فہرست مضامین
- میر وزیر علی صبا لکھنوی
- انتخاب۔ جمع و ترتیب: نوید صادق، فرخ منظور، احمد فاروق
- بگولے ڈھونڈتے پھرتے ہیں سایہ بیدِ مجنوں کا
- اے صبا جذب پہ جس دم دلِ ناشاد آیا
- ساتھ کیا کیا لیا اس وقت میں، چھوڑا کیا کیا
- آیا جو موسمِ گل تو یہ حساب ہو گا
- عدوئے جاں بتِ بیباک نکلا
- دیکھ کر اس بت کو سکتا ہو گیا
- یہ ہے نشان عشقِ کدورت مآل کا
- قلقلِ شیشہ ہے، بلبل کی صدا سے پیدا
- بچ کر کہاں میں ان کی نظر سے نکل گیا
- سرکش کوئی ہو کر کبھی برپا نہیں ہوتا
- غیر سے ہنستا ہے جاناں میرا
- گہ آئینہ ہوا، گہ دیدۂ پُر آب گھٹا
- جلوہ ہے ہر اک رنگ میں اے یار تمہارا
- ہوائے یار میں کیا دل کو اضطراب رہا
- کیوں ان کی چال دیکھی جو یہ حال ہو گیا
- ذرا کوئی دیکھے تماشا ہمارا
- واعظ کے، میں ضرور ڈرانے سے ڈر گیا
- بندہ کسی کی یاد میں جب چشم تر ہوا
- کون ہو گا جو نہ محوِ رُخِ زیبا ہو گا؟
- بزمِ جہاں سے، عیش ہمارا، اُٹھا لیا
- نزع میں ہیں، نہ ادھر آئیے گا
- دل صاف ہوا، آئینہ رو نظر آیا
- پیادہ پا میں رواں سوئے لالہ زار ہوا
- موجدِ گلشن ہے تاثیرِ بیانِ عندلیب
- اُن کی رفتار سے دل کا عجب احوال ہوا
- کنارِ جُو جو انہیں خواہشِ شراب ہوئی
- ہو چکے ہونے جو تھے جور و جفا دو چار دن
- عشق کا احترام کرتے ہیں
- بادہ نوشی پر رہا دارومدار اب کے برس
- آنکھیں رو رو کے نہ کیں خونِ کبوتر کس دن
- اُٹھ کے پہلو سے کدھر آپ ہیں جانے والے
- دمبدم ساقی و مطرب کو صدا دیتے ہیں
- ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
- انتخاب۔ جمع و ترتیب: نوید صادق، فرخ منظور، احمد فاروق
- فرد فرد
انتخاب
میر وزیر علی صبا لکھنوی
انتخاب۔ جمع و ترتیب: نوید صادق، فرخ منظور، احمد فاروق
حرارہ جب مرا داغِ جنوں لاتا ہے صحرا میں
بگولے ڈھونڈتے پھرتے ہیں سایہ بیدِ مجنوں کا
میں شاعر ہوں مرا اے جان اس پر دم نکلتا ہے
بہت اعلیٰ ہے یہ مصرع تمہارے قدِ موزوں کا
فقیرِ مست ہیں ہر وقت کیفیت میں رہتے ہیں
کبھی طرہ ہے سبزے کا، کبھی گولا ہے افیوں کا
ملایا خاک میں گردوں میں کس کس نام آور کو
نشاں ملتا نہیں ہے قبرِ جمشید و فریدوں کا
٭٭٭
اے صبا جذب پہ جس دم دلِ ناشاد آیا
اپنی آغوش میں اڑ کر وہ پری زاد آیا
چشمِ موسیٰ ہمہ تن بن گیا میں حیرت سے
دیکھا اک بت کا وہ عالم کہ خدا یاد آیا
عاشقوں سے نہ رہا کوئی زمانہ خالی
کبھی وامق، کبھی مجنوں ، کبھی فرہاد آیا
دل میں اک درد اُٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے
بیٹھے بیٹھے ہمیں کیا جانئے کیا یاد آیا
بیتِ ہستی کے صبا ہو گئے معنی روشن
خواجہ آتش سا زمانے میں جو استاد آیا
٭٭٭
اہلِ دولت سے کوئی نزع میں اتنا پوچھے
ساتھ کیا کیا لیا اس وقت میں، چھوڑا کیا کیا
سوزشِ دل سے ہے اُف اُف شبِ تنہائی میں
ہائے رہ رہ کے ٹپکتا ہے یہ پھوڑا کیا کیا
کیسا کیسا نہ کیا آ کے خزاں نے برباد
زرِ گل کا نہ ہوا باغ میں توڑا کیا کیا
مر گئے پر نہ دیا ان کو کفن گردوں نے
زندگی میں جو پہنتے رہے جوڑا کیا کیا
کیوں نہ ہو جائیں زمانے میں ہزاروں دریا
ہم نے رو رو کے ہے دامن کو نچوڑا کیا کیا
میکدے میں جو مجھے لے گئ قسمت بے یار
خشتِ خم سے سرِ شوریدہ کو پھوڑا کیا کیا
شرم سے سر نہ اٹھایا ترے رخ کے آگے
باغ میں گل کو صبا نے بھی جھنجھوڑا کیا کیا
دل کو برماتا ہوا صاف جگر سے گذرا
ایک تیرِ نگہِ یار نے توڑا کیا کیا
حلق زاہد کا جو روزے میں بہت خشک ہوا
دامنِ تر مرا لے لے کے نچوڑا کیا کیا
بارہا روحِ سکندر کو دئے ہیں صدمے
آئنے سے بھی ہے منہ یار نے موڑا کیا کیا
ہاتھ عنابِ لب و سیبِ ذقن تک پہنچا
ہم نے میوہ چمنِ حسن سے توڑا کیا کیا
اُس کے چھلے کو انگوٹھی سے نہ بدلا ہم نے
ہاتھ رکھ رکھ کے سلیماں نے مروڑا کیا کیا
٭٭٭
آیا جو موسمِ گل تو یہ حساب ہو گا
ہم ہوں گے، یار ہو گا، جامِ شراب ہو گا
نالوں سے اپنے اک دن وہ انقلاب ہو گا
دم بھر میں آسماں کا عالم خراب ہو گا
دکھلائیں گے تجھے ہم داغِ جگر کا عالم
منہ اس طرف کبھی تو اے آفتاب ہو گا
اے زاہدِ ریائی دیکھی نماز تیری
نیت اگر یہی ہے تو کیا ثواب ہو گا
وہ ردِ خلق ہوں میں گر ڈوب کر مروں گا
مُردا مرا وبالِ دوشِ حباب ہو گا
وہ مست ہیں، ادھر تو رکھتے نہیں ہیں ساغر
مغرب سے ہاں نمایاں جب آفتاب ہو گا
اے زود رنج تجھ پر جو لوگ جان دیں گے
رہ رہ کے تربتوں میں ان پر عذاب ہو گا
تو نقدِ دل کو لے کر مُکرا تو ہے، ٹھہر جا
روزِ حساب، میرے تیرے حساب ہو گا
اللہ رے ان کا غصہ، اتنا نہیں سمجھتے
کیوں کر کوئی جئے گا، جب یوں عتاب ہو گا
داغِ جگر کو لے کر جائیں گے ہم جو اے دل
جنت میں حوریوں کو رہنا عذاب ہو گا
اے چرخِ پیر اب تو یہ حال ہے ستم کا
کیا ہو گا، جن دنوں میں تیرا شباب ہو گا
سر گشتگی میں میرا کیا ساتھ دے سکے گا
اے آسماں ٹھہر جا، ناحق خراب ہو گا
لکھے کی کیا خبر تھی، یہ کون جانتا تھا
لیلیٰ کے ساتھ پڑھ کر مجنوں خراب ہو گا
٭٭٭
عدوئے جاں بتِ بیباک نکلا
بڑا قاتل، بڑا سفاک نکلا
محبت سے کھلا، حالِ زمانہ
یہ دل لوحِ طلسمِ خاک نکلا
جنوں میں باغِ عالم کو جو دیکھا
عجب صحرائے وحشت ناک نکلا
ہماری سادہ لوحی کام آئی
حسابِ روزِ محشر پاک نکلا
بھرے لڑکوں نے دامن پتھروں سے
جہاں تیرا گریباں چاک نکلا
صبا! ہم حشر میں مجرم جو نکلے
شفاعت کو شہِ لولاک نکلا
٭٭٭
دیکھ کر اس بت کو سکتا ہو گیا
میں، بہت محوِ تماشا ہو گیا
دے دیا دل یار کو، مٹی کے مول
مفت، اس یوسف کا، سودا ہو گیا
ٹاٹ کا ٹکڑا لباسِ فقر میں
قاقم و سنجاب و دیبا ہو گیا
دید کے قابل مری حیرت ہوئی
یار بھی محوِ تماشا ہو گیا
چاندنی کی سیر، اور غیروں کے ساتھ
اے قمر! یہ کیا طریقا ہو گیا
کھینچ کر تصویر روئے یار کی
اور ہی مانی کا نقشا ہو گیا
روتے روتے چشم نابینا ہوئی
یہ کنواں ٹوٹا تو اندھا ہو گیا
ضعف کے بڑھنے سے ہم کو اے جنوں
خانۂ زنجیر صحرا ہو گیا
جائے عبرت ہے جہانِ بے ثبات
دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گیا
٭٭٭
یہ ہے نشان عشقِ کدورت مآل کا
تربت ہماری ڈھیر ہے گردِ ملال کا
عاشق ہزاروں یوں تو ہوئے صاد چشم کے
چہرہ مگر بحال رہا، خال خال کا
جمشید اپنے وقت کا ہوں، میں فقیرِ مست
جامِ جہاں نما ہے پیالہ سفال کا
آتی ہے کس کو نیند مری آنکھیں کھل گئیں
سن کر فسانہ یار کے حسن و جمال کا
مجھ مست کے ہیں حال پہ کیا کیا عنایتیں
ساقی کا میں غلام ہوں، بندہ کلال کا
شبنم جو گرتی ہے تو اٹھاتا ہے آفتاب
پُرساں نہیں وہ عاشقِ گریاں کے حال کا
میری فروتنی، مجھے معراج ہو گئی
حاصل ہوا زوال میں رتبہ کمال کا
٭٭٭
قلقلِ شیشہ ہے، بلبل کی صدا سے پیدا
نشہ ہوتا ہے، گلستاں کی ہوا سے پیدا
گردِ غم ہے، سببِ حرص و ہوا سے پیدا
آندھیاں ہوتی ہیں، تحریکِ ہوا سے پیدا
سرخ پوشاک اتار اپنی گلے سے قاتل
خون ہوتا ہے، مزارِ شہدا سے پیدا
بار الفت کا سنبھالا نہیں جاتا مجھ سے
سرگرانی ہے مری لغزشِ پا سے پیدا
دہنِ یار کا مضمون نکالا ہم نے
واہ کیا بات ہوئی فکرِ رسا سے پیدا
٭٭٭
بچ کر کہاں میں ان کی نظر سے نکل گیا
اک تیر تھا کہ صاف جگر سے نکل گیا
خود رفتگی سے چشمِ حقیقت جو وا ہوئی
دروازہ کھل گیا تو میں گھر سے نکل گیا
رونے سے ہجرِ یار میں تسکین ہو گئ
دل کا بخار، دیدۂ تر سے نکل گیا
جوبن سے ڈھل چلے ہیں کہاں اب لٹک کی چال
وہ پیچ، ان کے موئے کمر سے، نکل گیا
٭٭٭
سرکش کوئی ہو کر کبھی برپا نہیں ہوتا
انجام برے کام کا اچھا نہیں ہوتا
معدوم ہوئے جاتے ہیں ہم فکر کے مارے
مضموں کمرِ یار کا پیدا نہیں ہوتا
گردش سے زمانہ کبھی خالی نہیں رہتا
کس دن تہہ و بالا یہ ہنڈولا نہیں ہوتا
کس طرح سے، ہم جان فدا کرتے ہیں تم پر
یہ دل نہیں ہوتا، یہ کلیجا نہیں ہوتا
٭٭٭
غیر سے ہنستا ہے جاناں میرا
دیو سے خوش ہے سلیماں میرا
کون ہو جامہ دری کا مانع؟
ہاتھ میرا ہے، گریباں میرا
کیا بنایا ہے بتوں نے مجھ کو
نام رکھا ہے "مسلماں” میرا
بوسہ دے کر وہ صبا کہتی ہے
"یاد رکھئے گا یہ احساں میرا”
٭٭٭
گہ آئینہ ہوا، گہ دیدۂ پُر آب گھٹا
کبھی بڑھا کبھی دریائے اضطراب گھٹا
عزیز آئے نہ رونے کو میری تربت پر
بہا کے اشک ہوئی داخلِ ثواب گھٹا
تمہاری زلف نہ گردابِ ناف تک پہنچی
ہوئی نہ چشمۂ حیواں سے فیض یاب گھٹا
فراقِ یار میں بے کار سب ہیں اے ساقی
پیالہ، شیشہ، گزک، میکدہ، شراب، گھٹا
کسی کو منہ تہہِ زلفِ سیاہ یاد آیا
کبھی جو آ گئ بالائے آفتاب گھٹا
تری کمر کی لچک پر تڑپتی ہے بجلی
ہوائے زلف میں کھاتی ہے پیچ و تاب گھٹا
٭٭٭
جلوہ ہے ہر اک رنگ میں اے یار تمہارا
اک نور ہے کیا مختلف آثار تمہارا
ہوتا نہ یہ بندہ جو خریدار تمہارا
رونق نہ پکڑتا کبھی بازار تمہارا
اے منعمو! سامانِ سواری پہ نہ بھولو
اڑ جائے گا اک روز ہوادار تمہارا
تم قتل کرو گے جو مجھے تیغِ نگہ سے
منہ دیکھ کے رہ جائے گی تلوار تمہارا
بوسے لبِ شیریں کے عنایت نہیں ہوتے
پرہیز میں مر جائے گا بیمار تمہارا
٭٭٭
ہوائے یار میں کیا دل کو اضطراب رہا
چکور چاند کی خاطر بہت خراب رہا
ہمیشہ کوششِ دنیا میں اضطراب رہا
بہت خراب دلِ خانماں خراب رہا
نہ برشگال میں جب تک شراب پلوا لی
بلا کی طرح سے سر پر مرے سحاب رہا
ہم اپنے حال پہ روتے ہیں اب ضعیفی میں
خوشا وہ عہد کہ طفلی رہی، شباب رہا
وہ بادہ نوش تھے پیری میں بھی نہ توبہ کی
شراب خُم میں رہی، شیشی میں خضاب رہا
ہر اک مقام پہ نشوونما رہی دل کی
چمن میں پھول رہا، بحر میں حباب رہا
خط آ گیا ، نہ رہا عشقِ مصحفِ رخِ یار
نہ وہ کتاب رہی اور نہ وہ حساب رہا
ہمیشہ قلزمِ ہستی میں صورتیں بدلیں
کبھی تو موج رہا اور کبھی حباب رہا
یہ وہ فلک ہے کہ جس کے سبب سے عالم میں
نہ ایک حال پہ دو روز ماہتاب رہا
خوشی وہ کون سی دی جس کے بعد غم نہ دیا
ہمیشہ سر پہ فلک بر سرِ حساب رہا
کمند لے کے وہیں موج ہو گئ موجود
جہاں ذرا سر اٹھائے ہوئے حباب رہا
برنگِ موجِ ہوا اے صبا ہوئے تھے خلق
رہے جہان میں جس دم تک اضطراب رہا
٭٭٭
کیوں ان کی چال دیکھی جو یہ حال ہو گیا
میں آپ اپنے ہاتھ سے پامال ہو گیا
کچھ قیس سے بھی بڑھ کے مرا حال ہو گیا
کس قہر کا جنوں مجھے امسال ہو گیا
میں بدنصیب، غیر خوش اقبال ہو گیا
یہ آپ کے مزاج کا کیا حال ہو گیا
دریا بہا مرے عرقِ انفعال کا
کاغذ کی ناؤ نامۂ اعمال ہو گیا
ہم پِس گئے خرام پہ تو یار نے کہا
پاپوش سے اگر کوئی پامال ہو گیا
مجھ سے فضول خرچ کے ہتھے جو چڑھ گیا
دو دن میں آسمان بھی کنگال ہو گیا
٭٭٭
نیا سوانگ لائے ہیں عشقِ صنم میں
ذرا کوئی دیکھے تماشا ہمارا
نکل جائے گی سب کجی آسماں کی
کبھی تو پھرے گا زمانا ہمارا
دلایا گیا فاتحہ جامِ مے پر
ہوا میکدے میں پیالا ہمارا
شبِ ہجر میں عرش تک ہل رہا ہے
بہت دور جاتا ہے نالا ہمارا
ترے ہاتھ سے واشدِ دل نہ ہو گی
کھلے گا نہ تجھ سے معما ہمارا
کدورت نہیں اپنی طبعِ رواں میں
بہت صاف بہتا ہے دریا ہمارا
٭٭٭
واعظ کے، میں ضرور ڈرانے سے ڈر گیا
جامِ شراب لائے بھی، ساقی کدھر گیا
بلبل کہاں، بہار کہاں، باغباں کہاں
وہ دن گذر گئے، وہ زمانہ گذر گیا
جھوٹوں کا بادشاہ کہوں، اے صنم تجھے
یہ حال ہے کہ بات کہی اور مکر گیا
ایسی کفن کی قطع پسند آ گئی ہمیں
دل سے ہمارے جامۂ ہستی اتر گیا
صورت ہمارے دیدۂ حیراں کی دیکھ کر
آئینہ صاف ان کی نظر سے اتر گیا
اچھا ہوا جو ہو گئے وحدت پرست ہم
فتنہ گیا، فساد گیا، شور و شر گیا
کعبے کی سمت سجدہ کیا دل کو چھوڑ کر
تو کس طرف تھا، دھیان ہمارا کدھر گیا
مثلِ حباب بحرِ جہاں میں نہ دم لیا
اک موج تھا کہ میں اِدھر آیا، اُدھر گیا
پھر سیرِ لالہ زار کو ہم اے صبا چلے
آئی بہار، داغِ جنوں پھر ابھر گیا
٭٭٭
بندہ کسی کی یاد میں جب چشم تر ہوا
گردوں کے ڈوبنے کا فرشتوں کا ڈر ہوا
پیدا ہوئے ہیں ہم مئے عرفاں کے واسطے
اس آفتاب کے لئے دورِ قمر ہوا
جنسِ وفا کی بو نہیں بازارِ دہر میں
بے وقت اپنا اس گذری میں گذر ہوا
آغازِ عشق ہی میں ہمیں موت آ گئی
آگاہ بھی نہ حال سے وہ بے خبر ہوا
نوعِ دگر کروں گا میں قشہ جہان کا
اب کے عدم کی سمت سے آنا اگر ہوا
٭٭٭
کون ہو گا جو نہ محوِ رُخِ زیبا ہو گا؟
سیر کو آپ جو نکلیں گی، تماشا ہو گا
کشتیِ مے کی طرف دیکھ رہا ہے ساقی
لہر آئی ہے تو خیمہ لبِ دریا ہو گا
اے جنوں! بن گئیں پاؤں کی رگیں، زنجیریں
میں وہ لاغر ہوں کہ مجنوں بھی توانا ہو گا
دیکھ پچھتائے گا تو ، کیوں مجھے تڑپاتا ہے
آفت آئے گی، زمانہ تہہ و بالا ہو گا
٭٭٭
بزمِ جہاں سے، عیش ہمارا، اُٹھا لیا
کیا قہر ہے، ہمیں نہ خدایا! اٹھا لیا؟
وہ مست ہیں، کہ مار لیا آسمان کو
جب ہاتھ میں، شراب کا شیشا اٹھا لیا
میرے جنوں کا حال جو لیلیٰ نے کہہ دیا
مجنوں نے دشت سے، عمل اپنا اٹھا لیا
آمد سنی جو باغ میں، اس بادہ خوار کی
گل نے پیالہ، سرو نے مینا، اٹھا لیا
روزِ ازل کھلا جو کتب خانۂ بہار
سوسن نے دس ورق کا رسالا، اٹھا لیا
اب تو وفا کہیں بھی نہیں ہے جہان میں
وہ حرف اس ورق سے خدایا! اٹھا لیا؟
برباد جھونپڑا جو ہوا، مجھ غریب کا
اپنا بھی آسمان نے خیمہ اٹھا لیا
اب بھی کہو کہ خاک کشش عشق میں نہیں
کیوں بزمِ غیر سے تمہیں، کیسا اٹھا لیا؟
وہ رند ہیں ازل کو جو ہر شے نظر پڑی
ہم نے جھپٹ کے ساغرِ صہبا اٹھا لیا
٭٭٭
نزع میں ہیں، نہ ادھر آئیے گا
ابھی کچھ سِن نہیں، ڈر جائیے گا
ساتھ چھوڑیں گے نہ سائے کی طرح
ہم بھی جائیں گے، جدھر جائیے گا
بے تکلف ہے، ملاقات کا لطف
کبھی تکلیف نہ فرمائیے گا
آپ کو غیر، بہت دیکھتے ہیں
ایک دن دیکھئیے، پچھتائیے گا
اے صبا، کوئی ہو، کعبہ ہو کہ دیر
دل جدھر جائے، اُدھر جائیے گا
٭٭٭
دل صاف ہوا، آئینہ رو نظر آیا
سب کچھ نظر آیا جو ہمیں تو نظر آیا
افعیِ بلا یار کا گیسو، نظر آیا
آنکھوں میں جگایا ہوا جادو نظر آیا
گلشن میں، نہ جب ساقئ دل جو، نظر آیا
سروِ لبِ جو، آہ لبِ جو نظر آیا
حوروں کی طرف لاکھ ہو زاہد کی توجہ
کھل جائیں گی آنکھیں جو کبھی تو نظر آیا
چکرائیں گے افلاک، بہت ہم فقرا سے
جس دم اثرِ نعرۂ "یا ہو” نظر آیا
اک خالِ سیہ بھی تری آنکھوں کے قریں ہے
اچھی رہی، ترکوں میں بھی ہندو نظر آیا
مر جائیں گے گھبرا کے، تری زلف کے وحشی
سودے میں، اگر فرق سرِ مو، نظر آیا
میکش مجھے ساقی کے نظارے نے بنایا
بجلی سی کمر، ابر سا گیسو، نظر آیا
٭٭٭
پیادہ پا میں رواں سوئے لالہ زار ہوا
بہار آتے ہی سر پر جنوں سوار ہوا
چمن میں جب مرے ہمراہ وہ نگار ہوا
گلوں کو داغ ہوا، بلبلوں کو خار ہوا
وہ خاکسار تھا میں، لاکھ آندھیاں آئیں
زمیں سے خاک نہ اونچا مرا غبار ہوا
پڑا خلاف ” کلوا واشربوا” کے معنی میں
میں بادہ خوار ہوا، شیخ روزہ دار ہوا
مزہ چکھاتے بتو تم کو جبر کرنے کا
خدا گواہ ہے دل پر نہ اختیار ہوا
٭٭٭
موجدِ گلشن ہے تاثیرِ بیانِ عندلیب
ہے نموئے نخلِ گل نوکِ زبانِ عندلیب
اُڑ گیا گلشن سے نامِ آشیانِ عندلیب
تیر ہے بادِ خزاں بہرِ نشانِ عندلیب
باغ میں جاتے رہے تاب و توانِ عندلیب
ہائے کیا لوٹا خزاں نے کاروانِ عندلیب
بوئے گل ہے توسنِ عمرِ روانِ عندلیب
نے سوارانِ چمن ہیں ہمرہانِ عندلیب
جور گلچیں، عشقِ گل، خوفِ خزاں، ایذائے خار
لاکھ آفت میں پھنسی ہے ایک جانِ عندلیب
باغ میں صیاد اور گلچیں سے قصہ ہو گیا
جم گیا کچھ آج رنگِ داستانِ عندلیب
چند روزہ حسن کی ہے مہربانی عشق پر
گل چمن میں چار دن ہے میہمانِ عندلیب
کام آتے ہیں بدوں کے نیک بعدِ مرگ بھی
طُعمہ زاغ و زغن ہیں استخوانِ عندلیب
باغ کی خانہ خرابی دیکھ کر سودا ہوا
تنکے چنتا ہوں میں بہرِ آشیانِ عندلیب
٭٭٭
اُن کی رفتار سے دل کا عجب احوال ہوا
رُندھ گیا، پِس گیا، مٹی ہوا، پامال ہوا
دشت وحشت کا علاقہ مجھے امسال ہوا
داغ سودا، صفتِ نیّرِ اقبال ہوا
اس بکھیڑے سے الٰہی کہیں چھٹکارا ہو
عشقِ گیسو نہ ہوا، جان کا جنجال ہوا
نظرِ لطف نہ کی تو نے مرے رونے پر
طفلِ اشک اے مہِ خوبی نہ خوش اقبال ہوا
ہیں وہ صوفی جو کبھی نالۂ ناقوس سنا
وجد کرنے لگے ہم، دل کا عجب حال ہوا
پڑ گیا ان پہ مرے پیچ میں لانے کا وبال
کیا پریشان ترے گیسوؤں کا حال ہوا
دولتِ فقر ہو اے منعمو اور کملی ہو
فخر کیا ہے جو دوشالہ ہوا، رومال ہوا
اپنی قسمت کا نوشتہ جو دکھایا ہم نے
حشر کے روز غلط نامۂ اعمال ہوا
آسماں نے مجھے محرومِ شہادت رکھا
تیغِ قاتل کے لیے بختِ سیاہ ڈھال ہوا
لوگ کہنے لگے "کندن پہ چڑھا ہے مینا”
سبزۂ خط سے وہ خوش رنگ ترا گال ہوا
تیغِ حسن اے گلِ تر ہو گئی خون آلودہ
مجھ پہ غصے میں ترا منہ جو بہت لال ہوا
طائرِ دل کے لیے آپ نے صیّادی کی
رشتۂ دامِ بلا، زلف کا ہر بال ہوا
لامکاں تک کہیں ٹھہرا نہ مرا پائے خیال
مزرع سبز فلک بیچ میں پامال ہوا
اے صبا آپ رعایت نے کرے لفظوں کی
زرِ گل پایا جو گلچیں نے تو کیا مآل ہوا
٭٭٭
کنارِ جُو جو انہیں خواہشِ شراب ہوئی
تو سرو سیخ ہوا، فاختہ کباب ہوئی
عیاں جو یار کے دانتوں کی آب و تاب ہوئی
غریقِ سیلِ فنا موتیوں کی آب ہوئی
فراقِ یار میں چشم اس قدر پُر آب ہوئی
طنابِ عمر ہماری رگِ سحاب ہوئی
نہیں ثبات کسی شے کو دارِ فانی میں
ایدھر بنی ہے عمارت اُدھر خراب ہوئی
وہ رند ہوں میں کنارے جو آب مے سے گیا
زبانِ ماہی دریائے اضطراب ہوئی
عذابِ حشر کہاں، پُرسشِ گناہ کہاں
ذرا جو مہر تری اے فلک جناب ہوئی
بیاضِ صبح ہوا اپنا نامۂ اعمال
شعاعِ مہرِ درخشاں مدِ حساب ہوئی
لحد میں تڑپوں گا میں بادہ کش قیامت تک
جو لوحِ قبر نہ خشتِ خُمِ شراب ہوئی
بغیر یار کے گلگشت میں یہ روئے ہم
نسیمِ باغ ہوائے سرِ حباب ہوئی
ہزار شکر یہاں تک تمہیں خدا لایا
مراد آئی، دعا اپنی مستجاب ہوئی
پئے گزگ جو ہوا گرم یار ساقی پر
کبابِ آتشِ مے سے بطِ شراب ہوئی
ہلالِ ابروئے قاتل نے معرکہ مارا
نیامِ شب میں نہاں تیغِ آفتاب ہوئی
اس آفتاب نے جس دن کیا قدم رنجہ
زمین کلبۂ احزاں، فلک جناب ہوئی
خوشی سے ساتھ جو سویا میں اپنے یوسف کے
صدائے قہقہہ مجھ کو نفیر خواب ہوئی
اُٹھا نہ پردۂ غفلت ہماری آنکھوں سے
کبھی نہ دیدِ رخِ یار بے نقاب ہوئی
اندھیری قبر کی دکھلائی جیتے جی مجھ کو
شبِ فراق مری جان کو عذاب ہوئی
دکھائی منزلِ عرفاں طریقِ رنداں نے
قلم شراب کی میلِ رہِ ثواب ہوئی
سوالِ وصل نہ جب یار برق وش نے سنا
ہماری چشم صبا ابر کا جواب ہوئی
٭٭٭
دکھائے رندوں کو نیرنگیِ شراب گھٹا
پئے گزک کرے طاؤس کو کباب گھٹا
گہ آئینہ ہوا، گہ دیدۂ پر آب گھٹا
کبھی بڑھا کبھی دریائے اضطراب گھٹا
عزیز آئے نہ رونے کو میری تربت پر
بہا کے اشک ہوئی داخلِ ثواب گھٹا
نہیں ہے حاجیوں کو مے کشی کی کیفیت
گئی حرم کو تو ہو گی بہت خراب گھٹا
سفر ہے باغِ جہاں گرزِ آتشیں ہے برق
فراق میں ہے مری جان کو عذاب گھٹا
تمہاری زلف نہ گردابِ ناف تک پہنچی
ہوئی نہ چشمۂ حیواں سے فیض یاب گھٹا
زوالِ حسن نے سودائے زلف کو کھویا
بڑھا خط آپ کا تو نرخِ مشکِ ناب گھٹا
ہوائے سرد ہے بادِ سموم کا جھونکا
جو خاک آب تو آندھی ہے بے شراب گھٹا
فراقِ یار میں بے کار سب ہیں اے ساقی
پیالہ، شیشہ، گزک، میکدہ، شراب، گھٹا
کسی کا منہ تہِ زلفِ سیاہ یاد آیا
کبھی جو آ گئی بالائے آفتاب گھٹا
تری کمر کی لچک پر تڑپتی ہے بجلی
ہوائے زلف میں کھاتی ہے پیچ و تاب گھٹا
٭٭٭
اب تو میرے حال پر لطف و کرم فرمائیے
ہو چکے ہونے جو تھے جور و جفا دو چار دن
وہ پری کہتا ہے دیوانہ بنا کر زلف کا
قصد لو، جا کر کرو اپنی دوا دو چار دن
یہ بڑا اندھیر ہے اِک رات بھی آئے نہ تم
چاندنی کیا کیا ہوئی اے مہ لقا دو چار دن
واہ رے وعدہ ترا قربان وعدے کے ترے
ایک دن کے ہو گئے اے بے وفا دو چار دن
اے بتِ کافر تری اللہ رے بے پروائیاں
آشنا دو چار دن، نا آشنا دو چار دن
مدعائے وصل سن کر وہ صنم کہنے لگا
بیٹھ کر مسجد میں کر، یادِ خدا دو چار دن
٭٭٭
عشق کا احترام کرتے ہیں
دل کا قصّہ تمام کرتے ہیں
قابلِ گفتگو رقیب نہیں
آپ کس سے کلام کرتے ہیں؟
آپ کے منہ لگی ہے دختِ رز
باتیں ہونٹوں سے جام کرتے ہیں
یا الٰہی حلال ہوں واعظ
دختِ رز کو حرام کرتے ہیں
٭٭٭
بادہ نوشی پر رہا دارومدار اب کے برس
طاق پر رکھے رہے سب کاروبار اب کے برس
ہوش کس کو ہے جو پہنائے کسی کو بیڑیاں
ہو رہے آپ دیوانے لُہار، اب کے برس
خوب اپنا ساقئ دریا دل اپنے ساتھ ہے
کھیلتے پھریے بطِ مے کا شکار اب کے برس
ہو گئی فرقت میں اک اک شاخ سوہانِ روح
دل کو برمانے لگی صوتِ ہزار اب کے برس
ابرِ تر پر پھبتیاں ہوں گی کفِ سیلاب کی
جوش پر ہے گریۂ بے اختیار اب کے برس
٭٭٭
خط لکھا یار کو تو شوقِ جوابِ خط میں
آنکھیں رو رو کے نہ کیں خونِ کبوتر کس دن
کبھی دریا کہا اے شوخ کبھی ابر کہا
پھبتی سوجھی نہ تجھے دیدۂ تر پر کس دن
مانتا ہی نہیں پہلو میں دلِ خانہ خراب
دوڑے جاتے نہیں ہم یار کے در پر کس دن
ہائے کس یاس سے کہتا ہوں شبِ فرقت میں
دیکھیے، اُن سے ملاتا ہے مقدر کس دن
کس قدر طالبِ دیدار ہیں اللہ اللہ!
دیکھیے ہوتا ہے ہنگامۂ محشر کس دن
٭٭٭
اُٹھ کے پہلو سے کدھر آپ ہیں جانے والے
جگر و دل ہیں تڑپ کر نکل آنے والے
کوئی غصے میں تری آنکھوں کے تیور دیکھے
شیر بن کر یہی آہو ہیں ڈرانے والے
مر گئے عاشقِ نالاں تو کہا اس بت نے
سو گئے، فتنۂ محشر کو جگانے والے
حالِ دل شب کو جو کہنے گئے، فرمایا
لیجیے، آئے مری نیند اڑانے والے
٭٭٭
دمبدم ساقی و مطرب کو صدا دیتے ہیں
موسمِ گُل میں ہم اِک دھوم مچا دیتے ہیں
جنسِ دل آپ گراں سمجھے ہیں اِک بوسے پر
دھیان اتنا نہیں کیا لیتے ہیں کیا دیتے ہیں
ہم وہ بسمل ہیں کہ ٹھنڈے نہیں ہوتے جب تک
دامنِ زخم سے قاتل کو ہوا دیتے ہیں
نزع میں ہوں مری بالیں سے نہ اٹھیے للہ
آپ کس وقت میں بندے کو دغا دیتے ہیں
کون سنتا ہے تری جوشِ جنوں میں ناصح
خضر بھی آئیں تو ہم راہ بتا دیتے ہیں
صاف قلقل سے صدا آتی ہے "آمیں!، آمیں!”
اپنے ساقی کو جو ہم رند دعا دیتے ہیں
یہ نئے طور کا انصاف ہے اُن کے گھر میں
غیر کرتے ہیں خطا ہم کو سزا دیتے ہیں
ہم بھی تا صبح لیے جائیں گے بوسے شبِ وصل
گالیاں دیکھیں تو وہ تا بہ کجا دیتے ہیں
چاندنی راتوں میں اکثر ترے در پر آ کر
تجھ کو آواز ہم اے ماہ لقا دیتے ہیں
جب میں روتا ہوں تو اللہ رے ہنسنا اُن کا
قہقہوں میں مرے نالوں کو اڑا دیتے ہیں
خط کے آنے سے نہ کچھ حُسن پہ حرف آئے گا
ہم نوشتہ تجھے، اے مہر لقا، دیتے ہیں
روبرو اُن کے صبا کی جو غزل گاتا ہے
چٹکیوں میں وہ مغنّی کو اڑا دیتے ہیں
٭٭٭
آپ ہی اپنے ذرا جور و ستم کو دیکھیں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
جانِ جاں ظلم ہے خاطر شکنی عاشق کی
کعبۂ دل کو جو توڑو گے تو بدعت ہو گی
حال انجام کا آغاز میں معلوم نہ تھا
کیا سمجھتے تھے، محبت میں مصیبت ہو گی
اے صنم وصل ترا مجھ کو میسر ہو گا
کچھ اگر عشقِ مجازی کی حقیقت ہو گی
٭٭٭
فرد فرد
جب رکاوٹ ہوئی آپس میں تو ہم رندوں نے
دستِ ساقی، طرفِ گردنِ مینا، کھینچا
کھینچی تصویر مصور نے جو مجھ گریاں کی
چشمِ پر آب کا نقشہ لبِ دریا کھینچا
کس قدر بزم میں اغیار سے مل کر بیٹھے
کیا شکنجے میں مجھے آپ نے بے جا کھینچا
***
ہم نے تارِ نظرِ دیدۂ وحدت بیں سے
کلیہ یہ ہے کہ شیرازۂ اجزا باندھا
مجھ سے لاغر کو بنایا ہدفِ تیرِ نگاہ
یار نے بال سے باریک نشانا باندھا
جامۂ یار کی پائی نہ صبا نے خوشبو
بقچۂ غنچہ و گل، باغ میں کھولا، باندھا
***
عشق کا غم نہ گیا، حسن کا غمزہ نہ گیا
میرا رونا نہ گیا، آپ کا ہنسنا نہ گیا
کوئے جاناں میں رکھی ضعف نے ثابت قدمی
مثلِ نقشِ کفِ پا بیٹھ کے اٹھا نہ گیا
صحبت مے نہ رہی، عشرتِ وصلت نہ رہی
پاس سے یار گیا، ہاتھ سے پیمانہ گیا
***
گھر سے وحشت میں جو میں چاک گریباں نکلا
کوہ فرہاد سے، مجنوں سے بیاباں نکلا
میرے اشعار سے مضمونِ رُخِ یار کھلا
بے احادیث، نہیں مطلبِ قرآں نکلا
ڈھیر پھولوں کے چڑھے عاشقوں کی قبروں پر
جانبِ گورِ غریباں، جو وہ خنداں نکلا
***
عازمِ دشتِ جنوں ہو کے میں گھر سے اُٹھا
پھر بہار آئی، قدم پھر نئے سر سے اُٹھا
عمر بھر دل نہ مرا یار کے گھر سے اٹھا
بیٹھا دیوار کے نیچے جو میں در سے اٹھا
ہم نشیں ملکِ عدم کو گئے میلے کی طرح
جا کے پہنچا وہیں جو یار ادھر سے اٹھا
***
دیکھئے آج وہ تشریف کہاں فرمائیں؟
ہم سے وعدہ ہے جدا، غیر سے اقرار جدا
ساتھ چھوڑوں میں تمہارا، یہ نہیں ممکن ہے
خیر مانگو، کہیں ہوتے ہیں وفادار جدا؟
***
شام سے حال عجب تا بہ سحر ہم نے کیا
کس خرابی سے شبِ غم کو بسر ہم نے کیا
تپشِ عشق سے گھر دل میں کیا اس بت کے
آگ کی طرح سے پتھر میں گذر ہم نے کیا
***
خوب رویوں سے دل صفا نہ ہوا
آئنہ صورت آشنا نہ ہوا
رہ گئ حسن و عشق میں اک لاگ
آج تک قصہ فیصلا نہ ہوا
***
کسی نے معرکۂ عشق میں نہ ساتھ دیا
ہمارا سایہ رہا ہم سے تیر بھر بھٹکا
بغیرِ یار ہے پینا حرام اے ساقی
لنڈھا دے مار کے ٹھوکر شراب کا مٹکا
شرابِ عشق کدورت مآل ہوتی ہے
اخیر دور میں چلتا ہے جام تلچھٹ کا
***
فصلِ گل میں ہاتھ سے جاتا رہا اپنا مزاج
جوشِ سودا باعثِ بے اعتدالی ہو گیا
برطرف غم کر دیا دکھلا کے اس نے "صاد چشم”
چہرۂ عشاق کو حکمِ بحالی ہو گیا
***
آئی اے گلعذار کیا کہنا
خوب آئی بہار کیا کہنا
سختیِ عشق جھیل لی، اے دل
واہ رے بردبار، کیا کہنا
یوں تو جو گُل ہے، خوب ہے لیکن
تیرا اے گل عذار ، کیا کہنا
***
لاکھ ہو وصل کا وعدہ، لیکن
وقت پر صاف نکل جائیے گا
کیا کیا عشق نے، کیوں حضرتِ دل؟
ہم نہ کہتے تھے کہ پچھتائیے گا
آپ چلتے تو ہیں اٹھکھیلیوں سے
کوئی آفت نہ کہیں لائیے گا
***
آتے ہی فصلِ گل کے جنوں ہو گیا ہمیں
بدلی جو رُت، مزاج برابر بدل گیا
ساقی کی بھول چوک سے، ہم رند لُٹ گئے
جامِ جہاں نما سے، جو ساغر بدل گیا
اب اے صبا وہ لطف نہیں جانبین میں
یہ دل بدل گیا کہ وہ دلبر بدل گیا
***
نازل عجب بلا کرۂ خاک پر ہوئی
کیوں تم نے گیسوؤں کو بڑھایا ، غضب کیا
عمرِ دو روزہ میں نہ کوئی کام بن پڑا
رہ رہ کے آسماں نے مٹایا، غضب کیا
***
نازل عجب بلا کرۂ خاک پر ہوئی
کیوں تم نے گیسوؤں کو بڑھایا ، غضب کیا
عمرِ دو روزہ میں نہ کوئی کام بن پڑا
رہ رہ کے آسماں نے مٹایا، غضب کیا
***
میں دیکھ دیکھ کر جو رخِ یار رہ گیا
کچھ سوچ سوچ کر وہ ستم گار رہ گیا
ساغر ہماری عمر کا لبریز ہو گیا
جب دو قدم پہ خانۂ خمار رہ گیا
***
تم قتل کرو گے جو مجھے تیغِ نگہ سے
منہ دیکھ کے رہ جائے گی تلوار تمہارا
بوسے لبِ شیریں کے عنایت نہیں ہوتے
پرہیز میں مر جائے گا بیمار تمہارا
***
٭٭٭
ماخذ: اردو محفل
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید