ثبوت میں ان کی ان کاوشوں کو پیش کرتے ہیں جو انھوں نے اقبال کو عرب دنیا سے متعارف کروانے کے سلسلے میں کیں۔

پروفیسرمحمد حسین الاعظمی، الازہر یونی ورسٹی قاہرہ میں ’’ الاخوٰۃ الاسلامیہ‘‘ جماعت کی تشکیل بھی کرتے ہیں کہ جہاں مصری ادیب و دانشور اقبال کی شاعری اور فلسفے کی تفہیم و تشریح کے لیے لیکچرز کا اہتمام کرتے ہیں ، کئی ایک مصری شاعروں نے کلامِ اقبال کا منظوم ترجمہ نہایت مشاقی سے کیا ہے۔

شیخ عبد القادر اور علامہ اقبال کے اہم معاصرین میں میر غلام بھیک نیرنگ بھی شامل ہیں ، ابتدا میں موّاج تخلص کرتے تھے، جلد ہی تخلص بدل کر نیرنگ ہو گئے۔ ان کی زندگی ایک مخلص اور قوم کے ہمدرد رہنما کی حیثیت سے مثالی تھی۔مذہبی مبلغ کی حیثیت سے شہرت رکھتے تھے اور عالمِ اسلام کی بے حسی پر کڑھتے ہی نہ تھے بلکہ اس کی نشان دہی کرتے اور مقصد تک رسائی کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے، حج کے دوران مسجدِ  نبوی کی حالتِ زار دیکھتے ہیں اور اس کے لیے پوری امتِ مسلمہ اور فرما روائے عرب، خادم الحرمین الشریفین تک کو متوجہ کرتے ہیں ، یہی حال تعلیمی و سماجی خدمات کا ہے۔ خوب صورت نثر لکھتے ہیں اور شیخ صاحب کے مطابق نثر میں بھی موتی پروتے ہیں۔  وہ نظم اور غزل کے بہترین شعرا میں شمار ہوتے تھے لیکن قومی، سیاسی، تعلیمی، تبلیغی و مذہبی مصروفیات کی بنا پر شاعری کی جانب سے بے نیازی برتتے تھے۔ حلقۂ احباب میں با اصرار نظم یا غزل سنا دیا کرتے لیکن اشاعت کی طرف توجہ نہ دیتے۔ شیخ صاحب ان کی علمی و ادبی تحریروں اور منظومات کے منتظر رہتے۔ غلام بھیک نیرنگ کی زیادہ تر تخلیقات ’’ مخزن‘‘ میں ہی شائع ہوئیں۔   مختصر سا شعری مجموعہ’’ کلامِ  نیرنگ‘‘ دوستوں نے بکھری ہوئی تخلیقات کو یکجا کرکے ۱۹۰۷ء میں بعد ازاں ۱۹۱۷ ء میں شائع کیا گیا۔ ۱۹۸۳ء میں ان کا مدون و غیر مدون کلام شائع کیا گیا۔ اولین اشاعت کے لیے دیباچہ لکھنے کا خوشگوار فرض شیخ عبد القادر نے نبھایا، جو بقیہ اشاعتوں میں بھی کتاب کی قدر کے تعین میں معاون ثابت ہوا، شیخ صاحب نیرنگ کے علمی و ادبی مرتبے سے آگاہ تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میر صاحب ایسے مختصر مجموعے کی اشاعت پر راضی نہ تھے، مگر میرا خیال تھا اور ہے کہ چند اشعارِ نغز ایک مجموعۂ  بے مغز سے بدرجہا بہتر ہیں۔   ۹؎

مجمو عہ کلام سید غلام بھیک نیر نگ، مر غوب ایجنسی، لاہور، ۱۹۱۷ء سے شائع کیا گیا۔

شیخ صاحب نے جب کسی حقیقی مصنف کا دیباچہ لکھا ہے اس کی موضوعاتی و اسلوبیاتی صفات، خلوص و صداقت، پیرایۂ ادا کی گہرائی و گیرائی، محاکاتی و بیانی خصوصیات، واقعیت و قطعیت سبھی کا ذکر کرتے ہیں ، صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دل سے لکھا ہے اور کتاب سونگھ کر نہیں بلکہ مکمل کتاب پڑھ کر لکھا ہے، شعری اور نثری مثالیں ایسی دی ہیں جو واقعی کتاب کا مغز ہیں ، یہیں ان کی تنقیدی بصیرت عیاں ہوتی ہے۔مصنف اور اس کی تخلیق کی معنویت کو پا لینا اور قارئین تک اس جذبے کی ترسیل میں معاونت کرنا جو مصنف کے وجود اور اس کی تخلیق میں موجود ہے، ا یک دیباچہ نگار کی کامیابی ہے۔

ا بلیس کی مجلس شوریٰ ) The Devil’  Conference)مؤلفہ محمد اشرف مطبوعہ اردو ہا ؤ س، گجرات، ۱۹۴۶ء میں اشاعت پذیر ہوا۔

محمد اشرف اقبال کی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ کا انگریزی زبان میں ترجمہ کر تے ہیں۔  سر عبدالقادر نے اس کے دیباچے میں ابلیس کی مجلسِ شوریٰ کا ملٹن کی نظم "Paradise Lost” کے ساتھ تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔

دیباچہ نگار کا عمومی روّیہ یہ ہوتا ہے کہ کتاب کے مسودے کو دیکھ کر کتاب کا مفصل تعارف کرا دیتے ہیں اور مصنف کی ذات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔   دوسرا انداز یہ ہوتا ہے کہ کتاب کو بھول کر مصنف کی ذات کے سحر میں ایسے گرفتار ہوتے ہیں کہ کتاب کے موضوع کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔  اس سلسلے میں شیخ صاحب کا انداز خاصہ مختلف اور منفرد تھا۔ان کے پیش نظر کتاب کے ساتھ مصنف کا تذکرہ بھی ضروری تھا۔چنانچہ آپ نے جس قدر بھی دیباچے تحریر کیے ان میں خاص طور پر مصنف کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا اور اس کے متعلق قارئین کو زیادہ سے زیادہ معلومات بہم پہنچائیں۔   تا کہ پڑھنے والے نہ صرف کتاب سے محفوظ ہوں بلکہ ساتھ ہی ساتھ مصنف کی علمی استعداد، ذہنی نشو و نما اور فنی اہلیت کو جان سکیں اور اگر ہو سکے تو اس جیسا فکر پیدا کر سکیں۔  ۱۰؎

شیخ صاحب حفیظ جا لندھری کی بے مثل تخلیق ’’یاد ایام‘‘ المعروف’’ شاہنامۂ اسلام ‘‘ کا نو صفحات پر مشتمل دیباچہ ’’ تقریب ‘‘ کے عنوان سے تحریر کرتے ہیں۔   دیباچے کے آغاز میں ہی وہ مختصر ترین الفاظ میں کتاب کا تعارف کراتے ہیں کہ یہ محض شاعری نہیں ، اسلام کی منظوم تاریخ ہو گی، تعلیماتِ  اسلامی کے لیے درسی کتاب کا درجہ رکھے گی۔ سادہ الفاظ میں دو ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل پہلی جلد کا دیباچہ لکھنے کی سعادت کو وہ اپنی خوش نصیبی تصور کرتے ہیں۔  وہ امید کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے علاوہ ہر وسیع الخیال غیر مسلم بھی شاعر کے کمالِ  فن کا معترف ہو گا۔ اس دیباچے میں شیخ عبد القادر مصنف کا بھر پور تعارف کرواتے ہیں۔   وہ جنھوں نے حفیظ کی نظم، جس کا عنوان ہے ’’ابھی تو میں جوان ہوں ‘‘ سنی ہے انہیں شاید حفیظ کی شاعری کو اس شانِ  بزرگی اور تقدیس میں دیکھ کر متعجب ہوں کہ ان کی طبعِ رسا کن آسمانوں تک پہنچ سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حفیظ عمر میں جوان ہے، مگر شاعری میں بزرگ شعرا کی صف میں کھڑا نظر آتا ہے۔ شیخ صاحب حفیظ کی ہر لمحہ مصروف رہنے کی عادت یا ضرورت کو سراہتے ہیں۔  کہتے ہیں کہ یہ صرف تخیل کا کرشمہ اور زورِ  طبعیت اور خدا داد ذہانت ہے کہ جس کی بنا پر وہ ایسی پر بہار نظمیں لکھ جاتا ہے ورنہ روٹی روزی کے چکر نے اسے کبھی اتنی مہلت نہ دی کہ دنیا کی رنگینیوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے۔ صبح سے شام تک لکھنا، کسی اخبار کے لیے، رسالے کے لیے یا پھر کبھی اپنی کوئی کتاب لکھنے میں لگا ہے جس کے سستے داموں ہی سہی بکنے کی کچھ امید ہے۔ مشاعروں کے لیے نظمیں لکھ رہا ہے۔ مخزن کی ادارت کی دمہ داریاں نبھا رہا ہے۔ ملاقاتیوں سے نبٹ رہا ہے اور قدر دانوں سے خط و کتابت کے لیے وہ خود ہی منشی، پروف دیکھنے کے لیے خود ہی مصحح اور مطبع والوں سے مقابلہ کرنے کے لیے جنگجو کا روپ دھار رہا ہے۔ موقع ملتا ہے تو شاہنامۂ  اسلام بھی لکھ رہا ہے۔یاد رہے کہ تاریخی موضوع پر طبع آزمائی کے لیے پہلے پڑھنا، وسیع الطالعہ ہونا بے حد ضروری ہے اور حفیظ میں یہ وصف بھی موجود تھا۔ دیباچے میں شیخ صاحب حفیظ سے پہلی ملاقات کا احوال بھی رقم کرتے ہیں کہ انھوں نے انھیں ایک مشاعرے میں دیکھا، یہ دبلا پتلا نوجوان صرف داد کے قابل شعر پر کسی قدر اٹھتے ہوئے کہتا کیسا بلند شعر ہے۔ یہ انداز متوجہ کرنے والا تھا کسی سے پوچھا تو صرف اتنا معلوم ہوا کہ جالندھر کے ہیں اور مولانا گرامی کے شاگرد ہیں۔  تب شیخ صاحب کو یاد آیا کہ گرامی کے داد دینے کا انداز بھی ایسا ہی تھا۔ اب وہ اور زیادہ مشتاق ہوئے کہ اس نئے شاعر کو سننا چاہیے۔ انھیں سنا تو مولانا گرامی کی ایک اور مشابہت دکھائی دی۔ وہ بھی اپنے چہرے بشرے سے فارسی کے بلند پایہ شاعر معلوم نہ ہوتے تھے یہ نوجوان بھی کہیں سے دکھائی نہ دیتا تھا کہ نظم پر اتنی دستگاہ رکھتا ہو گا، پھر نظم ترنم سے پڑھی گئی …اس کے بعد تو بے شمار مرتبہ حفیظ کو مشاعرے لوٹتے دیکھا گیا۔

اس دیباچے میں آگے چل کر رقم طراز ہیں۔

’’ابو الاثر نے جس دن نظم کی بنسری بجائی ہے، اس بنسری سے طرح طرح کے راگ نکلتے ہیں اور نظموں کے اس مجموعے میں جس کا نام ’’نغمہ راز‘‘ ہے اور بعض غیر مطبوعہ نظموں میں جو اس کے بعد لکھی گئی ہیں ، اس نے اپنی وسیع ہمدردی اور سچی قدرتی شاعری کے میلان سے کہیں کرشن کے گُن گائے ہیں اور کہیں پریت کے گیت سنائے ہیں۔   مگر اُس نے تھوڑے عرصے میں محسوس کر لیا کہ اثر کے لحاظ سے جو بات پیغمبرِ اسلام کی زندگی کے واقعات میں ہے، وہ کسی دوسرے انسان کی زندگی میں نہیں پائی جاتی۔‘‘

اور پھر اس نے شاہنامہ لکھنے کا اعلان کیا، جس کے نام پر بہت اعتراضات ہوئے، فردوسی کی ہمسری کا دعویٰ کرنا چاہتا ہے، اسلام کا شاہی سے کیا تعلق وغیرہ وغیرہ، شیخ صاحب نے ان اعتراضات کے مدلل جواب دیے ہیں ، پھر فردوسی نے فارسی میں اپنے جوہر دکھائے ہیں ، حفیظ اردو میں رہبرانِ اسلام کی یاد تازہ کر رہا ہے تو یہ اردو ادب پر احسان ہے۔ شیخ صاحب حفیظ کے شاہنامہ کا موضوعاتی اور اسلوبیاتی تجزیہ کرتے ہیں۔   ابتدا دعائیہ شعر سے ہوتی ہے اور اس خواہش کا بیان کہ میں ’’ خدمتِ  اسلام ‘‘کر جاؤں۔  ، پھر اس عجز کا اظہار

تقابل کا کروں دعویٰ یہ طاقت ہے کہاں میری

تخیل میرا ناقص، نامکمل ہے زباں میری

زبانِ پہلوی کی ہم زبانی ہو نہیں سکتی

ابھی اردو میں پیدا وہ روانی ہو نہیں سکتی

شیخ صاحب نے تین اشعار درج کیے ہیں جن میں حضرت ابراہیم کا بیوی اور بیٹے کے ہمراہ صحرائے عرب کی طرف سفر کا احوال نظم کیا ہے، یہاں وہ حفیظ کی اختصار نویسی کے قائل نظر آتے ہیں کہ کوئی اور شاعر یہ واقعہ بیس اشعار میں بیان کر تا۔ یہ خوبی تمام کتاب میں موجود ہے۔ شیخ صاحب نے شاہنامہ کے مختلف مقامات سے اشعار درج کر کے قارئین کی توجہ اختصار، سادہ بیانی، عام بول چال کا انداز، خلوص و صداقت، صوتی محاسن، محاکات کا کمال، پیرایہ ہائے اظہار کی گیرائی اور موضوع سے گہری وابستگی کی طرف دلائی ہے اور دعا کی ہے حفیظ صاحب کہ جلد اول کی طرح بقیہ تاریخِ  اسلام بھی اسی جوش و جذبے سے مکمل کر کے اردو ادب کو مستفید کریں۔   ۱۱؎

اردو سے محبت کے نتیجے میں انھوں نے نئے لکھنے والوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی، خواہ مخزن کے لیے ابو الکلام آزاد کا پہلا مضمون ہو یا کسی نئے لکھاری کا ابتدائی کلام۔ دیباچہ نگاری کی ذمہ داری خوش اسلوبی سے نبھائی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے نوجوان مصنفین اور شعرا ان کی حوصلہ افزائی کے سبب ادبی کائنات کے فعال کارکن شمار ہوئے۔

’’ جب بھی کوئی نو آموز مصنف اپنی تصنیف لے کر ان کی خدمت میں حا ضر ہوا کرتا اور دیباچے کے لیے عرض کرتا تو عبدالقادر اپنی ساری مصروفیات کے باوجود اس کام کے لیے وقت نکال لیتے اور ان تصانیف میں ایسی خو بیاں تلاش کر لیتے جن سے تصنیف کا مر تبہ بلند ہو جا تا۔ ان کی نظر میں حسن تھا اور وہ حسن کو ہر جگہ ڈھونڈ لیتے، یہی نہیں بلکہ خود اس میں حسن پیدا کر دیتے۔زندگی بھر انھوں نے کبھی کسی کا دل نہیں توڑا۔ان کے دروازے اتنے کشادہ تھے کہ وہاں سے کوئی خالی ہا تھ نہ گیا۔ نو جوان لکھنے وا لوں کی ہمت افزائی کر نا گو یا ان کی زندگی کا مشن تھا۔وہ انھیں نیک مشورے دیتے۔ ہمت بندھاتے اور ان کے دلوں میں وہ و لولے پیدا کرتے، جو انہیں زند گی کی شاہراہ پر کامران کرتے رہے۔‘‘۲؎۱

خواجہ الطاف حسین حالی کے متعلق ہمیشہ کہا جاتا رہا کہ وہ نوجوان لکھنے والوں کی حد درجہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں جن کے سبب وہ کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی خود کو بہت کچھ سمجھنے لگتے ہیں۔   حالی کا جواب ہمیشہ یہی ہوتا تھا کہ ان کی داد سے تخلیق کار کا دل کتنا بڑھ جاتا تھا اور آئندہ اس سے بھی اچھا کام کر کے دکھانے کی خواہش جاگ جاتی تھی، بعینہ یہی حال شیخ صاحب کا تھا۔

’’ایک ملاقات میں میں نے کہا بعض لوگ کہتے ہیں حفیظ جالندھری کی کا میا بی کی دو بڑی وجوہ ہیں۔  ایک ان کا ترنم اور دو سری آپ کی مر بیانہ روش۔آپ کی اس کے متعلق کیا رائے ہے۔بو لے تمھارا کیا خیال ہے تم پہلے اپنی رائے ظاہر کرو۔میں نے کہا۔میں تو اس خیال کو غلط سمجھتا ہوں۔   جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں حفیظ ایک بڑا شاعر ہے اور اس کی شاعری میں اتنی جان ہے کہ وہ اپنے پروں سے اُڑ سکے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ادبی د نیا میں اپنا لوہا منوا سکے۔ کہنے لگے تمھاری رائے صحیح ہے۔ یہ جو تم نے لو گو ں کی رائے کا ذکر کیا ہے یہ حفیظ کے حا سدوں اور مخا لفوں کی رائے ہے۔میں نے حفیظ کے لیے جو کچھ کیا ہے وہ محض اتنا ہے کہ شاہنامۂ  اسلام کا دیباچہ لکھا ہے اور یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ حفیظ کو زمین سے اُ ٹھا کر آسمان پر پہنچا دے۔دیباچے تو میں نے اور بھی کئی شاعرو ں کے لکھے ہیں۔   لیکن ان میں سے کتنے ہیں جو میرے دیباچے کی بدولت حفیظ کے مقام تک پہنچے ہیں۔   ۱۳؎

شیخ صاحب کی تنقیدی بصیرت کا جائزہ لینا ہو تو اس کاسب سے اہم ذریعہ ان کے دیباچے ہیں ، یہ واضح رہے کہ دیباچہ لکھوانے کی غرض صرف تعارف اور بین السطور تعریف ہوتا ہے۔ شیخ صاحب کی دیباچہ نگاری پر اکثر یہ اعتراض ہوا کہ شیخ صاحب نے اہم اور معمولی لکھنے والوں میں تخصیص نہیں رکھی اور کسی لکھنے والے کو اس کی تحریر اور ذہنی اپچ کی درست صورتِ حال سے آگاہ نہیں کیا، اس لیے ان کی دیباچہ نگاری کو کسی معیار پر پرکھنا مناسب نہیں۔   اعتراض کرنے والے اس امر سے صرفِ  نظر کر جاتے ہیں کہ دیبا چہ نگاری کے لیے مصنف کا انتخاب اپنا نہیں بلکہ مصنف دیباچہ نگار کا انتخاب کرتا ہے اور کوئی مصنف یہ خواہش نہیں کرسکتا کہ اس کی تحریر کی خامیاں کھل کر عیاں کی جائیں اور قارئین کو اس کی تحریر سے متنفر کیا جائے، پھر شیخ صاحب جیسی متواضع اور با مروت شخصیت کے لیے مصنف کے اصرار کو رد کرنا ممکن نہ ہوتا تھا، خواہ وہ اس کے لیے ان کی طبعیت کتنی ہی منغض کیوں نہ ہو رہی ہو، ریاض قادر ایسے ہی ایک واقعے کا ذکر کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ خود والد صاحب نے انھیں اپنے کمرے میں بلا کر ایسے ہی ایک مفلس مصنف کے مطالبوں سے پُر خطوط کا پلندہ دکھایا اور اس مصنف کی تحریر کے کچھ نمونے بھی سنائے، شیخ صاحب کہنے لگے کہ ان مصنفوں کو کیا کہا جا سککتا ہے جنھیں خود پر اتنا اعتماد ہو، اب اس کے دیباچے میں یہ تو نہیں لکھا جا سککتا کہ مصنف ذہنی افلاس کا شکار ہے اور تعریف کے لیے اس کی تصنیف میں گنجائش نہیں ہوتی، اس کے مسلسل تقاضوں سے اس شعر پر عمل کر کے ہی جان چھڑائی جا سکتی ہے۔

دندانِ تو جملہ در دہانند

چشمانِ تو زیرِابرو آنند

شیخ صاحب کے نزدیک اس مصنف کی کتاب کا دیباچہ اس انداز میں ہی تحریر کیا جا سکتا ہے کہ مصنف نے اس تصنیف پر بہت محنت کی ہے۔ مجموعے میں طویل اور مختصر دونوں قسم کی نظمیں ملتی ہیں ، مختصر کم اور طویل زیادہ، مصنف اقبال سے متاثر معلوم ہوتے ہیں ، پُر گو ہیں … اصل بات کہ مصنف کی تخلیقات کا معیار کیا ہے۔ اسلوب کیسا برتا ہے سے صاف پہلو بچا لیا جائے، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بیشتر مصنف اس انداز کو بھی اپنی تعریف سمجھے۔ ۱۴؎

جہاں انھیں اقبال کے اولیں شعری مجموعے ’’ بانگِ درا‘‘ کا مقدمہ لکھنے کا اعزاز حاصل ہوا، وہیں ایسی کتب بھی دیباچے کی غرض سے انھیں پیش کی گئیں ، جن پر دیباچہ لکھتے ہوئے انھوں نے خود کو تسلی دی کہ اردو میں کچھ لکھا تو جا رہا ہے، ان کی حوصلہ افزائی ممکن ہے کل کسی بڑی تخلیق کا باعث ہو۔ماہنامہ مخزن، جلد ۱ نمبر ۲، ستمبر، ۱۹۰۱ء میں شائع ہونے والے مضمون ’’ فنِ  تنقید‘‘ میں وہ اس کیفیت، اذیت کو بیان کرتے ہیں جو کسی کتاب کا دیباچہ یا تقریظ لکھتے ہوئے سہنی پڑتی ہے۔ وہ کہتے ہیں یہاں مدت سے تقریظوں کا رواج رہا ہے۔کوئی پرانا دیوان یا کتاب اٹھا کر دیکھے، قلمی نسخہ ہو یا چھپا ہوا، آخر میں صفحوں کے صفحے تقر یظوں سے پر ہیں … تقریظوں کو دیکھیے تو سب کی سب کتاب کو لا جواب، رشک آفتاب و مہتاب، ہزاروں میں انتخاب بتا رہی ہیں …بعض ایسی مثالیں بھی دیکھنے اور سننے میں آئی ہیں کہ تقریظ میں تو تعریف کے پل باندھ دیے اور ویسے اگر کسی نے پو چھا کہ کتاب کیسے لکھی گئی ہے تو کہہ دیا کہ ’’کتاب تو مبتدیانہ مشق ہے۔ہم نے تو ایک دوست کی خاطر سے تقریظ لکھ دی ہے۔‘‘ ۵؎۱

شیخ صاحب جتنا عرصہ دہلی میں مقیم رہے اس دوران شائع ہونے والی بیشتر کتب کے دیباچے آپ ہی کے تحریر کردہ ہیں۔   ًَ

ِِ شیخ صاحب عموماً دیباچہ نگاری کے لوازم نگاہ میں رکھتے ہوئے دیباچہ تحریر کرتے ہیں ، ان کے دیباچوں میں کتاب کے اسباب و علل کا بیان، کتاب کا عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا۔ مصنف کی موضوع سے ذاتی دلچسپی یا کسی خاص تحریک یا تقاضے کے سبب کتاب تخلیق کی گئی، سبھی پہلو پیشِ  نظر رکھتے ہیں۔   مثلاً شیخ صاحب ’’گلبا نگِ حیات ‘‘مؤلفہ امین حزین سیالکوٹی شائع کردہ اردو اکیڈمی پنجاب لاہور، اکتوبر ۱۹۴۰ء کے دیباچے میں مصنف اور ان کے خاندانی پس منظر کا ذکر کرنے کے بعد علامہ اقبال سے ان کا تعلق واضح کرتے ہیں۔   یہ وہ دور ہے کہ جب اس دور کے بیشتر شاعر اقبال کی شاعری کے گہرے اثرات قبول کر رہے تھے۔ ا مین حزیں اور اقبال کی قدرِ مشترک یہ ہے کہ دونوں نے ایک ہی استاد مولوی میر حسن سے فیض اٹھایا ہے۔ امین حزیں کو اپنی موزونیِ طبع کا احساس ہوا دو ایک غزلیں شائع ہو ئیں اور پسند کی گئیں تو خیال آیا کہ اقبال سے اصلاح لینی چاہیے خواہش کا اظہار کیا تو علامہ نے مشورہ دیا کہ شاعری خدا داد عطیہ ہے، جذبہ سچا ہو تو کامیابی یقینی ہے، اساتذہ کا کلام پڑھیے اور مشق کرتے رہیے۔ شیخ صاحب نے امین حزیں کی شاعری کے دورِ اولین میں مولانا ظفر علی خان اور محمد علی جوہر اور بعد ازاں اقبال کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔

’’فکر جمیل ‘‘ کے پیش لفظ میں وہ جمیل واسطی کے نظریہ حیات، زندگی میں دکھوں اور سکھوں کی آمیزش، امیدو یا سیت کی کرنیں اور گھور اندھیرے اور خیر و شر کی متصادم قو توں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے کلام میں کلاسیکیت و جدیدیت کی کار فرمائی کا جائزہ لیتے ہیں۔

’’تغزل ایک پامال طرزِ کلام ہے لیکن واسطی کے جذبات کی سچائی نے اس نقشِ کہن کو ایسا رنگِ  نو عطا کیا ہے کہ اس کے کلام میں تغزل کی روایات دوبارہ زندہ ہو جاتی ہے۔ذاتی تجربہ، تصوف، حکیمانہ نکات جو  طو فانِ حوادث کے مکتب میں حاصل ہوئے ہوں۔  حیات و حسن و محبت پر تفکر، روحانی کشمکش واسطی کی شاعری کا سرما یا ہیں ، مگرواسطی نے غزل پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے صنف کو بھی جو سانٹ کے نام سے مشہور ہے اردو کا جا مہ پہنایا ہے۔یہ خیال کہ چودہ اشعار کی کوئی نظم سانٹ ہوتی ہے مبتدی شاعروں کو بھی سانٹ نویسی پر آمادہ کر دیتا ہے، لیکن سانٹ کی اندرونی معنوی بندش اس طرزِ نظم میں جذبات کے گہرے مطالعہ اور صحیح تحلیل کے بغیر سمجھی نہیں جا سکتی۔واسطی کے سانٹ میں یہ صفات مو جود ہیں۔  ‘‘ ۱۶؎

دیباچہ کسی بھی تخلیق کار کا مکمل تعارف ہوتا ہے بسا اوقات کتاب کا موضوع ایسا تحقیقی، تنقیدی یا تخلیقی ہوتا ہے جس کا مصنف کی ذات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ تخلیق کا براہِ راست تعلق، مصنف کی زندگی سے ہوتا ہے لیکن مصنف اپنے بارے میں کھل کر بیان کرتے ہوئے جھجک محسوس کرتا ہے۔ دیباچہ نگار یہ ذمہ داری بڑی خوش دلی سے نبھاتا ہے اور مصنف کی ذاتی خدمات کے علاوہ اس کے علمی خاندانی پس منظر، اس کے علمی و ادبی حیثیت، اس کے وسعت مطالعہ، کشادہ نظری، فکرِ رسا، اس کی الوہی خصوصیات سبھی قاری کے سامنے واضح کر دیتا ہے۔ اس کتاب کے علاوہ اس نے جو کارہائے نمایاں کیے ہیں ان کا بھی برسبیل تذکرہ احوال بیان کر جاتا ہے، شیخ صاحب لمعہ حیدرآبادی … کی کتاب ’’۔’’تقدیرِ امم ‘‘ ‘‘ کے دیباچے میں ان کی خاندانی شرافت و نجابت کے ساتھ ساتھ ان کے علمی و ادبی کارناموں کا تذکرہ کرتے ہیں

لمعہ حیدر آبادی اپنا اردو اور فارسی کلام اصلاح کے لیے علامہ اقبال کی خدمت میں بھیجا کرتے تھے، اقبال ان کے خیالات و احساسات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے جہاں اصلاح کی ضرورت محسوس کرتے وہیں اپنے صائب مشوروں سے بھی نوازتے۔ لمعہ کی خواہش تھی کہ ان کے کلام کا دیباچہ شیخ عبد القادر تحریر کریں ، شیخ صاحب نے مقدمہ لکھا اور صاحب کتاب کے بھر پور تعارف بھی پیش کیا۔ ڈاکٹر لمعہ حیدر آبادی، ایک وضع دار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ، علم ابدان و علم ادیان سے گہری واقفیت اور روابط نے شعری فضا کی تشکیل میں مدد دی ہے۔ فطرت سے قربت اور دریا کے کنارے سے لگاؤ انھیں قدرت کی بے پناہ نیرنگیوں سے روشناس کراتا ہے۔ لمعہ حیدرآبادی کا فارسی اور اردو مجموعہ کلام بیک وقت اشاعت کے مراحل طے کر رہا تھا۔ شیخ صاحب نے اردو مجموعۂ  کلام کی دیباچہ نگاری میں شاعر کے اقبال سے دلی تعلق کی وضاحت کرتے ہؤے اقبال کا اس شعر کو درج کیا ہے .

آ تجھ کو بتاؤں میں تقدیرِِ  امم کیا ہے

شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر

لمعہ صاحب فنا فی الاقبال ہیں۔   ٹیگور سے بھی عقیدت رکھتے ہیں۔   لمعہ کی شاعری پر ان دونوں کے اثرات واضح ہیں مگر اقبال کے گہرے، بلکہ بسا اوقات تو وہ اقبال کے مکبر معلوم ہونے لگتے ہیں اقبال کی زمینوں میں کہی گٔی غزلیں بے شک اقبال کے درجے تک نہیں پہنچتیں لیکن، پیامِ  اقبال کی تبلیغ کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔   ڈاکٹر لمعہ سے علامہ اقبال کی طویل خط کتابت تہی۔ شیخ عطا اللہ کے مرتب کردہ مکاتیب اقبال کے مجموعے ’’ اقبال نامہ میں ‘‘ اقبال کے ان نام انتیس خطوط موجود ہیں ، شیخ عطا اللہ اس بات کے لیے شیخ سر عبدالقادر کے ممنون ہیں کہ انھوں نے لمعہ حیدرآبادی سے ان کا تعارف کرایا جنھوں نے مکاتیب اقبال کا ایک گراں بہا مجموعہ عنایت کیا بلکہ حیدرآباد میں مکاتیب اقبال کی فراہمی کے لیے مسلسل سعی کر رہے ہیں ، وہ اقبال کو اپنا روحانی پیشوا مانتے تھے اور اقبال انھیں محسن انامل کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔۱۷؎

بیاضِ سحر مؤلفہ بیگم تراب علی، شیخ صاحب اس کتاب کے حوالے سے شیخ ہمایوں کو ایک خط میں تحریر کرتے ہیں۔  ’’ میں نے کتاب کا دیباچہ جو تحریر کیا ہے اس کا مسودہ آپ کو بھیجتا ہوں۔   احتیاط سے چھاپ لیجیے اگر ہوسکے تو صاف پروف مجھے دکھا لیں تا کہ کوئی لفظی غلطی نہ رہ جائے۔ سرورق میں کچھ تبدیلی مناسب سمجھی ہے اور اس کی وجہ دیباچہ میں لکھ دی ہے امید ہے آپ بھی اس تبدیلی سے اتفاق کریں گے ‘‘ ۱۸؎

اس خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ صاحب صرف دیباچہ نگاری کو ایک فرض جان کر ہی نہیں نبھاتے بلکہ کتاب کے بارے میں صائب مشورے بھی دیتے ہیں جن سے کتاب کی وقعت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

آغا محمد حسین ۱۹۴۶ء میں اپنی نظموں کے مجموعہ پر دیباچہ لکھنے کے لیے شیخ صاحب کی خدمت میں ارسال کرتے ہیں ، فرصتِ زندگی کم ہے۔ شیخ صاحب کی لامتناہی سیاسی سماجی، سرکاریادبی اور علمی مصروفیات کے ازدحام میں گم، مصنف کا اصرار جاری ہے اور آ پ انتہائی خوش دلی سے ان کے یاد دہانی کے ہر خط کا جواب دیتے ہیں ، لیکن زندگی وفا نہیں کرتی اور آپ دیباچہ تحریر نہ کرسکے، جس کا مصنف کو ہمیشہ ملال رہا۔

شیخ صاحب کی بہو برجیس ارشاد کہتی ہیں کہ وہ صاحبِ  ذوق شخصیت تھے اور مطالعے کا ذو ق رکھتے تھے۔ ادب سے دلچسپی تھی، اگر دیکھا جائے تو ان کی کسی موضوع پر مکمل اور مبسوط کتاب تحریر نہیں کی، لیکن متفرق موضوعات پر مضامین موجود ہیں۔   جو ان کی وفات کے بعد کتابی شکل میں یکجا کیے گئے۔ وہ ادب اور ادیب نواز شخصیت تھے ادیبوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ بہت سی کتابوں کے دیباچے کتاب سونگھ کر نہیں بلکہ پڑھ کر لکھے۔ نصیحت بھی کر تے تھے اور مزید بہتری کے لیے رائے بھی دیتے تھے۔۱۹؎

شیخ صاحب نے مختلف النوع موضوعات پر تحریر کردہ کتابوں کے دیباچے تحریر کیے، جن میں درج ذیل کتب بھی شامل ہیں۔

سر گز شت ہاجرہ از بیگم ہما یوں مرزامطبوعہ ۱۹۲۶ء ۔لیگ آف نیشنز :جمعیت الاقوام(جنیوا)مو ئفہ ایم ایچ بھٹی۔ مطبوعہ پنجاب پر نٹنگ ورکس، لا ہور، ۱۹۲۷ء ۔ جذباتِ بسمل :مؤلفہ منشی سکھدیو پر شاد۔ گنج مآنی: مجموعہ کلام معروف مؤلفہ منشی تلوک چند محروم، مطبوعہ عطر چند کپور اینڈسنز، انار کلی لاہور ۱۹۳۲ء ۔ اتا ترک غازی مصظفی کمال پاشا: مو ئفہ کے اے حمید مطبوعہ قومی کتب خانہ، لاہور ۱۹۳۹ء ۔رسولﷺ عر بی پیغمبر اسلام :مو ئفہ پرو فیسر جی ایس دارا، شائع کردہ مجلس اردو ماڈل ٹاؤن لاہور، ۱۹۴۱ء ۔ معجزات رسولﷺ :مؤلفہ حسان الہند فضل محمد فضل جا لند ھری شائع کردہ بزم مد ینہ سعدی پا رک لا ہور، ۱۳۶۱ھ؍۱۹۴۱ء ۔د یہا تی دنیا :مو ئفہ امر نا تھ مو ہن شائع کر دہ گیلانی الیکٹرک پر یس، لا ہور، دسمبر ۱۹۴۱ء ۔ بہا ر ستان: آل انڈیا مشا عرہ امر تسر کی رو ئداد مر تبہ ر یا ض قر یشی شائع کر دہ مجلس منتطمہ۔ آل انڈ یا مشا عرہ امر تسر پنجاب، ۱۹۴۳ء ۔ صد پا رۂ دل:(پا نچ سو ر یا عیات کا مجمو یہ) مولفہ خواجہ دل محمد شائع کردہ خواجہ، بکڈپو، لاہور، ۱۹۴۶ء ۔ ر قعات اکبر :مرتبہ شیخ محمد نصیر ہمایوں شائع کردہ قومی کتب خانہ لاہور۔طبع ثانی ۱۹۴۷ء ۔صبح ازل: مجموعہ کلام ذ کاء الملک خواجہ ڈاکٹر محمد شجاع نا مو س شائع کردہ قو می کتب خانہ لاہور، ۱۹۴۷ء ۔پھول اور کلیاں :مو ئفہ آغا شیدا کا شمیری شائع کردہ کتاب منزل لا ہور، طبع اول ۱۹۴۸ء ۔ دو ست اور دشمن :مو ئفہ عبدالر شید تبسم شائع کردہ درد اکا دمی شاہ عالم گیٹ لاہور ا کتوبر ۱۹۶۵ء ۔ ۲۰ ؎

شیخ صاحب ان دیباچوں میں عالمانہ، فاضلانہ تیور نہیں دکھاتے نہ ہی ترئین و آرائشِ لفظی سے انھیں سرو کار ہے وہ سیدھے سبھاؤ اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں اور مصنف یا اس کی تخلیق کو کہیں طنز و تشنیع کا نشانہ نہیں بناتے بلکہ حوصلہ افزائی ان کا شعار ہے۔ سلاست، روانی، تازگی، شگفتگی اور لطافت ان کی تحریر کو لائقِ مطالعہ ہی نہیں قابلِ  دادبھی بناتی ہے۔

’’ان کے لکھے ہوئے دیباچے کس قدر مکمل اور جامع ہیں۔  ان میں کسی بھی پہلو سے تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔ کتاب اور مصنف دونوں کو سامنے رکھ کر دیباچے لکھے ہیں اور خوب لکھے ہیں۔   شاید یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں ہر مصنف کی یہی کو شش ہوتی تھی کہ اس کی کتاب پر دیباچہ شیخ صاحب ہی لکھیں۔   چاہے اس کے لیے انھیں کتنا ہی انتظار کیوں نہ کر نا پڑے۔’’شیخ صاحب کے تحر یر کردہ دیباچے نہ صرف ادبی لحاظ سے بلند مرتبہ تھے بلکہ صنفِ دیباچہ نگاری میں بھی ایک مستقل حیثیت رکھتے ہیں۔  ‘‘۲۱؎

٭٭

 

حوالہ جات

 

۱۔ محمد حنیف شاہد: مرتب، ۱۹۸۶ء ، ’’ مقالاتِ عبد القادر‘‘، لاہورمجلسِ  ترقیء ادب، ص ۷

۲۔ شیخ عبد القادر، ۱۹۹۹ء ، ’’ دیباچہ بانگِ درا ‘‘مشمولہ، کلیاتِ  اقبال، لاہور نیشنل بک فاؤنڈیشن، ص۱۹تا ۳۱

۳۔ممتازحسن:مرتبہ، ۱۹۷۳ء ’’اقبال اور عبد الحق‘‘، لاہورمجلسِ  ترقیء ادب، ص ۱۱

۴۔ شیخ عبد القادر، دیباچہ، ۱۹۹۹ء ، ’’دیباچہ بانگِ درا‘‘ مشمولہ، کلیاتِ  اقبال، لاہور نیشنل بک فاؤنڈیشن، ص۱۹تا ۳۱

۵۔ممتازحسن:مرتبہ، ۱۹۷۳ء ’’اقبال اور عبد الحق‘‘، لاہورمجلسِ  ترقیء ادب، ص ۱۱

۶۔محمد حنیف شاہد: ۱۹۷۲ء ، ’’نذرِ اقبال‘‘ لاہور، بزمِ  اقبال، کلب روڈ ص۵۵

۷۔ شیخ عبد القادر’’یادِ  اقبال‘‘، مشمولہ’’ نذرِ  اقبال‘‘، ص ۶۷

۸۔ محمد حنیف شاہد، ۱۹۷۲ء ، ’’نذرِ اقبال‘‘ لاہور، بزمِ  اقبال، کلب روڈص ۸۴

۹۔ شیخ سر عبد القادر، ۱۹۸۳ء ، ’’ دیباچہ طبع ثانی۔ کلامِ  غلام بھیک نیرنگ‘‘، ص ۷ ۴

۱۰۔ہمایوں ، شیخ محمد نصیر ( مولف)، ۱۹۶۰ء ، ’’شیخ سر عبدالقادر، دو دیباچے‘‘ مشمولہ’’شیخ عبد القادر‘‘، لاہور، قومی کتب خانہ، ص۷۲

۱۱۔ شیخ سر عبد القادر، ’’ دیباچہ شاہ نامۂ  اسلام ‘‘، جلد اول، ص، ۲۳۔۱۵

۱۲۔ شیر محمد اختر، ’’ عبدالقادر زندہ رہیں گے‘‘، مشمولہ اوراقِ نو، ص ۱۴۴

۱۳۔       جگن ناتھ آزاد، ’’ شیخ عبدالقادر سے چند یادگار ملاقا تیں ‘‘، مشمولہ انتخاب از مخزن، ص۱۱۸

۱۴۔      ریاض قادر ’’ اک شمع رہ گئی تھی ‘‘ مشمولہ ’’ اوراقِ  نو ‘‘ شیخ عبد القادر پر خصوصی اشاعت،  ص ۲۱

۱۵۔ شیخ عبد القادر۱۹۸۶ء ، ’’فنِ تنقید‘‘، مشمولہ مقالاتِ  عبد القادر، ص ۲۰۳

۶ ۱۔سید جمیل واسطی، ۱۹۴۸ء ، ’’فکر جمیل ‘‘، کراچی، بشیر اینڈ سنز، ص۶

۷ ۱۔محمد عبد اللہ قریشی، ۱۹۷۷ء ، ’’معاصرین اقبال کی نظر میں ‘‘لاہور، مجلس ترقیِ ادب،  ص، ۵۸۴

۱۸۔ہمایوں ، شیخ محمد نصیر ( مولف)، ۱۹۶۰ء ، ’’شیخ عبد القادر‘‘، لاہور، قومی کتب خانہ، ۱۱ دسمبر ۱۹۴۰

۱۹۔برجیس ارشاد سے مکالمہ

۲۰۔ محمد حنیف شاہد، ۱۹۹۲ء ، ’’ شیخ سر عبدالقادر، کتابیات‘‘ اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبانِِ، ص ۳۰

۲۱۔ محمد نصیر ہمایوں مؤلفہ ’’شیخ سر عبدالقادر، دو دیباچے‘‘ مشمولہ’’ شیخ عبد القادر‘‘، ص۷۶

٭٭٭

 

 

 

 

 شیخ سر عبد القادر کی دیگر جہات

 

                OTHER CREDENTIALS

 

Sheikh Sir Abdul Qadir was Editor of Makhzan. He wrote essays, articles and preambles. Besides these all SAQ has many other positions which we cannot ignore. He translated from French to Urdu; he delivered extempore lectures; speeches both in Urdu and English in full command and captured the audience. His role as a parliamentarian is noticeable; his "safar nama” is worth reading; he carries the reader every where he goes. His Letters are not less than a literary thesis. As a researcher he influences the reader and creates a craze to know further. He was not a poet but maintains a poet conscious. He played vital role in projecting Allama Iqbal in early life and Iqbal recognized his potential in his poetry as well.

 

                تراجم

 

انگریزی، فرانسیسی اور دیگر مغربی زبانوں کے علاوہ ہندی، سنسکرت، فارسی اور عربی کی ادبیات عالیہ کے نمونے سلیس، سادہ، اور با محاورہ ترجموں کے ساتھ مخزن کی زینت بنتے اور اردو داں صاحبان کے سامنے پیش کیے جاتے تھے۔ خود شیخ عبد القادر نے فرانسیسی زبان سے تین بہترین افسانے ترجمہ کیے جو ’’ وطن آخر وطن ہے‘‘’’ دل ہی تو ہے‘‘ اور’’ تاجدار بیوی کا بے تاج شوہر‘‘ کے نام سے مخزن میں چھپے۔‘‘۱؎

 

                 خطبات و تقاریر

 

برطانوی حکومت کے زمانے میں بڑے سے بڑا منصب جس کی ایک ہندوستانی آرزو کرسکتا تھا شیخ صاحب کے حصے میں آیا مجلسِ  قانون ساز کی صدارت اور وزارتِ تعلیمات پر وہ فائز رہے … ہندوستان کی ہر قابلِ ذکر انجمن کی صدارت ان کے حصے میں آئی۔… اور اہلِ  نظر جانتے ہیں کہ صدارت کا جو ملکہ قدرت نے شیخ صاحب کو عطا کیا تھا مشکل سے ہی کسی اور کے حصے میں آیا ہو گا۔ متانت اور وقار کے ساتھ ساتھ بذلہ سنجی اور حاضر جوابی سے وہ ایوان میں ایک نہایت لطیف اور دل خوش کن فضا پیدا کر دیتے تھے۔ ‘‘ ۲؎

سر عبد القادر کے لیکچرز، خطبات اور تقاریر کی تعداد کا شمار مشکل ہے۔ شیخ صاحب ان گنت مجلسوں کے صدر رہے۔ بہت سے مقامات پر انھیں صدر کی حیثیت سے مدعو کیا جاتا تھا۔ وہ کبھی خطبۂ  صدارت تیار کر کے نہیں لے گئے ہمیشہ فی البدیہہ خطاب کیا۔ حافظہ اور یادداشت بہترین تھی۔ سیکڑوں شعر یاد رہتے تھے اور موقع محل کی نسبت سے ان کا استعمال بھی خوب جانتے تھے۔ ان کے خطبات، تہذیب و شائستگی کے ساتھ ساتھ شگفتگی کے بھی مظہر تھے۔

یہ لیکچرز، خطبات اور تقاریر، انجمن حمایتِ  اسلام، ندوۃ العلما، انجمن مستشار العلماء لاہور ، آل انڈیا محمڈن اینگلو اوریئنٹل کانفرنس کراچی، امرتسر میں کی گئیں۔   زیادہ تعداد انجمن حمایت اسلام میں دیے گئے خطبات پر مشتمل ہے۔ چند ایک عنوانات دیکھیے جو شیخ صاحب کی قوم سے ہمدردی اور مسلمانوں کی اخلاقی، تعلیمی اور مذہبی اور اقتصادی صورتِ  حال میں بہتری کی خواہش کے آئینہ دار ہیں۔   شد پریشاں خوابِ من از کثرت تعبیر ہا، ہمارے بدترین دشمن گریہ و خنداں ، رشتۂ  الفت، دوریِء منزل، معائبِ دوست، اسلام اور عیسائیت، اتحاد و نا انصافی، تعلیمی ترقی، تنظیم، قطرہ و دریا، مسلمانوں کی اقتصادی حالت، اجتماعی قوت وغیرہ

فنِ تقریر سے وابستگی کوئی دو چار برس کی بات نہیں نصف صدی کا قصہ ہے۔ خود نوشت سوانحی خاکے میں لکھتے ہیں۔   مدرسے کے اساتذہ میں ایک مولوی صاحب تھے جنھیں شوق تھا کہ لڑکوں کو تقریر کرنا سکھائیں ، انھوں نے ایک مجلس بنائی اور ہر ہفتے ان کی صدارت میں تقریری مقابلے ہوتے۔ شیخ صاحب بھی ایک مرتبہ مضمون لکھ کر لے گئے اور اسے تقریری انداز میں سنا دیا۔ مولوی صاحب کو میرا انداز پسند آیا، ان کی شاباش نے حوصلہ بڑھایا اور وہ اکثر و بیشتر تقریریں کرنے لگے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مشق کی بدولت مجھے قومی و بین الاقوامی مجالس میں خطاب کرنے میں کبھی کوئی دقت نہ ہوئی۔۳؎

مخزن ادب کے اداریے میں شیخ صاحب کے فنِ  تقریر پر عبور اور ان کی قادر الکلامی کا تذکرہ کیا ہے۔

’’… جسٹس شاہ دین صاحب مرحوم ( مرحوم کے ساتھ صاحب کا استعمال قواعد کے اعتبار سے درست نہیں ) کے دوش بدوش آپ نے زمانۂ  طالب علمی میں ہی ینگ مینز محمڈن ایسوسی ایشن میں قابلِ  قدر خدمات انجام دیں اور ادبیاتِ اردو کے مختلف شعبوں پر اردو اور انگریزی میں پر زور تقریریں فرمائیں آپ کی طلیق اللسانی سے انجمن حمایت اسلام اور مسلم لیگ نے ہی فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ لاہور کے علاوہ پنجاب کے بڑے بڑے شہروں کی تمام مقتدر انجمنیں بھی اپنے سالانہ اجلاس میں آپ کو بزور مدعو کرتیں رہیں جہاں ہمیشہ آپ کے پر جوش و پر تپاک استقبال ہوئے اور آپ کی تقریروں کو پورے شوق و محویت سے سنا جاتا۔‘‘۴؎

۱۹۰۴ء میں دہلی میں سیاسی رہنماؤں ، علما اور دانشوروں کا اجتماع منعقد کیا جاتا ہے جس میں علامہ اقبال، شیخ عبد القادر، وقار الملک، حکیم اجمل خان، مولانا حالی، محسن الملک، شبلی نعمانی اور مولانا ظفر علی خان وغیرہ شامل تھے۔ دہلی۲۹ دسمبر ۱۹۲۶ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس شیخ عبد القادر کی صدارت میں منعقد ہوا۔ دسمبر۱۹۳۰ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس الہ آباد میں علامہ اقبال کی صدارت میں منعقد ہوا۔شیخ عبد القادر بھی شریک تھے۔ اسی تاریخی اجلاس میں علامہ اقبال نے نظریۂ  پاکستان پیش کیا تھا۔لندن میں دوسری گول میز کانفرنس منعقدہ ۷ دسمبر ۱۹۳۱ء میں علامہ اقبال اور شیخ عبد القادر، سید امجد علی اور مولانا شوکت علی شامل تھے۔۱۹۳۳ ء میں ادارۂ معارفِ  اسلامیہ لاہور کے پہلے اجلاس کی صدارت علامہ اقبال نے کی۔ عہدے داروں میں سر عبد القادر حبیب الرحمن شروانی بھی شریکِ  اجلاس تھے۔  ۵؎

سر عبد القادر کے وہ سیاسی خطبات جو انھوں نے انجمن حمایت اسلام، آل انڈیا مسلم لیگ اور دیگر مقامات پر دیے، مختلف النوع موضوعات پر ہیں ، ان کی تقاریر اور خطبات کے موضوعات ہند کی سیاسی صورت حال سے متعلق ہیں۔  وہ صرف تقاریر و خطبات کے ذریعے ہی اپنا ما فی الضمیر بیان نہیں کر رہے تھے بلکہ مسلم قیادت کے ساتھ عملی قدم بھی اٹھا رہے تھے۔ شدھی اور سنگھٹن تحریک کے بانی سوامی شردھانند نے قتل و غارت گری کا وہ بازار گرم کیا کہ مسلمانوں کی جان و مال کی کوئی قیمت نہ رہی۔ ایک مسلمان نے اس مسلم دشمن شخص کا خاتمہ کیا کیا، ہندو رہنماؤں نے ہندوؤں کو مسلم کش فسادات پر ابھارنا شروع کر دیا۔۳ مئی ۱۹۲۶ کو ہندو مسلم فساد کے نتیجے میں دو سو افراد مارے گئے۔ شیخ سر عبدالقادر، علامہ اقبال اور میاں عبدالعزیز کے ہمراہ فساد زدہ علاقوں میں جا کر لوگوں کو صبر و برداشت سے کام لینے کی تلقین کرتے رہے۔

برصغیر کا سیاسی منظر نامہ بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا تھا ہندو قیادت کی بدنیتی کھل کر سامنے آ رہی تھی۔ مسلمان رہنما اس امر پر متفق ہو رہے تھے کہ ہندوؤ ں کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام مسلم جماعتوں کا ادغام ضروری ہے۔یہ مشترکہ اجلاس۱۹۲۹ء میں ہوا اور ان مسلمانوں نے جو نہرو رپورٹ کے حق میں تھے۔ ایسی بد نظمی کی فضا پیدا کی کہ محمد علی جناح اپنے چودہ نکات بھی پیش نہ کرسکے، اس کا رنج سبھی مسلمانوں کو تھا۔۷اپریل۱۹۲۹ء کو علامہ اقبال، فیروز خان نون اور شیخ عبد القادر نے ایک مشترکہ علامیہ جاری کیا، اس رپورٹ میں نہرو رپورٹ کی حمایت کرنے والوں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ چند ماہ بعد دونوں مسلم لیگوں کا ادغام ہو گیا اور محمد علی جناح کو صدارت سونپ دی گئی۔۶؎

شیخ سر عبدالقادر نے فعال اور متحرک زندگی گزاری، طالبِ علمی کے زمانے سے ہی وہ انجمن سازو بزم آرا شخصیت کے طور پر سامنے آتے ہیں۔   علمی، ادبی، تعلیمی، صحافتی، سیاسی اور حکومتی سطح پر قائم کی گئی انجمنوں کے اجرا یا ان کے منعقدہ اجلاسوں میں ان کی شرکت، کہیں رکن کی حیثیت سے تو کہیں جنرل سکریٹری، کہیں نائب صدر تو کہیں مسندِ صدارت پر متمکن۔ ایسے ہی دو اجلاسوں کا ذکر ڈاکٹر تاثیر، ’’اقبال کا فکرو فن‘‘ میں کرتے ہیں۔  ’’۶ اپریل (۱۹۳۵ء)کو بصدارت سر عبد القادر ایک لیکچر دے رہا ہوں علامہ اقبال کی شاعری پر …‘‘ تاثیر۱۴ اپریل ۱۹۳۵ء مولانا عبد المجید سالک کے نام خط میں تحریر کرتے ہیں۔  ’’ یہاں ایک ہندوستانی بزم بنی ہے(زیرِ صدارت سر عبد القادر، شرر سکریٹری ہے)اس بزم میں ، میں نے ایک دو بار بالِ جبریل سے بھی کچھ سنایا ہے۔۷؎

کے۔ کے۔ عزیز A BIOGRAPHY OF  ABDULLAH YOUSAF ALI   میں عبداللہ یوسف علی کے دیرینہ دوستوں کے ذکر میں شیخ صاحب کی تعلیمی، علمی و پیشہ ورانہ مصروفیت کے ساتھ ساتھ ان کی سیاست سے دلچسپی کا تذکرہ بھی کرتے ہیں۔

"A prominent  member of  the Punjab Unionist Party , but also  worked in the All India Muslim league, its president,6291.President Anjuman .i.himayat -i.Islam ,Lahore  for several years. Member Kamal Yar Jung Education Committee,1940.Fellow  Punjab  university.Great  supporter  of spread  of urdu  language in the Punjab.”  ۸؎

سر فضلِ  حسین اور لال چند کی قائم کردہ نیشنل یونینسٹ پار ٹی سے بھی سر عبد القادر کا تعلق رہا۔ ۲۷ اپریل ۱۹۳۶ء کو لاہور سے لکھے گئے مکتوب بنام عظیم صاحب، سر فضلِ حسین رقم طراز ہیں

’The pamphlet ”Punjab Politics ” has received  a good  deal of currency . I hope Sir Abdul Qadir  has got a large  number of  copies  of it  and is taking  steps to circulate it.

LETTERS OF  MIAN FAZL I  HUSSAIN    EDITED BY  DR. WAHEED  AHMAD   PAGE 526(9))

 

                سر عبد القادر پارلیمنٹرین کی حیثیت سے

 

سر عبد القادر قانون سازکی حیثیت سے انجام دی گئی خدمات سے صرفِ  نظر ممکن نہیں۔  وہ ۲ جنوری ۱۹۲۴ء کو پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے دوسرے دور کے رکن مغربی قصبات پنجاب کی حیثیت سے حلف اٹھاتے ہیں۔   تیسرے ہی روز وہ کونسل کے بلا مقابلہ نائب صدر منتخب ہو تے ہیں۔   ۱۷ مارچ کو ہونے والے اجلاس میں سر عبد القادر بھی بحث میں حصہ لیتے ہیں اور پنجاب کے مختلف شہروں میں انٹر میڈیٹ کالجوں کے قیام کے اخراجات کے لیے مدلل تقریر کر کے ایوان پر اپنی زبان دانی کی دھاک ہی نہیں بٹھاتے بلکہ اس صداقت اور خلوص کا احساس بھی دلاتے ہیں جو اس مسئلے کے ساتھ وابستہ ہے۔ کونسل کے کئی اجلاسوں میں مختلف نوعیت کے پیش کیے گئے بلوں پر بحث و مباحثہ کر کے اپنے بل منظور کراتے نظر آتے ہیں۔   ۱۶ جنوری۱۹۲۵ء کو ہونے والے انتخابات میں صدر، لیجسلیٹو کونسل مقرر ہوتے ہیں۔  ڈاکٹر گوکل چند نارنگ نے ۳۲ اور سر عبد القادر نے ۴۱ ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ شیخ صاحب اس دوران ایک ماہر قانون اور ماہر آئین کی حیثیت سے جانے جاتے رہے۔ستمبر۱۹۲۵ء میں وہ وزیرِ  تعلیم، پنجاب مقرر ہوئے تو انھیں کونسل کی صدارت سے دستبرداری اختیار کرنا پڑی لیکن جولائی ۱۹۲۹ء تک کونسل سے وابستہ رہے اور پنجاب میں قانون سازی کے عمل میں بھرپور انداز میں شریک رہے۔ ان کی پارلیمانی تقاریر ان کے حسنِ  بیاں ، اردو زبان پر دسترس، مخاطب کو زیر کر دینے والی قوت سے معمور ہیں۔   وہ ایک کامیاب قانون ساز تھے جیسا کہ وہ ایک کامیاب صحافی، مدیر اور ادیب تھے۔   ۱۰

 

                سفر نامہ نگاری

 

سفر، ذوقِ تجسس کی تسکین بھی ہے اور یادوں کا نادر و نایاب خزینہ بھی۔ سفر ایک مرتبہ کیا جاتا ہے لیکن انسان جب اسے لکھتا ہے، اپنے تجربات اور مشاہدات میں اپنے پڑھنے والوں کو شریک کرتا ہے تو در حقیقت وہ اس سفر میں از سر نو، جی رہا ہوتا ہے اور ایک ایسی مسرت سے ہمکنار ہوتا ہے کہ جس سے شاید سفر کے دوران بھی وہ محروم رہا تھا۔

شیخ صاحب سفر کو وسیلۂ  ظفر سمجھتے ہیں ، سقر ( دوزخ) نہیں۔   سفر میں پیش آنے والی مشکلات ان کی نزدیک باعثِ  آزار نہیں بلکہ ان سے بہت کچھ سیکھنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔   دورانِ سفر ان کے رفیقِ سفر وہ مطالعہ جو آغازِ سفر سے پہلے وہ کرتے ہیں ، پھر مشاہدات و تجربات ہوتے ہیں ، جو انھیں زندگی کے متوقع اور غیر متوقع رخ دکھاتے ہیں۔

شیخ صاحب کے سفر ناموں میں ’’ سیاحت نامہ یورپ‘‘ اور ’’ مقامِ  خلافت‘‘ یعنی سفرنامۂ  استنبول ان کے دیدہ و شنیدہ واقعات اور تجربات کا وہ بیان ہے جو انھیں دورانِ سفر میں پیش آئے۔ دیگر سفر نامہ نگاروں کی مانند یا شاید ان سے کچھ زیادہ، شیخ صاحب کے پیشِ نظر بیرونی دنیا کے اس سفر میں اپنا وطن قدم قدم ان کے ہمراہ ہے۔

بیرونِ  ملک بسر کیے گئے تین سالوں کا احوال وہ مسلسل مخزن کے لیے لکھتے رہے۔ اسے سفر نامہ، سیاحت نامہ یا احوال نامہ کہیے۔ ان میں صرف سیر و سیاحت کا احوال ہی نہیں ، ان مقامات پر رہنے بسنے والے مشاہیر کا تذکرہ بھی ہے اور عمومی لوگوں کا تعارف بھی۔

’’ سیاحت نامہ یورپ‘‘ یورپ کے سفر کی دلکش تصویروں کا نادر مرقع ہے۔ سوئٹزر لینڈ کو اس کے قدرتی مناظر اور حسن و خوبصورتی ک کی بنا پر دنیا کی جنت کہا جاتا ہے، یورپ کے سفر پر روانگی ہو اور سوئٹزر لینڈ کی سیاحت کا موقع نہ پیدا کیا جائے تو یہ اپنی ذات کے ساتھ ظلم ہو گا۔ شیخ صاحب نے سفرِ  سوئٹزر لینڈ کا ارادہ کیا اور موسمِ  گرما میں رختِ سفر باندھتے ہیں۔   شیخ صاحب کہتے ہیں کہ اپریل سے ستمبر تک تقریباً تین لاکھ سیاح یہاں آ کر اس پُر فضا مقام کی سیر کرتے ہیں۔   اس پہاڑی مقام پر بے شمار دخانی گاڑیاں ہمہ وقت سیاحوں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک لے جاتی ہیں۔   جھیلوں میں کشتیاں رواں ہیں۔   پھر کھیل تماشے دکھانے والے بھی موجود اگر آپ کو موسیقی سے شغف ہے تو اس کا بندو بست بھی ہے۔ شیخ صاحب کہتے ہیں کہ یہاں کی خوبصورتی کو اپنے اندر جذب کرنے اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک طویل مدت درکار ہے لیکن ہمارا احوال تو یہ تھا کہ ہم اس بات پر عمل کر رہے تھے کہ جی بھر کر دیکھنا میسر نہ ہو تو ایک جھلک بھی غنیمت ہے جیسے تیتری باغ کی سیر کرتی ہے۔

ہر گلے را رنگ و بوے دیگر است

یعنی ہر مقام کو پہلا اور آخری سلام دونوں ایک ہی سانس میں کر لیتے ہیں۔   ۱۹ جولائی ۱۹۰۶ء کو سوئٹزر لینڈ سے پہلی واقفیت لوسرن کا عجائب خانہ تھا، جو مختلف حصوں میں منقسم ہے آلاتِ  حرب جو زمانۂ  قدیم سے اب تک مستعمل تھے، سبھی زمانی ترتیب سے رکھے گئے تھے۔ شیخ صاحب کا اگلا پڑاؤ’’ برفانی باغ‘‘ گلیسیئر گارڈن یعنی تودہ ہائے برف کا باغ کہتے ہیں۔   یہ تودے اس زمانے کی یاد گار ہیں جب سوئٹزر لینڈ دنیا کے نقشے پر موجود نہ تھا۔ ماہرین طبقات الارض نے زمانہ ما قبل تاریخ کے اس عہد کا سراغ لگایا ہے کہ جب زمین کا شمالی حصہ تمام تر پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اور اگر کوئی مقام خشک تھا تو وہاں بھی انسان کا وجود نہ تھا البتہ حیوانات کا سراغ ملتا ہے لیکن وہ بھی ایسے جن کی نسل اب مقطوع ہے۔ کہیں کہیں سے ان کی ہڈیاں اور ڈھانچے دستیاب ہیں جن سے ان کی ساخت کے علم ہوتا ہے۔ لوسرن میں برف کے پگھلنے سے جو سیلاب برپا ہوا تو بڑے بڑے تودے چکراتے ہوئے آئے اور بھنور میں پھنس کر رہ گئے شیخ صاحب کہتے ہیں کہ ۱۸۷۶ء تک اس برفانی باغ سے پہلے ایک چراگاہ ہوا کرتی تھی اور اس چرا گاہ کے نیچے برفانی کارخانہ اپنا کام کر رہا تھا۔ سبھی اس کی موجودگی سے لا علم تھے۔ اتفاق سے ایک روز وہاں ایک سوراخ دیکھا گیا، اور برفانی چکی کے چلنے کی آواز سنائی دی۔ فوراً ماہر ارضیات کا اجتماع ہوا زمین کھودی گئی ایک بر فانی چکی پھر دوسری تیسری بے شمار چکیاں نکل آئیں تب سے یہ حصہ چرا گاہ کے بجائے برفانی باغ کے طور پر سیاحوں کی دلچسپی کا محور بن گیا۔ کھدائی کے دوران دریافت ہونے والے جانور اور درخت بھی ایک عجوبہ ہیں جو اب پتھر کے بن چکے ہیں۔   تاریخ و جغرافیہ کے طالبِ  علموں اور سیاحوں کے لیے یہ مقامات بہت پرکشش ہیں۔   یہاں قدیم سوئٹزر لینڈ کا طرز رہائش اور ہتھیار و اوزار بھی نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔   عربوں کے مشہور قصرِ الحمرا کی طرز پر بھول بھلیاں بھی بنا وی گئی ہیں جو سیاحوں کے لیے ایک تحیر خیز فضا کو جنم دینے کا سبب ہیں۔   وہاں سے واپسی پر کیتھولک مذہب کے اہم گرجا گھر ’’ ہوف کرک ‘‘ سے ہوتے ہوئے جھیل کی سیر کو جا نکلے

لوسرن جھیل دنیا کی خوبصورت ترین جھیلوں میں سے ایک ہے ۲۳ میل طول اور آدھ میل سے تین میل عرض ہے چاروں طرف پہاڑ اور سبزہ ہی سبزہ ہے۔ کشتی کی سیر نے تو عجب ہی مزا دیا۔ وہاں سے رکی کلم کی سیر کے لیے ٹرین پربیٹھے ترین خطرناک بل کھاتی چڑھائیاں نہایت مہارت سے چڑھی جاتی تھی۔ سطح سمندر سے پانچ ہزار نو سو فٹ بلنداس پہاڑی سلسلے پر پہنچ کر سیاح دنیا کے بہت ہی خوب صورت منظر سے لطف اندوز ہوتا اور قدرتِ  کاملہ کی صناعی کی داد دینے پر مجبور ہوتا ہے نیچے چودہ چھوٹی بڑی جھیلوں کا شفاف جھاگ اڑاتا پانی، درختوں اور پودوں کی کثرت اور دلفریب خوشبو… اے خدا تیری جنت اس سے بھی خوبصورت ہو گی ؟

لوسر ن میں ایک روزہ قیام کے بعد شیخ صاحب اٹلی روانہ ہوتے ہیں۔   سات گھنٹے بعد میلان پہنچے، راستے میں خوبصورت مناظر اور دل خوش کن نظارے دل لبھاتے رہے، لیکن ایک چیز نے بہت بیزار کیا۔ تمام راستے میں اتنی سرنگیں تھیں کہ دھوئیں کے مارے دم گھٹتا محسوس ہوتا تھا۔ کسی کسی وقت طبعیت مکدر بھی ہوتی تھی کہ پہاڑوں اور قدرتی مناظر کا حسن غارت کر کے انھوں نے اس پرسکون فضا کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے، لیکن جلد ہی یہ احساس غالب آ گیا کہ ان کوہکنوں نے انسانوں کی سہولت کے لیے کتنی مشقت سہی اور وہ کام کر دکھایا جو بظاہر نا ممکن نظر آتا تھا۔ ان فرہادوں نے سوئٹزر لینڈ اور اٹلی کو انھی سرنگوں کے ذریعے ملا دیا ہے۔ شیخ صاحب اس سفر میں اس امر پر متعجب ہیں کہ ہر سٹیشن کا نام واؤ پر ختم ہوتا ہے۔لوگانو، کیاسو، کامو۔ تاریخ ادب کا مطالعہ کیجیے یا تاریخِ ادب کا، تاریخ دان اور مصنفین اٹلی کے حسن، اس کی تہذیب و ثقافت اور ادب سے گریز نہیں کر سکے۔ فنِ  مصوری اور فنِ بت تراشی میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔   صباحت و ملاحت، نزاکت و لطافت میں یہاں کی خواتین پورے یورپ میں سب سے بڑھ کر ہیں۔   موسم گرمیوں میں شدید گرم ہوتا ہے سر شام لوگ گھروں سے باہر نکل بیٹھتے ہیں۔   عورتیں کم ہی گھروں سے باہر نکلتی ہیں۔   پھول، پھل اور سبزیوں والے اس ی طرح سودا بیچتے ہیں جیسے ہمارے ہاں ، حتیٰ کہ فقیر بھی صدا لگاتے دیکھے گئے ہیں۔   انھی دنوں ایک بین الاقوامی نمائش کا چرچا ہوا دیکھنے گئے تو تمام ممالک کی مصنوعات نمائندگی کر رہی تھیں ہنددستان کے سٹال کے لیے نگاہیں متلاشی رہیں ، آخر انگلستان کے خیمے میں جے پور کے چند برتن اور دوپٹے دکھائی دیے۔

اٹلی کے باشندے باتونی ہوتے ہیں اور شانے ہلا ہلا کر باتیں کرتے ہیں ، ان کے کھانے ہندوستان کے کھانوں سے مماثلت رکھتے ہیں۔   نمکین اور میٹھی سیویوں ( نوڈلز) پسندیدہ خوراک ہے۔ اطالوی شیریں زبان ہے، ان کے لہجوں میں نرمی اور ملائمت ہے۔ اٹلی کی سیاحت وقت کم اور خواہشیں لاتعداد، لیکن کم سے کم وقت میں بھی شیخ صاحب نے ہر منظر بغور دیکھا۔

لطف کی بات یہ کہ موازنہ صرف اپنے وطن اور اس ملک کے درمیان نہیں کہ جہاں وہ سفر کر رہے ہیں بلکہ وہ مختلف ممالک کی تہذیب و ثقافت اور زبان و بیان کا تقابل کرتے جاتے ہیں۔   ’’ گلبازی یا گلباری‘‘ بولوں شمالی فرانس میں منعقد ہونے والا وہ میلہ کہ جہاں کثرت سے پھول برسائے جاتے ہیں۔   بولوں انگلستان کے جنوبی ساحلِ کے مقابل ہے جولائی اگست کے مہینے میں انگریز بھی گھنٹے سوا گھنٹے کا سفر کر کے آ جاتے ہیں یہاں شیخ صاحب کا تحریر کردہ ایک فقرہ قابلِ غور ہے۔’’ادھر ریلوے اور جہاز کی کمپنیاں خلقت کا رجوع دیکھ کر کرایہ بھی کم کر دیتی ہیں اور اس تخفیف سے ہر دل میں امنگ اٹھتی ہے کہ ذرا سی ہمت اور تھوڑے سے خرچ سے ایک نئی سر زمین دیکھی جا سکتی ہے، کیوں نہ دیکھ لیں۔  ‘‘ عصرِ موجود میں مسلم ممالک کا یہ حال ہے کہ تعطیلاتِ موسم گرما کا موقع ہو یا  حج و عمرے کا، کرائے میں ایک دم اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریز بڑی تعداد میں بولوں فرانس پہنچتے ہیں ، ہر جانب انگریزی اور فرانسیسی کی آوازیں کانوں میں گونجتی ہیں۔

شیخ صاحب کا علم، تجربہ اور مطالعہ بتاتا ہے کہ انگریز زبان سیکھنے سیکھانے میں اتنے تیز نہیں ہوتے، صدیوں کے میل ملاپ اور تدریس کے باوجود فرانسیسی زبان پر دسترس نہیں رکھتے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ چند ایک جملوں کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔ فرانسسیوں کا بھی یہی حال ہے، اپنی دکانوں کے باہر لکھ کر لگا دیتے ہیں کہ یہاں انگریزی بولی اور سمجھی جاتی ہے، لیکن ان کی انگریز دانی دو جملوں کے بعد ختم ہو جاتی ہے، پھر اشاروں سے کام چلتا ہے۔ گلباری کی تیاریاں کئی روز پہلے سے شروع ہو جاتی ہیں۔   گل فروشوں کی دکانیں پھولوں سے لدی پھندی دکھائی دیتی ہیں۔   تماشے کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ ایک پھولوں سے سجی سنوری گھوڑا گاڑی، فرانسیسی خاتون، ایک پھول سے بچے کو لیے بیٹھی ہے، اس کے آتے ہی دونوں جانب سے پھول برسنے شروع ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے۔ پھولوں سے لدی سجی ہوئی گاڑیاں آتی ہیں ، جن میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خود پربرسنے والے پھولوں کا جواب بڑھ چڑھ کر دیتے ہیں۔   یہ منظر دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے سیاح آئے ہوئے ہیں۔   دو گھنٹے کے تماشے کے بعد سبھی ایک ایک کرکے رخصت ہوئے اور شیخ صاحب کو اپنے ملک کی ہولی کی یاد دلا گئے۔ ہولی کی چہل پہل، آب گلرنگ کے بجائے گل پاشی شاید وہیں سے اس کا آغاز ہوا ہو گا۔ شیخ صاحب کا ذہن اس جانب بھی گیا کہ ساری ایشیائی قومیں مغرب کے ہاتھوں گل بازی بنی ہوئی ہیں ، لیکن اگر ان گلوں میں قوتِ  اجتماع پیدا ہو جائے تو ان زیادتیوں سے محفوظ ہو جائیں۔   ایک گل بازی کا تماشا کن کن خیالات کے جنم لینے کا باعث ہوا۔

’’ مقامِ خلافت‘‘ عنوان سے مترشح ہے، برادر ملک ترکی کا سفر نامہ ہے۔ ترکی دنیا بھر کے مسلمان خصوصاً برصغیر کے مسلمانوں کے لیے خلافت عثمانیہ کے باعث عقیدت و احترام کی جگہ تھی خود شیخ صاحب اس بات کا اقرار کرتے ہیں ’’ مقامِ  خلافت کی دیرینہ آرزو مجھے اسنتبول لے گئی۔‘‘ شیخ صاحب چند رور کے لیے ترکی گئے لیکن وہاں کے مقامات کی کشش اور عوام و خواص کی محبت نے انھیں سات ہفتوں تک وہاں قیام پر آمادہ کیا۔ پھر شیخ صاحب ایک واضح تعلیمی پس منظر رکھتے تھے۔ بر صغیر کی ایک اہم سیاسی علمی ادبی و سماجی شخصیت تھے ان کی پذیرائی بھی خوب ہوئی اور ان مقامات پر جانے بھی جانے کی سہولت و سعادت میسر آئی کہ جہاں عام آدمی کی رسائی نہیں۔   اب جبکہ استنبول دیکھتے ہوئے انھوں نے آنکھیں ہی نہیں ذہن و دل بھی وا رکھے۔ بصیرت ہی نہیں محسوسات و معلومات کو بھی اپنا رہنما کیا۔ پھر ترکی کی بعض اکابرین بھی رہنما کے فرائض انجام دے رہے تھے، شیخ صاحب کو خود اندازہ ہو گیا کہ انھیں اس سیر و سفر میں دوسروں کو بھی شریک کرنا چاہیے۔ اب چونکہ وہ ایک بڑے پرچے کے مدیر بھی ہیں ، انھوں نے اس سفر کی روداد اپنے قارئین کے لیے لکھنی شروع کی، جو مخزن کے شماروں میں شائع ہوتی اور اپنی دلچسپی کے سبب لوگ اگلے باب کا انتظار شروع کر دیتے۔ چونکہ یہ سفر نامہ کتابی صورت میں نہیں لکھا گیا بلکہ متفرق عنوانات کے تحت مختصر ابواب یا مضامین کی صورت میں لکھا گیا ہے اس لیے جب یہ کتابی شکل میں شائع ہوا تو کہیں کہیں ربط میں کمی معلوم ہوتی رہی، شیخ صاحب اسے نہ سفر نامہ منوانے پر اصرار کرتے ہیں نا سیاحت نامہ کہلانے کی کوشش کرتے ہیں۔   وہ کہتے ہیں :

’’ بعض اتفاقات ایسے جمع ہو گئے کہ میں نے استنبول کے قابل دید مقامات کو نہایت معتبر راہبروں کی معیت میں دیکھا اور اکابر سے ملاقات کی، اس لیے چند ہفتوں کے واقعات اس قابل ہو گئے کہ انھیں حوالۂ  قلم کیا جائے۔‘‘ ۱۱؎

اکتوبر ۱۹۰۶ء کے مخزن میں اس سلسلے کا پہلا سفر نامہ شائع ہوا۔ مخزن میں شائع ہونے والے سفر ناموں کے چند عنوانات کے جائزے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کا سفر صرف وقت گزاری کا مشغلہ نہ تھا۔ ’’استنبول اور اس کے دلچسپ مناظر‘‘ استنبول کے دلچسپ مناظر میں شیخ صاحب کا فنِ  خاکہ نگاری عروج پر دکھائی دیتا ہے۔ جس میں کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ پوری ترک قوم کا تعارف ان کے پہناوے کے ذریعے کرایا گیا ہے۔ پوری قوم ترک اقوامِ  متحدہ کا منظر پیش کر رہی ہے۔

’’ سرخ ترکی ٹوپیاں اور ان کے کالے پھندنے سب سے پہلے اپنی کثرت کی وجہ سے نظر کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔   مگر کسی پرانی وجہ کے بزرگ کی خوشنما قبا اور ٹوپی کے گرد سفید عمامے کے بیچ دامن دل کو کھینچتے ہیں اور آنکھ کو کہتے ہیں کہ دیکھ باوفا اس طرح نباہ کرتے ہیں۔   زمانہ بدل جائے تو بدلہ جائے مگر یہ اپنے اصول پرثابت قدم رہیں۔   انھی کے ساتھ وہ سبز عمامے والے بزرگ کون گزر رہے ہیں۔   سبز عمامہ یہاں نشان سیادت ہے۔ سید سب سبز عمامے پہنتے ہیں۔   یہ امتیاز ان کے لیے مخصوص ہے۔ اور کوئی سبز عمامہ نہیں پہن سکتا۔ اچھا تو یہ حضرت خاندان نبوی کی یادگار ہیں۔   ان کے برابر ایک ٹوپی پوش فرنگی گذر رہا ہے۔ لیکن کس سادگی سے، نہ وہ سمجھتا ہے کہ ہم چو ما دیگرے نیست۔ نہ ہمارے ان حضرت کو یہ خیال ہے کہ ان کو چھو گئے تو دامن عبا پلید ہو جائے گا۔سامنے سے ایک ارمنی پادری آ رہا ہے۔ سیاہ چوغہ کھلی آستینیں ، سیاہ اونچی ٹوپی، بہت بڑی داڑھی اور بال لمبے، جنھیں وہ چوٹی کی طرح لپیٹ کر پیچھے لٹکائے ہوئے ہے۔ یہ نئی چیز دیکھنے میں آئی۔ یہی وہ عالی جناب ہیں جو اکثر چپکے چپکے بکھیڑے کھڑے کر دیا کرتے ہیں اس وقت یہ بہت بھولے بھالے، غریب سے نظر آتے ہیں اور نہایت امن پسندی سے جا رہے ہیں مگر ہیں طرفہ معجون مرکب۔ عادت میں مشرقی، تعصب میں مغربی، آزادی کی اہلیت کم مگر شوق زیادہ، مگر ان کے دیکھنے میں کون زیادہ وقت صرف کرے۔ ان سے بڑھ کر ایک قابل توجہ نظارہ موجود ہے۔ وہ سیاہ ریشمی برقعے سے کیا چلے آ رہے ہیں۔   آہا یہ ترک مستورات ہیں۔   ترکوں کی اکثر رسمیں مغربی اور مشرقی تمدن کی ترکیب سے پیدا ہوئی ہیں۔  ۱۲؎

استنبول کے لوگوں کے پیشوں کا ذکر ہو یا خفتگانِ خاک کی کتھا، اس کی روداد بھی دلچسپ ہے۔ ہر قبر پر کتبہ آویزاں ہے جس پر عربی یا ترکی میں مرحوم کے اوصاف لکھے ہیں۔   کتبے پر عمامہ یا ترکی ٹوپی کی صورت ہونے کا مفہوم یہ کہ کہ لحد میں کوئی مرد ابدی آرام کر رہا ہے۔ اگر تربت پر سنہری پھول ہے تو یہ اس کے صنفِ نازک ہونے کی گواہی ہے اگر کوئی لڑکی شادی سے پہلے یہاں پہنچ گئی ہے تو اس کی قبر کو زیادہ سنوارا جاتا ہے۔ ترکی کے قہوہ خانے ترک قوم کی تہذیب و معاشرت میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔   امیر و غریب سبھی ان قہوہ خانوں کو رونق بخشتے ہیں۔   شطرنج کا شوق بھی انھیں یہاں لے آتا ہے۔ شربت پیجیے یا قہوہ آپ گھنٹوں بیٹھے رہیں ، طبعیت بالکل نہیں اکتائے گی۔ ایک دوجے کا نظارہ کرنا بھی ایک اچھا مشغلہ ہوسکتا ہے۔

اسی سلسلے کا اگلا مضمون ’’استانبول‘‘ کے عنوان سے رقم کیا گیا ہے۔ ’’استنبول اور اس کے دلچسپ مناظر‘‘ ترکی کے حال کا احوال سناتا ہے جبکہ ’’استانبول ‘‘میں ماضی سے حال کی جانب تاریخی و مذہبی سفر کے تدریجی ارتقا کی داستان رقم کی گئی ہے۔ قسطنطنیہ اور استانبول کے ناموں سے مشہور یہ شہر علومِ  تاریخ و جغرافیہ دونوں لحاظ سے اہم ہے۔ امریکہ، فرانس، جرمنی کے باشندے یہاں ہمہ وقت دکھائی دے جاتے ہیں لیکن جو تعلق اور محبت مسلمانوں کو اس شہر سے ہے اس کا سبب اس شہر کا مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہونے کی پیش گوئی حضور پاک ﷺ پہلے ہی کر گئے تھے۔ حضرت ابو ایوب انصاری حضور پاک ﷺ کے وصال کے کچھ ہی عرصہ بعد شہر فتح کرنے کی نیت سے آئے۔ عیسائی شہر کی بلند و بالا فصیل کے حصار میں محفوظ ہو کر بیٹھ گئے۔ مقابلہ بھی ہوا لیکن سامان رسد اور افراد کی کمی پھر وبائی امراض، مسلمانوں کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بنے لیکن یہ اعلان کر گئے کہ حضور کی پیشن گوئی سچ ثابت ہو کر رہے گی۔ عربوں نے سات سال مسلسل حملہ کیا۔ قسطنطنیہ کی ملکہ نے خراج دینا منظور کیا۔ دن گزرتے گئے لیکن مسلمان اس پیشن گوئی کو فراموش نہ کرسکے کہ وہ جزوِ  ایمان تھی آخر عثمانی سلطنت کے فرمانروا سلطان محمد ثانی نے ۴۵۳ ۱ء میں قسطنطنیہ کو فتح کیا۔ تب سے آج تک استانبول ترکی کا دار الخلافہ چلا آرہا ہے۔ شیخ سر عبدالقادر نے استنبول کے ماضی سے حال تک کی تمام روداد، وہاں کی آبادی، طرز رہائش، تجارت، مساجد، سرائے ہوٹل، سبھی کا مختصر انداز میں تعارف پیش کیا ہے۔ اس سفر نامہ کا ایک باب ایا صوفیا کے نام سے لکھا گیا ہے۔ ایا صوفیا یونانی زبان میں دانش و حکمت کو کہتے ہیں ، پہلے یہ گرجا تھا اب جامع اسلامی بن کر اسلام کی تعلیمات کا منبع رہا ہے۔ عیسائیت سے اسلام تک کے اس سفر کی روداد شیخ صاحب نے تاریخی اعتبار سے رقم کی ہے۔ ۳۶۰ء میں قائم ہونے والے اس گرجے نے عروج و زوال کے کئی مناظر دیکھے۔ کئی مرتبہ بنایا گیا کئی مرتبہ تباہ و برباد ہوا، لیکن جب سے مسلمانوں نے اسے مسجد کا درجہ دیا ہے یہ ایسے کسی بھی حادثے سے محفوظ رہی ہے۔ تاریخی آثار سے دلچسپی رکھنے والے مسلم و غیر مسلم سبھی کے لیے یہ عبادت گاہ ایک خاص کشش رکھتی ہے۔ شیخ صاحب نے ایک سیاح کی مانند سرسری انداز میں اس کا نظارہ نہیں کیا بلکہ ایک صاحب نظر کی حیثیت سے اس کے فنِ  تعمیر کا جائزہ لیا ہے۔ فن تعمیر کی حیرت انگیز مہارت، شیخ صاحب کو متاثر کرتی ہے وہ اس کے گنبد کا موازنہ سینٹ پطرس، فلارنس اور لندن کے گرجا گھروں کے گنبدوں سے کرتے اور اسے کہیں زیادہ وسیع و عریض پاتے ہیں۔   اب یہ گرجا نہیں مسجد ہے اور مسجد میں داخل ہوتے ہی ایک بڑا مٹکا رکھا ہے جس پر زمانۂ  عیسائیت کی ایک عبارت درج ہے کہ صرف منہ دھونا کا فی نہیں ہے اپنے گناہوں کو دھو، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عیسائیوں میں بھی پہلے پہل وضو کا عقیدہ موجود تھا۔ مساجد میں تصویروں کی گنجائش نہیں ہوتی اس لیے اب وہاں قرآنی آیات کندہ کروا دی گئی ہیں۔   مسجد کا محراب بلند ہے امام اوپر کے زینے پر کھڑا ہو کر خطبہ دیتا ہے۔ جمعے کے لیے اس کا لباس مخصوص ہے جو اس کے رتبے کی نشان دہی کرتا ہے شیخ صاحب ایا صوفیہ کی مسجد کا ذکر ختم کرنے سے پہلے اس زمانے کے چند ایک دلچسپ واقعات دہراتے ہیں جب یہ گرجا گھر تھا جنوری ۵۳۲ ء کی آتشزدگی کے بعد جسطنین کو گرجا دوارہ تعمیر کرانے کا خیال آیا تو اس نے اسے عظیم الشان اور بے مثل بنانا چاہا، بھری دوپہروں میں کام کی نگرانی کرتا، پھر اس نے یہ بھی مشتہر کرا دیا تھا کہ اسے عمارت کا نقشہ فرشتے نے خواب میں آ کر بتا دیا تھا۔ بالائے ستم یہ کہ عمارت کی تعمیر کے اخراجات کے لیے سونے کی تھیلیاں خچروں پر لاد کر لایا تھا۔ اسی پر بس نہ کیا بلکہ عمارت کی پیشانی پر یہ عبارت کندہ کروا دی جو اس کی نمود پرستی و مذہبی جوش کا پول کھولتی تھی۔’’ خدا کا شکر ہے جس نے مجھے ایسے بڑے کام کے انجام دینے کے لائق سمجھا، اے سلیمان میں تجھ سے سبقت لے گیا ہوں۔  ‘‘ حقیقت یہ ہے کہ جسطنین نے اپنا یہ شوق پورا کرنے کے لیے، حضرت سلیمان کے تعمیر کردہ بیت القدس سے سبقت لے جانے کی خواہش کے پیشِ نظر عوام سے بھاری ٹیکس وصول کیے۔ زمین کیسے حاصل کی گئی اس کی بھی مختلف روایتیں ہیں ، توسیع کے لیے زمین کی ضرورت پڑی تو چاروں اطراف میں مختلف لوگ مقیم تھے، ایک جانب خواجہ سرا کی قیام گاہ تھی اس نے خوشی سے زمین دی، دوسری جانب موچی رہتا تھا اس نے کہا کہ گھڑ دوڑ کے مقابلے کے رئر ہزار ہا لوگوں کی موجودگی میں اسے خوش آمدید کہا جائے اور زمین کی دگنی قیمت پیش کی جائے، تیسری طرف دربان کا مکان تھا اسے محبوس کر کے دستخط کرا لیے گئے چوتھی جانب ایک ضعیف عورت رہتی تھی اس نے کسی بھی قیمت پر اپنا مکان دینے سے انکار کیا۔ جسطنین خود اس کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے اس شرط پر زمین دینی منظور کی کہ مرنے کے بعد اس کی تدفین اس مقدس مقام پر ہی کی جائے تا کہ آخرت میں ثواب کی حق دار ہوں۔   عیسائیوں کے علاوہ مسلمانوں میں بھی اس گرجے سے متعلق کچھ روایتیں منسوب ہیں کہ آنحضور کی پیدائش کے روز قصر نوشیرواں ہی نہیں ہل گیا تھا بلکہ اس عالی شان گرجے کی بنیاد بھی لرز کر رہ گئی تھی اور اس کا ایک حصہ زلزلے سے گر گیا تھا، دیوار پر ایک ہاتھ کا نقش ثبت ہے کہا جاتا ہے کہ سلطان محمد فاتح نے گرجا چونکہ قبلہ رو نہ بنا تھا زور سے ہا تھ مار کر اس کا رخ قبلہ کی جانب کر دیا۔ استنبول میں شاہی مسجدوں کے علاوہ پانچ سو مساجد ہیں جن میں ایا صوفیا اہم مساجد میں شمار ہوتی ہے۔

شیخ صاحب وہاں پر موجود بچے کی قرات سننے کی سعادت بھی حاصل کی۔ شیخ صاحب کہتے ہیں کہ گذشتہ دنوں ریل کے سفر کے دوران میں نے ایاصوفیہ کا نظارہ کیا تو مجھے اس عمارت میں کوئی خصوصیت نظر نہ آئی۔ جب اسے قریب سے دیکھنے کا، اتفاق ہوا تو علم ہوا کہ باہر سے سادہ نظر آنے والی اس مسجد کے اندر کیسے کیسے حیرت زا باب کھلے ہیں۔

اگلے باب میں استانبول کے بابِ مسقف کا بیان ہے جسے دیکھ کر مصنف کو الف لیلہ کی کہانیاں یاد آ گئیں۔   یہ مسقف بازار تعداد میں بے شمار ہیں ، بازار کیا ہیں بھول بھلیاں ہیں۔   بلند و بالا دیواریں اور اوپر چھت ہے اند داخل ہونے کے لیے بہت سے دروازے ہیں۔   ہر دروازہ کسی مخصوص جنس تجارت کے لیے ہے۔ زر گر، جوہری، کپڑے، شال، قالین اور ظروف، غرض ہر نوع کے لیے الگ الگ حصے مختص ہیں۔  اس بازار میں ایرانی فارسی، ارمنی، یونانی، انگریزی، فرانسیسی، روسی اور جرمنی زبانوں کا غلغلہ بلند ہوتا رہتا ہے۔ بازار بہت مضبوطی سے تعمیر کرایا گیا ہے۔ ۱۸۹۴ء میں زلزلے سے تباہی کے نتیجے میں اس بازار میں بھی سیکڑوں جانیں تلف ہوئی تھیں ، جن کے سبب بعض لوگ اب تک دہشت زدہ ہیں اور وہاں جانے سے گھبراتے ہیں۔   اس قسم کے بازار یونانِ قدیم اور روما کی معاشرت میں بھی ملتے ہیں۔   قسطنطنیہ شاہانِ  بزنطائن کے دور میں بھی یہ بازار تھا۔ لندن میں بھی مسقف بازار موجود ہیں جنھیں آرکیڈ کہتے ہیں ، مصنف نے یورپ کے دیگر شہروں میں بھی ایسے بازار دیکھے ہیں شمالی ہندوستان میں نو چندی کے میلے اور نمائشوں میں اسی طرح حرفت وار دکانوں کی قطاریں لگا کرتی تھی۔ جنہیں انواع و اقسام کے کھانوں سے دلچسپی ہے، خصوصاً ترکی کے روایتی کھانے ہمہ وقت دستیاب ہیں۔   ان بازاروں میں پھرنے کا وقت شام سے پہلے کا ہے۔ خریداری بہت ہوشیاری سے کرنے کی ضرورت ہے کہ دکان دار اجنبی گاہک سے منہ مانگے دام ہی وصول کرنا چاہتے ہیں۔   آج کل یورپی طرز کے شاپنگ مالز کے رواج کی وجہ سے ان مسقف بازاروں کی طرف رجحان کچھ کم ہو گیا ہے۔ اگلے باب میں ’’خان والدہ‘‘ ایرانیوں کے مشہور تجارتی مرکز کا بیان ہے۔ ترکی میں سرائیں بکثرت ہیں جنھیں ’’ خان‘‘ کہتے ہیں۔

’’خان بازار ‘‘چار سو کمروں پر مشتمل قدیم ترین سرائے ہے۔ تجارت کی کامیابی میں ان سراؤں ؍ بازاروں کا بہت ہاتھ ہے۔ خان بازار میں داخل ہوں تو دفعتاً محسوس ہوتا ہے کہ روم سے ایران آ گئے ہیں۔   ایرانیوں کی حب الوطنی نے اسے منی ایران کا درجہ دے رکھا ہے۔ ہر کمرے کے آگے درخت، انگور کی بیلیں لگی ہیں۔   سر شام چھڑکاؤ ہوتا ہے محفلیں سجتی ہیں ، تاجر ہیں لیکن علم دوست اور با ذوق ہیں۔   علم و فن اور شعر و و سخن کی اس محفل میں سبھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔   خود مصنف وہاں بغرض خریداری نہیں بلکہ مرزا محسن اصفہانی، اور حاجی زین العابدین مراغہ کی دوستانہ کشش لے جاتی رہی۔ جہاں علمی و ادبی محفل کا ذکر ہو شیخ صاحب کے شوق و انبساظ کی کیفیت دیدنی ہوتی ہے۔ وہاں ہونے والی نشستوں میں مذہبی تمدنی اور سیاسی معاملات بھی زیرِ  بحث آتے ہیں۔   ماہ محرم میں یہاں منعقد ہونے والی مجلسِ  عزا داری کی رونق بھی قابلِ  دید رہی۔ پُر جوش ماتم دل دہلا کے رکھ دیتا ہے۔ مصنف کے قیام کے دوران اس کا ایک حصہ گر گیا۔ اب جب بھی بنے گا نئے طرز پر بنے گا۔ زمانہ اس طرح بدلتا رہتا تھا، جو پرانی چیزیں ہیں وہ غنیمت جا نی جائیں۔

اس سفر نامہ کا اہم ترین باب جامع ایوب و ہفت برج ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری حافظِ  قرآن تھے اور لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔آپ نے عہدِ نبوی کے تمام غزوات میں حصہ لیا اور آپ کے وصال کے بعد بھی ساری زندگی جہاد میں مصروف رہے۔ امیر معاویہ کہ عہد میں قسطنطنیہ کے جہاد میں شہادت پائی اور آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو شہر پناہ سے متصل دفن کیا گیا۔ صحابیِ رسول حضرت ابو ایوب کے مزار کی نشان دہی شیخ شمس الدین ابیض ولی ء کامل کو خواب میں ہوئی۔ سلطان محمد فاتح نے مزار تعمیر کرایا اور شاندار مسجد بنوائی۔ حضرت ابو ایوب انصاری کا مزار ایوان سرائے میں ہے۔ مزار اور مسجد شہر سے کچھ فاصلے پر ہے لیکن نمازیوں اور زائرین کا ہجوم موجود رہتا ہے۔ مصنف جمعہ کے روز زیارت کے لیے جاتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ یہاں کئی تربت دار متعین ہیں ، دکان دار و چوکیدار و کمان دار وغیرہ تو اردو میں دخیل ہیں لیکن ’’ تربت دار ‘‘ اجنبیت کے باوجود بھلا معلوم ہوا۔ مزار کے گوشے میں کنواں موجود ہے جس کا پانی تبرکاً زائر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔   یہاں قرآنِ  پاک کے قلمی نسخے بھی زائرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتے ہیں۔   خشکی اور بحری دونوں راستے، جامع تک جاتے ہیں۔   خشکی کے راستے جائیں تو راستے میں یدی قلہ اور دیگر تاریخی عمارتیں قابلِ دید ہیں یہ بھی سلطان محمد فاتح کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ عمارت کے تین برج گر گئے ہیں چار برج باقی ہیں لیکن ہفت برج ہی کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔ ہفت برج گویا شہر کے اختتام کا اعلان ہے۔ شہر سے باہر پرانے دروازے بھی موجود ہیں ، جن کے بارے میں پڑھتے ہوئے قاری لاہور شہر کے موچی دروازے، بھاٹی دروازے، ٹکسالی دروازے، دلی دروازے، لاہوری دروازے ، کشمیری دروازے وغیرہ سے غیر شعوری طور پر سے موازنہ کرنے لگتا ہے۔’’ توپ قپودروازہ‘‘ جو پہلے سینٹ رومانس کی نسبت سے رومان دروازہ کہلاتا تھا، ادرنہ قپو دروازہ میں ایک اور چھوٹی سی خوبصورت مسجد جو پہلے گرجا گھر تھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ قاری جامع مسجد ابو ایوب انصاری کی فضاؤں میں تا دیر رہنا چاہتا ہے اسے اس باب میں تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ شیخ عبد القادر نے اس امر سے کیوں صرفِ نظر کیا ہے۔ اس مسجد میں تبرکات اور باقیاتِ  نبوی بھی موجود ہیں۔   یہاں حضور پاکﷺ کے قد مین شریفین کا نقش اور آپ ﷺ کا علم بھی زائرین کی عقیدت و احترام کا سبب ہیں ، ترک عوام ہی نہیں سلاطین کے لیے بھی یہ مقام اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے، سلاطین عثمانیہ یہیں رسم تاجپوشی کی ادائیگی افضل جانتے ہیں شیخ الاسلام نئے بادشاہ کی کمر میں اس سلطنت کے بانی سلطان خان کی تلوار حمائل کرتا۔

مزار ابو ایوب سے ذرا فاصلے پر کاغذ خانہ موجود ہے، جو ایک تفریح گاہ ہے۔ موسمِ  بہار میں جب چھوٹی سی ندی زور شور سے بہتی ہے تو سیاح ہی نہیں مقامی بھی بڑی تعداد میں پکنک منانے گھروں سے نکل پڑتے ہیں اورد ن بھر یہاں رہتے ہیں۔   شیخ صاحب نے اس مختصر باب میں استنبول کے نظام آب پاشی و آب رسانی کا خاکہ کھنچ کر رکھ دیا ہے۔

’’باغچہ کوئی کے قریب سلطان محمود اول کا مشہور ’’ ایکووی ڈکٹ‘‘ یعنی راہِ آب ہے جو ۱۷۳۲ء میں پیرا غلطہ اور بشکطاش میں پانی بہم پہنچانے کے لیے بنایا گیا تھا، سرما میں مینہ کا پانی دو بڑے حوضوں میں جمع کیا جاتا ہے اور وادی بیوک درہ سے ہوتے ہوئے اس ’’ ایکووی ڈکٹ‘‘ کے ذریعے جو جو طول میں پانچ سو ساٹھ گز ہے اور اکیس محراب رکھتا ہے، شہر میں تقسیم ہوتا ہے جہاں پانی بٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس مقام کا نام تقسیم پڑ گیا ہے۔‘‘ ۱۳؎

’’بوغاز و اطہ لر‘‘ اس باب کے آغاز میں شیخ عبد القادر لفظ بوغاز کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہیں ، ترکی زبان میں باسفورس کو بوغاز کہتے ہیں ، جس کے معنی ہیں دو پہاڑیوں کے درمیان کا درہ۔ یہ چونکہ ساحل ایشیا اور ساحل یورپ کے درمیان واقع ہے اس کیے باسفورس کہلاتا ہے۔ سیاحوں کے نزدیک یہ دنیا کے خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ مصنف اکثر و بیشتر باسفورس کی سیر کے لیے نکل جاتے ہیں۔   وہ خصوصیت سے دو مواقع ناقابلِ فراموش قرار دیتے ہیں ، ایک تو سفیرِ  انگلستان کی ملاقات کے لیے تراپیہ روانگی اور دوسرے جلوسِ  ہمایوں کے موقع پر چراغاں کی رات، باسفورس کا حسن قابل دید تھا۔ تراپیہ جاتے ہوئے شیخ صاحب ساحلِ  یورپ پر نظر آنے والی اہم عمارات کا تعارف بھی قاری سے کرواتے جاتے ہیں ، نکلتے ہی دو مساجد، جامع سلطان محمود اور جامع قلیچ علی دکھائی دیتی ہیں۔   بشکطاش سے آگے بڑھے تو قصرِ  چراغاں کی خوبصورت عمارت ہے۔ اس کے بعد روم ایلی حصار سٹیشن آتا ہے۔ یہاں شیخ صاحب ترکی انجینئرز کے تعمیراتی کارناموں کا جائزہ لیتے ہیں۔   مغل شہنشاہ شاہجہاں جو انجینئر بادشاہ کے لقب سے مشہور تھا، برصغیر میں اس کی بنائی گئی عمارات فنِ  تعمیر کا شاہکار ہیں ، ترکی میں مختلف ایشیائی اور یورپی طرز تعمیر کے معجز نما نمونے دکھائی دیتے ہیں۔

’’ اس (ایلی حصار سٹیشن) کی ساخت میں ایک خوبی یہ ہے کہ اس کے برج پہاڑی نشیب و فراز پر اس ترکیب سے بنائے گئے ہیں کہ دیواروں کے ساتھ مل کر ان سے لفظ ’’ محمد ‘‘ پیدا ہوتا ہے۔ دور سے دیکھنے والے کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مبارک نام دیو قامت حروفِ  حجر سے لکھ کر اعلان کے طور پر ہوا میں معلق کر دیا گیا ہے۔ یہ سلطان محمد فایح کی ایجاد پسند طبعیت کی ایک ادا تھی۔ قلعہ کے اوپر کچھ فاصلے پر ایک نئی عمارت انگریزی قسم کی نظر آتی ہے۔‘‘ ۱۴؎

ہریکہ وہ مقام ہے کہ جہاں کپڑے اور قالین بافی کے کارخانے ہیں جہاں زیادہ تر خواتین اور عیسائی لڑکیاں کام کرتی ہیں جہاں مردوں اور لڑکوں کو جانے کی اجازت نہیں۔   شیخ صاحب نے اس مختصر سے باب میں کاریگروں کے حالات، ان کی تنخواہ اور ان کی تعلیمی سہولتوں  کو بیان کیا ہے۔

شیخ صاحب نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا یہ پہلے عشق کی طرح ان کے ساتھ ساتھ رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ اخبار سے ان کا تعلق نہ ہوتا تب بھی ترکی کے اخبارات کے دفاتر کے دورہ ضرور کرتے۔ استنبول میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں ، اخبار بھی کئی زبانوں میں شائع ہوتے ہیں چنانچہ ’’ لیو انٹ ہیرالڈ‘‘ انگریزی اور ترکی ہر دو زبانوں میں شائع ہوتا ہے۔ فرانسسی و سرب زبان میں بھی اخبار پڑھنے والوں کی تعداد کم نہیں خصوصاً سرب زبان میں سے سے زیادہ تعداد میں اخبار شائع ہوتے ہیں۔   شیخ صاحب نے صباح، اقدام، ترجمانِ حقیقت اور سعادت کے مدیران کی خواہش پر ان کے دفاتر کے دورے کیے۔ شیخ صاحب اس بات کو ترک قوم کے لیے باعثِ فخر جانتے ہیں کہ وہاں اخبار کا مطالعہ ایک قومی مشغلے کی صورت اختیار کر گیا ہے اور یہ نئی نسل میں بیداری کا ایک ثبوت ہے۔

شیخ صاحب نے قیامِ  ترکی میں جو وقت بھی صرف کیا، وہ ان کے تجربات و مشاہدات میں اضافے کا سبب ہوا انھوں نے وہاں کے قدرتی مناظر ہوں یا آبنائے کا احوال، وہاں کے کارخانے ہوں یا بچوں کی تربیت کے اداروں اور گھروں میں ان کی تعلیم و تربیت کا انداز وہ خود بھی ہر پہلو سے آگاہ ہونا چاہتے ہیں اور اپنے قاری کو بھی ان مقامات، افراد، کیفیات اور ریوّ ں سے روشناس کرانا چاہتے ہیں۔   ابتدائی تعلیم کے مدرسے استنبول میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔   قرآن مجید سب پڑھتے ہیں ، ترکی، حساب، تاریخ جغرافیہ، سبھی مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔   پھر ان کی تعلیم ہی نہیں تربیت کی طرف بھی بھر پور توجہ دی جاتی ہے۔ مہمان داری کے تمام آداب سکھائے جاتے ہیں۔   لڑکیوں کو گھریلو امور کی طرف بھی لگایا جاتا ہے تا کہ آئندہ زندگی میں انھیں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ ایک خوش آئند بات انھیں یہ بھی محسوس ہوئی کہ نوجوان اور جدید تعلیم سے آراستہ لوگوں میں جتنی بڑی تعداد ترکی میں پابندی سے نماز ادا کرنے والوں کی ملتی ہے شاید دنیا کے کسی اور حصے میں نہیں۔

اس سفر نامے کا اگلا باب تعلیمِ نسواں سے متعلق ہے۔ ترکی میں خواتین کی تعلیم بھی اتنی ہی ضروری ہے کہ جتنی مردوں کی۔ دیگر مروجہ مضامین کے علاوہ، سینا پرونا، کاڑھنا، نقاشی، موسیقی کے ہنر بھی سکھائے جاتے ہیں۔   جس دور میں شیخ صاحب نے استنبول کا سفر کیا اس دور میں وہاں لڑکیوں میں ہائی سکول تک کی تعلیم کے مدرسے تھے۔ اگر کوئی اپنی بچیوں کو زیادہ تعلیم دلانا چاہتا تو اس کے لیے یورپ سے استانیاں منگوائی جاتیں ، ترک اصحابِ فکر نے اکثر برصغیر میں خواتین کی تعلیم سے متعلق سوالات کیے۔ اور جہاں تک ترک خواتین کا تعلق ہے تو شیخ صاحب کہتے ہیں ’’ عثمانی عورتیں کتابوں کے سوا اخبارات اور رسالے بھی بکثرت خریدتی اور پڑھتی ہیں اور اس طرح ملک کے اخبارات کی اشاعت بڑھانے میں مردوں کے شریکِ  حال ہیں۔   ان کا سیر کرنے یا خرید و فروخت کے لیے باہر نکلنا بھی انھیں گرد و پیش کی دنیا کی خبر دیتا رہتا ہے اور یہ کہنا بالکل مبالغہ نہیں کہ تعلیم اور واقفیت عامہ کے لحاظ سے عثمانی خواتین آج کل اسلامی دنیا کی پیش رو ہیں۔  ‘‘ ۱۵؎

’’عثمانی معاشرت ‘‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ قدرت جغرافیائی اعتبار سے ترکی کو دو حصوں میں منقسم کر چکی ہے اور اس کا اثر وہاں کے انداز رہائش اور طرز بود و باش پر بھی ہوا ہے اور وہاں مشرقی اور مغربی دونوں کے اثرات وہاں کے باشندوں پر واضح نظر آتے ہیں۔   استنبول میں بیشتر عثمانیوں کا لباس یورپی ہے، فقط علما ہیں جو اپنی قدیم وضع قطع نبھانے کی پابندی کرتے ہیں۔   ہاں شام کو دفتری اور کاروباری مصروفیات کے بعد گھر میں آرام دہ ایشیائی لباس ہی پہنتے ہیں۔   ہر ایک لمبے چوغے میں ملبوس دکھائی دیتا ہے۔ عورتوں کا لباس بھی مغربی طرز معاشرت سے متاثر ہے۔ امرا اپنی بیگمات کے لباس فخریہ پیرس سے سلواتے ہیں۔   گھروں کی آرائش میں بھی مشرقی اور مغربی تمدن کی جھلک موجود ہے، اگر کسی کمرے میں صوفے سجے ہیں تو دوسرے کمرے میں فرشی نشست اونچی گدیلے دار نشستیں ، قالین یا نفیس بوریا حسبِ  استطاعت بچھا ہے۔ شیخ صاحب نے ایک اچھوتی بات کا تذکرہ کیا ہے کہ وہاں لوگ گھروں میں بوٹ کے اوپر ایک موزہ یا گرگابی پہن لیتے ہیں اور گھر میں داخل ہوتے ہیں تو وہ گرگابی اتار لیتے اور جوتوں سمیت قالین پر کہ جہاں نماز بھی پڑھی جاتی ہے، چلے آتے ہیں ، اسی طرح مسجدوں میں بھی جوتوں سمیت نماز پڑھتے ہوئے اکثر لوگوں کو دیکھا ہے۔ عثمانیوں کی ایک قابل فخر عادت یہ ہے کہ مغرب سے متاثر ہونے کے باوجود شراب سے پرہیز کے اسلامی احکام کی پورے طور پر پابندی کی جاتی ہے۔ اس شعار کو اپنانے کے فوائد بھی بہت ہوئے ہیں خصوصاً فوج کو شراب سے پرہیز کی وجہ سے بہت سے متوقع مسائل کا سامنا کر نا نہیں پڑا۔ ہاں تمباکو کے استعمال میں انھوں نے یورپ کو مات دے دی ہے۔ بڑے بڑے علما بھی اس سے مستثنیٰ نہیں جغارہ( سگار) ہر گھر میں تواضع کا لازما جزو ہے۔ قہوہ کا استعمال شدت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ترکی قہوہ دنیا بھر میں مشہور ہے ٹرکش کافی بڑے ریستورانوں کے مینیو کا اہم جزو ہے جو دودھ کے بغیر اور انتہائی تلخ ہوتی ہے۔ ترکی مہمان نواز ہیں ہر مہمان کے ساتھ کافی پینا ان کا مشغلہ یا مجبوری ہے دن بھر میں بسا اوقات چایس چالیس قہوے کی پیالیاں پی جاتے ہیں اور بظاہر انھیں کوئی نقصان بھی نہیں ہوتا۔ بعض بزرگ ریستورانوں میں نارگیلہ ( شیشہ؍ حقہ ) پینے کے بھی شائق ہیں۔   جہاں تک خواتین کا تعلق ہے وہ بھی مشرق و مغرب کے بین بین زندگی بسر کر رہی ہیں۔   اگر وہ گھر سے باہر بے حد اعتماد سے کام کرتی ہیں یہ مغرب کی عطا ہے۔ قبور کی زیارت، شادی بیاہ کی رسومات گرچہ ہندوستان کی طرح پیچیدہ نہیں لیکن شوہر کے انتخاب میں والدین کے انتخاب کی پابند ہیں۔   موسیقی کا شوق البتہ یورپ کی دین ہے سکولوں میں باقاعدہ موسیقی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ شیخ صاحب کا یہ سفر کمال اتاترک کے اقتدار سے پندہ بیس برس پہلے کا ہے اس لیے موجودہ ترکی اور اس وقت کے ترکی کے سیاسی، سماجی، لسانی اور مذہبی ماحول میں بہت فرق ہے چنانچہ اس وقت رسم الخط عربی تھا رومن نہیں۔   شیخ صاحب موسیقی کے اشارات کی زبان کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ ترکی کی ان کتابوں سے فارسی یا اردو میں اشاراتِ  موسیقی ترتیب دینے میں بہت مدد مل سکتی ہے کیونکہ ان تینوں زبانوں کے حروفِ  تہجی تقریباً ایک ہی ہیں۔   مذہب سے وابستگی کا احوال شیخ صاحب یوں بیان کرتے ہیں۔

’’ مذہبی فرائض کی پابندی ترکوں میں اکثر اور ممالکِ  اسلامی زیادہ ہے۔ جمعہ کی نماز بڑی دھوم دھام سے ہوتی ہے اور شہر بھر کی جامع مسجد یں اس دن بھری ہوتی ہیں۔   رمضان میں مسجدوں کی رونق اور سجاوٹ قابلِ دید ہے۔ اور افطاریوں کے جلسے نہایت پر لطف۔ نماز روزہ کے علاوہ درود  وظیفہ کا یہاں بہت شوق ہے … یہاں تک کہ تسبیح ایک قسم کا فیشن ہو گئی ہے … اس عادت میں استنبول کے بہت سے عیسائی ان کے شریک حال ہیں۔   ‘‘۱۶؎

’’ عیسائیوں سے تعلقات ‘‘ کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ترکی میں دو قسم کے عیسائی پائے جاتے ہیں۔   ملکی، غیر ملکی… ملکی عیسائیوں کا طرز بود و باش، اور زبان میں ترک مسلم ہمسایوں کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔   ذبیحہ گوشت استعمال کرتے ہیں ، تفریحی مشغلے اور کھیل تماشے سبھی مشترکہ ہیں۔   غیر ملکی عیسائی بھی بکثرت موجود ہیں ، جو تجارت، مذہب، تعلیم اور سیاسی معاملات کے لیے وہاں مقیم ہیں یا آتے جاتے رہتے ہیں۔   عیسائی اور ترک دونوں ہی ایک دوسرے کو سہولیات فراہم کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔   انگریزوں کی نسبت یہ کہاوت مشہور ہے کہ جو سر زمین ان کے زیرِ نگیں نہ ہو وہاں بھی وہ اکڑ کر چلتے ہیں ، لیکن ترکی میں ایسا نہیں ہے کوچہ و بازار ہوں یا دفاتر ہر جگہ مساوات نظر آتی ہے۔ ترکی نے سب سے اہم آزادی جو انھیں دی ہے وہ مذہبی آزادی ہے، بے شمار گرجہ خود مختار چلے آرہے ہیں۔   دوسراہم پہلو یہ کہ فوج کے علاوہ انھیں ہر شعبہ میں ترکوں کے برابر حقوق دیے گئے ہیں ، اسی وجہ سے بہت سے اہم عہدوں پر عیسائی فائز ہیں۔

’’ طریقۂ مولویہ کی مجلس‘‘ ترکی کے سفر کا احوال ہو اور مولانا روم سے نسبت رکھنے والے خصوصاً درویشانِ  رقاص کے ذکر سے صرفِ  نظر ممکن نہیں۔   یورپی سیاح بھی ان کے رقص کے گرویدہ ہیں اور ہر جمعے کو ان کا رقص دیکھنے کے لیے منتظر رہتے ہیں اور اسے استنبول کے عجائبات میں سے ایک جانتے ہیں۔   درویشانِ رقاص کے یے یہ ایک ذریعہ آمدن ہے۔ دو تین افراد ساز بجاتے ہیں اور باقی احباب اٹھ کر رقص شروع کر دیتے ہیں۔   اس رقص کے لیے مخصوص لبا س زیبِ تن کیا جاتا ہے اور اس کا اہم جزو لمبی ترکی ٹوپی ہے۔ شیخ عبد القادر رقصِ درویش کے متعلق اپنے ترک دوست کے حوالے سے ایک حکایت بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مولانا ایک مرتبہ تنہا غور و فکر میں محو بیٹھے تھے۔ اچانک حالتِ وجد میں اٹھے اور رقص کر نے لگے، اسی اثنا میں ان کے دو چار مرید آئے انھوں نے آپ کو اس کیفیت میں دیکھا تو آپ کے ہمراہ رقص کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد آپ ہوش میں آئے تو اپنے گرد درویشوں کو ناچتے پایا، استفسار کیا کہ بھئی تم لوگ کیوں رقص کر رہے ہو تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم نے آپ کو رقص کرتے دیکھا تو آپ کی تقلید کی۔ آپ مسکرائے اور فرمایا، میں نے تو کچھ دیکھا تھا اس لیے خوشی میں بے خود ہو کر رقص کرنے لگا تم نے کیا دیکھا جو ناچنے لگے۔ مقلد اپنے پیر کی ہر بات کی پیروی کرنا خود پر فرض کر لیتے ہیں اور بات کی گہرائی تک جانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، صدیاں گزر گئیں رقصِ  درویش ترک ثقافت کا اہم جزو ہے۔ ۱۷؎

شیخ صاحب وہاں کی ایک بزم ’’ نصائح رفاعیہ‘‘ کا احوال بھی درج کرتے ہیں۔   یہ نشست شیخ محمد ابو الہدیٰ سردارِ  طریقت رفاعی کے ہاں منعقد ہوا کرتی ہے۔ یہ صاحب سلطانِ  وقت کے مقربین میں سے ہیں اور دنیا کی دولت ان کے قدموں میں ڈھیر ہے لیکن اپنی یہ حالت ہے کہ سوائے یادِ حق اور وعظ و تلقین کے انھیں کچھ اور نہیں سوجھتا۔ تواضع اور بہترین اخلاق سے متصف ہیں۔   انجمنیں بنتی بگڑتی رہتی ہیں مگر یہ گذشتہ تیس سالوں سے اپنا سلسلہ قائم رکھے ہوئے ہیں لوگ حاضری دیتے اور ان کی تعلیمات سے مستفید ہوتے ہیں۔   یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ اللہ والے ہو کر مقرب سلطانی بھی ہوں اور مال و دولت بھی بے شمار ہو۔ شیخ صاحب نے آگے چل کر طریقہ مبارکہ رفائیہ کے چند حکتم آمیز اقوال و اعمال درج کیے ہیں جن میں پہلے نقطے ہی سے اس الجھن کی وضاحت ہو جاتی ہے۔’’ ہمارا طریق ہے نا مانگیں اور نہ پھیریں اور نہ جمع رکھیں۔  ‘‘ یہی وجہ ہے کہ ان کے رفاعی منصوبے بڑی کامیابی سے چل رہے ہیں۔    ۱۸؎

سات ہفتوں کے اس قیام نے شیخ صاحب کے تجربات و مشاہدات میں اضافہ کیا۔ انھیں اس برادر اسلامی ملک کے رہنے والوں ، وہاں کے حالات و احوال اور تہذیب و ثقافت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور اس سے وہ مستفیض و مستفید ہوئے۔ یورپ کے تین سالہ قیام کے نتیجے میں حاصل ہونے والے تجربات نے انھیں بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کیا، انھوں نے قدم قدم پر وہاں کے عمومی حال احوال کا موازنہ اپنے ملک سے کیا۔ شیخ صاحب کہتے ہیں کہ یورپ جو علم و فن، تہذیب و تمدن کے حوالے سے عروج پر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہاں بھی اخلاقی، سماجی و معاشی مسائل اسی طرح سے ہے ہیں جن سے ہمارے عوام نبرد آزما رہتے ہیں۔   یورپ اور ایشیا میں یکسانیت و یگانگت کے ساتھ ساتھ بہت سی چیزیں ایسی بھی ہیں جن میں بلا شبہ وہ ایشیا سے آگے ہے۔ جن کا ذکر وہ اپنے سفر نامے کے مختلف ابواب میں کرتے رہے ہیں ، اب ان سے فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھانا عوام کا کام ہے۔

’’ بیرسٹری میں کامیابی حاصل کر کے جب واپسی پر آپ بغرضِ سیاحت ٹرکی تشریف لے گئے تو قسطنطنیہ میں بڑے بڑے پاشاؤں سے ملاقات کرنے کے علاوہ شہنشاہِ ٹرکی خلیفۃ المسلمین عبدالحمید خان مرحوم نے آپ کو شرفِ باریابی بخش کر تمغہ حمیدیہ عطا فرمایا اور ہندوستان پہنچنے پر آپ نے ’’مقامِ  خلافت‘‘ کے نام سے ایک قابلِ قدر کتاب لکھی، جس میں روم و قسطنطنیہ کے حالات نہایت شرح و بسط سے درج ہوئے تھے۔‘‘۱۹؎

شیخ صاحب ۷ جون کو ساحلِ ہند بمبئی پہنچے اس وقت کے جذبات ناقابلِ بیان ہیں۔   جناب محسن الملک کے علاوہ انجمن ضیا الاسلام کے بہت سے اراکین استقبال کے لیے موجود تھے ۱۰ جون تک انھوں نے مہمان نوازی کی۔ گوالیار کے ایک روزہ قیام کے بعد دہلی پہنچے وہاں کا استقبال بھی یادگار رہا۔ خواجہ سید حسن نظامی کی معیت میں درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کی زیارت کا شرف حاصل ہوا اور وہاں سے تبرکات ملے جو نہایت قیمتی سرمایہ ہیں۔   دہلی کے بعد انبالہ روانگی ہوئی۔اور پھر لاہور ۱۶ جون کو پہنچے جہاں فقید المثال استقبال ہوا۔ میاں محمد شاہ دین ہمایوں ، اور سیکڑوں احباب موجود تھے۔ سیکڑوں سے مل بھی نہ سکے۔شیخ صاحب فرماتے ہیں۔  ’’ اس دن سے آج تک زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے۔‘‘ شیخ صاحب غالباً یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس دن سے شائقین کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ شیح صاحب کہتے ہیں کہ عوام میں بیداری کی لہر پیدا ہو چکی ہے اور اگر کوئی کام کرتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

شیخ صاحب کسی ایک منظر سے تاریخ کے مختلف ادوار اور مختلف علاقائی حدود کا تعارف    کراتے جاتے ہیں۔   ان کی کوشش ہوتی ہے کہ نئی تحقیقات اور جدید نظریات جن سے ان کے اہلِ  وطن ناآشنا ہیں ، انھیں سامنے لایا جائے۔ ان کے سفر ناموں میں اسلامی روح بھی موجود ہے اور یورپی اقوام کے طرز زندگی، ان کی اخلاقی، سیاسی، سماجی، تعلیمی او ر مذہبی صورتِ احوال کا تجزیہ ان کی قابلِ تقلید باتوں پر توجہ، لیکن احساسِ کمتری کا شائبہ نہیں ، وہ جو ڈاکٹر سلیم اختر نے کہا تھا کہ سفر نامہ میں تاریخ و جغرافیہ کی معلومات کے ساتھ ساتھ چیزے دگر بھی ملتی ہے۔ یہی چیزے دگر سفر نامے کا مخصوص مزاج متعین کرتی ہے۔ یہ سفر نامے کا ادبی اور تخلیقی پہلو ہے۔، جسے خارجی وقوعات، بدیشی مناظر غیر ملکی آب و ہوا کے ساتھ اپنی ذات کی آمیزش سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘۲۰؎

شیخ صاحب کے ’’ مقامِ خلافت‘‘ میں شیخ صاحب کی ذات ہر لمحہ موجود رہی ہے جو نہایت نرمی سے قاری کا ہاتھ تھام کر اسے ایک ایک مقام، ایک ایک آثار کی زیارت نہایت تفصیل سے جہاں تک ممکن ہو جزئیات کے ساتھ کرواتی ہے اور قاری ایک جہانِ تحیر لیے ان کے ہمراہ قدم قدم موجود ہے۔ حقائق کی کھوج میں انداز میکانکی نہیں بلکہ تجسس، تحریر میں دلچسپی پیدا کرتا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ استنبول ؍ ترکی کے سفر نامے نہیں لکھے گئے۔ شیخ صاحب سے پہلے اور بعد میں بے شمار مصنفین نے اس شہر کو اپنے اپنے زاویۂ  نگاہ سے دیکھا، اہم سفر نامہ نگاروں میں شبلی نعمانی( سفر نامہ روم و مصر و شام) ابوالحسن ندوی( ترکی میں دو ہفتے) پروفیسر ڈاکٹر غلام حسین ذولفقار ( استنبول و ترکیہ، سفر و حضر میں )، حکیم محمد سعید( یہ ترکی ہے) عبداللہ ملک ( قونیہ سے چند خطوط) شریف فاروق ( اتاترک کے وطن میں ) حیدر علی خان ( سفرِ قسطنطنیہ ) حمید اللہ خان     ( سیرِ قسطنطنیہ )خلیل احمد حامدی( ترکی قدیم و جدید)ڈاکٹر اے بی اشرف( ذوقِ دشت نوردی) محمد حمید اللہ سر بلند جنگ ( سفر نامہ قسطنطنیہ)، عبدالحمید خان ابنِ  مولوی فیروز الدین( سفر نامۂ  مقاماتِ  مقدسہ اور یورپ) قمر علی عباسی ( ترکی میں عباسی)ڈاکٹر عبادت بریلوی ( ترکی میں دو سال) ڈاکٹر زاہد علی واسطی ( صبحِ استنبول) ظفر اقبال بھٹی( مولانا روم کے دیس میں ) ترکی مشرق و مغرب کا سنگم، یورپ و ایشیا کا مقامِ  اتصال، ہرسفرنامہ نگار نے اپنے انداز نظر سے اسے دیکھا اور اپنے انداز میں بیان کیا ہے، لیکن جو تفصیل اور جزئیات نگاری اور وضاحت شیخ صاحب کے ’’ مقامِ خلافت ‘‘ میں ہے مشرقی زبان میں لکھے گئے کسی دوسرے سفر نامے میں نہیں۔   پھر تقریباً ہر باب کے ساتھ عکسی تصاویر کی موجودگی قاری کے اس احساس کو مزید تقویت دیتی ہیں کہ وہ قدم قدم شیخ صاحب کے ہمراہ ہے۔ ان چھبیس تصاویر میں وہ ایک نئی دنیا سے متعارف ہوتا ہے اور سر زمین ترکیہ سے وابستگی محسوس کرتا ہے۔

ان کا اندازِ بیان کہیں بھی ژولیدگی و پیچیدگی لیے ہوئے نہیں بلکہ شگفتگی و برجستگی، سلاست و روانی کے ساتھ مطلب واضح کرتے جاتے ہیں۔   اہم بات یہ ہے کہ ماضی کہیں بھی ان سے جدا نہیں ہوتا لیکن قاری محسوس کرتا ہے کہ اس بیان کے بغیر اس کا سفر ی مطالعہ ادھورا رہ جاتا، یوں وہ لمحۂ گذشتہ کو ز مانہ حال سے مربوط رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور کہیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ ماضی کی بھول بلیوں میں گم ہو کر اپنا اصل مقصد فراموش کر بیٹھے ہیں۔   شیخ عبد القادر کے اسلوب کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ لوازمات شعر و نثر کا شعوری استعمال نہیں کرتے، ان کی تحریر صنائع بدائع سے بے نیاز ہے، کہیں تشبیہات، استعارات، محاکات، تمثیلات، کی بھر مار نہیں اگر کہیں کوئی تشبیہ آبھی گئی ہے تو ایسے انداز میں اس کی ضرورت تھی، ان کے اسلوب میں سادگی ہے، سطحیت سے گریز نے سفرنامے اور سفر نامہ نگار کے وقار میں اضافہ کیا ہے۔

لہجہ اور آہنگ ان کا اپنا ہے وہ سفر کی صعوبتوں کا ذکر نہیں کرتے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ناخوشگوار حالات کا انھیں کہیں سامنا کرنا ہی نہیں پڑا یا وہ مثبت انداز نظر سے کام لیتے ہوئے انھیں اہمیت ہی نہیں دیتے۔ ان کے سفر نامے ان کے سفرِ  شوق کے آئینہ دار ہیں۔  مقامات و مظاہر کو سطحی نگاہ سے نہیں دیکھتے، وہاں کے باشندے علمی ادبی سیاسی طور پر بلند مقام رکھتے ہوں یا عمومی سطح کے ہوں ، ان کے لیے قابلِ وقعت ہیں ، کہ ہر فرد معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں اپنے مقام پر ہی سجتا ہے۔

ریاض قادر اس بات پر شاکی ہیں کہ مقدار پسند اور جحم شناس ناقدین شاید عبدالقادر کی تحریروں کو ان کی مقدار سے پرکھ رہے ہیں ، معیار سے نہیں۔   ان کی ادبی خدمات سے صرفِ  نظر کیا گیا۔ انھیں ادیب نہیں ادیب گر کہا گیا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام پارکھ ان کے اسلوبِ  نگارش کے ہمیشہ معترف رہے۔’’ مقامِ  خلافت‘‘ شبلی کے سفر نامے کے بعد دوسرا اہم سفر نامہ ہے۔ ان کے سفر نامے میں جس سادگی اور دلفریبی سے خلافت کے زمانے کے ترکستان کی تصویر کھنچی گئی ہے، اسلوبِ نگارش کے لحاظ سے بے مثال ہے۔ ان کے ایک ایک لفظ سے اسلام اور مشرق اور تمام ترک قوم سے محبت جھلکتی دکھائی دے گی۔ اگر ان کی ادبی کاوش ’’ مقامِ  خلافت‘‘ تک ہی محدود کر دی جائے تب بھی وہ انھیں ادب میں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ ۲۱؎

شیخ صاحب کے اس سفر نامے میں تاریخ کا بیان بھی ہے اور جغرافیائی حدود کا ذکر بھی لیکن کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ کہ یہ تاریخ یا جغرافیے کے خشک اوراق ہیں۔  مناظر و واقعات کے بیان میں شیخ صاحب ایک تخلیقی فنکار کی مانند اپنے جذبہ و احساس بھی عیاں کرتے ہیں۔   قاری اس تخلیقی جہت کی بنا پر ہی انھیں پسند کرتا ہے۔یہ سفر نامہ شیخ صاحب کی وسعتِ مطالعہ اور مشاہدے کی باریک بینی کا بین ثبوت ہے، انداز بیان رواں اور شگفتہ ہے۔

شیخ صاحب سفر کے دل دادہ ہیں ، وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سفر سے دوریاں مٹتی اور دلوں کی کدورتیں دھلتی ہیں ، اپنے وطن اپنے مذہب، تہذیب، ثقافت، تعلیم، سیاست، روایات اقدار سے موازنہ و مقابلہ، شعوری و غیر شعوری طور پر کرتے جاتے ہیں۔   پھر یہ بھی کہ کیا دیارِ  غیر میں جا کر انسان احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے یا ان کے مثبت رّویوں اور ان کی محنت اسے بھی اس امر پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ اور اس کے ہم وطن بھی یہی روش اپنائیں۔   شیخ صاحب دوسرے پہلو کو مدِ نظر رکھتے ہیں۔

شیخ صاحب کے سفرنامے ملکی و غیر ملکی اشتراکات و اختلافات کا بھر پور موازنہ و مقابلہ بھی پیش کرتے ہیں۔   سفر نامہ نگار جہاں بھی گیا اس کا وطن لمحہ بھر کے لیے اس سے جدا نہیں ہوا دیارِ غیر کی صفائی ستھرائی کا بیان ہو یا صحت و تعلیم پر توجہ کا ذکر، اخلاقی اصولوں کی پا سکداری کی طرف نگاہ کی گئی ہو یا وہاں کی صنعتی ترقی موضوع بحث ہو، شیخ صاحب شعوری و لاشعوری طور پر اس کا موازنہ و مقابلہ اپنے وطن سے اپنی قوم سے یہاں کے جغرافیائی، معاشرت، سیاسی، سماجی، تعلیمی اور اخلاقی معیارات سے کرتے جاتے ہیں۔

میلان، اٹلی میں ایک بین الاقوامی نمائش میں مصنف کو جانے کا اتفاق ہوا۔ اس بین الاقوامی نمائش میں آسٹریلیا، بیلجیم، بلغاریا، کینیڈا، چین، کیوبا، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، جاپان انگلینڈ، پرتگال، سوئٹزر لینڈ، ترکی اور ایران یہ سب ممالک اس نمائش میں شریک تھے اور سب نے اپنی اپنی مصنوعات کے نمونے ان میں بھیجے تھے … ہماری آنکھیں نمائش میں ہندوستان کو ڈھونڈتی تھیں کہ کہیں اس کا بھی شمار بین الاقوام میں ہے یا نہیں۔  ‘‘۲۲؎

تلاشِ بسیار کے بعد انھیں خیمہ انگلتان کے سایۂ عاطفت میں دو چار جے پور کے ظروف اور بنارس کے دوپٹے سجے دکھائی دیے، اب اس برتے پر وہ اپنے وطن کا بیرونی دنیا کی صنعتی یلغار کیا گیا مقابلہ و موازنہ کرے صرف یہ آرزو کر کے رہ گئے اگر کوشش کی جائے تو اب بھی دستکاری کے بہت سے نادر و نایاب نمونے اور بہترین مصنوعات اکٹھی کی جا سکتی ہیں ، شرط صرف نیت کے اخلاص کی ہے۔

شیخ صاحب کے سفرنامے متعلقہ مقام کے تاریخی، جغرافیائی، سیاسی، تمدنی، لسانی اورسماجی حالات کا مرقع ہیں ، وہ وہاں کے حال سے ہی نہیں ماضی سے بھی متعارف کراتے ہیں۔   مثلاً خانہ بدوش جپسی میں جپسی قوم کے متعلق تفصیلات دی گئی ہیں ایک زمانے تک اہلِ فرنگ کا خیال تھا کہ جپسیوں کا تعلق، مصر سے ہے۔ اول یہ کہ مصری اہلِ یورپ کے لیے مشرق کا حکم رکھتا تھا دوسرے یہ کہ یہ لوگ مصر کے راستے یورپ میں داخل ہوئے تھے۔ اس سفر میں ان کی پہلی منزل ایران تھا جہاں سے ان کی زبان میں فارسی الفاظ شامل ہوئے۔ پھر روم سے مصر، اور پھر یورپ پہنچے اور تمام یورپ میں پھیل گئے۔ اٹلی، انگلستان، فرانس جرمنی، و آسٹیریا، غرض تمام دنیا ان کا گھر ہو گئی جہاں جی چاہتا پڑاؤ کر لیتے، پھر جپسیوں کے پیشے، نجومی، ہاتھ دیکھ کر مستقبل کا حال بتانے والے، فال نکالنے والے، اہل تہذیب ان سے گریز چاہنے کی خواہش کے باوجود ان سے مستقبل کا حال جاننے کے لیے ان سے رابطہ قائم رکھتے ہیں۔

انور سدید شیخ صاحب کے اس سفر نامہ کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’مقامِ خلافت ‘‘ میں شیخ عبد القادر نے زیادہ تر سلطنتِ ترکیہ کی علمی فتوحات کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ وہ تعلیمی درس گاہوں اور قدیم کتب خانوں کی جانب خصوصی توجہ دیتے ہیں ۔  آ یہِ  دانش کی محفلیں فکر و خیال کے نئے در وا کرتی ہیں اور ہمارا سیاح اس روشنی سے بھر پور استفادہ کرنا چاہتا ہے۔ سات ہفتوں کے قیامِ ترکی کے اس سفرنامہ میں یہ بات بھی محلِ نظر ہے کہ منظر سے جذباتی وابستگی، اس بظاہر عمومی منظر کو ایک خاص زاویہ عطا کرتی ہے جس سے اس کے حسن اور قدر میں اضافہ ہو جاتا ہے، سفر نامہ کے آخری صفحات روز نامہ پر مشتمل ہیں۔   جو درحقیقت ان خطوط پر مشتمل ہے جو انھوں نے ترکی سے اپنے احباب کو لکھے اور بعد ازاں مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے۔ یوں فنی لحاط سے بیانیہ کے ساتھ ساتھ خطوط نگاری کی تکنیک نے اس سفر نامے کو ایک نیا زاویہ عطا کیا ہے۔  ۲۳؎

شیخ صاحب، اس نظریے پر کاربند تھے

سرسری تم جہان سے گزرے

ورنہ  ہر  جا  جہان ِ  دیگر  تھا

وہ ہر منظر اور ہر فرد کو غیر معمولی تصور کرتے اور زندگی کے جزر و مد کو پوری طرح نگاہ میں رکھتے ہیں۔   انہی خصوصیات کی بنا پر انور سدید کہتے ہیں کہ شیخ صاحب کا مزاج ناظرانہ تھا اور مولانا صلاح الدین احمد سے شدید عینی جھکاؤ اور سیاحانہ التفات سے تعبیر کرتے ہیں۔  ۲۴؎

 

                 خطوط نگاری

 

خطوط شیخ عبد القادر بنامِ  اقبال، محمد حنیف شاہد کی مرتب کردہ کتب میں شیخ صاحب کے اقبال اور فرزندِ اقبال کے نام چند خطوط بھی تبرکاً شامل ہیں۔  پہلا خط۱۷ مئی ۱۹۰۴ کو بحری جہاز مالدیویہ سے لکھا گیا ہے۔ انداز تخاطب، پیارے اقبال سے بے تکلفی اور محبت مترشح ہے۔ لکھتے ہیں ایک مدت سے امید یہی تھی کہ اکٹھے سفر کریں گے اب آپ کی عدم موجودگی بے حد کھل رہی ہے۔ جہاز پر کوئی رفیقِ سفر نہیں جو ہیں ان کی زبان ملاحظہ کیجیے، یہ باجو بیٹھو، آج پون ذرا جا ستی ہے۔ آپ ہوتے تو سارا مجمع زیرِ قلم ہوتا۔ سفر اور ہمراہانِ  سفرپر وہ گلکاریاں کی جاتیں کہ یاد گار ہوتیں۔   سمندر کے سفر سے لوگ خو اہ مخواہ خوف زہ رہتے ہیں ، سمندر انتہائی پر سکون ہے۔  خط لکھتے ہوئے کوئی مسئلہ نہیں ہو رہا۔ آخر میں وہ فرمائش جو اس خط کا لازمی عنصر یعنی تازہ کلام برائے مخزن۔ خط کیا ہے دو بے تکلف اور ذہنی ہم آہنگی رکھنے والے دلی دوستوں کی وقتی جدائی، مستقبل کی منصوبہ بندی اور مشترکہ دوستوں کی محبتوں کا بیان ہے۔ دوسرا خط دراصل پہلے خط ہی کا ضمیمہ معلوم ہوتا ہے۔ خط پر تاریخ اور مقام درج نہیں ہے لیکن چونکہ یہ خط مخزن کے اگست ۱۹۰۴ کے شمارے میں شائع ہوا تھا اس لیے یہ اگست سے قبل ہی علامہ اقبال کے خط کے جواب میں لکھا گیا ہے۔

آغاز فارسی شعر سے کرتے ہیں

یکے دریا، نہ وے را بُن پدید وبے کراں پیدا

در و اندیشہ حیراں ، وہم سرگرداں ، خرد شیدا

خط میں اس محرومی کا ذکر کیا گیا ہے کہ ہندوستان کے اندرونی علاقے سمندر سے سیکڑوں میل دور ہونے کے سبب یہاں کے باشندوں کی وسیع تعدادسمندر کی کیفیت، ہیبت اور خدا کے جلال و جمال کے نظاروں سے یکسر محروم و لا علم ہے۔ ان کا علم جغرافیے کی کتابوں تک محدود ہے۔ اس خط سے شیخ عبد القادر کے اسلوب کی جولانی اور بہاؤ کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ صانع حقیقی کی صنعت کاملہ جس کا ایک واضح مظہر سمندر ہے، انسانی علم اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ استفہامیہ انداز میں اللہ کی قد رت و صناعی کی داد لفظ لفظ سے پھوٹی پڑ رہی ہے۔

’’ دنیا میں کون سی طاقت ہے جو اندازہ لگا سکتی ہے کہ صد ہا میل کی لمبائی اور صد ہا میل کی چوڑائی میں جو پانی پھیلا ہوا ہے اور جس کے عمق کا اندازہ عقلِ انسانی کے احاطے سے باہر ہے حجم میں یا وزن میں کتنا ہے ؟ کسے خبر ہے کہ اس کی گہرائیوں میں کیا کیا چھپا ہوا ہے اور کون کون سے اغراض اس کے وجود سے وابستہ ہیں ؟‘‘ سمندر کی تا حد نگاہ وسعت انھیں ایک فلسفی کے طور پر پیش کرتی ہے۔ دور دور خشکی کا نام و نشان نہیں ، بہت ہوا تو کبھی دور ایک جہاز دکھائی دے جاتا ہے’’ جیسے ایک بڑی تقطیع پر ایک باریک سا نقطہ ہو، مگر یہ نسبت سمندر کے اس جزو سے کہی جا سککتی ہے جو ایک وقت میں پیشِ  نظر ہوتا ہے۔ کل کا تو کیا کہنا اس کا تو کوئی حساب ہی نہیں …‘‘ وہ جہاز جو نقطے جتنا دکھائی دیتا تھا جبکہ وہ ایک وسیع و عریض جہاز تھا، شیخ صاحب کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ عقل اور خیال کے درمیان مکالمہ کئی پہلو بدلتا ہے۔’’ کیا ہم سب مل کر فی الحقیقت اس دریائے نا پیدا کنار کی ہستی کے مقابلے میں ایک نقطے کی حیثیت رکھتے ہیں یا اس سے بھی کم، ؟ عقلِ سلیم نے آواز دی ’’ بے شک‘‘ ’’ کیا ہندوستان کے گردن کش اور بالا دست حکمرانوں کا ایک گروہِ  کثیر بھی اسی نقطے میں آ گیا ‘‘ ’’ بلا شبہ‘‘ ’’ کیا ان کی سچی غم گسار بیبیاں جو حسن و جمال میں چندے آفتاب چندے ماہتاب ہیں اور جن کے باریک ریشمی کپڑے اپنی لپیٹ میں دمِ  رفتار کئی دلوں کو لیے جاتے ہیں وہ بھی اسی نقطے کا ایک جزو ہیں۔  ( اگر ریاضی دانوں کے مذہب کے خلاف ہم نقطے کا جزو کہنے کے مجاز ہیں )’’ ہاں وہ بھی اس میں شامل ہیں۔  ‘‘۲۵؎

مکالمہ ابھی جاری ہے، آخر عقل غالب کا شعر پڑھ کر اشرف المخلوقات کی بے بسی کا اعلان کرتی ہے۔

دامِ  ہر  موج میں ہے حلقۂ صد کامِ  نہنگ

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

شیخ صاحب غالب کے شعر کی تشریح کہتے ہوئے ابھرتی، بپھرتی، تند و تیز لہر کے لیے’’ صد کامِ  نہنگ‘‘ سے بہتر الفاظ استعمال ہی نہیں کیے جا سککتے تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں کہ انھیں سمندر پر سکون ملا۔غالب نے قطرے کا لفظ شعر میں باندھا جو شیخ صاحب کو سعدی کی یاد دلا گیا

یکے قطرۂ  باراں ز ابرے چکید

خجل شد چو پہناے دریا بدید

کہ جاے کہ دریا ست من کیستم

گر اوُ ہست حقا کہ من نیستم

شیخ صاحب کے اس طویل خط میں مذہب، فلسفہ، منطق، شعر و ادب سبھی گھلے ملے نظر آتے ہیں۔   خط کیا ہے سمندر کی ہیئت و ہیبت کا ایک تاثراتی و تجزیاتی مطالعہ ہے۔ سمندر کے صبح و شام، لمحہ لمحہ بدلتے رنگوں کا بیان ہو یا وہاں موجود مہجور و خوش نصیب لوگوں کی کیفیات کا احوال۔ ان کی تحریروں میں ایسی جذباتیت کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ خط کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے۔’’خیر یہ تو با  اقبال لوگوں کی کیفیتیں ہیں۔   ہمیں ان سے کیا میں تو زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتا ہوں کہ اقبال کو بلاؤں کہ ’’ آ اور دیکھ‘‘    ۲۶؎

اقبال کے نام تیسرا خط۲ ستمبر ۱۹۰۴ء لندن سے لکھا گیا ہے۔جس میں اقبال کے ۹ اگست کو لکھے گئے خط کے ۲۹ اگست کو ملنے کی اطلاع دی گئی ہے اور اس خواہش کا اظہار کیا گیا ہے کہ خط کا جوا ب خواہ مختصر ہی لکھیے لیکن دیجیے ضرور کہ ایک تو اپنا خط ملنے کی رسید، دوسرے سلسلہ نہیں ٹوٹتا۔ خط میں آئندہ ستمبر کے انتظار کا تذکرہ ہے کہ اقبال کاستمبر ۱۹۰۵ء میں انگلستان جانے کا منصوبہ ہے۔ چند احباب کے آ جانے سے خط مختصر لکھنے کی توجیہ بھی پیش کی گئی ہے اور آئندہ مفصل خط لکھنے کا وعدہ بھی۔

شیخ صاحب کو ایک خط ایسا بھی لکھنا پڑا جو وہ کبھی لکھنا نہیں چاہتے تھے، ان کے احباب کو لکھے گئے خط ہوں یا دیگر تحریریں ، علامہ اقبال کا ذکر کس محبت، شوق و وارفتگی اور بے تکلفی کے باوجود عزت و احترام کے ساتھ کرتے ہیں۔   مذکورہ تعزیتی خط اقبال کے فرزند آفتاب اقبال کے نام ہے اور انگریزی میں لکھا گیا ہے۔ ۵ مئی ۱۹۳۸ء کو لکھے گئے اس خط میں دوست کی جدائی کا نوحہ بھی ہے اور ان کی عظمت کا احساس بھی۔ لندن میں ان کی یاد میں ہونے والی تقریبات کا احوال بھی درج ہے۔ ایک عام قاری کی حیثیت سے صرف ایک بات کھٹکتی ہے کہ ایک بیٹے کو باپ کی وفات پر تعزیت کا خط لکھا جا رہا ہے تو اس میں ایک سے زائد مرتبہ اس بات کا تذکرہ بے محل ہی نہیں نامناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اپنے والد کے ساتھ تعلقات استوار نہ تھے۔ شیخ صاحب کہتے ہیں کہ ان سب کے باوجود وہ علمی وارث ہونے کی بنا پر آپ کے مداح تھے اور یہ کہ آپ ان کے شاعرانہ کمالات سے آگاہ تھے، اس لیے آپ پر اس سانحۂ  ارتحال کا شدید اثر ہو گا۔ یعنی یہاں بھی شیخ صاحب ایک باپ نہیں شاعر کی رحلت سے پہنچنے والے صدمے کا ذکر کر رہے ہیں۔

نواب محسن الملک محبِ  وطن اور جرات مند انسان تھے۔ سرکاری ملازمت کے ایک مرحلے پر جبری احکامات کی تعمیل سے بہتر حل انھیں استعفیٰ نظر آیا۔ جس کا سبھی کو دکھ تھا کہ ایک قابل آدمی یوں رخصت کر دیا جائے، شیخ عبد القادر نواب وقار الملک کو ۱۳ دسمبر ۱۹۰۰ء کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ہوم سکریٹری مسٹر رولز کو اس استعفیٰ کا سن کر دکھ ہوا ان کا خیال ہے کہ محسن الملک کو بدستور ا پنی ذمہ داریاں نبھانی چاہییں۔   اسی موضوع پر ۹ ستمبر ۱۹۰۰ء کو وقار الملک کو دوبارہ خط تحریر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سر رولز نے اس بات کی بھی تائید کی کہ نواب محسن الملک نے اپنی تقریر میں جو تجاویز اردو کے متعلق پیش کی تھیں درست تھیں۔  ۷؎۲

شیخ عبد القادر مسلمان اکابرین ہوں یا عوام، کسی کے ساتھ بھی ہونے والی بے انصافی کے لیے عملی قدم اٹھانے سے کبھی گریز نہ کرتے تھے۔

اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شیخ عبد القادر جیسی ہمہ گیر و ہمہ صفت شخصیت کا حلقۂ احباب کتنا وسیع ہو گا، شیخ صاحب با اخلاق و متواضع شخصیت تھے۔ان کے آدابِ زیست میں خطوط کا جواب دینا بھی شامل تھا۔ اہم یا غیر اہم کی تخصیص نہیں ، جس شخص نے آپ کو خط لکھا ہے آپ جواب دے کر اس کا مان بڑھاتے۔ شیخ صاحب ہر خط کا جواب لکھتے۔ ان کی روزانہ ڈاک، کا شمار ممکن نہیں ، سیاسی، مذہبی، علمی، ادبی، صحافتی، سرکاری، ذاتی، سماجی ذمہ داریاں اور ان سے وابستہ افراد کا اندرونِ  ملک اور بیرونِ  ملک سے اپنے مسائل کے حل کے لیے ان سے رہنمائی چاہنا، پھر دعوتی رقعوں کی بارش، مصنفین کی طرف سے دیباچہ نگاری کی فرمائشیں ، مخزن کے مدیر کی حیثیت سے ادبا ہی نہیں قارئین کا وسیع حلقہ آپ سے مخاطب ہوتا اور شیخ صاحب، خیالِ  خاطر احباب چاہیے ہر دم، پر قائم ہیں۔   خطوط نگاری کا مشغلہ یا ذمہ داری، بستر مرگ تک جاری رہا۔ طبیب، ذہنی و جسمانی آرام کا مشورہ دیتے لیکن آپ کہتے، خط لکھنا تو دستی کام ہے اس میں نہ جسمانی توانائی کی ضرورت ہے نہ ذہنی مشقت سے اس کا کوئی تعلق ہے۔

 

                 درسی کتب

 

نصابِ تعلیم کی تیاری میں بہت احتیاط برتی جاتی ہے، نونہالانِ  وطن کو اپنے ملک کی تہذیب و ثقافت اور ادب و روایات سے آگاہی دینے میں نصابی کتب بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔   شیخ صاحب استاد بھی رہے اور وزیرِ تعلیم بھی۔شیخ صاحب بھی نصابی کتب کی تیاری میں اپنے معاصرین کے ساتھ مصروفِ  عمل رہے۔ علامہ اقبال کا تعلق باقاعدہ طور پردرس و تدریس سے زیادہ عرصہ نہ رہا لیکن جامعہ پنجاب اور اور دگر تعلیمی اداروں سے ان کی وابستگی بطور، پرچہ مرتب، ممتحن کے علاوہ وہ مختلف درسی کتب کے مرتبین میں بھی شامل رہے، چنانچہ پرائمری اور مڈل کے سلسلہ ادبیہ کی کتابیں مرتب کرتے ہوئے اقبال نے اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھا ہے کہ ایسی تخلیقات منتخب کی جائیں جو زندگی کا روشن پہلو دکھائیں اور طالبِ علم کو خود داری و دیانت داری اور بہادری کی جانب مائل کرے۔ ساتویں جماعت کے سلسلۂ  ادبیہ کے مؤ لفین دیباچے میں لکھتے ہیں کہ کتاب کی ترتیب میں اس امر کا دھیان رکھا گیا ہے کہ پرانے اساتذہ کے ساتھ ساتھ نئے انشا پردازوں اور شاعروں کی تخلیقات کو بھی شامل کیا جائے، جنھوں نے اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے بے پناہ کوششیں کیں ، مصنفین کی اس فہرست میں دیگر اہم اور معتبر ناموں کے ساتھ علامہ اقبال اور شیخ عبد القادر شامل ہیں۔   اسی طرح پانچویں جماعت کے نصاب کے مصنفین میں ڈپٹی نذیر احمد، سر سید، حسن نظامی کے ہمراہ شیخ عبد القادر بھی موجود ہیں

 

                 شاعری

 

بخت آزمانے نکلو

جنگل بسانے نکلو

کڑیاں اٹھانے نکلو

جانیں لڑانے نکلو

گھر سے نکل کے دیکھو ہندوستان والو

دولت کمانے نکلو

حکمت اڑانے نکلو

مذہب سکھانے نکلو

ہر ہر بہانے نکلو

گھر سے نکل کے دیکھو ہندوستان والو ۲۸؎

شیخ صاحب شاعر نہ تھے، راحل ہوشیار پوری نے، حفیظ ہوشیار پوری کی روایت سے، شیخ صاحب کا ایک فی البدیہہ شعر نقل کیا ہے، جو کلاسیکی شعری روایت سے وابستگی ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ لہجے کا تیکھے پن بھی عیاں کر ر ہا ہے اور اس معاشرتی و سماجی امتیازات کی نشان دہی بھی کرتا ہے کہ جو ظرف سے زیادہ مل جانے کی صورت میں فرد کے روّیوں کی صورت میں اس کے اپنے ہی احباب کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اب درِ  دولت پہ بھی ملنا ہوا ان سے محال

آپ ملنے آئے تھے پچھلے برس کی بات ہے ۲۹؎

شیخ صاحب کے ایک مضمون کا عنوان ’’ ساحل کی سیر ‘‘ ہے۔ اس مضمون میں وہ انگریزوں کے اس سفر شو کا ذکر کرتے ہیں کہ جہاں ذرا فرصت ملی، تعطیل کا دن آیا۔ تمام شہر کنارِ ساحل آ پہنچا۔ وہاں کے ایک ایک منظر کی تفصیل شیخ صاحب نے بیان کی ہے آخر میں وہ ایک جلسے کا ذکر کرتے ہیں جہاں بحری وردی میں ملبوس نوجوان سامنے آتے ہیں اور بچیاں ایک گیت پیش کرتی ہیں ہر چار مصرعوں کے بعد دہرایا جانے والا ٹیپ کا مصرعہ، لڑکیوں کی مترنم اور پر سور آواز، لفظوں کی نغمگی اور آہنگ نے شیخ صاحب کو بھی متاثر کیا اور انھیں ان عرب عورتوں کی یاد دلا گیا جو اپنے شوہروں کی ہمت بندھانے کے لیے گایا کرتی تھیں۔

’’ اس گیت کا مفہوم اگر کسی قدر آزادی کے ساتھ اردو میں ادا کیا جائے تو مندرجہ ذیل اشعار سے مطلب نکل آتا ہے۔

سمندر کی خدمت میں جانا میری جاں

سمندر کی خدمت میں جانا میری جاں

اسی میں ترقی کا ہے راز پنہاں

اسی سے بڑھے ہیں جو ہم میں بڑھے ہیں

اسی کے سہارے ہم اکثر لڑے ہیں

سمندر کی خدمت میں جانا میری جاں

تجارت ہماری سمندر کے بل پر

حکومت ہماری سمندر کے بل پر

اسی سے یہ دولت ثروت ہماری

نہ کیوں کر ہمیں اس کی موجیں ہوں پیاری

سمندر کی خدمت میں جانا میری جاں

اسی سے کیا نام نیلسن نے پیدا

اسی پر ہرا ہم سے تھا آرمیدا

اسی سے زمانے میں ہے دھاک اپنی

اسی سے بنی قوم بے باک اپنی

سمندر کی خدمت میں جانا میری جاں

کہاں ہم کہاں ملک ہندوستاں تھا

سمندر کا رشتہ مگر درمیاں تھا

سمندر نے دوری کو کیسا مٹایا

پھریرا ہمارا کہاں جا اڑایا

سمندر کی خدمت میں جانا میری جاں

اگر چاہو تم مجھ کو اپنا بنانا

سمندر کی خدمت سے دل مت چرانا

محبت وطن کی دکھاؤ تو جانوں

تمھاری ہمیشہ کو میں ہو رہوں گی

سمندر کی خدمت میں جانا میری جاں

سمندر سے جب نام کر کے پھرو گے

وطن کا کوئی کام کر کے پھرو گے

تو میں بھی فدا جان تم پر کروں گی

تمھاری ہمیشہ کو ہو رہوں گی

سمندر کی خدمت میں جانا میری جاں

اگر لڑتے لڑتے گئے خود بھی مارے

سمندر میں اگلے جہاں کو سدھارے

منگیتر بہادر کی پھر میں بنوں گی

تمھیں اگلی دنیا میں جلدی ملوں گی

سمندر کی خدمت الخ۳۰؎

 

                ملفوظاتِ اقبال

 

دنیا ایسے اکابرین سے تہی نہیں ، بے شک اسے لوگ بہت کم ہیں ، لیکن ہیں اور ان کی موجودگی ہی سے دنیا روشن ہے ان کی کہی گئی بات ان کا ہر عمل مشعلِ راہ کا درجہ رکھتا ہے۔ اقبال انہی چند ایک خوش نصیبوں اقبال مندوں میں سے ایک ہیں کہ جن کی عادات و اعمال، اور اقوال و فرمودات سبھی قلمبند کر لیے جاتے ہیں۔   یہ باتیں ، روزمرہ گفتگو، فی البدیہ تقریر، مباحثہ، مصاحبہ کی صورت میں ہوتی ہیں اور ادبی اصطلاح میں انھیں جب تحریری شکل دے دی جائے تو ’’ملفوظات‘‘ کہلاتے ہیں۔   ’’ ملفوظات کے عنوان سے محمود نظامی کی مرتب کردہ کتاب کے راویوں ؍ لکھاریوں میں سر عبدالقادر بھی شامل ہیں ، یہ تمام مضامین اقبال کی وفات کے فوراً بعد لکھے گئے۔۳۱؎

 

                اقوال شیخ سر عبد القادر

 

’’ اگر کسی ملک کے باشندوں کی ہمت، لیاقت، قوتِ  ایجاد، شوقِ  سفر، اور تجارت اسی تناسب سے ترقی نہ کریں جس نسبت سے ان کا معیارِ  زندگی بلند ہوتا جائے تو اسے یقیناً روزِ  بد دیکھنا پڑے گا۔‘‘۳۲؎’’ اپنے بزرگوں کی دانائی سے سبق لینا چاہیے اور اپنے اس سیدھے سادے طریق پر قائم رہنا چاہیے، جس سے نہایت غریبی میں بھی زندگی کے دن کاٹ دینے مشکل نہ ہو گا ‘‘۳۳؎

پہلا اصول جو زندگی میں داخل ہوتے ہی اختیار کرنا چاہیے، رواداری ہے یعنی کسی دوسرے شخص یا کسی دوسری جماعت کی رائے یا عقیدے کو صرف اس بنا پر غلط یا ناقابلِ قبول نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ آپ کی رائے یا عقیدے سے مختلف ہے، بلکہ ہر رائے کے سننے اور اس پر غور کرنے کے بعد اس کے موافق اور مخالف دلائل سن کر فیصلہ کرنا چاہیے۔  ۳۴؎

٭٭

 

 

 

حوالہ جات

 

۱۔     شاہد،محمد حنیف،۱۹۷۲ء،’’مقالاتِ عبدالقادر‘‘، مجلس ترقی ادب لاہور ص ۱۰

۲۔     بٹالوی، عاشق حسین،۱۹۹۲ء،’’ چند یادیں چند تاثرات، لاہور سنگِ میل پبلی کیشینز، ص۳۵

۳۔     شیخ عبد القادر،۲۰۰۴ء’’ شباب سے پہلے‘‘ مشمولہ’’ انتخاب مخزن‘‘ لاہور سنگِ میل،ص ۲۲

۴۔    اداریہ مخزنِ ادب، ص، ز ح

۵۔   شاہد،محمد حنیف، ۱۹۷۲ء،’’نذرِ اقبال‘‘،لاہور، بزم ِ اقبال، کلب روڈ، ص ۱۶۔۱۵

۶۔     خورشید، ڈاکٹر،عبد السلام ۱۹۷۷ء،’’سرگذشت ِ اقبال‘‘ لاہور، اقبال اکادمی، ص۲۴۷

۷۔   تاثیر، محمد دین، مرتبہ:قرشی، افضل حق،۱۹۷۷ء،’’ اقبال کا فکر و فن ‘‘لاہور، منیب پبلیکیشنز، ص۲۳

۸۔   کے۔ کے۔ عزیز A BIOGRAPHY OF  ABDULLAH YOUSAF ALI ص۔۱۳۸

LATTERS OF  MIAN FAZL I  HUSSAIN    EDITED BY  DR. WAHEED AHMAD   PAGE 526

۹۔    LATTERS OF  MIAN FAZL I  HUSSAIN    EDITED BY  DR. WAHEED  AHMAD   PAGE 526

۱۰۔    محمد ہارون عثمانی، ۲۰۰۹ء ’’ سر عبد القادر بطور پارلیمنٹیرین ‘‘ مشمولہ ’’ تحقیق نامہ‘‘ شمارہ ۶،         لاہور، جی سی یونیورسٹی،ص۱۳۴

۱۱۔   شیخ عبد القادر ۱۹۰۶ء،’’ مقام ِ خلافت ‘‘ مکتبہء مخزن، ص ۱

۱۲۔     شیخ عبد القادر،۲۰۰۴ء’’ استنبول اور اس کے دلچسپ مناظر‘‘ مشمولہ’’ انتخاب مخزن‘‘ لاہور سنگِ میل،ص ۲۱

۱۳۔  شیخ عبد القادر،۲۰۰۴ء ’’کاغذ خانہ‘‘ مشمولہ’’ انتخاب مخزن‘‘ لاہور سنگِ میل،ص۲۳۶

۱۴۔  شیخ عبد القادر،۲۰۰۴ء’’ جامع ایوب و ہفت برج‘‘ مشمولہ’’ انتخاب مخزن‘‘ لاہور سنگِ میل ص ۲۳۶

۱۵۔   شیخ عبد القادر،۲۰۰۴ء’’ تعلیم ِ نسواں‘‘ مشمولہ ’’ انتخاب مخزن‘‘ لاہور سنگِ میل ص ۲۴۶

۱۶۔   شیخ عبد القادر،۲۰۰۴ء،’’ عثمانی معاشرت‘‘ مشمولہ’’ انتخاب مخزن‘‘ لاہور سنگِ میل انتخاب مخزن ص ۲۵۱

۱۷۔   شیخ عبد القادر،۲۰۰۴ء، ’’ طریقہء مولویہ کی مجلس‘‘ مشمولہ’’ انتخاب مخزن‘‘ لاہور سنگِ میل ، ص۲۵۵

۱۸۔   شیخ عبد القادر،۲۰۰۴ء’’ نصائح رفاعیہ‘‘ مشمولہ’’ انتخاب مخزن‘‘ لاہور سنگِ میل، ص ۲۵۶

۱۹۔    اداریہ مخزن ادب،ص د

۲۰۔    ڈاکٹر سلیم اختر، ادب اور کلچر، ص ۱۶۰

۲۱۔    اوراق نو، ص۱۵۔۱۶

۲۲۔   شیخ عبد القادر،۲۰۰۴ء،’’یورپ کے بعض تاریخی اور دلچسپ نظارے‘‘ مشمولہ ’’ انتخاب مخزن‘‘ لاہور سنگِ میل، ص ۱۶۵

۲۳۔   انور سدید،’’ اردو ادب میں سفر نامہ‘‘، ص ۲۰۵

۲۴۔   انور سدید’’ اردو ادب میں سفر نامہ‘‘،ص ۲۰۵

۲۵۔  حنیف شاہد،’’ نذر ِ اقبال‘‘، ص ۱۷۰۔۱۷۱

۲۶۔    حنیف شاہد’’ نذر ِ اقبال‘‘، ص۱۷۴

۲۷۔  مکتوب شیخ عبد القادر بنام وقار الملک، نقوش، مکاتیب نمبر شمارہ ۱۰۹۔ اپریل مئی ۱۹۶۸ء ص ۳۳۳۔ ۳۳۴

۲۸۔   شیخ عبد القادر،۲۰۰۴ء،’’ گھر سے نکل کے دیکھو‘‘، مشمولہ’’ انتخاب مخزن‘‘ لاہور سنگِ میل،ص ۹۰

۲۹۔  اوراقِ نو، ص ۵۸

۳۰۔    شیخ عبد القادر،۲۰۰۴ء،’’ ساحل کی سیر ‘‘ مشمولہ’’ انتخاب مخزن‘‘ لاہور سنگِ میل ص ۱۰۴

۳۱۔    رفیع الدین ہاشمی، ۱۹۸۲ء ’’تصانیف اقبال کا تاریخی و توضیحی مطالعہ‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، ص۳۹۸

۳۲۔    ریاض قادر ۱۹۵۰ء ’’ اک شمع رہ گئی تھی‘‘ مشمولہ ’’اوراقِ نو‘‘،ص ۱۷

۳۳۔   جگن ناتھ آزاد، ۱۹۰۵ء ’’شیخ عبد القادر سے چند یادگار ملاقاتیں ‘‘، مشمولہ اوراق نو،ص۱۱۷

۳۴۔   شیخ عبد القادر۱۹۵۰ء’’ تعلیم اور تہذیب ِ نفس‘‘ مشمولہ اوراق ِ نو۔ ص ۵۹

 

 

 

 

اسلوب

WRITING STYLE

 

Writing style introduces its writer and reflects its creators’ mind. SAQ was proficient both in Urdu and English. As Editor of "Makhzan” he produced best articles in both the languages. Instead of decorating, he strived to deliver the rhythm of his feeling with simplicity.  This makes his writings different and prominent upon writing style of other writers of his era.

 

 

اسلوب کسی بھی تخلیق کار کا تعارف اور اس کے ذہن کا عکاس ہوتا ہے۔ اسلوب لکھنے والے کی انفرادی کوشش ہے کہ جس کی بنا پر اس کی تحریر کو دوسروں سے ممیز کیا جا سکتا ہے۔ بوفنٹ نے کہا تھا کہ اسلوب خود انسان ہے۔ اس بات سے اس لیے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ تخلیق کار خواہش اور کوشش کے باوجود اپنی تحریر سے خود کو الگ نہیں رکھ سکتا۔ قاری اس کے تحت ا لشعور سے بھی اس کے لفظوں کے ذریعے آگاہ ہو جاتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اسلوب تخلیق کار ہی کا دوسرا نام ہے۔

اسلوبیاتی تجزیہ کے لیے لاز م ہے کہ مصنف کے عہد اور اس صنف کو مدِ نظر رکھا جائے جو اس نے اپنے اظہار کے کیے منتخب کی ہے۔ شیخ عبد القادر باذوق تھے، سخن فہم تھے لیکن سخن طراز نہیں۔   بنیادی صنف ان کی مضمون و دیباچہ ومقالہ نگاری ہے۔ عہد سرسید کی خصوصاً سرسیدکی نثر کو وہ آگے بڑھاتے ہیں ، سر عبد القادر شعوری طور پر اس انداز تحریر سے گریزاں تھے جو کچھ عرصہ پہلے تک مروج تھا وہ کہتے ہیں کہ اس دور میں نظم ہی نہیں نثر میں بھی بناوٹ، تکلف اور تصنع پسندیدہ تھا، تحریر مقفیٰ و مسجیٰ، الفاظ کی بہتات، معنی محدود، مبالغہ آرائی بھی وصف شمار ہوتا تھا، پھر عجز و انکسار بھی جو بسا اوقات انانیت اور تعلی ہی کی ایک شکل تھا، مصنف کی تحریر میں موجود ہوتا۔ غالب نے اس مروجہ اسلوب سے یکسر گریز کرتے ہوئے نثر میں بھی سادگی و پر کاری، سنجیدگی و متانت کے ساتھ ساتھ شوخی و ظرافت اور معنی آفرینی کی دنیا آباد کر دی۔ غالب اپنے عہد کی نثر کی جو تجدید کر گئے وہ حیرت انگیز ہے۔ ان کے بعد سرسید ادب کی کائنات میں ظاہر ہوتے ہیں ، جنھوں نے انگریزی ادب سے سلیس و سادہ بیانی کے گر سیکھے اور باور کرایا کہ بات بغیر، رنگینی اور صناعی کے بھی موء ثر ہو سکتی ہے سرسید نے ہم خیال لوگوں کا ایک گروہ اکٹھا کر لیا۔حالی نے سب سے پہلے لبیک کہا پھر شبلی، نذیر احمد، محسن الملک، مولوی چراغ علی، مولوی ذکا اللہ وغیرہ، شیخ عبد القادر کہتے ہیں کہ اگر کسی نے تصنع اور سادگی کے درمیان اختلافات دیکھنے ہوں تو ’’مخزن‘‘ کے اوراق دیکھیں۔   انھیں دونوں کے فرق کا اندازہ ہو جائے گا۔ شیخ صاحب اس امر کے حق میں ہیں کہ تحریر اتنی سادہ نہ ہو کہ اس پر سپاٹ پن اور خشک ہونے کا الزام آئے، ادب میں مقصدیت اپنی جگہ لیکن ذوق جمال کی تشفی نہ ہو تو ادب کی افادیت مشکوک ہو سکتی ہے۔ شیخ صاحب کے نزدیک مصنف جب اپنی سوچ کو لفظ عطا کرتا ہے تو وہ اسلوب اور مفاہیم کو دو لخت نہیں کرتا نہ ہی قاری مطالعہ کرتے ہوئے معنی کو پسِ پشت ڈال کر اظہار کے حسن یا بھول بھلیوں میں گم ہو جاتا ہے۔قاری اسلوب و معنی کو ساتھ ساتھ لے کر تفہیم کے مرحلے سے گزرتا ہے۔ شیخ صاحب اس اعتبار سے بھی کامیاب اسلوب کے مالک کہے جا سککتے ہیں کہ وہ جو لکھتے ہیں قاری کا ذہن کہیں پراگندگی یا انتشار کا شکار نہیں ہوتا بلکہ معنی کی ساری تہیں اس پر کھلتی چلی جاتی ہیں۔

’’ شروع سے اس کی رفتار شوقِ ارتقا کی شہادت دے رہی ہے۔ پہلے یہ قدرت کا دست نگر تھا درختوں کے پھل اس کی خوراک تھی درختوں کے پتے اس کا لباس، قدرتی غاریں اس کا مسکن تھیں اور گوشۂ  دشت اس کا مدفن قناعت کا خوگر تھا جو مانگتا تھا قدرت اسے دے دیتی تھی … ذرا ہوش سنبھالا تو ہاتھ پاؤں مارنے شروع کیے، زمین سے کہا بیکار پڑی ہو ہمارے کام آؤ ہم بیج بوئیں تم اس کی حفاظت کرو، قدرت نے دیکھا لڑکا ہو نہار ہے اس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے مینہ کو حکم دیا کہ اس کے کھیتوں کو پانی دے لو، سورج کی خدمت مقرر کی کہ انھیں پکادے۔ انسان نے ہنسی خوشی فصل سمیٹا ( سمیٹی) تو اپنی کاری گری پر نازاں ہونے لگا … خیال آیا کہ نہر کا پانی زور سے بہہ رہا ہے اس زور سے کچھ کام کیوں نہ لیا جائے۔ ایک پن چکی لگا دی … اپنے آپ کو قدرت کا حکمران سمجھنے لگا … اس حد سے گزرو تو قدرت اپنی قوت دکھاتی ہے……‘‘ ۱؎

سارا مضمون دیکھیے بات سے بات کیسے نکلتی جاتی ہے ایسے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے بچوں کے لیے کہی گئی کوئی لوک نظم پڑھی جا رہی ہو اور اگر کلاسک کی بات کریں تو اقبال کے اشعار یاد آتے ہیں۔

تو شب آفریدی چراغ آفریدم

سفال آفریدی ایاغ آفریدم

بیابان و کہسار و راغ آفریدی

خیابان و گلزار و باغ آفریدم

اردو میں شیخ عبد القادر کے اندازِ  تحریر کی مثال کمیاب ہے ان کی نثر میں خلوص ہے اور سادگی و سلاست بھی، وہ اس بات کے قائل تھے کہ لکھتے ہوئے تحریر کو سجانے بنانے کے بجائے اپنے خیالات و احساسات کو بے تکلف انداز میں رقم کر دینا، تحریر کی تاثیر میں اضافے کا موجب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر کے بہاؤ میں کہیں رکاوٹ کا شائبہ نہیں ہوتا، منظر ہو یا کیفیت، نقشہ یوں باندھتے ہیں کہ قاری اور مصنف میں کوئی بعد نہیں رہ جاتا۔ ۲؎

یہاں اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سککتا کہ قاری بیک وقت نہایت رحم دل بھی ہے اور سفاک بھی۔ وہ کسی مصنف کو آسمان کی بلندیوں پر متمکن بھی کرسکتا ہے اور اسے قعرِ  مذلت میں بھی دھکیل سکتا ہے۔ لکھنے والے کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ جہاں وہ اپنی تحریر کی دلکشی اور موضوع کی صداقت اور خلوص کا دھیان رکھتا ہے وہیں اسے اپنی ذات کے سدھار کی طرف بھی بھرپور توجہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ شیخ صاحب متاثر کن شخصیت کے مالک تھے۔لوگ انھیں اور ان کی ادبی، سیاسی، تعلیمی، صحافتی اور سماجی خدمات کی بنا پر پسندیدہ شخصیت جانتے تھے اور ان کے قلم سے نکلے ہوئے لفظوں کو معتبر تسلیم کیا جاتا تھا۔ شیخ عبد القادر سر سید کی مانند قومی زندگی کے تمام پہلوؤں کے متعلق متفکر رہے۔ چنانچہ انھوں نے جس موضوع پر بھی لکھا بیانیہ، سادہ اور مدلل اسلوب میں ہی لکھا۔ ’’مرحومہ مس میننگ ‘‘ دیکھیے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سرسید کا ’’ گزرا ہوا زمانہ ‘‘ یا ’’ امید کی خوشی‘‘ یا ا سی سلسلے کا کوئی مضمون پڑھ رہے ہیں ۔

’’ تھی تو وہ عورت مگر کام وہ کر گئی کہ مردوں میں کسی کسی سے بن پڑے۔ سات اور ستر برس کی عمر پائی اور جب سے ہوش سنبھالا خلقِ  خدا کی بھلائی میں مصروف رہی، اور جب پیامِ  رحلت آیا تو اس سکون کے ساتھ کوچ کیا جیسے کوئی ملازم شاہی مدت العمر کی کار گزاری کے بعد نیک نامی کے ساتھ رخصت ہوتے وقت ایک دمِ  سرد کھنچتا ہے کہ اب کچھ دنوں آرام کریں گے۔ وہ بے قرار روح جو راحت اور آسائش کے سامان میسر ہونے پر زندگی بھردوسروں کی تکالیف میں شریک رہی، اب آرام میں ہے اور حق رکھتی ہے کہ آرام میں ہو کیونکہ ایسے خوش قسمت بہت کم ہیں جو دنیا سے اس طرح سبک سار جاویں۔  ‘‘ ۳؎

مصنف موضوع کے حسبِ  حال اسلوب وضع کرتا ہے اور اگر اس میں وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کی تحریر کی تاثیر سے انکار ممکن نہیں۔   وہ بچوں کے لیے لکھ رہا ہے، خواتین کے لیے، طلبہ کے لیے، گھریلو خواتین کے لیے وہ مخاطب کو مدِ  نظر رکھتے ہوئے اسلوب تراشتا ہے۔ شیخ صاحب، ادبی مقالہ، علمی مقالہ، دیباچہ، سفر نامہ یا اداریہ تحریر کر رہے ہوں ، موضوع سے مناسبت رکھتا ہوا اسلوب اپناتے ہیں۔   اسلوب کی بنیادی شرط تحریر کا قابلِ  مطالعہ ہونا ہے، کسی بھی کتاب کی کامیابی کی ضمانت یہ کہ قاری اسے دلچسپی سے پڑھتا ہے یا وہ اسے نصابی کتابوں کی طرح خشک اور بے جان معلوم ہوتی ہے۔ پھر شیح صاحب کا وسیع مطالعہ اور دیگر زبانوں سے آشنا ہونا ان کی تحریر کو قابل مطالعہ بناتا ہے۔ اعلیٰ پائے کا شعری ذوق عالم نو جوانی سے ہی تھا سیکڑوں اشعار یاد تھے اور ان کے برمحل استعمال کا سلیقہ ان کی تحریر میں دیکھا جا سکتا ہے اردو فارسی کے اشعار بات کی وضاحت اور مضمون کی خوبصورتی کا سبب بنتے ہیں۔   کسی کے کہے گئے دو جملے سننے والے کا حوصلہ پست یا بلند کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔   شیخ صاحب کی اسلوب کی یہ صفت ان کی شخصیت سے مطابقت رکھتی ہے کہ وہ منفی اندازِ نظر اور مایوسی سے دور رہتے تھے، ان کی تحریر میں چمکتے ستارے امید کی کرن دکھاتے ہیں۔

مولوی عبد الحق پیش کردہ موضوع کی زبان کے سادہ ہونے کو کافی نہیں جانتے ان کے خیال میں الفاظ میں جان، تاثیر اور لطف ہونا بھی ضروری ہے۔شیخ عبد القادر کی تحریر میں تشبیہات و استعارات کم کم دکھائی دیتے ہیں ، لیکن تحریر کی دلکشی اور اثر انگیزی میں فرق نہیں آتا وجہ یہی ہے کہ ان کے برتے گئے سادہ و سہل الفاظ میں بھی توانائی و تازگی موجود ہے۔ اسلوب کی اہم صفات میں ایجاز و اختصار بھی شامل ہیں۔   شیخ عبد القادر جانتے ہیں کہ لفظوں میں توانائی ہوتی ہے، توانائی کو ضائع نہیں کیا جاتا بلکہ دیکھ بھال کر استعمال کیا جاتا ہے۔ لفظ کھنکتے سکے ہیں انھیں سوچ سمجھ کر خرچ کرنا چاہیے۔ اسلوب کی اہم صفات میں ایجاز و اختصار بھی شامل ہیں ، زائد از ضرورت الفاظ کا استعمال ان کے ہاں نظر نہیں آتا۔

الفاظ انسان کی شخصیت، اس کے ادبی و علمی پس منظر، یا صورتِ حال برعکس ہے تو اس کے، پھر اس کی نشست و برخاست کن لوگوں کے ساتھ ہے۔ اس کا مطالعہ کا ذوق کیسا ہے۔ اس کے رجحانات، ماحول، مزاج، اس کی افتادِ طبع، حتیٰ کہ احساسِ  برتری یا کمتری میں مبتلا ہونا بھی ظاہر کرتے ہیں۔  اسلوب ظاہر کرتا ہے کہ مصنف نے کن اساتذہ کی صحبت یا ان کی کتب سے فیض حاصل کیا ہے۔ شیخ صاحب کی تحریر کی شائستگی بین السطور ان کے خاندانی پس منظر اور ان کی علمی و ادبی و سیاسی صحبتوں کا احوال کہہ سناتی ہے۔اسلوب میں اس امر کی طرف بھی توجہ دی جاتی ہے کہ ایسے پیرائے میں بات کہی جائے کہ قاری اس ماحول میں پہنچ جائے اور لکھنے والے کے محسوسات، مشاہدات، تجربات حتیٰ کہ جذبات و کیفیات کو محسوس کرے۔

شیخ صاحب اپنے موضوع کو اتنے شوق، دلچسپی اور ترغیب دینے والے انداز میں بیان کرتے ہیں کہ قاری ان سے متفق ہوتا چلا جاتا ہے۔ پھر شیح صاحب کا وسیع مطالعہ اور دیگر زبانوں سے آشنا ہونا ان کی تحریر کو قابل مطالعہ بناتا ہے۔ جپسیوں کی زبان کا ذکر ہو یا اسپرانٹو زبان کا، فرانسیسی جرمن یا لاطینی زبان کے کسی لفظ کی اصل تک پہنچنا ہو تو شیخ صاحب کے علم اللسان سے وابستگی اور شوق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ان کی انگریزی دانی کے سبھی قائل ہیں۔   ان کے مضامین کا مطالعہ کیا جائے تو بات سے بات نکلتی آتی ہے اور اکثر کسی لفظ پر توجہ ہو جائے تو اس کی اصل تک پہنتے اور اپنے مطالعے میں قاری کو بھی شریک کرتے ہیں۔

’’… اس مجموعی آبرو، اس قومی عزت اس ملکی نمود پر جو’’ لبرٹی‘‘ سے وابستہ ہے، مر مٹنے والے ہم میں کہاں ہیں ، ہمارے ہاں اس لفظ کا ترجمہ عموماً’ آزادی‘‘ سے کیا جاتا ہے مگر انگریزی میں ایک اور لفظ بھی ہے جس کا اردو میں ترجمہ آزادی ہی ہے۔ یعنی ’’فریڈم‘‘ گو یہ دونو انگریزی لفظ اصل میں مترادف ہیں مگر مخرج کے فرق نے ان میں باریک سا فرق پیدا کر دیا ہے لبرٹی لاطینی زبان سے لیا گیا ہے اور فریڈم سیکسن اصل ہے۔ معنی دونو کے وہی ہیں اور اب بھی بعض اوقات ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں لیکن اصطلاح میں جو لطیف سا امتیاز ان کے معنوں میں پیدا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ فریڈم مطلق آزادی کے لیے چاہے وہ خیالات کی ہو، عادات کی ہو اطوار کی ہو، ذاتی ہو یا ایک جماعت کی ہو استعمال ہوتا ہے اور لبرٹی ملکی آزادی کے معنوں میں زیادہ مستعمل ہے۔ ہمارے ہاں اکثر ان دونو الفاظ کے لیے ایک ہی ترجمہ ہونے سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔   اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم بھی لبرٹی کے خاص مفہوم کے لیے ایک خاص لفظ قرار دیں اور میرے خیال میں اشس مفہوم کو عربی لفظ ’’ حریت‘‘ سے بڑھ کر کوئی لفظ ادا نہیں کرتا۔ ۴؎

’’ یونی ورسٹی کا ترجمہ عموماً دار العلوم کیا جاتا ہے مگر مصر میں لفظ کلیہ سے اس وقت یہ معنی لیے جاتے ہیں مجھے یہ لفظ اختیار کرنے کے قابل معلوم ہوتا ہے کیونکہ اول تو لفظ یونی ورسٹی کا لفظی ترجمہ ہے اور دوسرے مفرد ہونے کے سبب زیادہ سہل اور زیادہ مقبول ہونے والا ہے۔‘‘ ۵ ؎

’’ لفظ یونیورسٹی لغت کے اعتبار سے لاطینی زبان کے ایک لفظ یونیورسٹیاس سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں کل بقابل جزو اور جماعت، گروہ، کمپنی یا ایسو سی ایشن۔ اسی اشتیاق کی وجہ سے لفظ کلیہ عربی میں اس کا ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ ‘‘ ۶؎

شیخ عبد القادر کا ’’مخزن ‘‘ محض ایک جریدہ ہی نہ تھا بلکہ اردو ادب کی ایک تحریک تھی جو موضوعات ہی نہیں اسلوبیاتی لحاظ سے بھی لکھنے والوں کو ایک نئی راہ سجھاتی تھی ڈاکٹر عبادت بریلوی اس امر کی تائید کرتے ہیں کہ سرسید کی ادبی اصلاحی تحریک سے مناسبت رکھتے ہوئے ایک تحریک کا آغاز شیخ سر عبدالقادر نے ’’مخزن کی صورت میں کیا، جنھوں نے نہ صرف خود ایک نئے نثری اسلوب کو متعارف کرایا بلکہ اپنے گرد ان تخلیق کاروں کا کارواں اکٹھا کیا جو سرسید کے سادہ اور تصنع سے پاک اسلوب میں رومانی اثرات کو یکجا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ۷؎

مخزن کے تخلیق کار سرسیدکے اسلوب جس میں مقصدیت، واقعیت، قطعیت بھی ہے اور سادگی بھی، ان کے اسلوب میں عالمانہ رنگ بھی دیکھا جا سکتا ہے اور شوخی و تمثیلی انداز بھی، بعض مقامات پر وہ مکالماتی انداز میں اپنا مافی الضمیر ادا کرتے ہیں ، مخزن کے لکھنے والوں نے سرسید کے اسلوب کو مدِ نظر رکھا لیکن سرسید کے اسلوب کی وہ سادگی جو سپاٹ پن اور روکھے پھیکے انداز تک جا پہنچتی ہے ان لکھنے والوں کے ہاں ایسا کم نظر آتا ہے سبب اس کا یہی ہے کہ انھوں نے رومانی طرزِ تحریر کو بھی اپنائے رکھا ہے۔ شیخ عبد القادر کی نثر کے بارے میں ڈاکٹر عبادت بریلوی کہتے ہیں۔  ’’ شیخ سر عبد القادر کی اس تحریر سے صاف ظاہر ہے کہ ادبی نثر لکھنے کا سلیقہ رکھتے تھے، ان کے پاس سادگی اور بناوٹ کے فرق کا گہرا شعور تھا، وہ سادگی کو پسند کرتے تھے اور اس کے حسن کو زیادہ اہمیت دیتے تھے، ان کے اس اندازِ نثر میں بھی سادگی ہے، وہی سادگی جو سرسید کی تحریک کے زیرِ اثر پروان چڑھی تھی، لیکن اس میں تخیل سے پیدا ہونے والی اس رنگینی کے رنگ بھی جگہ جگہ دوڑے ہوئے ہیں جو ان کے اس اندازِ تحریر کو پر کاری سے ہم کنار کرتے ہیں ، اور جس کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ’’ مخزن ‘‘کی تحریک کی تحریک میں رومانیت کا جو رنگ و آہنگ تھا، اس کے ہاتھوں میں سر عبدالقادر کے اسلوب میں بھی رنگین کا ری کی ایک دنیا پیدا ہو رہی تھی۔ اس میں تشبیہات و استعارات فطری انداز میں اپنا جو جلوہ دکھا رہے ہیں وہ جذبے اور تخیل کی آمیزش سے پیدا ہونے والی پرکاری کو ظاہر کرتے ہیں اور اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سر عبد القادر بھی ایک صاحبِ طرز انشا پرداز تھے اور یہ کہ ان کی تحریروں نے ایک نئے اندازِ  نثر کی داغ بیل ڈالی جو سرسید کی نثر سے قریب ہونے کے باوجود اس سے مختلف تھی۔‘‘ ۸؎

’’ آفتاب عالم تاب کی بھی اس پری پر چشمِ  عنایت لندن سے جو چشم پوشی سرکار کو پسند ہے وہ برتاؤ پیرس سے نہیں اور اس شہر کی دھوپ اس کی روشنی، اس میں دھند اور غبار کی کمی ان سب باتوں نے مل کر اس کے باشندوں کو زندہ دل بنا دیا ہے آفتاب کی کرنوں کی بدولت ہی یہاں کے باشندوں کے رنگ میں ایک ملاحت سی پیدا ہو گئی ہے جو بہت دل آویز ہے ………… یہاں کے تاریخی مقامات میں نپولین کے مقبرے سے زیادہ دلکش جگہ نہیں ملے گی اس قابل دید عمارت کے دونو بازو تو جنگی عجائب خانے اور کمزور اور بوڑھے سپاہیوں کے ملجا کا کام دیتے ہیں مگر اس کے وسط میں ایک بلند گنبد ہے جس پر سنہری کام ہو رہا ہے۔ جس کی چمک دور سے دیکھنے والوں کو اپنی طرف بلاتی ہے۔ اس گبند کے نیچے اور کنارِ  دریائے سین میں وہ جری سوتا ہے جس کے اسپِ ہمت کی تگ و تاز نے یورپ بھر کو روند ڈالا تھا اور ساری دنیا کے دل دہلا دیے تھے۔‘‘۹؎

شیخ سر عبدالقادر اور ان کی ادبی تحریک کے عنوان سے مولانا صلاح الدین احمد اپنا نقطۂ  نظر واضح دو ٹوک لہجے اور اپنی بات شکر میں لپیٹے بغیرکہتے ہیں۔   اردو ادب کے پارکھ جدید اردو نثر کے آغاز کی داستان غالب سے شروع کرتے ہی سرسید پرآ جاتے ہیں۔  ۔ حالانکہ غالب اور سرسید کی نثر میں جو بعد ہے اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے

سرسید اور ان کے تابعین مسلسل مسلمانوں کو انگریزی زبان و ادب اور انگریزوں سے قریب لانے میں ہمہ وقت کوشاں رہے۔ ان کے نزدیک وقت کا تقاضا یہی تھا۔ سرسید نے اردو زبان و ادب کے فروغ و ارتقا پر کوئی توجہ نہ دی اور اردو کو محض اپنے خیالات کے اظہار و ابلاغ کا ایک ذریعہ جانا اگر وہ انگریزی دان ہوتے تو نوجوان نسل تک اپنے خیالات پہنچانے کے لیے انگریزی کو ہی وسیلۂ  اظہار بناتے غالب نے اردو نثر کا جو معیار قائم کر دیا تھا اسے مدِ نظر رکھا جائے تو سرسید کی نثر خاصی بھدی ہے۔ لیکن اردو نثر سے جو کام وہ لینا چاہتے تھے اس میں کامیاب رہے یعنی نوجوانوں کو انگریزی تعلیم سے بہرہ ور کریں۔   سرسید سے متاثر ہونے والے اہلِ قلم کی ایک بڑی تعداد منصۂ شہود پر آئی لیکن ان سب کو زبان بہ حیثیت زبان اور اس کے مسائل کی طرف توجہ کرنے کا موقع نہ ملا۔ یہ سعادت عبدالقادر کے حصے میں آئی عبدالقادر صلح جو، مزاج رکھتے تھے۔ مفاہمت اور مصالحت ان کی نمایاں خوبی تھی۔ وہ ہر نوع کے تعصبات سے بلند تھے۔ ان کی زندگی کا مشن اردو کو بہ حیثیت قومی زبان کے رائج کروانا، دوسرے اردو کو ایک جدید ترقی یافتہ زبان کے درجے تک پہنچانا۔ شیخ عبد القادر کے نظریات ایک تحریک کی صورت پھیلتے ہیں اور اس کا سب سے بڑا ذریعہ مخزن کا اجرا بنا۔ اس کے لیے انھوں نے ایسے اسلوب کا آغاز کیا جو سادگی و دلکشی میں بے مثال تھا۔ان کی تحریر اس بات کی غماز ہے کہ تخلیق شعری ہو یا نثر میں لکھی گئی عربی وفارسی زبان کا عالم ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ا ن کی تحریر میں فارسی الفاظ و تراکیب اپنی جھلک دکھا جاتی ہیں لیکن وہ اردو زبان میں اس قدر دخیل ہو چکی ہیں کہ اس کا حصہ بن کر رہ گئی ہیں ، عبد القادر کے نزدیک ادب کا قاری ایک فلاسفر یا استاد ہی نہیں ایک عام شہری بھی ہوسکتا ہے، جو اپنے ذوق کی تسکین اور ادبی مسرت کے حصول کے لیے کوئی تحریر پڑھتا ہے تو وہ اس کی تسکین کا باعث بنے ناکہ اسے لغت کی طرف رجوع کرنے پر مجبور کرے۔ انھوں نے ہندو لکھاریوں اور انگریزی کی طرف مراجعت کر نے والوں کے لیے اسلوب کی ایک ایسی مثال قائم کی جسے اپنا کر انھوں نے مخزن کے صفحات سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا اور کامیاب رہے۔ مولانا صلاح الدین احمد نے ان کے اسلوب کو بے مثل کہا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اگر ان کے اسلوب کی مماثلت تلاش کرنا ضروری ہو تو گاندھی کا اسلوب تھا، دونوں اپنے مقاصد کی گہرائی سے آگاہ تھے، دونوں جانتے تھے کہ سچی بات سیدھے سبھاؤ سے کہی جائے تو عوام کو جلد متوجہ کرتی ہے۔ وہ جس انداز میں بات چیت کرتے تھے وہی طرز لکھتے ہوئے اپناتے تھے۔ موضوعات متنوع تھے، ادبی، سیاسی، سماجی، مذہبی لیکن پیرایۂ  اظہار میں سادگی و ہمواری ہمیشہ پیشِ نظر رہی۔‘‘۱۰؎

شیخ عبد القادر اسلوب میں تجربات کے بھی قائل ہیں۔  ’’تاج دار بیوی کا بے تاج شوہر‘‘( یورپ کا ایک قصہ ہندوستانی رنگ میں ) کا اسلوب شرر اور مولوی نذیر احمد کی یاد دلاتا ہے، الفاظ کی نشست و برخاست اور جملوں کی ساخت سبھی میں قدما ء سلف کا اندازِ  بیان جھلک رہا ہے

’’ ملکہ: ( گھبرا کر) آج میری پھوپھی صاحبہ کس طرح کی باتیں کر رہی ہیں۔   خیر تو ہے۔لللہ جو کچھ بات ہوئی ہے مجھے جلد بتا دیجیے اس لمبی تمہید نے تو مجھے ڈرا دیا ہے۔

شہزادی : گھبرانے کی تو کوئی بات نہیں۔   بات تو ایسی ہے کہ آج نہیں تو کل پیش آنی ہی تھی ہاں ، یہ افسوس ہے کہ یہ مدبر خواہ مخواہ جلدی کر رہے ہیں۔

ملکہ: آخر پتا بھی تو چلے کہ وہ چاہتے کیا ہیں۔   آپ ان پر افسوس کیے جاتی ہیں مگر میرے تردد کے گھٹانے کی فکر نہیں۔

شہزادی : کیا کہوں مجھے تو اس سے اختلاف ہے مگر وزرا یہ چاہتے ہیں کہ آپ کو کامل اختیارات ملنے سے پہلے آپ کی شادی کا مسئلہ طے ہو جائے۔

ملکہ: تو کیا اب ملکی معاملات سے اتر کر میرے ذاتی معاملات میں بھی وزرا کو دخل ہو گا۔ یہ مجھے ہرگز منظور نہیں۔   میرا جیسا جی چاہے گا شادی کروں گی اور شادی نہ بھی کروں …

شہزادی 🙁 حکمتِ  عملی سے ) اچھا تو میں ان لوگوں کو کچھ دیر کے لیے ٹال دیتی ہوں مگر ویسے مجھے تو یہ حق ہے کہ تمھاری پھوپھی کی حیثیت سے اس معاملے پر مشورہ دوں۔

ملکہ : بے شک آپ میری بزرگ ہیں اور ماں باپ دونو کی جگہ آپ ہی ہیں آپ کا مشورہ میری سر آنکھوں پر… … ۱۱؎

شیخ صاحب جزئیات نگاری کے فن سے بھی آشنا تھے ہر منظر ہر موقع محل کو تفصیل سے بیان کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔   موضوع سے متعلق وسیع معلومات کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتے ہیں تو تصویر کھینچ کر رکھ دیتے ہیں۔

شیخ عبد القادر جملے مختصر لکھتے ہیں لیکن طویل جملے لکھتے ہوئے بھی ان کا قلم کبھی عاجز نہیں ہوا۔ شاید اس کا سبب ان کا انگریزی ادب کا غائر مطالعہ ہے، یولیسس میں کئی کئی صفحات پر مشتمل جملہ ملتا ہے اردو میں اس کے تجربے کم ہوئے ہیں ، شیخ صاحب نے جب بھی طویل جملہ لکھا ہے جملے کی ساخت اور الفاظ کی نشست و برخاست سبھی اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ شیخ صاحب اپنے خیالات کی روانی میں کوئی رکاوٹ ڈالنا نہیں چاہتے پھر اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ ایک منظر یا ایک روداد کے بیان میں متعلقہ چیزوں کا، احساسات کا، مناظر کا اسی بہاؤ اسی روانی میں تذکرہ کرتے چلے جاتے ہیں اور انھیں خود بھی جملے کے طویل ہونے کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ طویل جملے عام طور پر ان کے سفر ناموں میں ملتے ہیں کہ جہاں ان مناظر کے بیان میں دیگر جزئیات خود اپنی جگہ بنا لیتی ہیں۔

’’ جھیل کے کنارے روشنی ہی روشنی نظر آتی ہے اور مکانوں کے لیمپ اور سڑ ک کی لالٹینیں اپنا عکس پانی میں ڈالتی ہیں اور عجب بہار دیتی ہیں لیکن اگر کوئی شہروں کی ان معمولی دلچسپیوں سے گھبرا کر یہاں آیا ہو اور گوشۂ تنہائی کا متلاشی ہو تو وہ آبادی سے کچھ دور نکل جائے۔‘‘ ۱۲؎

’’ آزادی مساوات اور حقوق کے خیالات جو صدیوں سے اہلِ انگلستان کی گھٹی میں پڑے ہیں ، ضرور اب تک باقی ہیں لیکن دیکھا جاتا ہے کہ اکثر امرا اور مدبرین پر حکومت پسندی کا مزاج غالب آ جاتا ہے اور شوقِ  جہانبانی جسے سیاسی اصطلاح میں امپریلزم کہتے ہیں دماغوں میں سما کر آزادی اور مساوات کے تخیل کو مغلوب کر جاتا ہے۔۱۳؎

خانہ بدوش جپسی کا تعارف مضمون کے ابتدائیہ میں ایک طویل جملے میں یوں کراتے ہیں۔  ’’… گو تمدن کی ترقی اور قانون کی سخت گیری سے روز بروز ان کی تعداد گھٹتی جاتی ہے اور ان میں جو ذرا خوشحال ہیں وہ اپنی آوارگی کی زندگی چھوڑ زیادہ پر امن پیشوں میں گھستے جا تے ہیں اور رفتہ رفتہ انگلستان کی زبر دست آبادی کا جزو بنتے جاتے ہیں ، تا ہم ان کے حالات نہ صرف تاریخی اور علمی اعتبار سے دلچسپی سے پر ہیں ، بلکہ اہلِ ہند کے لیے خصوصیات سے دلچسپ ہیں ، کیونکہ جدید تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ اقوام زمانۂ  قدیم میں ہندوستان سے آئی تھیں اور اس وقت تک خانہ بدوش لوگ ہندوستان کے اکثر حصوں میں موجود ہیں۔   ‘‘۱۴؎

الفاظ انتخاب کے بعد لب و لہجہ اور ادائگی کی اہمیت ہے۔ زورِ  بیان اضافی صفت ہے۔ جذبہ میں جتنی شدت صداقت اور اخلاص ہو گا۔ لفظ اتنا ہی دیر پا اثر قائم کریں گے۔ شیخ صاحب فن خطابت پر عبور رکھتے تھے، انھوں نے ہمیشہ خطبۂ  صدارت فی البدیہہ دیا۔ صلاح الدین احمد کہتے ہیں کہ وہ جس زبان میں گفتگو کرتے تھے بالکل وہی ان کی تحریری زبان ہوتی تھی۔ ان کی تحریر میں تکلف و تصنع کا گزر نہ تھا۔ موضوع خواہ ادبی، سیاسی، داخلی، خارجی ہو، وہ یکساں مہارت اور ہموار انداز میں اپنا ما فی الضمیر بیان کرتے چلے جاتے تھے۔ یہ اسلوب و سادگی و ہمواری کے ساتھ ساتھ لطافت و دل آویزی بھی رکھتا تھا جو کسی اور مصنف کے ہاں نہ ملے گی۔ ۱۵؎

٭٭

 

حوالہ جات

 

۱۔    شیخ عبد القادر،’’ کان کنی کے شہید‘‘ مشمولہ انتخاب مخزن،ص ۱۸۵

۲۔      سالک، ’’شیخ عبد القادر ‘‘ مشمولہ اوراق نو، ص ۳۳

۳۔   شیخ عبد القادر ’’مرحومہ مس میننگ ‘‘، مشمولہ انتخاب مخزن،ص۱۳۳

۴۔   شیخ عبد القادر،’’حریت اور آزادی‘‘، مشمولہ انتخاب مخزن ص ۱۳۷۔۱۳۸

۵۔    شیخ عبد القادر،کلیہء کیمرج، مشمولہ انتخاب مخزن ص۱۱۰

۶۔     شیخ عبد القادر ،’’مجوزہ محمڈن یونیورسٹی‘‘،مشمولہ انتخاب مخزن ص ۶۶

۷۔    عبادت بریلوی،۱۹۷۷ء،’’اقبال کی اردو نثر‘‘،لاہور،مجلس ِترقی ادب

۸۔    عبادت بریلوی ۱۹۷۷ء،’’اقبال کی اردو نثر‘‘، لاہور، مجلسِ ترقی ء ادب

۹۔      شیخ عبد القادر،’’ پیرس یا پری‘‘،مشمولہ انتخاب مخزن ص ۱۷۴۔۱۷۵

۱۰۔   مولانا صلاح الدین احمد،’’ عبد القادر اور ان کی ادبی تحریک‘‘ ،مشمولہ اوراق نو، ص ۱۰۳

۱۱۔   شیخ عبد القادر ’’تاج دار بیوی کا بے تاج شوہر‘‘( یورپ کا ایک قصہ ہندوستانی رنگ

میں ) مشمولہ انتخاب مخزن، ص ۲۰۷

۱۲۔   شیخ عبد القادر،’’یورپ کے بعض دلچسپ اور تاریخی نظارے ‘‘ مشمولہ انتخابِ مخزن،

ص ۱۶۰

۱۳۔   شیخ عبد القادر،’’ ہندوستان کا اثر انگلستان پر ‘‘، مشمولہ انتخابِ مخزن،ص ۱۵۶

۱۴۔  شیخ عبد القادر،’’ خانہ بدوش جپسی‘‘ مشمولہ انتخاب ِمخزن،ص۱۹۲

۱۵۔  صلاح الدین احمد، ’’عبد القادر اور ان کی ادبی تحریک ‘‘ مشمولہ اوراقِ نو، ص ۱۰۳

 

 

 

 

 

 

معاصرین کی آرا

 

’’وہ اردو ادب کے اعلیٰ درجے کے ادیب اور نقاد تھے۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں پر انھیں کامل قدرت تھی۔ اور جیسے وہ بہترین انشا پرداز تھے ویسے ہی وہ مقرر تھے اور ہر موقع پر بے تکلف تقریر کرتے تھے۔ وہ بڑے زندہ دل، خوش مزاج اور وسیع الاخلاق تھے۔‘ ‘ ۱؎

سر عبدالقادر لاہور کے حکیم اجمل خان تھے۔ ویسے ہی شستہ و شائستہ، ویسے ہی سنجیدہ اور متین۔     باتیں بھی حکیم اجمل خاں کی طرح جچی تلی کرتے تھے۔ لیکن حکیم اجمل خاں مقرر نہیں تھے۔      سر عبدالقادر بلند پایا مقرر بھی تھے۔ جیسا لکھتے تھے ویسا ہی بو لتے تھے۔ ز با ن بالکل د لی والوں کی سی تھی۔ لہجہ بھی دلی والوں کا سا۔ حرکات و سکنات بھی دلی والوں کی سی۔‘‘ ۲ ؎

’’سر عبدالقادر کے گزر جانے سے ملت میں جو جگہ خالی ہو گئی ہے، اسے پر نہیں کیا جا سکتا۔سیا سیات سے قطع نظر ایک بڑا کام جو انہیں زندہ جا وید رکھے گا وہ اُردو زبان کی خدمت ہے۔‘‘ ۳ ؎

’’سر عبدالقادر کی وفات سے اُردو کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے، وہ حقیقت میں اُردو کی گز شتہ پچاس سال کی جیتی جاگتی تاریخ تھے۔پنجاب میں اُردو کی مقبولیت کا سہرا در حقیقت انھی کے سر ہے۔‘‘۴ ؎

’’اس دعوے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ادبِ اُردو کی مو جو دہ حو صلہ افزا رفتار میں سر عبدالقادر مرحوم و مغفور کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اس لیے کہ وہی تھے جنھوں نے مغربی تعلیم یافتہ طبقے میں اُردو ادب کا ذوق پیدا کیا اور اپنی پر کشش شخصیت اور اپنے مشہور ر سالہ’’مخزن‘‘ کے ذریعے سے صد ہا ادبا و شعرا پیدا کر دیے۔ ‘‘ ۵ ؎

شیخ عبدالقادر مرحوم قدیم مشرقی تہذیب کا زندہ مجسمہ تھے ان کی شرافت، وضعداری، زندہ دلی اور بزرگانہ شفقت ملنے والوں کو مسحور کر لیتی تھی۔ وہ ایک متین ماہرِ صحافت، مخلص دوست تھے۔ ‘‘ ۶ ؎

’’مجھے اکثر یہ احساس ہوتا کہ یہ مردِ بزرگ ایک چلتی پھرتی ایسی زندہ لائبریری ہے جو ہر مجلس میں ہر سامع کے مذاق جاندار روایات کی بارش بر سا تی رہتی ہے۔‘‘ ۷ ؎

عبدالرحمن چغتائی مصوری میں اپنی ایک ایک جنبشِ قلم سے پہچانے جاتے ہیں ، وہیں نثر میں بھی اپنے مخصوص اندازِ  تحریر کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔

’’ اس قوم کی ناداری کی انتہا نہیں جس کے اندر سوجھ بوجھ رکھنے والی شخصیتوں کا قحط ہو۔ اقبال کے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہو گیا تھا اس کی کمی کے احساس کو تازہ رکھنے کے لیے سر عبد القادر کی شخصیت ایک سہارا تھی … سر اقبال اور سر عبد القادر کے بعد کوئی ایسی شخصیت نظر نہیں آتی جو کچھ کہے اور کچھ دکھائے۔‘‘  ۸؎

انھوں نے اپنے انداز تحریر سے ثابت کر دیا کہ روز مرہ کے ادبی اور تہذیبی مسائل پر اظہار خیال کے لیے بس ایک ذرہ سے سلیقے کی ضرورت ہوتی ہے۔ فا رسی اور عربی کا جید عالم ہو نے کی قطعاً ضرورت نہیں۔  اس انداز کو پیش کر نے میں دو سرا نکتہ یہ تھا کہ عوام کسی دقت یا تکلیف کے بغیر ادب کی مسر تو ں سے لذت یاب ہو سکیں۔   اور تیسرا سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ ہمارے ہندو ہم وطن اس کی آسانی اور دلآویزی سے متاثر ہو کر اردو سے قریب تر ہو جائیں۔  ۹؎

ما تم مرگِ عزیزاں مرا آغاز حیات

تابہ انجام اسی دھن پہ رہا سازِ حیات

سفرِ زیست کی مدت انھی راہوں میں کٹی

عمر آہوں میں کٹی، واہ رے اندازِ حیات ۱۰؎

شیخ عبدالقادر مرحوم

باد مغفورِ ایزد وہاب

۱۳۶۹ھ

غمِ شیخ

۱۹۵۰ء

۱۱ ؎

 

تاریخ ہائے وفات

 

چراغِ محفلِ ادب

۱۳۶۹ھ

آہ عبدالقادر مدیر مخزن

۱۳۶۹ء

۱۲ ؎

……………………………………

آفتاب انجمن شیخ عبدالقادر

۵۰ ۱۹ء

(۱)

انجمن جس کے دم سے روشن تھی،

بجھ گئی آج اس کی شمع حیات

زند گی اس کی انجمن کا چراغ،

انجمن کا چراغِ سالِ وفات

۶۹ھ۱۳

(۲)

اُسے ڈھونڈا کر یں گی اب نگاہیں

وہ تھا قلب و دماغِ شہرِ لاہور

ہوا بے تاج ’’فرقِ  انجمن‘‘ جب

کہا میں نے’’ چراغِ شہر لاہور‘‘

۱۹۵۱۔۱۹۵۰

(۳)

آنکہ شمع انجمن افروز بود

رونق افروز جہاں امروز نیست

بادلِ زار از پئے سالش حفیظ

گفت’’شمع انجمن افروز نیست‘‘

۱۹۶۸+۱=۱۳۶۹ھ ۱۳؎

(۴)

حفیظ محفلِ اَ بَد کی جستجو رہی اُسے

جب آنکھ بند کی ملا سُراغِ محفلِ اَبَ

جو شمع بجھ گئی یہاں وہ خلد میں ہے ضو فشاں

’’چراغِ محفلِ ادب‘‘۔ چراغِ محفل اَبَد‘‘۱۴؎

(۵)

سر خوش جامِ بقا ہے وہ آج

ہائے مدہوشی عبد القادر

خوش بیانی کے عوض خاموشی

آہ ’’ خاموشی عبد القادر ‘‘

(۱۳۶۹ھ)۱۵؎

(۶)

وہ جس کو ’’شاعرِ مشرق سے ربطِ محکم تھا

وہ رندِ بادۂ دوشیں حریفِ بزمِ

وہ یادگارِ کمالاتِ ماضیِ مرحُوم

وہ جس کے دم سے پرانے چراغ تھے روشن ۱۶؎

’’ ان کی جان پہچان اور تعلقات کی وسعت کا یہ عالم تھا کہ سر سید احمد خان سے لے کر سید عطا اللہ شاہ بخاری اور داغ سے لے کر حفیظ جالندھری تک ہر شخص سے ان کے یکساں مراسم تھے۔ باتیں کرنے پر آتے یا گزری ہوئی صحبتوں کا حال بیان کرتے تو سماں باندھ دیتے تھے۔ حافظے کی یہ کیفیت تھی کہ نصف صدی قبل کے واقعات ان کے ذہن میں یوں محفوظ تھے گویا کل کی بات ہے۔‘‘ ۱۷ ؎ ََ

 

                شیخ عبد القادر پر کیا جانے والا کام

 

 شیخ عبد القادر پر اردو رسائل کے خاص نمبر

 

اوراقِ  نو

شیخ صاحب نے ہمیشہ اردو ادبی رسائل کے اجرا کا خیر مقدم کیا، کئی مدیران کی خواہش ہوا کرتی تھی کہ ان کے جریدے کا نام شیخ صاحب تجویز کریں۔   ناصر کاظمی اور شیخ صاحب کے فر زند شیخ عبد القادر نے اردو رسالے کے اجرا کا ارادہ کیا اور اس کا نام ’’ اوراق نو ‘‘ تجویز کیا۔ شیخ صاحب نے اس نام کو پسند کیا اور دعا کی کہ اس پرچے میں ایسی چیزیں شائع ہوں جو اردو ادب میں نئے باب کا اضافہ کریں نئے خون کی ضرورت زندگی کے ہر شعبے میں ہے اور مدیران کی اس خواہش کا احترام بزرگ لکھنے والوں پر بھی لازم ہے کہ و وہ اپنے تخلیقی تجربات سے نوخیز ذہنوں کو فیض یاب کریں۔   ۱۸ ؎

شیخ عبدالقادر کی وفات پر ’’اوراقِ نو ‘‘ نے مرحوم کی یاد میں ان کے فرزند ناصر کاظمی اور ریاض کاظمی کی ادارت میں خاص نمبر شائع کیا۔ جو شیخ عبدالقادر کے چند مضا مین کے علاوہ ملک کے مشہور ادباء اور شعرا کی تخلیقات پر مشتمل ہے:

عبدالقادر کے نام از علامہ اقبال: ایک شمع رہ گئی تھی از ریاض قادر

آہ میر الحسن(نظم )از حفیظ جالند ھری، شیخ عبدالقادر از مو لا نا عبد المجید سالک

شیخ عبدالقادر از سید امتیاز علی تاج، چراغ محفل ادب از حفیظ ہو شیار پو ری

مشعل راہ از ریاض قادر ناصر کا ظمی، تاریخ ہائے وفات از صو فی غلام مصطفیٰ تبسم

نظم از یو سف ظفر: تاریخ ہائے وفات از راحل ہو شیار پوری

 

حمایتِ  اسلام

۸ فروری ۱۹۵۲ء؁جلد ۶۹نمبر۶ حمایت اسلام لاہور کے اس عبدالقادر نمبر میں شائع ہو نے وا لے چند لکھا ر یو ں کے نام درج ذ یل ہیں۔

مولانا عبد المجید سالک، ، محمد دین تاثیر، عبد العزیز فلک پیما، علا مہ اقبال، مو لا نا صلاح الدین احمد، حفیظ جالندھری، ڈاکٹر محمد باقر، شیر محمد اختر

 

مخزن

شیخ صاحب کی وفات پر ان کے اپنے رسا لے ’’مخزن‘‘ نے بھی مارچ ۱۹۵۰ میں ایک گراں قدر نمبر شائع کیا۔تعزیتی منظومات و مضامین و تاثرات لکھنے والوں میں حفیظ ہوشیار پوری، منشی تلوک چند محروم، سلام مچھلی شہری، مختار الدین، جگن ناتھ آزاد، امیں حزین سیا لکو ٹی، شورش کاشمیری، ڈاکٹر محمد باقر، ڈاکٹر محمد شجاع نا موس، مو لو ی عبدالحق، شیر محمد اختر، سید مقبول حسین احمد پوری، عبدالعزیز خالد، جوش ملسیانی۔پرو فیسر آل احمد سرور، عارف بٹا لوی، ملا واحدی، علامہ اقبال، پرو فیسر آغا صادق، مو لا نا حامد علی خاں شامل ہیں۔

 

                تحقیقی کام

 

برائے ایم۔اے

 

اردو ادب انیسو یں صدی میں یہ مقالہ شیخ عبدالقادر کی تصنیف کا تر جمہ ہے۔

(Urdu Literature in the 9th Century)جسے قو می کتب خانہ لاہور نے ۱۹۴۱ء؁ میں شائع کیا مقالہ نگار(تر جمہ)صفیہ نقوی مقالہ برائے ایم اے اردو پنجاب یو نیو ر سٹی لا ہو ر ۱۹۵۳ء صفحات ۷۱

سر عبدالقادر از اظہر محمد خاں نگران ڈاکٹرسید عبداللہ مقالہ برائے ایم اے اردو پنجاب یو نیو ر سٹی لا ہو ر، ۱۹۵۷ء ۱۰۷ صفحات

مخزن (مقالہ) نسبت ۲ سالہ اشاعت کا تجزیاتی مطالعہ: ۱۹۰۱ء تا ۱۹۲۰ء : تحقیقی مقالہ ایم اے صفحات پنجاب یو نیو ر سٹی لا ہو ر مقالہ نگار عبد الشکور نگران: ڈاکٹر عبدالسلام خو رشید ۱۹۶۷ء: ۲۲۹+۲۲۸ صفحات

شیخ عبد القادر کی اد بی تنقید: شیخ ؑعبد القادر کی اد بی تنقید از پر و ین شاہ دین نگراں ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی مقالہ برائے ایم اے اردو پنجاب یو نیو ر سٹی لا ہور ۱۹۷۲ء ۱۴۸ صفحات

 

تحقیقی مطالعہ برائے پی ایچ ڈی

 

شیخ عبدالقادر کی حیات و ادبی خد مات از صفدر حسین، نگراں پرو فیسر ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی کراچی یو نیو ر سٹی۔

 

                شیخ عبدالقادر پر مستقل تنقیدی کتب

 

شیخ عبدالقادر مولفۂ شیخ محمد نصیر ہما یوں ، قو می کتب خانہ ریلوے روڈ لاہور فروری ۱۹۶۰ء      (پہلا ایڈیشن)۱۲۸صفحات۹ ۱ ؎

٭٭٭

 

 

حوالہ جات

 

۱۔مولوی عبدالحق، ، ۱۹۸۶ء، مشمولہ ’’مقالاتِ عبدالقادر‘‘، لاہور مجلس ترقی ادب، ص ۳

۲۔ملا وا حدی، ۱۹۸۶ء، مشمولہ ’’مقالاتِ عبدالقادر‘‘،لاہور مجلس ترقی ادب، ص ۳

۳۔ مو لا نا ظفر علی خان، ۱۹۵۰ء مشمولہ ’’ اوراقِ  نو ‘‘ شیخ عبد القادر پر خصوصی اشاعت،  نمبر ص۱۳۱

ُُؒ۴۔سید عابد علی عابد ایضاً ص ۱۳۱

۵۔ مولانا عبد المجید سالک ایضاً ص۱۳۱

۶۔صو فی غلام مصطفے تبسم ایضاً ص۱۳۲

۷۔ ڈاکٹر محمد باقر ایضاً ص۱۱۱

۸۔ عبد الرحمن چغتائی ایضاً ص ۹۱

۹۔مو لا نا صلاح الدین احمد ایضاً ص۱۰۳

۱۰۔ حفیظ جالندھری ایضاً ص۲۶

۱۱۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم ایضاً ص۷۵

۱۲۔راحل ہوشیار پوری  ایضاً ص۸۰

۱۳۔ حفیظ ہوشیار پوری ایضاً ص۸۱

۱۴۔حفیظ ہوشیار پوری ایضاً ص ۲۸

۱۵۔        نقوش جولائی ۱۹۷۳ء، ص ۴۷۹

۱۶۔        عبد العزیز خالد۱۹۵۰ء مشمولہ ’’ اوراقِ  نو ‘‘ شیخ عبد القادر پر خصوصی اشاعت، ص۸۵

۱۷۔ بٹالوی، عاشق حسین، ۱۹۹۲ء، ’’چند یادیں ، چند تاثرات‘‘، لاہور سنگِ میل، ص۳۵

۱۸۔ شیخ عبد القادر کا آخری پیغام، ایضاً ص۶

۱۹۔محمد حنیف شاہد، ’’سرشیخ عبدالقادر، کتابیات‘‘، مقتدرہ قومی زبان، ص۲۴ تا ۲۸

٭٭٭

 

 

حوالے

 

                کتابیات

 

َ۱۔احسان دانش، ۲۰۰۲ء’’ جہانِ دانش‘‘، لاہور، خزینۂ  علم وادب

۲۔احمد سلیم، ۲۰۰۴ء’’ انتخاب مخزن‘‘ لاہور سنگِ میل

۳۔احمد سلیم، ۲۰۰۳ ء؁ ’’تا ر یخ کا ایک گم شدہ ورق‘‘ دو ست پبلی کیشنز، اسلام آ باد

۴۔ اقبال، علامہ محمد، ۱۹۹۹ء، ’’ کلیاتِ اقبال‘‘، لاہور نیشنل بک فاؤنڈیشن

۵۔ انور سدید، ڈاکٹر، ۱۹۸۷ء، ’’اردو ادب میں سفر نامہ ‘‘  لاہور، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی

۶۔بٹالوی، عاشق حسین، ۱۹۹۲ء، ’’چند یادیں ، چند تاثرات‘‘، لاہور سنگِ میل

۷۔بٹالوی، عاشق حسین، ۱۹۸۵ء ’’چند یادیں ، چند تاثرات ‘‘جلد اول، لاہورواجد علیز

۸۔     تاثیر، محمد دین، مرتبہ:قرشی، افضل حق، ۱۹۷۷ء، ’’ اقبال کا فکر و فن ‘‘لاہور، منیب پبلی کیشنز

۹۔       جاوید اقبال، ڈاکٹر، ۱۹۷۹ء، ۱۹۸۴ء، ’’ زندہ رود‘‘ تین جلدیں ، لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز

۱۰۔خورشید، ڈاکٹر، عبد السلام ۱۹۷۷ء، ’’سرگذشتِ  اقبال‘‘ لاہور، اقبال اکادمی

۱۱۔سالک، عبدالمجید، ۱۹۵۵ء ’’ذکرِ اقبال‘‘، لاہور، بزمِ  اقبال

۱۲۔سالک، عبدالمجید، سن ندارد، ’’سرگذشت‘‘ لاہور، قومی کتب خانہ

۱۳۔سالک، عبدالمجید، سن ندارد، ’’ یارانِ  کہن‘‘ لاہو، ر قومی کتب خانہ

۱۴۔شاہد، محمد حنیف، ۱۹۹۲ء، ’’سرشیخ عبدالقادر، کتابیات‘‘، مقتدرہ قومی زبان

۱۵۔شاہد، محمد حنیف، ۱۹۷۲ء، ’’نذرِ اقبال‘‘، لاہور، بزمِ  اقبال، کلب روڈ

۱۶۔شاہد، محمد حنیف، ۱۹۷۲ء، ’’مقالاتِ عبدالقادر‘‘، مجلس ترقی ادب لاہور

۱۷۔شاہد، محمد حنیف، ۱۹۸۶ء، ’’مقالاتِ عبدالقادر‘‘، مجلس ترقی ادب لاہور

۱۸۔ عبادت بریلوی، ۱۹۷۷ء، ’’اقبال کی اردو نثر‘‘، لاہور، مجلس ترقی ء ادب

۱۹۔عطیہ بیگم، ۱۹۶۹ء’’اقبال‘‘ لاہور، اقبال اکیڈمی

۲۰۔ فرمان فتح پوری، ڈاکٹر، ۱۹۷۸ء، ’’ اقبال سب کے لیے ‘‘، کراچی اردو اکیڈمی سندھ

۲۱۔فقیر، سید وحید الدین، ۱۹۴۶ء ’’روزگارِ فقیر‘‘ کراچی لائن آرٹ پریس

۲۲۔قریشی، محمد عبداللہ ۱۹۷۷ء، ’’معاصرین اقبال کی نظر میں ‘‘، لاہور، مجلسِ ترقی ادب

۲۳۔ملا واحدی، ۲۰۰۴ء، ’’دلی جو ایک شہر تھا‘‘، کراچی اکسفورڈ یونی ورسٹی پریس

۲۴۔ ممتاز حسن، ڈاکٹر، مرتبہ : ۱۹۷۳ء’’اقبال اور عبد الحق‘‘لاہور، مجلسِ ترقی ادب

۲۵۔گوہر نوشاہی۱۹۹۱ء، ’’لاہور میں اردو شاعری کی روایت‘‘، لاہور، مکتبۂ عالیہ

۲۶۔ہاشمی، رفیع الدین، ۱۹۸۲ء، ’’ تصانیفِ اقبال کا تحقیقی و تو ضیحی مطالعہ‘‘، لاہور اقبال اکادمی

۲۷۔ہمایوں ، شیخ محمد نصیر ( مولف) ’’شیخ عبد القادر‘‘، لاہور، قومی کتب خانہ، ۱۹۶۰ء

 

                 رسائل

 

۱۔احمدسلیم، امرتا شیر گل، مشمولہ ’’لفظ لوگ ‘‘، اسلام آباد، پروین شاکر ٹرسٹ

۲۔ حفیظ ہوشیارپوری ، ’’شیخ عبد القادر مرحوم‘‘ مشمولہ  ماہ نو  کراچی۔   فروری ۱۹۵۱ء

۲۔ریاض قادر، ناصر کاظمی، مدیران، ۱۹۵۰ء ’’ اوراقِ  نو ‘‘ شیخ عبد القادر پر خصوصی اشاعت سعادت سعید، ۲۹۰۰ء، شمارہ ۶۔’’ تحقیق نامہ‘‘ لاہور، شعبۂ اردو، جی سی یونی ورسٹی

۳۔شاہد، محمد حنیف، مارچ ۲۰۱۱ء ’’سرشیخ عبد القادر اور دفاعِ  اردو ‘‘اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان

۴۔شاہد، محمد حنیف، اکتوبر ۲۰۰۵ء’ ’سرشیخ عبد القادر اور اردو ہندی نزاع‘‘ اسلام آباد، مقتدرہ  قومی زبان

۵۔ گلزار جاوید :مدیر، ’’چہار سو‘‘

۶۔ محمد طفیل، جلد اول شمارہ ۱۰۹، اپریل مئی ۱۹۶۸ء ’’ نقوش، مکاتیب نمبر ‘‘ لاہور

 

                 انگریزی کتب

 

K.K. AZIZ 2010. A BIOGRAPHY OF ABDULLAH YOUSAF ALI , A LIFE FORLORN, LAHORE,SANG E MEEL

SHAIKH SIR  ABDUL QADIR. EDITED BY  MUHAMMAD HANIF SHAHID 2006 IQBAL, THE GREAT POET OF ISLAM , ISLAMABAD , LAFZ LOG PUBLICATIONS

  1. WAHEED AHMAD, LETTERS OF MAIN FAZL.I. HUSSAIN JUNE 1976. LAHORE, RESEARCH SOCIETY OF PAKISTAN, UNIVERSITY OF THE PUNJAB

٭٭٭

تشکر: مصننفہ جنہوں نے کتاب کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید