نعتیہ ادب میں تنقید کی اہمیت
ڈاکٹر عزیزؔ احسن
یہ مقالہ ’’حلقہء اربابِ ذوق کی تنقیدی نشست‘‘ میں مورخہ ۲؍رمضان المبارک ۱۴۳۳ھ بمطابق: ۲۲؍جولائی ۲۰۱۲ء بروز اتوار بمقام آرٹس کونسل، کراچی پڑھا گیا۔
ادب تنقیدِ حیات ہے۔اصناف ِ ادب اپنا الگ الگ تشخص بھی رکھتی ہیں اور مزاج بھی۔فنکار کے لیے اصنافِ ادب کی ہیئت کے حدود کا جاننا بھی ضروری ہے اور ان اصناف کے مزاج سے آگاہ ہونا بھی لازمی ہے۔تب ہی وہ کوئی فن پارہ تخلیق کرسکتا ہے۔فن پارے کی تخلیق، جذبِ دروں کی محتاج ہے لیکن اس کی ہیئت خارجی عوامل کی آگاہی کی مقتضی ہے۔اس لیے جیسے ہی تخلیق کا مرحلہ در پیش ہوتا ہے ’’تنقیدی شعور‘‘ کی مداخلت کا بھی آغاز ہو جاتا ہے۔بات شاعری کی حد تک محدود رکھنے کی غرض سے کی جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ صنفِ سخن کے انتخاب کے مرحلے پر ہی شاعر یہ طے کر لیتا ہے کہ اسے اپنی شعری استعداد کس صنف کے حوالے سے استعمال کرنی ہے اور اس صنفی ھیئت میں کس بات کو کس اسلوب میں کہنا ہے۔اس مختصر سی گفتگو سے یہ نکتہ تو واضح ہو ہی جاتا ہے کہ کوئی بھی ادب تنقیدی شعور کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔
اب آئیے نعت کی طرف!…نعت شعری پیکر میں ڈھالی جاتی ہے اور اس کے لیے کوئی ہیئت مخصوص بھی نہیں ہے۔اصنافِ سخن کے کسی بھی پیکر میں نعتیہ مضمون کی جلوہ آرائی ممکن ہے۔چنانچہ یہاں بھی موضوع کی آگاہی کے ساتھ ساتھ شعری اصناف کے مزاج اور ان کی مقتضیات کا خیال رکھنا ضروری ہو گا۔شاعر جو کچھ لکھے گا اسے بار بار کی خواندگی کے بعد کچھ نہ کچھ تبدیلیوں اور کانٹ چھانٹ کے بعد ہی کوئی حتمی شکل دے گا۔کبھی کوئی لفظ بدلے گا، کبھی عروضی اوزان کے خیال سے کسی لفظ کی درست بنت پر غور کرے گا اور کبھی اسلوب میں دلکشی پیدا کرنے کے لیے نئی نئی تراکیب تراشے گا۔ فن پارے کی زبان کی درستگی کے لیے لغت کی پابندیوں کا بھی دھیان رکھے گا!اسلوب میں دلکشی پیدا کرنے کی شعوری کوشش بھی کرے گا۔ شعر کے مفہوم کے ابلاغ کا خیال رکھ کر کسی بات کو اس طرح ادا کرنے کی سعی بھی کرے گا کہ سامع تک شاعر کے خیال کی ترسیل ممکن ہو جائے۔ شاعر کے غور و فکر کا یہی عمل،تنقیدی سرگرمی کے ذیل میں آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اہلِ دانش تخلیق کے لمحہء تولید سے ہی تنقید کا رشتہ جوڑتے ہیں ۔
ایسی صورت میں کسی سنجیدہ تخلیق کار کے سامنے نعتیہ ادب میں تنقید کی اہمیت کا ذکر کرنا ایسا ہی ہو گا جیسے مچھلی کے جائے کو تیرنا سکھانے کی کوشش…لیکن میری مجبوری یہ ہے کہ نعتیہ ادب میں تنقید کا سنجیدگی سے اظہار کرنے کا بیڑا میں نے بھی اٹھا رکھا ہے اس لیے مجھ سے یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ نعتیہ ادب میں تنقید کے کیا معنی ہیں ؟ سو میں مختصراً عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نعتیہ ادب میں تنقید عام ادب کی تنقید سے زیادہ ضروری، زیادہ اہم اور بہت زیادہ لازمی ہے۔
اردو دنیا میں شاعری کے ثقافتی مظاہر کی بنیاد وقتاً فوقتاً برپا ہونے والے مشاعرے ہیں ۔ مشاعروں میں کسی شاعر کو کسی شعر پر بہت زیادہ داد مل جاتی ہے اور کسی شعر پرسامعین خاموش رہتے ہیں ۔داد کا سلسلہ شعر کی تفہیم کے حوالے سے ہی کم یا زیادہ ہوتا ہے۔تفہیمِ شعر کا معاملہ بذاتِ خود تنقیدی عمل ہے جو سخن فہمی کے شعور کے ساتھ بے ساختگی سے اپنا اظہار کرواتا ہے۔ نعتیہ مشاعروں میں بھی کسی شاعر کو کسی شعر پر بہت داد ملتی ہے اور کسی شعر پر سامعین خاموش رہتے ہیں ۔مختلف شعراء کو ملنے والی داد میں کمی بیشی بھی گو کہ شعر کی سماعت کے بعد فوری طور سے ردِ عمل کے مظہر کے طور پر سامنے آتی ہے لیکن سامع یا سامعین کا یہ ردِ عمل بھی تنقیدی شعور ہی کا غماز ہوتا ہے۔ایسی صورت میں نعت پر تنقید کے نام سے چونکنے والا کوئی شخص اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ اسے نعتیہ مشاعروں میں بھی بعض اشعار بہت اچھے لگے اور بعض معمولی !کوئی بھی دیانتدار سامع یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے ہر شعر پر یکساں پسندیدگی کا اظہار کیا یا ہر شاعر کو یکساں داد دی۔لہٰذا ثابت ہوا کہ جولوگ نعتیہ ادب میں تنقیدی سرگرمیوں کے قائل نہیں ہیں وہ بھی غیر محسوس طور پر نعتیہ شاعری کی سماعت ( یاقرا ء ت) کے وقت کچھ نہ کچھ معیارات ذہن میں رکھ کر ہی اشعار کو سراہتے ہیں ۔ اچھے اور کم اچھے شعر میں تمیز کرکے ہی کسی شعر کی تحسین کرتے ہیں اور کسی شعر پر سکوت اختیار کرتے ہیں ۔ وہ جو صائب نے کہا تھا ؎
صائب دو چیز می شکند قدرِ شعرا را
تحسینِ نا شناس و سکوتِ سخن شناس
اس شعر میں بیان کردہ حقیقت کے مظاہرے عام مشاعروں میں بھی سامنے آتے ہیں اور نعتیہ نشستوں میں بھی…تحسین و سکوت کا یہی مظاہرہ نعتیہ اشعار کی قرا ء ت کے وقت بھی ہوتا ہے۔چنانچہ غیر محسوس تنقیدی عمل تو نعت کے اشعار کی تخلیق کے مرحلے سے لے کر سماعت اور قرا ء ت کے مرحلوں تک میں ہمیشہ سے جاری ہے۔
ایسی صورت میں صرف تحریری تنقیدی عمل سے گریز کا مشورہ دینے والوں کو اپنے فکری تضاد کا خود جائزہ لینا چاہیئے۔ نعتیہ اشعار کی تخلیق، ان کی سماعت یا قر اء ت کے ہنگام جو تنقیدی عمل غیر محسوس طور پر جاری ہوتا ہے اگر وہی عمل نعتیہ ادب کے مطالعے کے وقت شعوری طور پر اختیار کر لیا جائے تو اس میں کونسی غلط بات ہے؟ اشعار کی پسندیدگی کے محرکات تو ہر مرحلے پر یکساں ہی رہتے ہیں ۔البتہ سنجیدہ مطالعے میں اشعار کی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کے واضح معیارات اور اصول سامنے لائے جاتے ہیں اور شعر کی تحسین یا عدم تحسین کا منطقی جواز پیش کیا جاتا ہے…یہ تو ہوئی عمومی بات۔اب آئیے نعت کے حوالے سے اٹھنے والے سنجیدہ سوالوں کی طرف۔
’’نعت ‘‘ شاعری کی وہ موضوعاتی صنف ہے جس کی حدود ماورائی ہیں ۔ اس کے لیے شعریت کے اصولوں کو بھی بروئے کار لانا پڑتا ہے اور شریعت کے ابعاد کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔نعت میں یا تو حضورِ اکرم ﷺ سے براہِ راست تخاطب ہوتا ہے، کبھی استغاثے کی صورت میں کبھی اظہار ِ عشق کے نام پر، یا نعت میں آپ ﷺ کے اوصافِ حمیدہ کا بیان ہوتا ہے۔آپﷺ کے فضائل و شمائل کا ذکر ہوتا ہے۔حضورِ اکرم ﷺ سے متعلق افراد، اصحاب،اشیاء، بستیوں اور شہروں کا تذکرہ ہوتا ہے یا اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی ذاتِ والا صفات سے ہی نبوت کی ابتداء ہوئی اور آپ ﷺ پر ہی نبوت کی انتہا ہوئی۔ آپ ﷺ کے معجزات کو بیان میں لا یا جاتا ہے یا آپ ﷺ کے غزوات کا ذکر کیا جاتاہے۔ دینِ اسلام کی خوبیوں کو اجاگر کیا جاتا ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ آپ ﷺ کی تعلیمات کسی فلسفی کی نظریاتی سطح کی تعلیمات نہیں ہیں بلکہ عملی زندگی کے ہر مرحلے کے لیے رہنمائی کرنے والی ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ حضورِ اکرم ﷺ کی تعلیمات پہلے حضورِ اکرم ﷺ کے عمل میں ڈھلی ہیں تب امت کو ان پر عمل کی دعوت دی گئی ہے تاکہ امت میں قیامت تک پیدا ہونے والا ہر فرد ان تعلیمات کو عملی سانچے میں ڈھالتے ہوئے اپنے نبی ﷺ کا اسوۂ حسنہ سامنے رکھے!
یہاں نعتیہ شاعری کے تمام موضوعات کا احاطہ نہ تو ممکن ہے نہ ان کا تفصیلی مطالعہ پیش کرنا میرا مقصد ہے۔ میں تو اس نشست میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نعتیہ شاعری کرنے والوں کو پہلے ’’شعر‘‘ کی حقیقت سے آگاہ ہونا پڑے گا اور پھر حضورِ اکرم ﷺ کی سیرت کے صحیح خد و خال کی جان کاری درکار ہو گی۔اس لیے کوئی شاعر، توسنِ شاعری کو صرف ’’شعور کی رو‘‘ کے میدان میں بے لگام نہیں چھوڑسکتا۔ نعتیہ موضوع کی نزاکت کے ادراک ہی نے عرفی جیسے قادر الکلام شاعر سے یہ کہلوایا تھا ؎
عرفی مشتاب ایں رہِ نعت است نہ صحراست
آہستہ کہ رہ بر دمِ تیغ است قلم را
اے عرفی جلدی مت کر کہ یہ نعتیہ ادب کی شاہراہ ہے کوئی صحرا نہیں ہے۔یہاں تو قلم کو تلوار کی دھار پر چل کر راستہ طے کرنا ہے اس لیے آہستہ چل۔
یہاں اس بات کا اظہار بھی کرتا چلوں کہ نعت گو شعراء کے ہاں جو اس طرح کا عجزِ بیاں ملتا ہے کہ ہم نعت کا حق ادا نہیں کرسکتے۔رسول اللہ ﷺ کا مرتبہ صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے وغیرہ وغیرہ …اشعار تو ہزاروں ہیں لیکن اختصار کی غرض سے غالب ہی کے اس شعر کو دیکھیے وہ کہتا ہے ؎
غالبؔ ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
کآن ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است
اے غالب! کارِ ثنائے رسول ﷺ، اللہ پر چھوڑ تے ہیں کہ وہی آپ ﷺ کا مرتبہ جانتا ہے …نعتیہ ادب کی تخلیق میں شاعروں کا یہ عجز ہی دراصل ا ن کے تنقیدی شعور کا اظہار ہے۔
عربی کا ایک مقولہ ہے جسے حدیث کے طور پر بھی بیان کیا جاتا ہے ’’اللہُ جمیلٌ و یحب الجمال‘‘۔ اللہ تعالیٰ حسنِ تمام ہے اور حسن ہی کو پسند فرماتا ہے۔
ایک مرتبہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا تھا۔
’’فیم الجمال یا رسول اللہ!‘‘ (اے اللہ کے رسول ﷺ! حسن و جمال کا دار و مدار کس چیز پر ہے؟) تو نبیِ کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے فرمایا تھا۔ ’’فی اللسان‘‘ (زبان پر)!(نقوش رسول نمبر۔ج ۸، ص ۳۴۷)
اس حدیث سے زبان کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے ایسی صورت میں شاعروں کے لیے یہ بھی لازمی ہو جاتا ہے کہ وہ نعتیہ ادب کی تخلیق کے وقت زبان و بیان میں حسن پیدا کرنے کی کوشش کریں ۔زبان کا حسن پیدا کرنے کے لیے زبان کا مزاج جاننا ضروری ہے۔زبان میں جو الفاظ ہوتے ہیں وہ زندہ شخصیتوں کی طرح ہوتے ہیں ۔جس طرح انسانی معاشرے میں اچھے اور برے دونوں طرح کے انسان ہوتے ہیں اسی طرح معاشرے میں بولی جانے والی زبانوں میں اچھے اور برے الفاظ ہوتے ہیں ۔اس لیے اچھے موضوع کے بیان کے لیے اچھے الفاظ کا چناؤ لازمی ہو جاتا ہے۔یہ تو طے ہے کہ نعت ایک اچھا موضوع ہے۔ اس لیے نعت گو شاعر کو خیال کی طہارت، فکر کی نزہت و نظافت، تخیل کی رفعت اور بیان کی عفت کا خیال رکھنا ضروری ہو جاتا ہے۔خیال کی اصابت کے لیے اسے قرآن و احادیث اور آثارِ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے ذخیرے سے بھی استفادہ کرنا ہو گا اور تاریخِ اسلام کے مطالعے کی بھی ضرورت ہو گی۔ بیان کی عفت کے لیے لفظوں کی پرکھ کی استعداد پیدا کرنی ہو گی۔نعت میں اپنے احساسات کے اظہار میں تو صرف احساس کی پاکیزگی اور اظہار کی شائستگی ہی درکار ہو گی لیکن نبی علیہ السلام یا آپ ﷺ کی تعلیمات کے حوالے سے جو بات بھی کی جائے گی اس کے لیے سند درکار ہو گی۔ظاہر ہے یہ سند بغیر کاوش کے شاعر کے علم میں نہیں آسکتی ہے۔
فرمانِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام ہے کہ ’’جس نے میرے متعلق قصداً جھوٹ بات کہی تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنالے‘‘
اتنی سخت حدیث کی موجودگی میں کون صحیح العقیدہ مسلمان ایسا ہو گا جو اپنی من مانی بات کو حضورِ اکرم ﷺ سے منسوب کرنے کی جسارت کرے؟
اب آئیے ذرا دیکھیں کہ تنقید کیا ہے؟
ڈاکٹر سید عبداللہ تنقید نگاری کا مقصد اصلی ہی ادب کی قدر شناسی Evaluation قرار دیتے ہیں جو دو بنیادوں پر ہوتی ہے (۱)بر بنائے حسن اور (۲) بر بنائے افادہ۔
یعنی تنقیدی عمل کی بنیاد ’’ادب‘‘ کی تفہیم اور اس تفہیم کے اظہار پر قائم ہے۔
عربی:عربی لغات میں نَقَدَ، نَقْداً و تَنْقَادًا کے معانی ہیں سِکّوں (دراہم) کو پرکھنا۔کھوٹے کھرے کو جانچنا۔ نَقْدًا و انتقادًا۔ الدَرَاھِمَ۔
فارسی: فارسی لغات میں ’’انتقاد‘‘ کا مطلب ہے (۱) نقد لینا (۲) بھوسے سے دانے جدا کرنا، غلہ صاف کرنا۔(۳) پرکھنا (۴) تنقید کرنا۔
انگریزی :انگریزی میں تنقید یا انتقاد کے لیے CRITICISM کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
Fallon’s اردو انگریزی ڈکشنری میں لکھا ہے:
Criticism, n : critical examination
دقیقہ شناسی۔دقیقہ سنجی۔حسن و قبح کی دریافت۔[تبصرہ۔نقد۔تنقیدی مضمون۔نکتہ چینی۔انتقاد]۔۔۔ نکتہ چینی۔حرف گیری۔خردہ گیری۔کسی کتاب کا سختی کے ساتھ عیب نکالنا یا بتانا۔
پینگوین انگریزی ڈکشنری میں تحریر ہے:
Criticism [kRitisizm] n art or process of judging merits of artistic or literary work; analysis or review of such work; principles guiding critic’s method; expression of unfavourable opinion, pointing out of faults.
Critic [kRitik] n expert judge of literary or artistic merit; professional reviewer of books, drama etc; one expert in study of manuscripts and texts; severe judge, fault.finder.
ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہے:
’’عربی میں نقد یا انتقاد کے بنیادی معنی کھوٹا کھرا پرکھنا ہے۔یونانی زبان میں rinein کا مطلب ہے:
’’To Judge or to discern ‘‘
انگریزی کتابوں ، لغات اور دائرۃالمعارف کے مطالعے سے ڈاکٹر سید عبداللہ نے مندرجہ ذیل نکات اخذ کیے ہیں :
٭ تنقید کامل بصیرت و علم کے ساتھ،موزوں و مناسب طریقے سے، کسی ادب پارے یا فن پارے کے محاسن و معائب کی قدر شناسی یا اس کے بارے میں ’’حکم لگانا‘‘ [فیصلہ صادر کرنا] ہے۔
Webster, New International, 2nd ed:
٭آئی۔اے۔رچرڈز کا خیال ہے کہ تنقید کا کام کسی مصنف کے کام کا تجزیہ، اس کی مدلل توضیح اور بالآخر اس کی جمالیاتی قدروں کے بارے میں فیصلہ صادر کرنا ہے۔
٭تنقید فکر کا وہ شعبہ ہے جو یا تو یہ دریافت کرتا ہے کہ ’’شاعری کیا ہے؟‘‘ اس کے فوائد و وظائف کیا ہیں ؟ یہ کن خواہشات کی تسکین کرتی ہے؟شاعر شاعری کیوں کرتا ہے؟ اور لوگ اسے کیوں پڑھتے ہیں ؟۔۔۔یا پھر یہ اندازہ لگا تا ہے کہ کوئی شاعری یا نظم اچھی ہے یا بری ہے۔(ٹی ایس ایلیٹ)
اردو:اردو لغات میں ’’تنقید‘‘ (فت ت، سک ن، ی مع) کے معانی ہیں : (i)ایسی رائے جو برے بھلے یا صحیح اور غلط کی تمیز کرا دے، پرکھ، چھان بین، کھوٹا کھرا جانچنا۔
نیاز فتح پوری لکھتے ہیں :
’’ادبیات کے مطالعے کے سلسلے میں سب سے زیادہ اہم چیز جو نہ صرف اپنے ذوق کی تسکین بلکہ دوسروں کے نتائج فکر کی قیمت کا اندازہ کرنے کے لیے بھی از بس ضروری ہے۔اصولاً اس فن کو جاننا ہے جسے انگریزی میں CRITICISM کہتے ہیں اس کا ماخذ یونانی لفظ ہے،جس کے معنی فیصلہ کرنے کے ہیں ۔ اردو میں عام طور پر اس کا ترجمہ تنقید کیا جاتا ہے، لیکن زیادہ صحیح لفظ نقد یا انتقاد ہے جس کا مفہوم پرکھنا یا جانچنا ہے اور ہر وہ شخص جو یہ خدمت انجام دیتا ہے اسے نقاد کہتے ہیں ‘‘۔
حامد اللہ افسر رقم طراز ہیں :
’’لفظ تنقید عربی صرف و نحو کے اعتبار سے صحیح نہیں ، اس کی جگہ نقد یا انتقاد ہونا چاہیئے۔لیکن اردو میں اب یہ لفظ اس قدر رائج ہو گیا ہے کہ اس کی جگہ دوسرے لفظ کا استعمال مناسب نہ ہو گا۔جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے اسے صحیح سمجھنا چاہیئے‘‘۔
ڈاکٹر سجاد باقر رضوی تنقید کے منصب پر اس طرح اظہار خیال کرتے ہیں :
’’تنقید کے مختلف منصب بتائے گئے ہیں ۔ تحسین، تشریح، حسن و قبح کی توضیح، تجزیہ، فن پارے کی قدر کا تعین وغیرہ۔ مگر تنقید کا سب سے مفید کام یہ ہے کہ وہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ تخلیقی بنانے کے متعلق سوال اٹھاتی ہے‘‘۔
سید وقار عظیم رقم طراز ہیں :
’’ تنقید، اچھائی برائی جانچ پرکھ کی ایسی کسوٹی ہے جس میں اصول و ضابطے بھی کام کرتے ہیں اور ذاتی پسند اور ناپسندیدگی بھی‘‘ ۔
مولوی نجم الغنی، رامپوری نے اپنی معرکۃ الآرا تصنیف ’’بحرالفصاحت‘‘ میں جہاں شعری اصناف کو ہیئت کے اعتبار سے غزل، قصیدہ، مثنوی وغیرہ کی صورت میں تقسیم کر کے بیان کیا ہے وہیں شعر کے معنوی اوصاف کے حوالے سے بھی اصنافِ شعر کا ذکر کیا ہے۔ شعر کے معنوی جمال کی یہ تفصیل دیکھ کر ہی اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے شاعری کو کن کن زاویوں سے پرکھا ہے اور کس عرق ریزی سے اس کے صوری و معنوی حسن کو اجاگر کر کے، شعر کی ہر معنوی سطح کو ایک نام دیا ہے۔ مثلاً
(۱) شعر مطبوع: ایسا شعر جو پسندیدہ وزن میں بنایا جائے جیسے مومن کا شعر
دفن جب خاک میں ہم سوختہ ساماں ہوں گے
فلس ماہی کے، گل شمع شبستاں ہوں گے!
(۲) نا مطبوع: جس کا وزن ثقیل ہو جیسے:
عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے
کہ اپنے سائے سے سرپاؤں سے ہے دو قدم آگے ۔۔۔ (غالبؔ)
(۳) ملائم: ایسا شعر جس کے الفاظ آسان اور شیریں اور دل پسند ہوں ، جیسے
نزاکت اس گل رعنا کی دیکھ اے انشاؔ
نسیم صبح جو چھو جائے رنگ ہو میلا!
(۴) متنافر، ملائم کی ضد، جیسے (منیرؔ)
ترے عہد میں ہیں معطل بتوں کے
سہام جفون و سیوف حواجب
(۵) ایسا شعر جس کے لطائف و معانی سمجھنا آسان ہو جیسے میر تقی میرؔ
آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی مری جا میرے بعد
(۶) سہل شعر کی ضد منعتف (سیدھے ہاتھ سے پھر جانے والی) کہلاتی ہے، جیسے غالبؔ
شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
تماشائے بیک کف بردن صد دل پسند آیا
(۷) سہلِ ممتنع: لغت میں سہل آسان کے معنی میں ہے اور ممتنع دشوار کے معنی میں ۔اصطلاح میں ایسے شعر کو کہتے ہیں جس کی مثال بنانا دشوار ہو،اگرچہ بظاہر سہل معلوم ہوتا ہے، جیسے بقاؔ
دیکھ آئینہ جو کہتا ہے کہ اللہ رے میں
اس کا میں چاہنے والا ہوں بقا، واہ رے میں
(۸) حزل: لغت میں تمام اور بڑے کو کہتے ہیں ۔ اصطلاح میں ایسے شعر کا نام ہے جس میں الفاظ عمدہ اور زور دار ہوں ، ان کی نشست مضبوط ہو۔ معانی عالی اور متین ہوں ۔ پھس پھسے الفاظ اور پھسینڈی بندش سےپاک ہو۔لفظاً اور معناً اس میں کسی طرح کا نقصان متصور نہ ہو، جیسے غالبؔ
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے؟ شبِ غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا!
(۹)مرتجل: ارتجالاً بلا سوچے سمجھے فی البدیہہ شعر بنانا جیسے ناسخ نے ایک مصرعہ کہا
ع ہے چشم نیم باز، عجب خواب ناز ہے
اور دوسرے مصرعے کی فکر میں تھے کہ خواجہ وزیر آ گئے۔خاموشی کا سبب پوچھا۔ناسخ نے مصرعہ پڑھا تو انہوں نے فی البدیہہ مصرعہ کہدیا
ع فتنہ تو سو رہا ہے، درِ فتنہ باز ہے
(۱۰) فکری: یعنی وہ شعر جو غور و فکر کے بعد بنایا جائے۔ یہ مرتجل کی ضد ہے۔
اس سے ہمیں یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ تنقید ہی دراصل کسی تحریر کے حسنِ معنوی اور جمالِ صوتی کی پرکھ کا نام ہے۔حسن کے ساتھ ہی اگر کسی شاعری میں کچھ معنوی یا صوتی نقائص رہ گئے ہوں تو ان کی نشاندہی بھی تنقید ہی کے ذیل میں آتی ہے۔
نعت چونکہ شعرِ عقیدت کی شکل میں موزوں ہو کر صورت پذیر ہوتی ہے اس لیے اس شعری ذخیرے کو تنقید سے بالا قرار دینے کا مطلب ہے کہ اس شعری چمن کی تہذیب کا عمل روک کر اسے خزاں کے بے رحم ہاتھوں میں دے دیا جائے۔
موضوع بہت بڑا ہے اور وقت بہت کم اس لیے صرف اشارۃً عرض کیے دیتا ہوں کہ اللہ رب العزت نے شاعری کے حوالے سے واضح فرما دیا کہ یہ علم اس نے اپنے محبوب، نبی علیہ السلام کو قطعی نہیں دیا کیوں کہ یہ شعری فن آپ ﷺ کے شایانِ شان نہیں تھا۔
’’ وَمَا عَلَّمْنٰہ ُ ا لشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہ ٗ ط‘‘ ’’اور نہیں سکھائی ہم نے اس نبی (ﷺ) کو شاعری اور نہیں تھی اس کے شایانِ شان یہ چیز‘‘۔
نری شاعری کے بارے میں بھی اللہ رب العزت نے کوئی دل خوش کن رائے نہیں دی بلکہ فرمایا :
’’وَالشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُھُمُ الْغَاوٗنَ O اَلَمْ تَرَ اَنّہمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّھِیْمُوْنَ O وَاَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ O اِلَّا الَّذِ یْنَ اٰ مَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّ انْتَصَرُوْا مِنْ م بَعْدِ مَا ظُلِمُوا ط وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓ ا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ O
اور رہے شعراء تو چلا کرتے ہیں ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگO کیا نہیں دیکھتے ہو تم کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے ہیں O اور بلا شبہ وہ کہتے ہیں ایسی باتیں جو کرتے نہیں O مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور کیے انہوں نے نیک عمل اور ذکر کیا اللہ کا کثرت سے اور بدلہ لیا انہوں نے اس کے بعد کہ زیادتی کی گئی ان پر اور عنقریب معلوم ہو جائے گا ان لوگوں کو جنہوں نے زیادتی کی کہ کس انجام سے وہ دوچار ہوتے ہیں ‘‘۔
سورۂ العصرمیں تمام بنی نوعِ انسان کو خسارے میں بتایا گیا تھا اس کے بعد چار شرطوں کے پورا کرنے والے انسانوں کو خسارے سے محفوظ قرار دیا گیا۔بعینہٖ اسی طرح شعراء کی پوری برادری کو ایسا ظاہر کیا گیا جس کے پیچھے چلنے والے لوگ سب گمراہ ہیں ( اور خود شعراء بدرجہء اولیٰ گمراہ ہیں )۔پھر سورۂ و العصر کا اسلوب برقرار رکھتے ہوئے ایسے شعراء کومستثنیٰ کیا گیا جو ایمان لا کر اعمالِ صالحہ کے عملی مظاہرے کریں ۔لیکن سورۂ الشعراء میں موقع کی مناسبت سے جو تیسری شرط رکھی گئی وہ اللہ کے ذکر کی کثرت ہے۔ کیوں کہ شعراء اپنے کلام میں جس قدر بھی اللہ کا ذکر کریں گے، وہ دین کی تبلیغ و اشاعت کا ذریعہ بنے گا۔(حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے تفسیری حاشیے میں ’’وَذَکَرُ ا اللّٰہَ کَثِیْرًا‘‘ کی تشریح میں ’’فی الشعر‘‘ کے الفاظ ہی لکھے ہیں )۔چوتھی شرط یہ لگائی کہ دنیائے کفر کی جانب سے جو ہرزہ سرائی اسلام اور پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے حوالے سے کی جائے، اس کا بدلہ لیتے ہیں ۔ سیدابولاعلیٰ مودودی نے ظلم کے لیے بدلہ لینے کے ذکر سے مملو آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:…’’اور جب ان پر ظلم کیا گیا تو صرف بدلہ لے لیا‘‘۔
اس سے ظاہر ہوا کہ بدلہ لیتے وقت بھی اعتدال کا خیال رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، یہاں بھی مبالغہ آمیز جواب کی راہ مسدود کر دی گئی ہے۔
سورۃُ العصر کا خطاب پوری بنی نوعِ انسان سے تھا اور سورۃُ الشعراء کی مذکورہ آیات میں شاعروں کی پوری برادری کو مخاطب کیا گیا ہے۔دونوں مواقع پر اسلوب کی یکسانیت اس بات کی غماز ہے کہ ایمان، اعمالِ صالحہ، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کی جو اہمیت بنی نوعِ انسان کے لیے ہے۔انسانی معاشرے کے لیے ’’شاعروں ‘‘ کے افعال یعنی ان کے اشعار کی اہمیت ویسی ہی ہے۔
یہ بات بھی مشہور ہے کہ جب سورۂ شعراء کی محولہ بالا آیات نازل ہوئیں تو ان میں استثنائی آیات نہیں تھیں ، اس پر عبداللہ بن رواحہؓ، کعبؓ بن مالک اور حسانؓ بن ثابت حضور اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض پرداز ہوئے:’’یا رسول اللہ! اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے اور وہ جانتا ہے کہ ہم شاعر ہیں ،اب ہم تو غارت ہو گئے۔اس پر اللہ نے آیت ’’اِلَّا الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْا…نازل فرمائی۔رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کو طلب فرمایا اور یہ آیات پڑھ کر سنائیں ‘‘۔
شعراء کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت نے اسلامی معاشرے کے ہر فرد کو اس بات کا مکلف بنایا کہ وہ نبی علیہ السلام کی رفعتِ شان کا لحاظ کرتے ہوئے، آپ ﷺ سے تخاطب کے آداب کا خیال رکھے۔ارشاد ہوا :
’’یٰٓاَ یُّھَا ا لَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُم ْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَا لُکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَO اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُوْلٰٓئِکَ الّذِیْنَا مْتَحَنَ ا للّٰہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی ط لَھُمْ مَّغْفِرَ ۃٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ O اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّ رَ آ ئِ ا لْحُجُرٰتِ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ O
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو نہ بلند کرو اپنی آوازیں اوپر نبی کی آواز کے اور نہ اونچی کرو اپنی آواز اس کے سامنے بات کرتے وقت جیسے اونچی آواز میں بولتے ہو تم ایک دوسرے سے،کہیں ایسا نہ ہو کہ غارت ہو جائیں تمہارے اعمال اور تمہیں خبر بھی نہ ہوO بلا شبہ وہ لوگ جو پست رکھتے ہیں اپنی آواز رسول اللہ کے حضور، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو جانچ لیا ہے اللہ نے تقویٰ کے لیے ان کے لیے ہے مغفرت اور اجرِ عظیمO در حقیقت وہ لوگ جو پکارتے ہیں تمہیں حجروں کے باہر سے ان میں سے اکثر بے عقل ہیں O
ذو معنی الفاظ کے استعمال کی ممانعت اس طرح فرمائی:
’’یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا ط…اے لوگو جو ایمان لائے ہو، راعنا نہ مت کہا کرو، بلکہ اُنْظُرْنَا کہو، اور توجہ سے بات کو سنو!
شعراء کی رہنمائی کے لیے،قرآنِ کریم کی بہت سی آیات سے استنباط کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس وقت یہ ممکن نہیں ہے کہ تفصیلی مطالعہ پیش کیا جائے۔ اس لیے چند احادیث ِ نبوی کا اجمالاً جائزہ لیتے ہیں کہ شعراء کے لیے حضورِ اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ میں کیا رہنما اصول ملتے ہیں ؟
قرآنِ کریم میں جو کچھ فرمایا گیا وہ نظری (Theoretical ) ہے۔ قرآنِ کریم میں دیئے گئے احکامات اور منشائے رب کی عملی تفیسر حضورِ اکرم ﷺ کے عمل(حضور ﷺ کا ذاتی فعل یا دعوتِ عمل اور اسلامی معاشرے کی تشکیل میں آپ ﷺ کی عملی رہنمائی)، قول(حضورِ اکرم ﷺ کی ملفوظی حدیث) اور تقریر(کسی معاملے کو ملاحظہ فرما کر کوئی حکم صادر فرمانے کے بجائے حضورِ اکرم ﷺ کا سکوت اختیار کر لینا) سے ہوتی ہے۔ اس لیے شعرو شاعری اور شعراء کے ساتھ حضورِ اکرم کے رویئے کو دیکھ کر ہی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں کس قسم کی شاعری پسندیدہ ہے اور کس قسم کی شاعری کو ناپسند فرمایا گیا ہے۔
قرآنِ کریم میں شعر و شاعری اور شعراء کے لیے حزم و احتیاط کے جو اصول لفظوں میں بیان کیے گئے ہیں ، اللہ کے نبی جنابِ رسالت مآب ﷺ نے عملی طور پر ان اصولوں کی نگہداری کا مظاہرہ فرما کر دنیائے اسلام میں شعرو شاعری کے آفاقی اصولوں کو نقش کا لحجر کر دیاہے۔
امام ولی الدین محمد بن عبداللہ الخطیب العمری رحمۃ اللہ علیہ نے مشکوٰۃ شریف میں کچھ احادیث ’’بَابُ الْبَیَانِ وَالشِّعْرِ‘‘(بیان اور شعر کا بیان) کے تحت جمع کی ہیں ۔ہم ان احادیث سے استفادہ کرتے ہوئے کچھ یہاں نقل کرتے ہیں :
۱۔قَالَ رَسُوْ لُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ مِنَ الْبَیَانِ لَسِحْرًا (رواہ البخاری)
۲۔وَعَنْ اُبَیّ بِنْ کَعْبٍؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ مِنَ ا لشِّعْرِ حِکْمَۃً(مُتَّفِقٌ عَلَیْہِ)
۳۔وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صََلَّی ا للّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ھَلَکَ الْمُتَنَطِّعُوْنَ قَالَھَا ثَلَا ثًا (رواہ مسلم)
۴۔قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ الْمُؤمِنَ یُجِا ھِدُ بِسَیْفِہٖ وَلِسَانِہٖ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیِدِہٖ لَکَاَ نَّمَا تَرْ مُوْ نَھُمْ بِہٖ نَضْحَ ا لنَّبَلِ۔(رواہ فی شرح السنۃ)
۱۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بعض بیان سحر ہوتا ہے۔
۲۔ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بعض اشعار حکمت ہوتے ہیں ۔
۳۔ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کلام میں مبالغہ کرنے والے ہلاک ہو گئے یہ کلمات تین مرتبہ فرمائے۔روایت کیا اس کو مسلم نے۔
۴۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومن شخص کفار کے ساتھ اپنی تلوار اور زبان کے ساتھ جہاد کرتا ہے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم کفار کو شعر اس طرح مارتے ہو جس طرح تیر مارا جاتا ہے۔(روایت کیا اس کو شرح السنۃ میں )
حکمت کی باتوں کی شعروں میں موجودگی کو جناب ِرسالت مآب محمد مصطفے ﷺ نے خوب سراہا ہے۔اس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں ۔
عنترۃ بن شداد العبسی کا ایک شعر آپ نے سماعت فرمایا ؎
وَلَقَدْ اَبِیْتُ عَلَی الطَّوَی وَاَظَّلَّہٗ
حَتّٰی اَنَالَ بِہِ کَرِیْمَ الْمَا کَل
میں دن بھر بھوکوں گزارتا لیتا ہوں اور رات بھی،کھانا اس وقت کھاتا ہوں جب عزت کی روٹی ملے۔
اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایسا کوئی بدوی نہیں ہے جس کے اوصاف میرے سامنے بیان کیے گئے ہوں اور مجھے اس کے دیکھنے کی خواہش ہوئی ہو، سوا عنترۃ کے‘‘۔
حضرت کعب بن زُہیر رضی اللہ عنہ نے حضورِ اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک قصیدہ پیش کیا۔ وہ مدحیہ قصیدہ ’’بانت سعاد‘‘ اور قصیدۂ بردہ کے نام سے مشہور ہے۔اس قصیدے میں جب یہ شعر آیا تو حضورِ اکرم ﷺ نے اس میں اصلاح فرمائی اور شاعر کو اپنی چادر عطا فرما دی:
’’ان الرسول لنور یستضاء بہٖ
وصارم من سیوف الھند مسلول‘‘
’’رسول اللہ (ﷺ)ایک نور ہیں جن سے اجالا حاصل کیا جاتا ہے، اور وہ نور ایک مضبوط فولاد کی بے نیام تلوار کے مانند ہے‘‘۔
شاعر نے ’’سیوف الھند‘‘ کہا تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ’’سیوف اللہ‘‘ کہو۔اس واقعے کو علامہ اقبال نے مثنوی رموزِ بیخودی میں نظم کیا ہے:
پیشِ پیغمبر ؐ چو کعبؓ پاک زاد
ہدیہء آورد از ’’بانت‘‘ سعاد
در ثنائش گوہرِ شب تاب سفت
سیف مسلول از ’’سیوف الھند‘‘ گفت
آں ؐ مقامش بر تر از چرخِ بلند
نامدش نسبت باقلیمے پسند
گفت ’’سیف ِ من سیوف اللہ‘‘ گو
حق پرستی، جز براہِ حق مپو
(ایک پاک فطرت حضرت کعب ؓ نے حضور اکرم ﷺ کی شان میں ’’بانت سعاد‘‘ کے عنوان سے قصیدہ پیش کیا۔اس قصیدے میں گویا الفاظ کے موتی رولے تھے۔ایک جگہ آپ ﷺ کو ہندی تلوار وں میں سے برہنہ تلوار کی تشبیہ دی تو آپ ﷺ نے،جن کا رتبہ آسمانوں سے بھی بلند ہے، کسی ملک سے اپنی نسبت کو پسند نہیں فرمایا۔انہیں اصلاح دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’سیف من سیوف اللہ ‘‘ کہو۔تم حق پرست ہو، سوائے حق پر چلنے کے دوسری راہ اختیار مت کرو)۔
ایسے تمام اشعار جو حضورِ اکرم ﷺ کے سامنے پڑھے گئے اور آپ نے انہیں سراہا یا ان کے اسالیب و مفاہیم کے بارے میں عدم اطمینان کا اظہار نہیں فرمایا ان تمام اشعار کے مافیہ (content )اور طریقِ اظہار کو دیکھ کر بھی شعر گوئی کے لیے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔حضرتِ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ حضورِ اکرم ﷺ کے درباری شاعر تھے۔انہوں نے حضورِ اکرم ﷺ کی پسند یدگی کا خیال کر کے ہی شعراء کی رہنمائی کے لیے یہ فرمایا تھا ؎
وان احسن بیتٍ انت قائلہ
بیت یقال اذا انشدتہ صدقا
(اور بے شک سب سے اچھا شعر جو تم کہو وہ ہے کہ جب وہ پڑھا جائے تو لوگ کہیں سچ کہا) (حقیقت اور سراب۔ص۷۷)
اس شعر کے آئینے میں شعراء جب اپنا کلام دیکھیں گے اور نقادانِ ادب کسی شعر کے مافیہ کو پرکھیں گے تو وہ عمل یقیناً ایسا تنقیدی عمل ہو گا جس کے لیے تحسین کا سلسلہ دنیا سے عقبیٰ تک پھیلا ہوا دکھائی دے گا!
شعر گوئی کی صلاحیت کو محض حظِ نفس کے لیے استعمال کرنے والوں کو حضورِ اکرم کا وہ تبصرہ نہیں بھولنا چاہیے جو آپ ﷺ نے امراء القیس کے کلام پر کیا تھا۔ آپ ﷺ نے اس کا کلام سن کر فرمایا تھا ’’اشعرالشعراء و قائد ہم الی النار‘‘ (وہ شاعروں کا سرتاج تو ہے ہی لیکن جہنم کے مرحلے میں ان سب کا سپہ سالار بھی ہے)۔
اور حرفِ آخر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضورِ پر نور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم پر درود بھیجنے کا جو حکم سورۂ احزاب کی آیت ۵۶ میں دیا ہے:
اِنَّ ا للّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِّیِ ط یٰٓاَ یُّھَاا لَّذِیْنَ اٰمَنُوْاصَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاO
(بلا شبہ اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں نبی پر،اے لو گو جو ایمان لائے ہو درود بھیجو ان پر اور خوب سلام بھیجا کرو)۔ تو اس حکم کی کی بجا آوری کے ذیل میں نعتیہ شاعری بھی آتی ہے کہ یہ بھی حضورِ اکرم ﷺ پر درود بھیجنے ہی کی ایک شکل ہے۔
جب عام شاعری کے بارے میں ہم شعراء کو یہ کہتے سنتے ہیں کہ :
’شاعری تمام علم انسانی کی جان اور اس کی لطیف ترین روح ہے۔شاعری جذبات کی وہ پر جوش علامت ہے جو تمام علم و حکمت کے چہرے میں نمایاں ہوتی ہے‘۔( ورڈس ورتھ)
تو کیا نعتیہ شاعری کے حوالے سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ شاعری علم ِ انسانی سے کوئی مختلف شے ہے؟…ظاہر ہے اگر عام شاعری علمِ انسانی کی جان ہے تو نعتیہ شاعری تو علم و عرفان و آگہی کی جان کی بھی جان ہے۔ایسی صورت میں نعتیہ شاعری کے تخلیقی لمحے اور تحسینی ساعت کو تنقیدی شعور سے بے بہرہ کیسے رکھا جا سکتا ہے؟
تو صاحبو! قرآنِ کریم کی آیات اور رسول اللہ ﷺ کی اصلاحات اور آپ کے پسندیدہ اشعار کی خواندگی کی روشنی میں بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ نعتیہ ادب میں تنقید انتہائی درجہ ضروری ہے۔اس کی اہمیت کے لیے یہی کہہ دینا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی جناب میں لب کشائی کے آداب بھی سکھائے ہیں اور ذو معنی الفاظ کے استعمال کی ممانعت بھی فرمائی ہے اور خود جنابِ رسالت مآب ﷺ نے اشعار سماعت بھی فرمائے ہیں اور اصلاح بھی دی ہے۔
حضور نبیِ کریم ﷺ نے،کفارِ قریش کے ہجویہ اشعار کے جواب کے لیے کئی شاعروں میں سے حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا انتخاب فرمایا تھا۔یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ کی مدح اور آپ کے خلاف ہونے والے مذموم پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے اعلیٰ شعری صلاحیتیں رکھنے والے شعراء ہی کی ضرورت تھی۔عرب معاشرہ جس میں تقریباً ہر فرد کی طبیعت شعر گوئی کی طرف مائل تھی اور عربوں کو اپنی زبان دانی پر ناز بھی تھا۔اس معاشرے کے شعراء میں سے بھی حسان بن ثابت کا انتخاب ہونا قیامت تک آنے والے شعراء کے لیے گویا ایک پیغام ہے۔وہ پیغام یہ ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ کی عظمتوں ، رفعتوں ، تعلیمات اور فضائل و مناقب کے بیان کے لیے مضبوط، قادرالکلام اور زباندانی میں طاق شعراء ہی کی ضرورت ہے۔
یہ اہم، نازک اور انتہائی درجہ حساس کام صرف تخلیقی سطح پر طبیعت کی موزونیت ہی کے بل بوتے پر نہیں ہوسکتا ہے اس کے لیے تنقیدی شعور کی ضرورت ہے۔چاہے یہ تنقیدی شعور شاعر کی ذات سے ظاہر ہو یا نقاد کے وجودِ مسعود سے!
ہمارے معاشرے میں راست گوئی کی قدروں کے زوال کے باعث، جہاں اور شعبوں میں رواداری نے راہ پائی ہے وہیں نعتیہ کتب کی تقریظ، دیباچہ یا مقدمہ لکھنے والوں کے ہاں بھی شاعر کی شخصیت سے مرعوبیت اور مروت کے آثار جھلکنے لگے ہیں ۔ دیکھا گیا ہے کہ مقدمہ نگاروں نے کلام کے معنوی حسن اور بیان کی جمال ا فروزی کو دیکھے بغیر صرف موضوع کی رفعتوں کا خیال کر کے بات کی ہے اور کوئی مقدمہ،تقریظ یا دیباچہ لکھ دیا ہے۔میں نے ایسی چند کتب کا تذکرہ اپنے تحقیقی مقالے میں کر دیا ہے۔
اس ضمن میں ایک واقعہ یاد آیا۔ راقم الحروف نے دو کتابوں ’’تیری شان جل جلالہ‘‘ اور ’’سبز گنبد کے خیالوں میں ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا :
’’ہمارا عہد سہل انگاری کے فروغ کا عہد ہے۔اس عہد میں فنی ریاضت اور موضوع کی تقدیس کے حوالے سے احتیاط آمیز محنت مفقود ہوتی جا رہی ہے۔پھر ظلم یہ ہے کہ جب کسی نا پختہ شاعر کا کلام طباعت کے مراحل سے گزرنے لگتا ہے تو شعرو ادب کی دنیا کے بزرگ غالباً تالیف قلب کی خاطر اس کتاب پر کچھ تحسین آمیز کلمات ضرور ہی لکھ دیتے ہیں ۔اہلِ علم کی اس روش سے نوجوان شعراء کے دل تو بڑھ جاتے ہیں لیکن شاعری میں شعورِ فن کے آثار پیدا ہونے کے امکانات کوسوں دور جا پڑتے ہیں ۔ہوسکتا ہے یہ حمدیہ و نعتیہ غزلیں شاعر نے بحر کے بجائے لہر میں لکھی ہوں لیکن ان دونوں کتابوں پر رائے دینے والوں نے شاعر کو طباعتِ کتب کے ضمن میں عجلت پسندی کے رویئے سے باز رکھنے کی نصیحت کیوں نہیں کی؟یہ بات میرے لیے ایک معمہ ہے!!!‘‘۔(نعت رنگ شمارہ ۹، ص ۱۹۱)
بعد ازاں ، میرا تبصرہ پڑھ کر صاحبِ کتاب نے تبصرے والا صفحہ پھاڑ کر مدیرِ نعت رنگ (صبیح رحمانی ) کو واپس بھجوا دیا تھا۔ یہ واقعہ میرے لیے عبرت کا باعث بنا۔
یہ چند باتیں عرض کرنے کے بعد میری خواہش ہے کہ آپ حضرات کو ایسے اشعار کی ایک جھلک بھی دکھا دوں جن کی نعتیہ ادب میں موجود گی خود آپ کو بھی کھٹکے گی!یہاں شعراء کے نام حذف کیے جا رہے ہیں کیوں کہ صرف اصلاح کی جانب اشارے کرنا مقصود ہے۔
قرآنِ معظم کی قسم کچھ نہیں لکھتے
جز اسمِ نبیؐ لو ح و قلم کچھ نہیں لکھتے
مشورہ تخلیقِ عالم کے لیے درکار تھا
کیوں نہ ہوتے عرش پر مہماں چراغِ عالمیں
ان دونوں اشعار پر معروضی انداز سے غور کریں تو دونوں اشعار کا نفسِ مضمون نعتیہ شاعری کے موضوعاتی منظر نامے پر کچھ بد نما داغ کی طرح ابھرتا ہے۔پہلے شعر میں قرآن کریم کی قسم کھا کر حصر کے ساتھ یہ کہنا کہ لوح و قلم ’’نبیؐ کے نام کے علاوہ‘‘ کچھ نہیں لکھتے، حقیقت کے بالکل بر عکس ہے۔پھر لکھنے کا کام قلم کے ساتھ ساتھ لوح (تختی) کو بھی سونپ کر، شاعر نے اپنے علم، مشاہدے اور شعر گوئی کے منہاج کا خود ہی پول کھول دیا ہے۔
اب ذرا قرآنِ کریم کی سورۂ ’’القلم‘‘ کی پہلی آیت دیکھئے :
’’نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ (۱)‘‘[قسم ہے قلم کی اور جو کچھ وہ لکھتے ہیں ]
اس آیت کے ترجمے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قلم کی تحریر کا دائرہ بڑا وسیع ہے۔پیر محمد کرم شاہ الازہری نے لکھا ہے:
’’قلم،تفصیل کا مرتبہ ہے۔واؤ قسم ہے۔القلم سے بعض حضرات نے وہ قلم مراد لیا ہے جس نے امرِ الٰہی سے تقادیر عالم کو لوحِ محفوظ میں تحریر کیا…قلم،ایک ایسا آلہ ہے جو زمان و مکان کی مسافتوں کو تسلیم نہیں کرتا۔وہ گزشتہ صدیوں کے علوم و فنون سے حال و مستقبل کو روشن کرتا ہے اور دور دراز علاقوں میں پیدا ہونے والے اولوالعزم حکماء و فضلا کے افکار و نظریات کو دنیا کے گوشہ گوشہ تک پہنچاتا ہے‘‘۔
اس تفصیل سے یہ بات تو صاف ہو گئی کہ شاعر نے بڑے بھول پن سے ایک ایسی بات کی قسم کھا لی جو مبنی بر حقیقت نہیں تھی۔ مزید بر آں ’’لوح‘‘ [تختی] کو بھی ردیف (کچھ نہیں لکھتے)کی شعر میں بنت کے باعث لکھنے کے وظیفے میں شامل کر لیا۔ اس طرح یہ شعر قرآن کی تعلیمات کے خلاف تو ہے ہی، زندگی کے عام مشاہدات کے خلاف بھی جا پڑا۔
دوسرا شعر جس میں شاعر نے بڑی سادگی سے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ ’’اللہ رب العزت کو [نعوذ باللہ] تخلیق عالم کے لیے مشورہ درکار تھا اس لیے چراغ ِ عالمیں جنابِ محمد مصطفیٰ ﷺ عرش پر مہمان ہوئے‘‘… اپنے ما فیہ کی غیر فطری اور حقیقت گریز حیثیت کا احساس دلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے بندے اور رسول سید الکونین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اپنی نشانیاں دکھانے کے لیے بلایا تھا۔اللہ تعالیٰ تخلیقِ عالم کے لیے مشورے کا قطعی محتاج نہیں ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰ یٰتِناَ ط
[ہر عیب سے] پاک ہے وہ ذات جس نے سیر کرائی اپنے بندے کو رات کے قلیل حصہ میں ، مسجد حرام سے مسجدِ اقصٰی تک،بابرکت بنا دیا ہم نے جس کے گرد و نواح کو تاکہ دکھائیں اپنے بندے کو اپنی قدرت کی نشانیاں ‘‘۔
ایک اور شاعر نے عروضی پابندیوں ، اوزان و بحور کی حد بندیوں اور مفہوم کی درستگی کا خیال کیے بغیر اپنے اشعار میں حضورِ اکرم کے القاب کو اشعار کی ردیف بنا نے کی کوشش کی اور اس طرح کے اشعار کہہ دیئے :
آپؐ کے حسنِ کرم سے سرشار
ہر گل و خار محب الفقراء
ان پہ قربان ہو میرا ایمان و دیں اللّٰہم صلِّ علیٰ محمدٍؐ
جن سے وابستہ ہے جلوۂ آفریں اللّہم صلِّ علیٰ محمدٍؐ
شافع روز حشر راحت العاشقیں اللّٰہم صلِّ علیٰ محمدٍؐ
حسنِ عین الیقیں حاجت شائقیں اللّٰہم صلِّ علیٰ محمدٍؐ
آپؐ فخرِیقیں ، آپؐ روشن مبیں ،اللّٰہم صلِّ علیٰ محمدٍؐ
روشن ہے شایانِ محمد صلے اللہ علیہ وسلم
للہ اللہ شانِ محمد صلے اللہ علیہ وسلم
کہتے رہیے کہتے رہیے جب تک سنیئے نام ان کا
ہوتی ہے پہچانِ محمد صلے اللہ علیہ وسلم
حاصل ہو عرفانِ محمد صلے اللہ علیہ وسلم
کہیئے دل سے صلِّ علیٰ محمدٌ رسول اللہ
جب آئے کانوں میں صدا محمدٌ رسول اللہ
جو ہیں خیرالامم وہ ہیں محبوبِ رب
جن کی امت میں ہم وہ ہیں محبوبِ رب
نام سے جن کے تابندہ عہد آفریں
جن کے لوح و قلم وہ ہیں محبوبِ رب
آپ تسکینِ غم شافع یوم النشر
آپ فخرِ امم شافع یومُ النشر
اپنے پیکر کو اس میں پرو دیجئے
یہ ہے بابِ نظر شافع یوم الحشر
ہوں ہمقدم کسی کے اگر افضل البشر
وہ معتبر ہو راہ گزر افضل البشر
ایک شاعر نے اللہ کے بندے اور رسول ﷺ کی تعلیمات کا یہ اثر لیا ہے ؎
انسانیت کو بخشی وہ توقیر آپؐ نے
ہر آدمی سمجھنے لگا ہے خدا ہوں میں
ایک صاحب نے عشق کے بل بوتے پر صحابیت کا درجہ تقسیم کرنا شروع کر دیا ؎
جس نے دل و جگر کو نچھاور کیا بقاؔ
ہاں ہاں بلال و بوذرو سلمانؓ ہو گیا
ٰمعلوم ہوا کہ یہ شعر تو درجِ ذیل شعر کی تمہید کے طور پر کہا گیا تھا اصل میں تو شاعر صاحب خود کو صحابیت کے درجے پر فائز دیکھ رہے تھے ؎
مری ہستی کو آئینہ بنا ڈالا محبت نے
بلال و بوذرو سلمان ہوں اب اور کیا کہیے
صحابیت کے مرتبے پر خود کو فائز دیکھنا اگر صوفیانہ شطح کے درجے کی چیز ہے تو اس کا ذکر نعتیہ اشعار میں قطعی نہیں ہونا چاہیے۔کیوں کہ نعت صرف اور صرف صداقت آثار احوال کے بیان کی متحمل ہوسکتی ہے صوفیانہ شطحیات کے بیان کی یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
مزید بر آں موصوف نے ایک شعر غالباً اسی قسم کی شطح کے زیرِ اثر ایسا کہہ دیا کہ ان پر کفر کا فتویٰ بھی لگ سکتا تھا ؎
انا بشرٌ زمانہ تم کو سمجھے، ہم نہ سمجھیں گے
بنائے کن فکاں تمؐ وجہ تخلیقِ جہاں تم ہو
قرآنِ کریم کی آیت ہے : ’’قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ ‘‘
کہہ دیجیے [اے نبی] کہ در حقیقت، میں بھی ایک بشر ہوں تم ہی جیسا، وحی کی جاتی ہے میری طرف‘‘۔
قرآن کریم کی آیت کا حوالہ دے کر، فخریہ انداز میں یہ کہنا کہ ہم اس حقیقت کو تسلیم نہیں کریں گے کہ آپﷺ بشر ہیں ، کیسی بڑی اور سنگین جسارت ہے! اس لیے یہ شعر بھی شرعی گرفت سے نہیں بچ سکتا۔بہر حال ہم شاعرِ موصوف کے لیے مغفرت کی دعا ہی کرسکتے ہیں !
شاعر ی کے اچھے اور برے ہونے کا معیار وہی ہے جو ایمان اور اعمالِ صالحہ سے مشروط زندگی کے لیے ہے، کہ اس میں ہر وہ کام جو اللہ کی مرضی کے تابع، سنتِ رسول ﷺ کی پیروی میں اور انسانیت کی فلاح کے لیے ہے، وہ خیر ہے باقی سب شر۔چناں چہ حضورِ اکرم ﷺ نے بڑے بلیغ انداز میں فرما دیا:
’’عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ تعالٰی عنہا قَالَتْ ذُکِرَ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ الشِّعْرُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ ھُوَکَلَامٌ فَحَسَنُہٗ حَسَنٌ وَّ قَبِیْحُہٗ قَبِیْح……
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہا نبی ﷺ کے سامنے شعر کا تذکرہ ہوا آپ ﷺ نے فرمایا ’’شعر کلام ہے، اس کا اچھا، اچھا ہے، اگر کلام برا ہے وہ برا ہے۔روایت کیا اس کو دارقطنی نے اور شافعی نے عروہ سے مرسل بیان کیا۔
صاحبانِ فضیلت حاضرینِ محترم و سامعینِ گرامی قدر! نعتیہ ادب میں تنقید کی ضرورت و اہمیت کے حوالے سے میں اپنا موقف ۱۹۸۱ء سے وقتاً فوقتاً پیش کرتا رہا ہوں ۔اب میں نے کچھ باتیں قدرے تفصیل سے اپنے پی۔ایچ۔ڈی کے مقالے میں بھی پیش کر دی ہیں ۔میرے تحقیقی مقالے کا عنوان ہے ’’اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی مطالعہ‘‘۔
اس نشست میں ’’ نعتیہ ادب میں تنقید کی اہمیت ‘‘ کے موضوع پر مجھے کچھ عرض کرنے کا موقع فراہم کرنے پر میں حلقہء اربابِ ذوق کے کار پردازوں کا شکر گزار ہوں ۔اللہ انہیں سدا خوش رکھے اور ایسے موضوعات پر علمی مذاکرات کا اہتمام کرنے کی توفیقات سے نوازتا رہے (آمین)
٭٭٭
ماخذ:
http://beta.jasarat.com/jasaratmagazine/news/44055
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید