فہرست مضامین
- آتشِ خفتہ کا دفینہ
- ایک ادھُوری نظم
- حسین ابنِ علی
- کوئی فکر لو نہیں دے رہی، کوئی شعرِ تر نہیں ہو رہا
- بیعت کی صدی لمحۂ انکار سے کم ہے
- کیسی دو رنگ ہے یہ شناسائی میرے ساتھ
- تصورات کو تجسیمِ صوت و نور کیا
- قرار مل نہ سکا آج اس کی یاد سے بھی
- یہ رہا تیرا تخت و تاج میاں
- بچھڑ رہا ہے یہ دل زندگی کے دھارے سے
- کبھی پت جھڑ کبھی بارش سے کنایہ کرنا
- کیسی دو رنگ ہے یہ شناسائی میرے ساتھ
- ٹوٹا ہے یہ اس پہ مان کیسا
- گلزار نسیم بھیجتا ہوں
- ای میل
- ان بوکس
- کوئی آواز ڈھونڈتی ہے مجھے
آتشِ خفتہ کا دفینہ
سعود عثمانی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
تصویریں بناؤں گا ، سخن کاری کروں گا
اے ہجر ترے وصل کی تیاری کروں گا
مصروف تو رہنا ہے جدائی میں کسی طور
بچھڑے ہوئے لوگوں کی عزا داری کروں گا
ٹوٹی ہوئی ٹہنی کے بھی سب زخم ہرے ہیں
اے عشق زدہ ، میں تری غم خواری کروں گا
اچھا تو یہی ہے کہ میں کچھ بھی نہ کہوں دوست
کرنی ہی پڑی بات تو پھر ساری کروں گا
کہہ دوں گا مجھے تم سے محبت ہی نہیں تھی
اک روز میں اپنی بھی دل آزاری کروں گا
سچ یہ ہے کہ پڑتا ہی نہیں چین کسی پل
گر صبر کروں گا تو اداکاری کروں گا
٭٭٭
ہر آدمی کا خوشی ہی اگر مقدر ہو
تو شہرِ غم زدگاں کا عجیب منظر ہو
خدا گواہ کہ خوشیاں بہت ملیں لیکن
میں کیا کروں جو اداسی ہی دل کے اندر ہو
سفر سے پہلے پرکھ لینا ہم سفر کا خلوص
پھر آگے اپنا مقدر ہے، جو مقدر ہو
نقیبِ صبح نے آواز دی تو ہے آخر
دعا کرو کہ سحر تیرگی سے بہتر ہو
کہا نہیں تھا یہ پہلے ہی تم سے میں نے سعود
کہ پاؤں اتنے ہی پھیلاؤ جتنی چادر ہو
٭٭٭
دنیا! میں تجھ سے تنگ ہوں ، میرا مکان چھوڑ
چل چھوڑ ، تو ہی ٹھیک سہی، میری جان چھوڑ
کچھ واجبات رزق کے ، کچھ قرض عشق کے
اے دل ! یہ سب حساب چکا ، اور دکان چھوڑ
ہے یوں کہ یہ جہان ترے بس کا ہے نہیں
اب اپنا خواب دان اٹھا، خاک دان چھوڑ
اے شاہ ! تو نے آ کے مری دھوپ روک لی
میری زمین چھوڑ ، مرا آسمان چھوڑ
جھوٹ اور سچ کے بیچ کا مسکن کوئی نہیں
ہر مصلحت سے جان چھڑا ، درمیان چھوڑ
یہ عشق بے امان سہی ، میری جان ہے
تو جانتا نہیں ہے مرا امتحان ، چھوڑ
ویرانگاں کو یاد رکھیں تازہ بستیاں
آئندگاں کے واسطے اک داستان چھوڑ
وہ یادِ بے پناہ تعاقب میں آئی ہے
کتنا کہا تھا تجھ سے ، مت اپنا نشان چھوڑ
٭٭٭
گزارنے سے کوئی دُکھ گزر نہیں جاتا
سو وہ بھی جا تو چکا ہے ،مگر نہیں جاتا
جو عکس تھے وہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے ہیں
جو آئنہ ہے مجھے چھوڑ کر نہیں جاتا
جہاں خلوص میں گرہیں دکھائی دینے لگیں
میں اس کے بعد وہاں عمر بھر نہیں جاتا
کسی سے ربطِ محبت بحال کرنے کو
میں دل سے کہتا ہوں ، جاتا ہوں ، پر نہیں جاتا
اسی لیے تو مرے دوست بھی ہیں میرے عدو
میں دل پہ جاتا ہوں اور بات پر نہیں جاتا
وہ برف پوش محبت اِدھر نہیں آتی
اور اِس پہاڑ کا لاوا اُدھر نہیں جاتا
قیام جیسی کوئی حالتِ سفر ہے مری
ہوا میں جیسے پرندہ ٹھہر نہیں جاتا
بہت قریب ہے گرچہ دماغ سے مرا دل
مگر میں کام کے وقفے میں گھر نہیں جاتا
اک ایسے پیڑ کا فوصل ہے میرا عشق سعود
جو مر تو جاتا ہے لیکن بکھر نہیں جاتا
٭٭٭
ایک ادھُوری نظم
نہ جانے ذکر تھا کسکا، کہاں سے بات چلی
مرے وجود کے ٹکڑو! حسنؔ،عزیرؔ، علیؔ
یہ تین نام ہیں ترتیب کے بغیر جنہیں
کسی خیال کی رَو وزن میں پکارتی ہے
حسن، عزیر، علیتم کو کیا خبر کہ یہاں
حیات کیسے طلسمات سےگزارتی ہے
میں جس جہان کے قصّےسُنا رہا تھا تمہیں
دل ایک پل کے لئے اُس جہاں میں لَوٹ گیا
تمہارے ساتھ جو دن بھر رہا وہی کردار
ہوئی جو شام تو پھر داستاں میں لَوٹ گیا
الگ جہان تھا وہ، پر یہی مکان تھا وہ
یہ بام و در تو نہیں،ہمدموں کی صورت ہیں
یہ سنگ و خشت کے شیشوں سے جھانکتے چہرے
جو میرے ساتھ مرےساتھیوں کی صورت ہیں
و ہ روز و شب تھے کہجس کے گواہ ہم سب تھے
لہو میں روشنی تھی،بارشوں میں خوشبو تھی
عجیب مہکا ہوا دور ہم پہ گزرا تھا
گُلوں کا ذکر تو کیا،آنسوؤں میں خوشبو تھی
نیا بنا ہوا گھر تھا،نئے بنے ہوئے دل
اور اِس سے قبل ہمارے مکاں ہمارے نہ تھے
سو اِس نشے نے بہت کُلفتیں بھُلا دی تھیں
وہ ایسے دن تھے جو پہلے کبھی گزارے نہ تھے
بنا کواڑ کے الماریوں کو شکوہ تھا
کہ اِس مکان میں آسائشیں ذرا کم تھیں
مگر مکان کو حیرت تھی اُن مکینوں پر
کہ جن کی سمت سے فرمائشیں ذرا کم تھیں
وہ سب جو خواہشیں ہوتی ہیں، خواب ہوتے ہیں
کسی طلسم نے معدوم کر دیا تھا اُنہیں
ضروریات کی ترتیب و انتظام کے بعد
جو کچھ خلا تھے قناعت نے بھر دیا تھا انہیں
جو شرق و غرب کی سب نعمتوں سے بڑھ کر تھے
وہ دو وجود یہیں اسمکاں میں رہتے تھے
بڑی خنک سی تمازت تھی پیار میں اُن کے
وہ آفتاب تھے اورسائباں میں رہتے تھے
سو آٹھ فرد تھے ہم گھر کے اور کچھ مہماں
جو مو سموں کی طرح آنے جانے والے تھے
کسی کو علم نہیں تھا کہ اگلے دور میں ہم
جُدائیوں کے بڑے دُکھ اُٹھانے والے تھے
وہ کوئلوں کی انگیٹھی میں اَدھ جلے یاقوت
بچھی ہوئی کسی کونے میں ایک جائے نماز
وہ نرم گرم لحافوں میں مَدھ بھری نیندیں
وہ صبح ساتھ کے کمرےسے ذِکر کی آواز
وہ اک وسیع قفس چاؤسے بنایا ہوا
برآمدے کے ستونوں کے درمیان جو تھا
اور اس دیار کا ہر ایک خوش نوا طائر
ہمارے ساتھ ہی رہتا تھا، میہمان جو تھا
وہ زرد چشم، سیہ رنگ، نیل دُم چڑیا
جو اک ترنّمِ لرزاں پہ ڈولتی رہتی
شرابی آنکھ سے تکتی فرشتہ پر قمری
جو ایک رِند کے لہجے میں بولتی رہتی
کسی تفکّرِ حیراں میں غرق وہ طوطا
جو بھائی جان کے قدموں کی چاپ جانتا تھا
نہ جانے کیوں اُسےہر آئنے سے وحشت تھی
یہ اُس کے بھید تھے، وہ اِن کو آپ جانتا تھا
کبوتروں کی قطار سے ٹوٹ کر یک دَم
زمیں کی سمت کئی مہ لقا اُترتے ہوئے
ہماری اور تمہاری طرح یہ چند پرند
کسی وسیع قفس میں اُڑان بھرتے ہوئے
میں صبح دیر سےاُٹھتا تھا اور مرا اسکول
،،بہت قریب تو کیا تھا مگر قریب سا تھا،،
اور اُس کی راہ میں اک سُرخ پھول کا پَودا
نہ جانے عمر عجب تھی کہ وہ عجیب سا تھا
میں جب بھی گاچنی ملتا تو میری تختی پر
ہتھیلیوں سے لکیریں سی پڑنے لگتی تھیں
اور اس کے بعد کسی گرم خشک جھونکے سے
سلیٹی رنگ کی پَوریں اکڑنے لگتی تھیں
نہ جانے کیفِ سخن تھا کہ بانکپن، کیا تھا
پہ کوئی شے تھی جو مجھ کو بہت سنوارتی تھی
بہت عزیز تھی مجھ کو وہ سرد چنگاری
جو رات بھر مرے سینےمیں دن گزارتی تھی
٭٭٭
جو تو نہیں تو مری کوئی زندگانی نہیں
نہیں نہیں مرا مطلب یہ عمر فانی نہیں
وہ تتلیوں کے پروں پر بھی پھول کاڑھتا ہے
یہ لوگ کہتے ہیں اُس کی کوئی نشانی نہیں
ہمارا کرب کبھی رفتگاں سے پوچھیے گا
ہزار شب ہے مگر ایک بھی کہانی نہیں
میں اس میں ماضی و فردا کا حال دیکھتا ہوں
یہ اُس کا خواب ہے اور خواب یک زمانی نہیں
یہ ٹھیک ہے کہ مجھے روگ اور بھی ہیں مگر
خیالِ یار! نہیں ایسی بدگمانی نہیں
وہ یاد زینہ سے اترتے ہوئے یہ پوچھتی ہے
تمہارے پاس کوئی ایک بھی نشانی نہیں
قصیدہ گو مری اک بات گوشِ ہوش سے سن
دوام صدق کو ہے، لفظ جاودانی نہیں
میاں زمین کے مانند یہ محبت بھی
بہت قدیم ہے لیکن بہت پرانی نہیں
میں دشتِ جاں میں بکھر کر بھی شادماں ہوں سعود
کہ دکھ بہت ہیں مگر رنجِ رائیگانی نہیں
٭٭٭
حسین ابنِ علی
گذر چلی ہے شبِ دل فگار آخری بار
بچھڑنے والے ہیں، یاروں سے یار آخری بار
دمک رہا ہے سحر کی جبیں پہ بوسۂ شب
تھپک رہی ہے صبا روئے یار آخری بار
ذرا سی دیر کو ہے پتیوں پہ شیشۂ نم
گذر رہی ہے کرن،آر پار آخری بار
یہ بات خیموں کے جلتے دیئے بھی جانتے ہیں
کہ ہم کو بجھنا ہے،ترتیب وار،آخری بار
کسی الاؤ کا شعلہ بھڑک کے بولتا ہے
سفر کٹھِن ہے،مگر ایک بار،آخری بار
سُموں سے اڑتی ہوئی ریگِ دشت ڈھونڈتی ہے
غبار ہوتے ہوئے شہسوار،آخری بار
کسی قریب کے ٹیلے پہ راہ دیکھتی ہے
مدینہ جاتی ہوئی راہ گذار،آخری بار
٭٭٭
کوئی فکر لو نہیں دے رہی، کوئی شعرِ تر نہیں ہو رہا
رہِ نعت میں کوئی آشنا مرا ہم سفر نہیں ہو رہا
میں دیارِ حرف میں مضمحل، میں شکستہ پا، میں شکستہ دل
مجھے ناز اپنے سخن پہ تھا سو وہ کارگر نہیں ہو رہا
مرے شعر اس کے گواہ ہیں کہ حروف میری سپاہ ہیں
مگر اب جو معرکہ دل کا ہے، وہی مجھ سے سر نہیں ہو رہا
نہ تو علم میری اساس تھا، نہ میں رمزِ عشق شناس تھا
فقط اک ہنر مرے پاس تھا یہ جو بارور نہیں ہو رہا
مرے چار سمت یہاں وہاں، مرے ہر خیال کی دھجیاں
کہ حریمِ حرمتِ حرف میں کوئی معتبر نہیں ہو رہا
کسی زخمہ ور کی تلاش میں مرے تارِ جاں ہیں کھنچے ہوئے
مرے شہرِ دل کے سکوت میں کوئی نغمہ گر نہیں ہو رہا
مری بے حسی کی حیات پر مرے ماہ و سال گواہ ہیں
مری عمر یوں ہی گزر چلی، مرے دل میں در نہیں ہو رہا
یہ جو راہ میری طویل ہے، مری گمرہی کی دلیل ہے
مری منزلیں ہیں وہیں کہیں، مرا رُخ جدھر نہیں ہو رہا
٭٭٭
بیعت کی صدی لمحۂ انکار سے کم ہے
سردار ! تری عمر سرِ دار سے کم ہے
اس بات پہ شاہد ہے یہ مشکیزہ ء خالی!۔
اک گھونٹ کی وقعت مرے پندار سے کم ہے
حق یہ ہے کہ اک نکتۂ پاراں کے سوا بھی
دربار میں جو کچھ ہے درِ یار سے کم ہے
میں خاک نشینوں کے نشاں دیکھنے والا
کرسی کی بلندی مرے معیار سے کم ہے
"میں قامتِ نیزہ پہ بھی اٹّھا ہوا سر ہوں”
سلطان ! تری جیت مری ہار سے کم ہے
یہ وار مرے دل کے بہت پاس سے ہوگا
خطرہ ہے مگر غیر کی تلوار سے کم ہے
لگتا ہے زمانے کا چلن یوں ہی رہے گا
اس بار بھی قیمت مری ہر بار سے کم ہے
شکوہ ہے مگر کس ہے ، یہ کچھ نہیں کھلتا
سچ یہ ہے کہ اس عشق کے آزار سے کم ہے
٭٭٭
کیسی دو رنگ ہے یہ شناسائی میرے ساتھ
میں تیرے ساتھ ہوں ،مری تنہائی میرے ساتھ
پھر ہمسفر کوئی بھی نہیں ہے ،اگر نہ ہو
پھرتی ہوئی یہ بادیہ پیمائی میرے ساتھ
اس بے کنار شب میں بہت دور تک گئی
بجھتے ہوئے دئیے تری بینائی میرے ساتھ
اس بے وفا ہوا کے مراسم سبھی سے ہیں
بستی میں سب کے ساتھ ہے،صحرائی میرے ساتھ
سرشارئی سخن تری فرقت عذاب ہے
کچھ دیر تو ٹھہر مری ہرجائی میرے ساتھ
٭٭٭
تصورات کو تجسیمِ صوت و نور کیا
ترے خیال نے جب خواب میں ظہور کیا
کل اس کی یاد نے سینے پہ دستکیں دے کر
ملالِ جاں بڑی آہستگی سے دور کیا
٭٭
قرار مل نہ سکا آج اس کی یاد سے بھی
پلٹ رہا ہوں میں اس شہرِ بے مراد سے بھی
بجھے حروف میں لکھی ہیں روشنی کی سطور
کتابِ عمر عبارت ہے اس تضاد سے بھی
٭٭٭
یہ رہا تیرا تخت و تاج میاں
فقر کا اور ہے مزاج میاں
کیا کرے چاند کیا کرے سورج
کور چشمی کا کیا علاج میاں
جانے کس دم ٹھہر گیا مجھ میں
رات اور دن کا امتزاج میاں
یہ جو قسطوں میں جاں نکالتا ہے
کب تلک لے گا یہ خراج میاں
اژدہے کا تو اپنا مسلک ہے
کیا پرندے کا احتجاج میاں
بولتے آئنوں سے کچھ پہلے
قصہ خوانی کا تھا رواج میاں
پھر میں پہنچا اسی جزیرے پر
جس پہ تھا جل پری کا راج میاں
پاؤں پھیلا دئے سمیٹ کے ہاتھ
کیا غرض کیسی احتیاج میاں
چوتھے درویش نے کہا مجھ سے
کر کوئی اپنا کام کاج میاں
عشق بھی رزق کی طرح ہے سعود
رب سے ملتا ہے سب اناج میاں
٭٭٭
بچھڑ رہا ہے یہ دل زندگی کے دھارے سے
مگر یہ بات کہے کون اتنے پیارے سے
نکل رہا ہوں بہت دور اس زمیں سے میں
کلام کرتا ہوا صبح کے ستارے سے
وہ گر رہا ہے کسی آبشار کی صورت
میں تک رہا ہوں اسے آخری کنارے سے
تیرے بغیر زمین و زمان ہیں بھی تو کیا
ارے یہ دل کہ نکلتا نہیں خسارے سے
جو کٹ گئی ہے اسے اتنا سرسری نہ سمجھ
میاں یہ عمر گذرتی نہیں گذارے سے
بڑا حجاب ہے حدسے زیادہ قرب سعود
کہ نقش چھپتے ہیں نزدیک کے نظارے سے
٭٭٭
کبھی پت جھڑ کبھی بارش سے کنایہ کرنا
ہم کو اظہارِ محبت نہیں آیا کرنا
ایک مدت سے میری خاکِ تپاں دیکھتی ہے
وہی دیوار کا دیوار پہ سایہ کرنا
نیلگوں کہر میں لپٹے ہوئے ماضی کے وہ دن
اک دریچے پہ ٹھٹکنا،گذر آیا کرنا
٭٭
کیا تھا ترکِ محبت کا تجربہ میں نے
اور اب یہ سوچ رہا ہوں یہ کیا کیا میں نے
اب اپنے آپ کو آواز دیتا پھرتا ہوں
کہ جیسے تجھ کو نہیں خود کو کھو دیا میں نے
یہ دکھ بھی کم تو نہیں ہے کہ نیم سوز چراغ
جلا نہیں تھا کہ اس کو بجھا دیا میں نے
یہ زہر خون کے ہمراہ رقص کرتا ہے
بہت چکھا ہے محبت کا ذائقہ میں نے
بدل رہے تھے بہت اس میں خال و خد میرے
سو خود ہی توڑ دیا اپنا آئینہ میں نے
٭٭٭
کیسی دو رنگ ہے یہ شناسائی میرے ساتھ
میں تیرے ساتھ ہوں ،مری تنہائی میرے ساتھ
پھر ہمسفر کوئی بھی نہیں ہے ،اگر نہ ہو
پھرتی ہوئی یہ بادیہ پیمائی میرے ساتھ
اس بے کنار شب میں بہت دور تک گئی
بجھتے ہوئے دئیے تری بینائی میرے ساتھ
اس بے وفا ہوا کے مراسم سبھی سے ہیں
بستی میں سب کے ساتھ ہے،صحرائی میرے ساتھ
سرشاریِ سخن تری فرقت عذاب ہے
کچھ دیر تو ٹھہر مری ہرجائی میرے ساتھ
٭٭٭
ٹوٹا ہے یہ اس پہ مان کیسا
اک شخص پہ تھا گمان کیسا
بہتی ہوئی نرم رو ندی نے
تبدیل کیا بیان کیسا
آغاز میں آ کے تھم گیا ہے
انجام یہ درمیان کیسا
بادل کی طرح گذر گیا وہ
کچھ بھی تو نہیں نشان کیسا
اس آئنہ میں جھلک رہا ہے
ٹوٹا ہوا آسمان کیسا
٭٭٭
گلزار نسیم بھیجتا ہوں
اے دوست ، اے غم گسار میرے
دل کی طرح راز دار میرے
دل کر کے دو نیم بھیجتا ہوں
گلزار نسیم بھیجتا ہوں
تجھ کو یہ کتاب چاہیے ہے
اک زرد گلاب چاہیے ہے
سن مجھ سے ذرا فسانہ اس کا
مدت سے ہوں میں نشانہ اس کا
یہ بحر ہے یا کوئی پری ہے
شعلہ ہے کوئی کہ شاعری ہے
میں عشق میں اس کے مبتلا ہوں
اس بحر کی خاک چھانتا ہوں
مجھ میں یہ جنون کی طرح ہے
پتھر میں بھی خون کی طرح ہے
یہ بحر ہے اک طلسم جیسی
بے شکل ہے اور جسم جیسی
یہ میرے سکوت کا بیاں ہے
تنہائی کی طرح راز داں ہے
٭
اک عمر گزر گئی سفر کو
دیکھا نہیں مدتوں سے گھر کو
کیا اور کسی سے دل لگانا
اس عشق میں ہو گیا زمانہ
راس آنے لگا اداس رہنا
اک بوجھ سا دل کے پاس رہنا
برسوں میں ذرا ذرا ہوئے ہم
ہوتے ہوتے ادا ہوئے ہم
اب تجھ سے ہے رسم و راہ اس کی
تجھ پر بھی پڑی نگاہ اس کی
آہنگ لبھا رہا ہے تجھ کو
یہ دشت بلا رہا ہے تجھ کو
تو اس پہ فریفتہ نہ ہو جائے
تکلیف میں مبتلا نہ ہو جائے
٭٭٭
ای میل
(e mail)
رات گئے جب تم یہ دروازہ کھولو گے
خوشبو کا اک جھونکا یک دم در آئے گا
آنکھ مہک اُٹھے گی اور دل بھر آئے گا
ذہن میں پیار کا اک اک نقش اُبھر آئے گا
جاگتی آنکھوں سے اک خواب نظر آئے گا
رات گئے جب تم یہ دروازہ کھولو گے
رات گئے اک شخص تمہارے گھر آئے گا
٭٭٭
ان بوکس
(Inbox)
جی کو آرام نہیں
کوئی نامہ کوئی پیغام نہیں
کاسنی رنگ کی دیواروں پر
کوئی رنگ آج مرے نام نہیں
نین بستر میں گھسی بیٹھی ہے باہیں پھیلائے
اور میں سوچ رہا ہوں کوئی خواب
اس تھکی شب کی تسلی کے لیے
کون سمجھائے مجھے
اب سلگتی ہوئی آنکوں میں سعود
خواب کا کام نہیں
٭٭٭
اس پیڑ کا عجیب ہی ناتا تھا دھوپ سے
خود دھوپ میں تھا سب کو بچاتا تھا دھوپ سے
ابر رواں سے آب رواں پر وہ نقش گر
منظر طرح طرح کے بناتا تھا دھوپ سے
وہ رنج تھا کہ شام اترنے کے ساتھ ساتھ
سایا سا کوئی پھیلتا جاتا تھا دھوپ سے
سورج کہ دن میں اہل زمین کا کفیل تھا
شب میں بھی اک چراغ جلاتا تھا دھوپ سے
اس بے خبر کی مجھ پہ توجہ کمال تھی
کاغذ میں کوئی آگ لگاتا تھا دھوپ سے
وہ شیشٔہ ہنر مجھے بچپن سے یاد ہے
اک پل میں سات رنگ بناتا تھا دھوپ سے
٭٭٭
غلاظت اور تعفن سے دور ، گند سے دور
میں جا رہا ہوں ترے حلقۂ گزند سے دور
میں خیر چاہتا ہوں دل کی اور دنیا کی
مجھے پسند ہے رہنا تری پسند سے دور
سُموں سے جھڑتی ہوئی گرد جانتی ہے مجھ
یہ خاک اُڑتی رہی ہے مرے سمند سے دور
یہ ہشت پایہ قبیلہ تجھے مبارک ہو
ہر ایک پست کا ساتھی ، ہر اک بلند سے دور
مجھے یہ لشکرِ دُم دار چاہییے بھی نہیں
جو اک زقند مین نزدیک ، اک زقند سے دور
یہ آگہی سے لدے خر، یہ ہانپتے خچر
یہ علم و حلم کے حمال ، وعظ و پند سے دور
یہ شہر حکمت و دانش کے بے مہار شتر
کسی نکیل سے آزاد، قید و بند سے دور
یہ گرگِ شعر ، یہ خُوکِ سخن ، یہ عقربِ علم
یہ فتنہ خو کہ رہے خوئے درد مند سے دور
یہ سم نژاد پیالے ، یہ زہر زاد ثمر
مزے سے دور ، لطافت سے دور ، قند سے دور
کچھ اور وقت ہے کچھ اور کھیت بھی چر لے
ابھی یہ خنجرِ براں ہے گوسفند سے دور
میں اپنے حجرۂ جاں کا مکین ہون ، ورنہ
تری فصیل نہیں ہے مری کمند سے دور
٭٭٭
اسی لیے مجھے اک گونہ راس ہے دنیا
جہان عام سہی دل کی خاص ہے دنیا
خود اپنے آپ کو مصروف کر لیا میں نے
یہ دیکھ کر کہ ترے آس ہاس ہے دنیا
رسد کے ساتھ طلب اور بڑھتی جاتی ہے
کبھی جو بُجھ نہیں پاتی وہ پیاس ہے دنیا
چھپائے چھپتا نہیں اس کا داغ داغ بدن
اسی لیے تو بہت خوش لباس ہے دنیا
کسی کے ساتھ نہیں اور سب کے ساتھ بھی ہے
بڑے کمال کی دنیا شناس ہے دنیا
مرا وجود تو دنیائے خواب میں ہے سعود
سو میں تو عکس ہوں اور انعکاس ہے دنیا
٭٭٭
دیوار پہ رکھا ہوا مٹی کا دیا میں
سب کچھ کہا اور رات سے کچھ بھی نہ کہا میں
کچھ اور بھی مسکن تھے ترے دل کے علاوہ
لگتا ہے کہیں اور بھی مسمار ہوا میں
اِس دکھ کو تو میں ٹھیک بتا بھی نہیں پاتا
میں خود کو میسّر تھا مگر مِل نہ سکا میں
جاگا ہوں مگر خواب کی دہشت نہیں جاتی
کیا دیکھتا ہوں یار تجھے بھول گیا میں
سورج کے اُفق ہوتے ہیں ،منزل نہیں ہوتی
سو ڈھلتا رہا ، جلتا رہا ، چلتا رہا میں
اک عشق قبیلہ مری مٹّی میں چھپا تھا
اک شخص تھا لیکن کوئی اک شخص نہ تھا میں
اک گھونٹ کی وُقعت مرے پندار سے کم تھی
اس بات سے واقف مرا مشکیزہ ہے یا میں
اک جسم میں رہتے ہوئے ہم دور بہت تھے
آنکھیں نہ کھلیں مجھ پہ، نہ آنکھوں پہ کھلا میں
کچھ اور بھی درکار تھا سب کچھ کے علاوہ
کیا ہو گا جسے ڈھونڈتا تھا تیرے سوا میں
٭٭٭
(شہید کربلا حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہ)
گزر چلی ہے شبِ دل فگار آخری بار
بچھڑنے والے ہیں یاروںسے یار آخری بار
دمک رہا ہے سحر کی جبیں پہ بوسئہ شب
تھپک رہی ہے صبا روئے یا ر آخری بار
ذرا سی دیر کو ہے پتّیوں پہ شیشۂ نم
گزر رہی ہے کرن آر پار آخری بار
یہ بات خیموں کے جلتے دیئے بھی جانتے ہیں
کہ ہم کو بُجھنا ہے ترتیب وار آخری بار
کسی الاؤ کا شعلہ بھڑک کے بولتا ہے
سفر کٹھن ہے مگر ایک بار، آخری بار
سُموں سے اُڑتی ہوئی ریگِ دشت ڈھونڈتی ہے
غبار ہوتے ہوئے شہسوار آخری بار
کسی قریب کے ٹیلے پہ راہ دیکھتی ہے
مدینہ جاتی ہوئی رہ گزار آخری بار
٭٭٭
(عزم بہزاد کے لئے)
دونوں اپنے آپ میں گم سم ، دونوں خاک اُڑانے میں
فرق ہی کتنا رہ جاتا ہے دشت میں اور دیوانے میں
میری خاموشی ہی شاید میرے بیان سے بہتر تھی
میں نے اپنا آپ گنوایا اپنا آپ بتانے میں
جیسے جیسے منظر تم کو مجھ میں دکھائی دیتے ہیں
میری عمر لگی ہے ایسے رنگ بنانے میں
اور پھر اک دن کوئی اچانک اس کو آگ لگاتا ہے
کتنی مدت لگ جاتی ہے دل کا شہر بسانے میں
ا ک دن کچھ آنسو ہی آخر دشت بلا میں آ ٹپکے
ورنہ کوئی حال نہیں تھا سینے کے ویرانے میں
اب تو محفل دور افق کے پار کہیں برپا ہوگی
عزم تمہیں کیا دیر لگی اس محفل سے اٹھ جانے میں
٭٭٭
نظر کے بھید سب اہل نظر سمجھتے ہیں
جو بے خبر ہیں ، اِنہیں بے خبر سمجھتے ہیں
نہ اُن کی چھاؤں میں برکت ، نہ برگ و بار میں فیض
وہ خود نمود جو خود کو شجر سمجھتے ہیں
اُنہوں نے جھکتے ہوئے پیڑ ہی نہیں دیکھے
جو اپنے کاغذی پھل کو ثمر سمجھتے ہیں
حصارِ جاں در و دیوار سے الگ ہے میاں
ہم اپنے عشق کو ہی اپنا گھر سمجھتے ہیں
کشادہ دل کے لیے دل بہت کشادہ ہے
یہ میں تو کیا ، مرے دیوار و در سمجھتے ہیں
مری حریف نہیں ہے یہ نیلگوں وسعت
اور اس فضا کو مرے بال و پر سمجھتے ہیں
اکیلا چھوڑنے والوں کو یہ بتائے کوئی
کہ ہم تو راہ کو بھی ہم سفر سمجھتے ہیں
تجھے تو علم کے دو چار حرف لے بیٹھے
سمجھنے والے یہاں عمر بھر سمجھتے ہیں
سمجھ لیا تھا تجھے دوست ہم نے دھوکے میں
سو آج سے تجھے بارِ دگر سمجھتے ہیں
جو آشنائی کے خنجر سے آشنا ہیں سعود
وہ دستِ دوست کے سارے ہنر سمجھتے ہیں
٭٭٭
مہک اٹھے گی ساری راہگزر آہستہ آہستہ
ہوا کرتا ہے خوشبو کا سفر آہستہ آہستہ
دئیے صرف ایک غم نے زندگی کو زاویئے کیا کیا
جلیں اک لو سے شمعیں کس قدر،آہستہ آہستہ
مرے حسنِ نظر کا خود مجھے احساس تک کیوں ہو
جمالِ یار کر آنکھوں میں گھر،آہستہ آہستہ
شعاعیں خود ہی اپنا راستہ پہچان لیتی ہیں
اتر آتی ہے آنکھوں میں سحر آہستہ آہستہ
تری یادیں بھی اک اک کر کے رخصت ہوتی جاتی ہیں
بچھڑتے جا رہے ہیں ہم سفر آہستہ آہستہ
٭٭٭
شاید اس طرح گذشتہ کی تلافی ہو جائے
سارے غم بھول کے اک غم مجھے کافی ہو جائے
تو اگر چاہے تو شعلوں میں کھلا دے گلشن
تری رحمت ہو تو پھر زہر بھی شافی ہو جائے
تو نہ چاہے تو سمندر سے بھی تشنہ لوٹوں
تو اگر چاہے تو شبنم مجھے کافی ہو جائے
ایک مدت سے ہوں زندانِ گنہ میں محبوس
عمر بھر قید کے مجرم کی معافی ہو جائے
بے حسی منتظرِ چشمِ کرم ہے کب سے
دل پہ بھی اک نگہِ سنگ شگافی ہو جائے
وہ جو مفہومِ دعا دل میں ہے بے لفظ سعود
لب پہ آ جائے تو پابندِ قوافی ہو جائے
٭٭٭
کوئی آواز ڈھونڈتی ہے مجھے
کوئی آواز ڈھونڈتی ہے مجھے
ہاتھ بڑھتا ہے فون کی جانب
اور میں اس کو روک لیتا ہوں
کوئی زنجیر کھل نہیں پاتی
دل کسی کام میں نہیں لگتا
کوئی آواز ڈھونڈتی ہے مجھے
پھر وہی تیز دھار نوک سعود
قاش در قاش مجھ میں پھرتی ہے
پھر وہی چھن کی آشنا آواز
بوند تپتے توے پہ گرتی ہے
کوئی لکڑی سی جیسے چِرتی ہے
رنج کے بے امان آرے پر
عمر کے آخری کنارے پر
زندگی کیسے روگ پالتی ہے
برف پر آگ دھرتی جاتی ہے
سانس میں ریت بھرتی جاتی ہے
کوئی آواز ڈھونڈتی ہے مجھے
کسی ملبے سے زندہ حالت میں
یاد آ کر مجھے نکالتی ہے
لوگ کہتے تھے زیر آب کبھی
کوئی آواز بھی نہیں آتی
دل کے گہرے سمندروں کے تلے
پھر یہ آواز کیسے گونجتی ہے
جو کہیں باز بھی نہیں آتی
٭٭٭
طواف کرتا ہوا ، اِستلام کرتا ہوا
میں شہرِ وجد میں ہُوں صبح و شام کرتا ہوا
کوئی تو ہے جو مجھے کھینچ کھینچ لاتا ہے
ضرورتوں کا مری انتظام کرتا ہوا
کھڑ ا ہوں اپنے ہی سائے کی جانماز پہ میں
نمازِ شکر میں دل کو امام کرتا ہوا
ترے حضور مجھے لے کے آن پہنچا ہے
یہ سجدہ مجھ میں مسلسل قیام کرتا ہوا
نکل پڑ ا ہوں کسی عشق کے تعاقب میں
ہر ایک یاد کو خود پر حرام کرتا ہوا
فغاں ! کہ مجھ میں جو اک خواہشوں کا لشکر ہے
گزر رہا ہے مرا قتلِ عام کرتا ہوا
سمو رہا ہوں نظر میں مقامِ ابراہیمؑ
میں دل میں ایک تمنائے خام کرتا ہوا
میں کاش سنگ ہی ہوتا کہ زندہ رہ جاتا
نقوشِ پائے پیمبرؑ دوام کرتا ہوا
دُعا کو ہاتھ اُٹھائے جو میں نے مردہ پر
ٹھہر گیا کوئی مجھ میں خرام کرتا ہوا
حرم میں اُڑ تی ابابیل کی طرح ہوں سعودؔ
سکوتِ نیم شبی سے کلام کرتا ہوا
٭٭٭
ایک معیار مستقل رکھنا
درد شایانِ شانِ دل رکھنا
کتنی آساں ہے صبر کی تلقین
کتنا مشکل ہے دل پہ سل رکھنا
ہنستی بستی زمین جانتی ہے
سرخ لاوا درونِ گل رکھنا
منجمد جھیل! کیسا لگتا ہے
زخم اوپر سے مندمل رکھنا
ان درختوں سے میں نے سیکھا ہے
اپنے ہاتھوں پہ اپنا دل رکھنا
شاعری اور کاروبار سعودؔ
کانچ اور آنچ متصّل رکھنا
٭٭٭
تو جا رہا تھا لوٹ کے مہمان کی طرح
بکھرا ہوا تھا دل ترے سامان کی طرح
کیسے کھینچے یہ تیر کہ یہ ہے تو میں بھی ہوں
پیوست ہے رگوں میں رگ جان کی طرح
اک نام فاصلوں پہ بھی ہے متصل بھی ہے
میری کتاب عمر کے عنوان کی طرح
اک چاپ سی تھی رات کہیں جاں کے آس پاس
دل نیم وا رہا درِ امکان کی طرح
جیسے تمام جسم میں مٹی سی بھر گئی
دکھ بے اماں تھا گرد کے طوفان کی طرح
٭٭٭
وہی ہے گیت، جزیرے میں جل پری وہی ہے
یہ خواب اب بھی وہی ہے، بعینہٖ وہی ہے
وہی ہے سبز سمندر میں نقرئی مٹی
جو بہہ رہی ہے تہ آب روشنی وہی ہے
وہی ہے شوخ ہوا سیٹیاں بجاتی ہوئی
سفید ریت پہ لہروں کی سمفنی وہی ہے
لرزتا دیکھ کے عکسِ زمردیں اپنا
گیاہ رنگ پہاڑی کی دلبری وہی ہے
اسی طرح ہے شب آبنوس فام کی لو
طلائی صبح کی پوشاک آتشی وہی ہے
ہر ایک رنج سے بے فکر پھوٹتے چشمے
جو مجھ میں پھول کھلا دے، تری ہنسی وہی ہے
کنار آب جھکے شاخچوں کی طرح سعودؔ
میں خوش ہوں اور مری آنکھ میں نمی وہی ہے
٭٭٭
حسابِ ترک تعلق تمام میں نے کیا
شروع اس نے کیا اختتام میں نے کیا
وہ چاہتا تھا کہ دیکھے مجھے بکھرتے ہوئے
سو اس کا جشن بصد اہتمام میں نے کیا
بہت دنوں میں مرے گھر کی خامشی ٹوٹی
خود اپنے آپ سے اک دن کلام میں نے کیا
اس ایک ہجر نے ملوا دیا وصال سے بھی
کہ تو گیا تو محبت کو عام میں نے کیا
مزاج غم نے بہر طور مشغلے ڈھونڈے
کہ دل دکھا تو کوئی کام وام میں نے کیا
وہ آفتاب جو دل میں دہک رہا تھا سعود
اسے سپرد شفق آج شام میں نے کیا
٭٭٭
نہروں میں وہی آبِ خنک جاری کروں گا
دریا کی طرح دشت کی دل داری کروں گا
جو چاہے کسی قریۂ گل پوش میں بس جائے
میں تو اسی صحرا کی نگہداری کروں گا
مٹی سے حلف خون میں رہتا ہے مری جان
پلٹوں گا تو اس عہد سے غداری کروں گا
جو مجھ میں ہے اس خواب میں رہنا نہیں آتا
کیا جانے کب آسان یہ دشواری کروں گا
دل آتشِ خفتہ کا دفینہ ہے سو اک دن
چقماق سے روشن وہی چنگاری کروں گا
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید