فہرست مضامین
- جیسے بوند لہو کی
- اقبال خسرو قادری
- چاند کی لاش ہمارے گھر میں
- خود فریبی کا شاہ کار تھے ہم لوگ
- پلکوں پہ لیے محشر گئی ہے
- شجرے نام کر گئے اپنے
- قریب ہے شہر، اور دوری نہیں رہے گی
- گونگی بہری دعا دہائی دے
- فطرتاً جہول تھے، نیک دل کیے گئے
- دھرتی پہ فلک نشاں ہوئے ہیں
- اڑائیں دھجّیاں پرہیزگاری کی
- دکھ اماوس میں دل کے داغ ہمارے
- آزادیِ ناگہاں میسر ہے
- لیتے ہیں خراج دم دلاسے
- دل ہی کم صبر کچھ ہمارے کنے
- سارا بدن برف بنا ہے
- تجھے سیراب کر جانا ہمارا
- روح کے سر سے بوجھ ٹالتے ہیں
- جب تاج نئیں، دربار نئیں
- دن کے ورق پڑھے نہ گئے شب گزیدہ سے
- تعلقات ہیں دنیا سے احمقانہ ابھی
- بہ نام صاف گوئی کبر کا اظہار اتنا کیوں
جیسے بوند لہو کی
بیس غزلیں
اقبال خسرو قادری
(۱)
چاند کی لاش ہمارے گھر میں
جھانکنے آئے ہیں تارے گھر میں
قصّہ گو آنکھیں ہوئی ہیں خاموش
گونگا کہرام ہے سارے گھر میں
خشک ہے درد کا دریا باہر
ٹوٹ جاتے ہیں کنارے گھر میں
سر مژگاں کئی یادیں چمکیں
اور اتر آئے ستارے گھر میں
نصف شب : نیم مری پرچھائیں
دو ہی آسیب ہیں پیارے !گھر میں
سوکھی جاتی ہے چنبیلی، نس دن
غم زدہ بوڑھے اُسارے گھر میں
اندھے کمرے میں بگولے رقصاں
اور ہوا پر بھی نہ مارے گھر میں
کبڑی دیوار پہ دھندلی تصویر
ایک دوجے کے سہارے گھر میں
جودت طبع یہیں پنپی تھی!
ملگجے دور گزارے گھر میں
خرقہ و سبحہ و دستار و کلاہ
بوجھ جتنے تھے، اُتارے گھر میں
روشنی بانٹ کے گھر لوٹے ہیں
تیرگی ہاتھ پسارے گھر میں
گل انعام یقیں نازل ہو ؟
بیم و امّید کے مارے گھر میں
صرف اورنگ نہیں ہے خسرو!
بوریہ بھی ہے ہمارے گھر میں
٭٭٭
(۲)
خود فریبی کا شاہ کار تھے ہم لوگ
احمقوں میں سے ہوشیار تھے ہم لوگ
سنگ مرمر پہ جیسے بوند لہو کی
حسن دہشت کا اعتبار تھے ہم لوگ
ساری شادابیاں تھیں اپنا اتارا
سب کے نزدیک ریگ زار تھے ہم لوگ
تہہ میں آتش فشاں سمویا ہوا تھا
راکھ کے ڈھیر میں شمار تھے ہم لوگ
قہر تھی ہم پہ مشت خاک یہ اپنی
عزت نفس کا شکار تھے ہم لوگ
بوجھ اپنا زمیں کی گود کا مقسوم
کس لیے آسماں پہ بار تھے ہم لوگ؟
کرچی کرچی کیا ہے مہر انا کو
اندھے آئینے کا غبار تھے ہم لوگ
نگراں ہم پہ کچّے پکّے عقیدے
کیا سیادت کا اشتہار تھے ہم لوگ
ایک قسط،ایک سانس بھر کی رعایت ؟
زندگی !تیرے قرض دار تھے ہم لوگ
نقد جاں دے کے نا دہند رہے ہیں
عدم آباد کا ادھار تھے ہم لوگ
ریشہ و رگ میں گم تھے انفس و آفاق
حجرۂ دل میں شب گزار تھے ہم لوگ
دست بستہ کھڑی تھی روح مجاور
سانس لیتا ہوا مزار تھے ہم لوگ
ہر کفن میں کیا ہے اپنا ہی دیدار
اپنے ہی غم میں زار زار تھے ہم لوگ
سارے کتبے ہمارے نام کے نکلے
اپنی تربت پہ سوگوارتھے ہم لوگ
پتّی پتّی گواہ چادر گل کی
چمن خاک کی بہار تھے ہم لوگ
سسکیاں بھرتی سر برہنہ ہوائیں
شمع کشتہ سر مزار تھے ہم لوگ
دہشت انگیز چپ میں بحر ابد گم
چشم گرداب کا وقار تھے ہم لوگ
جسم و جاں میں اترتی سرد خموشی
محو لمس صدائے یار تھے ہم لوگ
مخلص و خانہ زاد و حاشیہ بردار
جشن خلعت میں در کنار تھے ہم لوگ
ہر ہزیمت کے بعد آخری امّید!
شاہ زادے ! رہ فرار تھے ہم لوگ
کاغذی طشت میں تھا آگ کا دریا
نذر کو تیری در قطار تھے ہم لوگ
٭٭٭
(۳)
پلکوں پہ لیے محشر گئی ہے
شب زاد سحر کے گھر گئی ہے
کشکول ہیں خالی آنکھوں کے
خوابوں کی پونجی سر گئی ہے
حجرہ شب بھر پر نور رہا
طاقوں میں کالک بھر گئی ہے
آسیب خموشیِ دل تو نہیں !
جس گونج سے دنیا ڈر گئی ہے
پاتال سے گہری ہوک اٹھی
دھرتی میں دراڑیں کر گئی ہے
زندہ ہے بدن کی قبر میں دل
اور روح سیاحت پر گئی ہے
جینے کے علاوہ چارہ ہی کیا؟
مر جانے کی خواہش مر گئی ہے
سفّاک زمستانی آندھی
پانی کو پتھر کر گئی ہے
گرداب کی سانسیں ٹوٹ گئیں
کشتی طوفاں سے بھر گئی ہے
٭٭٭
(۴)
شجرے نام کر گئے اپنے
سب بزرگاں گزر گئے اپنے
کچھ بتا، گرد راہ قریۂ خواب !
کارواں کس نگر گئے اپنے
ہم ہیں، اور کوئے شب کا سنّاٹا
جتنے پیارے تھے، گھر گئے اپنے
خانہ زادوں کے اب ہیں دست نگر
شاہ زادے تو مر گئے اپنے
راستہ دوڑنے پہ راضی تھا
کاٹھ گھوڑے مکر گئے اپنے
جلتی بالو کے سادہ صفحے پر
نقش پا رنگ بھر گئے اپن
اک سبک ظرف کا تماشا تھا
اور چہرے اتر گئے اپنے
چاند کے رتھ میں کون تھا کل شب ؟
سر سے دریا گزر گئے اپنے
ٹوٹنے سے بچا لیا گھر کو
تانے بانے بکھر گئے اپنے
خشک اندھے کنوئیں سے ہوک اٹھی
تہہ میں سائے اتر گئے اپنے
زنگ آنکھوں پہ لے لیا ہم نے
اندھے درپن نکھر گئے اپنے
سر اٹھائیں، کہ سجدہ طول کریں !
مقتدی تھے، کدھر گئے اپنے؟
٭٭٭
(۵)
قریب ہے شہر، اور دوری نہیں رہے گی
تڑختے کھیتوں کی گود سونی نہیں رہے گی
وہ فتح کر لے گا اپنے خواب اور اپنی نیندیں
یہ جاگتی سوتی سلطنت بھی نہیں رہے گی
سیاہ شب کے ورق پہ کالے حروف ہیں ہم
کھلیں کسی پر، تو رات باقی نہیں رہے گی
افق سے آئے گا سخت سیلاب روشنی کا
فلک پہ جھل مل دیوں کی بستی نہیں رہے گی
کسی اشارے پہ چشمۂ خور ابل پڑے گا
ازل ابد کی ندی یہ بہتی نہیں رہے گی
ہزار دہلیز، ایک دھیلا نہ چھوڑا اس نے
کسی کے گھر مستقل یہ گشتی نہیں رہے گی
مگن رہیں گے یہ چلتے پھرتے لحد کے پتھّر
فقط ہمارے بدن کی تختی نہیں رہے گی
تمام دریا مری صراحی میں سو رہیں گے
مرے حسابوں زمین پیاسی نہیں رہے گی
ملنگ، دل کا بھرا پیالہ اچھال دے گا
سلگتے سورج کی تشنگی بھی نہیں رہے گی
صدائے عہد گزشتہ گونجے گی ڈیوڑھی پر
کھنڈر حویلی میں سانجھ باتی نہیں رہے گی
اداس پرچھائیوں کا خاموش بین ہو گا
چبوترے پر کوئی کہانی نہیں رہے گی
رہیں گے الفاظ حسب معمول زہر آمیز
شفیق لہجے میں کاٹ تیکھی نہیں رہے گی
غبار دانش وری میں گم عشق کا ستارہ
نفس نفس ہلکی روشنی سی نہیں رہے گی
٭٭٭
(۶)
گونگی بہری دعا دہائی دے
اے خموشی ! کبھی سنائی دے
جم گئے ہونٹ، کھو گئی آواز
صلۂ کرب خوش نوائی دے
ورق دل ہے سادہ : چشمِ پر آب!
بوند بھر سرخ روشنائی دے !
وصل کی اشرفی، کہ درہم ہجر
بیعت دل ہے، کچھ تو سائی دے !
کاسۂ سر بدست ہیں روحیں
درد کی بھیک، ایک پائی دے
حدّ احساس تک وسیع و عریض
کشور صبر و بے نوائی دے
ایک اک سنگ سے ابھر آؤں
صدقۂ ذوق خود نمائی دے
بے بصر آبلوں کے جاگیں بخت
نوک ہر خار میں دکھائی دے
میرے تلووں سے کھینچ لے دھرتی
دیکھ ! داد شکستہ پائی دے
جب سے گرد جنوں کو سرمہ کیا
جو نہیں، سب وہی دکھائی دے
سوکھتے دشت بے ثباتی کو
آتش دائم آشنائی دے
گل کھلا خواب کے بغیچے میں
کھلی پلکوں سے اب رہائی دے !
٭٭٭
(۷)
فطرتاً جہول تھے، نیک دل کیے گئے
ہم چنے گئے عزیز، ہم خجل کیے گئے
بے خودی کی سلطنت، اپنے نام کی گئی
روح کے تمام زخم، مندمل کیے گئے
جبر و قدر سے پہنچ، صبر و شکر تک ہوئی
عارضی خدا پرست، مستقل کیے گئے
بوئے گل میں یخ زدہ، زہر حل کیا گیا
ہم صبا مزاج تھے، سرد سل کیے گئے
تارے آنکھوں میں لیے،گل زمیں کے خاک زاد
آسماں کی آس میں، پا بہ گل کیے گئے
ایسے کیا تھے حل طلب، جسم و جاں کے مسئلے؟
اس جہاں سے اس جہاں، منتقل کیے گئے
مشت بھر ادھار کی، سہ گنا ادائیگی
دعوے ہست و بود کے، منفصل کیے گئے
یک نفس درم کے دام، جب ادا نہ ہوسکے
صفر کے حساب میں، مشتمل کیے گئے
برف زار خواب میں، آتش یقیں جلی
باغیانہ وسوسے، مشتعل کیے گئے
سرکشی کے دیوتا، پیار کی پھوار میں
انتہائے مہر سے، مضمحل کیے گئے
٭٭٭
(۸)
دھرتی پہ فلک نشاں ہوئے ہیں
کس شان سے رائگاں ہوئے ہیں
دنیا ہے متاع بردۂ خواب
ہم موج شب رواں ہوئے ہیں
قطرہ بھر بے حسی کے صدقے
دریا سے بے کراں ہوئے ہیں
دُرد تہہ جام بزم ایقاں
اب مے کدۂ گماں ہوئے ہیں
ہم وقت کے گدلے پانیوں پر
جلتی ہوئی کشتیاں ہوئے ہیں
تختے کا شگاف بند ہوتے !
پیوند باد باں ہوئے ہیں
گم ہو گئی جس میں لو دیے کی
وہ سبز قدم دھواں ہوئے ہیں
ہم سے ہے خدائے خانہ ترساں
ہم سنگ آستاں ہوئے ہیں
یک جاں رہے تب وصال کیا تھا
بچھڑے ہیں، جدا کہاں ہوئے ہیں
رخسار پہ لعل ثبت کر دیں
پلکوں پہ اگر گراں ہوئے ہیں
ذرّہ تھے بہ زعم خود، ہیں صحرا
پاتال تھے، آسماں ہوئے ہیں
ثابت قدمی نے سحر پھونکا
گرد رہ رفتگاں ہوئے ہیں
اپنی ہی لحد تھی، پائیں جس کے
بے ساختہ نوحہ خواں ہوئے ہیں
٭٭٭
(۹)
اڑائیں دھجّیاں پرہیزگاری کی
ہوا تھی تہمت خود اختیاری کی
بدن کے پار ہوتی وہ سخی آنکھیں
وہ زہریلی کھنک سی ریزگاری کی
زمانہ ڈالتا ہے خواب مٹّھی بھر
پھٹی زنبیل میں اندھے مداری کی
سلگتے دشت نے دامن کو پھیلایا
سمیٹیں استھیاں بوڑھے شکاری کی
چتا کے ساتھ شعلے جل بجھے غم میں
ہوائیں منتظر ہیں اپنی باری کی
کھلے اک اجنبی پر ساتوں دروازے
ترستی ہیں پھٹی آنکھیں پجاری کی
نہیں چھوٹا گنہ خود اعتمادی کا
سو، اس پاداش میں سب خاکساری کی
گدائے کوچۂ لفظ و معانی ہم
زکوٰۃ فکر کی امّیدواری کی
اب آگے بے حسی کا سرد صحرا ہے
کہاں تک لاج رکھّیں جاں سپاری کی
تو کر دیں دشت وحشت سب تہ و بالا
اگر زنجیر ٹوٹے پاس داری کی
بڑی عجلت میں رخصت لے گئی،لیکن
بڑی تکریم دنیا نے ہماری کی
توکّل،صبر و ہمّت،سب ہے جھولی میں
تو پھر کیا وجہ خسرو! دل فگاری کی؟
٭٭٭
(۱۰)
دکھ اماوس میں دل کے داغ ہمارے
لو بڑھا تے ہیں شب چراغ ہمارے
سلسلہ، آل اور مال، نہ کتبہ !
ہم نہیں چھوڑتے سراغ ہمارے
کوزہ گر ہے نہ چاک، نے گل کوزہ
ہیں حباب سراب ایاغ ہمارے
اوس کی بوند التفات کسی کا
جلتا جنگل دل و دماغ ہمارے
کشت امّید : جائیداد ہماری
مال موقوفہ : سبز باغ ہمارے
ٹوٹ جاتی ہے سانس شعلہ نوا کی
جب سماں باندھتے ہیں زاغ ہمارے
چھوڑ آئے ہیں خسروم! سر افلاک
قصر و انہار و باغ و راغ ہمارے
٭٭٭
(۱۱)
آزادیِ ناگہاں میسر ہے
کھڑکی بھر آسماں میسر ہے
ہر سانس بدن کی قسط بھرتے ہیں
تب روح کو اک مکاں میسر ہے
محدود سی مطلق العنانیت
مشروط بہ قید جاں میسر ہے
رکھتے ہیں ہوا کے دوش تخت خواب
دل : شہر سبا نشاں میسر ہے
کشکول الٹ پلٹ کے رکھ دیں گے
دنیا تو ابھی کہاں میسر ہے؟
سردار نواح بے ثباتی ہم
فیضان خفتگاں میسر ہے
ڈوبی ہوئی گہری نیند میں بستی
پہرے کو عف سگاں میسر ہے
محراب امید میں چراغ آنکھیں
بل کھاتا ہوا دھواں میسر ہے
پلکوں پہ سجا ہے صبح کا تارا
دریائے شب رواں میسر ہے
کافی ہے، بوند روشنی مل جائے!
اک اندھی کہکشاں میسر ہے
بدمست انا ہیں سانپ شیشے کے
پتھّر کا قصیدہ خواں میسر ہے
ہر جہل پہ صاد کر چلو خسرو!
کب فرصت این و آں میسر ہے
٭٭٭
(۱۲)
لیتے ہیں خراج دم دلاسے
باشندۂ شہر بے نوا سے
لب بستہ ہیں پر وقار درویش
آواز لگا رہے ہیں کاسے
کس گلشن سکر کی چنبیلی
لپٹی ہے فقیر کے عصا سے
دنیا مری ایک وادِ شاہاں
فرعون مزاج سب ذرا سے
دربار الم کے مسخرے ہم
آنسو نہ بہیں، تو ہم اُداسے
پتّھر کے خدا ہیں پانی پانی
قدموں میں پڑے گلاب پیاسے
پلکوں پہ ستارے کھینچ لائیں
سینے میں بھری ہوئی خلا سے
سب دشت بدن کو کر گیا راکھ
الجھا تھا چراغ جاں ہوا سے
سانسوں کی سپاہ دم بہ خود ہے
جاری ہیں مذاکرے قضا سے
بے زار ہیں شوخ و شنگ آسیب
ویران، کھنڈر محل سرا سے
٭٭٭
(۱۳)
دل ہی کم صبر کچھ ہمارے کنے
کون جادو تھا ورنہ پیارے کنے
چاند کی اشرفی اُتارا ہوا
کہکشاں رہن ہے اشارے کنے
آنکھ میں جھلملائی کون سی یاد
کیسے پہنچا غبار، تارے کنے؟
نیند اوڑھے پڑا تھا سرد بدن
سایہ رمتا رہا اُسارے کنے
ایک گہرائی، ایک پایابی
کیا سمندر کنے، کنارے کنے؟
جال رکھّا ہی رہ گیا تٹ پر
آ گئیں مچھلیاں شکارے کنے
رشک صد ماہ نور کی پونجی
دیکھ ! مجھ ٹوٹتے ستارے کنے
آدھے پونے بہت تھے ہم جیسے
ایک نکلا نہ شہر سارے کنے
سرحدیں پھیلتی سکڑتی ہیں
صبر کی سلطنت ہمارے کنے
مول لیتا ہے شہر حسن بیاں
کھوٹے سکّے ہیں استعارے کنے
دشت معنی میں گُل عجیب کھلائے
سب ہنر ہیں غزل کے مارے کنے
٭٭٭
(۱۴)
پیروں تلے جلتی ہوئی ریت
سارا بدن برف بنا ہے
موت کا ڈر آنکھ میں رقصاں
سر پہ ہما چیخ رہا ہے
کچلا ہوا ریزۂ الماس
پلکوں پر تھرّاتا ہے
لپٹی ہوئی کچّی لحد سے
دھند ہے،پرچھائیں ہے،کیا ہے؟
دشت ہوس ساکت و صامت
لرزہ بر اندام ہوا ہے
گزرے فرسنگ کا نوحہ
سنگ مسافت پہ لکھا ہے
سسکیاں لیتے ہیں دریچے
خون سلاخوں پہ لگا ہے
اوڑھے ہوئے پانی کی چادر
بوڑھی زمیں محو بکا ہے
سربہ فلک چھت سے اتر بھی!
اور بہت کام پڑا ہے!
٭٭٭
(۱۵)
تجھے سیراب کر جانا ہمارا
سرابوں میں اتر جانا ہمارا
عمل دل پر فسون آرزو کا
وظیفہ بے اثر جانا ہمارا
لہو پیتی ہوئی پرچھائیوں میں
تبرک بن کے سر جانا ہمارا
ایاغ درد چھلکانا کسی دن!
شکستہ کاسہ بھر جانا ہمارا !
ابھی بھولی نہیں دہلیز اپنی
ابھی ہو گا نہ گھر جانا ہمارا
ہمارے وقت کا دریا ٹھہر جائے !
نہیں ممکن ٹھہر جانا ہمارا
تو پھر کوئے ملال آراستہ ہو !
ضروری ہے اگر جانا ہمارا
غبار آئنہ ہے عکس اپنا
بہت مشکل سنور جانا ہمارا
لیے خورجین میں یادوں کے محشر
خموشی کے سفر جانا ہمارا
ذرا ہے خود ستائی کا ثمر بھی
تری تعظیم کر جانا ہمارا
صدا کی سرحدوں کے پار خسرو!
شکار و سیر پر جانا ہمارا
٭٭٭
(۱۶)
روح کے سر سے بوجھ ٹالتے ہیں
ذہن بیچا ہے، جسم پالتے ہیں
تند ہے آتش یقیں کی لَو
تیغ تشکیک و وہم ڈھالتے ہیں
ذہن کا آسماں رہا تاریک
سیکڑوں چاند گو اُچھالتے ہیں
سر مژگاں ستارے یادوں کے
تِیرہ تقدیر شب اُجالتے ہیں
سنگ مر مر میں جی رہے ہیں، مگر
کچّی قبروں کا روگ پالتے ہیں
نیم شب، مہر غم کی تابش میں
ورق دل کا نم نکالتے ہیں
دل دنیا طلب کے کاسے میں
بے نیازی کی بھیک ڈالتے ہیں
تیاگتے ہیں انا کا اندرپرستھ
خاکساری کا بن کھنگالتے ہیں
کھوٹے سکّے ہیں آستینیں چڑھائے
خستہ جیب اپنی ہم سنبھالتے ہیں
٭٭٭
(۱۷)
جب تاج نئیں، دربار نئیں
ہم، شاہ کے غم خوار نئیں
قصداً قصیدے کیا کہیں ؟
یوں بھی وظیفہ خوار نئیں
پروردگان مصلحت !
ہم، غیر جانب دار نئیں
تحسین رکھئے جیب میں
خود کا ہمیں اقرار نئیں
سوکھی زلیخائی نہ کر !
گھر مصر کا بازار نئیں
مر جائیں کس کے واسطے ؟
جینے سے یوں بھی پیار نئیں
تیری طلب میں غرق ہیں
تو بھی ہمیں درکار نئیں
تاریک ہے محراب جاں
خیرات کے انوار نئیں
باغ جنوں کا گل مراد
دل میں ہے، دریا پار نئیں
نقطے میں گم ہے دائرہ
اس نقش کو پرکار نئیں
پھرتے ہیں دشت صفر میں
ہم ایک سے دو چار نئیں
ہلکا خمار خواب ہے
سپنے ابھی ساکار نئیں
٭٭٭
(۱۸)
دن کے ورق پڑھے نہ گئے شب گزیدہ سے
الفاظ کوزہ پشت، تو معنی خمیدہ سے
رمز آشنا ہے دائرۂ ہست و بود کا
دہشت زدہ ہے نقطۂ نا آفریدہ سے !
دشت سیاہ سے کوئی سایہ سا کیا اڑا
منظر میں جان پڑ گئی رنگ پریدہ سے
وحشت تو خیر نذر تمدّن ہوئی مگر
رکھتے ہیں کچھ علاقہ غزال رمیدہ سے
رشتہ نبھائے جاتا ہے سانسوں کا پیرہن
چپکی ہوئی ہے روح تن خوں چکیدہ سے
آئینہ ہم پہ چشم زدن میں عدم وجود
مل آئے عکس بن کے کسی آب دیدہ سے
جس تشنگی نے خشک کنوئیں تک الٹ دیے
سیراب ہم اسی طلب برگزیدہ سے
یوں شہر انکسار میں رتبہ رہا بلند
سر خم کیے، ملا کیے ہر قد کشیدہ سے
اوّل انائے علم کی تسکین شرط ہے
ضمناً پرانی بحث چلے بد عقیدہ سے
ہوتے ہیں سچ کے زہر سے جاں بر سخن پناہ
خسرو! ذرا افاقہ ہے مدح و قصیدہ سے
٭٭٭
(۱۹)
تعلقات ہیں دنیا سے احمقانہ ابھی
نباہتے ہیں کہ باقی ہے آب و دانہ ابھی
لہو کی بوند سے جھلکا نہیں زمانہ ابھی
قیاس میں ہے، نظر میں نہیں نشانہ ابھی
زمین دل پہ دعا کا شجر سلامت ہے
نہیں ہے طائر امّید بے ٹھکانہ ابھی
ہمیں نہ جان، تہی ظرف کا سرشک غم!
اتار دل سے ! مگر آنکھ سے گرا نہ ابھی
فلک پہ سجدہ، زمیں پر جبیں، خلا میں وجود
وہی پرانی ہوائے قلندرانہ ابھی
پرانی رات کی چادر، پرانے دن کی حصیر
وہی ہے رسم و رواج غریب خانہ ابھی
خیال رکھیو ہم ایسی فقیر روحوں کا !
ہمی نہ ہوں، تو اجڑ جائے آستانہ ابھی
تمام عمر مکیں خانۂ بدن کے رہے
ملا ہے پر نہ ملا حق مالکانہ ابھی
بچا ہوا ہے کھلی آنکھوں میں یہ دھندلا عکس
ہوائے بے خبری ! ہم کو یوں مٹا نہ ابھی !
طناب خیمۂ جاں کاٹ دے نفس کی دھار
کھلے وجود و عدم کا یہ شاخسانہ ابھی
رہین شام ہے املاک شب، متاع سحر
کرن کرن کا رویّہ منافقانہ ابھی
کیے ہیں راستے مسدود اک اشارے پر
کیا تپاک سے اک قافلہ روانہ ابھی
کسی بریدہ انگوٹھے کی چھاپ نقش بہ نقش
ہنر کے قہر میں گم سم نگارخانہ ابھی
ابھی قدم نہ رکھا کوئے لفظ و معنی میں
خیال و خامہ کے تیور ہیں تاجرانہ ابھی
٭٭٭
(۲۰)
بہ نام صاف گوئی کبر کا اظہار اتنا کیوں
یہ ہر پھر کر مری تحقیر پر اصرار اتنا کیوں
جتن سے ایک اک نفرت چھپا رکھّی ہے سینے میں
بنا رکھّا ہے دل اپنا دیانت دار اتنا کیوں
لہو میں تر فراز و پیچ و خم پر بھی مچلتا ہے
ہر اک ناگفتنی احساس، بد کردار اتنا کیوں
اسی خطرے سے دریائے عناصر پانی پانی ہے
کہ اس قطرے میں ہے طوفانوں کا انبار اتنا کیوں
ابھرتے ہیں یوں ہی بے سود،بے بنیاد اندیشے
فدائے مابدولت ہے سپہ سالار اتنا کیوں ؟
کھلی آنکھوں سمیٹیں تیرگی کی کرچیاں شب بھر
نگر اپنے ہی خوابوں کا رہے مسمار اتنا کیوں
گہر پلکوں پہ، سینہ گنج سیم و زر، سخن الماس
پھٹی چادر لپیٹے پھر رہے ہو خوار اتنا کیوں ؟
٭٭٭
ماخذ: نیا ادب، بنگلور
تشکر: خلیل مامون اور مصحف اقبال توصیفی جن سے فائل کا حصول ہوا
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید