FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

کتاب چہرہ

 

 

 

               محمد حنیف سمانا

 

برقی ڈاک۔۔hanifsamana59@gmail.com

اصل کتاب سے کچھ اشعار، کچھ مختصر شذرات اور مکمل پاکستانی سیاسی  حوالے نکال دئے گئے ہیں تاکہ کتاب انٹر نیٹ کے  عالمی قاری کی سمجھ میں آ سکے

 

 

 

 

 

انتساب

 

 

والد مرحوم محمد ہاشم سمانا کے نام

 

وہ ہستی جو زندگی پہ سب سے زیادہ اثر انداز ہوئی

آج ہمارے کردار و عمل میں جو جو خوبیاں ہیں

وہ سب انہی کی دین ہیں

اور جو جو خامیاں ہیں، وہ ذاتی زورِ  بازو کا کمال ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

آغازِ کلام

 

تمام تعریفیں اس رب ذو الجلال کے لئے کہ جس نے آج یہ دن دکھایا۔۔۔میں نے کہیں لکھا تھا کہ ہر لکھنے والا چاہتا ہے کہ وہ صاحب نصاب ہو یا نہ ہو۔۔صاحب کتاب ضرور ہو۔۔۔چونکہ صاحب نصاب ہونے پہ ڈھائی فیصد دینا پڑتا ہے۔۔۔ہاں البتہ صاحب کتاب ہونے پہ تا دم تحریر  ایسی کوئی پابندی نہیں۔۔

یہ صدی بھی معجزات کی صدی ہے۔

میرا صاحب کتاب ہونا، زرداری صاحب کا پانچ سال پورے کرنا، رحمان ملک، سید قائم علی شاہ اور نواز شریف کا ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنا، عامر لیاقت حسین کا مذہبی اسکالرز میں شمار کیا جانا، اداکارہ ریما اور وینا ملک کا بلآخر سچی مچی کی شادی کرنا۔۔۔ یہ سب معجزے نہیں تو اور کیا ہیں۔

زیر نظر کتاب میرے ان مختصر مضامین، افسانچے اور اشعار پر مشتمل ہے جو میں نے پچھلے چار پانچ سالوں میں فیس بک پہ پیش کئے اور اسے سوشیل میڈیا پہ پذیرائی ملی۔میری بعض تحریروں کو سینکڑوں کی تعداد میں شیئر کیا گیا۔۔۔ان پر تبصرے کئے گئے۔۔۔تنقید بھی ہوئی۔۔۔تنازعات بھی پیدا ہوئے۔۔تعریف بھی کی گئی۔

ہم بحیثیت قوم ہر معاملے میں شدت پسند ہیں۔۔۔مذہب ہو یا سیاست۔۔عام گھریلو زندگی ہو۔۔۔یا آفس اور کاروبار۔۔۔ہر جگہ ہمارے رویے دنیا کے ایک نارمل آدمی سے مختلف ہوتے ہیں۔۔۔حد تو یہ ہے کہ ادب بھی اب شدت پسندی سے نہیں بچا۔۔۔میں نے کوشش کی کہ سوشیل میڈیا پہ کہ جہاں مخالفین ایک دوسرے کو گندی گالیاں دیتے نہیں تھکتے تھے۔۔۔انہیں ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز میں ایک دوسرے پہ تنقید پہ آمادہ کروں۔۔مگر اس کوشش میں مجھے بھی کئی بار گالیاں سننی پڑیں۔

بہرحال جب حضرت غالب کا رقیب گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا۔۔۔تو پھر ہم بھی ان کے روحانی شاگرد ہیں۔۔۔میں یہ نہیں کہوں گا کہ میں نے عالم رویا میں ان کی شاگردی کی ہے۔۔۔ہاں البتہ غائبانہ استاد مانا ہے۔

لیکن صاحبو!

غالب کے رقیب کو گالیاں دینے والے تو شیریں لب تھے۔۔۔ہمیں تو ایسے ایسے لبوں نے گالیاں دی ہیں کہ جن کے اوپر رانا ثنا َ ء اللہ کے جیسی بڑی بڑی مونچھیں تھیں۔

پھر بھی ہم بے مزہ نہ ہوئے۔۔۔اس حساب سے ہماری دنیائے ادب میں غالب اور ان کے  کے رقیب  سے زیادہ خدمات ہیں۔۔۔اور پھر غالب کو تو قرض کی "مے”  بھی مل جاتی تھی۔۔۔اس آس پر۔۔ کہ  ایک دن ان کی فاقہ مستی رنگ لائے گی۔

ہمارے گھر کے نیچے اسٹور والا پیپسی کے پیسے بھی پہلے مانگتا ہے۔۔۔

ادھار کے لیے ظالم نے لکھ رکھا ہے کہ

"قادری صاحب کے انقلاب کی کامیابی تک ادھار بالکل بند ہے”

یہی حال چائے کے کھوکے والے خان صاحب کا ہے۔۔۔

غالب تو تاجدار ہند۔۔

ظل سبحانی۔۔

عزت مآب۔۔۔

ابوالمظفر۔۔

حضرت۔۔بہادر۔۔۔شاہ۔۔۔ثانی۔۔۔ظفر

کی مدح سرائی کے ذریعے مال بٹور لیتے تھے۔۔۔

ہمیں یہ سہولت بھی دستیاب نہیں۔۔۔

ہمارے دور کے شاہ کے ارد گرد پہلے ہی اتنے سارے چمچے ہیں۔۔۔ بلکہ کٹ لری کا پورا سیٹ ہے۔۔۔کہ ہم جیسے تو ان کے قریب بھی نہیں بھٹک سکتے۔۔۔

ان ساری مشکلات کے باوجود ہمارا اس بے  درد ادبی دنیا میں ڈٹ جانا اور ایک عدد کتاب کا لکھ جانا۔۔۔معجزہ ہے۔۔

سو یہ معجزہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔

تھوڑا سا ذکر ہمارے پیارے دوست مولوی کا بھی کرتا چلوں۔۔۔ ہمارے فرینڈز سرکل  میں ایک صاھب غیر معمولی خوبیوں اور خامیوں کا مرکب ہیں۔۔ وہ ہر دم، ہر گھڑی  غیر ضروری بحث اور حجت کے لیے تیار رہتے ہیں۔۔۔ اور ان کی دلیلیں بھی آفاقی بلکہ یوں کہیں کہ الہامی ہوتی ہیں۔۔۔ ان کی انہی خوبیوں کے باعث انہیں ہم سب پیار میں مولوی کہتے ہیں۔۔۔ یہ عام روایتی مولوی نہیں۔۔۔ بلکہ ماڈرن مولوی ہیں۔۔ کلین شیو۔۔ تھری پیس سوٹ پہننے والے اور فلمیں دیکھنے والے مولوی۔

اب جہاں تک اپنے بارے میں کچھ بتانے کی بات ہے تو گزارش یہ ہے کہ آپ یہ کتاب پڑھ لیجئے۔۔۔ اگر کتاب میں مزہ آئے تو مصنف کے بارے میں کھوج لگائیے گا۔۔ بلکہ میں خود اگلے ایڈیشن میں تعارف ڈال دوں گا۔ اور اگر نا پسند آئے تو شکر ادا کیجئے گا کہ آپ کا وہ وقت تو بچا۔۔ جو تعارف پڑھنے میں ضائع ہوتا۔۔

یقیناً اللہ کا کوئی کام مصلحت سے خالی نہیں۔

 

محمد حنیف سمانا

کراچی

 

 

 

 

 

ہیڈ آر ٹیل

 

میں نے کہا۔

"ساحل پہ چلتے ہیں ”

اس نے کہا۔۔

"نہیں۔۔شاپنگ کرتے ہیں ”

میں نے جیب سے سکّہ نکالا۔۔

"ہیڈ آر ٹیل؟”

اس نے کہا۔۔

"ٹیل”

میں نے سکّہ ہوا میں اچھالا۔

ہیڈ آیا اور ہم ساحل پہ چلے گئے۔۔

 

میں نے کہا۔۔

"بار بی کیو چلتے ہیں ”

اس نے کہا۔۔

"نہیں۔۔چائنیز”

میں نے سکّہ نکالا۔۔

"ہیڈ آر ٹیل؟”

اس نے کہا۔۔

"ٹیل”

میں نے سکّہ اچھالا۔۔

ہیڈ آیا اور ہم بار بی کیو چلے گئے۔۔

 

میں نے کہا۔۔

"مجھ سے شادی کر لو”

اس نے کہا۔۔

"نہیں۔۔۔بابر سے کروں گی”

میں نے سکّہ نکالا۔۔

"ہیڈ آر ٹیل؟”

اس نے کہا۔۔

"ٹیل”

میں نے سکّہ اچھالا۔۔

اور اس بار کمبخت ٹیل آیا اور و ہ  بابر کے پاس چلی گئی۔۔۔

 

کل میں نے اسے فون کیا۔۔

"بابر کے ساتھ خوش ہو؟”

کہنے لگی۔۔

"بہت۔۔۔بابر اپنے فیصلے خود کرتا ہے۔۔

ایک روپے کے سکّے سے نہیں کرواتا”

میں نے کہا۔۔

"اس کا مطلب ہے تمہاری رائے نہیں لیتا”

 

اس کی ہچکی بندھ گئی اور اس نے فون بند کر دیا۔۔

میں نے جیب سے سارے سکّے نکالے اور نالی میں پھینک دئے۔

٭٭٭

 

 

 

پیر  کی  جوتی

 

کہا جاتا ہے کہ "بیوی کو پیر کی جوتی نہ سمجھو”

مگر دوستو!

معاملہ کچھ پیر کی جوتی والا ہی ہے۔۔۔

شروع شروع میں جب نئی نئی تھی تو بہت کاٹتی تھی۔۔۔

چلنا دوبھر تھا۔۔۔

پھر رفتہ رفتہ پیر میں فِٹ ہو گئی۔۔۔

اب ہم اُس کے عادی ہو گئے ہیں۔۔۔

اُس کے بغیر ایک قدم بھی

نہیں چل سکتے۔۔

پیر زخمی ہو جائیں گے۔۔۔

جو کہتے ہیں "بیوی کو پیر کی جوتی نہ سمجھو”

انہیں جوتی کی اہمیت کا عِلم نہیں۔۔۔

جوتی زندگی کے ہر بڑھتے قدم میں ساتھ ہوتی ہے۔۔۔

جوتی ساتھ ہو تو "کردار کے پیر” میلے نہیں ہوتے۔۔۔

پیر باہر کی "غلاظت” سے پاک رہتے ہیں۔۔۔

اُس کے ساتھ منزل کا سفر سہل اور آسان رہتا ہے۔۔

کانٹے نہیں چبھتے۔۔۔

مگر۔۔۔ہاں۔۔آپ کے رویے پر بھی منحصر ہے۔۔۔

ورنہ پھر "آپ ہی کی جوتی۔۔آپ ہی کی سر”

٭٭٭

 

 

فیس بک

 

 

ہم  تماشہ  جسے  سمجھے  وہ  تماشائی  تھا

شیخ سمجھے  تھے  جسے  ذات  کا  وہ  نائی  تھا

 

جان کر جس کو  گلابو  کر ی   چیٹنگ  شب  بھر

کمبخت  وہ  بھی  گلابو  کا  بڑا  بھائی  تھا

٭٭٭

 

 

 

طوفان

 

امریکہ میں اس وقت سمندری طوفان  Sandy  Hurricane نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔۔۔

اس سے پہلے  Katrina  نام کے طوفان نے بھی کافی تباہی مچائی تھی۔۔۔

امریکہ میں یہ طوفانوں کے نام خواتین کے نام پر خوب رکھے جاتے ہیں۔۔۔

اور حیرت ہے وہاں کی خواتین اعتراض بھی نہیں کرتیں۔۔

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ا  س نے ہمارے اس خطے کو طوفانوں سے محفوظ رکھا ہے۔

ہاں البتہ ہمارے ہاں انسانوں کو مارنے کے دوسرے اسباب موجود ہیں۔۔۔

اگر خدانخواستہ اس خطے میں بھی طوفانوں کا سلسلہ ہوتا۔۔۔

اور اس کے نام بھی خواتین کے نام پر ہوتے۔۔۔

تو بریکنگ نیوز کچھ اس طرح کی ہوتیں :

خلیج بنگال سے اٹھنے والی  ” نرگس”  آج رات چاٹگانگ کے ساحل سے ٹکرائے گی۔۔۔

بحیرہ  ہند  میں پیدا ہونے والی  "وینا ملک”  نے ممبئی کے ساحل سے ٹکرا کر بڑی تباہی مچائی ہے۔۔۔

بھارت کے پدھان منتری نے مہاراشٹر کے عوام کو مبارک باد دی ہے کہ انہوں نے "وینا ملک ” کا بہادری سے مقابلہ کیا ہے۔۔۔

بحیرہ عرب سے اٹھنے والی "ریما” بڑی تیزی کے ساتھ مکران کے ساحل کی طرف بڑھ رہی ہے۔۔۔

بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ "ریما ” سے بچنے کے لئے حفاظتی اقدامات کر لیں۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

14 سو سال پرانا اسلام

 

یہاں وسیم صاحب دنیا سے رخصت ہوئے

اور وہاں ان کے گھر میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہو گئی

دونوں بیٹے آمنے سامنے آ گئے

وجہ

نہ مکان کا جھگڑا۔۔۔نہ دکان کا جھگڑا اور نہ ہی روپے پیسے، جائداد یا خاندان کا جھگڑا۔۔

آپ کہیں گے کہ پھر کائے کا جھگڑا؟

جھگڑا۔۔۔مسلک کا جھگڑا۔۔۔فرقے کا جھگڑا۔۔۔۔۔اعتقادات کا جھگڑا۔۔جہالت اور عدم برداشت کا جھگڑا

بڑے بیٹے نے کہا کہ نماز جنازہ دیوبندیوں کی مسجد میں ہو گی

چھوٹے بیٹے نے کہا کہ نہیں بریلویوں کی مسجد میں

خاندان کے کچھ لوگ بڑے بیٹے کی حمایت میں آ گئے اور کچھ چھوٹے کی

دور پرے کے رشتے دار اور محلے والے پریشان کہ جلدی فیصلہ کریں

میت کو زیادہ دیر گھر میں رکھنا درست نہیں

مگر کوئی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں۔۔۔ہم بھی اپنے پیارے دوست مولوی کے ساتھ تدفین میں حاضر تھے

ہم نے مولوی کے کان میں آہستہ سے کہا

” اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک اپنے موقف سے نہ ہٹا تو پھر اس مسئلے کا حل مجھے تو یہ نظر آتا ہے کہ نماز جنازہ اہل حدیث کی مسجد میں پڑھا دی جائے”

مولوی نے میرا ہاتھ دباتے ہوئے کہا

"چپ کر جاؤ۔۔۔ ابھی یہ دونوں بھائی ایک دوسرے کا گریبان چھوڑ کر تمہارا پکڑ لیں گے”

میں نے آہستہ سے کہا۔۔۔”یار مولوی! ایک تو میں مسئلے کا حل بتا رہا ہوں۔۔۔میرا گریبان کیوں پکڑیں گے

میرے پاس تو ابھی اور بہت سے آپشنز موجود ہیں ”

مولوی نے غصے سے مجھے دیکھا

” مجھے پتہ ہے تم ابھی کہو گے۔۔۔چرچ۔۔۔ مندر۔۔۔وغیرہ”

میں نے کہا

"چرچ مندر کیوں کہوں گا۔۔ہمارے فرقے۔۔مسلک۔۔۔ ختم ہو گئے ہیں کیا ؟”

خاندان کے ایک بزرگ نے درمیان میں مداخلت کی اور بڑے بیٹے سے پوچھا

"بیٹا ! تمہارے ابا کونسی مسجد میں نماز پڑھتے تھے؟”

بڑے بیٹے نے کہا

"دیوبندیوں کی”

چھوٹا بیٹا پھٹ سے بولا

"یہ جھوٹ بولتا ہے ابا بریلویوں کی مسجد میں پڑھتے تھے”

دوبارہ دونوں فریقوں کی جانب سے شور و غوغا شروع ہو گیا

وہ بزرگ کہنے لگے

"دیکھو بیٹا! ابھی ابھی تو تمہارے ابا کو کفن پہنایا گیا ہے۔۔۔ابھی کفن میلا بھی نہیں ہوا۔۔

اور تم لوگوں نے لڑنا شروع کر دیا ہے۔۔۔بجائے مرحوم کی بخشش کے لئے دعا کرنے کے۔۔۔

اپنی والدہ بہنوں کا سہارہ بننے کے۔۔انھیں دلاسا دینے کے۔۔۔اپنے اپنے اعتقادات کے مورچوں میں گھس کر تم اپنے باپ کی روح کو تکلیف دے رہے ہو۔۔۔تمہیں تو چاہیے تھا کہ بڑا بھائی کہتا کہ جو چھوٹے کی مرضی وہ کر لو۔۔اور چھوٹا کہتا کہ نہیں بڑا بھائی باپ کی جگہ ہے وہ جو کہے وہ کر لو۔۔اس کی بجائے تم لوگوں نے تو اپنے باپ کی میت کو تماشا بنایا ہوا ہے۔۔۔

اب میری سمجھ میں ایک حل آتا ہے اگر تم دونوں قبول کرو تو”

آس پاس لوگ مجمع کی صورت میں جمع ہو چکے تھے۔۔۔سارے مجمع کی نظریں اس محترم بزرگ پر جم گئیں۔۔۔دونوں بھائی بھی ان کی طرف دیکھنے لگے

بڑا بھائی بولا ” جی۔۔۔فرمایئے”

بزرگ نے چھوٹے کی طرف دیکھا۔۔۔”اور تمہیں قبول ہے؟”

چھوٹا کچھ سوچتے ہوئے بولا "آپ پہلے حل بتائیے ”

بزرگ نے کچھ سوچا اور پھر کہنے لگے

"تم دیوبندیوں کی مسجد میں نماز جنازہ پڑھانے کے حق میں نہیں اور تمہارا بھائی بریلویوں کی مسجد کا منع کرتا ہے۔۔ہم یہ کرتے ہیں کہ نماز جنازہ یہیں گھر کے باہر سڑک پر پڑھا دیتے ہیں ”

مجمع میں سے آواز آئی

"مگر نماز پڑھائے گا کون۔۔۔دیوبندی مولانا یا بریلوی؟”

وہ بزرگ کہنے لگے

"اگر آپ لوگ مناسب سمجھو تو میں پڑھا دیتا ہوں ”

بڑے بھائی نے کہا ”

ٹھیک ہے مجھے منظور ہے”

چھوٹے نے سر کھجاتے ہوئے کہا

"ٹھیک تو ہے۔۔۔مگر آپ کون سے مسلک سے ہیں ؟”

بزرگ کچھ پریشان سے نظر آئے

"بیٹا میں نے ابھی کوئی مسلک اختیار نہیں کیا۔۔۔شاید میں ابھی آپ دونوں جتنا با شعور نہیں ہوا۔۔ابھی تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے 14 سو سال پرانے اسلام کو چھاتی سے لگائے چل رہا ہوں۔۔۔۔ اور اب تو عمر بھی زیادہ ہو گئی ہے۔۔۔اس آخری عمر میں کہاں مسلک اور فرقے سمجھنے اور سیکھنے بیٹھوں گا۔۔راہ چلتے چلتے جہاں نماز کا وقت ہو جاتا ہے۔۔۔۔ جو بھی قریب مسجد ہوتی ہے اس میں چلا جاتا ہوں۔۔یہ بھی نہیں دیکھتا کہ کس کی ہے۔۔۔اب تو اللہ سے یہی دعا  ہے کہ مجھے اس 14 سو سال پرانے اسلام کے ساتھ ہی اٹھائے”

بزرگ کی آنکھوں میں دو آنسوں تیرنے لگے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 چھوٹی چھوٹی خواہشیں، چھوٹے چھوٹے لوگ

 

توفیق کام سے فارغ ہو کر گھر کی طرف جا رہا تھا کہ اس کی پکوڑے والے پر نظر پڑی جو گرما گرم پکوڑے تل رہا تھا۔۔۔۔ اس نے اپنے کرتے کی دونوں جیبیں ٹٹولیں۔۔۔بڑی مشکل سے  مختلف جیبوں سے کچھ ریزگاری نکلی۔۔۔ اس نے گنے تو پتہ لگا نو روپے پچاس پیسے تھے۔۔اس نے پکوڑے والے سے کہا۔

"استاد ! دس روپے کے پکوڑے دے دو۔۔آٹھ آنے بعد میں لے لینا”

پکوڑے والے نے ایک پرانا اخبار پھاڑ کر اس میں پکوڑے لپیٹ کے دے دئے۔۔۔گھر آ کر اس نے اپنی بیوی مریم کو آواز لگائی۔

"ارے جلدی آ جا۔۔۔۔ گرما گرم پکوڑے لایا ہوں تیرے لئے”

مریم بھاگتی ہوئی آئی۔۔۔اس نے ایک پکوڑا اٹھایا اور جلدی سے منہ میں رکھا۔۔۔پکوڑا اٹھاتے ہوئے اس کی نظر اس اخبار کی کسی خبر پر رک سی گئی۔۔۔جو پکوڑے کے ساتھ آیا تھا۔

اس نے توفیق سے کہا۔

"یہ دیکھو ”

توفیق نے پوچھا۔

"کیا ہے؟”

مریم بولی۔

” ڈیفنس میں ایک آدمی نے پانچ لاکھ کے بیل کی قربانی کی ”

"تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔۔۔”توفیق نے کہا "لوگوں نے تو لاکھوں روپے کی قربانی کی ہے ”

"لاکھوں ؟” مریم کا منہ بن گیا۔۔۔”اتنا پیسہ آتا کہاں سے ہے لوگوں کے پاس ”

"اللہ دیتا ہے۔۔۔”توفیق بولا "اور کہاں سے آئے گا”

"تو تجھے اور مجھے اللہ کیوں نہیں دیتا۔۔۔” مریم پھٹ سے بولی۔۔۔ہم نے کیا گناہ کیا ہے”

"ارے کیا پاگل ہو گئی ہے۔۔۔اول فول بک رہی ہے ” توفیق غصے میں بولا ” اس کی مرضی وہ جسے چاہے دے۔۔جسے چاہے نہ دے۔۔۔وہ کسی کا پابند تھوڑی ہے ”

"دیکھ۔۔ تو صبح سے رات تک فیکٹری میں گدھے کی طرح محنت کرتا ہے”مریم نے لہجہ بدل کے کہنا شروع کیا  "اور میں لوگوں کے گھروں میں برتن مانجھ مانجھ کر تھک جاتی ہوں۔۔مگر ہم آج تک اس قابل نہیں ہوسکے کے اپنے بچے کے لئے پانچ سو روپے کا ایک پالنا خرید سکیں۔۔مہینے کی آخری تاریخوں میں تیری تنخواہ ختم ہو جاتی ہے اور تجھے بچے کے دودھ اور دوائی کے لئے بھی ایڈوانس اٹھانا پڑتا ہے اور ایک طرف اللہ ہے کہ ان لوگوں کو لاکھوں روپے دیتا ہے۔۔۔کیا تجھ سے زیادہ محنت کرتے ہیں وہ لوگ؟”

"محنت؟ ہونہہ ” توفیق مصنوعی ہنسی ہنسا ” ایر کنڈیشنڈ دفتروں میں سوٹ ٹائی پہنے بیٹھے رہتے ہیں ”

"تو پھر ؟” مریم پھر غصے میں آ گئی ” تو پھر ایسا کیوں ہے۔۔۔اللہ انھیں کیوں دیتا ہے۔۔۔اور ہمیں کیوں نہیں ؟”

اب توفیق نے بھی اسے غصے سے دیکھا۔

” ارے باؤلی ہوئی ہے کیا۔۔اللہ کے بارے میں کچھ نہ کہنا۔۔۔مولوی صاحب کہہ رہے تھے کہ اتنی سی بات سے آدمی جہنمی ہو جاتا ہے۔۔۔تو مجھے بھی جہنمی بنوائے گی اور خود بھی بنے گی۔۔۔

اب چپ چاپ پکوڑے کھا ”

توفیق نے اپنے کان پکڑے۔۔۔لیکن مریم آج کسی اور موڈ میں تھی۔

” مجھے نہیں کھانے تیرے یہ پکوڑے۔۔۔اور اللہ ہمیں جہنم میں کیوں ڈالے گا۔۔۔ہم نے کس کا مال کھایا ہے۔۔۔کونسی چوری کی ہے۔۔۔ کونسا ڈاکہ ڈالا ہے۔۔۔تمہارا مولوی توبکتا رہتا ہے۔۔اسے جو چندے کا۔۔۔فطرے کا۔۔۔ کھانے کو مل جاتا ہے۔۔۔تیری میری طرح محنت کر کے کما کے کھا کے دکھائے۔۔۔پھر جانوں۔۔۔پھر اسے پتہ لگے کہ جہنم کیا ہوتا ہے”

اس نے رونا شروع کر دیا۔۔توفیق نے جو اسے روتے ہوئے دیکھا تو اس کا دل بھی پسیج گیا۔۔اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔

"دیکھ نیک بخت !  ہمیں یہاں اگر اچھی زندگی نہیں ملی۔۔تو وہاں ملے گی۔۔آخرت میں۔۔۔

وہاں جنت میں تیرے میرے محل ہوں گے۔۔گاڑیاں ہوں گی۔۔۔بنگلے ہوں گے۔۔۔نوکر چاکر ہوں گے”

"اچھا؟” مریم نے آنکھیں پونچھتے ہوئے کہا”تو سچ بولتا ہے؟”

"ہاں۔۔۔قسم سے۔۔میں نے کہیں پڑھا تھا”  توفیق بولا "اور وہ جو تیری سیٹھانی ہے نا۔۔

رمضان صاحب کی بیوی۔۔۔ جس نے اس روز شیشے کی پلیٹ ٹوٹنے پر تجھے گالیاں دیں تھیں۔۔وہ جنت میرے تیرے بنگلے پر برتن مانجھے گی ”

مریم کی آنکھوں میں چمک آئی۔۔ وہ حیرت سے توفیق کو دیکھنے لگی۔

"تو بالکل سچ بولتا ہے؟”

"تیری قسم” توفیق بولا۔

"اگر ایسا ہوا نا۔۔۔۔ تو پھر میں اس رمضان کی بیوی کو مزہ چکھاؤں گی۔۔۔میں بھی اسے گالیاں دوں گی۔۔۔حرام خور! صحیح طرح برتن دھو”

مریم نے کمر پر ہاتھ رکھ کر اپنی سیٹھانی کی نقل اتاری۔۔۔

توفیق ہنس پڑا

٭٭٭

 

 

 

 

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات

 

مالی امام دین بنگلے سے منسلک لان کو پائپ کے ذریعے پانی دے رہا تھا۔۔۔۔ ڈرائیور خوشی محمد کا بیٹا فضل دور بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ اچانک امام دین کی نظر اس پر پڑی۔

اس نے چیخ کے کہا

"کیوں بے! کیا دیکھ رہا ہے؟”

فضل نے جواب دیا

"کچھ نہیں ”

امام دین نے پائپ کو اسی طرح گھاس پہ چھوڑ دیا اور پانی کو بہتا ہوا چھوڑ کے فضل کے قریب آیا۔۔کہنے لگا،

"نہیں بے۔۔کوئی تو بات ہے تیرے دماغ میں۔۔۔جو  تو یوں گھور رہا تھا مجھے”

فضل نے ایک لمبی آہ بھری اور کہنے لگا،

"چاچا! یہ تو روزانہ جتنا پانی اس لان پہ بہاتا ہے نا۔۔۔اتنا تو تھر کے علاقے میں ہمارے گاؤں میں ہمیں ایک مہینے میں بھی نصیب نہیں ہوتا۔۔۔میری ماں اور بہنیں ایک ایک میل دور سے مٹکا بھر کے آتی ہیں۔۔۔تب ہم پانی پیتے ہیں۔۔۔ہمارے اسکول کا ماسٹر صحیح کہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تو ہر چیز وافر مقدار میں پیدا کی ہے۔۔۔بس یہ انسانوں کے تقسیم کے نظام کی خرابی ہے”

امام دین نے ڈانٹے ہوئے کہا۔

"بس۔۔بس۔۔۔زیادہ نہ سوچا کر۔۔۔۔ ورنہ تجھے بھی پیر صاحب کے پاس لے جانا پڑے گا جھڑوانے کے لئے۔۔ہر وقت درخت کے نیچے بیٹھا رہتا ہے۔۔۔لگتا ہے اثر ہو گیا ہے۔۔”

امام دین بڑبڑاتے ہوئے آگے بڑھا تو فضل نے آواز لگائی۔

"چاچا!”

امام دین نے مڑ کے دیکھا۔

فضل نے کہا۔

"چاچا۔۔۔کبھی ہمارے ملک کے حکمرانوں کو بھی پیر صاحب کے پاس لے جا۔۔۔جھڑوانے کے لئے۔۔تاکہ وہ وسائل کی صحیح تقسیم کریں ”

٭٭٭

 

 

 

 

شجرۂ نسب

 

بچپن میں ہمیں اپنے بزرگ اور اساتزہ سے جو ابتدائی تعلیم ملی۔۔اس میں سب سے زیادہ اس بات پر زور دیا جاتا تھا کہ آپ نے کبھی بھی کسی کی بات نہیں کاٹنی۔۔۔کوئی بول رہا ہو تو اسے غور سے سننا ہے۔۔۔درمیان میں نہیں بولنا۔۔۔ہاں جب وہ بات مکمل کر کے چپ ہو جائے تو پھر آپ اپنی بات شروع کریں۔۔۔اپنے لہجے کو دھیما رکھنا ہے۔۔۔بلند آواز میں بات نہیں کرنی۔۔چیخنا، چلانا اور شور مچانا غیر تعلیم یافتہ لوگوں کا شیوہ ہے۔۔۔تعلیم یافتہ اور شریف خاندان سے تعلق رکھنے والے کبھی بھی چیختے چلاتے نہیں۔۔بلکہ دلائل سے دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں۔۔۔اپنے مخالف کو جھوٹا کہنا بھی بدتمیزی ہے۔۔۔اگر وہ غلط بیانی سے کام لے رہا ہو اور آپ کو سو فی صد یقین ہو۔۔پھر بھی آپ اسے جھوٹا نہیں کہیں گے۔۔۔بلکہ با اخلاق طریقے سے اس سے کہیں گے ” یہ بات یوں نہیں۔۔بلکہ یوں ہے۔۔۔شاید آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔”وغیرہ۔

یہ وہ اچھی تربیت اور اخلاقیات ہیں جو کسی بھی والدین سے اولاد کو ملنے والی سب سے بڑی دولت ہے۔۔۔

مگر۔۔۔مگر آج میں ٹی وی پر مختلف ٹاک شوز میں شامل ہمارے اہل سیاست کو اور بعض دینی پروگرام میں شامل ہمارے اہل دین کو گفتگو کرتے ہوئے۔۔۔چیختے چلاتے ہوئے۔۔اور دوسروں کی بات کاٹتے ہوئے۔۔دیکھتا ہوں۔۔۔تو سوچتا ہوں کہ یارب!  کاش ک انہیں بھی ویسے ہی بزرگ اور اساتزہ ملے ہوتے۔۔تو آج یہ حال نہ ہوتا۔

میں نہیں مانتا کاغذ پہ لکھا شجرہ ء نسب

بات کرنے سے قبیلے کا پتا چلتا ہے

٭٭٭

 

 

 

امریکن الیکشن یا بیوہ کی شادی

 

لو جی! امریکہ میں الیکشن ہو گئے۔۔۔

بالکل سوکھے سوکھے۔۔۔بالکل پھیکے پھیکے۔۔۔۔۔۔بد مزہ۔۔۔بے  رنگ۔

نہ کوئی ہنگامہ۔۔۔نہ کوئی جلوس۔۔۔نہ کوئی ریلی۔

نہ آوے ہی آوے۔۔۔نہ جاوے ہی جاوے۔

نہ کسی شہر میں کرفیو لگا۔

نہ کوئی بس جلی۔۔۔نہ کوئی ٹریفک سگنل ٹوٹا۔

نہ کوئی ہوائی فائرنگ ہوئی۔

نہ دکانوں کے سائن بورڈ کو نقصان پہنچا۔

صاحبو!

یہ الیکشن ہوئے یا کسی بیوہ کا نکاح؟؟؟

ادھر اس کو دیکھو!

اوباما کے مخالف امیدوار رومنی کو۔

اس نے بالکل نامردوں والا کام کیا ہے۔

ہارنے کے بعد اوباما کو فون کر کے مبارکباد دے رہا ہے۔

ارے لگاتا چارج کہ دھاندلی ہوئی ہے۔

7 ریاستوں میں بیلٹ بکس بدلے گئے ہیں۔

کیلیفورنیا میں تو ہمارے پولنگ ایجنٹ کو بھی مارا گیا ہے۔

ایک گرما گرم بیان داغ دیتا کہ ہم نتائج تسلیم نہیں کرتے۔

دوبارہ الیکشن کرائے جائیں۔۔۔فوج کی نگرانی میں۔

اور یہ بھی کہ اوباما ملک کے لئے ایک سیکورٹی رسک ہے۔

اس کے القاعدہ سے خفیہ مراسم ہیں۔۔وغیرہ۔

ان امریکنوں کو نہ سیاست آتی ہے اور نہ ہی الیکشن جیتنے کے گر۔

ہمیں یہاں سے شیخ رشید کو بھیجنا پڑے گا ان کی اصلاح کے لئے۔

انہیں بتانا پڑے گا کہ

بیوقوفو!

اس طرح الیکشن نہیں ہوتے۔

اس  شرافت سے تو ہمارے ہاں کسی بابے کا عرس بھی نہیں ہوتا۔

چلو! اب تو جو ہوا۔۔ سو ہوا۔۔چارسال بعد دیکھیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

فرمانبردار شوہر

 

ہماری بیگم نے جب سے ایک دینی جماعت کی خواتین کی "اصلاحی” محفلوں میں جانا شروع کیا ہے۔۔۔ہماری جان پر بن آئی ہے۔۔۔ایک تو اسے ہماری روزمرہ زندگی کا ہر دوسرا کام مثلاً کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا۔۔۔ سب غیر اسلامی نظر آتا ہے۔

"اس معاملے میں شریعت یہ کہتی ہے اور اس معاملے میں شریعت یہ کہتی ہے”

میں نے کہا

"بیگم میرے کسی معاملے میں شریعت خاموش بھی ہے یا نہیں۔۔۔اور اگر خاموش ہو تو وہاں تو مجھے اپنی مرضی چلانے دیا کرو۔۔۔وہاں بھی آپ خود اجتہاد کرکے فیصلہ کرتی ہو”

کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔میں تو اب ہر بات میں اطاعت کرنے لگا ہوں۔

وہ کہے "شاپنگ کرنی ہے”

تو میں کہوں "بسم اللہ”

وہ کہے "آج دال پکے گی”

تو میں کہوں "جزاک اللہ”

وہ کہے "بچوں کو آپ سنبھالو گے”

تو میں کہوں "الحمد اللہ ”

وہ کہے "میرا زیور دیکھنا کیسا ہے؟”

تو میں کہوں "ماشاللہ”

وہ یہ سمجھتی ہے کہ یہ سب اس دینی جماعت کو جوائن کرنے کی فیوض و برکات ہیں کہ شوہر اتنا فرمانبردار ہو گیا ہے۔۔۔ جب کہ مجھے یہ خوف ہے کہ اگر کبھی کسی بات کا منع کیا تو خود کش جیکٹ باندھ کے نہ آ جائے۔

 

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

 

رشید بھائی کے تین داماد تھے اور تینوں الگ الگ کھوپڑیوں کے مالک۔۔۔بڑے داماد کو کرکٹ کا جنون تھا۔۔۔دنیا کے کسی بھی کونے میں میچ ہو رہا ہو۔۔اور کسی بھی چینل پر آ رہا ہو۔۔وہ آدھی رات کو اٹھ کر بھی ٹی وی کے سامنے بیٹھے ہوتے۔۔۔سارا گھر سو رہا ہو پھر بھی وہ ہر گیند پر ہوٹنگ کرتے۔۔۔اور ہر چوکے چھکے پر تالیاں بجاتے۔

منجھلا داماد اسٹاک ایکسچینج کا کیڑا تھا۔۔۔اسے سوتے میں بھی شیئرز کے بھاؤ ہی خواب میں آتے تھے۔۔۔کسی کے جنازے میں بھی جاتا تو لوگ ” کلمۂ شہادت”  پکار رہے ہوتے اور  وہ   "OGDCL۔۔۔۔OGDCL”پکار رہا ہوتا۔

سب سے چھوٹے کی چائے کی پتی کی دکان تھی۔۔مگر شوق سیاست کا تھا۔۔۔وہ ہر وقت سیاسی گفتگو میں ہی مگن رہتا۔۔۔اسے یہ بھی پتا تھا کہ زرداری کا اگلا قدم کیا ہو گا۔۔اور آرمی چیف  اب کیا کرنے والے ہیں۔۔ہاں اگر نہیں جانتا تھا تو بس چائے کی پتی کے بارے میں نہیں جانتا تھا کہ کونسی اچھی ہوتی ہے۔

اور پھر ان سب کے سامنے بیچارے رشید بھائی۔۔۔جنکا اوڑھنا بچھونا۔۔شاعری اور ادب تھا۔۔۔ساری زندگی اسی دشت کی سیاحی میں بتائی تھی۔۔۔ انہیں تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ کرکٹ کے ایک اوور میں کتنی بال ہوتی ہیں۔۔۔یا اسٹاک ایکسچینج میں لوگ کیا کرنے جاتے ہیں۔۔۔یا آجکل ملک کا وزیر اعظم کون ہے۔

ویسے تو ایسا موقع کم ہوتا کے تینوں داماد ایک ساتھ گھر آتے مگر جب کبھی کوئی تقریب یا تہوار ہوتا اور تینوں داماد آئے ہوئے ہوتے تو رشید بھائی کے لئے ان کے ساتھ گفتگو کرنا کافی مشکل ہو جاتا۔۔ان کا اپنا پسندیدہ موضوع دامادوں کے اوپر سے گزر جاتا۔۔۔اور دامادوں کی پسند ان کے اوپر سے۔

ویسے رشید بھائی کافی کم گو تھے مگر پچھلی بار ایک داماد نے اپنی بیوی سے شکایت کی کہ تمہارے ابّا گھر بلا کر ہم سے کوئی بات بھی نہیں کرتے۔۔بس چپ چاپ ہمارے جانے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔

بیچارے رشید بھائی اب چپ بھی نہیں رہ سکتے تھے۔

اب کی بار گھر پر ایک دعوت کے موقع پر جب تینوں دامادوں کے آنے کا امکان تھا۔۔تو رشید بھائی نے سوچا کے پہلے سے تھوڑا ہوم ورک کر لیا جائے۔۔سب سے پہلے انہوں نے پڑوسی کے چھوٹے بیٹے کو بلایا اور اس سے کرکٹ کے بارے میں تھوڑی سی معلومات لی کہ آج کل کونسی ٹیم اچھی جا رہی ہے۔۔اور پاکستان کا کسی کے ساتھ کوئی میچ چل رہا ہے۔۔اور اگر چل رہا ہے تو اس میں ٹیم کی کیا پوزیشن ہے وغیرہ۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے ایک دوسرے پڑوسی کو پکڑا اور اس سے اسٹاک ایکسچینج اور شیئرز کی تھوڑی سی معلومات لی۔۔۔پھر گلی کے نکڑ کے پان والے کے پاس پہنچے۔۔اور اس سے سیاست کے بارے میں سوال جواب شروع کئے۔۔۔یہ ساری معلومات اپنے حافظے میں اتار کے وہ خوشی خوشی گھر آئے کہ اب کی بار بیٹیوں کو بھی باپ سے کوئی شکایت نہیں ہو گی کہ ابّا ان کے شوہروں کو بور کرتا ہے۔

اب آیا یوم الحساب۔۔۔یعنی دعوت والے روز جب کھانے میں کچھ وقت باقی تھا اور تینوں داماد ڈرائنگ روم میں رشید بھائی کے سامنے صوفہ سیٹ پر براجمان تھے۔۔رشید بھائی نے لے کے ٹی وی ان کر دیا۔۔اتفاق سے اس وقت ٹی وی پر فیض احمد فیض کے داماد اور ماضی کے مشہور اداکار و پروڈیوسر شہیب ہاشمی کا انٹرویو آرہا تھا۔۔۔رشید بھائی اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور ٹی وی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے۔

” یہ فیض صاحب کے داماد ہیں ”

تینوں دامادوں نے پہلے ٹی وی کی طرف دیکھا اور پھر رشید بھائی کی طرف۔۔۔یکایک منجھلا بول پڑا۔

"فیض صاحب؟۔۔۔کون؟۔۔۔آپ کے کوئی رشتے دار ہیں ؟”

رشید بھائی کو کاٹو تو خون نہ نکلے۔۔۔انہوں نے تقریباً دانت پیستے ہوئے کہا۔۔

"میں فیض احمد فیض کی بات کر رہا ہوں۔۔۔میاں برخوردار! تم فیض احمد فیض کو نہیں جانتے؟”

اس نے انکار میں سر ہلایا کہ اچانک چھوٹا داماد بول پڑا۔

"وہ جو نورجہاں کے گانے لکھتا تھا”

رشید بھائی نے منجھلے کو چھوڑ کے چھوٹے کو گھورنا شروع کیا۔

"نورجہاں کے گانے؟”

چھوٹے کے جواب دینے سے پہلے سب سے بڑا داماد کفن پھاڑ کر بولا۔

"ہاں !  وہ والا گانا۔۔۔۔۔۔ مجھ سے پہلے جیسا پیار۔۔میرے محبوب نہ مانگ”

رشید بھائی اپنی جگہ سے تقریباً کھڑے ہوئے۔

” میاں وہ گانا نہیں نظم ہے۔۔۔اور یوں ہے کہ۔۔ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ ”

رشید بھائی نے ٹی وی آف کیا۔۔۔اور کھڑے ہوتے ہوئے کہنے لگے۔

"میرا خیال ہے۔۔۔ کھانا کھا ہی لیا جائے تو بہتر ہو گا”

٭٭٭

 

 

 

 

عمر اور موضوعِ گفتگو

 

کس عمر کے دوست آپس میں ملنے پر کس موضوع پر زیادہ بات کرتے ہیں۔

عمر : 15 سے 20 سال

موضوع : فلم/کھیل۔۔۔۔ تعلیم۔۔۔۔ عورت

عمر : 20 سے 25 سال

موضوع : تعلیم۔۔۔۔ کیریئر۔۔۔۔ عورت

عمر : 25 سے 30 سال

موضوع : جاب/بزنس۔۔۔۔ کھیل/سیاست۔۔۔۔ عورت

عمر : 30 سے 40 سال

موضوع : بیوی بچے۔۔۔۔ مہنگائی۔۔۔۔ حالات۔۔۔۔ عورت

عمر : 40 سے 50 سال

موضوع : مہنگائی۔۔۔۔ حالات۔۔۔۔ اولاد۔۔۔۔ عورت

عمر :50 سے 60 سال

موضوع : حالات۔۔۔۔ امراض۔۔۔۔ اولاد۔۔۔۔ عورت

عمر :60 سے 70 سال

موضوع : امراض۔۔۔۔ اللہ رسول۔۔۔۔ آخرت۔۔۔۔ عورت

٭٭٭

 

 

 

یہ کہاں کی دوستی ہے

 

آج کل افریقن دو شیزگان نے میرے فیس بک کے ان بکس پر یلغار کی ہوئی ہے۔۔۔ روزانہ کا ایک میسیج اوسطاً آتا ہے۔۔۔جس میں کچھ ملتے جلتے پیغامات ہوتے ہیں۔

مثلاً

میں نے آپ کا پروفائل دیکھا۔

میں بہت متاثر ہوئی۔

اسی لئے میں آپ کو دوستی کا پیغام بھیج رہی ہوں۔

یہ میرا ی میل ایڈریس ہے۔

فوراً مجھ سے رابطہ کریں۔

مجھے آپ سے بہت ضروری کام ہے وغیرہ۔

میں یہ سوچوں کہ یا اللہ!

یہ کیا ماجرہ ہے۔۔۔اچانک میں ان افریقن دوشیزگان میں اتنا مقبول کیسے ہو گیا۔۔۔ہوسکتا ہے انہوں نے میری تحریریں ترجمہ کر کے پڑھی ہوں۔۔اور ان کے اندر اچانک انقلابی تحریک نے جنم لیا ہو۔۔۔ لگتا ہے میں افریقہ میں ایسا ہی انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔۔جیسا کہ شیخ الاسلام طاہرالقادری نے  اسلام آباد میں برپا کیا  ہے۔

نپولین نے بھی کہا تھا کہ مجھے اچھی مائیں دو۔۔۔میں تمہیں عظیم قوم دوں گا۔

مجھے بھی شاید افریقہ کی اچھی مائیں مل جائیں۔۔۔اور میں انھیں ایک عظیم قوم بنا دوں۔

ویسے بھی یہاں کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔۔۔یہ قوم سدھرنے والی ہی نہیں۔۔دیکھو یہاں کی عورتوں کو۔۔۔انہیں ساس نندوں کی غیبت سے ہی فرصت نہیں کہ حنیف سمانا کی تحریریں پڑھیں۔

واقعی افریکن ایک عظیم قوم ہیں۔

میں نے اپنے پیارے دوست مولوی کو بتایا کہ میں افریقن خواتین میں کتنا مقبول ہو رہا ہوں۔۔۔مولوی کے منہ سے ایسی آوازیں نکلیں جیسی کہ باتھ روم کے نل میں سے اس وقت نکلتی ہیں جب اس کا وائسر خراب ہو جاتا ہے۔۔۔

(جن کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی ہو کسی پلمبر سے رجوع کریں )

میں نے انھیں اس بے تکے  انداز میں ہنستے ہوئے دیکھا تو پوچھا۔

"خیریت ؟ آج تم نے پھر دوائی نہیں پی؟ پھر پاگل پنے کا دورہ پڑا ہے”

مولوی ہنستے ہنستے یکایک ایسے سنجیدہ ہوئے جیسے کسی نے سوئچ آف کر دیا ہو۔

پھر بولے،

"میں اس لئے ہنس رہا ہوں کہ جس قسم کے میسیج تمہیں پچھلے ایک ہفتے سے آرہے ہیں وہ مجھے پچھلے ایک سال سے آرہے ہیں ”

"کیا؟” میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

"تمہیں بھی؟ کیا یہ ساری افریقن سٹھیا گئی ہیں۔۔۔ تمہارے پروفائل میں تو ویسے بھی حکیموں کے نسخے بھرے ہوتے ہیں ”

مولوی بولے

"جی جناب! مجھے بھی” پھر کچھ سوچ کے بولے  "یار!  مجھے تو ان میں سے بہت سی شکل سے ہی آدم خور لگتی ہیں۔۔یہ نہ ہو کہ کہیں ہم سے دوستی کر کے افریقہ بلوائیں۔۔۔اور پھر اپنے قبیلے کی دعوت کریں ”

مجھے جھرجھری آ گئی۔۔۔ میں نے کہا۔

” لعنت بھیجو۔۔۔ہم کون سے مرے جاتے ہیں ان سے دوستی کے لئے۔۔

اور کون سے افریقہ جاتے ہیں۔۔۔ اپنا ملک اپنا ملک ہے۔۔۔یہاں مرنے کے اسباب کیا کم ہیں

طالبان ہیں۔۔۔ٹارگٹ کلرز ہیں۔۔۔غیر ملکی دہشت گرد ہیں۔۔۔گینگ وار والے ہیں۔۔۔مرنا ہوا تو انہی کے ہاتھوں مریں گے۔۔۔نا کہ کسی افریقن حسینہ کے ہاتھوں۔۔۔۔۔یہیں انقلاب لائیں گے۔۔چاہے دیر سے لائیں۔۔۔لگاؤ  نعرہ۔۔۔پاکستان ”

مولوی نے کہا

"زندہ باد”

٭٭٭

 

 

 

 

یہ وطن تمہارا ہے

 

میں اور میرا پیارا دوست مولوی مقامی ہوٹل کے ہال میں بڑے اسکرین پر بھارت اور پاکستان کے درمیان کھیلا جانے والا کرکٹ میچ دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ میں نے ہوٹل کے کونے میں ایک ٹیبل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

"یار مولوی !  اس خاتون کو دیکھو۔۔کس قدر پاکستان سے محبت کرتی ہیں۔۔۔۔ کیسے جھولی پھیلا پھیلا کے پاکستان کے جیتنے کے دعائیں مانگ رہی ہیں ”

"وہ” مولوی پھر پھس پھسی ہنسی ہنسے۔

میں نے غصّے سے کہا۔

"ہاں وہ۔۔اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے۔۔۔ ایک عورت اپنے ملک سے محبت کرتی ہے۔۔۔

اس کے جیتنے کی دعا کر رہی ہے اور تم اس پر بھی ہنس رہے ہو”

"وہ ستار بھائی کی بیوی ہے” مولوی بولے۔

"کون ستار بھائی۔۔۔” میں نے کہا۔

"صرافہ بازار کا مشہور سٹے باز ہے۔۔۔۔ اس کی بیوی ہے” مولوی بولے”اور پتہ ہے کیوں دعا کر رہی ہے۔۔۔ اس کے میاں نے 10 لاکھ روپے لگائے ہیں پاکستان کی جیت پر”

"کیا ؟” میں نے حیرت سے مولوی کی طرف دیکھا۔

اسی وقت ہال کی دیواروں پر لگے اسپیکروں سے نغمہ گونجنے لگا۔۔۔

"یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے

یہ چمن تمہارا ہے، تم ہو نغمہ خواں اس کے”

٭٭٭

 

 

زن مرید

 

 

بہت سے زن مرید مرد جب یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ

"عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ چلنا چاہیے”

تو ا س کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کی عورت ان سے بہت آگے نکل چکی ہوتی ہے۔

 

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تہذیب

تہذیب کیا ہوتی ہے۔۔۔کلچر کیا ہوتا ہے۔۔۔اگر انسانوں کے رہنے سہنے، کھانے پینے، لباس، رکھ رکھاؤں، بات چیت، تعمیرات اور فنون لطیفہ مثلاً ادب، مصوری اور موسیقی کا نام تہذیب ہے۔۔۔تو آج دنیا کے کس ملک میں چھ ہزار سال پرانی تہذیب ہے۔۔۔افریقہ کے جنگلوں میں بھی تبدیلی آ گئی ہے۔۔درختوں کے پتے باندھنے والے کپڑا پہنے لگے ہیں۔۔۔ ہم کیوں عرب دشمنی میں موئن جوڈرو اور ہڑپہ کی تہذیبوں کی دہائی دے رہے ہیں۔۔۔اور پھر یہاں کہاں عرب تہذیب  (کہ جسے آپ نے حقارت سے بدوؤں کی تہذیب کہا ہیـ) کا کوئی اثر ہے۔۔۔سارا غلبہ تو مغرب اور ہندوستان کا ہے۔۔۔لباس کو لے لیجئے۔۔ہم آج بھی شلوار قمیض، جینز کی پینٹ، ٹی شرٹ، تھری پیس سوٹ بمع ٹائی۔۔پہنتے ہیں۔۔۔عورتیں ساڑھی پہنتی ہیں۔۔۔موسیقی دیکھ لیجئے۔۔۔عابدہ پروین، الن فقیر، عارف لوہار، غلام علی، مہدی حسن، نورجہاں، رفیع، لتا، کشور۔۔کون ہے عرب کا۔۔۔میں نے تو کبھی کسی کو ام کلثوم کو سنتے نہیں دیکھا۔۔  کھاناپینا، چائنیز، انگلش اورہندوستانی۔۔کہاں ہے عرب؟ مصوری۔۔۔ادب۔۔۔شاعری۔۔۔کہاں ہے عرب بدوؤں کی تہذیب؟ ہاں۔۔۔ اگر کسی کو مسجدوں سے آتی آذان کی آواز سے الرجی ہو۔۔۔اور اس میں عرب کلچر نظر آتا ہو۔۔۔تو یہ الگ بات ہے۔تہذیبیں، کلچر تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔۔۔اس میں آس پاس کی ملاوٹ ہوتی رہتی ہے۔۔۔یہ ارتقائی عمل ہے۔۔ایک زمانے میں انسان جسم پر درختوں کے پتے باندھتا تھا۔۔۔آج لباس پہنتا ہے۔۔اسی طرح اس کے کھانے پینے، رہنے سہنے، اٹھنے بیٹھنے میں، ادب، موسیقی سب میں وقت کے ساتھ تبدیلی آئی ہے۔۔۔اور آتی رہے گی۔۔۔ہم کہاں دنیا کو چھ ہزار سال پیچھے لے جا سکتے ہیں۔۔۔جب آپ چودہ سو سال پیچھے جانے کے لئے تیار نہیں تو پھر۔۔۔چھ ہزار سال کیوں ؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

سچ جھوٹ

 

دو ہی راستے ہیں۔

ایک۔۔جھوٹ سے سمجھوتہ کر لو۔۔۔اور مزے کرو۔

اور دوسرا۔۔۔سچ بولو۔۔۔اور پھر اس کی قیمت چکاؤ۔

٭٭٭

 

 

 

شرارت

 

دنیا کی آبادی سات ارب انسان

جبکہ رقبہ

57,308,738  اسکوائر میل

57,308,738 / 7,000,000,000

= ۔008186962571

بہت جگہ ہے

بہت زمین ہے

خالقِ کائنات نے تو ضرورت سے زیادہ وسائل دئے ہیں

بس۔۔دلوں میں کشادگی کی ضرورت ہے

ہاں۔۔۔البتہ۔۔۔کچھ شرارت وسائل کے تقسیم کرنے والوں کی طرف سے بھی ہے

اگر دنیا بھر کے انسان مذہب، رنگ، نسل اور ذات پات سے بلند ہو جائیں تو ان شرارت کرنے والوں سے بھی نمٹ سکتے ہیں

اگر ؟

٭٭٭

 

 

 

 

پاسنگ مارکس

 

ہم دونوں ایک پارک میں بینچ پر بیٹھے تھے۔۔۔وہ اپنے خیالوں میں گم تھا اور میں اپنے۔

اچانک میرے  ذہن میں ایک خیال آیا اور میں نے پلٹ کے کہا۔

’’یار انور! ”

اس نے میری طرف دیکھا۔”جی؟”

میں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

"یار! یہ مولوی جو آخرت کے بارے میں کہتے ہیں۔۔اگر یہ سب سچ ہوا۔۔ تو۔۔۔ اپنی تو۔۔۔۔

وہاں (آسمان کی طرف اشارہ کر کے) بہت  ٹھکائی ہو گی”

اس نے زور کا قہقہہ لگایا۔پھر کہنے لگا۔

” کوئی ٹھکائی وُکائی نہیں ہو گی۔۔۔۔ دراصل ہم نے جو کچھ صحیح سمجھا۔۔۔ اس پر ایمانداری سے چلتے رہے۔۔۔۔ منافقت نہیں کی۔۔چہرے پر جعلی نقاب نہیں چڑھایا۔۔۔ اپنے چہرے سے اور حلیے سے لوگوں کو دھوکہ نہیں دیا۔۔۔۔ جیسے اندر تھے ویسے ہی باہر۔۔۔۔ وہ منصف ہے۔۔۔۔ انصاف کرے گا۔۔انسان نہیں ہے۔۔۔۔ کہ زیادتی کرے”

میں نے ایک لمبی بھری اور کہا,

"تم صحیح کہتے ہو۔۔ وہ منصف ہے انصاف کرے گا۔۔۔ اگر۔۔۔ آخرت میں۔۔۔ رزلٹ آیا۔۔۔۔

تو اس میں 15 نمبر تو ہوں گے اس چیز کے کہ ہم منافق نہیں۔۔۔ 15نمبر ہوں گے۔۔۔۔ اس چیز کے کہ ہم مشرک نہیں۔۔۔۔ کبھی خدا کے علاوہ کسی در سے نہیں مانگا۔۔15 اور 15 ہو گئے۔۔

30 نمبر۔۔۔۔ باقی 3 نمبر صفائی کے ہو گئے۔۔ہو گئے 33 نمبر۔۔۔۔ پاسنگ مارکس‘‘

ہم دونوں نے ایک ساتھ زور کا قہقہہ لگایا۔

٭٭٭

 

 

 

 

نظریاتی افیم

 

 

(میری درخواست ہے کہ میری اس تحریر کو بغیر کسی تعصب کے بغور پڑھا جائے )

امیر خسرو نے کہا تھا :

اگر فِردوس برُوئے زمیں است،

ہمی است و ہمی است و ہمی است۔

یعنی اگر زمین پر کہیں کوئی جنت ہے۔۔ تو وہ یہی ہے۔۔۔ وہ یہی ہے۔۔۔ وہ یہی ہے۔۔

پچھلے سو سالوں میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی کچھ ذہنی تربیت ایسی ہوئی اور کچھ

شعراء حضرات اور لکھاریوں نے انہیں ایسی افیم دی کہ وہ اسی میں مگن رہے۔۔۔ان کے ذہن میں یہ ڈالا گیا۔۔کہ تم ایک عظیم قوم ہو۔۔۔تمہارا مقابل کوئی نہیں۔۔۔تم 313 ہو اور کافر 1000۔۔۔پھر بھی تم حاوی رہو گے۔۔۔اگر ضرورت پڑی تو ابابیلیں بھی تمہاری مدد کو آئیں گی۔۔۔چاہے محنت کرو۔۔یا نہ کرو۔۔۔تم ہی اللہ کی محبوب امت ہو۔۔۔انگریز نے اگر تم پر یا دنیا پر حکمرانی کی ہے۔۔یا وہ آج تم پر غالب ہے۔۔۔تو اس کی وجہ اس کا علم، اس کی محنت یا سائنسی ترقی نہیں بلکہ اس کی چالاکی، اس کی عیاری اور مکاری ہے۔۔۔اور میر جعفر اور میر صادق جیسے غداروں نے اس کی مدد کی ہے۔۔۔ ورنہ ہم سے ہمارا اقتدار دنیا کی کوئی طاقت نہیں چھین سکتی تھی۔۔۔چاہے ہم اپنی محبوباؤں کے لئے اور دس بیس تاج محل بناتے۔۔۔اور چاہے  طاؤس  و رباب میں گم رہتے۔۔اور چاہے شاعروں اور گانے والیوں کے منہ موتیوں سے بھرتے رہتے۔۔۔۔ انگریز تو نالائق تھا جو اس وقت آکسفرڈ اور کیمرج جیسی یونیورسیٹیاں بنا  رہا تھا۔۔اسے کیا پتہ جو مزہ  تاج محل میں بیٹھنے کا ہے وہ کسی درسگاہ میں بیٹھنے میں کہاں۔

یہ نظریاتی افیم کافی پر اثر تھی۔۔۔اور اس کے اثرات نسلوں تک پھیلے رہے۔۔۔یہاں تک کہ پاکستان بننے کے بعد بھی ہمارے ہر شعبہ زندگی میں یہ سوچ ہمارے ساتھ ساتھ چلتی رہی۔۔۔

بڑائی اور کبریائی اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے ہی ہے۔۔مگر ہم برسوں اپنے آپ کی بڑائی میں مبتلا رہے۔۔ہمیں جب بھی دنیا میں کوئی آئیڈیل یا ہیرو  ڈھونڈنے کے لئے کہا گیا تو ہم کہیں اور ڈھونڈنے نہیں گئے۔۔بلکہ آئینے کے سامنے جا کر کھڑے ہو گئے

یہ خودپرستی۔۔۔اور یہ خود فریبی ہمارے ہر شعبے میں تھی۔۔۔یہاں تک کہ ہمارے ہاں کا پہلوان اپنے آپ کو برسوں "رستم زماں اور رستم جہاں ” کہلواتا رہا۔۔حالانکہ اس کا "جہاں ” کراچی اور لاہور کے اکھاڑے تھے۔۔۔جہاں وہ ایک ایک وقت میں 20/20 سیر دودھ پی جاتا تھا۔۔پورے پورے بکرے کھا جاتا تھا۔

ہم اس خود فریبی میں خوش تھے کہ ہم ہی ہیں دنیا میں۔۔۔یہ تو سائنسی ترقی نے ہماری آنکھیں کھولیں۔۔۔ٹی وی ایجاد ہوا۔۔۔اور جب فری ریسلنگ ہمیں دکھائی گئی۔۔۔تو ہمارے سورما اپنے اپنے بلوں میں سہم گئے۔۔۔اور آپس میں کہنے لگے کہ یار یہ انگریز تو بہت مارتا ہے۔۔۔اسے بھی ہمارے ہاں کے کچھ ظالموں نے "کیمرہ ٹرک” کہا۔۔۔اور کہا کے ایسی کوئی لڑائی وڑائی حقیقتاً ہوتی نہیں بلکہ یہ کیمرے کی صفائی ہے۔۔۔ اور پھر ایسا وقت آیا کہ جاپان کے ایک دبلے پتلے پہلوان انوکی نے کہ جو کہ نہ ہی 20/20 سیر دودھ پیتا تھا۔۔۔اور نہ ہی پورا پورا بکرا کھاتا تھا۔۔۔اس نے دنیا بھر کے سامنے ہمارے خود ساختہ شیروں کو ہمارے ہی گھر میں پچھاڑا۔۔۔ان کا بازو مڑوڑا۔۔اور وہ بازو نہ چھڑا سکے۔۔۔تب ہمیں پتہ لگا کہ دنیا میں ہمارے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔

اسی طرح برسوں ہم اپنے فنکاروں۔۔موسیقاروں۔۔۔لکھنے والوں۔۔۔اداکاروں۔۔۔اور مصوروں کو بھی "دنیا کا سب سے اچھا” قرار دیتے رہے۔۔۔ کسی کو ہم نے ملکہ کہا۔۔۔تو کسی کو شہنشاہ۔۔۔کوئی ہمارے لئے نورجہاں تھا تو کوئی فخر جہاں یا فخر ایشیا۔۔۔اصل میں ہمارا  "جہاں ” کراچی کے منگھوپیر اسٹوڈیو سے شروع ہوتا تھا تو لاہور کے ایورنیو اسٹوڈیو تک۔۔۔ ہم اسی میں خوش تھے۔

ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ ہم اس دنیا کے 200 سے زائد ملکوں میں سے صرف ایک چھوٹا سا ملک ہیں۔۔۔اور دنیا کی 90% آبادی تو ہمارے نام سے بھی نہیں واقف۔۔ جتنا ہمارے ملک کا سائز ہے اس سے بڑے تو کئی ملکوں میں صوبے ہیں۔۔۔مگر نہیں ہمیں خود فریبی کی اس افیم کا نشہ اچھا لگتا تھا۔۔۔ہمیں ہوش میں آنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ۱۹۶۵کی جنگ تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔۔۔اس وقت بھی ذرائع ابلاغ اتنے موثر نہیں تھے۔۔۔ہمیں یہی کہا گیا کہ ہم جیت رہے تھے۔۔ہمیں سازشوں کے ذریعے جنگ بندی کر کے ہرایا گیا۔

یہ خود فریبی 1971 تک چلی۔۔۔اور پھر 71 میں ہماری خود فریبی کی دیوار دھڑام سے آ گری۔۔۔  نہ امریکہ کا بحری بیڑہ مدد کو آیا۔۔اور نہ ابابیل۔ اب ہمیں ہوش میں آ جانا چاہیے تھا۔

مگر نہیں۔

اس افیم کا نشہ بہت گہرا ہے۔۔۔۔۔ کیا ہم کسی نئے سانحے کے منتظر ہیں ؟؟

٭٭٭

 

 

 

جنت یا پیراڈائز

 

"نیلسن منڈیلا کا انتقال ہو گیا”

"کون نیلسن منڈیلا۔۔۔ وہ کالا ؟”

"جی ہاں۔۔وہ کالا۔۔جس کا دل آپ کے گورے گورے سیاستدانوں کے دلوں کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ اجلا اور شفاف تھا۔۔ وہی نیلسن منڈیلا۔

وہ جس کا کہنا تھا کہ

"سیاستدان اگلے الیکشن کا سوچتا ہے اور لیڈر اگلی نسل کا ”

ہمارے ہاں کوئی ایک سیاستدان تو ڈھونڈ کے دکھاؤ کہ جو اگلی نسل کا سوچتا ہو۔۔۔اس نے ہمیشہ اپنے دیس کی اگلی نسل کا سوچا۔۔۔انھیں غلامی کے اندھیروں سے آزادی دلانے کا  بیڑہ  اٹھایا۔۔۔ اس جدوجہد میں اپنی زندگی کے بہترین سال سلاخوں کے پیچھے گزارے۔۔۔۔ اور کامیاب ہوا۔۔وہی نیلسن منڈیلا۔۔۔ وہ اس دھرتی پر اپنا بے مثال کردار ادا کر کے رخصت ہوا۔

یقیناً ہم مسلمان ہیں۔۔۔اور جنت پر ہماری اجارہ داری  بھی ہے۔۔۔۔ اس لئے ہم کسی غیر مسلم کے لئے مغفرت کی دعا بھی نہیں مانگ سکتے۔۔۔چونکہ مذہب کے "خیر خواہوں ” کو ایک اور موضوع مل جائے گا۔

مگر۔  اتنا تو کہہ سکتے ہیں کہ اے رب العالمین !

تو صرف مسلمانوں کا خدا نہیں۔۔۔تو سب کا رب ہے۔۔۔اور تو منصف بھی ہے۔۔۔تو یقیناً نیلسن منڈیلا کے ساتھ بھی انصاف کرے گا۔۔۔اگر "مولوی” اسے اپنی جنت میں گھسنے نہ دیں۔۔۔تو۔۔۔ تو اسے اپنی "پیراڈائز” میں لے جانا۔

بے شک تو بے حد مہربان اور رحیم ہے۔

پی ٹی وی مرحوم

آزاد میڈیا نے لوگوں کو محصور کر دیا ہے۔

یہاں اتنے مر گئے۔۔وہاں اتنے مر گئے۔۔اتنے لٹ گئے۔۔۔۔ اتنے برباد ہو گئے۔۔

جوان بہنوں کا بھائی چلا گیا۔۔۔بوڑھی ماں کا سہارہ چھن گیا۔۔۔بوڑھے باپ نے لاشے کو کاندھا دیا۔۔ٹرین میں دھماکہ۔۔ زائرین کی بس میں دھماکہ۔۔سخت سردی میں لوگ جنازے لے کر سڑکوں پر۔۔کہیں عالم دین شہید۔۔کہیں ایف سی کا جوان شہید۔۔۔ کہیں ڈاکٹر۔۔کہیں طالب علم۔۔کہیں بچہ۔۔کہیں بوڑھا۔

یا اللہ!  کہیں سے تو کوئی خیر کی خبر ہو۔

آگہی واقعی عذاب ہے۔۔اور لاعلمی یقیناً نعمت ہے۔

NO NEWS IS A GOOD NEWS

جب والدین کسی اولاد سے تنگ آ جاتے ہیں تو کہتے ہیں۔

"اس سے تو ہم بے اولادے ہی اچھے تھے”

میں بھی آج سوچتا ہوں کہ اس سے تو وہ ایک اکلوتا "پی ٹی وی چینل” ہی اچھا تھا۔۔۔شبھ شبھ سماچار سناتا تھا۔۔۔ "سب اچھا ہے” کی گردان کرتا تھا۔۔۔ ہر طرف امن و امان۔۔لوگ حکومت سے خوش۔۔وزیر اعظم اور ان کے وزراء عوام کی خدمت میں رات دن جتے ہوئے۔۔۔ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں۔۔ہر طرف ہرا ہی ہرا۔۔کہیں اگریکلچر میں ترقی ہو رہی ہے۔۔کسان خوشی خوشی ٹریکٹر چلا رہے ہیں۔۔کہیں ملیں اور فیکٹریاں رات دن کام کر رہی ہیں۔۔۔مزدور خوش حال۔۔طالب علم پڑھائی میں مشغول۔۔نہ کوئی دکھ  نہ پریشانی۔۔کتنا اچھا دور تھا پی ٹی وی کا۔۔آج مجھے پی ٹی وی بہت یاد آ رہا ہے۔۔۔۔ نہ جانے آج کا پی ٹی وی کیسا ہو گا۔۔کئی دن ہو گئے دیکھے ہوئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

نمبر ایک

 

یار!

یہ اٹلی والوں نے ایک عمارت ٹیڑھی کیا بنا لی ہے۔ دنیا بھر کو دِکھا دِکھا کے خوش ہوتے ہیں۔

ہمارے ہاں بھی اتنی ساری چیزیں ٹیڑھی ہیں مگر ہم تو نہیں اتراتے۔ہمارا تو پورا سِسٹم ہی ٹیڑھا ہے۔ حکمران ٹیڑھے ہیں۔۔سیاستدان ٹیڑھے ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ ہم کبھی اس پر اتِرائے ہو۔ بلکہ ہمیشہ کسرِ نفسی سے کام لیا ہے۔

اب کرپشن کو ہی لے لیں۔ہم دنیا میں نمبر ون تھے۔۔۔ ظالموں نے یہ اعزاز کسی اور کو دے دیا۔۔

اور ہمیں نیچے کے نمبروں پر ڈال دیا۔۔ہم نے بُہتیرا سمجھایا کہ بھائی!

ہم ہی نمبر ون ہیں۔۔آپ کے آدمیوں سے کوئی بھول ہوئی ہے حساب کتاب میں۔۔

اب ہم اتنے نالائق بھی نہیں کہ ہر ایرا غیرا ملک آ کے ہم سے یہ اعزاز چھین لے۔۔۔ برسوں کی محنت ہے ہمارے حکمرانوں کی۔۔۔جب کہیں جا کے یہ اعزاز مِلا تھا۔۔نہیں مانے۔۔کسی اور کو دے دیا۔۔بڑے بنتے ہیں چمپیئن انصاف کے۔۔یہ انصاف ہے۔۔  ہونہہ

٭٭٭

 

 

 

 

فیس بک کے ایک مہربان سے چھیڑ چھاڑ

 

میری تحریر کو آپ نے بچکانہ کہا۔۔مسرت ہوئی۔۔کہ ذہنی طور پر بالغ لوگ بھی فیس بک استعمال کرتے ہیں۔۔ورنہ میں تو سمجھتا تھا کہ صرف ہم جیسے لوگ ہی۔۔۔ جو وقت کی ستم ظریفیوں کے باعث۔۔۔ بڑے نہیں ہوسکے۔۔فیس بک استعمال کرتے ہیں۔۔۔ آپ جیسے لوگ تو صرف "فیس واش” استعمال کرتے ہیں یا پھر "چیک بک”۔

حضور والا !

کبھی بچہ بن کر دیکھیں۔۔۔بڑا مزا آئے گا۔

اور ہاں۔۔جب میں نے سوچا کہ آپ کو میری تحریریں بچکانہ لگتی ہیں تو کیوں نا آپ کی وال بھی دیکھی جائے۔۔شاید کچھ بالغانہ مواد مل جائے۔

ماشا اللہ ! بہت اچھا ذوق ہے آپکا۔۔وہ مجھے آپ کی وال پر سردار والا لطیفہ بہت پسند آیا۔۔

کافی دیر تک میں ہنستا رہا ہوں۔۔۔اور ہاں۔۔۔۔ وہ نصیحت آموز پوسٹ۔

"تین چیزیں تین چیزوں کو کھا جاتی ہیں ”

اور

"تین چیزیں تین چیزوں میں اضافہ کرتی ہیں ” وغیرہ۔

میرے علم میں کافی اضافہ ہوا۔

اب سمجھ میں آیا کہ "فیس بک” پر آپ جیسے بالغوں کی تعداد زیادہ ہے۔۔جبھی میری تحریروں پر "لائک” کم ہوتی ہیں ـ

سلامت رہیں ـــ

٭٭٭

 

 

 

 

جنت کے ڈیزائن میں تبدیلی

 

عید کے دن نماز کے فورا ًبعد ہمارے جان سے پیارے دوست "مولوی” اپنے چاق و چوبند دستوں کے ساتھ ہمارے غریب خانے پر سلامی دینے حاضر ہوئے۔۔ان کے دستے میں ان کے چار رنگ برنگی بچے شامل تھے۔۔۔رنگ برنگی سے مراد جس طرح ٹی وی پر ستارہ اور سپنا کا اشتہار رنگ برنگی ہوتا ہے۔۔۔اسی طرح ہر بچے نے ایک الگ رنگ کا اور الگ ڈیزائن کا جوڑا پہنا ہوا تھا۔

مولوی خود بھی کڑھائی والے کرتے میں بالکل۔۔مولوی۔۔ لگ رہے تھے۔(اور کوئی تشبیہ سمجھ میں نہیں آئی)

جب گلے ملے تو محسوس ہوا کے کرتے میں تولہ بھر عطر انڈیلا ہے۔۔۔اگر تھوڑی دیر اور مجھے گلے لگائے رکھتے تو میں بے ہوش ہو جاتا۔۔۔آنکھوں میں سرمہ۔۔۔سر میں خوشبو والا تیل۔

بچے بھی ایسے مواقع کے لئے  well trainedکہ انکل آنٹی کو آداب کہنا ہے اور جب تک نہیں ہٹنا کہ جب تک سلامی نہ ملے۔۔۔ہماری بیگم نے بچوں کو عیدی دی۔

میں اس یکایک ڈرون حملے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہ تھا۔۔۔بہرحال پھر بھی میں نے مسکرا کے پوچھا۔۔

"کیا نماز پانچ بجے والی مسجد میں پڑھی ہے ؟”

مولوی چونکے۔

"نہیں یار! پانچ بجے کہاں ہوتی ہے۔۔۔یہ سامنے گراونڈ میں سات بجے ہوئی ہے”

میں نے کہا

"اوہ۔۔۔۔۔تو مسجد سے سیدھے آئے ہو؟”

کہنے لگے۔

"ہاں۔۔۔وہ بیگم دو بچوں کو لے کے سسرال گئیں۔۔۔اور میں چار بچوں کو لے کے یہاں آ گیا”

میں نے کہا۔۔۔”اچھا۔۔تو بھابی دوسرے محاذ پر ہیں ؟”

مولوی بات سمجھ گئے”دیکھو۔۔۔آج عید والے روز میں بالکل مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں ”

اس دوران میں ہماری بیگم نے ان کے سامنے "شیر خورمہ” رکھا۔ میں نے مولوی کو پلیٹ دی۔

"آ جاؤ ۔attack”

مولوی نے غصّے سے دیکھا۔

"تم باز نہیں آؤ گے”

میں نے کہا۔۔۔”حضور۔۔۔ہمیں عزت بخشیئے۔۔۔۔نوش و تناول فرمائیے۔۔۔۔اب ٹھیک ہے؟”

مولوی مسکرائے اور شیر خورمے پر حملہ ور ہوئے۔

"بھابی۔۔۔بہت عمدہ بنا ہے ماشا اللہ۔۔بس تھوڑا میٹھا تیز ہے”

میں نے کہا”وہ چینی سستی کی ہے نا نواز شریف نے”

ہماری بیگم نے شکریہ ادا کیا”شکریہ بھائی صاحب۔۔۔اصل میں یہ میٹھا زیادہ کھاتے ہیں نا اس لئے”

مولوی نے جل کر کہا ” میٹھا زیادہ کھاتا ہے۔۔اور کڑوا زیادہ بولتا ہے”

میں نے ہنستے ہوئے شعر پڑھا۔

"بس ذرا دیکھنے میں کڑوا ہے،

ورنہ سچ کا کوئی جواب نہیں ”

پھر میں نے کہا۔۔”کچھ سمجھ آئی؟ سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے”

مولوی نے شیر خورمے کی تیسری پیالی ختم کرتے ہوئے کہا۔۔۔”بادام زیادہ ہیں۔۔۔مگر پستے کم ہیں ”

میں نے کہا "حق حلال کی کمائی میں اتنے ہی آسکتے ہیں ”

مولوی نے پھر قہر آلود نگاہ ڈالی”یار۔۔۔تم کچھ دیر چپ نہیں رہ سکتے۔۔میں بھابی سے بات کر رہا ہوں ”

بیگم نے مداخلت کی "آپ یہ مٹھائی بھی لیں بھائی صاحب۔۔۔ان کی تو عادت ہے مذاق کی”

میں نے کہا "یار۔۔۔اپنی عادت بھی تو دیکھو مولوی۔۔۔میٹھا تیز ہے۔۔بادام زیادہ ہیں۔۔۔پستے کم ہیں۔۔۔اول تو تمہارے جنت میں پہنچنے کے امکانات کم ہیں۔۔لیکن اگر تم کسی طرح وہاں پہنچ بھی گئے۔۔تو تمہیں جنت کے ڈیزائن پر بھی اعتراض ہو گا۔۔۔فرشتوں سے تڑوا کے دوبارہ بنواؤ گے۔۔۔ یہ باغ یہاں کیوں بنایا ہے۔۔۔یہ دودھ اور شہد کی نہریں باغ کے پیچھے صحیح ہیں۔۔یہاں حوروں کے رہائشی فلیٹس ہوں گے۔۔۔اور سنو! اے فرشتے۔۔۔اس نہر میں دودھ خالص نہیں لگ رہا۔۔لگتا ہے پاکستان سے کسی گوالے سے منگوایا گیا  ہے۔۔۔۔ فرشتے  اللہ میاں سے کہیں گے۔۔۔ یا اللہ۔۔یہ کس مصیبت کو جنت میں بھیج دیا ہے”

مولوی خلافِ توقع ہنس پڑے۔

٭٭٭

 

 

 

 

جگجیت سنگھ سورگ میں

 

میں اور میرا پیارا دوست مولوی ایک بار بیٹھے جگجیت سنگھ کا پروگرام دیکھ رہے تھے۔۔

گیت چل رہا تھا

"یہ دولت بھی لے لو۔۔یہ شہرت بھی لے لو

بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی

مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون

وہ کاغذ کی کشتی۔۔۔وہ بارش کا پانی”

یہ گیت سنتے سنتے اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا۔

"یار مولوی! یہ جگجیت سنگھ بھی جہنم میں جائے گا؟ یہ بھی کلمہ گو نہیں۔۔گانے بجانے سے تعلق ہے۔۔۔وہ کیا کہتے ہیں لہو و لہب۔۔موسیقی۔۔۔وغیرہ وغیرہ”

مولوی میرے سوال پر چونکے۔۔۔کچہ دیر یہاں وہاں دیکھتے رہے جیسے جواب سوچ رہے ہوں۔۔۔مگر جواب نہیں بن پا رہا تھا۔ آخر غصّے سے بولے۔

"بیڑہ غرق! سارے پروگرام کا ناس مار دیا۔۔۔اتنا اچھا گیت چل رہا تھا۔۔یہ تمہارے ذہن میں یہ سوالات آتے کہاں سے ہیں ؟”

میں نے ہنستے ہوئے کہا "غیب سے۔۔جہاں سے تمہارے ذہن میں نئے نئے کھانے کی ڈشوں کے نام آتے ہیں ”

ٹی وی کا ریموٹ اٹھاتے ہوئے بولے "بولو  تو پروگرام بند کر دوں۔۔تاکہ تمہارے بے تکے سوال کا جواب ڈھونڈا جائے”

میں نے کہا "صاف کہہ دو نا تمہارے پاس جواب ہی نہیں۔۔۔بڑے عالم فاضل بنے پھرتے ہو”

اب مولوی کا غصّہ قابل دید تھا۔۔۔کہنے لگے۔

"ایک بار فیض احمد فیض سے بھی کسی نے کسی اچھے ہندو کے بارے میں پوچھا تھا کہ فیض صاحب! یہ بتائیے کہ یہ ہندو جنت میں جائے گا یا جہنم میں۔۔تو فیض صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اپنے "سورگ” (ہندو دھرم میں جنت کا نام) میں جائے گا۔۔تو پھر میرا ا بھی یہی جواب سمجھو کہ جگجیت سنگھ اپنی سورگ میں جائے گا”

مولوی نے اپنے آپ کو صاف بچا لیا۔۔۔مگر میں مطمئن نہیں ہوا۔

"یار! یہ تو فیض صاحب کا جواب ہے۔۔۔تمہاری عقل و دانش کیا کہتی ہے؟ تم بھی تو ایک دانشور ہو۔۔۔خودساختہ ہی سہی ”

آخری جملہ سن کے مولوی کی شکل ایسی بنی کہ کاٹو تو خون نہ نکلے۔۔اکثر مولانا فضل الرحمن بھی عمران خان کا نام سن کر ایسی ہی شکل بناتے ہیں۔

"دیکھو۔۔تم اپنی جنت کی فکر کرو۔۔جگجیت کو چھوڑو۔۔۔مجھے لگتا ہے اللہ جنت اور دوزخ کے  درمیان میں جو کوریڈور ہو گا وہاں جگجیت کو بٹھا دے گا کہ یہاں بیٹھ کے غزلیں گاتا رہ۔۔۔۔تم اپنی سناؤ کہ تم کہاں ہو گے ”

میں نے زور کا قہقہہ لگایا۔۔۔

"ہم تو تمہارے ساتھ ہوں گے۔۔تم جہاں ہو گے۔۔۔ویسے میرا خیال ہے تم بھی کوریڈور میں ہی ہو گے۔۔۔ہاہاہاہا”

مولوی بھی ہنس پڑے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 ہیپی سنگترہ، پپیتا ڈے

 

ہمارے پیارے دوست "مولوی” سے ان کے باس نے اپنی بیوی کو ویلنٹائن پر دینے کے لئے کلفٹن کی ایک دکان سے ریڈ روز کا بوکے (سرخ گلاب کا گلدستہ) منگوایا۔۔مولوی جس وقت باس کے لئے بوکے لے رہے تھے اچانک ان کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نا ایک بوکے اپنی بیوی کے لئے بھی لے لوں۔۔پندرہ سال شادی کو ہو گئے۔۔۔کبھی اس بیچاری کے لئے کچھ نہیں لیا۔۔۔نا شادی کی سالگرہ پر۔۔۔نا اس کی اپنی سالگرہ پر۔۔اور نا ہی کسی تہوار یا عید برات پر۔۔آٹے دال سے۔۔ بجلی گیس کے بلوں سے اور بچوں کی اسکول کی فیسوں سے کچھ بچے تو آدمی کچھ اور سوچے۔

لیکن آج مولوی نے ہمت کر ہی لی۔۔۔انہوں نے باس کے لئے بڑا بوکے لیا اور ایک چھوٹا بوکے اپنی بیوی کے لئے بھی لے لیا۔۔150 روپے قربان کر دئے۔۔۔دل میں سوچا کہ دیکھا جائے گا۔۔ویسے بھی آخری تاریخوں میں ایڈوانس اٹھانا ہی پڑتا ہے۔۔۔۔ تنخواہ تو ویسے بھی 20، 22 تاریخ تک پوری ہو جاتی ہے۔۔150 کم ہو گئے تو کونسی قیامت آ جائے گی۔۔بیچاری خوش ہو جائے گی۔۔اور ایک طرح سے محبت کا اظہار بھی ہو جائے گا۔

آفس سے مولوی سیدھے گھر کی طرف دوڑے۔ لمبے لمبے قدم بڑھاتے ہوئے کہ آج اس کے چہرے کے تاثرات دیکھیں گے کہ پھولوں کو دیکھ کے وہ کیسے شرماتی ہے۔۔۔ کیسے مسکراتی ہے۔۔اسے یقین ہی نہیں آئے گا کہ میرا شوہر مجھے اتنا چاہتا ہے۔۔کہ میرے لئے سرخ گلاب لایا ہے۔۔۔ مولوی انہی سوچوں میں گم گھر میں داخل ہوئے۔۔بیوی نے دروازہ کھولا تو مولوی نے ایک مصنوعی مسکراہٹ چہرے پہ سجائی۔۔۔ بیوی نے حیرت سے دیکھا۔

"خیریت تو ہے؟  کیا راستے میں کوئی مل گئی تھی۔۔۔جو بانچھیں کھل رہی ہیں ؟”

مولوی بوکھلا گئے۔۔۔”مجھے کون ملے گی۔۔بس ایسے ہی ہنس رہا تھا”

مولوی نے بات آگے بڑھائی۔۔۔پھر بوکے اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولے۔۔۔

"یہ لو۔۔تمھارے لئے”

"یہ کیا ہے؟” بیوی نے منہ بگاڑ کے پوچھا۔

"سرخ گلاب۔۔۔۔ محبت کی علامت۔۔ویلنٹائن ہے نا”

مولوی نے ایک تابعدار شوہر کی طرح ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔

"خرید کے لائے ہو یا کسی باغ سے توڑ کے؟”  بیوی نے بوکے ہاتھ میں لیتے ہوئے پوچھا۔

"کیسی بات کرتی ہو۔۔باغ میں یہ کہاں ہوں گے۔۔سرخ گلاب۔۔۔ خرید کے لایا ہوں ” مولوی جھٹ سے بولے۔

"کتنے کے؟” بیوی نے دوسرا سوال داغا۔

"ارے چھوڑو۔۔۔پیسے ویسے کو۔۔تم یہ دیکھو تمہارے لئے ہے” مولوی نے کہا۔

"پھر بھی۔۔کتنے کا ہے؟” بیوی بھی پھر وہی سوال کیا۔

"ڈیڑھ سو روپے کا” مولوی نے جواب دیا۔

"ڈیڑھ سو روپے کا؟” مولوی کی بیوی کی چینخ نکل گئی۔۔”تمہارا دماغ خراب ہے۔۔۔

یہ پھول کیا میں اور بچے کھائیں گے؟ گلے میں ڈالیں گے؟ اس کا کیا کریں گے۔۔۔

ارے لانا ہی تھا تو دو درجن سنگترے ہی لے آتے۔۔ڈیڑھ دو کلو سیب لے لیتے۔۔۔

بچے کھاتے۔۔۔پیٹ بھرتے۔۔ارے دو کلو دودھ ہی لے آتے۔۔بچے پیتے۔۔۔ان پھولوں کو میں کیا اپنی قبر کے لئے رکھوں ”

آخری جملہ بیوی نے بوکے کو دیوار پر مارتے ہوئے کہا۔

مولوی بھی چکرا گئے۔۔پھر غصّے میں بولے۔

"رہی نہ جاہل کی جاہل۔۔کبھی بھی سنگترے اور پپیتے سے آگے نہ سوچنا۔۔۔تمہیں کیا پتہ سرخ گلاب کی قیمت۔۔محبت کی علامت ہے۔۔ محبت کی۔۔گدھا کیا جانے زعفران کا بھاؤ”

بیوی بولی۔

"ارے یہ امیروں کے چونچلے ہیں۔۔جن کے پیٹ بھرے ہوتے ہیں انہیں یہ سب سوجتا ہے۔۔اب جاؤ۔۔یہ واپس کر آؤ۔۔اور کوئی کھانے کی چیز لے آؤ”

مولوی نے بوکے اٹھایا۔۔اور بڑبڑاتے ہوئے گھر سے باہر نکلے۔

"صحیح کہا تھا کسی نے کہ جو لسی سے بہل جائے۔۔اسے شراب نہ دو”

٭٭٭

 

 

کوڑے کے دن

 

رئیس امروہوی مرحوم نے آج سے کوئی 25 سال پہلے روزنامہ جنگ میں ایک قطعہ لکھا تھا اس وقت پاکستان کو بنے 40 سال ہوئے تھے ؛

40 سالہ نیند سے جاگیں گے کب عوام

کل میں اسی خیال سے شب بھر نہ سو سکا

روٹی کا بندوبست کریں گے وہ قوم کی

پانی کا بندوبست بھی جن سے نہ ہو سکا

 

یعنی 25 سال پہلے بھی وہی روٹی پانی کے مسائل تھے۔۔اور آج بھی ہیں۔۔بلکہ اب تو روٹی اور پانی کے حصول سے بڑا مسلہ تو جان و مال کے تحفظ کا ہے۔اس بد بخت قوم کے نصیب نہ بدلے۔۔۔ 65 سال پہلے جس سفر کا آغاز کیا تھا۔۔آج مڑ کر دیکھتے ہیں تو لگتا ہے وہیں کھڑے ہیں۔۔۔بلکہ کچھ اور پیچھے چلے گئے ہیں۔

عاقبت نا اندیش حکمران،  خود غرض سیاستدان،  باہم گتھم گتھا علمائے کرام،  مصلحت پسند عدلیہ اور فوج،  بکاؤ مال صحافی، خواب خرگوش میں سوئے شاعر و ادیب اور  بے بس عوام۔۔۔یہ کہانی ہے 65 سال کی۔

سنا تھا کہ ” بارہ سال بعد تو کوڑے کے بھی دن پھرتے ہیں ” ہم تو کوڑے سے بھی گئے گزرے ہیں۔۔ہمارے دن ہی نہیں پھرتے۔

اے قادر مطلق !

تو ہی کوئی سبب پیدا کر۔۔۔اس قوم کے بچنے کا۔۔مانا کہ بدبخت ہیں۔۔۔ نا فرمان ہیں۔۔

پر تو بھی تو رحیم و رحمان ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

رضا

 

"آپ؟” اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

"جی میں "میں نے کہا "آپ کسی اور کو expect کر رہیں تھیں ؟”

” نہیں نہیں۔۔بالکل نہیں ” وہ تھوڑا جھینپی۔۔دروازہ کھولتے ہوئے  "پلیز آئیے ”

میں اندر داخل ہوا۔۔۔ایک خوبصورت کمرہ  well furnished

جس میں قیمتی اشیا بھی تھیں اور اس کے ہاتھوں کا سلیقہ بھی۔۔میں نے ایک نظر یہاں وہاں دوڑائی۔۔۔اس نے ایک طرف اشارہ کیا۔

"پلیز! تشریف رکھیں ”

میں صوفہ پر بیٹھ گیا۔

"کیسے ہیں آپ؟”

"ویسا ہی۔۔جیسا آپ نے چھوڑا تھا”

"میرا مطلب۔۔کہاں رہے۔۔۔اتنا عرصہ ؟”

"اسی دنیا میں ”

"کیا طے کر کے آئے ہیں کہ کسی بات کا صحیح جواب نہیں دینا؟”

"میرا خیال ہے کہ میں بالکل صحیح صحیح جواب دے رہا ہوں ”

"دیکھئیے”

"جی دیکھ ہی رہا ہوں۔۔۔۔اب بھی نہ دیکھوں ”

اس کے چہرے سے بیزاری ظاہر ہونے لگی۔

"آپ سمجھ نہیں پا رہے ”

"میں کبھی بھی سمجھ نہیں پایا”

"دیکھئیے۔۔وقت بہت آگے نکل چکا ہے۔۔”اس نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی۔

"میرے لئے تو وہیں رکا ہوا ہے”

"یہ احمقانہ بات ہو گی۔۔میرا مطلب ہے۔۔۔ یہ بات درست نہیں "وہ تھوڑی گھبرائی۔۔۔اسے اپنی بات کے اظہار میں دشواری پیش آ رہی تھی۔

"احمقانہ” میں نے زور کا قہقہہ لگایا  "ظالم نے آج ہنس کے جو دیوانہ کہہ دیا”

پھر اچانک مجھے خیال آیا کہ گھر میں کوئی اور نہ ہو۔ "اوہ! آئی ایم سوری۔۔۔ کوئی ہے تو نہیں ؟”

"نہیں نہیں۔۔۔وہ آفس گئے ہیں۔۔۔ اور گڈو اسکول”

"گڈو؟”

"میرا بیٹا فراز۔۔ہم اسے پیار سے گڈو کہتے ہیں ”

"ہون۔۔۔ ماشا اللہ۔۔فراز نام ہے تو یقیناً پیارا ہو گا”

میں نے اس کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا۔۔۔اس کا چہرہ پھر رنجیدہ سا ہو گیا۔۔دراصل کالج لائف میں احمد فراز ہم دونوں کی کمزوری تھا۔۔۔میں تو پھر بھی ہر شاعر کو پڑھتا تھا۔۔۔مگر وہ صرف اور صرف فراز کی دیوانی تھی۔۔۔میں اسے چھیڑنے کے لئے کہتا کہ میں ناصر کاظمی، قتیل شفائی اور افتخار عارف کو فراز سے بڑا شاعر مانتا ہوں۔۔۔فیض صاحب تو خیر بہت بلند ہیں۔

وہ یہ بات سن کر لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جاتی۔

"دیکھو! تمہیں جسے پڑھنا ہے پڑھو۔۔مگر فراز کے بارے میں کچھ نہ کہو” وہ غصے سے کہتی۔

ایک بار ہم پارک میں بیٹھے تھے میں نے کہا” سنو! اگر احمد فراز تمہیں شادی کے لئے کہیں۔۔تو شادی کر لو گی”

کہنے لگی "بالکل۔۔۔میری خوش قسمتی ہو گی”

"اور مجھے بھی چھوڑ دو گی؟” میں نے حیرت سے پوچھا۔

"تمہیں تو میں۔۔۔ جون ایلیا کے لئے بھی چھوڑ دوں گی” اس نے زور کا قہقہہ لگایا۔۔۔ میری بھی بے اختیار ہنسی نکل گئی۔

اور پھر اس نے واقعی مجھے چھوڑ دیا۔۔۔۔۔۔۔ کسی فراز۔۔۔کسی جون ایلیا کے لئے۔

اور آج۔۔برسوں بعد۔

” آپ چائے پئیں گے یا کافی۔۔”اس نے یکایک سوال کیا تو میں ماضی سے واپس آ گیا۔

"آپ نہیں جانتی؟”

"اوہ۔۔۔کافی۔۔۔اس کا مطلب ہے ابھی تک دانشوری برقرار ہے؟”

"سب کچھ برقرار ہے۔۔۔۔سوائے”میں بولتے بولتے چپ ہو گیا۔۔اسے پتہ تھا کہ میں کیا کہوں گا۔۔۔اس لئے وہ اٹھ کے کچن کی طرف چلی گئی۔

کافی لے کر آئی  تو کہنے لگی۔

"دیکھو رضا! ” شاید اسے کچن میں کافی سوچنے کا موقع مل گیا۔

۔” ہم آج ایک الگ دنیا کے باسی ہیں۔۔۔میرا شوہر ہے۔۔ایک بیٹا ہے۔۔۔تم چاہے مجھے طعنہ دو۔۔کچھ بھی کرو۔۔۔میں اپنی مجبوریاں پیش کروں۔۔۔سب بے فائدہ۔۔۔تم حقیقت تسلیم کرو۔۔۔ماضی کو بھول جاؤ۔۔اور آگے بڑھو ”

وہ ٹھہر ٹھہر کے۔۔سوچ سوچ کے بول رہی تھی۔۔میں اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔۔وقت نے اسے کافی ذہین کر دیا تھا۔۔۔کیوں نہ کرتا۔۔۔ بالوں کی آگے کی لٹیں سفید ہو چلیں تھیں۔

"شوہر؟” میں نے اسے پھر تنگ کرنا شروع کیا "ذرا اپنے جون ایلیا کی تصویر تو دکھاؤ”

"دیکھو” اس نے غصے سے میری طرف دیکھا”میں مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں ”

مجھے ہنسی آ گئی۔۔۔وہ بھی ہنس پڑی۔۔

اتنے میں ڈور بیل بجی۔۔۔اس نے جا کے دروازہ کھولا۔۔۔ایک بوڑھا ادھیڑ عمر شخص جو کہ اس سے کوئی 20 سال بڑا ہو گا۔۔تھری پیس سوٹ میں ملبوس۔۔۔ ہاتھ میں قیمتی موبائل اور کسی قیمتی گاڑی کی چابی لئے۔۔۔کمرے میں داخل ہوا۔۔۔میں اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا۔۔۔

اس نے ہم دونوں کا تعارف کرایا۔۔۔میری طرف اشارہ کرتے ہوئے اس بوڑھے سے کہا،

"رضا! یہ آپ کے ہم نام ہیں رضا علی۔۔ہم کالج میں ساتھ پڑھتے تھے”

پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا،

"یہ میرے شوہر ہیں رضا انیس ”

جس وقت وہ میرا تعارف کرا رہی تھی۔۔۔مجھ سے نظریں ملانے کی بجائے اس نے نظریں نیچی کی ہوئی تھیں۔۔۔ اس کی نیچی نظروں نے مجھے میرے بہت سے سوالوں کا جواب دے دیا۔۔۔

میں ان سے مل کے باہر نکلا تو میری پرانی موٹر سائیکل کے برابر میں ایک نہایت قیمتی گاڑی کھڑی تھی۔

"ہونہہ” میں نے اپنے آپ سے کہا” رضا علی صاحب !  یہ قصّہ ہے۔۔۔چلو ایک رضا نہ سہی تو دوسرا رضا ہی سہی۔۔جو اوپر والے کی رضا”

میں نے آسمان کی طرف دیکھا۔

٭٭٭

 

 

 

میری عید کی نماز کے بدلتے ساتھی

 

(میں آج کے دن کسی کو رنجیدہ نہیں کرنا چاہتا۔۔۔خاص طور پر میرے بزرگ پڑھنے والوں کو۔۔۔لیکن میری یہ تحریر میرے اپنے احساسات ہیں۔۔جو آج عید کی نماز ادا کرتے ہوئے میرے دل میں جاگے۔۔۔اللہ تعالیٰ آپ کے چاہنے والوں کو ہمیشہ ہمیشہ آپ سے قریب رکھے۔۔آمین۔۔۔حنیف سمانا)

مجھے میرے نانا نانی پالا تھا۔۔۔بہت ہی چھوٹا تھا کہ انہوں نے مجھے میرے والدین سے لے لیا تھا۔۔ہوش سمبھالتے ہی پہلی عید کی نماز جو مجھے یاد ہے۔۔وہ نانا کے ساتھ پڑھی تھی۔۔۔ان کی انگلی پکڑ کے مسجد تک گئے تھے۔۔میں نے عید کی نماز کے بعد انہیں آبدیدہ دیکھا تھا۔۔۔نہ جانے انہیں کون یاد آ رہا ہو گا۔۔۔میں، نانا اور ماموں ساتھ نماز پڑھنے جایا کرتے تھے۔۔پھر ایک سال اچانک نانا بیمار پڑ گئے۔۔۔انہیں رمضان میں ہسپتال میں داخل کیا گیا۔۔۔میں بہت چھوٹا تھا۔۔اس لئے بس اتنا یاد پڑتا ہے کہ ان کا کوئی آپریشن ہوا تھا۔۔۔پچیسویں یا چھبیسویں روزے خبر آئی کہ وہ اب رو بہ صحت ہیں۔۔ایک دو روز میں ہسپتال سے فارغ کر دئے جائیں گے۔۔۔مگر اٹھائیسویں روزے کی رات کو ہسپتال سے خبر آئی کہ ان کی حالت ٹھیک نہیں۔۔سحری کے وقت ان کا انتقال ہو گیا۔۔۔دو روز بعد عید تھی۔۔۔میرے لئے نئے کپڑے بھی بنوائے گئے تھے۔۔۔عید کی نماز میں نے بغیر نانا کے ماموں کے ساتھ پڑھی۔۔نماز کے دوران میں نے ماموں کو روتے ہوئے دیکھا۔۔نماز پڑھ کر گھر گئے تو سب رو رہے تھے۔۔میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیسی عید ہے۔۔سب رو رہے ہیں۔

اس کے بعد کچھ سالوں تک میری عید کی نماز کے ساتھی میرے ماموں رہے۔۔پھر ایک روز میں اپنے والدین کے پاس چلا گیا۔۔۔اب میں اپنے والد کے ساتھ نماز کے لئے جانے لگا۔۔۔میں نے محسوس کیا کہ یہ بزرگ لوگ عید جیسے خوشی کے تہوار پہ آبدیدہ ضرور ہوتے ہیں۔۔شاید ان کو یاد کر کے کہ جن کے ساتھ وہ عید کی نماز پڑھتے رہے تھے۔۔۔تھوڑے دن کے بعد بھائی بھی بڑا ہو گیا۔۔وہ بھی میرے اور والد کے ساتھ نماز کے لئے چلنے لگا۔۔اس کے بعد میری شادی ہوئی۔۔۔پھر بھائی کی شادی ہوئی۔۔۔گھر چھوٹے ہونے کے باعث میں نے اپنا الگ گھر لیا۔۔۔لیکن میں کہیں پر بھی ہوتا۔۔۔عید سے ایک رات پہلے اپنے والد کے پاس پہنچ جاتا۔۔اور نماز والد اور بھائی کے ساتھ ہی پڑھتا۔۔۔اس دوران ایسا بھی وقت آیا کہ میں نے اپنے کام کے سلسلے میں کراچی سے دور گلشن معمار میں جا کے رہائش اختیار کی۔۔مگر اس دوران بھی جو عیدیں آئیں۔۔وہ میں نے اپنی فیملی کے ساتھ کراچی میں اپنے والدین کے ساتھ گزاریں۔۔اور عید کی نماز اپنے والد اور بھائی کے ساتھ ہی پڑھی۔۔اس دوران بھائی کے بچے بھی بڑے ہوئے اور میرا بیٹا بھی بڑا ہوا۔۔اور وہ بھی ہمارے ساتھ نماز کے لئے چلنے لگے۔

پھر ایک روز یہ قافلہ بھی ٹوٹ گیا۔۔میری اور میرے والد کی طویل رفاقت بھی ختم ہوئی۔۔۔تھوڑی سی بیماری کے بعد انہوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا۔۔۔اگلے سال میں اور بھائی اور ہمارے بچے نماز کے لئے روانہ ہوئے۔۔۔تین چار سال تک یہ سلسلہ بھی چلتا رہا۔۔۔

پھر اچانک میں بھی بھائی سے کافی دور رہنے چلا گیا۔۔۔ایک آدھ سال تک تو ہمت کر کے بھائی کے گھر تک پہنچتا رہا۔۔۔مگر پھر شہر کے حالات، ٹریفک، اور سب سے بڑی بات۔۔۔ سستی نے۔۔۔یہ ساتھ بھی چھڑوا دیا۔

آج میں اپنے محلے کی مسجد میں اپنے بیٹے کے ساتھ عید کی نماز پڑھتے ہوئے رنجیدہ ہو گیا۔۔۔آج میری سمجھ میں آیا کہ یہ بزرگ عید کی نماز پڑھتے ہوئے آبدیدہ کیوں ہو جاتے تھے۔اب میری عید کی نماز کا نیا ساتھی۔۔میرا بیٹا۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اب میری عید کی نماز کا کوئی ساتھی نہ بدلے۔اگر بدلے۔تو میرے بیٹے کا ساتھی بدلے۔

٭٭٭

 

 

 

نوکر اور کبوتر

 

ایک سیٹھ صاحب کا ذکر کرتا ہوں۔۔نمازی۔۔۔پرہیزگار۔۔۔ہر سال پوری فیملی کے ساتھ یا تو حج پہ جاتے۔۔۔یا عمرہ کرتے۔۔۔وہاں حرم کے کبوتروں کو دانا بھی ڈالتے۔۔۔کہتے ہیں

"انہیں کھلا کے دلی سکون ملتا ہے”

نہایت ایمانداری سے کروڑوں کی جائیدادیں اور دکانیں بنائیں۔۔۔راوی بتاتیں ہیں کہ ان کے بنگلے کے باتھ روم میں ایک ایک نل پانچ سے ساتھ ہزار کا لگا ہے۔۔۔آٹومیٹک نل۔۔۔ہاتھ قریب لے جائیں تو خود بخود کھل جائے۔۔۔اور ہاتھ ہٹائیں تو خود بخود بند ہو جائے۔

انسان کی سہولت دیکھئے۔۔۔یا آلکسی۔

لفٹ بنائی۔۔۔کون سیڑھیاں چڑھے۔

ریموٹ بنایا۔۔کون بار بار  اٹھ کے ٹی وی کے چینل چینج کرے۔

اب نل کھولتے ہوئے بھی موت آ رہی ہے۔

ہاں تو ذکر تھا ان سیٹھ صاحب کا۔۔۔کوئی رات کے 2 بجے اچانک ان کے پیٹ میں درد شروع ہوا۔۔۔ہمارے جیسا بندہ ایسے میں گھر میں کوئی گولی، ٹیبلیٹ ڈھونڈتا ہے۔۔کوئی سوڈا۔۔۔کوئی سیون اَپ دیکھتا ہے۔۔کوئی ہاضمے کا شربت پیتا ہے۔

مگر سیٹھ صاحب نے کیا کیا۔۔۔اپنے پیر صاحب کو فون کیا۔

پیر بھی ان کا۔۔۔ان کے جیسا۔۔۔کہنے لگے شام کو کچھ کھایا تھا۔

سیٹھ صاحب نے کہا ہاں دکان پر فروٹ چاٹ کھائی تھی۔

پیر نے پوچھا وہاں کوئی اور تھا۔

سیٹھ صاحب کہنے لگے۔۔ہاں میرا نوکر تھا۔

پیر نے کہا بس اس کی نظر لگی ہے۔۔لو میں جو بتاتا ہوں وہ پڑھ لو۔

اگلے روز صبح دکان پر پہنچے تو نوکر کی شامت آئی۔

تم نے کھانا تھا تو مجھ سے کہتے۔۔نظر تو نہ لگاتے۔۔۔۔ رات بھر میرے پیٹ میں درد رہا ہے۔

نوکر بیچارہ ادھیڑ عمر شخص۔۔کہنے لگا۔

سیٹھ صاحب ! میں نے کہاں نظر لگائی ہے۔۔جس وقت آپ کھا رہے تھے۔۔میں نے تو اس طرف دیکھا بھی نہیں۔۔میں تو دکان کے باہر سڑک  دیکھ رہا تھا۔

اف۔۔ وہ 30 روپے کی فروٹ چاٹ کی پلیٹ!

اے حرم کے کبوتروں !

تم میرے ملک کے انسان کے مقابلے میں کتنے خوش قسمت ہو۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

بشر میں شر

 

میں جب اُس علاقے میں پہنچا تو وہاں لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہنگامے ہو رہے تھے۔۔سڑک پہ ٹائر جل رہے تھے۔۔گاڑیوں پر پتھراؤں ہو رہا تھا۔۔میں بچتا بچاتا ایک پتلی سی گلی میں داخل ہو گیا۔۔وہاں گھر سے باہر ایک چبوترے پر ایک بابا جی بیٹھے تھے۔۔گرمی اور مکھیوں سے پریشان۔۔۔بنیان اور قمیض سے بے نیاز، جسم پر فقط ایک  پجامہ پہنے۔

میں نے پوچھا۔

"بابا جی! یہ ارشد صاحب کا مکان کونسا ہے؟”

بابا جی نے ایک مکان کی طرف اشارہ کیا جس پر تالا لگا ہوا تھا اور کہنے لگے "وہ نماز کے لئے گئے ہیں۔۔ابھی آ جائیں گے۔۔آپ یہاں بیٹھ جاؤ”

اُنہوں نے اپنے برابر میں چبوترے کی طرف اشارہ کیا۔۔میں شکریہ کہہ کے بیٹھ گیا۔

"لائٹ کب سے گئی ہے؟ "میں نے پوچھا۔

"کل شام 7 بجے سے۔۔۔۔۔۔کوئی 17 گھنٹے ہو گئے” بابا جی نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔

"مگر اس طرح ٹائر جلانا۔۔گاڑیوں پر پتھراؤں کرنا۔۔یہ جو بچے کر رہے ہیں۔۔یہ عقل مندی تو نہیں ہے” میں نے کہا۔

بابا جی غصے میں آ گئے۔۔کہنے لگے۔۔”میرے ہاتھ پیروں میں جان نہیں ورنہ میں بھی ان کے ساتھ مل کے یہی کرتا”

میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔۔وہ کہنے لگے۔۔

"میاں۔۔یا تو تم کسی پوش علاقے کے رہنے والے ہو۔۔جہاں لائٹ نہیں جاتی۔۔یا پھر جنریٹر یا یو۔پی۔ایس  افورڈ کرسکتے ہو گے۔۔جب ہی ایسی باتیں سُوجھتی ہیں ”

میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔مجھے خاموش دیکھ کے پھر کہنے گے۔

"کبھی 17 گھنٹے بغیر پانی بجلی کے رہے ہو؟”

میں نے نفی میں سر ہلایا۔۔وہ فورا’’ بولے۔

"جبھی تو”

پھر کہنے لگے "اس حبس زدہ موسم میں جبکہ مجھے باہر بھی پوری طرح سانس لینے میں تکلیف ہو رہی ہے۔۔اندر میرے گھر میں جا کر دیکھو۔۔دو چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں۔۔شاید تمہارے گھر کا کچن اور باتھ روم بھی اس سے بڑے ہوں گے۔۔اس میں ہم سات جاندار بستے ہیں۔۔۔۔۔ سات  جاندار”

بابا جی نے آخری الفاظوں کو دھرایا۔۔اس وقت ان کی دونوں آنکھوں میں دو ستارے ٹِمٹِمانے لگے۔۔پھر کہنے لگے۔

"مجھے اور میرے دونوں بیٹوں کو تو چھوڑو۔۔ہم تو مرد ہیں۔۔بغیر بنیان قمیض کے نیچے گلی میں آ کے بھی بیٹھ جائیں گے۔۔مگر۔۔مگر۔۔اوپر وہ جو نیک بخت بیٹھی ہے۔۔۔یعنی میری گھر والی۔۔۔اور 3عدد جوان بیٹیاں۔۔۔اُن کی تکلیف مجھ سے نہیں دیکھی جاتی۔۔باہر آ کے بیٹھ نہیں سکتیں۔۔یہاں سے ہر ایرا غیرا گزرتا ہے۔۔بے پردگی ہوتی ہے۔۔اور اندر پنکھے کے بغیر یوں لگتا ہے کہ جیسے کسی نے جیتے جی قبر میں اتار دیا ہو۔۔۔ہمارا قصور کیا ہے۔۔یہی کے ہم اس ملک کے شہری ہیں ”

مجھے یوں لگا کہ وہ ابھی پھوٹ پھوٹ کے رونا شروع کر دیں گے۔۔میں نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا۔

"نہیں بابا جی۔۔اس طرح نہیں سوچتے”

میں نے کندھا تھپتھپایا۔

پھر کہا”بابا جی! ہوسکتا ہے کوئی ٹیکنیکل فالٹ ہو گیا ہو۔۔۔بجلی والے بنا رہے ہوں گے”

بابا جی نے ہاتھوں سے اپنے آنسوں پونچھے۔

پھر کہنے لگے۔

"دیکھو بیٹا! یہ جو کچھ ہو رہا ہے۔۔اس غریب قوم کے ساتھ۔۔ اگر متعلقہ ادارے اور ان پر بیٹھے حکمران۔۔۔یہ سب کچھ جان بوجھ کر نہیں کرتے۔۔بس ان سے کنٹرول نہیں ہو پا رہا۔۔وہ بے بس ہیں۔۔تو میں اللہ سے دعا کروں گا کہ وہ انہیں معاف کرے۔۔۔ مگر۔۔اگر۔۔وہ جان بوجھ کر یا اپنے ذاتی فائدے کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔۔۔تو میں اللہ سے دعا کروں گا کہ ان پر آسمانی بجلی گرے۔۔یہ اپنی ساری دولت۔۔اپنے سارے محلوں سمیت اس میں جل کے بھسم ہو جائیں۔۔کوئلہ بن جائیں۔۔ان کی لاشیں شناخت کے قابل نہ رہیں ”

باباجی چھلک پڑے۔۔سینہ کوٹتے ہوئے۔۔بچوں کی طرح رونے لگے۔

میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں انہیں کیسے چپ کراؤں۔کچھ دیر بعد ان کی طبیعت سنبھلی۔۔۔

کہنے لگے۔۔

"معاف کرنا بیٹا!

اگر میں نے کوئی غلط بات کہہ دی ہو تو۔۔۔اصل میں گرمی میں مچھروں نے ساری رات سونے نہیں دیا۔۔ایسے میں پھر عقل کام نہیں کرتی۔۔آدمی میں بغاوت کے جراثیم سر اٹھاتے ہیں۔۔اخلاقیات، دین، حب الوطنی۔۔۔یہ سب کمزور پڑ جاتے ہیں۔

بشر میں شر تو ہوتا ہی ہے  نا بیٹا”

٭٭٭

 

 

 

 

ایک گلاس دودھ

 

فرانس کی شہزادی کا قصہ مشہور ہے کہ وہاں کسی شہر میں قحط پڑا۔

کھانے پینے کی چیزیں بازار سے غائب ہو گئیں۔

وزیر شہزادی کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ شہر کی حالت بہت خراب ہے۔ لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔ اُن کو کھانے کو روٹی نہیں مل رہی۔

شہزادی نے یہ بات سنی اور بڑے اطمینان سے جواب دیا

"اگر لوگوں کو کھانے کو روٹی نہیں مل رہی تو اُن سے کہو کہ کیک کھائیں ”

کچھ اسی قسم کی حماقت مجھ سے سرزد ہوئی۔

جب رفیق بھائی نے مجھ سے کہا کہ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ ان کے دونوں بچوں کے جسم میں کیلشیم کی کمی ہے۔

تو میں نے بڑے اطمینان سے کہا کہ رفیق بھائی!

اس میں کونسا مسئلہ ہے۔ آپ دونوں بچوں کو رات کو سوتے وقت ایک ایک گلاس دودھ کا پلایا کریں۔ بلکہ ایک ایک گلاس آپ میاں بیوی بھی پی لیا کریں۔

رفیق بھائی تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہو کر کچھ سوچتے رہے۔

پھر ایک لمبی آہ بھری اور کہنے لگے۔

” حنیف بھائی!

ہم میاں بیوی کو تو چھوڑیں۔ صرف بچوں کی بات کریں۔ میرے دو بیٹے ہیں اور دو بیٹیاں۔

اب میں یہ تو کرنے سے رہا کہ بیٹوں کو تو دودھ پلاؤں اور بیٹیوں کا نہ پلاؤں۔ پلاؤنگا تو چاروں کو ورنہ ایک کو بھی نہیں۔ اور چاروں کو پلانے کے لئے کم از کم ڈیڑھ لیٹر دودھ چاہییے۔

اور ڈیڑھ لیٹر دودھ کتنے کا ہے۔ آپ کو پتا ہے؟”

میں چپ رہا۔

کہنے لگے۔

"کوئی 100 روپے کا۔ روز کے 100 روپے۔ مہینے کے 3000 روپے۔ جبکہ میری تنخواہ ہے 12000 روپے۔ اب آپ بتائیے کہ اگر بچوں کو دودھ پلاؤں تو باقی خرچے مثلا’’ اسکول کی فیس، بجلی، گیس کے بل وغیرہ کہاں سے ادا کروں ”

وہ چپ ہوئے تو میں نے آسمان کی طرف دیکھا۔

میری دنیا کے مصائب کو سمجھنے کے لئے

تُو نے دو دن میری دنیا میں گُزارے ہوتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک اور غلامی

 

دریچہِء ماضی وا کیجئے

ایک شہنشاہ کے بھاری قدموں کی چاپ سنائی دے گی

"با ادب۔۔۔ با ملاحظہ۔۔۔۔ ہوشیار

شہنشاہ عالم

تاجدار ہند

ظل سبحانی

عزت مآب

ابو المظفر

حضرت۔۔بہادر۔۔۔شاہ۔۔۔ثانی۔۔۔ظفر

تشریف۔۔لا۔۔ رہے۔۔ہیں ”

امرائے سلطنت

وزرائے مملکت

علمائے دربار

وظیفہ خوار شعرائے کرام

غلام اور کنیزیں

سب کے سب

ہاتھ باندھے

تعظیم کو صف آرا ہیں

ظل سبحانی کا آنا

تخت پر جلوہ افروز ہونا

ایک ثنا خواں کہ جسے اپنے  "انداز بیاں ”  پر بلا کا غرور تھا

"ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے

کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور”

آگے بڑھا

دست بوسی کے بعد

دست بستہ۔۔۔دست بدعا ہوا

حضور کے اقبال کی بلندی کی دعا اور مدح سرائی کا آغاز:-

"قبلہ چشم و دل بہادر شاہ

مظہر ذوالجلال و الاکرام

شہسوارطریقہء انصاف

نو بہار ہدیقۂ اسلام

جس کا ہر فعل صورت اعجاز

جس کا ہر قول معنیَ الہام

زور بازو میں مانتے ہیں تجھے

گیو و گودر زو بیزن و رہام”

 

یہاں ثنا خوان شاہ۔۔۔شاہ کے دربار میں زور  بازو کی مدح سرائی کر رہے تھے۔

وہاں بدیسی حکمران دبے پاؤں ہند پر قابض ہو رہے تھے۔۔۔۔۔۔  تاریخ نے پلٹا کھایا۔۔۔

جب ہوش آیا تو پانی سر سے اونچا ہو چکا تھا۔۔۔گرفتار ہوکے رنگون میں قید ہوئے۔۔۔اور یوں عہد شاہی لد گیا۔

 

دریچۂ ماضی بند کیجئے

اور اب حال میں آئیے

نہ وہ عظیم و وسیع و عریض سلطنت رہی کہ جسے باہمی ریشہ دوانیوں کی نذر کر دیا جائے۔۔۔

اور نہ ہی وہ تخت و تاج رہا کہ جسے طاؤس و رباب کی غفلتوں میں لٹایا جا سکے۔۔۔اب لے دے کے ایک چھوٹا سا خطہ ء ارض پاک رہ گیا ہے۔

مگر صد افسوس کے آج کے ظل سبحانی اور ان کے نورتن بھی انہی حماقتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

کیا ایک اور غلامی دستک دے رہی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

فن شناس حکمران

 

اے بھوکے ننگے پاکستانی!

تیرا کام ہی ہر وقت رونا ہے

پانی نہیں ہے

بجلی نہیں ہے

امن و امان نہیں ہے

روزگار نہیں ہے

یہ نہیں

وہ نہیں۔

 

کبھی اپنے حکمرانوں کی خوشیاں دیکھ کر بھی خوش ہولے

دوسروں کی خوشیوں سے خوش ہوتے ہیں

جلتے نہیں

دیکھ تیرے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بیٹے نے صرف سولہ ہزار ڈالر کی پینٹنگ خریدی ہے

صرف سولہ ہزار ڈالر کی

اے بھوکے ننگے پاکستانی !

تجھے یہ تو ماننا پڑے گا کہ حکمران اگر تیری قدر نہیں کرتے تو کیا ہوا

فنکاروں کی قدر تو کرتے ہیں

ان کے فن کی تو صحیح قیمت لگاتے ہیں

سولہ ہزار ڈالر

پتہ بھی ہے پاکستانی کتنے ہوتے ہیں ؟

نہیں پتہ نا ؟

چل۔۔جاننے کی ضرورت بھی نہیں

جا۔۔۔جا کے آٹے کا تھیلا لے کے آ

وہ بھی پانچ سو کا ہو گیا ہے

بوڑھے باپ کی دوائی لے

دیکھ وہ سینہ پکڑ کے کھانس رہا ہے

کہیں ایسا نہ ہو کہ چل بسے

پھر کفن دفن کہاں سے کرے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

ٌٌٌٌٌٌٌٌٌ آؤ اختلاف کریں

 

آؤ اختلاف کریں

اس سورج سے

جو ہمارے علاوہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے گھروں کو بھی روشن کرتا ہے۔

اس چاند سے

جو دوسرے فرقوں اور مسلکوں کے ماننے والوں کے آنگن میں بھی اترتا ہے۔

ان بادلوں سے

جو دوسری زبانیں بولنے والوں کو بھی سایا دیتے ہیں۔

ان ہواؤں سے

جو دوسرے صوبے کے لوگوں کا پسینہ بھی خشک کرتی ہیں۔

اس پانی سے

جو مخالفوں کی بھی پیاس بجھاتا ہے۔

اس بارش سے

جو ہمارے دشمنوں کے ہاں بھی برستی ہے۔

آؤ اختلاف کریں

آؤ اختلاف کریں

اور پھر ان سب کو آگ لگا دیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

آدمی اور انسان

 

مذہب آدمی اور انسان کا ذکر کرتا ہے

ان کے درمیان فرق سمجھنا ضروری ہے

"آدمی” ایک حیوانی جسم کا نام ہے  اور "انسان” ایک اخلاقی پیکر کا۔

مذہب کی ساری تگ و دو  اس آدمی کو انسانیت سے ہمکنار کرنا ہے۔

انبیائے کرام اور اولیائے کرام نے اسی کام میں اپنی ساری ساری زندگیاں گزار دیں۔

اب یہ ذمہ داری علمائے کرام پر آن پڑی ہے۔

مگر۔۔۔ہمارے ہاں۔۔صورت حال عجیب ہے۔

ہمارے ارد گرد مذہب  تو بڑھتا جا رہا ہے۔

مگر انسان کم ہوتے جا رہے ہیں۔

اس کا سبب۔۔۔۔علمائے کرام اور اہل دانش نے ڈھونڈنا ہے۔

علمائے کرام فرد کی ظاہری اور علامتی اصلاح میں جتے ہوئے ہیں۔

کیونکہ یہ آسان ہے۔

اخلاقی اصلاح اور کردار  سازی مشکل کام ہیں

اور پھر یہ کرے۔۔ تو کون کرے؟

آپ اگر کسی درزی سے بال کٹوائیں گے۔۔۔یا کسی نائی سے سوٹ سلوائیں گے۔۔۔

تو نتیجہ کیا نکلے گا

اسی لئے ہمیں اپنے ارد گرد مذہب تو نظر آتا ہے۔مگر انسانیت نہیں دکھتی۔

٭٭٭

 

 

 

 

عالمِ رویا

 

جو لوگ اکثر میرے اشعار پر تنقید کرتے رہتے ہیں کہ ان میں اوزان کا مسئلہ ہے۔۔۔ردیف قافیے میں گڑ بڑ ہے۔۔۔اور یہ کہ میں نے کبھی کسی شاعر کی شاگردی نہیں کی۔۔۔تو آج ان سب کے منہ بند کرنے کے لئے میرے پاس جواب ہے کہ

"میں نے سولہ سال تک عالم رویا میں (یعنی خواب میں ) دنیائے سخن کے بادشاہ حضرت میر تقی میر کی جوتیاں سیدھی کی ہیں۔۔سولہ سال تک ان کے قدموں میں بیٹھا ہوں۔۔۔یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے مجھے جوتیاں سیدھی کرنے پر ہی لگائے رکھا۔۔۔شاعری کی سدھ بدھ نہ دی۔۔آج بھی میرے محلے کی باٹا شوز شاپ کا مالک اپنے شو روم میں جوتوں کی سیٹنگ کے لئے مجھے ہی بلاتا ہے۔۔۔ میں جھوٹ نہیں بولتا۔۔۔اگر کسی کو یقین نہیں تو وہ خواب میں جا کے حضرت میر تقی میر سے پوچھ لے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ایک اسکول ٹیچر کا محبت نامہ

 

مائی ڈئیر تاج الدین!

سلامِ محبت،

تمھارا اِملے کی غلطیوں سے بھرپور مراسلہ مِلا، جسے تم بدقسمتی سے "محبت نامہ” کہتے ہو۔

کوئی مسرت نہیں ہوئی۔ یہ خط بھی تمھارا پچھلے خطوط کی طرح بے ترتیب اور بے  ڈھنگا تھا۔

اگر خود صحیح نہیں لکھ سکتے تو کسی سے لِکھوا لیا کرو۔

خط سے آدھی ملاقات ہوتی ہے اور تم سے یہ آدھی ملاقات بھی اِس قدر دردناک ہوتی ہے کہ بس! اور ہاں۔۔ یہ جو تم نے میری شان میں قصیدہ لِکھا ہے، یہ دراصل قصیدہ نہیں بلکہ ایک فلمی گانا ہے اور تمھارے شاید عِلم میں نہیں کہ فِلم میں یہ گانا ہیرو  اپنی ماں کے لئے گاتا ہے۔

اور سُنو ! پان کم کھایا کرو۔ خط میں جگہ جگہ پان کے دھبے صاف نظر آتے  ہیں۔ اگر پان نہیں چھوڑ سکتے تو کم از کم خط لکھتے وقت تو ہاتھ دھوکے بیٹھا کرو۔

اور یہ جو تم نے ملاقات کی خواہِش کا  اظِہار انتہائی اِحمقانہ انداز میں کیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی یتیم بچہ اپنی ظالِم سوتیلی ماں سے ٹافی کی فرمائش کر رہا ہو، اس یقین کہ ساتھ کہ وہ اِسے نہیں دے گی۔

ایک بات تم سے اور کہنی تھی کہ کم از کم اپنا نام تو صحیح لکھا کرو۔ یہ "تاجو” کیا  ہوتا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی قصائی یا دودھ والے کا نام ہو۔ مخفف لِکھنا ہی ہے تو صِرف  "تاج”  لِکھ دیا کرو۔ آئندہ خط احتیاط سے لِکھنا۔ اُس میں کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے۔ آخر میں تم نے جو شعر لِکھا ہے۔۔ وہ تو اب رکشہ والو نے لکھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ Oh my God!

مجھے ڈر ہے کہ تم سے عشق کا یہ سلسلہ میری اردو خراب نہ کر دے۔ بس یہی کہنا تھا۔

فقط ۔۔  تمھاری رضیہ

٭٭٭

 

 

 

اجنبی

 

"السلامُ علیکم”

ایک اجنبی سی آواز آئی۔

"وعلیکم السلام ”

میں نے جواب دیا۔

اجنبی : "میں تمھیں لینے آیا ہوں ”

میں :”جی؟ ”

اجنبی : "میں عِزرائیل ہوں ”

"جی؟ ” میرا منہ کُھلے کا کُھلا رہ گیا۔

اجنبی : ” تمھارا وقت پورا ہو گیا ہے”

"مگر ابھی تو بہت سے کام کرنے باقی ہیں ”

میں بڑبڑایا۔

"وہ کلفٹن کا پلازہ، وہ  ہائے وے کا پروجیکٹ۔۔۔وہ۔۔۔وہ”

اجنبی : ” وہ سب چلتے رہیں گے۔ تمھارے بغیر بھی”

"یہ کیسے ہوسکتا ہے”

میں چِلایا۔

"نا مُمکن۔۔۔۔ اُسے کوئی مکمل نہیں کرسکتا۔ میرے عِلاوہ۔۔۔۔ اور پھر ابھی میری عُمر ہی کیا ہے۔

لوگ سو سو سال جیتے ہیں ”

اجنبی : ” میں کچھ نہیں جانتا۔

مجھے جو حکم ملا ہے  ا ُس پر عمل کرنا میری ذمہ داری  ہے”

"لیکن تم وہاں درخواست تو کرسکتے ہو” میں نے عاجزی کرتے ہوئے کہا۔

"دیکھو ابھی میرا بیٹا بھی چھوٹا ہے۔۔۔۔ میں پہلے اُسے اپنا سارا کام تو سمجھا دوں۔۔۔لوگ اُسے لُوٹ لیں گے”

اجنبی : ” اُس کا رزق، اُس کی زندگی، یہ سب تمھارے سوچنے کا کام نہیں ہے۔۔۔۔ یہ اللہ کا کام ہے۔ جن کا کوئی نہیں  ہوتا وہ بھی پل جاتے ہیں ”

"تم سمجھ نہیں رہے” مجھے غُصہ آ گیا "یہ انکم ٹیکس والے، یہ ٹھیکیدار، یہ مزدور، یہ سب کے سب مل کے میری ساری دولت ہڑپ کر جائیں گے۔۔۔میرا تو مینیجر بھی چور ہے۔۔۔کیا میں اپنے بیٹے کو ان سب ڈاکوؤں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دوں اور پھر یہ دولت میں نے بڑی محنت اور ہشیاری سے کمائی ہے”

اجنبی : "تم نے یہی تو کمایا ہے۔۔۔ اب اپنی دولت سے کہو کہ تمھیں مجھ سے بچالے”

سخت سردی کے باوجود میرے ماتھے پہ پسینہ آ گیا۔

"تم۔۔۔تم۔۔۔ایسا نہیں۔۔۔نہیں۔۔کر۔۔۔کر۔۔سک”

میری قوتِ گویائی جواب دے گئی اور آنکھیں بند ہو گئیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

علامہ اقبال اور نرگسی کوفتے

 

محلے میں ایک ادبی تنظیم کا آغاز ہوا۔

ہم نے شکر کا سانس لیا کہ لوگوں میں ادبی ذوق تو پیدا ہوا۔

پہلی ادبی تقریب ایک شادی ہال میں منعقد کی گئی۔

چونکہ محرم کے مہینے میں اکثر شادی ہال والے فارغ ہوتے ہیں۔

اس لئے ہال کم کرائے پر بھی مل جاتا ہے۔

ہمیں دعوت نامہ موصول ہوا تو ہم بھی اپنے پیارے دوست مولوی کے ساتھ ہال میں پہنچ گئے۔ شرکاء کی تعداد دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس محلے میں اتنے اہل ذوق ہیں۔

ہم نے مولوی سے اپنی حیرت کا اظہار کیا تو مولوی مسکرائے۔۔۔کہنے لگے۔

"تم نے دعوت نامہ پورا نہیں پڑھا؟”

ہم نے پوچھا "کیوں۔۔۔کیا تھا دعوت نامے میں ؟”

مولوی بولے "پورے دعوت نامے میں صرف ایک جملہ کام کا تھا۔۔۔اور وہ آخر میں تھا۔۔۔اور وہ یہ کہ”محفل کے اختتام پر طعام کا بھی انتظام ہے”

میں نے مولوی کی طرف حیرت سے دیکھا۔

"تو گویا آپ بھی اسی لئے آئے ہیں ؟”

مولوی غصے میں آ گئے۔۔۔”اللہ کو مانو۔۔۔گھر میں بیوی نے نرگسی کوفتے بنائے ہیں۔۔۔

وہ چھوڑ کر آ رہا ہوں کہ تم اکیلے بور ہو گے”

 

جب محفل کا آغاز ہوا تو اسٹیج پر صاحب صدر کی کرسی پر ایک حاجی صاحب براجمان نظر آئے۔۔میں نے پوچھا۔

"یار مولوی! یہ محترم کون ہیں ؟ کوئی شاعر یا ادیب ؟”

مولوی نے زور کا قہقہہ لگایا کہ آس پاس کے لوگ بھی دیکھنے لگے۔۔۔پھر میرے کان کے قریب منہ لا کر کہنے لگے۔

"وہ گلی کے نکڑ پر گاڑیوں کی ڈینٹنگ پینٹنگ کی دکان ہے نا۔۔۔وہ انہی کی ہے۔۔۔انہیں صدر مجلس بنانے کی دو وجوہات ہیں۔۔۔اول یہ کہ یہ شادی ہال ان کے داماد کا ہے۔۔۔دوم محفل کے بعد جس طعام کی نوید سنائی گئی ہے اس کا انتظام ان کے دوسرے داماد نے کیا ہے جس کا کیٹرنگ کا کام ہے”

میں نے مسکراتے ہوئے کہا "ماشا اللہ۔۔۔۔ا س کا مطلب ہے حاجی صاحب اور ان کے داماد اچھا ادبی ذوق رکھتے ہیں ”

"ادبی ذوق؟”  مولوی ہنستے ہوئے کہنے لگے”کہاں کا ادبی ذوق۔۔۔اصل میں حاجی صاحب اگلے بلدیاتی الیکشن میں امیدوار ہیں۔۔۔یہ سارا کھیل اسی لئے رچایا گیا ہے”

"اوہ۔۔تو یہ ہے صورت حال” میں نے کہا”اچھا اب جلدی کھڑے ہو ”

میں نے کھڑے ہوتے ہوئے ان کا ہاتھ کھینچا۔

"کہاں ؟” مولوی حیرت سے میری شکل دیکھتے ہوئے بولے۔

"تمہارے گھر۔۔۔نرگسی کوفتے کھانے” میں نے کہا”تمہیں پتہ نہیں علامہ اقبال نے کیا فرمایا ہے”

"علامہ اقبال نے؟ ” مولوی آنکھیں پھاڑے مجھے دیکھنے لگے۔۔”نرگسی کوفتے کے بارے میں ”

"ارے نہیں یار۔۔۔اس رزق کے بارے میں جس سے پرواز میں کوتاہی آتی ہے” میں نے ہال سے باہر نکلتے ہوئے کہا۔

"مطلب؟ ” مولوی نے پوچھا۔

"مطلب یہ کہ اگر حاجی صاحب کا نمک کھایا تو پھر نمک حرامی نہیں کر سکتے۔۔۔ووٹ بھی ان کو دینا پڑے گا” میں نے کہا۔

مولوی نے تائید کی۔

٭٭٭

 

 

 

 

عصمت چغتائی سے اختر عمر تک

 

ہم کامرس کے اسٹوڈنٹ رہے ہیں۔۔۔سائنس سے ہمارا واسطہ اتنا ہی رہا ہے جتنا دیگر مسلمانوں کا۔۔۔ماضی میں مسلمانوں نے بڑے بڑے کام کئے مثلاً سینکڑوں سال پہلے گندھک کا تیزاب بنا لیا۔۔ یا شورے کا تیزاب بنا لیا۔۔وغیرہ۔۔یا بقول حسن نثار کے چار پائی ایجاد کر لی۔۔اس کے بعد پچھلے پانچ سو سالوں میں مسلمانوں نے کچھ بھی نہیں بنایا۔۔سوائے ایک دوسرے کو بیوقوف بنانے کے۔

اب آئیے۔۔۔۔ ہماری اپنی ذاتی سائنسی صلاحیتوں پر تو اگر چائے بنانا اور انڈہ ابالنا سائنس ہے۔۔تو آپ ہمیں بھی سائنسدان کہہ سکتے ہیں۔۔۔کیونکہ جب بیوی میکے جاتی ہے تو ہم بھی کچن میں اس قسم کے سائنسی تجربے کر لیتے ہیں۔

یقین کیجئے ہمیں انڈا صحیح ابال کے۔۔۔اور اس کے چھلکے صحیح اتار کے اتنی خوشی ہوتی ہے کہ جتنی آئن اسٹائن کو اپنی کسی ایجاد کے بعد بھی نہیں ہوئی ہو گی۔

ابھی پچھلے دنوں بیوی کہیں گئی ہوئی تھی۔۔ہم نے چائے بنائی۔

آہا۔۔کیا چائے تھی۔

آج تک کسی نے روئے زمین پر اتنی عمدہ چائے نہیں بنائی ہو گی۔۔۔سنا ہے لپٹن کمپنی والے ہمیں ابھی تک ڈھونڈ رہے ہیں۔۔کہ سر ہمیں بھی سکھائیں۔۔۔ہاں البتہ بیوی چونکہ ہماری ترقی سے جلتی ہے کہ کہیں ہم اس سے کوکنگ میں آگے نہ نکل جائیں۔۔۔اس نے آ کے سارا کچن سر پہ اٹھا لیا۔۔۔کہ یہ نئی پتیلی کس نے جلا دی۔

بھائی! حاسد تو ہر فیلڈ میں ہوتے ہیں۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی ہماری سائنس سے دلچسپی سے۔۔۔اکثر فیس بک پر ہمارے پیارے دوست اختر عمر کوئی نہ کوئی سائنسی پوسٹ لگاتے ہیں۔۔اور ہم بھائی کی پوسٹ پڑھ کر کوشش کرتے ہیں کہ تھوڑا بہت علم سائنس کا بھی ہونا چاہیے۔

مثلاً ان کی ایک پوسٹ میں پانی بنانے کا طریقہ تھا۔

۔ "دو بالٹیاں ہائیڈروجن لو اور ایک بالٹی آکسیجن لو۔۔۔دونوں کو چولہے پہ گرم کرو۔۔۔لو پانی تیار”

ہم نے سوچا کے ہم بھی کوشش کر کے دیکھیں۔۔ہوسکتا ہے اس طرح ہم کم از کم کراچی والوں کا پانی کا مسئلہ حل کر دیں۔۔۔اور اس سال "پرائڈ آف پرفارمنس ” ہمیں مل جائے۔۔۔ویسے بھی اس ملک میں ہر ایرے غیرے کو مل چکا ہے۔

مگر افسوس کچھ بھی نہ بنا۔۔۔ہاں البتہ آنکھوں میں پانی آ گیا۔۔۔آخری خبریں آنے تک کچن میں کچھ دھماکے سنے گئے۔

پھر بھی ہم اپنے بھائی اختر عمر کی طرف حسن ظن رکھتے ہیں کہ بھائی نے تو صحیح ہی بتایا ہو گا۔۔ہوسکتا ہے ہمیں بازار سے آکسیجن یا ہائیڈروجن جعلی ملی ہو۔

کچن میں جو نقصانات ہوئے ہیں۔۔اس کی وجہ سے ہماری بیگم نے آئندہ بھائی اختر عمر کی ہر سائنسی پوسٹ پڑھنے پر پابندی لگا دی ہے۔

ہم چوری چھپے راتوں کو اٹھ اٹھ کے پڑھتے ہیں۔۔جس طرح کسی زمانے میں عصمت چغتائی اور منٹو کو پڑھتے تھے۔

بہرحال ہمارے اس ناکام سائنسی تجربے سے یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ ہم پکّے مسلمان ہیں۔۔آئندہ کوئی بھی شخص اسلام اور سائنس کے موضوع پر قلم اٹھائے تو ہمارا ذکر بھی کرے۔

٭٭٭

 

 

 

 

باتھ روم کا نل اور نظام

 

"کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے ”

بیوی نے دوسرے کمرے سے تیسری  بار آواز لگائی۔

"آ رہا ہوں۔۔آپ لوگ کھانا شروع کرو”

میں نے وہیں سے جواب دیا۔۔

"پاپا!  یہ بات آپ نے آدھے گھنٹے پہلے بھی کہی تھی”

بیٹے نے اپنی ماں کے ساتھ آواز ملائی۔۔

میں facebook پر ایک نظم post کرنے کے لئے net پر اس نظم کے مطابق کوئی تصویر تلاش کر رہا تھا۔

” بیٹا پلیز! تھوڑا سا کام رہ گیا ہے۔۔ابھی آ رہا ہوں "۔۔۔میں نے بلند آواز میں کہا۔

"آخر آپ کر کیا رہے ہیں اتنی دیر سے ؟” بیوی نے پھر پریشانی کے انداز میں پوچھا۔

"میں ایک انقلابی نظم پوسٹ کر رہا ہوں ” میں نے جواب دیا۔

"آ جائیں ! ایک آدھ گھنٹہ انقلاب لیٹ ہو گیا تو اس قوم کو کوئی فرق نہیں پرے گا۔۔۔ 60 سال سے ایسے ہی پڑی ہے۔۔۔” بیوی کی رگ ظرافت پھڑکی۔

میں اس وقت سنجیدگی سے کام میں مصروف تھا۔۔۔مجھے یہ مذاق پسند نہیں آیا۔

میں نے وہیں سے بلند آواز میں کہا۔

"یار آپ سمجھ نہیں رہیں۔۔میں اس قوم کو جگانا چاہتا ہوں۔۔۔ میں اس نظام کو بدلنا چاہتا ہوں ” میں نے تقریبً جھنجھلاتے ہوئے کہا۔

"نہیں بدلے کا نظام آپ سے۔۔آپ صرف باتھ روم کا نل بدل لو۔۔ایک مہینہ سے لیک ہو رہا ہے۔۔۔”بیوی نے تو حد کر دی۔

"نل۔۔لیک۔۔نظام۔۔؟؟؟”

میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔۔۔سارے خیالات منتشر ہو گئے۔۔۔میں نے غصے میں کمپیوٹر آف کیا۔۔۔اور اپنی قوم کو وہیں بے یارو مددگار چھوڑ کے۔۔دوسرے کمرے میں گیا۔۔۔

اور جا کے کڑھائی گوشت پر حملہ آ ور ہو گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

با ذوق :

 

ایک محترمہ نے میرے ایک شعر کی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے فرمایا کہ ایسے ہی شعر ٹرک کے پیچھے لکھے ہوتے ہیں۔

وہ شعر بھی دیکھ لیجیے۔

 

"جان لو گے فقط اک وصل کے مول

اتنے  سستے  تو  تم  نہیں  جاناں ”

 

یہ بات سن کے میں ان کی اعلی ذوقی۔۔۔ اور اپنی بد ذوقی پر دیر تک آنسو بہاتا رہا۔

کئی روز سے مجھ جیسے بے ادب کو کسی ٹرک کے پیچھے لکھے شعری ادب کے مطالعے کا موقع نہیں ملا۔

دوستو!

سچ سچ بتاؤ۔

کیا ٹرک والوں کا معیار اتنا گر گیا ہے کہ وہ میرے درجے کی شاعری کر رہے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

بدھا کا گیان

 

باس نے انٹرکوم کے ذریعے مجھے اپنے کمرے میں بلایا۔

"جی سر!” میں نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا۔

"دیکھو۔۔۔وہ جاپانی ڈیلیگیشن آ رہا ہے۔۔۔اوراس میں وہ "سر درد” بھی آ رہا ہے۔۔۔جس نے پچھلی بار ہمیں ٹھٹھ، سجاول اور مکلی کی دھول چٹائی تھی۔۔۔۔۔یاد ہے؟” باس نے کہا۔

"جی جی سر! یاد ہے۔۔۔ جس کی وجہ سے بقول "میرا” کے آپ کے گھٹنوں میں "Headache” ہو گیا تھا”۔۔میں نے ہنستے ہوئے کہا۔

باس نے منہ بگاڑا

behave your self

مذاق اور بدتمیزی میں بال برابر فرق ہوتا ہے”

"یس سر! آئی نو” میں نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔

"اور یہ جو تم آفس میں اداکارہ میرا کے لطیفے سناتے ہو۔۔یہ اب بہت پرانے ہو چکے ہیں ” باس بولے۔

"جی سر! میں نئے ڈھونڈ رہا ہوں ” میں نے کہا۔

باس نے پھر سر پکڑ لیا۔۔۔”آپ ایسا کرو”

یہ باس کی عادت تھی جب نارمل ہوتا تو مجھے تم کہہ کے پکارتا۔۔۔اور جب ناراض ہوتا تو آپ کہتا۔

وہ کہنے لگا”پچھلی بار وہ جاپانی میرے لئے گفٹ لایا تھا۔۔۔اس بار تم بازار سے جا کے اس کے لئے کوئی اچھا سا گفٹ ڈھونڈو۔۔۔اور خریدنے سے پہلے مجھ سے مشورہ کر لینا۔۔چیز اس کے معیار کی ہو۔۔۔نہ کہ تمہاری بیوی کے معیار کی ہو۔۔جو پچھلے ویلنٹائن ڈے پر تم سے ریڈ روز کی بجائے سنگترے مانگ رہی تھی”وہ مسکرایا۔

وہ کم مسکراتا تھا۔۔۔مگر جب بھی مسکراتا تھا اچھا لگتا تھا۔۔۔سارے دفتر میں صرف میں ہی تھا جو اس سے گالی گلوچ کی حد تک "فری”  تھا۔۔باقی سب سے reserve رہتا تھا۔۔۔گالی گلوچ کی حد تک فری سے مراد۔۔وہ جب چاہتا مجھے میرے منہ پر گالی دے دیتا اور میں۔۔۔ جب چاہتا اسے پیٹھ پیچھے۔

حالانکہ ملازم اور مالک کے تعلقات بھی ساس بہو کے تعلقات کی طرح ہوتے ہیں۔۔۔بہت کم خوشگوار ہوتے ہیں۔۔لیکن اس کے اور میرے تعلقات امریکہ اور پاکستان جیسے تھے۔۔دونوں اپنی اپنی ضرورتوں کے اسیر تھے۔۔وہ مجھے برداشت کرتا تھا کیونکہ میں اس کے کام کا بندہ تھا۔۔میں اس کی باتیں برداشت کرتا تھا چونکہ مجھے علم تھا کہ جتنی زیادہ تنخواہ وہ مجھے دے رہا ہے۔۔کوئی نہیں دے گا۔

"جی سر! وہ سنگترے والا آرٹیکل آپ کو یاد ہے؟” میں نے کہا۔

باس بولا” ہاں۔۔۔جو تم نے اپنے فرضی دوست مولوی کے کندھے پر ڈالا تھا”

میں نے کہا”سوری سر! مولوی فرضی نہیں ہے سر!”

باس بولا”مجھے پتہ ہے”

میں نے کہا”سر! فرق صرف یہ ہے کہ میں اپنی تحریر میں صرف ایک مولوی کا ذکر کرتا ہوں۔۔جب کے میرے ارد گرد ایک سے زیادہ ہیں "آخری جملہ میں نے اس کی طرف مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔وہ سمجھ گیا۔۔۔دوبارہ پیشانی پر مصنوعی بل ڈالے۔

"you may go now ”

شام کو میں نے اسے فون ملایا”سر! ایک بہت ہی پیارا گفٹ دیکھا ہے اس "سردرد” کے لئے”

وہ بولا "کیا ہے؟”

” پپیتے کی پیٹی” میں نے ہنستے ہوئے کہا۔

اس نے غصّے میں صرف اتنا کہا "you۔۔۔”

میں نے جھٹ سے کہا۔۔”ایک منٹ سر۔۔۔ایک منٹ۔۔۔پہلے یہ بتائیے۔۔۔ وہ بدھسٹ ہے نا؟”

باس بولا "ہاں۔۔۔تو پھر؟۔۔۔تم اس کو پہلے مسلمان کرو گے؟”

میں نے ہنستے ہوئے کہا۔۔”ارے نہیں سر۔۔۔میری اتنی اوقات کہاں۔۔میں تو آپ کو نہیں کرسکا”

اس سے پہلے کہ وہ کوئی گالی دیتا میں نے جلدی سے کہا۔

"سر! ایک بدھا کی مورتی دیکھی ہے۔۔چھوٹی سی brass کی بنی ہوئی۔۔تھوڑا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے۔۔۔مگر میں اپنے سنار دوست سے پالش کروا لوں گا۔۔۔اور ہاں۔۔۔اس کے لئے خوبصورت شیشے کا کیس بھی بنوا لوں گا”

وہ بولا۔۔”سائز کیا ہے؟”

میں نے کہا”سر سائز یہی کوئی سات سے آٹھ انچ ہو گا۔۔۔بدھا آلتی پالتی مارے بیٹھا ہے۔۔آنکھیں بند کر کے سودا سلف کا حساب کر رہا ہے”

اس کی ہنسی نکل گئی” ارے بیوقوف۔۔۔سودے سلف کا حساب نہیں کر رہا ہے۔۔وہ گیان میں کھویا ہے”

میں نے کہا”جی سر!وہ جو بھی کر رہا ہے۔۔۔ہمیں اس سے کیا۔۔۔ویسے وہ جاپانی آپ کے ہاتھ چوم لے گا۔۔سر”

وہ خوش ہوا۔۔۔بولا ” لے آؤ۔۔۔کتنے کا ہے؟”

میں نے کہا۔۔۔”سر! پانچ ہزار کہہ رہا ہے۔۔دیکھیں کہاں تک نمٹتا ہے”

بولا "لے آؤ۔۔۔تم ہو بڑی کمینی شے۔۔۔لیکن ہو کام کے”

اس کے منہ سے پیار میں یہ گالی اچھی لگتی تھی۔

میں نے کہا”سر! یہ میری تعریف ہو رہی یا ؟”

وہ بولا”جو سمجھو”

۔۔۔۔

میں بدھا کو پالش کرا کے اور اس کا ایک خوبصورت سا شیشے کا کیس بنوا کے اگلے روز دفتر پہنچا تو وہ دیکھ کر بہت خوش ہوا۔۔۔لیکن فوراً موڈ بدل کے کہنے لگا۔

"ہاں بس ٹھیک ہے۔۔۔اتنا خاص نہیں ”

اس کی زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔

میں نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔

"سر! کیا خیال ہے واپس کر کے وہی لے آئیں پپیتے کی پیٹی؟”

اس نے غصّے سے دیکھا۔

"شٹ اپ ”

جب جاپانی ڈیلیگیشن آیا تو اس نے بڑے فخر سے اس جاپانی کو اس بدھا کا کیس پیش کیا۔۔۔جاپانی مسکراتا رہا۔۔۔اس نے شکریہ ادا کیا۔۔۔پھر باس کے کان میں آہستہ سے کہا۔

"مجھے آپ کا تحفہ پسند آیا۔۔مگر سوری فرینڈ! میں بدھسٹ نہیں۔۔۔کرسچین ہوں ”

باس نے میری طرف عجب نظروں سے دیکھا۔

میں نے آہستہ سے کہا۔

"اس سے پوچھیں۔۔۔پپیتا کھاتا ہے؟”

٭٭٭

 

 

 

 

چل پڑھا

 

ایک دعوت میں، میں اور میرا دوست "مولوی” شریک تھے۔۔۔ایک حاجی صاحب مولوی کے پاس آئے۔۔دونوں بات چیت میں مصروف تھے اور میں ان کی باتیں سن رہا تھا۔

جب وہ رخصت ہوئے تو میں نے پوچھا۔

"یار مولوی! یہ صاحب کون تھے؟”

مولوی کہنے لگے۔

"انہیں تم نہیں جانتے ؟ یہ اپنے حاجی صاحب ہیں ”

"حاجی صاحب؟” میں نے پوچھا "کون حاجی صاحب؟”

‘بھئی وہ ہمارے آفس کے پاس۔۔۔ وہ بنگلے میں مونٹیسری اسکول نہیں کھلا؟ وہ انہی حاجی صاحب کا ہے”

پھر مولوی کہنے لگے۔۔۔”یار بڑی کمائی ہے۔۔۔اس کام میں بھی۔۔۔حاجی صاحب کے شہر بھر میں ایسے کوئی 8 اسکول چل رہے ہیں۔۔ٹھیک ٹھاک آمدنی ہے”

"اچھا؟” میں نے حیرت سے کہا۔

مولوی بولے۔

"یہ کرتے کیا ہیں پتہ ہے؟ کسی اچھے علاقے میں کوئی بنگلہ یا عمارت کا کچھ حصہ کرائے پہ لے لیتے ہیں۔۔۔پھر کسی اسکول کی ہیڈ مسٹریس کو اچھی تنخواہ اور مراعات کا لالچ دے کے توڑ لیتے ہیں۔۔۔لیڈی ٹیچرز تو بیچاریاں بڑی کم تنخواہ پر مل جاتی ہیں۔۔۔صرف ایک بار تھوڑی سی investment فرنیچر وغیرہ پر کر کے۔۔اور پھر بیٹھ کے آرام سے کھاؤ۔۔تمہیں پتہ ہے کورس کی کتابوں میں بھی کمیشن۔۔۔یونیفارم میں بھی کمیشن۔۔عیش ہیں حاجی صاحب کے”

"حیرت ہے”میں نے کہا "یہ خود کتنا پڑھے ہوئے ہیں ؟”

"خود” مولوی نے قہقہہ لگایا”پانچویں جماعت پاس”

"پانچویں جماعت پاس؟”میں نے دہرایا”پھر انہیں اسکول کھولنے کی اجازت کیسے مل جاتی ہے؟”

"اجازت؟” مولوی نے منہ بنایا ” محکمہ تعلیم میں ان کے بھائی کا داماد ملازم ہے”کچھ سوچ کر مولوی پھر کہنے لگے۔”اور اگر داماد نہیں بھی ہو تو بھی اس ملک میں سب چلتا ہے۔۔۔یہاں نوٹ پھینکو۔۔۔اور سب کروا لو”

"ہاں۔۔۔یہ تو ہے” میں نے کہا۔

"یار! میرا ایک دوست بتا رہا تھا۔۔کہ حاجی صاحب صبح ہی صبح اسکول کے آفس میں جا کے بیٹھ جاتے ہیں اور کبھی کبھی کوئی ٹیچر نہیں آتی تو حاجی صاحب خود بھی کلاس لے لیتے ہیں ”

"کیا؟” میرے منہ میں کھانے کا نوالہ پھنستے پھنستے رہ گیا۔

"ہاں۔۔۔سچ کہہ رہا  ہوں "مولوی یقین دلاتے ہوئے کہنے لگے۔

پھر بولے”یار! میں سوچتا ہوں۔۔۔کہ جو بچے ان کے اسکول سے پڑھ کر نکلیں گے۔۔۔

وہ معاشرے میں کیا کریں گے؟”

"اسکول کھولیں گے” میں نے کہا۔

مولوی نے زور کا قہقہہ لگایا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

آتشِ نمرود

 

فورم مال کلفٹن کے سامنے ایک مصروف سڑک ہے۔

میں وہاں زیبرا کراسنگ پر کھڑا سڑک پار کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

میرے قریب ہی ایک اور بزرگ بھی کھڑے تھے۔

وہ بھی بیچارے کبھی آگے بڑھتے۔۔اور پھر تیز اور بے ربط ٹریفک دیکھ کے پیچھے ہو جاتے۔۔۔

اچانک ان کی اور میری نظریں ملیں۔۔۔وہ قریب آئے۔۔۔اور کہنے لگے۔

” کیوں صاحب! یہ سڑک کس طرح پار ہو گی؟ میں کوئی 15 منٹ سے اس زیبرا کراسنگ پر کھڑا ہوں۔یورپ اور امریکہ میں زیبرا کراسنگ پر اگر کتا بھی آ کے کھڑا ہو جائے تو گاڑی والے اپنی گاڑیاں روک دیتے ہیں۔تاکہ کتا آرام سے سڑک پار کر لے۔مگر ہماری اوقات تو ان کے کتے سے بھی گئی گزری ہے۔ ہمارے لئے کوئی گاڑی نہیں روکتا۔ بلکہ میں تو ذرا آگے بڑھتا ہوں تو دور سے آنے والی گاڑی کا ڈرائیور اور اسپیڈ تیز کر دیتا ہے”

مجھے ان کی بات پر ہنسی بھی آئی اور ان سے ہمدردی بھی ہوئی۔

میں نے کہا "بس جی کیا کریں حضرت !ہمارے ہاں اسکولوں کے نصاب میں

Road Sense

کے عنوان سے بھی ایک مضمون ہونا چاہیے۔جس میں گاڑی میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو پیدل چلنے والوں کے حقوق بھی سمجھائے جائیں ”

انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔پھر کہنے لگے،

"مجھے تو حیرت ہو رہی ہے کہ وہ سڑک کے پار جو صاحب کھڑے ہیں۔۔۔انہوں نے سڑک کیسے پار کی؟”

میں نے ہنستے ہوئے کہا۔”ہو سکتا ہے وہ سڑک کے اس پار ہی پیدا ہوئے ہو”

اس پر وہ بزرگ بھی مسکرائے۔۔۔اور بولے۔”شاید آپ صحیح کر رہے ہیں۔ یہ سڑک کوئی عام آدمی تو پار کرنے سے رہا۔ہاں کوئی سپر مین ٹائپ کی چیز ہو تو وہ شاید کر لے”

میں نے ان کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا "آئیے ہم دونوں مل کر کوشش کرتے ہیں۔۔۔شاید کسی گاڑی والے کو خیال آ جائے۔۔۔اور وہ ہمیں گزرنے دے”

وہ مجھ سے مزید دور ہوتے ہوئے بولے۔”ہر گز نہیں۔۔۔آپ کو نہیں پتہ اتنے بڑے بڑے ٹرالر آرہے ہیں۔۔۔ابھی کوئی ہم دونوں کو کچل کر چلا جائے گا”

پھر وہ ایک ٹرالر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے۔

"یہ دیکھئے۔۔۔قانوناً دن کے وقت یہ ٹرالر کا سڑک پر آنا منع ہے مگر یہ دیکھئے۔۔کتنے آرام سے جا رہا ہے”

میں نے ٹرالر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا "آپ درست فرما رہے ہیں۔۔مگر قانون اور اس ملک میں ؟”

ہم دونوں زیبرا کراسنگ پر کھڑے تھے کہ شاید کوئی گاڑی ہمارے لئے رکے۔۔اور ہم سڑک پار کر سکیں۔۔۔مگر ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کتنے لوگ آئے۔۔اور وہ بغیر زیبرا کراسنگ کے یہاں وہاں سے دوڑ کر سڑک پار کرتے رہے۔۔۔اور ہم وہیں کھڑے رہے۔۔آخر کار تھک ہار کر میں نے ان بزرگوار سے کہا۔

"حضرت! یہ ٹریفک تو رات تک یوں ہی چلتا رہے گا اور کوئی گاڑی والا آپ کے لئے اپنی گاڑی نہیں روکے گا۔ یہاں کیا پجیرو والا۔۔۔اور کیا گدھا گاڑی والا۔۔۔سب جہالت میں ایک دوسرے سے آ گے ہیں۔۔۔ہمیں سڑک بھاگ کر ہی کراس کرنی پڑے گی۔۔۔یہ نہیں رکنے والے”

وہ بزرگ مجھ سے مزید دور ہو گئے۔

"نہیں بھائی۔۔۔تم نے جانا ہے تو جاؤ۔۔۔میں تو واپس گھر جارہا ہو فورم مال جارہا تھا کچھ خریداری کرنے کے لئے۔۔۔مگر اب کل ول دیکھوں گا”

یہ کہہ کے وہ تو واپس پلٹ گئے۔میں نے کچھ سوچا۔۔۔یہاں وہاں دیکھا۔۔۔کوئی نہیں دیکھ رہا۔۔۔اچانک انگریزی کا ایک محاورہ یاد آیا۔

"when in Rome, do as the Romans do۔

"بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق” کا نعرہ لگایا۔اور دوڑ لگا دی۔۔۔

اگلے لمحے میں ایک گاڑی سے بچتا ہوا سڑک کی دوسری طرف تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

الف۔ ب۔ جیم

 

ایک دوست نے ایک تصویر ٹیگ کی۔۔۔جس میں بڑی محنت سے قرآن پاک کے بارے میں مفید معلومات جمع کی گئیں تھیں۔مثلاً قرآن پاک میں "الف” اتنی بار آیا ہے”ب” اتنی بار آیا ہے اور”جیم” اتنی بار۔یعنی تمام حروف تہجی کو گننا یقیناً بہت ہی محنت طلب کام ہے۔اس سے پہلے تو صرف یہ بتایا جاتا تھا کہ قرآن پاک میں سجدے اتنے ہیں یا رکوع اتنے ہیں یا احزاب اتنے ہیں وغیرہ۔مگر اس بار جس کسی نے بھی محنت کی تھی۔وہ قابل ستائش تھی۔آفرین ہے ان لوگوں پر جو قرآن پاک کے لئے اتنا وقت نکالتے ہیں۔ہمیں انہیں سلام پیش کرنا چاہیے۔

میں نہایت ادب اور احترام سے ان صاحب سے۔۔ یا صاحبان سے کہ جنہوں نے قرآن پاک پر اتنی محنت کی اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ان کے کام کی قدر اپنی جگہ۔حوصلہ افزائی اپنی جگہ اب آئیے ذرا اس کام کو دوسری نظر سے دیکھیں۔

فرض کریں۔۔میں بیمار ہوں۔۔۔ڈاکٹر کے پاس جاتا ہوں۔۔۔وہ مجھے دوائی کا ایک نسخہ لکھ کے دیتا ہے۔۔۔ دانشمندی کا تقاضہ ہے کہ میں اس نسخے پر عمل کرتے ہوئے دوائی لوں۔۔۔پرہیز کروں۔۔۔اور وقت پر دوائی کا استعمال کروں۔۔۔شاید اسی طرح میرا علاج درست سمت چلے اور میں جلد صحت یاب ہو جاؤں۔

ہاں۔۔اگر میں اس نسخے کو لے کر یہ دیکھنے بیٹھ جاؤں۔۔کہ اس  نسخے میں ڈاکٹر صاحب نے "A” کتنے لکھے ہیں اور "B” کتنے لکھے ہیں اور "C” کی تعداد کیا ہے۔تو میری اس محنت کو آپ کس نظر سے دیکھیں گے؟ کیا میں اس طرح صحت یاب ہو پاؤں گا؟

قرآن پاک بھی اس "حکیم” کا ایک نسخہ کیمیا تھا۔۔ ہم بیمار امت کے لئے۔۔۔کہ جس کو پڑھ کر۔۔اس پر عمل کر کے۔۔یہ بیمار امت صحت یاب ہوسکتی تھی۔۔۔مگر ہم "الف بے  جیم ”  میں الجھ گئے۔ تو پھر صحت یابی کیسی۔

بدقسمتی سے دوسری قوموں نے اس کو سمجھ کر۔۔اس پر غور و فکر کر کے(چونکہ اللہ تعالیٰ نے کہا تھا کہ میری کائنات پر غور و فکر کرو)اور اس پہ عمل کر کے۔۔۔آج اتنی ترقی کر لی۔۔۔کہ آج انہوں نے اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے مصنوعی بارش بھی ایجاد کر لی۔۔۔جبکہ ” الف۔۔ب۔۔۔جیم  میں مصروف رہنے والے اب بھی بارش کے لئے دعائیں کر رہے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

بدنصیب

 

لوگوں کی اکثریت بڑی مشکل سے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔۔۔

سوائے ان لوگوں کے کہ جن پر اللہ کا خاص انعام ہے۔۔۔

یا جو خاندانی امیر کبیر ہیں۔۔۔

یا جو اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں۔۔۔

یا جنھیں لوٹ کھسوٹ اور کرپشن کے ذریعے پیسہ کمانے کا ہنر آتا ہے۔

اکثریت۔۔

اس ملک کی۔۔۔

سسک سسک کے،  تڑپ تڑپ کے۔۔

زندگی گزار رہی ہے۔۔۔

بلکہ بھگتا رہی ہے۔

 

صبح اٹھتے ہی پینے کے پانی کے حصول کی فکر۔

(یہ جملہ ان کے لئے حیرت انگیز ہو گا کہ جو منرل واٹر پیتے ہیں )

اور پھر روٹی کی دوڑ دھوپ۔

(ہم میں سے بہت سے سوچتے ہوں گے کہ انہیں اگر روٹی نہیں ملتی تو "اٹالین پیزا” کیوں نہیں کھاتے)

یہ سرزمین پاک۔۔

کہ جس کے بیش بہا قیمتی معدنیات و وسائل کے قصے۔۔۔

اور سورہ رحمان کی تشبیہات۔۔۔

ہم اخبار و رسائل اور مختلف ٹی وی چینلز پر۔۔۔

مختلف دانشوروں کی زبانی سنتے رہتے ہیں۔

یہاں انتھک محنت کرنے کے باوجود بھی بہت سے لوگوں کا گزارہ بڑی مشکل سے ہوتا ہے۔

ایک طرف تو وہ  لوگ ہیں کہ جو صبح اٹھ کے اپنے باورچی سے کہتے ہیں کہ پاکستانی، انڈین اور چائنیز ڈشیں بہت ہو چکیں۔۔آج ہمیں کوئی انگلش یا عربی ڈش کھلاؤ۔

اور دوسری طرف وہ کہ جو صبح اٹھ کے یہ سوچتے ہیں کہ گھر میں اتنا آٹا تو ہے کہ دوپہر کی روٹی بن جائے۔۔رات کی رات کو دیکھی جائے گی۔

خطاکار کون؟

ذمہ دار کون؟

ریاست؟

حکمران؟

یا

امراء  ؟

نہیں کوئی بھی نہیں۔

ذمہ دار تو اس غریب کا نصیب ہے۔

اور نصیب۔۔

محنت اور ایمانداری کے ذریعے۔۔صرف کہانیوں، افسانوں اور فلموں میں ہی بدلے جا سکتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

بے وفائی کی قدر

 

یہ عجب مذاق ہے کہ پاکستان میں جتنی بھی موبائل کمپنیاں ہیں، وہ صرف ان صارفین کو جو انھیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، واپس بلانے کے لئے نئی نئی ترغیبات دیتی ہیں اور نئے نئے پیکیجیز متعارف کراتی ہیں۔

مثلاً جن لوگوں نے 3 مہینے سے یا 6 مہینے سے ہماری کمپنی کی سم استعمال نہیں کی، وہ اگر دوبارہ  ایکٹیویٹ کریں تو ان کو اتنے فری منٹ، اور اتنے فری ایس ایم ایس وغیرہ۔ اسی طرح ایک کمپنی دوسری کمپنی کے صارف کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے بھی نئی نئی آفر سامنے لاتی ہے۔

مثلاً اپنی سم بدل کر ہماری سم پر آنے والے کو اتنے فری منٹ اور ایس ایم ایس وغیرہ۔۔۔

اب اگر کوئی کسی ایک ہی کمپنی کی سم لے کے بیٹھا ہے تو اسے اس کا کوئی فائدہ نہیں۔

مثلاً میں خود۔۔۔پچھلے 10 سال سے ایک ہی کمپنی کی سم لے کے بیٹھا ہوں۔۔۔اس سے پہلے میرے پاس دیگر کمپنی کی سم تھیں۔مگر مجھے اس 10 سالہ وفاداری کا کیا فائدہ؟

موبائل کمپنیاں اس پربھی غور کریں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

حسن پرست

 

ہم میاں بیوی شام کے وقت پارک میں جوگنگ ٹریک کے قریب ایک بینچ پر بیٹھے تھے۔۔۔

ایک خاتون کوئی تیس پینتیس کی ہوں گی۔۔ٹریک پر جوگنگ کرتی ہوئی جا رہی تھیں۔۔

ان کی نظریں میری بیوی کی نظروں سے ملیں تو دونوں مسکرائیں۔۔۔وہ پاس سے گزر گئیں تو بیوی نے پوچھا۔

"آپ جانتے ہیں اسے۔۔ ٹیچر ہے”

میں نے کہا ” نہیں۔۔۔کہاں ؟”

بیوی بولیں "وہ گھر کے پاس اسکول ہے نہ اس میں پڑھاتی ہے۔۔اور وہیں ہماری گلی کے پیچھے جو کواٹر بنے ہیں۔۔اس میں رہتی ہے”

میں نے کہا "اچھا”

کہنے لگیں ” بیچاری کے بالوں میں سفیدی آ گئی گھر کی کفالت کرتے کرتے۔۔۔مگر ابھی تک کوئی رشتہ نہیں آیا”

میں نے کہا۔۔”اوہ۔۔۔ویری سیڈ۔۔کوئی ہے نہیں کمانے والا؟”

بیوی بولیں  "باپ کا تو انتقال ہو گیا ہے۔اب ایک بوڑھی ماں ہے اور چھوٹے بہن بھائی۔

بیچاری! صبح اسکول میں پڑھاتی ہے۔۔اور شام کو گھر پر ٹیوشن”

میں نے لمبی سانس لی "اللہ خیر کرے”

بیوی بولیں ” ہمارا معاشرہ بھی عجیب ہے۔۔۔اگر کسی عورت کی شکل صورت۔۔۔ناک نقشہ بہت زیادہ اچھا نہ ہو۔۔۔واجبی سا ہو۔۔۔تو وہ بیچاری ساری عمر والدین کی دہلیز پر بیٹھی رہتی ہے۔۔۔

چاہے اخلاق و کردار میں اچھی ہو۔۔گفتگو پیاری ہو۔۔۔تعلیم یافتہ ہو۔۔۔مگر۔۔ اگر شکل نہیں۔۔۔تو کچھ نہیں ”

میں نے کہا ” صحیح کہہ رہی ہو تم۔۔یہ اخلاق۔۔۔یہ کردار۔۔۔ یہ سب کتابی باتیں ہیں۔۔۔

ہاں البتہ شکل صورت کے بعد اگر کوئی چیز اہمیت رکھتی ہے تو وہ پیسہ ہے۔۔۔پیسے میں بڑی طاقت ہے۔۔وہ بہت سے عیب چھپا دیتا ہے۔۔۔۔ اب اس عورت کے پاس پیسہ ہوتا تو یقیناً واجبی شکل کے باوجود اس کے رشتے آتے”

ابھی ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ وہ جوگنگ کرتی ہوئی ہمارے قریب سے دوبارہ گزری۔

اب کی بار میں نے اسے غور سے دیکھا، بیوی صحیح کہہ رہی تھی، بیچاری کے بالوں کی آگے کی لٹیں چاندی بننا شروع ہو گئیں تھیں۔

میں نے کہا "تم نے صحیح کہا۔۔اس کے بال سفید ہونا شروع ہو گئے ہیں۔۔بیچاری!”

مجھے بھی اس پر بے انتہا رحم آیا۔

بیوی نے ایک لمبی آہ بھری۔

میں نے کہا ” ہم مرد بڑے خود غرض ہوتے ہیں۔۔۔ہم حسن پرست ہوتے ہیں۔۔۔ہمیں رنگ روپ چاہئے۔۔۔ناک نقشہ چاہئے۔۔۔حسن چاہئے۔۔۔حسن اخلاق نہیں۔۔۔تم دیکھو۔۔۔بعض اوقات حسین عورتیں چاہے جتنی بھی Rude ہو۔۔۔بدتمیز۔۔۔بد اخلاق۔۔۔مگر ان کی شادی فوراً ہو جاتی ہے۔۔۔ ارے۔۔بد تمیز۔۔۔بد اخلاق تو چھوڑو۔۔بد کردار بھی ہو تو وہ بھی اپنے گھر بار کی ہو جاتی ہیں۔۔اب یہ فلمی اداکاراؤں کو دیکھو۔۔۔چاہے ان کا ماضی کچھ بھی ہو۔۔۔مگر کوئی نہ کوئی بزنس مین۔۔۔کوئی ڈاکٹر۔۔انجینئر۔۔۔کوئی کھلاڑی۔۔۔انہیں بیاہ کے لے جاتا ہے”

بیوی کہنے لگیں "آپ صحیح کہتے ہیں مرد صرف حسن پرست ہوتا ہے”

میں نے ہنستے ہوئے کہا”مجھے انڈین فلمی گیت کے وہ اشعار یاد آرہے ہیں ”

بیوی نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ” کون سے؟”

میں نے گنگناتے ہوئے کہا

"روپ رنگ پہ مرتا آیا۔۔

صدیوں سے یہ زمانہ۔۔

میں من کی سندرتا دیکھوں۔۔۔

پیار کا میں دیوانہ۔۔۔

تمہارا پیار چاہئے۔۔۔

مجھے جینے کے لئے”

بیوی نے ہنستے ہوئے گانے کو روکنے کا اشارہ کیا۔۔۔ اور کہا۔

” مزے کی بات یہ ہے کہ اس گانے میں بھی ہیرو جو بڑے بڑے دعوے کر رہا ہے مگر جس ہیروئن سے یہ کہہ رہا ہے کہ میں روپ رنگ پر نہیں مرتا۔۔۔وہ بھی کوئی عام سی شکل و صورت کی نہیں بلکہ بہت خوبصورت ہیروئن ہے۔ہاہاہاہا”

میں نے بھی گانا چھوڑ کے قہقہہ لگایا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں اور میرے روزے

 

میں نے روزہ رکھا۔

مگر میرا روزہ کیا تھا۔

سحری کے وقت میرے

Dinning Table   پہ انواع و اقسام کی نعمتیں تھیں۔

اور پھر دن بھر میں AC میں بیٹھا رہا۔

اور پھر عصر کے بعد ہی میں بازار سے افطار کے لئے نعمتیں اکھٹی کرنے میں لگ گیا۔

افطار کے وقت بھی میرے سامنے ہر چیز، جس کی خواہش کی جا سکے، حاضر تھی۔

مجھے کیا پتہ کہ میرے گھر کے سامنے سڑک پر جو موچی بیٹھا ہے۔اس نے سحری کے وقت کیا کھایا۔۔۔چائے اور روٹی؟

مجھے کیا پتہ کہ وہ افطار کے لئے کیا انتظام کر کے بیٹھا ہے۔مگر میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ میں اس کے بارے میں سوچوں۔مجھے تو بس اپنی فکر ہے کہ افطار کے وقت میری ساری من پسند چیزیں میرے سامنے ہوں۔مجھے اپنے بچوں کی فکر ہے کہ روزہ کھلنے کے بعد ان کی فیورٹ ڈش ہونی چاہئے۔

پنکی نے چکن کے سموسے بنوائے ہیں۔

گڈو نے طارق روڈ کی کریم والی فروٹ چاٹ کی فرمائش کی ہے۔وہاں بھی جانا ہے۔

حماد کہہ رہا تھا کہ وہ اسٹرابری ملک شیک سے روزہ کھولے گا۔اس کے لئے اسٹرابری بھی لینی ہے۔بیگم کوتو فریسکو بنس روڈ کے دہی بڑے پسند ہیں۔وہاں بھی جانا ہے۔

اور ہاں۔۔۔میں نے بیگم سے کہا ہے کہ میں سموسے، چاٹ وغیرہ کچھ نہیں کھاؤں گا۔میرے لئے بس بریانی ہونی چاہئے۔

کس قدر مصروف زندگی ہے۔۔فرصت ہی نہیں اپنے علاوہ کسی کے لئے سوچنے کی۔

اے موچی!تو ایک دن اور۔۔۔

پیاز اور روٹی سے روزہ کھول لے گا۔۔

تو کیا مر جائے گا؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہم عجیب لوگ

 

ہماری عجیب تربیت ہوئی تھی۔۔ہم دوسرے کے پیسے بھی ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔۔۔اسکول کی زندگی میں جب چھٹی کی گھنٹی بجتی تو سارے بچے بیگ اٹھا کے یہ جا وہ  جا۔۔میں سب سے آخر میں پنکھے اور لائٹ کے سوئچ آف کر کے کلاس سے نکلتا تھا۔ بہت سے کلاس فیلو ہنستے تھے ”  ابے! تیرے باپ کا اسکول ہے؟”

میں کہتا "نہیں یار۔۔۔باپ کا تو نہیں۔۔۔مگر۔۔۔اگر چوکیدار اوپر نہیں آیا تو یہ پنکھا اور لائٹ کل صبح تک جلتی رہے گی”

"تو پھر؟ جلنے دے”

میں کہتا "نہیں یار۔۔۔ بجلی تو ضائع ہوتی ہے نا ”

جبکہ اس زمانے میں بجلی کا یہ بحران بھی نہیں تھا۔ پھر بھی ہم عادت سے مجبور تھے۔

چار سال پہلے والد صاحب لیاقت ہسپتال میں داخل تھے۔ ان کا دل کا مسئلہ تھا۔ آپریشن ہوا تھا۔ پیس میکر (بیٹری)  لگا تھا۔رات میں اور والدہ ان کے پاس رکے تھے۔ کوئی رات کے تین یا چار بجے ہوں گے۔میں بیٹھ بیٹھ کر تھک گیا تھا اس لیے والدہ سے کہہ کے وارڈ سے باہر چکر لگانے نکلا۔میں نے دیکھا کہ ہسپتال کے ویٹنگ روم میں کوئی بھی نہیں تھا۔مگر ساری لائیٹیں جل رہی تھیں اور پنکھے چل رہے تھے۔میں نے یہاں وہاں دیکھا۔ کوئی نظر نہیں آیا۔میں نے سارے پنکھوں اور لائٹوں کے سوئچ آف کئے۔صرف ایک لائٹ جلتی رہنے دی۔ میں یہ کام کر کے آگے بڑھا۔جو مڑ کے دیکھا تو ایک الماری کے پیچھے سے ایک نرس برآمد ہوئی۔اس نے مجھے گھور کے دیکھا۔اور سارے پنکھے اور لائٹس کے سوئچ دوبارہ آن کر دئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

اظہارِ تشکر

 

سڑک پر تھوڑا سا پانی گرا  ہوا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک کوّا کہیں سے آیا اور اس میں چونچ ڈال کر پانی پینے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر یوں لگ رہا تھا کہ پانی کم ہونے کی وجہ سے وہ پی نہیں پا رہا تھا۔میں نے قریب ہی کھڑے  ہوئے ایک ٹھیلے والے کی ٹنکی سے ایک دو گلاس پانی کے بھرے اور سڑک پر بہا دئیے۔چونکہ وہاں کوئی اور برتن بھی نہیں تھا اور گلاس میں اس کی چونچ نہیں جا سکتی تھی۔ میری سمجھ میں یہی طریقہ آیا۔ میں نے دیکھا کہ اب وہ آرام سے چونچ ڈالے بیٹھا  ہوا ہے۔

کچھ دیر پانی پینے کے بعد اس نے یہاں وہاں دیکھا اور اڑ کے قریب ہی دکان کے سائن بورڈ پر جا بیٹھا۔ میں یہ منظر دیکھنے کہ بعد اب اپنے کام کی طرف روانہ  ہونے کے لئے آگے بڑھا کہ یکایک وہ کوا اڑتا ہوا آیا اور میرے سر پر زور سے اپنی چونچ ماری اور پھر فضاؤں میں غائب ہو گیا۔

میں یہ سوچنے لگا کہ یا اللہ!

یہ کیا ماجرا ہے؟

میں نے تو اپنے طور پے اس کی مدد کرنے کی کوشش کی اور وہ مجھے ہی ٹھونگ مار کے  چلا گیا۔

کیا اسے میرا یہ طریقہ پسند نہیں آیا؟دن بھر کی مصروفیت کے بعد رات جب میں بستر میں لیٹا تو مجھے یہ واقعہ یاد آیا۔

میں نے اپنے آپ سے کہا کہ

حنیف سمانا! تم ہر کسی سے اپنے حسبِ منشا ردِ عمل کی توقع کرتے ہو۔ یہ کوا تمھیں کیا جھک جھک کے آداب بجا لاتا۔ یہ کسی کالج یا یونیورسٹی کا فارغ التحصیل ہے۔ ارے اب تو یونیورسٹیوں اور کالجوں سے فارغ  ہونے والوں کے ردِ عمل بھی دیکھ لو۔ استاد جو ان کا محسن ہوتا ہے۔ اس کے سامنے ٹیبل پہ گن رکھ دیتے ہیں کہ نمبر بڑھاؤ۔ ممبران اسمبلی ذرا ذرا سی بات پر اسمبلی میں پوری قوم کے سامنے ایک دوسرے کی ماں بہن ایک کر دیتے ہیں۔ تو پھر یہ تو کوا تھا اورہوسکتا ہے کہ اس کے ہاں اظہارِ تشُکر کا یہی طریقہ رائج ہو کہ جو مدد کرے اسے ٹھونگ ماری جائے۔

٭٭٭

 

 

 

سی سی ٹی وی کیمرہ

 

میں نے اپنے پیارے دوست "مولوی” کے موبائل پہ کال کی۔ مولوی نے لائن کاٹ دی۔

مجھے حیرت ہوئی۔مگر شام کے وقت مولوی خود میرے گھر حاضر ہو گئے۔

میں نے کہا "یار مولوی! یہ کیا بدتمیزی ہے ؟”

کہنے لگے۔”سوری یار! اصل میں میں نے ایک نئی جاب جوائن کی ہے۔وہاں باس بہت سخت ہے ”

میں نے کہا "اوہو۔۔۔مبارک ہو۔۔۔کہاں لگ گئے؟”

مولوی بولے "یار طارق روڈ پر ایک پرائیویٹ فرم ہے۔ بس ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا ہے ”

میں نے کہا "گڈ۔۔۔مگر یہ کیا کہ آدمی فون بھی رسیو نہ کرے”

مولوی بولے ” یار! وہ باس بہت ہی سخت ہے۔ دو منزلہ بلڈنگ ہے۔ اور پوری بلڈنگ میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں۔باس کا کمرہ سیکنڈ فلور پر ہے۔ مگر وہ وہاں سے بیٹھ کر دونوں فلور کے ہر ملازم پر نظر رکھتا ہے۔کل صبح گھر سے میری بیوی کی کال آئی۔میں نے موبائل کان سے لگایا کہ اچانک انٹرکام کی گھنٹی بجی۔ میں نے بیوی کو ہولڈ پہ رکھا اور انٹر کام اٹھایا۔

"جی سر؟”دوسری طرف باس آگ بگولہ ہوا ہوا تھا۔

"یہ ڈیوٹی ٹائم میں آپ موبائل پہ کس سے بات کر رہے ہیں ؟”

میں نے کہا "سر میرے گھر سے فون ہے۔۔بیوی کا”

کہنے لگا "آپ صبح جب گھر سے نکلتے ہیں تو بیوی سے بات کر کے نہیں آتے؟

آئندہ ڈیوٹی ٹائم میں موبائل آف رکھیں۔ یہ کہہ کر رسیور پٹخ دیا”

میں نے افسوس کا ا ظہار کیا۔ "اوہو۔۔۔اتنی سختی۔۔۔تم کہیں کسی فوجی ادارے میں تو نوکری نہیں لگ گئے؟”

"ارے نہیں یار!” مولوی بولے ” وہ امپورٹ ایکسپورٹ کی فرم ہے۔اور اتنے نخرے ہیں ”

پھر کہنے لگے”میں نے تو بھائی اب کسی کا بھی فون رسیو کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔لنچ کے لئے جاتا ہوں۔یا باتھ روم جاتا ہوں تو بیوی سے بات کر لیتا ہوں ”

"ہاہاہاہا” میں نے قہقہہ لگایا ” باتھ روم میں نہیں ہے سی سی ٹیوی کیمرہ ؟”

"ابے نہیں یار !” مولوی بیزاری سے بولے۔پھر کچھ سوچ کر کہنے لگے۔

"یار حنیف! ہم جتنا باس سے ڈرتے ہیں اس سے اگر آدھا حصّہ بھی اللہ سے ڈریں تو سیدھے جنت میں جائیں۔۔۔کیا خیال ہے؟”

میں نے کہا ” صحیح کہہ رہے ہو۔بلکہ باس کو چھوڑو۔ تم تو جتنا اپنی بیوی سے ڈرتے ہو اس کا اگر چوتھائی حصّہ بھی اللہ سے ڈرو  تو تمہاری جنت۔۔بمع حور و قصور۔۔ سو فیصد پکی ”

مولوی نے مجھے غصّے سے دیکھا۔

٭٭٭

 

 

 

 ا للہ آپ کا ہوا

 

اللہ کے دوست بننا چاہیں۔۔۔ تو خود غرضی چھوڑ دیں۔۔۔ہمیشہ اپنی ذات سے بلند ہو کے سوچیں۔۔اگر کسی چیز کو خود میں۔۔۔ اور دوسرے میں۔۔۔۔ تقسیم کرنے کا حق دیا جائے۔۔۔۔ تو اپنے لئے چھوٹا یا کم تر حصّہ پسند کریں۔۔۔اور دوسرے کے لئے زیادہ اور برتر۔۔۔۔ دوسروں کے لئے اپنی خواہشات کی قربانی دیں۔۔۔ایسا کرنے سے یقیناً آپ کو محسوس ہو گا کہ آپ اللہ سے قریب ہو رہے ہیں۔

اللہ کو پانا زیادہ مشکل نہیں۔۔۔نہ جانے انسان کہاں کہاں اسے ڈھونڈتا ہے۔۔شب و روز کی عبادتوں اور ریاضتوں میں۔۔۔مزارات و مسجدوں میں۔۔کتابوں اور وظیفوں میں۔۔

قصے اور کہانیوں میں۔۔پیروں اور مرشدوں میں۔

اے انسان!

اللہ تو تیرے پاس موجود ہے۔

صبح جب آپ کا بچہ اسکول جا رہا ہوتا ہے۔ تو آپ کو کیسی اس کی فکر ہوتی ہے کہ وہ لنچ بکس لے کے جائے۔اسکول میں بھوکا نہ ہو۔تھرماس ساتھ ہو۔اسے پیاس نہ لگے۔ سردی ہے تو سویٹر پہنا ہو۔اسے سردی نہ لگے۔

کیا کبھی اسی طرح کا خیال راستے میں کچرا چننے والے افغانی بچے کے لئے آیا؟

کہ وہ بھوکا نہ رہے۔وہ پیاسا نہ رہے۔اسے سردی نہ لگے۔

جس روز آپ کے دل میں یہ خیال آیا۔

اللہ آپ کو مل گیا۔

اللہ آپ کا ہو گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

انا کی ٹکسال

 

ہم میں سے بہت سے لوگ زندگی بھر اچھا بننے کی اتنی کوشش نہیں کرتے جتنی کہ اچھا نظر آنے کی کرتے ہیں۔ ہم اندر سے اتنے اچھے نہیں ہوتے جتنا کے باہر سے نظر آنا چاہتے ہیں۔

ہمارے دل اتنے صاف نہیں ہوتے، جتنا کہ ہم ظاہر کرتے ہیں۔ ہم دوسروں سے اتنے مخلص  یا ان کے ہمدرد و غم خوار نہیں ہوتے، جتنا کہ ہم بنتے ہیں۔ہم اپنی خود غرضیوں پر خلوص کی چادریں چڑھائے گھومتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی ہماری ساری ساری زندگیاں اسی اداکاری میں یا دوسرے لفظوں میں منافقت میں گزر جاتیں ہیں۔ پھر ہمیں یہ بھی شکایت رہتی ہے کہ لوگ ہماری اچھائیوں کی قدر کیوں نہیں کرتے۔ہم سے متاثر کیوں نہیں ہوتے۔

وجہ صاف ہے۔

دوستو!

کھوٹے سکے کو کون قبول کرتا ہے؟

ہم سب کھوٹے سکے ہیں اپنی انا کی ٹکسال میں ڈھالے ہوئے۔

اور پھر انجام۔

 

نہ خدا ہی ملا، نہ وصال صنم

نہ ادھر کے رہے، نہ ادھر کے رہے

٭٭٭

 

 

 

مجبوریاں

 

روٹی کا حصول، یا بھوک

یہ ہمارا مسئلہ ہی نہیں کہ ہم اس کے بارے میں سوچیں

جن کا ہے وہ سوچتے رہیں

ہمارا مسئلہ تو یہ ہے کہ آج کونسی ڈش پکانی ہے

یا کھانی ہے

پانی کا حصول، یا پیاس

یہ بھی ہمارا مسئلہ نہیں کہ ہم اس کے بارے میں سوچیں

تھر والوں کو چاہئے کہ وہ اس بارے میں سوچتے رہیں

ہمارا مسئلہ تو یہ ہے کہ آج منرل واٹر سپلائی کرنے والی گاڑی آئی یا نہیں

کپڑا، تن ڈھانپنا

یہ ہمارا مسئلہ ہی نہیں کہ ہم اس کے بارے میں سوچیں

یہ سفید پوشوں کے سوچنے کی چیزیں ہیں

ہمارا مسئلہ تو یہ ہے کہ "ثنا سفینہ” یا "عاصم جوفا” کے لان کے کون سے نئے ڈیزائن آئے ہیں۔۔دس اور پندرہ ہزار روپے والے۔۔۔ جو ہماری بیگمات پہن کے سوسائٹی میں ہماری ناک اونچی رکھ سکیں

یہ لوگ جو یہاں بستے ہیں

یہ دوسرے سیارے کی مخلوق ہیں

اور ہم دوسرے سیارے کی

ہمیں ان سے کیا  لینا دینا

یہ تو ہماری مجبوری ہے کہ ہم نے انہیں زندہ چھوڑا  ہوا ہے

ہمیں گھر میں صفائی والا لڑکا یا کام والی ماسی کی ضرورت ہوتی ہے

ڈرائیور چاہئے، خانسامہ، مالی، چوکیدار چاہئے

اور پھر ہمیں اپنا حکم چلانے کے لئے بھی لوگ چاہئیں

حکومت کرنے کے لئے بھی لوگ چاہئیں

ووٹ لینے کے لئے بھی لوگ چاہئیں

نعرے لگانے اور ہمارے جلسوں میں کرسیاں بچھانے کے لئے بھی لوگ چاہئیں

یہ ہماری مجبوریاں ہیں

مجبوریاں

ورنہ ہم تو انہیں کب کا مار چکے ہوتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ارے کوئی اس کی بھی تو سنو !

 

ایک لطیفہ سنئیے۔

ایک "بڑی بی” سڑک پار کر رہیں تھیں کہ ایک گاڑی ان کے کپڑوں کو ہلکا سا چھو کے گزر گئی بڑی بی وہیں سڑک پر ہاتھ پیر پھیلا کے اور آنکھیں بند کر کے لیٹ گئیں۔حسب معمول ہجوم لگ گیاجیسا کہ ہمارے ہاں کا طریقۂ کار ہے ہجوم میں سے لوگ اپنے اپنے مشورے دینے لگے۔

کہیں سے آواز آئی”ایمبولینس بلاؤ”

کوئی کہنے لگا "ارے نہیں۔۔۔ کسی رکشے میں ڈال کے لے جاتے ہیں ”

کسی نے کہا "اس کے سر پہ پانی ڈالو۔۔ہوش آ جائے گا ”

کوئی بولا  "پاس ہی ایک ڈاکٹر ہے۔۔۔اسے لے آؤ ”

ایک بچے نے ہجوم میں سے آواز لگائی "امّاں کو لسسی پلاؤ لسسی۔۔ابھی ہوش میں آ جائے گی”

بڑی بی نے فوراً آنکھیں کھولیں اور بچے کی طرف اشارہ کر کے بولیں۔

"ارے کوئی اس کی بھی تو سنو”

مجھے یہ لطیفہ کل عید کی میری پوسٹ  "میری عید کی نماز کے بدلتے ساتھی”

کے کمنٹس پڑھتے ہوئے یاد آیا۔

ہمیشہ کی طرح میرے احباب نے کل بھی مجھے عزت بخشنے میں فراخدلی کا ثبوت دیا اور بہت زیادہ مہربان رہے میں ان کا ہمیشہ مشکور رہوں گا۔بہت ہی دلچسپ اور حوصلہ افزا ا تبصرے پڑھنے کو ملے۔مزہ  تو جب آیا کہ ہمارے ایک مہربان اور ایک خاتون کے درمیان ایک دلچسپ مکالمہ ہوا۔

سب احباب تحریر کی تعریف فرما رہے تھے  تو  ایک خاتون نے بھی داد دی۔

وہ مہربان بولے  "اس تحریر پر صرف داد کافی نہیں ”

وہ خاتون بولیں "تو کیا کراچی جا کر کندھا تھپتھپا کر آئیں ؟”

وہ مہربان بولے "ایسے موقع پر صرف کندھا نہیں تھپتھپایا جاتا، سینے سے لگایا جاتا ہے”

میں نے سوچا کہ اس وقت مداخلت کروں لطیفے کی بڑی بی کی طرح کہ۔۔۔

"ارے کوئی اس کی بھی تو سنو”

لیکن اس سے پہلے خاتون نے بریک لگا دی۔

"جی بالکل ٹھیک کہا۔۔آپ کو کراچی جا کر اپنی دلی خواہش پوری کرنی چاہئیے”

٭٭٭

 

 

اے ابر کرم

 

 

کراچی میں اگر محکمۂ موسمیات کہہ دے کہ”بارش ہو گی”

تو سمجھ لو کہ نہیں ہو گی۔

پچھلی بار بھی ہم نے محکمے کی پیشین گوئی کی وجہ سے زر کثیر خرچ کر کے چھتری خرید لی۔

حالانکہ چھتری  بیچنے والا بھی ہمیں سمجھا تا رہا کہ بھائی بارش نہیں ہو گی۔مگر ہمیں اپنے محکمے پر اندھا اعتماد تھا، جیسے منہاج القرآن والوں کو طاہر القادری پر ہے۔

بس پھر کیا تھا۔ بیوی سے کہا کہ پکوڑے بنانے کے لئے سامان تیار رکھے۔ایک بارش کی سی ڈی بھی خریدی۔جس میں وہ گانا تھا۔

"برسات کے موسم میں۔۔۔تنہائی کے عالم میں۔۔۔میں گھر سے نکل آیا۔۔۔بوتل بھی اٹھا لایا۔۔۔ابھی زندہ ہوں تو جی لینے دو۔۔۔بھری برسات میں پی لینے دو ”

اس گانے کو حقیقت کا رنگ دینے کے لئے مشروب مشرق "روح افزا” کی بوتل بھی خرید لی۔کیونکہ ہم تو روح افزا پی کے بھی بہک جاتے ہیں۔آدمی میں بھٹکنے اور بہکنے کی خدا داد صلاحیت ہونی چاہیے۔پھر شراب لازمی نہیں۔نہ ہی کسی کا بھٹکانا اور بہکانا لازمی ہے۔خود ہی بھٹکتا اور بہکتا چلا جاتا ہے۔

فراز کا شعر بھی صاف ستھرا کر کے، پالش کر کے تیار رکھا۔

"ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز

کچا تیرا مکان ہے کچھ تو خیال کر”

کہ جیسے ہی بارش شروع ہو گی تو دوستوں کو میسیج کر دیں گے۔دوست بھی کہیں گے کہ

"واہ! بڑا با ذوق بندہ ہے”

لیکن پتا چلا تیز آگ برساتی دھوپ نکل آئی۔ہمارا پارہ ہائی ہوا۔جیسا زید حامد کا غزوۂ  ہند کے ذکر پر ہوتا ہے۔محکمہ موسمیات والے کو فون کیا کہ اسے کھری کھری سنائیں۔

انہوں نے فون پر کیسٹ لگا رکھی تھی۔

"آپ کا مطلوبہ صارف بارش ڈھونڈنے گیا ہے۔برائے مہربانی کچھ دیر بعد کال کیجئے”

اب ہم کراچی والے بیچارے! دکھیارے !بس بارش کی تصویریں دیکھ کر ہی دل بہلاتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

بنئیے کا بیٹا

 

ایک مہربان ہیں۔نام ہے ان کا ستار بھائی پاپڑی والا۔

کل مجھ سے کہنے لگے۔”حنیف بھائی! یہ جو آپ صوبا سام (صبح شام) فیس بک پر مغج ماری (مغز ماری) کرتے رہتے ہو۔میرا ا مطلب ہے لکھتے رہتے ہو۔تو اس کی کوئی پے منٹ وے منٹ ملتی ہے۔فیس بک والے کوئی روپیہ ووپیہ  د یتے ہیں ؟”

میں نے ان کی طرف دیکھا۔جی چاہا کہ اپنا سر ان کے سر مبارک پر دے ماروں۔مگر اندیشہ اپنے ہی نقصان کا تھا کیونکہ ان کا سر میرے سر سے کافی بڑا تھا۔ہرچند کے اندر سے بالکل ہمارے حکمرانوں کے سروں جیسا۔

ہمارے پیارے دوست "مولوی” بھی قریب ہی بیٹھے ہوئے تھے۔وہ بھی میری جنجھلاہٹ پر زیر لب مسکرائے۔میں نے سوچا کے اس کاروباری آدمی کو میں کیسے سمجھاؤں کہ ہر کام روپے پیسے کے لئے نہیں کیا جاتا۔مگر پھر یکایک میں نے اپنے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ پھیلائی۔

"جی جناب۔۔۔پاپڑی والا صاحب۔۔۔یقیناً دیتے ہیں۔۔۔اگر نہیں دیتے۔۔۔ تو ہم کیا پاگل ہیں۔۔۔ جو روز کا ایک آرٹیکل لکھتے”

"کتنے دیتے ہیں ؟” پاپڑی والا نے سوال کیا۔

میں نے کہا” یہ جو ہمارے اسٹیٹس یا فوٹو پر ایک "لائک” لگتا ہے نا۔۔۔اس کا ایک پوئنٹ ہوتا ہے۔۔۔جس آدمی کے پچاس ہزار پوائنٹس ہو جاتے ہیں۔۔تو فیس بک والے اسے ہونڈا  موٹر سائیکل  زیرو میٹر دیتے ہیں ”

پاپڑی والے کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا”ہیں ؟”

میں نے کہا "یہی نہیں۔۔۔بلکہ جس کے  دو لاکھ پوائنٹس ہو گئے نا۔۔۔تو اسے فیس بک والے بحریہ ٹاؤن میں ساٹھ گز کا پلاٹ دیتے ہیں ”

اب تو پاپڑی والے کی حالت ایسی ہو گئی کہ جیسے بے ہوش ہو جائیں گے۔

میں نے مسکراتے ہوئے کہا "پاپڑی والا بھائی۔۔۔میں اب ہونڈا  موٹر سائیکل  سے چند قدم پر ہوں۔۔آپ پلیز۔۔۔میرے ہر آرٹیکل پر ایک لائک مار دیا کرو۔۔۔بلکہ اپنے بیوی بچوں کو بھی اس کام پر لگا دو۔۔۔ اگر آپ کی دعا شامل حال رہی تو بہت جلد بحریہ ٹاؤن میں پلاٹ بھی حاصل کر لیں گے”

"اچھا؟ مگر مجھے تو یہ نہیں معلوم تھا” وہ حیرت سے بولے۔

"کیوں ؟ آپ نے فیس بک کی "ٹرمز اینڈ کنڈیشنز نہیں پڑھیں ؟” میں نے اور پکا کیا۔

بولے "نہیں ”

"اس میں سب صاف صاف لکھا ہے” میں نے کہا "ویسے کچھ بھی کہو۔یہ گورے ہیں ایماندار محنت کا صلہ ضرور دیتے ہیں، ہیں نا؟” میں نے پوچھا

دھیمی آواز میں بولے "ہاں ”

ان کے رخصت ہونے کے بعد مولوی گرم ہو گئے”یہ کیا حرکت ہے؟”

میں نے کہا "کون سی؟”

وہ بولے "اب یہ بیچارہ اپنی کریانے کی دکان چھوڑ کے سارا دن فیس بک پر بیٹھا رہے گا”

"یہ دکان نہیں چھوڑے گا "میں نے کہا”یہ تو عید والے دن بھی دکان بند نہیں کرتا، بلکہ قیامت کے روز بھی ایک طرف حضرت اسرافیل صور پھونک رہے ہوں گے۔اور دوسری طرف پاپڑی والا گاہک ڈیل کر رہا ہو گا۔حضرت اسرافیل سے آواز دے کے کہے گا۔اے بھائی! رک جا دو منٹ۔۔۔ذرا کسٹمر چلا جائے۔۔تجھے بھی بڑی جلدی پڑی رہتی ہے قیامت لانے کی۔۔صوبا (صبح) سے پہلا کسٹمر لگا ہے”۔ میں نے پاپڑی والا ہی کے انداز سے جملہ پورا کیا تو مولوی کے قہقہے نے چھت میں شگاف ڈال دیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

چشم بد دور

 

کبھی کبھی اعلیٰ تعلیم بھی بہت سے لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑتی۔

ذہنیت وہی رہتی ہے۔

ہمارے ایک مہربان ابرار صاحب نے "سی۔اے” کیا ہوا ہے۔

ایک غیر ملکی فرم میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔

مگر سوچ کا انداز وہی جو سڑک پر بیٹھے ہوئے ایک بیچارے غیر تعلیم یافتہ چھابڑی والے کا ہوتا ہے۔ہاتھ میں اور گلے میں رنگ برنگے دھاگے باندھے ہوئے ہیں۔۔۔پوچھو تو پتہ لگے گا کہ”یہ کالا والا دھاگہ داتا دربار کے باہر ایک فقیر نے دیا تھا۔۔۔کاروبار میں ترقی کے لئے ہے۔۔۔ یہ ہرے رنگ کا دھاگہ پاک پتن کے مجاور نے دیا تھا۔۔۔بلاؤں سے محفوظ رکھتا ہے۔۔۔ یہ لال رنگ کا دھاگہ لال شہباز قلندر کے مزار کا ہے۔۔۔یہ دھاگہ اگر کسی کو نظر لگ جائے اس کے لئے ہے”

میں تو تکلفاً چپ رہا مگر ہمارے دوست مولوی بول پڑے،

"ابرار بھائی! آپ کو بھی نظر لگتی ہے؟”

ابرار بھائی نے ان کو غصے سے دیکھا۔

"کیوں میں انسان نہیں ہوں ؟”

مولوی بھی ڈھیٹ ہیں کہنے لگے۔

"نہیں میں سمجھا کہ صرف کرینہ کپور کو ہی نظر لگتی ہے ”

بات بگڑنے والی تھی کہ میں نے مولوی کا ہاتھ دبایا۔۔۔ان کے جانے کے بعد مولوی نے بتایا کہ ابرار بھائی انتہائی وہمی ہو گئے ہیں۔۔۔کوئی شخص ان کی گاڑی کو بغور دیکھتا ہوا گزر جائے تو نظر کی سورۃ  پڑھنا شروع کر دیتے ہیں کہ گاڑی کو نظر نہ لگ جائے۔۔پہلے بھی ایکسیڈینٹ ہو گیا تھا۔۔۔کوئی ان کے گھر جائے تو اس شخص کی نظریں دیکھتے ہیں کہ کہاں دیکھتا ہے کہیں گھر کی کسی چیز کو نظر تو نہیں لگا رہا۔۔۔اپنے گھر کے مین گیٹ پہ طرح طرح کے رنگ برنگے دھاگے باندھے ہیں۔۔جو انہیں مختلف بلاؤں سے بچاتے ہیں۔۔۔گھر کے درو دیوار مختلف تغروں سے بھرے پڑے ہیں۔۔۔مولوی کی بات سن کے میں نے کہا۔

"انسان بھی عجیب چیز ہے۔۔۔نہیں مانتا تو خدا کو بھی نہیں مانتا۔۔اور ماننے پہ آتا ہے تو سب کچھ مانتا چلا جاتا ہے۔۔۔کبھی رب کو بھی سجدہ نہیں کرتا۔۔۔اور کبھی شجر اور ہجر کو بھی مسجود بنا لے گا۔۔۔ہر سیڑھی کو سجدہ کرتا چلا جائے گا۔

٭٭٭

 

 

 

چٹوری قوم

 

حالات جو بھی ہوں کراچی والے رات کو آپ کو مختلف فوڈ اسٹریٹ پر نظر آئیں گے۔ بلکہ اکثر پوش علاقوں میں تو اعلیٰ قسم کے ریسٹورانٹس میں آپ کو خالی ٹیبل کے لئے انتظار کرنا پڑے گا۔

قوم کھانے پینے پہ تلی ہوئی ہے۔ خدا جانے یہ زندہ دلی کہلائے گی یا بے حسی۔ شہر میں چاہے جس قسم کی بھی دہشت گردی کا راج ہو۔ پندرہ پندرہ بیس بیس جنازے اٹھ رہے ہوں۔مگر لوگوں کے معمولات میں فرق نہیں آتا۔اب بھی شادی بیاہ کی تقاریب وہی رات کے ایک ایک دو دو بجے تک جاری رہتی ہیں۔ شادی ہال اور لان جگمگاتے نظر آتے ہیں۔ وہی مہندی کی رسمیں۔ وہی ڈھول باجے۔ وہی نکاح اور ولیمے کی پر تکلف دعوتیں۔وہی فنکشنز۔

یا تو ہم عادی ہو گئے ہیں برے حالات کے۔ چونکہ پچھلے 20 سال سے اس شہر پر دہشت کے بادل منڈلا رہے ہیں۔یا پھر بے حس ہو گئے ہیں۔

مشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں کہ "گورکن اگر ہر میت پر رونے لگ جائے تو اندھا ہو جائے”

ہمارا بھی یہی حال ہے۔ شاید ہمارے اشکوں کے سوتے خشک ہو گئے ہیں یا پھر آنکھوں کا پانی مرگیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

دعا میں خود غرضی

 

ہمارے پیارے دوست مولوی نماز تو جیسے تیسے پڑھ لیتے ہیں۔مگر دعا بڑی عاجزی اور انکساری سے بلکہ "خشوع و خضوع ” کے ساتھ کرتے ہیں۔جمعہ کی نماز کے بعد امام صاحب نے دعائیں مانگنی شروع کیں اور مولوی نے بلند آواز میں "آمین اور ثم آمین” کے نعرے لگانے شروع کئے۔”آمین” چھوٹی موٹی دعاؤں پر اور "ثم آمین” ایسی دعاؤں پر جو مولوی کے کام کی تھیں۔

مثلاً امام صاحب کہتے کہ "یا اللہ! عالم اسلام کا بول بالا کر ”

تو مولوی بد دلی سے آہستہ آواز میں "آمین” کہتے۔

مگر جب امام صاحب کہتے کہ ” یا اللہ کاروبار میں برکت عطا کر ”

تو مولوی اتنا زور سے "ثم آمین” کہتے کہ پہلی صف میں بیٹھے نمازی بھی مڑ کے دیکھتے۔

نماز کے بعد ہم مسجد سے باہر نکلے تو مولوی کہنے لگے۔

"یار! تمہیں میں نے کبھی نماز کے بعد ڈھنگ سے دعا مانگتے نہیں دیکھا۔ایسے ہی سلام پھیرا اور اٹھ کے بھاگے”

مجھے ہنسی آ گئی۔۔۔میں نے کہا "تو کیا میں بھی تمہاری طرح آمین اور ثم آمین کے نعرے لگاؤں ؟”

مولوی بولے "پھر بھی دعا تو مانگنی چاہئے نا”

میں نے کہا۔۔”اس سے کیا مانگوں۔۔جو خود میری ساری ضرورتیں جانتا ہے۔۔۔اور جو بن مانگے بھی مجھے میری اوقات سے زیادہ دیتا ہے”

٭٭٭

 

 

 

گلا تو کاٹ دیا

 

میں نے گوگل سے اِیک انگریز عورت کی تصویر لی کہ جس کا گلا کٹا ہوا تھا اور پھر اپنے پیارے دوست  "مولوی”  سے کہا کہ اس تصویر کی مناسبت سے کوئی شعر تلاش کر و۔

کہنے لگے۔ "۔۔اس پر تو یہ شعر فٹ  آئے گا  ”

میں نے پوچھا۔”کون سا؟”

کہنے لگے۔

"گلا  تو کاٹ دیا اِہل مدرسہ نے میرا

کہاں سے آئے صدا لا الٰہ ٰاِلا ا اللہ”

مجھے غصہ آ گیا۔۔”یار مولوی! کچھ تو خدا کو مانو۔۔۔کہاں یہ تصویر۔۔۔اور کہاں علامہ کا  بے مثل شعر”

مولوی نے زور کا قہقہہ لگایا۔۔۔ "بیٹا! یہی شعر سوٹ کرتا ہے۔۔۔اِس "بے حیا” کا گلا اِہل مدرسہ ہی کاٹ سکتے ہیں ”

میں نے کہا۔ "تو پھر دوسرے مصرعے کا یہاں کیا جواز”

مولوی نے حیرت سے پوچھا "کیا مطلب؟”

میں نے کہا۔”دوسرا مصرعہ

کہا سے آئے صدا لا الٰہ ٰاِلا ا للہ”

مولوی مسکرائے۔۔”مدرسے  سے ہی آئے گی صدا لا الٰہ ٰاِلا اللہ۔۔۔وہ بھی اس کو کاٹنے کے بعد۔۔ہا ہا ہا ہا ہا”

مولوی قہقہے لگانے لگے۔۔

میں نے کہا۔۔”تم ہی لوگوں نے بیچارے دینی مدارس والوں کو بدنام کیا ہے”

مولوی طنزیہ انداز میں مسکرائے۔

"اوہو۔۔آج تو کمال ہو گیا بھئی۔۔آپ اور اُن کی حمایت۔

آپ کے لب پہ اور وفا کی قسم

کیا قسم کھائی ہے خدا کی قسم”

میں نے کہا۔۔” دیکھو جو بات غلط ہو گی تو غلط کہی جائے گی۔۔مگر یہ مان لو کے مدارس وہ کام کر رہے ہیں جو ریاست کو کرنے چاہیے۔۔۔لاکھوں غریب بچوں کو مفت خوراک، کپڑا اور ابتدائی تعلیم۔۔۔ یہ کام ایک فلاحی ریاست کے کرنے کے ہیں۔۔جو وہ کر رہے ہیں ”

مولوی مسکرائے، کہنے لگے۔ ” ریاست بھی تو کر رہی ہے”

میں نے غصے سے کہا "کہاں کر رہی ہے؟”

مولوی کہنے لگے۔

"دیکھو۔۔۔یہ ہمارا جتنا بھی حکمران طبقہ ہے نا، بڑے بڑے بیوروکریٹ ہیں،  فوجی جرنیل ہیں۔۔اِن سب کے بچے ریاست کے خرچے پر یورپ اور امریکہ کے اعلیٰ کالج اور یونیورسٹیوں میں بالکل مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔۔اور ہاں۔۔وہاں اُن کی خوراک، کپڑا اور رہائش بھی بالکل فری۔۔یعنی ہماری فلاحی ریاست کے ذمے”

مولوی چپ ہوئے تو میں نے کہا۔

"مولوی تمہیں خدا سمجھے”

٭٭٭

 

 

 

 

 

مغربی استعمار اور حلوہ پوری

 

صبح صبح کا وقت تھا۔۔میرے فون پہ میرے دوست مولوی کا msg آیا۔۔۔”خوشگوار صبح مبارک”

مولوی نے جب سے موبائل پرmsgs کا package کرایا ہے۔۔۔ان کے وقت بے وقت ایسے msg آتے رہتے ہیں۔۔۔

انہوں نے جیسے تیسے اپنے 500 msg پورے کرنے ہوتے ہیں۔۔۔

ایک msg بھی کم نہیں کرتے کہ کہیں غیر ملکی کمپنی کو ان کی ذات سے کوئی فائدہ نہ ہو جائے۔۔package

کو پورا پورا استعمال کرتے ہیں۔

پچھلے رمضان میں تو انہوں نے حد کر دی تھی۔

"پہلے عشرے کے تیسرے روزے کی سحری مبارک”

"دوسرے عشرے کے باروے روزے کی افطاری مبارک”

اور پھر جمعرات کو "شبِ جمعہ مبارک۔۔۔”اور جمعے کے دن "جمعہ کی سہ پہر مبارک”

وغیرہ وغیرہ۔

جس زمانے میں ان کاpackage نہیں تھا۔۔۔تب تو ان کا یہ حال تھا کہ اگر گھر میں آگ بھی لگ جاتی توفائر بریگیڈ کو "مس کال” مارتے۔۔کال کرنا یاmsg کرنا تو دور کی بات۔

میں نے جب ان کا msg دیکھا۔۔تو اپنے کمرے کی کھڑکی کھولی کہ دیکھوں کہ کیسی  خوشگوار صبح ہے۔۔۔پتا چلا ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی۔ میں نے اپنا فون اٹھایا۔۔۔اور سوچنے لگا۔۔کہ انھیں جواب میں کیا لکھوں۔۔۔کیونکہ جواب نہ دو  تو بھی حضرت ناراض ہو جاتے ہیں۔۔۔

کچھ  سمجھ میں نہیں آیا۔۔بستر پر لیٹے لیٹے میں نے ریموٹ سے ٹی وی ان کیا۔۔۔تو اس میں وومنز ڈے کے حوالے سے کوئی خبر چل رہی تھی۔۔مجھے شرارت سوجھی۔۔میں نے موبائل اٹھایا۔۔اس میں msg لکھا۔” ہیپی وومنز ڈے”اور مولوی کو بھیج دیا۔۔۔

تھوڑی دیر میں فون کی گھنٹی چیخنے لگی۔۔۔دوسری طرف مولوی تھے۔۔۔نہ سلام نہ دعا۔

"یہ کیا حرکت؟”

میں نے انجان بنتے ہوئے کہا ” کون سی حرکت؟”

مولوی بولے۔۔۔”بھئی میں تمہیں ایک اچھے موسم کی مبارک باد دے رہا  ہوں اور تم مجھے؟”

"تو کیا ہوا” میں نے کہا "میں نے کوئی گالی تو نہیں دی؟”

مولوی غصے سے بولے۔۔” تمہیں پتا ہے یہ وومنز ڈے۔۔۔مدرز ڈے۔۔۔فادرز ڈے۔۔

یہ سب مغرب کے چونچلے ہیں ”

"لیکن یار!” میں نے کہا۔۔”اس میں حرج ہی کیا ہے۔۔۔ منانے میں ”

"نہیں۔۔۔ ہمیں ان کی نقالی نہیں کرنی۔۔۔” مولوی بولے”بتاؤ غضب خدا کا۔۔۔سارے سال اپنے کتے بلیوں کو اپنے ساتھ سلاتے ہیں۔۔۔اور اپنے بوڑھے ماں باپ کو اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ کر آتے ہیں۔۔۔پھر سال میں ایک دن منا کے سمجھتے ہیں بڑا احسان کیا  ماں باپ پر۔۔۔

اسی طرح عورتوں کا بھی سارے سال استحصال کرتے ہیں اور پھر سال میں ایک دن وومنز ڈے منا کر عورتوں کے ہمدرد بنتے ہیں ”

"عورتوں کا استحصال؟” میں نے حیرت سے پوچھا۔۔۔”کیا کرتے ہیں وہ عورتوں کے ساتھ ؟

بولو۔۔۔کیا کرتے ہیں وہ۔۔۔کاروکاری؟۔۔۔ونی؟۔۔ستی؟۔۔۔بولو۔۔کیا کرتے ہیں ؟

یا اپنی عورتوں کو جائیداد میں حصّہ نہ دینے کے لئے ان کی بائیبل سے شادی؟”

فون پہ مولوی کے کھنکارنے کی آواز آئی "میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ یہ کے ایف سی،  میک ڈونلڈ کے برگر اور یہ پیزا ہٹ کے پیزے مت کھانا”مولوی نے معصومیت سے کہا۔۔

"یہ ایک نہ ایک دن تمہارا ذہن بدل دیں گے۔۔۔۔ دیکھا۔۔۔ذہن بدل دیا نا ؟”

میری ہنسی نکل گئی۔ "اچھا تو پھر ایسا کرو۔۔۔مجھے واپس اپنی طرف لانے کے لئے۔۔۔اپنے ہاں کی کوئی چیز کھلاؤ” میں نے کہا۔”جلدی سے بنس روڈ سے حلوہ پوری لے کر میرے غریب خانے پر حاضر ہو۔۔۔ورنہ”

"ورنہ کیا؟” مولوی نے حیرت سے پوچھا۔

"ورنہ میں مغربی استعمار کے ساتھ مل کر تمہارے خلاف اعلان جہاد کروں گا۔۔۔ہاہاہاہا”

میں نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔مولوی کی بھی ہنسی نکل گئی۔

"ابھی آ رہا ہوں ” مولوی نے یہ کہہ کہ فون بند کر دیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

ہماری کنولیج (knowledge)

 

ہم نے کہیں لکھا تھا کہ”اداکارہ میرا انگریزوں کی زبان کے ساتھ وہی کر رہی ہیں جو انہوں نے اپنے دور اقتدار میں برصغیر کے غریب باشندوں کے ساتھ کیا تھا”

مگر صاحب میرا پر کیا منحصر۔۔۔خود ہم اکثر انگریزی کی

Mother Sister together

(مطلب ماں بہن ایک) کرتے رہتے ہیں۔۔۔خود ہمیں ملکہء برطانیہ نے کئی بار اپنے سفارت کار کے ذریعے خفیہ پیغام بھیجا کہ”اگر تم انگیزی بولنا چھوڑ دو تو میں تمہارا سالانہ 100 پونڈ کے حساب سے وظیفہ مقرر کر دیتی ہوں ”

مگر ہم نے بھی اپنے آب و اجداد کے نام پر آنچ نہیں آنے دی۔۔100 پونڈز پر لات ماری۔۔۔اور کہا

"اس رزق سے موت اچھی۔۔۔جس رزق سے آتی ہے پرواز میں کوتاہی”

وغیرہ وغیرہ۔ہاں البتہ ہم نے سفارت کار کے کان میں کہا کہ ملکہ سے کہو 100 پونڈز کم ہیں۔

بچپن میں ہمارے ایک استاد نے ہم سے کہا کہ انگریزی کی زیادہ سے زیادہ پریکٹس کے لئے آپ اپنے کسی دوست سے یہ ایگریمنٹّ کر لیجئے کہ جب بھی آپ ملیں گے۔۔صرف انگریزی میں بات کریں گے۔۔۔ہمیں یہ آئیڈیا پسند آیا۔۔ہم اس وقت ساتویں جماعت میں تھے۔۔۔اور ہمارے پیارے دوست "مولوی” بھی پانچ سال سے اسی جماعت میں تھے۔۔مولوی کا کہنا تھا کہ ہمارے ابا کہتے ہیں کہ بار بار جگہ بدلنے سے آدمی کی وقعت ختم ہو جاتی ہے پتھر اپنی جگہ بھاری ہوتا ہے۔اس لئے ہمارے لئے تو ایک ہی کلاس اچھی ہے اس طرح آدمی بار بار نیا کورس اور نئی کتابیں بھی خریدنے سے بچ جاتا ہے ”

ہم نے مولوی سے یہ وعدہ لیا کہ اب ہم دونوں جب بھی ملیں گے انگریزی میں بات کریں گے یا پھر خاموش رہیں گے۔۔اس "شملہ معاہدے” کا فائدہ یہ ہوا کہ ہم دونوں غیبت جیسے بڑے گناہ سے بچ گئے۔۔۔ہم اکثر گھنٹوں ساتھ ہوتے۔۔ مگر خاموش۔۔آہستہ آہستہ ہم ایک دوسرے کی کمپنی سے بور ہونے لگے۔۔۔اور پھر ملنا جلنا چھوڑ دیا۔

کئی ہفتے کے گیپ کے بعد ایک روز مولوی صبح صبح وارد ہوئے اور آتے ہی انگریزوں کو پنجابی زبان میں تین چار ناقابل شاعت گالیاں دیں۔۔۔پھر کہنے لگے یہ بھی کوئی زبان ہے بالکل تھرڈ کلاس۔۔۔بتاؤ۔۔۔جب "بی یو ٹی” بٹ(but) ہوتا ہے اور "سی یو ٹی” کٹ (cut)۔۔۔تو پھر "پی یو ٹی” پٹ (زبر کے ساتھ) کیوں نہیں ہوتا۔۔۔پٹ (پیش کے ساتھ) کیوں ہوتا ہے۔۔۔کسی نائی نے یہ زبان بنائی ہے۔۔۔بتاؤ۔۔۔جب ایک لفظ کو پڑھنا ہی نہیں تو اس کو لکھنے کی کیا ضرورت۔۔جاہل لوگ کنولیج کو بھی نولیج پڑھتے ہیں ”

 

ہمیں مولوی کی بات میں وزن نظر آیا۔۔۔ہم نے بھی مولوی کے ساتھ مل کر اس وقت انگریزی کی اور انگریزوں کی خوب برائی کی۔۔۔ولیم شیکسپئیر کے "چار باپ” (Forefathers) کو خوب برا بھلا کہا۔۔اور انگریزی بولنے سے توبہ کر لی۔

٭٭٭

 

 

 

 

یکم جولائی

 

آج جنم دن ہے ہمارا۔۔یکم جولائی۔۔۔سن نہیں بتائیں گے۔۔۔ اور اگر عمر بتائیں گے تو اداکارہ میرا کی طرح اپنی پچھلی بات پر قائم رہیں گے۔۔۔میرا سترہ سال پہلے بھی اکیس کی تھیں۔۔اب بھی اکیس کی ہیں۔۔ہم بھی۔۔ بیس سال پہلے بھی تیس کے تھے۔۔اب بھی تیس کے ہیں۔۔۔اپنی زبان پر قائم رہیں گے۔۔سوچتا ہوں کہ اس سالگرہ پر اپنی موجودہ تصویر فیس بک پر دے ہی دوں۔۔تاکہ کچھ خواتین کی فرینڈز ریکویسٹ میں کمی آئے۔۔ ویسے بھی میں زیادہ  تر ریکویسٹ ریجیکٹ کر دیتا ہوں۔۔۔ان کی وال دیکھ کر۔۔۔میں صورت نہیں دیکھتا۔۔سیرت دیکھتا ہوں۔۔یعنی تصویر کا تو مجھے پتہ ہے کترینہ کیف کی لگائی ہو گی۔۔۔میں دیکھتا ہوں کہ ان کی دلچسپی کس شعبے میں ہے۔۔اگر کسی کی وال پہ زبیدہ آپا کے ٹوٹکے اور مہندی کے ڈیزائن ہوتے ہیں۔۔تو ریجیکٹ کر دیتا ہوں۔۔۔کہ یہ اپنا شعبہ نہیں۔

ہاں کسی کی وال پہ تصویر ہوتی ہے جس میں زخمی دل دکھایا گیا ہے اور اس پر تیر دکھایا گیا ہے۔۔

اور ساتھ میں کوئی چھ آنے والا شعر۔۔۔تو میں ایڈ کر لیتا ہوں۔۔کہ بیچاری اپنے جیسی دکھی ہے۔۔اور قابل اصلاح بھی۔

ایک خاتون کی ریکویسٹ آئی۔۔وال پہ لکھا ہوا تھا "خواجہ کی دیوانی”

میں نے فوراً ریجیکٹ کی۔۔کہ یہ تو پہلے ہی دیوانی ہے۔۔۔ہم سے دوستی کے بعد تو باؤلی ہو جائے گی اور اپنے ہی خاوند کو کاٹ لے گی۔

تو دوستو!

ان تمام خواتین و حضرت کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ جنہوں نے سالگرہ کی مبارک باد دی۔۔۔

ویسے ہم اپنی بیوی کی سالگرہ کے علاوہ ہر قسم کی سالگرہ بنانا "بدعت” سمجھتے ہیں۔۔۔اور بیوی کی سالگرہ بنانے میں بھی ہماری کچھ غیر شرعی مجبوریاں ہے۔۔جس کا ذکر یہاں کرنے سے کچھ گھریلو تنازعات سر اٹھا سکتے ہیں۔۔۔ملک پہلے ہی حالت جنگ میں ہے۔۔۔گھر میں یہ کیفیت نہیں ہونی چاہیے۔

آپ سب خوش رہیں۔۔۔ آباد رہیں

٭٭٭

 

 

 

اتنا برا سلوک میری سادگی کے ساتھ

 

ایک محترمہ نے سوال کیا۔۔

"حنیف بھائی!

ہمارے ملک میں نیلسن مینڈیلا جیسے لوگ کیوں نہیں پیدا ہوتے؟”

میں نے جواب میں کہا۔

"بی بی۔۔اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔۔۔ہمارے ملک کی اکثریت سانولی یا گندمی رنگ کی ہے۔۔۔کچھ لوگ گورے بھی ہیں۔۔۔بھئی جیسے ماں باپ ہوں گے ویسے ہی بچے پیدا ہوں گے۔۔نیگرو تو ہونے سے رہے”

وہ محترمہ ناراض ہو گئیں۔

نجانے کیوں ؟

فرینڈز!

کیا میں نے کچھ غلط کہا؟

٭٭٭

 

 

 

 

جنت کے مین گیٹ پر

 

جنت کے مین گیٹ پر شدید ہجوم تھا۔۔۔ایک لائن خواتین کی تھی اور ایک حضرات کی۔۔گیٹ پر موجود فرشتہ رضوان ایک ایک جنتی کے کاغذات چیک کر کے اندر جانے دے رہا تھا۔۔۔کاغذات میں یہ دیکھا جا رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی مہر اصلی لگی ہے یا نہیں۔۔کیوں کہ کل دو پاکستانی جعلی مہر والے پکڑے گئے تھے۔۔۔اس لئے سخت جانچ پڑتال ہو رہی تھی۔۔۔میں نے لائن پر نظر دوڑانا شروع کی۔۔آگے لائن میں ایک صاحب شناسا نظر آئے۔۔ارے یہ تو وہی آغا صاحب ہیں۔۔جن کی دکان اپنی گلی کے کونے پر تھی۔۔۔اور جنھیں ایک مولوی صاحب نے کافر قرار دیا تھا۔۔۔یہ بھی پاس ہو گئے۔۔خواتین کی لائین میں ہمارے محلے کی خالہ زرینہ بھی نظر آئیں۔۔بہت لڑتیں تھیں سب سے۔۔پتہ نہیں باری تعالیٰ کو کیا ادا پسند آ گئی۔۔۔یہ بھی پاس ہو گئیں۔۔۔میں نظر دوڑا رہا تھا کہ اپنے پیارے دوست "مولوی” لائن میں نظر آئے۔۔وہ یہاں بھی گند کر رہے تھے۔۔میں نے انہیں کہتے سنا کہ جانچ پڑتال کے لئے فرشتوں کی تعداد بڑھانی چاہیے۔۔ایک ہی فرشتہ بیچارہ کتنا کام کرے گا۔۔آخر ہم کب تک کھڑے رہیں گے۔

میں نے قریب جا کے کہا۔۔”ارے مولوی تم؟۔۔کمال ہے تم بھی پاس ہو گئے۔۔۔واقعی میں اللہ رحمٰن و رحیم ہے۔۔تم جیسے کو بھی پاس کر دیا”

مولوی بھڑک گئے۔۔۔”تم جیسے سے کیا مراد؟ میں تم سے تو کم ہی گناہگار تھا۔۔۔مجھے تو تمہارا ا خطرہ تھا۔۔کہ تم رہ جاؤ گے”

میں نے ہنستے ہوئے کہا۔۔”بس یار۔۔۔ اللہ بادشاہ ہے۔۔۔سارے گناہ ثواب پلس مائنس کر کے اپنے پچیس نمبر بن رہے تھے۔۔۔اللہ بادشاہ نے فرشتے سے کہا۔۔۔پانچ نمبر رعایتی دے دو۔۔۔یہ تمام گناہ کے باوجود شرک سے بچتا تھا۔۔۔فرشتے نے کہا۔۔”یا اللہ! پھر بھی تیس نمبر ہو رہے ہیں ”

میرے رحمٰن کا ارشاد ہوا۔۔”تین نمبر صفائی کے دے دو”

اور اس طرح تینتیس نمبر پاسنگ مارکس ملے۔۔اور ہم جیسے تیسے پاس ہو گئے”

مولوی بولے۔۔”اپنے ساتھ بھی یہی ہوا۔۔۔اپنے تو بیس نمبر بھی پورے نہیں ہو رہے تھے۔۔۔وہ  تو کچھ لوگوں نے دنیا میں اپنی غیبت بہت کی تھی۔۔ان کے پانچ نمبر کاٹ کے اللہ نے میرے اکاؤنٹ میں ڈالے۔۔اس کے علاوہ  یاد ہے میرے بڑے بھائی نے میرے والد کے حصّے میں ڈنڈی ماری تھی۔۔۔ہم بھائی بہنوں کا حصّہ ہڑپ کیا تھا۔۔اس کے نمبر کاٹ کر اللہ نے دس نمبر مجھے دئے اور دس نمبر بہنوں کو۔۔۔تب کہیں جا کے میں پاس ہوا۔۔۔بھائی بیچارہ پھنس گیا۔۔۔اس کا کیس ابھی لگا ہوا ہے”

میرے منہ سے نکلا۔۔۔”اوہ”

پیچھے لائن میں سے شور شروع ہوا۔۔۔”او بھائی۔۔۔بیچ میں کہاں گھسے ہو۔۔۔پیچھے لائن میں لگو”

میں نے کہا”بھائی۔۔میں صرف ان سے بات کرنے آیا ہوں۔۔یہاں کھڑا نہیں رہوں گا۔۔پیچھے ہی جاؤں گا۔۔۔”

مگر لوگ کہاں سنتے ہیں۔۔شور بڑھتا گیا۔۔”ہٹو۔۔بھائی۔۔۔پیچھے آؤ۔۔پیچھے آؤ”

مجھے بھی غصہ آ گیا۔۔۔”تم لوگ یہاں آ کے بھی باز نہیں آئے نا؟”

میں غصے میں بڑبڑا رہا تھا۔۔۔کہ بیگم کی آواز آئی۔۔۔”کلمہ پڑھو۔۔۔پھر خواب میں کسی سے لڑ رہے ہو”

میرے منہ سے نکلا ” لا حول ولا قوۃ الا باللہ ”

٭٭٭

 

 

 

کنگلے دانشور

 

"عصرِحاضر کے معاشی مسائل”

یہ وہ موضوع تھا جس پر میں جوش خطابت میں مکے لہرا رہا تھا۔

مقام کوئی فائیو اسٹار ہوٹل کا ڈائس نہیں تھا۔

بلکہ نیو کراچی کا ایک جھونپڑا ہوٹل تھا۔

ہوٹل کے کونے میں پڑے ٹوٹے پھوٹے لکڑی کے دیمک زدہ ٹیبل کے گرد چر چراتی

کرسیوں پر ہم چار پانچ کنگلے انقلابی بیٹھے تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب آتش نہ صرف جوان تھا بلکہ کنگلہ بھی تھا۔

ہم سب کی جیب میں زیادہ سے زیادہ دس پندرہ روپے ہوا کرتے تھے۔

اور باتیں ہم سوئزرلینڈ کے بینکوں میں موجود سیاستدانوں کے بلین ڈالرز کی

کرتے تھے۔

ہم میں سے ہر کوئی اپنی ذات میں انجمن تھا۔

(اداکارہ انجمن نہیں۔۔انجمن امداد باہمی والی انجمن)

ہم خود ہی پہلے اپنے لئے مسائل تخلیق کرتے تھے اور پھر اس کے حل کی تلاش

میں نکل پڑتے تھے۔

کبھی تو ہم لینن اور کارل مارکس کے لنگوٹیے بن جاتے۔

تو کبھی خلیفاؤں کے انصاف و عدل کے پیروکار۔

ہم کپڑے بدلتے یا نہ بدلتے۔۔۔نظریات روز بدلتے تھے۔

ہماری باتوں میں کبھی علامہ اقبال نظر آتے کہ جو دہقانوں کو کھیت جلانے پر اکساتے۔

تو کبھی جالب و فیض۔۔۔ کہ جو حکمرانوں کے محلوں کے درو دیوار ہلاتے۔

غرض دو روپے کے چائے کے کپ پر لاکھوں روپے کی دانشوری جمتی۔

ہوٹل کا پٹھان مالک بھی ہم سے بیزار تھا۔

وہ کاؤنٹر پر بیٹھا ہمیں کھا جانی والی نظروں سے گھورتا رہتا۔

کبھی کبھی تو جل کے آوازیں بھی کستا کہ "تم کنگلا لوگ سگریٹ تو مانگ کے پیتا ہے۔۔اور باتیں امریکہ اور لندن کا کرتا ہے”

ہم اس کی باتوں کو سنی ان سنی کر دیتے کیونکہ ہمارے پاس اس ہوٹل کے علاوہ اور کوئی بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی۔

ایک روز حب میں مکے لہرا لہرا کر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو للکار رہا تھا۔میری جیب میں کوئی دس روپے تھے۔ موضوع "عصر حاضر کے معاشی مسائل” تھا کہ اچانک میرا ہاتھ آگے رکھے چائے کے کپ پر لگا اور وہ اچھل کر دور کاؤنٹر پر بیٹھے خان صاحب کے قدموں میں جا کر میرے نصیب کی طرح چکنا چور ہو گیا۔ خان صاحب نے قہر آلود نظروں سے مجھے دیکھا۔

میں سمجھ گیا کہ اب عصر حاضر کے معاشی مسائل کا تو جو ہو سو ہو مگر میرے ذاتی معاشی مسائل میں اضافہ ناگزیر ہے۔جیب میں دس روپے ہیں۔اور نہ جانے خان صاحب کپ کے کیا چارج کرتے ہیں۔میرے ساتھ کے باقی چار دانشور خان صاحب کی اور میری نظر سے بچ کر ہوٹل کے دروازے کی طرف دوڑ پڑے۔

اب میں تھا اور میری تنہائی۔

اور وہ ظالم و جابر سرمایہ دار۔

میں نے دبی آواز میں فیض کا کلام گانا شروع کر دیا۔

"لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔۔۔ہم دیکھیں گے”

٭٭٭

 

 

 

 

لیبر ڈے پر لیبر پین

 

مسز عالیہ کرمانی کی ہر لیبر ڈے پر کیفیت وہی ہوتی ہے۔۔جو بعض عورتوں کی "لیبر پین”کے موقع پر۔وہ کسی بھی سیاسی این جی او کے زیر اہتمام کسی  فائیواسٹار ہوٹل میں منعقدہ پروگرام میں سب سے پہلے پہنچتیں  ہیں اور ڈائس پر پہنچ کر تو ان کا انداز نہایت متاثر کن ہوتا ہے۔ ان کے آگے مائک کے برابر میں ایک عدد ٹشو پیپر کا بکس اور ایک منرل واٹر کی بوتل ہوتی اور پھر جب وہ شکاگو کے شہیدوں کو یاد کر کے آہ و زاری کرتیں ہیں اور عامر لیاقت حسین کی طرح رلانا شروع کرتیں  ہیں۔تو ہال میں بڑے رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لوگ ان کی اس دلی کیفیت سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔

ان کے ملنے جلنے والے سبھی لوگ ان کے غریبوں سے دلی لگاؤ کے معترف ہیں، سوائے ان کے اس "حرام خور” ڈرائیور کیکہ جس کی تنخواہ مسز کرمانی نے دو مہینے سے روکی ہوئی تھی۔وجہ صاف ہے۔وہ بد بخت ان کی قیمتی نئی گاڑی کہیں ٹھوک کے آیا  تھا۔مسز کرمانی نے ایک عنایت یہ کی کہ اس سے یک مشت پیسے نہیں مانگے۔جو اس گاڑی کی مرمت پر خرچ ہوئے تھے۔بلکہ اس سے کہا کہ وہ ہر مہینے کی تنخواہ اس مد میں کٹوا دے۔یہ ان کی دریا دلی تھی۔ان کا بڑا پن تھا۔ورنہ آج کل ایسا کون کرتا ہے۔اور پھر ایسے خدا خوفی والے لوگ کہاں ملتے ہیں۔

صحیح کہا ہے کسی نے کہ یہ دنیا ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے چل رہی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

دین اور الحاد

 

پہلے ایک عام سا لطیفہ سنیے۔۔۔پھر میں آتا ہوں اپنی بات کی طرف۔

سخت بارش میں ایک بچہ اسکول دیر سے پہنچا۔

استاد نے پوچھا ” دیر کیوں ہوئی؟”

بچے نے جواب دیا۔

” سر! راستے میں اس قدر کیچڑ تھی اور اس میں اس قدر پھسلن۔۔۔کہ میں ایک قدم اسکول کی طرف بڑھاتا تو پھسل کر دو قدم پیچھے اپنے گھر کی طرف چلا جاتا”

استاد مسکرایا۔۔اور پھر پوچھا۔

"تو پھر تم یہاں تک کیسے پہنچے؟”

بچہ ذہین تھا۔۔کہنے لگا۔

"سر! میں نے اپنا رخ اپنے گھر کی طرف کر لیا۔۔۔میں ایک قدم گھر کی طرف بڑھاتا تو پھسل کے دو قدم اسکول کی طرف آ جاتا”

دوستو!

یہ لطیفہ پڑھ کر ہنسنا بالکل نہیں۔۔۔اس لئے کہ میں نے یہاں یہ لطیفہ ہنسانے کے لئے سنایا بھی نہیں۔

پھر کس لئے سنایا ہے؟

چلیے میں بتاتا ہوں۔

دراصل میری کیفیت بھی اس بچے جیسی ہے۔

میں بچپن سے چند ایسے لوگوں کے قریب زیادہ رہا۔۔جو اپنے آپ کو دین دار سمجھتے تھے۔

(یہ الگ بات ہے کہ وہ دین دار تھے یا نہیں )اور ان کی دینداری دیکھ کر میں دین کی طرف ایک قدم بڑھاتا تو پھسل کے دو قدم دین سے دور الحاد کی طرف چلا جاتا۔

پھر میں نے بھی وہی کیا جو اس بچے نے کیا تھا۔ میں نے اپنا منہ دین بیزاروں کی طرف کر لیا۔

اب جب میں ان کی طرف ایک قدم بڑھاتا ہوں۔۔۔ تو ان کی حرکتیں دیکھ کر۔۔۔ پھسل کے دو قدم دین کی طرف آ جاتا ہوں۔۔۔چونکہ ان کی دین بیزاری بھی خالص نہیں۔۔۔بس ایک ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔۔۔ان کے ہاں بھی ملاوٹ ہے۔۔۔اور ملاوٹ والی چیز کون پسند کرتا ہے؟

اسی لئے آج مجھے لوگ پہلے کے مقابلے میں دین سے زیادہ قریب دیکھتے ہیں۔۔اور دین بھی کونسا۔۔۔ملاوٹ سے پاک۔۔باپ دادا سے ورثے میں ملا ہوا نہیں۔۔۔اپنے زور بازو سے حاصل کیا ہوا۔

٭٭٭

 

 

 

 

جمائی روکنے کے طریقے

 

میں اس مسجد میں اکثر عصر کی نماز پڑھتا تھا۔ عصر کے بعد وہاں مختصر سا بیان ہوتا۔ شام کا وقت چونکہ مصروفیت کا ہوتا ہے۔ اس لئے میں بیان سننے کے لئے کبھی نہیں رُکا۔ آج جیسے ہی نماز ختم ہوئی، میں پہلی ہی صف میں تھا، ابھی میں اٹھنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک امام صاحب سے نظریں ملیں۔ مجھ میں ہمت نہیں ہوئی کہ اٹھ کے جاؤں۔ سوچا چلو بیان سن لیتے ہیں۔

یقیناً کچھ علم میں اضافہ ہی ہو گا۔

بیان شروع ہوا۔ موضوع تھا۔ "نماز کے دوران اگر کسی کو جمائی آئے تو کیا کیا جائے”

امام صاحب نے زور دیکر کہا کہ جمائی کو ہر صورت روکا جائے۔ چونکہ یہ ایک شیطانی عمل ہے۔ اگر کسی صورت نہ رک رہی ہو تو اپنے نچلے ہونٹ کو دانتوں میں دبایا جائے۔

( انہوں نے عملا "کر کے دکھایا کہ اس طرح نچلے ہونٹ کو دانتوں میں دبایا جائے)

وہ جمائی روکنے کے مختلف طریقے بتا رہے تھے اور میں اپنے خیالات میں گم تھا۔

اس وقت عالمِ اسلام کس قدر مشکلات میں گِرا  ہوا ہے۔

دنیا بھر میں مسلمانوں پر زندگی تنگ کی جا رہی ہے۔

انہیں دہشتگرد ثابت کیا جا رہا ہے۔

عراق، افغانستان کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔

لیبیا، مصر میں اکھاڑ پچھاڑ، شام، یمن میں چھیڑ چھاڑ اور پھر اپنے پیارے پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے۔

وزیرستان سے لے کے بلوچستان تک اور پھر کراچی لہولہان۔ بجلی، پانی، گیس، بیروزگاری، مہنگائی اور دیگر مسائل ایک طرفاور یہ امام صاحب ایک طرف۔

میں نے اپنے خیالات کے سلسلے کو جھاڑ کر امام صاحب کی طرف دیکھا۔ وہ انتہائی پرسکون انداز میں جمائی روکنے کے طریقے بتا رہے تھے۔ ان کا چہرہ ہشاش بشاش تھا۔ میرے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ کیونکہ پچھلے کچھ عرصے سے کام بالکل بند تھا۔ نماز میں بھی مجھے یہی سوچ تھی کہ یہ مہینہ کیسے گزرے گا۔ جبکہ وہاں  ایساکوئی مسئلہ نہیں تھا۔

میں نے سوچا کہ عیسائی اپنے پادریوں کو کیسے تیار کرتے ہیں۔ ان کی بات چیت میں دنیا بھر کے مسائل کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ بائبل کے علاوہ بھی انہیں دنیا بھر کے جدید علوم کی معلومات ہوتی ہے۔ وہ انسانوں کے مسائل پہ بات کرتے ہیں اور ایک طرف یہ محترم۔

کیا ہمارے ہاں دینی مدارس اچھے تعلیم یافتہ انسان تخلیق کر سکتے ہیں ؟

یا صرف اچھا برہلوی، اچھا دیوبندی، اچھا اہل حدیث اور اچھا شیعہ بنا سکتے ہیں۔

کیا ہمارے اسکول، کالج اور یوننیورسیٹیاں  اچھے عالم نہیں بنا سکتیں ؟

یہ سوال اہل دانش کے لئے  ہے۔

کسی فرقہ پرست یا مسلک پرست مولوی کے لئے نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

شکوہ، جوابِ شکوہ

 

شکوہ   :

"اے اللہ !  تو اسرائیل کو نیست و نابود کر دے”

"اے اللہ!  تو فلسطین کو آزادی نصیب کر”

"اے اللہ!  تو امریکہ کو تباہ و برباد کر دے”

"اے اللہ!  تو غزہ کے مظلوموں کی مدد کو آ”

"اے اللہ!  تو ان پر ابابیلوں کے لشکر اتار”

"اے اللہ!  تجھے اپنے جلال کی قسم۔۔”

"اے اللہ!  تو نے کافروں کے لئے رسی ڈھیلی کیوں چھوڑی ہوئی ہے”

"اے اللہ!  تو ان کو برباد کیوں نہیں کرتا”

"اے اللہ!  تو ہماری مدد کو کیوں نہیں آتا؟”

 

جواب شکوہ   :

"آئی آواز کہ غم انگیز ہے افسانہ تیرا

اشک بے تاب سے لبریز ہے پیمانہ تیرا”

ارے ڈیڑھ ارب الو  کے پٹھو!

"اے اللہ!  یہ کر دے۔۔اے اللہ!  وہ کر دے”

ارے سب جب مجھے ہی کرنا ہے تو تمہیں دنیا میں میں نے "کافر کافر” کھیلنے کے لئے بھیجا ہے۔۔۔شیعہ سنی کھیلنے کے لئے بھیجا ہے۔۔۔ مقلد اور غیر مقلد کھیلنے کے لئے بھیجا ہے؟

"قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں

کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہیں ”

ارے بے وقوفو!

"متحد ہو تو بدل ڈالو  نظام گلشن

منتشر ہو تو مرو، شور مچاتے کیوں ہو”

٭٭٭

 

 

 

ذکر اک دہریے کا

 

آج میں آپ کی خدمت میں ایک ایسے شخص کا ذکر کر رہا ہوں۔ جو کہ علی الاعلان دہریہ اور دین بیزار تھا۔

دہریے بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ایک وہ جو ہوتے تو دین سے بیزار ہیں مگر علی الاعلان سامنے نہیں آتے۔بلکہ مسلمان بن کر ہی رہتے ہیں۔ ہاں البتہ ان کے اندر کی دین بیزاری کسی نہ کسی انداز میں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔کبھی مولویوں کو یا دینی جماعتوں کو گالیاں دیکر۔

تو کبھی اپنے مخالف مسلک کے لوگوں کو لعن طعن کر کے۔

ایک دہریہ علی الاعلان بھی ہوتا ہے کہ جو سب کے سامنے تسلیم کرتا ہے کہ وہ اللہ کو نہیں مانتا۔

نورالحسن صاحب پکّے علی الاعلان دہریے تھے۔ ساری عمر شراب و کباب میں گزاری۔

باپ دادا جائیدادیں چھوڑ کے مرے تھے۔اس لئے روٹی روزی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔فراغت بھی تھی۔اس میں نہ جانے لینن، کارل مارکس اور بے شمار دیگر خرافات نہ صرف پڑھی ہوئی تھیں بلکہ رٹی ہوئی بھی تھیں۔

اس قسم کے لوگ پھر اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگتے ہیں اور باقی دنیا کو کیڑے مکوڑے۔۔۔

نورالحسن صاحب بھی انہی لوگوں میں سے تھے۔ان کے خیال میں کائنات کی اصل حقیقت سے صرف وہی واقف تھے، باقی ساری دنیا گدھے گھوڑوں کی طرح تھی۔

35 سال پہلے ان کی شادی ایک ایسی عورت سے ہوئی جو صوم و صلاۃ کی پابند تھی۔دونوں ایک دوسرے کے نظریات سے بیزار ہونے کے باوجود ایک ساتھ گزارہ کرتے رہے۔دونوں میں وقت کے ساتھ محبت بھی پکی ہوتی گئی۔ چونکہ نورالحسن صاحب جیسے لوگوں کو اپنی "مذہبی رواداری اور انصاف” کا بھی ڈھنڈورا پیٹنا ہوتا ہے۔اس لئے بیوی کی کبھی کھل کے سب کے سامنے مخالفت نہیں کی۔ہاں البتہ تنہائی میں اس کی دین داری پر فقرے کستے رہتے۔

مذاق اڑاتے رہتے۔وہ بیچاری بھی دبے لفظوں میں کہتی رہتی کہ

"نور!  اب  تو دین کی طرف آ جاؤ۔۔اب ہمارے پاس وقت کم بچا ہے”

اس صورت حال کے باوجود دونوں میں بے پناہ محبت تھی۔ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم تھے۔ایک پل بھی ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔

پھر اچانک یوں ہوا کہ ایک روز بیوی بیمار پڑی۔روپے پیسے کی تو کوئی کمی نہ تھی۔نورالحسن صاحب اسے لے کے ایک سے ایک ڈاکٹر اور مہنگے سے مہنگے ہسپتالوں میں دوڑتے رہے۔

مگر بیوی کی صحت سنبھل نہ سکی۔وہ کمزور سے کمزور ہوتی گئی۔ڈاکٹروں کی سمجھ میں بھی مرض نہیں آرہا تھا۔نورالحسن صاحب نے فیصلہ کیا کہ بیوی کو علاج کے لئے ملک سے باہر لے جایا جائے۔

دونوں کمرے میں تنہا بیٹھے تھے۔انہوں نے بیوی سے کہا کہ ہم لندن چلتے ہیں۔وہاں علاج کرائیں گے۔بیوی نے منع کیا کہ میں اپنا شہر چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤنگی۔میں یہیں مرنا چاہتی ہوں، اپنے لوگوں میں۔نورالحسن صاحب نے چہرے سے خفگی ظاہر کی۔

"تم سمجھ نہیں رہی ہو بات کو۔۔وہاں تمہارا علاج اچھی طرح ہو جائے گا”

بیوی نہیں مانی، نورالحسن صاحب ناراض ہو کے، بستر پہ دوسری طرف منہ کر کے لیٹ گئے۔

بیوی نے مناتے ہوئے کہا”نور”

"کیا ہے؟”

بیوی بولی "مجھ سے پیار کرتے ہو؟”

"تم جانتی ہو کہ میں تمہارے بغیر ایک پل بھی نہیں جی سکتا”

بیوی بولی "تو پھر میری ایک بات مانو”

"کیا؟”

بیوی بولی ” ایک بار میرے سامنے اللہ کو سجدہ کرو”

نورالحسن صاحب پہ جیسے بجلی گر گئی ہو۔

"کیا؟”

بیوی عاجزی سے بولی۔

"تم ایک بار اللہ کو سجدہ کرو۔۔۔ دیکھنا اللہ ہمارے سارے مسئلے حل کر دے گاـ۔۔۔ میں بھی ٹھیک ہو جاؤں گی”

نورالحسن کچھ دیر خاموش رہے پھر یکایک انہوں نے اپنا لہجہ بدلہ اور دھیمے لہجے میں کہا۔

"اچھا چلو۔۔ابھی سو جاؤ۔۔صبح بات کریں گے”

بیوی بھی اس طرف منہ کر کے سو گئی۔

آدھی رات کو بیوی کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ نورالحسن صاحب بستر پر نہیں۔وہ پریشان ہوئی۔

دیکھا دوسرے کمرے کی لائٹ جل رہی ہے۔وہ بستر سے اٹھ کر دوسرے کمرے میں گئی تو کیا دیکھتی ہے کہ نورالحسن صاحب جا نماز پر سجدے کی حالت میں ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

وفا

 

کی محمّد ﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

 

حضرت اقبال یہ کہہ تو گئے مگر انہیں شاید معلوم نہیں تھا کہ حضرت محمّدﷺسے وفا کرنا اس دور میں کتنا مشکل ہے کیونکہ اگر ان سے وفا کرنے جاتے ہیں تو اپنے مسلک سے، اپنے فرقے سے اور ان کے اکابرین سے بیوفائی ہو جاتی ہے کیونکہ آپ ﷺ تو حکم دیتے ہیں کہ لوگوں سے محبّت سے، خلوص سے، نرم لہجے میں پیش آؤ جبکہ مسلک اور فرقے کا تقاضہ ہے کہ ہمارے علاوہ سب غلط۔۔۔۔ سب گمراہ۔۔۔سب کافر۔

کہاں کی محبّت۔۔کیسا خلوص۔۔کون سا نرم لہجہ۔۔انہیں تو بس مار مار کر اپنے جیسا کرو۔۔۔

اور اگر نہیں ہوتے تو ان سے جینے کا حق چھین لو۔۔تمہارے جنت میں جانے کے لئے ان سب کا جہنم رسید ہونا ضروری ہے۔

ہر فرقہ۔۔۔ہر مسلک۔۔۔یہی سمجھتا ہے کہ صرف وہی جنت میں جائے گا۔۔۔باقی سب جہنمی۔

ایسے میں جبکہ جنت اتنی ارزاں ہو۔۔سستی ہو۔۔۔گلی گلی محلے محلے میں ٹکے ٹکے میں مل رہی ہو، تو پھر کون حضرت محمّد ﷺ سے وفا جیسا مشکل کام سوچے۔

ان سے وفاداری میں بڑی محنت ہے۔ لوگوں کی خدمت کرنی پڑتی ہے۔ان کے دکھ درد دور کرنے پڑتے ہیں۔اپنے دشمن کی عیادت کرنی پڑتی ہے۔ذاتی مفادات چھوڑنے پڑتے ہیں۔بھوکا رہنا پڑتا ہے۔پیٹ پر پتھر باندھنے پڑتے ہیں۔اپنی بیٹی  کے لئے بھی وہی معیار مقرر کرنا پڑتا ہے جو دوسروں کی بیٹیوں کے لئے مقرر ہو۔ لوگوں کے مال و جان کی حفاظت کرنی پڑتی ہے۔ حقیقتا” صادق وامین بننا پڑتا ہے۔اس طرح کا صادق و امین نہیں جو ہمارے آئین کے آرٹیکل 62/63کے ذریعے بنتا ہے۔حقیقی صادق و امین کہ جس کے پاس دشمن کی امانتیں بھی موجود ہوں اور محفوظ ہوں۔ہمارے پاس تو اپنے سگے بھائی کی کوئی چیز محفوظ نہیں رہتی۔ دشمن تو دور کی بات۔

تو صاحبو!

بہت مشکل ہے حضرت محمّدﷺسے وفا۔

٭٭٭

 

 

 

 

یہ ہم نے اچھا نہیں کیا

 

کیا ہم بہتر انسان ہیں ؟  یا ہمارے بچے ہم سے بہتر انسان ہیں ؟

مذہب سے قربت۔۔۔امانت و دیانت داری۔۔۔اپنے حقوق و فرائض کا شعور۔۔۔وقت کی قدرو منزلت۔۔۔احساس ذمہ داری۔۔۔دوسروں کا احترام۔۔۔زبان کا جائز استعمال۔۔۔یہ وہ اخلاقی قدریں تھیں۔ جو ہم میں اپنے بچپن میں آج کے بچوں کے مقابلے میں بہت بہتر تھیں اور اس کی وجہ یہ کہ ہمیں اخلاقی تربیت کرنے والے والدین۔۔۔ بزرگ۔۔۔اساتذہ۔۔با عمل اور بہترین ملے تھے۔۔۔جس سے کہ آج کی نسل محروم ہے۔

ہماری پچھلی نسل نے جو اعلی قدریں ہم میں منتقل کی تھیں وہ ہم اپنی اگلی نسل تک پہنچانے میں ناکام رہے۔ ہمارے بچپن میں بزرگ کے سامنے پان۔۔۔سگریٹ کا استعمال تو دور کی بات ہے۔۔۔ چائے پینا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔آج ایسے بھی گھرانے ہیں کہ جہاں باپ بیٹا ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر پان کھاتے ہیں۔ سگریٹ پیتے ہیں۔

ہمارے بچپن میں جھوٹ بولنا بہت زیادہ برا سمجھا جاتا تھامگر آج جھوٹ کی۔۔بے ایمانی کی۔۔کوئی اہمیت ہی نہیں رہی۔۔یہ ساری برائیاں ایک عام سی چیز بن گئی ہیں۔۔۔باپ خود بیٹے کو کاروبار میں جھوٹ۔۔۔ بے ایمانی۔۔ملاوٹ۔۔۔ٹیکس چوری۔۔۔بجلی چوری۔۔کے نت نئے طریقے سکھاتے ہیں۔۔اور تمام سماجی۔۔اخلاقی۔۔برائیاں ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو رہی ہیں۔

پس۔۔آج ہماری نسل جس نے اب اپنی واپسی کا سفر شروع کیا ہے وہ اس زمین پر ایک بے ترتیب۔۔خود غرض۔۔پر تشدد۔۔۔اور تمام اخلاقی، مذہبی اور سماجی برائیوں کی پستیوں میں گری ایک قوم چھوڑ کر جا رہی ہے۔

یہ ہم نے اچھا نہیں کیا۔

٭

 

 

 

ٹک ٹک

 

 

بچپن میں ایک بار ہم اپنی خالہ خیرالنساء کے گھر چھٹیاں گزارنے گئے۔ اُن کا گھر حیدرآباد میں تھا۔ شام کے وقت ہم نے اُن کے بیٹے ظہیر سے کرکٹ کھیلنے کی خواہش ظاہر کی۔ ظہیر گیند اور بلا لے آئے۔

میں نے پوچھا "کہاں کھیلیں گے” ۔۔   ظہیر بولے "یہیں صحن میں ”

میں نے کہا "یہ جگہ تو بہت تنگ ہے”

کہنے لگے "امی کہیں اور جانے نہیں دیں گی۔ ہم یہیں کھیلتے ہیں ”

اسی وقت خالہ بھی آ گئیں اور انہوں نے امپائرنگ کے فرائض سنبھالے۔ اس کے بعد انہوں نے اس کھیل کے کچھ نئے خودساختہ ضابطے بتائے۔جسے سن کے ہمارا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

کہنے لگیں۔

"صرف سنگل رن بنانے کی اور ٹُک ٹُک کھیلنے کی اجازت ہے۔ کوئی شاٹ مارے گا تو آؤٹ سمجھا جائے گا۔یہ سامنے والی دیوار جہاں کھڑکی ہے، اس پر اگر گیند لگی تو آؤٹ۔پہلے بھی اس کھڑکی کا شیشہ ایک بار ٹوٹ چکا ہے اور وہ سامنے کے دروازے پر بھی گیند لگی تو بھی آؤٹ   کمبختوں نے گیند مار مار کے دروازے کا ناس مار دیا ہے۔کوئی بھاگ کر بھی اگر رن بنانا چاہے تو صرف دو رن کی اجازت ہے دو سے زیادہ کی نہیں۔صحن کا فرش بھی جگہ جگہ سے ٹوٹ رہا ہے۔ تم لوگ آہستہ آہستہ اور پیر اٹھا کر دوڑنا۔جاہلوں کی طرح فرش پر جوتے رگڑ کر نہیں ”

خالہ کے ضابطے سن کر میرے ذہن میں خیال آیا کہ ان اصولوں کے ساتھ جو کھیل یہاں کھیلا جائے گا وہ کچھ اور تو ہوسکتا ہے۔ کرکٹ نہیں ہوسکتا ہے۔

آج جب میں بیٹھ کے سوچتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے ہماری موجودہ قومی کرکٹ ٹیم نے اسی خالہ خیرالنساء کے زریں اصول اپنائے ہیں۔ وہی ٹُک ٹُک۔

٭٭٭

 

 

 

توبہ

 

حرام ہر کسی کو راس نہیں آتا۔

سہیل صاحب جس دفتر میں کام کرتے تھے اس دفتر کے ان کے ساتھی ہر ماہ تنخواہ کے علاوہ میڈیکل کی مد میں بھی کچھ رقم لے جاتے تھے۔ان کا طریقۂ کار (طریقۂ واردات) یہ تھا کہ دفتر سے منسلک میڈیکل اسٹور کے مالک کی ملی بھگت سے اس کے اسٹور سے مختلف اشیاء  مثلاً پرفیوم، ٹیلکم پوڈر، چاکلیٹس، یا جوس وغیرہ کے ڈبے لیتے اور اس سے بل دوائی کا بنواتے اور دفتر کے منیجر کو بل دکھا کر کہ "ماں بیمار ہے "یا” باپ بیمار ہے” رقم وصول کرتے منیجر کو بھی پتہ تھا کہ کیا ہو ر ہا ہے اور اس کی خود کی ماں بھی اسی طرح بیمار رہتی۔ وہ بھی یہی کرتا تھا۔اسٹاف کو کہاں روکتا۔ سہیل صاحب چونکہ نئے نئے دفتر میں آئے تھے۔لہٰذا انھیں اس

طریقہ واردات کا علم نہیں تھا۔

ایک بار انہوں نے اپنے ساتھی اصغر سے پوچھا۔ "اب تمہاری ماں کی طبیعت کیسی ہے”

تو وہ ہنس پڑا۔

"کونسی ماں۔۔۔میری ماں کو تو مرے دس سال ہوئے”

سہیل صاحب ہکا بکا رہ گئے”ارے ہر مہینے تم اپنی ماں کے لئے دوائی لے کے جاتے ہو”

اصغر بولا "ارے سہیل بھائی۔۔۔کونسی دنیا میں رہتے ہو۔۔۔یہ سب جتنے بھی ہیں۔۔۔بشمول اس کالے منیجر کے۔۔۔یہ سب میڈیکل اسٹوڑ سے مختلف چیزیں لیتے ہیں اور بل دوائی کا بنواتے ہیں۔۔۔آپ بھی چلو۔۔۔آپ کو بھی امپورٹیڈ چوکلیٹس دلواتا ہوں۔۔۔آپ کے بچے بھی کھائیں گے”

سہیل بھائی بولے "مگر یہ تو بے ایمانی ہوئی”

اصغر زور سے ہنسا”کونسی دنیا میں رہتے ہو۔۔یہاں سب یہی کرتے ہیں۔۔آؤ میرے ساتھ ”

اصغر ان کا ہاتھ پکڑ کر میڈیکل اسٹور لے گیا۔

"لو بابو بھائی ! ایک اور گاہک آیا۔۔۔اس کی بھی ماں بیمار ہے”

یہ کہہ کر اصغر نے زور سے قہقہہ لگایا۔۔۔اسٹور کا مالک بابو بھائی بھی ہنسنے لگا۔

سہیل بھائی چپ چاپ دیکھتے رہے۔۔۔اصغر نے کچھ جوس کے ڈبے۔۔۔کچھ امپورٹیڈ چوکلیٹس۔۔۔اور ایک ٹیلکم پوڈر کا ڈبہ پیک کروایا اور ایک بل کٹوا کر سہیل بھائی کے ہاتھ میں دیا”یہ لو۔۔۔یہ بل کل اس کالے منیجر کو دینا۔۔۔کہنا ماں بیمار ہے ”

سہیل بھائی ہچکچاتے ہوئے بولے "کوئی گڑ بڑ تو نہیں ہو گی؟”

اصغر بولا "ارے کچھ بھی نہیں ہو گا” ہنستے ہوئے ” خود منیجر کی ماں بیمار ہے۔۔۔ابھی تم سے دگنی چوکلیٹس اور جوس کے ڈبے لے کے گیا ہے”

سہیل بھائی نہ چاہتے ہوئے بھی سارا سامان گھر لے کے گئے۔گھر جا کے بیوی سے جھوٹ بولا کہ باس نے خوش ہو کے خود ہی یہ سارا سامان دیا ہے۔پھر خود بیوی بچوں کے ساتھ مل کے خوشی خوشی چوکلیٹس کھائیں اور جوس پیا۔ بیوی کو ٹیلکم پوڈر بھی دیا کہ یہ تمہارے لئے لایا ہوں۔وہ خوش ہو گئی۔غربت نے بیچاری کی رنگت کالی کر دی تھی۔

سب کھا پی کے اپنے بستر میں چلے گئے۔آدھی رات کو بیوی نے سہیل بھائی کو نیند سے اٹھایا۔

"سنیے۔۔۔جلدی اٹھئیے۔۔۔یہ دیکھئے گڈو کو کب سے الٹیاں ہو رہی ہیں ”

سہیل بھائی ہڑبڑا کے اٹھے”کیا ہوا؟”

"گڈو کب سے الٹیاں کر رہا ہے۔دیکھئے یہ بالکل نڈھال ہو گیا ہے۔ہم اسے جلدی کسی ہسپتال لے کے جائیں ” بیوی نے گھبراہٹ میں کہا۔

"ہاں چلو” سہیل بھائی رات کے کپڑوں میں ہی اٹھ کے فوراً بھاگے، بچے کو اٹھایا اور سیدھے ہسپتال کا رخ کیا۔بچے کو ہسپتال میں داخل کیا گیا۔چوبیس گھنٹے میں دو ڈرپ گلوکوز کی لگیں۔تب کہیں جا کے بچے کی طبیعت بحال ہوئی۔سہیل بھائی نے نماز شکرانہ ادا کی اور سجدے میں دیر تک روتے رہے۔

” میرے مالک! مجھے معاف کر دے۔آئندہ میں کبھی بھی بے ایمانی نہیں کروں گا۔بس میرے بچے کو سلامت رکھ۔میں توبہ کرتا ہوں ”

واقعی حرام ہر کسی کو راس نہیں آتا۔

٭٭٭

 

 

 

 

سقراط اور مولوی

 

ہمارے پیارے دوست مولوی کبھی کبھی کوئی ایسی بات کر جاتے ہیں کہ تن بدن میں آگ سی لگ جاتی ہے مثلاً آج کہہ رہے تھے۔

"یار حنیف! یہ تم جیسے جدیدئے جب یہ جملے کہتے ہیں نا کہ اصل مذہب تو انسانیت ہے یا دین میں اصل اہمیت تو حقوق العباد کی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ انہیں انسانیت یا حقوق العباد کا غم کھائے جا رہا ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ انہیں حقوق اللہ ادا کرتے ہوئے موت آ رہی ہوتی ہے۔نماز کی سستی، روزے کی قید سے چھٹکارہ، یہ وجوہات ہوتی ہیں۔اس ساری جملے بازی کی”

میں نے پہلے تو مولوی کی طرف مصنوعی غصے کے انداز میں دیکھا۔پھر اچانک میری ہنسی نکل گئی۔میں نے کہا۔

"مولوی! جی چاہتا ہے کہ تمہیں زہر کا پیالہ پلا دوں۔۔پھر سوچتا ہوں کہ سقراط کی شہرت میں فرق آئے گا”

 

"سچ میرے دور کے متروک رواجوں میں رہا

قسمتیں سوئی رہیں زہر کے پیمانوں کی”

٭٭٭

 

 

 

کیا کیا مچی ہیں یارو رمضان کی بہاریں

 

(یہ تحریر رمضان سے ایک روز پہلے لکھی گئی)

آج سے تمام "فرزندان توحید” اپنی اپنی چھریاں تیز کئے اپنی اپنی دکانوں،  پتھاروں اور چھابڑیوں پر مورچہ زن ہو جائیں گے کہ جہاں کوئی ضرورت مند گاہک بھٹکا اور انہوں نے اسے سلادیا۔رکشہ ٹیکسی والوں کے دماغ آسمان پر ہوں گے۔۔۔منہ مانگے دام۔۔ورنہ بدتمیزی۔۔۔سرکاری آفسوں میں بابوں لوگوں کا پارہ بھی ہائی ہو گا۔۔۔کوئی کام وقت پر تو خیر پہلے بھی نہیں نمٹتا تھا۔۔۔اب مزید دیر ہو گی۔ ضرورت مند کسی کام سے کسی دفتر جائے گا تو پتہ چلا کہ صاحب ابھی آئے نہیں۔پھر گیا تو پتہ چلا صاحب نماز پڑھنے گئے ہیں۔ پھر گیا تو پتہ چلا صاحب گھر جا چکے۔ جو فائل عام دن میں دو دن میں آگے بڑھتی تھی۔ اب چار دن میں بڑھے گی۔وہ بھی نئے ریٹ کے ساتھ کیوں کہ صاحب کے بچوں نے بھی عید منانی ہے۔

لوگ سڑکوں پر بلا وجہ ایک دوسرے سے لڑتے اور الجھتے نظر آئیں گے۔ ذرا ہاتھ لگ گیا۔تو کون، اور میں کون۔ "ابے اندھا ہے کیا”اور اگر گاڑی دوسری گاڑی سے ہلکی سی ٹھک گئی۔

تو مرد مومن سڑک بلاک کر کے باہم دست و گریبان۔چاہے دوسرے کا روزہ سڑک پر کھل جائے مگر ہم نے اپنی جگہ سے نہیں ہٹنا۔ ماں بہن کی گالیاں۔جو کوئی کمزور بیچ بچاؤ کے لئے آئے تو اس کو بھی لپیٹ لیا کیوں کہ بقول شخصے۔۔

"کمزور مقابل ہو تو فولاد ہے مومن”

ویسے تو یہ مناظر آپ کو شہر کی ہر سڑک پر سارے سال ہی نظر آئیں گے۔مگر رمضان چونکہ برکتوں کا مہینہ ہے اس لئے رمضان میں لڑائی جھگڑے میں بھی  برکت ہو جاتی ہے۔ لوٹ مار بڑھ جاتی ہے۔رشوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ پولیس کیس میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ پولیس والے اور ٹریفک پولیس بھی اپنی افطاری اور عید کی تیاریوں کے بہانے اپنے ریٹ بڑھادیتے ہیں۔

بس کوئی مرغا پھنسنا چاہئیے۔

ہم بحیثیت قوم اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔ہم بد اخلاقی کے پاتال میں ہیں۔حسن نثار صحیح کہتے ہیں کہ اس قوم کا مسئلہ معاشی نہیں۔۔۔اخلاقی ہے۔

اب کوئی نبی تو آئے گا نہیں جو ہمیں سدھارے اور ان ملاؤں سے یہ معاشرہ سدھرنے والا نہیں کیونکہ پہلے کوئی آ کے ان کو سدھارے۔یہ خود رمضان میں اپنی دکانداری میں لگ جاتے ہیں۔ چونکہ سارے سال کی آمدنی اسی مہینے میں ہوتی ہے۔زکاۃ، صدقات اور عطیات کی صورت میں۔

یورپ کے کئی ممالک کی خبر ہے کہ وہاں بڑے بڑے اسٹورز نے رمضان کی آمد کے پیش نظر خصوصی ڈسکاونٹ کا اعلان کیا ہے۔یہ وہ کافر ممالک ہیں اور ان اسٹورز کے مالکان بھی جہنمی ہیں۔۔جو آگ کا ایندھن بنیں گے۔۔مگر۔۔۔مگر۔۔۔کیا کہوں۔

جبھی تو آج اللہ تعالیٰ نے انہیں بلندیوں پہ پہنچایا ہے اور ہمیں ذلیل و خوار کیا ہے۔

"کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں ”

٭٭٭

 

 

 

 

PG

 

اکثر میری اور بہت سے دوستوں کی تحریروں پر لوگ بلا سوچے سمجھے لڑ مرتے ہیں اور پھر وہی زبان استعمال کرتے ہیں جو کہ وہ اپنے گھر میں کرتے ہیں۔ایسے لوگوں سے درخواست ہے کہ اول تو یہ فیس بک ہے ان کا گھر نہیں۔یہاں زبان شائستہ استعمال کیجئے۔

دوم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوم بھی یہی۔

ابھی پچھلی میری ایک تحریر پر ایک صاحب msg  کے ذریعے مجھ سے آدھے گھنٹے تک لڑتے رہے کہ آپ نے یہ صحیح نہیں کیا اور یہ غلط کیا وغیرہ۔ انہوں نے مجھے بھی ہلکان کیا  اور خود بھی ادھ موئے ہو گئے۔ آخر میں کہنے لگے۔

"اچھا۔۔۔آپ کے کہنے کا یہ مقصد تھا۔۔اوہو۔۔۔میں غلط سمجھا۔۔۔معافی چاہتا ہوں ”

میں نے اپنا ہی سر پیٹ لیا۔۔۔کیوں کہ وہ میرے سامنے نہ تھے۔

بہر حال اب میں نے سوچا ہے کہ جس طرح مختلف چینلز پر دکھائی جانے والی انگریزی فلموں میں اوپر کونے پر PG یعنی Parental Guidance لکھا ہوتا ہے اور بعض میں تو عمر کی حد بھی لکھی ہوتی ہے۔ مثلاً 15، 18 یا 21 سال تک کے یا اس سے اوپر کے بچے یہ دیکھ سکتے ہیں۔باقی بچوں کو ان کے والدین روکیں۔اسی طرح میں بھی اپنی تحریر کے ساتھ یہ لکھ دوں کہ صرف 40 سال سے بڑی عمر کے "بچے” پڑھ سکتے ہیں۔

اس سے چھوٹی عمر کے بچوں کو ان کے والدین یا ان کی بیویاں روکیں۔ امید ہے میرے اس اقدام سے فیس بک پر دھینگا مستی میں کمی آئے گی۔ اس سلسلے میں مزید تجاویز کا خیر مقدم کیا جائے گا لیکن  ہاں۔۔۔تجاویز دینے والوں کے لئے بھی عمر کی وہی حد ہے یعنی 40 سال۔

ذہنی نا بالغان تجویز دینے سے بھی گریز کریں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 آفس کی سیاست

 

ہم نے بچپن میں جو کچھ پڑھا تھا وہ سب کچھ بیکار ثابت ہوا۔ حسن اخلاق، سچائی، بے لوث خدمت، ایمانداری، دیانتداری، انتھک محنت، محبت فاتح عالم۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب خوبصورت الفاظ لغت میں اچھے لگے۔ مگر حقیقی زندگی میں ترقی کے لئے کچھ اور ہی درکار ہے۔

خود غرضی، حرص، ہوس، غیبت، عیاری، مکاری، چالاکی اور دوسروں کو ہر طرح سے نیچا دکھانا۔

یہ وہ اوصاف حمیدہ (یا جمیلہ یا رشیدہ وغیرہ ) جو کسی بھی دفتر یا ادارے میں کامیابی کی سیڑھی رہے۔انہی اوصاف کو استعمال کر کے ہمارے ہاں اداروں میں ایک خاص قسم کی سیاست چلتی ہے۔جو سینئر ہوتے ہیں وہ کوشش کرتے ہیں کہ جونیر کچھ سیکھ نہ پائیں۔مبادا کہ ان کی جگہ لے لیں۔ انہیں ہر وقت لعن طعن کرنا، مالک کی نظر میں انہیں غیر اہم ثابت کرنا وغیرہ۔

اس چکر میں وہ چھٹی بھی نہیں کرتے کہ مالک کو پتہ چل جائے کہ ادارہ ان کے بغیر بھی چل سکتا ہے۔اسی طرح جو جونیئر ہیں وہ دعائیں کرتے ہیں کہ یا اللہ !  یا تو سینئر کے دل میں ہمارے لئے کوئی جگہ بنا دے۔یا پھر یہ کہیں چلا جائے یا مر جائے کہ ہمیں بھی کوئی گیپ ملے مالک کو کارکردگی دکھانے کے لئے۔ اس اکھاڑ پچھاڑ اور کھینچا تانی میں اداروں کا نقصان ہوتا ہے۔مگر یہ ان میں سے کسی کا مسئلہ نہیں۔چونکہ ہمارے ہاں ادارے کسی اصول یا ضابطے کے تحت نہیں چلتے بلکہ چند لوگوں کی ذاتی پسند یا نہ پسند پر چلتے ہیں اور ایسی جگہ کچھ لوگوں کے لئے سیاہ کو سفید بنا کر اور سفید کو سیاہ بنا کر پیش کرنا نہایت آسان اور عمدہ مشغلہ بن جاتا ہے۔

نتیجہ۔۔آپ کے سامنے۔ آج ہمارے ہاں کچھ بھی ٹھیک نہیں اور نہ ہی ٹھیک ہونے کا کوئی امکان ہے۔

٭٭٭

 

 

 

مسز سرفراز

 

مسز سرفراز وزن گھٹانے کے لئے روزانہ صبح ڈیفنس کے ایک پارک میں جوگنگ کرتی ہیں۔

وہ پارک کے کوئی چار پانچ چکر لگاتیں ہیں۔اس کے بعد وہ گھر پہنچ کے اس قدر تھکتی ہیں کہ باقی کا سارا دن وہ اپنی جگہ سے اٹھ کے پانی بھی نہیں پیتیں۔کام والی ماسی پلاتی ہے اور وہی بنگلے کا باقی کا سارا کام بھی کرتی ہے۔مسز سرفراز کے اس جوگنگ کے عمل سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ ان کی کام والی ماسی انتہائی سلم (slim) اور فٹ (fit) ہو گئی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

   میرا علاج میرے چارہ گر کے پاس نہیں

 

"یار! یہ تم مجھے کہاں لئے جا رہے ہو؟”

میں نے حیرت سے پوچھا۔

” ہندو سنیاسی بابا کے پاس”

عمران نے جواب دیا۔

"کیوں ؟” میں نے پوچھا۔

"علاج کے لئے” وہ بولا۔

"اُس بابا سے کہو کسی اور سے علاج کرا لے۔میں نہیں کرتا اُس کا علاج”

میں نے زینہ چڑھتے ہوئے کہا۔

اُس نے مجھے ایسے گُھورا کہ جیسے ابھی گلا دبا دے گا۔

"علاج تمہارا ہونا ہے۔۔۔بابا کا نہیں ”

"کیوں۔۔مجھے کیا ہوا ہے؟”

"یہ جو آپ پچھلے کچھ عرصے سے سو نہیں پا رہے۔چھت کو گُھورتے ہو۔کھانا اچھا نہیں لگتا۔

لوگ بات کریں تو اُن کو کاٹنے کو دوڑتے ہو۔آخر کیا وجہ ہے۔کسی نے کوئی سِفلی وِفِلی تو نہیں کر دیا”

عمران بڑے دھیمے لہجے میں مجھے سمجھانے گا۔پھر کہنے لگا۔

” دیکھو۔بابا۔بہت پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔تمہارا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا”

"تمہارا علاج بھی انہوں نے کیا تھا؟ جب تم وہ چار بچوں والی پر عاشق ہوئے تھے” میں نے ہنستے ہوئے کہا۔

"میں تمہیں جان سے مار دوں گا”اُس نے دانت بھیچتے ہوئے کہا۔پھر یکایک لہجہ بدلہ چونکہ بابا کا دروازہ سامنے تھا”please be serious”

میں نے کہا۔

"ok”

ہم کمرے میں داخل ہوئے۔ایک بڑا سا کمرہ تھا۔ایک طرف کونے میں کچھ بد اعتقاد عورتیں اور مرد اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے تھے۔دوسری طرف سفید پردے کے پیچھے ایک عورت بابا سے اپنی ساس کی غیبت میں مصروف تھی۔بابا کو بھی بڑا مزہ آرہا تھا۔ بڑے غور سے سن رہا تھا۔ دیوار پر کہیں دیوی دیوتا کی تصویریں لگیں تھیں تو کہیں مسلمان گاہکوں کو (جی ہاں گاہکوں کو) attract  کرنے کے لئے "یا اللہ اور یا محمدﷺ” کے تغرے بھی لٹک رہے تھے۔

ہماری باری آئی۔بابا کے درشن ہوئے۔مجھے یو لگا کہ جیسےStar Plus  کے کسی تاریخی ڈرامے کا کوئی کردار کھڑا ہے۔پیلے ہلدی کلر کا جبہ پہنے، گلے میں طرح طرح کے موتی اور مالائیں ڈالے۔عمران نے آگے بڑھ کر جھکنے کے انداز میں بابا کے گندے ہاتھ چومے۔پھر میری کیفیت بیان کی۔میں پیچھے چپ چاپ کھڑا رہا۔بابا ترچھی نظروں سے مجھے دیکھتا رہا۔ پھر اپنی گرجدار آواز میں کہا۔

"اس پر جادو کا اثر ہے”

میں نے زیرِ لب بڑبڑاتے ہوئے کہا۔ "بابا!ایک بار تو بھی اُسے دیکھ لے۔تجھ پر بھی جادو نہ ہو جائے تو نام بدل دینا”

عمران نے میرے پیٹھ پہ کہنی ماری۔بابا نے ایک تعویذ دیا کہ اسے ابھی شمال کی طرف جا کے پھینک دینا اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا”

"شمال؟”میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔”یار عمران!یاد ہے ہم دونوں جغرافیہ میں ہمیشہ فیل ہوئے ہیں۔ یہ شمال کس طرف ہے؟”

"میں معلوم کر لوں گا۔ تم چلو” اس نے میرا ہاتھ کھینچا۔

زینہ اترتے ہوئے میں نے عمران سے کہا۔”یار عمران ۱ اگر ہم نے یہی سب کچھ کرنا تھا تو پھر  ہم نے یہ یونیورسٹی کی ڈگریا کیوں لی ہیں۔مجھے اس وقت تم بالکل اُس کالے برقعے میں آئی ہوئی عورت جیسے لگ رہے ہو جو بابا سے کہہ رہی تھی کہ میری ساس کھاتی بہت ہے”

عمران نے زور کا قہقہہ لگایا۔زینہ اترتے ہی ایک ڈسٹ بن رکھا تھا۔میں نے اشارہ کیا۔

"عمران۔۔۔شمال”

عمران نے پوچھا”کہاں ہے؟”

میں نے ڈسٹ بن کی طرف دوبارہ اشارہ کیا اور تعویذ اُس میں ڈال دئے۔

تعویذ نے واقعی کام کر دکھایا۔

اُس رات بڑی اچھی نیند آئی

٭٭٭

 

 

 

میں اور میرے خواب

 

میں ٹائم مشین کے ذریعے 2030 میں پہنچتا ہوں۔کراچی کے علاقے لالو کھیت سے ایک راکٹ "۱۱W  "چاند، مریخ اور زہرہ کے لئے روانہ ہو رہا تھا۔کنڈیکٹر راکٹ کے گیٹ پہ کھڑا آوازیں لگا رہا تھا۔

"آؤ چاند, مریخ, زہرہ، آؤ۔ چاند, مریخ, زہرہ”

میں نے کنڈیکٹر سے دریافت کیا۔

"یہ راکٹ چاند کے کون سے علاقے میں جائے گا؟”

اس نے جواب دیا۔۔”کینٹ کے علاقے میں ”

میں نے کہا "مگر مجھے تو وہاں  لائٹ ورلڈ اسٹریٹ کے علاقے میں جانا ہے”

کنڈیکٹر بولا۔” راکٹ ادھر نہیں جائے گا۔وہاں صبح سے ہنگامہ ہے۔ سنی تحریک کے کسی بندے کو مار دیا ہے۔۔اب تک دو راکٹ اور چار چاند گاڑیوں کو آگ لگائی جاچکی ہے۔ایک  پٹھان کا ہوٹل بھی جلایا ہے ”

میں پریشان ہو گیا کہ اب کیا کروں۔

کنڈیکٹر نے میری پریشانی دیکھی  تو بولا "او بھائی ! جلدی بیٹھو راکٹ میں۔ ہمارے پیچھے دوسرا راکٹ بھی لگا ہوا ہے۔

اگر راستہ کھلا ہو گا تو ہم تم کو چاند کے  لائٹ ورلڈ کے علاقے میں اتار دے گا۔ورنہ تم ادھر کینٹ پر اتر جانا وہاں سے تم کو چنگ چی رکشہ مل جائے گا”

مجھے کنڈیکٹر کا یہ مشورہ پسند آیا۔راکٹ میں بیٹھنے سے پہلے میں نے اخبار والے سے روزنامہ چاند خریدا  تاکہ سفر میں بوریت نہ ہو۔پہلی سرخی دیکھ کر ہی میرا رنگ اڑ گیا۔

"ایم کیو ایم کے چاند کے یونٹ  پندرہ کے کارکن کا اغوا۔ایم کیو ایم کی طرف سے کل پورے چاند پر پرامن یوم احتجاج منایا جائے گا۔

چاند کے عوام سے کاروبار بند رکھنے کی اپیل”

دوسری خبر تھی کہ چاند کے علاقے "مون ہل ویو ” میں دھماکے کی ذمہ داری ایک فرقہ ورانہ تنظیم نے قبول کر لی”

تیسری خبر ایک غیر معروف مفتی صاحب کے بارے میں تھی انہوں نے فتویٰ دیا تھا کہ چاند پر چنگ چی رکشہ چلانا شرعاً حرام ہے۔

چوتھی خبر میں تھا کہ چاند کے بعض علاقوں میں کیبل آپریٹرز کی طرف سے جیو چینل کی نشریات روک دی گئیں تاہم ابھی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔ اگلی خبر ابھی پڑھنا شروع ہی کی تھی کہ راکٹ میں ایک افغانی بچہ کیلے بیچنے آ گیا۔

"کیلے والا، کیلے والا، کیلے لے لو، کیلے لے لو ”

میں نے اسے بلایا "بات سنو! یہ کیلے کیسے دئے؟”

وہ بچہ بولا "صاحب! 50 ہزار روپے درجن”

میں نے کہا "اتنے چھوٹے کیلے اور اتنے مہنگے”

وہ بولا ” صاحب !تازہ کیلے ہیں۔ایک بھی خراب نہیں نکلے گا۔آپ دیکھ کے لے لو۔چلو آپ پانچ سو روپے کم دے دینا”

میں نے کہا "مجھے نہیں چاہئیں ”

اسی دوران میری نظر راکٹ کے ڈرائیور کی طرف پڑی۔

وہ سیٹ پر اونگھ رہا تھا۔اس کی آنکھیں بند تھیں اور راکٹ چلائے جا رہا تھا۔

میں نے کنڈیکٹر سے کہا۔

"او بھائی !تمہارا ڈرائیور تو سو رہا ہے۔یہ راکٹ کو کسی دوسرے راکٹ سے ٹھوک نہ دے”

کنڈیکٹر نے جا کے ڈرائیور کو جگانے کے لئے ماضی کے مشہور گلوکار رحیم شاہ کے گانوں کی  سی ڈی لگا دی۔ ڈرائیور ہڑبڑا کے اٹھ گیا۔ایک تو مجھے رحیم شاہ آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ ماں کے لئے گا رہا ہے یا محبوبہ کے لئے۔

ـ”پہلے تو کبھی کبھی غم تھا۔۔۔ جھولا۔۔۔ میری ماں جھلاؤ نا جھولا”

ـ”یہ آپ کیا گا رہے ہیں ؟”

ہیں۔۔۔۔۔ یہ کون بولا؟

بیوی کی پھر آواز آئی۔ "لگتا ہے رات رحیم شاہ کا پروگرام دیکھا تھا وہ ابھی تک ذہن پر ہی”

میں بھی ہڑبڑا کے اٹھ گیا۔یہ کیا کیلنڈر میں وہی 2014۔۔

بیوی کی آواز آئی”ناشتہ یہیں لاؤں ؟”

میں نے کہا۔ "اللہ کی بندی تھوڑی دیر رک جاتی تومیں چاند دیکھ کے آتا”

٭٭٭

 

 

 

 

میلا پیالا پیالا دوست املیکا

 

1989  میں متحدہ سوویت یونین کی ریاست لیتھویا نے اپنی اسمبلی میں وفاق یعنی ماسکو سے علیحدگی کی قرار داد منظور کی۔اسمبلی ممبران نے اپنے آپ کو اسمبلی بلڈنگ میں بند کر لیا اور عمارت پر اپنا جھنڈا لہرا دیا۔اس وقت مرکز میں گورباچوف کی حکومت تھی اور امریکہ پر جارج بش سینئر کی۔ فوراً بش کا بیان اخبارات کی زینت بنا کہ "ہم روس کے اتحاد پر آنچ نہیں آنے دیں گے اور گورباچوف کے ساتھ کھڑے ہیں ”

گورباچوف کی فوجوں نے لیتھویا کی اسمبلی کو گھیر لیا۔

اچانک جارج بش نے پینترا بدلا۔”کسی فوجی ایکشن کی حمایت نہیں کی جائے گی”

روس کے پاس اور آپشن تھا بھی کیا فوجی ایکشن کے علاوہ۔ اس کے بعد امریکہ نے اپنے اتحادیوں اسپین، اٹلی اور آسٹریا وغیرہ کو اشارہ کیا۔انہوں نے ایک ایک کر کے لیتھویا کو تسلیم کرنا شروع کر دیا۔سب سے آخر میں امریکہ نے تسلیم کیا۔لیتھویا کے بعد لیتھونیا، اسٹونیا، آرمینیہ نے بھی علیحدگی کا اعلان کیا اور پھر لائن لگ گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے تیرہ چودہ ملک دنیا کے نقشے پر ابھرے۔

مجھے سینئر بش کا یہ جملہ یاد رہے گا کہ "ہم روس کے اتحاد پر آنچ نہیں آنے دیں گے اور گورباچوف کے ساتھ کھڑے ہیں ”

مجھے یہ جملہ پچھلے دنوں اس وقت یاد آیا تھا جب امریکی صدر اوباما نے کہا تھا کہ "ہم پاکستان کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں ”

پچھلے 65 سالوں میں ہم نے کئی بار امریکہ سے دھوکہ کھایا مگر ہمارے حکمران پھر اسی عطار کے لونڈے سے دوائی لینے پہنچتے ہیں۔مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا۔مگر یہاں مومن ہے کہاں۔

 

جون میں 14 اگست

 

ڈور بیل بجی۔میں نے دروازہ کھولا اور جو منظر دیکھا تو آنکھوں کو یقین نہ آیا۔ ہمارے پیارے دوست مولوی جون جولائی کی اس آگ برساتی گرمی میں تھری پیس سوٹ پہنے۔ٹائی شائی لگائے سامنے کھڑے ہیں۔

میں نے انہیں اندر آنے کا اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔

"کیا لندن میں کوئی وبائی مرض پھیلا ہے؟”

بولے "کیا مطلب؟”

میں نے سوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

"تمہارے سائز کے انگریز بھی مرنے لگے؟”

مولوی نے غصّے سے دیکھا اور صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولے "بکواس مت کرو”

مجھے پھر بھی قرار نہیں آیا”کیا لکی ایرانی سرکس میں نوکری کر لی؟”

"ابے نہیں یار! یہ میرے ولیمے کا سوٹ ہے۔اب فی الحال دوسرے ولیمے کا تو مستقبل قریب میں امکان نہیں۔ سو میں نے آج پہن لیاویسے بھی آج میری anniversary ہے” مولوی بولے۔

"you mean barsi?” میں نے پوچھا۔

"میں کچھ کھینچ کے مار دوں گا” مولوی نے آنکھیں دکھائیں۔پھر بولے۔

"آج تم مجھے کسی فائیواسٹار ہوٹل میں کینڈل لائٹ ڈنر کراؤ گے”

"کیوں ؟” میں نے کہا "مجھے کیا نواز شریف نے  اوور سیز پاکستانیز کی وزارت کا قلم دان سونپا ہے؟”

” میں کچھ نہیں جانتا۔بس آپ مجھے ڈنر کراؤ گے” مولوی ضدی بچے کی طرح بولے۔

میں نے کہا ” دیکھو۔۔۔ڈنر میں تمہیں ضرور کراؤں گا اور وہ بھی کینڈل لائٹز میں ہی کیونکہ میرے گھر کی لائٹ ابھی جانے والی ہے۔اور آج ہماری "بے غم” نے چکن جلفریزی بنائی ہے۔بہت ہی پیاری”

"جہنم میں گئی تمہاری چکن جلفریزی” مولوی چلائے”آج کھانا کھاؤں گا تو فائیو اسٹار ہوٹل میں ورنہ نہیں کھاؤں گا”

میں نے کہا ” ہاں یہ زیادہ بہتر ہے "ورنہ” کے بعد جو کہا ہے آپ نے۔۔ یعنی نہیں کھاؤں گا”

مولوی نے منہ بگاڑتے ہوئے کہا ” مجھے پتہ تھا تم انتہائی کنجوس آدمی ہو۔تم نہیں کھلاؤ گے۔تم دوست کی خوشی میں خوش نہیں۔میں جا رہا ہوں ”

مولوی اٹھ کے دروازے کی طرف بڑھے۔

میں بھی ان کی طرف لپکا” ارے ارے کہاں روٹھ کے جا رہے ہو۔ رکو تو سہی”

میں نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔پھر واپس صوفے پر بٹھاتے ہوئے کہا۔

"دیکھو! اس قسم کے دن کو سمجھ دار شوہر سوگ کے طور پر مناتے ہیں۔ایسے دنوں کو فقط عبرت کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے اور تم ہو کہ celebrate کرنے چلے ہو۔اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو کہ آئندہ ایسی غلطی پھر کبھی نہیں کروں گا”

وہ مجھے گھورتے رہے۔جیسے ابھی کھا جائیں گے۔

میں نے پوچھا ” خیر سے اس سانحے کو کتنے سال ہوئے؟”

مولوی بولے” دس سال ”

میں نے کہا ” تو پھر اب تو تم کو سوبر ہو جانا چاہئے۔یہ کیا نئے نئے چچھوڑے لڑکوں کی طرح anniversary منانے چلے ہو۔دراصل نئے نئے شادی شدہ اس لئے مناتے ہیں کہ انہیں اس حماقت کی سنگینی کا علم نہیں ہوتا۔ تم تو دس سال سے بھگت رہے ہو۔ آج کے دن تو تمہیں صرف اور صرف مونگ کی چھلکے والی دال کھانی چاہئے”

مولوی پھر کھڑے ہو گئے۔۔۔” میں جا رہا ہوں ”

اچانک ہماری "بے غم” کمرے میں داخل ہوئیں ” ارے بھائی صاحب ! کہاں جا رہے ہیں۔کھانا لگ گیا ہے۔کھانا کھا کے جائیے گا ”

مولوی نروس ہو گئے” وہ بھابھی! دراصل مجھے ایک کام”

"کام وام کچھ نہیں۔پہلے کھانا ” ہماری ہٹلر نے فرمان جاری کیا۔

بیچارہ مولوی اس کے سامنے کیا کہتا۔آخر مجھے زہر بھری نظروں سے گھورتے ہوئے کھانا کھانے بیٹھ ہی گیا۔

کھانا کھاتے ہوئے میں نے مولوی کو چھیڑتے ہوئے کہا "کھانا شروع کرنے سے پہلے آج کے دن کی مناسبت سے ہمیں ایک تعزیتی قرارداد منظور کرنی چاہئے تھی ”

” کیوں ؟ آج کے دن کیا ہوا تھا؟ ” ہماری بے غم نے حیرت سے پوچھا۔

"وہ کچھ نہیں ” میں نے مولوی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا "اصل میں آج کے دن برازیل میں زلزلہ آیا تھا۔کافی لوگ مر گئے تھے”

"oh! so sad”

بے غم نے کہا۔

مولوی نے نوالہ ثابت نگل لیا”یہ بکواس کر رہا ہے بھابھی”

میری ہنسی نکل گئی۔ بیوی ہم دونوں کو حیرت سے دیکھتی رہی۔

"دراصل آج میری شادی کی سالگرہ ہے” مولوی نے آہستہ سے کہا۔

"ہاں۔تو کیا ہوا۔اس روز دنیا میں اس کے علاوہ کوئی اور حادثہ ہوہی نہیں سکتاکیا ؟” میں نے کہا

ہماری بے غم نے مولوی کی طرف دیکھ کر کہا "ارے بھائی صاحب ! آپ کھانا کھائیں۔ان کی تو بس عادت ہے”

مولوی کھانا کھاتے ہوئے بولے”ویسے بھابھی! جلفریزی کا جواب نہیں۔ کھانا بہت لذیذ ہے”

"بہت شکریہ بھائی صاحب” ہماری بیوی نے کہا”ویسے آج کے دن تو آپ ہماری بھابھی کو بھی ساتھ لے آتے”

مولوی بولے”وہ دراصل پنڈی گئی ہے اپنے میکے”

میں نے کہا "یہ بیچارہ جون میں چودہ اگست منا رہا ہے”

اب کی بار ہماری بے غم اور مولوی دونوں نے ہمیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔

٭٭٭

 

 

 

دوست بن کر آئے ہو

 

ہمارے جان سے پیارے دوست مولوی کئی دن سے لاپتہ ہیں۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ کہیں اسلام آباد میں طاہر القادری صاحب کی بریانی لوٹنے نہ پہنچ گئے ہوں۔ ہم نے ان کے دروازے پر دستک دی۔دروازہ کھلا تو خلاف توقع مولوی خود طلوع ہوئے۔

"ارے تم؟” میں نے حیرت سے کہا۔

ناراض ہو گئے”بھئی میرا گھر ہے۔تو میں ہی ہوں گا اور کون ہو گا؟”

” یہ بات نہیں یار! کافی دنوں سے نظر نہیں آرہے تھے نا۔ میں نے سوچا کے قادری صاحب کے دھرنے میں کام آ گئے” میں نے ہنستے ہوئے کہا

"شرارت ہے مطلوب و مقصود مولوی

نہ شوق شہادت نہ ذوق خدائی”

"یہ شعر ابھی گڑھا ہے؟ یا کسی اور کا ہے؟” مولوی نے پوچھا۔

"تمہارے خالی سر کی قسم۔۔ابھی ابھی تمہیں دیکھتے ہی آمد ہوئی ہے”

میں نے مسکراتے ہوئے کہا”تم یوں ہی سامنے بیٹھے رہو۔ تو ابھی ابھی قادری صاحب کے خلاف ایک طویل آزاد نظم، وہ بھی مادر پدر آزاد، کی آمد ہوسکتی ہے، عالم رویا سے”

مولوی ہنس پڑے۔

"یار! چار روز سے بستر میں پڑا ہوں۔ایک تو ان نیوز چینلز نے بیمار کر دیا ہے۔ہر وقت ٹینشن۔ہر وقت بریکنگ نیوز”

میں نے کہا ” تو دیکھتے کیوں ہو بھائی! میں تو نیشنل جیوگرافک چینل دیکھتا ہوں یا ڈسکوری یا پھر فیس بک پر ٹائم صرف کرتا ہوں۔ ہاں البتہ غم غلط کرنا ہو تو قادری صاحب کی تقریر سن لیتا ہوں ”

کہنے لگے”یار تمہارے اتنے سارے دوست ہیں نا۔میں تو فیس بک پر بھی اکیلا ہوں۔اپنی پانچ چھ مختلف آئی ڈیز بنائی ہوئی ہیں۔خود ہی ایک آئی ڈی سے کوئی چیز شیئر کرتا ہوں اور خود ہی دوسری آئی ڈی سے لائک کرتا ہوں اور تیسری سے کمنٹس۔تمہاری طرح دوسروں کا محتاج نہیں ”

میں نے زور کا قہقہہ لگایا”وہ کیوں ؟ دوست کیوں نہیں بنائے؟”

مولوی نے سر کھجاتے ہوئے کہا”نہیں بھائی! آجکل کی دوستیوں سے تو آدمی اکیلا بھلا۔ویسے بھی مجھے میرے مزاج کا کوئی دوست ملتا بھی نہیں اور کوئی غلط دوست مل گیا تو آدمی کے بگڑنے کے چانسس بڑھ جاتے ہیں ”

میں نے کہا”ویسے تمہیں بتاؤں۔ تم خود اپنے آپ کی ہی صحبت میں بگڑ گئے ہو۔ تمہیں اور کون بگاڑے گا۔شاید کسی کے ساتھ رہو تو سدھر جاؤ”

کہنے لگے "مشورے کا شکریہ۔مجھے نہیں بنانے تمہاری طرح اتنے سارے دوست۔میں اکیلا ہی خوش ہوں، ویسے ایک بات  بتاؤں، یہ جو تم نے فیس بک پر دو ہزار دوست بنائے ہوئے ہیں۔ اس کا کوئی فائدہ بھی ہے؟”

"فائدہ؟” میں نے کہا”فائدہ اور نقصان تو کاروبار میں ہوتا ہے۔دوستی میں نہیں ”

مولوی بولے”میرا مطلب ہے کہ اگر تم مر گئے نا۔ تو ان دو ہزار میں سے پانچ آدمی بھی جنازے میں شریک نہیں ہوں گے”

"تو نا ہو” میں نے کہا "اور پھر میں نے دوستیاں اس لئے تھوڑی کی ہیں کہ اپنا جنازہ قادری کا دھرنا بن جائے”

مولوی ہنس پڑے۔ میں نے کچھ سوچ کر کہا”دیکھو مولوی!  تم کہتے ہو نا کہ فیس بک کی دوستیوں کا کوئی فائدہ نہیں۔میں تمہیں  بتاتا ہوں۔ پچھلے سال میرے بیٹے کو ٹائیفائڈ ہو گیا تھا اور وہ ہسپتال میں admit تھا اور جب میں نے فیس بک پر دعا کی اپیل کی تو یقین کرو کوئی ڈیڑھ سو سے زیادہ لوگوں نے دعائیں کیں۔مشورے، آیت قرآنی کے ورد کی تجاویز اور نا جانے کیا کیا مجھ سے شیئر کیا۔ اور ایک دوست نے تو مجھے زندگی بھر کے لئے خرید لیا۔ اس نے مکہ مکرمہ سے مجھے میسیج کیا کہ حنیف صاحب میں اس وقت حرم شریف میں موجود ہوں اور آپ کے بچے کی صحتیابی کے لئے دعا کر رہا ہوں۔ جب میں نے اس کا میسیج پڑھا تو میری آنکھیں بھر آئیں اور دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ اس کے بچوں کو ہمیشہ ہر بیماری اور تکلیف سے محفوظ رکھے۔ مولوی حیرت سے میرا چہرہ تکتے رہے۔

” بولو۔۔۔اب بھی فائدہ نہیں فیس بک فرینڈز کا؟” میں نے پوچھا”

٭٭٭

 

 

 

ایک اور پنگا

 

آخر کار ہمارے پیارے پیارے دوست مولوی نے علم  بغاوت بلند کر ہی دیا۔

آپ پوچھیں گے کس کے خلاف؟

ریاست کے؟

جی نہیں۔

اپنی بیگم کے۔۔

سر پہ کفن باندھا اور بیوی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کے کھڑے ہو گئے۔

ایک صاحب دوڑتے دوڑتے میرے پاس آئے کہ جلدی چلیں آپ کے دوست کا اپنی بیوی سے جھگڑا ہو گیا ہے۔ میں نے ناشتہ چھوڑ کے دوڑ لگائی۔جب مولوی کے گھر پہنچے تو حیرت ہوئی کہ وہاں تو مسلح تصادم کی صورت حال تھی۔ان کی بیگم کے ایک ہاتھ میں روٹی بنانے والا بیلن تھا اور دوسرے میں جھاڑو۔ جب کہ مولوی نے ایک بڑا سا اسٹیل کا تھال ہاتھ میں ڈھال کے طور پر پکڑا  ہوا تھا۔

میں نے دیکھتے ہی کہا "یہ کیا ہو رہا ہے”

ان کی بیگم کی آواز آئی "دیکھئے حنیف بھائی۔اس آدمی نے میرا جینا دوبھر کیا ہوا ہے”

ابھی وہ کچھ اور کہنا چاہ رہیں تھیں کہ مولوی بول پڑے۔

"میں نے جینا دوبھر کیا ہے ؟ میں نے جینا دوبھر کیا ہے؟”

میں نے ان کی بیگم سے کہا۔۔”بھابھی آپ گھر میں جائیں "اور مولوی سے کہا "تم میرے ساتھ چلو۔یہ کیا تماشہ لگا رکھا  ہے”

ان کی بیگم بڑبڑاتی ہوئی اندر چلیں گئیں۔ میں نے مولوی کا ہاتھ پکڑا اور اپنے گھر لے آیا۔

"ہاں اب بتاؤ۔کیا معاملہ ہے”

مولوی پسینہ پونچھتے ہوئے بولے۔ "کچھ نہیں یار!اس عورت نے گھر کو عذاب بنا رکھا ہے۔

اب تو میرے بچوں کو بھی میرے خلاف کرتی جا رہی ہے”

"اوہ” میں نے کہا "تو اب کیا ارادہ ہے۔۔۔مذاکرات یا آپریشن؟”

مولوی اپنا مختصر سا سینہ پھلا کر بولے”آپریشن”

"لیکن اس وقت تو وہ ایئر اسٹرائیک کر رہی تھی۔ میرا مطلب ہے جھاڑو اور بیلن”میں نے کہا  "تم تو دفاعی پوزیشن میں تھے”

مولوی بولے  "تم سمجھے نہیں میں اسے آخری وار کا موقع دے رہا تھا تاکہ کل کوئی یہ نہ کہے کہ میں نے زیادتی کی”

میں نے کہا "بات سنو۔ سیز فائر کر لو۔مذاکرات کی میز پر آ جاؤ”

مولوی پھٹ سے بولے "ہرگز نہیں۔۔اب پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے”

"ارے تو پانی سے باہر آ جاؤ۔تمہیں جب تیرنا نہیں آتا تو پانی میں اترے کیوں ؟” میں نے کہا۔

مولوی بولے "تم کچھ بھی کہہ لو اب فائنل راؤنڈ ہو گا۔حق و باطل کا۔یا وہ نہیں یا میں نہیں۔ ویسے بھی کسی نے کہا ہے کہ ظلم خاموشی سے برداشت کرنا بھی ظلم ہے”

میں نے کہا”بری بات۔۔۔ دیکھو۔۔۔آخر کار تمہیں بچوں کے لئے مذاکرات کی میز پر آنا ہی ہو گا۔۔۔لڑائی جھگڑے کے بعد آنے سے اچھا ہے کہ پہلے ہی آ جاؤ”

میں نے پانی کا گلاس ان کی طرف بڑھایا  "لو پانی پیو”

مولوی پہلے نہ نہ کرتے رہے۔۔۔آخر کار انہوں نے پانی پیا۔

میں نے کہا "دیکھو۔۔میں مذاکراتی ٹیم بنا کے تمہاری بیگم کے پاس بھیجتا ہوں۔ میرا مطلب ہے اپنی بیگم کو اور برابر والے افتخار صاحب کی ساس کو۔۔وہ اسے سمجھائیں گی۔تم آج کا دن میرے پاس ہی گزارو۔۔ ٹھیک ہے؟”

"لیکن؟” مولوی کچھ سوچ کر بولے۔

"لیکن ویکن کچھ نہیں۔۔۔ہر مسئلے کا حل بات چیت ہی میں ہے۔۔ اب تم آرام سے یہاں بیٹھو۔۔ میں تمہارا مسئلہ حل کرتا ہوں "میں نے کہا”اور ہاں۔۔ایک بات یاد رکھو عورت کو اپنا تابع بنانے کی کوشش کرنے کی بجائے اپنی زندگی کا برابر کا شریک بناؤ۔۔۔تاکہ اس میں احساس محرومی کے جراثیم پرورش نہ پائیں اور نہ ہی وہ علیحدگی کا سوچے اس کا حق تسلیم کرو۔تمہیں تو پتہ ہے نہ 71 میں کیا ہوا تھا”

انہوں نے حامی میں سر ہلایا”مگر اس کی ماں مکتی باہنی کا کردار ادا کر رہی ہے ”

میں نے کہا "تو کرنے دو۔۔ مگر۔۔۔ اگر تم نے اسے اپنے گھر میں شریک اقتدار کر لیا۔۔اس کا احساس محرومی دور کر دیا  تو مکتی باہنی بھی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی”

٭٭٭

 

 

 

 

 ایک دہریے سے مکالمہ

 

"مجھے خدا سمجھ میں نہیں آتا”

"خدا سمجھنے کی نہیں محسوس کرنے کی چیز ہے”

"دیکھو! میرا خدا کے بغیر بھی کام چل رہا ہے ”

"میرا خیال ہے خدا کا رکھنا۔۔۔خدا نہ رکھنے سے بہتر ہے”

"تمہاری بات سے بھی ظاہر ہے کہ خدا کو ہماری ضرورتیں ایجاد کرتی ہیں۔۔وہ ہمارے ذہن کی تخلیق ہے۔۔وہ ہے نہیں ”

"نہیں یہ بات نہیں۔۔۔دراصل کسی چیز کا ہونا یا نہ ہونا اس بات کا محتاج نہیں ہوتا کہ لوگ اس کے ہونے کو مانتے ہیں یا نہیں۔لوگوں کی اکثریت ایسی بیشمار چیزیں مانتی ہے جو نہیں ہوتی اور ایسی بے شمار چیزیں نہیں مانتی جو ہوتی ہے۔اب نیوٹن کے سر پر سیب گرنے سے پہلے بھی کشش ثقل موجود تھی۔مگر لوگوں نے نیوٹن کے بتانے پر مانا”

"لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ خدا ہے؟”

"اور کسی بات سے یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ خدا نہیں ہے۔میں نے خدا کو دیکھا نہیں لیکن اس کو پایا ہے۔ اسے محسوس کیا ہے۔اپنی پریشانیوں میں، بیماریوں میں، تکلیفوں میں، میرے پیچھے کھڑا ہوا، مجھے حوصلہ دیتا ہوا، مجھے گرنے سے بچاتا ہوا، مجھے راستہ دکھاتا ہوا”

"یہ سب سراب ہے۔ خود اپنے ذہن کا تخلیق کردہ۔مجھے دیکھو! میں خدا کے بغیر بھی مطمئن زندگی گزار رہا ہو۔مجھ پر کوئی مصیبت آئی تو خود مقابلہ کیا۔تمہاری طرح پیچھے مڑ کر فرضی سہارے نہیں ڈھونڈے”

"میری تو ہمیشہ خدا نے ڈھارس بندھائی۔مجھے ہر وقت اپنی بیک مضبوط نظر آئی کہ میرے پیچھے سنبھالنے والا کوئی بیٹھا ہے۔میں تم سے زیادہ مطمئن زندگی گزار رہا ہوں ”

"ایک دھوکے کے سہارے (ہنستے ہوئے)”

"دھوکے میں کون ہے یہ کسے پتہ، تم یا میں ”

"ازل سے یہی سلسلہ چل رہا ہے۔انسان کا خوف اپنے لئے دیوی دیوتا تخلیق کرتا ہے۔شجر ہجر سے ہوتا ہوا، سورج چاند تک اور پھر اب اس ان دیکھے خدا تک کا سفر، تم میں اور ہزاروں سالوں پہلے کے انسان میں زیادہ فرق نہیں ”

"کیا ہزاروں سال پہلے کا انسان منہ سے کھانا کھاتا تھا تو میں اب ناک سے کھانا شروع کر دوں (ہنستے ہوئے)”

"تعلیم، شعور، آگہی وہیں رکی ہوئی ہے۔کوئی فرق نہیں آیا۔پتھر کے دور کے انسان میں اور آج کے انسان میں، وہ بھی ان دیکھی بلاؤں سے ڈرتا تھا اور آج کا انسان بھی”

"کیا صرف اس سے مختلف ہونے کے لئے ہم اپنے خالق سے منحرف ہو جائیں۔جب تم مانتے ہو کہ یہ معمولی پین جو تمہارے ہاتھ میں ہے۔یہ تمہارا لباس، یہ تمہارا مکان، ان سب چیزوں کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ہے۔خود بخود کچھ نہیں بنا۔تو پھر اس کائنات کو اور انسان کو کیوں ان سے الگ سمجھتے ہو۔یہ کیسے خود بخود وجود میں آ سکتے ہیں ”

"جب خالق خود بخود وجود میں آسکتا ہے تو مخلوق کیوں نہیں ”

"کہیں نہ کہیں جا کے تو رکنا پڑے گا۔مرغی پہلے یا انڈہ۔خالق کے خالق کا سوچیں گے تو پھر اس کے بھی خالق کا سوچنا پڑے گا اور یہ سلسلہ کہیں نہیں رکے گا۔ ہم یہاں سے حد نگاہ تک دیکھتے ہیں۔اس سے آگے دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔کیونکہ وہ فضول ہے۔اسی طرح جس سوال کے جواب کی امید نہ ہو اس کے بارے میں نہیں سوچنا چاہئیے۔آج تک سینکڑوں اللہ کے نیک بندے آئے۔انہوں نے بتایا کہ ایک بنانے والا ہے۔ہمیں ان پر اعتماد کرنا چاہیے۔دنیا میں بھی انسان جب کسی راستے کا پتہ نہیں ہو تو دوسروں سے رہنمائی لیتا ہے۔یہ آج جو تمہارے ماں باپ ہیں۔یہ جب تم نے ہوش سنبھالا اور تمہیں بتایا گیا کہ یہ تمہارے والدین ہیں تب تمہیں پتہ چلا نا۔ اگر کوئی تمہیں کسی مندر کی سیڑھی سے اٹھا کے لایا ہوتا۔پال پوس کے بڑا کرنے کے بعد بتاتا کہ میں باپ ہوں۔ تو تمہیں ماننا پڑتا۔دنیا یقین پہ چل رہی ہے۔ضروری نہیں کہ ہر چیز میتھمیٹکس کے فارمولے دو جمع دو چار کی طرح صاف ہو”

"میں تمہاری بات سے قائل نہیں ہوں گا”

"مجھے پتہ ہے۔جس نے اپنے آپ کو نہیں پہچانا۔وہ خدا کو کیا پہچانے گا”

٭٭٭

 

 

 

 

 

دلیل یا غلیل

 

ہمارے جان سے پیارے دوست  مولوی کا چھوٹا بیٹا اسکول سے روتا ہوا آیا۔

مولوی نے پوچھا "کیا ہوا ؟”

بچے نے بتایا کہ اسکول میں کلاس فیلو نے دھکا دیا۔اس کا ہاتھ کہنی کی طرف سے چھل گیا۔مولوی کی بیوی نے بچے کی کہنی پر دوائی لگانی شروع کر دی۔

مولوی نے پوچھا” کس بچے نے دھکا دیا؟”

بیٹے نے بتایا "ارسلان منظور نے ”

مولوی کھڑے ہو گئے "وہ فوجی صوبیدار کے بیٹے نے؟”

بیٹا بولا۔”جی ابّو ”

مولوی کی وہی حالت جو حامد میر پر حملے کے بعد جیو کی تھی۔انہوں نے آستینیں چڑھائیں اور گھر سے باہر نکلے۔بیوی دروازے تک پیچھے دوڑتی آئی۔

"سنیئے! آرام سے بات کیجئے گا۔ کسی سے الجھئے گا مت”

مولوی بجائے اسکول جانے کے سیدھے میرے گھر پہنچے۔میں نے دروازہ کھولا تو تیزی سے گھر میں داخل ہوتے ہوئے۔کہنے لگے۔

"یار! اب تو فیصلہ ہو جانا چاہیئے کہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہو گی یا نہیں ”

میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔

"یار! یہ فیصلہ بعد میں کرنا فی الحال تو ناشتہ کر لو ”

مگر وہ کہاں سننے والے تھے۔بس شروع ہو گئے۔

ایوب خان،  یحییٰ خان، ضیا الحق اور پھر مشرف۔۔۔ کسی کو نہیں بخشا۔

"لیکن ہوا کیا؟”میں نے پوچھا”گھر میں بھابھی سے کوئی لڑائی وڑائی ہو گئی؟”

"نہیں یار” مولوی بولے۔

"آفس میں باس سے کوئی پھڈا؟” میں نے پوچھا۔

غصّے سے بولے "نہیں ”

میں نے پوچھا "یار تم تو نشہ بھی نہیں کرتے۔ تو پھر کیا گرمی میں لونگ کی چائے پی لی؟”

چینخ کے بولے "نہیں دیکھو میں serious ہوں ”

میں نے کہا "وہ تو تم نظر آرہے ہو”

کہنے لگے”اس ملک میں دلیل کی حکومت ہو گی یا غلیل کی؟”

میں نے ہنستے ہوئے کہا” دلیل والی غلیل کی۔۔۔ہاہاہاہا۔۔اچھا یہ بتاؤ۔۔جیو والوں سے کچھ پیسے تو نہیں کھائے؟”

۔بولے۔”دیکھو۔۔تم سنجیدہ ہو جاؤ۔۔یہ تم جیسے لوگ ہیں جو آدھے دن جیو دیکھتے ہیں اور باقی آدھے دن جیو کے خلاف لکھتے ہیں اور مظاہرے کرتے ہیں ”

میں نے ہنستے ہوئے کہا”مگر سوال وہیں کھڑا ہے۔۔کہ ہوا کیا؟”

کہنے لگے”میرا چھوٹا بیٹا ہے نا۔۔ رضوان۔۔۔ اسے اسکول میں صوبیدار کے بیٹے نے دھکا دے کے بری طرح زخمی کر دیا”

"او میرے خدایا!”  میں نے سر پکڑ لیا   "تو اتنی سی بات تھی”

"یہ اتنی سی بات نہیں ہے” مولوی بولے”تمہارے بچے کو لگا ہوتا تو تب تمہیں احساس ہوتا”

"ارے پاگل آدمی۔۔۔رضوان میرا بیٹا نہیں کیا؟ اچھا یہ بتاؤ اسے کہاں لگا ہے؟”

"ہاتھ میں ” مولوی بولے "ہاتھ کی کہنی ساری چھل گئی ہے”

"اوہو۔۔۔کوئی دوائی وغیرہ لگائی؟” میں نے پوچھا۔

"ہاں ” مولوی بولے "تمہاری بھابھی نے لگائی ہے”

میں نے مولوی کی طرف چائے کا کپ بڑھایا۔

"دیکھو۔۔یہ بچوں کی لڑائی ہے۔۔۔تم اس میں ملکی سیاست کو لے آئے۔۔۔تم کیا سمجھتے ہو کہ تمہارے بچے کو دھکا دینے کا فیصلہ "جی ایچ کیو” میں ہوا ہو گا۔۔۔یا آئی ایس آئی والوں نے حکم دیا ہو گا۔۔۔بچے۔۔۔ بچے ہوتے ہیں۔۔۔چاہے تمہارے ہوں یا کسی فوجی کے۔۔۔اب فرض کرو اگر تمہارے بچے نے اس صوبیدار کے بچے کو مار ا ہوتا۔۔۔تو کیا وہ صوبیدار آرمی چیف سے کہہ کے جمہوری حکومت کی بساط لپٹوا دیتا؟ بولو؟”

مولوی چائے کی چسکی لینے لگے۔

"ہمیشہ دوسرے کی سائڈ پر رہ کر سوچا کرو۔۔مسائل پیدا ہی نہیں ہوں گے۔۔” میں نے کہا

"مگر” مولوی نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا۔

"اگر مگر کچھ نہیں "میں نے کہا

"زیادہ امتیاز عالم۔۔یا نجم سیٹھی بننے کی ضرورت نہیں۔جاؤ۔جا کر بچوں میں صلح کرا دو۔ایک آئسکریم اپنے بچے کے لئے اور ایک صوبیدار کے بچے کے لئے لے کے جاؤ۔

سارا جھگڑا ختم”

مولوی کے دماغ شریف میں بات پہنچ گئی۔۔۔

"تم ٹھیک کہتے ہو” وہ کھڑے ہوئے اور دروازہ کھول کے باہر نکلے۔

میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ملک ایک بڑے بحران سے بچ گیا۔

(یہ آخری جملے پر لائک تو بنتا ہے نا؟)

٭٭٭

 

 

 

 میری شامت

 

ایک بزرگ میری پوسٹ  "بپاشا باسو کی پارسائی”  پڑھتے ہوئے کافی پریشان ہو گئے۔

کہنے لگے۔

"حنیف صاحب! یہ کیا لفظ ہے۔۔۔بی۔۔۔ پا۔۔۔ شا؟ یہ کیا کوئی چیز ہے؟ یا کوئی نام ہے ؟کوئی چینی یا جاپانی نام ؟۔۔کیا ہے؟”

میں انہیں کیا بتاتا۔۔۔مجھے لوگوں کے علم میں اضافہ کر کے خوشی محسوس ہوتی ہے مگر اس قسم کا علم۔۔۔اور فرض کیجئے ان بزرگ کو معلوم نہیں بھی ہوا کہ "بپاشا کون ہے تو کیا فرق پڑے گا۔۔۔لیکن پھر شاید انہیں اس پوسٹ میں وہ مزہ نہیں آئے گا۔۔۔جو بپاشا کو جاننے کے بعد آئے گا کیونکہ میں نے لکھا تھا کہ بعض علماء تو ایسے ہیں جو بپاشا باسو کو بھی پارسائی کا  سرٹیفیکٹ دے دیں گے۔

میں نے نیٹ سے سرچ کر کے بڑی مشکل سے بپاشا کی ایک ایسی تصویر نکالی جو مکمل لباس میں تھی اور انہیں دکھائی اور بتایا کہ یہ ایک انڈین اداکارہ ہے۔ انہوں نے زور سے لاحول پڑھی۔پھر کہنے لگے۔

"آج کل آپ کن لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں ؟”

میں نے ہنستے ہوئے کہا "جیو چینل والوں میں ”

وہ بھی مسکرائے۔

پھر میں نے اپنی جھینپ چھپاتے ہوئے کہا”حضور! اس اداکارہ کے نام سے آپ کی لاعلمی پر مجھے افتخار عارف کی ایک نظم یاد آ گئی”

کہنے لگے "جی ارشاد”

میں نے نظم سنائی۔

"جوہری کو کیا معلوم

کس طرح کی مٹی میں

کیسے پھول کھلتے ہیں

کس طرح کے پھولوں میں

کیسی باس ہوتی ہے

جوہری کو کیا معلوم

جوہری تو ساری عمر

پتھروں میں رہتا ہے

زرگروں میں رہتا ہے

جوہری کو کیا معلوم”

جھوم جھوم گئے۔کہنے لگے۔۔۔”افتخار عارف اگر ابھی یہاں ہوتے تو میں ان کے ہاتھ چوم لیتا”اس کے بعد اٹھ کے جانے لگے۔دروازے تک پہنچ کے پھر رکے۔”سنئیے ”

"جی جناب!” میں نے کہا۔۔

کہنے لگے۔”ذرا جیو کم دیکھا کریں۔۔آپ اچھے آدمی ہیں ”

٭٭٭

 

 

 

 

  میری جہالت

 

ایک مہربان نے میسیج کے ذریعے اعتراض کیا کہ یہ کیا عنوان ہے ؟

"لیبر ڈے پر لیبر پین”

میں نے عرض کی”دراصل میں یہ لکھنا چاہ رہا تھا کہ”یوم  مزدور پر مزدور کا درد”

جب میں نے اداکارہ میرا کو میسیج بھیجا کہ یہ عنوان صحیح ہے ؟تو انہوں نے از راہ ہمدردی اصلاح فرمائی کہ اسے انگلش میں اس طرح کر لیں۔

LABOUR PAIN ON LABOURDAY

میں ان کا شکر گزار ہوں کہ وہ اکثر مجھ جاہل کی رہنمائی فرماتی رہتی ہیں ــ

واقعی دوستو!

آج احساس ہوتا ہے کہ تعلیم کتنی ضروری ہے اس جدید دور میں۔۔۔ کاش کہ ہم نے بھی میرا جی کی طرح کچھ پڑھ لکھ لیا ہوتا۔تو آج ان کی طرح اداکار ہ نہ سہی۔۔کم از کم سندھ کے وزیر تعلیم تو ہوتے۔

افسوس!

٭٭٭

 

 

 

 

 شیطان کی شرارت

 

اجمل صاحب کے چھوٹے بیٹے فرقان کو ڈینگی کا بخار ہو گیا۔ اجمل صاحب پریشان ہو گئے۔

ان کے ماشا اللہ پانچ بچے تھے مگر ان کا دل چھوٹے بیٹے میں زیادہ تھا۔

ان کا سسرال پیروں فقیروں کے زیر اثر تھا۔۔۔جبکہ اجمل صاحب بیوی کے۔

ہرچند کے وہ پڑھے لکھے تھے لیکن ڈگریوں سے آدمی پڑھا لکھا نہیں ہوتا۔اصل تو اس کا چیزوں کو دیکھنے اور برتنے کا انداز اس کی قابلیت ظاہر کرتا ہے۔ان کے سسرال کے ہر بزرگ سے لے کے چھوٹے بچوں تک کے گلے میں اور ہاتھوں پیروں میں طرح طرح کے رنگ برنگے دھاگے بندھے ہوتے تھے۔ طرح طرح کے تعویذ ہوتے تھے۔پوچھو  تو پتہ چلتا کہ

"یہ فلاں بابا کا تعویذ ہے ”

"یہ فلاں مزار کا دھاگہ ہے ”

خاندان کے کسی فرد کو چھینک بھی آ جاتی تو بجانے ڈاکٹر کے پاس جانے کے کسی بابا۔۔

کسی پیر کے پاس جاتے۔

جہاں ایسی جہالت ہو وہاں شیطان کے مزے ہوتے ہیں۔ اسے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔

اس کے سارے کام خود بخود آسان ہو جاتے ہیں۔بدگمانیاں خود ہی اپنا کام دکھاتی ہیں۔

خاندان ٹوٹتے چلے جاتے ہیں۔

یہاں بھی یہی ہوا۔

اجمل صاحب کی بیگم اور ساس ڈینگی کے شکار بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی بجائے کسی "مردود پیر” کے پاس لیں گئیں۔ اس شیطان نے بچے کو دیکھنے کے بعد کہا کہ اس بچے پر تمہارے ہی خاندان کی عورت نے جادو کرایا ہے۔ بہت زیادہ پوچھنے پر نام کا پہلا حرف بھی بتایا جو اتفاق سے اجمل صاحب کے چھوٹے بھائی کی بیگم کے نام کا بھی پہلا حرف تھا۔ بس پھر کیا تھا۔اجمل صاحب کی بیگم کی تو ویسے ہی اپنی دیورانی سے نہیں بنتی تھی۔ اس معاملے نے اور پکا کر دیا۔

اجمل صاحب اپنے چھوٹے بھائی پر جان چھڑکتے تھے۔ مگر اولاد اولاد ہے، اور پھر بدگمانی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ جلد اثر انداز ہو کر آدمی کو اندھا کر دیتی ہے۔

نتیجہ۔۔۔۔۔۔ خاندان تقسیم۔

جہالت کی فتح۔۔۔۔۔۔ سچ کی شکست۔

ادھر چھوٹی بہوں کو جب پتہ لگا کہ اس کا نام آیا ہے بچے پر جادو کرانے میں تو اس نے آسمان سر پہ اٹھا لیا۔  کہنے لگی۔ "میں ابھی وضو کر کے سب کے سامنے قران شریف اٹھاتی ہوں کہ میں نے اس بچے کو ہمیشہ اپنا بچہ سمجھا ہے۔میں اس پر جادو کیوں کراؤں گی۔ اس مردود پیر کو بھی لاؤ کہ وہ بھی قران اٹھائے”

پیر نے کہاں آنا تھا اپنا آستانہ مبارک چھوڑ کر۔۔اس شیطان نے تو شرارت کر دی تھی۔۔۔

اس نے تو اپنا کام کرنا تھا سو کر دیا۔۔دلوں میں بال ڈال گیا۔

حضور پاک ﷺ کا فرمان مبارک ہے۔

بدگمانی سے بچتے رہو، کیوں کہ گمان (بد ظنی) سب سے جھوٹی بات ہے۔ آپس  میں ایک  دوسرے کی برائی کی تلاش میں نہ لگے رہو نہ ایک دوسرے سے بغض رکھو اور نہ  پیٹھ پیچھے   کسی کی برائی کرو، بلکہ اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو۔

(صحیح البخاری)

٭٭٭

 

 

 

 

   ہفتہ خوش اخلاقی

 

والدہ نے میرے لئے ایک لڑکی پسند کی اور رشتہ بھیج دیا۔ لڑکی والوں نے کچھ وقت مانگا۔اس کے علاوہ میری دکان کا ایڈریس اور ٹیلی فون نمبر لئے تاکہ اپنے طور پہ لڑکے کو دیکھ کے فیصلہ کریں۔

والدہ نے آکے مجھے سمجھایا”دیکھو لڑکی والوں کو تمہاری دکان کا پتہ دے آئی ہوں۔ہوسکتا ہے وہ تم سے ملنے دکان پر آئیں۔اول تو وہ اپنا تعارف کرائیں گے۔مگر ہوسکتا ہے وہ گاہک بن کر تمہارے پاس آ ئیں۔ تو ذرا احتیاط سے بات کرنا۔آج کل سنا ہے دکان پر تمہارا پارہ ہائی رہتا ہے۔گاہکوں سے بھی گرمی سے بات کرتے ہو۔کہیں لڑکی والوں سے نہ لڑ مرنا، تہذیب سے بات کرنا ”

میں نے کہا” جی امّاں ! جو حکم، ویسے آپکو میری دکان کی یہ غلط رپورٹ کون دیتا ہے کہ میں گاہکوں سے گرمی سے بات کرتا ہوں۔میں تو ہر گاہک سے آپ جناب سے بات کرتا ہوں۔

شاید دکان کے نہیں چلنے کی وجہ بھی میری خوش اخلاقی ہے۔آج کل گاہک بد تمیز دکاندار سے فورا سودا لیتا ہے کہ اگر نہیں لیا تو ذلیل کر دے گا۔ہم جیسے کو تو گولی دے کے باہر نکل جاتا ہے کہ کل آؤں گا۔

اس روز سے امّاں کے حکم کے مطابق ہم نے دکان پر”ہفتہ خوش اخلاقی”  کا آغاز کر دیا۔ ہر گاہک، چاہے لینے والا ہو، یا نہ ہو، چائے یا بوتل پئے بغیر نہ جاتا۔ہمیں ہر گاہک میں اپنے ہونے والے سسرالی نظر آتے اور ہم ایک غیر روایتی مصنوعی مسکراہٹ سے اس کا استقبال کرتے۔ایسی مسکراہٹ کہ جو شاید آپ کو صرف اور صرف close up tooth paste  کے اشتہار میں نظر آئے گی۔

اس عمل سے ایک فائدہ ہوا۔دکان چل نکلی۔پورے پندرہ روز تک گاہکوں کو بوتلیں، چائے پلانے کے بعد ہم نے سوچا کہ کہیں دکان کا دیوالیہ نہ نکل جائے۔سسرالی نہیں آئے۔ہم نے سوچا کہ اب اپنے اصل روپ میں آنا چاہئے۔فیصلہ کر لیا کہ آج سے خوش اخلاقی اور ڈیل کارنیگی بند۔

اگلے روز گھر پہنچے تو امّاں ہاتھ میں بیلن لے کے دروازے پر کھڑی تھیں۔

"تیرا ستیاناس جائے۔۔یہ تو نے کیا کیا ”

"امّاں ہوا کیا ؟”

"کل تو نے جسے گاہک جان کر ذلیل کر کے نکالا ہے وہ کون تھا پتہ ہے؟”

کل ؟ وہ ایک ہکلا آیا تھا۔اس کی بات کر رہی ہیں آپ ؟”

"ہاں وہی۔۔وہ تیرا ہونے والا  "چچا سسر ”  تھا۔اور اسے تو نے ذلیل کر کے نکالا کہ تو کیا لے گا۔تیرے باپ نے بھی کبھی سونا خریدا ہے ”

امّاں نے زور سے بیلن ہاتھ  پہ مارا۔”بیڑہ غرق تیرا۔۔تجھے سمجھایا بھی تھا ”

"امّاں ! بات تو سنو۔وہ  ہکلا دق کر رہا تھا۔کہہ رہا تھا سونا کیا کلو ہے ؟بتاؤ۔۔۔۔ تپا دیا اس نے مجھے۔۔۔میں نے کہا سونا لینے آئے ہو  یا تربوز؟ـ ”

امّاں نے سر پکڑ لیا۔

٭٭٭

 

 

طالبان کے ہاتھوں کنیڈی کا قتل

 

ہمارے دوست مولوی کا فون آیا۔”یار حنیف! یہ فیس بک پر آج ہر طرف  ‘ملالا  ملالا’ کیو ں ہو رہا ہے؟”

میں نے ہنستے ہوئے کہا۔

"دل کے ماروں کا نہ کر غم کہ یہ اندوہ نصیب

زخم بھی دل میں نہ ہوتا تو کراہے جاتے”

شعر مولوی کے اوپر سے ایسے ہی گزر گیا جیسے کہ ہمارے بائیں بازو کے دوستوں کے اوپر سے دلیل۔۔۔مزے کی بات ہے کہ وہ لوگ بھی کہتے ہیں کے دلیل سے بات کریں۔۔۔جو دلیل کی "دال” سے بھی ناواقف ہیں۔

مولوی پھر بولے "اس شعر کا کیا مطلب؟”

میں نے کہا”بھائی ! ملالا نے اتنا بڑا کام کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے در و دیوار ہلا دئے ہیں۔صحرا میں اذان دی ہے۔تم نے دیکھا نہیں۔ کتنی زبردست تقریر کی ہے۔لوگ کھڑے ہو گئے۔دیر تک تالیاں پیٹتے رہے بلکہ برطانیہ کے گولڈن براؤن تو بالکل گولڈن ریڈ ہو گئے تھے۔ انہوں نے اپنے سیکرٹری سے کہا کہ پتہ کرو کہ ملالا کو تقریرکس نے لکھ کے دی ہے آئندہ میری تقریریں بھی وہی لکھے گا”

"اچھا؟” مولوی نے حیرت سے پوچھا”اتنی عزت؟وہ بھی ایک پاکستانی لڑکی کو؟”

میں نے کہا”جی جناب! ایک سولہ سالہ لڑکی کو اتنی عزت۔۔بھئی۔۔وہdeserve کرتی ہے۔۔۔اس نے 16 سال کی عمر میں وہ کام کر دکھایا کہ جو بائیں بازو کے بڈھے کھوسٹ 65 سال سے امریکہ اور برطانیہ کے ٹکڑوں پر پلنے کے باوجود نہیں کرسکے۔

کبھی انسانی حقوق کے نام پر، کبھی جمہوریت کے نام پر، تو کبھی کسیNGO کے نام امریکہ اور مغرب کا مال کھاتے رہے مگر وہ رزلٹ نہ دے سکے جو اس 16 سالہ بچی نے چند دنوں کی ٹریننگ کے بعد دئے”

"واقعی کمال ہے” اب تو مولوی بھی ملالا کے متاثرین میں نظر آئے۔

پھر کہنے لگے”مگر یار! یہ ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔۔۔وہ یہ کہ ملالا نے جب حضور ﷺ کا نام مبارک لیا تو پھر jesus christ اور  Budha  کا نام لینا ضروری تھا؟

مجھے غصّہ آ گیا” یار یہی عادت تم جیسے چھوٹے ذہنوں والوں کی غلط ہے۔اس میں کیا ہو گیا جو اس نے ان کا نام لے لیا اور ایک بات بتاؤں اگر وہ صرف حضرت محمد ﷺ کا نام لیتی اور دوسروں کا نام نہ لیتی تو پھر تم میں اوراس بچی میں فرق ہی کیا رہ جاتا دراصل اسے ڈر تھا کہ اگر اس نے  jesus christ کا نام نہ لیا تو کہیں گولڈن براؤن اسے کاٹ نہ لے اگر ایسا ہوتا تو اسے چودہ ٹیکے لگتے۔اس کے علاوہ  بدھا کا نام لینا بھی ضروری تھا کیونکہ سنا ہے کہ بان کی مون جوڈو کراٹے بھی جانتا ہے۔۔۔بیچاری”

"ہائیں ؟” مولوی حیرت میں پڑ گئے۔

میں نے بیان جاری رکھا ” بیچاری کی مجبوری دیکھو۔محمد علی جناح کا نام لیا تو گاندھی بھی ضروری ہو گیا۔یہ تقریر نہیں تھی بلکہ اکبر اعظم کا دین الہی تھا۔ سب کو خوش کرنا تھا۔ بے نظیر بھی، باچا خان بھی، نیلسن منڈیلا بھی، وہ تو بیچاری سے بھول ہو گئی وہ ملکہ برطانیہ اور جارج واشنگٹن کا نام بھول گئی۔یا کم از کم جان ایف کینیڈی کی شہادت کا ہی ذکر کر دیتی۔وہ بیچارہ بھی طالبان کے ہاتھوں مارا گیا تھا”

٭٭٭

 

 

 

 

قربانی

 

(میں آپ کو دو افراد کی گفتگو سناتا ہوں بغیر کسی تبصرے کے)

 

الف :  اور بھئی حاجی صاحب! قربانی کا جانور خریدا آپ نے ؟

ب :  جی میاں صاحب! آج صبح ہی لائے ہیں۔کل رات 11 بجے کے گئے تھے منڈی۔ پورا سہراب گوٹھ چھان مارا۔ کوئی جانور پسند ہی نہیں آتا تھا۔

الف :  کیوں حاجی صاحب !جانور تو بہت ہیں منڈی میں۔پھر؟

ب :  بس جی، اپنی طبیعت آپ کو پتا ہے نا، ایسے ویسے جانور پر تو ہاتھ نہیں رکھتے، جانور ایسا ہونا چاہئے کہ پوری ذات برادری میں کسی کے پاس نہ  ہو اور پھر ہمارا بیٹا 5 لاکھ سے کم کے بیل پر تو ہاتھ ہی نہیں رکھتا۔ ہم نے بھی سوچا کہ بچے کا دل نا توڑو۔ اسے اس کی اپنی ہی پسند کا جانور دلاؤ۔ آخر کماتے کس کے لئے ہیں۔ بچوں کے لئے ہی تو کماتے ہیں۔

الف :   بالکل درست فرمایا آپ نے حاجی صاحب ! تو پھر کتنے میں ملے بیل؟

ب :  بھئی۔۔۔رات 11 بجے کے گئے تھے،  تو کوئی صبح 6 بجے کے قریب سودا نمٹا۔

دس لاکھ روپے مانگ رہا تھا بیلوں کی جوڑی کے، میں نے بھی پانچ لاکھ سے اسٹارٹ لیا، وہ نو پر آیا، میں چھ پر، وہ آٹھ پر آیا، میں سات پر، بڑی مشکل سے ساڑھے سات میں سودا ہوا، مگر جانور لاجواب ہیں۔ یقین کیجئے کہ ذات برادری تو چھوڑئیے۔ پورے 10 میل کے علاقے میں ایسا کوئی جانور نہیں ہو گا۔

الف :  ماشا اللہ بھئی ماشا اللہ، کیا کہنے آپ کے ذوق کے، آپ بڑے دل سے قربانی کرتے ہیں۔

ب :  بس جی میاں صاحب! اللہ قبول کرے۔ اپنی ایسی طبیعت نہیں کہ مرے ہوئے سوکھے جانور پسند کریں پچاس پچاس ہزار کے، اپنا تو یہ حساب ہے کہ قربانی کرو تو دل کھول کر کرو، ورنہ  نا کرو۔

الف :  بجا فرمایا آپ نے حاجی صاحب !ہماری بھی بالکل آپ جیسی ہی طبیعت ہے۔ ہم اتوار کو ملیر کی منڈی گئے تھے۔ وہاں سے دس بکرے لئے، چھ اپنے چھ بچوں کے نام پر، دو ہم میاں بیوی کے لئے اور ایک ایک ابّا مرحوم کے اور اماں مرحومہ کے نام پر۔ بھئی میں تو ہر سال اپنے مرحوم والدین کے نام پر بھی قربانی کرتا ہوں۔ دو گائے لیں غریبوں میں بانٹنے کے لئے، باقی بکرے کا گوشت اپنے لئے رکھ لیں گے۔ بھئی۔۔گائے کے گوشت کو تو بچے ہاتھ نہیں لگاتے۔۔وہ صرف بکرے کا کھاتے ہیں۔

ب :  جی بالکل۔۔اپنے ہاں بھی یہی حال ہے۔۔ ویسے میاں صاحب !یہ سارے جانور آئے کتنے کے؟

الف : (کچھ سوچ کر) یہی کوئی 10 لاکھ میں۔

(ب کی شکل قابل دید ہو گئی کہ سالا مجھ سے آگے بڑھ گیا )

 

"تو نے سمجھا ہی نہیں فلسفہء قربانی”

نفس سرکش پہ چھری پھیر اسے زمین میں گاڑ”

٭٭٭

 

 

 

 قیس اور ٹارزن

 

ہمارے دوست اشرف سمانا نےmsgبھیجا کہ یہ شعر کس کا ہے۔

"قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو

خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو ”

میں نے اپنے دیگر دوستوں  سے رابطہ کیا۔ کچھ نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ محترم اقبال ہاشمانی کی طرف سے بھی جواب آیا۔ وہ میں نے اشرف سمانا کو بھیج دیا اس اعتراض کے ساتھ کہ میں نے کسی رسالے میں یہ شعر یوں پڑھا ہے کہ”قیس صحرا میں اکیلا ہے”

آپ نے اسے جنگل میں بھیج دیا۔

بھائی!

اگر قیس جنگل میں رہے گا تو پھر اپنا ٹارزن کہاں جائے گا؟

ویسے بھی لیلیٰ مجنوں صحرائے عرب کی داستان ہے۔ وہاں جنگل کہاں ؟

عرب بیچارے دو گملے پھولوں کے دیکھتے تھے  تو باؤلے ہو جاتے تھے اور چلِاتے تھے۔

’’نخلستان نخلستان’’

اسی لئے تو اللہ تعالی نے بھی قرآن میں بار بار باغات کا ذکر کیا ہے۔

اشرف سمانا مصر تھے کہ نہیں ’شعر میں جنگل کا ذکر ہے، اس مسلئے کا حل محترم ذیشان عبدل گوندل کے فیس بک پہ تحریر نے حل کر دیا۔ معلوم ہوا کہ یہ شعر میاداد خان سیاح کا ہے۔ جو غالب کے شاگرد تھے اور اصل شعر میں جنگل ہی ہے۔ اشرف سمانا جیت گئے۔ میں ہار گیا۔ قیس جنگل میں آ گیا اور ٹارزن باہر ہو گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

راجہ پورس فیس بک پر

 

ایک خاتون نے  msgکیا۔۔۔

"حنیف سمانا صاحب ! یہ حنیف سمانا کتنے ہیں ؟ میں نےgoogle  پر search کیا تو اور حنیف سمانا بھی نظر آئے”

میں نے جواب میں لکھا۔

"بی بی ! اوریجنل حنیف سمانا تو ایک ہی ہے جس کو آپ نے msg کیا ہے کیونکہ

"بنا کر مصور نے توڑا قلم”

ہاں البتہ مارکیٹ میں چائنا کے حنیف سمانا بہت سے آ گئے ہیں لیکن بے فکر رہئے۔ اصلی اصلی ہی ہے، گارنٹی کے ساتھ۔ "حنیف سمانا ” صرف نام ہی کافی ہے۔ ہاں البتہ، آپ کو گوگل پر search کرنے کی کیونکر ضرورت پیش آئی۔ اس بات نے مجھے کل رات بھر سونے نہیں دیا۔ اور ہاں۔ اب مجھے google کی افادیت بھی معلوم پڑی۔۔ واقعی۔۔ اللہ نے(اور امریکنوں نے بھی )کوئی بھی چیز بلا مقصد نہیں بنائی۔

خاتون کا جواب آیا”زیادہ خوش فہمی میں نہ رہیں۔ وہ تو میں بس یونہی وقت گزارنے کے لئےGoogle دیکھ رہی تھی۔ رہی بات اس کی کہ”بنا کر مصور نے توڑا قلم”

تو ہوسکتا ہے کہ مصور سوچتا ہو کہ یہ کیا بنا دیا اور پھر قلم توڑ دیا ہو۔۔۔ہاہاہاہا۔۔۔ویسے آپ دل چھوٹا نہ کریں۔ آپ فیس بک پر نواز شریف اور زر داری سے زیادہ مقبول ہیں ”

میرا جواب:

"بی بی! میں اپنا دل جتنا بھی چھوٹا کر لوں رہے گا آپ کے دماغ سے بڑا۔۔۔

ہاہاہاہا۔۔ یہ آپ کا حسن ظن  ہے بلکہ عقل زن ہے کہ آپ نے ان دو کے ساتھ مجھے ملایا ورنہ وہ دو  ہیں کس قابل۔

کہاں میں راجہ پورس اور کہاں وہ دو گنگوں تیلی۔

بہرحال۔ گوگل پر سرچ کرنے والی بات سمجھ نہیں آئی۔ اتنی ہی ضرورت تھی توکسی مسجد میں اعلان کروا دیا ہوتا۔ Anywayخوش رہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 ہتھوڑے پر ہتھوڑی

 

کسی زمانے میں فلاح مجلس ادب کے زیر اہتمام ہفتہ وار ادبی تنقیدی نشست ہوا کرتی تھی۔

میں بھی اس میں کبھی کبھی اپنی غزل، افسانے وغیرہ پیش کرتا تھا۔ایک بار ایک نئے افسانہ نگار کہ جن کا نام غالبا” اقبال انصاری تھا۔ نے ایک افسانہ سنایا۔ افسانہ عمدہ تھا۔ مگر اس میں انگریزی کے الفاظ بہت زیادہ اور غیر ضروری طور پر استعمال کے گئے تھے۔ شومیِ بخت۔  کہ میں ان کے برابر میں بیٹھا تھا۔صدرمجلس نے سب سے پہلے مجھ سے کہا کہ حنیف سمانا صاحب کیا فرمائیں گے آپ اس افسانے کے بارے میں۔ میں ابھی اس محفل میں نیا نیا آیا تھا اوراس اچانک حملے کے لئے تیار بھی نہیں تھا۔

میری دائیں جانب ایک نامور بزرگ افسانہ نگار تشریف فرما تھے۔  بہرحال میں نے ہمت کر کے اپنا تبصرہ شروع کیا۔

"محترم اقبال انصاری صاحب کا افسانہ عصر حاضر کا نوحہ ہے۔ افسانہ نگار نے نہایت ہی خوبصورتی سے ہمارے معاشرے کے ایک سلگتے ہوئے مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے۔

کہانی، کردار، منظر کشی، مکالمے، سب جاندار ہیں اور کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ کسی نئے افسانہ نگار کی تخلیق ہے۔ ہاں۔ البتہ ایک چیز کی طرف میں اشارہ کروں گا کہ اس افسانے میں انگریزی زبان کے الفاظ حد سے زیادہ، غیر ضروری طور پر استعمال کئے گئے ہیں جو کہ عجیب  "Feel”  ہوتے ہیں ”

میرے برابر میں بیٹھے ہوئے بزرگ نے میرے پیٹھ میں کہنی ماری

"محسوس ہوتے ہیں ”

میں نے ہڑبڑا کے کہا

"جی جی۔ محسوس ہوتے  ہیں ”

٭٭٭

 

 

 

 

  اٹھارہ کروڑ کیڑے مکوڑے

 

صدر کے علاقے کی مشہور سڑک زیب النسا پر، کہ جہاں زیادہ تر جیولرز کی دکانیں ہیں۔ دکانداروں نے اچانک اپنی دکانوں کے شٹر گرانا شروع کر دیے۔ عجیب افراتفری نظر آنے لگی حالانکہ اس وقت کوئی سہ پہر کا وقت تھا۔ ٹریفک بالکل جام ہو گیا۔ اس میں ایک اسکول وین بھی پھنسی ہوئی تھی۔ جس میں ننھے منے معصوم پھول پسینے میں شرابور حیرت سے دنیا کو دیکھ رہے تھے۔ اسی ٹریفک کے ہجوم میں کہیں سے کسی اور روٹ کی ایک بس بھی جو کہ فل بھری ہوئی تھی۔ آ کے پھنس گئی۔ اس میں آگے عورتوں کے کمپارٹمنٹ میں بس کے زینے تک عورتیں لٹکی ہوئی تھیں اور اوپر چھت پر بھی مسافر بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک طرف سورج آگ برسا رہا تھا۔ شدید حبس کہ درخت کا پتا تک نہ ہلے۔ ایک خاتون کہ جو مکمل حجاب میں تھیں۔ یہاں تک ہاتھوں میں بھی کالے دستانے پہنے ہوئے تھے۔ ایک ہاتھ سے انہوں نے بس کی چھت سے لگے ڈنڈے کو پکڑا تھا جبکہ دوسرے ہاتھ میں ان کے ننھا منا سا بچہ تھا۔ اس بچے نے گرمی سے تنگ آ کر آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا۔ ماں بیچاری اس کو چپ کرانے کے جتن کر رہی تھی۔ مگر بچہ مسلسل روئے جا رہا تھا۔

میں نے ایک دکاندار سے پوچھا کہ دکانیں کیوں بند ہو رہی ہیں۔ خیریت تو ہے؟

اس نے جواب دیا "آگے سے کوئی جلوس آ رہا ہے”

میں نے پوچھا "جلوس، کس کا”

دکاندار نے جواب دیا، "پتہ نہیں بھائی!یہاں تو روز کے یہ ڈرامے ہیں۔۔ کبھی ایک جماعت کا جلوس ہوتا ہے تو کبھی دوسری کا”

قریب ہی ایک بڑے میاں جلے بھنے بیٹھے تھے۔ کہنے لگے۔

"آگے کچھ لوگ فلسطین کو آزاد کرا رہے ہیں ”

مجھے ان کی بات پر ہنسی آ گئی۔

میں نے کہا "آج ہی کرا لیں گے۔۔یا کچھ کل پر بھی رکھیں گے”

بڑے میاں بھی مسکرائے۔ کہنے لگے "اب دیکھئے۔ یہ اسکول کے بچے، یہ عورتیں، یہ دکاندار سب پریشان ہیں۔ یہ بچے وقت پر گھر نہیں پہنچیں گے تو ان کی مائیں دروازے پہ پریشان کھڑی ہوں گی۔ یہ عورتیں بیچاری ضرورت کے تحت گھر سے نکلی ہیں۔ انسان بشر ہیں۔ اب کسی کی کوئی حاجت، کوئی ضرورت، مرد تو کسی مسجد یا سینما کے ساتھ بنے toliet میں چلا جائے گا۔ ارے کچھ نہیں ملا تو سڑک کے کنارے بھی بیٹھ کے فارغ ہو جائے گا۔ مگر یہ بیچاری عورت کہاں جائے گی۔ کبھی کبھی تو دو دو گھنٹے تک ٹریفک جام رہتا ہے۔ پتہ چلا۔ کوئی بھی

چھوٹی سی تنظیم۔ کوئی مذہبی جماعت۔ کوئی سیاسی جماعت۔ آج اس کا دھرنا ہے تو آج اس کا۔ آج کوئی کشمیر آزاد کرا رہا ہے تو کوئی القدس۔ ارے خدا کے لئے اس قوم پر رحم کرو۔ ہمیں کام کاج کرنے دو”

بڑے میاں خاموش ہوئے تو میں نے کہا،

"آپ صحیح فرما رہے ہیں۔ اب ایسے میں اگر کوئی ایمبولینس مریض کو لے کے گزرے تو وہ بھی ہسپتال تک نہیں پہنچ سکتی”

بڑے میاں کہنے لگے”جی بالکل۔ اب دیکھئے نہ ریاست کہاں ہے جو شہریوں کو جان و مال کا تحفظ دے۔ کسی بھی تنظیم کے چار سے چھ لڑکے چار ہوائی فائر کر کے پورا شہر بند کروا دیتے ہیں۔ اس وقت خیال آتا ہے کہ یہ ہمارے ٹیکس پر پلنے والے پولیس، رینجرز۔۔۔یہ سب کہاں ہوتے ہیں۔ ابھی میں آگے دیکھ کے آرہا ہوں۔ جلوس میں کوئی بیس سے پچیس لڑکے موٹر سائیکلوں پر ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں پارٹی کے پرچم ہیں اور مختلف بینرز ہیں۔ جس پر صیہونیوں کے خلاف کچھ نعرے لکھے ہیں۔ اب انہیں کون سمجائے کہ تمہاری اس حرکت سے صیہونی کو کوئی تکلیف نہیں ہو رہی بلکہ تمہارے اپنے مسلمان بھائی بہن پریشان ہیں ”

بڑے میاں سانس لینے کو رکے تو میں نے کہا۔

"آپ بالکل درست فرما رہے ہیں۔ دنیا بھر میں مظاہرے ہوتے ہیں۔ مگر سڑک کے ایک طرف۔ ٹریفک رواں دواں رہتی ہے۔ کوئی دکاندار اپنی دکانیں بند نہیں کرتا۔ کوئی شیشہ، کوئی سگنل نہیں ٹوٹتا۔ کوئی بس نہیں جلائی جاتی۔ اس لئے کہ وہاں ریاست کی عمل داری ہے۔

وہاں ایک عام شہری کے حقوق کا احترام ہوتا ہے۔ مگر یہاں۔۔۔یہاں تو انسان بستے ہی کہاں ہیں۔ یہاں تو اٹھارہ کروڑ کیڑے مکوڑے ہیں اور کیڑے مکوڑوں کے کون سے حقوق؟”

٭٭٭

 

 

 

 بیوی اور بہن

 

ارشاد بھائی کے چہرے سے پریشانی ایسے عیاں ہوتی جیسے کسی پرچون فروش کی پرانی دیوار پر ٹنگے کلینڈر میں سرخ رنگ میں لکھی گئیں Sunday کی تاریخیں۔

جسے آدمی دور ہی سے پڑھ لے۔

میں نے پوچھا، ” کیا ہوا ارشاد بھائی! آج چہرہ کیوں اترا ہوا ہے ؟”

کہنے لگے، ” کچھ نہیں۔سب ٹھیک ہے”

میں نے ہنستے ہوئے کہا، "سب ٹھیک تو نہیں لگ رہا ارشاد بھائی !

یار ہم سے تو نہ چھپاؤ”

کہنے لگے، ” بس کیا بتاؤ حنیف بھائی! تھوڑی گھریلو پریشانی ہے۔ ٹھیک ہو جائے گی”

میں نے کہا، "ارے بتا دیں ارشاد بھائی!آپ کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔ کوئی حل ہماری سمجھ میں آیا تو ہم بتا دیں گے”

وہ بولے، ” اصل میں میں آپکی بھابھی کو اس کے میکے چھوڑ آیا ہوں ”

میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا، "خیریت، کیوں ؟”

کہنے لگے، ” اصل میں اس نے میری بات نہیں مانی”

پھر کرسی پر پہلو بدلتے ہوئے بولے۔”دیکھئے حنیف بھائی!ہماری کچھ خاندانی روایات ہیں۔

ہمارے ہاں عورت اپنے دیور کے نام کے ساتھ "بھائی” ضرور لگاتی ہے۔ اسے کتنی بار سمجھایا کے میرے چھوٹے بھائی حامد کو "حامد بھائی” کہو۔ مگر اسے جب بھی دیکھو وہ اسے حامد کہہ کے ہی پکارتی ہے۔ کئی بار میں نے ٹوکا۔ والدہ نے سمجھایا۔ مگر نہیں مانی۔ بس آج میں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے یہ عورت گھر میں نہیں چاہیے”

میں حیرت سے ان کا منہ تکتا رہا ا "ور آپکی بچی ؟”

کہنے لگے، ” وہ ابھی اسی کے پاس ہے۔ پھر لے لیں گے اس سے ”

میں نے سر پکڑ لیا، ” ارشاد بھائی!کیا اور کوئی خرابی بھی تھی بھابھی میں یا صرف یہی؟

کہنے لگے۔نہیں اور کچھ نہیں۔۔باقی معاملات میں تو ٹھیک تھی”

میں نے کہا، ” لیکن ارشاد بھائی !حامد تو ابھی بہت چھوٹا ہ۔ دس بارہ سال عمر ہو گی اس کی اور بھابھی کوئی تیس بتیس سال کی ہوں گی۔ حامد تو ان کے چھوٹے بھائیوں کی طرح، بلکہ بچوں کی طرح ہوا نا؟ اور اپنے بچوں کو نام سے ہی پکارا جاتا ہے”

ان کے چہرے سے تھوڑی سی ناگواری چھلکنے لگی،

” آپ نہیں سمجھ رہے۔ اصل میں ہماری خاندانی روایات”

انہوں نے اتنا ہی کہا تھا کہ میرا پارہ چڑھ گیا۔ میں نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔

"جہنم گئیں آپ کی خاندانی روایات۔ کہیں جا کے دفن کر دو خاندانی روایات کو۔

غضب خدا کا خاندانی روایات نہ ہوئیں قرآن و حدیث ہو گئیں جو بدلی ہی نہ جا سکیں ”

کہنے لگے، ” آپ زیادتی کر رہے ہیں اور ویسے بھی یہ میرا ذاتی مسئلہ ہے”

میرا غصہ برقرار تھا۔ "میں زیادتی کر رہا ہوں آپ کے ساتھ؟ میں ؟ ارے آپ خود اپنے ساتھ زیادتی کر رہے ہو۔ اس بے گناہ کو جو اپنا گھر بار، ماں باپ، سب کچھ چھوڑ کر آپ کے گھر آئی۔ اسے صرف اتنی سی بات پر آپ اس کے میکے چھوڑ کر آئے کہ وہ اپنے بچے کی عمر کے بچے کو بھائی نہیں کہتی”

وہ اٹھ کے کمرے سے جاتے ہوئے کہنے لگے۔”آپ شاید اس وقت اپنے حواس میں نہیں۔ میں نے خود آپ کو بتا کر غلطی کی”

میں نے دروازے کے قریب ان کو روکا اور لہجہ بدل کے دھیمے لہجے میں کہا۔

"ارشاد بھائی! جاتے وقت صرف ایک جملہ سنتے جائیے ”

انہوں نے میری طرف دیکھا۔

میں نے کہا۔”اپنی بیوی سے ویسا ہی رویہ رکھوجیسا کہ تم چاہو کہ تمہارا بہنوئی تمہاری بہن سے رکھے”

وہ جانے لگے تو میں نے کہا۔ "اور سنو!”

انہوں نے مڑ کر دیکھا۔ میں نے کہا”آپ بھی بیٹی والے ہو۔۔۔ کل کو کوئی آپ کا بھی داماد

ہو گا۔ اللہ نا کرے کہ اس کے ہاں بھی کوئی جاہلانہ خاندانی روایات ہوں ـ”

وہ دروازہ کھول کے باہر نکل گئے۔

اگلے روز میری بیوی نے بتایا کہ ارشاد بھائی بیوی کو واپس لے آئے ہیں۔

٭٭٭

تشکر: یوسف ثانی جن کے روسط سے فائل فراہم ہوئی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید