FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

کتاب: حکومت کے بیان میں

 

باب : خلیفہ قریش سے ہونا چاہیئے۔

1194: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہ کام یعنی خلافت ہمیشہ قریش میں رہے گی یہاں تک کہ دنیا میں دو ہی آدمی رہ جائیں۔

1195: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: حکومت میں تمام لوگ قریش کے تابع ہیں اور مسلمان لوگ مسلمان قریش کے تابع ہیں اور کافر لوگ کافر قریش کے تابع ہیں (یعنی حکومت اور سرداری کے زیادہ اہل ہیں)۔

1196: سیدنا عامر بن سعد بن ابی وقاصؓ  کہتے ہیں کہ میں نے اپنے غلام نافع کو یہ لکھ کر سیدنا جابر بن سمرہؓ  کے پاس بھیجا کہ مجھ سے وہ بات بیان کرو جو آپ نے رسول اللہﷺ سے سنی ہو۔ کہتے ہیں انہوں نے جواب میں لکھا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے اس جمعہ کی شام، جس دن ماعز اسلمی سنگسار کئے گئے سنا ہے آپ فرما رہے تھے کہ یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو یا تم پر بارہ خلیفہ ہوں اور وہ سب قریشی ہوں گے (شاید یہ واقعہ بھی قیامت کے قریب ہو گا کہ ایک ہی وقت میں مسلمانوں کے بارہ خلیفہ بارہ ٹکڑیوں پر ہوں گے ) اور میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت کسریٰ کے سفید محل کو فتح کرے گی (یہ معجزہ تھا اور سیدنا عمرؓ  کی خلافت میں ایسا ہی ہوا) اور میں نے سنا کہ آپﷺ فرماتے تھے کہ قیامت سے پہلے جھوٹے پیداہوں گے ان سے بچنا اور میں نے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ جب اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کو دولت دے ، تو پہلے اپنے اوپر اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرے (ان کو آرام سے رکھے پھر فقیروں کو دے ) اور میں نے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ میں حوضِ کوثر پر تمہارا انتظار کرنے والا ہوں (یعنی تمہارے پانی پلانے کے لئے وہاں بندوبست کروں گا اور تمہارے آنے کا منتظر رہوں گا)۔

باب : اپنے پیچھے خلیفہ مقرر کرنے اور نہ کرنے کا بیان۔

1197: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ میں اُمّ المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور انہوں نے کہا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے والد کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کریں گے ؟ میں نے کہا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایسا ہی کریں گے۔ میں نے قسم کھائی کہ میں ان سے اس کا ذکر کروں گا۔ پھر چپ رہا، دوسرے دن صبح کو بھی میں نے ان سے نہیں کہہ سکا، لیکن میرا حال ایسا تھا جیسے کوئی پہاڑ کو ہاتھ میں لئے ہو (قسم کا بوجھ تھا)۔ آخر میں لوٹ کر ان کے پاس گیا وہ مجھ سے لوگوں کا حال پوچھنے لگے تو میں بیان کرتا رہا، پھر میں نے کہا کہ میں نے لوگوں سے ایک بات سنی ہے اور قسم کھا لی کہ آپ سے ضرور اس کا ذکر کروں گا، وہ سمجھتے ہیں کہ آپ کسی کو خلیفہ نہیں کریں گے۔ اگر آپ کا اونٹوں کا یا بکریوں کا کوئی چرانے والا ہو، پھر وہ آپ کے پاس ان اونٹوں اور بکریوں کو چھوڑ کر چلا آئے تو آپ یہ سمجھیں گے کہ وہ جانور برباد ہو گئے ، اس صورت میں آدمیوں کا خیال تو اور بھی ضروری ہے۔ میرے اس کہنے سے ان کو خیال ہوا اور ایک گھڑی تک وہ سر جھکائے رہے (فکر کیا کئے ) پھر سر اٹھایا اور کہا کہ اللہ جل جلالہ اپنے دین کی حفاظت کرے گا اور میں اگر خلیفہ مقرر نہ کروں، تو رسول اللہﷺ نے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا اور اگر خلیفہ مقرر کروں تو سیدنا ابو بکر صدیقؓ  نے خلیفہ مقرر کیا ہے۔ عبد اللہؓ  نے کہا کہ پھر اللہ کی قسم جب انہوں نے رسول اللہﷺ اور سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کا ذکر کیا تو میں سمجھ گیا کہ وہ رسول اللہﷺ کے برابر کسی کو نہیں کرنے والے اور وہ خلیفہ مقرر نہیں کریں گے۔

باب : جس سے پہلے بیعت کی اس کی بیعت پوری کرنے کا حکم۔

1198: ابو حازم کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابو ہریرہؓ  کے پاس پانچ سال بیٹھتا رہا اور میں نے انہیں نبیﷺ سے بیان کرتے سنا ہے کہ بنی اسرائیل کی حکومت/سیاست پیغمبر کیا کرتے تھے۔ جب ایک پیغمبر فوت ہوتا تو دوسرا پیغمبر اس کی جگہ ہو جاتا۔ اور شان یہ ہے کہ میرے بعد تو کوئی پیغمبر نہیں ہے بلکہ خلیفہ ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ پھر آپﷺ ہمیں کیا حکم کرتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جس سے پہلے بیعت کر لو، اسی کی بیعت پوری کرو اور ان کا حق ادا کرو اور اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا اس کے متعلق جو اس نے ان کو دیا ہے۔

1199: سیدنا عبد الرحمن بن عبدرب الکعبہ کہتے ہیں کہ میں مسجد میں داخل ہوا اور وہاں سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے تھے اور لوگ ان کے پاس جمع تھے۔ میں بھی جا کر بیٹھ گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہﷺ  کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ ایک جگہ اترے ، تو کوئی اپنا خیمہ درست کرنے لگا، کوئی تیر مارنے لگا اور کوئی اپنے جانوروں میں تھا کہ اتنے میں رسول اللہﷺ کے پکارنے والے نے نماز کے لئے پکار دی۔ ہم سب آپﷺ کے پاس جمع ہو گئے ، تو آپﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس پر اپنی امت کو وہ بہتر بات بتانا لازم نہ ہو جو اس کو معلوم ہو اور جو بری بات وہ جانتا ہو اس سے ڈرانا (لازم نہ ہو) اور تمہاری یہ امت، اُس کے پہلے حصہ میں سلامتی ہے اور اخیر حصہ میں آزمائش ہے اور وہ باتیں ہیں جو تمہیں بری لگیں گی اور ایسے فتنے آئیں گے کہ ایک فتنہ دوسرے کو ہلکا اور پتلا کر دے گا (یعنی بعد کا فتنہ پہلے سے ایسا بڑھ کر ہو گا کہ پہلا فتنہ اس کے سامنے کچھ حقیقت نہ رکھے گا) اور ایک فتنہ آئے گا تو مومن کہے گا کہ اس میں میری تباہی ہے۔ پھر وہ جاتا رہے گا اور دوسرا آئے گا تو مومن کہے گا کہ اس میں میری تباہی ہے۔ پھر جو کوئی چاہے کہ جہنم سے بچے اور جنت میں جائے ، تو اس کو چاہئیے کہ اس کی موت اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر یقین کی حالت میں آئے اور لوگوں سے وہ سلوک کرے جو وہ چاہتا ہو کہ لوگ اس سے کریں اور جو شخص کسی امام سے بیعت کرے اور اس کو اپنا ہاتھ دیدے اور دل سے اس کی فرمانبرداری کی نیت کرے ، تو اس کی اطاعت کرے اگر طاقت ہو۔ اب اگر دوسرا امام اس سے لڑنے کو آئے تو (اس کو منع کرو اگر لڑائی کے بغیر نہ مانے تو) اس کی گردن مار دو۔ یہ سن کر میں عبد اللہؓ  کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم نے یہ رسول اللہﷺ سے سنا ہے ؟ انہوں نے اپنے دونوں کانوں اور دل کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا اور کہا کہ میرے کانوں نے سنا اور دل نے یاد رکھا ہے۔ میں نے کہا کہ تمہارے چچا کے بیٹے معاویہؓ  ہمیں ایک دوسرے کے مال ناحق کھانے کے لئے اور اپنی جانوں کو تباہ کرنے کے لئے حکم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”اے ایمان والو اپنے مال ناحق مت کھاؤ مگر رضامندی سے سوداگری کر کے اور اپنی جانوں کو مت مارو بیشک اللہ تعالیٰ تم پر مہربان ہے “ (النساء: 29)۔ یہ سن کر عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ  تھوڑی دیر چپ رہے پھر کہا کہ اس کام میں معاویہ کی اطاعت کرو جو اللہ کے حکم کے موافق ہو اور جو کام اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہو، اس میں معاویہؓ  کا کہنا نہ مانو۔

باب : جب دو خلیفوں کی بیعت کی جائے تو کیا حکم ہے ؟

1200: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب دو خلیفوں سے بیعت کی جائے ، تو جس سے اخیر میں بیعت ہوئی ہو اس کو مار ڈالو(اس لئے کہ اس کی خلافت پہلے خلیفہ کے ہوتے ہوئے باطل ہے )۔

باب : تم سب راعی (حاکم) ہو اور تم سب اپنی رعیت کے بارے میں سوال کئے جاؤ گے۔

1201: سیدنا ابن عمرؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا (حاکم سے مراد منتظم اور نگراں کار اور محافظ ہے ) پھر جو کوئی بادشاہ ہے وہ لوگوں کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کا سوال ہو گا(کہ اس نے اپنی رعیت کے حق ادا کئے ، ان کی جان و مال کی حفاظت کی یا نہیں؟) اور آدمی اپنے گھر والوں کا حاکم ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہو گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی اور بچوں کی حاکم ہے ، اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا۔ اور غلام اپنے مالک کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کے بارہ میں سوال ہو گا۔ غرضیکہ تم میں سے ہر ایک شخص حاکم ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کا سوال ہو گا۔

باب : طلبِ حکومت اور اس پر حریص ہونے کی کراہت۔

1202: سیدنا عبدالرحمن بن سمرہؓ  کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے عبدالرحمن! کسی عہدے اور حکومت کی درخواست مت کر، کیونکہ اگر درخواست سے تجھ کو (حکومت/عہدہ) ملا تو تو اسی کے سپرد کر دیا جائے گا اور جو بغیر سوال (درخواست) کے ملے ، تو اللہ تعالیٰ تیری مدد کرے گا۔

1203: سیدنا ابو ذرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے ابو ذر! میں تجھے کمزور پاتا ہوں اور میں تیرے لئے وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لئے پسند کرتا ہوں۔ دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ مت کرو اور یتیم کے مال کی نگرانی مت کرو (کیونکہ احتمال ہے کہ یتیم کا مال بیجا اٹھ جائے یا اپنی ضرورت میں آ جائے اور مؤاخذہ میں گرفتار ہو)۔

1204: سیدنا ابو ذرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ ! آپ مجھے گورنری (وغیرہ) نہیں دیتے ؟ آپﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک میرے کندھے پر مارا اور فرمایا کہ اے ابو ذر! تو کمزور ہے اور یہ امانت ہے (یعنی بندوں کے حقوق اور اللہ تعالیٰ کے حقوق سب حاکم کو ادا کرنے ہوتے ہیں) اور قیامت کے دن اس عہدہ سے سوائے رسوائی اور شرمندگی کے کچھ حاصل نہیں ہو گا مگر جو اس کے حق ادا کرے اور سچائی سے کام لے۔

باب : (نبیﷺ کا فرمان کہ) جو کوئی عہدے کی درخواست کرے ہم اس کو عہدہ نہیں دیتے۔

1205: سیدنا ابو بردہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابو موسیٰؓ  نے کہا کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور میرے ساتھ قبیلہ اشعر کے دو آدمی تھے ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف۔ دونوں نے نبیﷺ سے عامل بنا کر بھیجنے کی درخواست کی اور آپﷺ مسواک کر رہے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے ابو موسیٰ (یا عبد اللہ بن قیس)! تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ قسم اس کی جس نے آپﷺ کو سچآپیغمبر کر کے بھیجا، انہوں نے مجھ سے اپنے دل کی بات نہیں کہی اور مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ کام (عہدہ خدمت) کی درخواست کریں گے۔ سیدنا ابو موسیٰؓ  نے کہا کہ گویا میں آپﷺ کی مسواک کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ نچلے ہونٹ پر ٹھہری ہوئی تھی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ہم اس کو کبھی عہدہ نہیں دیتے جو عہدے کی درخواست کرے ، لیکن اے ابو موسیٰ یا عبد اللہ بن قیس! تم جاؤ۔ پس انہیں یمن کی طرف بھیجا۔ پھر ان کے پیچھے سیدنا معاذ بن جبلؓ  کو روانہ کیا (تاکہ وہ بھی شریک رہیں)۔ جب سیدنا معاذ وہاں پہنچے تو سیدنا ابو موسیٰؓ  نے کہا کہ اترو اور ایک گدہ ان کے لئے بچھایا۔ اتفاق سے وہاں ایک شخص قید میں جکڑا ہوا تھا، سیدنا معاذؓ  نے نے کہا کہ یہ کیا ہے ؟ سیدنا ابو موسیٰؓ  نے کہا کہ یہ ایک یہود مسلمان ہوا پھر کمبخت یہودی ہو گیا۔ اپنا بُرا دین اختیار کر لیا۔ سیدنا معاذ نے کہا کہ جب تک اسے اللہ اور رسولﷺ کے فیصلے کے مطابق قتل نہ کر دیا جائے میں نہ بیٹھوں گا۔ تین بار یہی کہا پھر سیدنا ابو موسیٰؓ  نے حکم دیا تو وہ قتل کیا گیا۔ اس کے بعد دونوں نے رات کی نماز کا ذکر کیا، تو سیدنا معاذؓ  نے کہا کہ میں تو رات کو سوتا بھی ہوں اور عبادت بھی کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ سونے میں بھی مجھے وہی ثواب ملے گا جو عبادت میں ملتا ہے۔

باب : امام (مسلمانوں کا حاکم) جب اللہ سے ڈرنے کا حکم دے اور انصاف کرے ، تو اس کے لئے اجر ہے۔

1206: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: امام سپر (ڈھال) ہے کہ اس کے پیچھے مسلمان (کافروں سے ) لڑتے ہیں اور اس کی وجہ سے لوگ تکلیف (ظالموں اور لٹیروں) سے بچتے ہیں۔ پھر اگر وہ اللہ سے ڈرنے کا حکم کرے اور انصاف کرے ، تو اسکو ثواب ہو گا اور اگر اس کے خلاف حکم دے ، تو اس پر وبال ہو گا۔

باب : جو حاکم بنا اور انصاف کیا اس کے لئے کیا کچھ ہے ، اس کا بیان۔

1207: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو لوگ انصاف کرتے ہیں وہ اللہ عزوجل کے پاس اس کی داہنی جانب نور کے منبروں پر ہوں گے اور اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں (یعنی بائیں ہاتھ میں جو داہنے سے قوت کم ہوتی ہے یہ بات اللہ تعالیٰ میں نہیں کیونکہ وہ ہر عیب سے پاک ہے ) اور یہ انصاف کرنے والے وہ لوگ ہیں، جو فیصلہ کرتے وقت انصاف کرتے ہیں اور اپنے بال بچوں اور عزیزوں میں انصاف کرتے ہیں اور جو کام ان کو دیا جائے ، اس میں انصاف کرتے ہیں۔

باب : جو حاکم بنے وہ سختی کرے یا نرمی۔

1208: سیدنا عبدالرحمن بن شماسہ کہتے ہیں کہ میں اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس کچھ پوچھنے کو آیا، تو انہوں نے کہا کہ تو کون سے لوگوں میں سے ہے ؟ میں نے کہا کہ مصر والوں میں سے۔انہوں نے کہا کہ تمہارے حاکم کا تمہاری اس لڑائی میں کیا حال ہے ؟ (یعنی محمد بن ابی بکر کا جن کو سیدنا علی مرتضیؓ  نے قیس بن سعد کو معزول کر کے مصر کا حاکم کیا تھا) میں نے کہا کہ ہم نے تو ان کی کوئی بات بُری نہیں دیکھی، ہم میں سے کسی کا اونٹ مر جاتا، تو اس کو اونٹ دیتے اور غلام فوت ہو جاتا تو، غلام دیتے اور خرچ کی احتیاج ہوتی، تو خرچ دیتے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ محمد بن ابی بکرؓ  میرے بھائی کا جو حال ہوا (کہ مارا گیا اور لاش مرداروں میں پھینکی گئی پھر جلائی گئی) یہ مجھے اس امر کے بیان کرنے سے نہیں روکتا جو رسول اللہﷺ نے اس حجرہ میں فرمایا کہ اے اللہ! جو کوئی میری امت کا حاکم ہو، پھر وہ ان پر سختی کرے ، تو تو بھی اس پر سختی کر اور جو کوئی میری امت کا حاکم ہو اور وہ ان پر نرمی کرے ، تو بھی اس پر نرمی کر۔

باب : دین خیر خواہی کا نام ہے۔

1209: سیدنا تمیم الداریؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: دین خلوص اور خیرخواہی کا نام ہے۔ ہم نے کہا کہ کس کی خیر خواہی؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی اور اس کی کتاب کی اور اس کے رسول کی اور مسلمانوں کے حاکموں کی اور سب مسلمانوں کی۔(یعنی ہر مسلمان اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اور اپنے حاکم کی فرمانبرداری کرے اور ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے حقوق ادا کرے)۔

1210: سیدنا جریرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے نماز پڑھنے ، زکوٰۃ دینے اور ہر مسلمان کی خیرخواہی کرنے پر بیعت کی۔

باب : جس نے رعیت کے ساتھ خیانت کی اور ان کے ساتھ خیر خواہی نہ کی۔

1211: سیدنا حسن کہتے ہیں کہ عبید اللہ بن زیاد، سیدنا معقل بن یسارؓ  کی اس بیماری میں جس میں ان کا انتقال ہوا، عیادت کرنے آیا، تو سیدنا معقلؓ  نے کہا کہ میں تجھ سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں جو کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنی ہے اور اگر میں جانتا کہ میں ابھی زندہ رہوں گا، تو تجھ سے بیان نہ کرتا۔ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ کوئی بندہ ایسا نہیں ہے جس کو اللہ تعالیٰ ایک رعیت دیدے ، پھر وہ مرے اور جس دن وہ مرے وہ اپنی رعیت کے حقوق میں خیانت کرتا ہو مگر اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کر دیگا۔

1212: حسن سے روایت ہے کہ سیدنا عائذ بن عمرو صجو کہ رسول اللہﷺ کے صحابی تھے وہ عبید اللہ بن زیاد کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ اے میرے بیٹے ! میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ سب سے بُرا چرواہا ظالم بادشاہ ہے (جو رعیت کو تباہ کر دے ) تو ایسا نہ ہونا۔ عبید اللہ نے کہا کہ بیٹھ جا تو تو محمدﷺ کے صحابہ کرامؓ کی بھوسی ہے۔ سیدنا عائذؓ  نے کہا کہ کیا رسول اللہﷺ کے صحابہ میں بھی بھوسی ہے ؟ بھوسی تو بعد والوں میں اور غیر لوگوں میں ہے۔

باب : امراء کی (مال غنیمت میں) خیانت کرنے اور اس کے گناہ کبیرہ ہونے کا بیان۔

1213: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک روز (ہمیں نصیحت کرنے کو) کھڑے ہوئے اور آپﷺ نے مالِ غنیمت میں خیانت کے متعلق بیان فرمایا اور اس کو بڑا گناہ بتلایا۔ پھر فرمایا کہ میں تم میں سے کسی کو قیامت کے دن ایسا نہ پاؤں کہ وہ آئے اور اس کی گردن پر ایک اونٹ بڑبڑا رہا ہو، وہ کہے کہ یا رسول اللہﷺ ! میری مدد کیجئے اور میں کہوں کہ مجھے کچھ اختیار نہیں میں نے تمہیں اللہ کا حکم پہنچا دیا تھا۔(نووی علیہ الرحمۃ  نے کہا کہ یعنی میں اللہ کے حکم کے بغیر نہ مغفرت کر سکتا ہوں نہ شفاعت اور شاید پہلے آپﷺ غصہ سے ایسا فرما دیں، پھر شفاعت کریں بشرطیکہ وہ موحد ہو) اور میں تم میں سے کسی کو ایسا نہ پاؤں کو وہ قیامت کے دن اپنی گردن پر ایک گھوڑا لئے ہوئے ہو جو ہنہناتا ہو اور وہ کہے کہ یا رسول اللہﷺ ! میری مدد کیجئے اور میں کہوں کہ مجھے کچھ اختیار نہیں میں تو تجھ سے کہہ چکا تھا (یعنی دنیا میں اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچا دیا تھا کہ خیانت کی سزا بہت بڑی ہے پھر تو نے خیانت کیوں کی) اور میں تم میں سے کسی کو قیامت کے دن ایسا نہ پاؤں کہ وہ اپنی گردن پر ایک بکری لئے ہوئے آئے جو میں میں کر رہی ہو اور وہ کہے کہ یا رسول اللہﷺ ! میری مدد کیجئے۔ اور میں کہوں کہ مجھے کچھ اختیار نہیں ہے میں نے تجھے اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچا دیا تھا۔ اور میں تم میں سے کسی کو ایسا نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن اپنی گردن پر کوئی جان لئے ہوئے آئے جو چلا رہی ہو (جس کا اس نے دنیا میں خون کیا ہو) پھر کہے کہ یا رسول اللہﷺ ! میری مدد کیجئے اور میں کہوں کہ مجھے کچھ اختیار نہیں ہے میں نے تجھے اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچا دیا تھا۔ میں تم میں سے کسی کو ایسا نہ پاؤں کہ جو اپنی گردن پر کپڑے لئے ہوئے آئے جو اس نے اوڑھے ہوئے ہوں (جن کو اس نے دنیا میں چرایا تھا) یا پرچیاں کاغذ کی جو اڑ رہی ہوں (جس میں اس کے اوپر حقوق لکھے ہوں) یا اور چیزیں جو ہل رہی ہوں (جن کو اس نے دنیا میں چرایا تھا) پھر کہے کہ یا رسول اللہﷺ میری مدد کیجئے اور میں کہوں کہ مجھے کچھ اختیار نہیں ہے میں تو تجھے خبر کر چکا تھا۔ اور میں تم میں سے کسی کو قیامت میں ایسا نہ پاؤں کہ وہ اپنی گردن پر سونا چاندی، پیسہ وغیرہ لئے ہوئے آئے اور کہے کہ یا رسول اللہﷺ ! میری مدد کیجئے اور میں کہوں کہ مجھے کچھ اختیار نہیں ہے میں نے تو تجھے خبر کر دی تھی۔

باب : جو چیز امراء (مال غنیمت سے ) چھپائیں وہ چوری ہے۔

1214: سیدنا عدی بن عمیرہ کندیؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ تم میں سے جس شخص کو ہم کسی عہدے پر مقرر کریں، پھر وہ ایک سوئی یا اس سے زیادہ کوئی چیز چھپا رکھے ، تو وہ غلول ہے اور قیامت کے دن اس کو لے کر آئے گا۔ یہ سن کر ایک سانولا سا انصاری کھڑا ہو گیا گویا میں اس کو دیکھ رہا ہوں اور بولا کہ یا رسول اللہﷺ ! اپنا عہدہ مجھ سے لے لیجئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تجھے کیا ہوا؟ وہ بولا کہ میں نے سنا کہ آپﷺ ایسا ایسا فرماتے تھے (یعنی ایک سوئی کا بھی مواخذہ ہو گا)، آپﷺ نے فرمایا کہ میں کہتا ہوں کہ اب بھی ہم جس کو کسی عہدے پر مقرر کریں، تو وہ تھوڑی یا زیادہ سب چیزیں لے کر آئے۔ پھر جو اس کو ملے وہ لے لے اور جو نہ ملے اس سے باز رہے (اس صورت میں کوئی بھی مواخذہ نہیں ہے )۔

باب : امراء کے ”تحفوں“ کے بارے میں۔

1215: سیدنا ابو حمید ساعدیؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے قبیلہ اسد میں سے ایک شخص کو جسے ابن اللنبیۃ کہتے تھے ، بنی سلیم کے صدقات و زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر کیا۔ جب وہ آیا، تو آپﷺ نے اس سے حساب لیا۔ وہ کہنے لگا کہ یہ تو آپ کا مال ہے اور یہ تحفہ ہے (جو لوگوں نے مجھے دیا ہے ) آپﷺ نے فرمایا کہ تو اپنے ماں باپ کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا کہ تیرا تحفہ تیرے پاس آ جاتا، اگر تو سچاہے ؟۔ پھر آپﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی تعریف اور ستائش کے بعد فرمایا کہ میں تم میں سے کسی کو ان کاموں میں سے کسی کام پر مقرر کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے دئیے ہیں، پھر وہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے تحفہ ملا ہے۔ بھلا وہ اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھا رہا کہ اس کا تحفہ اس کے پاس آ جاتا اگر وہ سچا ہے ؟ قسم اللہ کی کوئی تم میں سے کوئی چیز ناحق نہ لے گا مگر قیامت کے دن اس (چیز) کو (اپنی گردن پر) لادے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ملے گا، اور میں تم میں سے پہچانوں گا جو کوئی اللہ تعالیٰ سے اونٹ اٹھائے ہوئے ملے گا اور وہ بڑبڑا رہا ہو گا، یا گائے اٹھائے ہوئے اور وہ آواز کرتی ہو گی یا بکری اٹھائے ہوئے اور وہ چلاتی ہو گی۔ پھر آپﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا یہاں تک کہ آپﷺ کی بغلوں کی سفیدی دکھلائی دی اور آپﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! میں نے (تیرا پیغام) پہنچا دیا۔ (سیدنا ابو حمیدؓ  کہتے ہیں کہ) میری آنکھ نے یہ دیکھا اور میرے کان نے یہ سنا۔

باب : درخت کے نیچے نبیﷺ نے ”نہ بھاگنے “ پر بیعت لی تھی۔

1216: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ ہم حدیبیہ کے دن ایک ہزار چار سو آدمی تھے اور ہم نے رسول اللہﷺ کی بیعت کی اور سیدنا عمرؓ  آپﷺ کاہاتھ پکڑے ہوئے شجرہ رضوان کے نیچے تھے اور وہ سمرہ کا درخت تھا (سمرہ ایک جنگلی درخت ہے جو ریگستان میں ہوتا ہے ) اور ہم نے آپﷺ سے اس شرط پر بیعت کی کہ ہم نہ بھاگیں گے اور یہ بیعت نہیں کی کہ مر جائیں گے۔

1217: سیدنا سالم بن ابی الجعد کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے اصحاب شجرہ کے بارے میں پوچھا کہ وہ کتنے آدمی تھے ؟ انہوں نے کہا کہ اگرہم لاکھ آدمی ہوتے تب بھی (وہاں کا کنواں) ہمیں کافی ہو جاتا (کیونکہ نبیﷺ کی دعا سے اس کا پانی بہت بڑھ گیا تھا) ہم پندرہ سو آدمی تھے۔

1218: سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفیؓ  کہتے ہیں کہ اصحابِ شجرہ تیرہ سو آدمی تھے اور (قبیلہ) اسلم کے لوگ مہاجرین کا آٹھواں حصہ تھے۔

باب : موت پر بیعت لینا۔

1219: یزید بن ابی عبید کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا سلمہؓ  سے پوچھا کہ آپ نے حدیبیہ کے دن رسول اللہﷺ سے کس چیز پر بیعت کی تھی تو انہوں نے کہا کہ موت پر بیعت کی تھی۔

باب : حسبِ طاقت (سمع و اطاعت) ”سننے اور ماننے “ پر بیعت کرنا۔

1220: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ سے بات سننے پر اور حکم ماننے پر بیعت کرتے تھے اور آپﷺ یہ فرماتے تھے کہ یہ بھی کہو کہ جتنا مجھ سے ہو سکے گا۔ (یہ آپﷺ کی اپنی امت پر شفقت تھی کہ  جوکام نہ ہو سکے اس کے نہ کرنے پر وہ گنہگار نہ ہوں)۔

باب : سوائے صریح کفر کے باقی ہر معاملہ میں ”سننے اور ماننے “ پر بیعت کرنا۔

1221: جنادہ بن ابی امیہ کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عبادہ بن صامتؓ  کے پاس ان کی بیماری میں گئے۔ ہم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت دے ہم سے کوئی ایسی حدیث بیان کرو جس سے اللہ تعالیٰ فائدہ دیدے اور جو آپ نے رسول اللہﷺ سے سنی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے بلایا اور ہم نے آپﷺ سے بیعت کی اور آپﷺ نے جو عہد لئے ان میں یہ بھی بتایا کہ ہم نے بیعت کی بات کے سننے پر اور اطاعت کرنے پر خوشی اور نا خوشی میں سختی اور آسانی میں اور ہماری حق تلفیاں ہونے میں اور یہ کہ ہم اس شخص کی خلافت میں جھگڑا نہ کریں گے جو اس کے لائق ہو مگر جب کھلا کھلا کفر دیکھیں کہ تمہارے پاس اللہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت ہو۔

باب : ہجرت کر کے آنے والی مومنات سے بیعت کے وقت امتحان لینا۔

1222: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مسلمان عورتیں جب ہجرت کرتیں تو آپﷺ اس آیت کے موفق ان کا امتحان لیتے کہ ”اے نبی! جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں بیعت کرنے کو آئیں اس بات پر کہ وہ کسی کو اللہ کا شریک نہ کریں گی اور چوری نہ کریں گی اور زنا نہ کریں گی… آخر تک“ (الممتحنہ:12) پھر جو کوئی عورت ان باتوں کا اقرار کرتی وہ گویا بیعت کا اقرار کرتی (یعنی بیعت ہو جاتی( اور رسول اللہﷺ سے جب وہ اپنی زبان سے اقرار کرتیں، تو فرماتے کہ جاؤ میں تم سے بیعت لے چکا۔ قسم اللہ تعالیٰ کی آپﷺ کا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ سے نہیں چھوا البتہ زبان سے آپﷺ ان سے بیعت لیتے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے عورتوں سے کوئی اقرار نہیں لیا مگر جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا اور آپﷺ کی ہتھیلی کسی عورت کی ہتھیلی سے کبھی نہیں لگی بلکہ آپﷺ صرف زبان سے فرما دیتے اور جب وہ اقرار کر لیتیں، تو فرماتے کہ میں تم سے بیعت کر چکا۔

باب : حاکم کی اطاعت کرنا۔

1223: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور جو کوئی حاکم کی اطاعت کرے (جس کو میں نے مقرر کیا)، تو اس نے میری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی۔

باب : جو (حاکم) اللہ تعالیٰ کی کتاب کے موافق عمل کرے ، اس کی بات سننا اور اطاعت کرنی چاہیئے۔

1224: یحییٰ بن حصین کی دادی اُمّ حصین رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ ٍحجۃ الوداع میں حج کیا، تو آپﷺ نے بہت سی باتیں فرمائیں۔ پھر میں نے سنا کہ آپﷺ فرماتے تھے کہ اگر تمہارے اوپر ہاتھ پاؤں کٹا، کالا غلام بھی امیر ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے موافق تم کو چلانا چاہے ، تو اس کی بات کو سنو اور اس کی اطاعت کرو۔

باب : اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت واجب نہیں ہے ، اطاعت تو نیکی میں ہوتی ہے۔

1225: امیر المؤمنین سیدنا علیؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک لشکر بھیجا اور اس پر ایک شخص کو حاکم (امیر) بنایا۔ اس نے آگ جلائی اور لوگوں سے کہا کہ اس میں داخل ہو جاؤ۔ بعض لوگوں نے چاہا کہ اس میں داخل ہو جائیں اور بعض نے کہا کہ ہم آگ سے بھاگ کر تو مسلمان ہوئے (اور جہنم سے ڈر کر کفر چھوڑا تو اب پھر آگ ہی میں گھسیں تو یہ ہم سے نہ ہو گا)۔ پھر اس کا ذکر رسول اللہﷺ سے کیا، تو آپﷺ نے ان لوگوں سے جنہوں نے داخل ہونے کا ارادہ کیا تھا یہ فرمایا کہ اگر تم داخل ہو جاتے تو قیامت تک ہمیشہ اسی میں رہتے (کیونکہ یہ خودکشی ہے اور شریعت میں حرام ہے ) اور جو لوگ داخل ہونے پر راضی نہ ہوئے ،اُن کی تعریف کی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ہے بلکہ اطاعت اسی میں ہے جو جائز بات ہے۔

باب : جب گناہ کا حکم کیا جائے ، تو نہ سننا چاہیئے اور نہ ماننا چاہیئے۔

1226: سیدنا ابن عمرؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: مسلمان پر (حاکم کی بات کا) سننا اور ماننا واجب ہے خواہ اس کو پسند ہو یا نہ ہو مگر جب گناہ کا حکم کیا جائے ، تو نہ سننا چاہئیے نہ ماننا چاہئیے۔

باب : امراء کی اطاعت کرنی چاہیئے اگرچہ انہوں نے حقوق کو روک رکھا ہو۔

1227: وائل الحضرمی کہتے ہیں کہ سلمہ بن زید جعفیؓ  نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ اے اللہ کے نبیﷺ ! اگر ہمارے امیر ایسے مقرر ہوں جو اپنا حق ہم سے طلب کریں اور ہمارا حق نہ دیں، تو آپﷺ ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپﷺ نے اعراض فرمایا (یعنی جواب نہ دیا) پھر پوچھا، تو آپﷺ نے پھر جواب نہ دیا۔ پھر دوسری یا تیسری مرتبہ پوچھا، تو اشعث بن قیس نے سلمہؓ  کو گھسیٹا اور کہا کہ سنو اور اطاعت کرو۔ ان پر ان کے اعمال کا بوجھ ہے اور تم پر تمہارے اعمال کا۔ایک اور روایت میں ہے کہ اشعث بن قیس نے انہیں گھسیٹا، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سنو اور اطاعت کرو۔ ان کے اعمال ان کے ساتھ ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے ساتھ ہیں۔

باب : بہترین حاکم اور برے حاکم کی وضاحت و شناخت۔

1228: سیدنا عوف بن مالکؓ  رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: تمہارے بہتر حاکم وہ ہیں جن کو تم چاہتے ہو اور وہ تمہیں چاہتے ہیں اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں اور تم ان کے لئے دعا کرتے ہو۔ اور تمہارے بُرے حاکم وہ ہیں جن کے تم دشمن ہو اور وہ تمہارے دشمن ہیں ، تم ان پر لعنت کرتے ہو اور وہ تم پر لعنت کرتے ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! ہم ایسے بُرے حاکموں کو تلوار سے دفع نہ کریں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں جب تک کہ وہ تم میں نماز کو قائم کرتے رہیں۔ اور جب تم اپنے حاکموں کی طرف سے کوئی ناپسندیدہ بات دیکھو، تو ان کے اس عمل کو بُرا جانو لیکن ان کی اطاعت سے باہر نہ ہو (یعنی بغاوت نہ کرو)۔

باب : امراء کے کردار کو برا کہنا اور جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں، ان کے ساتھ لڑائی نہ کرنا۔

1229: اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا نبیﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: تم پر ایسے امیر مقرر ہوں گے جن کے تم اچھے کام بھی دیکھو گے اور بُرے بھی۔ پھر جو کوئی بُرے کام کو بُرا جانے وہ گناہ سے بچا اور جس نے بُرا کہا وہ بھی بچا، لیکن جو راضی ہوا اور اسی کی پیروی کی (وہ تباہ ہوا)۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! ہم ان سے لڑیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔ بُرا کہا یعنی دل میں بُرا کہا اور دل سے بُرا جانا۔ (گو زبان سے نہ کہہ سکے )۔

باب : حق تلفی پر صبر کا حکم۔

1230: سیدنا اسید بن حضیرؓ  سے روایت ہے کہ انصار میں سے ایک شخص نے الگ ہو کر رسول اللہﷺ سے کہا کیا آپ مجھے بھی فلاں شخص کی طرح عامل (گورنر یا محصل) نہیں بنائیں گے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد تمہاری حق تلفی ہو گی تو صبر کرنا، یہاں تک کہ مجھ سے حوضِ کوثر پر ملو۔

باب : فتنوں کے وقت جماعت کو لازم پکڑنے کا حکم۔

1231: سیدنا حذیفہ بن الیمانؓ  کہتے ہیں لوگ رسول اللہﷺ سے بھلی باتوں کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور میں بُری بات کے بارے میں اس ڈر سے پوچھتا تھا کہ کہیں بُرائی میں نہ پڑ جاؤں۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! ہم جاہلیت اور بُرائی میں تھے ، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بھلائی دی (یعنی اسلام) اب اس کے بعد بھی کچھ بُرائی ہو گی؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں۔لیکن اس میں دھبہ ہو گا۔ میں نے کہا کہ وہ دھبہ کیسا ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنت پر چلنے کی بجائے دوسرے راستے پر چلیں گے اور میری ہدایت و راہنمائی کی بجائے (کسی اور راستی پر چلیں گے )۔ ان میں اچھی باتیں بھی ہوں گی اور بُری بھی۔ میں نے عرض کیا پھر اس کے بعد بُرائی ہو گی؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو جہنم کے دروازے کی طرف لوگوں کو بلائیں گے۔ جو ان کی بات مانے گا، اس کو جہنم میں ڈال دیں گے۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ ! ان لوگوں کا حال ہم سے بیان فرمائیے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ان کا رنگ ہمارا سا ہی ہو گا اور ہماری ہی زبان بولیں گے (یعنی ہم میں سے ہی ہوں گے )۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! اگر میں اس زمانہ کو پا لوں تو کیا کروں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کا ساتھ لازم پکڑ۔ کہا کہ اگر جماعت اور امام نہ ہوں؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ تو سب فرقوں کو چھوڑ دے اگرچہ تجھے درخت کی جڑیں ہی کیوں نہ چبانی پڑیں اور مرتے دم تک اس حال پر رہ۔

نوٹ: اس حدیث میں ”… کچھ بُرائی ہو گی“ سے مراد سیدنا علیؓ  کی شہادت کے ذمہ دار خارجی اور شیعہ لوگوں کی برائی ہے۔ پھر دھبہ سے مراد عبدالعزیز رحمۃ اللہ کے بعد اور بنو عباس کا دور ہے جس میں بدعات ہر طرف پھیل گئیں۔ اسکے بعد ’… بُرائی ہو گی‘؟ سے مراد آج کل کا ”جمہوری دور“ ہے جس میں بے دینی پھیل گئی ہے اور حکمران عوام کو کھلے عام کفر کی طرف دھکیل رہے ہیں

باب : اس آدمی کے بارے میں جو اطاعت سے نکل گیا اور جماعت سے جدا ہوا۔

1232: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جو شخص حاکم کی اطاعت سے باہر ہو جائے اور جماعت کا ساتھ چھوڑ دے پھر اسی حال میں فوت ہو جائے تو اس کی موت جاہلیت کی سی ہو گی۔ اور جو شخص اندھے جھنڈے کے نیچے لڑے (جس لڑائی کی صحت شریعت سے صاف صاف ثابت نہ ہو)، عصبیت کے لئے غصے میں آئے ؟ عصبیت کی دعوت دے یا عصبیت کو ہوا دے #(اور اللہ کی رضامندی مقصود نہ ہو) پھر مارا جائے تو اس کا مارا جانا جاہلیت کے زمانے کا سا ہو گا۔ اور جو شخص میری امت پر دست درازی کرے اور اچھے برے کی تمیز کئے بغیر قتل و غارت کرے اور مومن کو بھی نہ چھوڑے اور جس سے عہد ہوا ہو اس کا عہد پورا نہ کرے ، تو وہ مجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور میں اس سے کوئی تعلق نہیں رکھتا (یعنی وہ مسلمان نہیں ہے )۔

# دراصل ”عصبة“ آدمی کے آبائی رشتہ داروں کو کہا جاتا ہے۔

1233: نافع کہتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  عبد اللہ بن مطیع کے پاس آئے ، جب یزید بن معاویہ کے دور میں حرہ کا واقعہ ہوا (اس نے مدینہ منورہ پر لشکر بھیجا اور مدینہ والے حرہ میں جو مدینہ سے ملا ہوا ایک مقام ہے ، قتل ہوئے اور مدینہ والوں پر طرح طرح کے ظلم ہوئے ) عبد اللہ بن مطیع نے کہا کہ ابو عبدالرحمن (یہ سیدنا عبد اللہ بن عمر کی کنیت ہے ) کے لئے تکیہ یا گدہ بچھاؤ۔ انہوں نے کہا کہ میں تیرے پاس بیٹھنے کے لئے نہیں آیا بلکہ ایک حدیث تجھے سنانے کو آیا ہوں جو میں نے رسول اللہﷺ سے سنی ہے آپﷺ فرماتے تھے کہ جو شخص اپنا ہاتھ اطاعت سے نکال لے ، وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے ملے گا اور اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو گی اور جو شخص مر جائے اور اس نے کسی سے بیعت نہ کی ہو، تو اس کی موت جاہلیت کی سی ہو گی۔

باب : اس آدمی کے بارے میں جو امت کے اتفاق کو بگاڑے جبکہ امت متحد و متفق تھی۔

1234: سیدنا عرفجہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ فتنے اور فساد قریب ہیں۔ پھر جو کوئی اس اُمت کے اتفاق کو بگاڑنا چاہے وہ جو کوئی بھی ہو، اس کو قتل کر دو۔

باب : جو ہمارے اوپر ہتھیار اٹھائے ، وہ ہم میں سے نہیں۔

1235: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص ہم پر ہتھیار اٹھائے ، وہ ہم میں سے نہیں ہے اور جو شخص ہمیں دھوکہ دے ، وہ بھی ہم میں سے نہیں ہے۔

باب : اللہ تعالیٰ کی رسی کو پکڑے رکھنے کا حکم اور تفرقہ بازی سے باز رہنے کے متعلق۔

1236: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے تین باتوں کو پسند کرتا ہے اور تین باتوں کو ناپسند۔ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور اس کی رسی (کتاب و سنت) کو سب مل کر پکڑے رہو اور پھوٹ مت ڈالو اور اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے بے فائدہ بک بک کرنے کو، کثرت سوال کو (یعنی ان مسائل کا پوچھنا جن کی ضرورت نہ ہو یا ان باتوں کا جن کی حاجت نہ ہو یا جن کا پوچھنا دوسرے کو ناگوار گزرے ) اور مال و دولت تباہ کرنے کو (ناپسند کرتا ہے جیسے بدعات میں، شراب نوشی، جوا، سگریٹ، پتنگ اور آتش بازی وغیرہ میں)۔

باب : بدعات والے کام مردود ہیں۔

1237: سعد بن ابراہیم کہتے ہیں کہ میں نے قاسم بن محمد سے اس آدمی کے متعلق سوال کیا جس کے تین گھر ہیں اور اس نے ہر گھر میں ثلث (تیسرے حصے ) کی وصیت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مکان میں تین ثلث اکھٹے کئے جائیں گے۔ پھر کہا کہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص ایسا کام کرے جس کے (کرنے کے ) لئے ہمارا حکم نہ ہو (یعنی دین میں ایسا نیا عمل نکالے ) تو وہ مردود ہے۔

باب : اس آدمی کے متعلق جو لوگوں کو نیکی کا حکم کرتا ہے اور خود (وہ کام) نہیں کرتا۔

1238: سیدنا اسامہ بن زیدؓ  کہتے ہیں کہ ان سے کہا گیا کہ تم سیدنا عثمانؓ  کے پاس جا کر ان سے گفتگو نہیں کرتے ؟ انہوں نے کہا کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ میں ان سے گفتگو نہیں کرتا میں تم کو سناؤں؟ اللہ کی قسم میں ان سے باتیں کر چکا جو مجھے اپنے اور ان کے درمیان کرنا تھیں، البتہ میں نے یہ نہیں چاہا کہ وہ بات کھولوں جس کا کھولنے والا پہلے میں ہی ہوں اور میں کسی کو جو مجھ پر حاکم ہو یہ نہیں کہتا کہ وہ سب لوگوں میں بہتر ہے (یعنی خوشامد نہیں کرتا)۔ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ قیامت کے دن ایک شخص لایا جائے گا پھر وہ جہنم میں ڈالا جائے گا، تو اس کے پیٹ کی آنتیں باہر نکل آئیں گی وہ ان کو لئے گدھے کی طرح جو چکی پیستا ہے ، چکر لگائے گا اور جہنم والے اس کے پاس اکٹھے ہوں گے اور پوچھیں گے کہ اے فلاں! تجھے کیا ہوا؟ کیا تو اچھی بات کا حکم نہیں کرتا تھا اور بُری بات سے منع نہیں کرتا تھا؟وہ کہے گا کہ میں ایسا تو کرتا تھا لیکن دوسروں کو اچھی بات کا حکم کرتا اور خود نہیں کرتا تھا اور دوسروں کو بُری بات سے منع کرتا اور خود اس سے باز نہیں رہتا تھا۔

 

 

 

 

کتاب: شکار اور ذبح کے مسائل

 

باب : تیر کے ساتھ شکار اور تیر مارتے وقت بسم اللہ کہنا۔

1239: سیدنا عدی بن حاتمؓ  کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تو اپنا (شکاری) کتا چھوڑے ، تو اللہ کا نام لے (کر چھوڑ) پھر اگر وہ تیرے شکار کو روک لے اور تو اس کو زندہ پائے ، تو اس کو ذبح کراور اگر مار ڈالے اور کھائے نہیں، تو تو اس کو کھا لے اور اگر تیرے کتے کے ساتھ دوسرا کتا ملے اور جانور مارا جاچکا ہو، تو اس کو مت کھا کیونکہ معلوم نہیں کس نے اس کو مارا۔ اور جو تو اللہ کا نام لے کر تیر مارے پھر اگر تیرا شکار (تیر کھا کر) ایک دن تک غائب رہے ، اس کے بعد تو اس میں اپنے تیر کے سوا اور کسی مار کا نشان نہ پائے ، تو اگر تیرا جی چاہے تو اسے کھا لے اور اگر تو اس کو پانی میں ڈوبا ہوا پائے تو مت کھا۔

باب : کمان کے ساتھ اور سدھائے ہوئے کتے اور غیر سدھائے ہوئے کتے کے شکار کے متعلق۔

1240: سیدنا ابو ثعلبہ خشنیؓ  کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ ! ہم اہل کتاب (یعنی یہود یا نصاریٰ) کے ملک میں رہتے ہیں، ان کے برتنوں میں کھانا کھاتے ہیں اور ہمارا ملک شکار کا ملک ہے ، تو میں اپنی کمان سے ، سکھائے ہوئے کتے اور اس کتے سے شکار کرتا ہوں جو سکھایا نہیں گیا، تو مجھ سے وہ طریقہ بیان کیجئے جو کہ حلال ہو۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تو نے جو کہا کہ میں اہلِ کتاب کے ملک میں ہیں اور ان کے برتنوں میں کھاتے ہیں تو اگر تم کو اور برتن مل سکیں، تو ان کے برتنوں میں مت کھاؤ اور اگر اور برتن نہ ملیں تو ان کو دھو لو اور پھر ان میں کھاؤ۔ اور جو تو نے ذکر کیا ہے کہ تم شکار کی زمین میں رہتے ہو پس جس کو تیر پہنچے اور تو اس پر اللہ کا نام لے کر چھوڑے ، تو اسے کھا لے اور اگر تو اپنے شکاری کتے سے شکار کرے اور اس پر اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہو تو کھا لے اور اگر ایسے کتے کا شکار ہو جو شکاری نہ ہو اور تو اسے زندہ پا لے تو ذبح کر کے کھا لے۔

باب : معراض کے شکار اور کتے کو چھوڑنے کے وقت بسم اللہ کہنے کے متعلق

1241: سیدنا عدی بن حاتمؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے معراض کے شکار کے بارے میں پوچھا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ جب لاٹھی کی لوہے والی طرف لگے تو کھا لے اور جب لکڑی والی طرف لگے اور مر جائے ، تو وہ وقیذ ہے (یعنی موقوذہ ہے جو پتھر یا لکڑی سے مارا جائے اور وہ قرآن پاک میں حرام ہے ) اس کو مت کھا اور میں نے رسول اللہﷺ سے کتے کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ جب تو اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اپنا کتا چھوڑے ، تو کھا لے لیکن اگر کتا شکار میں سے کھا لے تو مت کھا کیونکہ اس نے اپنے لئے شکار کیا۔ میں نے کہا کہ اگر میں اپنے کتے کے ساتھ دوسرے کتے کو پاؤں اور یہ معلوم نہ ہو کہ کس کتے نے پکڑا ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو مت کھا کیونکہ تو نے اپنے کتے پر بسم اللہ کہی تھی اور دوسرے کتے پر نہیں کہی تھی۔

باب : جب شکاری سے شکار غائب ہو جائے ، پھر وہ اسے پالے۔

1242: سیدنا ابو ثعلبہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنا شکار تین روز کے بعد پائے ، تو اگر وہ بدبو دار نہ ہو گیا ہو تو اس کو کھا لے۔

باب : شکاری کتا اور جانوروں کی حفاظت کے لئے کتا پالنا جائز ہے۔

1243: سیدنا ابن عمرؓ نبی اسے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جو شخص کتا پالے بشرطیکہ وہ شکاری نہ ہو اور نہ جانوروں کی حفاظت کے لئے ہو، تو اس کے ثواب میں سے ہر روز دو قیراط گھٹتے جائیں گے۔ (ایک قیراط احد پہاڑ کے برابر ثواب کو کہا جاتا ہے )۔

1244: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص (بلا ضرورت) کتا پالے مگر یہ کہ وہ ریوڑ یا شکار یا کھیت کے لئے ہو تو (بصورتِ دیگر) اس کے ثواب میں سے ہر روز ایک قیراط (ثواب) کم ہو گا۔ زہری (راوی) نے کہا کہ سیدنا ابن عمرؓ  سے سیدنا ابو ہریرہؓ  کے قول کا ذکر ہوا کہ وہ کھیت کے کتے کو بھی مستثنیٰ کرتے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ابو ہریرہؓ  پر رحم کرے وہ کھیت والے تھے۔ (لیکن راوی زہری کا یہ اثر منقطع ہے کیونکہ مسلم میں ہی ابن عمرؓ  کی حدیث میں کھیتی کی حفاظت کے لئے کتا رکھنے کی اجازت موجود ہے )۔

باب : کتوں کو مارنے کے متعلق۔

1245: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے کتوں کے مارنے کا حکم کیا یہاں تک کہ عورت جنگل سے اپنا کتا لے کر (مدینہ میں) آتی تو ہم اس کو بھی مار ڈالتے۔ پھر آپﷺ نے کتوں کے قتل سے منع فرمایا اور کہا کہ اس سیاہ کتے کو مار ڈالو جس کی آنکھ پر دو سفید نقطے ہوں کیونکہ وہ شیطان ہوتا ہے۔

باب : کنکریاں پھینکنے سے منع کرنے کے متعلق۔

1246: سیدنا سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن مغفلؓ  نے اپنے پاس ایک آدمی کو کنکریاں پھنکتے ہوئے دیکھا تو اسے منع کیا اور کہا کہ بیشک رسول اللہﷺ کنکریاں پھینکنے سے منع کیا ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ بیشک اس سے نہ شکار ہوتا ہے ، نہ دشمن مرتا ہے بلکہ (جب کسی کے لگتی ہے تو) دانت ٹوٹ جاتا ہے یا آنکھ پھوٹ جاتی ہے۔ راوی نے کہا کہ پھر سیدنا عبد اللہؓ  نے اس کو کنکریاں پھینکتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ میں نے تجھ سے رسول اللہﷺ کی حدیث بیان کی کہ آپﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ تو پھر کنکریاں پھینکے جاتا ہے ، اب میں تجھ سے کبھی کلام نہ کروں گا۔ (خذف کنکری یا گٹھلی یا ان کے مانند کوئی اور چیز دو انگلیوں کے درمیان میں رکھ کر یا انگلی اور انگوٹھے کے درمیان میں رکھ کر مارنے کو کہتے ہیں)۔

باب : جانوروں کو باندھ کر مارنے کی ممانعت ہے۔

1247: ہشام بن زید بن انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں اپنے دادا انس بن مالکؓ  کے ساتھ حکم بن ایوب کے گھر گیا اور وہاں کچھ لوگوں نے ایک مرغی کو نشانہ بنایا ہوا تھا اور اس پر تیر اندازی کر رہے تھے تو سیدنا انسؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے جانوروں کو باندھ کر مارنے سے منع فرمایا ہے۔

1248: سیدنا سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمرؓ  قریش کے چند جوانوں پر گزرے ، انہوں نے ایک پرندہ باندھ کر اسے ہدف بنایا ہوا تھا اور اس کو تیر مار رہے تھے اور جس کا پرندہ تھا اس سے یہ معاہدہ تھا کہ جو تیر نشانے پر نہ لگے اس تیر کو وہ لے لے۔ جب ان لوگوں نے سیدنا ابن عمرؓ  کو دیکھا تو الگ ہو گئے۔ سیدنا ابن عمرؓ  نے کہا کہ یہ کس نے کیا ہے ؟ جس نے یہ کیا ہے اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ بیشک رسول اللہﷺ نے کسی جاندار چیز کو نشانہ بنانے والے پر لعنت کی ہے۔

باب : اچھے طریقے سے ذبح کرنے اور چھری تیز کرنے کے متعلق حکم۔

1249: سیدنا شداد بن اوسؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے دو باتیں یاد رکھیں ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر کام میں بھلائی فرض کی ہے حتی کہ جب تم قتل کرو تو اچھی طرح سے قتل کرو اور جب تم ذبح کرو تو اچھی طرح سے ذبح کرو اور چاہئیے کہ تم میں سے جو کوئی ذبح کرنا چاہے ، وہ چھری کو تیز کر لے اور اپنے جانور کو آرام دے (اور یہی مستحب ہے کہ جانور کے سامنے تیز نہ کرے اور نہ ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کرے اور نہ ذبح کرنے سے پہلے کھینچ کر لے جائے )۔

باب : خون بہانے والی چیز سے ذبح کرنے کا حکم اور دانت اور ناخن سے ذبح کرنے کی ممانعت۔

1250: سیدنا رافع بن خدیجؓ  کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! ہم کل دشمن سے لڑنے والے ہیں اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں؟۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جلدی کر یا ہوشیاری کر جو خون بہا دے اور اللہ کا نام لیا جائے اس کو کھا لے ، سوا دانت اور ناخن کے۔ اور میں تجھ سے کہوں گا اس کی وجہ یہ ہے کہ دانت ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھریاں ہیں۔ راوی نے کہا کہ ہمیں مالِ غنیمت میں اونٹ اور بکریاں ملیں، پھر ان میں سے ایک اونٹ بگڑ گیا، ایک شخص نے اس کو تیر سے مارا تو وہ ٹھہر گیا۔ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ان اونٹوں میں بھی بعض بگڑ جاتے ہیں اور بھاگ نکلتے ہیں جیسے جنگلی جانور بھاگتے ہیں۔ پھر جب کوئی جانور ایسا ہو جائے تو اس کے ساتھ یہی کرو۔ (یعنی دور سے تیر سے نشانہ کرو)۔

 

 

 

 

کتاب: قربانی کے مسائل

 

باب : (جب ذوالحجہ کے شروع کے ) دس دن آ جائیں اور کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔

1251: اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس کے پاس ذبح کرنے کے لئے جانور ہو اور ذی الحجہ کا چاند نظر آ جائے تو اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے ، جب تک قربانی نہ کر لے۔

باب : اس وقت کا بیان جس میں قربانی ذبح کی جا سکتی ہے۔

1252: سیدنا جندب بن سفیانؓ  کہتے ہیں کہ میں نبیﷺ کے ساتھ عید الاضحیٰ میں شریک ہوا، آپﷺ نے ابھی کچھ بھی نہ کیا تھا سوائے اس کے کہ آپﷺ نے (عید کی) نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہوئے ، سلام پھیرا کہ اچانک آپﷺ نے قربانی کی بکری دیکھی کہ وہ نماز سے پہلے ذبح کی جا چکی ہے۔ چنانچہ آپﷺ نے فرمایا کہ جس نے قربانی نماز عید سے پہلے کر لی تو اس قربانی کی جگہ دوسری قربانی کرے اور جس نے قربانی نہیں کی تو وہ اللہ کے نام کے ساتھ قربانی ذبح کر دے۔

باب : جس نے قربانی کا جانور نمازِ (عید) سے پہلے ذبح کر دیا، وہ اس کی قربانی نہیں۔

1253: سیدنا براء بن عازبؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کہ سب سے پہلے جو کام ہم اس دن کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ (عید کی) نماز پڑھتے پھر (گھر کو) لوٹ کر قربانی کرتے ہیں۔ تو جو کوئی ایسا کرے وہ ہمارے طریقہ پر چلا اور جو (نماز سے پہلے ) ذبح کرے تو وہ گوشت ہے جس کو اس نے اپنے گھر والوں کے لئے تیار کیا (اور وہ) قربانی نہ ہو گی۔ اور سیدنا ابو بردہ بن نیارؓ  ذبح کر چکے تھے۔ وہ بولے کہ میرے پاس (ایک برس سے کم کا) ایک جذعہ ہے جو مسنہ (ایک برس سے زیادہ عمر کے دوندے ) سے بہتر ہے ، آپﷺ نے فرمایا کہ تو اس کو ذبح کر لے اور تیرے بعد کسی کو جائز نہیں ہے۔

باب : کس عمر کے جانور قربانی میں جائز ہیں؟

1254: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قربانی میں مت ذبح کر مگر مسنہ (جو ایک برس کا ہو کر دوسرے میں لگا ہو یعنی دوندا) البتہ جب تمہیں ایسا جانور نہ ملے تو دنبہ کا جذعہ قربان کر لو (جو چھ مہینہ کا ہو کر ساتویں میں لگا ہو)۔

باب : جذع کی قربانی۔

1255: سیدنا عقبہ بن عامرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں قربانی کی بکریاں بانٹیں تو میرے حصہ میں ایک جذعہ (ایک برس کا بچہ)آیا۔ تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میرے حصہ میں ایک جذعہ آیا ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ تو اسی کی قربانی کر۔

باب : دو مینڈھوں کی قربانی جو سفید و سیاہ سینگوں والے ہوں اور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے اور بسم اللہ اور اللہ اکبر کہنے میں استحباب کا بیان۔

1256: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے دو مینڈھوں کی قربانی کی جو سفید اور سیاہ، سینگ دار تھے۔ میں نے آپﷺ کو اپنے دستِ مبارک سے ذبح کرتے ہوئے دیکھا اور یہ کہ (ذبح کے وقت) آپﷺ اپنا پاؤں ان کی گردن پر رکھے ہوئے تھے۔ اور یہ کہ آپﷺ نے (ذبح کے وقت) بسم اللہ اللہ اکبر کہا۔

باب : نبیﷺ کا اپنی طرف سے اور اپنی آل اور اپنی امت کی طرف سے قربانی ذبح کرنا۔

1257: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا جو سیاہی میں چلتا ہو، سیاہی میں بیٹھتا ہو اور سیاہی میں دیکھتا ہو (یعنی پاؤں، پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں)۔ پھر ایک ایسا مینڈھا قربانی کے لئے لایا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ! چھری لا۔ پھر فرمایا کہ اس کو پتھر سے تیز کر لے۔ میں نے تیز کر دی۔ پھر آپﷺ نے چھری لی، مینڈھے کو پکڑا، اس کو لٹایا، پھر ذبح کرتے وقت فرمایا کہ بسم اللہ، اے اللہ! محمدﷺ کی طرف سے اور محمدﷺ کی آل کی طرف سے اور محمدﷺ کی امت کی طرف سے اس کو قبول کر، پھر اس کی قربانی کی۔

باب : قربانی کا گوشت تین دن کے بعد کھانے کی ممانعت۔

1258: ابو عبید مولیٰ ابن ازہر سے روایت ہے کہ انہوں نے عید کی نماز سیدنا عمرؓ  کے ساتھ پڑھی۔ کہتے ہیں کہ پھر میں نے علیؓ  بن ابی طالب کے ساتھ نمازِ (عید) پڑھی، انہوں نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی۔ پھر لوگوں کو خطبہ سنایا اور کہا کہ رسول اللہﷺ نے قربانیوں کا گوشت تین دن سے زیادہ کھانے سے منع فرمایا ہے تو (تین دن کے بعد) مت کھاؤ (بلکہ تین دن تک کھاؤ اور خیرات بھی کرو)۔

باب : تین دن کے بعد قربانی کا گوشت (کھانے ) کی اجازت اور ذخیرہ کرنے ، سفر میں لے جانے اور صدقہ کرنے کے بیان میں۔

1259: عبد اللہ بن ابو بکر سیدنا عبد اللہ بن واقدؓ  سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے قربانیوں کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع فرمایا ہے۔ عبد اللہ بن ابو بکر کہتے ہیں کہ میں نے یہ عمرہ سے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ عبد اللہ نے سچ کہا، میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ کہتی تھیں کہ رسول اللہﷺ کے عہد میں دیہات کے چند لوگ عید الاضحیٰ میں شریک ہونے کو آئے (اور وہ محتاج لوگ تھے ) تو آپﷺ نے فرمایا کہ قربانی کا گوشت تین دن کے موافق رکھ لو اور باقی خیرات کر دو (تاکہ یہ محتاج بھوکے نہ رہیں اور ان کو بھی کھانے کو گوشت ملے )۔ اس کے بعد لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! لوگ اپنی قربانیوں سے مشکیں بناتے تھے (ان کی کھالوں کی) اور ان میں چربی پگھلاتے تھے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اب کیا ہوا؟ لوگوں نے عرض کیا کہ آپﷺ نے قربانیوں کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع فرمایا ہے (اور اس سے نکلا کہ قربانی کا کوئی جزو تین دن سے زیادہ نہ رکھنا چاہئیے )، آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں ان محتاجوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو اس وقت آ گئے تھے اب کھاؤ اور رکھ چھوڑو اور صدقہ دو۔

باب : ”فرع“ اور ”عتیرہ“ کے بیان میں۔

1260: سیدنا ابوہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: نہ فرع جائز ہے اور نہ عتیرہ (جائز ہے )۔ ابن رافع نے اپنی روایت میں اتنا زیادہ کیا ہے کہ فرع اونٹنی کا پہلا بچہ ہے جس کو مشرک ذبح کیا کرتے تھے۔

باب : اس کے متعلق جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرے۔

1261: ابو الطفیل عامر بن واثلہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا علیؓ  کے پاس بیٹھا تھا کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہﷺ آپ کو چھپا کر کیا بتلاتے تھے ؟ یہ سن کر سیدنا علیؓ  غصہ ہوئے اور کہنے لگے کہ نبیﷺ نے مجھے کوئی ایسی چیز نہیں بتلائی جو اور لوگوں سے چھپائی ہو مگر آپﷺ نے مجھ سے چار باتیں فرمائیں۔ وہ شخص بولا کہ اے امیر المؤمنین! وہ کیا ہیں؟ سیدنا علیؓ  نے کہا کہ نبیﷺ نے فرمایا: 1۔ اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت کرے جو اپنے باپ پر لعنت کرے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے جو اللہ کے سوا اور کسی کے لئے ذبح کرے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے جو کسی بدعتی کو جگہ دے۔ 4۔ اور اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے جو زمین کے نشان کو بدل دے۔

 

 

 

 

کتاب: (پانی، شراب وغیرہ) پینے کے مسائل

 

باب : شراب کی حرمت۔

1262: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہر نشہ لانے والی چیز خمر (شراب) ہے اور ہر خمر (شراب) حرام ہے۔

1263: علی بن ابی طالبؓ  کہتے ہیں کہ مجھے بدر کے دن مالِ غنیمت میں ایک اونٹنی ملی اور اسی دن ایک اونٹنی رسول اللہﷺ نے مجھے خمس میں سے اور دی۔ پھر جب میں نے چاہا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کروں جو کہ رسول اللہﷺ کی صاحبزادی تھیں تو میں نے بنی قینقاع کے ایک سنار سے وعدہ کیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم دونوں مل کر اذخر لائیں اور سناروں کے ہاتھ بیچیں اور اس سے میں اپنی شادی کا ولیمہ کروں۔ میں اپنی دونوں اونٹنیوں کا سامان پالان، رکابیں اور رسیاں وغیرہ اکٹھا کر رہا تھا اور وہ دونوں اونٹنیاں ایک انصاری کی کوٹھری کے بازو میں بیٹھی تھیں۔ جس وقت میں یہ سامان جو اکٹھا کر رہا تھا اکٹھا کر کے لوٹا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دونوں اونٹنیوں کے کوہان کٹے ہوئے ہیں، ان کی کوکھیں پھٹی ہوئی ہیں اور ان کے جگر نکال لئے گئے۔ مجھ سے یہ دیکھ کر نہ رہا گیا اور میری آنکھیں تھم نہ سکیں (یعنی میں رونے لگا یہ رونا دنیا کے طمع سے نہ تھا بلکہ سیدہ فاطمہ زہراء اور رسول اللہﷺ کے حق میں جو تقصیر ہوئی، اس خیال سے تھا) میں نے پوچھا کہ یہ کس نے کیا؟ لوگوں نے کہا کہ حمزہؓ  بن عبدالمطلب نے اور وہ اس گھر میں انصار کی ایک جماعت کے ساتھ ہیں جو شراب پی رہے ہیں، ان کے سامنے اور ان کے ساتھیوں کے سامنے ایک گانے والی نے گانا گایا تو گانے میں یہ کہا کہ اے حمزہ اٹھ ان موٹی اونٹنیوں کو اسی وقت لے۔ حمزہؓ  تلوار لے کر اٹھے اور ان کے کوہان کاٹ لئے اور کوکھیں پھاڑ ڈالیں اور جگر (کلیجہ) نکال لیا۔سیدنا علیؓ  نے کہا کہ یہ سن کر میں رسول اللہﷺ کے پاس گیا، وہاں زید بن حارثہؓ  بیٹھے تھے۔ آپﷺ نے مجھے دیکھتے ہی میرے چہرے سے رنج و مصیبت کو پہچان لیا اور فرمایا کہ تجھ کو کیاہوا؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اللہ کی قسم! آج کا سا دن میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ حمزہؓ  نے میری دونوں اونٹنیوں پر ظلم کیا، ان کے کوہان کاٹ لئے ، کوکھیں پھاڑ ڈالیں اور وہ اس گھر میں چند شرابیوں کے ساتھ ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہﷺ نے اپنی چادر منگوا کر اوڑھی اور پھر پیدل چلے ، میں اور زید بن حارثہ دونوں آپﷺ کے پیچھے تھے ، یہاں تک کہ آپﷺ اس دروازے پر آئے جہاں حمزہؓ  تھے اور اندر آنے کی اجازت مانگی۔ لوگوں نے اجازت دی۔ دیکھا تو وہ شراب پئے ہوئے تھے۔ رسول اللہﷺ نے سیدنا حمزہؓ  کو اس کام پر ملامت شروع کی اور سیدنا حمزہ کی آنکھیں(نشے کی وجہ سے ) سرخ تھیں انہوں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا، پھر آپؐ  کے گھٹنوں کو دیکھا، پھر نگاہ بلند کی تو ناف کو دیکھا۔ پھر نگاہ بلند کی تو منہ کو دیکھا اور (نشے میں دھت ہونے کی وجہ سے ) کہا کہ تم تو میرے باپ دادوں کے غلام ہو۔ تب رسول اللہﷺ نے پہچانا کہ وہ نشہ میں مست ہیں تو آپﷺ الٹے پاؤں پھرے اور باہر نکلے۔ ہم بھی آپﷺ کے ساتھ نکلے۔

باب : ہر نشہ دار چیز حرام ہے۔

1264: سیدنا جابرؓ  سے روایت ہے کہ ایک شخص جیشان سے آیا (اور جیشان یمن میں۔ ایک شہر کا نام ہے ) اس نے یمن کی اس شراب کے بارے میں پوچھا جو اس کے ملک میں پی جاتی تھی اور وہ مکئی سے بنائی جاتی تھی اور اس کو مزر کہتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس میں نشہ ہے ؟ اس نے کہا ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جو چیز نشہ کرے وہ حرام ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ جو نشہ پئے اس کو (آخرت میں) طینۃالخبال پلائے گا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! طینۃالخبال کیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ جہنمیوں کا پسینہ ہے یا جسم سے نکلنے والا خون اور پیپ۔

باب : جو شراب نشہ دار ہو وہ حرام ہے۔

1265: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہؓ  کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ  سے بتع (ایک قسم کی) شراب کے بارے میں پوچھا گیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہر وہ شراب جس میں نشہ ہو، وہ حرام ہے۔

باب : جس نے دنیا میں شراب پی، وہ آخرت میں نہیں پی سکے گا مگر یہ کہ توبہ کر لے۔

1266: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص دنیا میں شراب پئے ، وہ آخرت میں نہ پئے گا مگر جب وہ توبہ کر لے۔

باب : شراب، کھجور اور انگور سے بھی بنتی ہے۔

1267: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ شراب ان دو درختوں سے ہوتی ہے ، ایک کھجور اور دوسرے انگور کے درخت سے۔

باب : شراب گدر (کچی کھجور) اور خشک کھجور سے۔

1268: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابو طلحہ، ابو دجانہ، معاذ بن جبل اور انصار کی ایک جماعت کو شراب پلا رہا تھا کہ اتنے میں ایک شخص اندر آیا اور کہنے لگا: ایک نئی خبر ہے کہ شراب حرام ہو گئی ہے۔ پھر ہم نے اسی دن شراب کو بہا دیا اور وہ شراب گدر (یعنی وہ کچھ کھجور جس کا رنگ سرخ یا زرد ہو چکا ہو لیکن ابھی کھانے کے قابل نہ ہو) اور خشک کھجور کی تھی۔ قتادہ نے کہا کہ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ جب شراب حرام ہوئی تو اکثر شراب ان کی یہی تھی خلیط یعنی گدر اور خشک کھجور کو ملا کر (بنائی ہوئی)۔

باب : پانچ اشیاء کی شراب۔

1269: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ  نے رسول اللہﷺ کے منبر پر خطبہ پڑھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی پھر کہا کہ حمد و ثنا کے بعد! جان رکھو کہ جب شراب حرام ہوئی تھی تو پانچ چیزوں سے بنا کرتی تھی گندم ، جَو ،کھجور ، انگور اور شہد سے۔ اور شراب وہ ہے جو عقل میں فتور ڈالے (خواہ کسی چیز کی ہو۔ اس سے امام ابو حنیفہ کا قول رد ہو گیا کہ شراب انگور سے خاص ہے کیونکہ سیدنا عمرؓ  نے منبر پر فرمایا اور تمام صحابہ نے قبول کیا کسی نے اعتراض نہیں کیا تو گویا اجماع ہو گیا)۔ اے لوگو! میری خواہش تھی کہ کاش رسول اللہﷺ ہم سے تین چیزوں کا (یعنی) دادے کے ترکہ کا، کلالہ کے ترکے کا اور سود کے چند ابواب کا (مفصل) بیان فرماتے۔

باب : انگور اور کھجور کی نبیذ بنانے کی ممانعت۔

1270: سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاریؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے کھجور اور انگور کو یا پکی اور کچی کھجور کو ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرمایا۔

1271: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے جو شخص نبید (کھجور یا انگور کا شربت) پئے تو صرف انگور کا پئے یا صرف کھجور کا یا صرف گدر کھجور کا (پئے )۔

باب : دباء اور مزفت (برتنوں) میں نبیذ بنانے کی ممانعت۔

1272: زاذان سے روایت ہے ، کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمرؓ  سے کہا کہ مجھے پینے کی چیزوں میں سے ان چیزوں کے متعلق بتائیے جن سے رسول اللہﷺ نے منع فرمایا ہے۔ اپنی لغت میں بتا کر پھر اس کی ہماری لغت میں وضاحت کر دیجئے کیونکہ آپ کی زبان ہماری زبان سے ذرا ہٹ کر ہے ، تو انہوں نے کہا کہ آپﷺ حنتم یعنی ٹھلیا سے ، دباء (کدو کا برتن) مزفت یعنی روغنی برتن اور نقیر یعنی کھجور کی لکڑی کو کرید کر بنائے جانے والے برتنوں (میں نبیذ بنانے ) سے منع فرمایا ہے۔ اور اس بات کا حکم دیا کہ نبیذ مشکوں میں بنایا جائے۔

باب : پتھر کے گھڑے میں نبیذ بنانے کی اجازت۔

1273: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے لئے نبیذ ایک مشک میں بنایا جاتا تھا اور جب مشک نہ ملتی تو پتھر کے گھڑے میں بناتے۔ بعض نے کہا کہ میں نے ابو الزبیر سے سنا وہ کہتے تھے کہ گھڑا برام یعنی پتھر کا تھا۔

باب : ہر قسم کے برتنوں میں نبیذ بنانے کی رخصت اور ہر نشے والی چیز پینے کی ممانعت۔

1274: سیدنا بریدہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں نے تمہیں برتنوں سے منع کیا تھا، لیکن برتنوں سے کوئی چیز حلال یا حرام نہیں ہوتی اور ہر نشہ کرنے والی چیز حرام ہے۔

باب : (ہر قسم کے ) مٹکے کو استعمال کرنے کی رخصت سوائے روغنی مٹکے کے۔

1275: سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ  کہتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے کچھ برتنوں میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا تو صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ تمام لوگوں کو وہ برتن میسر نہیں ہو سکتے جن میں نبیذ بنانے کی اجازت ہے ، چنانچہ آپﷺ نے سوائے مزفت یعنی روغنی مٹکے کے باقی تمام برتنوں میں نبیذ بنانے کی اجازت دے دی۔

باب : نبیذ استعمال کرنے کی میعاد۔

1276: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے لئے اوّل رات میں نبیذ بھگو دیتے آپﷺ اس کو صبح کو پیتے ، پھر دوسری رات کو، پھر صبح کو، پھر تیسری رات کو، پھر صبح سے عصر تک۔ اس کے بعد جو بچتا تو آپﷺ خادم کو پلا دیتے یا حکم دیتے وہ بہا دیا جاتا۔

1277: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے لئے ایک مشک میں نبیذ بھگوتے اور گانٹھ لگا دیتے۔ اس میں سوراخ تھا۔ صبح کو ہم بھگوتے اور رات کو آپﷺ پیتے اور رات کو بھگوتے اور آپﷺ صبح کو پیتے۔

باب : شراب سے سرکہ بنانے کے متعلق۔

1278: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ سے شراب سے سرکہ بنانے کے متعلق پوچھا گیا ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔

باب : شراب سے دوا کرنا۔

1279: وائل حضرمی سے روایت ہے کہ طارق بن سوید جعفیؓ  نے نبیﷺ سے شراب کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے اس کے بنانے سے منع کیا (یا ناپسند کیا)۔ وہ بولا کہ میں دوا کے لئے بناتا ہوں تو آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں وہ دوا نہیں بلکہ بیماری ہے۔

باب : برتن کو ڈھانپنے کے متعلق۔

1280: سیدنا ابو حمید ساعدیؓ  کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس ایک پیالہ دودھ کا (مقامِ) نقیع سے لایا، جو ڈھانپا ہوا نہ تھا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تو نے اس کو ڈھانپا کیوں نہیں؟ (اگر ڈھانپنے کو کچھ نہ تھا تو) ایک آڑی لکڑی ہی اس پر رکھ لیتا۔ ابو حمید (راوی حدیث) کہتے ہیں کہ ہمیں رات کے وقت مشکیزوں کو باندھنے اور دروازے بند کرنے کا حکم فرمایا۔

باب : برتن کو ڈھانپو اور مشک کا منہ بند کرو۔

1281: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب رات ہو جائے یا فرمایا کہ تم شام کرو تو اپنے بچوں کو (گھروں میں) روک لو کیونکہ اس وقت شیطان پھیل جاتے ہیں۔ پھر جب کچھ رات گزر جائے تو بچوں کو چھوڑ دو اور اللہ کا نام لے دروازے بند کر دو کیونکہ شیطان بند دروازے نہیں کھولتا۔ اور اللہ کا نام لے کر اپنے مشکیزوں کا بندھن باندھ دو اور اپنے برتنوں کو ڈھانک لو اللہ کا نام لے کر۔ (اگر برتن ڈھانکنے کے لئے اور کچھ نہ ملے سوا اس کہ) ان برتنوں کے اوپر کوئی چیز چوڑائی میں رکھو (تو وہی رکھ دو) اور اپنے چراغوں کو بجھا دو۔

1282: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: برتن ڈھانپ دو اور مشک بند کر دو، اس لئے کہ سال میں ایک رات ایسی ہوتی ہے جس میں وبا اترتی ہے۔ پھر وہ وبا جو برتن کھلا پاتی ہے یا مشک کھلی پاتی ہے ، اس میں اتر جاتی ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ لیث (راوی) نے کہا کہ ہمارے ہاں عجم میں ”کانون اول“ (یعنی دسمبر) میں لوگ اس سے بچتے ہیں۔

باب : شہد، نبیذ، دودھ اور پانی پینے کے متعلق۔

1283: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ میں نے اپنے اس پیالے سے رسول اللہﷺ کو شہد، نبیذ، پانی اور دودھ پلایا ہے۔

1284: سیدنا براءؓ  کہتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ مکہ سے مدینہ کو آئے تو سراقہ بن مالک نے (مشرکوں کی طرف سے ) آپﷺ کا پیچھا کیا۔ آپﷺ نے اس کے لئے بددعا کی تو اس کا گھوڑا (زمین میں)دھنس گیا (یعنی زمین نے اس کو پکڑ لیا)۔ وہ بولا کہ آپ میرے لئے دعا کیجئے میں آپ کو نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ آپﷺ نے اللہ سے دعا کی (تو اس کو نجات ملی) پھر آپﷺ کو پیاس لگی اور آپﷺ بکریوں کے چرواہے کے قریب سے گزرے۔ سیدنا ابو بکرؓ  نے کہا کہ میں نے پیالہ لیا اور تھوڑا سا دودھ آپﷺ کے لئے دوہا اور لے کر آپﷺ کے پاس آیا، آپﷺ نے پیا، یہاں تک کہ میں خوش ہو گیا۔

1285: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ جس رات بیت المقدس کی سیر کرائی گئی تو آپﷺ کے پاس دو پیالے لائے گئے۔ ایک میں شراب تھی اور ایک میں دودھ، آپﷺ نے دونوں کو دیکھا اور دودھ کا پیالہ لے لیا۔ سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ شکر ہے اس اللہ کا جس نے آپﷺ کو فطرت کی ہدایت کی (یعنی اسلام کی اور استقامت کی)۔ اگر آپ شراب کو لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔

باب : پیالے میں پینا۔

1286: سیدنا سہل بن سعدؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے سامنے عرب کی ایک عورت کا ذکر ہوا تو آپﷺ نے ابو اسید کو اسے پیغام دینے کا حکم دیا، انہوں نے پیغام دیا، وہ آئی اور بنی ساعدہ کے قلعوں میں اتری، رسول اللہﷺ نکلے اور اس کے پاس تشریف لے گئے ، جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک عورت سر جھکائے ہوئے ہے ، آپﷺ نے اس سے بات کی تو وہ بولی کہ میں اللہ تعالیٰ سے تمہاری پناہ مانگتی ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تو نے مجھ سے اپنے آپ کو بچا لیا (یعنی اب میں تجھ سے کچھ نہیں کہوں گا)۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ تو جانتی ہے کہ یہ کون شخص ہیں؟ اس نے کہا کہ نہیں میں نہیں جانتی۔ لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور سلام ہو، وہ تجھ سے نکاح کی بات چیت کرنے کو تشریف لائے تھے۔ وہ بولی کہ میں بدقسمت تھی (جب تو میں نے آپﷺ سے پناہ مانگی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ منگنی کرنے والے کو عورت کی طرف دیکھنا درست ہے ) سیدنا سہلؓ  نے کہا کہ پھر رسول اللہﷺ اس دن آ کر سقیفہ بنی ساعدہ میں اپنے ساتھیوں کے سمیت تشریف فرما ہوئے پھر سہل سے کہا کہ ہمیں پلاؤ۔ سیدنا سہلؓ  نے کہا کہ میں نے یہ پیالا نکالا اور سب کو پلایا۔ ابو حازم نے کہا کہ سیدنا سہل نے وہ پیالا نکالا اور ہم نے بھی (برکت کے لئے ) اس میں پیا پھر عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ نے (اپنے زمانہ خلافت میں) وہ پیالہ سیدنا سہلؓ  سے مانگا تو انہوں نے ہبہ کر دیا۔

باب : مشکوں کو الٹنے کی ممانعت میں۔

1287: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے مشکوں کو الٹ کر ان کے منہ سے پانی پینے سے منع فرمایا ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ مشک کو الٹا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مشک کا منہ نیچے کر کے اس سے براہِ راست پانی پیا جائے۔

باب : سونے اور چاندی کے برتنوں میں پانی پینے کی ممانعت۔

1288: سیدنا عبد اللہ بن عکیم کہتے ہیں کہ ہم سیدنا حذیفہؓ  کے ساتھ مدائن میں تھے کہ انہوں نے پانی مانگا۔ ایک کسان چاندی کے برتن میں پانی لے آیا تو سیدنا حذیفہؓ  نے برتن پھینک دیا اور فرمایا کہ میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ میں نے اس کو کہا تھا کہ مجھے چاندی کے برتن میں نہ پلانا، کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ پیو اور موٹا اور باریک ریشم نہ پہنو، کیونکہ یہ چیزیں (کفار) کے لئے دنیا میں اور ہم (مسلمانوں کے لئے ) آخرت میں قیامت کے دن ہے۔جو شخص چاندی کے برتنوں میں پیتا ہے تو وہ یقیناً اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ داخل کرتا ہے۔

1289: اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو چاندی کے برتنوں میں پیتا ہے وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ داخل کرتا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ جو سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھاتآپیتا ہے (وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ داخل کرتا ہے )

باب : جب پانی پی لے ، تو دائیں طرف والا زیادہ حقدار ہے۔

1290: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمارے گھر میں آئے اور پانی مانگا۔ ہم نے بکری کا دودھ دوہا، پھر اس میں اپنے اس کنوئیں سے پانی ملایا اور رسول اللہﷺ کو دیا۔ آپﷺ نے پیا اور سیدنا ابو بکرؓ  آپﷺ کے بائیں طرف بیٹھے تھے اور سیدنا عمرؓ  سامنے اور دائیں طرف ایک اعرابی تھا۔جب رسول اللہﷺ نے سیر ہو کر پی لیا تو سیدنا عمرؓ  نے (سیدنا ابو بکر ص) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یا رسول اللہ یہ ابو بکرؓ  ہیں۔ تو آپﷺ نے (باقی) اعرابی کو دیا اور سیدنا ابو بکر اور عمرؓ  کو نہیں دیا اور فرمایا کہ دائیں طرف والے مقدم ہیں دائیں طرف والے ، پھر دائیں طرف والے۔ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ یہ تو سنت ہے ، سنت ہے ، سنت ہے۔

باب : بڑوں کو (پہلے ) دینے کے لئے چھوٹوں سے اجازت لینے کے متعلق۔

1291: سیدنا سہل بن سعد ساعدیؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے پاس پینے کی کوئی چیز آئی تو آپﷺ نے اس سے پیا۔ آپﷺ کے دائیں طرف ایک لڑکا تھا اور بائیں طرف بڑے لوگ تھے ، آپﷺ نے لڑکے سے فرمایا کہ تو مجھ کو بڑے لوگوں کو پہلے دینے کی اجازت دیتا ہے ؟ وہ بولا کہ نہیں اللہ کی قسم میں اپنا حصہ کسی دوسرے کو نہیں دینا چاہتا۔ یہ سن کر آپﷺ نے اس لڑکے کے ہاتھ میں دے دیا۔

باب : برتن میں سانس لینے کی ممانعت۔

1292: سیدنا ابو قتادہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے برتن کے اندر ہی سانس لینے سے منع فرمایا ہے۔

باب : رسول اللہﷺ پیتے وقت سانس لیتے تھے (ایک سانس میں نہیں پیتے تھے)۔

1293: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ پینے میں تین بار سانس لیتے اور فرماتے تھے کہ ایسا کرنے سے خوب سیری ہوتی ہے اور پیاس خوب بجھتی ہے یا بیماری سے تندرستی ہوتی ہے اور پانی اچھی طرح ہضم ہوتا ہے۔ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ میں بھی پانی پینے میں تین بار سانس لیتا ہوں۔

باب : کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت۔

1294: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی کھڑا ہو کر نہ پئے اور جو بھولے سے پی لے تو قے کر ڈالے۔

باب : زمزم کا پانی کھڑے ہو کر پینے کی اجازت۔

1295: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو زمزم کا پانی پلایا، آپﷺ نے کھڑے ہو کر پیا اور کعبہ کے پاس پانی طلب فرمایا۔

 

 

 

 

کتاب: کھانے کے مسائل

باب : کھانے پر بسم اللہ پڑھنے کا بیان۔

1296: سیدنا حذیفہؓ  کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ کھانا کھاتے تو اپنے ہاتھ نہ ڈالتے جب تک آپﷺ شروع نہ کرتے اور ہاتھ نہ ڈالتے۔ ایک دفعہ ہم آپﷺ کے ساتھ کھانے پر موجود تھے اور ایک لڑکی دوڑتی ہوئی آئی جیسے کوئی اس کو ہانک رہا ہے اور اس نے اپنا ہاتھ کھانے میں ڈالنا چاہا تو آپﷺ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ پھر ایک دیہاتی دوڑتا ہوا آیا تو آپﷺ نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ پھر فرمایا کہ شیطان اس کھانے پر قدرت پا لیتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا جائے اور وہ ایک لڑکی کو اس کھانے پر قدرت حاصل کرنے کو لایا تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، پھر اس دیہاتی کو اسی غرض سے لایا تو میں نے اس کا بھی ہاتھ پکڑ لیا، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، شیطان کا ہاتھ اس لڑکی ہاتھ کے ساتھ میرے ہاتھ میں ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ پھر آپﷺ نے بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا۔

1297: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ جب آدمی اپنے گھر میں جاتا ہے ، اور گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت اللہ جل جلالہ کا نام لیتا ہے ، تو شیطان (اپنے رفیقوں اور تابعداروں سے ) کہتا ہے کہ نہ تمہارے یہاں رہنے کا ٹھکانہ ہے ، نہ کھانا ہے اور جب گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتا تو شیطان کہتا ہے کہ تمہیں رہنے کا ٹھکانہ تو مل گیا اور جب کھاتے وقت بھی اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتا تو شیطان کہتا ہے کہ تمہارے رہنے کا ٹھکانہ بھی ہوا اور کھانا بھی ملا۔

باب : دائیں ہاتھ سے کھانا۔

1298: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کھائے تو اپنے دائیں ہاتھ سے کھائے اور جب پئے تو دائیں ہاتھ سے پئے ، اسلئے کہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا اور بائیں ہاتھ سے پیتا ہے

1299: سیدنا ایاس بن سلمہ بن اکوعؓ  اپنے والدؓ  سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا، رسول اللہﷺ کے پاس ایک شخص نے بائیں ہاتھ سے کھایا تو آپﷺ نے فرمایا کہ دائیں ہاتھ سے کھا۔ وہ بولا کہ میرے سے نہیں ہو سکتا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ کرے تجھ سے نہ ہو سکے۔ اس نے ایسا غرور کی راہ سے کیا تھا۔ راوی کہتا ہے کہ وہ ساری زندگی اس ہاتھ کو منہ تک نہ اٹھا سکا۔

باب : جو کھانے والے کے سامنے ہو اس سے کھانا چاہیئے۔

1300: سیدنا عمر بن ابی سلمہؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کی گود میں تھا (کیونکہ آپﷺ نے عمر کی والدہ اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تھا) اور میرا ہاتھ پیالے میں سب طرف گھوم رہا تھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے لڑکے : اللہ تعالیٰ کا نام لے کر داہنے ہاتھ سے کھا اور جو پاس ہو ادھر سے کھا۔

باب : تین انگلیوں سے کھانا چاہیئے۔

1301: سیدنا کعب بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ تین انگلیوں سے کھاتے تھے اور ہاتھ پونچھنے سے پہلے ان کو چاٹ لیتے تھے۔

باب : جب کھانا کھا لے ، تو اپنا ہاتھ خود چاٹے یا دوسرے کو چٹائے۔

1302: سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب کوئی تم میں سے کھانا کھائے تو اپنا ہاتھ اس وقت تک نہ پونچھے جب تک اس کو خود نہ چاٹ لے یا کسی کو چٹا نہ دے۔

باب : انگلیوں اور برتن کو چاٹنے کا بیان۔

1303: سیدنا جابرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے انگلیوں اور برتن کو چاٹنے (صاف کرنے ) کا حکم دیا اور فرمایا کہ تم نہیں جانتے کہ برکت (کھانے کے کس لقمہ یا جزو میں) کس میں ہے۔

باب : جب لقمہ گر جائے تو اسے صاف کر کے کھانے کا بیان۔

1304: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ شیطان تم میں سے ہر ایک کے پاس اسکے ہر کام کے وقت موجود رہتا ہے ، یہاں تک کہ کھانے کے وقت بھی حاضر رہتا ہے۔ جب تم میں سے کسی کا نوالہ گر پڑے تو اس کو (لگنے والے ) کچرے وغیرہ سے صاف کر کے جو کھا لے اور شیطان کے لئے نہ چھوڑے۔ جب کھانے سے فارغ ہو تو انگلیاں چاٹے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ برکت کون سے کھانے میں ہے۔

باب : کھانے اور پینے پر الحمد للہ کہنے کے بارے میں۔

1305: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ بندے سے راضی ہوتا ہے جب وہ کھا کر الحمد للہ پڑھے یا پی کر الحمد للہ پڑھے (یعنی صبح یا شام یا کسی اور وقت کے کھانے کے بعد)۔

باب : کھانے اور پینے کی نعمتوں کے بارے میں سوال کا بیان۔

1306: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک دفعہ رات یا دن کو باہر نکلے اور آپﷺ نے سیدنا ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو پوچھا کہ تمہیں اس وقت کونسی چیز گھر سے نکال لائی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! بھوک کے مارے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میں بھی اسی وجہ سے نکلا ہوں، چلو۔ پھر وہ آپﷺ کے ساتھ چلے ، آپﷺ ایک انصاری کے دروازے پر آئے ، وہ اپنے گھر میں نہیں تھا۔ اس کی عورت نے آپﷺ کو دیکھا تو اس نے خوش آمدید کہا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ فلاں شخص (اس کے خاوند کے متعلق فرمایا) کہاں گیا ہے ؟ وہ بولی کہ ہمارے لئے میٹھا پانی لینے گیا ہے (اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عذر سے اجنبی عورت سے بات کرنا اور اس کو جواب دینا درست ہے ، اسی طرح عورت اس مرد کو گھر بلا سکتی ہے جس کے آنے سے خاوند راضی ہو) اتنے میں وہ انصاری مرد آگیا تو اس نے رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے دونوں ساتھیوں کو دیکھا تو کہا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج کے دن کسی کے پاس ایسے مہمان نہیں ہیں جیسے میرے پاس ہیں۔ پھر گیا اور کھجور کا ایک خوشہ لے کر آیا جس میں گدر، سوکھی اور تازہ کھجوریں تھیں اور کہنے لگا کہ اس میں سے کھائیے پھر اس نے چھری لی تو آپﷺ نے فرمایا کہ دودھ والی بکری مت کاٹنا۔ اس نے ایک بکری کاٹی اور سب نے اس کا گوشت کھایا اور کھجور بھی کھائی اور پانی پیا۔ جب کھانے پینے سے سیر ہوئے تو رسول اللہﷺ نے سیدنا ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، قیامت کے دن تم سے اس نعمت کے بارے میں سوال ہو گا کہ تم اپنے گھروں سے بھوک کے مارے نکلے اور نہیں لوٹے یہاں تک کہ تمہیں یہ نعمت ملی۔

باب : ہمسائے کی دعوتِ (طعام) قبول کرنے کا بیان۔

1307: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کا ایک ہمسایہ عمدہ شوربا بناتا تھا، وہ ایرانی تھا۔ اس نے ایک دفعہ رسول اللہﷺ کے لئے شوربا بنایا اور آپﷺ کو بلانے کے لئے آیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ عائشہ کی بھی دعوت ہے ؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تو میں بھی نہیں آتا۔ پھر وہ دوبارہ بلانے کو آیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ عائشہ کی بھی دعوت ہے ؟ اس نے کہا کہ نہیں آپﷺ نے فرمایا کہ تو میں بھی نہیں آتا۔ پھر سہ بارہ آپﷺ کو بلانے کے لئے آیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ عائشہ کی بھی دعوت ہے ؟ وہ بولا ہاں۔ پھر دونوں ایک دوسرے کے پیچھے چلے (یعنی رسول اللہﷺ اور اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) یہاں تک کہ اس کے مکان پر پہنچے۔

باب : جو آدمی کھانے کے لئے بلایا جائے اور اس کے پیچھے دوسرا آدمی بھی چلا جائے (تو…)۔

1308: سیدنا ابو مسعود انصاریؓ  کہتے ہیں کہ انصار میں ایک آدمی جس کا نام ابو شعیب تھا، جس کا ایک غلام تھا جو گوشت بیچا کرتا تھا۔ اس انصاری نے رسول اللہﷺ کو دیکھا اور آپﷺ کے چہرے پر بھوک معلوم ہوئی تو اپنے غلام سے کہا کہ ہم پانچ آدمیوں کے لئے کھانا تیار کر کیونکہ میں رسول اللہﷺ کی دعوت کرنا چاہتا ہوں اور آپﷺ پانچ آدمیوں میں پانچویں ہوں گے۔ راوی کہتا ہے کہ اس نے کھانا تیار کیا۔ پھر آپﷺ کے پاس آ کر دعوت دی اور آپﷺ پانچ میں پانچویں تھے۔ ان کے ساتھ ایک آدمی ہو گیا تو جب آپﷺ دروازے پر پہنچے تو (صاحبِ خانہ سے ) فرمایا کہ یہ شخص ہمارے ساتھ چلا آیا ہے ، اگر تو چاہے تو اس کو اجازت دے ، ورنہ یہ لوٹ جائے گا۔ اس نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہﷺ! بلکہ میں اس کو اجازت دیتا ہوں۔

باب : مہمان کے معاملہ میں ایثار۔

1309: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے (کھانے پینے کی) بڑی تکلیف ہے۔ آپﷺ نے اپنی کسی زوجہ مطہرہ کے پاس کہلا بھیجا، وہ بولیں کہ قسم اس کی جس نے آپﷺ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے کہ میرے پاس تو پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پھر آپﷺ نے دوسری زوجہ کے پاس بھیجا تو انہوں نے بھی ایسا ہی کہا، یہاں تک کہ سب ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہ سے یہی جواب آیا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ آج کی رات کو ن اس کی مہمانی کرتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے ، تب ایک انصاری اٹھا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہﷺ! میں کرتا ہوں۔ پھر وہ اس کو اپنے ٹھکانے پر لے گیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ تیرے پاس کچھ ہے ؟ وہ بولی کہ کچھ نہیں البتہ میرے بچوں کا کھانا ہے۔ انصاری نے کہا کہ بچوں سے کچھ بہانہ کر دے اور جب ہمارا مہمان اندر آئے اور دیکھنا جب ہم کھانے لگیں تو چراغ بجھا دینا۔ پس جب وہ کھانے لگا تو وہ اٹھی اور چراغ بجھا دیا (راوی) کہتا ہے وہ بیٹھے اور مہمان کھاتا رہا۔ اس نے ایسا ہی کیا اور میاں بیوی بھوکے بیٹھے رہے اور مہمان نے کھانا کھایا۔ جب صبح ہوئی تو وہ انصاری رسول اللہﷺ کے پاس آیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے تعجب کیا جو تم نے رات کو اپنے مہمان کے ساتھ کیا (یعنی خوش ہوا)۔

باب : دو (آدمیوں) کا کھانا تین کو کافی ہے۔

1310: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دو آدمیوں کا کھانا تین کو کافی ہو جاتا ہے اور تین کا چار کو  کافی ہے۔

1311: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ ایک کا کھانا دو کوکافی ہے ، دو کا کھانا چار کو اور چار کا کھانا آٹھ کو کافی ہے۔

باب : مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں۔

1312: سیدنا جابر اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں۔

1313: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک مہمان آیا اور وہ کافر تھا، آپﷺ نے اس کی ضیافت (مہمانی) کی۔ آپﷺ نے حکم دیا تو ایک بکری کا دودھ دوہا گیا، وہ پی گیا۔ پھر دوسری بکری کا (دوہا تو) وہ بھی پی گیا۔ پھر تیسری کا (دوہا تو) وہ بھی پی گیا، یہاں تک کہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا۔ پھر دوسری صبح کو وہ مسلمان ہو گیا۔ پھر آپﷺ نے حکم دیا تو ایک بکری کا دودھ دوہا گیا تو اس نے اس کا دودھ پیا پھر دوسری کا (دوہا تو) وہ پورا بھی نہ پی سکا۔ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مومن ایک آنت میں پیتا ہے اور کافر سات آنتوں میں۔

باب : ”کدو“ کھانے کے بیان میں۔

1314: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی ایک شخص نے دعوت کی تو میں بھی آپﷺ کے ساتھ گیا، شوربا آیا جس میں کدو تھا، رسول اللہﷺ نے بڑے مزے سے کدو کھانا شروع کیا۔ جب میں نے یہ دیکھا تو میں کدو کے ٹکڑے آپﷺ کی طرف ڈالتا تھا اور خود نہیں کھاتا تھا۔ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ اس روز سے مجھے کدو پسند آگیا۔

باب : سرکہ اچھا سالن ہے۔

1315: طلحہ بن نافع سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا جابر بن عبد اللہؓ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنے مکان پر لے گئے۔ پھر روٹی کے چند ٹکڑے آپﷺ کے پاس لائے گئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ سالن نہیں ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں مگر تھوڑا سا سرکہ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ سرکہ اچھا سالن ہے۔ سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ اس روز سے مجھے سرکہ سے محبت ہو گئی، جب سے میں نے آپﷺ سے یہ سنا اور طلحہ نے کہا (جو اس حدیث کو سیدنا جابرؓ  سے روایت کرتے ہیں) جب سے میں نے یہ حدیث سیدنا جابرؓ  سے سنی، مجھے بھی سرکہ پسند ہے۔

باب : کھجور کھانے اور گٹھلیوں کو انگلیوں کے درمیان رکھ کر پھینکنے کے متعلق

1316: سیدنا عبد اللہ بن بسرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ میرے باپ کے پاس اترے اور ہم نے کھانا اور وطبہ پیش کیا۔ (وطبہ ایک کھانا ہے جو کھجور اور پنیر اور گھی کو ملا کر بنتا ہے ) آپﷺ نے کھایا۔ پھر سوکھی کھجوریں لائی گئیں تو آپﷺ ان کو کھاتے اور گٹھلیاں اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کے درمیان میں رکھ کر پھینکتے جاتے تھے۔ شعبہ نے کہا کہ مجھے یہی خیال ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس حدیث میں یہی ہے ، گٹھلیاں دونوں انگلیوں میں رکھ کر ڈالنا (غرض یہ ہے کہ گٹھلیاں کھجور میں نہیں ملاتے تھے بلکہ جدا رکھتے تھے ) پھر پینے کے لئے کچھ آیا تو آپﷺ نے پیا اور بعد میں اپنے دائیں طرف جو بیٹھا تھا، اس کو دیا۔ پھر میرے والد نے آپﷺ کے جانور کی باگ تھامی اور عرض کیا کہ ہمارے لئے دعا کیجئے تو آپﷺ نے فرمایا: اے اللہ! ان کی روزی میں برکت دے ، ان کو بخش دے اور ان پر رحم کر۔

باب : اقعاء کی حالت میں بیٹھ کر کھجور کھانا۔

1317: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس کھجوریں آئیں، آپﷺ ان کو بانٹنے لگے اور اسی طرح بیٹھے تھے جیسے کوئی جلدی میں بیٹھتا ہے (یعنی اکڑوں) اور اس میں سے جلدی جلدی کھا رہے تھے (شاید آپﷺ کو کوئی دوسرا کام درپیش ہو گا)۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبیﷺ اقعاء کے طور پر بیٹھے کھجور کھا رہے تھے۔

باب : جس گھر میں کھجور نہیں، اس گھر والے بھوکے ہیں۔

1318: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! جس گھر میں کھجور نہیں ہے وہ گھر والے بھوکے ہیں۔ دو بار یا تین بار یہی فرمایا۔

باب : اکٹھی دو دو کھجور یں کھانے کی ممانعت۔

1319: جبلہ بن سحیم کہتے ہیں کہ سیدنا ابن زبیر صہمیں کھجوریں کھلاتے اور ان دنوں لوگوں پر (کھانے کی) تکلیف تھی۔ ہم کھا رہے تھے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سامنے سے نکلے اور کہنے لگے کہ دو دو کھجوریں (ملا کر) مت کھاؤ، کیونکہ رسول اللہﷺ نے اس سے منع کیا ہے مگر (اس وقت کھاؤ) جب اپنے بھائی سے اجازت لے لو۔ شعبہ نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں اجازت لینے کا قول سیدنا ابن عمرؓ کا ہے۔

باب : ککڑی ، کھجور کے ساتھ ملا کر کھانا۔

1320: سیدنا عبد اللہ بن جعفرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو کھجور کے ساتھ ککڑی کھاتے ہوئے دیکھا۔

باب : سیاہ پیلو کے متعلق۔

1321: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے ساتھ (مقامِ) مرّالظّہران میں تھے اور کباث (جنگلی درخت کا پھل) چن رہے تھے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سیاہ دیکھ کر چنو۔ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے آپﷺ نے بکریاں چرائی ہیں (تب تو جنگل کا حال معلوم ہے )؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں! اور کوئی نبی ایسا نہیں ہوا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں، یا ایسا ہی کچھ فرمایا۔

باب : خرگوش کا گوشت کھانا۔

1322: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ ہم جا رہے تھے کہ (مقامِ) مرالظہران میں ایک خرگوش دیکھا تو اس کا پیچھا کیا۔ پہلے لوگ اس پر دوڑے لیکن تھک گئے پھر میں دوڑا تو میں نے پکڑ لیا اور سید نا ابو طلحہؓ  کے پاس لایا۔ انہوں نے اس کو ذبح کیا اور اس کا پٹھ اور دونوں رانیں رسول اللہﷺ کے پاس بھیجیں۔ میں لے کر آیا تو آپﷺ نے ان کو لے لیا۔

باب : گوہ (سوسمار) کھانے کے متعلق۔

1323: سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ سیدنا خالد بن ولیدؓ  جن کو سیف اللہ کہتے تھے ، نے خبر دی کہ وہ رسول اللہﷺ کے ساتھ اُمّ المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے جو رسول اللہﷺ کی زوجہ مطہرہ تھیں اور سیدنا خالد اور ابن عباسؓ کی خالہ تھیں۔ ان کے پاس گوہ (سوسمار) کا بھنا ہوا گوشت پایا، جو اُمّ المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کی بہن حفیدہ بنت حارث نجد سے لائیں تھیں۔ پھر انہوں نے (سیدہ میمونہ نے ) وہ ضب رسول اللہﷺ کے سامنے رکھی اور ایسا کم ہوتا تھا کہ آپﷺ کے سا منے کوئی کھانا رکھا جائے اور بیان نہ کیا جائے اور نام نہ لیا جائے (کہ وہ کھانا کیا ہے ؟)۔ رسول اللہﷺ نے گوہ کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا تو اس وقت موجود عورتوں میں سے ایک عورت بول اٹھی کہ رسول اللہﷺ کو بتاؤ تو سہی جو آپﷺ کے سامنے رکھا ہے وہ کہنے لگیں کہ یا رسول اللہﷺ! یہ گوہ ہے تو آپﷺ نے اپنا ہاتھ واپس لے لیا۔ سیدنا خالد بن ولیدؓ  نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! کیا گوہ حرام ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں حرام نہیں ہے لیکن یہ میرے ملک میں نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے مجھے کراہت ہوتی ہے۔ سیدنا خالدؓ  نے کہا کہ پھر میں نے اس کو کھینچ کر کھا لیا اور رسول اللہﷺ مجھے کھاتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور آپﷺ نے مجھے منع نہیں کیا۔

1324: سیدنا ابو سعیدؓ  سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور بولا کہ ہم ایسی زمین میں رہتے ہیں جہاں گوہ بہت ہیں اور میرے گھر والوں کا اکثر کھانا وہی ہے ، آپﷺ نے اسکو جواب نہ دیا۔ ہم نے کہا کہ پھر پوچھ، اس نے پھر پوچھا، لیکن آپﷺ نے تین بار جواب نہ دیا۔ پھر تیسری دفعہ (یا تیسری دفعہ کے بعد) آپﷺ نے اس کو آواز دی اور فرمایا کہ اے دیہاتی! اللہ جل جلالہ نے بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر لعنت کی یا غصہ کیا تو ان کو جانور بنا دیا، وہ زمین پر چلتے تھے۔ میں نہیں جانتا کہ گوہ انہی جانوروں میں سے ہے یا کیا ہے ؟ اس لئے میں اس کو نہیں کھاتا اور نہ ہی حرام کہتا ہوں۔

باب : مکڑی (ٹڈی) کے کھانے کا بیان۔

1325: سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفیؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ سات لڑائیاں لڑیں اور ٹڈیاں (مکڑیاں) کھاتے رہے۔

باب : سمندری جانور اور ان جانوروں کو کھانا جن کو سمندر پھینک دے۔

1326: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں ابو عبیدہ بن الجراحؓ  کی امارت میں قریش کے ایک قافلے کو ملنے (یعنی ان کے پیچھے ) اور ہمارے سفر خرچ کے لئے کھجور کا ایک تھیلہ دیا اور کچھ آپ کو نہ ملا کہ ہمیں دیتے۔ سیدنا ابو عبیدہؓ  ہمیں ایک ایک کھجور (ہر روز) دیا کرتے تھے۔ابو الزبیر نے کہا کہ میں نے سیدنا جابرؓ  سے پوچھا کہ تم ایک کھجور میں کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ اس کو بچے کی طرح چوس لیا کرتے تھے ، پھر اس پر تھوڑا پانی پی لیتے تھے ، وہ ہمیں سارا دن اور رات کو کافی ہو جاتا اور ہم اپنی لکڑیوں سے پتے جھاڑتے ، پھر ان کو پانی میں تر کرتے اور کھاتے تھے۔ سیدنا جابرؓ  نے کہا ہم سمندر کے کنارے پہنچے تو وہاں ایک لمبی اور موٹی سی چیز نمودار ہوئی۔ ہم اس کے پاس گئے تو دیکھا کہ وہ ایک جانور ہے جس کو عنبر کہتے ہیں۔ سیدنا ابو عبیدہؓ  نے کہا کہ یہ مردار ہے (یعنی حرام ہے )۔ پھر کہنے لگے کہ نہیں ہم اللہ کے رسولﷺ کے بھیجے ہوئے ہیں اور اللہ کی راہ میں نکلے ہیں اور تم (بھوک کی وجہ سے ) مجبور ہو چکے ہو تو اس کو کھاؤ۔ سیدنا جابرؓ  نے کہا ہم وہاں ایک مہینہ رہے اور ہم تین سو آدمی تھے۔ اس کا گوشت کھاتے رہے ، یہاں تک کہ ہم موٹے ہو گئے۔ سیدنا جابرؓ  نے کہا میں دیکھ رہا ہوں کہ ہم اس کی آنکھ کے حلقہ میں سے چربی کے گھڑے کے گھڑے بھرتے تھے اور اس میں سے بیل کے برابر گوشت کے ٹکڑے کاٹتے تھے۔ آخر سیدنا ابو عبیدہؓ  نے ہم میں سے تیرہ آدمیوں کو لیا، وہ سب اس کی آنکھ کے حلقے کے اندر بیٹھ گئے۔ اور اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی اٹھا کر کھڑی کی، پھر جو اونٹ ہمارے ساتھ تھے ، ان میں سے سب سے بڑے اونٹ پر پالان باندھی تو وہ اس کے نیچے سے نکل گیا اور ہم نے اسکے گوشت میں سے زادِ راہ کے لئے وشائق بنا لئے (وشائق اُبال کر خشک کئے ہوئے گوشت کو کہتے ہیں، جو سفر کے لئے رکھتے ہیں)۔ جب ہم مدینہ میں آئے تو رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور یہ قصہ بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا رزق تھا جو اس نے تمہارے لئے نکالا تھا۔ اب تمہارے پاس اس گوشت کا کچھ حصہ ہے تو ہمیں بھی کھلاؤ۔ سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ ہم نے اس کا گوشت آپﷺ کے پاس بھیجا تو آپﷺ نے اس کو کھایا۔

باب : گھوڑوں کا گوشت کھانے کے متعلق۔

1327: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے خیبر کے دن کھریلو گدھوں کے گوشت سے روک دیا اور گھوڑوں کا  گوشت کھانے کی اجازت دی۔

1328: سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے عہد میں ایک گھوڑا کاٹا، پھر اس کا گوشت کھایا۔

باب : گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے کی ممانعت۔

1329: سیدنا ابو ثعلبہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ان گدھوں کے گوشت سے منع کیا جو آبادی میں رہتے ہیں (اور جنگل کا گدھا یعنی زیبرا بالاتفاق حلال ہے )۔

1330: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے خیبر فتح کیا تو گاؤں سے جو گدھے نکل رہے تھے ، ہم نے ان کو پکڑا، پھر ان کا گوشت پکایا۔ اتنے میں رسول اللہﷺ کے منادی نے آواز دی کہ خبردار ہو جاؤ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسولﷺ دونوں تم کو گدھوں کے گوشت سے منع کرتے ہیں، کیونکہ وہ ناپاک ہے اور اس کا کھانا شیطان کا کام ہے۔ پھر سب ہانڈیاں الٹ دی گئیں اور ان میں گوشت ابل رہا تھا۔

باب : ہر کچلی والے درندے کا گوشت کھانے کی ممانعت۔

1331: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ہر کچلی والے درندے کا (گوشت) کھانا حرام ہے۔

باب : ہر پنجے والے (پنجے سے کھانے والے ) پرندے کا گوشت کھانے کی ممانعت۔

1332: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہر کچلی والے درندے اور ہر پنجے والے (پنجے سے کھانے والے ) پرندے (کا گوشت کھانے ) سے منع فرمایا ہے۔

باب : لہسن کھانے کی کراہت۔

1333: سیدنا ابو ایوبؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ ان کے پاس اترے تو آپﷺ نیچے کے مکان میں رہے اور سیدنا ابو ایوبؓ  اوپر کے درجہ میں تھے۔ ایک دفعہ سیدنا ابو ایوبؓ  رات کو جاگے اور کہا کہ ہم رسول اللہﷺ کے سر کے اوپر چلا کرتے ہیں، پھر ہٹ کر رات کو ایک کونے میں ہو گئے۔ پھر اس کے بعد سیدنا ابو ایوبؓ  نے آپﷺ سے اوپر جانے کے لئے کہا تو آپﷺ نے فرمایا کہ نیچے کا مکان آرام کا ہے (رہنے والوں کے لئے اور آنے والوں کے لئے اور اسی لئے رسول اللہ نیچے کے مکان میں رہتے تھے )۔ سیدنا ابو ایوبؓ  نے کہا میں اس چھت پر نہیں رہ سکتا جس کے نیچے آپﷺ ہوں۔ یہ سن کر آپﷺ اوپر کے درجہ میں تشریف لے گئے اور ابو ایوبؓ  نیچے کے درجے میں آ گئے۔ سیدنا ابو ایوبؓ  رسول اللہﷺ کے لئے کھانا تیار کرتے تھے ، پھر جب آپﷺ کے پاس کھانا آتا (اور آپﷺ اس میں سے کھاتے اور اس کے بعد بچا ہوا کھانا واپس جاتا) تو سیدنا ابو ایوبؓ  (آدمی سے ) پوچھتے کہ آپﷺ کی انگلیاں کھانے کی کس جگہ پر لگی ہیں اور وہ وہیں سے (برکت کے لئے ) کھاتے۔ ایک دن سیدنا ابو ایوبؓ  نے کھانا پکایا، جس میں لہسن تھا۔ جب کھانا واپس گیا تو سیدنا ابو ایوبؓ  نے پوچھا کہ آپﷺ کی انگلیاں کہاں لگی تھیں؟ انہیں بتایا گیا کہ آپﷺ نے کھانا نہیں کھایا۔ یہ سن کر سیدنا ابو ایوبؓ  گھبرا گئے اور اوپر گئے اور پوچھا کہ کیا لہسن حرام ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں، لیکن میں اسے ناپسند کرتا ہوں۔ سیدنا ابو ایوبؓ  نے کہا جو چیز آپﷺ کو ناپسند ہے ، مجھے بھی ناپسند ہے۔ سیدنا ابو ایوبؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ کے پاس (فرشتے ) آتے تھے (اور فرشتوں کو لہسن کی بو سے تکلیف ہوتی اس لئے آپﷺ نہ کھاتے )۔

باب : کھانے پر اعتراض نہ کرنے کے متعلق۔

1334: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو کسی کھانے میں عیب نکالتے ہوئے نہیں دیکھا اگر آپﷺ کا جی چاہتا تو کھا لیتے اور اگر جی نہ چاہتا تو چپ رہتے۔

 

 

 

کتاب: لباس اور زیب و زینت کے بیان میں

 

باب : دنیا میں ریشمی لباس وہ (مرد) پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اس (ریشمی لباس) سے نفع حاصل کرنے اور اس کی قیمت کے مباح ہونے کے بیان میں۔

1335: سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ  نے عطارد تیمی کو بازار میں ایک ریشمی جوڑا (بیچنے کے لئے ) رکھا ہوا دیکھا اور وہ ایک ایسا شخص تھا جو بادشاہوں کے پاس جایا کرتا اور ان سے روپیہ حاصل کیا کرتا تھا۔ سیدنا عمرؓ  نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میں نے عطارد کو دیکھا کہ اس نے بازار میں ایک ریشمی جوڑا رکھا ہے ، اگر آپﷺ اس کو خرید لیں اور جب عرب کے وفد آتے ہیں اس وقت پہنا کریں تو مناسب ہے۔ راوی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جمعہ کو بھی آپﷺ پہنا کریں، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ریشمی کپڑا دنیا میں وہ پہنے گا جس کا آخرت میں حصہ نہیں۔پھر اس کے بعد رسول اللہﷺ کے پاس چند ریشمی جوڑے آئے تو آپﷺ نے سیدنا عمر، اسامہ بن زید اور علی ث کو ایک ایک جوڑا دیا اور فرمایا کہ اس کو پھاڑ کر اپنی اپنی عورتوں کے دوپٹے بنا دے۔ سیدنا عمرؓ  اپنا جوڑا لے کر آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ آپ نے یہ جوڑا مجھے بھیجا ہے  اور کل ہی آپﷺ نے عطارد کے جوڑے کے بارے میں کیا فرمایا تھا؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے یہ جوڑا تمہارے پاس (تمہارے اپنے ) پہننے کے لئے نہیں بلکہ اس لئے بھیجا تھا کہ اس (کو بیچ کر اس) سے فائدہ حاصل کرو اور سیدنا اسامہؓ  اپنا جوڑا پہن کر چلے تو رسول اللہﷺ نے ان کو ایسی نگاہ سے دیکھا کہ ان کو معلوم ہو گیا کہ آپﷺ ناراض ہیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ آپ مجھے کیا دیکھتے ہیں، آپ ہی نے تو یہ جوڑا مجھے بھیجا ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے اس لئے نہیں بھیجا کہ تم خود پہنو بلکہ اس لئے بھیجا کہ پھاڑ کر اپنی عورتوں کے دوپٹے بنا لو۔

باب : جس (آدمی) نے دنیا میں ریشمی لباس پہنا وہ آخرت میں نہیں پہنے گا۔

1336: خلیفہ بن کعب ابو ذبیان کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ  سے سنا، وہ خطبہ پڑھتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اے لوگو، خبردار رہو! اپنی عورتوں کو ریشمی کپڑے مت پہناؤ، کیونکہ میں نے سیدنا عمرؓ  سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے ، آپﷺ فرماتے تھے کہ حریر (ریشمی کپڑا) مت پہنو کیونکہ جو کوئی دنیا میں پہنے گا وہ آخرت میں نہیں پہنے گا۔

باب : اللہ سے ڈرنے والے کے لئے ریشمی قباء لائق نہیں۔

1337: سیدنا عقبہ بن عامرؓ  سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک ریشمی قبا تحفہ میں آئی تو آپﷺ نے اس کو پہنا اور نماز پڑھی، پھر نماز سے فارغ ہو کر اس کو زور سے اتارا جیسے اس کو بُرا جانتے ہیں پھر فرمایا کہ یہ پرہیزگاروں کے لائق نہیں ہے۔

باب : ریشمی لباس پہننا منع ہے لیکن دو انگلیوں کے برابر ریشم جائز ہے۔

1338: ابو عثمان کہتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ  نے ہمیں لکھا اور ہم (ایران کے ایک ملک) آذربائیجان میں تھے کہ اے عتبہ بن فرقدیہ جو مال جو تیرے پاس ہے نہ تیرا کمایا ہوا ہے نہ تیرے باپ کا، نہ تیری ماں کا، پس تو مسلمانوں کو ان کے ٹھکانوں میں سیر کر جس طرح تو اپنے ٹھکانے میں سیر ہوتا ہے (یعنی بغیر طلب کے ان کو پہنچا دے )۔ اور تم عیش کرنے سے بچو اور مشرکوں کی وضع سے اور ریشمی کپڑا پہننے سے (بھی بچو) مگر اتنا اور رسول اللہﷺ نے اپنی درمیانی اور شہادت کی انگلی کو اٹھایا اور ان کو ملا لیا (یعنی دو انگلی چوڑا حاشیہ اگر کہیں لگا ہو تو جائز ہے )۔ زہیر نے عاصم سے کہا کہ یہی کتاب میں ہے اور زہیر نے اپنی دونوں انگلیاں بلند کیں۔

1339: سوید بن غفلہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطابؓ  نے (مقامِ) جابیہ میں خطبہ پڑھا تو کہا کہ رسول اللہﷺ نے حریر (ریشمی کپڑا) پہننے سے منع فرمایا مگر (یہ کہ) دو انگلی یا تین یا چار انگلی کے برابر (ہو)۔

باب : ریشم کی قبا پہننے کی ممانعت۔

1340: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک روز ریشم کی قبا پہنی جو آپﷺ کے پاس تحفہ میں آئی تھی، پھر آپﷺ نے اسی وقت اتار ڈالی اور سیدنا عمرؓ  کو بھیج دی۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ نے تو یہ اتار ڈالی؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جبرئیل نے مجھے منع کر دیا ہے۔ یہ سن کر سیدنا عمرؓ  روتے ہوئے آپﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہﷺ جس چیز کو آپ نے ناپسند کیا وہ مجھ کو دی، میرا کیا حال ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں پہننے کو نہیں دی بلکہ اس لئے دی کہ تم اس کو بیچ ڈالو۔ پھر سیدنا عمرؓ  نے دو ہزار درہم میں بیچ ڈالی۔

باب : کسی تکلیف (بیماری) کی وجہ سے ریشمی لباس پہننے کی اجازت۔

1341: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف اور سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما کو سفر میں ریشمی قمیص پہننے کی اجازت دی، اس وجہ سے کہ ان کو خارش ہو گئی تھی یا کچھ اور مرض تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ ان دونوں نے جوؤں کی شکایت کی تھی۔

باب : کپڑے کے کنارے ریشم سے بنانے کی اجازت۔

1342: عبد اللہ سے روایت ہے جو کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کا مولیٰ اور عطاء کے لڑکے کا ماموں تھا نے کہا کہ مجھے اسماء رضی اللہ عنہا نے سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کے پاس بھیجا اور کہلایا کہ میں نے سنا ہے کہ تم تین چیزوں کو حرام کہتے ہو، ایک تو کپڑے کو جس میں ریشمی نقش ہوں، دوسرے ارجوان (یعنی سرخ ڈھڈھاتا) زین پوش کو اور تیسرے تمام رجب کے مہینے میں روزے رکھنے کو، تو سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ نے کہا کہ رجب کے مہینے کے روزوں کو کون حرام کہے گا؟ جو شخص ہمیشہ روزہ رکھے گا (سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  ہمیشہ روزہ علاوہ عیدین اور ایام تشریق کے رکھتے تھے اور ان کا مذہب یہی ہے کہ صوم دہر مکروہ نہیں ہے )۔ اور کپڑے کے ریشمی نقوش کا تو نے ذکر کیا ہے تو میں نے سیدنا عمرؓ  سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ حریر (ریشم) وہ پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں، تو مجھے ڈر ہوا کہ کہیں نقشی کپڑا بھی حریر (ریشم) نہ ہو اور ارجوانی زین پوش، تو خود عبد اللہ کا زین پوش ارجوانی ہے۔ یہ سب میں نے جا کر سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے کہا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ کا یہ جبہ موجود ہے ، پھر انہوں نے طیالسی کسروانی جبہ (جو ایران کے بادشاہ کسریٰ کی طرف منسوب تھا ) نکالا جس کے گریبان پر ریشم لگا ہوا تھا اور دامن بھی ریشمی تھے۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ جبہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک ان کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہو گئیں تو یہ جبہ میں نے لے لیا اور رسول اللہﷺ اس کو پہنا کرتے تھے اب ہم اس کو دھو کر اس کا پانی بیماروں کو شفا کے لئے پلاتے ہیں (سنجاف حریر یعنی دامن پر ریشم کی پٹی چار انگلی تک درست ہے ، اس سے زیادہ حرام ہے )۔

باب : ریشمی کپڑا پھاڑ کر عورتوں کے لئے دوپٹے بنانا۔

1343: امیر المؤمنین خلیفہ راشد سیدنا علی بن ابی طالبؓ  سے روایت ہے کہ اکیدر دومہ کے بادشاہ نے رسول اللہﷺ کو ایک ریشمی کپڑے کا تحفہ بھیجا، آپﷺ نے وہ مجھے دے دیا اور فرمایا کہ اس کو پھاڑ کر تینوں فاطمہ کے دوپٹے (ایک سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا اور دوسری سیدنا علیؓ  کی والدہ فاطمہ بنت اسد کا اور تیسری فاطمہ بنت حمزہ رضی اللہ عنہا کا) بنا لو۔

باب : ”قسی“ اور ”معصفر“ (کپڑے ) اور سونے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت۔

1344: امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابی طالبؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے قسی (ایک قسم کا ریشمی کپڑا ہے ) اور کسم میں رنگا ہوا کپڑا پہننے سے اور سونے کی انگوٹھی پہننے سے اور رکوع میں قرآن پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔

1345: سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے کسم کے رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ یہ کافروں کے کپڑے ہیں ان کو مت پہن۔

باب : (مَردوں کے لئے ) زعفران لگانے کی ممانعت۔

1346: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مرد کو زعفران لگانے سے اور (زعفران کے رنگ سے ) منع فرمایا ہے۔

باب : بالوں کے رنگنے اور (بڑھاپے میں) بالوں کی سفیدی کے رنگ کو تبدیل کرنے کے متعلق۔

1347: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ ابو قحافہؓ  جس سال مکہ فتح ہوا آئے اور ان کا سر اور ان کی داڑھی ثغامہ کی طرح سفید تھی (ثغامہ ایک سفید گھاس کا نام ہے )۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس سفیدی کو کسی چیز سے بدل دو اور سیاہ رنگ سے بچو۔

باب : خضاب (لگانے ) میں یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرنے کے متعلق۔

1348: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ یہود اور نصاریٰ خضاب نہیں کرتے تو تم ان کا خلاف کرو (یعنی خضاب کیا کرو لیکن جیسے پہلی حدیث میں گزرا، سیاہ خضاب نہیں)۔

باب : دھاری دار یمن کی چادر کے لباس کے متعلق۔

1349: قتادہ کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا انسؓ  سے کہا کہ رسول اللہﷺ کو کونسا کپڑا پسند تھا؟ انہوں نے کہا کہ یمن کی چادر (جو دھاری دار ہوتی ہے ، یہ کپڑا نہایت مضبوط اور عمدہ ہوتا ہے )۔

باب : کالے رنگ کا کمبل پہننا، جس پر پالان کی تصویریں ہوں۔

1350: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک صبح کو نکلے اور آپﷺ کالے بالوں کا ایک کمبل اوڑھے ہوئے تھے جس پر پالان کی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔

باب : موٹے کپڑے کا تہبند اور ملبد کپڑے پہننے کے متعلق۔

1351: سیدنا ابو بردہؓ کہتے ہیں کہ میں اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، انہوں نے ایک موٹا تہبند نکالا جو یمن میں بنتا ہے اور ایک کمبل جس کو ملبدہ کہتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ کی قسم کھائی کہ رسول اللہﷺ کی وفات ان دونوں کپڑوں میں ہوئی۔

باب : ”انماط“ (یعنی) قالین وغیرہ کے متعلق۔

1352: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ جب میں نے نکاح کیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کیا تیرے پاس قالین وغیرہ ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس قالین کہاں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ عنقریب تمہارے پاس ہوں گے۔ سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ میری بیوی کے پاس ایک قالین ہے ، میں اس کو کہتا ہوں کہ اس کو دور کر تو وہ کہتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ عنقریب تمہارے پاس قالین ہوں گے (تو سیدنا جابرؓ  ان کومکروہ جان کر دور کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ دنیا کی زینت ہے )۔ (”انماط“ قالینوں اور اسی قسم کے بہترین کپڑوں کو بھی کہا جاتا ہے جو نیچے بچھائے جائیں)۔

باب : ضروری بستر بنا کر رکھنے کے متعلق۔

1353: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا: ایک بستر آدمی کے لئے چاہئیے اور ایک اس کی بیوی کے لئے ، ایک بستر مہمان کے لئے اور چوتھا شیطان کا ہو گا۔ (یعنی جو لوگوں کو دکھانے اور اپنی برتری ظاہر کرنے کے لئے بنایا جائے )۔

باب : چمڑے کا بچھونا جس میں چھال بھری ہو۔

1354: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کا (بستر) بچھونا جس پر آپﷺ سوتے تھے ، وہ چمڑے کا تھا اور اس کے اندر کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔

باب : ”اشتمال الصماء“ (یعنی ایک ہی کپڑا سارے جسم پر لپیٹنے ) اور ”احتباء“ ایک کپڑے سے کرنے کے متعلق۔

1355: سیدنا جابرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے بائیں ہاتھ سے کھانے ، ایک جوتآپہن کر چلنے ، ایک ہی کپڑا سارے بدن پر لپیٹنے سے یا گوٹ مار کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ ایک کپڑے میں اپنی شرمگاہ کھولے ہوئے (جس کو احتباء کہتے ہیں، یہ ایک کپڑے میں ستر کے کھلنے کی صورت میں منع ہے اور کئی کپڑے ہوں یا ستر کھلنے کا ڈر نہ ہو تو مکروہ ہے )۔

باب : چت لیٹنے اور ایک پاؤں دوسرے پاؤں پر رکھنے کی ممانعت۔

1356: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کوئی تم میں سے چت نہ لیٹے کہ پھر ایک پاؤں دوسرے پر رکھ لے۔

باب : چت لیٹ کر ایک پاؤں دوسرے پاؤں پر رکھنے کی اجازت۔

1357: عباد بن تمیم اپنے چچاؓ  سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو مسجد میں چت لیٹے ہوئے دیکھا کہ ایک پاؤں دوسرے پر رکھے ہوئے تھے۔

باب : آدھی پنڈلی تک چادر اوپر اٹھا کر رکھنے کے متعلق۔

1358: سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے سامنے سے گزرا اور میری چادر لٹک رہی تھی، تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے عبد اللہ! اپنی چادر اونچی کر۔ میں نے اٹھا لی تو آپﷺ نے فرمایا کہ اور اونچی کر۔ میں نے اور اونچی کی۔ پھر میں (اپنی تہبند کو) اٹھا کر ہی رکھتا ہوں۔ تھا یہاں تک کہ لوگوں نے پوچھا کہ کہاں تک اٹھانی چاہیئے ؟ سیدنا ابن عمرؓ  نے کہا کہ نصف پنڈلی تک۔

باب : تکبر کی بنا پر جو اپنی چادر لٹکائے گا اللہ تعالیٰ اس شخص کو (قیامت کے دن رحمت کی نظر سے ) نہیں دیکھے گا۔

1359: محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابو ہریرہؓ  سے سنا، انہوں نے ایک شخص کو اپنا تہبند لٹکائے ہوئے دیکھا اور وہ اپنے پاؤں سے زمین پر مارنے لگا اور وہ بحرین پر امیر تھا اور کہتا تھا کہ امیر آیا امیر آیا (یہ دیکھ کر سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ) رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو نہیں دیکھے گا جو اپنی ازار غرور سے لٹکائے گا۔

باب : تین شخصوں سے اللہ تعالیٰ بات نہیں کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر (رحمت) کرے گا۔

1360: سیدنا ابو ذرؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تین آدمیوں سے نہ بات کرے گا، نہ ان کی طرف (رحمت کی نگاہ سے ) دیکھے گا، نہ ان کو (گناہوں سے ) پاک کرے گا اور ان کو دکھ کا عذاب ہو گا۔ آپﷺ نے تین بار یہی فرمایا تو سیدنا ابو ذرؓ  نے کہا کہ برباد ہو گئے وہ لوگ اور نقصان میں پڑے ، یا رسول اللہﷺ! وہ کون لوگ ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ایک تو اپنی ازار (تہبند، پاجامہ، پتلون، شلوار وغیرہ) کو (ٹخنوں سے نیچے ) لٹکانے والا، دوسرا احسان کر  کے احسان کو جتلانے والا اور تیسرا جھوٹی قسم کھا کر اپنے مال کو بیچنے والا۔

باب : جس نے اپنا کپڑا تکبر و غرور سے (زمین تک) لٹکایا۔

1361 : سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن شخص کی طرف نہیں دیکھے گا جو اپنا کپڑا غرور سے زمین پر کھینچے (گھسیٹے )۔

باب : ایک آدمی اکڑ کر چلنے میں اپنے آپ پر اِترا رہا تھا (تو وہ زمین میں)، دھنسا دیا گیا۔

1362: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ایک شخص اپنے بالوں اور چادر (تہبند) پر اِتراتے ہوئے جا رہا تھا، آخر کار وہ زمین میں دھنسا دیا گیا۔ پھر وہ قیامت تک اسی میں اترتا رہے گا(شاید وہ شخص اسی امت میں ہو اور صحیح یہ ہے کہ اگلی امت میں تھا)۔

باب : جس گھر میں کتا اور تصویر ہو، اس گھر میں (رحمت کے ) فرشتے داخل نہیں ہوتے۔

1263: اُمّ المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک دن صبح کو چپ چاپ اٹھے (جیسے کوئی رنجیدہ ہوتا ہے )۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آج میں نے آپﷺ کا چہرہ مبارک ایسا دیکھا کہ آج تک ویسا نہیں دیکھا تھا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام نے مجھ سے اس رات ملنے کا وعدہ کیا تھا مگر نہیں ملے اور اللہ کی قسم انہوں نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی۔ اس کے بعد آپﷺ کے دل میں اس کتے کے بچے کا خیال آیا جو ہمارے ڈیرے میں تھا، تو اسے نکالنے کا حکم دیا پس وہ نکال دیا گیا۔پھر آپﷺ نے پانی لیا اور جہاں وہ کتا بیٹھا تھا، وہاں وہ پانی چھڑک دیا۔ جب شام ہوئی تو جبرائیل علیہ السلام آئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے مجھ سے گزشتہ رات ملنے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہاں، لیکن ہم اس گھر میں نہیں جاتے جس میں کتا یا تصویر ہو۔ پھر اس کی صبح کو رسول اللہﷺ نے کتوں کے قتل کا حکم دیا، یہاں تک کہ آپﷺ نے چھوٹے باغ کا کتا بھی قتل کروا دیا اور بڑے باغ کے کتے کو چھوڑ دیا۔

1364: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: فرشتے اس گھر میں نہیں جاتے جس میں مورتیاں اور تصاویر ہوں۔

باب : فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہو، البتہ کپڑے کے نقش و نگار میں کوئی حرج نہیں۔

1365: بسر بن سعید، زید بن خالد سے روایت کرتے ہیں اور وہ رسول اللہﷺ کے صحابی سیدنا ابو طلحہؓ  سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس گھر میں تصویر ہو یا اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ بسر نے کہا کہ زید بیمار ہوئے تو ہم ان کی بیمار پرسی کو گئے ، ان کے دروازہ پر ایک پردہ لٹکا تھا جس پر مورت تھی۔ میں نے عبید اللہ خولانی سے کہا جو کہ اُمّ المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کا ربیب تھا کہ کیا خود زید ہی نے ہم سے تصویر کی حدیث بیان نہیں کی تھی؟ (اور اب تصویر والا پردہ لٹکایا ہے )۔ عبید اللہ نے کہا کہ جب انہوں نے بیان کی تھی تو تم نے سنا نہیں تھا کہ انہوں نے یہ بھی کہا تھا، مگر کپڑے میں جو نقش ہوں۔

باب : وہ پردہ مکروہ ہے جس پر تصویریں ہوں، نیز اس (پردے ) کو کاٹ کر تکیہ بنانے کے متعلق۔

1366: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ میرے پاس آئے اور میں نے طاق یا مچان کو اپنے ایک پردہ سے ڈھانکا تھا، جس میں تصویریں تھیں۔ جب آپﷺ نے یہ دیکھا تو اس کو پھاڑ ڈالا اور آپﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ! سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت کے دن ان لوگوں کو ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی شکلیں بناتے ہیں۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے اس کو کاٹ کر ایک تکیہ یا دو تکیے بنائے۔ (تصویر والے کپڑے کا تکیہ صرف اسی وقت بنایا جا سکتا ہے جبکہ تکیہ بنانے سے تصویر کا حلیہ بگڑ جائے )۔

1367: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ سفر سے تشریف لائے اور میں نے اپنے دروازے پر ایک قالین لٹکایا تھا، جس پر گھوڑوں کی تصویریں بنی تھیں، تو آپﷺ کے حکم سے میں نے اسے اتار دیا۔

باب : گدے (کے اوپر والے کپڑے ) پر تصویریں اور اس کو تکیہ بنانے کا حکم۔

1368: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک گدیلا (گدے کے اوپر کا کپڑا) خریدا، جس میں تصویریں تھیں۔ جب رسول اللہﷺ نے اس کو دیکھا تو آپﷺ دروازے پر کھڑے رہے اور اندر داخل نہ ہوئے۔ میں نے پہچان لیا کہ آپﷺ کے چہرے مبارک پر رنج ہے۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ میں اللہ اور اس کے رسول کے سامنے توبہ کرتی ہوں، میرا کیا گناہ ہے ؟آپﷺ نے فرمایا کہ یہ گدیلا کیسا ہے ؟ میں نے کہا کہ میں نے اس کو آپﷺ کے بیٹھنے اور تکیہ لگانے کے لئے خریدا ہے ، تو آپﷺ نے فرمایا کہ جنہوں نے یہ تصویریں بنائیں ان کو عذاب ہو گا اور ان سے کہا جائے گا کہ ان میں جان ڈالو۔ پھر فرمایا کہ جس گھر میں تصویریں ہوں، وہاں فرشتے نہیں آتے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ میں نے اس کے دو تکیے بنا لئے اور آپﷺ اس پر گھر میں آرام فرماتے تھے۔

باب : تصاویر بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب ہو گا۔

1369: سعید بن ابو الحسن کہتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میں تصویریں بنانے والا ہوں، مجھے اس کا بتا دیجئے۔ سیدنا ابن عباسؓ نے کہا کہ میرے قریب آ۔ وہ پاس آگیا۔ پھر انہوں نے کہا کہ اور قریب آ۔ وہ اور پاس آگیا، یہاں تک کہ سیدنا ابن عباسؓ نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھا اور کہا کہ میں تجھ سے وہ کہتا ہوں جو میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے ، میں نے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ ہر ایک تصویر بنانے والا جہنم میں جائے گا اور ہر ایک تصویر کے بدل ایک جاندار چیز بنائی جائے گی، جو اس کو جہنم میں تکلیف دے گی۔ اور سیدنا ابن عباسؓ نے کہا کہ اگر تو لازماً بنانا چاہتا ہے تو درخت کی یا کسی اور بے جان چیز کی تصویر بنا۔

باب : تصویر بنانے والوں پر سختی کا بیان۔

1370: ابو زرعہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابو ہریرہؓ  کے ساتھ مروان کے گھر میں داخل ہوا وہاں تصویریں دیکھیں تو کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے ، آپﷺ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اس سے زیادہ قصوروار کون ہو گا جو میری طرح تخلیق کرے ؟ اچھا ایک چیونٹی یا گندم یا جَوکا ایک دانہ بنا دیں۔

باب : سونے کی انگوٹھی بنانے ، اور چاندی (کے برتن) میں پینے اور ریشم اور دیباج کا لباس پہننے کی ممانعت۔

1371: سیدنا براء بن عازبؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم کیا اور سات باتوں سے منع فرمایا۔ ہمیں حکم کیا بیمار پرسی کرنے کا، جنازے کے ساتھ (قبر تک) جانے کا، چھینک کا جواب دینے کا، قسم کو پورا کرنے کا، مظلوم کی مدد کرنے کا، دعوت قبول کرنے کا اور اسلام پھیلانے یا عام کرنے کا۔ اور منع کیا سونے کی انگوٹھی پہننے سے ، چاندی کے برتن میں کھانے پینے سے ، زین پوش (یعنی ریشمی زین پوشوں سے اگر ریشمی نہ ہوں تو منع نہیں ہے )، قسی کے پہننے سے (جو مصر کے ایک مقامِ قس کا بنا ہوا ایک ریشمی کپڑا ہے )، ریشمی کپڑا  پہننے سے اور استبرق اور دیباج سے (یہ دونوں بھی ریشمی کپڑے ہی ہیں)۔

باب : سونے کی انگوٹھی (اتار) پھینکنا۔

1372: سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو آپﷺ نے اُتار کر پھینک دی اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی جہنم کی آگ کے انگارے کا قصد کرتا ہے ، پھر اس کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ جب آپﷺ تشریف لے گئے تو لوگوں نے اس شخص سے کہا کہ تو اپنی انگوٹھی اٹھا لے اور اس (کی قیمت) سے نفع حاصل کر لے۔ وہ بولا کہ اللہ کی قسم میں اس کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا، جس کو رسول اللہﷺ نے پھینک دیا (سبحان اللہ صحابہ کا تقویٰ اور اتباع اس درجہ کو پہنچا تھا۔ اگر وہ اٹھا لیتا اور بیچ لیتا تو گناہ نہ ہوتا)۔

1373: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی تھی جب پہنتے تو اس کا نگ آپﷺ ہتھیلی کی طرف رکھتے۔ پھر ایک دن آپﷺ منبر پر بیٹھے تو آپﷺ نے وہ انگوٹھی اتار ڈالی اور فرمایا کہ میں اس انگوٹھی کو پہنتا تھا اور اس کا نگ اندر کی طرف رکھتا تھا، پھر اس کو پھینک دیا اور فرمایا کہ اللہ کی قسم اب میں اس کو کبھی نہیں پہنوں گا۔ یہ دیکھ کر لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔

باب : نبیﷺ کا چاندی کی انگوٹھی پہننا، جس کا نقش ”محمد رسول اللہ“ تھا اور آپﷺ کے بعد خلفاء کا پہننا۔

1374: سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور وہ آپﷺ کے ہاتھ میں تھی، پھر وہ سیدنا ابو بکرؓ  کے ہاتھ میں رہی، پھر سیدنا عمرؓ  کے ہاتھ میں رہی، پھر سیدنا عثمانؓ  کے ہاتھ میں رہی، یہاں تک کہ ان سے اریس کے کنوئیں میں گر گئی۔ اس انگوٹھی کا نقش یہ تھا ”محمد رسول اللہ“ﷺ۔

1375: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس میں ”محمد رسول اللہ“ﷺ کا نقش بنوایا۔ لوگوں سے فرمایا کہ میں نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی ہے اور اس میں ”محمد رسول اللہ“ کا نقش بنوایا ہے ، تو کوئی اپنی انگوٹھی میں یہ نقش نہ بنوائے۔

1376: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے (ایران کے بادشاہ) کسریٰ اور (روم کے بادشاہ) قیصر اور (حبش کے بادشاہ) نجاشی کو خط لکھنا چاہا تو لوگوں نے عرض کیا کہ یہ بادشاہ کوئی خط نہ لیں گے جب تک اس پر مہر نہ ہو۔ آخر آپﷺ نے ایک انگوٹھی بنوائی جس کا چھلہ چاندی کا تھا اور اس میں محمد رسول اللہ نقش تھا۔

باب : چاندی کی انگوٹھی، جس کا نگینہ ”حبشی“ تھا اور دائیں ہاتھ میں پہننے کے متعلق۔

1377: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی اپنے دائیں ہاتھ میں پہنی، جس کا نگینہ حبشہ کا تھا اور اس کا نگینہ آپﷺ اندر کو ہتھیلی کی طرف رکھتے تھے۔

باب : بائیں ہاتھ کی چھنگلی میں انگوٹھی پہننے متعلق۔

1378: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی انگوٹھی اس انگلی میں تھی اور بائیں ہاتھ کی چھنگلی کی طرف اشارہ کیا۔

باب : درمیانی انگلی اور ساتھ والی انگلی میں انگوٹھی پہننے کی ممانعت میں۔

1379: امیر المؤمنین سیدنا علیؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے اس انگلی میں یا اس انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا اور درمیانی انگلی اور اس کے پاس والی انگلی کی طرف اشارہ کیا۔ (کیونکہ یہ انگلیاں ہر کام میں شریک ہوتی ہیں اور انگوٹھی سے حرج ہو گا، البتہ چھنگلی الگ رہتی ہے اسی میں انگوٹھی پہننا بہتر ہے )

باب : جوتا اور اس کے زیادہ پہننے کے متعلق۔

1380: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ سے ایک جہاد میں جس میں ہم شریک تھے ، سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ جوتیاں بہت پہنا کرو کیونکہ جوتیاں پہننے سے آدمی سوار رہتا ہے (یعنی مثل سوار کے پاؤں کو تکلیف نہیں ہوتی)۔

باب : جب جوتا پہنے تو دائیں طرف سے ابتداء کرے اور جب اتارے تو بائیں طرف سے ابتداء کرے۔

1381: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی جوتا پہنے تو دائیں پاؤں سے شروع کرے اور جب اتارے تو بائیں سے شروع کرے اور چاہئیے کہ دونوں (جوتے ) پہنے یا دونوں اتار ڈالے۔

باب : ایک جوتا پہن کر چلنے کی ممانعت۔

1381م: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایک جوتا پہن کر نہ چلے۔ دونوں پہنے یا دونوں اتار ڈالے (ورنہ پاؤں میں موچ آ جانے کا احتمال ہے اور بدنما بھی ہے )۔

باب : سر کا کچھ حصہ مونڈنے اور کچھ چھوڑ دینے کی ممانعت (جیسے فوجی کٹ، برگر کٹ وغیرہ)۔

1382: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے قزع سے منع کیا۔ راوی نے کہا کہ میں نے نافع سے پوچھا کہ قزع کیاہے۔ تو انہوں نے کہا کہ بچے کے سر کا کچھ حصہ مونڈنا اور کچھ چھوڑ دینا۔

باب : عورت کو بالوں کے ساتھ مصنوعی بال لگانے کی ممانعت۔

1383: سیدنا اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک عورت آئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میری بیٹی دلہن بنی ہے اور خسرہ کی بیماری سے اس کے بال گر گئے ہیں، تو کیا میں اس کے بالوں میں جوڑ لگا دوں؟ (یعنی مصنوعی بال وغیرہ جو بازار میں ملتے ہیں) آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے (بالوں میں) جوڑ لگانے اور لگوانے والی پر لعنت کی ہے۔

باب : عورت کو اپنے سر میں جوڑ لگانے پر سختی کا بیان۔

1384: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ عورت کو اپنے سر میں جوڑ لگانے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔

1385: حمید بن عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما سے سنا، جس سال کہ حج کیا، انہوں نے منبر پر کہا اور بالوں کا ایک چوٹیلا اپنے ہاتھ میں لیا، جو غلام کے پاس تھا کہ اے مدینہ والو! تمہارے عالم کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہﷺ  سے سنا، آپﷺ اس سے منع کرتے تھے (یعنی جوڑ لگانے سے ) اور فرماتے تھے کہ بنی اسرائیل اسی طرح تباہ ہوئے جب ان کی عورتوں نے یہ کام شروع کیا (یعنی عیش عشرت اور شہوت پرستی میں پڑ گئے اور لڑائی سے دل چرانے لگے )۔

باب : چہرے کے بال اکھاڑنے اور دانتوں کو کشادہ کرنے پر لعنت۔

1386: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے لعنت کی گودنے والیوں اور گدوانے والیوں پر اور چہرے کے بال اکھیڑنے والیوں پر اور اکھڑوانے والیوں پر اور دانتوں کو خوبصورتی کے لئے کشادہ کرنے والیوں پر (تاکہ خوبصورت و کمسن معلوم ہوں) اور اللہ تعالیٰ کی خلقت (پیدائش) بدلنے والیوں پر۔ پھر یہ خبر بنی اسد کی ایک عورت کو پہنچی جسے اُمّ یعقوب کہا جاتا تھا اور وہ قرآن کی قاریہ تھی، تو وہ سیدنا عبد اللہؓ  کے پاس آئی اور بولی کہ مجھے کیا خبر پہنچی ہے کہ تم نے گودنے والیوں اور گدوانے والیوں پر اور منہ کے بال اکھاڑنے والیوں پر اور اکھڑوانے والیوں، اور دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں پر اور اللہ تعالیٰ کی خلقت کو بدلنے والیوں پر لعنت کی ہے ؟ تو سیدنا عبد اللہؓ  نے کہا کہ میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں جس پر اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ نے لعنت کی اور یہ تو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں موجود ہے ؟ وہ عورت بولی کہ میں تو دو جلدوں میں جس قدر قرآن تھا، پڑھ ڈالا لیکن مجھے نہیں ملا، تو سیدنا عبد اللہؓ  نے کہا کہ اگر تو نے پڑھا ہے تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان تجھے ضرور ملا ہو گا کہ ’جو کچھ رسول اللہﷺ تمہیں بتلائے اسکو تھامے رہو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو‘ (الحشر:7) وہ عورت بولی کہ ان باتوں میں سے تو بعضی باتیں تمہاری عورت بھی کرتی ہے۔ سیدنا عبد اللہؓ  نے کہا کہ جا دیکھ۔ وہ ان کی عورت کے پاس گئی تو کچھ نہ پایا۔ پھر لوٹ کر آئی اور کہنے لگی کہ ان میں سے کوئی بات میں نے نہیں دیکھی، تو سیدنا عبد اللہؓ  نے کہا کہ اگر وہ ایسا کرتی تو ہم اس سے صحبت نہ کرتے۔

باب : اپنے آپ کو ”پیٹ بھرا“ ثابت کرنے والے کے متعلق، جبکہ درحقیقت پیٹ خالی ہو۔

1387: سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نبیﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میری ایک سوتن ہے ، کیا مجھے اس بات سے گناہ ہو گا کہ میں (اس کا دل جلانے کو) یہ کہوں کہ خاوند نے مجھے یہ دیا ہے حالانکہ اس نے نہیں دیا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ جس کو کوئی چیز نہ ملی اور یہ بیان کرے کہ اس کو ملی ہے ، تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے فریب کے دو کپڑے پہن لئے (اور اپنے تئیں زاہد متقی بتلایا حالانکہ اصل میں دنیا دار فریبی ہے لاحول ولا قوۃ الا باللہ)۔

باب : ان عورتوں کے متعلق جو کپڑے پہنے ہوئے بھی ننگی ہی ہیں۔

1388: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ دوزخیوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جن کو میں نے نہیں دیکھا۔ ایک تو وہ لوگ جن کے پاس بیلوں کی دُموں کی طرح کے کوڑے ہیں اور وہ لوگوں کو اُن سے مارتے ہیں اور دوسری وہ عورتیں جو (لباس) پہنتی ہیں مگر ننگی ہیں (یعنی ستر کے لائق اعضاء کھلے ہیں جیسا کہ ساڑھی پہن کر عورتوں کے سر ، پیٹ اور پاؤں وغیرہ کھلے رہتے ہیں یا کپڑے ایسے تنگ اور باریک پہنتی ہیں جن میں سے بدن نظر آتا ہے تو گویا ننگی ہیں)، وہ سیدھی راہ سے بہکانے والی اور خود بہکنے والی ہیں اور ان کے سر بختی (اونٹ کی ایک قسم ہے ) اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے ہوئے ہوں گے ؟ وہ جنت میں نہ جائیں گی، بلکہ ان کو اس کی خوشبو بھی نہ ملے گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی اتنی دور جاتی ہے۔

باب : جانوروں کے گلے میں موجود ”ہار“ کاٹ دینا۔

1389: سیدنا ابو بشیر انصاریؓ  سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے ساتھ سفر میں تھے تو آپﷺ نے ایک پیغام پہنچانے والے کو بھیجا۔ عبد اللہ بن ابی بکر نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں اس قاصد نے یہ کہا جبکہ لوگ اس وقت اپنے سونے کے مقامات میں تھے ، کہ کسی اونٹ کے گلے میں تانت کا ہار یا ہار نہ رہے مگر اس کو کاٹ ڈالیں۔ مالک نے کہا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ یہ نظر نہ لگنے کے خیال سے ڈالتے تھے۔

باب : گھنٹیوں کے متعلق اور اس بارے میں کہ (رحمت کے ) فرشتے اس سفر میں ساتھی نہیں بنتے جس میں کتا اور گھنٹی ہو۔

1390: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: فرشتے ان مسافروں کے ساتھ نہیں رہتے جن کے ساتھ گھنٹی یا کتا ہو۔

1391: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: گھنٹی شیطان کا باجا ہے۔

باب : جانوروں کے چہرے پر داغنے سے ممانعت کے متعلق۔

1392: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے منہ پر مارنے اور منہ پر داغ دینے سے منع فرمایا ہے۔

1393: ناعم بن ابی عبد اللہ مولیٰ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا ابن عباسؓ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے ایک گدھا دیکھا جس کے منہ پر داغ تھا تو آپﷺ نے اس کو ناپسند کیا اور ابن عباس نے کہا کہ اللہ کی قسم میں داغ نہیں دیتا مگر اس جگہ پر جو منہ سے بہت دور ہے (یعنی پٹھا وغیرہ) اور اپنے گدھے کو داغ دینے کا حکم کیا تو پٹھوں پر داغ دیا گیا اور سب سے پہلے آپ (ابن عباس) نے ہی پٹھوں پر داغا۔

باب : بکریوں کے کانوں میں داغنے کے بیان میں۔

1394: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس باڑے میں گے ، آپﷺ بکریوں کو کانوں پر داغ دے رہے تھے۔

باب : پیٹھ پر داغنے کے بیان میں۔

1395: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ جب اُمّ سلیم نے بچہ جنا، تو مجھ سے کہا کہ اے انس! دیکھ یہ بچہ کچھ نہ کھانے پینے پائے جب تک تو اس کو صبح کو رسول اللہﷺ کے پاس نہ لے جائے اور آپﷺ کچھ چبا کر اس کے منہ میں نہ ڈالیں۔ سیدنا انس نے کہا کہ پھر میں صبح کو آپﷺ کے پاس گیا اور آپﷺ باغ میں تھے اور (قبیلہ یا مقامِ) جون کی ایک کملی اوڑھے ہوئے اپنے ان اونٹوں پر داغ دے رہے تھے ، جو فتح میں آپﷺ کے پاس آئے تھے۔

 

 

 

 

کتاب: آداب کا بیان

 

باب : نبیﷺ کا قول کہ میرے نام پر نام رکھو اور میری کنیت پر کسی کی کنیت نہ رکھو۔

1396: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ ایک شخص نے مقامِ بقیع میں دوسرے شخص کو پکارا کہ اے ابو القاسم! رسول اللہﷺ نے ادھر دیکھا تو وہ شخص بولا کہ یا رسول اللہﷺ! میں نے آپﷺ کو نہیں فلاں شخص کو پکارا تھا (اس کی کنیت بھی ابو القاسم ہو گی)، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے نام سے نام رکھ لو مگر میری کنیت کی طرح کنیت مت رکھو۔

باب : محمدﷺ کے نام کے ساتھ نام رکھنا۔

1397: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ ہم میں سے ایک شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہوا اس نے اس کا نام محمد رکھا۔ اس کی قوم نے اس سے کہا کہ ہم تجھے یہ نام نہیں رکھنے دیں گے ، تو رسول اللہﷺ کا نام رکھتا ہے۔ چنانچہ وہ شخص اپنے بچے کو اپنی پیٹھ پر اٹھا کر نبیﷺ کے پاس لایا اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسولﷺ میرا لڑکا پیدا ہوا، میں نے اسکا نام محمد رکھا تو میری قوم کے لوگ کہتے ہیں کہ ہم تجھے نہیں چھوڑیں گے ، تو رسول اللہﷺ کا نام رکھتا ہے۔ پس رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میرا نام رکھو لیکن میری کنیت (یعنی ابو القاسم) نہ رکھو کیونکہ میں قاسم ہوں میں تمہارے درمیان تقسیم کرتا ہوں (دین کا علم اور مالِ غنیمت وغیرہ)

باب : اللہ تعالی کے ہاں پسندیدہ ترین نام عبد اللہ اور عبدالرحمن ہیں۔

1398: سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہارے ناموں میں سے بہتر نام اللہ تعالیٰ کے نزدیک عبد اللہ اور عبدالرحمن ہیں۔

باب : بچے کا نام عبدالرحمن رکھنا۔

1399: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ ہم میں سے ایک شخص کے لڑکا پیدا ہوا تو اس نے اس کا نام قاسم رکھا، ہم لوگوں نے کہا کہ ہم تجھے ابو القاسم کنیت نہ دیں گے اور تیری آنکھ ٹھنڈی نہ کریں گے۔ وہ رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور یہ بیان کیا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ عبدالرحمن اپنے بیٹے کا نام رکھ لے۔

باب : بچے کا نام عبد اللہ رکھنا، اس پر ہاتھ پھیرنا اور اس کے لئے دعا کرنا۔

1400: عروہ بن زبیر اور فاطمہ بنت منذر بن زبیر سے روایت ہے کہ ان دونوں نے کہا کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا (مکہ سے ) ہجرت کی نیت سے جس وقت نکلیں، ان کے پیٹ میں عبد اللہ بن زبیر تھے (یعنی حاملہ تھیں) جب وہ قبا میں آ کر اتریں تو وہاں سیدنا عبد اللہ بن زبیر پیدا ہوئے۔ پھر ولادت کے بعد انہیں لیکر نبیﷺ کے پاس آئیں تاکہ آپﷺ اس کو گھٹی لگائیں،پس آپﷺ نے انہیں سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے لے لیا اور اپنی گود میں بٹھایا، پھر ایک کھجور منگوائی۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم ایک گھڑی تک کھجور ڈھونڈتے رہے ، آخر آپﷺ نے کھجور کو چبایا، پھر (اس کا جوس) ان کے منہ میں ڈال دیا۔ یہی پہلی چیز جو عبد اللہ کے پیٹ میں پہنچی، وہ رسول اللہﷺ کا تھوک تھا۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے عبد اللہ پر ہاتھ پھیرا اور ان کے لئے دعاکی اور ان کا نام عبد اللہ رکھا۔ پھر جب وہ سات یا آٹھ برس کے ہوئے تو سیدنا زبیرؓ  کے اشارے پر وہ نبیﷺ سے بیعت کے لئے آئے۔ جب نبیﷺ نے ان کو آتے دیکھا تو تبسم فرمایا۔ پھر ان سے (برکت کے لئے ) بیعت کی (کیونکہ وہ کمسن تھے )۔

1401: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ ابو طلحہؓ  کا ایک لڑکا بیمار تھا، وہ باہر گئے ہوئے تھے کہ وہ لڑکا فوت ہو گیا۔ جب وہ لوٹ کر آئے تو انہوں نے پوچھا کہ میرا بچہ کیسا ہے ؟ (ان کی بیوی) اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اب پہلے کی نسبت اس کو آرام ہے (یہ موت کی طرف اشارہ ہے اور کچھ جھوٹ بھی نہیں)۔ پھر اُمّ سلیم شام کا کھانا ان کے پاس لائیں تو انہوں نے کھایا۔ اس کے بعد اُمّ سلیم سے صحبت کی۔ جب فارغ ہوئے تو اُمّ سلیم نے کہا کہ جاؤ بچہ کو دفن کر دو۔ پھر صبح کو ابو طلحہ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور آپﷺ سے سب حال بیان کیا، تو آپﷺ نے پوچھا کہ کیا تم نے رات کو اپنی بیوی سے صحبت کی تھی؟ ابو طلحہ نے کہا جی ہاں۔ آپﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ ان دونوں کو برکت دے۔ پھر اُمّ سلیم کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو ابو طلحہ نے مجھ سے کہا کہ اس بچہ کو اٹھا کر رسول اللہﷺ کے پاس لے جا اور اُمّ سلیم نے بچے کے ساتھ تھوڑی کھجوریں بھی بھیجیں۔ رسول اللہﷺ نے اس بچے کو لے لیا اور پوچھا کہ اس کے ساتھ کچھ ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ کھجوریں ہیں۔ آپﷺ نے کھجوروں کو لے کر چبایا، پھر اپنے منہ سے نکال کر بچے کے منہ میں ڈال کر اسے گٹھی دی اور اس کا نام عبد اللہ رکھا۔

باب : انبیاء اور صالحین کے ناموں کے ساتھ نام رکھنے کا بیان۔

1402: سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ  سے روایت ہے کہ جب میں نجران میں آیا، تو وہاں کے (انصاری) لوگوں نے مجھ پر اعتراض کیا کہ تم پڑھتے ہو کہ ”اے ہارون کی بہن“ (مریم:28) (یعنی مریم علیہا السلام کو ہارون کی بہن کہا ہے ) حالانکہ (سیدنا ہارون موسیٰ علیہ السلام کے بھائی تھے اور) موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام سے اتنی مدت پہلے تھے (پھر مریم ہارون علیہ السلام کی بہن کیونکر ہو سکتی ہیں؟)، جب میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا تو میں نے آپﷺ سے پوچھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ (یہ وہ ہارون تھوڑی ہیں جو موسیٰ کے بھائی تھے ) بنی اسرائیل کی عادت تھی (جیسے اب سب کی عادت ہے ) کہ وہ پیغمبروں اور اگلے نیکوں کے نام پر نام رکھتے تھے۔

باب : بچے کا نام ابراہیم رکھنا۔

1403: سیدنا ابو موسیٰؓ  کہتے ہیں کہ میرا ایک لڑکا پیدا ہوا، میں اس کو لے کر رسول اللہﷺ کے پاس آیا تو آپﷺ نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور اس کے منہ میں ایک کھجور چبا کر ڈالی۔

باب : بچے کا نام منذر رکھنا۔

1404: سہل بن سعد کہتے ہیں کہ ابو اسیدؓ  کا بیٹا منذر، جب پیدا ہوا تو اسے رسول اللہﷺ کے پاس لایا گیا۔ آپﷺ نے اس کو اپنی ران پر رکھا اور (اس کے والد) ابو اسید۔ بیٹھے تھے پھر آپﷺ کسی چیز میں اپنے سامنے متوجہ ہوئے تو ابو اسید نے حکم دیا تو وہ بچہ آپﷺ کے ران پر سے اٹھا لیا گیا۔ جب آپﷺ کو خیال آیا تو فرمایا کہ بچہ کہاں ہے ؟ سیدنا ابو اسیدؓ  نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ ہم نے اس کو اٹھا لیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کا نام کیا ہے ؟ ابو اسید نے کہا کہ فلاں نام ہے ، تو آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں، اس کا نام منذر ہے۔ پھر اُس دن سے انہوں نے اس کا نام منذر ہی رکھ دیا۔

باب : پہلے نام کو اس سے اچھے نام سے بدل دینا۔

1405: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ سیدنا عمرؓ  کی ایک بیٹی کا نام عاصیہ تھا، رسول اللہﷺ نے اس کا نام جمیلہ رکھ دیا۔

باب : ”برہ“ کا نام جویریہ رکھنا۔

1406: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ اُمّ المؤمنین جویریہ رضی اللہ عنہا کا نام پہلے بَرّہ تھا، رسول اللہﷺ نے ان کا نام جویریہ رکھ دیا۔ آپﷺ بُرا جانتے تھے کہ یہ کہا جائے کہ نبیﷺ برہ (نیکو کار بیوی کے گھر) سے چلے گئے۔

باب : ”برہ“ کا نام زینب رکھنا۔

1407: محمد بن عمر بن عطاء کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بیٹی کا نام برہ رکھا، تو زینب بنت ابی سلمہ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے اس نام سے منع کیا ہے اور میرا نام بھی برہ تھا، پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اپنی تعریف مت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم میں بہتر کون ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ پھر ہم اس کا کیا نام رکھیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ زینب رکھو۔

باب : انگور کا نام ”کرم“ رکھنے کا بیان۔

1408: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کوئی تم میں سے انگور کو ”کرم“ نہ کہے اس لئے کہ ”کرم“ مسلمان آدمی کو کہتے ہیں۔

1409: سیدنا وائل بن حجرؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ (انگور کو) کرم مت کہو بلکہ عنب کہو یا حبلہ کہو۔

باب : افلح، رباح، یسار اور نافع نام رکھنے کی ممانعت۔

1410: سیدنا سمرہ بن جندبؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں اپنے غلاموں کے یہ چار نام رکھنے سے منع فرمایا افلح، رباح، یسار، اور نافع۔

1411: سیدنا سمرہ بن جندبؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو چار کلمات سب سے زیادہ پسند ہیں۔ سبحان اللہ ، الحمد للہ ، لا الٰہ الا اللہ، اور اللہ اکبر۔ ان میں سے جس کو چاہے پہلے کہے ، کوئی نقصان نہ ہو گا۔اور اپنے غلام کا نام یسار، رباح، نجیح (اس کے وہی معنی ہیں جو افلح کے ہیں) اور افلح نہ رکھو، اس لئے کہ تو پوچھے گا کہ وہ وہاں ہے (یعنی یسار یا رباح یا نجیح یا افلح) وہ وہاں نہیں ہو گا تو وہ کہے گا نہیں ہے۔ یہ صرف چار ہیں تم مجھ پر ان سے زیادہ نہ کرنا۔

باب : مندرجہ بالا نام رکھنے کی اجازت کے بارے میں۔

1412: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارادہ کیا کہ یعلی، برکت، افلح، یسار اور نافع اور ان جیسے نام رکھنے سے منع کر دیں۔ پھر آپﷺ چپ ہو رہے اور کچھ نہیں فرمایا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ کی وفات ہوئی اور آپﷺ نے اس سے منع نہیں کیا۔ پھر سیدنا عمرؓ  نے اس سے منع کرنا چاہا، اس کے بعد چھوڑ دیا اور منع نہیں کیا۔

باب : (غلام کے لئے ) ”عبد۔ امة“ اور (مالک کے لئے ) ”مولی۔ سید“ بولنے کے متعلق۔

1413: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کوئی تم میں سے (اپنے غلام کو) یوں نہ کہے کہ پانی پلا اپنے رب کو یا اپنے رب کو کھانا کھلا یا اپنے رب کو وضو کرا اور کوئی تم میں سے دوسرے کو اپنا رب نہ کہے بلکہ سید یا مولیٰ کہے اور کوئی تم میں سے یوں نہ کہے کہ میرا بندہ یا میری بندی بلکہ جوان مرد اور جوان عورت کہے۔

باب : چھوٹے بچے کی کنیت رکھنا۔

1414: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سب لوگوں سے زیادہ خوش مزاج تھے ، میرا ایک بھائی تھا جس کو ابو عمیر کہتے تھے (اس سے معلوم ہوا کہ کمسن اور جس کے بچہ نہ ہوا ہو کنیت رکھنا درست ہے ) (میں سمجھتا ہوں کہ انس نے کہا کہ) اس کا دودھ چھڑایا گیا تھا۔ جب رسول اللہﷺ آتے اور اس کو دیکھتے تو فرماتے کہ اے ابو عمیر! نغیر کہاں ہے ؟ (نغیر بلبل اور چڑیا کو کہتے ہیں) اور وہ لڑکا اس سے کھیلتا تھا۔

باب : کسی آدمی کا کسی آدمی کو ”یا بُنَیّ“ کہنا (یعنی اے میرے بیٹے )۔

1415: سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ  کہتے ہیں کہ کسی نے رسول اللہﷺ سے دجال کے بارے میں اتنا نہیں پوچھا جتنا میں نے پوچھا، آخر آپﷺ نے فرمایا کہ بیٹا تو اس رنج میں کیوں ہے ؟ وہ تجھے نقصان نہ دے گا۔ میں نے عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ پانی کی نہریں اور روٹی کے پہاڑ ہوں گے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہ اسی سبب سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ذلیل ہو گا۔

باب : اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے برا نام یہ ہے کہ کسی کا نام ”شہنشاہ“ ہو۔

1416: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: سب سے زیادہ ذلیل اور بُرا نام اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس شخص کا ہے جس کو لوگ ملک الملوک (شہنشاہ) کہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مالک نہیں ہے۔ سفیان (یعنی ابن عیینہ) نے کہا کہ ملک الملوک شہنشاہ کی طرح ہے۔ اور امام احمد بن حنبل نے کہا کہ میں نے ابو عمرو سے پوچھا کہ ”اَخْنَعُ “ کا کیا معنی ہے تو انہوں نے کہا کہ اس کا معنی ہے سب سے زیادہ ذلیل۔

باب : مسلمان پر مسلمان بھائی کے پانچ حق ہیں۔

1417: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مسلمان پر اس کے مسلمان بھائی کے پانچ حق ہیں۔ اس کے سلام کا جواب دینا، چھینکنے والے کا جواب دینا، دعوت کو قبول کرنا، بیمار کی خبرگیری کرنا اور جنازے کے ساتھ جانا۔

1418: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مسلمان پر اس کے مسلمان بھائی کے چھ حق ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! وہ کیا ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جب تو مسلمان سے ملے تو اس کو سلام کر، جب وہ تیری دعوت کرے تو قبول کر، جب وہ تجھ سے مشورہ چاہے تو اچھا مشورہ دے ، جب چھینکے اور الحمد للہ کہے ، تو تو بھی جواب دے (یعنی یرحمک اللہ کہہ)، جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کو جا اور جب فوت ہو جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جا۔

باب : راستوں میں بیٹھنے کی ممانعت اور راستے کا حق ادا کرنے کے بیان میں۔

1419: سیدنا ابو سعید خدریؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: تم راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ ہمیں اپنی مجلسوں میں بیٹھ کر باتیں کرنے کی مجبوری ہے ، تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر تم نہیں مانتے تو راہ کا حق ادا کرو۔ انہوں نے کہا کہ راہ کا کیا حق ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ آنکھ نیچے رکھنا، کسی کو ایذا نہ دینا، سلام کا جواب دینا اور اچھی بات کا حکم کرنا اور بُری بات سے منع کرنا۔

باب : سوار کا پیدل کو اور کم لوگوں (کی جماعت) کا زیادہ لوگوں (کی جماعت) کو سلام کرنا۔

1420: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سوار پیدل کو سلام کرے ، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے پر سلام کرے اور کم لوگ زیادہ لوگوں پر سلام کریں۔

باب : اجازت طلب کرنے اور سلام کے بارے میں۔

1421: ابو بردہ سیدنا ابو موسیٰؓ  سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیدنا ابو موسیٰؓ  سیدنا عمر بن خطابؓ  کے پاس آئے اور کہا السلام علیکم عبد اللہ بن قیس آیا ہے تو انہوں نے ان کو اندر آنے کی اجازت نہ دی۔ پھر انہوں نے کہا کہ السلام علیکم ابو موسیٰ ہے۔ السلام علیکم یہ اشعری آیا ہے (پہلے اپنا نام بیان کیا پھر کنیت بیان کی پھر نسبت تاکہ سیدنا عمرؓ  کو کوئی شک نہ رہے )۔ آخر لوٹ گئے۔ پھر سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ انہیں واپس میرے پاس لاؤ۔ وہ واپس آئے تو کہا: اے ابو موسیٰ تم کیوں لوٹ گئے ، ہم کام میں مشغول تھے ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ اجازت مانگنا تین بار ہے ، پھر اگر اجازت ہو تو بہتر نہیں تو لوٹ جاؤ۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ اس حدیث پر گواہ لا نہیں تو میں کروں گا اور کروں گا(یعنی سزا دوں گا)۔ سیدنا ابو موسیٰؓ  (یہ سن کر) چلے گئے۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ اگر ابو موسیٰ کو گواہ ملے تو وہ شام کو منبر کے پاس تمہیں ملیں گے ، اگر گواہ نہ ملے تو ان کو ممبر کے پاس نہیں پاؤ گے۔ جب سیدنا عمرص شام کو منبر کے پاس آئے تو سیدنا ابو موسیٰؓ  موجود تھے۔ سیدنا عمر نے کہا کہ اے ابو موسیٰ! کیا کہتے ہو، کیا تمہیں گواہ ملا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، ابی بن کعبؓ  موجود ہیں۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ بیشک وہ معتبر ہیں۔سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ اے ابو الطفیل! (یہ ابن ابی کعبؓ  کی کنیت ہے ) ابو موسیٰؓ  کیا کہتے ہیں؟ سیدنا ابی بن کعبؓ  نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپ فرماتے تھے ، پھر انہوں نے ابو موسیؓ  کی تائید کی پھر کہا کہ اے خطاب کے بیٹے تم نبیﷺ کے اصحاب پر عذاب مت بنو (یعنی ان کو تکلیف مت دو)۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ واہ سبحان اللہ، میں نے تو ایک حدیث سنی تو اس کی تحقیق کرنا زیادہ اچھا سمجھا۔ (اور میری یہ غرض ہر گز نہ تھی کہ معاذ اللہ نبیﷺ کے اصحاب کو تکلیف دوں اور نہ یہ مطلب تھا کہ ابو موسیٰؓ  جھوٹے ہیں)۔

باب : پردہ اٹھا لینا اجازت دینا (ہی) ہے۔

1422: سیدنا ابن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تجھے میرے پاس آنے کی اجازت اس طرح ہے کہ پردہ اٹھایا جائے اور تو میری گفتگو بھی سن سکتا ہے۔ جب تک میں تجھے روک نہ دوں۔

باب : اجازت لیتے وقت ”میں“ کہنا مکروہ ہے (لہٰذا اپنا نام بتانا چاہیئے )۔

1423: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ سے اجازت مانگی، تو آپﷺ نے پوچھا کہ کون ہے ؟ میں نے کہا کہ میں ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا ”میں میں“۔ ایک روایت میں ہے کہ گویا نبیﷺ نے ”میں“ کہنے کو بُرا جانا۔

باب : اجازت لینے کے وقت (گھر میں) جھانکنا منع ہے۔

1424: سیدنا سہل بن سعد ساعدیؓ  سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ کے دروازے کی روزن (سوراخ)سے جھانکا اور آپﷺ کے ہاتھ میں لوہے کا آلہ (کنگھا) تھا، جس سے آپﷺ اپنا سر کھجا رہے تھے۔ جب آپﷺ نے اس کو دیکھا تو فرمایا کہ اگر میں جانتا کہ تو مجھے دیکھ رہا ہے تو میں تیری آنکھ کو کونچتا اور آپﷺ نے فرمایا کہ اذن اسی لئے بنایا گیا ہے کہ آنکھ بچے (یعنی پرائے گھر میں جھانکنے سے اور یہ حرام ہے )۔

باب : جو بغیر اجازت کسی کے گھر جھانکے اور انہوں نے اس کی آنکھ پھوڑ دی (تو کوئی گناہ نہیں)۔

1425: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر کوئی شخص تیرے گھر میں تیری اجازت کے بغیر جھانکے ، پھر تو اس کو کنکری سے مارے اور اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تیرے اوپر کچھ گناہ نہ ہو گا۔

باب : اچانک نظر پڑ جانے اور نظر پھیر لینے کے بارے میں۔

1426: سیدنا جریر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے اچانک نظر پڑ جانے کے بارے میں پوچھا، تو آپﷺ نے مجھے نگاہ پھیر لینے کا حکم دیا۔

باب : جو مجلس میں آیا، سلام کیا اور بیٹھ گیا (اس کی فضیلت)۔

1427: سیدنا ابو واقد لیثیؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ مسجد میں بیٹھے تھے اور لوگ آپﷺ کے ساتھ تھے ، اتنے میں تین آدمی آئے ، دو تو سیدھے رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور ایک چلا گیا۔ وہ دو جو آئے ان میں سے ایک نے مجلس میں جگہ خالی پائی تو وہ وہاں بیٹھ گیا اور دوسرا لوگوں کے پیچھے بیٹھا اور تیسرا تو پیٹھ پھیر کر چل دیا۔ جب رسول اللہﷺ فارغ ہوئے تو فرمایا کیا میں تم سے تین آدمیوں کا حال نہ کہوں؟ ایک نے تو اللہ کے پاس ٹھکانہ لیا تو اللہ نے اس کو جگہ دی اور دوسرے نے (لوگوں میں گھسنے کی) شرم کی تو اللہ نے بھی اس سے شرم کی اور تیسرے نے منہ پھیرا تو اللہ نے بھی اس سے منہ پھیر لیا۔

باب : کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود بیٹھنے کی ممانعت۔

1428: سیدنا ابن عمرؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے نہ اٹھائے کہ پھر خود اس کی جگہ پر بیٹھ جائے لیکن پھیل جاؤ اور جگہ دو۔ ایک روایت میں ہے کہ میں نے کہا کہ یہ جمعہ کے دن کا حکم ہے ؟ آپﷺ نے کہا کہ جمعہ ہو یا کوئی اور دن۔ اور سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کے لئے کوئی آدمی اٹھتا تو وہ اس جگہ نہ بیٹھتے (اگرچہ اس کی رضامندی سے بیٹھنا جائز ہے مگر یہ احتیاط تھی کہ شاید وہ دل میں ناراض ہو)۔

باب : جو اپنی مجلس (بیٹھنے کی جگہ) سے اٹھا، پھر لوٹا تو وہ اس جگہ کا زیادہ حقدار ہے۔

1429: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مجلس میں سے (اپنی کسی حاجت کے لئے ) کھڑا ہو (اور ابو عوانہ کی حدیث میں ہے کہ جو کھڑا ہو) لوٹ کر آئے تو وہ اس جگہ کا زیادہ حقدار ہے۔

باب : تین آدمیوں میں سے دو آدمیوں کی الگ اور آہستہ بات چیت کی ممانعت۔

1430: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم تین آدمی ہو تو تم میں سے دو تیسرے شخص کو الگ کر کے آہستہ سے بات نہ کریں، یہاں تک کہ تم سے اور لوگ بھی ملیں۔ اس لئے کہ اس (تیسرے شخص کو) رنج ہو گا۔ (ممکن ہے کہ وہ ان دونوں سے بدگمان ہو جائے )۔

باب : بچوں کو سلام (کرنا)۔

1431: سیار کہتے ہیں کہ میں ثابت بنانی کے ساتھ چل رہا تھا، وہ بچوں کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا اور حدیث بیان کی کہ وہ سیدنا انسؓ  کے ساتھ جا رہے تھے ، بچوں کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا اور سیدنا انسؓ  نے حدیث بیان کی کہ وہ رسول اللہﷺ کے ساتھ جا رہے تھے ، بچوں کے پاس سے گزرے تو آپﷺ نے ان کو سلام کیا۔

باب : تم یہود و نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو۔

1432: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہود اور نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل مت کرو اور جب تم کسی یہودی یا نصرانی سے راہ میں ملو تو اس کو تنگ راہ کی طرف دبا دو۔

باب : اہل کتاب کے سلام کا جواب۔

1433: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ یہودی کے چند لوگوں نے نبیﷺ کو سلام کیا، تو کہا کہ السام علیکم یا ابا القاسم! (یعنی اے ابو القاسم تم پر موت ہو)۔ آپﷺ نے فرمایا کہ وعلیکم۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا غصے ہوئیں اور انہوں نے کہا کہ کیا آپﷺ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا کہا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے سنا اور اس کا جواب بھی دیا اور ہم ان پر جو دعا کرتے ہیں وہ قبول ہوتی ہے اور ان کی دعا قبول نہیں ہوتی (ایسا ہی ہوا کہ الٹی موت یہود پر پڑی وہ مرے اور مارے گئے )۔

باب : پردے کا حکم آ جانے کے بعد عورتوں کے (کھلے منہ) نکلنے کی ممانعت۔

1434: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کی ازواج مطہرات رات کو حاجت کے لئے ان مقامات کی طرف (قضاء حاجت کے لئے )جاتیں، جو مدینہ کے باہر تھے اور وہ صاف اور کھلی جگہ میں تھے۔ اور سیدنا عمرؓ  رسول اللہﷺ سے کہا کرتے تھے کہ اپنی عورتوں کو پردہ میں رکھئے۔ آپﷺ پردہ کا حکم نہ دیتے۔ ایک دفعہ اُمّ المؤمنین سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا رات کو عشاء کے وقت نکلیں اور وہ دراز قد عورت تھیں، سیدنا عمرؓ  نے ان کو آواز دی اور کہا کہ اے سودہ بنتِزمعہ! ہم نے تمہیں پہچان لیا۔ اور یہ اس واسطے کیا کہ پردہ کا حکم اترے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا پھر اللہ تعالیٰ نے پردے کا حکم نازل فرما دیا۔

باب : عورتوں کو اپنی ضروریات کے لئے باہر نکلنے کی اجازت۔

1435: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ہمیں پردے کا حکم ہوا، اس کے بعد سودہ رضی اللہ عنہا حاجت کو نکلیں اور وہ ایک موٹی عورت تھیں، جو سب عورتوں سے موٹاپے میں نکلی رہتیں اور جو کوئی ان کو پہچانتا تھا، اس سے چھپ نہ سکتیں تھیں (یعنی وہ پہچان لیتا) تو سیدنا عمرؓ  نے ان کو دیکھا اور کہا کہ اے سودہ! اللہ کی قسم تم اپنے آپ کو ہم سے چھپا نہیں سکتیں، اس لئے سمجھو کہ تم کیسے نکلتی ہو؟ یہ سن کر وہ لوٹ کر آئیں اور رسول اللہﷺ میرے گھر میں رات کا کھانا کھا رہے تھے ، آپﷺ کے ہاتھ میں ایک ہڈی تھی اتنے میں سودہ آئیں اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ میں نکلی تھی تو عمرؓ  نے مجھے ایسے ایسے کہا۔ اسی وقت آپﷺ پر وحی کی حالت ہوئی، پھر وہ حالت جاتی رہی اور ہڈی آپﷺ کے ہاتھ ہی میں تھی، آپﷺ نے اس کو رکھا نہ تھا آپﷺ نے فرمایا کہ تمہیں حاجت کے لئے نکلنے کی اجازت ملی ہے۔

باب : محرم عورت کو اپنے پیچھے بٹھانا۔

1436: سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ زبیر بن عوامؓ نے مجھ سے نکاح کیا (جو رسول اللہﷺ کے پھوپھی زاد بھائی تھے) اور ان کے پاس کچھ مال نہ تھا اور نہ کوئی غلام تھا اور نہ کچھ اور سوائے ایک گھوڑے کے۔ میں ہی ان کے گھوڑے کو چراتی اور سارا کام گھوڑے کا اور سدھائی بھی کرتی اور ان کے اونٹ کے لئے گٹھلیاں بھی کوٹتی اور اس کو چراتی بھی اور اس کو پانی بھی پلاتی اور ڈول بھی سی دیتی اور آٹا بھی گوندھتی لیکن میں روٹی اچھی طرح نہ پکا سکتی تھی تو ہمسایہ کی انصاری عورتیں میری روٹیاں پکا دیتیں اور وہ بہت محبت کی عورتیں تھیں۔ اسماء نے کہا کہ میں زبیرؓ  کی اس زمین سے جو رسول اللہﷺ نے ان کو جاگیر کے طور پر دی تھی، اپنے سر پر گٹھلیاں لایا کرتی تھی اور وہ جاگیر مدینہ سے دو میل دور تھی۔ (ایک میل چھ ہزار ہاتھ کا ہوتا ہے اور ہاتھ چوبیس انگلی کا اور انگلی چھ جَو کی اور فرسخ تین میل کا) ایک دن میں وہیں سے گٹھلیاں لا رہی تھی کہ راہ میں رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے کئی صحابہ تھے ، آپﷺ نے مجھے بلایا، پھر اونٹ کے بٹھانے کو اخ اخ بولا تاکہ مجھے اپنے پیچھے سوار کر لیں۔ مجھے شرم آئی اور غیرت۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم گٹھلیوں کا بوجھ سر پر اٹھانا میرے ساتھ سوار ہونے سے زیادہ سخت ہے (یعنی ایسے بوجھ کو تو گوارا کرتی ہے اور میرے ساتھ بیٹھ کیوں نہیں جاتی؟) سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ بعد میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک خادمہ دے دی وہ گھوڑے کا سارا کام کرنے لگی، گویا انہوں نے مجھے آزاد کر دیا۔

باب : جب کوئی اپنی بیوی کے ساتھ جا رہا ہو اور کوئی شخص راستہ میں مل جائے ، تو یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ فلاں (میری بیوی) ہے۔

1437: اُمّ المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ اعتکاف میں تھے ، میں رات کو آپﷺ کی زیارت کو آئی۔ میں نے آپﷺ سے باتیں کیں، پھر میں لوٹ جانے کو کھڑی ہوئی تو آپﷺ بھی مجھے پہنچا دینے کو میرے ساتھ کھڑے ہوئے اور میرا گھر اسامہ بن زیدؓ  کی مکان میں تھا۔ راہ میں انصار کے دو آدمی ملے جب انہوں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا تو وہ جلدی جلدی چلنے لگے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی ہے۔ وہ دونوں بولے کہ سبحان اللہ یا رسول اللہﷺ ! (یعنی ہم بھلا آپ پر کوئی بدگمانی کر سکتے ہیں؟) آپﷺ نے فرمایا کہ شیطان انسان کے بدن میں خون کی طرح پھرتا ہے اور میں ڈرا کہ کہیں تمہارے دل میں بُرا خیال نہ ڈالے (اور اس کی وجہ سے تم تباہ ہو)۔

باب : آدمی کو غیر محرم عورت کے ساتھ رات گزارنے کی ممانعت۔

1438: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: خبردار رہو کہ کوئی مرد کسی شادی شدہ عورت کے پاس رات کو نہ رہے مگر یہ کہ اس عورت کا خاوند ہو یا اس کا محرم ہو۔

1439: سیدنا عقبہ بن عامرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔ ایک انصاری شخص بولا کہ یا رسول اللہﷺ ! دیور کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ دیور تو موت ہے۔ (یعنی اصل خطرہ تو دیور سے ہے )۔ سیدنا لیث بن سعدؓ  کہتے تھے کہ حدیث میں جو آیا ہے کہ دیور موت ہے ، تو دیور سے مراد خاوند کے عزیز اور اقربا ہیں جیسے خاوند کا بھائی یا اس کے چچا کا بیٹا (خاوند کے جن عزیزوں سے عورت کا نکاح کرنا درست ہے ، وہ سب دیوروں میں داخل ہیں، ان سے پردہ کرنا چاہئیے سوائے خاوند کے باپ یا داد یا اسکے بیٹے کے کہ وہ محرم ہیں اور ان سے پردہ نہیں)

باب : جن (عورتوں) کے خاوند گھر سے باہر ہیں، ان (عورتوں) کے گھروں میں جانے کی ممانعت۔

1440: سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ  سے روایت ہے کہ بنی ہاشم کے چند لوگ اسماء بنتِ عمیس کے پاس گئے اور سیدنا ابو بکر صدیقؓ  بھی گئے اور اس وقت اسماء ابو بکرؓ  کے نکاح میں تھیں انہوں نے ان کو دیکھا اور ان کا انا بُرا جانا۔ پھر رسول اللہﷺ سے بیان کیا اور کہا کہ میں نے کوئی بُری بات نہیں دیکھی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اسماء کو اللہ نے بُرے فعل سے پاک کیا ہے۔ پھر رسول اللہﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ آج سے کوئی شخص اس عورت کے گھر میں نہ جائے جس کا خاوند غائب ہو (یعنی گھر میں نہ ہو) مگر ایک یادو آدمی ساتھ لے کر۔ (ان سے مراد اپنے آدمی ہیں جن کے بارہ میں یہ خیال کرنا محال ہو کہ وہ کسی فاحشہ عورت کے پاس جا سکتے ہیں)۔

باب : عورتوں کے پاس مخنثین (خسروں) کا آنا جانا منع ہے۔

1441: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کی ازواج مطہرات کے پاس ایک مخنث آیا کرتا تھا اور وہ اس کو ان لوگوں میں سے سمجھتیں تھیں جن کو عورتوں سے کوئی غرض نہیں ہوتی (اور قرآن میں ان کا عورتوں کے سامنے آنا جائز رکھا ہے )۔ ایک دن رسول اللہﷺ اپنی کسی زوجہ مطہرہ کے پاس آئے تو وہ ایک عورت کی تعریف کر رہا تھا کہ جب سامنے آتی ہے تو چار بٹیں لے کر آتی ہے اور جب پیٹھ موڑتی ہے تو آٹھ بٹیں ظاہر ہوتی ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یہ یہاں جو ہیں ان کو پہچانتا ہے (یعنی عورتوں کے حسن اور قبح کو پسند کرتا ہے ) یہ تمہارے پاس نہ آئیں۔ (سیدہ عائشہ کہتی ہیں) پس انہوں نے اُسے روک دیا۔

باب : سوتے وقت آگ بجھانے کا حکم۔

1442: سیدنا ابو موسیٰؓ  کہتے ہیں کہ رات کو مدینہ میں کسی کا گھر جل گیا۔ جب رسول اللہﷺ کو خبر ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ آگ تمہاری دشمن ہے ، جب سونے لگو تو اس کو بجھا دو۔