FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

خواتین کے مالی حقوق۔۔ شریعت اِسلامی کی روشنی میں

 

 

 

مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی

 

شائع کردہ

دفتر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

76A/1، مین بازار، اوکھلا  گاؤں،جامعہ نگر، نئی دہلی-۲۵

 

 

پیش لفظ

 

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔

خواتین کے مالی حقوق کے بارے میں مختلف حلقوں سے آواز اٹھتی رہتی ہے، قانون داں حضرات کی جانب سے بھی کئی دفعہ یہ خواہش سامنے آئی کہ اسلام نے خواتین کو مالی اعتبار سے جو حقوق دیئے ہیں، قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کی روشنی میں ان کی وضاحت کی جائے، نیز بعض حالات میں خواتین کا حق میراث جو کم رکھا گیا ہے، اس کی مصلحت پر بھی روشنی ڈالی جائے، عرصہ سے میری خواہش تھی کہ اس موضوع پر کوئی تحریر مرتب ہو جائے جو لوگوں کو مطمئن کر سکے۔

چنانچہ اس اہم کام کے لئے میری نظر انتخاب عزیز گرامی قدر حضرت مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی سلمہ اﷲ پر پڑی، جو اپنی فقہی بصیرت اور قانونِ شریعت کی عقلی توجیہ کے سلسلہ میں نہ صرف ہندوستان ؛ بلکہ ہندوستان سے باہر بھی عزت و وقعت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں، وہ طویل عرصہ سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن تاسیسی ہیں اور اب رکن عاملہ ہونے کے علاوہ لیگل کمیٹی، دارالقضاء کمیٹی اور تفہیم شریعت کمیٹی کے بھی رکن ہیں، رفیق محترم حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ ( سابق صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ) کی وفات کے بعد سے شرعی اور فقہی نقطۂ نظر سے مطلوب تحقیقی کاموں میں ان کا خصوصی تعاون بورڈ کو حاصل رہتا ہے، اﷲ ان کو اس کا بہتر اجر عطا فرمائے اور دین اور علم دین کی زیادہ سے زیادہ خدمات لے۔

مجھے بڑی خوشی ہے کہ عزیزی سلمہ نے کم وقت میں علمی، تحقیقی اور دعوتی اُسلوب میں خواتین کے مالی حقوق پر یہ رسالہ مرتب کیا ہے، اس میں احکام شریعت کو بھی قرآن و حدیث اور فقہاء کی تصریحات کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے، حسب ضرورت ان کی مصلحتوں اور حکمتوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور مسلمانوں کو ان کے تقاضوں پر عمل کرنے اور اپنی زندگی میں ان کو لانے کی دعوت بھی دی گئی ہے، اس طرح اُمید ہے کہ انشاء اﷲ یہ رسالہ عوام و خواص اور قانون داں حضرات کے لئے یکساں مفید ثابت ہو گا اور موضوع سے متعلق جو شکوک و شبہات مغرب کی طرف سے اٹھائے جاتے ہیں، ان کا ازالہ بھی ہو سکے گا —- دُعاء ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کاوش کو قبول فرمائے۔ آمین

۲۹؍ محرم الحرام ۱۴۲۹ھ                                     سید نظام الدین

۷/ فروری ۲۰۰۸ء                          ( جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ )

 

 

ابتدائیہ

 

’’ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ‘‘ اُمتِ اسلامیہ ہند کے لئے اﷲ کی طرف سے اتنی بڑی نعمت ہے کہ عالم اسلام کے مسلمان بھی اسے رشک کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں، یہ اس ملک میں مسلمانوں کی وحدت کا نشان ہے، جس کے سایہ میں مسلمانوں کے تمام فرقے، جماعتیں اور تنظیمیں جمع ہیں۔

بورڈ کا بنیادی مقصد شریعتِ اسلامی کا تحفظ ہے، تحفظ شریعت کی یہ تحریک تین پہلوؤں سے کام کر رہی ہے، ایک قانونی پہلو سے، اس کے لئے عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کی جاتی ہے اور سیاسی کوششوں کے ذریعہ مخالف شریعت قانون کی تنسیخ اور شریعت کے موافق قانون کے اجراء کی سعی کی جاتی ہے، دوسری جہت مسلمانوں کی ذہن سازی کی ہے، کہ وہ رضا کارانہ طور پر اپنی سماجی زندگی کو شریعت کے سانچہ میں ڈھالیں ؛ کیوں کہ شریعت کا اصل تحفظ یہی ہے کہ ہماری عملی زندگی کا رشتہ اس سے قائم رہے، تیسرا پہلو قانون شریعت کی تفہیم کا ہے، یعنی مسلمانوں کو بھی اور برادرانِ وطن کو بھی یہ حقیقت سمجھائی جائے کہ شریعتِ اسلامی پوری طرح عقل و مصلحت کے مطابق اور قانون فطرت سے ہم آہنگ ہے، گذشتہ چند سال سے اس پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اور اس کے بہتر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

اس سلسلہ میں بار بار خواتین کے مالی حقوق اور خاص کر حق میراث کے سلسلہ میں آواز اٹھائی جاتی ہے، چنانچہ مخدومی امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب دامت برکاتہم جنرل سکریٹری بورڈ نے اس حقیر کو حکم فرمایا کہ ایک رسالہ خاص اس موضوع پر مرتب کر دیا جائے، تاکہ خواتین کے حقوق اور اس سلسلہ میں قانون شریعت کی مصلحتیں اچھی طرح واضح ہو جائیں، یہ رسالہ اسی حکم کی تعمیل ہے۔

اس رسالہ کو بحیثیتِ مجموعی میں نے چار مختصر ابواب میں تقسیم کیا ہے، پہلے باب میں میراث اور ہبہ و وصیت سے متعلق خواتین کے حقوق کا ذکر ہے، اس میں راقم الحروف نے مختلف حالتوں میں خواتین کے حق میراث کے سلسلہ میں، مصری نژاد فاضل ڈاکٹر صلاح الدین سلطان ( مشیر مذہبی امور، بحرین ) کے رسالہ ’’ میراث المرأۃ وقضیۃ المساواۃ‘‘ سے خاص طور پر استفادہ کیا ہے، نیز یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ بعض صورتوں میں خواتین کے حقوق کا کم ہونا محض جنس کی بنیاد پر تفریق نہیں ہے ؛ بلکہ یہ ذمہ داریوں کی نسبت سے حقوق کی تعیین ہے۔

دوسرے باب میں نفقہ سے متعلق بحث ہے ؛ کیوں کہ قانونِ شریعت اور قانونِ نفقہ ایک دوسرے سے مربوط ہے، اس کو سمجھے بغیر بعض صورتوں میں مردوں اور عورتوں کے درمیان میراث میں تفاوت کی حکمت کو نہیں سمجھا جا سکتا، تیسرے باب میں مہر کی اہمیت، مقدار مہر کے سلسلہ میں شریعت کا نقطۂ نظر اور بعض دیگر احکام کو ذکر کیا گیا ہے —- یہ بات ظاہر ہے کہ شریعت میں بنیادی طور پر کسبِ معاش کی ذمہ داری مردوں سے متعلق کی گئی ہے ؛ لیکن شوہر کی اجازت سے شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ کس حد تک خواتین کسبِ معاش کے مواقع سے استفادہ کر سکتی ہیں ؟ چوتھا حصہ اسی عنوان پر ہے ؛ کیوں کہ یہ بھی مالی حقوق کا ایک شعبہ ہے، اس باب میں اس بات کو بھی واضح کیا گیا ہے کہ اسلام نے جو گھر کے باہر کی ذمہ داریاں مردوں سے اور اُمور خانہ داری کو عورتوں سے متعلق رکھا ہے، یہ خود عورتوں کے حق میں بہت بہتر ہے —- آخری باب اس پہلو پر ہے کہ اسلام نے مردوں ہی کی طرح خواتین کو بھی اپنی املاک میں تصرف کا حق دیا ہے، اس کی اہمیت اس لئے ہے کہ بعض مذاہب میں عورت مالک تو بن سکتی ہے، لیکن وہ حسب منشاء اس میں تصرف کرنے کا حق نہیں رکھتی۔

یہ رسالہ بہ مشکل دو تین دونوں میں مرتب ہوا ہے، اگر حسب ضرورت حوالہ جات کی تخریج میں المعہد العالی الاسلامی حیدر آباد کے شعبۂ حدیث و فقہ کے طلبہ کا تعاون شریکِ حال نہ ہوتا تو شاید اتنے کم وقت میں دوسری مصروفیات کے ساتھ یہ کام نہیں ہو پاتا، اﷲ تعالیٰ ان سبھوں کو جزاء خیر عطا فرمائے اور اس کم سواد تحریر کو قبولیت سے نوازے۔ واﷲ ہو المستعان۔

 

۲/ صفر ۱۴۲۹ھ                                                      خالد سیف اﷲ رحمانی

۱۰/فروری ۲۰۰۸ء                                ( بیت الحمد، شاہین نگر، حیدرآباد )

 

 

 

 

 

ابتدائیہ

 

 

 

خواتین انسانیت کا نصف حصہ ہیں، خدا نے ان سے جو فرائض متعلق کئے ہیں، اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ لطافت کی پیکر ہوں، جس میں مہر و وفا، شرم و حیا اور نازک اندامی اس طرح جمع ہوں کہ ان میں محبت کی خوشبو بھی ہو اور شرم و حیا بھی ان کے حسن ناز کے لئے زیور کا کام کرتی ہو، صنف لطیف کے وجود کے اس امتیازی پہلو نے ایک طرف اس کو ایسی کشش بھی دی ہے جو ہمیشہ مردوں کی محبت کا مرکز ہوتی ہے اور جسمانی اعتبار سے کمزور ہونے کی وجہ سے وہ مردوں کے ظلم و زیادتی اور استحصال کا شکار بھی ہوتی رہی ہے، نیز یہ صورتِ حال تاریخ کے ہر دور میں رہی ہے، کبھی عورتوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی اور اس کی عصمت کا سودا کیا جاتا تھا، آج کے اس ترقی یافتہ عہد میں بھی عورت کے حسن کو فروخت کیا جاتا ہے، اس کے گیسو و عارض کو تجارتی تشہیر کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے اور اس کے حسن کو عریاں کر کے اس کی قیمت وصول کی جاتی ہے، اس لئے اس طبقہ کا استحصال جیسے ماضی میں ہوتا رہا ہے، آج بھی ہو رہا ہے، صرف عنوان بدل گیا ہے اور آج یہ سب کچھ آزادی اور ترقی کے نام پر کیا جا رہا ہے۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم جب اس دنیا میں تشریف لائے، تو دو طبقہ سب سے زیادہ مظلوم اور قابل رحم تھا، ایک غلاموں کا، دوسرا عورتوں کا، اس لئے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم یوں تو تمام انسانیت کے لئے ابرِ رحمت بن کر آئے اور ہر انسان کو ظلم و نا انصافی سے نجات دلانے کی کوشش کی ؛ لیکن ان دونوں طبقوں کے ساتھ حسن سلوک کی خاص طور پر تلقین فرمائی ؛ بلکہ مرضِ وفات میں بھی لوگوں کو اس طرف متوجہ فرمایا، پھر آپ ا نے اس کے لئے محض اخلاقی ہدایات ہی پر اکتفاء نہیں فرمایا، بلکہ ایک ایسا نظام قانون انسانیت کو دیا، جس میں ہر مرحلہ پر خواتین کے حقوق کو خصوصی اہمیت دی گئی، یہ حقوق جیسے زندگی کے دوسرے شعبوں سے متعلق ہیں، اسی طرح مال سے متعلق بھی ہیں۔

خواتین کو جو مالی حقوق دیئے گئے ہیں، ان کا چند بنیادی نکات کے ذریعہ احاطہ کیا جا سکتا ہے  :

(۱)        میراث وغیرہ میں عورتوں کے حقوق۔

(۲)       خواتین کا نفقہ اور ان کی ضروریاتِ زندگی کے سلسلہ میں مردوں کی ذمہ داریاں۔

(۳)      مہر کا حق اور اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات۔

(۴)      کسبِ معاش کے مختلف ذرائع سے استفادہ کا حق۔

(۵)      خواتین کے لئے اپنی املاک میں تصرف کا حق۔

 

٭٭٭٭

 

 

 

 

میراث، ہبہ و وصیت اور خواتین

 

اسلام سے پہلے دنیا کے اکثر مذاہب میں خواتین کا میراث میں کوئی حق نہیں سمجھا جاتا تھا، عربوں کا خیال تھاکہ جو لوگ قبیلہ کی مدافعت کر سکتے ہوں اور لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، وہی میراث پانے کے حقدار ہیں، یہودیوں میں سارا ترکہ پہلوٹھے کا حق مانا جاتا تھا، ہندوؤں کے یہاں بھی عورت کا میراث میں کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا، یہاں تک کہ انیسویں صدی تک یورپ میں عورتوں کو میراث میں کوئی حصہ نہیں ملتا تھا، اسلام نے جہاں مرد رشتہ داروں کو حصہ دار بنایا، وہیں ان کی ہم درجہ خواتین کو بھی میراث کا مستحق قرار دیا، والد کی طرح والدہ کو، بیٹے کی طرح بیٹی کو، بھائی کی طرح بہن کو، شوہر کی طرح بیوی کو وغیرہ، آج پوری دنیا میں خواتین کو جو ترکہ کا مستحق مانا جاتا ہے، وہ دراصل شریعت اسلامی کا عطیہ ہے۔

حق میراث اور خواتین

 

اسلام کے قانونِ میراث میں جن رشتہ داروں کو مقدم رکھا گیا ہے، جو کسی حال میں ترکہ سے محروم نہیں ہو سکتے، وہ چھ ہیں : جن میں تین مرد ہیں :باپ، بیٹا، اور شوہر، تین عورتیں ہیں : ماں، بیٹی اور بیوی، اس کے علاوہ خصوصی اہمیت ان حقداروں کو حاصل ہے، جن کو ’ ذوی الفروض ‘ کہا جاتا ہے، یعنی وہ اعزہ جن کے حصے مقرر کر دیئے گئے ہیں، ان میں مردوں سے زیادہ تعداد خاتون رشتہ داروں کی ہے، اس لئے کہ مرد چھ حالتوں میں ذوی الفروض میں شمار کیا جاتا ہے، اور عورت ۱۷ حالتوں میں اس حیثیت سے میراث کی مستحق ہوتی ہے، چنانچہ یہاں حصوں کا تناسب اور ان کی مستحق خواتین کا ذکر کیا جاتا ہے  :

( الف )  دو تہائی  :

(۱)  دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں (۲) دو یا دو سے زیادہ پوتیاں
(۳)  دو یا دو سے زیادہ سگی بہن (۴)  دو یا دو سے زیادہ باپ شریک بہن

( ب )  نصف  :

(۱) ایک بیٹی (۲) ایک پوتی
(۳) ایک سگی بہن (۴) ایک باپ شریک بہن

 

( ج )  ایک تہائی  :

(۱) ماں (۲) ماں شریک بہن

 

( د )  چھٹا حصہ  :

(۱) ماں (۲) دادی
(۳)  پوتی (۴) باپ شریک بہن
(۵) ماں شریک بہن

 

( ہ )  چوتھائی  :

(۱)  بیوی

 

( و )  آٹھواں حصہ  :

(۱)  بیوی

 

اس میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ متعینہ حصوں میں سب سے زیادہ دو تہائی اور اس کے بعد نصف ہے، دو تہائی حصہ کا مردوں میں سے کوئی مستحق نہیں ہوتا اور نصف کا مستحق بھی مردوں میں صرف شوہر ہو سکتا ہے، جب کہ میت کی اولاد نہ رہی ہو۔

مقدار کے اعتبار سے خواتین کے حصہ پانے کی چار حالتیں ہوتی ہیں  :

(۱)        جب عورت کا حصہ اپنے ہم درجہ رشتہ دار مرد کے مقابلہ آدھا ہوتا ہے۔

(۲)       جب مرد اور عورت کا حصہ برابر ہوتا ہے۔

(۳)      جب عورت کا حصہ مرد سے زیادہ ہوتا ہے۔

(۴)      جب عورت وارث ہوتی ہے اور مرد وارث نہیں ہوتا ہے۔

یہاں ان تمام صورتوں کا احاطہ مقصود نہیں ہے ؛ لیکن اجمالی طور پر ان کا ذکر کیا جاتا ہے  :

 

عورت کا حصہ مرد کے مقابلہ نصف

 

اپنے ہم درجہ مرد رشتہ دار کے مقابلہ عورت کے نصف حصہ پانے کی صورتیں یہ ہیں  :

(۱)  بیٹے کے ساتھ بیٹی : مثلاً کسی نے ایک بیٹا اور ایک بیٹی کو چھوڑا اور اس کا ترکہ تین لاکھ روپے ہو تو ایک لاکھ بیٹی کا حق ہو گا اور دو لاکھ بیٹے کا۔

(۲)  باپ کے ساتھ ماں : بشرطیکہ اولاد اور شوہر یا بیوی نہ ہو، اس صورت میں ماں کو ایک تہائی ملے گا اور عصبہ ہونے کی بناء پر باپ کو دو تہائی مل جائے گا۔

(۳)  حقیقی بہن یا باپ شریک بہن : حقیقی بھائی یا باپ شریک بھائی کے ساتھ وارث ہو، یعنی میت نے والدین یا اولاد، شوہر یا بیوی کو نہ چھوڑا ہو، صرف اس کے حقیقی بھائی اور حقیقی بہن یا باپ شریک بھائی یا باپ شریک بہن اس کے وارث ہوں، اس وقت بہن کے مقابلہ بھائی کا حصہ دو گنا ہو گا، مثلاً ایک حقیقی بھائی اور ایک حقیقی بہن ہو، تو بھائی کو دو تہائی ملے گا اور بہن کو ایک تہائی۔

(۴)  شوہر کا حصہ بمقابلہ بیوی کے دوہرا ہو گا، یعنی اگر بیوی کا انتقال ہوا اور اس نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی، تو شوہر کو اس کے ترکہ کا نصف مل جائے گا اور اولاد بھی چھوڑی ہو تو چوتھائی ملے گا، اس کے برخلاف شوہر کے ترکہ میں سے بیوی کو اولاد نہ ہونے کی صورت میں چوتھائی اور اولاد ہونے کی صورت میں آٹھواں حصہ ملے گا۔

 

مردوں کے برابر حصہ

 

جن حالات میں عورتوں کا حصہ مردوں کے برابر ہوتا ہے، ان میں سے چند یہ ہیں  :

(۱)  میت نے ماں، باپ اور بیٹے کو چھوڑا ہو، تو ماں اور باپ دونوں کو چھٹا حصہ ملے گا، اسی طرح اگر اس نے ماں، باپ اور دو بیٹیوں کو چھوڑا، تب بھی ماں اور باپ دونوں کو چھٹا حصہ ملے گا اور دو تہائی بیٹیوں کو ملے گا، نیز اگر کسی عورت نے شوہر، باپ، ماں اور ایک بیٹی کو چھوڑا ہو تو اس صورت میں بھی ماں اور باپ چھٹے حصہ کے مستحق ہوں گے۔

(۲)  ماں شریک بھائی بہن کا حصہ بھی برابر ہو گا، جیسے ایک عورت نے شوہر کو، ماں کو اور ماں شریک بھائی کو چھوڑا، تو ماں شریک بھائی چھٹے حصہ کا مستحق ہو گا، اگر شوہر اور ماں کے علاوہ صرف اخیافی بہن کو چھوڑا تو وہ بھی چھٹے حصہ کی ہی مستحق ہو گی، اسی طرح اگر کسی عورت کا انتقال ہوا، اس کے ورثہ، شوہر، ماں، اخیافی بھائی اور اخیافی بہن ہوں، تو نصف شوہر کا حصہ ہو گا، چھٹا حصہ ماں کا اور ایک تہائی میں بھائی اور بہن کا حصہ برابر ہو گا۔

(۳)  بہت سی حالتیں ایسی ہیں کہ اگر مرنے والے کا ایک ہی وارث ہو، خواہ مرد ہو یا عورت، وہ پورے ترکہ کا حقدار قرار پاتا ہے، جیسے : باپ، بیٹا، بھائی، شوہر، ماموں اور چچا، اسی طرح خاتون رشتہ داروں میں : ماں، بیٹی، بہن، بیوی، خالہ اور پھوپھی، مثلاً اگر کسی شخص کے انتقال پر صرف اس کا بیٹا ہی باقی بچا ہو تو وہ پورے ترکہ کا حقدار ہو گا ؛ اس لئے کہ وہ عصبہ ہے، اسی طرح اگر اس نے صرف بیٹی کو چھوڑا ہو تو وہ پورے ترکہ کی حقدار ہو گی، نصف تو اس کا متعینہ حصہ ہو گا اور باقی نصف اس کو بطور ’’ رد ‘‘ کے ملے گا۔

(۴)  بعض دفعہ حقیقی بہن اور حقیقی بھائی کا حصہ بھی برابر ہو جاتا ہے، جیسے ایک عورت نے شوہر اور ایک حقیقی بھائی کو چھوڑا تو نصف شوہر کا حق ہو گا اور نصف بھائی کا، — اسی طرح اگر شوہر اور حقیقی بہن کو چھوڑا تو نصف شوہر کا حصہ ہو گا اور نصف حقیقی بہن کا، اگر اس نے شوہر اور حقیقی بھائی کے علاوہ ایک بیٹی کو بھی چھوڑا ہو، تو شوہر چوتھائی ترکہ کا اور بیٹی نصف ترکہ کی مستحق ہو گی، باقی بھائی کا ہو گا، اگر یہاں حقیقی بھائی کے بجائے حقیقی بہن ہو تو باقی اس کو ملے گا ؛ بلکہ بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ حقیقی بھائی اور ماں شریک بہن کا حصہ برابر ہو جاتا ہے، جیسے کسی عورت نے شوہر کو، ماں کو، ماں شریک بہن کو اور حقیقی بھائی کو چھوڑا ہو تو نصف ترکہ کا مستحق شوہر ہو گا، چھٹاحصہ ماں کو ملے گا، حقیقی بھائی اور اخیافی بہن دو چھٹے حصے کے حقدار ہوں گے، حالاں کہ رشتہ کے اعتبار سے یہ بھائی اُس بہن سے زیادہ قریب ہے۔

یہ چند مثالیں ہیں، ورنہ بہت سی ایسی صورتیں بنتی ہیں، جن میں عورت اپنے ہم درجہ مرد رشتہ دار سے زیادہ کی مستحق ہوتی ہے۔

 

مردوں سے زیادہ حصہ

 

بہت سی صورتوں میں عورتوں کا حصہ مردوں سے بڑھ جاتا ہے، چند صورتیں ذیل میں نقل کی جاتی ہیں  :

(۱)  اگر کسی عورت کا انتقال ہوا اور اس نے شوہر، باپ، ماں اور دو بیٹیوں کو چھوڑا اور بالفرض اس کا ترکہ ساٹھ لاکھ روپے پر مشتمل ہو، تو دونوں بیٹیوں کو بتیس لاکھ روپے یعنی فی کس سولہ لاکھ روپے ملیں گے اور اگر اس نے شوہر، باپ، ماں کے علاوہ دو بیٹوں کو چھوڑا ہو تو وہ پچیس لاکھ یعنی فی کس ساڑھے بارہ لاکھ روپے کے حقدار ہوں گے، — اسی طرح اگر کسی عورت کے ورثہ میں شوہر، ماں اور حقیقی بہنیں ہوں اور مثال کے طور پر اس کا ترکہ اڑتالیس لاکھ ہو تو دونوں بہنوں کو چوبیس یعنی فی کس بارہ لاکھ ملے گا، اور اسی صورت میں اگر دو بہنوں کے بجائے دو حقیقی بھائی ہوں، تو ان کا حصہ سولہ لاکھ یعنی فی کس آٹھ لاکھ ہو گا، ان صورتوں میں عورت کا مقررہ حصہ دو تہائی اس حصہ سے بڑھ جاتا ہے، جو مرد کو بطور عصبہ حاصل ہوتا ہے۔

(۲)  بعض صورتوں میں عورت نصف ترکہ کی مستحق ہوتی ہے، یہ اس کا مقررہ حصہ ہے جب کہ اس کے ہم درجہ مرد کا حصہ کم بنتا ہے، جیسے ایک عورت نے شوہر، باپ، ماں اور ایک بیٹی کو چھوڑا ہو تو اگر ترکہ ایک کروڑ چھپن لاکھ روپے پر مشتمل ہو تو بیٹی بہتر لاکھ کی مستحق ہو گی، اس صورت میں اگر بیٹی کی جگہ بیٹا ہو تو اس کا حصہ پینسٹھ لاکھ ہو گا، — بعض دفعہ تو یہ فرق بہت زیادہ ہو جاتا ہے، جیسے کسی عورت کے ورثہ میں شوہر ہو، ماں ہو اور حقیقی بہن ہو اور فرض کیجئے کہ مرحومہ کا ترکہ اڑتالیس لاکھ ہو، تو بہن کا حصہ اٹھارہ لاکھ ہو گا اور اس صورت میں اگر بہن کے بجائے بھائی ہو تو اس کا حصہ صرف آٹھ لاکھ ہو گا۔

(۳)  بعض دفعہ عورت کا مقررہ تہائی حصہ بھی اپنے مقابل مرد رشتہ دار سے زیادہ ہو جاتا ہے، مثلاً ایک شخص نے بیوی، ماں، دو حقیقی بھائی اور دو ماں شریک بہنوں کو چھوڑا اور فرض کیجئے کہ مرنے والے کا ترکہ اڑتالیس لاکھ روپے تھا تو دونوں ماں شریک بہنوں کو سولہ یعنی فی کس آٹھ لاکھ روپے ملیں گے اور دونوں حقیقی بھائیوں کا حصہ بارہ یعنی فی کس چھ لاکھ ہو گا، — اسی طرح اگر عورت نے شوہر، دو ماں شریک اور دو حقیقی بھائیوں کو چھوڑا ہو اور مثلاً اس کا ترکہ ساٹھ لاکھ روپے ہو، تو دونوں بہنوں کا حصہ بیس لاکھ ہو گا اور دونوں بھائیوں کا دس لاکھ۔

(۴)  بعض دفعہ خواتین کا مقررہ حصہ ترکہ کا چھٹا حصہ ہوتا ہے ؛ لیکن وہ اس کے مقابل مرد رشتہ دار سے بڑھ جاتا ہے، جیسے ماں شریک بہن کا مقررہ حصہ چھٹا حصہ ہے، اب اگر کسی عورت نے شوہر، ماں، ایک ماں شریک بہن اور دو حقیقی بھائیوں کو چھوڑا ہو، تو اگر ساٹھ لاکھ ترکہ ہو تو بہن کو دس لاکھ ملے گا اور دو بھائیوں کو بھی دس لاکھ یعنی فی کس پانچ لاکھ ملے گا، اس طرح کی اور بھی متعدد صورتیں ہیں۔

 

جب صرف عورت وارث بنتی ہے

 

بعض حالتیں ایسی ہیں کہ جن میں عورت وارث بنتی ہے، مرد وارث نہیں بنتا، جیسے ایک عورت نے شوہر، باپ، ماں، بیٹی اور پوتی کو چھوڑا ہو تو پوتی چھٹے حصے کی حقدار ہو گی ؛ لیکن اسی صورت میں اگر پوتی کے بجائے پوتا ہو تو اس کو کچھ نہیں ملے گا، اسی طرح اگر شوہر، حقیقی بہن اور باپ شریک بہن وارث ہوں تو باپ شریک بہن چھٹے حصہ کی مستحق ہے اور اگر اس کی جگہ باپ شریک بھائی ہو تو اس کو کچھ نہیں ملے گا، ان کے علاوہ بھی متعدد صورتیں ہیں، جن میں خواتین حصہ پاتی ہیں اور ان کے مقابل مرد رشتہ دار حصہ نہیں پاتے۔

 

خواتین کا کم حصہ کب اور کیوں ؟

 

اس میں شبہ نہیں کہ جو لوگ لازمی طور پر میراث میں حصہ پاتے ہیں یعنی باپ، ماں، بیٹا، بیٹی اور شوہر و بیوی، ان میں مردوں کا حق عورتوں سے زیادہ یا دوہرا رکھا گیا ہے، لیکن اس کو مردوں اور عورتوں کے درمیان جنس کی بنیاد پر تفریق نہیں سمجھنا چاہئے، یہ اس اُصول پر مبنی ہے کہ جس کی ذمہ داریاں زیادہ ہوں گی، ان کے حقوق بھی زیادہ ہوں گے، اور جس کی ذمہ داری کم ہو گی، اس کے حقوق کم ہوں گے، اس اُصول کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے    اپنے ایک ارشاد سے واضح فرمایا : ’’ الخراج بالضمان‘‘ [1]اس کا ماحصل یہ ہے کہ جو نقصان کو اٹھائے گا وہی فائدہ کا بھی حقدار ہو گا، اس پہلو سے اگر مردوں اور عورتوں کی مالی ذمہ داریوں کا موازنہ کیا جائے تو یہ بات اچھی طرح واضح ہو جائے گی، مرد پر اپنی کفالت خود واجب ہے، بیوی کی ضرورت کو پوری کرنا اس کی ذمہ داری ہے، اولاد کی پرورش اور اس کی تعلیم و تربیت کے تمام اخراجات، نیز ان کی شادی بیاہ مرد کے ذمہ ہے، یہاں تک کہ اگر بیوی شیر خوار بچہ کو دودھ پلانے پر آمادہ نہ ہو تو باپ کا فریضہ ہے کہ اس کے دودھ کا انتظام کرے، والدین نیز یتیم، غیر شادی شدہ بھائیوں، بیوہ اور مطلقہ بہنوں کی کفالت بھی اکثر حالات میں وہی کرتا ہے،والد اگر خدا نخواستہ اس دنیا سے گذر جائے تو پوتوں اور پوتیوں کی پرورش اس کی ذمہ داری ہے، غرض کہ تمام مالی ذمہ داریاں مردوں پر رکھی گئی ہیں، عورتوں پر بہت کم اس ذمہ داری کا حصہ عائد ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ خود اپنی کفالت کی ذمہ داری سے بھی آزاد ہیں، اگر شوہر غریب ہو اور بیوی مالدار، تب بھی شوہر کو بیوی کے اخراجات ادا کرنے ہیں، اگر اس پہلو سے دیکھا جائے تو بیٹا، بیٹی، باپ، ماں اور شوہر و بیوی کے حصۂ میراث میں اس سے بھی زیادہ تفاوت ہونا چاہئے تھا ؛ لیکن خواتین کی خلقی کمزوری کو سامنے رکھتے ہوئے اور ان کی رعایت کرتے ہوئے حصوں میں کم تفاوت رکھا گیا ہے۔

اس کو ایک اور طریقہ پر سمجھا جا سکتا ہے، شریعت میں والدین کی اہمیت و عظمت اولاد سے زیادہ ہے، اس کا تقاضا یہ تھا کہ والدین کا حصہ زیادہ ہو اور اولاد کا حصہ کم ہو ؛ لیکن اس کے برخلاف ترکہ میں ماں باپ کا حصہ کم ہے اولاد کا زیادہ ؛ کیوں کہ ماں باپ اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہو رہے ہیں، ان کی ذمہ داریوں کی بساط لپیٹی جا رہی ہے اور اولاد ذمہ دار یوں کے میدان میں قدم رکھ رہی ہیں ؛ اس لئے اولاد کا حصہ زیادہ رکھا گیا اور والدین کا کم، غرض کہ قانون میراث کا گہرا تعلق نفقہ اور کفالت کے قانون سے ہے، جن کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں، ان کا حصہ بھی زیادہ ہے اور جن کی ذمہ داریاں کم ہیں ان کا حصہ بھی کم ہے، یہ ایسا منصفانہ اُصول ہے جس کی معقولیت سے کوئی صاحب انصاف انکار نہیں کر سکتا۔

 

حق میراث ادا نہ کرنے کا گناہ

 

اس وقت معاشرہ میں اصل مسئلہ ترکہ کی مقدار کا نہیں ہے ؛ بلکہ عورتوں کو ترکہ سے محروم کرنے کا ہے، قرآن مجید میں ترکہ کو ’ فریضۃ من اﷲ‘ ( ۱) یعنی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا ہوا حکم کہا گیا ہے اور ترکہ کے احکام بیان کرنے کے بعد کہا گیا ہے کہ یہ اﷲ تعالیٰ کی حدود ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو، ( ۲) اس سے معلوم ہوا کہ عورت کو جو کچھ حق میراث ملتا ہے، وہ اس کے مرد رشتہ دار نہیں دیتے ہیں ؛ بلکہ یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دیا ہوا حصہ ہے، اس میں کمی بیشی کرنا اﷲ تعالیٰ کے حق میں دخل دینے کے مترادف ہے اور اس سے بڑھ کر زیادتی اور کیا ہو سکتی ہے ؟

افسوس! کہ بہت سے مسلمان خاندانوں میں بہنوں کے حصہ پر بھائی قبضہ کر لیتے ہیں، والد کے انتقال پر بیٹے سب پر قابض ہو جاتے ہیں اور بیوہ ماں کو اس کا حصہ نہیں دیتے، بعض جگہ بھاوج کو حق سے محروم کر دیا جاتا ہے، والد کے انتقال کے بعد دوسرے قرضوں کی طرح بیوی کا مہر بھی ادا کیا جانا چاہئے، لیکن بیوی کا مہر ادا نہیں کیا جاتا اور اسے غیر ضروری سمجھا جاتا ہے، یہ کھلی ہوئی نا انصافیاں ہیں، اگر ماں اور بہنوں کا حق نہیں دیا گیا تو لڑکوں کے مال میں حرام کا عنصر شامل ہو گیا، جو نہ صرف ان کی آخرت کو ضائع کر دے گا ؛ بلکہ دنیا میں بھی وہ اولاد اس سے متاثر ہوتی ہیں، جن کی حرام کے ذریعہ پرورش ہوتی ہو ؛ بلکہ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حرام اتنی بری بات ہے کہ اس سے انسان کی عبادتیں بھی نا مقبول اور بے تاثیر ہو جاتی ہیں ؛ اس لئے خواتین کو ان کا حق میراث ضرور دینا چاہئے اور اپنی زندگی کو حرام سے بچانا چاہئے۔

 

ہبہ

 

بغیر کسی معاوضہ کے ایک شخص سے دوسرے شخص کو مال منتقل ہونے کے دو اور طریقے ہیں، ایک ہبہ، دوسرے وصیت، — ہبہ یہ ہے کہ انسان زندگی ہی میں کسی شخص کو کسی چیز کا  مالک بنا دے، ہبہ مرد بھی کر سکتے ہیں اور عورتیں بھی، اسی طرح ہبہ مردوں کو بھی کیا جا سکتا ہے اور عورتوں کو بھی، انسان کو پوری جائیداد ہبہ نہیں کرنی چاہئے کہ اس سے ورثہ کو نقصان پہنچے گا اور آئندہ زندگی میں خود ہبہ کرنے والا بھی پریشانی سے دوچار ہو سکتا ہے ؛ لیکن ہبہ کے لئے کوئی مقدار متعین نہیں ہے، اگر کوئی شخص پوری جائیداد بھی ہبہ کر دے تو ہبہ نافذ ہو گا، چاہے مرد کو ہبہ کیا جائے یا عورت کو، اگر کوئی شخص اپنے محرم رشتہ دار کو کوئی چیز ہبہ کر دے تو وہ اس سے رُجوع نہیں کر سکتا، یعنی اسے واپس نہیں لوٹا سکتا، یہ حکم مرد رشتہ داروں کے لئے بھی ہے اور خاتون رشتہ داروں کے لئے بھی۔

اسی طرح شوہر نے کوئی چیز بیوی کو ہبہ کر دی تو اس سے بھی رُجوع کرنے کی گنجائش نہیں، ہبہ سے پہنچنے والے فوائد میں مرد اور عورت برابر ہیں، البتہ اس میں بیٹیوں کے لئے فائدہ کا ایک خاص پہلو ہے، اور وہ یہ ہے کہ اگر باپ اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو کوئی چیز ہبہ کرے تو امام ابو حنیفہؒ، امام محمدؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ وغیرہ کے نزدیک ضروری ہے کہ دونوں میں مساوات کا لحاظ رکھے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو بھی دے، حق میراث کی طرح ایک اور دو کا فرق نہ کیا جائے۔

 

وصیت

 

وصیت سے مراد ہے اپنی موت کے بعد کسی کو مالک بنانا، وصیت کے سلسلہ میں شریعت کی طرف سے دو تحدیدات ہیں، ایک یہ ہے کہ وارث کے حق میں وصیت معتبر نہیں، چنانچہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ’’ لا وصیۃ لوارث‘[2]‘ دوسرے ایک تہائی سے زیادہ مال کی وصیت نہیں کی جا سکتی ؛ کیوں کہ آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے زیادہ سے زیادہ اسی مقدار وصیت کی اجازت دی ہے،[3] ان دونوں شرائط کی رعایت کے ساتھ وصیت کرنے کا حق مردوں کو بھی ہے اور عورتوں کو بھی، نیز وصیت مرد کے حق میں بھی کی جا سکتی ہے اور عورت کے حق میں بھی،عام حالات میں تو وصیت جائز ہے ؛ لیکن اگر باپ کی زندگی میں بیٹے یا بیٹی کا انتقال ہو جائے تو پوتوں، پوتیوں اور نواسوں، نواسیوں کے لئے وصیت کرنا مستحب ہے، اگر دادا اور نانا کو مسئلہ کا علم نہ ہو یا اس طرف توجہ نہ ہو تو دوسرے رشتہ داروں اور سماج کے ذمہ دار لوگوں کو انھیں توجہ دلانی چاہئے ؛ تاکہ آئندہ یہ محروم نہ ہونے پائیں اور وصیت کے ذریعہ ان کو بھی اپنے مورثِ اعلیٰ کی جائیداد میں حصہ مل سکے۔

 

٭٭٭٭

 

 

خواتین کا نفقہ اور ضروریاتِ زندگی

 

شریعت نے بنیادی طور پر خواتین سے متعلق اخراجات کی ذمہ داری مردوں پر رکھی ہے، قرآن مجید نے کہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مردوں کو جو ’’ قوّام ‘‘ یعنی سربراہ خاندان بنایا ہے، اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ خواتین کی ضروریات کو پورا کرتا ہے اور اس کی ذمہ داری قبول کرتا ہے، الرجال قوامون علی النساء بما فضل اﷲ بعضہم علی بعض وبما أنفقوا من أموالہم، ( ۱) یہ بات شریعت میں اس قدر ملحوظ ہے کہ اگر ایک مرد اور ایک عورت ایک ہی درجہ کے رشتہ دار ہوں اور نفقہ کے مستحق ہوں تو عورت کو مرد پر ترجیح حاصل ہو گی، مثلاً بیٹے کا نفقہ بالغ ہونے کے بعد اس وقت واجب ہو گا، جب کہ وہ معذور ہو اور بیٹی کا نفقہ شادی تک واجب رہے گا، اسی طرح اگر کسی شخص میں یہ صلاحیت نہیں ہو کہ وہ ماں اور باپ دونوں کی ضروریات پوری کر سکے، وہ کسی ایک ہی کے اخراجات ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو ماں کا نفقہ اور اس کے اخراجات باپ کے نفقہ پر مقدم ہوں گے۔

 

نفقہ سے مراد

 

نفقہ کے سلسلہ میں عورتوں کے حقوق کو سمجھنے کے لئے دو باتیں پیش نظر رکھنی چاہئیں ؛ ایک یہ کہ نفقہ میں کیا کیا چیزیں شامل ہیں، دوسرے نفقہ کن کن خواتین کا واجب ہوتا ہے ؟

نفقہ میں بنیادی طور پر پانچ چیزیں شامل کی گئی ہیں  :

(۱)        خوراک                           (۲)       پوشاک

(۳)      علاج                               (۴)      خادم

(۵)      رہائش

 

 

خوراک

 

جہاں تک خوراک کی بات ہے تو ظاہر ہے، کہ اس کی مقدار اور معیار کو پوری طرح متعین

نہیں کیا جا سکتا ؛ کیوں کہ مختلف لوگوں کے ذوق و مزاج اور جسمانی ضروریات میں فرق ہوتا ہے، ایسی غذا فراہم کرنا شرعاً واجب ہے، جو اس کے لئے موزوں ہو، چنانچہ علامہ علاء الدین کاسانیؒ فرماتے ہیں  :

قال أصحابنا : وہی ( ہذہ النفقۃ ) غیر مقدرۃ بنفسہا بل بالکفایۃ …، وإذا کان وجوبھا علی سبیل الکفایۃ، فیجب علی الزوج من النفقۃ قدر ما یکفیہا من الطعام والإدام والدہن، لأن الخبز لا یؤکل عادۃ إلا مأدوماً، والدہن لا بد منہ للنساء، ولا تقدر نفقتہا بالدراہم والدنانیر علی أیّ سعر کانت ؛ لأن فیہ إضرارا باحد الزوجین إذ السعر قد یغلو وقد یرخص، بل تقدر لہا علی حسب إختلاف الأسعار غلاء ورخصا رعایۃ للجانبین۔[4]

ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ نفقہ کی مقدار متعین نہیں ہے ؛ بلکہ اتنی مقدار دی جائے گی، جو عورت کے لئے کفایت کر جائے اور جب نفقہ بہ قدر کفایت واجب ہے تو شوہر پر اتنا کھانا، سالن اور تیل دینا واجب ہے جو بیوی کے لئے کافی ہو ؛ کیوں کہ بغیر سالن کے روٹی نہیں کھائی جاتی اور خواتین کے لئے تیل بھی ضروری ہے، درہم و دینار ( روپیہ ) کے ذریعہ نفقہ کی مقدار متعین نہیں کی جا سکتی ؛ کیوں کہ اس میں زوجین میں سے ایک کو نقصان پہنچے گا ؛ کیوں کہ قیمتیں گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں ( اور اگر روپے ہی سے نفقہ کی مقدار متعین کی جائے تو ) قیمت کے اتار چڑھاؤ کو سامنے رکھتے ہوئے نفقہ متعین کیا جائے گا ؛ تاکہ دونوں کی رعایت ملحوظ رہے۔

آگے صراحت کی ہے کہ غذا میں موسم کی رعایت بھی ملحوظ کی جائے گی، اسی طرح شہر اور مقام کا بھی لحاظ رکھا جائے گا، جہاں جس طرح کی غذا کھائی جاتی ہو، وہاں اس طرح کی غذا فراہم کی جائے گی، لا بد فی وجوب النفقۃ علی الزوج من اعتبار حال بلدہ، [5] اسی طرح اگر عورت بیمار ہو تو اس کی مناسبت سے غذا کا فراہم کرنا [6]  اور دودھ پلا رہی ہو تو مقوی غذا [7] مرد کی ذمہ داری ہے۔

خوراک میں یہ بات قابل لحاظ ہے کہ انسان طبعی طور پر پکائی ہوئی چیز ہی کھا سکتا اور ہضم کر سکتا ہے، اس لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ جس کی خوراک واجب ہے، اصل میں اس کے لئے پکا ہوا کھانا فراہم کرنا واجب ہے، فعلیہ أن یأتیہا بطعام مہیاء، [8] اگر پکا پکایا کھانا فراہم نہیں کر سکتا تو کھانے کے ساتھ پکانے کی اشیاء اور پکانے والے شخص کی خدمت فراہم کرنا ضروری ہے[9] ؛ لیکن اصل میں اس کا تعلق ضرورت، ماحول اور گنجائش سے ہے، جہاں ماحول یہی ہو کہ خواتین خود گھر میں کھانا پکاتی ہوں، وہاں غذائی اشیاء اور پکوان کے لئے مطلوبہ وسائل کا فراہم کر دینا کافی ہو گا، جیسا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے سیدنا حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ کے نکاح کے بعد نصیحت فرمائی کہ باہر کے کام علی ( رضی اﷲ عنہ ) کیا کریں گے اور گھر کے کاموں کو فاطمہ ( رضی اﷲ عنہا ) انجام دیں گی، ہندوستان اور مشرقی ملکوں میں عام طور پر یہی مزاج ہے، خواتین خود اُمور خانہ داری کو انجام دیتی ہیں، — دوسرے اس کا تعلق ضرورت سے بھی ہے، جس کا نفقہ ادا کرنا واجب ہے، اگر وہ اس بات کی طاقت نہیں رکھتا کہ خود پکوان کی ذمہ داری کو انجام دے تو اس کے لئے کھانا فراہم کرنا ضروری ہو گا، ضعیف ماں، مریض و معذور بیوی یا دوسری زیر کفالت خواتین کو اس بات کا مکلف کرنا کہ خود سے کھانا پکائے اور کھائے جائز نہیں ؛ کیوں کہ یہ ماں کی توقیر اور بیوی و بیٹی وغیرہ کی ضروریات کو فراہم کرنے کی ذمہ داری کے منافی ہے۔

تیسرا پہلو جو اس سلسلہ میں قابل توجہ ہے، وہ یہ ہے کہ پکے ہوئے کھانے کا انتظام مرد کی گنجائش پربھی موقوف ہے، اگر اس کے مالی حالات ایسے ہوں کہ وہ کچا سامان ہی فراہم کر سکتا ہو اور عورت پکانے سے بالکل معذور نہ ہو تو مرد کو پکا پکایا کھانا فراہم کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ؛ کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے نفقہ کے سلسلہ میں یہی اُصول ذکر فرمایا ہے کہ ہر شخص اپنی گنجائش اور صلاحیت کے اعتبار سے نفقہ کا انتظام کرے، لینفق ذو سعۃمن سعتہ ومن قدر علیہ رزقہ فلینفق مما آتاہ اﷲ۔ [10]

کھانا فراہم کرنے میں مرد کو اپنے معیار کا بھی لحاظ رکھنا چاہئے، یعنی جو شخص نفقہ ادا کر رہا ہو اور جس کا نفقہ ادا کیا جا رہا ہو، اگر دونوں ایک ہی درجہ اور معیار کے ہوں، تب تو اسی کی رعایت کرتے ہوئے ضروریاتِ زندگی فراہم کرنا واجب ہو گا ؛ لیکن اگر مرد کا معیارِ زندگی اونچا ہو اور عورت کا اس کے مقابلہ کمتر، تو مرد کو چاہئے کہ وہ اپنے معیار کے لحاظ سے عورت کی ضرورت پوری کرے، علامہ علاء الدین کاسانیؒ نے لکھا ہے کہ اگر شوہر خوشحال خاندان سے تعلق رکھتا ہو اور بیوی غریب خاندان سے تو یہ بات درست نہیں ہو گی کہ شوہر خود تو اعلیٰ درجہ کا کھانا کھائے اور بیوی کے لئے معمولی درجہ کا کھانا فراہم کرے، [11]—- یہی بات فقہاء شوافع میں یحییٰ بن ابو الخیر یمنی ( م : ۵۵۸ھ ) نے[12]   اور فقہاء حنابلہ میں عبد القادر بن عمرشیبانیؒ اور ابراہیم بن محمدؒ نے بھی [13] لکھی ہے، جب مرد اور اس کے زیر کفالت خواتین ایک ہی جگہ رہتے ہوں اور ساتھ کھانا پکانا ہوتا ہو، اس وقت نفقہ کی مقدار کے سلسلہ میں یہ بات زیادہ اہم نہیں ہو گی ؛ لیکن جب شوہر یا اولاد کسی اور مقام پر قیام پذیر ہو اور وہاں سے وہ اپنی بیوی یا ماں وغیرہ کے اخراجات بھیجے تو اس وقت اس اُصول کی بڑی اہمیت ہے کہ وہ اپنے معیار کو ملحوظ رکھتے ہوئے، اپنے زیر کفالت خواتین کا نفقہ ادا کرے، نہ کہ معمولی سی رقم بھیج کر اپنے آپ کو اس سے بری الذمہ سمجھے۔

نفقہ میں جیسے کھانے پینے کی اشیاء شامل ہیں، اسی طرح پکوان کے مروجہ ذرائع اور ان کو محفوظ رکھنے کے لئے موجودہ دور کے وسائل بھی شامل ہوں گے، اگر اس ماحول میں اس کے استعمال کا رواج ہو اور مرد کے اندر اس کی استطاعت ہو، جیسے گیس اور گیس کا چولہا، فریج وغیرہ، آج کل شہروں کے متوسط گھرانوں میں ضرورت کا درجہ اختیار کر گئے ہیں، ( ویجب علیہ آلۃ طحن وخبز وآنیۃ شراب وطبخ ککوز وجرۃ وقدر و مغرفۃ ) وکذا سائر أدوات البیت کحصیر ولبد وطنفسۃ۔[14]

 

 

پوشاک

 

لباس انسان کی ایک اہم ضرورت ہے، جس کا مقصد جسم کو چھپانا بھی ہے، اس کو موسم کے اتار چڑھاؤ سے بچانا بھی اور اس کے ساتھ ساتھ لباس انسان کے لئے زینت بھی ہے، خذوا  زینتکم عند کل مسجد، [15] اس لئے پوشاک کی فراہمی میں ان تینوں باتوں کی رعایت ضروری ہے، لباس ایسا ہو، جو شریعت کے احکام کے مطابق ستر کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو، دوسرے : سردی گرمی کی رعایت ہو، تیسرے : وہ اس عہد کے مروجہ معیار کے مطابق زینت و آرائش کے تقاضہ کو پورا کرتا ہو، ان تینوں باتوں کے علاوہ اتنی مقدار میں ہو کہ عورت پورے سال مناسب طریقہ پر اپنے پہننے، اوڑھنے کی ضرورت کو پورا کر سکتی ہو، چنانچہ علامہ کاسانی ؒ فرماتے ہیں  :

ویجب علیہ من الکسوۃ فی کل سنۃ مرتین صیفیۃ وشتویۃ لأنہا تحتاج إلی الطعام والشراب تحتاج إلی اللباس لستر العورۃ ولدفع الحر و البرد و یختلف ذلک بالیسار والإعسار و الشتاء والصیف۔[16]

مرد پر سال میں دو مرتبہ گرما اور سرما کی رعایت کرتے ہوئے لباس فراہم کرنا واجب ہو گا، اس لئے کہ جیسے ہمیں کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح ستر پوشی اور گرمی اور ٹھنڈک سے بچنے کے لئے بھی ہم لباس کے محتاج ہیں اور لباس تنگ دستی اور خوشحالی، نیز جاڑے اور گرمی کے لحاظ سے مختلف ہو گا۔

جیسے خوراک کے سلسلہ میں انسان کے معیار زندگی اور گنجائش کی اہمیت ہے، اسی طرح لباس کے باب میں بھی اس کی رعایت ضروری ہے، یہ بات کہ مرد خود تو اچھا لباس پہنے اور اپنے زیر پرورش خواتین کے لئے گھٹیا لباس فراہم کرے درست نہیں، رسول ا ﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے غلاموں کے بارے میں فرمایا کہ جو کھانا تم خود کھاتے ہو، وہ انھیں کھلاؤ اور جو خود پہنتے ہو، انھیں پہناؤ[17]  تو جب غلاموں کے لئے اس معیار کو برتنے کا حکم دیا گیا ہے جو آقا کا ہو، تو ماں، بیوی، بیٹی اور بہن کے لئے تو بدرجۂ اولیٰ یہ حکم ہو گا۔

پھر یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ عورتوں کے لئے شریعت نے بمقابلہ مردوں کے زیبائش و آرائش کی زیادہ گنجائش رکھی ہے، ریشم کی مرد کے لئے ممانعت ہے ؛ لیکن عورت کے لئے اجازت ہے، سونا اور ایک مثقال ( ۴ گرام، ۳۷۴ ملی گرام ) سے زیادہ چاندی — جو انگوٹھی کی شکل میں ہو —کے علاوہ مرد کے لئے حرام ہے[18]  ؛ لیکن عورتوں کے لئے اجازت ہے،[19]  زعفرانی رنگ کے کپڑے پہننے سے مردوں کو منع کیا گیا ہے، مگر خواتین کو منع نہیں کیا گیا،[20]  اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عورتوں کے لباس میں اس پہلو کی بھی رعایت ہونی چاہئے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کے گھر سے زیادہ زہد و رع کا نمونہ کونسا گھر ہو سکتا ہے ؛ لیکن سیدنا حضرت عائشہؓ کے بعض کپڑے ایسے تھے کہ دلہن بنانے کے لئے لوگ اسے عاریت پر حاصل کرتے تھے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ خواتین میں چوں کہ فطری طور پر زیبائش و آرائش کا جذبہ زیادہ رکھا گیا ہے اور شریعت نے حلال و حرام کے احکام میں اس کی رعایت بھی کی ہے، اس لئے عورتوں کے لباس میں اس کو ملحوظ رکھا جائے، اس حقیقت کی طرف قرآن مجید نے ایک جامع لفظ ’’ معروف ‘‘ سے اشارہ کیا ہے، وعلی المولود لہ رزقہن وکسوتہن بالمعروف، [21] اُردو زبان میں اس کا ترجمہ ’ دستور کے مطابق ‘ کھانے اور کپڑے سے کیا گیا ہے، فقہاء نے بھی نفقہ سے متعلق خوراک اور پوشاک کے سلسلہ میں بار بار یہی بات کہی ہے، کہ اس کو ’’ معروف طریقہ ‘‘ کے مطابق ہونا چاہئے، بعض فقہاء نے اپنے زمانہ کے عرف کے مطابق صراحت کی ہے کہ گرمی میں کرتا، پاجامہ، دوپٹہ اور اوپر سے اوڑھی جانے والی چادر یعنی ہمارے زمانہ کے اعتبار سے برقعہ فراہم کیا جائے اور جاڑے کے موسم میں اونی یا روئی وغیرہ بھرے ہوئے کپڑے فراہم کئے جائیں۔[22]

پوشاک ہی کے حکم میں وہ چیزیں بھی شامل ہیں، جو عورتوں کو زیب و زینت کے لے مطلوب ہوتی ہیں، جیسے آئینہ، کنگھی، تیل اور زیبائش کے مروجہ وسائل، جو شرعاً جائز ہوں اور جو زیر کفالت خاتون کی عمر سے میل کھاتے ہوں، چنانچہ علامہ خرشی مالکی نے نفقہ میں اسبابِ زینت کو بھی شامل رکھا ہے اور خاص طور پر سرمہ، تیل، مہندی کا ذکر کیا ہے، ’’وزینۃ تستضر بترکہا ککحل ودہن معتادین وحناء‘‘۔[23]

 

علاج

 

انسان کی ایک اہم ضرورت علاج بھی ہے، عام طور پر فقہاء نے علاج کو نفقہ میں شامل نہیں رکھا ہے اور بیوی کا علاج شوہر پر لازم قرار نہیں دیا گیا ہے، چنانچہ فقہاء حنفیہ میں علامہ ابن عابدین شامیؒ کا بیان ہے  :

کما لایلزمہ مداواتہا أی إتیانہ لہا بدواء المرض ولا أجرۃ الطبیب۔ [24]

یہی بات فقہاء مالکیہ میں علامہ دردیر[25]  فقہاء شوافع میں امام نووی[26] اور فقہاء حنابلہ میں علامہ ابن قدامہ و علامہ شرف الدین موسیٰ[27] نے لکھی ہے، اس عہد کے مشہور محقق ڈاکٹر وہبہ  زحیلی نے بھی ائمۂ اربعہ کا یہی نقطۂ نظر نقل کیا ہے ؛ لیکن اس سلسلہ میں قرآن و سنت کی کوئی ایسی نص موجود نہیں ہے، جو بتاتی ہو کہ علاج کے اخراجات نفقہ میں شامل نہیں ہیں، خیال ہوتا ہے کہ گذشتہ ادوار میں علاج اتنی زیادہ خرچ طلب اور طریقۂ کار کے اعتبار سے ترقی یافتہ اور دقیق عمل نہیں تھا، زیادہ تر پرہیز اور جڑی بوٹیوں کے ذریعہ علاج کیا جاتا تھا، جسمانی مشقت برداشت کرنے کی صلاحیت، آلودگی سے تحفظ اور فطری طریقہ پر زندگی گزارنے کے معمول کی وجہ سے لوگوں میں قوت مدافعت بھی زیادہ تھی ؛ لیکن اب مشینی زندگی اور مصنوعی راحت و آرام کی عادت کی وجہ سے لوگوں کی قوت برداشت کم ہو گئی ہے، غیر فطری طور پر زیادہ سے زیادہ غذا پیدا کرنے اور فضائی و آبی آلودگی کے بڑھ جانے، نیز موسم کے غیر معتدل ہو جانے کی وجہ سے نت نئی پیچیدہ بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں، ان حالات میں اگر کسی عورت کو کھانا اور کپڑا تو دے دیا جائے اور اس کی بیماری کا علاج نہ کرایا جائے تو یقیناً یہ منصفانہ بات نہیں ہو گی۔

اس لئے اس مسئلہ پر اُصولی حیثیت سے غور کرنا چاہئے، سوال یہ ہے کہ نفقہ سے کیا مراد ہے ؟ فقہاء نے نفقہ کی تعریف ایسی چیزوں کی فراہمی سے کی ہے، جن پر انسان کی بقا کا مدار ہو، چنانچہ علامہ داماد آفندی نفقہ کی شرعی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں  :

ما یتوقف علیہ بقاء شیٔ من نحو مأکول و ملبوس و سکنیی۔ [28]

جس پر کسی چیز کا بقا موقوف ہو، جیسے کھانا، لباس اور رہائش۔

اسی طرح علامہ شامیؒ فرماتے ہیں  :

ألإدرار علی شیٔ بما فیہ بقاء ہ۔[29]

کسی کے لئے وہ چیز فراہم کرنا، جس میں اس کی بقاء ہو۔

ظاہر ہے کہ انسان کی بقاء اور اس کی زندگی کے تحفظ میں دوا و علاج کی اہمیت غذا اور لباس سے بھی زیادہ ہے، اس لئے یقیناً علاج بھی نفقہ میں شامل ہو گا اور جیسے خوراک اور پوشاک کا مہیا کرنا مرد کی ذمہ داری ہے، اسی طرح علاج کا نظم کرنا بھی بدرجۂ اولیٰ اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہو گا، اس سلسلہ میں عالم اسلام کے ممتاز فقیہ ڈاکٹر وہبہ زحیلی کا یہ اقتباس بڑی اہمیت کا حامل اور نقل کئے جانے کے لائق ہے  :

ویظہر لديّ أن المداواۃ لم تکن فی الماضی حاجۃ أساسیۃ، فلا یحتاج الإنسان غالبا إلی العلاج، لأنہ یلتزم قواعد الصحۃ والوقایۃ، فاجتہاد الفقہاء مبنی علی عرف قائم فی عصرہم، أما الاٰن فقد أصبحت الحاجۃ إلی العلاج کا لحاجۃ إلی الطعام والغذاء ؛ بل أہم ؛ لأن المریض یفضل غالباً مایتداوای بہ علی کل شیٔ، وہل یمکنہ تناول الطعام وہو یشکو ویتوجع من الآلام والأوجاع التی تبرح بہ وتجہدہ و تہددہ بالموت ؟ [30]

مجھ پر جو بات واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ علاج گذشتہ زمانہ میں بنیادی ضرورت نہیں تھی، انسان کو عام طور پر علاج کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، اس لئے کہ وہ حفظانِ صحت کی اُصولوں کی پابندی کرتا تھا، لہٰذا فقہاء کا اجتہاد ان کے زمانہ کے عرف پر مبنی ہے، اب علاج ویسے ہی ضرورت ہو گئی ہے، جیسا کہ کھانا اور غذا ؛ بلکہ اس سے بھی زیادہ علاج کی اہمیت ہے ؛ کیوں کہ اکثر اوقات مریض علاج کو ہر چیز پر مقدم رکھتا ہے، کیا یہ ممکن ہے کہ انسان کھانا کھائے، حالاں کہ وہ تکلیف میں ہو اور ان آلام و مصائب سے کراہ رہا ہو ؛ جو اس کے لئے مشقت کا باعث ہیں اور جو اس کو موت کے قریب پہنچا رہی ہیں ؟

پھر اس بات کو اس سے مزید تقویت پہنچتی ہے کہ فقہاء نے اولاد کے علاج کو لازم قرار دیا ہے، جس پر اجماع نقل کیا گیا ہے،[31] تو بیوی، جو حصول اولاد کے لئے ذریعہ و وسیلہ ہے، اس کا علاج کیوں واجب نہیں ہو گا ؟ بلکہ بیوی کا علاج تو بدرجۂ اولیٰ واجب ہونا چاہئے ؛ کیوں کہ بیوی اپنے شوہر کی وجہ سے محبوس ہوتی ہے اور وہ اپنے لئے کسبِ معاش کے ذرائع کو اختیار کرنے سے قاصر رہتی ہے، اولاد کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔

 

خادم

 

انسان اپنی بہت سی ضرورتوں میں دوسرے کا محتاج ہوتا ہے اور اس کی بعض ضرورتیں دوسرے انسان کے تعاون کے بغیر پوری نہیں ہو پاتی ہیں، اس پس منظر میں فقہاء نے خادم کے بارے میں بحث کی ہے، اگر کوئی شخص اس موقف میں نہیں ہو اور اس کے معاشی حالات اس لائق ہی نہ ہوں کہ وہ خادم کا انتظام کر سکے، یا جن ضروریات کے لئے خادم کی ضرورت ہو، اسے وہ خود انجام دے دے، جیسے ضروریات زندگی کا باہر سے خرید کر لانا، پانی یا ایندھن کا نظم کرنا وغیرہ تو مرد پر الگ سے خادم کا انتظام کرنا واجب نہیں ؛ لیکن اگر شوہر کو استطاعت ہو اور وہ خادم کا نظم کر سکتا ہو تو خادم کا نظم کرنا بھی شوہر کی ذمہ داری ہو گی، اب اس میں اختلاف ہے کہ ایک ہی خادم مہیا کرنا ضروری ہو گا یا ایک سے زیادہ ؟ امام ابویوسفؒ کے نزدیک دو خادم کا انتظام کرنا واجب ہو گا، تاکہ ایک خادم گھریلو کاموں میں مدد کرے اور ایک گھر سے باہر کے کاموں میں ہاتھ بٹائے اور امام ابو حنیفہؒ اور امام محمد کے نزدیک ایک ہی خادم کا نظم واجب ہو گا، جو اندر اور باہر کے کام میں ہاتھ بٹائے۔

ولا یجب علیہ لأکثر من خادم واحد فی قول أبی حنیفۃ و محمد و عند أبی یوسف یجب لخادمین ولا یجب أکثر من ذلک۔ [32]

امام شافعیؒ کے نزدیک بھی ایک خادم کا انتظام کرنا شوہر کے ذمہ واجب ہو گا،فإنہ لا یلزمہ إلا خادم واحد،  [33] اور یہی نقطۂ نظر فقہاء مالکیہ کا بھی ہے، وقضی لہا بخادمہا إن أحبت الخ۔ [34]

فقہاء نے عام طور پر خادم کا مسئلہ بیوی کے نفقہ کے سلسلہ میں لکھا ہے ؛ لیکن چوں کہ عام طور پر بیوی کے نفقہ کے احکام تفصیل سے ذکر کئے گئے ہیں ؛ اس لئے وہاں اس کا ذکر آیا ہے، ورنہ اس کا تعلق دوسری زیر کفالت خواتین سے بھی ہے، غور کیجئے کہ کیا بوڑھی اور ضعیف ماں کے لئے خادم کا نظم بیٹے کا فریضہ نہیں ہو گا ؟ اگر کسی کی بیوی کا انتقال ہو جائے تو کم سن بیٹیوں کی پرورش اور ان کی ضروریات کی تکمیل کے لئے خادمہ کی ذمہ داری نہیں ہو گی ؟ اگر کسی کی بیوہ بہن معذور ہو اور کوئی اس کی دیکھ ریکھ کرنے والا نہ ہو تو بھائی کیسے اس ذمہ داری سے راہِ فرار اختیار کر سکتا ہے ؟ —- اس لئے اصل میں اس کا تعلق زیر کفالت خواتین کی ضرورت، معاشرتی و سماجی اور مرد کی مالی استطاعت سے ہے، اسی لئے فقہاء نے خاص طور پر بیمار بیوی کی خدمت کے لئے خادم کا انتظام کرنے کو مطلقاً واجب کہا ہے، علامہ شامیؒ فرماتے ہیں  :

وإذا مرضت وجب علیہ إخدامہا، لوکانت أمۃ، وبہ صرح الشافعیۃ وہو مقتضی قواعد مذہبنا۔ [35]

عورت بیمار ہو تو شوہر پر اس کے لئے خادم فراہم کرنا واجب ہے، گو اس کی بیوی باندی ہی کیوں نہ ہو، فقہاء شوافع نے اس کی صراحت کی ہے اور ہمارے مذہب کے قواعد کا تقاضہ بھی یہی ہے۔

 

رہائش

 

نفقہ میں جو ضروریات شامل ہیں، ان میں رہائش بھی شامل ہے ؛ کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا  :

أسکنوہن من حیث سکنتم من وجدکم۔[36]

جہاں تم رہو، وہاں بیویوں کو بھی رکھو، اپنی گنجائش کے مطابق۔

عورت کو کس طرح کی رہائش فراہم کرنا ضروری ہے ؟ اس سلسلہ میں علامہ ابن نجیم مصریؒ کا بیان ہے  :

إنما تجب بالتبوأۃ والسکنیٰ فی بیت خال عن أہلہ وأہلہا ولہم النظر والکلام معہا۔ [37]

بیوی کے لئے ایسے گھر میں ٹھکانہ اور رہائش فراہم کرنا واجب ہو گا، جو شوہر کے لوگوں سے بھی خالی ہو اور بیوی کے رشتہ داروں سے بھی ؛ البتہ ان لوگوں کو اس سے گفتگو کرنے اور اسے دیکھنے کی اجازت ہو گی، ( بشرطیکہ غیر محرم نہ ہوں )۔

اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ  :

۱-  زیر کفالت خاتون کے لئے رہائش فراہم کرنا شرعاً واجب ہے، خواہ یہ ذاتی مکان ہو یا کرایہ کی عمارت ؛ کیوں کہ رہائش بھی انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہے۔

۲-  یہ مکان ایسا ہو کہ شرعی ضرورتوں کو پوری کرتا ہو، یعنی پردہ دار ہو اور عورت اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کر سکتی ہو۔

۳-  اسے سوکن یا دو سرے سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کیا جائے اور نہ بیوی اپنے شوہر کو اس بات پر مجبور کر سکتی ہے کہ وہ اس کو اس کے میکہ کے لوگوں میں رکھے، یعنی یہ حکم خاص طور پر بیوی کی رہائش کے لئے ہے ؛ کیوں کہ عام طور پر خواتین میں اپنے سسرالی رشتہ داروں کی جانب سے رقابت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ علاحدہ مکان میں رکھنے کا کیا مطلب ہے ؟ اس کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں، ایک یہ ہے کہ بیوی کو علاحدہ کمرہ فراہم کیا جائے ؛ لیکن گھر کی دوسری ضروریات جیسے بیت الخلاء، غسل خانہ اور باورچی خانہ وغیرہ مشترک ہو، اس پر بالاتفاق عورت کو مجبور نہیں کیا جا سکتا، قولہ : (خال عن أہلہ الخ ) لأنہا تتضرر بمشارکتہ غیرہا فیہ ؛ لأنہا لا تأمن علی متاعہا یمنعہا ذلک من المباشرۃ مع زوجہا ومن الإستمتاع، إلا ان تختار ذلک[38]،  دوسری صورت یہ ہے کہ ایک بڑے مکان میں بیوی کے لئے الگ کمرہ اور علاحدہ دوسری ضروریات کا انتظام کر دیا جائے، اور وہ اپنے رہائشی حصہ کو مقفل کر سکتی ہو، بعض فقہاء کے نزدیک یہ بھی کافی ہے، قولہ : ( وبیت منفرد ) أی مایبات فیہ ؛ وہو محل منفرد معین الخ، [39] بعض فقہاء نے اس بات کو لازم قرار دیا ہے کہ بیوی کو بالکل ہی علاحدہ مکان فراہم کیا جائے، وفی ’’البحر‘‘ عن ’’الخانیۃ ‘‘ یشترط أن لا یکون فی الدار أحد من أحماء الزوج یؤذیہا،[40] دراصل یہ دونوں صورتیں حالات پر موقوف ہیں، مرد کی گنجائش، معاشی صلاحیت اور عورت کی اپنے سسرال کے لوگوں سے تعلقات کو دیکھتے ہوئے یہ بات طے کی جائے گی کہ اسے کس طرح کا مکان فراہم کرنا ضروری ہو گا ؟

فقہاء نے جہاں اس بات پر توجہ دی ہے کہ مکان محفوظ ہو، وہیں اس بات کو بھی واضح کیا ہے کہ صالحین کے پڑوس کا انتخاب کیا جائے ؛ کیوں کہ انسان کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ میں پڑوسیوں کے مزاج و اخلاق کا بھی حصہ ہوتا ہے، ویأمرہ بإسکانہا بین جیران صالحین بحیث لا تستوحش۔[41]

بعض اوقات تنہائی انسان کے لئے تکلیف دہ ہو جاتی ہے ؛ کیوں کہ انسان اپنے لئے انیس و غم خوار کا خواہش مند رہتا ہے، اگر کسی عورت کے بال بچے نہ ہوں، شوہر کام کے لئے چلا جاتا ہو اور اسے تنہا اپنے گھر میں رہنا پڑتا ہو تو ظاہر ہے کہ یہ اس کے لئے تکلیف دہ صورت حال ہو گی، اسی لئے فقہاء نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایسی صورت میں اس کے لئے کسی ایسی عورت کا بھی نظم کرنا چاہئے، جو اس کے لئے وحشت دور کرنے کا سبب بنے۔ [42]

رہائش گاہ کے معیار کے سلسلہ میں بنیادی چیز مرد کی معاشی صلاحیت اور مقامی عرف و رواج ہے، مثال کے طور پر خلیجی ممالک اور بہت زیادہ گرم مقامات پر ایسے مکان کو آج ضروری سمجھا جاتا ہے، جس میں ایر کنڈیشن کا انتظام ہو ؛ لیکن ہندوستان وغیرہ میں اسے ضروری نہیں سمجھا جاتا، تو اسی لحاظ سے رہائش گاہ کا انتظام کرنا واجب ہو گا۔

رہائش میں صرف مکان ہی داخل نہیں ہے ؛ بلکہ وہ تمام چیزیں، جو رہائش کے لئے ضرورت کا درجہ اختیار کر گئی ہیں، جیسے فرنیچر، موسم کی رعایت کرتے ہوئے بستر وغیرہ کا نظم یا موجودہ دور میں شہری زندگی میں لائٹ اور پنکھے کا انتظام، یہ ساری سہولتیں رہائش کے دائرہ میں آتی ہیں اور حسب گنجائش ان کا فراہم کرنا مرد کی ذمہ داری ہو گی۔

 

 

تجہیز و تکفین

 

دنیا میں انسان کی جو آخری ضرورت ہے، وہ تجہیز و تکفین ہے، اگر مرنے والے نے اتنا مال نہ چھوڑا ہو کہ خود اس کے ترکہ سے اس کے کفن دفن کا انتظام ہو سکے تو جس شخص پر اس کے نفقہ کی ذمہ داری تھی، اسی پر کفن اور دفن کی ذمہ داری ہو گی، چنانچہ علامہ حصکفیؒ لکھتے ہیں  :

وکفن من لا مال لہ علی من تجب علیہ نفقتہ ) فإن تعددوا فعلی قدر میراثہم۔ [43]

جس مرنے والے کا مال نہیں ہو، اس کے کفن کے اخراجات اس شخص کے ذمہ ہوں گے، جس پر اس کا نفقہ واجب تھا، اگر متعدد لوگوں پر نفقہ واجب تھا تو ان سب پر میراث کے حقدار ہونے کی نسبت سے نفقہ واجب ہو گا۔

بیوی کے بارے میں فقہاء کے نقاطِ نظر میں اختلاف ہے، ایک رائے یہ ہے کہ بیوی کی تجہیز و تکفین کی ذمہ داری شوہر پر نہیں ہو گی ؛ کیوں کہ انتقال کے ساتھ ہی رشتۂ نکاح منقطع ہو چکا ہے، دوسری رائے یہ ہے کہ اگر اس نے ترکہ چھوڑا ہو تو اس میں سے تجہیز و تکفین ہو گی، ورنہ شوہر پر اس کی ذمہ داری ہو گی، یہ رائے امام ابویوسفؒ کی طرف بعض لوگوں نے منسوب کی ہے[44]،  تیسری رائے یہ ہے کہ کفن بھی لباس کے درجہ میں ہے، لہٰذا جیسے زندگی میں عورت کا لباس شوہر پر واجب تھا، اسی طرح یہ آخری لباس پہنانا بھی اس کی ذمہ داری ہو گی، امام ابویوسفؒ کا قولِ راجح یہی ہے[45]، یہی رائے امام شافعیؒ کی بھی ہے[46]، ظاہر ہے کہ زندگی بھر کی رفاقت کا تقاضہ یہی ہے کہ اپنے ہم سفر کو آخری سفر پر رخصت کرتے ہوئے مناسب انتظام کر کے رخصت کرے۔

 

 

ماں کا نفقہ

 

جن خواتین کا نفقہ واجب ہے، وہ بنیادی طور پر تین ہیں : ماں، بیٹی اور بیوی، —- اسلام میں والدین کو جو اہمیت حاصل ہے، وہ محتاج اظہار نہیں، اﷲ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے ساتھ ساتھ والدین سے حسن سلوک کی تلقین کی ہے [47] ماں کے احسانات کا اﷲ تعالیٰ نے خاص طور پر ذکر فرمایا ہے[48]،  اس بات سے بھی منع کیا گیا کہ کوئی اپنے والدین کو ’ اُف ‘ تک کہے، [49] مشہور مفسر بغوی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اگر ماں باپ کا پیشاب، پاخانہ بھی صاف کرنا پڑے، جیسا کہ وہ بچپن میں تمہارے پیشاب پاخانہ صاف کیا کرتے تھے، تب بھی زبان پر اُف نہ لاؤ[50]، ظاہر ہے کہ حسن سلوک میں ان کی ضروریات کو پورا کرنا بھی شامل ہے، پس اگر ماں معاشی اعتبار سے خود مکتفی ہو اور اولاد کے نفقہ کی محتاج نہ ہو، تب تو ان کا نفقہ اور ان کی ضروریات کو اپنی طرف سے پورا کرنے کی کوشش کرنا مستحبات اور اخلاقی واجبات میں ہے ؛ تاکہ ان کا دل خوش ہو اور یہ خوشی اولاد کے لئے وجہ نجات بنے ؛ لیکن اگر وہ محتاج ہو، تب تو ان کا نفقہ اولاد پر واجب ہے اور نفقہ میں  خوراک و پوشاک، علاج و رہائش، خادم کا نظم اور دوسری مالی ضروریات شامل ہیں، اگر وہ نفقہ نہیں ادا کرے تو اسے نفقہ ادا کرنے پر مجبور کیا جائے گا، چنانچہ علامہ ابن قدامہؒ فرماتے ہیں  :

ویجبر علی نفقۃ والدیہ الخ۔ [51]

ماں کا نفقہ اختلافِ مذہب کے باوجود واجب ہے، یعنی اگر کسی مسلمان شخص کی ماں یہودی یا عیسائی ہو، یا بیٹا مسلمان ہو گیا ہو اور ماں ابھی کافر و مشرک ہو، تب بھی اس کا نفقہ واجب ہو گا، ولا تجب نفقۃ مع اختلاف الدین إلا للزوجۃ والأبوین … الخ[52]  اس میں شبہ نہیں کہ بیوی کو اس بات کا حق دیا گیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو الگ رہائش کا مطالبہ کرے ؛ لیکن یہ حکم عام حالات میں ہے، اگر ماں خدمت و تیمار داری کی محتاج ہو تو اولاد پر واجب ہے کہ وہ اس کا انتظام کرے اور اگر کوئی دوسری خاتون اس کے لئے مہیا نہیں ہو سکے تو وہ اپنی بیوی کو اس پر مجبور کر سکتا ہے ؛ کیوں کہ ساس کی خدمت بھی دیانتاً واجب ہے اور جو چیز دیانتاً واجب ہوتی ہے، وہ ضرورت و مجبوری کے وقت قانوناً واجب قرار دی جا سکتی ہے۔

 

بیٹی کا نفقہ

 

بیٹی کا نفقہ باپ پر واجب ہے، بشرطیکہ وہ خود اپنی ضروریات پوری نہیں کر سکتی ہو، ایک تو بچپن سے بالغ ہونے اور نکاح کے بعد شوہر کے یہاں رخصت ہونے تک بیٹی کا نفقہ باپ کے ذمہ ہے، والأنثیٰ حتی یدخل بھا زوجہا،[53]  اس سلسلہ میں علامہ ابن قدامہؒ نے ایک حدیث بھی نقل کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : لڑکی کا نفقہ شادی تک باپ کے ذمہ رہے گا، ولا تسقط نفقۃ الجاریۃ حتیٰ تتزوج[54]، بلکہ بعض فقہاء مالکیہ نے صراحت کی ہے کہ اگر شادی ہو گئی ؛ لیکن شوہر اتنا تنگ دست ہے کہ نفقہ ادا نہیں کر سکتا، تب بھی والد کے ذمہ نفقہ واجب رہے گا، … أی الموسر لا الفقیر، فتستمر فلا تسقط۔[55]

اگر خدانخواستہ بیٹی پر طلاق واقع ہو جائے یا وہ بیوہ ہو جائے تو پھر اس کے نفقہ کی ذمہ داری باپ پر لوٹ آئے گی، واستمرت إن دخل زمنۃ ثم طلق[56]،  اگر لڑکی خود کمائے اور اپنی ضروریات پوری کر لے تب تو باپ پر اس کا نفقہ واجب نہیں ؛ لیکن والد اپنی لڑکی کو  کسبِ معاش پر مجبور نہیں کر سکتا، ولا یجوز للأب أن یجبرہا علی الإقتصاد[57]، ماں کی طرح بیٹی کا نفقہ بھی اختلاف مذہب کے باوجود واجب ہوتا ہے، یعنی بیٹی مسلمان نہ ہو، تب بھی اس کا نفقہ واجب ہے[58]،  پھر یہ بات بھی جائز نہیں ہے کہ نفقہ کے معاملہ میں بیٹے کو بیٹی پر ترجیح دی جائے ؛ کیوں کہ زندگی میں تمام اولاد کے ساتھ شریعت نے مساویانہ طور پر ہبہ کرنے کو واجب قرار دیا ہے۔

 

بیوی کا نفقہ

 

بیوی کے نفقہ کی خاص اہمیت ہے، دوسرے رشتہ داروں کا نفقہ تو اس وقت واجب ہے، جب کہ وہ خود اپنے اخراجات پورے نہیں کر سکیں اور ان کا نفقہ صلہ رحمی کے طور پر واجب قرار دیا گیا ہے ؛ لیکن بیوی کا نفقہ بطور معاوضہ کے واجب ہے، بیوی اپنے آپ کو شوہر کے لئے محبوس و مقید رکھتی ہے، اس کے گھر اور بال بچوں کی نگہداشت کرتی ہے، اس کے لئے اولاد کا ذریعہ بنتی ہے، خود اس کی فطری ضرورت کی تکمیل کا ذریعہ اور اس کے لئے وجہ سکون ہے، اس کا نفقہ ہر حال میں واجب ہے، خواہ مالدار ہو یا غریب، بیوی خود اپنے اخراجات کی کفالت کر سکتی ہو یا نہیں کر سکتی ہو اور شوہر دولت مند ہو یا غریب ہو، اسی لئے قرآن مجید نے نفقہ کا حکم بہت ہی وضاحت و صراحت کے ساتھ دیا ہے، وعلی المولود لہ رزقہن وکسوتہن بالمعروف۔ [59]

 

جائز حق کی بنا پر اپنے آپ کو روک لے ؟

 

بیوی کا نفقہ صرف اس وقت واجب نہیں ہوتا، جب کہ وہ ناشزہ ہو، ناشزہ کے معنی نافرمانی کے ہیں اور فقہ کی اصطلاح میں ’’ ناشزہ ‘‘ اس عورت کو کہتے ہیں، جو اپنے کسی جائز حق کے بغیر، شوہر کا گھر چھوڑ کر اپنے میکہ یا کہیں اور چلی جائے[60]، گویا ناشزہ ہونے کے لئے دو باتوں کا پایا جانا ضروری ہے، ایک یہ کہ اس نے شوہر کی اجازت کے بغیر اس کا گھر یا اس کی فراہم کی ہوئی رہائش گاہ چھوڑ کر چلی گئی ہو، اگر وہ بد اخلاقی اور نافرمانی کا ثبوت دے ؛ لیکن رہے شوہر کے مکان میں ہی، اس کو چھوڑ کر جائے نہیں، تو اس کا نفقہ شوہر کے ذمہ واجب رہے گا، (و خارجۃ من بیتہ بغیر حق ) وہی الناشزۃ حتی تعود ولو بعد سفرہ۔ [61]

دوسرے اس کا شوہر کے یہاں سے جانا یا شوہر کے یہاں آنے سے انکار کرنا اپنے کسی جائز حق کی بنا پر ہو تو باوجود اس کے کہ وہ شوہر کے یہاں آنے سے انکار کر دے، شوہر پر اس کا نفقہ واجب رہے گا، فإن طالبہا بالنقلۃ فامتنعت فإن کان امتناعہا بحق بأن امتنعت لإستیفاء مہر العاجل فلہا النفقۃ،[62]  اسی طرح فقہ شافعی کی معروف کتاب مغنی المحتاج میں ہے : … مالو امتنعت نفسہا لتسلیم المہر العین أو الحال فإن لہا النفقۃ من حینئذ[63]، اگر شوہر کے جانے میں عورت کی جان و مال اور عزت و آبرو کو خطرہ ہو، یا تجربہ اور دھمکی کی بنا پر یہ اندیشہ ہو کہ شوہر یا سسرال کے لوگ اسے تکلیف پہنچائیں گے، یا شوہر خوراک و پوشاک یا رہائش کا مناسب انتظام نہیں کرتا ہو، بیوی کو کمانے پر مجبور کرتا ہو، یا اس کو کسی خلاف شریعت کام کے لئے جبر کرتا ہو، جہیز کا مطالبہ کرتا ہو، مہر فوری ادا کرنے کی بات تھی اور ادا نہیں کر رہا ہو تو ان تمام صورتوں میں عورت کا شوہر کے ساتھ جانے سے انکار کر دینا اپنے جائز حق کی بناء پر انکار کرنا ہو گا اور باوجود شوہر کے ساتھ نہیں جانے کے اس کا نفقہ واجب رہے گا۔

 

گذرے ہوئے دنوں کا نفقہ

 

دوسرا قابل ذکر مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کچھ عرصہ بیوی کا نفقہ ادا نہیں کیا ہو اور اس نے کسی طرح اپنے وقت کاٹ لئے تو شوہر پر گذشتہ دنوں کا نفقہ واجب ہو گا یا نہیں ؟ —- مالکیہ کہتے ہیں کہ واجب ہو گا ’’ تطالبہ إذا أیسر( وإن لم یفرضہ ) علیہ ( حاکم )‘‘[64] شوافع بھی اسی کے قائل ہیں ’’ إذا لم یکسہا مدۃ، صارت الکسوۃ دینا علیہ‘‘[65]اور یہی نقطۂ نظر حنابلہ کا ہے ؛ بلکہ ابن قدامہ نے صراحت کی ہے کہ چاہے بیوی کا نفقہ نہ ادا کرنا کسی عذر کی بنا پر ہو یا بلا عذر، ہر صورت میں شوہر پر نفقہ دین رہے گا، ومن ترک الإنفاق الواجب لإمرأۃ مدۃ، لم یسقط بذلک، وکانت دینا فی ذمتہ، سواء ترکہا لعذر أو غیر عذر فی أظہر الروایتین۔ [66]

احناف کا نقطۂ نظر اس سلسلہ میں کسی قدر مختلف ہے، حنفیہ کے نزدیک گذرے ہوئے دنوں کا نفقہ دو ہی صورتوں میں واجب ہو گا، یا تو زوجین نے آپس میں ماہانہ نفقہ کے لئے مقدار کا معاہدہ کر لیا تھا یا قاضی نے نفقہ کا فیصلہ شوہر کے خلاف نفقہ واجب ہونے کا اور اس کی متعین مقدار ہونے کا فیصلہ کر دیا تھا اور اس معاہدہ اور فیصلہ کے باوجود اک عرصہ گذر گیا اور نفقہ ادا نہیں کیا تو اس مدت کا نفقہ شوہر کو ادا کرنا ہو گا، اور اگر پہلے سے باضابطہ کوئی معاہدہ نہیں ہوا یا قاضی کا فیصلہ نہیں ہوا ہو اور شوہر کا نفقہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے اس نے کسی طرح اپنی ضرورت پوری کر لی ہو تو اب اس مدت کا نفقہ واجب نہیں ہو گا،  [67]لیکن یہ نقطۂ نظر غالباً اس عہد کے حالات پر مبنی تھا، جب کہ عدالت سے رُجوع کرنا اور نفقہ کا فیصلہ حاصل کرنا چنداں دشوار نہیں تھا، ہمارے دور میں عدالت سے رُجوع کرنے میں جس تگ و دو اور تضیع اوقات سے گزرنا پڑتا ہے اور جس مالی زیر باری سے انسان دوچار ہوتا ہے، اس کے باوجود ایک ایسے حق کو حاصل کرنے کے لئے جو شرعاً واجب ہے، اس کا مکلف کرنا یقیناً ناانصافی ہو گی اور یہ جفا شعار شوہروں کے لئے فرار کا راستہ اختیار کرنے کا چور دروازہ بن جائے گا، اس لئے فی زمانہ جمہور کی رائے پر عمل کیا جانا چاہئے ؛ کیوں کہ شریعت کا عمومی اُصول یہ ہے کہ جب کوئی حق واجب ہو تو دو ہی صورتوں میں ساقط ہوتا ہے یا تو صاحب حق کا حق ادا کر دیا جائے یا وہ اپنا حق معاف کر دے۔

 

اگر شوہر نفقہ ادا کرنے پر قادر نہ ہو ؟

 

اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا نفقہ ادا نہیں کرے اور یہ نفقہ ادا نہیں کرنا اس بنیاد پر ہو کہ شوہر معاشی تنگی کی وجہ سے بیوی کا نفقہ ادا کرنے پر قادر ہی نہ ہو اور خود بیوی بھی اس موقف میں نہ ہو کہ اپنی ضروریات خود پوری کر سکے تو اس صورت میں اکثر فقہاء کے نزدیک اس کا نکاح فسخ کر دیا جائے گا ؛ کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے بیوی کے سلسلہ میں دو ہی راستے رکھے ہیں، ’’ إمساک بالمعروفیا تسریح بالإحسان‘‘[68] إمساک بالمعروف‘ کے معنی ہیں : بھلے طریقہ پر بیوی کو رکھنا، ظاہر ہے کہ بیوی کو طلاق بھی نہ دینا اور اس کو فاقہ کشی پر مجبور کیا جانا بھلے طریقہ پر رکھنا نہیں ہے، جب کوئی شخص اس پر قادر نہیں ہو اور وہ بیوی بھی اس حالت پر صبر کرنے کی کیفیت میں نہ ہو تو اس کے لئے یہی راستہ ہے کہ وہ بہتر طریقہ پر بیوی کو چھوڑ دے، اگر شوہر نفقہ بھی ادا نہیں کر سکے اور بیوی کو چھوڑنے پر بھی تیار نہیں ہو تو بیوی کے مطالبہ پر قاضی اس کا نکاح فسخ کر دے گا، مالکیہ، شوافع اور حنابلہ کی یہی رائے ہے[69]، حنفیہ کے نزدیک چوں کہ رشتۂ نکاح سرد و گرم میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے لئے ہے ؛ اس لئے اگر شوہر نفقہ سے عاجز ہو تو نکاح فسخ نہیں کیا جائے گا ؛ بلکہ قاضی کے فیصلہ کے مطابق عورت شوہر کے نام پر قرض لے کر اپنی ضروریات پوری کرے گی۔[70]

موجودہ دور میں چوں کہ سرکاری عدالتی نظام سے انصاف حاصل کرنے میں بڑی دشواری ہے، مسلمان اپنے طور پر جو دارالقضاء قائم کرتے ہیں، ان کو قوتِ تنفیذ حاصل نہیں ہے اور ایسی دشواریوں میں بھی باوجود مطالبہ کے عورت کا نکاح فسخ نہیں کرنا فتنہ اور اس کے گناہ میں پڑ جانے کا باعث ہو سکتا ہے ؛ اس لئے ہندوستان میں دارالقضاء کا عمل جمہور کے مسلک کے مطابق ہے۔

 

قدرت کے باوجود نفقہ ادا نہیں کرے ؟

 

دوسری صورت یہ ہے کہ شوہر نفقہ ادا کرنے پر قادر ہو، پھر بھی ادا نہیں کرے، اس صورت میں اکثر فقہاء کی رائے یہ ہے کہ اگر شوہر کا پیسہ یا سامان گرفت میں آ جائے تو اس کو فروخت کر کے اس کی بیوی کا نفقہ عدالت ادا کرے گی ؛ لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو سکے اور عورت فسخ نکاح کا مطالبہ کرتی ہو تو اس کا نکاح فسخ کر دیا جائے گا، یہی رائے فقہاء مالکیہ کی ہے،[71]  اور یہی نقطۂ نظر فقہاء  حنابلہ کا بھی ہے ؛ البتہ انھوں نے صراحت کی ہے کہ اگر شوہر کا مال موجود ہو تو بیوی بہ اجازت یا    بلا اجازت اس میں سے خرچ کرے اور وہ بھی نہ ہو سکے تب قاضی نکاح فسخ کر دے[72]، فقہاء شوافع کے یہاں دونوں طرح کے اقوال ہیں، امام غزالی کا رجحان یہ ہے کہ عورت کے مطالبہ پر اس کا نکاح فسخ کر دیا جانا چاہئے[73]، لیکن حنفیہ کے نزدیک اس صورت میں بھی اس کا نکاح فسخ نہیں کیا جائے گا ؛ بلکہ قاضی اس کو قید کر کے اس بات پر مجبور کرے گا کہ بیوی کا نفقہ ادا کرے۔[74]

جیسا کہ اوپر مذکور ہوا حنفیہ کی یہ رائے بھی فقہاء کے دور میں پائے جانے والے آسان اور ارزاں نظام عدل کے پس منظر میں ہے، موجودہ دور میں اس پر عمل کرنا بہت دشوار اور عورت کے لئے حق و انصاف سے مسلسل محرومی کا باعث ہو گا، اس لئے اکابر علماء ہند نے اس بارے میں مالکیہ کے مسلک کو اختیار کیا ہے، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنی کتاب ’’الحیلۃ الناجزۃ‘‘ میں اور حضرت مولانا عبدالصمد رحمانی ؒنے ’’ کتاب الفسخ والتفریق‘‘ میں اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔

 

طلاق کے بعد

 

طلاق کے ساتھ ہی رشتۂ نکاح ختم ہو جاتا ہے ؛ لیکن جب تک عدت نہ گذر جائے اس وقت تک وہ دوسرا نکاح نہیں کر سکتی ؛ اس لئے اس کا نفقہ سابق شوہر پر واجب رہتا ہے، اس کی صراحت خود قرآن مجید میں موجود ہے، جو مطلّقہ حمل کی حالت میں ہو، اس کی عدت ولادت تک ہے، چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ’’ وإن کن أولات حمل فانفقوا علیہن حتی یضعن حملہن[75]  یعنی جب مطلقہ عورت حمل کی حالت میں ہو تو ولادت تک اس کا نفقہ ادا کرنا ہے ؛ اس لئے اس بات پر فقہاء کا اتفاق ہے کہ عدت کے بعد مطلقہ کا نفقہ واجب نہیں ہے، عدت کی حالت میں بعض فقہاء کے نزدیک بہر صورت مطلقہ کا نفقہ واجب ہے، چاہے اس کو طلاق رجعی دی گئی ہو یا طلاق بائن و مغلظہ، اور وہ حمل کی حالت میں ہو یا نہ ہو، اسی طرح اس پر بھی اتفاق ہے کہ اگر حاملہ ہو تو طلاق بائن اور طلاق مغلظہ کی صورت میں بھی نفقہ اور رہائش واجب ہو گی ؛ البتہ اگر طلاق بائن یا طلاق مغلظہ دی گئی اور وہ حمل کی حالت میں نہ ہو تو مالکیہ، شوافع اور حنابلہ کے یہاں نفقہ اور رہائش واجب نہیں ہو گی اور ایک قول کے مطابق صرف رہائش واجب ہو گی، حنفیہ کے نزدیک طلاق بائن ہو یا طلاق مغلظہ اور مطلقہ اس وقت حمل کی حالت میں رہی ہو یا نہیں رہی ہو، ہر صورت میں عدت کا نفقہ واجب ہو گا ؛ کیوں کہ عورت سابق شوہر کی وجہ سے عدت میں محبوس ہوتی ہے، وہ کہیں جا بھی نہیں سکتی اور خود کما بھی نہیں سکتی، نہ دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔ [76]

عدت گزرنے کے بعد چوں کہ رشتۂ نکاح مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے ؛ اسی لئے اس کا نفقہ واجب نہیں رہتا، اگر عدالت فیصلہ بھی کر دے تو مسلمان عورت کے لئے اس کا لینا جائز نہیں ہو گا، ( اس موضوع پر تفصیلی مطالعہ کے لئے دیکھئے : حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کا رسالہ : نفقۂ مطلقہ کے احکام، کتاب و سنت کی روشنی میں ) ؛ البتہ اگر مطلقہ کے کم سن بچے ہوں، جس کا حق پرورش شرعاً عورت کو حاصل ہو یعنی لڑکی کے بالغ ہونے تک اور لڑکے کے آٹھ دس سال کی عمر کو پہنچنے تک، تو جب تک عورت بچوں کی پرورش کرتی رہے گی، بچوں کے نفقہ کے علاوہ، عورت کے پرورش کی اجرت بھی اس مرد پر واجب ہو گی، یہ اُجرت کم سے کم اتنی مقدار میں ہونی چاہئے کہ عورت کے نفقہ کی ضرورت پوری ہو جائے، گویا ایسی مطلقہ عورت نفقہ کی حقدار تو ہو گی ؛ لیکن بطور نفقۂ زوجیت کے نہیں ؛ بلکہ بطور اُجرت پرورش کے : أما أجرۃ الحضانۃ فللأم [77] ؛ بلکہ اگر بچہ اتنا کم سن ہو کہ ابھی دودھ پی رہا ہو تو فقہاء نے عورت کو بچہ کے نفقہ کے علاوہ دو اُجرت کا حقدار قرار دیا ہے، ایک اُجرتِ پرورش اور دوسرے دودھ پلانے کی اُجرت، علامہ ابن نجیم مصریؒ نے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے  :

فعلی ہذا تجب علی الأب ثلاثۃ، أجرۃ الرضاع، أجرۃ الحضانۃ ونفقۃ الولد۔ [78]

پس، اس طرح باپ پر تین چیزیں واجب ہوں گی، دودھ پلانے کی اُجرت، پرورش کی اُجرت اور لڑکے کا نفقہ۔

 

دوسری رشتہ دار خواتین کا نفقہ

 

بعض حالات میں ماں، بیٹی اور بیوی کے علاوہ دوسری رشتہ دار خواتین، جیسے دادی، نانی، پھوپھی، خالہ، بہن، بھتیجی، بھانجی، پوتی اور نواسی وغیرہ کا نفقہ بھی واجب ہوتا ہے ؛ بشرطیکہ یہ خواتین خود اپنے اخراجات پورا کرنے کے موقف میں نہیں ہوں اور جس شخص پر نفقہ واجب قرار دیا جا رہا ہو، وہ نفقہ ادا کرنے کے موقف میں ہو، یہ نفقہ محرم رشتہ داروں پر واجب ہو گا اور جس حساب سے وہ اس کے ترکہ میں وارث ہو سکتے ہیں، اسی نسبت سے اسے نفقہ ادا کرنا ہو گا، ونفقۃ المحارم تجب علی ذی الرحم المحرم[79]، ایسے خصوصی حالات میں نفقہ ادا کرنے کا خاص اجر ہے، چنانچہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا کہ بیوہ اور مسکین کی ضرورت میں کام آنے والا ایسے شخص کے حکم میں ہے، جو اﷲ کے راستہ میں جہاد کرے، رات بھر عبادت کرے اور دن بھر روزہ رکھے۔ [80]

 

٭٭٭٭

 

 

 

مہر — ایک اہم شرعی حق

 

نکاح سے متعلق ایک اہم مالی ذمہ داری ’’ مہر ‘‘ بھی ہے، مہر عورت کے وجود کا معاوضہ نہیں ہے، بلکہ عصمت انسانی کے احترام کے طور پر مہر ادا کیا جاتا ہے، قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں مہر کا ذکر آیا ہے، مہر نکاح کے واجبات میں سے ہے، اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ واٰتوا النساء صدقاتہن نحلۃ‘‘[81] ’’ اور تم بیویوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دے دیا کرو ‘‘[82]حضرت عائشہؓ نے ’ نحلہ ‘‘ کا ترجمہ ’ فریضہ ‘ سے کیا ہے اور ایک معروف عالم لغت نے کہا ہے کہ عربی زبان میں ’ نحلہ‘ واجب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے،[83]    اس لئے مہر کا مقرر کرنا اور اس کا ادا کرنا واجب ہے، اگر کوئی شخص مہر نہیں دینے کی شرط پر نکاح کر لے، تب بھی عورت کا خاندانی مہر ( مہر مثل ) واجب ہو گا اور امام مالک کے یہاں تو ایسی صورت میں نکاح ہی منعقد نہیں ہو گا۔

 

مہر کی مقدار

 

مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم ہے[84]، اگر کسی شخص نے اس سے بھی کم مہر مقرر کیا، تو اس کا اعتبار نہیں، ایسی صورت میں بھی کم سے کم دس درہم کے بقدر مہر واجب ہو گا[85]، کیوں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ مہر دس درہم سے کم نہیں ہونا چاہئے، لا مہر دون عشرۃ دراہم[86]، دس درہم کی مقدار موجودہ اوزان میں تیس گرام چھ سو اٹھارہ ملی گرام ہو گا ( ۶۱۸ ء ۳۰ ) ہے، امام مالکؒ کے نزدیک مہر کی کم سے کم مقدار چوتھائی دینار سونا یا تین درہم خالص چاندی ہے[87]،  چوتھائی دینار کا وزن موجودہ اوزان میں ( تقریباً   ۴ ماشہ سونا ) اور تین درہم کا ۱۱ گرام کے قریب ہوتا ہے، امام مالکؒ نے بھی بعض احادیث کو ملحوظ رکھا ہے، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کے نزدیک کم ترین مقدار مہر کی کوئی حد نہیں، کم سے کم جو چیز قیمت یا اُجرت بن سکتی ہو، وہ مہر بھی ہو سکتی ہے[88]،  لیکن اس پر اتفاق ہے کہ زیادہ سے زیادہ مہر کی کوئی مقدار متعین نہیں ؛ کیوں کہ قرآن مجید میں مہر کے لئے ’ قنطار ‘ کا لفظ وارد ہوا ہے[89]، جس کے معنی بہت زیادہ مال کے ہیں، وہو المال الکثیر،[90]  حضرت عبداﷲ بن عباس ص نے بارہ ہزار درہم یا ایک ہزار دینار کو ’ قنطار ‘ قرار دیا ہے[91]، جو نہایت خطیر رقم ہوتی ہے۔

چنانچہ عہد نبوی ا اور عہد صحابہ ث میں بعض دفعہ مہر کی اچھی خاصی مقدار بھی متعین کی گئی ہے، خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات میں سے حضرت اُم حبیبہؓ کا مہر چار ہزار درہم مقرر ہوا تھا، جو آپ اکی طرف سے شاہ حبش نجاشی نے مقرر کیا تھا اور انھوں نے ہی ادا بھی کر دیا تھا[92]،  اس سلسلہ میں ایک لطیفہ بھی قابل ذکر ہے، حضرت عمر ص نے جب دیکھا کہ لوگ بطور تفاخر کے بہت زیادہ مہر مقرر کرنے لگے ہیں تو چاہا کہ زیادہ سے زیادہ مقدار مہر چار سو درہم متعین کر دی جائے، آپؐ  نے یہ بات خطبہ کے دوران ممبر پر ارشاد فرمائی، حضرت عمر ص جب خطبہ دے کر نیچے اُترے، تو ایک قریشی خاتون نے کہا : آپ نے یہ کیسے کہہ دیا، جب کہ اﷲ تعالیٰ نے کہا ہے کہ ’’ قنطار ‘‘ یعنی بے شمار مال ( بہ طور مہر ) دے دو، تو اسے واپس لینے کی کوشش مت کرو[93]، حضرت عمر ص کا مزاج بلا تأمل حق کو قبول کر لینے کا تھا، چنانچہ فوراً فرمایا : اللّٰہم غفراً، کل الناس أفقہ من عمر، ( بارِ الٰہا ! مجھے معاف کر دیجئے، ہر شخص عمر سے زیادہ فقیہ ہے ) پھر آپ دوبارہ ممبر پر چڑھے اور فرمایا : لوگو ! میں نے تمہیں چار سو درہم سے زیادہ مہر رکھنے سے منع کیا تھا، لیکن جو چاہے اس سے زیادہ بھی اپنے مال میں سے دے سکتا ہے۔ [94]

جب اﷲ تعالیٰ نے صحابہ ث کو فراخی عطا فرمائی اور معاشی حالات بہتر ہوئے تو انھوں نے زیادہ مہر بھی مقرر کئے، خود حضرت عمرؓ کے بارے میں منقول ہے کہ انھوں نے جب حضرت علیؓ کی صاحب زادی حضرت اُم کلثوم ؓسے نکاح کیا، تو ان کا مہر چالیس ہزار درہم مقرر کیا[95]، غالباً یہ خانوادۂ نبوت کی توقیر و تکریم کے طور پر تھا، حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنی صاحب زادیوں کا مہر ایک ہزار دینار رکھتے تھے[96]،  بعض میں پندرہ سو دینار کا بھی ذکر آیا ہے[97]، حضرت انس بن مالکؓ نے ایک خاتون سے بیس ہزار مہر پر نکاح کیا[98]،  روایت میں مطلق بیس ہزار ہے، لیکن غالباً اس سے بیس ہزار درہم مراد ہوں گے، اس سے معلوم ہوا کہ اگر زیادہ مہر رکھنا محض اپنی بڑائی کے اظہار کے لئے نہ ہو ؛ بلکہ واقعی وہ بیوی کو اتنی رقم دینے کا ارادہ رکھتا ہو اور اس کے اندر اس کی استطاعت ہو، تو اس میں حرج نہیں۔

لیکن عام حالات میں مہر کی مقدار نہ اتنی کم ہونی چاہئے کہ اس کی کچھ اہمیت ہی باقی نہ رہے اور نہ اتنی زیادہ ہونی چاہئے کہ ادائیگی دشوار ہو جائے اور ادائیگی کی نیت نہ ہو، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات کا مہر عام طور پر پانچ سو درہم تھا[99]، راجح یہی ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا مہر بھی پانچ سو درہم ہی تھا[100]، اسی لئے متعدد اہل علم نے لکھا ہے کہ مستحب ہے کہ پانچ سو درہم سے زیادہ مہر نہیں رکھا جائے[101]، پانچ سو درہم کی مقدار موجودہ اوزان میں ( ۹۰۰ ء ۱۵۳۰) ہوتی ہے۔

 

سونے چاندی میں مہر

 

غرض کہ مہر کے مقرر کرنے میں اعتدال ہونا چاہئے، مہر بالکل بے حیثیت بھی نہ ہو اور اتنا زیادہ بھی نہ ہو کہ شوہر کے لئے ادا کرنا ممکن نہ رہے، نیز اس میں فقہاء نے خاندانی روایات کو بھی ملحوظ رکھا ہے، یعنی لڑکی کے دادیہالی خاندان میں جو مہر رکھا جاتا ہو، اس کو ملحوظ رکھا جائے، اسی کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ مہر مثل ‘‘ کہتے ہیں، مہر مثل سے مراد صرف تعداد نہیں ہے ؛ بلکہ اس کی قدر اور قوت خرید بھی ہے، جیسے بیس سال پہلے لڑکی کی پھوپھی کا مہر دس ہزار روپیہ رکھا گیا ہو اور آج اس کامہر دس ہزار روپیہ رکھ دیا جائے، تو یہ انصاف کی بات نہیں ہو گی، کیوں کہ بیس سال پہلے دس ہزار میں کم سے کم پانچ تولہ سونا خرید کیا جا سکتا تھا اور آج اس سے ایک تولہ سونا بھی نہیں خرید کیا جا سکتا، تو اعتبار صرف دس ہزار کے عدد کا نہیں ہے ؛ بلکہ اس کی قوت خرید کا بھی ہے، افسوس کہ آج کل مہر کے معاملہ میں بھی افراط و تفریط ہے، بہت سے علاقوں اور برادریوں میں آج بھی پانچ سو روپیہ مہر مقرر کیا جاتا ہے اور بعض حضرات محض اظہار تفاخر کے طور پر کئی کئی لاکھ روپے مہر مقرر کرتے ہیں اور ادا نہیں کرتے۔

آج کل چوں کہ کرنسی کی قیمت میں استحکام نہیں ہے اور مسلسل اتار کا رجحان ہے، آج سے بیس پچیس سال پہلے پانچ ہزار روپے کی اہمیت تھی، لیکن آج اتنی رقم سے ایک غریب گھرانے کی زندگی بھی نہیں گذر پاتی اور ہندوستان میں نقد مہر ادا کرنے کا رواج نہیں ہے، ان حالات میں مناسب طریقہ یہ ہے کہ مہر سونے یا چاندی میں مقرر کیا جائے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کے زمانہ میں درہم چاندی کا اور دینار سونے کا ہوا کرتا تھا، کیوں کہ سونے اور چاندی کی قیمت میں ابھی بھی ایک حد تک استحکام ہے، اس لئے یہ عورت کے حق میں انصاف کی بات ہو گی، مثلاً اگر آج پانچ تولہ سونا مہر مقرر کیا جائے، تو اس کی قیمت پچاس ہزار یا اس سے کچھ زیادہ ہے، اگر اگلے بیس سال کے بعد بھی مہر ادا کیا جائے تو عورت کو پانچ تولہ سونا حاصل ہو گا، اس کے برخلاف اگر پچاس ہزار مہر مقرر ہو، تو ممکن ہے بیس سال بعد اس سے دو ہی تولہ سونا خرید کیا جا سکے، ظاہر ہے یہ عورت کے لئے نہایت نامنصفانہ بات ہو گی کہ ایک تو اس کا مہر وقت پر ادا نہیں کیا گیا، دوسرے جو مہر دیا گیا، اس کی بھی اب قیمت نہایت کم ہو گئی، چنانچہ اس سلسلہ میں ’’ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ‘‘ نے اپنے دوسرے فقہی سیمینار منعقدہ ۱۹۸۹ء میں حسب ذیل تجویز منظور کی ہیں  :

مہر کی سونے اور چاندی کے ذریعہ تعیین عمل میں آئے ؛ تاکہ پوری طرح عورتوں کے حقوق کا تحفظ ہو سکے اور سکوں کی قوت خرید میں کمی کی وجہ سے ان کو نقصان نہ پہنچے۔[102]

 

مہر — شوہر پر ایک قرض

 

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ مہر بھی دوسرے قرضوں کی طرح ایک قرض ہے، اس لئے صحیح طریقہ تو یہ ہے کہ مہر نکاح کے وقت ہی ادا کر دیا جائے، صحابہ ث اور بعد کے ادوار میں بھی عام معمول یہی تھا کہ نکاح کے وقت ہی مہر ادا کر دیا جاتا تھا، اور اگر پورا مہر ادا نہیں کر پاتے تب بھی مہر کا کچھ نہ کچھ حصہ نکاح کے وقت دے دیا جاتا، یہ روایت عربی اسلامی معاشرہ میں اتنی قوت کے ساتھ قائم تھی کہ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی عورت دعویٰ کرے کہ میری اپنی شوہر کے ساتھ خلوت ہو گئی، اس کے باوجود اس نے کوئی مہر ادا نہیں کیا تھا، تو یہ بات قابل قبول نہیں ہے ؛ کیوں کہ یہ ظاہرِ حال کے خلاف ہے[103]، لیکن بدقسمتی سے ہندوستان میں نکاح کے وقت مہر ادا کرنے کا رواج ہی نہیں رہا اور اب نوبت یہاں تک آ چکی ہے کہ اگر کسی عورت کو اس کا مہر ادا کیا جائے تو وہ خوف کھانے لگتی ہے کہ کہیں شوہر کا ارادہ طلاق دینے کا تو نہیں ہے۔

 

اگر مہر ادا کرنے کی نیت نہ ہو ؟

 

اکثر حالات میں تو مہر ادا کرنے کی نیت ہی نہیں ہوتی، محض رسمی طور پر مہر مقرر کر لیا جاتا ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے نکاح کیا اور مہر مقرر کیا، لیکن اس کے دل میں ہو کہ وہ مہر ادا نہیں کرے گا، تو اﷲ تعالیٰ کی یہاں وہ زانی شمار کیا جائے گا … ولیس فی نفسہ أن یؤدیہ إلیہا إلا کان عند اﷲ زانیا،[104]  ایک اور روایت میں ہے کہ جس نے کسی عورت سے کم یا زیادہ مہر پر نکاح کیا اور اس کے دل میں یہ ہے کہ وہ اسے اس کا مہر نہیں دے گا، تو اس نے دھوکہ بازی کی، اگر اس کا انتقال ہو اور اس وقت تک اس نے اس کا حق ادا نہیں کیا، تو قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ سے ایک زانی شخص کی حیثیت سے اس کی ملاقات ہو گی۔[105]

بعض لوگ میاں بیوی کے تعلقات خراب ہونے کے وقت عورت کو تنگ کرتے ہیں، تاکہ وہ خود ہی اپنا مہر معاف کرنے پر آمادہ ہو جائے، یہ نہایت ہی ناشائستہ حرکت ہے اور بے غیرتی اور خدا نا ترسی کی بات ہے، حضرت عبداﷲ بن عمر ص سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : اﷲ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گنہگار وہ شخص ہے، جو کسی عورت سے نکاح کرے، اس سے اپنی ضرورت پوری کر لے، پھر اسے طلاق دے دے اور اس کا مہر بھی نہیں دے[106]،  اس لئے پوری دیانت داری کے ساتھ نکاح کے وقت مہرا ادا کرنے کی نیت رکھنی چاہے ؛ کیوں کہ جب آدمی کسی قرض کو ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، تو اﷲ تعالیٰ کی مدد بھی شریک حال ہوتی ہے اور اگر طلاق کی نوبت آ جائے، تو مہر سے بچنے کے لئے بہانہ تلاش نہیں کرنا چاہئے ؛ بلکہ مہر کے علاوہ بھی بیوی کو بطور حسن سلوک کچھ دے کر رخصت کرنا چاہئے، جس کو ’’ متاع ‘‘ کہتے ہیں اور جس کی خود قرآن مجید میں تلقین کی گئی ہے[107]، چنانچہ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر عورت خلع کا مطالبہ کر رہی ہو اور اس مطالبہ میں مرد کی زیادتی کا دخل ہو، یعنی اس کی طرف سے ظلم و حق تلفی پائی جانے کی بنا پر وہ خلع کا مطالبہ کر رہی ہو، تو مرد کے لئے مہر کی واپسی یا اس کے معاف کرنے کا مطالبہ کراہت سے خالی نہیں اور اگر عورت کی غلطی کی وجہ سے خلع کی نوبت آ رہی ہے تو مہر کے بقدر واپس لینا یا مہر معاف کرا لینا جائز ہے، تاہم بہتر یہی ہے کہ مہر ادا کر دے اور اس صورت میں بھی مقدار مہر سے زیادہ کا مطالبہ مکروہ ہے۔[108]

 

ترکہ میں پہلے مہر ادا کیا جائے

 

اگر کسی وجہ سے زندگی میں مہر ادا نہیں کر سکے، تو بعض علاقوں میں موت کے بعد بیوی سے مہر معاف کرا دیا جاتا ہے، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لاش سامنے رکھی ہوئی ہے اور عورتیں اخلاقی دباؤ ڈالتی ہیں کہ مہر معاف کر دو، اس وقت رنج و الم کی فضا ہوتی ہے اور اگر اندر سے معاف کرنے پر آمادگی نہ ہو، تب بھی حیا کے تقاضہ کے تحت وہ زبان سے انکار نہیں کر پاتی، یہ نہایت ہی ناشائستہ اور غیر شرعی طریقہ ہے، شرعی اُصول یہ ہے کہ جب کسی کا انتقال ہو، تو پہلے قرض داروں کا قرض ادا کیا جائے، پھر ورثہ میں ترکہ کی تقسیم ہو، جیسے دوسرے قرض واجب الاداء ہیں اور ان کے بارے میں بھی پوچھ ہو گی، اسی طرح مہر بھی ایک قرض ہے اور اس کی بھی اﷲ کے پاس جواب دہی ہے، اس لئے مہر معاف کرانے کی کوئی وجہ نہیں، ترکہ میں سے پہلے دوسرے قرض داروں کی طرح بیوی کا بھی مہر ادا ہونا چاہئے، اس کے بعد جو بچ جائے وہ تمام ورثہ میں تقسیم ہو۔

حاصل یہ ہے کہ  :

۱)  مہر بیوی کا نہایت اہم شرعی حق ہے۔

۲)   مہر نہ بہت کم ہونا چاہئے اور نہ اتنا زیادہ کہ اس کا ادا کرنا شوہر کے لئے ممکن نہ ہو۔

۳) کوشش کرنی چاہئے کہ نکاح کے وقت ہی پورا مہر یا اس کا مناسب حصہ ادا کر دیا جائے۔

۴)  اگر اُدھار مہر مقرر ہو تو سونے چاندی میں مقرر کیا جائے۔

۵)  اگر شوہر انتقال تک مہر ادا نہیں کر پایا ہو، تو اس کے ترکہ میں سے دوسرے قرضوں کی طرح عورت کا مہر بھی پہلے ادا کر دیا جائے، اس کے بعد ترکہ کی تقسیم ہو۔

۶)  اگر خدا نخواستہ علاحدگی کی نوبت آئے، تو مہرا دا کرنے میں بہانہ بازی سے کام نہ لے اور عورت کو خلع پر مجبور نہ کرے۔

 

جہیز کی شرعی حیثیت

 

یوں تو ماں باپ اپنی بیٹی کو کبھی بھی اور کچھ بھی تحفہ دے سکتے ہیں، لیکن آج کل لڑکی کے لئے جہیز کو جو نکاح کا ایک جزو بنا لیا گیا ہے، یہ نہایت ہی غیر شرعی عمل ہے، بعض حضرات خیال کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو جہیز دیا ہے، یہ غلط فہمی پر مبنی ہے، حقیقت یہ ہے کہ جیسے آپ ا حضرت فاطمہؓ کے والد تھے، اسی طرح حضرت علی کرم اﷲ وجہ کے مربی و سرپرست بھی تھے، حضرت علیؓ نے جب حضرت فاطمہ ؓسے نکاح کے لئے پیغام دیا تو آپؐ نے اسے قبول فرمایا اور ایک زرہ جو اُن کو غزوۂ بدر میں ملی تھی اسے فروخت کر کے ایک نئے گھر کے لئے جو ضروریات مطلوب ہوتی ہیں، وہ آپؐ  نے خرید کروا دیں اور جو رقم بچ گئی وہ حضرت علیؓ کے حوالہ کر دی ؛ تاکہ مہر کا کچھ حصہ وہ اس سے ادا کر دیں، اس کی تفصیل حدیث و سیرت کی کتابوں میں موجود ہے[109]، اور یہ بھی آپؐ نے اس حیثیت سے فرمایا کہ آپ اہی عاقدین کے سرپرست و مربی تھے، اس کو اس بات سے بھی تقویت پہنچتی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کا اپنی باقی تینوں صاحب زادیوں حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت اُم کلثومؓ کو کوئی جہیز دینا ثابت نہیں، ظاہر ہے کہ اگر آپؐ نے حضرت فاطمۃ الزہرا کو جہیز دیا ہو تو اپنی ان تین صاحب زادیوں کو بھی جہیز دیا ہوتا ؛ کیوں کہ آپ نے اولاد کے درمیان عدل و مساوات کا حکم دیا ہے۔

اس لئے یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ جہیز دینا سنت یا مستحب ہے اور اس کا مطالبہ کرنا تو قطعاً جائز نہیں، فقہاء کی عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جہیز یا کسی رقم کا مطالبہ کرنا رشوت کے حکم میں ہے، اس لئے حرام ہے[110]، کیوں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا کہ رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں پر اﷲ کی لعنت ہے[111]، رشوت دینا تو بہت مجبوری کی حالت میں جائز ہے اور فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے[112]، لیکن رشوت لینا کوئی مجبوری نہیں ہو سکتی ؛اس لئے یہ تو بہ ہر صورت حرام ہے اور لے لیا ہو، تو واپس کر دینا واجب ہے[113]، اس لئے جہیز اور رقم کا مطالبہ نہ صرف ظلم و گناہ ہے، بلکہ یہ حرام کھانا ہے اور وہ نکاح کیسے بابرکت ہو سکتا ہے، جو ایسے عمل پر مشتمل ہو، جس پر خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے لعنت بھیجی ہے، اس لئے نکاح کو سادہ اور آسان بنانا چاہئے، آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جس نکاح میں جتنے کم اخراجات ہوں وہ اتنا ہی بابرکت نکاح ہے، إن أعظم النکاح برکۃ أیسرہا مؤنۃ۔ [114]

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے ایک سیمینار میں ملک بھر سے آئے ہوئے مختلف مکاتبین فکر کے علماء نے متفقہ طور پر جہیز کے سلسلہ میں جو قرارداد منظور کی ہے وہ اس طرح ہے  :

آج ہماری عائلی زندگی میں لڑکوں کی خرید و فروخت کا مزاج بن گیا ہے اور انھیں مالِ تجارت بنالیا گیا ہے، کبھی لڑکوں کی طرف سے، کبھی ان کے والدین اور اقرباء کی طرف سے اور کبھی خود لڑکی والوں کی طرف سے، نہ صرف یہ کہ قیمت لگائی جاتی ہے ؛ بلکہ بھاؤ تاؤ کیا جاتا ہے اور کون زیادہ سے زیادہ دے گا ؟ اس کی تلاش کی جاتی ہے، شرعاً نکاح میں لڑکی والوں سے کچھ لینا، وہ چاہے تلک کے نام ہو یا گھوڑے جوڑے کے نام پر یا مروج قیمتی جہیز کے نام پر ہو، جائز نہیں، شریعت نے ’’ أحل لکم ماوراء ذلکم أن تبتغوا بأموالکم‘‘[115] کے حکم ربانی کے ذریعہ مردوں پر نکاح میں مال خرچ کرنے کی ذمہ داری عائد کی ہے، آج ہم نے اس حقیقت کو بدل ڈالا ہے، اور عورتوں کو نکاح کے لئے مال خرچ کرنا پڑتا ہے، کبھی صریح مطالبہ ہوتا ہے اور کبھی عادت اور عرف و رواج کے تحت یہ ہوتا ہے، یہ ساری صورتِ حال چاہے اس طرح کا مال لینا ہو یا پیشکش کرنا ہو، شرعاً جائز و درست نہیں ہے۔

اکیڈمی تمام مسلمانانِ ہند کو اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ وہ مسلم معاشرہ کو ان خطوط پر متوجہ کریں، جو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے ان کے لئے تجویز کئے ہیں اور شادیوں کو ہر طرح سادہ رکھیں اور ارشاد نبوی ’’ أعظم النکاح برکۃ وأیسرہا مؤنۃ‘‘ کے مطابق بغیر جہیز و دباؤ اور فرمائش و مطالبہ، نیز اسراف و تبذیر کے، بطریق سنت نبویہ انجام دیں۔[116]

 

٭٭٭٭

 

 

خواتین اور کسبِ معاش کے ذرائع

 

شریعت نے خاندانی نظام کے بقاء، بچوں کی بہتر نگہداشت اور خواتین کی فطری صلاحیت کی رعایت کرتے ہوئے، ذمہ داریوں کی اس طرح تقسیم کی ہے، کہ کسبِ معاش کی ذمہ داری — جس کے لئے محنت، مزدوری، دوڑ دھوپ کی ضرورت پیش آتی ہے — مرد پر رکھی گئی ہے اور اُمور خانہ داری خواتین سے متعلق رکھے گئے ہیں، اس کی یہ تعبیر درست نہیں ہے کہ عورت گھر کی خادمہ ہے ؛ بلکہ صحیح تعبیر یہ ہے کہ عورت گھر کی ’’مالکہ ‘‘ ہے، اسی لئے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ’’ المرأۃ راعیۃ علی بیت بعلہا وولدہ وہی مسئولۃ عنہم‘‘ [117] یعنی عورت گھر کی ذمہ دار اور اس کی انچارج ہے، عورت کو —- چاہے وہ   کسبِ معاش کی صلاحیت رکھتی ہی ہو —-  کسب معاش پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، یہ خواتین کے لئے بہت بڑی رحمت ہے، آج مغربی دنیا میں خواتین سے دوہری خدمت لی جاتی ہے، ان کو بچوں کی پرورش اور اُمور خانہ داری کی بھی تکمیل کرنی پڑتی ہے اور ملازمت کر کے پیسے بھی کمانے پڑتے ہیں اور معاشی ذمہ داریوں میں شریک ہونا پڑتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس تقسیم کار میں خاندانی نظام کا بقا ہے، انسانی فطرت یہ ہے کہ باہمی احتیاج اور ضرورت مندی سے تعلقات استوار رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی صلاحیت باقی رہتی ہے، مزدور سرمایہ دار کو اس لئے برداشت کرتا ہے کہ اس کی روزی روٹی سرمایہ دار سے متعلق ہے، سرمایہ دار مزدور سے اپنا تعلق اس لئے موافق رکھنا چاہتا ہے کہ جب تک مزدور کے ہاتھ نہیں لگیں، محض سرمایہ سے کوئی چیز نہیں بن سکتی، یہی حال زندگی کے دوسرے شعبوں کا ہے، ازدواجی زندگی کا مسئلہ بھی اسی طرح ہے، شوہر اپنے ذہن و قلبی سکون نیز گھر اور بچوں کی نگہداشت اور تربیت کے لئے بیوی کا محتاج ہے اور بیوی اپنی ضروریاتِ زندگی اور تحفظ کے لئے شوہر کی ضرورت مند ہے، یہ ایک دوسرے کی ضرورت باہم تعلقات کی استواری کا سبب بنتی ہے اور انسان ایک دوسرے کو برداشت کرتا ہے، اگر شوہر عیاشی کا راستہ اختیار کر لے اور اس کا دل بال بچوں کی محبت سے خالی ہو جائے تو بیوی سے بے اعتنائی پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی کمزوریوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، اسی طرح عورت اپنی ضروریاتِ زندگی کے بارے میں شوہر سے بے نیاز ہو جائے تو ناگواریوں کے باوجود اس سے نباہ کی صلاحیت نہیں رہتی، غرض کہ گھر اور باہر کی ذمہ داریوں کی تقسیم شوہر و بیوی کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے رہیں اور ہلکے پھلکے ناخوشگوار واقعات کو برداشت کر لیا کریں، مغربی ملکوں میں چوں کہ عورتوں کو گھر سے باہر لایا گیا، وہ مردوں ہی کی طرح معاشی دوڑ دھوپ میں مشغول کر دی گئی ؛ اس لئے طلاق کی کثرت ہو گئی، نکاح کے رشتے مکڑی کے جالے کی طرح قائم ہونے اور ٹوٹنے لگے اور اس طرح خاندانی نظام بکھر کر رہ گیا، جب خاندانی نظام بکھرا تو بچے اپنی شناخت اور ماں باپ کی محبت سے محروم ہو گئے، شوہروں کے لئے وہ سکون بخش شریکِ حیات عنقا ہو گئیں، جو پسینہ بہا کر آنے والے شوہر کا محبت کے ساتھ استقبال کرے اور بیویوں کے لئے وہ وفا شعار شوہر نہیں رہے، جو اپنی بیوی سے جاں نثارانہ محبت رکھنے والا اور جوانی کے بعد بڑھاپے میں بھی اس کا ساتھ دینے والا ہو۔

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام خواتین پر کسبِ معاش کا دروازہ بالکل ہی بند کر دیا گیا ہے، اگر وہ اپنے سرپرست یعنی شادی سے پہلے والد اور شادی کے بعد شوہر کی اجازت سے شرعی حدود کی رعایت کرتے ہوئے کسبِ معاش کی سرگرمی میں حصہ لینا چاہے، تو اس کی گنجائش ہے۔

 

کسبِ معاش کی مختلف صورتیں

 

کسبِ معاش کی بنیادی طور پر دو صورتیں ہیں : ایک صورت ہے براہ راست معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی، اور دوسری صورت ہے بالواسطہ سرمایہ کاری کی، براہ راست  کسبِ معاش کی چار صورتیں ہیں  :

(۱)        تجارت : ( خرید و فروخت ) (۲)  زراعت : ( کاشت کاری )۔

(۳)  صنعت : ( کاریگری )            (۴)  اجارہ : ( کرایہ پر لگانا یا ملازمت کرنا )۔

 

تجارت

تجارت سے مراد خرید و فروخت ہے، یعنی کسی شیٔ کو خود یا اپنے نمائندہ کے ذریعہ خرید کرنا اور پھر نفع کے ساتھ اسے خود یا نمائندہ ( وکیل ) کے ذریعہ فروخت کر دینا، عورتوں کے لئے کسی شیٔ کا خریدنا بھی جائز ہے اور بیچنا بھی، اُم المومنین حضرت عائشہؓ نے حضرت بریرہ ؓ کو ان کے مالکان سے خرید فرمایا تھا[118]، حضرت شفاء عدویہؓ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ عطر فروخت کیا کرتی تھیں، اسی طرح اسماء بنت مخرمہ ؓ حضرت عمر ص کے زمانہ میں عطر بیچا کرتی تھیں، عبداﷲ ابن ابی ربیعہ ص یمن سے ان کے پاس عطر بھیجتے تھے، وہ اسے فروخت کرتیں اور شیشی میں رکھ کر حوالہ کرتیں، نیز جن کے ذمہ پیسے ہوتے، ان کا اندراج بھی کر لیتیں[119]، اس طرح کی بہت سی روایتیں موجود ہیں، اسی لئے فقہاء کا اتفاق ہے کہ خرید و فروخت کرنے والے کا عاقل و بالغ ہونا ضروری ہے، مرد ہونا ضروری نہیں ہے، عورت بھی شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ سامان خرید اور فروخت کر سکتی ہے، یا اپنے وکیل و نمائندہ کی وساطت سے تجارت کر سکتی ہے۔

 

کاشت کاری اور باغبانی

اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ کاشت کاری یا باغ بانی کے لئے ’ مرد ہونا ‘ ضروری نہیں ہے، خواتین شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ خود بھی کاشت کاری کر سکتی ہیں، باغ لگا سکتی ہیں اور دوسروں سے کام لیتے ہوئے بھی زراعت کر سکتی ہیں، رسول اﷲؐ غزوۂ تبوک کے موقع سے تشریف لے جا رہے تھے، آپؐ نے وادیِ قریٰ میں ایک خاتون کو دیکھا، جو اپنے باغ میں تھیں، آپؐ نے زکوٰۃ کی مقدار کا اندازہ کرنے کے لئے باغ کی پیداوار کا اندازہ فرمایا، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ باغ انھیں خاتون کا تھا اور وہ خود اس کی نگرانی کر رہی تھیں[120]، حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ میری خالہ کو طلاق ہو گئی تھی، وہ اپنے کھجور کے پھل توڑنا چاہتی تھیں، ایک صاحب نے ان کو نکلنے سے منع کیا، انھوں نے حضور ا کی خدمت میں صورتِ حال پیش کی، آپؐ نے ارشاد فرمایا : کیوں نہیں ؟ اپنے کھجور توڑو، اس لئے کہ اُمید ہے کہ تم اس سے صدقہ کرو گی، یا کوئی بہتر کام کرو گی[121]،  غرض کہ عورت زراعت اور باغبانی کے ذریعہ بھی کسب معاش کر سکتی ہے۔

 

صنعت و حرفت

خواتین کے لئے ایسی صنعت و حرفت —- جو اُن کی صلاحیت کے مطابق ہو اور جن میں شرعی حدود کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو —- بھی جائز ہے، حضرت عبداﷲ ابن مسعودؓ کی زوجہ کچھ کاریگری سے واقف تھیں، خود حضرت عبداﷲؓ اور ان کے بچے بے روز گار تھے، انھوں نے حضور اسے دریافت کیا کہ میں اپنی رقم حضرت عبداﷲ ابن مسعودؓ  پر اور بچوں پر خرچ کر دیتی ہوں، صدقہ نہیں کر پاتی، کیا مجھے اس پر اجر ملے گا ؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا : تم کو اس پر بھی اجر ملے گا : ’’ لک فی ذلک أجر ما أنفقت علیہم‘‘ یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں کہیں اختصار اور کہیں تفصیل کے ساتھ آئی ہے[122]، حضرت سعد ابن سہلؓ سے مروی ہے کہ ایک خاتون نے رسول اﷲ ا کی خدمت میں باڈر والی چادر لا کر پیش کی اور عرض کیا : اﷲ کے رسول میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بُنا ہے[123]،  اسی طرح بعض صحابیات کے خنجر بنانے کا بھی ذکر ملتا ہے، موجودہ دور میں جو کمپیوٹر اور الیکٹرانک مشینوں کا دور ہے، بہت سے ایسے شعبے نکل آئے ہیں، جن میں خواتین، شرعی حدود اور نسوانی تقاضوں کی رعایت کے ساتھ کام کر سکتی ہیں۔

 

کرایہ و ملازمت

آمدنی کا ایک ذریعہ اجارہ ہے، یعنی اپنی چیز کرایہ پر لگا کر اُجرت حاصل کی جائے، یہ خواتین کے لئے بالکل درست ہے، اس لئے کہ آجر کا مرد ہونا ضروری نہیں، جیسے مرد اپنی مملوکہ شے کو کرایہ پر لگا سکتا ہے، اسی طرح ایک عورت بھی اپنا مکان، یا گاڑی وغیرہ کرایہ پر لگا سکتی ہے، اجارہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ خود کسی کام کی ذمہ داری لے کر اس کی اُجرت حاصل کی جائے، یعنی ملازمت اور نوکری کی جائے، یہ بھی عورتوں کے لئے جائز ہے ؛ بشرطیکہ شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ ہو اور سرپرست یعنی شادی سے پہلے والد اور شادی کے بعد شوہر کی اجازت سے ہو، اس لئے کہ فقہاء نے اجیر ہونے کے لئے مرد ہونے کی شرط نہیں لگائی ہے، بلکہ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ جس عورت کو دودھ آتا ہو، وہ اُجرت لے کر دودھ پلاسکتی ہے[124]،  ظاہر ہے یہ اجارہ کی ایسی صورت ہے، جو عورت ہی کے لئے مخصوص ہے، اسی طرح غلام اور باندی کی ایک خاص قسم ’ مکاتب ‘ کی ہوا کرتی تھی، جو اپنے مالک سے معاہدہ کے مطابق متعینہ رقم محنت مزدوری کے ذریعہ کما کر ادا کرتی تھی اور اسے غلامی سے آزادی حاصل ہو جاتی تھی۔

غرض کہ شریعت نے عورت پر کمانے کی ذمہ داری نہیں رکھی ہے، لیکن اگر کوئی خاتون احکام شریعت کی رعایت کرتے ہوئے شادی کے پہلے والد اور شادی کے بعد شوہر کی اجازت سے کسبِ معاش کرنا چاہے، یا شوہر نے اسے چھوڑ رکھا ہو، اس کی اور اس کے بچوں کی ضروریات کا خیال نہ رکھتا ہو اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے کسبِ معاش کرے تو اس کی اجازت ہے، اور ان صورتوں میں عورت خود ہی اپنی کمائی کی مالک ہو گی اور اس کے کمانے کے باوجود شوہر پر اس کے اور اس کے بچوں کے اخراجات واجب رہیں گے، سوائے اس کے کہ عورت خود ہی اپنی اور اپنے بچوں کی ضروریات پوری کر لیا کرے اور شوہر کو اس سے بری کر دے۔

 

سرمایہ کاری

کسبِ معاش کی بعض صورتیں وہ ہیں، جن میں بالواسطہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور نفع حاصل کیا جاتا ہے، اس سلسلہ میں تین صورتیں زیادہ اہم ہیں  :

(۱)  مضاربت        (۲)  شرکت    (۳)  مزارعت۔

مضاربت میں ایک شخص کا سرمایہ ہوتا ہے اور دوسرے شخص کی محنت اور نفع میں دونوں کی شرکت ہوتی ہے۔

شرکت میں دو یا دو سے زیادہ اشخاص کا سرمایہ ہوتا اور نفع ان میں تقسیم ہو جاتا ہے۔

مزارعت یہ ہے کہ ایک شخص خود کھیتی کرنے کے بجائے، کھیت کسی کسان کے حوالہ کر دے اور بٹائی پر اس سے معاملہ طے کر لے۔

یہ تینوں صورتیں ایسی ہیں کہ عمل میں شریک ہوئے بغیر انسان نفع اٹھا سکتا ہے، عورتوں کے لئے سرمایہ کاری کے یہ تینوں راستے کھلے ہوئے ہیں، وہ اپنا مال ورکنگ پارٹنر ( مضارب)[125] کو دے کر اس سے نفع لے سکتی ہے، وہ کسی شخص یا کمپنی کی سرمایہ لگانے میں ’ پارٹنر ‘ بن سکتی ہے یا شیئر خرید سکتی ہے، وہ اپنی اراضی بٹائی پر لگا کر پیداوار کی شکل میں نفع حاصل کر سکتی ہے ؛ کیوں کہ سرمایہ کاری کی ان تینوں صورتوں میں سرمایہ لگانے والے کا مرد ہونا ضروری نہیں، خواتین بھی ان طریقوں پر سرمایہ کاری کر سکتی ہیں۔

اگر شریعت کے ان احکام کو پیش نظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کے لئے اسلام میں کسبِ معاش کے بہت سے راستے موجود ہیں، عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلام نے  چوں کہ مردوں اور عورتوں کے اختلاط کو روکا ہے، اس لئے عورتوں کے لئے کسب معاش کا راستہ محدود ہو گیا ہے ؛ لیکن حقیقت یہ نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس تحدید کی وجہ سے عورتوں کے لئے مواقع بڑھ گئے ہیں، مثلاً تعلیم اور صحت ہی کو لے لیجئے، اگر مخلوط تعلیم کا نظام نہ ہو، لڑکیوں کے لئے الگ اسکول اور کالج قائم ہوں اور ان کو خاتون اساتذہ کی خدمت کے لئے مخصوص کر دیا جائے تو یقیناً اس کی وجہ سے معلمات کی ضرورت بڑھ جائے گی اور وہ ذہنی دباؤ اور تناؤ سے فارغ ہو کر تدریس کی خدمت انجام دے سکیں گی، اسی طرح اگر خواتین کے لئے علاحدہ اسپتال قائم ہوں، تو خاتون ڈاکٹروں، نرسوں اور عملہ کی ضرورت میں خاصا اضافہ ہو جائے گا، یہی حال زندگی کے دوسرے شعبوں کا ہے، اس لئے سچائی یہ ہے کہ پردہ کا حکم اور اختلاط کی ممانعت کی وجہ سے عورتوں کے لئے کسبِ معاش کے مواقع بڑھیں گے نہ کہ گھٹیں گے۔

 

٭٭٭٭

 

 

خواتین اور املاک میں تصرف کا حق

 

اسلام سے پہلے بہت سے مذاہب اور نظامہائے قانون وہ تھے، جن میں عورتوں کو مالک بننے کا حق حاصل نہیں تھا، وہ خود مال اور جائیداد شمار کی جاتی تھیں ؛ لیکن اسلام نے بحیثیت انسان، مردوں اور عورتوں کو ایک ہی درجہ میں رکھا ہے، جیسے مرد اپنی املاک کا خود مالک ہوتا ہے اور اس میں تصرف کرنے کا مجاز ہوتا ہے، اسی طرح عورتیں بھی مالک بن سکتی ہیں اور اپنی املاک کو اپنی مرضی کے مطابق خرچ کر سکتی ہیں، چنانچہ فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ عورت کو اپنے مال پر ولایت حاصل ہو گی، وہ اپنے مال کو خرید و فروخت کر سکتی ہے، کرایہ پر لگا سکتی ہے اور دوسرے سے تصرفات کر سکتی ہے۔

جو عورت ماں بن چکی ہو، یا شادی شدہ ہو اور کچھ عرصہ شوہر کے ساتھ رہ چکی ہو، اس کے بارے میں تو تمام فقہاء کا اتفاق ہے، البتہ اگر وہ بالغ ہو چکی ؛ لیکن ابھی غیر شادی شدہ ہے، تو کیا اس کا مال اس کے حوالہ کیا جا سکتا ہے اور وہ اس میں تصرف کر سکتی ہے، یا ابھی اُس کو اِس کا اختیار نہیں ہو گا ؟ دوسرے : شادی کے بعد اس کو اپنے مال میں تصرف کرنے کا اختیار خرید و فروخت کی حد تک ہی ہو گا، یا وہ ایسا تصرف بھی کر سکتی ہے، جس میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو، جیسے ہبہ اور صدقہ کرنا ؟ — اس سلسلہ میں فقہاء کے دو نقاط نظر ہیں، ایک نقطۂ نظر احناف، شوافع، حنابلہ اور جمہور کا ہے کہ جیسے ایک لڑکے کو بالغ ہونے کے بعد اپنا مال اپنی تحویل میں لینے اور اس میں تصرف کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے، اسی طرح ایک بالغ لڑکی کو بھی اس کا حق حاصل ہو گا، چاہے ابھی اس کی شادی ہوئی ہو یا نہیں ہوئی ہو، نیز جیسے اس کو خرید وفروخت وغیرہ کا حق حاصل ہو گا، اسی طرح وہ اپنی چیز کسی کو ہبہ کرنا چاہے، تو یہ بھی اس کے لئے جائز ہو گا اور یہ اختیارات اسے شادی سے پہلے بھی حاصل ہوں گے اور شادی کے بعد بھی، نیز وہ اپنے تصرف میں شوہر سے اجازت لینے کی پابند نہیں ہو گی، اگر اپنے شوہر سے اجازت لئے بغیر بھی، کسی کو کوئی چیز دینا چاہے تو دے سکتی ہے۔

دوسرا نقطۂ نظر مالکیہ کا ہے، امام مالک ؒ کے نزدیک لڑکی کا مال اسے ماں بننے کے بعد، یا شوہر کے یہاں چند سال گزرنے کے بعد حوالہ کیا جائے گا اور جب مال اس کے حوالہ ہو جائے گا، تو ایسا تصرف تو وہ خود کر سکتی ہے، جس سے اس کا ذاتی یا مالی نفع متعلق ہو، لیکن ایسا تصرف، جو ’تبرع ‘ کے قبیل سے ہو، یعنی جس کا مقصد دوسروں کے ساتھ حسن سلوک ہو، وہ اسے اپنی ایک تہائی املاک کی حد تک ہی کر سکتی ہے، اگر اس سے زیادہ مال ہبہ یا صدقہ کرنا چاہے، تو ضروری ہو گا کہ شوہر سے اجازت لے۔[126]

ان میں سے پہلا نقطۂ نظر راجح ہے ؛ کیوں کہ قرآن و حدیث سے کوئی ایسی پابندی ثابت نہیں ہوتی اور نہ اس معاملہ میں مردوں اور عورتوں کے احکام میں فرق و امتیاز معلوم ہوتا ہے، اﷲ تعالیٰ نے صدقہ کرنے والوں کی تعریف کرتے ہوئے، اس نیک کام کی نسبت مردوں کی طرف بھی کی ہے اور عورتوں کی طرف بھی : ’’ والمتصدقین والمتصدقات‘‘[127] رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے نماز عید کے موقع سے خطبہ ارشاد فرمایا اور اپنے خطبہ میں عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے، خاص طور پر انھیں صدقہ کرنے کی تلقین فرمائی، حضرت بلال ص نے اپنا کپڑا بچھایا، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم ان کو صدقہ کی تلقین کرتے جاتے اور خواتین انگوٹھیاں وغیرہ حضرت بلالؓ کے کپڑے میں ڈالتی جاتیں[128]، حضرت زینب ؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے ہمیں خطاب فرمایا : اے گروہ خواتین !صدقہ کیا کرو، چاہے اپنے زیور ہی سے کر پاؤ، ’’ تصدقن ولومن حلیکن‘‘۔[129]

حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے، جو حضرت زبیر ص کے نکاح میں تھیں، ان کو ایک باندی حضور صلی اﷲ علیہ و سلم نے عطا فرمائی، انھوں نے اسے فروخت کر لیا، حضرت زبیر ص آئے اس وقت باندی کی قیمت حضرت اسماء ؓ کی گود میں رکھی ہوئی تھی، انھوں نے حضرت اسماءؓ سے کہا کہ یہ پیسے مجھے ہبہ کر دو، حضرت اسماءؓ نے کہا، میں نے تو اسے صدقہ کر دیا ہے، إنی تصدقت بہا[130]، ایک موقع پر حضرت اسماءؓ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ میرے پاس تو اپنا ہی مال ہوا کرتا ہے، جو حضرت زبیرؓ  خانہ داری میں دیا کرتے ہیں، آپؐ نے انھیں نصیحت کی : اے اسماء ! دیتی رہو اور صدقہ کرتی رہو اور خزانہ کا منھ بند مت کرو کہ تم پر بھی بند کر دیا جائے گا[131]، ام المومنین حضرت میمونہؓ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کے زمانہ میں باندی آزاد کر دی اور حضور صلی اﷲ علیہ و سلم سے اس کا ذکر کیا، آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم نے اپنے ماموں وغیرہ کو باندی دے دی ہوتی، تو زیادہ باعث اجر ہوتا : لو أعطیتہا أخوالک کان أعظم لأجرک[132]،بلکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرہ میں عام طور پر جتنی مقدار صاحب خانہ کی اجازت کے بغیر صدقہ و خیرات وغیرہ میں خرچ کی جاتی ہے، اتنی مقدار عورت شوہر کی اجازت کے بغیر بھی خرچ کر سکتی ہے اور اس میں نہ صرف اس کو اجر حاصل ہو گا ؛ بلکہ اس کا شوہر بھی اجر میں شریک سمجھا جائے گا، چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ عورت اگر اپنے شوہر کے گھر سے خرچ کر لے، تو اس کو بھی اجر ہو گا اور اتنا ہی اجر اس کے شوہر کو بھی ہو گا اور ایک کی وجہ سے دوسرے کے اجر میں کمی واقع نہیں ہو گی[133]۔

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جیسے مردوں کو بالغ ہونے کے بعد اپنے مال میں ہر طرح کے تصرف کا حق حاصل ہے، یہی حق عورتوں کو بھی حاصل ہے، شادی شدہ خواتین اپنے مال میں تصرف کرنے کے لئے شوہر سے اجازت لینے کی پابند نہیں ہیں، وہ جس طرح ایسا تصرف کر سکتی ہے، جس سے ان کو دنیوی نفع حاصل ہو، اسی طرح وہ ہبہ اور صدقہ بھی کر سکتی ہیں اور یہی جمہور کا نقطۂ نظر ہے، یہ اور بات ہے کہ چوں کہ خواتین کو لوگوں کے بارے میں زیادہ تجربہ نہیں ہوتا اور وہ حالات سے مردوں کی بہ نسبت کم واقف ہوتی ہیں، اس لئے بہتر ہے کہ وہ اپنے سرپرستوں یعنی والد اور شوہر وغیرہ سے مشورہ کر لیا کریں ؛ تاکہ خود ان کے مفادات کی حفاظت ہو اور وہ نقصان سے بچ سکیں، — جن حضرات نے یہ بات کہی ہے کہ عورتوں کو اپنے مال میں تصرف کرنے کا حق ماں بننے یا شادی پر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہو گا اور اس کے بعد بھی ان کو ایسا تصرف کرنے کا حق حاصل نہیں ہو گا، جو تبرع، یعنی ایک طرفہ حسن سلوک کے قبیل سے ہو، ان کا مقصد بھی عورتوں کی آزادی کو محدود کرنا نہیں ؛ بلکہ انھیں کے مفادات کی حفاظت مقصود ہے۔

 

٭٭٭٭

 

مسلم پرسنل لا بورڈ کے تشکر کے ساتھ جن کے دفتر سے فائل فراہم ہوئی۔

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل اعجاز عبید

[1] أبوداؤد : کتاب الإجارۃ، باب فی من اشتری عبداً فاستعملہ، الخ، حدیث نمبر : ۳۵۰۸، ترمذی :عن عائشہؓ، حدیث نمبر : ۱۲۸۵

[2] أبوداؤد : باب ماجاء فی الوصیۃ للوارث، حدیث نمبر : ۲۸۷، ترمذی : ۲۱۲۰

[3] بخاری : باب الوصیۃ بالثلث، حدیث نمبر : ۲۷۴۴

[4] بدائع الصنائع : ۳؍۴۳۰-۴۲۹

[5] الخرشی : ۴؍۱۸۴

[6] حوالۂ سابق : ۴؍۱۸۵

[7] حوالۂ سابق : ۴؍۱۸۴

[8] ردالمحتار :۵؍۲۹۰، کتاب الطلاق، باب النفقۃ، ط : مکتبہ زکریا، دیوبند

[9] حوالۂ سابق : ۵؍۲۹۰، النفقہ

[10] الطلاق : ۷

[11] بدائع الصنائع : ۳؍۴۳۱

[12] البیان : ۱۱؍ ۲۰۳

[13] المعتمد : ۲؍۳۲۲

[14] درمختار مع شامی : ۵؍۲۳۱، نیز دیکھئے، ہندیہ : ۱؍۵۴۸، الجوہرۃ النیرۃ : ۲؍۱۶۴

[15] الاعراف : ۳۱

[16] بدائع الصنائع : ۳؍۴۳۰

[17] سنن ترمذی، ابواب البر والصلہ باب ماجاء فی الإحسان إلی الخادم، حدیث نمبر : ۱۹۴۵

[18] أبوداؤد، عن بریدہ، باب خاتم الحدید، حدیث نمبر : ۴۲۲۳

[19] بخاری : باب لبس الحریر للرجال، الخ، حدیث نمبر : ۵۸۲۸، نیز دیکھئے : مسلم باب تحریم استعمال إناء الذہب والفضۃ

[20] مسلم : باب النہی عن لبس الرجل الثوب المعصفر، حدیث نمبر : ۲۰۷۷

[21] البقرہ : ۲۳۳

[22] دیکھئے : بدائع الصنائع : ۳؍۴۳۱

[23] الخرشی : ۴؍۱۸۶

[24] ردالمحتار : ۵؍۲۸۵، کتاب الطلاق، باب النفقۃ، ط : زکریا

[25] دیکھئے : الشرح الصغیر : ۲؍۷۳۲

[26] روضۃ الطالبین : ۹ ؍۵۰

[27] دیکھئے : الاقناع : ۵؍۹۴۸، المقنع مع الشرح الکبیر: ۲۴؍۳۰۱

[28] مجمع الأنہر : ۱؍۴۸۴

[29] ردالمحتار: ۱؍۷۷ -۲۷۵

[30] الفقہ الإسلامی وأدلتہ : ۷؍۷۹۴

[31] الفقہ الإسلامی وأدلتہ : ۷؍۷۹۴

[32] بدائع الصنائع : ۳؍۴۳۰

[33] البیان : ۱۱؍۲۱۱

[34] الخرشی : ۴؍۱۸۶

[35] ردالمحتار : ۳؍۵۸۸

[36] الطلاق : ۶

[37] کنز الدقائق مع البحر : ۴؍۳۲۶

[38] ردالمحتار : ۵؍ ۳۲۰، ط : مکتبہ زکریا

[39] ردالمحتار : ۵؍ ۳۲۰

[40] درمختار مع شامی : ۵؍ ۲۵۶، ط : بیروت

[41] درمختار مع الرد : ۵؍۲۵۷

[42] منحۃ الخالق علی البحر : ۴؍۱۹۵، نیز دیکھئے : درمختار، حوالۂ سابق

[43] درمختار مع شامی : ۳؍۱۰۰

[44] دیکھئے، البحر الرائق : ۲؍۱۷۷

[45] حوالۂ سابق

[46] غایۃ القصوی للبیضاوی : ۱؍۱۶۳

[47] اسراء : ۲۳-۲۴

[48] لقمان : ۱۳-۱۴

[49] اسراء : ۲۳

[50] دیکھئے : تفسیر بغوی : ۲؍۶۷۵ آیت مذکورہ

[51] المغنی : ۱۱؍ ۳۷۳

[52] الجوہرۃ النیرۃ : ۲؍۱۷۳

[53] الخرشی : ۴؍۲۰۴، نیز دیکھئے : فتاویٰ قاضی خاں علی ہامش الہندیہ : ۱؍۴۴۷

[54] المغنی لإبن قدامہ : ۱۱؍ ۳۷۸

[55] حاشیہ علی الخرشی : ۴؍۲۰۴

[56] الخرشی: ۴؍۲۰۴

[57] الفقہ الإسلامی وأدلتہ :۷؍۸۲۱

[58] دیکھئے، الجوہرۃ النیرۃ : ۲؍۱۷۳

[59] البقرہ : ۲۳۳

[60] دیکھئے، ردالمحتار : ۵؍۲۸۶

[61] درمختار مع شامی : ۵؍ ۲۸۶، ط : زکریا

[62] بدائع الصنائع : ۳؍۴۲۲ -۴۲۳

[63] مغنی المحتاج : ۳؍۴۳۵

[64] حاشیۃ الدسوقی : ۳؍۴۹۲

[65] روضۃ الطالبین : ۹؍۵۵

[66] المغنی : ۱۱؍۳۶۶

[67] ردالمحتار : ۵؍۱۲-۳۱۱، مجمع الأنہر: ۱؍۴۹۱

[68] البقرہ : ۲۲۹

[69] مالکیہ کے نقطۂ نظر کے لئے دیکھئے : مختصر خلیل مع مواہب الجلیل : ۵؍ ۵۶۱، حاشیہ خرشی : ۴؍۹۷-۱۹۶، حاشیہ دسوقی : ۳؍۹۵-۴۹۴، شرح الصغیر : ۲؍۴۶-۷۴۵، فقہ شافعی کے لئے دیکھئے : منہاج مع مغنی المحتاج : ۳؍۴۳ – ۴۴۲، الوجیز للغزالی : ۳۳۷، روضۃ الطالبین : ۹ ؍ ۷۲، اور فقہ حنبلی کے لئے دیکھئے : المغنی لابن قدامہ : ۱۱؍۶۱-۲۶۰، المقنع : ۲۴؍۳۶۳، باب النفقات، الکافی: ۵؍۹۱

[70] تفصیل کے لئے دیکھئے : بدائع الصنائع : ۲؍۵۲۴۳، مجمع الأنہر : ۱؍۴۹۰، البحر الرائق : ۴؍۳۱۲، ردالمحتار : ۵؍۳۰۶

[71][71] دیکھئے، حاشیہ دسوقی : ۳؍۴۹۴، الشرح الصغیر : ۲؍۷۴۶، حاشیہ صاوی علی الشرح الصغیر : ۲؍۷۴۵

[72] المقنع : ۲۴؍۳۹۲، الانصاف علی المقنع : ۲۴؍۳۸۲

[73] مغنی المحتاج : ۳؍۴۴۲

[74] دیکھئے : البحر الرائق : ۴؍۳۱۵، مجمع الأنہر : ۱؍۴۹۰ و دیگر کتب

[75] الطلاق : ۶

[76] دیکھئے کتب فقہ : فقہ حنفی، بدائع الصنائع : ۳؍۴۲۲، فقہ مالکی : مواہب الجلیل : ۵؍۵۵۳، فقہ شافعی : مغنی المحتاج : ۳؍۴۴۰، فقہ حنبلی : الکافی : ۵؍۸۱، الشرح الکبیر : ۲۴؍۳۱۰

[77] درمختار مع الرد : ۵؍ ۲۷۷

[78] البحر الرائق : ۴؍۲۲۱

[79] فتاویٰ خانیہ علی ہامش الہندیہ : ۱؍۴۴۹

[80] بخاری : کتاب النفقات، حدیث نمبر : ۵۳۵۳

[81] النساء : ۴

[82] تفسیر ماجدی : ۱؍۶۹۳

[83] دیکھئے، تفسیر ابن کثیر : ۱؍۴۲۷، تفسیر آیت مذکورہ

[84] بدائع الصنائع : ۲؍۵۶۱

[85] درمختار : ۴؍ ۱۶۹

[86] سنن بیہقی : ۷؍۳۹۲، حدیث نمبر : ۱۴۳۸۲

[87] الشرح الصغیر : ۲؍۴۲۹، مواہب الجلیل : ۵؍۱۸۶

[88] شرح مہذب : ۱۸؍۷، المغنی : ۱۰؍۱۰۱

[89] النساء : ۲۰

[90] دیکھئے، تفسیربغوی : ۱؍۴۹۸

[91] سنن بیہقی : ۷؍۳۸۱، حدیث نمبر : ۱۴۳۴۰

[92] سنن ابی داؤد، حدیث نمبر : ۲۱۰۸، نیز دیکھئے، سنن بیہقی : ۷؍۳۸۲، حدیث نمبر : ۱۴۳۴۶

[93] النساء : ۲۰

[94] مجمع الزوائد : ۴؍۲۲-۵۲۱، حدیث نمبر : ۷۵۰۱

[95]  سنن بیہقی : ۷؍۳۸۱، حدیث نمبر : ۱۴۳۴۱

[96] سنن بیہقی : ۷؍۳۸۱، حدیث نمبر : ۱۴۳۴۶

[97] دیکھئے مصنف عبدالرزاق : ۶؍۱۸۰، حدیث نمبر : ۱۰۴۱۹

[98] سنن بیہقی : ۷؍۳۸۱، حدیث نمبر : ۱۴۳۴۳

[99]  مسلم عن ابی سلمہ، حدیث نمبر : ۱۴۲۶

[100] موسوعۃ حیات الصحابیات، ص : ۶۲۴، محمد سعید مبیض

[101] دیکھئے : الکافی : ۴؍۳۲۸، شرح مہذب : ۱۸؍۹

[102] نئے مسائل اور علماء ہند کے فیصلے، ص : ۸۸

[103] ردالمحتار : ۴؍ ۳۰۰ مطلب مسائل الإختلاف فی المہر

[104] مصنف عبد الرزاق : ۶؍۱۸۵، حدیث نمبر : ۱۰۴۴۳، نیز دیکھئے : سنن بیہقی ۷؍۳۹۴

[105] مجمع الزوائد : ۴؍۵۲۳، حدیث نمبر : ۷۵۰۷، بحوالہ طبرانی

[106] مستدرک حاکم، عن عبداﷲ بن عمرؓ : ۲؍۱۹۹، حدیث نمبر: ۲۷۴۳

[107] البقرہ : ۲۴۱

[108] ہندیہ : ۱؍۴۸۸، الباب الثامن فی الخلع وما فی حکمہ، الفصل الأول فی شرائط الخلع وحکمہ

[109] مسند احمد، عن علی ؓ : ۱؍۹۸، حدیث نمبر : ۶۰۳، ۱؍۱۱۳، حدیث نمبر : ۷۱۵

[110] المحلی لإبن حزم : ۱۱؍ ۱۱۹

[111] ترمذی، عن أبی ہریرۃؓ، أبواب الأحکام، باب ماجاء فی الراشی والمرتشی فی الحکم، حدیث نمبر : ۱۳۳۶

[112] ردالمحتار : ۸؍۳۵، کتاب القضاء مطلب فی الکلام علی الرشوۃ والہدیہ

[113] ردالمحتار : ۸؍۳۴، کتاب القضاء مطلب فی الکلام علی الرشوۃ والہدیہ : ۷؍۳۰۱، باب البیع الفاسد مطلب فیمن ورث مالاً حراماً

[114] مسند احمد، حدیث نمبر : ۲۴۵۲۰، عن عائشہؓ

[115] النساء : ۲۴

[116] نئے مسائل اور علماء ہند کے فیصلے، ص : ۸۹

[117] بخاری : کتاب العتق، باب کراہیۃ التطاول علی الرقیق، حدیث نمبر : ۲۵۵۴ ، مسلم : کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامیر العادل وعقوبۃ الجائر، حدیث نمبر: ۱۸۲۹

[118] ترمذی، أبواب الولاء والہبۃ، حدیث نمبر : ۳۱۲۵

[119] دیکھئے : طبقات ابن سعد : ۸؍۳۰۰

[120] بخاری : کتاب الزکوٰۃ، باب خرص التمر، عن أبی حمید الساعدی، حدیث نمبر :۷

[121] مسلم : کتاب المساقاۃ، باب فضل الغرس والزرع، مسند دارمی، باب خروج المتوفی عنہا زوجہا : ۲؍ ۹۰، حدیث نمبر : ۲۲۹۳

[122] دیکھئے : بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب الزکوٰۃ علی الزوج والأیتام فی الحج، حدیث نمبر :۱۴۶۶، عن اُم ساعۃ: ۱۴۶۷، مزید تفصیل کے لئے : مسند احمد : ۳؍۵۰۳، مسلم : کتاب الزکوٰۃ، باب فضل النفقۃ والصدقۃ علی الأقربین، حدیث نمبر : ۲۳۱۸، طبقات ابن سعد : ۸؍۲۹۰

[123] بخاری : کتاب الجنائز، باب من استعد الکفن، حدیث نمبر :۱۲۷۷

[124] مجمع الأنہر : ۱؍۴۹۷، ولایۃ المرأۃ فی النفقہ الإسلامی لحافظ محمد أنور : ۸۱ – ۴۸۰

[125] المدونۃ الکبریٰ : ۴؍۳۸

[126] دیکھئے : ولایۃ المرأۃ فی الفقہ الإسلامی : ۵۸۸، حافظ محمد أنور

[127] الأحزاب : ۳۵

[128] بخاری : عن ابن عباس، کتاب العیدین، باب موعظۃ الإمام النساء یوم العید، حدیث نمبر : ۹۷۹

[129] بخاری مع الفتح : ۳؍۳۲۵، نیز دیکھئے : مسلم : ۲؍۲۰۳، حدیث نمبر : ۱۰۰۰، باب فضل النفقۃ الخ مسند احمد : ۶؍۳۶۳، حدیث نمبر : ۲۷۰۴۲

[130] مسلم مع نووی : ۱۴؍۱۶۶، کتاب الآداب والسلام، باب جواز إرداف المرأۃ الأجنبیۃ إذا أعیت فی الطریق، حدیث نمبر : ۲۱۸۲

[131] بخاری مع الفتح، کتاب الزکوٰۃ : ۳؍۳۰۱، نیز دیکھئے : مسلم : ۲؍۷۱۴، کتاب الزکوٰۃ، ابوداؤد مع عون المعبود : ۵؍۷۹ – ۱۶۹۵، باب فی الشح

[132] بخاری : کتاب الہبۃ، باب الہبۃ المرأۃ بغیر زوجہا وعتقہا إذا کان لہا زوج، حدیث نمبر : ۲۵۹۰، مسلم : کتاب الزکوٰۃ، باب فضل النفقۃ والصدقۃ علی الأقربین والزوج، حدیث نمبر : ۲۳۱۸

[133] بخاری مع الفتح، کتاب الزکوٰۃ : ۳؍۲۹۶، حدیث نمبر : ۱۴۴۰