“مار میرے ڈنڈے !”
نا معلوم
قدیم زمانے کی بات ہے، کسی جگہ ایک بوڑھا شکاری اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا۔ ایک بار اس نے جال لگایا تو اس میں ایک سارس پھنس گیا۔ بوڑھا دوڑ کر گیا اور سارس کو جال سے نکالنے ہی والا تھا کہ سارس آدمیوں کی طرح بول پڑا :
"بڑے میاں ! تم مجھ کو چھوڑ دو۔ میں سارسوں کا سردار ہوں۔ تم نے مجھے چھوڑ دیا تو میں تمھاری ہر خواہش پوری کر دوں گا۔ وہ دور جو پہاڑ نظر آتا ہے نا اس کے پیچھے میرا گھر ہے۔ جس سے بھی پوچھو گے وہ میرا مکان بتا دے گا۔”
بوڑھے شکاری نے سارس کو آزاد کر دیا۔
اگلے دن بوڑھا انعام حاصل کرنے کے لیے سارس کے گھر روانہ ہوا۔ وہ چلتا رہا، چلتا رہا، ایک لمبا راستہ طے کیا، بیابانوں سے گزرا، پہاڑوں پر چڑھا، ندیوں اور نالوں کو پار کیا، راستے میں سات دن گزارے اور سات راتیں۔ ایک مقام پر پہنچا جہاں ایک چرواہا بھیڑ بکریاں چرا رہا تھا۔ بوڑھے نے اس سے پوچھا :
"اے میاں چرواہے ! یہ سب بھیڑ بکریاں کس کی ہیں؟”
"یہ سارس کی ہیں۔” اس آدمی نے جواب دیا۔
بوڑھا آگے چل پڑا۔ ایک جگہ پہنچ کر اس نے دیکھا کہ ایک آدمی بہت سارے گھوڑے چرا رہا ہے۔ اُس نے اِس آدمی سے پوچھا :
"بھئی یہ گھوڑے کس کے ہیں؟”
"یہ سب سارس کے ہیں۔” اس آدمی نے جواب دیا۔
"بھائی، تم مجھے ایک بات بتاؤ تو سہی۔” بوڑھے نے کہا۔ "سارس نے مجھے انعام دینے کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سے کون سا انعام مانگوں؟”
گھوڑوں کے چرواہے نے مشورہ دیا:
"سارس کے پاس ایک دیگچی ہے۔ اس کا نام ہے "ابل دیگچی”۔ مطلب ہے، جب تم اس سے کہو گے کہ "ابل دیگچی!” تو وہ فوراً ابلنے لگے گی اور اس میں سے سونے کی اشرفیاں گرنے لگیں گی۔”
بوڑھا آگے چلا۔ وہ رکے بغیر چلتا رہا، ایک لمبا سفر طے کیا اور بالآخر اسے سارس کا مکان دکھائی دیا۔ بوڑھا ڈیوڑھی پار کر کے اندر چلا گیا اور جھک کر سارس سے کہا:
"السلام علیکم!”
"وعلیکم السلام! اگر تم نے سلام نہ کیا ہوتا تو میں تم کو کچا ہی کھا جاتا۔” سارس نے کہا اور پھر اس نے پوچھا: "انعام لینے آئے ہو کیا؟ بولو کیا مانگتے ہو؟”
"میں نے سنا ہے کہ تمہارے پاس ایک "ابل دیگچی” ہے” بوڑھے نے کہا۔ "تم مجھے وہی دیگچی دے دو۔”
سارس سوچ میں پڑ گیا پھر اس نے کہا:
"بڑے میاں! وہ دیگچی تمہارے کس کام کی؟ میں تمہیں سونے سے بھری ایک تھالی دے دیتا ہوں۔”
لیکن بوڑھا راضی نہیں ہوا تو سارس نے لاچار ہو کر وہی "ابل دیگچی” اسے دے دی۔ بوڑھا اسے لے کر واپس اپنے گھر چل دیا۔ وہ چلتا گیا، کہیں رکے بغیر چلتا چلا گیا۔ بہت لمبا راستہ طے کیا اور بالآخر اس مقام پر پہنچا جہاں اس کی جان پہچان کا ایک آدمی رہتا تھا۔ بوڑھا آرام کرنے کے لیے اس آدمی کے گھر گیا اور سلام علیک کرنے کے بعد اس آدمی سے بولا:
"میں بہت تھک گیا ہوں۔ تھوڑی دیر سو لوں۔ تم میری اس دیگچی پر نگاہ رکھنا۔ لیکن دیکھو، کہیں "ابل دیگچی” نہ کہہ بیٹھنا۔”
جونہی بوڑھا سو گیا مالک مکان نے دیگچی سے کہا : ابل میری دیگچی !” بس پھر کیا تھا۔ دیگچی سونے کی اشرفیاں اگلنے لگی۔ اس آدمی نے فوراً اشرفیاں جمع کر لیں۔ پھر اس نے جادو کی وہ دیگچی اندر لے جا کر چھپا دی اور اس کی جگہ بالکل اسی قسم کی ایک دوسری دیگچی لا کر رکھ دی۔
بوڑھا سو کر اٹھا تو مالک مکان کا شکریہ ادا کیا اور دیگچی کو اٹھا کر آگے چل پڑا۔ وہ جانے پہچانے راستے پر چلتا گیا اور بہت لمبا راستہ طے کر کے بالآخر اپنے گھر پہنچ گیا۔ اندر داخل ہوتے ہی اس نے اپنی بیوی کو اپنے پاس بلا کر کہا:
"بیگم! جلدی سے چادر بچھاؤ اور سونے کی اشرفیاں جمع کر لو۔”
بڑھیا نے فوراً ایک چادر لا کر فرش پر بچھا دی۔ بوڑھے نے اپنی لائی ہوئی دیگچی اس چادر پر رکھ دی اور پھر اپنے گلے کی پوری طاقت سے چیخ کر کہا:
"ابل میری دیگچی۔”
مگر دیگچی میں نہ کوئی ابال آیا نہ ہی کوئی اشرفی نکل کر باہر گری۔ بوڑھے نے دوبارہ چیخ کر کہا: "ابل میری دیگچی۔”
لیکن پھر کچھ نہ ہوا۔ غصے سے لال پہلے ہو کر بوڑھا چیخ پڑا:
"لعنت ہو سارس پر! بدمعاش نے مجھے دھوکا دے دیا ہے۔ کل ہی پھر چلا جاؤں گا اس کے پاس اور اس سے کوئی دوسری چیز وصول کر لاؤں گا۔”
اگلے دن پو پھٹتے ہی بوڑھا پھر سارس کے پاس چل دیا۔ وہ دن رات برابر چلتا رہا، بہت لمبا راستہ طے کیا اور بالآخر اس چرواہے کے پاس پہنچ گیا جو گھوڑے چرا رہا تھا۔ بوڑھے نے اس سے سلام علیک کیا اور کہا:
"بھائی! سارس نے تو مجھے دھوکا دے دیا۔ جادو کی دیگچی کی جگہ کوئی دوسری دیگچی دے دی ہے۔ تم مجھے بتاؤ تو سہی، اب میں اس سے کون سی چیز مانگوں؟”
تھوڑی دیر سوچنے کے بعد چرواہے نے کہا:
"سارس کے پاس جادو کا ایک دستر خوان ہے۔ اس کا نام ہے "کھل دسترخوان”۔ تم جب کہو گے "کھل میرے دستر خوان!” تو اس پر فوراً ہی طرح طرح کی کھانے کی چیزیں چن جائیں گی۔”
بوڑھا چرواہے کے پاس سے چل کر سارس کے گھر پہونچا۔ ڈیوڑھی پار کر کے اندر گیا اور جھک کر سارس سے کہا:
"السلام علیکم!”
"وعلیکم السلام!” سارس نے جواب دیا۔ "اگر تم نے سلام نہ کیا ہوتا تو تمھیں کچا ہی کھا جاتا۔ پھر کیوں آ گئے؟ میں نے کل تمھیں ابل دیگچی تو دے دی تھی۔ کیا اس سے بھی تمھارا جی نہیں بھرا؟”
بوڑھے نے سارا حال بیان کیا اور کہا:
"تم نے مجھے دھوکا دیا ہے۔ ابل دیگچی کے بدلے کوئی عام سی دیگچی دے دی ہے۔ اب میں تم سے ایک دوسری چیز مانگنے آیا ہوں۔ تمھارے پاس جو کھل دسترخوان ہے اب وہی مجھے دے دو۔”
سارس نے بوڑھے کو "کھل دسترخوان” دے دیا۔ اس کو لے کر بوڑھا واپس اپنے گھر چل دیا۔ وہ چلتے چلتے، طویل مسافت کے بعد اس جگہ پہنچا جہاں اس کے واقف کار کا گھر تھا۔ بوڑھا گھر کے اندر گیا اور مالک مکان سے سلام علیک کرنے کے بعد اس سے بولا:
"میں بہت تھک گیا ہوں۔ تھوڑی دیر سو لوں۔ تم ذرا میرے اس دسترخوان پر نگاہ رکھنا۔ لیکن دیکھو کہیں "کھل دسترخوان!” نہ کہہ بیٹھنا۔”
یہ کہہ کر اس نے دسترخوان ایک طرف رکھ دیا اور لیٹ کر سو گیا۔ جونہی وہ سو گیا اور خراٹے لینے لگا، مالک مکان نے دسترخوان سے مخاطب ہو کر کہا: "کھل میرے دسترخوان!”
یہ کہنا تھا کہ دسترخوان کھل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے انواع و اقسام کے کھانوں سے بھر گیا۔ اس آدمی نے دسترخوان کو تمام چیزوں سمیت اٹھا کر اندر چھپا دیا اور بالکل اسی قسم کا ایک دوسرا دسترخوان لا کر اس جگہ رکھ دیا۔ بوڑھا جب سو کر اٹھا تو اسی نقلی دسترخوان کو اٹھا کر آگے چل دیا۔ گھر پہنچتے ہی اس نے اپنی بیوی کو بلا کر اس سے کہا:
"بیگم! اب میں تمھیں ایسی ایسی چیزیں کھلاؤں گا کہ مزا آ جائے گا۔ بتاؤ تو سہی، کیا کھانا چاہتی ہو؟ پلک جھپکتے میں سب تیار ہو جائے گا۔”
یہ کہہ کر اس نے اپنا لایا ہوا دسترخوان نکال کر فرش پر رکھ دیا اور چیخ کر کہا:
"کھل میرے دستر خوان!”
لیکن نہ دسترخوان کھلا اور نہ ہی اس پر کھانے کی کوئی چیز سامنے آئی۔ بوڑھے نے دوبارہ سے کہا:
"کھل میرے دسترخوان!” لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔
"پھر وہی ہوں۔” بوڑھے نے مایوس ہو کر کہا: بدمعاش سارس نے پھر مجھے چکمہ دے دیا ہے۔”
دوسرے دن صبح ہوتے ہی بوڑھا پھر سارس کے پاس روانہ ہوا۔ وہ چلتا گیا، آگے بڑھتا گیا اور بہت لمبا راستہ طے کر کے گھوڑے چرانے والے چرواہے کے پاس پہنچا۔ سلام علیک کرنے کے بعد اس نے چرواہے سے کہا:
"بھائی چرواہے! سارس نے مجھے پھر الو بنایا ہے۔ کھل دستر خوان کے بدلے کوئی معمولی قسم کا دسترخوان مجھے سونپ دیا ہے۔ بتاؤ تو سہی، اب کے میں اس سے کون سی چیز مانگوں؟”
"معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے دشمن بہت ہیں۔” چرواہے نے کہا۔ "سارس کے پاس جادو کا ایک ڈنڈا ہے جو آپ ہی آپ مار پیٹ کرتا ہے۔ تم اس سے بس کہہ دو "مار میرے ڈنڈے” اور وہ مارنا پیٹنا شروع کر دے گا۔ جو بھی سامنے آئے گا۔ پیٹ کر رکھ دے گا۔”
بوڑھا تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا سارس کے گھر پہنچا اور اندر جا کر کہا:
"السلام علیکم!”
"وعلیکم السلام!” سارس نے جواب دیا۔ "اگر تم نے سلام نہ کیا ہوتا تو میں تم کو کچا ہی نگل جاتا۔ پھر کیوں آ گئے؟ "ابل دیگچی” لے گئے، "کھل دستر خوان” بھی لے گئے۔ اب کیا لینے آئے ہو؟”
"اس بار بھی تم نے مجھے دھوکا دیا ہے۔” بوڑھے نے کہا۔ "جادو کے دسترخوان کے بدلے کوئی معمولی سا دسترخوان دے دیا ہے، لیکن اب تو سچی چیز لوں گا۔ تم مجھے وہ ڈنڈا دے دو جو خودبخود مار پیٹ کرتا ہے۔”
"اچھا تم وہ ڈنڈا لینا چاہتے ہو؟ تو لے جاؤ اس کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے۔” سارس نے کہا اور اس نے وہ ڈنڈا بوڑھے کو دے دیا۔ چلتے چلتے وہ اپنے واقف کار کے گھر پہنچا۔ آرام کرنے لیٹا تو مالک مکان سے کہا:
"تم ذرا اس ڈنڈے پر نگاہ رکھنا، لیکن دیکھو "مار میرے ڈنڈے” نہ کہہ بیٹھنا۔”
لیکن بوڑھے کی آنکھ لگتے ہی مالک مکان نے ڈنڈے سے کہا: "مار میرے ڈنڈے!” بس پھر کیا تھا ڈنڈے نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، سب گھر والوں کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ چیخ پکار سن کر بوڑھا جاگ گیا اور اٹھ کو دوڑا ہوا آیا۔ گھر کے سب لوگ چیختے چلاتے اور آٹھ آٹھ آنسو بہاتے ہوئے بوڑھے کی منتیں کرنے لگے:
"ڈنڈے کو روک دو۔ تمہاری دیگچی اور تمہارا دستر خوان ہم نے ہی لیا تھا۔ دونوں چیزیں ابھی واپس کیے دیتے ہیں۔ تم بس ڈنڈے کو روک دو،”
"رک جا ڈنڈے!” بوڑھے نے چیخ کر کہا اور ڈنڈے نے پیٹنا بند کر دیا۔ گھر کے مالکوں نے فوراً ساتھ کے کمرے سے جادو کی دیگچی اور جادو کا دسترخوان دونوں لا کر بوڑھے کے حوالے کر دیئے۔ ان کو اٹھا کر بوڑھا اپنے گھر روانہ ہوا۔ چلتے چلتے اور بہت لمبا راستہ طے کر کے وہ اپنے گھر پہنچ گیا۔ جاتے ہی اس نے اپنی بیوی کو بلایا اور دیگچی کو فرش پر رکھتے ہوئے چیخ کر کہا:
"اہل میری دیگچی!” یہ کہنا تھا کہ دیگچی سے سونے کی اشرفیاں اس طح ابلنے لگیں کہ بوڑھا بڑھیا دونوں مل کر ان کو سمیٹ نہیں پا رہے تھے۔ جب سب اشرفیاں سمیٹ لی گئیں تو بوڑھے نے دیگچی کو ایک طرف کر دیا اور دسترخوان کو کمرے کے بیچ میں فرش پر رکھ کر بلند آواز سے کہا:
"کھل میرے دسترخوان!”
دسترخوان کھل گیا اور میاں بیوی دونوں کیا دیکھتے ہیں کہ دسترخوان پر نہ کچھ کم اور نہ کچھ زیادہ، ستر قسم کی کھانے کی چیزیں چنی ہوئی ہیں۔ بوڑھے بڑھیا دونوں نے اتنے اور ایسے کھانے زندگی بھر بہ کبھی دیکھے تھے اور نہ سنے تھے۔ انہوں نے خوب کھایا پیا، خوب موج اڑائی۔
جادو کی دیگچی اور جادو کے دسترخوان والی بات اس ملک کے بادشاہ کے کانوں تک پہنچی۔ بادشاہ نے فوراً اپنے وزیر کو بوڑھے کے گھر بھیجا۔ وزیر نے جا کر بڑے رعب سے بوڑھے سے کہا:
"بحکم سرکار تمہارے پاس جو دیگچی اور دسترخوان ہیں ان کو ابھی دے دو۔”
بوڑھا بولا: "مار میرے ڈنڈے!”
ڈنڈے نے فوراً وزیر کی پٹائی شروع کر دی اور وہ بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگا۔ اگلے دن خود بادشاہ سات ہزار سپاہیوں کے لشکر کے ساتھ بوڑھے کے دروازے پر آگیا۔ اس نے اپنی فوج کو دروازے کے سامنے کھڑا کر دیا اور گرج کر بوڑھے کو پکارا:
"اے بوڑھے سن! اگر تیرے جسم میں اب بھی جان باقی ہے تو نکل آ میدان میں۔ ذرا طاقت آزمائی کر لیں۔”
بوڑھے نے اپنا دروازہ کھول دیا اور پورے زور سے چیخ کر کہا:
"مار میرے ڈنڈے!”
بس پھر کیا تھا ڈنڈے نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، بادشاہ اور سپاہیوں کو مارنے پیٹنے لگا۔ آن کی آن میں ساری فوج تتر بتر ہو گئی۔ اب ڈنڈا خود بادشاہ تک پہنچ گیا اور اس کی اس طرح خبر لی کہ اس نے واویلا مچا دیا اور بوڑھے کی منتیں کرنے لگا:
"خدا کے واسطے اپنے ڈنڈے کو روکو۔ میری جان بچاؤ۔”
بوڑھا اپنے دروازے کے پاس کھڑا مسکرا رہا تھا۔ اس نے بادشاہ سے کہا:
"اب کہو۔ مل گیا نا مزا؟ اب کبھی دیکھو گے ٹیڑھی آنکھوں سے غریب کی دولت کو؟”
اس طرح بوڑھا شکاری اور اس کی بوڑھی بیوی دونوں اپنی مراد پا گئے۔
٭٭٭
ماخذ:
ٹائپنگ: مقدس، شمشاد خان
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید