فہرست مضامین
- سنن ابن ماجہ
- سنن ابن ماجہ کے مصنف کے حالات زندگی
- سنت کی پیروی کا بیان
- حدود کا بیان
- حرز میں چرانے کا بیان
- چور کو تلقین کرنا
- جس پر زبردستی کی جائے
- مسجدوں میں حدود قائم کرنے سے ممانعت
- تعزیر کا بیان
- حد کفارہ ہے
- مرد اپنی بیوی کے ساتھ اجنبی مرد کو پائے
- والد کے انتقال کے بعد اس کی اہلیہ سے شادی کرنا
- باپ کے علاوہ کی طرف نسبت کرنا اور اپنے آقاؤں کے علاوہ کسی کو اپنا آقا بتانا
- کسی مرد کی قبیلہ سے نفی کرنا
- ہیجڑوں کا بیان
- دیت کا بیان
- آداب کا بیان
- فتنوں کا بیان
- پاکی کا بیان
- روزوں کا بیان
- زکوٰۃ کا بیان
- صدقات کا بیان
- ضمانت کا بیان
- جو قرض اس نیت سے لے کہ (جلد) ادا کروں گا
- جو قرضہ ادا نہ کرنے کی نیت سے لے
- قرض کے بارے میں شدید وعید
- جو قرضہ یا بے سہارا بال بچے چھوڑے تو اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ ہیں
- تنگدست کو مہلت دینا
- اچھے طریقہ سے مطالبہ کرنا اور حق لینے میں برائی سے بچنا
- عمدگی سے ادا کرنا
- قرض کی وجہ سے قید کرنا اور قرض دار کا پیچھا نہ چھوڑنا اس کے ساتھ رہنا
- قرض دینے کی فضیلت
- کھانوں کے ابو اب
- ثرید کے درمیان سے کھانا منع ہے
- نوالہ نیچے گر جائے تو؟
- ثرید باقی کھانوں سے افضل ہے
- کھانے کے بعد ہاتھ پونچھنا
- کھانے کے بعد کی دعا
- مل کر کھانا
- کھانے میں پھونک مارنا
- جب خادم کھانا (تیار کر کے ) لائے تو کچھ کھانا اسے بھی دینا چاہیے
- خوان اور دستر کا بیان
- کھانا اٹھائے جانے سے قبل اٹھنا اور لوگوں کے فارغ ہونے سے قبل ہاتھ روک لینا منع ہے
- جس کے ہاتھ میں چکناہٹ ہو اور وہ اسی حالت میں رات گزار دے
- کسی کے سامنے کھانا پیش کیا جائے تو؟
- سفر میں روزہ رکھنا
- سفر میں روزہ موقوف کر دینا
- حاملہ اور دودھ پلانے والی کے لئے روزہ موقوف کر دینا
- رمضان کی قضا
- رمضان کا روزہ توڑنے کا کفارہ
- بھولے سے افطار کرنا
- روزہ دار کو قے آ جائے
- روزہ دار کے لئے مسواک کرنا اور سرمہ لگانا
- روزہ دار کو پچھنے لگانا
- تجارت و معاملات کا بیان
- پیوند کیا ہوا کھجور کا درخت یا مال والا غلام بیچنا
- پھل قابل استعمال ہونے قبل بیچنے سے ممانعت
- کئی برس کیلئے میوہ بیچنا اور آفت کا بیان
- جھکتا تولنا
- ناپ تول میں احتیاط
- ملاوٹ سے ممانعت
- اناج کے اپنے قبضہ میں آنے سے قبل آگے بیچنے سے ممانعت
- اندازے سے ڈھیر کی خرید و فروخت
- اناج ماپنے میں برکت کی توقع
- بازار اور ان میں جانا
- لباس کا بیان
- شہرت کی خاطر کپڑے پہننا
- مردار کا چمڑا دباغت کے بعد پہننا
- بعض کا قول کہ مردار کی کھال اور پٹھے نفع نہیں اٹھایا جا سکتا
- جوتے پہننا اور اتارنا
- ایک جوتا پہن کر چلنے کی ممانعت
- کھڑے کھڑے جوتا پہننا
- سیاہ موزے
- مہندی کا خضاب
- سیاہ خضاب کا بیان
- زرد خضاب
- خضاب ترک کرنا
- گوشہ نشینی
- مشتبہ امور سے رک جانا
- ابتداء میں اسلام بیگانہ تھا
- فتنوں سے سلامتی کی امید کس کے متعلق کی جا سکتی ہے
- امتوں کا فرقوں میں بٹ جانا
- مال کا فتنہ
- عورتوں کا فتنہ
- سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی کا بیان
- حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعظیم اور اس کا مقابلہ کرنے والے پر سختی
- حدیث میں احتیاط اور محافظت کے بیان میں
- جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر عمداً جھوٹ بولنے کی شدت کا بیان
- اس شخص کا بیان جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث بیان کرے یہ جانتے ہوئے کہ یہ جھوٹ ہے
- خلفاء راشدین کے طریقہ کی پیروی
- بدعت اور جھگڑنے سے بچنے کا بیان
- (دین میں ) عقل لڑانے سے احتراز کا بیان
- ایمان کا بیان
- خوارج کا بیان
- جہیمیہ کے انکار کے بارے میں
- جس نے اچھا یا برا رواج ڈالا
- جس نے مردہ سنت کو زندہ کیا
- قرآن سیکھنے ، سکھانے کی فضلیت
- علماء(کرام) کی فضیلت اور طلب علم پر ابھارنا
- تبلیغ علم کے فضائل
- اس شخص کے بیان میں جو بھلائی کی کنجی ہو
- لوگوں کو بھلائی کی باتیں سکھانے والے کا ثواب
- ہمراہیوں کو پیچھے پیچھے چلانے کی کراہت کے بارے میں
- طلب علم کے بارے میں وصیت
- علم سے نفع اٹھانا اور اس کے مطابق عمل کرنا
- علم چھپانے کی برائی میں
- علم چھپانے کی برائی میں
- وضو اور غسل جناب کے لیے پانی کی مقدار کے بیان میں
- اللہ تعالیٰ بغیر طہارت کے نماز قبول نہیں فرماتے
- نماز کی کنجی طہارت ہے
- وضو کا اہتمام
- وضو جزو ایمان ہے
- طہارت کا ثواب
- مسواک کے بارے میں
- فطرت کے بیان میں
- بیت الخلاء داخل ہوتے وقت کیا کہتے؟
- بیت الخلاء سے نکلنے کے بعد کی دعا
- بیت الخلاء میں ذکر اللہ اور انگوٹھی لے جانے کا حکم
- غسل خانے میں پیشاب کرنا مکروہ ہے
- کھڑے ہو کر پیشاب کرنا
- بیٹھ کر پیشاب کرنا
- دایاں ہاتھ شرمگاہ کو لگانا اور اس سے استنجاء کرنا مکروہ ہے
- پتھروں سے استنجا کرنا اور (استنجا میں ) گوبر اور ہڈی (استعمال کرنے) سے ممانعت
- پیشاب پاخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا منع ہے
- اس کی رخصت ہے بیت الخلاء میں اور صحرا میں رخصت نہیں
- پیشاب کے بعد خوب صفائی کا اہتمام کرنا
- پیشاب کرنے کے بعد وضو نہ کرنا
- راستے میں پیشاب کرنے سے ممانعت
- پاخانہ کے لئے دور جانا
- پیشاب، پاخانہ کے لیے موزوں جگہ تلاش کرنا
- قضاء حاجت کے لیے جمع ہونا اور اس وقت گفتگو کرنا منع ہے
- پیشاب کے معاملے میں شدت
- جس کو سلام کیا جائے جبکہ وہ پیشاب کر رہا ہو
- پانی سے استنجا کرنا
- مرد اور عورت کا ایک برتن سے وضو کرنا
- نبیذ سے وضو کرنا
- سمندری پانی سے وضو کرنا
- وضو میں کسی سے مد د طلب کرنا اور اس کا پانی ڈالنا
- جب آدمی نیند سے بیدار ہو تو اسے معلوم نہیں ہوتا کہ رات کو ہاتھ کہاں لگا
- وضو میں بسم اللہ کہنا
- وضو میں دائیں کا خیال رکھنا
- ایک چلو سے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا
- خوب اچھی طرح ناک میں پانی ڈالنا اور ناک صاف کرنا
- وضو میں اعضاء کا ایک ایک بار دھونا
- وضو میں اعضاء تین بار دھونا
- وضو میں اعضاء ایک بار، دو بار اور تین بار دھونا
- وضو میں میانہ روی اختیار کرنے اور حد سے بڑھنے کی کراہت
- خوب اچھی طرح وضو کرنا
- داڑھی میں خلال کرنا
- سر کا مسح
- کانوں کا مسح کرنا
- کان سر میں داخل ہیں
- انگلیوں میں خلال کرنا
- ایڑیاں دھونا
- وضو اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق کرنا
- وضو کے بعد پانی چھڑکنا
- وضو اور غسل کے بعد تولیہ کا استعمال
- وضو کے بعد کی دعا
- پیتل کے برتن میں وضو کر نا
- نیند سے وضو کا ٹوٹنا
- شرمگاہ کو چھو نے سے وضو ٹوٹنا
- ذکر چھونے کی رخصت کے بیان میں
- جو آگ میں پکا ہو اس سے وضو واجب ہونے کا بیان
- آگ پر پکی ہوئی چیز کھا کر وضو نہ کر نے کا جواز
- اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرنا
- دودھ پی کر کلی کرنا
- بوسہ کی وجہ سے وضو کرنا
- سو تے وقت ہاتھ منہ دھو نا
- ہر نماز کے لئے وضو کرنا اور تمام نمازیں
- وضو کے باوجود وضو کرنا
- بغیر حدث کے وضو واجب نہیں
- پانی کی وہ مقدار جو نا پاک نہیں ہوتی
- حو ضوں کا بیان
- اس لڑ کے کے پیشاب کے بیان میں جو کھا نا نہیں کھاتا
- پاک زمین نا پاک زمین کو پاک کر دیتی ہے
- جنبی کے ساتھ مصافحہ
- کپڑے کو منی لگ جائے
- منی کھرچ ڈالنا
- ان کپڑوں میں نماز پڑھنا جن میں صحبت کی ہو
- موزوں پر مسح کرنا
- موزے کے اوپر اور نیچے کا مسح کرنا
- مسح کی مدت مسافر اور مقیم کے لئے
- مسح کے لئے مدت مقرر نہ ہونا
- جرابو ں اور جو توں پر مسح
- عمامہ پر مسح
سنن ابن ماجہ
امام ابن ماجہ
حصہ اول
سنن ابن ماجہ کے مصنف کے حالات زندگی
نام و نسب
محمد نام، ابو عبد اللہ کنیت، الربعی القزوینی نسبت اور ابن ماجہ عرف ہے۔
شجرہ نسب یہ ہے: ابو عبد اللہ بن محمد یزید الربعی مولا ہم بالولاء القزوینی الشہیرب ابن ماجہ۔
”ماجہ” کے بارے میں سخت اختلاف ہے، بعض اس کو دادا کا نام سمجھتے ہیں جو صحیح نہیں، بعض کا قول ہے کہ یہ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام ہے۔ واللہ اعلم۔
ولادت
امام ابن ماجہ رحمہ اللہ کی ولادت با سعادت جیسا کہ خود ان کی زبانی ان کے شاگرد جعفر بن ادریس نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے ٢٠٩ ھ میں واقع ہوئی جو ٨٢٤ عیسوی کے مطابق ہے۔
دور طالب علمی
امام ابن ماجہ کے بچپن کا زمانہ علوم و فنون کے لیے باغ و بہار کا زمانہ تھا۔ اس وقت بنو عباس کا آفتاب نصف النہار پر تھا اور دو دمان عباسی کا گل سرسبد مامون عباسی سریر آرائے خلافت بغداد تھا۔ عہد مامونی خلافت عباسیہ کے اوج شباب کا زمانہ کہلاتا ہے اور حقیقت ہے کہ علوم و فنون کی جیسی آبیاری مامون نے اپنے دور میں کی مسلمان بادشاہوں میں سے کم ہی کسی نے کی ہوگی۔ مامون کی حکومت کا دائرہ حجاز و عراق سے لے کر شام، افریقہ، ایشیائے کوچک، ترکستان، خراسان، ایران، افغانستان اور سندھ تک پھیلا ہوا تھا اور ایک ایک شہر بلکہ ایک ایک قصبہ مختلف علوم و فنون کے لیے ”اتھارٹی” کا درجہ رکھتا تھا۔ مامون خود بہت بڑا عالم اور علماء کا قدر شناس تھا۔ خاص طور پر شعر و ادب اور فقہ و حدیث میں اس کا بڑا نام تھا۔ علامہ تاج الدین سبکی نے طبقات الشافعیہ الکبری میں اس کے علم پر عبور کی بڑی تعریف کی ہے۔
امام ابن ماجہ رحمہ اللہ کی زندگی کے عام حالات بالکل پر دہ خفا میں ہیں اور خاص طور پر بچپن کے متعلق کے تو کچھ نہ معلوم ہو سکا۔ تاہم قیاس چاہتا ہے کہ عام دستور کے مطابق آپ نے لڑکپن ہی میں تعلیم کی ابتداء کی ہوگی اور شروع میں قرآن پاک پڑھا ہوگا، بعد کو سن تمیز پر پہنچ جانے اور سمجھدار ہو جانے پر حدیث کے سماع پر متوجہ ہوئے ہوں گے۔ اس لیے ہم آپ کی ابتدائی تعلیم کا زمانہ عہد مامون اور عہد معتصم ہی کو قرار دیتے ہیں۔
قزوین جس کی نسبت سے قزوینی کہلائے ، ابن ماجہ کا مولد و مسکن تھا۔ جب امام موصوف نے آنکھ کھولی ہے تو علم حدیث کی درسگاہ بن چکا تھا اور بڑے بڑے علماء یہاں مسند درس و افتاء پر جلوہ گر تھے۔ ظاہر ہے کہ امام موصوف نے علم حدیث کی تحصیل کا آغاز وطن مالوف ہی سے کیا ہوگا۔ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں قزوینی کے جن مشائخ سے احادیث روایت کی ہے وہ حسب ذیل ہیں:
علی بن محمد ابو الحسن طنافسی، عمرو بن رافع ابو حجر بجلی، اسماعیل بن توبہ ابو سہل قزوینی، ہارون بن موسیٰ بن حیان تمیمی، محمد بن ابی خالد ابو بکر قزوینی۔
طلب حدیث کے لیے رحلت
رحلت سے مراد وہ ”مقدس سفر” ہے جو علم دین کی تحصیل کے لیے کیا جائے۔ یہ وہ مبارک عہد تھا کہ اس میں علم نبوی کے لیے گھر چھوڑنا اور دور دراز علاقوں کا سفر اختیار کرنا مسلمانوں کا خصوصی شعار بن چکا تھا۔
امام ابن ماجہ نے بھی جب فن حدیث پر توجہ کی تو اسی قاعدہ کے بموجب سب سے پہلے اپنے شہر کے اساتذہ فن کے سامنے زانوئے شاگدی نہ کیا اور اکیس بائیس سال کی عمر تک وطن عزیز ہی میں تحصیل علم میں مصروف رہے۔ پھر جب یہاں سے فارغ ہو لئے تو دوسرے ممالک کا سفر اختیار کیا۔ آپ کی ”رحلت علمیہ” کی صحیح تاریخ تو معلوم نہ ہو سکی مگر علام ہصفی الدین خزرجی نے خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال میں اسماعیل بن عبد اللہ بن زرارہ ابو الحسن الرقی کے ترجمہ میں تصریح کی ہے کہ ابن ماجہ نے ٢٣٠ھ کے بعد سفر کیا ہے۔
طلب حدیث کے لیے مدینہ، مکہ اور کوفہ کے سفر اختیار کیے۔
اور کوفہ کے متعلق امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ”معدن العلم والفقہ ” کا لقب دیا ہے اور سفیان بن عیینہ جو ائمہ حدیث میں شمار کیے جاتے ہیں کہا کرتے تھے:
”مغازی کے لیے مدینہ، مناسک کے لیے مکہ اور فقہ کے لیے کوفہ ہے”
امام ابن ماجہ نے جس زمانہ میں کوفہ کا سفر کیا ہے اس کی علمی رونق بدستور قائم تھی اور یہ محدثین اور حفاظ حدیث سے بھرا ہوا تھا۔ چنانچہ ان میں سے جن حضرات کے سامنے آپ نے زانوئے شاگردی تہ کی وہ حسب ذیل ہیں:
حافظ ابو بکر بن ابی شیبہ، شیخ الاسلام اشج، حافظ کبیر عثمان بن ابی شیبہ، درۃ العراق حافظ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، محدث کوفہ ابو کریب، شیخ الکوفہ ہناد، حافظ ولید بن شجاع، حافظ ہارون۔
مؤلفات
تحصیل علم اور رحلات کے بعد ابن ماجہ نے تالیفات میں بے حد کام کیا اور انہوں نے الباقیات کے طور پر تین بڑی کتابیں چھوڑی ہیں:
(١) التفسیر۔(٢) التاریخ۔ (٣) السنن (اس کا شمار صحاح ستہ میں ہوتا ہے اور علماء کرام نے درجہ کے لحاظ سے چھٹا نمبر رکھا ہے)
سنن ابن ماجہ کی امتیازی خصوصیات
سنن ابن ماجہ کا سب سے بڑا امتیاز دیگر پر یہ ہے کہ مؤلف نے متعدد ابواب میں وہ احادیث درج کی ہیں جو کتب خمسہ مشہورہ میں ناپید ہیں اور ”الزوائد” کے نام سے مدون بھی ہیں۔
سنن ابن ماجہ کے ابواب پر غور کیا جائے تو کمال حسن دکھتا ہے جو انفرادیت کا بھی مظہر ہے۔ مثلاً امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے اتباع سنت کو مقدم رکھا ہے جو ان کی کمال ذہانت و بلاغت کو آشکارا کرتا ہے۔
وفات
امام ابن ماجہ رحمہ اللہ کی وفات خلیفہ المعتمد علی اللہ عباسی کے عہد میں ہوئی۔ بقیہ مصنفین رحمہم اللہ صحاح ستہ نے بھی بجز امام نسائی کے اسی کے دور خلافت میں وفات پائی ہے۔ حافظ ابو الفضل محمد بن طاہر مقدسی، شروط الائمۃ الستہ میں لکھتے ہیں کہ:
میں نے قزوین میں امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخ کا نسخہ دیکھا تھا۔ یہ عہد صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے لے کر ان کے زمانے تک کے رجال اور امصار کے حالات پر مشتمل ہے۔ اس تاریخ کے آخر میں امام ممدوح کے شاگرد جعفر بن ادریس کے قلم سے حسب ذیل ثبت تھی:
ابو عبد اللہ بن یزید بن ماجہ نے دو شنبہ کے دن انتقال فرمایا اور سہ شنبہ ٢٢/رمضان المبارک ٢٧٣ھ کو دفن کیے گئے اور میں نے خود ان سے سنا فرماتے تھے میں ٢٠٩ھ میں پیدا ہوا۔ وفات کے وقت آپ بھائی ابو بکر نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ کے ہر دو برادران ابو بکر اور ابو عبد اللہ اور آپ کے صاحبزادے عبد اللہ نے آپ کو قبر میں اتارا اور دفن کیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔”
٭٭٭
سنت کی پیروی کا بیان
تقدیر کے بیان میں
علی بن محمد، یحییٰ بن عیسیٰ خزاز، عبد الاعلیٰ بن ابی المساور، شعبی، حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ عدی بن حاتم کوفہ آئے ہم اہل کوفہ کے فقہا کی ایک جماعت میں ان کے پاس آئے اور کہا کہ ہم سے ایسی حدیث بیان فرمائیے جو آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی ہو، انہوں نے فرمایا میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا انہوں نے فرمایا اے عدی بن حاتم ، اسلام قبول کر لے مامون ہو جائے گا، میں نے عرض کیا کہ اسلام کیا ہے ، آپ نے فرمایا تو شہادت دے لا الہ الا اللہ اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور تو ایمان لائے ہر قسم کی تقدیر خواہ وہ اچھی ہو یا بری ہو یا نا پسندیدہ۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، اساط بن محمد، اعمش، یزید رقاشی، غنیم بن قیس، حضرت ابو موسیٰ اشعری سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، قلب کی مثال پر کی طرح ہے جس کو ہوائیں کسی میدان میں الٹ پلٹ کرتی ہوں۔
٭٭ علی بن محمد، یعلی، اعمش، سالم بن ابی الجعد، حضرت جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ انصار میں سے ایک صاحب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری ایک لونڈی ہے کیا میں اس سے عزل کر لوں؟ آپ نے فرمایا اس کو وہی پیش آئے گا جو اس کے لئے مقدر ہو چکا ہو، تھوڑے عرصہ بعد وہ صاحب آئے اور کہا کہ لونڈی حاملہ ہو گئی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نفس کے لئے جو چیز اس کے مقدر کی گئی ہے وہی واقع ہوتی ہے۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، عبد اللہ بن عیسیٰ، عبد اللہ بن ابی الجعد، حضرت ثوبان فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، بھلائی عمر کو زیادہ کر دیتی ہے ، اور تقدیر کو سوائے دعا کے کوئی چیز نہیں لوٹاتی، اور آدمی رزق سے اپنی اس خطا کی وجہ سے محروم کر دیا جاتا ہے جس کو وہ کر بیٹھتا ہے۔
٭٭ ہشام بن عمار، عطاء بن مسلم خفاف، اعمش، مجاہد، حضرت سراقہ بن جعشم فرماتے ہیں کہ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عمل اس بارے میں ہوتا ہے جس کے متعلق قلم خشک ہو چکا ہے اور اندازے کئے جا چکے ہیں یا ایسے امر کے متعلق عمل ہوتا ہے جو آئندہ آنے والا ہے؟ آپ نے فرمایا عمل اس بارے میں ہوتا ہے جس کے متعلق قلم خشک ہو چکا اور اندازے کئے جا چکے اور ہر ایک کو سہولت دی گئی ہے اس کام کے لئے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا۔
٭٭ محمد بن مصفی حمصی، لقیہ بن الولید، اوزاعی، ابن جریج، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس امت کے مجوسی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی تقدیر کو جھٹلانے والے ہیں اگر وہ بیمار ہو جائیں تو ان کی عیادت نہ کرو، اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازوں پر نہ جاؤ اور اگر تم ان سے ملو تو سلام نہ کرو۔
اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فضائل کے بارے میں
علی بن محمد، وکیع، اعمش، عبد اللہ بن مرۃ، ابو الاحوص، حضرت عبد اللہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں ہر دوست کی دوستی سے بیزار ہوں اگر میں کسی کو اللہ کے سوا دوست بناتا تو ابو بکر کو بناتا، تمہارا ساتھی اللہ کا دوست ہے ، وکیع فرماتے ہیں انہوں نے اپنے متعلق فرمایا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابو بکر کے مال نے دیا، ابو بکر رو پڑے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں اور میرا مال آپ ہی کے لئے تو ہیں۔
٭٭ ہشام بن عمار، سفیان ، حسن بن عمارۃ، فراس، شعبی، حارث حضرت علی سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ابو بکر، اور عمر جنت میں بوڑھوں کے سردار ہیں ، پہلے اور پچھلے دونوں میں سوائے انبیاء اور رسولوں کے اے علی جب تک وہ زندہ ہیں ان کو خبر مت دینا۔
٭٭ علی بن محمد و عمرو بن عبد اللہ، وکیع، اعمش، عطیہ بن سعد، حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (جنت میں ) اونچے درجات والوں کو ان سے نچلے درجات والے یوں دیکھیں گے جس طرح آسمان کے کنارے پر طلوع ہونے والا ستارہ دکھائی دیتا ہے۔ ابو بکر و عمر انہی میں سے ہیں اور اچھی زندگی میں ہوں گے۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، محمد بن بشار، مؤمل، سفیان، عبد الملک بن عمیر، مولی لربعی بن حراش، حضرت حذیفہ بن الیمان سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نہیں جانتا کہ کس قدر میری بقیہ زندگی تمہارے درمیان ہے تم میرے بعد آنے والوں کی اقتداء کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو بکر و عمر کی طرف اشارہ کیا۔
٭٭ علی بن محمد، یحییٰ بن آدم، ابن مبارد، عمر بن سعید بن ابی حسین، حضرت ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے انہوں نے عبد اللہ بن عباس کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب عمر (کے جسد مبارک) کو چارپائی پر رکھا گیا تو ان کو لوگوں نے گھیرے میں لے لیا وہ ان کے لئے رحمت کی دعا کر رہے تھے ، یا یوں فرمایا کہ وہ ان کی تعریف اور ان کے لئے دعا کر رہے تھے ، جنازہ کے اٹھائے جانے سے پہلے ، میں ان میں شامل تھا۔ میں متوجہ ہوا وہ علی بن ابی طالب تھے انہوں نے عمر کے لئے رحمت کی دعا کی پھر فرمایا میں نے آپ کے علاوہ اور کسی کے متعلق نہیں چاہا کہ میں اللہ سے اس کے جیسے عمل کے ساتھ ملوں اور اللہ کی قسم، میں ہمیشہ گمان کرتا تھا کہ اللہ عزوجل آپ کو ضرور اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ کریں گے اور یہ گمان اس وجہ سے تھا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کثرت سے یہ فرماتے ہوئے سنتا تھا کہ میں اور ابو بکر و عمر گئے میں اور ابو بکر و عمر آئے ، میں ابو بکر و عمر نکلے اس لئے میں گمان کرتا تھا کہ اللہ آپ کو اپنے دونوں ساتھیوں سے ملا دیں گے۔
٭٭ علی بن میمون رقی، سعید بن مسلمہ، اسماعیل بن امیہ، نافع، حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت ابو بکر و عمر کے درمیان سے نکلے اور فرمایا کہ اسی طرح ہم اٹھائے جائیں گے۔
٭٭ ابو شعیب، صالح بن ہیثم واسطی، عبد القدوس بن بکر بن خنیس، مالک بن مغول، عون بن حضرت ابو جحیفہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ابو بکر و عمر پہلے اور بعد میں آنے والے اہل جنت کے عمر رسیدہ لوگوں کے سردار ہوں گے ، سوائے انبیاء اور رسولوں کے۔
٭٭ احمد بن عبدہ، حسین بن حسن ، معتمر بن سلیمان، حمید، حضرت انس سے مروی ہے کہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ آپ کے نزدیک کون ہے؟ فرمایا عائشہ عرض کیا گیا مردوں میں سے کون ہے ، فرمایا ان کے والد۔
٭٭ علی بن محمد، ابو اسامہ، جویری، حضرت عبد اللہ بن شقیق فرماتے ہیں میں نے حضرت عائشہ سے عرض کی کہ صحابہ میں سے کون رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک محبوب تھا، انہوں نے فرمایا ابو بکر، میں نے عرض کیا، ان کے بعد، فرمایا عمر میں نے عرض کیا ان کے بعد کون تھا؟ فرمایا ابو عبیدہ۔
٭٭ اسماعیل بن محمد طلحی، عبد اللہ بن خراش حوشی، عوام بن حوشب، مجاہد، حضرت عبد اللہ بن عباس نے فرمایا جب عمر اسلام لائے تو جبرائیل نازل ہوئے اور فرمایا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آسمان والے عمر کے اسلام سے بہت خوش ہیں۔ (اور خوشی کی وجہ سے آسمان فرشتوں کی اللَّہُ أَکْبَرُ کی آواز سے گونج اٹھا)۔
٭٭ اسماعیل بن محمد طلحہ، داؤد بن عطاء مدینی، صالح بن کیسان، ابن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت ابی بن کعب سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سب سے پہلے جس سے حق تعالی مصافحہ فرمائیں گے وہ عمر ہیں اور وہ سب سے پہلے شخص ہیں جن کو حق تعالی سلام فرمائیں گے اور سب سے پہلے شخص جن کے ہاتھ کو حق تعالی پکڑیں گے اور جنت میں داخل فرمائیں گے۔
٭٭ محمد بن عبید ابو عبید مدینی، عبد الملک بن ماجشون، زنجی بن خالد، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے اللہ اسلام کو عمر کے ذریعے غالب فرما۔
٭٭ علی بن محمد ، وکیع، شعبہ، عمرو بن مرۃ، حضرت عبد اللہ بن سلمہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر ابو بکر ہیں اور ابو بکر کے بعد سب سے بہتر عمر ہیں۔
٭٭ محمد بن حارث مصری، لیث بن سعد، عقیل، ابن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں ہم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ نے فرمایا دریں اثناء، کہ میں سویا ہوا تھا ، میں نے اپنے آپ کو جنت میں دیکھا، وہیں ایک محل کے پہلو میں ایک عورت وضو کر رہی تھی، میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کاہے؟ اس نے کہا کہ عمر کا۔ میں نے عمر کی غیرت کو یاد کیا اور پیچھے لوٹ آیا۔ ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ عمر یہ سن کر رو پڑے اور کہنے لگے کیا آپ پر جن پر میرے ماں باپ فدا ہوں میں غیرت کروں گا۔
٭٭ ابو سلمہ یحییٰ بن خلف، عبد الاعلی، محمد بن اسحاق ، مکحول، غضیف بن حارث، حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالی نے حق کو عمر کی زبان پر رکھ دیا وہ اسی کے ساتھ بات کرتے ہیں۔
٭٭ ابو مروان محمد بن عثمان عثمانی، ابو عثمان بن خالد، عبد الرحمن بن ابی زناد، ابو زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جنت میں ہر نبی کا ایک ساتھی ہو گا اور میرے ساتھی جنت میں حضرت عثمان بن عفان ہوں گے۔
٭٭ ابو مروان محمد بن عثمان عثمانی، ابو عثمان بن خالد، عبد الرحمن بن ابی زناد، ابو زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت عثمان سے مسجد کے باہر دروازے پر ملے ، اور فرمایا۔ اے عثمان یہ جبرائیل ہیں انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ اللہ نے آپ کا نکاح ام کلثوم سے حضرت رقیہ کے مہر کی مثل اور انہی جیسی مصاحبت پر کر دیا۔
٭٭ علی بن محمد، عبد اللہ بن ادریس، ہشام بن حسان، محمد بن سیرین، حضرت کعب بن عجرہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک فتنہ کا ذکر کیا قریبی زمانے میں اسی وقت ایک آدمی اپنے سر کو ڈھانپے ہوئے گزرا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ یہ شخص اس دن ہدایت پر ہو گا ، میں نے چھلانگ لگائی اور حضرت عثمان کو پکڑ لیا۔ پھر میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور عرض کی یہ والے ? آپ نے فرمایا ہاں۔
٭٭ علی بن محمد، ابو معاویہ، فرح بن فضالہ، ربیعہ بن یزید دمشقی، نعمان بن بشیر، حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اے عثمان اگر اللہ تمہیں اس امر (خلافت) کا والی بنا دے تو منافقین چاہیں گے کہ تم قمیص اتار دو (یعنی خلافت) جو اللہ نے تمہیں پہنائی ہو گی تم اس کو نہ اتارنا آپ نے تین مرتبہ فرمایا۔ نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے عرض کی کہ آپ کو کس چیز نے یہ بات لوگوں کو بتانے سے روک دیا، انہوں نے فرمایا کہ مجھے یہ بات بھلا دی گئی۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر وعلی بن محمد، وکیع، اسماعیل بن ابی خالد، قیس بن ابی حازم، حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے مرض الموت میں فرمایا میرا جی چاہتا ہے کہ میرا کوئی ساتھی میرے پاس ہو، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا ہم آپ کے لئے ابو بکر کو بلا لیں ، آپ خاموش رہے ، ہم نے کہا کہ عمر کو بلا لیں۔ آپ خاموش رہے ، ہم نے کہا کہ عثمان کو بلا لیں ، آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ عثمان تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا چہرہ مبارک کھل اٹھا ان کو دیکھ کر۔ آپ نے ان سے باتیں کرنی شروع کر دیں اس دوران حضرت عثمان کا چہرہ متغیر ہوتا رہا، قیس فرماتے ہیں کہ مجھ سے عثمان بن عفان کے غلام ابو سہلہ نے بیان کیا کہ عثمان نے اپنی شہادت کے روز فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے سے عہد لیا تھا کہ میں اس کو پورا کروں گا۔ حضرت علی اپنی روایت میں فرماتے ہیں کہ میں اس پر صبر کروں گا۔ قیس فرماتے ہیں کہ لوگ ان کو اس دن دیکھ رہے تھے۔
حدود کا بیان
حرز میں چرانے کا بیان
علی بن محمد، ابو اسامہ، ولید بن کثیر، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ قبیلہ مزینہ کے ایک مرد نے نبی سے پھلوں کے متعلق دریافت کیا آپ نے فرمایا جو خوشوں سے توڑ کر ساتھ لے جائے تو اس پر دگنی قیمت ہے اور جو جرین (کھجور خشک کرنے کی جگہ) سے لے جائے تو اس کا ہاتھ کٹے گا بشرطیکہ ڈھال کی قیمت کے برابر ہو اور اگر کچھ کھا لے اور ساتھ اٹھائے نہیں تو اس پر کوئی سزا نہیں اس نے عرض کیا اگر بکری محفوظ ہو اس کا کیا حکم ہے اے اللہ کے رسول؟ فرمایا دگنی قیمت اور سزا بھی اور جو باڑے میں ہو تو اس کی جگہ سے ہاتھ کٹے گئے بشرطیکہ وہ ڈھال کی قیمت کے برابر ہو۔
چور کو تلقین کرنا
ہشام بن عمار، سعید بن یحییٰ، حماد بن سلمہ، اسحاق بن ابی طلحہ، حضرت ابو امیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کے پاس ایک چور لایا گیا اس نے اعتراف کر لیا اور اس کے پاس سامان برآمد نہ ہوا تو اللہ کے رسول نے فرمایا مجھے نہیں لگتا کہ تم نے چوری کی ہو؟ کہنے لگا کیوں نہیں آپ نے فرمایا کہ لگتا نہیں کہ تم نے چوری کی ہو؟ کہنے لگا کیوں نہیں پھر آپ نے حکم دیا تو اس کا ہاتھ کاٹا گیا تو نبی نے فرمایا کہوأَسْتَغْفِرُ اللَّہَ وَأَتُوبُ إِلَیْہِ میں اللہ سے بخشش اور معافی طلب کرتا ہوں اس نے کہا أَسْتَغْفِرُ اللَّہَ وَأَتُوبُ إِلَیْہِ آپ نے دوبارہ فرمایا اے اللہ اس کی توبہ قبول فرما لیجیے۔
جس پر زبردستی کی جائے
علی بن میمون، ایوب بن محمد، عبد اللہ بن سعید، معمر بن سلیمان، حجاج بن ارطاہ، عبد الجبار، حضرت وائل بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں ایک عورت سے زبردستی کی گئی تو آپ نے اس سے حد معاف فرما دی اور اس کے ساتھ کرنے والے پر حد قائم فرمائی اور یہ ذکر نہیں کیا کہ اس عورت کو مہر دلوایا۔
مسجدوں میں حدود قائم کرنے سے ممانعت
سوید بن سعید، علی بن مسہر، ح، حسن بن عرفہ، ابو حفص، اسماعیل بن ابی مسلم، عمرو بن دینار، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا مساجد میں حدود قائم نہ کی جائیں۔
٭٭ محمد بن رمح، عبد اللہ بن لہیعہ، محمد بن عجلان، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے مسجدوں میں حد قائم کرنے کی ممانعت ارشاد فرمائی ہے۔
تعزیر کا بیان
محمد بن رمح، لیث بن سعد، یزید بن ابی حبیب، بکیر بن عبد اللہ بن اشج، سلیمان بن یسار، عبد الرحمن بن جابر، عبد اللہ، حضرت ابو بردہ بن نیار سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ اللہ کی حدود کے علاوہ میں کسی کو دس کوڑوں سے زیادہ نہ مارے جائیں۔
٭٭ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، عباد بن کثیر، یحییٰ بن ابی کثیر، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا دس کوڑوں سے زیادہ سزا مت دو۔
حد کفارہ ہے
محمد بن مثنی، عبد الوہاب، ابن ابی عدی، خالد، ابو قلابہ، ابی اشعث، حضرت عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا تم میں جو بھی حد کا مرتکب ہوا پھر اسے جلدی (دنیا میں ) سزا مل گئی تو وہ اس کا کفارہ ہے ورنہ اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔
٭٭ ہارون بن عبد اللہ، حجاج بن محمد، یونس بن ابی اسحاق ، ابی جحیفہ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جس سے دنیا میں کوئی گناہ سرزد ہوا پھر اسے سزا مل گئی تو اللہ تعالی انصاف فرمانے والے ہیں اپنے بندہ کو دوبارہ سزا نہ دیں گے اور جس نے دنیا میں گناہ کا ارتکاب کیا پھر اللہ نے اس پر پردہ ڈال دیا تو اللہ مہربان ہیں جو معاف کر دیں دوبارہ اس کی باز پرس نہ فرمائیں گے۔
مرد اپنی بیوی کے ساتھ اجنبی مرد کو پائے
احمد بن عبدہ، محمد بن عبید، ابو عبید، عبد العزیز بن محمد، سہیل بن ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مرد اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو پائے کیا اس غیر مرد کو قتل کر سکتا ہے اللہ کے رسول نے فرمایا نہیں۔ حضرت سعد نے کہا کیوں نہیں قسم اس ذات کی جس نے حق کے ذریعہ آپ کو عزت دی تو اللہ کے رسول نے فرمایا سنو تمہارا سردار کیا کہہ رہا ہے۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، فضل بن دلہم، حسن، قبیصہ بن حریث، حضرت سلمہ بن محبق فرماتے ہیں کہ ابو ثابت سعد بن عبادہ بہت غیور مرد تھے جب حدود کی آیت نازل ہوئی تو کسی نے ان سے کہا بتائیے اگر آپ اپنی اہلیہ کے ساتھ کسی مرد کو دیکھیں تو کیا کریں گے کہنے لگے میں ان دونوں کو تلوار سے ماروں گا کیا میں انتظار کروں یہاں تک کہ چار گواہ لاؤں اور اس وقت تک وہ اپنا کام پورا کر کے فرار ہو چکا ہو یا میں کہو کہ میں نے یہ یہ دیکھا تو تم مجھے حد لگاؤ گے اور کبھی بھی میری گواہی قبول نہ کرو گے کہتے ہیں کہ نبی سے اس کا تذکرہ کسی نے کر دیا تو آپ نے فرمایا تلوار ہی کافی گواہ ہے پھر فرمایا نہیں کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ نشئی اور غیرت مند مسلسل ایسا کرنے لگیں امام ابن ماجہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو زرعہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ روایت علی بن طنافسی کی ہے اور مجھے اس میں سے کچھ بھول ہو گئی۔
والد کے انتقال کے بعد اس کی اہلیہ سے شادی کرنا
اسماعیل بن موسی، ہشیم، ح، سہل بن ابی سہل، حفص بن غیاث، اشعث، عدی بن ثابت، حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ میرے ماموں میرے قریب سے گزرے اور نبی نے ان کو جھنڈا باندھ دیا تھا میں نے ان سے پوچھا آپ کہاں جا رہے ہیں؟ کہنے لگے مجھے اللہ کے رسول نے ایک مرد کی طرف بھیجا جس نے والد کے انتقال کے بعد اس کی اہلیہ سے شادی کر لی اور مجھے حکم دیا کہ اس کی گردن اڑا دوں۔
٭٭ محمد بن عبد الرحمن، ابن اخی، حسین، یوسف بن منازل، عبد اللہ بن ادریس، خالد بن ابی کریمہ، معاویہ بن قرہ، حضرت قرہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے مجھے ایک مرد کی طرف بھیجا جس نے اپنے والد کی اہلیہ سے شادی کی میں اس کی گردن اڑا دوں اور اس کا مال لے لوں۔
باپ کے علاوہ کی طرف نسبت کرنا اور اپنے آقاؤں کے علاوہ کسی کو اپنا آقا بتانا
ابو بشر، بکر بن خلف، ابن ابی صیف، عبد اللہ بن عثمان بن خشیم، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جس شخص نے اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کی تو اس پر اللہ کی اور فرشتہ کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔
٭٭ علی بن محمد، ابو معاویہ، عاصم، ابی عثمان، حضرت سعد اور حضرت ابو بکر میں سے ہر ایک نے یہ کہا کہ میرے دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے محفوظ کیا کہ محمد نے فرمایا جس نے باپ کے علاوہ کی طرف اپنی نسبت کی حالانکہ اسے معلوم بھی ہے کہ یہ میرا باپ نہیں تو اس پر جنت حرام ہے۔
٭٭ محمد بن صباح، سفیان، عبد الکریم، مجاہد، حضرت عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جس نے اپنے باپ کے علاوہ کی طرف اپنی نسبت کی تو جنت کی خوشبو نہ سونگھے کا حالانکہ جنت کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت سے محسوس ہوتی ہے۔
کسی مرد کی قبیلہ سے نفی کرنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، حماد بن سلمہ، محمد بن یحییٰ، سلیمان بن حرب، ح، ہارون بن حبان، عبد العزیز بن مغیرہ، حماد بن سلمہ، عقیل بن طلحہ، مسلم بن ھضم، اشعث بن قیس، بیان فرماتے ہیں کہ میں قبیلہ کندہ کے وفد کے ساتھ اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سب شرکاء وفد مجھے اپنے میں افضل خیال کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ہم میں سے نہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا ہم نضر بن کنانہ کی اولاد میں سے ہیں ہم اپنی والدہ پر تہمت نہیں لگاتے اور اپنے سے اپنی نفی نہیں کرتے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر اشعث بن قیس فرمایا کرتے تھے کہ میرے پاس اگر کوئی ایسا شخص لایا گیا جو کسی قریش کے متعلق کہے کہ نضر بن کنانہ کی اولاد نہیں تو میں اس کو حد قذف لگاؤں گا (کیونکہ نبی نے فرمایا دیا کہ قریش نضر بن کنانہ کی اولاد ہیں )۔
ہیجڑوں کا بیان
حسن بن ابی ربیع، عبد الرزاق، یحییٰ بن علاء، بشر بن نمیر، مکحول، یزید بن عبد اللہ، حضرت صفوان بن امیہ فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر تھے کہ عمرو بن مرہ آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول اللہ نے میرے لیے بدبختی لکھ دی تو میرا خیال نہیں کہ مجھے روزی ملے الا یہ کہ اپنے ہاتھ سے دف بجاؤں (اور روٹی حاصل کروں ) لہذا آپ مجھے بغیر فسق و فجور (یعنی ناچنے اور لواطت وغیرہ) کے گانے کی اجازت دیجیے تو اللہ کے رسول نے فرمایا میں تجھے اس کی اجازت نہیں دوں گا اور تیری کوئی عزت نہیں اور نہ تیری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اے اللہ کے دشمن اللہ نے تجھے پاکیزہ اور حلال روزی دی پھر جو روزی اللہ نے تیرے لیے حلال فرمائی اس کی جگہ تو نے اس روزی کو اختیار کیا جو اللہ نے تجھ پر حرام فرمائی اور اگر میں تجھے اس سے قبل منع کر چکا ہوتا تو اب تجھے سخت سزا دیتا اور تیرا برا حشر کرتا میرے پاس سے اٹھ کھڑا ہو اور اللہ کی طرف رجوع کر اور غور سے سن! اب منع کرنے کے بعد اگر تو نے پھر ایسا کیا تو میری تیری سخت پٹائی کروں گا، دردناک سزا دوں گا اور تیری صورت بگاڑنے کے لیے تیرا سر منڈوا دوں گا اور تجھے گھر والوں سے جدا کر دوں گا اور تیرا لباس و سامان لوٹنا مدینہ کے جوانوں کے لیے حلال کر دوں گا تو عمرو کھڑا ہوا اور اس پر ایسی ذلت و رسوائی چھائی ہوئی تھی جس کا علم اللہ ہی کو ہے جب وہ جا چکا تو نبی نے فرمایا یہی خدا کے نافرمان ہیں جو ان میں سے بغیر توبہ کے مر جائے اللہ اس کو روز قیامت اسی طرح حشر فرمائے گا جس طرح دنیا میں تھا ہیجڑا ہو گا اور ننگا لوگوں سے اس کا ستر پوشیدہ نہ ہو گا جب کھڑا ہو گا گر جائے گا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، ہشام بن عروہ، زینب بنت ام سلمہ، ام المومنین حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ نبی ان کے پاس تشریف لائے تو سنا ایک مخنث عبد اللہ بن ابی امیہ سے کہہ رہا ہے اگر اللہ کل طائف کی فتح دیں تو میں تمہیں ایک عورت دکھاؤں گا جو چار بٹوں کے ساتھ آتی ہے اور آٹھ بٹوں کے ساتھ واپس جاتی ہے پس نبی نے فرمایا ان کو اپنے گھروں سے نکال دیا کرو۔
دیت کا بیان
٭٭محمد بن عبد اللہ بن نمیر، علی بن محمد، محمد بن بشار، اعمش، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا روز قیامت لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خونوں کا فیصلہ ہو گا۔
٭٭ ہشام بن عمار، عیسیٰ بن یونس، اعمش، عبد اللہ بن مرہ، مسروق، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا ایک جان بھی ناحق قتل ہو تو حضرت آدم کے پہلے بیٹے کو اس کے خون کا گناہ ہوتا ہے اس لیے کہ سب قبل اس نے قتل کا طریقہ جاری کیا۔
٭٭ سعید بن یحییٰ بن ازہر، اسحاق بن یوسف، شریک، عاصم، ابی وائل، عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا روز قیامت لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خونوں کا حساب ہو گا۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، وکیع، اسماعیل بن ابی خالد، عبد الرحمن بن عائد، حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جو اللہ سے اس حال میں ملا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو اور ناحق خون نہ کیا ہو وہ جنت میں داخل ہو گا۔
٭٭ ہشام بن عمار، ولید بن مسلم، مروان بن جناح، ابی جہم، حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا دنیا کو فنا کرنا اللہ کے ہاں ایک مومن کو ناحق قتل کرنے سے آسان اور ہلکا ہے۔
٭٭ عمرو بن رافع، مروان بن معاویہ، یزید بن زیاد، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جس نے مومن کو قتل کرنے میں ایک لفظ بھر بھی مد د کی تو وہ اللہ سے ایسی حالت میں ملے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا اللہ کی رحمت سے نا امید۔
کیا مومن کو قتل کرنے والے کی توبہ قبول ہو گی
محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، عمار، سالم بن ابی جعد کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس سے اس شخص کے متعلق پوچھا گیا جس نے کسی مومن کو قصداً قتل کیا پھر توبہ کر لی اور ایمان واعمال صالحہ کو اختیار کر لیا اور ہدایت پر آ گیا۔ فرمایا اس پر افسوس اس کے لیے ہدایت کہاں؟ میں نے تمہارے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا قاتل و مقتول روز قیامت آئیں گے مقتول قاتل کے سر سے لٹکا ہوا ہو گا اور کہہ رہا ہو گا اے میرے پروردگار اس سے پوچھیے کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ کی قسم اللہ نے تمہارے نبی پر یہ آیت نازل فرمائی اور اسے نازل فرمانے کے بعد منسوخ نہیں فرمایا۔
آداب کا بیان
یاد الہی کی فضیلت
ابو بکر، محمد بن مصعب، اوزاعی، اسماعیل بن عبید اللہ، ام درداء، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے میں اپنے بندہ کے ساتھ ہی ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتے اور میرے (نام یا احکام) کیلئے اس کے ہونٹ حرکت کریں۔
٭٭ ابو بکر، زید بن حباب، معاویہ بن صالح، عمرو بن قیس کندی، حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا اسلام کے قاعدے (اعمال خیر) میرے لئے تو بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ آپ ان میں سے کوئی ایسی چیز مجھے بتا دیجئے کہ میں اس کا اہتمام و التزام کر لوں۔ فرمایا تمہاری زبان مسلسل یاد الہی سے تر رہے۔
٭٭ ابو بکر، حسین بن علی ، حمزہ زیات، ابی اسحاق ، اغر، ابی مسلم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں شہادت دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب بندہ کہتا ہے لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ تو اللہ تعالی فرماتا ہے میرے بندے نے سچ کہا۔ میرے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں سب سے بڑا ہوں اور جب بندہ کہتا ہے۔لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ تو ارشاد ہوتا ہے میرے بندے نے سچ کہا۔ تنہا میرے علاوہ کوئی معبود نہیں اور جب بندہ کہتا ہے لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ لَا شَرِیکَ لَہُ تو ارشاد ہوتا ہے میرے بندے نے سچ کہا۔ میرے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میرا کوئی شریک نہیں اور جب بندہ کہتا ہے۔ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ تو ارشاد ہوتا ہے میرے بندے نے سچ کہا۔ میرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ میرے لئے ہی ہے شاہی اور میرے لئے ہی ہیں تمام (خوبیاں اور تعریفیں ) اور جب بندہ کہتا ہے لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِ تو ارشاد ہوتا ہے میرے بندہ نے سچ کہا۔ میرے علاوہ کوئی معبود نہیں اور گناہوں تکلیفوں سے بچنا اور نیک اعمال کی قوت مجھ ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ راوی ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میرے استاذ ابو جعفر نے اس کے بعد کچھ کہا جو میں سمجھ نہ سکا تو میں نے ابو جعفر سے پوچھا کہ کیا کہا؟ فرمایا جسے موت کے وقت یہ کلمات نصیب ہو جائیں؟ اسے نار دوزخ نہیں چھوئے گی۔
٭٭ ہارون بن اسحاق ہمدانی، محمد بن عبد الوہاب، مسعر، اسماعیل بن ابی خالد، شعبی، یحییٰ بن طلحہ، حضرت سعدالمریہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے انتقال کے بعد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے گزرے تو فرمایا تمہیں کیا ہوا رنجیدہ کیوں ہو؟ کیا تمہیں اپنے چچا زاد بھائی کی امارت اچھی نہیں لگتی؟ جواب دیا یہ بات نہیں ہے بلکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا مجھے ایک کلمہ معلوم ہے جو بھی موت کے وقت وہ کلمہ کہے گا وہ کلمہ اس کے نامہ اعمال کو روشن کر دے گا اور موت کے وقت اس کی کلمہ کو خوشبو (اور اس کی وجہ سے راحت) اس کے جسم اور روح دونوں کو محسوس ہو گی پھر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے وہ کلمہ دریافت نہ کر سکا کہ آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا مجھے وہ کلمہ معلوم ہے وہ کلمہ وہی ہے جو آپ نے اپنے چچا سے (کہلوانا) چاہا تھا اور اگر آپ کو معلوم ہوتا کہ کوئی چیز اس کلمہ سے زیادہ آپ کے چچا کے لئے باعث نجات ہے تو ان کے سامنے وہ رکھ دیتے۔
٭٭ عبد الحمید بن بیان واسطی، خالد بن عبد اللہ ، یونس، حمید بن ہلال، ھصان بن کاہل، عبد الرحمن بن سمرہ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس نفس کو بھی موت اس حال میں آئے کہ وہ اس بات کی شہادت دیتا ہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور یہ گواہی دل کے یقین سے ہو تو اللہ سکی بخشش فرما دیں گے۔
٭٭ ابراہیم بن منذرحزامی، زکریابن منظور، محمد بن عقبہ، حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ سے کوئی عمل بڑھ نہیں سکتا اور یہ کسی گناہ کو (باقی) نہیں رہنے دیتا۔
٭٭ ابو بکر، زید بن حباب ، مالک بن انس، ابو بکر، ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو دن میں سو بار َا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ کہے اسے دس غلام آزاد کرنے کی برابر ثواب ملے گا اور اس کے لئے سو نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کے سو گناہ مٹا دئیے جائیں گے اور یہ کلمات اس کے لئے تمام دن رات تک شیطان سے حفاظت کا ذریعہ بنتے ہیں اور کوئی بھی اس سے بہتر عمل نہیں کرتا الا یہ کہ کوئی شخص یہ کلمات سو سے بھی زیادہ مرتبہ کہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، بکر بن عبد الرحمن، عیسیٰ مختاری، محمد ابی لیلیٰ، عطیہ عوفی حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو نماز فجر کے بعد یہ کلمات پڑھے (لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ) اسی حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔
اللہ کی حمد و ثناء کرنے والوں کی فضیلت
عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، موسیٰ بن ابراہیم بن کثیر بن بشیر بن فاکہ، طلحہ بن خراس بن عم جابر، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا افضل ترین ذکر لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ ہے اور افضل ترین دعا الْحَمْدُ لِلَّہِ ہے۔
٭٭ ابراہیم منذرحزامی، صدقہ بن بشیر، قدامہ بن ابراہیم جمحی، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک اللہ کے بندے نے کہا یَا رَبِّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا یَنْبَغِی لِجَلَالِ وَجْہِکَ وَلِعَظِیمِ سُلْطَانِکَ اے اللہ! آپ ہی کے لئے تمام تعریفیں۔ جو آپ بزرگ ذات اور عظیم سلطنت کے شایان شان ہے تو فرشتوں (کراماً کا تبین) کو دشواری ہوئی اور انہیں سمجھ نہ آیا کہ اس کا ثواب کیسے لکھیں۔ چنانچہ دونوں آسمان کی طرف چڑھے اور عرض کیا اے ہمارے پروردگار ! آپ کے بندے نے ایک بات کہی ہے ہمیں سمجھ نہیں آیا کہ اس کا ثواب کیسے لکھیں؟ اللہ عزوجل باوجودیکہ اپنے بندہ کی اس بات سے واقف ہے پوچھا انہوں نے کیا کہا؟ انہوں نے عرض کیا کہ اے پروردگار ! اس نے کہا یَا رَبِّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا یَنْبَغِی لِجَلَالِ وَجْہِکَ وَلِعَظِیمِ سُلْطَانِکَ تو اللہ عزوجل نے ان دونوں فرشتوں سے فرمایا کہ میرے بندے کا یہی کلمہ لکھ دو۔ جب وہ مجھے ملے گا تو میں خود اس کا اس کو اجر دوں گا۔
٭٭ علی بن محمد، یحییٰ بن آدم، اسرائیل، ابی اسحاق ، عبد الجبار بن حضرت وائل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز ادا کی۔ ایک مرد نے کہا۔ الْحَمْدُ لِلَّہِ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ادا کر چکے تو فرمایا یہ حمد کس نے کی؟ اس مرد نے عرض کیا میں نے اور میرا خیر اور بھلائی کا ہی ارادہ تھا۔ فرمایا اس (کلمہ) حمد کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے اور عرش سے نیچے کوئی چیز بھی اسے روک نہ سکی۔
٭٭ ہشام بن خالد ازرق، مروان، ولید بن مسلم، زہیر بن عبد اللہ بن محمد، منصور بن عبد الرحمن ، صفیہ بن نبت شیبہ، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کوئی پسند یدہ چیز (یا بات) دیکھتے تو ارشاد فرماتے الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی بِنِعْمَتِہِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ اور جب ناپسندیدہ چیز دیکھتے تو فرماتے الْحَمْدُ لِلَّہِ عَلَی کُلِّ حَالٍ۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، موسیٰ بن عبیدہ، محمد بن ثابت، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اَلْحَمْدُ لِلَّہِ عَلَی کُلِّ حَالٍ رَبِّ أَعُوذُ بِکَ مِنْ حَالِ أَہْلِ النَّارِ ہر حال میں اللہ ہی کے لئے تعریف (اور شکر) ہے۔ اے میرے پروردگار ! میں اہل دوزخ کی حالت سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔
٭٭ حسن بن علی خلال، ابو عاصم، شبیب بن بشیر، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی کسی بندہ پر نعمت فرمائیں اور وہ نعمت پر اَلْحَمْدُ لِلَّہِ کہے تو اس بندہ نے جو دیا وہ بہتر ہے اس سے جو اس نے لیا۔
سبحان اللہ کہنے کی فضیلت
ابو بکر، علی بن محمد، محمد بن فضیل، عمارہ بن قعقاع، ابی زرعہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا دو کلمے زبان پر ہلکے ترازو میں بھاری اور رحمن کے پسندیدہ ہیں سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اللَّہِ الْعَظِیمِ۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عفان، حماد بن سلمہ، ابو سنان، عثمان بن ابی سودہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ درخت لگا رہے تھے۔ قریب سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا گزر ہوا تو فرمایا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! کیا بو رہے ہو؟ میں نے عرض کیا درخت لگا رہا ہوں۔ فرمایا اس سے بہتر درخت تمہیں نہ بتاؤں؟ عرض کیا ضرور ! اے اللہ کے رسول۔ فرمایا کہو سُبْحَانَ اللَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ (ان میں سے ) ہر کلمہ کے بدلہ جنت میں تمہارے لئے ایک درخت لگے گا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، مسعر، محمد بن عبد الرحمن ، ابی رشدین، ابن عباس، حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صبح کی نماز کے وقت یا صبح کی نماز کے بعد ان کے پاس سے گزرے۔ یہ ذکر اللہ میں مشغول تھیں۔ جب دن چڑھ گیا یا دوپہر ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم واپس تشریف لائے۔ یہ اسی حالت میں (ذکر اللہ میں ) مشغول تھیں۔ فرمایا تمہارے پاس سے جانے کے بعد میں نے یہ چار کلمات تین بار کہے۔ وہ تمہارے ذکر سے بڑھ کر اور وزنی اور بھاری ہیں سُبْحَانَ اللَّہِ عَدَدَ خَلْقِہِ سُبْحَانَ اللَّہِ رِضَا نَفْسِہِ سُبْحَانَ اللَّہِ زِنَۃَ عَرْشِہِ سُبْحَانَ اللَّہِ مِدَادَ کَلِمَاتِہِ۔
٭٭ ابو بشربکر بن خلف، یحییٰ بن سعید، موسیٰ بن ابی موسیٰ طحان، عون بن عبد اللہ ، حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو تم اللہ کی بزرگی کا ذکر کرتے ہو مثلاً سُبحَانَ اللہِ اَلحَمدُ للہِ اَللہُ اَکبَرُ یہ کلمات اللہ کے عرش کے گرد چکر لگاتے ہیں اور شہد کی مکھیوں کی طرح بھنبھناتے ہیں۔ اپنے کہنے والے کا ذکر (اللہ کی بارگاہ میں ) اس کا ذکر کرتے رہے (تو اسے چاہئے کہ ان کلمات پر دوام اختیار کرے )۔
٭٭ ابراہیم بن منذرحزامی، ابو یحییٰ زکریا بن منظور، محمد بن عقبہ بن ابی مالک، ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! مجھے کوئی عمل بتائیے کیونکہ میں عمر رسیدہ ناتواں اور بھاری بدن والی ہو گئی ہوں (مشقت والی عبادت دشوار ہو گئی ہے ) فرمایا سو بار اللَّہُ أَکْبَرُ کہا کرو اور سو بار اَلحَمدُ للہِ کہا کرو اور سو بار سُبحَانَ اللہِ کہا کرو۔ یہ تمہارے لئے راہ الہی میں سو گھوڑے زین اور لگام کے ساتھ دینے سے بہتر ہیں اور سو اونٹوں سے بہتر ہیں سو غلام آزاد کرنے سے بہتر ہیں۔
٭٭ ابو عمر حفص بن عمرو، عبد الرحمن بن مہدی، سفیان، سلمہ بن کہیل، ہلال بن یساف، حضرت سمرۃ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چار کلمات تمام کاموں سے افضل ہیں جو بھی پہلے کہہ لو کچھ حرج نہیں۔ سُبْحَانَ اللَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ
٭٭ نصر بن عبد الرحمن، عبد الرحمن محاربی، مالک بن انس ، سمی، ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ سو بار کہے اس کے گناہ بخش دئیے جائیں اگر سمندر کی جھاگ کی مانند ہوں۔
٭٭ علی بن محمد، ابو معاویہ، عمر بن راشد، یحییٰ بن ابی کثیر، ابی سلمہ بن عبد الرحمن، حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سُبْحَانَ اللَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ کا اہتمام کیا کرو کیونکہ یہ گناہوں کو ایسے جھاڑ دیتے ہیں جیسے درخت اپنے (سوکھے ) پتے جھاڑ دیتا ہے۔
اللہ تعالی سے بخشش طلب کرنا
علی بن محمد، ابو اسامہ، محاربی، مالک بن مغول، محمد بن سوقہ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم شمار کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجلس میں سو بار فرماتے رَبِّ اغْفِرْ لِی وَتُبْ عَلَیَّ إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ اے میرے پروردگار ! میری بخشش فرما اور توبہ قبول فرما۔ بلا شبہ تو توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
فتنوں کا بیان
فتنہ دجال حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا نزول اور خروج یاجوج ماجوج
نصر بن علی جہضمی، محمد بن مثنی، روح بن عبادہ، سعید بن ابی عروبہ، ابی تیاح، مغیرہ بن سبیع، عمرو بن حریث، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں بتایا کہ دجال مشرق کے ایک علاقہ سے نکلے گا جس کا نام خراسان ہے اس کے ساتھ ایسے لوگ ہوں گے جن کے چہرے گویا تہ بہ تہ ڈھالیں ہیں (یعنی چپٹے اور پُر گوشت)۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، علی بن محمد، وکیع، اساعیل بن ابی خالد، قیس بن ابی حازم، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دجال کے بارے میں مجھ سے زیادہ کسی نے نہیں پوچھا۔ آپ نے (ایک مرتبہ) فرمایا تم اس کے متعلق کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کیا لوگ کہتے ہیں کہ اس کے پاس کھانا پانی بھی ہو گا۔ فرمایا یہ اللہ کے لئے اس (دجال) سے بہت آسان ہے۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، ابو اسماعیل بن ابی خالد، مجالد، شعبی، حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ ایک روز نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ادا فرمائی اور منبر پر تشریف لائے اس سے قبل آپ جمعہ کے علاوہ منبر پر تشریف نہ لے جاتے تھے۔ لوگوں کو یہ بات گراں گزری (اور گھبرا گئے کہ نہ معلوم کیا بات ہے ) کچھ لوگ کھڑے ہوئے تھے اور کچھ بیٹھے ہوئے آپ نے انہیں ہاتھ کے اشارہ سے بیٹھنے کا امر فرمایا (پھر فرمایا) بخدا میں اس جگہ کسی ایسے امر کی وجہ سے کھڑا نہیں ہوا جس سے تمہیں ترغیب یا ترتیب کا فائدہ ہو بلکہ (وجہ یہ ہوئی کہ) تمیم داری میرے پاس آئے اور مجھے ایسی بات بتائی کہ خوشی اور فرحت کی وجہ سے میں دوپہر سو نہ سکا تو میں نے چاہا کہ خوشی تمہارے اندر بھی پھیلا دوں غور سے سنو تمیم داری کے چچازاد بھائی نے مجھے بتایا کہ (سمندری سفر میں ) باد مخالف انہیں ایک غیر معروف جزیرہ میں لے گئی یہ (تمام مسافر) چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر اس جزیرہ میں اترے وہاں لمبے بالوں والی ایک سیاہ چیز دیکھی انہوں نے اس سے پوچھا تو کون ہے؟ کہنے لگی میں جاسوس ہوں۔ انہوں نے کہا پھر ہمیں بتاؤ (خبریں دو کہ جاسوس کا یہی کام ہے ) کہنے لگی میں تمہیں کچھ خبر نہ دوں گی اور نہ ہی تم سے کچھ پوچھوں گی لیکن اس مندر میں جاؤ اور دیکھو جو تم کو وہاں نظر آتا ہے۔ وہاں ایک شخص ہے جو تم سے باتیں کرنے کا بڑا شائق ہے یعنی تم سے خبر پوچھنے کا اور تم کو خبریں دینے کا۔ خیر وہ لوگ اس مندر (عبادت خانہ) میں گئے۔ دیکھا تو ایک بوڑھا ہے جو خوب جکڑا ہوا ہے۔ ہائے ہائے کرتا ہے بہت رنج میں ہے اور شکایت میں۔ ہم نے اس سے کہا خرابی ہو تیری تو کون ہے؟ وہ بولا تم میری خبر لینے پر قادر ہوئے پہلے اپنی خبر بیان کرو۔ تم کون لوگ ہو؟ (پھر) اس نے کہا تم لوگ کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے کہا شام سے۔ اس نے پوچھا عرب کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا ہم عرب ہی کے لوگ ہیں جن کو تو پوچھتا ہے۔ اس نے کہا اس شخص کا (نبی) کا کیا حال ہے جو تم لوگوں میں پیدا ہوا؟ ان لوگوں نے کہا اچھا حال ہے۔ اس نبی نے ایک قوم سے دشمنی کی لیکن اللہ نے اس کو غالب کر دیا۔ اب عرب کے لوگ مذہب میں ایک ہو گئے ان کا خدا ایک ہی ہے اور ان کا دین بھی ایک ہی ہے۔ پھر اس نے پوچھا زُغر کے چشمہ کا کیا حال ہے؟ زغر ایک گاؤں ہے شام میں جہاں زغر حضرت لوط علیہ السلام کی بیٹی اتریں تھیں وہاں ایک چشمہ ہے اس کا پانی سوکھ جانا دجال کے نکلنے کی نشانی ہے۔ انہوں نے کہا اچھا حال ہے۔ لوگ اس میں سے اپنے کھیتوں کو پانی دیتے ہیں اور پینے کیلئے بھی اس میں سے پانی لیتے ہیں پھر اس نے پوچھا عمان اور بیسان کے درمیان کی کھجور کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا ہر سال اس میں سے کھجور اترتی ہے۔ پھر اس نے کہا طبریہ کے تالاب کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا اس کے دونوں کناروں پر پانی کودتا ہے یعنی اس میں پانی کثرت سے ہے۔ یہ سن کے تین بار وہ شخص کودا پھر کہنے لگا اگر میں اس قید سے چھوٹوں تو کسی زمین کو نہ چھوڑوں گا جہاں میں نہ جاؤں سوا (مدینہ) طیبہ کے۔ وہاں جانے کی مجھ کو طاقت نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس پر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ طیبہ یہی شہر ہے۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مدینہ میں کوئی تنگ راہ ہو یا کشادہ ہو نرم زمین ہو یا سخت پہاڑ مگر اس جگہ ایک فرشتہ ننگی تلوار لئے ہوئے معین ہے قیامت تک۔
٭٭ ہشام بن عمار، یحییٰ بن حمزہ، عبد الرحمن بن یزید بن جابر، عبد الرحمن بن جبیر بن نفیر، حضرت نواس بن سمعان کلابی سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صبح کو دجال کا بیان کیا تو اس کی ذلت بھی بیان کی (کہ وہ کانا ہے اور اللہ کے نزدیک ذلیل ہے ) اور اس کی بڑائی بھی بیان کی (کہ اس کا فتنہ سخت ہے اور وہ عادات کے خلاف باتیں دکھلائے گا یہاں تک کہ ہم سمجھے کہ وہ ان کھجوروں میں ہے (یعنی ایسا قریب ہے گویا حاضر ہے یہ آپ کے بیان کا اثر اور صحابہ کے ایمان کا سبب تھا (جب ہم لوٹ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس گئے (یعنی دوسرے وقت) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دجال کے ڈر کا اثر ہم میں پایا (ہمارے چہروں پر گھبراہٹ اور خوف سے ) آپ نے پوچھا تمہارا کیا حال ہے؟ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صبح کو آپ نے دجال کا ذکر کیا اس کی ذلت بھی بیان کی اور اس کی عظمت بھی بیان کی یہاں تک کہ ہم سمجھے کہ وہ انہی کھجور کے درختوں میں ہے۔ آپ نے فرمایا دجال کے سوا اوروں کا مجھے زیادہ ڈر ہے تم پر اور دجال اگر میری موجودگی میں نکلا تو میں اس سے حجت کروں گا تمہاری طرف سے (تم الگ رہو گے ) اور اگر اس وقت نکلے جب میں تم میں نہ ہوں (بلکہ میری وفات ہو جائے (توہر ایک شخص اپنی حجت آپ کر لے اور اللہ میرا خلیفہ ہے ہر مسلمان پر۔ دیکھو! دجال جوان ہے (اور تمیم کی روایت میں گزرا کہ وہ بوڑھا ہے اور شاید رنج و غم سے تمیم کو بوڑھا معلوم ہوا ہو یہ بھی دجال کا کوئی شعبدہ ہو) اس کے بال بہت گھنگریالے ہیں اس کی آنکھ ابھری ہوئی ہے۔ گویا میں اس کی مشابہت دیکھتا ہوں عبد العزی بن قطن سے (وہ ایک شخص تھا۔ قوم خزاعہ کا جو جاہلیت کے زمانہ میں مر گیا تھا) پھر جو کوئی تم میں سے دجال کو پائے تو شروع سورۃ کہف کی آیتیں اس پر پڑھے (ان آیتوں کے پڑھنے سے دجال کے فتنہ سے بچے گا) دیکھو دجال خلہ سے نکلے گا جو شام اور عراق کے درمیان (ایک راہ) ہے اور فساد پھیلاتا پھرے گا دائیں طرف اور بائیں طرف ملکوں میں اے اللہ کے بندوں مضبوط رہنا ایمان پر ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ کتنے دنوں تک زمین پر رہے گا؟ آپ نے فرمایا کہ چالیس دن تک جن میں ایک دن سال بھر کا ہو گا اور ایک دن ایک مہینے کا اور ایک دن ایک ہفتے کا اور باقی دن تمہارے ان دنوں کی طرح ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ دن جو ایک برس کا ہو گا جو اس میں ہم کو ایک دن کی (پانچ نمازیں کافی ہوں گی (قیاس تو یہی تھا کہ کافی ہوتیں مگر آپ نے فرمایا اندازہ کر کے نماز پڑھ لو۔ ہم نے عرض کیا وہ زمین میں کس قدر جلد چلے گا (جب تو اتنی تھوڑی مدت میں ساری دنیا گھوم آئے گا) آپ نے فرمایا ابر کی مثال ہوا اس کے پیچھے رہے گی وہ ایک قوم کے پاس آئے گا اور ان کو اپنی طرف بلائے گا وہ اس کو مان لیں گے اور اس پر ایمان لائیں گے (معاذاللہ وہ الوہیت کا دعویٰ کرے گا) پھر وہ آسمان کو حکم دے گا وہ ان پر پانی برسائے گا اور زمین کو حکم دے گا وہ اناج اگائے گی اور ان کے جانور شام کو آئیں گے (چراگاہ سے لوٹ کر) ان کی کوہان خوب اونچی یعنی خوب موٹے تازے ہو کر اور ان کے تھن خوب خوب بھرے ہوئے دودھ والے اور ان کی کھوکھیں پھولی ہوں گی پھر ایک قوم کے پاس آئے گا ان کو اپنی طرف بلائے گا وہ اس کی بات نہ مانیں گے اس کے خدا ہونے کو رد کر دیں گے ) آخر دجال ان کے پاس سے لوٹ جائے گا صبح کو ان کا ملک قحط زدہ ہو گا اور ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہے گا۔ پھر دجال ایک کھنڈر پر سے گزرے گا اور اس سے کہے گا اپنے خزانے نکال اس کھنڈر کے سب خزانے اس کے ساتھ ہولیں گے جیسے شہد کی مکھیاں بڑی مکھی یعنی یعسوب کے ساتھ ہوتی ہیں پھر ایک شخص کو بلائے گا جو اچھا موٹا تازہ جوان ہو گا اور تلوار سے اس کو مارے گا۔ وہ دو ٹکڑے ہو جائے گا اور ہر ایک ٹکڑے کو دوسرے ٹکڑے سے تیر کے (گرنے کے ) فاصلہ تک کر دے گا۔ پھر اس کا نام لے کر اس کو بلائے گا وہ شخص زندہ ہو کر آئے گا اس کا منہ چمکتا ہو گا اور وہ ہنستا ہو گا۔ خیر دجال اور لوگ اسی حالت میں ہوں گے کہ اتنے میں اللہ حضرت عیسیٰ بن مریم کو بھیجے گا اور سفید مینار پر دمشق کے مشرق کی جانب اتریں گے۔ دو زرد کپڑے پہنے ہوئے (دو ورس یا زعفران میں رنگے ہوں گے ) اور اپنے دونوں ہاتھ فرشتوں کے بازو پر رکھے ہوئے جب وہ اپنا سر جھکائیں گے تو اس میں سے پسینہ ٹپکے گا اور جب اونچا کریں گے تو پسینے کے قطرے اس میں سے گریں گے موتی کی طرح اور جو کافر ان کے سانس کا اثر پائے گا (یعنی اس کی بو) وہ مر جائے گا اور اس کے سانس کا اثر وہاں تک جائے گا جہاں تک ان کی نظر جائے گی آخر حضرت عیسیٰ چلیں گے اور دجال کو باب لد پر پائیں گے (وہ ایک پہاڑ ہے شام میں اور بعضوں نے کہا کہ بیت المقدس کا ایک گاؤں ہے ) وہاں اس مردود کو قتل کریں گے (دجال ان کو دیکھ کر ایسا پگھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے ) پھر حضرت عیسیٰ اللہ کے نبی ان لوگوں کے پاس آئیں گے جن کو اللہ نے دجال کے شر سے بچایا اور ان کے منہ پر ہاتھ پھیریں گے اور ان کو جنت میں جو درجے ملیں گے وہ ان سے بیان کریں گے لوگ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالی وحی بھیجے گا۔ حضرت عیسیٰ پر اے عیسیٰ میں نے اپنے بندوں بندوں کو نکالا کریں یا کہ پہلے ہے کہ ان سے کوئی لڑ نہیں سکتا تو میرے (مومن) بندوں کو طور پہاڑ پر لے جا اور اللہ تعالی یاجوج اور ماجوج کو بھیجے گا جیسے اللہ نے فرمایا (من کل حدب ینسلون) یعنی ہر ایک ٹیلے پر سے چڑھ دوڑیں گے تو ان کا پہلا گروہ (جو مثل ٹڈیوں کے ہوں گے کثرت میں ان کا پہلا حصہ یعنی آگے کا حصہ طبریہ کے تالاب میں پانی تھا اور حضرت عیسیٰ اور آپ کے ساتھ رکے رہیں گے (طور پہاڑ پر) یہاں تک کہ ایک بیل کی سری ان کے لئے سو اشرفی سے بہتر ہو گی تمہارے لئے آج کے دن۔ آخر حضرت عیسیٰ اور آپ کے ساتھی اللہ کی درگاہ میں دعا کریں گے تو اللہ یاجوج ماجوج لوگوں پر ایک پھوڑا بھیجے گا (اس میں کیڑا ہوتا ہے ) ان کی گردنوں میں وہ دوسرے دن صبح کو سب مرے ہوئے ہوں گے جیسے ایک آدمی مرتا ہے اور حضرت عیسیٰ اور آپ کے ساتھی پہاڑ سے اتریں گے اور ایک بالشت برابر جگہ نہ پائیں گے جو ان کی چکنائی بدبو اور خون سے خالی ہو آخر وہ پھر دعا کریں گے اللہ کی جناب میں اللہ تعالی کچھ پرند جانور بھیجے گا جن کی گردنیں بختی اونٹوں کی گردنوں کے برابر ہوں گی (یعنی اونٹوں کے برابر پرند آئیں گے بختی اونٹ ایک قسم کا اونٹ ہے جو بڑا ہوتا ہے وہ ان کی لاشیں اٹھا کر لے جائیں گے اور جہاں اللہ تعالی کو منظور ہے وہاں ڈال دیں گے پھر اللہ تعالی پانی برسائے گا کوئی گھر مٹی کا اس پانی کو نہ روک سکے گا یہ پانی ان سب کو دھو ڈالے گا یہاں تک کہ زمین آئینہ کی طرح صاف ہو جائے گی پھر زمین سے کہا جائے گا اب اپنے پھل اگا اور اپنی برکت پھیر لا اس دن کئی آدمی مل کر ایک انار کھائیں گے اور سیر ہو جائیں اور انار کے چھلکے سے سایہ کریں گے (چھتری کی طرح) اتنے بڑے بڑے انار ہوں گے۔ اللہ تعالی دودھ میں برکت دے گا یہاں تک کہ ایک دودھ والی اونٹنی لوگوں کی کئی جماعتوں پر کافی ہو گی ایک گائے دودھ والی ایک قبیلہ کے لوگوں کو کافی ہو گی اور ایک بکری دودھ والی ایک چھوٹے قبیلے کو کافی ہو جائے گی لوگ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالی ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا وہ ان کی بغلوں کے تلے اثر کرے گی اور ہر ایک مومن کی روح قبض کرے گی اور باقی لوگ گدھوں کی طرح لڑتے جھگڑتے یا جماع کرتے (اعلانیہ) رہ جائیں گے ان لوگوں پر قیامت ہو گی۔
٭٭ ہشام بن عمار، یحییٰ بن حمزہ، ابن جابر، یحییٰ بن جابر طائی، عبد الرحمن بن جبیر بن نفیر، حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قریب ہے کہ مسلمان یاجوج اور ماجوج کی کمانوں اور ڈھالوں کو سات برس تک جلائیں گے۔
٭٭ علی بن محمد، عبد الرحمن محاربی، اسماعیل بن رافع ابی رافع، ابی زرعہ شیبانی، یحییٰ بن ابی عمرو حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو خطبہ سنایا تو بڑا خطبہ آپ کا دجال سے متعلق تھا آپ نے دجال کا حال ہم سے بیان کیا اور ہم کو اس سے ڈرایا تو فرمایا کوئی فتنہ جب سے اللہ تعالی نے آدم کی اولاد کو پیدا کیا زمین دجال کے فتنے سے بڑھ کر نہیں ہوا اور اللہ تعالی نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس نے اپنی امت کو دجال سے نہ ڈرایا ہو۔ اور میں تمام انبیاء کے آخر میں ہوں اور تم آخر میں ہو سب امتوں سے اور دجال تمہی لوگوں میں ضرور پیدا ہو گا پھر اگر وہ نکلے اور میں تم میں موجود ہوں تو میں ہر مسلمان کی طرف سے حجت کروں گا۔ دجال کا فتنہ ایسا بڑا ہو کہ اگر میرے سامنے نکلے تو مجھ کو اس سے بحث کرنا پڑے گی اور کوئی شخص اس کام کے لئے کافی نہ ہو گا اور اگر میرے بعد نکلے تو ہر شخص اپنی ذات کی طرف سے حجت کر لے اور اللہ میرا خلیفہ ہے ہر مسلمان پر دیکھو دجال نکلے گا خلہ سے جو شام اور عراق کے درمیان ہے (خلہ کہتے ہیں راہ کو) پھر فساد پھیلا دے گا بائیں طرف (ملکوں میں ) اے اللہ کے بندو جمے رہنا ایمان پر کیونکہ میں تم سے اس کی ایسی صفت بیان کرتا ہوں جو مجھ سے پہلے کسی نبی نے بیان نہیں کی (پس اس صفت سے تم خوب اس کو پہچان لو گے ) پہلے تو وہ کہے گا میں نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے پھر دوبارہ کہے گا میں تمہارا رب ہوں اور دیکھو تم اپنے رب کو مرنے تک نہیں دیکھ سکتے اور ایک بات اور ہے وہ کانا ہو گا اور تمہارا رب کانا نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان یہ لکھا ہو گا کافر۔ اس کو ہر ایک مومن (بقدر الہی) پڑھ لے گا خواہ لکھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو اور اس کا فتنہ سخت ہو گا کہ اس کے ساتھ جنت اور دوزخ ہو گی لیکن اس کی جنت دوزخ ہے اور اس کی دوزخ جنت ہے پس جو کوئی اس کی دوزخ میں ڈالا جائے گا (اور وہ سچے مومنوں کو دوزخ میں ڈالنے کا حکم دے گا) وہ اللہ سے فریاد کرے اور سورہ کہف کے شروع کی آیتیں پڑھے اور وہ دوزخ اللہ کے حکم سے اس پر ٹھنڈی ہو جائے گی اور سلامتی جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آگ ٹھنڈی ہو گئی اور اس کا فتنہ یہ ہو گا کہ ایک گنوار دیہاتی سے کہے گا دیکھ اگر میں تیرے ماں باپ کو زندہ کروں جب تو مجھ کو اپنا رب کہے گا؟ وہ کہے گا بے شک پھر وہ شیطان دجال کے حکم سے اس کے ماں باپ کی صورت بن کر آئیں گے اور کہیں گے بیٹا اس کی اطاعت کر یہ تیرا رب ہے (معاذ اللہ یہ فتنہ اس کا یہ ہو گا کہ آدمی پر غالب ہو کر اس کو مار ڈالے گا بلکہ آری سے چیر کر اس کے دو ٹکڑے کر دے گا پھر (اپنے معتقدوں سے ) کہے گا دیکھو میں اپنے اس بندے کو اب جلاتا ہوں اب بھی وہ یہ کہے گا کہ میرا رب اور کوئی ہے سوا میرے پھر اللہ تعالی اس کو زندہ کر دے گا۔ اس سے دجال خبیث کہے گا تیرا رب کون ہے؟ وہ کہے گا میرا رب اللہ ہے اور تو اللہ کا دشمن ہے تو دجال ہے قسم خدا کی آج تو مجھے خوب معلوم ہوا کہ تو دجال ہی ہے۔ ابو الحسن علی بن محمد طنافسی نے کہا (جو شیخ ہیں ابن ماجہ کے اس حدیث میں ) ہم سے عبید اللہ بن ولید وصافی نے بیان کیا انہوں نے عطیہ سے روایت کی۔ انہوں نے ابو سعید خدری سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس مرد کا درجہ میری امت میں سب سے بلند ہو گا جنت میں اور ابو سعید نے کہا قسم خدا کی ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ یہ مرد جو دجال سے ایسا مقابلہ کریں گے کوئی نہیں ہے سوائے حضرت عمر کے۔ یہاں تک کہ حضرت گزر گئے۔ محاربی نے کہا اب پھر ہم ابو امامہ کی حدیث کو جس کو ابو رافع نے روایت کیا بیان کرتے ہیں (کیونکہ ابو سعید کی حدیث درمیان میں اس مرد کے ذکر پر آ گئی تھی اخیر دجال کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا) کہ وہ آسمان کو حکم کرے گا پانی برسانے کے لئے تو پانی برسے گا اور زمین کو حکم کرے غلہ اگانے کا وہ غلہ اگائے گی اور اس کا ایک فتنہ یہ ہو گا کہ وہ ایک قبیلے پر سے گزرے گا۔ وہ لوگ اس کو سچا کہیں گے تو وہ آسمان کو حکم کرے گا غلہ اور گھاس اگانے کا تو وہ اگ آئے گی یہاں تک ان کے جانور اسی دن شام کو نہایت موٹے اور بڑے اور کھوکھیں بھری ہوئی اور تھن دودھ سے پھولے ہوئے آئیں گے (ایک دن میں یہ سب باتیں ہو جائیں گی پانی بہت برسنا چارہ بہت پیدا ہونا جانوروں کا اس کو کھا کر تیار ہو جانا ان کے تھن دودھ سے بھر جانا معاذ اللہ کیا بڑا فتنہ ہو گا)۔ غرض دنیا میں کوئی ٹکڑا زمین کا باقی نہ رہے گا جہاں دجال نہ جائے گا اور اس پر غالب نہ ہو گا سواۓ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے ان دونوں شہر میں جس راہ میں آئے گا اس کو فرشتے ملیں گے ننگی تلواریں لئے ہوئے یہاں تک کہ دجال اتر پڑے گا چھوٹی لال پہاڑی کے پاس جہاں کھاری تر زمین ختم ہوئی ہے اور مدینہ میں تین بار زلزلہ آئے گا (یعنی مدینہ اپنے لوگوں کو لے کر تین بار حرکت کرے گا) تو جو منافق مرد یا منافق عورت مدینہ میں ہوں گے وہ دجال کے پاس چلے جائیں گے اور مدینہ پلیدی کو اپنے میں سے دور کر دے گا جیسے بھٹی لوہے کا میل دور کر دیتی ہے اس دن کا نام یوم الخلاص ہو گا (یعنی چھٹکارے کا دن) ام شریک بنت ابو عکر نے عرض کیا یا رسول اللہ ! عرب کے لوگ اس دن کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عرب کے لوگ (مومن مخلصین) اس دن کم ہوں گے اور دجال کے ساتھ بے شمار لوگ ہوں گے ان کو لڑنے کی طاقت نہ ہو گی) اور ان عرب (مومنین میں سے اکثر لوگ (اس وقت) بیت المقدس میں ہوں گے ان کا امام ایک نیک شخص ہو گا یا آپ کے نائب ایک روز ان کا امام آگے بڑھ کر صبح کی نماز پڑھنا چاہے گا اتنے میں حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام صبح کے وقت اتریں گے تو یہ امام ان کو دیکھ کر الٹے پاؤں پیچھے ہٹے گا تاکہ حضرت عیسیٰ اپنا ہاتھ اس کے دونوں مونڈھوں کے درمیان رکھ دیں گے پھر اس سے کہیں گے تو ہی آگے بڑھ اور نماز پڑھا اس لئے کہ یہ نماز تیرے ہی لئے قائم ہوئی تھی (یعنی تکبیر تیری ہی امانت کی نیت سے ہوئی تھی) خیر وہ امام لوگوں کو نماز پڑھائے گا جب نماز سے فارغ ہو گا حضرت عیسیٰ (مسلمانوں سے ) فرمائیں گے (جو قلعہ یا شہر میں محصور ہوں گے اور دجال ان کو گھیرے ہو گا) دروازہ قلعہ کا یا شہر کا کھول دو۔ دروازہ کھول دیا جائے گا وہاں پر دجال ہو گا ستر ہزار یہودیوں کے ساتھ جن میں سے ہر ایک کے پاس تلوار ہو گی اس کے زیور کے ساتھ اور چادر ہو گی جب دجال حضرت عیسیٰ کو دیکھے گا تو ایسا گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا اور بھاگے گا اور حضرت عیسیٰ فرمائیں گے میری ایک مار تجھ کو کھانا ہے تو اس سے بچ نہ سکے آخر باب لد کے پاس جو مشرق کی طرف ہے اس کو پائیں گے اور اس کو قتل کریں گے پھر اللہ تعالی یہودیوں کو شکست دے گا (یہود مردود دجال کے پیدا ہوتے ہی اس کے ساتھ ہو جائیں گے اور کہیں گے یہی سچا مسیح ہے جس کے آنے کا وعدہ اگلے نبیوں نے کیا تھا اور چونکہ یہود مردود حضرت عیسیٰ کے دشمن تھے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس لئے مسلمانوں کی ضد اور عداوت سے بھی اور دجال کے ساتھ ہو جائیں گے دوسری روایت میں ہے کہ اصفہان کے یہود میں سے ستر ہزار یہودی دجال کے پیرو ہو جائیں گے ) خیر یہ حال ہو جائے گا کہ یہودی اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں سے جس چیز کی آڑ میں چھپے گا اس چیز کو اللہ بولنے کی طاقت دے گا پتھر ہو یا درخت یا دیوار یا جانور سو ایک درخت کے جس کو غرقد کہتے ہیں وہ ایک کانٹے دار درخت ہوتا ہے ) وہ یہودیوں کا درخت ہے (یہود اس کو بہت لگاتے ہیں اور اس کی تعظیم کرتے ہیں ) نہیں بولے گا تو یہ چیز (جس کی آڑ میں یہودی چھپے گا) کہے گی اے اللہ کے مسلمان بندے یہ یہودی ہے تو آ اور اس کو مار ڈال اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ دجال ایک چالیس برس تک رہے گا لیکن ایک برس چھ مہینے کے برابر ہو گا اور ایک برس ایک مہینے کے برابر ہو گا اور ایک مہینہ ایک ہفتہ کے برابر اور اخیر دن دجال کے ایسے ہوں گے جیسے چنگاری اڑتی جاتی ہے (ہوا میں ) تم میں سے کوئی صبح کو مدینہ کے ایک دروازے پر ہو گا پھر دوسرے دروازہ پر نہ پہنچے گا کہ شام ہو جائے گی۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم ان چھوٹے دنوں میں نماز کیونکر پڑھیں آپ نے فرمایا اندازہ سے نماز پڑھ لینا جیسے لمبے دنوں میں اندازہ کرتے ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حضرت عیسیٰ میری امت میں ایک عادل حاکم اور منصف امام ہوں گے اور صلیب کو جو نصاریٰ لٹکائے رہتے ہیں ) توڑ ڈالیں گے۔ اور سور کو مار ڈالیں گے اس کا کھانا بند کرا دیں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے (بلکہ کہیں گے کافروں سے یا مسلمان ہو جاؤ یا قتل ہونا قبول کرو اور بعضوں نے کہا جزیہ لینا اس وجہ سے بند کر دیں گے کہ کوئی فقیر نہ ہو گا۔ سب مالدار ہوں گے پھر جزیہ کن لوگوں کے واسطے لیا جائے اور بعضوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ جزیہ مقرر کر دیں گے سب کافروں پر یعنی لڑائی موقوف ہو جائے گی اور کافر جزئیے پر راضی ہو جائیں گے اور صدقہ (زکوٰۃ لینا) موقوف کر دیں گے تو نہ بکریوں پر نہ اونٹوں پر کوئی زکوٰۃ لینے والا مقرر کریں گے اور آپس میں لوگوں کے کینہ اور بغض اٹھ جائے گا اور ہر ایک زہریلے جانور کا زہر جاتا رہے گا۔ یہاں تک کہ بچہ اپنا ہاتھ سانپ کے منہ میں دے دے گا وہ کچھ نقصان نہ پہنچائے گا اور ایک چھوٹی بچی شیر کو بھگا دے گی وہ اس کو ضرر نہ پہنچائے گا اور بھیڑ یا بکریوں میں اس طرح رہے گا جیسے کتا، جو ان میں رہتا ہے اور زمین صلح سے بھر جائے گی جیسے برتن پانی سے بھر جاتا ہے اور سب لوگوں کا کلمہ ایک ہو جائے گا سواۓ خدا کے کسی کی پرستش نہ ہو گی (تو سب کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھیں گے ) اور لڑائی اپنے سب سامان ڈال دے گی۔ یعنی ہتھیار اور آلات اتار کر رکھ دیں گے مطلب یہ ہے کہ لڑائی دنیا سے اٹھ جائے گی اور قریش کی سلطنت جاتی رہے گی اور زمین کا یہ حال ہو گا کہ جیسے چاندی کی سینی (طشت) وہ اپنا میوہ ایسے اُگائے گی جیسے آدم کے عہد میں اگاتی تھی۔ (یعنی شروع زمانہ میں جب زمین میں بہت قوت تھی) یہاں تک کہ کئی آدمی انگور کے ایک خوشے پر جمع ہوں گے اور سب سیر ہو جائیں گے (اتنے بڑے انگور ہوں گے ) اور کئی کئی آدمی انگور کے ایک خوشے پر جمع ہوں گے اور سب سیر ہو جائیں گے اور بیل اس قدر داموں سے بکے گا (کیونکہ لوگوں کی زراعت کی طرف توجہ ہو گی تو بیل مہنگا ہو گا) اور گھوڑا تو چند روپوں میں بکے گا لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھوڑا کیوں سستا ہو گا۔ آپ نے فرمایا اس لئے کہ لڑائی کے لئے کوئی گھوڑے پر سوار نہ ہو گا پھر لوگوں نے عرض کیا بیل کیوں مہنگا ہو گا۔ آپ نے فرمایا ساری زمین میں کھیتی ہو گی اور دجال کے نکلنے سے تین برس پہلے قحط ہو گا ان تینوں سالوں میں لوگ بھوک سے سخت تکلیف اٹھائیں گے پہلے سال میں اللہ تعالی یہ حکم کرے گا آسمان کو کہ دو تہائی بارش روک لے اور زمین کو یہ حکم کرے گا کہ تہائی پیداوار روک لے پھر تیسرے سال میں اللہ تعالی آسمان کو یہ حکم کرے گا کہ بالکل پانی نہ برسائے ایک قطرہ بارش نہ ہو گا اور زمین کو یہ حکم ہو گا کہ ایک دانہ نہ اگائے تو گھاس تک نہ اگے گی نہ کوئی سبزی آخر گھر والا جانور (جیسے گائے بکری) تو کوئی باقی نہ رہے گا سب مر جائیں گے مگر جو اللہ چاہے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر لوگ کیسے جئیں گے اس زمانہ میں آپ نے فرمایا جو لوگ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ اور اللَّہُ أَکْبَرُ اور سُبْحَانَ اللَّہِ اور الْحَمْدُ لِلَّہِ کہیں گے ان کو کھانے کی حاجت نہ رہے گی (یہ تسبیح اور تہلیل کھانے کے قائم مقام ہو گی) حافظ ابو عبد اللہ ابن ماجہ نے کہا میں نے (اپنے شیخ) ابو الحسن طنافسی سے سنا وہ کہتے تھے میں نے عبد الرحمن محاربی سے سنا وہ کہتے تھے یہ حدیث تو اس لائق ہے کہ مکتب کے استاد کو دے دی جائے وہ بچوں کو مکتب میں سکھلائے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ بن مریم اتریں گے اور وہ عادل حاکم منصف امام ہوں گے اور صلیب کو توڑ ڈالیں گے اور سور کو قتل کریں گے اور جزیہ کو معاف کر دیں گے اور مال کو بہا دیں گے لوگوں پر (بے شمار دیں گے یہاں تک کہ کوئی اس کو قبول نہ کرے گا)۔
٭٭ ابو کریب، یونس بن بکیر، محمد بن اسحاق ، عاصم بن عمر بن قتادہ، محمود بن لبید، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یاجوج اور ماجوج کھول دئیے جائیں گے پھر وہ نکلیں گے جیسے اللہ تعالی نے فرمایا (وھم من کل حدب ینسلون) وہ ساری زمین میں پھیل جائیں گے اور اپنے چرانے کے جانور بھی ساتھ لے جائیں گے یاجوج ماجوج کا یہ حال ہو گا کہ ان کے لوگ ایک نہر پر سے گزریں گے اور اس کا سارا پانی پی ڈالیں گے یہاں تک کہ ایک قطرہ پانی کا نہ رہے گا اور ان میں سے کوئی یہ کہے گا یہاں تک کہ ان میں سے ایک کہے گا اب زمین والوں سے تو ہم فارغ ہوئے (کوئی ہمارا مقابل نہ رہا) اب آسمان والوں سے لڑیں گے آخر ان میں سے ایک اپنا حربہ آسمان کی طرف پھینکے گا وہ خون میں رنگا ہوا لوٹ کر گرے گا وہ کہیں گے ہم نے آسمان والوں کو بھی مار ڈالا خیر یہ لوگ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ چند جانور بھیجے گا ٹڈی کے کیڑوں کی طرح۔ یہ کیڑے ان کی گردنوں کو کاٹیں گے یا گردن میں گھس جائیں گے وہ سب ٹڈیوں کی طرح یکبارگی مر جائیں گے۔ ایک پر ایک پڑا ہو گا اور مسلمان صبح کو اٹھیں گے (اپنے شہروں اور قلعوں میں ) تو ان کی آواز نہیں سنیں گے وہ کہیں گے ہم میں سے کون ہے جو اپنی جان پر کھیلے یعنی اپنی جان کی پرواہ نہ کرے ) اور جا کر دیکھے یاجوج ماجوج کیا کرتے ہیں آخر مسلمانوں میں سے ایک شخص نکلے گا یا اترے گا (قلعہ سے ) یہ سمجھ کر کہ وہ مجھ کو ضرور مار ڈالیں گے دیکھے گا تو وہ مردہ ہیں وہ دوسرے مسلمانوں کو پکارے گا اے بھائیو خوش ہو جاؤ تمہارے دشمن مر گئے یہ سن کر سب مسلمان نکلیں گے اور اپنے جانوروں کو چرنے کے لیے چھوڑیں گے (جو مدت سے بیچارے بند ہوں گے ) ان کے چرنے کو کچھ بھی نہ ہو گا سوائے یاجوج اور ماجوج کے گوشت کے کہ وہ ان کا گوشت کھا کر خوب موٹے ہوں گے جیسے کبھی کوئی گھاس کھا کر موٹے ہوتے تھے۔
٭٭ ازہر بن مروان، عبد الاعلی، سعید، قتادہ، ابو رافع، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بے شک یاجوج اور ماجوج ہر روز کھودتے ہیں جب قریب ہوتا ہے کہ سورج کی روشنی ان کو دکھائی دے تو جو شخص ان کا سردار ہوتا ہے وہ کہتا ہے اب گھر چلو کل آن کر کھود لیں گے پھر اللہ رات کو ویسا ہی مضبوط کر دیتا ہے جیسے وہ تھے جب ان کے نکلنے کا وقت آئے گا اور اللہ یہ چاہے گا کہ ان کو چھوڑ دے۔ لوگوں پر تو وہ (عادت کے موافق) سد کو کھودیں گے جب قریب ہو گا کہ سورج کی روشنی دیکھیں اس وقت ان کا سردار کہے گا اب لوٹ چلو کل خدا چاہے تو اس کو کھود ڈالو گے اور ان شاء اللہ کا لفظ کہیں گے اس دن وہ لوٹ کر جائیں گے اور اسی حال پر رہے گی جیسے وہ چھوڑ جائیں گے آخر وہ اس کو کھود کر نکل آئیں گے اور پانی سب پی جائیں گے اور لوگ ان سے بھاگ کر اپنے قلعوں میں چلے جائیں گے وہ اپنے تیر آسمان کی طرف ماریں گے تیر خون میں لپیٹے ہوئے اوپر سے لوٹیں گے۔ وہ کہیں گے ہم نے زمین والوں کو تو مغلوب کیا اور آسمان والوں پر بھی غالب ہوئے پھر اللہ تعالی ان کی گدیوں میں ایک کیڑا پیدا کرے گا وہ ان کو مار ڈالے گا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بے شک زمین کے جانور موٹے ہو جائیں گے اور چربی دار ان کے گوشت کھا کر۔
٭٭ محمد بن بشار، یزید بن ہارون، عوام بن حوشب، جبلہ بن سحیم، مؤثر بن عفازہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جس شب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو معراج ہوئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ملاقات کی حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام سے ان سب نے قیامت کا ذکر کیا تو حضرت ابراہیم سے سب نے پوچھا (یہ جان کر کہ وہ سب میں بزرگ ہیں ان کو ضرور علم ہو گا) لیکن ان کو کچھ علم نہ تھا قیامت کا پھر سب نے حضرت موسیٰ سے پوچھا ان کو بھی علم نہ تھا۔ آخر حضرت عیسیٰ سے پوچھا انہوں نے کہا مجھ سے وعدہ ہوا ہے قیامت سے کچھ پہلے کا (یعنی قیامت کے قریب دنیا میں جانے کا) لیکن قیامت کا ٹھیک وقت وہ تو کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ تعالی کے پھر بیان کیا انہوں نے دجال کے نکلنے کا حال اور کہا میں اتروں گا اور اس کو قتل کروں گا پھر لوگ اپنے اپنے ملکوں کو لوٹ جائیں گے اتنے میں یاجوج اور ماجوج ان کے سامنے آئیں گے اور ہر بلندی سے وہ چڑھ دوڑیں گے جس پانی پر وہ گزریں گے اس کو پی ڈالیں گے اور ہر ایک چیز کو خراب کر دیں گے آخر لوگ اللہ تعالی سے گڑگڑائیں گے عاجزی سے (انکو دفع کرنے کیلئے میں دعا مانگوں گا کہ اللہ تعالی ان کو مار ڈالے (وہ مر جائیں گے ) اور زمین بدبو دار ہو جائے گی ان کے پاس پھر لوگ گڑگڑائیں گے اللہ کی درگاہ میں میں اللہ سے دعا کروں گا تو وہ پانی بھیجے گا جو ان کی لاشیں اٹھا کر سمندر میں بہا لے جائے گا پھر پہاڑ اکھاڑ ڈالے جائیں گے اور زمین کھینچی جائے گی اور صاف ہموار ہو گی (اس میں پہاڑ اور ٹیلے اور سمندر گڑھے وغیرہ نہیں رہیں گے ) پھر مجھ سے کہا گیا جب یہ باتیں ظاہر ہوں تو قیامت لوگوں سے ایسی قریب ہو گی جیسے عورت حاملہ کا جننا اس کے گھر والے نہیں جانتے کس وقت ناگہاں وہ جنتی ہے۔ عوام بن حوشب نے کہا اس واقعہ کی تصدیق اللہ کی کتاب میں موجود ہے حَتَّی إِذَا فُتِحَتْ یَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَہُمْ مِنْ کُلِّ حَدَبٍ یَنْسِلُونَ) یعنی جب کھل جائیں گے یاجوج اور ماجوج اور وہ ہر بلندی سے چڑھ دوڑیں گے۔
حضرت مہدی کی تشریف آوری
عثمان بن ابی شیبہ، معاویہ بن ہشام، علی بن صالح، یزید بن ابی زیاد ابراہیم، علقمہ، عبد اللہ بن ابی زیاد، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ بنو ہاشم کے چند نوجوان آئے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو دیکھا تو آپ کی آنکھیں بھر آئیں اور رنگ متغیر ہو گیا۔ میں نے عرض کیا ہم مسلسل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرہ انور میں ایسی کیفیت دیکھ رہے ہیں جو ہمیں پسند نہیں (یعنی ہمارا دل دکھتا ہے ) فرمایا ہم اس گھرانے کے افراد ہیں جس کے لئے اللہ تعالی نے دنیا کی بجائے آخرت کو پسند فرما لیا ہے اور میرے اہل بیت میرے بعد عنقریب ہی آزمائش اور سختی و جلاوطنی کا سامنا کریں گے۔ یہاں تک کہ مشرق کی جانب سے ایک قوم آئے گی جس کے پاس سیاہ جھنڈے ہوں گے وہ بھلائی (مال) مانگیں گے انہیں مال نہ دیا جائے گا تو وہ قتال کریں گے انہیں مد د ملے گی اور جو (خزانہ) وہ مانگ رہے تھے حاصل ہو جائے گا لیکن وہ اسے قبول نہیں کریں گے بلکہ میرے اہل بیت میں سے ایک مرد کے حوالہ کر دیں گے وہ (زمین کو) عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسا کہ اس سے قبل لوگوں نے زمین کو جور و ستم سے بھر رکھا تھا سو تم میں سے جو شخص ان کے زمانہ میں ہو تو ان کے ساتھ ضرور شامل ہو اگر برف پر گھٹنوں کے بل گھسٹ کر جانا پڑے۔
٭٭ نصر بن علی جہضمی، محمد بن مروان عقیلی، عمارہ بن ابی حفصہ، زید عمی، ابی صدیق ناجی، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری امت میں ایک مہدی (ہدایت یافتہ پیدا) ہوں گے اگر وہ دنیا میں کم رہے تو بھی سات برس تک رہیں گے ورنہ نو برس تک رہیں گے۔ اس دور میں میری ایسی خوشحال ہو گی کہ اس جیسی خوشحال پہلے کبھی نہ ہوئی ہو گی زمین اس وقت خوب پھل دے گی اور ان سے بچا کر کچھ نہ رکھے گی اور اس وقت مال کے ڈھیر لگے ہوئے ہوں گے ایک مرد کھڑا ہو کر عرض کرے گا اے مہدی مجھے کچھ دیجئے؟ وہ کہیں گے (جتنا جی چاہے ) لے لو۔
٭٭ محمد بن یحییٰ ، احمد بن یوسف، عبد الرزاق، سفیان ثوری، خالد حذاء، ابی قلابہ، ابی اسماء ، حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے ایک خزانہ کی خاطر تین شخص قتال کریں گے (اور مارے جائیں گے ) تینوں حکمران کے بیٹے ہوں گے لیکن وہ خزانہ ان میں سے کسی کو بھی نہ ملے گا پھر مشرق کی جانب سے سیاہ جھنڈے نمودار ہوں گے وہ تمہیں ایسا قتل کریں گے کہ اس سے قبل کسی نے ایسا قتل نہ کیا ہو گا اس کے بعد آپ نے کچھ باتیں ذکر فرمائیں جو مجھے یاد نہیں پھر فرمایا جب تم ان (مہدی) کو دیکھو تو ان سے بیعت کرو اگرچہ تمہیں گھٹنوں کے بل گھسٹ کر جانا پڑے (کیونکہ وہ اللہ کے خلیفہ ہوں گے )۔
٭٭ عثمان بن ابی شیبہ، ابو داؤد حفری، یاسین، ابراہیم بن محمد بن حنفیہ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مہدی ہم اہل بیت میں سے ہوں گے اللہ تعالی ان کو ایک ہی شب میں (خلافت کی) صلاحیت والا بنا دیں گے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، احمد بن عبد الملک، ابو ملیح رقی، زیاد بن بیان، علی بن نفیل، حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھے ہمارے درمیان حضرت مہدی کا ذکر آیا تو فرمانے لگیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ مہدی سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں ہوں گے۔
٭٭ ہدیہ بن عبد الوہاب، سعد بن عبد الحمید بن جعفر، علی بن زیاد یمامی، عکرمہ بن عمار، اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا ہم عبد المطلب کی اولاد جنت کے سردار ہیں میں اور حمزہ علی جعفر حسن حسین رضی اللہ عنہم اور مہدی۔
٭٭ حرملہ بن یحییٰ مصری، ابراہیم بن سعید جوہری، ابو صالح عبد الغفار بن داؤدحرانی، ابن لہیعہ، ابو زرعہ عمرو بن جابر حضرمی، حضرت عبد اللہ بن حارث بن جزء زبیدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مشرق سے کچھ لوگ آئیں گے جو مہدی کی حکومت کو مستحکم بنائیں گے۔
بڑی بڑی لڑائیاں
ابو بکر بن ابی شیبہ، عیسیٰ بن یونس، اوزاعی، حسان بن عطیہ، مکحول بن ابی زکریا، حضرت خالد بن معدان فرماتے ہیں کہ مجھے جبیر بن نفیر نے کہا کہ ہمیں ذی مخمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لے چلو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابی ہیں۔ میں ان کے ہمراہ گیا حضرت جبیر نے ان سے صلح کی بابت دریافت کیا تو فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ عنقریب رومی (عیسائی) تم سے پر امن صلح کریں گے پھر تم اور وہ مل کر ایک تیسرے دشمن سے جنگ کرو گے تمہیں فتح حاصل ہو گی اور مال غنیمت ملے گا اور سلامتی کے ساتھ تم جنگ سے واپس لوٹو گے۔ یہاں تک کہ ایک سرسبز اور تر و تازہ مقام پر جہاں ٹیلے ہوں گے پڑاؤ ڈالو گے کہ ایک صلیبی صلیب کو بلند کر کے کہے گا صلیب کو غلبہ حاصل ہوا۔ اس ایک مسلمان کو غصہ آئے گا وہ اٹھ کر صلیب کو توڑ ڈالے گا اس وقت رومی عہد شکنی کریں گے اور سب جنگ کیلئے اکٹھے ہو جائیں گے۔ دوسری سند سے اس میں اضافہ ہے کہ جب رومی جنگ کیلئے اکٹھے ہوں گے تو اسی جھنڈوں تلے ان کا لشکر ہو گا ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار افراد ہوں گے۔
٭٭ ہشام بن عمار، ولید بن مسلم، عثمان بن ابی عاتکہ، سلیمان بن حبیب محاربی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب بڑی بڑی لڑائیاں ہوں گی تو اللہ تعالی عجمیوں میں سے ایک لشکر اٹھائیں گے جو عرب سے بڑھ کر شہسوار اور ان سے بہتر ہتھیار والے ہوں گے اللہ تعالی ان کے ذریعہ دین کی مد د فرمائیں گے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، حسین بن علی بن زائدہ، عبد الملک بن عمیر، جابر بن سمرہ، نافع حضرت نافع بن عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عنقریب تم جزیرۃ العرب (کے رہنے والوں ) سے قتال کرو گے تو اللہ تعالی اسے فتح فرما دیں گے اس کے بعدتم روم (کے نصاری) سے قتال کرو گے اللہ تعالی اسے بھی فتح فرما دیں گے۔ اس کے بعد تم دجال سے قتال کرو گے۔ اللہ تعالی اس جنگ میں (بھی تمہیں ) فتح عطا فرمائے گا۔ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (اس سے معلوم ہوا کہ) دجال روم کی فتح سے قبل نہ نکلے گا۔
٭٭ ہشام بن عمار، ولید بن مسلم، اسماعیل بن عیاش، ابو بکر بن ابی مریم، ولید بن سفیان بن ابی مریم، یزید بن قطیب سکونی، ابی بحریہ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بہت بڑی لڑائی اور قسطنطنیہ اور خروج دجال یہ سب سات ماہ میں ہو جائیں گے۔
٭٭ سوید بن سعید، بقیہ، بحیر بن سعد، خالد بن ابی بلال، حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جنگ عظیم اور فتح مدینہ (قسطنطنیہ) کے درمیاں چھ سال کا عرصہ ہو گا اور ساتویں سال دجال نکلے گا۔
٭٭ علی بن میمون رقی، ابو یعقوب حنینی، کثیر بن عبد اللہ بن حضرت عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ مسلمانوں کا نزدیک ترین مورچہ بولاء (نامی مقام) میں ہو اس کے بعد فرمایا اے علی اے علی اے علی (حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ) عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ فرمایا عنقریب تم بنو اصغر (رومیوں ) سے قتال کرو گے اور تمہارے بعد والے بھی انہیں سے قتال کریں گے۔ یہاں تک کہ اہل حجاز بھی ان سے جنگ کیلئے نکلیں گے جو اسلام کی رونق ہیں اور اللہ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے یہ سب قسطنطنیہ کو فتح کریں گے۔ تسبیح و تکبیر کہتے ہوئے اور انہیں مال غنیمت اتنا ملے گا کہ اس سے قبل کبھی بھی اتنا نہ ملا ہو گا یہاں تک کہ ڈھالیں بھر بھر کر (مال غنیمت) تقسیم کریں گے اتنے میں ایک آنے والا آ کر خبر دے گا کہ تمہارے شہروں میں دجال نکل آیا یاد رکھو یہ خبر جھوٹی ہو گی سو مال غنیمت والا بھی شرمندہ ہو گا اور نہ لینے والا بھی نادم ہو گا۔
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، ولید بن مسلم، عبد اللہ بن علاء، بسر بن عبید اللہ ابو ادریس خولانی، حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہارے اور بنواصغر (رومیوں نصرانیوں ) کے درمیان صلح ہو گی پھر وہ صلح کی خلاف ورزی کریں گے اور تمہارے ساتھ لڑائی کے لئے نکلیں گے اسی جھنڈوں کے نیچے ہر جھنڈے تلے بارہ ہزار فوج ہو گی۔ (یعنی کل نو لاکھ ساٹھ ہزار فوج ہو گی)۔
پاکی کا بیان
استنجا کے بعد ہاتھ زمین پر مل کر دھونا
ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، شریک ، ابراہیم بن جریر، ابو زرعہ بن عمرو بن جریر، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قضائے حاجت کی۔ پھر لوٹے سے استنجا کیا۔ پھر زمین پر اپنا ہاتھ ملا۔ (بغرض صفائی)
٭٭ محمد بن یحییٰ، ابو نعیم، ابان بن عبد اللہ، ابراہیم بن جریر، حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک جھاڑی میں گئے اور قضائے حاجت کر کے آئے تو جریر پانی کی چھاگل لے گئے آپ نے استنجاء کیا اور مٹی سے ہاتھ ملا۔
برتن ڈھانکنا
محمد بن یحییٰ، علی بن عبید، عبد الملک بن ابی سلیمان، ابو زبیر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مشکیزے باندھنے اور برتن ڈھانپنے کا حکم دیا۔ (یہ حکم دن رات ہر وقت ہے لیکن رات کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے )
٭٭ عصمہ بن فضل و یحییٰ بن حکیم، حرمی بن عمارۃ بن ابی حفصہ، حریش بن خریت، ابن ابی ملیکہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں میں رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے تین برتن ڈھانپ کر رکھ دیا کرتی تھی۔ ایک برتن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وضو کے لیے ، ایک برتن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مسواک کے لیے اور ایک (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ) پینے کے لیے۔
٭٭ ابو بدر عباد بن ولید، مطہر بن ہیثم، علقمہ بن ابی جمرۃ ضبعی، ابو جمرۃ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی طہارت میں کسی سے مد د نہ لیتے تھے اور نہ صدقہ میں جو بطور خیرات دیتے تھے بلکہ یہ کام بذات خود کیا کرتے تھے۔
کتا منہ ڈال دے تو برتن دھونا
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، ابو رزین، حضرت ابو رزین کہتے ہیں میں نے حضرت ابو ہریرہ کو دیکھا کہ سر پر ہاتھ مار کر فرمانے لگے اے عراق والو! تم سمجھتے ہو کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جھوٹ باندھ رہا ہوں تاکہ تمہارے لئے آسانی رہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں منہ ڈال دے تو وہ اس کو سات مرتبہ دھو لے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، روح بن عبادۃ، مالک بن انس، ابو زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کتا تمہارے کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اس کو سات بار دھولے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، شبابہ، شعبہ، ابو تیاح، مطرف، حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کتابرتن میں منہ ڈال دے تو اس کو سات مرتبہ دھو لو اور آٹھویں مرتبہ مٹی سے مانجھو۔
٭٭ محمد بن یحییٰ ، ابن ابی مریم، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں منہ ڈال دے تو اس کو چاہیے کہ سات بار برتن دھو لے۔
بلی کے جھوٹے سے وضو کرنے کی اجازت
ابو بکر بن ابی شیبہ، زید بن حباب، مالک بن انس، اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ انصاری، حمیدۃ بنت عبید بن رفاعہ، حضرت کبشہ بنت کعب جو حضرت ابو قتادہ کی بہو تھیں سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابو قتادہ کے لئے وضو کا پانی برتن میں ڈالا۔ بلی آ کر پینے لگی تو حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے برتن جھکا دیا میں ان کی طرف (تعجب سے ) دیکھنے لگی۔ فرمایا میری بھتیجی تمہیں تعجب ہو رہا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ ناپاک نہیں یہ تو تمہارے گھروں میں گھومنے پھرنے والی ہے۔
٭٭ عمرو بن رافع و اسماعیل بن توبہ، یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ، حارثہ، عمرۃ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک ہی برتن میں سے وضو کر لیا کرتے تھے جس میں سے بلی پانی پی چکی ہوتی تھی۔
٭٭ محمد بن بشار، عبید اللہ بن عبد المجید ابو بکر حنفی، عبد الرحمن بن ابی زناد، ابو زناد، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بلی نماز کو نہیں توڑتی کیونکہ وہ گھر کی چیزوں میں سے ہی ہے۔
عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی کے جواز میں
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو احوص، سماک بن حرب، عکرمہ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک زوجہ مطہرہ نے بڑے برتن میں سے (پانی لے کر) غسل کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غسل یا وضو کے لئے تشریف لائے تو انہوں نے عرض کیا کہ میں حالت جنابت میں تھی۔ فرمایا پانی کو جنابت نہیں لگتی (یعنی وہ ناپاک نہیں ہوتا)
٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، سماک، عکرمۃ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک زوجہ مطہرہ نے غسل جنابت کیا پھر نبی نے ان کے بچے ہوئے پانی سے وضو غسل کیا۔
٭٭ محمد بن مثنی و محمد بن یحییٰ و اسحاق بن منصور، ابو داؤد، شریک، سماک، عکرمہ، ابن عباس، حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجہ مطہرہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے غسل جنابت سے بچے ہوئے پانی سے وضو کیا۔
اس کی ممانعت
محمد بن بشار، ابو داؤد، شعبہ، عاصم ، احول، ابو حاجب، حضرت حکم بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے منع فرمایا کہ مرد وضو میں عورت کے وضو سے بچا ہوا پانی استعمال کرے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، معلی بن اسد، عبد العزیز بن مختار، عاصم احول، حضرت عبد اللہ بن سرجس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا کہ مرد، عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے وضو کرے یا عورت مرد کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے وضو کرے بلکہ دونوں ایک ساتھ شروع کریں۔ امام ابن ماجہ فرماتے ہیں۔ پہلی بات ہی صحیح ہے اور دوسری بات میں وہم ہو گیا ہے۔ دوسری سند سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، عبید اللہ، اسرائیل، ابو اسحاق ، حارث، حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اہل خانہ ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے اور کوئی ایک دوسرے کے بچے ہوئے پانی سے غسل نہ کرتا تھا۔
مردو عورت کا ایک ہی برتن سے غسل
محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابن شہاب ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، عروۃ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک ہی برتن سے غسل کیا کرتے تھے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، جابر بن زید، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنی خالہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک ہی برتن میں غسل کر لیتے تھے۔
٭٭ ابو عامر الاشعری، عبد اللہ بن عامر، یحییٰ بن ابی بکیر، ابراہیم بن نافع، ابن ابی نجیح، مجاہد، حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے ایک ہی برتن سے غسل کیا۔ جس میں گوندھے ہوئے آٹے کے اثرات تھے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن حسن اسدی، شریک، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات ایک ہی برتن سے غسل کر لیا کرتی تھیں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، ہشام دستوائی، یحییٰ بن ابی کثیر، ابو سہمہ، زینب بنت ام سلمہ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں وہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک برتن سے غسل کر لیا کرتے تھے۔
روزوں کا بیان
دوران اعتکاف بیمار کی عیادت اور جنازے میں شر کت
احمد بن منصور ابو بکر، یونس بن محمد، ہیاج خراسانی، عنبسہ بن عبد الرحمن، عبد الخالق، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا معتکف جنازہ میں جا سکتا ہے اور بیمار کی عیادت کر سکتا ہے۔
معتکف سر دھو سکتا ہے اور کنگھی کر سکتا ہے
علی بن محمد، وکیع، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حالت اعتکاف میں اپنا سر میرے قریب کرتے میں سر دھو کر کنگھی کرتی حالانکہ میں اپنے حجرہ میں ہوتی تھی حالت حیض میں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں ہوتے۔
معتکف کے گھر والے مسجد میں اس سے ملاقات کر سکتے ہیں
ابراہیم بن منذر حزامی، عمر بن عثمان بن عمر بن موسیٰ بن عبید اللہ بن معمر، عثمان بن عمر بن موسیٰ بن عبید اللہ بن معمر، ابن شہاب، علی بن حسین، ام المومنین حضرت صفیہ بنت حیی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملنے آئیں۔ آپ رمضان کے آخری عشرہ میں مسجد میں اعتکاف کئے ہوئے تھے۔ انہوں نے رات کو کچھ دیر آپ سے بات چیت کی پھر اٹھ کر واپس جانے لگیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی انہیں چھوڑنے کے لئے اس دروازہ تک تشریف لائے جو ان کے مکان کو لگتا تھا آپ دونوں کے پاس سے دو انصاری مرد گزرے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سلام کیا اور آگے بڑھ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا ٹھہرو! یہ صفیہ بنت حیی ہیں۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول سُبْحَانَ اللَّہِ (یعنی کیا ہم آپ پر شبہ کر سکتے ہیں ) آپ کا یہ فرمانا ان پر گراں گزرا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شیطان انسان میں خون کی طرف پھرتا ہے اور مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں تمہارے دل میں وسوسہ نہ ڈالے۔
مستحاضہ اعتکاف کر سکتی ہے
حسن بن محمد بن صباح، عفان، یزید بن زریع، خالد حذاء، عکرمہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک زوجہ مکرمہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ معتکف ہوئیں انہیں کبھی گدلا پانی اور کبھی سرخی دکھائی دیتی بسا اوقات انہوں نے اپنے نیچے طشت بھی رکھا۔
اعتکاف کا ثواب
عبید اللہ بن عبد الکریم، محمد بن امیہ، عیسیٰ بن موسیٰ بخاری، عبیدۃ عمی، فرقد سبخی، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معتکف کے بارے میں فرمایا وہ گناہوں سے رکا رہتا ہے اور اس کی نیکیاں (ثواب جس طرح تمام نیکیاں کرنے والا۔
عیدین کی راتوں میں قیام
ابو احمد المرار بن حمویہ، محمد بن مصفی، بقیہ بن ولید، ثور بن یزید، خالد بن معدان، حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو دونوں عیدوں کی راتوں میں اللہ سے ثواب کی امید پر قیام کرے۔ اس کا دل اس دن مردہ نہیں ہو گا جس دن (لوگوں کے ) دل مردہ ہو جائیں گے۔
زکوٰۃ کا بیان
زکوٰۃ کی فرضیت
علی بن محمد، وکیع بن جراح، زکریا بن اسحاق مکی، یحییٰ بن عبد اللہ بن صیفی، ابو معبد مولی ابن عباس، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت معاد کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا تم ایک اہل کتاب قوم کے پاس جا رہے ہو انہیں دعوت دینا کہ وہ اللہ کے ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی گواہی دیں ، اگر وہ یہ مان لیں تو ان کو بتادینا کہ اللہ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں۔ اگر وہ یہ مان لیں تو ان کو بتانا کہ اللہ نے ان پر ان کے مالوں میں زکوٰۃ فرض فرمائی ہے۔ جو ان کے مالداروں سے لے کر ان کے ناداروں میں تقسیم کی جائے گی۔ اگر وہ یہ مان لیں تو ان کے نفیس مالوں سے بچنا (بلکہ زکوٰۃ میں درمیانی درجہ کا مال لینا) اور مظلوم کی بد دعا سے ڈرنا اس لئے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی آڑ نہیں۔
زکوٰۃ نہ دینے کی سزا
محمد بن ابی عمر عدنی، سفیان بن عیینہ، عبد الملک بن اعین و جامع بن ابی راشد، شقیق بن سلمہ ، حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو کوئی بھی اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہ کرے روز قیامت اس کا مال گنجے سانپ کی صورت میں اس کی گردن میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے ثبوت میں قرآن کی یہ آیت پڑھ (وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہ) 3۔ ال عمران:180) اللہ نے اپنے فضل سے لوگوں کو جو مال دیا اس میں بخل کرنے والے اس کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے جس مال میں انہوں نے بخل کیا قیامت کے روز اس کا طوق پہنائے جائیں گے۔
٭٭ علی بن محمد، اعمش ، معرور بن سوید، حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو بھی اونٹ ، بکری اور گائے والا ان کی زکوٰۃ ادا نہ کرے قیامت کے روز یہ پہلے سے بڑے اور موٹے ہو کر آئیں گے اپنے سینگوں سے اسے ماریں گے اور کھروں سے روندیں گے جب آخری جانور گزرے گا تو پہلا پھر آ جائے کا (یہ سلسلہ جاری رہے گا) حتیٰ کہ عام لوگوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے۔
٭٭ ابو مروان محمد بن عثمان عثمانی ، عبد العزیز بن ابی حازم، علاء بن عبد الرحمن، عبد الرحمن، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس اونٹ کی زکوٰۃ ادا نہ کی گئی ہو گی وہ آئے گا اور اپنے مالک کو اپنے کھروں سے روندے گا اور گائیں ، بکر یاں آ کر اپنے مالک کو اپنے کھروں سے روندیں گی اور سینگوں سے ماریں گی اور خزانہ گنجا سانپ بن کر آئے گا اور قیامت کے روز اپنے مالک کو ملے گا تو مالک دو بارا اس سے بھاگ نکلے گا پھر وہ سامنے آئے گا تو مالک بھاگے گا پھر مالک اس سے کہے گا تجھے مجھ سے کیا دشمنی ہے؟ وہ کہے گا میں تیرا خزانہ ہوں۔ خزانہ کا مالک ہاتھ سے بچنا چاہے گا وہ اس کا ہاتھ ہی نگل جائے گا۔
زکوٰۃ ادا شدہ مال خزانہ نہیں
عمرو بن سواد مصری، عبد اللہ بن وہب، ابن لہیعہ، عقیل، ابن شہاب، حضرت عمر بن خطاب کے آزاد کردہ غلام خالد بن اسلم کہتے ہیں کہ میں عبد اللہ بن عمر کے ساتھ باہر نکلا تو ایک دیہاتی ان سے ملا اور ان سے کہا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ) 9۔ التوبہ:34) اور جو لوگ سونا چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری دیجئے ، کی تفسیر کیا ہے فرمایا جو مال جمع کر کے رکھے اور زکوٰۃ ادا نہ کرے اس کیلئے تباہی ہے یہ آیت زکوٰۃ کا حکم نازل ہونے سے پہلے کی ہے جب زکوٰۃ مشروع ہوئی تو اللہ نے اسے مال کی پاکی کا ذریعہ بنا دیا پھر متوجہ ہو کر فرمایا اگر میرے پاس احد کے برابر سونا ہو مجھے اس کی مقدار معلوم ہو اور میں زکوٰۃ ادا کر کے اللہ کی مرضی کے مطابق اسے خرچ کروں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، احمد بن عبد الملک، موسیٰ بن اعین، عمرو بن حارث، دراج ابو السمح، ابن حجیرہ، حضرت ابو ہریرہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی تو اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔
٭٭ علی بن محمد، یحییٰ بن آدم، شریک، ابو حمزۃ، شعبی، حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا مال میں زکوٰۃ کے علاوہ کوئی حق (فرض) نہیں ہے۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، ابو اسحاق ، حارث، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے تمہیں گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ معاف کر دی لیکن ہر چالیس درم میں سے ایک درم (زکوٰۃ) ادا کرو۔
٭٭ بکر بن خلف و محمد بن یحییٰ، عبید اللہ بن موسی، ابراہیم بن اسماعیل، عبد اللہ بن واقد، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر بیس اور اس زائد دینار میں سے نصف دینار اور چالیس دینار میں سے ایک دینار زکوٰۃ وصول فرماتے تھے۔
جس کو مال حاصل ہو
نصر بن علی جہضمی، شجاع بن ولید، حارثہ بن محمد، عمرۃ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا کسی مال میں زکوٰۃ لازم نہیں۔ یہاں تک کہ اس پر سال گزر جائے۔
جن اموال پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، ولید بن کثیر، محمد بن عبد الرحمن بن ابی صعصعہ، یحییٰ بن عمارۃ و عباد بن تمیم، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا پانچ وسق سے کم کھجور میں زکوٰۃ اور نہ ہی پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں اور نہ ہی پانچ اونٹوں سے کم میں۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، محمد بن مسلم، عمرو بن دینار، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں اور نہ ہی پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں اور نہ ہی پانچ وسق سے کم (غلہ) میں۔
قبل از وقت زکوٰۃ کی ادائے گی
محمد بن یحییٰ، سعید بن منصور، اسماعیل بن زکریا، حجاج بن دینار، حکم، حجیہ بن عدی، علی بن طالب، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے قبل از وقت زکوٰۃ کی ادائے گی کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اس کی اجازت دی۔
جب کوئی زکوٰۃ نکالے تو وصول کرنے والا یہ دعا دے
علی بن محمد، وکیع، شعبہ، عمرو بن مرۃ، حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جب کوئی اپنے مال کی زکوٰۃ لے کر آتا تو آپ اس کو دعا دیتے تو میں اپنے مال کی زکوٰۃ لے کر حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا اے اللہ ابو اوفی کی آل پر رحمت فرما۔
٭٭ سوید بن سعید، ولید بن مسلم، بختری بن عبید، عبید، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم زکوٰۃ دو تو اس کا اجر مت بھولو یوں کہو اے اللہ اسے غنیمت بنا دیجیے تاوان نہ بنائیے۔
اونٹوں کی زکوٰۃ
ابو بشر بکر بن خلف، عبد الرحمن بن مہدی، سلیمان بن کثیر، حضرت ابن شہاب کہتے ہیں کہ حضرت سالم نے مجھے وہ تحریر پڑھائی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وفات سے قبل زکوٰۃ کے متعلق لکھوائی تھی۔ اس میں تھا کہ پانچ اونٹوں میں ایک بکری اور دس میں دو بکریاں ، پندرہ میں تین اور بیس میں چار اور پچیس سے پینتیس تک میں ایک سالہ اونٹنی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو دو سالہ اونٹ (نر) پینتیس سے ایک بھی زائد ہو تو پینتالیس تک دو برس کی اونٹنی ہے۔ پینتالیس سے ایک بھی زائد ساٹھ تک تین برس کی اونٹنی ہے۔ ساٹھ سے ایک بھی زائد ہو تو پچھتر تک چار برس کی اونٹنی ہے۔ پچھتر سے ایک بھی زائد ہو تو نوے تک دو سالہ دو اونٹنیاں ہیں نوے سے ایک بھی زائد ہو تو ایک سو بیس تک تین سالہ دو اونٹنیاں ہیں۔ اس سے زائد ہو تو ہر پچاس میں تین سالہ ایک اونٹنی ہے اور ہر چالیس میں دو سالہ ایک اونٹنی ہے۔
صدقات کا بیان
ضمانت کا بیان
محمد بن بشار، ابو عامر، شعبہ، عثمان بن عبد اللہ بن موہب، عبد اللہ بن حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے کہ نبی کے پاس ایک جنازہ لایا گیا تاکہ اس کی نماز جنازہ ادا کریں آپ نے فرمایا اپنے ساتھی کی نماز جنازہ ادا کرو کیونکہ اس کے ذمہ قرض ہے حضرت ابو قتادہ نے عرض کیا میں اس کا ذمہ دار ہوں نبی فرمایا پورا قرض ادا کرو گے عرض کیا پورا ادا کروں گا۔ اس میت کے ذمہ اٹھارہ یا انیس درہم قرض نکلے۔
جو قرض اس نیت سے لے کہ (جلد) ادا کروں گا
ابو بکر بن ابی شیبہ، عبیدہ بن حمید، منصور، زیاد بن عمرو بن ہند، ابن حذیفہ، عمران ، ام المومنین سیدہ میمونہ قرض لے لیا کرتی تھیں ان کے بعض گھر والوں نے ان سے کہا کہ آپ ایسا نہ کیا کریں اور ان کے لیے اسے معیوب کہا فرمانے لگیں کیوں نہ لیا کروں جبکہ میں نے اپنے نبی اور پیارے محمد کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو مسلمان بھی قرض لے اور اللہ کو اس کے متعلق یہ معلوم ہوا کہ یہ ادا کرنا چاہتا ہے تو اللہ اس کی طرف سے دنیا میں ادا کر دیتے ہیں۔
٭٭ ابراہیم بن منذر، ابن ابی فدیک، سعید بن سفیان، مولی اسلمین، جعفر بن محمد، حضرت عبد اللہ بن جعفر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا اللہ تعالی قرض لینے والے کے ساتھ ہیں یہاں تک کہ اپنا قرضہ ادا کرے بشرطیکہ قرضہ ایسے مقصد کے لیے نہ ہو جو اللہ کو ناپسند ہو۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن جعفر اپنے خزانچی سے فرماتے ہیں کہ جاؤ اور میرے لیے قرضہ لاؤ اس لیے کہ مجھے ناپسند ہے کہ میں ایک رات بھی ایسی گزاروں الا یہ کہ اللہ میرے ساتھ ہو جب سے میں نے اللہ کے رسول سے یہ حدیث سنی ہے۔
جو قرضہ ادا نہ کرنے کی نیت سے لے
ہشام بن عمار، یوسف بن محمد بن صیفی بن صہیب، عبد الحمید بن زیاد، ابن صیفی بن صہیب، شعیب بن عمرو حضرت صہیب سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا جو مرد بھی قرض لے اور اس کی نیت یہ ہو کہ قرضہ ادا نہ کرے گا وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا (یعنی چور ہو کر)۔ دوسری سند سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔
٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، عبد العزیز بن محمد، ثور بن زید، ابی الغیث، مولی بن مطیع، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو لوگوں کے اموال تلف کرنے کے ارادہ سے حاصل کرے اللہ تعالی اسے تلف فرمائے۔
قرض کے بارے میں شدید وعید
حمید بن مسعدہ، خالد بن حارث، سعید، قتادہ، سالم بن ابی جعد، معدان بن ابی طلحہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جس کی روح اس کے جسم سے ایسی حالت میں جدا ہو کہ وہ تین باتوں سے بری ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گا تکبر سے اور مال غنیمت (اور دیگر اموال اجتماعیہ) میں خیانت سے اور قرضہ سے۔
٭٭ ابو مروان عثمانی، ابراہیم بن سعد، عمرو بن ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا مومن کی جان اس کے قرضہ کے ساتھ معلق رہتی ہے یہاں تک کہ اس کی طرف سے قرضہ ادا کر دیا جائے۔
٭٭ محمد بن ثعلبہ، ابن سواء، عمی، محمد بن سواء، معلم، مطر حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جس کی موت ایسی حالت میں آئے کہ اس کے ذمہ ایک اشرفی یا ایک درہم بھی ہو تو اس کی ادائے گی اس کی نیکیوں سے کی جائے گی کیونکہ وہاں اشرفی یا درہم نہ ہوں گے۔
جو قرضہ یا بے سہارا بال بچے چھوڑے تو اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ ہیں
احمد بن عمرو بن سرح، عبد اللہ بن وہب، یونس، ابن شہاب، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول کے ابتدائی زمانہ میں جب کوئی مومن فوت ہو جاتا درآنحالیکہ اس کے ذمہ قرض بھی ہوتا تو آپ دریافت فرماتے کہ اس ترکہ میں قرض کی ادائے گی کی گنجائش ہے؟ اگر کہتے ہیں کہ جی ہاں تو آپ اس کی نماز جنازہ ادا فرماتے اگر نفی میں جواب ملتا تو آپ فرماتے کہ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ خود ہی ادا کرو پھر جب اللہ نے آپ پر فتوحات فرمائیں تو آپ نے فرمایا میں مسلمانوں کی جانوں سے بھی زیادہ ان کے قریب ہوں لہذا جو مر جائے اور اس کے ذمہ دین ہو تو اس کی ادائے گی میرے ذمہ ہے اور جو مال چھوڑ کر مر جائے تو وہ مال اس کے وارثوں کاہے۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان ، جعفر بن محمد، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جو مال چھوڑے تو وہ اس کے ورثاء کاہے اور جو قرضہ یا عیال چھوڑے تو ان کا ذمہ مجھ پر ہے۔ اور وہ عیال میرے سپرد ہیں اور میں اہل ایمان کے بہت قریب ہوں۔
تنگدست کو مہلت دینا
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جو تنگدست پر آسانی کرے اللہ تعالی اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی فرمائیں گے۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، نمیر، اعمش، ابو داؤد، حضرت بریدہ بن اسلمی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو تنگدست کو مہلت دے تو اس کو ہر یوم کے بدلہ صدقہ کا اجر ملے گا اور جو ادائے گی کی میعاد گذرنے کے بعد بھی مہلت دے تو اس کو ہر روز قرضہ کے بقدر صدقہ کا اجر ملے گا۔
٭٭ یعقوب بن ابراہیم، اسماعیل بن ابراہیم، عبد الرحمن بن اسحاق، عبد الرحمن بن معاویہ، حنظلہ بن قیس، صحابی رسول حضرت ابو الیسر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جسے پسند ہو کہ اللہ سے اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائیں تو وہ تنگدست کو مہلت دے یا اس کا قرض (تھوڑا بہت) معاف کر دے۔
٭٭ محمد بن بشار، ابو عامر، شعبہ، عبد الملک بن عمیر، ربعی بن حراش، حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا ایک مرد مر گیا اس سے کہا گیا تو نے کیا عمل کیا؟ اسے خود یاد آیا یا یاد دلایا گیا کہنے لگا میں سکہ اور نقد میں چشم پوشی کرتا تھا اور تنگدست کو مہلت دیتا تھا تو اللہ نے اس کی بخشش فرما دی حضرت ابو مسعود فرماتے ہیں کہ یہ بات میں نے بھی اللہ کے رسول سے سنی ہے۔
اچھے طریقہ سے مطالبہ کرنا اور حق لینے میں برائی سے بچنا
محمد بن خلف، محمد بن یحییٰ، ابن ابی مریم، یحییٰ بن ایوب، عبید اللہ بن ابی جعفر، نافع، حضرت ابن عمر اور عائشہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جو کسی حق کا مطالبہ کرے تو عفاف و تقویٰ کے ساتھ مطالبہ کرے خواہ اس کا حق پورا ادا ہو یا نہ ہو۔
٭٭ محمد بن مومل بن صباح، محمد بن مجب قرشی، سعید بن سائب، عبد اللہ بن یا مین، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے صاحب حق سے ارشاد فرمایا اپنا حق عفاف و تقویٰ سے لو پورا ہو یا نہ ہو۔
عمدگی سے ادا کرنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، شبابہ، ح، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، سلمہ بن کہیل، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ نے بیان فرمایا کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اچھے طریقے سے دوسروں کے حقوق ادا کریں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، اسماعیل بن ابراہیم بن عبد اللہ حضرت ابن ابی ربیعہ محزومی سے روایت ہے کہ نبی نے غزوہ حنین کے موقع پر ان سے تیس یا چالیس ہزار قرض لیا جب آپ تشریف لائے تو سارا قرض ادا کر دیا پھر نبی نے ان سے فرمایا اللہ تمہیں گھر میں اور مال میں برکت دے قرض کا بدلہ یہ ہے کہ پورا ادا کیا جائے اور شکریہ ادا کیا جائے۔
٭٭ محمد بن عبد الاعلی، معتمر بن سلیمان، حنش، عکرمہ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ایک مرد آیا اللہ کے نبی سے اپنے قرض یا حق کا مطالبہ کر رہا تھا اس نے کوئی سخت بات کہی تو اللہ کے رسول کے صحابہ نے اس کو سزا دینے کا ارادہ کیا تو اللہ کے رسول نے فرمایا ٹھہر جاؤ اس لیے کہ قرض خواہ کو مقروض پر غلبہ حاصل ہے یہاں تک کہ اس کا قرضہ ادا کر دے۔
٭٭ ابراہیم بن عبد اللہ بن محمد، عثمان ، ابو شیبہ، ابن ابی عبیدہ، ابی اعمش حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نبی کے پاس آیا اور آپ سے دین کا مطالبہ کیا جو آپ کے ذمہ تھا اس نے آپ کے ساتھ سختی کا معاملہ کیا حتی کہ یہ کہا میں تمہیں تنگ کروں گا ورنہ میرا قرض ادا کرو۔ آپ کے صحابہ نے اسے ڈانٹا اور کہا تجھ پر افسوس ہے تجھے معلوم نہیں کہ تو کس سے گفتگو کر رہا ہے۔ کہنے لگا کہ میں تو اپنا حق مانگ رہا ہوں تو نبی نے فرمایا حق مانگنے والے کے ساتھ کیوں نہیں ہوتے (اس کی حمایت کیوں نہیں کرتے ) پھر خولہ بنت قیس کے پاس کسی کو بھیجا اور یہ فرمایا کہ اگر تمہارے پاس کھجور ہو تو ہمیں قرض دے دو جب ہماری کھجور آئے گی تو ہم ادائے گی کر دیں گے کہنے لگی جی ہاں میرے والد آپ پر قربان اے اللہ کے رسول۔ راوی کہتے ہیں کہ خولہ نے کھجور قرض دی پھر آپ نے دیہاتی کا قرضہ ادا کیا اور اسے کھانا کھلایا پھر اس نے کہا کہ آپ نے میرا حق پورا دیا اللہ آپ کو پورا دے تو نبی نے فرمایا یہی لوگ بہترین ہیں وہ امت کبھی پاک نہ ہو گی جس میں ناتواں و کمزور اپنا حق بغیر مشقت کے وصول نہ کر سکے۔
قرض کی وجہ سے قید کرنا اور قرض دار کا پیچھا نہ چھوڑنا اس کے ساتھ رہنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، وبر بن ابی دلیلہ، محمد بن میمون بن مسیکہ حضرت شرید فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا جس کے پاس قرض ادا کرنے کو ہو اس کا تاخیر کرنا اس کی عزت اور سزا کو حلال کر دیتا ہے۔ علی طنافسی کا قول ہے عرض سے مراد شکایت کرنا ہے اور سزا سے مراد قید کرنا ہے۔
٭٭ ہدیہ بن عبد الوہاب، نضر بن شمیل، حرماس بن حبیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس اپنے ایک مقروض کو لایا آپ نے مجھ سے فرمایا اس کا پیچھا مت چھوڑو پھر دن کے آخر میں میرے قریب سے گزرے تو فرمایا اے بنوتمیمی تمہارے قیدی کا کیا ہوا۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، یحییٰ بن حکیم، عثمان بن عمر، یونس بن یزید، زہری، عبد اللہ بن حضرت کعب بن مالک سے روایت ہے کہ انہوں نے مسجد میں ابن ابی حدرد سے اپنے قرضہ کا مطالبہ کیا جو ان کے ذمہ تھا یہاں تک کہ ان دونوں کی آوازیں اتنی بلند ہوئیں کہ اللہ کے رسول نے اپنے گھر میں سن لیں آپ نے کعب کو آواز دی انہوں نے کہا لبیک اے اللہ کے رسول فرمایا اپنے قرضہ میں سے اتنا چھوڑ دو اور ہاتھ سے نصف کا اشارہ فرمایا کعب نے کہا میں نے آدھا چھوڑ دیا آپ نے سے فرمایا اٹھو اور ادائے گی کرو۔
قرض دینے کی فضیلت
محمد بن خلف، یعلی، سلیمان بن یسیر، قیس بن رومی، سلیمان بن اذنان، علقمہ، حضرت قیس بن رومی کہتے ہیں کہ سلمان بن اذنان نے حضرت علقمہ کو تنخواہ ملنے تک کے لیے ہزار درہم قرض دئیے تھے جب ان کو تنخواہ ملی تو سلمان نے ادائے گی کا مطالبہ کیا اور ان پر سختی کی تو علقمہ نے ادائے گی کر دی لیکن یوں لگا کہ علقمہ ناراض ہوئے ہیں پھر علقمہ کئی ماہ تک ٹھہرے اس کے بعد سلمان کے پاس (دوبارہ) گئے اور کہا کہ مجھے ہزار درہم تنخواہ ملنے تک کے لیے قرض دیجیے کہنے لگے جی ہاں بڑی خوشی سے اے ام عقبہ وہ سر بمہر تھیلی جو تمہارے پاس ہے لاؤ وہ لائیں تو کہا سنئے اللہ کی قسم یہ وہی آپ والے درہم ہیں جو آپ نے ادا کیے تھے میں نے ان میں سے ایک درہم بھی نہیں ہلایا۔ علقمہ نے کہا اللہ ہی کے لیے تمہارے والد کی خوبی تم نے میرے ساتھ وہ سلوک کیوں کیا تھا سلمان نے کہا اس حدیث کی وجہ سے جو میں نے آپ سے سنی فرمایا کون سی حدیث آپ نے مجھ سے سنی کہا میں نے آپ کو حضرت ابن مسعود سے روایت کرتے سنا کہ نبی نے فرمایا جو مسلمان بھی دوسرے مسلمان کو دوبارہ قرض دے تو اسے ایک مرتبہ اتنا مال صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا۔ فرمایا حضرت ابن مسعود نے یہ حدیث مجھے اسی طرح سنائی۔
کھانوں کے ابو اب
ثرید کے درمیان سے کھانا منع ہے
ہشام بن عمار، ابو حفص عمر بن درفس، عبد الرحمن بن ابی قسیمہ، حضرت واثلہ بن اسقع فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ثرید کے درمیانی اوپر کے حصہ پر دست مبارک رکھا اور فرمایا اللہ کا نام لے کر اس کے اردگرد سے کھاؤ اور اس اوپر کے حصہ کو چھوڑ رکھو اس لیے کہ برکت اوپر سے آتی ہے۔
٭٭ علی بن منذر، محمد بن فضیل عطاء بن سائب، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب کھانا رکھا جائے تو اس کے اطراف سے کھاؤ اور درمیان کو چھوڑ رکھو اس لیے کہ برکت کھانے کے درمیان میں اترتی ہے۔
نوالہ نیچے گر جائے تو؟
سوید بن سعید، یزید بن زریع، یونس، حسن ، حضرت معقل بن یسار صبح کا کھانا تناول فرما رہے تھے کہ ایک نوالہ گرگیا۔ انہوں نے وہ نوالہ لیا اور جو کچرا اس پر لگ گیا تھا، صاف کیا اور کھا لیا۔ اس پر عجمی دہقانوں نے ایک دوسرے کو آنکھ سے اشارے کیے (کہ امیر ہو کر گرا ہوا نوالہ اٹھایا اور کھا لیا) تو کسی نے کہہ دیا اللہ میر کو اصلاح پر رکھے۔ یہ دہقان ایک دوسرے کو آنکھوں سے اشارے کر رہے ہیں کہ آپ کے سامنے یہ کھانا ہے پھر بھی آپ نے نوالہ اٹھا لیا۔ فرمانے لگے ان عجمیوں کی خاطر میں اس عمل کو نہیں چھوڑ سکتا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے۔ ہم میں سے جب کسی کا نوالہ گر جاتا تو اسے حکم ہوتا کہ اسے اٹھا لے اور جو کچرا وغیرہ لگا ہے ، صاف کر کے کھا لے اور شیطان کے لیے نہ چھوڑے۔
٭٭ علی بن منذر، محمد بن فضیل اعمش، ابی سفیان ، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی کے ہاتھ سے نوالہ گر جائے تو اس پر جو کچرا وغیرہ لگا ہو صاف کر کے کھا لے۔
ثرید باقی کھانوں سے افضل ہے
محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عمرو بن مرہ، مرہ ہمدانی، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مردوں میں بہت سے کامل ہوئے اور عورتوں میں کوئی کمال کو نہ پہنچی سوائے مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون کے اور عائشہ باقی عورتوں سے ایسے ہی افضل ہے جیسے ثرید باقی کھانوں سے افضل ہے۔
٭٭ حرملہ بن یحییٰ ، عبد اللہ بن وہب، مسلم بن خالد، عبد اللہ بن عبد الرحمن حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عائشہ باقی عورتوں سے ایسے ہی افضل ہے جیسے ثرید باقی کھانوں سے افضل ہے۔
کھانے کے بعد ہاتھ پونچھنا
محمد بن سلمہ مصری، ابو حارث مرادی، عبد اللہ بن وہب، محمد بن ابی یحییٰ سعید بن حارث حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں ہمیں کم ہی کھانا میسر آتا تھا۔ جب ہمیں کھانا ملتا تو ہمارے رومال اور تولئے ، ہماری ہتھیلیاں اور بازو اور پاؤں ہی ہوتے تھے اس کے بعد ہم نماز پڑھ لیتے تھے اور ہاتھ بھی نہ دھوتے تھے۔
کھانے کے بعد کی دعا
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو خالدالاحمر، حجاج، رباح بن عبیدہ، سعید، حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کھانا کھالیتے تو فرماتے تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں کھلایا، پلایا اور مسلمان بنایا۔
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، ولید بن مسلم، ثور بن یزید، خالد بن معدان ، حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کے سامنے سے جب کھانا وغیرہ اٹھایا جاتا تو فرماتے اللہ کی حمد و ثناء بہت زیادہ اور پاکیزہ برکت والی حمد و ثناء لیکن یہ حمد و ثناء اللہ کے لیے کافی نہیں ، نہ اللہ کو چھوڑا جا سکتا ہے اور نہ اس سے کوئی بے نیاز ہو سکتا ہے۔ اے ہمارے رب (ہماری دعا سن لے )۔
٭٭ حرملہ بن یحییٰ ، عبد اللہ بن وہب، سعید بن ابی ایوب، ابی مرحوم عبد الرحیم سہل بن حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو کھانے کے بعد یہ کہے تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا اور مجھے عطا فرمایا۔ میری طاقت اور زور کے بغیر اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔
مل کر کھانا
ہشام بن معار، داؤد بن رشید، محمد بن صباح ولید بن مسلم وحشی بن حرب بن حضرت وحشی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! ہم کھانا کھاتے ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے۔ فرمایا تم الگ الگ کھاتے ہو گے؟ عرض کیا جی ہاں ! فرمایا مل کر کھایا کرو اور کھانے قبل اللہ کا نام لیا کرو۔ اس سے تمہارے کھانے میں برکت ہو گی۔
٭٭ حسن بن علی، خلال، حسن بن موسی، سعید، بن زید، عمرو بن دینار، آل زبیر، سالم بن عبد اللہ بن عمر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مل کر کھایا کرو۔ الگ الگ نہ ہوا کرو (یعنی اکٹھے مل بیٹھ کر کھایا کرو) اس لیے کہ برکت جماعت کے ساتھ ہے
کھانے میں پھونک مارنا
ابو کریب، عبد الرحیم بن عبد الرحمن محاربی، شریک، عبد الکریم، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھانے پینے کی اشیاء میں پھونک نہ مارتے تھے اور نہ برتن میں سانس لیتے تھے۔
جب خادم کھانا (تیار کر کے ) لائے تو کچھ کھانا اسے بھی دینا چاہیے
محمد بن عبد اللہ بن نمیر، اسماعیل بن ابی خالد، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کے پاس اس کا خادم کھانا لائے تو اسے چاہیے کہ خادم کو بٹھا کر اپنے ساتھ کھانا کھلائے اگر خادم ساتھ نہ کھائے یا مالک کھلانا نہ چاہے تو اس کھانے میں سے کچھ خادم کو دے دے۔
٭٭ عیسیٰ بن حماد مصری، لیث بن سعد، جعفر بن ربیعہ، عبد الرحمن اعرج، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کا غلام اس کے سامنے کھانا رکھے تو غلام نے کھانا پکانے کی گرمی اور مشقت خود برداشت کرتے ہوئے مالک کو اس سے بچایا۔ اس لیے مالک کو چاہیے کہ غلام کو بلا لے کہ وہ بھی اس کے ساتھ کھانا کھائے اگر ایسا نہ کرے تو ایک نوالہ ہی غلام کے ہاتھ پر رکھ دے۔
٭٭ علی بن منذر، محمد بن فضیل ابراہیم ہجری، ابو الاحوص، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے پاس کھانا لائے تو اسے اپنے ساتھ بٹھا لینا چاہیے یا کچھ کھانا دے دینا چاہیے کیونکہ کھانا پکانے کی گرمی اور مشقت خادم ہی نے برداشت کی۔
خوان اور دستر کا بیان
محمد بن مثنی، معاذ بن ہشام، یونس بن ابی فرات، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میز پر یا طشتری (چھوٹے ، چھوٹے برتنوں ) میں کھانا کھاتے تھے؟ فرمایا دستر خوانوں پر۔
٭٭ عبید اللہ بن یوسف جبیری، ابو بحر، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کبھی میز پر کھاتے نہ دیکھا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دنیا سے تشریف لے گئے۔
کھانا اٹھائے جانے سے قبل اٹھنا اور لوگوں کے فارغ ہونے سے قبل ہاتھ روک لینا منع ہے
عبد اللہ بن احمد بن بشیر بن ذکوان دمشقی، ولید بن مسلم ، منیر بن زبیر، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھانا (یعنی دسترخوان) اٹھائے جانے سے قبل اٹھنے سے منع فرمایا۔
٭٭ محمد بن خلف عسقلانی، عبید اللہ ، عبد الاعلی، یحییٰ بن ابی کثیر، عروہ بن زبیر، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب دسترخوان بچھ جائے تو کوئی بھی نہ اٹھے یہاں تک کہ دسترخوان اٹھا لیا جائے اور کوئی بھی (خصوصاً) میزبان اپنا ہاتھ نہ روکے اگرچہ سیر ہو چکے۔ یہاں تک کہ باقی ساتھی کھانے سے فارغ ہوں اور چاہیے کہ کچھ نہ کچھ کھاتا رہے (یا اگر کھا نہ سکے تو عذر ظاہر کر دے کہ مجھے اشتہاء نہیں ) کیونکہ آدمی (اگر پہلے ہاتھ روک لے تو اس) کی وجہ سے اس کا ساتھی شرمندہ ہو کر اپنا ہاتھ روک لیتا ہے حالانکہ بہت ممکن ہے کہ ابھی اس کو مزید کھانے کی حاجت ہو۔
جس کے ہاتھ میں چکناہٹ ہو اور وہ اسی حالت میں رات گزار دے
جبارہ بن مغلس، عبید بن وسیم جمال، حسن بن حسن، فاطمہ بنت حسین، حسین بن علی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا غور سے سنو! جس شخص کے ہاتھ میں چکنائی لگی ہو اور وہ اسی حالت میں رات گزار دے (سوتا رہے ) تو وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔
٭٭ محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، عبد العزیز بن مختار، سہیل بن ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کسی کے ہاتھ میں چکنائی کی بو ہو اور وہ ہاتھ دھوئے بغیر ہی سو جائے تو پھر اسے تکلیف پہنچے تو اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔
کسی کے سامنے کھانا پیش کیا جائے تو؟
ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، سفیان، ابن ابی حسین، شہر بن حوشب ، حضرت اسماء بنت یزید فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں کھانا آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں دعوت دی۔ ہم نے کہا کہ ہمیں اشتہاء نہیں ہے۔ فرمایا جھوٹ اور بھوک کو جمع نہ کرو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، ابی حلال، عبد اللہ بن سوادہ، قبیلہ بنو عبد الاشہل کے ایک شخص حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صبح کا کھانا تناول فرما رہے تھے۔ فرمایا قریب آؤ، کھانا کھالو۔ میں نے عرض کیا کہ میں روزہ دار ہوں۔ ہائے افسوس مجھ پر کہ میں نے کیوں نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بابرکت کھانا کھا لیا۔ (یعنی اب پچھتاتے تھے کہ روزہ تو نفلی تھا، دوبارہ بھی رکھا جا سکتا تھا )
سفر میں روزہ رکھنا
علی بن محمد، وکیع، سفیان، منصور، مجاہد، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سفر میں روزہ رکھا بھی اور چھوڑا بھی۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت حمزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ میں روزہ رکھتا ہوں کیا سفر میں بھی روزہ رکھوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا چاہو تو روزہ رکھ لو اور چاہو تو نہ رکھو۔
٭٭ محمد بن بشار، ابو عامر، عبد الرحمن بن ابراہیم و ہارون بن عبد اللہ حمال، ابن ابی فدیک، ہشام بن سعد، عثمان بن حیان دمشقی، حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک سفر میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے۔ انتہائی سخت گرمی کا دن تھے حتیٰ کہ گرمی کی شدت سے لوگ سر پکڑ رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کوئی بھی روزہ دار نہ تھا۔
سفر میں روزہ موقوف کر دینا
ابو بکر بن ابی شیبہ و محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، زہری، صفوان بن عبد اللہ، حضرت کعب بن عاصم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں۔
٭٭ محمد بن مصفی حمصی، محمد بن حرب، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں۔
٭٭ ابراہیم بن منذر حزامی، عبد اللہ بن موسیٰ تیمی، اسامہ بن زید، شہاب، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سفر میں رمضان کا روزہ رکھنے والا ایسا ہی ہے جیسا کہ حضر میں روزہ چھوڑنے والا۔
حاملہ اور دودھ پلانے والی کے لئے روزہ موقوف کر دینا
ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، ابو ہلال، عبد اللہ بن سوادۃ، حضرت انس بن مالک جو بنو عبد الاشہل یا بنو عبد اللہ بن کعب میں سے تھے سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سوار فوج نے ہم پر لشکر کشی کی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صبح کا کھانا تناول فرما رہے تھے۔ فرمایا قریب آ جاؤ اور کھانے میں شریک ہو جاؤ۔ میں نے عرض کیا میرا روزہ ہے۔ فرمایا بیٹھو میں تمہیں روزے کے متعلق بتاؤں۔ اللہ عزوجل نے مسافر کے لئے آدھی نماز معاف فرما دی اور مسافر اور حاملہ اور دودھ پلانے والی کو روزے معاف فرما دیئے۔ اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ دونوں باتیں فرمائیں یا ان میں سے ایک بات فرمائی۔ ہائے افسوس مجھ پر کاش میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کھانا کھانے کا شرف حاصل کر لیتا (اور روزہ کی بعد میں قضا کر لیتا)۔
٭٭ ہشام بن عمار دمشقی، ربیع بن بدر، جریری، حسن، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حاملہ جسے اپنی جان کا اندیشہ ہو اور دودھ پلانے والی جسے اپنے بچہ کا اندیشہ ہو روزہ چھوڑنے کی اجازت دی۔
رمضان کی قضا
علی بن منذر، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، یحییٰ بن سعید، حضرت ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ فرماتے سنا کہ میرے ذمہ رمضان کے روزے باقی ہوتے تھے ابھی ان کی قضا بھی نہیں کی ہوتی تھی کہ شعبان آ جاتا۔
٭٭ علی بن محمد، عبد اللہ بن نمیر، عبیدۃ، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں ماہواری آتی تو آپ ہمیں روزے قضاء رکھنے کا حکم دیتے۔
رمضان کا روزہ توڑنے کا کفارہ
ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، حمید بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک صاحب نبی کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے میں تباہ ہو گیا۔ آپ نے فرمایا تم کس طرح ہلاک ہو گئے؟ عرض کیا رمضان میں اپنی اہلیہ سے صجت کر بیٹھا۔ نبی نے فرمایا ایک غلام آزاد کر دو۔ عرض کیا میرا اتنا مقدور نہیں۔ فرمایا مسلسل دو ماہ روزے رکھو۔ عرض کیا مجھ میں اتنی ہمت نہیں۔ فرمایا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ۔ عرض کیا اس کی بھی استطاعت نہیں۔ فرمایا بیٹھ جاؤ۔ وہ بیٹھ گئے اتنے میں ایک ٹوکرا کہیں سے آیا۔ آپ نے فرمایا جاؤ یہ صدقہ کر دو۔ عرض کیا اے اللہ کے رسول ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا مدینہ کے دونوں کناروں کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ ضرورت مند نہیں آپ نے فرمایا جاؤ اپنے گھر والوں کو کھلا دو۔ حضرت ابو ہریرہ سے دوسری روایت یہ بھی ہے کہ اس کی جگہ ایک روزہ بھی رکھو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، سفیان، حبیب بن ابی ثابت، ابن مطوس، مطوس، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو بلا عذر رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑ دے تو زمانہ بھر کے روزے اس کو کافی نہ ہوں گے۔
بھولے سے افطار کرنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، عوف، خلاس و محمد بن سیرین، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو روزہ میں بھولے سے کھا لے تو وہ اپنا روزہ مکمل کر لے یہ اللہ تعالیٰ نے اسے کھلایا پلایا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، ابو اسامہ، ہشام بن عروۃ، فاطمہ بنت منذر، حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں ابر کے روز ہم نے روزہ افطار کر لیا تو (چند ساعت بعد) سورج نکل آیا۔ ابو اسامہ کہتے ہیں میں نے ہشام سے کہا کہ پھر لوگوں کو قضاء رکھنے کا حکم دیا گیا؟ کہنے لگے اور چارہ ہی کیا تھا۔
روزہ دار کو قے آ جائے
ابو بکر بن ابی شیبہ، یعلی و محمد بن عبید طنافسی، محمد بن اسحاق ، یزید بن ابی حبیب، ابو مرزوق، حضرت فضالۃ بن عبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک ایسے دن نبی صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے جس دن آپ روزہ رکھا کرتے تھے۔ آپ نے برتن منگوایا اور پانی پیا۔ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آج کے روز تو آپ کا روزہ رکھنے کا معمول تھا؟ فرمایا جی ہاں لیکن میں نے قے کی تھی
٭٭ عبید اللہ بن عبد الکریم، حکم بن موسی، عیسیٰ بن یونس، عبید اللہ، علی بن حسن بن سلیمان ابو الشعثاء، حفص بن غیاث، ہشام، ابن سیرین، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس کو خود بخود (دوران روزہ) قے آ جائے اس پر تو قضا نہیں ہے اور جو عمداً قے کرے تو اس پر (روزہ کی) قضا ہے۔
روزہ دار کے لئے مسواک کرنا اور سرمہ لگانا
عثمان بن محمد بن ابی شیبہ، ابو اسماعیل مؤدب، مجالد، شعبی، مسروق، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا روزہ دار کی بہترین خصلت مسواک کرنا ہے۔
٭٭ ابو التقی ہشام بن عبد الملک حمصی، بقیہ، زبیدی، ہشام بن عروۃ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روزے کی حالت میں سرمہ لگایا۔
روزہ دار کو پچھنے لگانا
ایوب بن محمد رقی و داؤد بن رشید، معمر بن سلیمان، عبد اللہ بن بشر، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا کہ پچھنے لگانے والے اور لگوانے نے روزہ توڑ دیا۔
٭٭ احمد بن یوسف سلمی، عبید اللہ، شیہبان، یحییٰ بن ابی کثیر، ابو قلابہ، حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا کہ پچھنے لگانے والے اور لگوانے والے نے روزہ توڑ دیا۔
٭٭ احمد بن یوسف سلمی ، عبید اللہ ، شیہبان ، یحیی ، ابو قلابہ، حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ بقیع کے قریب جا رہے تھے ایک شخص پر گزر ہوا جو پچھنے لگوا رہا تھا رمضان کی اٹھارہویں تاریخ تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پچھنے لگانے والے اور لگوانے والے نے روزہ توڑ دیا۔
٭٭ علی بن محمد، محمد بن فضیل، یزید بن ابی زیاد، مقسم، حضرت عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (بیک وقت) احرام اور روزے کی حالت میں پچھنے لگوائے۔
تجارت و معاملات کا بیان
پیوند کیا ہوا کھجور کا درخت یا مال والا غلام بیچنا
محمد بن رمح، لیث بن سعد، ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، ابن شہاب، زہری، سالم بن عبد اللہ بن عمر ، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے پیوند کیا ہوا کھجور کا درخت بیچا تو اس کا پھل فروخت کنندہ کا ہو گا الا یہ کہ خریدار پہلے سے شرط ٹھہرا لے اور جو مال والا غلام خریدے تو اس کا مال فروخت کنندہ کا ہو گا الا یہ کہ خریدار شرط ٹھہرا لے۔
٭٭ محمد بن ولید، محمد بن جعفر،شعبہ، عبد ربہ بن سعید، نافع، ابن عمر سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔
٭٭ عبدربہ، خالد نمیر، ابو المغلس، فضیل بن سلیمان، موسیٰ بن عقبہ، اسحاق بن یحییٰ بن ولید، حضرت عبادہ بن صامت بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کھجور کا پھل پیوند کاری کرنے والے کا ہو گا الا یہ کہ خریدار پہلے ہی شرط ٹھہرا لے اور غلام کا مال فروخت کنندہ کا ہو گا الا یہ کہ خریدار شرط ٹھہرا لے۔
پھل قابل استعمال ہونے قبل بیچنے سے ممانعت
محمد بن رمح، لیث بن سعد، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھل نہ بیچو یہاں تک کہ اس کا قابل استعمال ہونا ظاہر ہو جائے بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کو منع فرمایا۔
٭٭ احمد، عیسی، عبد اللہ بن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب، سعید بن مسیب، ابو سلمہ، عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پھل نہ بیچو یہاں تک کہ اس کا قابل استعمال ہونا ظاہر ہو جائے۔
٭٭ ہشام بن عمار، سفیان ، ابن جریج، عطاء، حضرت جابر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا اس سے کہ پھل قابل استعمال ہونے سے قبل بیچا جائے۔
٭٭ محمد بن مثنی، حجاج، حماد ، حمید، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھل پکنے سے قبل بیچنے سے منع فرمایا اور انگور سیاہ ہونے سے قبل بیچنے سے اور دانہ سخت ہونے سے قبل بیچنے سے۔
کئی برس کیلئے میوہ بیچنا اور آفت کا بیان
ہشام بن عمار، محمد بن صباح، سفیان، حمید، اعرج، سلیمان بن عتیق، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کئی سال کیلئے (باغ کا پھل) بیچنے سے منع فرمایا۔
٭٭ ہشام بن عمار، یحییٰ بن حمزہ، ثور بن یزید، ابن جریج، ابی زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے کوئی پھل بیچا پھر اس پر آفت آن پڑی تو وہ اپنے بھائی کے مال میں سے کچھ نہ لے وہ اپنے مسلمان بھائی کا مال کس بنیاد پر لیتا ہے۔
جھکتا تولنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، محمد بن اسماعیل، وکیع، سفیان، سماک بن حرب، حضرت سوید بن قیس فرماتے ہیں کہ میں اور مخرمہ عہدی ہجر کے علاقہ سے کپڑا لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم سے ایک پائجامہ کا سودا کیا اور ہمارے پاس ایک تولنے والا تھا جو اجرت لے کر (قیمت ادا کرنے کیلئے اشرفی درہم) تولتا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا اے تولنے والے تول اور جھکتا تول۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، محمد بن ولید، شعبہ، سماک بن حرب، حضرت مالک، ابو صفوان بن عمیرہ فرماتے ہیں کہ ہجرت سے قبل میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ ایک پائجامہ فروخت کیا آپ نے میرے لئے (قیمت میں اشرفی یا درہم) تولا اور جھکتا تولا۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الصمد، شعبہ، محارب بن دینار، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم تولو تو جھکتا تولو۔
ناپ تول میں احتیاط
عبد الرحمن بن بشر بن حکم، علی بن حسین، محمد بن عقیل، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہاں کے لوگ ناپ تول میں سب سے برے تھے جب اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی ہلاکت ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کیلئے۔ تو اس کے بعد انہوں نے ناپ تول اچھا کر دیا۔
ملاوٹ سے ممانعت
ہشام بن عمار، سفیان، علاء بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک اناج بیچنے والے مرد کے پاس سے گزرے۔ آپ نے ڈھیر میں ہاتھ ڈالا تو اس میں ملاوٹ کی گئی تھی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو نعیم، یونس بن ابی اسحاق ، ابی اسحاق ، حضرت ابو الحمراء فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک شخص کے پہلو کی جانب سے گزرے اس کے پاس برتن میں اناج تھا۔ آپ نے اس میں ہاتھ ڈالا پھر فرمایا لگتا ہے تو دھوکہ دے رہے ہو (اچھا اناج اوپر اور معیوب نیچے ) جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
اناج کے اپنے قبضہ میں آنے سے قبل آگے بیچنے سے ممانعت
سوید بن سعید، مالک بن انس، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو اناج خریدے تو آگے نہ بیچے یہاں تک کہ اس پر قبضہ کر لے۔
٭٭ عمران بن موسی، حماد بن زید، ح، بشر بن معاذ، ابو عوانہ، حماد بن زید، عمرو بن دینار، طاؤس، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو اناج خریدے تو وہ آگے فروخت نہ کرے یہاں تک کہ اسے وصول کر لے۔ حضرت ابو عوانہ کی روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا میں سمجھتا ہوں کہ ہر چیز (کا حکم) اناج کی مانند ہے۔
٭٭ علی ، محمد، وکیع، ابن ابی لیلی، ابن زبیر، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اناج بیچنے سے منع فرمایا۔ یہاں تک کہ اس میں دو صاع جاری ہوں بیچنے والے کا ماپ تول اور خریدار کا ماپ تول۔
اندازے سے ڈھیر کی خرید و فروخت
سہل بن ابی سہل، عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ ہم سواروں سے غلہ خریدتے ڈھیر کے ڈھیر اندازے سے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں وہ غلہ اپنی جگہ سے منتقل کئے بغیر آگے فروخت کرنے سے منع فرمایا۔
٭٭ علی بن میمون، عبد اللہ بن یزید، ابن لہیعہ، موسیٰ بن وردان، سعید بن مسیب، حضرت عثمان بن عفان فرماتے ہیں کہ میں بازار میں چھو ہارے فروخت کرتا تھا میں کہتا میں نے اپنے اس ٹوکرے میں ماپ کر اتنے صاع ڈالے ہیں تو میں اسی حساب سے کھجور کے ٹوکرے دے دیتا اور اپنا حصہ لے لیتا پھر مجھے اس میں ترد د ہوا تو میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا جب تم کہو کہ اتنے صاع ہیں تو خریدار کے سامنے ناپو۔
اناج ماپنے میں برکت کی توقع
ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، محمد بن عبد الرحمن، حضرت عبد اللہ بن بسر مازنی فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا اپنا اناج ناپ لیا کرو تمہارے لئے اس میں برکت ہو جائے گی۔
٭٭ عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینار حمصی، بقیہ بن ولید، بحیر بن سعید، خالد بن معدان ، مقدام بن معدیکرب، ابو ایوب سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا اپنا اناج ناپ لیا کرو اس میں تمہارے لئے برکت ہو جائے گی
بازار اور ان میں جانا
ابراہیم بن منذر، اسحاق بن ابراہیم بن سعید، صفوان بن سلیم، محمد، زبیر بن منذر، ابن ابی اسید حضرت ابو اسید سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سوق النبیط (نامی بازار) میں گئے اور اس میں خریداری کو (حال) دیکھا تو فرمایا یہ بازار تمہارے لئے (موزوں نہیں ) کیونکہ (یہاں دھوکہ بہت ہوتا ہے ) پھر ایک اور بازار میں گئے اور وہاں بھی دیکھ بھال کی اور فرمایا یہ بازار بھی تمہارے لئے (موزوں ) نہیں پھر اس بازار میں آئے اور چکر لگایا پھر فرمایا یہ ہے تمہارا بازار (یہاں خرید و فروخت کرو) یہاں لین دین میں کمی نہ کی جائے گی اور اس پر محصول مقرر نہ کیا جائے گا۔
٭٭ ابراہیم بن مستمر، عیسیٰ بن میمون ، عون، ابی عثمان، حضرت سلمان فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا جو صبح نماز کیلئے آیا اس نے ایمان کا جھنڈا اٹھایا اور جو صبح بازار کی طرف گیا اس نے ابلیس کا جھنڈا اٹھایا۔
لباس کا بیان
شہرت کی خاطر کپڑے پہننا
محمد بن عبادہ، محمد بن عبد الملک واسطیان، یزید بن ہارون، شریک، عثمان بن ابی زرعہ، مہاجر، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شہرت (و نمود و نمائش) کی خاطر (قیمتی) لباس زیب تن کرے اللہ تعالی روز قیامت اس کو رسوائی کا لباس پہنائیں گے۔
٭٭ محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، ابو عوانہ، عثمان بن مغیرہ، مہاجر، عبد اللہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو دنیا میں شہرت کی خاطر لباس پہنے اللہ تعالی روز قیامت اس کو رسوائی کا لباس پہنائیں گے پھر اس میں آگ دہکائیں گے۔
٭٭ عباس بن یزید بحرانی، وکیع بن محزرناجی، عثمان بن جہم، ذر بن حبیش، حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شہرت کی خاطر لباس پہنے اللہ تعالی اس سے اعراض فرماتے ہیں یہاں تک کہ جب چاہیں اسے رسوا فرما دیں۔
مردار کا چمڑا دباغت کے بعد پہننا
ابو بکر، سفیان بن عیینہ، زید بن اسلم، عبد الرحمن بن وعلۃ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا جس کھال کو دباغت دے دی جائے وہ پاک ہو جاتی ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، عبید اللہ، ابن عباس، ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی باندی کو ایک بکری صدقہ میں دی گئی وہ مر گئی (تو پھینک دی) نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے پاس سے گزرے تو فرمایا اس کی کھال اتار کر دباغت دیتے اور اس سے فائدہ اٹھا لیتے۔ لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ تو مردار ہے۔ فرمایا مردار کو کھانا ہی تو حرام ہے (دباغت دے کر نفع اٹھانا تو حرام نہیں )۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الرحیم بن سلیمان، لیث، شہر بن حوشب، حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک ام المومنین کی بکری مر گئی (تو پھینک دی) نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے پاس سے گزرے تو فرمایا اگر اس کی کھال سے نفع اٹھا لیتے تو اس کے مالک کو کوئی ضرر (گناہ) نہ ہوتا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، خالد بن مخلد، مالک بن انس یزید بن قسیط، محمد بن عبد الرحمن، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مردار کی کھال سے دباغت کے بعد نفع اٹھانے کا امر فرمایا۔
بعض کا قول کہ مردار کی کھال اور پٹھے نفع نہیں اٹھایا جا سکتا
ابو بکر، جریر، منصور، ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، شیبانی، بوبکر، غندر، شعبہ، حکم، عبد الرحیم بن ابی لیلیٰ، عبد اللہ بن عکیم سے روایت ہے کہ ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ و سلم کا مکتوب گرامی پہنچا کہ مردار کی کھال اور پٹھے سے نفع مت اٹھاؤ۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، خالدحذاء، عبد اللہ بن حارث، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جوتے میں دو تسمے تھے دوہرے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، ہمام، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جوتے میں دوتسمے تھے۔
جوتے پہننا اور اتارنا
ابو بکر، وکیع، شعبہ، محمد بن زیاد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی جوتا پہنے تو دائیں سے ابتداء کرے (پہلے دائیں پاؤں میں جوتا پہنے ) اور جب جوتا اتارے تو پہلے بایاں جوتا اتارے۔
ایک جوتا پہن کر چلنے کی ممانعت
ابو بکر، عبد اللہ بن ادریس، ابن عجلان، سعید بن ابی سعید، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی ایک جوتا پہن کر نہ چلے اور نہ ہی ایک موزہ پہن کر یا دونوں اتار دے یا دونوں پہن کر چلے۔
کھڑے کھڑے جوتا پہننا
علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھڑے ہو کر جوتا پہننے سے منع فرمایا۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، عبد اللہ بن دینار، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھڑے ہو کر جوتا پہننے سے منع فرمایا۔
سیاہ موزے
ابو بکر، وکیع، دلہم بن صالح کندی، حجیر بن عبد اللہ کندی، حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نجاشی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دو سیاہ سادہ موزے ہدیہ کئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں پہن لیا۔
مہندی کا خضاب
ابو بکر، سفیان بن عیینہ، زہری، ابو سلمہ، سلیمان بن یسار، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہود و نصاری خضاب نہیں کرتے لہذا تم ان کی مخالفت کرو۔
٭٭ ابو بکر، عبدللہ بن ادریس، اجلح، عبد اللہ بن بریدہ، ابی اسود دیلمی، حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بہترین چیز جس سے تم بڑھاپے کو بدلو مہندی اور وسمہ ہے۔
٭٭ ابو بکر، یونس بن محمد، سلام بن ابی مطیع، حضرت عثمان بن موہب فرماتے ہیں کہ میں ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا موء (بال) مبارک دکھایا جو حنا اور وسمہ سے رنگا ہوا تھا۔
سیاہ خضاب کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، لیث، ابو زبیر، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے روز حضرت ابو قحافہ (والد سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ ان کا سر ثغامہ پودے کی طرح بالکل سفید لگ رہا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان کو ان کی کسی اہلیہ کے پاس لے جاؤ تاکہ وہ ان کے بالوں کا رنگ بدل دے (خضاب لگا کر) اور انہیں سیاہ سے بچانا۔
٭٭ ابو ہریرہ صیرفی، محمد بن فراس، عمر بن خطاب بن زکریاراسی، دفاع بن دغفل سدوسی، عبد الحمید بن صیفی، حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بہترین خضاب جو تم استعمال کرتے ہو سیاہ خضاب ہے تمہاری بیویوں کی تم میں زیادہ رغبت کا باعث ہے اور تمہارے دشمنوں کے دلوں میں تمہارا رعب اور ہیبت زیادہ کرنے والا ہے۔
زرد خضاب
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، عبید اللہ ، سعید بن ابی سعید، حضرت عبید بن جریج نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا میں دیکھتا ہوں کہ آپ ورس سے اپنی ڈاڑھی زرد کرتے ہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں اپنی ڈاڑھی اس لئے زرد کرتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ اپنی ڈاڑھی مبارک زرد کیا کرتے تھے۔
٭٭ ابو بکر، اسحاق بن منصور، محمد بن طلحہ، حمید بن وہب، ابن طاؤس، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مرد کے پاس سے گزرے اس نے مہندی سے خضاب کیا تھا فرمایا یہ کیا ہی خوب ہے۔ پھر ایک اور مرد کے پاس سے گزرے اس نے مہندی اور وسمہ سے خضاب کیا تھا فرمایا یہ پہلے سے بھی اچھا ہے پھر ایک اور کے پاس سے گزرے اس نے زرد خضاب کیا تھا فرمایا یہ ان سب سے اچھا ہے۔ راوی حدیث حمید بن وہب کہتے ہیں کہ میرے استاذ طاؤس زرد خضاب استعمال کرتے تھے۔
خضاب ترک کرنا
محمد بن مثنی، ابو داؤد، زہیر، ابو اسحاق ، حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ریش بچہ سفید دیکھا۔
گوشہ نشینی
محمد بن عمر بن علی مقدمی، سعید بن عامر، ابو عامر، خزاز، حمید بن ہلال، عبد الرحمن بن قرط، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کچھ فتنے ہوں گے ان کے دروازوں پر جہنم کی طرف بلانے والے ہوں گے اگر تمہاری موت اس حالت میں آئے گی تم کسی درخت کی جڑ چبا رہے ہو یہ تمہارے لئے اس سے بہتر ہے کہ ان فتنوں میں سے کسی ایک کی پیروی کرو۔
٭٭ محمد بن حارث مصری، لیث بن سعد، عقیل، ابن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مومن ایک بل سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا۔
٭٭ عثمان بن ابی شیبہ، ابو احمد زبیری، زمعہ بن صالح، زہری، سالم، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مومن ایک بل سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔
مشتبہ امور سے رک جانا
عمرو بن رافع، عبد اللہ بن مبارک، زکریا بن ابی زائدہ، شعبی، حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منبر پر اپنی دو انگلیاں کانوں کے قریب کر کے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں جن سے بہت سے لوگ ناواقف ہیں سو جو مشتبہ امور سے بچتا رہا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت کو پاک رکھا اور جو مشتبہ امور میں مبتلا ہو گیا وہ (رفتہ رفتہ) حرام میں مبتلا ہو جائے گا جیسے سرکاری چراگاہ کے اردگرد جانور چرانے والا قریب ہے کہ سرکاری چراگاہ میں بھی چرانے لگے غور سے سنو ہر بادشاہ کی مخصوص چراگاہ ہوتی ہے اور غور سے سن لو کہ اللہ کی چراگاہ (جس میں داخلہ منع ہے ) اس کے حرام کردہ امور ہیں (جو اس کے اردگرد مشتبہ امور میں مبتلا ہو گا وہ ان محرمات میں بھی مبتلا ہو سکتا ہے ) غور سے سنو جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب یہ صحیح ہو جائے تو تمام بدن صحیح ہو جاتا ہے اور جب اس میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو تمام بدن میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے غور سے سنو گوشت کا یہ ٹکڑا دل ہے۔
٭٭ حمید بن مسعدہ، جعفر بن سلیمان، معلی بن زیاد، معاویہ بن قرہ، حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خونریزی (اور فتنہ وفساد) میں عبادت کرتے رہنا میری طرف ہجرت کرنے کی مانند ہے۔
ابتداء میں اسلام بیگانہ تھا
عبد الرحمن بن ابراہیم، یعقوب بن حمید بن کاسب، سوید بن سعید، مروان بن معاویہ، فزاری، یزید بن کبسان، ابی حازم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ابتداء میں اسلام اجنبی (مسافر کی مانند غیر معروف) تھا اور عنقریب پھر غیر معروف ہو جائے گا پس خوشخبری ہے بیگانہ بن کر رہنے والوں کے لئے۔
٭٭ حرملہ بن یحییٰ، عبد اللہ بن وہب، عمرو بن حارث، ابن لہیعہ، یزید بن ابی حبیب، سنان، سعد، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسلام ابتداء میں بیگانہ تھا اور عنقریب پھر بیگانہ ہو جائے گاسو خوشخبری ہے بیگانوں کے لئے۔
٭٭ سفیان بن وکیع، حفص بن غیاث، اعمش، ابی اسحاق ، ابی الاحوص، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسلام ابتداء میں بیگانہ تھا اور عنقریب بیگانہ ہو جائے گا سو خوشخبری ہے بیگانوں کے لئے لوگوں نے عرض کیا کہ بیگانوں سے کون مراد ہیں فرمایا جو قبیلہ سے نکال دیئے جائیں۔
فتنوں سے سلامتی کی امید کس کے متعلق کی جا سکتی ہے
حرملہ بن یحییٰ، عبد اللہ بن وہب، ابن لہیعہ، عیسیٰ بن عبد الرحمن، زید بن اسلم، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک روز مسجد نبوی کی طرف تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر مبارک کے پاس بیٹھے رو رہے ہیں فرمایا کیوں رو رہے ہو؟ میں نے ایک بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی تھی اس کی وجہ سے رو رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تھوڑی سی ریاکاری بھی شرک ہے اور جو اللہ کے کسی ولی (متبع شریعت عامل بالسنۃ) سے دشمنی کرے اس نے اللہ کو جنگ میں مقابلہ کے لئے پکارا۔ اللہ تعالی پسند فرماتے ہیں ایسے لوگوں کو جو نیک و فرماں بردار ہیں متقی و پرہیزگار ہیں اور گمنام و پوشیدہ رہتے ہیں کہ اگر غائب ہوں تو ان کی تلاش نہ کی جائے حاضر ہوں تو آؤ بھگت نہ کی جائے (ان کو بلایا نہ جائے ) اور پہچانے نہ جائیں (کہ فلاں صاحب ہیں ) ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں وہ ہر تاریک فتنہ سے صاف بے غبار نکل جائیں گے۔
٭٭ ہشام بن عمار، عبد العزیز بن محمد دراوردی، زید بن اسلم، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لوگوں کی حالت ایسی ہے جیسے سو اونٹ مگر سواری کے قابل ایک بھی نہیں (سب بے کار)۔
امتوں کا فرقوں میں بٹ جانا
ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، محمد بن عمرو، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہود اکہتر فرقوں میں بٹے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹے گی۔
٭٭ عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینار حمصی، عباد بن یوسف، صفوان بن عمرو، راشد بن سعد، حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہود کے اکہتر فرقے ہوئے ان میں ایک جنتی ہے اور ستر دوزخی ہیں اور نصاریٰ کے بہتر فرقے ہوئے ان میں اکہتر دوزخی ہیں اور ایک جنت میں جائے گا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی جان ہے میری امت کے تہتر فرقے ہوں گے ایک فرقہ جنت میں جائے گا اور بہتر دوزخی ہوں گے۔ کسی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! جنتی کون ہوں گے؟ فرمایا الْجَمَاعَۃُ۔
٭٭ ہشام بن عمار، ولید بن مسلم، ابو عمرو، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بنی اسرائیل کے اکہتر فرقے ہوئے اور میری امت کے بہتر فرقے ہوں گے سب کے سب دوزخی ہوں گے سوائے ایک کے اور وہ ایک الْجَمَاعَۃُ ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، محمد بن عمر، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ضرور تم اپنے سے پہلے کے لوگوں کی پیروی کرو گے باع در باع (دونوں ہاتھوں کی لمبائی) ہاتھ در ہاتھ اور بالشت در بالشت حتی کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی داخل ہو جاؤ گے صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول یہود و نصاریٰ؟ (کی پیروی کریں گے ) فرمایا تو اور کس کی؟
مال کا فتنہ
عیسیٰ بن حماد مصری، لیث بن سعید، سعید مقبری، عیاض بن عبد اللہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا پھر فرمایا اے لوگو خدا کی قسم مجھے تمہاری بابت کسی چیز سے اتنا اندیشہ نہیں جتنا دنیا کی رعنائیوں سے جو اللہ تعالی تمہارے لئے نکالیں گے۔ ایک مرد نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا خیر (مثلاً مال) بھی باعث شر بنتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کچھ دیر تو خاموش رہے پھر فرمایا کیا کہا کہ خیر باعث شر کیسے بنے گی؟ فرمایا خیر تو باعث خیر ہی بنتی ہے دیکھو۔ برسات جو اگاتی ہے وہ خیر ہے یا نہیں لیکن وہ مار ڈالتی ہے (جانور کو) پیٹ پھلا کر یا تخمہ کو بوجہ بدہضمی کے یا قریب المرگ کر دیتی ہے مگر جو جانور خضر (ایک عام سی قسم کا چارہ) کھاتا ہے اور اس کی کھوکھیں بھر جاتی ہیں تو سورج کے بالمقابل ہو کر پتلا پاخانہ کرتا ہے پیشاب کرتا ہے اور جگالی کرتا ہے۔ جب وہ (پہلا کھانا) ہضم ہو جائے پھر دوبارہ کھانے آتا ہے۔ بعینہ جو کوئی مال اپنے حق کے مطابق حاصل کرے گا اس کو برکت ہو گی اور جو کوئی ناحق حاصل کرے تو اس کو کبھی برکت نہ ہو گی۔ اس کی مثال (اس شخص کی سی) ہے کہ کھائے جائے پر (کبھی) سیر نہ ہو۔
٭٭ عمرو بن سواد مصری، عبد اللہ بن وہب، عمرو بن حارث، بکر بن سوادہ، یزید بن رباح، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب فارس اور روم کے خزانوں پر تمہیں فتح ملے گے تو تم کون سی قوم بن جاؤ گے؟ (کیا کہو گے ) عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا ہم وہی کہیں گے جو اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں امر فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اور کچھ نہ کہو گے؟ ایک دوسرے کے مال میں رغبت کرو گے پھر ایک دوسرے سے حسد کرو گے پھر ایک دوسرے کی طرف پشت پھیرو گے پھر ایک دوسرے سے دشمنی رکھو گے یا ایسی ہی کوئی بات فرمائی پھر مسکین مہاجروں کے پاس جاؤ گے۔
٭٭ یونس بن عبد الاعلی بصری، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، مسور بن مخرمہ، حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بنو عامر بن لوی کے حلیف تھے اور بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ شریک ہوئے تھے ان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو عبیدہ بن جراح کو بحرین بھیجا کہ جزیہ وصول کر کے لائیں اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اہل بحرین سے صلح کر کے حضرت علاء بن حضرمی کو ان کا امیر مقرر فرمایا تھا۔ چنانچہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحرین سے (جزیہ کا) مال وصول کر کے لائے تو انصار کو ان کی آمد کی اطلاع ہوئی سب (محلوں والے بھی) نماز فجر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملے جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھ کر واپس ہوئے تو یہ لوگ سامنے آ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کو دیکھ کر مسکرائے پھر فرمایا میرا خیال ہے کہ تم نے سنا کہ ابو عبیدہ بحرین سے کچھ لائے ہیں۔ عرض کیا جی ہاں اے اللہ کے رسول۔ فرمایا خوش ہو جاؤ اور امید رکھو اس چیز کی جس سے تمہیں خوشی ہو گی اللہ کی قسم مجھے تمہارے متعلق فقر سے کچھ خوف و خطر نہیں لیکن مجھے یہ خطرہ ہے کہ دنیا تم پر اسی طرح کشادہ کر دی جائے جس طرح تم سے پہلوں پر کشادہ کی گئی پھر تم بھی اس میں ایک دوسرے سے بڑھ کر رغبت کرو جیسے انہوں نے ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا رغبت کی تو دنیا تمہیں بھی ہلاک (نہ) کر ڈالے جیسے اس نے ان کو ہلاک کر دیا۔
عورتوں کا فتنہ
بشر بن ہلال صواف، عبد الوارث بن سعید، سلیمان تیمی، عمرو بن رافع، عبد اللہ بن مبارک، سلیمان تیمی، ابی عثمان نہدی، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں اپنے بعد مردوں کے لئے عورتوں سے زیادہ ضرر رساں فتنہ کوئی نہیں چھوڑ رہا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، خارجہ بن مصعب، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر صبح دو فرشتے پکارتے ہیں عورتیں مردوں کیلئے ہلاکت و بربادی ہیں عورتیں مردوں کے لئے ہلاکت و بربادی ہیں۔
٭٭ عمران بن موسیٰ لیثی، حماد بن زید، علی بن زید بن جدعان، ابی نضرہ، حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور خطبہ میں یہ بھی فرمایا دنیا سرسبز و شیریں ہے اور اللہ تعالی تمہیں دنیا میں حاکم بنانے والے ہیں پھر دیکھیں گے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو غور سے سنو دنیا سے بچتے رہنا اور عورتوں سے بچتے رہنا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، عبید اللہ بن موسی، موسیٰ بن عبیدہ، داؤد بن مدرک، عروہ بن زبیر، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ قبیلہ مزنیہ کی ایک عورت مسجد میں بناؤ سنگھار کر کے داخل ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے لوگو اپنی عورتوں کو بناؤ سنگھار کرنے سے اور مسجد میں ناز و نخرہ سے چلنے سے منع کرو کیونکہ بنی اسرائیل پر لعنت نہیں آئی تاآنکہ ان کی عورتیں زیب و زینت کا لباس پہن کر مسجدوں میں ناز نخروں سے آنے لگیں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عاصم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ایک عورت آئی جو خوشبو لگا کر مسجد جا رہی تھی فرمانے لگے اے اللہ جبار کی بندی کہاں جا رہی ہو؟ کہنے لگی مسجد۔ فرمایا مسجد (میں جانے ) کے لئے ہی خوشبو لگائی۔ کہنے لگی جی ہاں۔ فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ جو عورت بھی خوشبو لگا کر مسجد کی طرف نکلے اس کی کوئی نماز بھی قبول نہ ہو گی یہاں تک کہ نہائے (اور خوشبو کو زائل کرے )۔
سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، شریک، اعمش، ابو صالح حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس کام کا میں تمہیں حکم دوں اس کو بجا لاؤ اور جس سے روکوں اس سے رک جاؤ۔
٭٭ محمد بن صباح، جریر، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم چھوڑ دو مجھ سے وہ چیز جس کا بیان میں نے تم سے نہیں کیا کیونکہ تم سے پہلے لوگ ہلاک ہوئے ہیں اپنے نبیوں پر سوالات و اختلافات کی کثرت کے سبب اور جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو اس کو بجا لاؤ جتنی تم طاقت رکھتے ہو اور جب کسی چیز سے روکوں تو اس سے رک جاؤ۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ ، وکیع، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے فرمانبرداری کی میری اس نے اللہ کی فرمانبرداری کی اور جس نے نافرمانی کی میری اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، زکریا بن عدی، ابن مبارک، محمد بن سوقہ، ابو جعفر سے مروی ہے کہ عبد اللہ بن عمر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کوئی بات سنتے (تو بیان کرتے وقت) نہ تو اس سے بڑھاتے اور نہ اس سے کچھ کم کرتے۔
٭٭ ہشام بن عمار دمشقی، محمد بن عیسیٰ بن سمیع، ابراہیم بن سلیمان افطس، ولید بن عبد الرحمن جرشی، جبیر بن نفیر، حضرت ابو الدرداء سے مروی ہے کہ تشریف لائے ہمارے پاس جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حالانکہ ہم ذکر کر رہے تھے تنگ و دستی کا اور اس سے خوف کر رہے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم فقر سے ڈر رہے ہو قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یقیناً برسا دی جائے گی تمہارے اوپر دنیا یہاں تک کہ کجی (ٹیڑھا پن) پیدا ہو جائے گا اور ہر دل میں تھوڑی بہت جبکہ اللہ کی قسم میں تم کو ہموار میدان کی سی حالت پر چھوڑ کر جا رہا ہوں جس کے دن اور رات برابر ہیں ، فرمایا ابو الدرداء نے کہ سچ فرمایا تھا اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو چھوڑا اللہ کی قسم ایسی ہموار حالت پر جس کے دن اور رات برابر تھے۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ ، معاویہ بن قرہ ،قرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہمیشہ ایک گروہ میری امت سے اللہ کی مد د میں رہے گا نہیں نقصان پہنچاس کے گا ان کو وہ شخص جو انہیں رسوا کرنے کی کوشش کرے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے۔
٭٭ ابو عبد اللہ، ہشام بن عمار، یحیی بن حمزۃ، ابو علقمہ نصر بن علقمہ، عمیر بن اسود وکثیر بن مرۃ حضرمی،محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، معاویہ بن قرۃ، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہمیشہ ایک جماعت میری امت میں ڈٹی رہے گی اللہ کے حکم پر ان کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا جو ان کی مخالفت کرے گا۔
٭٭ ابو عبد اللہ، ہشام بن عمار، جراح بن ملیح، ہم سے بیان کیا بکر بن زرعہ نے کہ میں نے ابو عنبہ الخولانی سے سنا ہے کہ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ دونوں قبلوں کی طرف (منہ کر کے ) نماز پڑھی ہے وہ فرما رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہمیشہ اللہ تعالی دین میں ایسے پودے لگاتے رہیں گے جنہیں اپنی فرمانبرداری میں استعمال فرمائیں گے۔
٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، قاسم بن نافع، حجاج بن ارطاۃ، عمرو بن شعیب، شعیب حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ کھڑے ہوئے حضرت معاویہ خطبہ دینے کے لئے فرمایا، تمہارے علماء کہاں ہیں؟ تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے قائم ہونے تک ایک جماعت میری امت سے غالب رہے گی لوگوں پر پرواہ نہیں کریں گے اس کی جو ان کو رسوا کرے یا ان کی مد د کرے۔
٭٭ ہشام بن عمار، محمد بن شعیب، سعید بن بشیر، قتادۃ، ابو قلابہ، ابو اسماء و رحبی، ثوبان فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ہمیشہ رہے گا ایک گروہ میری امت میں سے حق پر (اللہ کی طرف سے ) مد د کئے جائیں گے ، نہیں ضرر پہنچا سکے گا ان کو جان کی مخالفت کرے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے۔
٭٭ ابو سعید عبد اللہ بن سعید، ابو خالد احمر، مجالد، شعبی حضرت جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک لکیر کھینچی دو لکیریں اس لکیر کی دائیں جانب اور کھینچی دو لکیریں اس لکیر کی بائیں جانب پھر رکھنا اپنا ہاتھ درمیان والی لکیر پر اور فرمایا یہ اللہ کا راستہ ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی، میرے راستہ سیدھا پاس اتباع کرو اس کی اور نہ پیروی کرو ایسے راستوں کی جو جدا کر دیں تمہیں اس کے راستے سے۔
حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعظیم اور اس کا مقابلہ کرنے والے پر سختی
ابو بکر بن ابی شیبہ، زید بن حباب، معاویہ بن صالح، حسن بن جابر، مقدام بن معدیکرب الکندی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ، قریب ہے کہ ایک شخص تکیہ لگائے ہوئے اپنے پلنگ پر، بیان کی جائے اس سے میری باتوں میں سے کوئی بات تو وہ کہے گا، ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ہے جو کچھ ہم پائیں گے اس میں حلال حلال جانیں گے اسی کو اور جو کچھ ہم اس میں پائیں گے حرام حرام جانیں گے اسی کو، خبردار کہ جو کچھ حرام کیا اللہ کے رسول نے اسی طرح ہے جیسے حرام کیا اللہ نے۔
٭٭ نصر بن علی جہضمی، سفیان بن عیینہ، سالم، ابو نضر، زید بن اسلم، عبید اللہ بن ابی رافع، ابو رافع سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں گا کہ تکیہ لگائے اپنے پلنگ پر بیٹھا ہو اس کو کوئی ایسا معاملہ پہنچے جس کا میں نے حکم دیا ہو جس سے میں نے روکا ہو تو وہ یوں کہے گا میں نہیں جانتا ہم نے اس کو اللہ کی کتاب میں نہیں پایا کہ اس کی اتباع کر لیں ، ہمیں جو کتاب اللہ میں ملے گا بس اس کا اتباع کریں گے۔
٭٭ ابو مروان محمد بن عثمان عثمانی، ابراہیم بن سعد بن ابراہیم بن عبد الرحمن بن عوف، ان کے والد، قاسم بن محمد، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے ہمارے دین میں ایسی بات کا اضافہ کیا جو اس میں نہیں تو اس کی بات ناقابل قبول ہے۔
٭٭ محمد بن رمح بن مہاجر مصری ، لیث بن سعد، ابن شہاب، عروۃ بن زبیر، حضرت عبد اللہ بن زبیر بیان فرماتے ہیں کہ انصار میں سے ایک صاحب نے حضرت زبیر سے حضور کے پاس حرہ کی کھال (چھوٹی نہر) کے بارے میں جھگڑا کیا جس سے وہ حضرات کھجور کے باغات سیراب کرتے تھے ، انصاری نے یوں کہا تھا کہ پانی کو کھلا چھوڑ دو تاکہ وہ چلتا رہے انہوں نے انکار کیا جھگڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پہنچا، آپ نے فرمایا زبیر تم اپنے باغ کو سیراب کرنے کے بعد بقیہ پانی اپنے پڑوسی کے لئے چھوڑ دو اس بات پر وہ انصاری غصہ میں آ گئے اور کہنے لگے کہ اس لئے کہ یہ آپ کا پھوپھی زاد بھائی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرے کا رنگ (غصہ کی وجہ سے ) متغیر ہو گیا پھر فرمایا، زبیر! اپنے باغ وغیرہ کو سیراب کرو اور اس وقت پانی روکے رکھو جب تک کہ وہ منڈیروں تک بلند نہ ہو جائے ، حضرت زبیر فرماتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی (فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا 65) 4۔ النساء:65)
٭٭ محمد بن یحییٰ نیشاپوری، عبد الرزاق، معمر، زہری، سالم، حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ کی بندیوں کو مسجد میں نماز پڑھنے سے نہ روکو۔ ان کے صاحبزادے نے کہا کہ ہم تو ان کو ضرور منع کریں گے ، اس پر حضرت ابن عمر شدید غصہ ہو گئے اور فرمایا کہ میں تجھ سے رسول اللہ کا فرمان بیان کرتا ہوں اور تو کہتا ہے کہ ہم ضرور منع کریں گے۔
٭٭ احمد بن ثابت جحدری و ابو عمرو وحفص بن عمر، عبد الوہاب ثقفی، ایوب، سعید بن جبیر حضرت عبد اللہ بن مغفل کے متعلق مروی ہے کہ ان کے پاس ان کا بھتیجا بیٹھا ہوا تھا اس نے کنکری پھینکی، انہوں نے اسے منع فرمایا اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے روکا ہے اور فرمایا کہ اس سے نہ تو شکار کیا جاتا ہے اور نہ دشمن کو زخمی کیا جا سکتا ہے (الٹا گزرنے والے کی) آنکھ پھوڑ سکتا ہے اور دانت توڑ سکتا ہے ، بھتیجے نے پھر وہی حرکت کی فرمانے لگے کہ میں تجھے بتاتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا اور تو پھر وہ کام کرتا ہے میں تجھ سے کبھی بات نہیں کروں گا۔
٭٭ ہشام بن عمار، یحییٰ بن حمزۃ، برد بن سنان، اسحاق بن قبیصہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھی حضرت عبادہ بن صامت انصاری سر زمین روم میں معاویہ کے ساتھ لڑائی میں شریک تھے انہوں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ سونے کے ٹکڑوں کو دیناروں اور چاندی کے ٹکروں کی درہموں کے بدلے میں خرید و فروخت کر رہے ہیں ، انہوں نے فرمایا کہ اے لوگوں تم سود کھا رہے ہو میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا سونا سونے کے بدلہ میں صرف برابر برابر بیچو جس میں نہ تو کمی ہو نہ زیادتی ہو اور نہ ادھار۔ معاویہ نے ان سے کہا اے ابو الولید! میرے نزدیک یہ سود نہیں ہے الا یہ کہ ادھار ہو، عبادہ نے کہا میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بات بتاتا ہوں اور آپ اپنی رائے بیان کرتے ہو۔ اگر اللہ نے مجھے یہاں سے نکلنے کا موقع دیا تو میں آپ کے ساتھ ایسی سر زمین میں نہیں ٹھہروں گا جس کے والی آپ ہوں ، پھر جب وہ لوٹے تو مدینہ منورہ آئے ، عمر بن خطاب نے ان سے پوچھا اے ابو الولید کس چیز نے آپ کو واپس کیا؟ انہوں نے پورا واقعہ بیان کیا اور اپنے ٹھہرنے کے متعلق اپنے قول کا تذکرہ کیا، عمر نے فرمایا اے ابو الولید اسی سر زمین کی طرف لوٹ جاؤ اللہ ایسی زمین کو قبیح کریں جس میں آپ نہ ہوں یا آپ جیسے نہ ہوں اور معاویہ کو خط لکھا کہ آپ کو ان پر کوئی ولایت نہیں لوگوں کو ویسا کرنے کا حکم دیں جیسا انہوں نے فرمایا ہے کیونکہ (دین کا) حکم وہی ہے۔
٭٭ ابو بکر بن خلاد باہلی، یحییٰ بن سعید، شعبہ بن عجلان، عون بن عبد اللہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ جب میں تمہیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب سے کوئی بات بتاؤں تو تم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق ایسا گمان کیا کرو جو ان کے شایان شان، صحیح اور پاکیزہ ہو (اس متن کو صرف مصنف نے روایت کیا ہے )۔
٭٭ محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید، شعبہ، عمرو بن مرۃ، ابو البختری، ابو عبد الرحمن سامی، حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ جب میں تمہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کوئی بات بتاؤں تو تم حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق ایسا گمان کیا کرو جو ان کے لائق شان درست اور پاکیزہ ہو۔
٭٭ علی بن منذر، محمد بن فضیل، مقبری، ان کے دادا، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ اس کے سامنے میری حدیث بیان کی جائے اور وہ پلنگ پر تکیہ لگائے ہوئے ہو یوں کہے کہ صرف قرآن پڑھو کیونکہ جو اچھی بات ہے وہ میری کہی ہوئی ہے۔
٭٭ محمد بن عباد بن آدم، عباد، شعبہ، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ نے ایک آدمی سے بیان فرمایا اے بھتیجے ! جب میں تم کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کوئی حدیث مبارکہ بیان کیا کروں تو تم (اس کے مقابلے میں ) لوگوں کی باتیں (قیل و قال) بیان نہ کیا کرو۔
حدیث میں احتیاط اور محافظت کے بیان میں
ابو بکر بن ابی شیبہ، معاذ بن معاذ، ابن عون، مسلم بطین، ابراہیم تمیمی، ان کے والد، عمرو بن میمون حضرت عبد اللہ بن مسعود کے متعلق حضرت عمر بن میمون فرماتے ہیں کہ بلا تکلف ہر جمعرات کی شام کو ان کی خدمت میں آتا تھا فرماتے تھے کہ میں نے کبھی ان کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یوں فرمایا ایک شام یوں کہہ دیا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر انہوں نے سر جھکا لیا میں نے ان کی طرف دیکھا تو وہ کھڑے ہوئے قمیص کے بٹن کھلے ہوئے تھے آنکھیں پھیلی ہوئی تھیں گردن کی رگیں پھول چکی تھیں اور یوں کہہ رہے تھے اس سے کم فرمایا یا اس سے زیادہ یا اس کے قریب قریب، یا اس کے مشابہ فرمایا تھا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، معاذ بن معاذ ابن عون، محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کوئی حدیث بیان فرماتے تھے تو فارغ ہونے کے بعد، او کما قال رسول اللہ کے الفاظ کہتے یعنی جس طرح فرما یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ محمد بن بشار، عبد الرحمن بن مہدی، شعبہ، عمرو بن مرۃ، عبد الرحمن بن ابی لیلی فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت زید بن ارقم سے گزارش کی ہمیں جناب رسول اللہ کی حدیث سنائیں ، انہوں نے فرمایا کہ ہم بوڑھے ہو گئے ہیں ، اور بھولنے لگے ہیں جبکہ رسول اللہ سے حدیث بیان کرنا امر شدید ہے۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، ابو نضر، شعبہ، عبد اللہ بن ابی السفر فرماتے ہیں کہ میں نے شعبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں ایک سال حضرت ابن عمر کے پاس رہا مگر کبھی انہیں حضور کی جانب سے کوئی بات کرتے ہوئے نہیں سنا۔
٭٭ عباس بن عبد العظیم عنبری، عبد الرزاق، معمر، ابن طاؤس، طاؤس فرماتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن عباس کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہم حدیث حفظ کرتے تھے اور رسول اللہ کی بات تو حفظ ہی کی جاتی ہے (یعنی آگے پہنچانے کی نیت سے ) مگر جب تم سخت اور کم زور اونٹوں پر سوار ہونے لگو (کنایہ ہے عدم احتیاط سے ) تو بعد اور دوری ہو گی۔
٭٭ احمد بن عبدۃ، حماد بن زید، مجالد، شعبی، قرظہ بن کعب فرماتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے ہمیں کوفہ کی طرف بھیجا اور ہمارے ساتھ خود بھی صرار نامی جگہ تک آئے ، پھر فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو میں تمہارے ساتھ کیوں چلا؟ ہم نے عرض کی رسول اللہ کے اصحاب اور انصار ہونے کی وجہ سے ، انہوں نے فرمایا۔ میں تمہارے ساتھ اس لئے چلا تاکہ تم سے ایک بات کہوں اور تم اپنے ساتھ میرے چلنے کا لحاظ رکھتے ہوئے اس بات کی حفاظت کرو، تم ایسی قوم کے پاس جاؤ گے جن کے سینے قرآن (کے شوق) سے ایسے ابلیں گے جیسے ہنڈیا۔ جب وہ تمہیں دیکھیں گے تو اپنی گردنیں تمہاری طرف لمبی کریں گے اور کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب آ گئے تم لوگ رسول اللہ کی جانب سے کم احادیث بیان کرنا پھر میں تمہارا شریک ہوں گا۔
٭٭ محمد بن بشار، عبد الرحمن ، حماد بن زید، یحییٰ بن سعید، سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ تک سعد بن مالک کے ساتھ رہا میں نے انہیں جناب رسول اللہ کی طرف سے ایک حدیث بھی بیان کرتے ہوئے نہیں سنا۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر عمداً جھوٹ بولنے کی شدت کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ و سوید بن سعید و عبد اللہ بن عامر بن زرارۃ و اسماعیل بن موسی، شریک، سماک، عبد الرحمن بن حضرت عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے مجھ پر جھوٹ گھڑا وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔
٭٭ عبد اللہ بن عامر بن زرارۃ واسماعیل بن موسی، شریک، منصور، ربعی ابن حراش، حضرت علی سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ، مجھ پر جھوٹ نہ گھڑو کیونکہ مجھ پر جھوٹ گھڑنے کا فعل آگ میں داخل کر دے گا۔
٭٭ محمد بن رمح مصری، لیث بن سعد، ابن شہاب، حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، جس نے مجھ پر جھوٹ بولا (میرا گمان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمداً بھی ارشاد فرمایا۔ راوی) وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔
٭٭ ابو خیثمہ زہیر بن حرب، ہشیم، ابو زبیر، حضرت جابر سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جس شخص نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جس نے مجھ پر ایسی بات کہی جو میں نے نہیں کی تھی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں کر لے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یحیی بن یعلی تیمی، محمد بن اسحاق ، معبد بن کعب، حضرت ابو قتادہ سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا اس منبر پر کہ میری جانب سے کثرت کے ساتھ احادیث روایت کرنے سے بچو۔ جو شخص مجھ پر کوئی بات کہے اسے چاہیے کہ صحیح یا سچی بات کہے اور جس نے ارادتاً مجھ پر ایسی بات کہی جو میں نے نہیں کہی تھی تو وہ اپنا ٹھکانہ آگ میں بنا لے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ ومحمد بن جعفر، شعبہ، جامع بن شداد ابی صخرۃ، عامر بن عبد اللہ بن زبیر عبد اللہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد زبیر بن العوام سے پوچھا کہ میں نے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب سے حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود اور فلاں صاحب کرتے ہیں ، انہوں نے فرمایا کہ جب سے اسلام قبول کیا ان سے جدا نہیں ہوا مگر میں نے ان سے ایک بات سن رکھی ہے (جو روایت سے مانع) آپ فرماتے تھے جس نے مجھ پر جھوٹ گھڑا اس کو چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔
٭٭ سوید بن سعید، علی بن مسہر، مطرف، عطیہ، حضرت ابو سعید سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے مجھ پر جھوٹی بات گھڑی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔
اس شخص کا بیان جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث بیان کرے یہ جانتے ہوئے کہ یہ جھوٹ ہے
ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن ہاشم، ابن ابی لیلیٰ، حکم، عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ، حضرت علی سے مروی ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے میری جانب سے کوئی بات کہی یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ جھوٹ ہے تو وہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حکم، عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ، حضرت سمرہ بن جندب سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں جس شخص نے میری طرف سے کوئی بات بیان کی یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ جھوٹ ہے تو جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے۔
٭٭ عثمان بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل، اعمش، حکم، عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ، حضرت علی سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے میری طرف سے کوئی بات کہی یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ جھوٹ ہے وہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، حبیب بن ابی ثابت، میمون بن ابی شبیب، مغیرہ بن شعبہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ نے فرمایا جس نے میری طرف سے کوئی بات بیان کی یہ جانتے ہوئے کہ وہ جھوٹ ہے تو وہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے۔
خلفاء راشدین کے طریقہ کی پیروی
عبد اللہ بن احمد بن بشیر بن ذکوان دمشقی، ولید بن مسلم، عبد اللہ بن علاء حضرت عرباض بن ساریہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے ایسا جامع وعظ کیا کہ دل کانپ اٹھے اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ، عرض کیا گیا یا رسول اللہ آپ نے ہمیں ایسی نصیحت فرمائی ہے جس طرح رخصت کرنے والا نصیحت کرتا ہے آپ ہم سے کوئی عہد لے لیں ، انہوں نے فرمایا ، اللہ کے ڈر کو مضبوطی سے پکڑو امیر کا حکم سننا اور ماننا لازم کر لو اگرچہ وہ حبشی غلام ہو۔ عنقریب تم میرے بعد سخت اختلافات دیکھو گے ، پس تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کو لازم پکڑ لینا ان کے طریقہ کو دانتوں سے پکڑ لینا بدعات سے اپنے آپ کو بچانا کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔
٭٭ اسماعیل بن بشر بن منصور و اسحاق بن ابراہیم سواق، عبد الرحمن بن مہدی، معاویہ بن صالح، ضمرۃ بن حبیب، عبد الرحمن بن عمرو سلمی، حضرت عرباض بن ساریہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں وعظ فرمایا، جس سے آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور دل کانپ اٹھے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ تو رخصت کرنے والے کی نصیحت ہے ، آپ ہم سے کسی چیز کا عہد لے لیں ، آپ نے فرمایا میں تم کو ایسی صاف ہموار زمین پر چھوڑے جا رہا ہوں جس کے دن اور رات برابر ہیں ، اس سے وہ ہٹے گا جو ہلاک ہونے والا ہو گا، جو تم میں سے زندہ رہے گا وہ عنقریب شدید اختلاف دیکھے گا تم پر میرا طریقہ اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کا طریقہ لازم ہے اس کو دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا اور تم پر اطاعت امیر لازم ہے خواہ وہ حبشی غلام ہو کیونکہ مومن نکیل ڈالے اونٹ کی طرح ہوتا ہے جیسے چلایا جاتا اطاعت کرتا ہے۔
٭٭ یحییٰ بن حکیم، عبد الملک بن صباح مسمعی، ثور بن یزید ، خالد بن معدان، عبد الرحمن بن عمرو، حضرت عرباض بن ساریہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں جامع نصیحت فرمائی اس کے بعد عرباض نے پہلی کی مثل روایت ذکر کی۔
بدعت اور جھگڑنے سے بچنے کا بیان
سوید بن سعید واحمد بن ثابت جحدری، عبد الوہاب ثقفی، جعفر بن محمد، محمد، جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطاب فرماتے تھے تو آنکھیں سرخ ہو جاتیں ، آواز بلند ہو جاتی، اور غصہ تیز ہو جاتا گویا کہ کسی لشکر سے خوف دلا رہے ہیں فرماتے تمہاری صبح ایسی ہے تمہاری شام ایسی ہے (ایسی ہو گی) اور فرماتے کہ میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں اور انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ملاتے ، پھر فرماتے اما بعد!سب سے بہتر امر اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہتر طریقہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا طریقہ ہے ، سب سے بدترین کام دین میں نئی باتوں کا پیدا کرنا ہے اور ہر نئی بات گمراہی ہے اور فرماتے تھے جس شخص نے بعد وفات مال چھوڑا وہ اس کے ورثاء کاہے اور جس نے قرض یا عیال چھوڑے وہ میرے ذمہ ہے۔
٭٭محمد بن عبید بن میمون مدنی ابو عبید، ان کے والد، محمد بن جعفر بن ابی کثیر، موسیٰ بن عقبہ، ابو اسحاق ، ابو احوص، حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دو چیزیں ہیں ایک کلام اور دوسرا طریقہ، پس سب سے بہتر کلام اللہ کا کلام ہے اور سب سے بہتر طریقہ محمد کا طریقہ ہے ، خبردار نئی نئی باتوں سے بچنا کیونکہ بدترین کام دین میں نئی چیز پیدا کرنا ہے جبکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے دھیان رکھنا کہ طویل طویل امیدیں باندھنے نہ لگ جانا مبادا کہ تمہارے دل سخت ہو جائیں خبردار وہ آنے والی (موت) قریب ہے دور تو وہ چیز ہے جو پیش آنے والی نہیں ہے ، آگاہ رہو بدبخت وہ ہے جو ماں کے پیٹ میں بدبخت ہو گیا اور خوش بخت وہ ہے جو اپنے غیر سے نصیحت حاصل کرے ، خبردار مومن مسلمان کے ساتھ قتال کفر ہے اور اس کو گالی دینا فسق ہے کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے آگاہ رہو اپنے آپ کو جھوٹ سے بچاؤ کیونکہ جھوٹ نہ سنجیدگی کی حالت میں جائز ہے نہ ہنسی مذاق میں کوئی شخص اپنے بچے سے ایسا وعدہ نہ کرے کہ پھر اسے پورا نہ کرے کیونکہ جھوٹ نافرمانی تک لے جاتا ہے اور نافرمانی جہنم تک لے جاتی ہے اور سچ نیکی تک لے جاتا ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے اور سچے شخص کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے سچ کہا بھلائی کی جبکہ جھوٹے کے لئے کہا جاتا ہے کہ اسے جھوٹ بولا اور نافرمانی کی ، خبردار بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں جھوٹا لکھا جاتا ہے۔
٭٭ محمد بن خالد بن خداش، اسماعیل بن علیہ، ایوب احمد بن ثابت جحدری و یحییٰ بن حکیم، عبد الوہاب، ایوب ، عبد اللہ بن ابی ملیکہ، حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آیت (ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ۭ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِیْلِہٖڅ وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللّٰہُ ڤ وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖۙ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۚ وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ ) 3۔ آل عمران:7) اللہ وہ ذات ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر کتاب نازل کی بعض آیات ان میں سے محکمات ہیں وہ ام الکتاب ہیں اور دوسری آیات ان میں متشابہات ہیں تلاوت فرمائی اور ارشاد فرمایا اے عائشہ جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو آیات متشابہات میں جھگڑ رہے ہیں تو سمجھ لو یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ نے مراد لئے ہیں ان سے بچنا۔
٭٭ علی بن منذر، محمد بن فضیل حوثرۃ بن محمد، محمد بن بشر، حجاج بن دینار، ابو طالب، حضرت ابو امامہ بیان فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی قوم ہدایت ملنے کے بعد گمراہ نہیں ہوئی مگر وہ جو جھگڑے میں مبتلا کئے گئے پھر آپ نے یہ آیت مبارک تلاوت فرمائی ( بَلْ ہُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ) 43۔ الزخرف:58)۔
٭٭ داؤد بن سلیمان عسکری، محمد بن علی ابو ہاشم بن ابی خداش موصلی، محمد بن محصن، ابراہیم بن ابی عبلہ، عبد اللہ بن دیلمی، حضرت حذیفہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ صاحب بدعت کا اللہ تعالی روزہ، نماز، صدقہ، حج، عمرہ، جہاد، فرض، نفل (غرض کوئی بھی نیک عمل) قبول نہیں فرماتے وہ اسلام سے اس طرح نکل جاتا ہے جس طرح بال آٹے سے نکل جاتا ہے۔
٭٭ عبد اللہ بن سعید، بشر بن منصور خیاط، ابو زید، ابو مغیرۃ، حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ اس وقت بدعتی کے عمل کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں جب تک کہ وہ بدعت نہ چھوڑ دے۔
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی و ہارون بن اسحاق ، ابن ابی فدیک، سلمہ بن وردان، حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص جھوٹ کو باطل سمجھ کر ترک کر دے اس کے لئے اطراف جنت میں محل تیار کیا جائے گا اور جو جھگڑے کو چھوڑ دے گا درآنحالیکہ وہ حق پر ہو اس کے لئے وسط جنت میں محل بنایا جائے گا اور جو اپنے اخلاق اچھے کرے گا اس کے لئے جنت کے اعلی درجہ میں محل تیار کیا جائے گا۔
(دین میں ) عقل لڑانے سے احتراز کا بیان
ابو کریب، عبد اللہ بن ادریس وعبدۃ و ابو معاویہ و عبد اللہ بن نمیر و محمد بن بشر سوید بن سعید، علی بن مسہر و مالک بن انس و حفص بن میسرۃ شعیب بن اسحاق، ہشام بن عروۃ، عروۃ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی علم کو انتزاعاً قبض نہیں کریں گے کہ اسے لوگوں سے چھین لیا جائے بلکہ علماء کو قبض کرنے کے ساتھ علم قبض فرمائیں گے جس کسی عالم کو اللہ باقی نہیں رکھے گا تو لوگ جہلاء کو سردار مان لیں گے ان جہلاء سے سوالات کئے جائیں گے وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے خود بھی گمراہ اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن یزید ، سعید بن ابی ایوب، ابو ہانی حمید بن ہانی خولانی، ابو عثمان مسلم بن یسار، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو بغیر ثبوت کے فتوی دیا جائے اس کا گناہ اس پر جس نے اس کو فتوی دیا۔
٭٭ محمد بن علاء ہمدانی، رشدین بن سعدو جعفر بن عون، ابن انعم افریقی، عبد الرحمن بن رافع، حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ نے ارشاد فرمایا علم تین طرح کے ہیں جو ان کے علاوہ ہے وہ زائد ہے ایک آیت محکم دوسرے سنت متناولہ تیسرے میراث کے احکام۔
٭٭ حسن بن حماد، سجادۃ، یحییٰ بن سعید اموی، محمد بن سعید بن حسان، عبادۃ بن نسی، عبد الرحمن بن غنم، حضرت معاذ بن جبل بیان فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا تو ارشاد فرمایا ، صرف اسی کے مطابق فیصلہ کرنا ، جتنا تم جانتے ہو جس چیز میں تمہیں اشکال واقع ہو جائے تو وقوف کرنا (یعنی تحقیق کرنا) یہاں تک کہ معاملہ کو واضح کر لو یا اس کے بارے میں مجھے لکھ دو۔
٭٭ سوید بن سعید، ابن ابی رجال، عبد الرحمن عمرو اوزاعی، عبدۃ بن ابی لبابہ، عبد اللہ بن عمر بن العاص فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا بنی اسرائیل کا معاملہ درست چلتا رہا، یہاں تک کہ ان میں قیدی عورتوں کی اولاد پھل پھول گئی انہوں نے اپنی رائے سے (اس اولاد کے متعلق) فتوی دینا شروع کر دئیے خود بھی گمراہ ہوئے اوروں کو بھی گمراہ کیا۔
ایمان کا بیان
علی بن محمد طنافسی، وکیع، سفیان، سہیل بن ابی سالح، عبد اللہ بن دینار، ابو صالح حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایمان کے کچھ اوپر ساٹھ یا ستر باب ہیں سب سے کم تکلیف دہ چیز کا راستہ سے ہٹانا ہے اور سب سے زیادہ اور ارفع لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ کا کہنا ہے اور حیا (بھی) ایمان کا حصہ ہے۔
٭٭ سہل ابن ابی سہل و محمد بن عبد اللہ بن یزید، سفیان، زہری، سالم، حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو سنا جو اپنے بھائی کو حیا کے ترک کی نصیحت کر رہا تھا آپ نے فرمایا حیا تو ایمان کا حصہ ہے۔
٭٭ سوید بن سعید، علی بن مسہر، اعمش۔ علی بن میمون رقی، سعید بن مسلمہ، اعمش، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبد اللہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا، جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر موجود ہے اور جہنم میں وہ شخص بھی داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے برابر بھی ایمان ہے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، معمر، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب اللہ مومنین کو آگ سے خلاصی دے گا اور وہ مامون ہو جائیں گے تو تم میں سے کوئی دنیا میں اس طرح اپنے ساتھی کے لئے حق کے بارے میں اس طرح نہ جھگڑا ہو گا جس طرح مومنین اپنے پروردگار سے اپنے ان بھائیوں کے بارے میں جھگڑیں گے جو آگ میں داخل کئے جا چکے ہیں ، ہمارے بھائی ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے ، روزے رکھتے تھے ، حج کرتے تھے ، آپ نے ان کو جہنم میں کیوں داخل کیا اللہ تعالی فرمائیں گے جاؤ اور جن کو تم ان میں پہچانتے ہو نکال لو، وہ ان کے پاس آئیں گے اور ان کو ان کی شکلوں سے پہچان لیں گے آگ نے ان کی صورتوں کو نہ کھایا ہو گا بعض ان میں سے وہ ہوں گے جن کو آگ نے نصف پنڈلی تک پکڑ رکھا ہو گا بعض وہ ہوں گے جن کو گھٹنے تک پکڑا ہو گا، وہ مومنین ان کو نکال لیں گے وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم نے ان کو نکال لیا جن کا تو نے حکم دیا تھا ، پھر اللہ فرمائیں گے اس کو بھی نکال لو جس کے دل میں دینار کے وزن کے برابر ایمان ہے پھر فرمائیں گے اس کو بھی نکال لو جس کے دل میں نصف دینار کے برابر وزن کے ایمان ہے ، پھر فرمائیں گے اس کو بھی نکال لو جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہے جو اس کو سچ نہ جانے وہ قرآن کی یہ آیت پڑھ لے (اِنَّ اللّٰہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ ۚ وَاِنْ تَکُ حَسَنَۃً یُّضٰعِفْھَا وَیُؤْتِ مِنْ لَّدُنْہُ اَجْرًا عَظِیْمًا) 4۔ النساء:40)
٭٭ علی بن محمد، وکیع، حماد بن نجیح، ابو عمران جونی، حضرت جندب بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ ہم نوجوانی کی حالت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رہے ہم نے ایمان سیکھ لیا قبل اس کے قرآن سیکھیں پھر ہم نے قرآن سیکھا اس کی وجہ سے ہم ایمان میں بڑھ گئے۔
٭٭ علی بن محمد، محمد بن فضیل، علی بن نزار، عکرمہ، حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس امت کے دو گروہوں کے لئے اسلام میں کوئی حصہ نہیں ایک مرجیہ اور دوسرا قدریہ۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، کہمس بن حسن، عبد اللہ بن بریدہ، یحییٰ بن یعمر، حضرت عمر فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے ایک آدمی انتہائی سفید کپڑوں اور خوب سیاہ بالوں والا آیا اس پر سفر کا کچھ اثر محسوس نہیں ہوتا تھا اور نہ ہم میں سے کوئی اس کو جانتا تھا، عمر فرماتے ہیں کہ وہ شخص حضور کے سامنے بیٹھ گیا اپنے گھٹنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھٹنوں سے ملا دئیے اور اپنے ہاتھ زانوں پر رکھ لیے پھر کہنے لگا اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسلام کیا؟ آپ نے فرمایا ، لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّہِ کی گواہی دینا ، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا ، رمضان کے روزے رکھنا، بیت اللہ کا حج کرنا اس شخص نے کہا آپ نے سچ کہا عمر فرماتے ہیں کہ ہمیں اس سے تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی تصدیق کرتا ہے پھر اس نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایمان کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ تو اللہ پر اس کے فرشتوں پر اس کی نازل کردہ کتابو ں پر اس کے رسولوں پر آخرت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لائے اس شخص نے کہا آپ نے سچ فرمایا حضرت عمر فرماتے ہیں کہ ہمیں تعجب ہوا سوال بھی خود کرتا ہے اور جواب کی تصدیق بھی خود کرتا ہے پھر اس نے کہا اے محمد احسان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے (اور اس سے کم درجہ یہ ہے ) کہ اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے اس نے سوال کیا، قیامت کب آئے گی۔ آپ نے فرمایا جس سے سوال کیا گیا وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ اس نے کہا اس کی علامات کیا ہیں ، آپ نے جواب دیا یہ کہ لونڈی اپنے سردار کو جنے گی (وکیع کہتے ہیں مراد یہ ہے کہ عجمی باندیاں عربوں کی اولاد جنیں ) اور یہ کہ تو دیکھے ننگے جسم ، ننگے پاؤں چرواہوں کو کہ وہ تفاخر کریں بڑے بڑے محلات بنانے میں ، عمر فرماتے ہیں پھر آپ مجھے تین دن بعد ملے اور فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ یہ آدمی کون تھا؟ میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں آپ نے فرمایا وہ جبرائیل تھے تم کو تمہارے دین کی باتیں سکھانے آئے تھے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، ابو حیان، ابو زرعہ، ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ ایک دن لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھے ہوئے تھے ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ کہ تو اللہ اور اس کے فرشتوں اس کی کتابو ں اس کے رسولوں اور اس کی ملاقات پر ایمان لائے اور قیامت کے دن زندہ ہونے پر ایمان لائے اس نے عرض کی یا رسول اللہ سلام کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا، یہ کہ تو اللہ کی عبادت کرے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے ، فرض نماز کو قائم کرے ، فرض کی گئی زکوٰۃ ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے اس نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم احسان کیا ہے آپ نے فرمایا کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے ، اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قیامت کب واقع ہو گی؟ آپ نے فرمایا پوچھے جانے والے کو پوچھنے والے سے زیادہ معلوم نہیں ہے ، لیکن میں تم سے اس کی علامات بیان کر دیتا ہوں جب لونڈی اپنی سیدہ کو جنے تو یہ اس کی علامت ہے اور جب بکریوں چرانے والے عمارتوں میں تفاخر کرنے لگیں تو یہ اس کی علامات میں سے ہے ، (قیامت کا علم) ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کو سوائے اللہ تعالی کے کوئی نہیں جانتا پھر آپ نے یہ آیات تو تلاوت فرمائی (ِنَّ اللَّہَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّہَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ )
٭٭ سہل بن ابی سہل و محمد بن اسماعیل، عبد السلام بن صالح ابو الصلت ہدوی، علی بن موسیٰ الرضاء، موسیٰ الرضاء، جعفر بن محمد، محمد، علی بن حسین، حسین حضرت علی بن طالب سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایمان معرفت قلب کا نام ہے زبان سے کہنے اور اعضاء سے عمل کرنے کا نام ہے۔
٭٭ محمد بن بشار و محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، قتادۃ، حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لئے (راوی فرماتے ہیں کہ یا اپنے پڑوسی کے لئے ) بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔
٭٭ محمد بن بشار و محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادۃ، حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہو جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے بچے والد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع و ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایمان لے آؤ اور تم ایمان والے نہیں ہو سکتے جب تک آپس میں محبت نہ کرنے لگو تو کیا میں تم کو ایسی چیز پر دلالت نہ کر دوں جب تم اس کو کرو گے آپس میں محبوب ہو جاؤ گے۔ اپنے درمیان سلام کو پھیلاؤ۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، عفان، شعبہ، اعمش، ہشام بن عمار، عیسیٰ بن یونس، اعمش، ابو وائل، حضرت عبد اللہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ، مسلمان کو گالی دینا گناہ اور اس کے ساتھ لڑنا کفر ہے۔
٭٭ نصر بن علی جہضمی، ابو احمد ابو جعفر رازی، ربیع ابن انس، حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو دنیا سے اس حال میں جدا ہو کہ ایک اللہ کے لئے اخلاص کرنے والا اور اس کا شریک ٹھہرائے بغیر اس کی عبادت کرنے والا ہو اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے پر دنیا سے جدا ہو تو وہ اس حال میں مرا کہ اللہ اس سے راضی ہوں گے۔ حضرت انس فرماتے ہیں وہ اللہ کا دین جس کو رسول اللہ لے کر آئے اور اپنے پروردگار کی طرف سے اس کو پہنچا دیا باتوں کے پھیل جانے اور خواہشات کے مختلف ہو جانے سے پہلے۔ اور اس کی تصدیق کتاب اللہ کے اس حصہ میں ہے جو آخر میں نازل ہوا اللہ فرماتے ہیں (فَإِنْ تَابُوا) حضرت انس فرماتے ہیں مراد بتوں اور ان کی عبادت کا چھوڑنا ہے (فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ ۭوَنُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ) 9۔ التوبہ:11) دوسری آیت میں فرمایا کہ اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔ ابو حاتم فرماتے ہیں حضرت ربیع بن انس کے واسطہ سے بھی اسی طرح منقول ہے۔
٭٭ احمد بن الازہر، ابو النصر، ابو جعفر، یونس، حسن، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ اور میرے رسول ہونے کی گواہی دیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔
٭٭ احمد بن ازہر، محمد بن یوسف، عبد الحمید بن بہرام، شہر بن حوشب، عبد الرحمن بن غنم، حضرت معاذ بن جبل سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ کی اور میرے رسول ہونے کی گواہی دیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔
٭٭ محمد بن اسماعیل رازی، یونس بن محمد، عبد اللہ بن محمد لیثی، نزار بن حیان، عکرمہ، حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری امت کے دو گروہ ایسے ہیں جن کے لئے اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے ایک اہل رجاء دوسرے اہل قدر۔
٭٭ ابو عثمان بخاری سعید بن سعد، ہیثم بن خارجہ، اسماعیل بن عیاش، عبد الوہاب بن مجاہد، حضرت ابو ہریرہ سے اور حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایمان بڑھتا اور کم ہوتا ہے۔ یہ حدیث ضعیف ہے۔
٭٭ ابو عثمان بخاری، ہیثم، اسماعیل، جریر بن عثمان ، حارث، مجاہد، حضرت ابو الدرداء سے مروی ہے کہ ایمان بڑھتا اور کم ہوتا ہے۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع و محمد بن فضیل و ابو معاویہ، علی بن میمون رقی، ابو معاویہ و محمد بن عبید، اعمش، زید بن وہب، عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ نے بیان فرمایا اور وہ سچے اور تصدیق کئے گئے ہیں کہ تم میں سے ہر ایک کا مادہ تخلیق ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک رکھا جاتا ہے پھر جمے ہوئے خون کی شکل اختیار کرتا ہے اسی مدت تک پھر گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے اسی مدت تک پھر اللہ اس کی طرف ایک فرشتے کو بھیجتے ہیں جس کو چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے اللہ فرماتے ہیں کہ اس کا عمل ، عمر ، رزق، اور بدبخت ہونا یا خوش بخت ہونا لکھ دو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کوئی اہل جنت کے سے عمل کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو لکھا ہوا اس پر سبقت کر جاتا ہے ، اور وہ اہل جہنم کا سا عمل کرتا ہے اور اس میں داخل ہو جاتا ہے اور کوئی اہل جہنم کے سے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو لکھا ہوا اس پر سبقت کر جاتا ہے اور وہ اہل جنت کا سا عمل کر لیتا ہے جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔
٭٭ علی بن محمد، اسحاق بن سلیمان، ابو سنان، وہب بن خالد حمصی، حضرت ابن دیلمی فرماتے ہیں کہ میرے جی میں تقدیر کے بارے میں کچھ شبہات پیدا ہوئے مجھے ڈر ہوا کہ کہیں مجھ پر دین اور معاملہ یہ خیالات بگاڑ نہ دیں۔ میں ابی بن کعب کے پاس آیا اور عرض کی ، اے ابو المنذر، میرے دل میں تقدیر کے بارے میں کچھ شبہات پیدا ہوئے ہیں مجھے اپنے دین اور معاملہ کے خراب ہونے کا ڈر ہوا ہے مجھے تقدیر کے متعلق کوئی حدیث بیان کریں ممکن ہے اللہ مجھے اس سے کوئی نفع دے ، انہوں نے بیان کیا اگر اللہ ہل سماء و ارض کو عذاب دینا چاہے تو عذاب دے سکتے ہیں ، تب بھی وہ ان پر ظلم کرنے والا نہیں ہے اور اگر ان پر رحم کرنا چاہیں تو اس کی رحمت ان کے لئے ان کے عملوں سے بہتر ہو گی، اور اگر تیرے پاس مثل احد پہاڑ کے سونا ہو یا مثل احد پہاڑ کے مال ہو اور تو اسے اللہ کے راستہ میں خرچ کر دے تو وہ تیری طرف سے قبول نہیں کیا جائے گا یہاں تک کہ تو تقدیر پر ایمان لے آئے ، پس جان لے کہ جو مصیبت تجھے پہنچی تجھ سے ٹلنے والی نہیں تھی اور جو مصیبت تجھ سے ٹل گئی وہ تجھے پہنچنے والی نہیں تھی، اگر تو اس یقین کے علاوہ کسی اور یقین پر مر گیا تو جہنم میں داخل ہو گا۔ تجھ پر کوئی حرج نہیں کہ تو میرے بھائی عبد اللہ بن مسعود کے پاس جائے اور ان سے سوال کرے ، میں عبد اللہ بن مسعود کے پاس آیا اور ان سے سوال کیا انہوں نے ابی بن کعب کی طرح فرمایا اور مجھ سے کہا کہ کوئی حرج نہیں کہ تم حذیفہ کے پاس جاؤ اور سوال کرو میں حذیفہ کے پاس آیا اور ان سے سوال کیا انہوں نے اسی طرح کہا جیسے عبد اللہ نے کہا تھا اور فرمایا کہ زید بن ثابت کے پاس جاؤ میں زید بن ثابت کے پاس آیا اور ان سے سوال کیا انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ، اگر اللہ ہل سماء و ارض کو عذاب دینا چاہیں تو وہ ان کو عذاب دے سکتے ہیں تب بھی وہ ان پر ظلم کرنے والے نہیں ہیں ، اور اگر ان پر رحم کرنا چاہیں تو اس کی رحمت ان کے لئے ان کے عملوں سے بہتر ہو گی اور اگر تیرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہے یا احد پہاڑ کے برابر مال ہے اور تو اس کو اللہ کے راستے میں خرچ کر دے وہ تیری جانب سے قبول نہیں کیا جائے گا حتی کہ تو تقدیر پر ایمان لے آئے ، جان لے کہ جو مصیبت تجھے پہنچی ہے وہ تجھ سے ٹلنے والی نہیں تھی، اور جو مصیبت تجھے نہیں پہنچی وہ تجھ کو پہنچنے والی نہیں تھی، اور اگر تو اس کے علاوہ کسی اور عقیدہ پر مر گیا تو جہنم میں داخل ہو گیا۔
٭٭ عثمان بن ابی شیبہ، وکیع ، علی بن محمد، ابو معاویہ، وکیع، اعمش، سعد بن عبیدۃ، ابو عبد الرحمن سلمی، حضرت علی فرماتے ہیں کہ ہم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ زمین کرید رہے تھے ، پھر آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک کا جنت یا جہنم میں ٹھکانہ لکھا جا چکا ہے ، عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم اسی پر تکیہ نہ کر لیں (اور عمل چھوڑ دیں ) آپ نے فرمایا نہیں بلکہ عمل کرتے رہو اور تکیہ کر کے نہ بیٹھے رہو ہر ایک کے لئے وہ چیز آسان کر دی ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے پھر آپ نے پڑھا، مگر جس نے مال دیا اور اللہ سے ڈرا اور اچھائی کی تصدیق کی تو آسان کر دیں گے ہم اس کے واسطے آسانی کر دیں گے اور جس نے بخل کیا اور لاپرواہی کی اور اچھائی کی تکذیب کی تو آسان کر دیں گے ہم اس کی مشکلات کے لئے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد طنافسی، عبد اللہ بن ادریس، ربیعہ بن عثمان، محمد بن یحییٰ بن حبان، اعرج، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک تندرست مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن سے زیادہ پسندیدہ اور بہتر ہے ہر چیز میں بھلائی طلب کر جو تجھے نفع دے اس میں رغبت کر اور اللہ سے مد د مانگ اور دل نہ ہار اگر تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو یوں نہ کہہ اگر میں اس اس طرح کر لیتا بلکہ یہ کہہ کہ جو اللہ نے مقدر کر دیا اور جو اس نے چاہا کیا ، کیونکہ، لفظ اگر، شیطان کا کام شروع کرا دیتا ہے۔
٭٭ ہشام بن عمار و یعقوب بن حمید بن کاسب، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، طاؤس، حضرت ابو ہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے خبر دیتے ہیں فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آدم اور موسیٰ میں بات ہوئی ، موسیٰ نے فرمایا اے آدم، آپ ہمارے باپ ہیں آپ نے ہمیں رسوا کیا اور اپنے گناہ کی وجہ سے جنت سے نکال دیا، آدم نے کہا اے موسیٰ اللہ نے آپ کو اپنے کلام کے لئے منتخب فرمایا اور اپنے دست قدرت سے تورات تحریر کی تم مجھے ایسے معاملہ پر ملامت کرتے ہو جو اللہ نے میری تخلیق سے چالیس سال قبل میرے لئے مقدر فرما دیا تھا، (اسی طرح) آدم موسیٰ پر غالب آ گئے۔ آدم موسیٰ پر غالب آ گئے۔ آدم موسیٰ پر غالب آ گئے۔
٭٭ عبد اللہ بن عامر ابن زرارۃ، شریک، منصور، ربعی، حضرت علی سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، کوئی بندہ اس وقت تک ایمان والا نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ ایمان لائے چار چیزوں پر اللہ وحدہ لا شریک پر اور میرے رسول ہونے پر، موت کے بعد زندہ ہونے پر اور تقدیر پر۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، طلحہ بن یحییٰ بن طلحہ بن عبید اللہ، عائشہ بنت طلحہ، ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ کو ایک انصار کے لڑکے کے جنازے پر بلایا گیا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنت کی چڑیوں میں سے اس چڑیا کے لئے خوشخبری ہے اس نے برا کام نہیں کیا اور نہ اس سے گناہ ہوا آپ نے فرمایا اس کے علاوہ کچھ کہو، عائشہ اللہ نے جنت کے لئے اہل تخلیق فرما لئے ہیں ، جن کو اس نے جنت کے لئے پیدا فرمایا ہے ، جس وقت وہ اپنے باپوں کی پشتوں میں تھے ، اور آگ کے لئے بھی اہل پیدا فرمائے ہیں جب وہ اپنے باپوں کی پشتوں میں تھے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، سفیان ثوری، زیاد بن اسماعیل مخزومی، محمد بن عباد بن جعفر، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس قریش کے مشرکین تقدیر کے مسئلہ میں جھگڑے کے لئے آئے ، تو یہ آیت نازل ہوئی، جس دن وہ آگ میں ڈالے جائیں گے اپنے چہروں کے بل، چکھو جہنم کا لمس، ہم نے ہر چیز کو انداز سے پیدا فرمایا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، مالک بن اسماعیل، یحییٰ بن عثمان، مولی ابی بکر، یحییٰ بن عبد اللہ بن ابی ملیکہ، حضرت ابو ملیکہ حضرت عائشہ کے پاس آئے اور ان سے تقدیر کے متعلق کچھ اشکال ذکر کیے ، انہوں نے فرمایا میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سنا، آپ نے فرمایا جس نے تقدیر میں کسی قسم کا کلام کیا اس سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا اور جس نے اس قسم کا کلام نہیں کیا اس سے اس کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا۔
٭٭ علی بن محمد، ابو معاویہ، داؤد بن ابی ہند، حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد کے واسطہ سے ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے اصحاب کے پاس آئے وہ تقدیر کے متعلق جھگڑ رہے تھے ، غصہ کی وجہ سے یوں محسوس ہوا کہ آپ کے چہرے میں انار کے دانے نچوڑ دئیے گئے ہوں ، فرمایا کیا تمہیں اس کا حکم دیا گیا ہے یا تم اس چیز کے لئے پیدا کئے گئے ہو، تم قرآن کے ایک حصے کو دوسرے حصے کے مقابلہ میں بیان کرتے ہو اسی کام کے سبب تم سے پہلی امتیں ہلاک ہوئیں ، راوی کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں میں نے کسی مجلس کے بارے میں اتنا نہیں چاہا کہ میں اس سے بچا رہوں ، جتنا اس مجلس کے متعلق چاہا (تا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ناراضگی سے بچتا۔ )
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، یحییٰ بن ابی حیۃ ابو حناب کلبی، ابو حیۃ ابو حناب کلبی، حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، چھوت کی کوئی حقیقت نہیں ، بدفالی کی کوئی حقیقت نہیں ، ہامہ کی کوئی حقیقت نہیں ، ایک بدوی شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا آپ کو معلوم ہے کہ جس اونٹ کو خارش لگی ہو وہ تمام اونٹوں کو خارش لگا دیتا ہے ، آپ نے فرمایا یہ تقدیر ہے ورنہ پہلے کو کس نے خارش لگائی۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع و ابو معاویہ و عبد اللہ بن نمیر، اعمش، عدی بن ثابت، زر بن حبیش، حضرت علی بیان فرماتے ہیں کہ نبی امی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے عہد لیا تھا کہ مجھ سے مومن ہی محبت کرئے گا اور منافق مجھ سے بغض رکھے گا۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، سعد بن ابراہیم، ابراہیم بن سعد بن ابی وقاص، حضرت ابو وقاص سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی سے فرمایا کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تم میرے نزدیک ایسے ہی ہو جیسے حضرت ہارون حضرت موسیٰ کے نزدیک۔
٭٭ علی بن محمد، ابو الحسین، حماد بن سلمہ، علی بن زید بن جدعان، عدی بن ثابت، براء بن عازب فرماتے ہیں کہ ہم اس حج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے جو رسول اللہ نے کیا۔ آپ راستے میں کسی جگہ اترے ، نماز کا حکم دیا، پھر علی کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کیا میں ایمان والوں کے نزدیک ان کی جانوں سے زیادہ محبوب نہیں ہوں؟ لوگوں نے عرض کیا کیوں نہیں۔ فرمایا علی ہر اس شخص کے دوست ہیں جو مجھے دوست رکھتا ہے۔ اے اللہ تو اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھتا ہے۔
٭٭ عثمان بن ابی شیبہ، وکیع، ابن ابی لیلی، حکم، عبد الرحمن بن ابی لیلی، عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ ابو لیلیٰ علی کے ساتھ رات کو گفتگو کر رہے تھے اور علی گرمیوں والے کپڑے سردیوں میں پہنے ہوئے تھے اور سردیوں والے گرمیوں میں۔ ہم نے کہا آپ ان سے پوچھیں۔ علی نے فرمایا کہ نبی نے مجھے خیبر کے دن بلا بھیجا میری آنکھیں دکھ رہی تھیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری آنکھوں میں تکلیف ہے۔ آپ نے میری آنکھوں پر اپنا لعاب لگایا پھر فرمایا۔ اے اللہ اسے گرمی اور سردی سے بچانا۔ علی فرماتے ہیں کہ اس دن کے بعد میں نے سردی اور گرمی کو محسوس نہیں کیا۔ اور نبی نے فرمایا میں ایسے شخص کو بلاؤں گا جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب رکھتا ہے ، اور اللہ اور اس کا رسول بھی اسے محبوب رکھتے ہیں ، وہ لڑائی سے بھاگنے والا نہیں ہے ، لوگ اشتیاق سے انتظار کرنے لگے ، آپ نے علی کو بلا بھیجا اور جھنڈا ان کو عطا کیا۔
٭٭ محمد بن موسیٰ واسطی، معلی بن عبد الرحمن ، ابن ابی ذئب، نافع، حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حسن اور حسین اہل جنت کے نوجوانوں کے سردار ہوں گے اور ان کے والد ان دونوں سے بہتر ہے۔ معلی بن عبد الرحمن واسطی کی طرح ہیں۔ ابن معین فرماتے ہیں کہ معلی نے علی کی فضیلت میں ساٹھ حدیثیں گھڑنے کا اعتراف کیا ہے۔ یہ سند ضعیف ہے اور اس کی اصل ترمذی میں ہے اور نسائی میں حضرت حذیفہ کی حدیث سے ہے جو، أَبُوہُمَا خَیْرٌ مِنْہُمَا، کے بغیر ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ وسوید بن سعید واسماعیل بن موسی، شریک، ابو اسحاق ، حبشی بن جنادہ سے بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔
٭٭ محمد بن اسماعیل رازی، عبید اللہ بن موسی، علاء بن صالح، منہال، عباد بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ حضرت علی نے بیان فرمایا میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسول کے بھائی ہوں۔ میں سب سے بڑھ کر سچا ہوں اس بات کو میرے بعد سوائے جھوٹے کے کوئی نہیں کہے گا۔ میں نے اور لوگوں سے سات سال پہلے نماز پڑھی (یعنی میں سب سے پہلے اسلام لایا۔ )
٭٭ علی بن محمد، ابو معاویہ، موسیٰ بن مسلم، ابن سابط عبد الرحمن، عبد الرحمن بن سباط سعد بن ابی وقاص کے واسطہ سے فرماتے ہیں کہ معاویہ کسی حج کے موقع پر تشریف لائے۔ سعد ان کے پاس تھے انہوں نے حضرت علی کا تذکرہ کیا۔ معاویہ نے ان کے بارے میں کچھ کہا، سعد غصے میں آ گئے اور فرمایا تم اس شخص کے متعلق کہتے ہو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کے دوست ہیں اور یہ تم میرے نزدیک ایسے ہی ہو جیسے ہارون، موسیٰ کے نزدیک۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں آج جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب رکھتا ہے۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، محمد بن منکدر، حضرت جابر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یوم قریظہ کے موقع پر، کون ہمیں قوم مشرکین کے متعلق خبر دے گا؟ حضرت زبیر نے کہا کہ میں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کون ہمیں قوم کے متعلق خبر دے گا۔ حضرت زبیر نے کہا کہ میں ، ایسا تین مرتبہ ہوا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے میرے حواری زبیر ہیں۔
٭٭ علی بن محمد، ابو معاویہ، ہشام بن عروۃ، عرۃ، حضرت زبیر فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے لئے (دعا میں ) اپنے والدین کو جمع فرمایا احد کے موقع پر۔
٭٭ ہشام بن عمار و ہدیہ بن عبد الوہاب، سفیان بن عیینہ، ہشام بن عروۃ اپنے والد کے واسطہ سے فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عائشہ نے فرمایا، اے عروۃ، تمہارے باپ (دادا اور نانا) ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے تکلیف اٹھانے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کی پکار کا جواب دیا (احد کے موقع پر) یعنی ابو بکر اور زبیر۔
٭٭ علی بن محمد و عمرو بن عبد اللہ اودی، وکیع، صلت الزدی، ابو نضرۃ، حضرت جابر سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سے طلحہ گزرے ، آپ نے فرمایا یہ ایسے شہید ہیں جو زمین پر چل پھر رہے ہیں۔
٭٭ احمد بن ازہر، عمرو بن عثمان، زہیر بن معاویہ، اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ، حضرت معاویہ بن ابی سفیان سے مروی ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت طلحہ کی طرف دیکھا اور فرمایا یہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔
٭٭ احمد بن سنان، یزید بن ہارون، اسحاق ، حضرت موسیٰ بن طلحہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت معاویہ کے پاس تھے انہوں نے فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ طلحہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی ذمہ داری کو پورا کر دیا۔
٭٭ علی بن محمد وکیع، اسماعیل، حضرت قیس فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت طلحہ کے شل ہاتھ کو دیکھا جس کے ساتھ انہوں نے احد کے موقع پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حفاظت کی تھی۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، سعد بن ابراہیم، عبد اللہ بن شداد، حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں نے سوائے سعد کے کسی کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو (دعا) میں اپنے والدین کو جمع کرتے ہوئے نہیں دیکھا، ان سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احد کے موقع پر فرمایا۔ تیر پھینکو سعد میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔
٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد ، ہشام بن عمار، حاتم بن اسماعیل و اسماعیل بن عیاش، یحییٰ بن سعید، حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعد کو فرماتے ہوئے سنا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احد کے موقع پر میرے لئے دعا میں اپنے والدین کو جمع کیا اور فرمایا سعد تیر پھینکو میرے ماں باپ آپ پر قربان۔
٭٭ علی بن محمد، عبد اللہ بن ادریس ویعلی و وکیع، اسماعیل، حضرت قیس فرماتے ہیں کہ میں نے سعد بن ابی وقاص کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں پہلا عرب ہوں جس نے اللہ کے راستہ میں تیر پھینکا۔
٭٭ مسروق بن مرزبان یحییٰ بن ابی زائدہ، حضرت ہاشم بن ہاشم فرماتے ہیں کہ میں نے سعید بن المسیب کو فرماتے ہوئے سنا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص نے فرمایا، اس دن کسی نے اسلام قبول نہیں کیا، جس دن میں نے اسلام قبول کیا، میں سات دن تک ٹھہرا اور یہ میں اسلام کا تہائی ہوں۔
٭٭ ہشام بن عمار، عیسیٰ بن یونس، صدقہ بن مثنی نخعی، ریاح بن حارث فرماتے ہیں کہ انہوں نے سعید بن زید کو فرماتے ہوئے سنا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دس کے دسویں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ابو بکر جنت میں ہیں ، عمر جنت میں ہیں ، عثمان جنت میں ہیں ، علی جنت میں ہیں ، طلحہ جنت میں ہیں ، عثمان جنت میں ہیں ، سعد جنت میں ہیں ، علی جنت میں ہیں ، طلحہ جنت میں ہیں ، زبیر جنت میں ہیں ، عبد الرحمن جنت میں ہیں ، پوچھا گیا نویں شخص کون ہیں فرمایا میں۔
٭٭ محمد بن بشار، ابن ابی عدی، شعبہ، حسین، ہلال بن یساف، عبد اللہ بن ظالم، سعید بن زید فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے ان کو فرماتے ہوئے سنا احد ٹھہر جا۔ تجھ پر سوائے نبی یا صدیق یا شہید کے کوئی نہیں ، مرد ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر بن سعد، ابن عوف اور سعید بن زید رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، ابو اسحاق ، صلۃ بن زفر، حضرت حذیفہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اہل نجران سے میں عنقریب تمہارے ساتھ ایک آدمی بھیجوں گا جو پوری طرح امانت دار ہے۔ راوی کہتے ہیں لوگ انتظار کرنے لگے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو عبیدہ کو بھیجا۔
٭٭ علی بن محمد، یحییٰ بن آدم، اسرائیل، ابو اسحاق ، صلۃ بن زفر، حضرت عبد اللہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو عبیدہ سے فرمایا یہ اس امت کے امین ہیں۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، ابو اسحاق ، حارث، حضرت علی سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر میں کسی کو بغیر مشورہ کے ذمہ دار بناتا تو ابن ام عبد (عبد اللہ بن مسعود) کو بناتا۔
٭٭ حسن بن علی خلال، یحییٰ بن آدم، ابو بکر بن عیاش، عاصم، زر، حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے ان کو بشارت دی کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص پسند کرتا ہے کہ قرآن کو بالکل اسی طرح پڑھے جس طرح وہ نازل کیا گیا تو اسے چاہیے کہ اس کو ابن ام عبد کی قرأت پر پڑھے۔
٭٭ علی بن محمد، عبد اللہ بن ادریس، حسن بن عبید اللہ، ابراہیم بن سوید، عبد الرحمن بن یزید، حضرت عبد اللہ بیان فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہارا اذن (یعنی اجازت میرے ) گھر میں آنے کے لئے اتنا ہی ہے کہ پردہ اٹھاؤ اور میری آواز سنو اور چلے آؤ جب تک میں تمہیں منع نہ کروں۔
٭٭ محمد بن طریف، محمد بن فضیل، اعمش، ابو سبرۃ نخعی، محمد بن کعب قرظی، حضرت عباس بن عبد المطلب فرماتے ہیں کہ ہم قریش کی کسی جماعت کو ملتے تھے تو وہ باتیں کرتے کرتے خاموش ہو جاتے تھے (اپنی بات کو ختم کر دیتے تھے ) ہم نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لوگوں کو کیا ہو گیا کہ وہ باتیں کرتے ہیں جب وہ میرے اہل خاندان میں سے کسی کو دیکھتے ہیں تو اپنی بات کو ختم کر دیتے ہیں۔ اللہ کی قسم کسی شخص کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوتا جب تک وہ ان کو محبوب نہیں رکھے اللہ کے لئے اور مجھ سے ان کی قرابت کی وجہ سے۔
٭٭ عبد الوہاب بن ضحاک، اسماعیل بن عیاش، صفوان بن عمرو، عبد الرحمن بن جبیر بن نفیر، کثیر بن مرۃ حضرمی، حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ نے مجھ کو خلیل بنایا جس طرح اس نے حضرت ابراہیم کو خلیل بنایا تھا۔ میرا اور ابراہیم علیہ السلام کا مرتبہ قیامت کے دن آمنے سامنے ہو گا اور عباس ہمارے درمیان دو دوستوں کے درمیان مومن کی طرح ہوں گے۔
٭٭ احمد بن عبدۃ، سفیان بن عیینہ، عبید اللہ بن ابی یزید، نافع بن جبیر، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت حسن سے فرمایا اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں آپ بھی ان سے محبت کیجئے اور جو ان سے محبت کرے اسے بھی محبوب رکھئے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ نے حضرت حسن کو سینے سے لگایا۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، داؤد بن ابی عوف ابی الجحاف، ابو حازم حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو حسن و حسین سے محبت رکھے اس نے مجھ سے محبت رکھی اور جو ان سے بغض رکھے اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، یحییٰ بن سلیم، عبد اللہ بن عثمان بن خثیم، حضرت سعید بن راشد سے مروی ہے کہ یعلی بن مرۃ نے ان سے بیان کیا کہ وہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک دعوت طعام کے لئے نکلے۔ حسین گلی میں کھیل رہے تھے ، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں سے آگے بڑھے اور اپنے ہاتھ پھیلا دئیے (حضرت حسین) ادھر ادھر بھاگنے لگے ، نبی ان کو ہنساتے رہے یہاں تک کہ ان کو پکڑ لیا آپ نے ایک ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا سر کے اوپر رکھا اور بوسہ لیا فرمایا حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں ، اللہ اس سے محبت رکھتے ہیں جو حسین سے محبت رکھتے ہیں حسین پیشانی ہیں پیشانیوں میں سے۔ (سفیان نے اس کی مثل بیان کیا)
٭٭ حسن بن علی خلال وعلی بن منذر، ابو غسان، اسباط بن نصر، سدی، صبیح، مولی ام سلمہ، حضرت زید بن ارقم سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین سے فرمایا میں اس کے لئے سلامتی ہوں جس کے لئے تم لوگ سلامتی ہوں اور لڑائی ہوں جس کے لئے تم لڑائی ہو۔
٭٭ عثمان بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، سفیان، ابو اسحاق ، ہانی بن ہانی، حضرت علی بن ابی طالب سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا حضرت عمار بن یاسر نے اجازت طلب کی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان کو اجازت دو خوش آمدید پاکیزہ فطرت شخص کے لئے۔
٭٭ نصر بن علی جہضمی، عثام بن علی، اعمش، ابو اسحاق ، حضرت ہانی بن ہانی سے مروی ہے کہ حضرت عمار علی کے پاس بیٹھے آئے ، حضرت علی نے فرمایا خوش آمدید پاکیزہ فطرت شخص کے لئے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ عمار پورے کے پورے ایمان سے بھرے ہوئے ہیں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبید اللہ بن موسیٰ علی بن محمد و عمرو بن عبد اللہ، وکیع، عبد العزیز بن سیاہ، حبیب بن ابی ثابت، عطاء بن یسار، ام المومنین حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عمار پر جب بھی دو امر پیش کئے گئے انہوں نے زیادہ درست کو اختیار کیا۔
٭٭ اسماعیل بن موسیٰ و سوید بن سعید، شریک، ابو ربیعہ الایادی، حضرت بریدہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی نے مجھے چار اشخاص سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے اور مجھے خبر دی ہے کہ وہ خود ان سے محبت رکھتا ہے عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ کون ہیں ، فرمایا علی ان میں سے ہیں اور فرماتے ہیں وہ تین یہ ہیں ، ابو ذر، سلمان اور مقداد۔
٭٭ احمد بن سعید دارمی، یحییٰ بن ابی بکر، زائدہ بن قدامہ، عاصم بن ابی النجور، زر بن حبیش، حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ پہلے پہل جنہوں نے اپنے اسلام کا اظہار کیا وہ سات ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، ابو بکر، عمار، ان کی والدہ سمیہ، صہیب، بلال، مقداد۔ رسول اللہ کی اللہ نے ان کے چچا ابو طالب کے ساتھ حفاظت فرمائی اور ابو بکر کی حفاظت اللہ نے ان کی قوم کے ذریعہ فرمائی، مگر باقی حضرات کو مشرکین نے پکڑ لیا اور انہیں لوہے کی زرہیں پہنا کر دھوپ میں پگھلا دیا سو کوئی ان میں ایسا نہ تھا جس نے مشرکوں کے ارادہ کی موافقت نہ کی۔ مگر بلال کہ ان کا نفس ان کی نظر میں ذلیل ہو گیا اللہ کی عظمت کے آگے ذلیل ہو گئے وہ اپنی قوم کے آگے ، سو دے دیا مشرکوں نے اپنے تئیں لڑکوں کو ، سو وہ لئے پھرتے تھے ان کو مکہ کی گھاٹیوں میں اور وہ کہتے تھے اللہ تعالی ایک ہے ، اللہ ایک ہے۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، حماد بن سلمہ، ثابت، حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ، میں اللہ کے معاملہ میں جتنا ستایا گیا اتنا کوئی نہیں ستایا گیا اور اللہ کے بارے میں جتنا خوف زدہ کیا گیا ہوں اتنا کوئی نہیں کیا گیا، مجھ پر تین دن ایسے گزرے ہیں کہ میرے اور بلال کے لئے ایسا کھانا نہیں تھا جس کو کوئی شخص کھاتا مگر صرف وہی جس کو بلال کی بغل ڈھانپے ہوئے ہوتی تھی۔
٭٭ علی بن محمد، ابو اسامہ، عمر بن حمزۃ، سالم سے مروی ہے کہ ایک شاعر نے بلال بن عبد اللہ کی تعریف کی اور کہا کہ بلال بن عبد اللہ سب بلالوں سے بہتر ہے ، عبد اللہ بن عمر نے فرمایا تو نے غلط کہا ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بلال سب سے بہتر ہیں۔
٭٭ علی بن محمد و عمرو بن عبد اللہ، وکیع، سفیان، ابو اسحاق ، ابو لیلیٰ الکندی فرماتے ہیں کہ حضرت خباب حضرت عمر کے پاس آئے ، انہوں نے فرمایا قریب ہو جاؤ، اس نشست کا آپ سے زیادہ سوائے عمار کے اور کوئی مستحق نہیں ، حضرت خباب انہیں اپنی پشت کے نشانات دکھانے لگے جو مشرکین کے تکلیفوں دینے کی وجہ سے بنے تھے۔
٭٭ محمد بن مثنی، عبد الوہاب بن عبد المجید، خالد حذاء، ابو قلابہ، حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری امت پر میری امت میں سب سے زیادہ رحم دل ابو بکر ہیں اور ان میں سے اللہ کے دین کے بارے میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں ، حیا کے اعتبار سے سب سے سچے عثمان ہیں ، اور علی بن ابی طالب، ان میں سے سب سے اچھے فیصلہ کرنے والے ہیں ، ان میں اللہ کی کتاب کو سب سے عمدہ پڑھنے والے ابی بن کعب ہیں سب سے زیادہ حلال حرام سے واقف معاذ بن جبل ہیں اور فرائض سے سب سے زیادہ واقف زید بن ثابت ہیں۔ خبردار ہر امت کے لئے ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابو عبیدہ بن الجراح ہیں۔ (رضوان اللہ علیھم اجمعین)
٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، خالد حذاء، ابو قلابہ، ابو قلابہ سے اسی کے مثل روایت کیا ہے ابن قدامہ کے نزدیک سوائے اس بات کے جو آپ نے زید بن ثابت کے حق میں فرمائی وہ یہ کہ علم الفرائض کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں۔
٭٭ علی بن محمد، عبد اللہ بن نمیر، اعمش، عثمان بن عمیر، ابو حرب بن ابی الاسود دیلمی، حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا، زمین نے کسی کو نہ اٹھایا اور آسمان نے کسی پر سایہ نہ کیا جو بات میں ابو ذر سے زیادہ سچا ہو۔
٭٭ ہناد بن سری، ابو الاحوص، ابو اسحاق ، حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ریشم ہدیہ میں آیا تو لوگوں نے آپس میں پکڑ پکڑ کر دیکھنا شروع کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم اس وجہ سے حیران ہوتے ہو، انہوں نے کہا کہ جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے جنت میں سعد بن معاذ کے رومال اس سے بہتر ہوں گے۔
٭٭ علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، ابو سفیان، حضرت جابر سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سعد بن معاذ کی موت سے رحمن کا عرش حرکت میں آ گیا۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، عبد اللہ بن ادریس، اسماعیل بن ابی خالد ، قیس بن ابی حازم، حضرت جریر بن عبد اللہ البجلی سے مروی ہے کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب بھی مجھے دیکھا مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ دیکھا میں نے ان کی خدمت میں شکایت کی کہ میں گھوڑے پر ٹھہر نہیں سکتا، آپ نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا اے اللہ ان کو ثبات عطا فرما اور ہادی و مہدی بنا۔
٭٭ علی بن محمد و ابو کریب، وکیع، سفیان، یحییٰ بن سعید، عبایہ بن رفاعہ، حضرت رافع بن خدیج فرماتے ہیں کہ جبرائیل یا کوئی اور فرشتہ نبی کے پاس آیا اور عرض کیا کہ آپ لوگ بدر میں حاضر ہونے والوں کو کیسا شمار کرتے ہیں آپ نے فرمایا ہم میں سب سے زیادہ پسندیدہ۔ اس نے کہا اسی طرح (بدر میں حاضر ہونے والے فرشتے ) ہمارے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں۔
٭٭ محمد بن صباح، جریر علی بن محمد، وکیع، ابو کریب، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میرے ساتھیوں کو برا مت کہو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد کے پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دے (تب بھی) ان میں سے ایک کے خرچ کئے گئے مُد یا اس کے نصف کو بھی نہیں پا سکتا۔
٭٭ علی بن محمد و عمرو بن عبد اللہ، وکیع، سفیان، نسیر بن زعلوق سے مروی ہے کہ عبد اللہ بن عمر فرماتے تھے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب کو برا مت کہو ان میں سے ایک کا ایک گھڑی کھڑے ہونا تم میں سے کسی کی عمر بھی کی نیکی سے بہتر ہے۔
٭٭ علی بن محمد و عمر بن عبد اللہ، وکیع، شعبہ، عدی بن ثابت، حضرت براء بن عازب سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو انصار سے محبت رکھتا ہے اللہ اس کو محبوب رکھتے ہیں اور جو انصار سے بغض رکھتا ہے اللہ اس سے بغض رکھتے ہیں شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے عدی سے کہا کہ کیا آپ نے اس کو براء بن عازب سے سنا ہے ، انہوں نے فرمایا مجھ ہی سے تو انہوں نے بیان کیا ہے۔
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، ابن ابی فدیک، عبد المہیمن بن عباس بن سہل بن سعد ، ان کے والد، ان کے دادا، بیان فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا انصار بہترین انتخاب ہیں اور بقیہ لوگ چھان ہیں اور اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں اور انصار کسی اور وادی میں اتر جائیں تو میں انصار کی وادی میں اتروں گا اور اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار کا ایک مرد ہوتا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، خالد بن مخلد، کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف، کثیر بن عبد اللہ اپنے والد کے واسطہ سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ انصار پر رحم فرمائے اور انصار کی اولاد پر اور ان کی اولاد کی اولاد پر۔
٭٭ محمد بن مثنی و ابو بکر بن خلاد باہلی، عبد الوہاب، خالد حذاء، عکرمہ، حضرت عبد اللہ بن عباس بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے اپنا ساتھ ملا لیا اور فرمایا اے اللہ اس کو حکمت اور تاویل کتاب کا علم سکھا دیجئے۔
خوارج کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ ، ایوب، محمد بن سیرین، حضرت عبیدہ سے مروی ہے کہ حضرت علی نے خوارج کا ذکر کیا اور فرمایا ان میں ایک شخص مثل (نقصان دہ) ہاتھ والا یا اور اگر یہ خدشہ نہ ہوتا کہ تم فخر میں مبتلا ہو جاؤ گے تو میں ضرور بیان کرتا جو اللہ تعالی نے ان لوگوں سے لڑنے والوں سے وعدہ کیا ہے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان پر راوی کہتے ہیں میں نے عرض کیا کیا آپ نے خود محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ بات سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں رب کعبہ کی قسم، ایسا تین مرتبہ فرمایا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و عبد اللہ بن عامر بن زرارۃ، ابو بکر بن عیاش، عاصم، زر، حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا؟ آخر زمانہ میں کچھ لوگ نکلیں گے جو نوجوان ہوں گے ، بے وقوف ہوں گے ، لوگوں میں سب سے بہتر باتیں کریں گے ، قرآن پڑھیں گے جو ان کے حلقوم سے نیچے نہیں اترے گا، اسلام سے اس طرح بے فیض رہ جائیں گے جس طرح تیر شکار سے بے نشان گزر جاتا ہے جو ان سے ملے ان سے قتال کرے کیونکہ ان کو قتل کرنا قتل کرنے والے کے لئے اللہ کے ہاں اجر کا باعث ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، محمد بن عمرو، ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری سے عرض کیا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حروریہ کے بارے میں کچھ ذکر کرتے ہوئے سنا؟ انہوں نے فرمایا میں نے ان کو ایسی قوم کا ذکر کرتے ہوئے سنا جو خوب عبادت کریں گے ، تم میں سے ہر کوئی اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلے میں کم تر جانے گا اور اپنے روزے کو ان کے روزے سے کم تر جانے گا وہ دین سے اس طرح بے فیض رہ جائیں گے جس طرح تیر شکار میں سے بے نشان گزر جاتا ہے (شکاری) اپنے تیر کو پکڑتا ہے اس کے پھل کو دیکھتا ہے کوئی نشان نہیں دیکھتا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، سلیمان بن مغیرہ، حمید بن ہلال، عبد اللہ بن صامت، حضرت ابو ذر سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرے بعد میری امت میں سے کچھ لوگ ہوں گے جو قرآن کو پڑھیں گے مگر ان کے حلق سے تجاوز نہیں کرے گا، دین سے اسی طرح بے فیض رہ جائیں گے جس طرح تیر شکار سے بے نشان گزر جاتا ہے۔ پھر وہ دین میں لوٹ کر نہیں آئیں گے وہ مخلوق میں سے بدترین ہوں گے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و سوید بن سعید، ابو الاحوص، سماک، عکرمہ، حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری امت میں سے چند لوگ قرآن کو پڑھیں گے اسلام سے اس طرح بے نشان رہ جائیں گے جس طرح تیر شکار سے بے نشان رہ جاتا ہے۔
٭٭ محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جعرانہ میں تھے اور غنیمت کا مال تقسیم فرما رہے تھے اور ایک شخص نے کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) عدل کیجیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انصاف سے کام نہیں لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تیرے لئے ہلاکت ہو جب میں عدل نہیں کروں گا تو میرے بعد کون عدل کرے گا۔ حضرت عمر نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اجازت دیں میں اس منافق کی گردن مار دوں۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ یہ ان لوگوں میں ہو گا جو قرآن پڑھیں گے جو ان کے حلق سے آگے نہیں بڑھے گا دین سے اسی طرح بے نشان رہ جائیں گے جس طرح تیر شکار سے بے نشان رہ جاتا ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، اسحاق ازرق، اعمش، حضرت ابی بن اوفی سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خوارج جہنم کے کتے ہیں۔
٭٭ ہشام بن عمار، یحییٰ بن حمزہ، اوزاعی، نافع، حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک قوم پیدا ہو گی جو قرآن کو پڑھیں گے اور قرآن ان کے نرخرے سے تجاوز نہیں کرے گا، جب بھی وہ ابھریں گے کاٹ دئیے جائیں گے ، حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب کبھی وہ ابھریں گے کاٹ دئیے جائیں گے (اور ایسا) بیس مرتبہ سے زیادہ ہو گا یہاں تک کہ ان کی جماعت میں سے دجال خروج ہو گا۔
٭٭ بکر بن خلف ابو بشر، عبد الرزاق، معمر، قتادۃ، حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آخر زمانہ میں یا یوں فرمایا کہ اس امت میں ایک قوم نکلے گی جو قرآن پڑھیں گے یہ قرآن ان کے نرخرے یا یوں فرمایا کہ حلق سے تجاوز نہیں کرے گا ان کی علامت سر کے بال منڈانا ہو گی جب تم ان کو دیکھو یا یوں فرمایا کہ جب تم ان سے ملو (جنگ میں ) تو ان کو قتل کر ڈالو۔
٭٭ سہل بن ابی سہل، سفیان بن عیینہ، ابو غالب، حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں کہ بدترین مقتول جو آسمان تلے قتل کئے گئے اور بہترین مقتول وہ ہیں جنہوں نے جہنم کے کتوں کو قتل کیا۔ یہ مسلمان ہوں گے جو کفر اختیار کر لیں گے۔ ابو غالب کہتے ہیں میں نے کہا کہ اے ابو امامہ یہ بات آپ کہتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا بلکہ میں نے اس کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سن رکھا ہے۔
جہیمیہ کے انکار کے بارے میں
محمد بن عبد اللہ بن نمیر، عبد اللہ بن نمیر وکیع، علی بن محمد، یعلی و وکیع و ابو معاویہ، اسماعیل بن ابی خالد، قیس بن ابی حازم، جریر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھے تھے۔ آپ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا (اور) فرمایا کہ عنقریب تم اپنے پروردگار کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح تم اس چاند کو دیکھتے ہو کہ تم کو اس کے دیکھنے میں کسی قسم کی دشواری نہیں ہوتی۔ اگر تم طاقت رکھتے ہو (تو کرو) کہ سورج نکلنے اور غروب ہونے سے پہلے نماز سے مغلوب نہ ہو جاؤ، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی "اور پاکی بیان کیجیے اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ طلوع شمس اور غروب شمس سے پہلے "۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، یحییٰ بن عیسیٰ رملی، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا چودھویں رات میں چاند دیکھنے میں کوئی دشواری پاتے ہو ، صحابہ نے عرض کی کہ نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن اسی طرح اپنے پروردگار دیکھنے میں کسی قسم کی دشواری نہ پاؤ گے۔
٭٭ محمد بن علاء ہمدانی، عبد اللہ بن ادریس، اعمش، ابو صالح سمان، ابو سعید سے مروی ہے کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ فرمایا کیا تم دوپہر کے وقت بادل نہ ہونے کی صورت میں سورج دیکھنے میں کوئی دشواری پاتے ہو صحابہ نے عرض کی کہ نہیں ، آپ نے فرمایا کیا تم چودھویں رات بادل نہ ہونے کی صورت میں چاند کے دیکھنے میں کسی قسم کا ضرر پاتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا، نہیں فرمایا جس طرح تم ان کے دیکھنے میں کوئی تنگی نہیں پاتے اس رب کے دیکھنے میں بھی کوئی ضرر نہیں پاؤ گے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، حماد بن سلمہ، یعلی بن عطاء، وکیع بن حدس، حضرت ابو زرین فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا ہم قیامت کے دن اللہ کو دیکھیں گے اور اس کی مخلوق میں اس کی علامت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اے ابو رزین کیا تم سب چاند کو بغیر کسی رکاوٹ کے نہیں دیکھتے ہو؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تو بہت بڑے ہیں اور یہ (چاند کی روئیت) اس کی مخلوق میں (اس کی روئیت کی نشانی) ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، حماد بن سلمہ، یعلی بن عطاء، وکیع بن حدس، ابو رزین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہنسا پروردگار ہمارا اپنے بندوں کے نا امید ہو جانے سے اور عذاب کے قریب ہونے سے۔ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! کیا ہنستا ہے رب ہمارا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہاں۔ میں نے عرض کی کہ ہرگز محروم نہ رہیں گے ہم ایسے رب کی خیر سے جو ہنستا ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ ومحمد بن صباح، یزید بن ہارون، حماد بن سلمہ، یعلی بن عطاء، وکیع بن حدس، ابو رزین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! کہ ہمارا رب مخلوق کو تخلیق کرنے سے پہلے کہاں تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ وہ اندھیرے میں تھا اس کے نیچے ہوا (خلا) اور اس کے اوپر ہوا اور پانی تھا پھر اس نے اپنا عرش پانی پر تخلیق کیا۔
٭٭ حمید بن مسعدہ، خالد بن حارث، سعید، قتادۃ، صفوان بن محرز مازنی فرماتے ہیں کہ دریں اثنا کہ ہم عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے ، وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ اچانک ایک آدمی ان سے ملا اور کہنے لگا اے ابن عمر! آپ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سرگوشی کے متعلق کس طرح فرماتے ہوئے سنا؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ مومن کو قیامت کے دن اپنے رب کے قریب کیا جائے گا یہاں تک کہ وہ (پروردگار اس کو پردے میں کرے گا پھر اس کو اس کے گناہ یاد دلائے گا پھر اس سے کہے گا کہ کیا تم مانتے ہو؟ وہ کہے گا اے میرے رب! میں اعتراف کرتا ہوں۔ یہاں تک کہ جہاں تک اللہ پہنچ کر چاہے گا کہے گا کہ میں نے دنیا میں تیرے گناہوں تجھ سے پردہ پوشی کی تھی اور میں آج تیرے گناہ بخش دوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ پھر اس کی نیکیوں صحیفہ یا کتاب اس کے داہنے ہاتھ میں دی جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کافر اور منافق کو سب لوگوں کے سامنے بلایا جائے گا۔ خالد بن حارث فرماتے ہیں۔ یہی ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ بولا خبردار اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر۔
٭٭ محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، ابو عاصم عبادانی، فضل رقاشی، محمد بن منکدر، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت اہل جنت اپنی نعمتوں میں (مشغول) ہوں گے جب ان کے لیے ایک نور ظاہر ہو گا وہ اپنے سر اٹھائیں گے ان کا رب ان کے اوپر ان کی طرف متوجہ ہو گا۔ وہ کہے گا اے جنت والو تم پر سلامتی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سلامتی ہو مہربان رب کی طرف سے ارشاد ہے۔ (سلام قولا من رب الرحیم) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ (اب) ان کی طرف دیکھے گا اور وہ اس کی طرف دیکھتے ہوں گے وہ نعمتوں میں سے کسی چیز کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے۔ جب تک وہ اس کی طرف دیکھیں گے یہاں تک کہ وہ ان سے پردہ کرے گا اور اس کا نور اور برکت ان پر ان کی جگہوں میں باقی رہ جائے گی۔
٭٭ علی بن محمد وکیع، اعمش، خیثمہ، حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے ہر ایک کے ساتھ اس کا رب اس طرح کلام کرے گا کہ اس کے اور اس کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا وہ اپنی داہنی جانب دیکھے گا۔ پھر وہ اپنے سامنے دیکھے گا تو آگ اس کے سامنے آئے گی جو تم میں سے استطاعت رکھتا ہے کہ آگ سے بچ جائے اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ ہو تو وہ ایسا کرے۔
٭٭ محمد بن بشار، ابو عبد الصمد عبد العزیز بن عبد الصمد، ابو عمران جونی، ابو بکر بن عبد اللہ بن قیس اشعری، قیس اشعری سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا دو جنتیں ہیں جن کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے چاندی کاہے ہے اور دو جنتیں ہیں جن کے برتن اور جو کچھ اس میں ہے سونے کاہے۔ لوگوں ! کو اپنے پروردگار کی طرف دیکھنے کے درمیان صرف بڑائی کی چادر ان کے چہرے پر ہو گی جنت عدن میں۔
٭٭ عبد القدوس بن محمد، حجاج، حماد، ثابت بنانی، عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ، صہیب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ان لوگوں کے لیے جنہوں نے بھلائی کی بھلائی اور زیادت ہے۔ اور فرمایا جب جنت والے جنت میں اور جہنم والے جہنم میں داخل ہو جائیں گے تو ایک پکارنے والا پکارے گا اے جنت والو! تمہارے لیے اللہ کے ہاں ایک وعدہ ہے ، وہ ارادہ کرتا ہے کہ اس کو تم سے پورا کر دے۔ وہ کہیں گے کہ وہ کیا ہے؟ کیا اللہ نے ہمارے ترازوؤں کو وزنی نہیں کیا اور ہمارے چہروں کو روشن نہیں کیا۔ ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا اور ہمیں آگ سے نجات نہیں دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پردہ ہٹا دیں گے وہ اس کی طرف دیکھیں گے اللہ کی قسم! اللہ نے کوئی چیز ان کو اس نظر یعنی اپنی جانب نظر سے زیادہ پسندیدہ عطا نہیں کی ہو گی اور نہ اس سے زیادہ آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے والی شے عطا کی ہو گی۔
٭٭ علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، تمیم بن سلمہ، عروۃ بن زبیر، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس کا آوازوں کو سننا اپنی وسعت رکھتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جھگڑا آیا درآنحالیکہ میں گھر کے ایک گوشہ میں تھی وہ (عورت) اپنے خاوند کے متعلق شکایت کر رہی تھی اور میں اس کی بات کو نہیں سن رہی تھی اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کیا اللہ نے سن لی بات اس (عورت) کی جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اپنے خاوند کے سلسلہ میں مجادلہ کر رہی تھی۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، صفوان بن عیسیٰ، ابن عجلان، عجلان، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہارے پروردگار نے مخلوق کی تخلیق سے پہلے اپنے آپ پر اپنے ہاتھ سے لکھ لیا کہ میری رحمت میرے غصہ سے آگے ہے۔
٭٭ ابراہیم بن منذر حزامی و یحییٰ بن حبیب بن عربی، موسیٰ بن ابراہیم بن کثیر انصاری حزامی، طلحہ بن خراش کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبد اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب (ان کے والد) عبد اللہ بن عمرو بن حرام جنگ احد کے دن مقتول ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے ملے اور فرمایا اے جابر! کیا میں تم کو نہ بتلاؤں جو تمہارے والد سے اللہ تعالیٰ نے کہا (یحیی بن حبیب اپنی حدیث میں یوں کہتے ہیں ) کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے جابر! میں تمہیں شکستہ دل کیوں دیکھ رہا ہوں؟ جابر کہتے ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میرے والد شہید ہو گئے اور عیال و قرض چھوڑ گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا میں تمہیں خوشخبری نہ سناؤں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کے ساتھ کیسے ملاقات کی (یعنی کیا معاملہ فرمایا؟) عرض کیا ضرور اے اللہ کے رسول! فرمایا اللہ نے کبھی کسی سے بغیر حجاب کے گفتگو نہ فرمائی اور تمہارے والد سے بلا حجاب کلام کیا اور فرمایا اے میرے بندے میرے سامنے آرزو ظاہر کرو تاکہ میں تمہیں عطا کرو۔ عرض کیا اے میرے پروردگار مجھے زندگی عطا فرما دیجئے تاکہ دوبارہ آپ کی خاطر قتل (شہید) کیا جاؤں تو اللہ پاک نے فرمایا یہ تو ہماری طرف سے پہلے طے ہو چکا ہے کہ لوگوں کو دوبارہ دنیا میں نہ بھیجا جائے گا۔ عرض کیا پھر میرے پیچھے والوں کو پیغام پہنچا دیجئے (ہمارا حال بتا دیجئے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور نہ خیال کرو ان لوگوں کو جو قتل کر دئیے جائیں راہ خدا میں مردہ بلکہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق دیئے جاتے ہیں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، ابو زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ دو شخصوں کی جانب دیکھ کر ہنستے ہیں جن میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیا لیکن دونوں جنت میں داخل ہوئے ایک اللہ کے راستے میں لڑتے لڑتے شہید ہو گیا پھر اللہ کی رحمت قاتل کی طرف متوجہ ہوئی اور اس نے اسلام قبول کیا۔ پھر اللہ کے رستے میں لڑتے لڑتے شہید ہو گیا۔
٭٭ حرملہ بن یحییٰ و یونس بن عبد الاعلیٰ، عبد اللہ بن وہب، یونس ، ابن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت کے روز اللہ تعالیٰ زمین کو اپنی مٹھی میں لے لیں گے اور آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لیں گے پھر فرمائیں گے میں ہی ہوں بادشاہ۔ کہاں ہیں زمین کے بادشاہ۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، محمد بن صباح، ولید بن ابی ثور ہمدانی، سماک، عبد اللہ بن عمیرۃ، احنف بن قیس، عباس بن عبد المطلب فرماتے ہیں کہ میں ایک جماعت کے ساتھ بطحاء میں تھا ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی تھے وہاں سے بادل گزرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اسے کیا نام دیتے ہو؟ عرض کیا سحاب۔ فرمایا اور مزن بھی؟ لوگوں نے عرض کیا اور مزن بھی۔ فرمایا اور عنان بھی؟ عرض کیا عنان بھی کہتے ہیں۔ فرمایا تمہارے خیال میں کتنا فاصلہ ہے آسمان و زمین کے درمیان؟ عرض کیا؟ معلوم نہیں۔ فرمایا تمہارے اور آسمان کے درمیان اکہتر بہتر سال کا فاصلہ ہے جتنا دو آسمانوں کے درمیان پھر اس کے اوپر آٹھ فرشتے ہیں پہاڑی بکروں کی مانند ان کے کھروں اور گھٹنوں کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا دو آسمانوں کے درمیان پھر ان پشتوں پر عرش ہے جس کے زیریں اور بالائی حصہ کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا دو آسمانوں کے درمیان پھر اس کے اوپر ہیں اللہ برکت والے اور بلند۔
٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، عکرمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی امر کا فیصلہ فرماتے ہیں تو فرشتے اس کے احترام میں پر بچھا دیتے ہیں (اور نزول حکم کے وقت ایسی آواز ہوتی ہے ) گویا کوئی چٹان پر پتھر مار رہا ہو پھر جب فرشتوں کے دلوں سے گھبراہٹ زائل ہوتی ہے تو کہتے ہیں (ایک دوسرے سے ) کیا کہا تمہارے رب نے وہ جواب دیتے ہیں کہ حق فرمایا اور اللہ بلند اور بڑے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ پھر اس فیصلہ کو بات چرانے والے (جن) سننے کی کوشش کرتے ہیں ایک دوسرے پر چڑھ کر پس ایک آدھ بات سن کر اوپر والا نیچے والے کو بتا دیتا بہت مرتبہ اس کے نیچے والے کو بتانے سے قبل شعلہ آ لیتا ہے کہ کاہن یا ساحر کو نہ بتائے اور کبھی شعلہ نہیں لگتا تو وہ آگے بتا دیتا ہے پھر وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملاتا ہے اور ایک وہی بات جو آسمان سے سنی تھی سچی ہوتی ہے۔
٭٭ علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، عمرو بن مرۃ، ابو عبیدۃ، حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (ایک بار) ہم میں کھڑے ہو کر پانچ باتیں ارشاد فرمائیں فرمایا اللہ سوتا نہیں اور سونا اس کے شایان شان نہیں ، اللہ ترازوں کو جھکاتے اور اوپر اٹھاتے ہیں یعنی کسی کا رزق زیادہ، کسی کا کم کر دیتے ہیں۔ دن کے اعمال رات کو (انسان کے ) عمل کرنے سے قبل ان کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں اور رات کے اعمال کے دن کے عمل کرنے سے قبل۔ ان کا حجاب نور ہے اگر اسے ہٹا دیں تو ان کے چہرہ کی روشنیاں تا حد نگاہ اس کی مخلوق کو جلا دیں۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، مسعودی، عمرو بن مرۃ، ابو عبیدۃ، حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ سوتے نہیں اور سونا ان کے شایان نہیں ترازو کو جھکاتے اور اٹھاتے ہیں۔ ان کا حجاب نور ہے اگر اس کو ہٹا دیں تو ان کے چہرے کی روشنیاں ہر اس چیز کو جلا ڈالیں جہاں ان کی نگاہ پہنچے۔ اس کے بعد ابو موسی کے شاگرد ابو عبیدہ (بطور استدلال) یہ آیت پڑھی (اَنْۢ بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِ ) 27۔ النمل:8) بابرکت ہے جو آگ میں ہے اور جو اس کے گرد ہے پاک ہے اللہ پالنے والا تمام جہانوں کا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، محمد بن اسحاق ، ابو زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا دست راست بھرا ہوا ہے کوئی چیز اسے کم نہیں کر سکتی۔ رات دن برستا ہے اور ان کے دوسرے ہاتھ میں ترازو ہے بلند کرتے ہیں تول کر اور جھکاتے ہیں۔ فرمایا دیکھو جب سے آسمان و زمین پیدا فرمائے کتنا خرچ کیا لیکن اس سے اللہ کے ہاتھوں میں جو کچھ ہے اس میں ذرا بھی کمی نہ ہوئی۔
٭٭ ہشام بن عمار و محمد بن صباح، عبد العزیز بن ابی حازم، ابو حازم، عبید اللہ بن مقسم، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا اللہ جبار اپنے آسمان و زمین کو ہاتھ میں لے لیں گے اور مٹھی بند کی اور اسے کھولنے لگے پھر فرمائیں گے میں جبار ہوں ، کہاں ہیں جبار؟ کہاں ہیں تکبر کرنے والے؟ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دائیں بائیں جھک رہے تھے حتی کہ میں نے دیکھا منبر نیچے تک ہل رہا ہے مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ گر نہ پڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو لے کر۔
٭٭ ہشام بن عمار صدقہ بن خالد، ابن جابر، بسر بن عبید اللہ، ابو ادریس خولانی، حضرت نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہر دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے چاہیں تو اسے سیدھا فرما دیں اور چاہیں تو ٹیڑھا کر دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ اے دلوں کو جمانے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت فرما دے اور فرمایا ترازو رحمان کے ہاتھوں میں ہے وہ قیامت تک قوموں کو زیر و زبر کرتے رہیں گے۔
٭٭ ابو کریب محمد بن علاء، عبد اللہ بن اسماعیل، مجالد، ابو وداک، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ تین چیزوں سے خوش ہوتے ہیں نماز کی صف سے اور اس آدمی سے جو درمیان شب نماز پڑھے اور اس شخص سے جو قتل کرے غالباً فرمایا لشکر کے پیچھے (یعنی لشکر بھاگ جانے کے بعد بھی)۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد اللہ بن رجاء، اسرائیل، عثمان بن مغیرۃ ثقفی، سالم بن ابی الجعد، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم موسم حج میں اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے کرتے اور فرماتے کوئی ایسا مرد نہیں جو مجھے اپنی قوم میں لے جائے۔ اس لیے کہ قریش نے مجھے اپنے رب کا کلام پہنچانے سے روک دیا ہے۔
٭٭ ہشام بن عمار، وزیر بن صبیح، یونس بن جلبس، ام درداء، حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کل یوم ھو فی شان کی تفسیر میں نقل فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل کی ایک شان یہ (بھی) ہے کہ گناہ معاف فرماتے ہیں اور مصیبت کو زائل فرماتے ہیں اور کسی قوم کو بلند کرتے ہیں اور دوسری قوم کو زیر کرتے ہیں۔
جس نے اچھا یا برا رواج ڈالا
محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، ابو عوانہ، عبد الملک بن عمیر، منذر بن جریر، حضرت جریر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے اچھا طریقہ جاری کر کے خود بھی اس پر عمل کیا تو اس کو اس کا اجر ملے گا اور دوسرے عمل کرنے والوں کے اجر میں کچھ کمی کئے بغیر ان کے برابر بھی اجر ملے گا اور جس نے برا طریقہ جاری کیا اور اس پر عمل کیا تو اس کو اس کا گناہ ہو گا اور دوسرے عمل کرنے والوں کا گناہ بھی ہو گا ان کے گناہوں میں بھی کمی نہ ہو گی۔
٭٭ عبد الوارث بن عبد الصمد بن عبد الوارث، عبد الصمد بن عبد الوارث، ایوب، محمد بن سیرین، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پر (صدقہ کرنے کی) ترغیب دی تو ایک شخص نے کہا میرے پاس اتنا اتنا مال ہے (یعنی میں اتنا صدقہ کروں گا) حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں پھر مجلس میں موجود ہر شخص نے اس پر تھوڑا یا بہت صدقہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے اچھا طریقہ اختیار کیا پھر اس کی پیروی کی گئی تو اس کو اپنا بھی پورا اجر ملے گا اور پیروی کرنے والو کو اجر میں کمی کے بغیر ان کا اجر بھی ملے گا اور جس نے برا طریقہ اختیار کیا پھر اس کی پیروی کی گئی تو اس پر اس کا وبال بھی پورا ہو گا اور اس کی پیروی کرنے والوں کے وبال میں کمی کے بغیر ان کا وبال بھی ملے گا۔
٭٭ عیسیٰ بن حماد مصری، لیث بن سعد، یزید بن ابی حبیب، سعد بن سنان، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس دعوت دینے والے نے بھی گمراہی کی دعوت دی اور اس کی پیروی کی گئی تو اس کو پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ ہو گا پیروی کرنے والوں کے گناہ میں کمی کئے بغیر اور جس دعوت دینے والے نے ہدایت کی طرف بلایا پھر اس کی پیروی کی گئی تو اس کو پیروی کرنے والوں کے برابر اجر ملے گا اور پیروی کرنے والے کے اجر میں کچھ کمی نہیں کی جائے گی۔
٭٭ ابو مروان محمد بن عثمان عثمانی، عبد العزیز بن ابی حازم، علاء بن عبد الرحمن، عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہی مضمون مروی ہے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، ابو نعیم، اسرائیل، حکم ، حضرت ابو جحیفہ سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، لیث ، بشیر بن نہیک، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو بھی دعوت دینے والا کسی چیز کی طرف بلائے اسے روز قیامت کھڑا کیا جائے گا۔ لازم ہو گی اس کو جوابدہی اپنے بلانے کی جس طرح اس نے بلایا اگرچہ ایک مرد نے ایک مرد ہی کو بلایا ہو۔
جس نے مردہ سنت کو زندہ کیا
ابو بکر بن ابی شیبہ، زید بن حباب، کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف مزنی، حضرت عمرو بن عوف مزنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو میری سنتوں میں سے ایک سنت بھی زندہ کرے پھر لوگ اس پر عمل کرنے لگیں تو اس کو عمل کرنے والوں کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کچھ بھی کمی نہ کی جائے گی اور جس نے بدعت ایجاد کی پھر اس پر عمل کیا گیا تو اس پر ان عمل کرنے والوں کے برابر وبال ہو گا اور ان کے وبال میں کچھ کمی بھی نہ کی جائے گی۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، اسماعیل بن ابی اویس، کثیر بن عبد اللہ ، عبد اللہ ، عمرو بن عوف فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جس نے میری سنتوں میں سے کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد مردہ ہو چکی ہو تو اس کو اس پر عمل کرنے والے لوگوں کے برابر اجر ملے گا، ان کے اجر میں کمی بھی نہ ہو گی اور جس نے کوئی بدعت ایجاد کی جس کو اللہ اور اس کے رسول پسند نہ کرتے ہوں تو اس بدعت کو اختیار کرنے والوں کے برابر اس کو بھی گناہ ہو گا اور ان کے گناہ میں کچھ کمی بھی نہ ہو گی۔
قرآن سیکھنے ، سکھانے کی فضلیت
محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید قطان، شعبہ و سفیان، علقمہ بن مرثد، سعد بن عبیدۃ، ابو عبد الرحمن سلمی، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے بہتر یا تم میں سے افضل وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا۔ (یعنی پہلے خود قرآن کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد لوگوں میں اشاعت کی)۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، علقمہ بن مرثد، ابو عبد الرحمن سلمی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے افضل وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ (یعنی قرآن فہمی کو عام کرنے کی سعی کرے )۔
٭٭ ازہر بن مروان، حارث بن نبہان، عاصم بن بہدلہ، حضرت بہدلہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے بہترین وہ ہیں جو قرآن سیکھیں اور سکھائیں۔ عاصم کہتے ہیں کہ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر اس جگہ بٹھایا تاکہ قرآن پڑھاؤں۔
٭٭ محمد بن بشار و محمد بن مثنی، یحییٰ بن سعید، شعبہ، قتادۃ، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قرآن پڑھنے والے مومن کی مثال ترنج کی سی ہے اس کا ذائقہ بھی عمدہ ہے اور خوشبو بھی نفیس اور قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال کھجور کی سی ہے کہ اس کا ذائقہ عمدہ ہے لیکن خوشبو نہیں ہے اور قرآن پڑھنے والے منافق کی مثال ریحان کی سی ہے کہ بو تو اچھی ہے لیکن ذائقہ تلخ ہے اور قرآن نہ پڑھنے والے منافق کی مثال اندرائن کی سی ہے کہ اس کا ذائقہ تلخ ہے اور بو بالکل نہیں۔
٭٭ بکر بن خلف ابو بشر، عبد الرحمن بن مہدی، عبد الرحمن بن بدیل، بدیل، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کچھ لوگ اللہ والے ہیں۔ صحابہ (رضی اللہ عنہم) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! وہ کون ہیں؟ فرمایا وہ قرآن والے ہیں اہل اللہ اور اللہ (عز وجل) کے خاص تعلق والے۔
٭٭ عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینار حمصی، محمد بن حرب، ابو عمر، کثیر بن زاذان، عاصم بن حمزۃ، حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے قرآن پڑھا اور اس کو یاد کیا اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے اور اس کے گھر والوں میں سے ایسے دس افراد کے متعلق اس کی سفارش قبول فرمائیں گے جو (اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے ) دوزخ اپنے اوپر واجب کر چکے ہوں گے۔
٭٭ عمرو بن عبد اللہ اودی، ابو اسامہ، عبد الحمید بن جعفر، مقبری، عطاء مولی ابی احمد، ابو احمد، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قرآن سیکھو اور اس کو پڑھو اور سو جاؤ (یعنی تمام رات نہ جاگو) اس لیے کہ قرآن کی مثال اور اس شخص کی مثال جس نے قرآن سیکھا پھر اس کو رات میں پڑھا اس تھیلی کی سی ہے جو کستوری سے بھری ہو۔ جس کی مہک ہر سو پھیل رہی ہو اور اس شخص کی مثال جس نے قرآن سیکھا اور سینے پر رکھ کر سو رہا اس تھیلی کی سی ہے جس کو کستوری سے بھر کر اوپر سے باندھ دیا گیا ہو۔
٭٭ ابو مروان محمد بن عثمان عثمانی، ابراہیم بن سعد، ابن شہاب، عامر بن واثلہ ابو الطفیل، حضرت نافع بن عبد الحارث، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے عسفان میں ملے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مکہ کا عامل مقرر فرمایا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم نے اہل وادی کا نگران کسے بنایا؟ عرض کیا ابن ابزی کو میں نے ان کا نگران بنایا۔ فرمایا ابن ابزی کون ہیں؟ عرض کیا ہمارے ایک غلام ہیں حضرت عمر نے فرمایا تو تم نے ایک غلام کو ان کا نگران بنایا؟ عرض کیا وہ کتاب اللہ کو (سمجھ کر) پڑھنے والا اور علم میراث سے واقف ہے ، درست فیصلہ کر لیتا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا سنو! تمہارے نبی نے فرمایا تھا اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن) کی وجہ سے کچھ لوگوں کو رفعت بخشیں گے اور کچھ کو رسوا فرمائیں گے۔
٭٭ عباس بن عبد اللہ واسطی، عبد اللہ بن غالب عبادانی، عبد اللہ بن زیاد بحرانی، علی بن زید، سعید بن مسیب، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے مجھے سے ارشاد فرمایا تو صبح کو جا کر کتاب اللہ کی ایک آیت سیکھے یہ تیرے لیے سو رکعت نماز سے بہتر ہے اور تو صبح جا کر علم کا ایک باب سیکھے خواہ اس پر (اسی وقت) عمل کرے یا نہ کرے یہ تیرے لیے ہزار رکعت پڑھنے سے بہتر ہے۔
علماء(کرام) کی فضیلت اور طلب علم پر ابھارنا
بکر بن خلف ابو بشر، عبد الاعلی، معمر، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اسے دین میں بصیرت عطاء فرما دیتے ہیں۔
٭٭ ہشام بن عمار، ولید بن مسلم مروان بن جناح، یونس بن میسرۃ بن حلبس، حضرت معاویہ بن ابی سفیان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بھلائی عادت ہے اور شر کسی مجبور سے ہوتا ہے اور جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ فرمائیں اسے دینی بصیرت عطا فرما دیتے ہیں۔
٭٭ ہشام بن عمار، ولید بن مسلم، روح بن جناح ابو سعید، مجاہد ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے بہتر ہے۔
٭٭ نصر بن علی جہضمی، عبد اللہ بن داؤد، عاصم بن رجاء بن حیوۃ، داؤد بن جمیل، کثیر بن قیس کہتے ہیں میں دمشق کی مسجد میں ابو درداء کے پاس بیٹھا تھا۔ ایک صاحب ان کے پاس آئے اور کہا اے ابو درداء میں آپ کے پاس مدینۃ الرسول سے آیا ہوں ، ایک حدیث کی خاطر۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ وہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے (بلا واسطہ) روایت کرتے ہیں۔ فرمایا تم کسی تجارت کے لیے (بھی) آئے ہو؟ کہا نہیں۔ فرمایا اور کوئی بھی کام نہ تھا؟ عرض کیا نہیں۔ فرمایا بلاشبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جو طلب علم کی خاطر کوئی راستہ چلا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں اور فرشتے طالب علم پر خوشی کی وجہ سے اپنے پر سمیٹ لیتے ہیں اور آسمان و زمین کی مخلوق طالب علم کے لیے بخشش طلب کرتی ہیں حتی کہ مچھلیاں پانی میں اور عالم کی فضیلت عابد کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر۔ بلاشبہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ انبیاء دنیا و درہم کا وارث نہیں بناتے وہ صرف علم کا وارث بناتے ہیں اس لیے جس نے علم حاصل کیا بڑا حصہ حاصل کیا۔
٭٭ ہشام بن عمار، حفص بن سلیمان، کثیر بن شنظیر، محمد بن سیرین، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا طلب علم ہر مسلمان پر فرض ہے اور نا اہل کو علم دینے والا سوروں کی گردن میں جواہر، موتی اور سونے پہنانے والے کی طرح ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ ولی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو کسی مسلمان کی ایک دنیوی تکلیف دور کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مصیبتوں میں سے ایک مصیبت دور فرمائیں گے اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے اور جو کسی تنگدست کے لیے آسانی کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا آخرت میں اس کے لیے آسانی فرمائیں گے اور اللہ تعالیٰ بندے کی مد د میں ہوتے ہیں جب تک بندہ اپنے بھائی کی مد د میں ہو اور جو کوئی علم (دین) کی طلب میں کوئی راستہ چلے تو اس کے بدلہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں اور جب بھی کچھ لوگ اللہ کے گھر میں جمع ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت کریں اور آپس میں کتاب اللہ سمجھیں سمجھائیں تو انہیں فرشتے گھیر لیتے ہیں اور ان پر سکینہ نازل ہوتی ہے رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ ان کا ذکر اپنے پاس والے فرشتوں میں فرماتے ہیں اور جس کا عمل اسے پیچھے کر دے اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، معمر، عاصم بن ابی نجود، حضرت زر بن حبیش فرماتے ہیں کہ میں حضرت صفوان بن عسال مرادی کی خدمت میں حاضر ہو۔ فرمایا کیسے آئے؟ عرض کیا علم حاصل کرنے کے لیے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جو شخص بھی (دینی) علم کی طلب میں اپنے گھر سے نکلے فرشتے اس کے عمل کو پسند کرنے کی وجہ سے اس کے لیے پر پھیلا لیتے ہیں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، حاتم بن اسماعیل، حمید بن صخر، مقبری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جو میری اس مسجد میں صرف اس لیے آئے کہ بھلائی کی بات سیکھے یا سکھائے وہ راہ خدا میں لڑنے والے کے برابر ہے اور جو اس کے علاوہ کسی اور غرض سے آئے تو وہ اس شخص کی مانند ہے جو دوسرے کے سامان پر نظر رکھے۔
٭٭ ہشام بن عمار، صدقہ بن خالد، عثمان بن ابی عاتکہ، علی بن یزید ، قاسم، حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس دینی علم کو ضرور حاصل کر لو قبل ازیں کہ یہ چھین لیا جائے اور اس علم کا چھن جانا یہ ہے کہ اسے اٹھا لیا جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے درمیانی اور شہادت کی انگلی ملا کر فرمایا عالم اور طالب علم اجر میں شریک ہیں اور باقی لوگوں میں کوئی خیر نہیں۔
٭٭ بشر بن ہلال صواف، داؤد بن زبر، بکر بن خنیس، عبد الرحمن بن زیاد، عبد اللہ بن یزید، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے کسی حجرہ سے مسجد میں آئے۔ آپ نے دیکھا کہ دو حلقے ہیں ایک قرآن کی تلاوت کر رہا ہے اور دعا مانگ رہا ہے اور دوسرا حلقہ علم سیکھنے سکھانے میں مشغول ہے تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دونوں بھلائی پر ہیں یہ قرآن پڑھ رہے ہیں اور اللہ سے مانگ رہے ہیں۔ اللہ چاہیں تو ان کو عطا فرمائیں اور چاہیں تو نہ دیں اور یہ علم دین سیکھ سکھا رہے ہیں اور مجھے تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہے چنانچہ آپ حلقہ علم میں تشریف فرما ہوئے۔
تبلیغ علم کے فضائل
محمد بن عبد اللہ بن نمیر و علی بن محمد، محمد بن فضیل، لیث بن ابی سلیم، یحییٰ بن عباد، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ خوش و خرم رکھیں اس شخص کو جس نے ہماری بات سن کر آگے پہنچائی کیونکہ بہت سے فقہ یاد رکھنے والے خود فقیہ نہیں ہوتے اور بہت سے فقہ والے ایسے شخص تک پہنچا دیتے ہیں جو ان سے بھی زیادہ فقیہ ہو حضرت علی بن محمد کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ تین چیزوں سے مسلمان کو جی نہیں چرانا چاہئے عمل خالص اللہ کے لیے کرنا ائمہ مسلمین کی خیر خواہی اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ پختہ وابستگی۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، محمد بن اسحاق ، عبد السلام ، زہری، محمد بن جبیر بن مطعم ، حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منیٰ میں خیف میں خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو فرمایا اللہ تعالیٰ خوش و خرم رکھیں اس شخص کو جو ہماری بات سن کر آگے پہنچائے کیونکہ بہت سے فقہ کو یاد کرنے والے (اعلیٰ درجہ کے ) فقیہ نہیں ہوتے اور بہت سے فقہ والے ایسے شخص تک پہنچا دیتے ہیں جو ان سے بھی بڑھ کر فقیہ ہوتا ہے۔ دوسری سند سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد بن ولید، محمد بن جعفر، شعبہ، سماک، عبد الرحمن بن عبد اللہ، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ خوش و خرم رکھیں اس شخص کو جو ہم سے بات سن کر آگے پہنچائے کیونکہ بہت سے حدیث پہنچانے والے ، سننے والے سے بھی زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔
٭٭ محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید قطان، قرۃ بن خالد، محمد بن سیرین، عبد الرحمن بن ابی بکرۃ، حضرت ابو بکرۃ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ یوم نحر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ کے دوران ارشاد فرمایا حاضر غائب تک پہنچا دے کیونکہ بہت سے لوگ جنہیں بات پہنچے سننے والے بہ نسبت زیادہ (بہتر طریقے سے ) یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، اسحاق بن منصور، نضر بن شمیل، بہز بن حکیم، حضرت معاویہ قشیری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سنو حاضر غائب تک پہنچا دے۔ (یعنی جو میرا پیغام سنے اسے غیر حاضر لوگوں تک پہنچا دیا کرے۔
٭٭ احمد بن عبدۃ، عبد العزیز بن محمد دراوردی، قدامہ بن موسی، محمد بن حسین تمیمی، ابو علقمہ مولی ابن عباس، یسار مولی ابن عمر، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم حاضرین غائبین تک پہنچا دو۔ (بعینہ وہی حدیث ہے جو اوپر بیان ہوئی مقصد یہ ہے کہ شاید سننے والے سے بھی آگے دوسرا شخص زیادہ اہلیت کا حامل ہونے کی وجہ سے بات کے مفہوم کو بہتر سمجھ جاتا ہے )۔
٭٭ محمد بن ابراہیم دمشقی، مبشر بن اسماعیل حلبی، معان بن رفاعہ، عبد الوہاب بخت مکی، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس بندے کو خوش و خرم رکھیں جس نے میری بات سن کر یاد رکھی پھر میری طرف سے آگے پہنچا دی کیونکہ بہت سے فقہ کی بات یاد رکھنے والے خود فقیہ نہیں ہوتے اور بہت سے فقہ والے ایسے شخص تک پہنچاتے ہیں جو اس پہنچانے والے کی بہ نسبت زیادہ فقیہ ہوں۔
اس شخص کے بیان میں جو بھلائی کی کنجی ہو
حسین بن حسن مروزی، محمد بن ابی عدی، محمد بن ابی حمید، حفص بن عبید اللہ بن انس، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بعض لوگ بھلائی کی کنجی ہوتے ہیں اور برائی کے لیے تالہ اور بعض لوگ برائی کے لیے کنجی ثابت ہوتے ہیں اور بھلائی کے لیے تالہ۔ سو مبارک ہو اس شخص کو جس کے ہاتھوں میں اللہ نے خیر کی کنجیاں رکھ دیں اور بربادی ہو اس شخص کے لیے جسکے ہاتھوں میں شر کی کنجیاں دیں۔
٭٭ ہارون بن سعید ایلی ابو جعفر، عبد اللہ بن وہب، عبد الرحمن ابن زید بن اسلم، ابو حازم، حضرت سہیل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بھلائی کے بھی خزانے ہیں اور ان خزانوں کی بھی کنجیاں ہیں۔ سو مبارک ہو اس شخص کو جسے اللہ تعالیٰ خیر کے لیے کنجی اور شر کے لیے تالہ بنا دیں اور برا ہو اس شخص کا جسے (اس کی بداعمالیوں کی بدولت اس کے اختیار سے ) شر کی کنجی اور خیر کے لئے تالہ بنا دیں۔
لوگوں کو بھلائی کی باتیں سکھانے والے کا ثواب
ہشام بن عمار، حفص بن عمر، عثمان بن عطاء، عطاء، حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ارشاد یہ فرماتے ہوئے سنا عالم (با عمل) کے لیے تمام زمین و آسمان والے بخشش کی دعا کرتے ہیں حتی کہ سمندر میں مچھلیاں بھی۔
٭٭ احمد بن عیسیٰ مصری، عبد اللہ بن وہب، یحییٰ بن ایوب، سہل بن معاذ بن انس، حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے لوگوں کو علم سکھایا اس کو اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب ملے گا اور اس سے ان عمل کرنے والوں ثواب میں کچھ کمی نہ ہو گی۔
٭٭ اسماعیل بن ابی کریمۃ حرانی، محمد بن سلمہ، ابو عبد الرحیم، زید بن ابی انیسہ، زید بن اسلم، عبد اللہ بن ابی قتادہ، حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا آدمی اپنے پیچھے (دنیا میں ) جو چھوڑ جائے اس میں بہترین چیزیں تین ہیں (1) نیک اولاد جو اس کے لیے دعائے خیر کرتی رہے۔ (2) صدقہ جاریہ جس کا اجر اس کو ملتا رہے۔ (3) علم جس پر اس کے بعد عمل ہوتا رہے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے ایک اور سند سے بھی (بعینہ اسی مفہوم کا) یہ مضمون منقول کیا گیا ہے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، محمد بن وہب بن عطیہ، ولید بن مسلم، مرزوق بن ابی ہذیل، زہری، ابو عبد اللہ اغر، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مومن کے مرنے کے بعد بھی جن اعمال اور نیکیوں کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے ان میں سے چند اعمال یہ ہیں علم جو لوگوں کو سکھا کر پھیلایا (اس میں تدریس، وعظ، تصنیف وافتاء وغیرہ سب داخل ہیں ) اور جو صالح اولاد چھوڑی اور قرآن کریم (مصحف) جو میراث میں چھوڑا یا کوئی مسجد بنائی یا مسافر خانہ بنایا یا کوئی نہر جاری کی یا جیتے جاگتے صحت و تندرستی میں اپنی کمائی سے کچھ صدقہ کر دیا ان سب کا اجر اسے مرنے کے بعد ملتا رہے گا۔
٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب مدنی، اسحاق بن ابراہیم، صفوان بن سلیم، عبید اللہ بن طلحہ، حسن بصری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بہترین صدقہ یہ ہے کہ مسلمان شخص علم حاصل کر کے اپنے مسلمان بھائی کو سکھا دے (یعنی پہلے خود علم حاصل کرے چاہے ایک حدیث مبارکہ کا ہی ہو اور اس کو دیگر لوگوں تک پہنچا دے ، یہ علم کا پہنچانا بھی صدقہ جاریہ ہے )۔
ہمراہیوں کو پیچھے پیچھے چلانے کی کراہت کے بارے میں
ابو بکر بن ابی شیبہ، سوید بن عمرو وحماد بن سلمہ، ثابت، شعیب بن عبد اللہ بن عمرو، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے فرما یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کبھی ٹیک لگا کر کھاتے ہوئے نہیں دیکھا گیا اور دو اشخاص بھی آپ کے پیچھے پیچھے نہیں چلتے تھے۔ یہی مضمون ان راویوں سے بھی مروی ہے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، ابو مغیرۃ، معان بن رفاعہ، علی بن یزید، قاسم بن عبد الرحمن، حضرت ابو امامہ نے فرمایا ایک مرتبہ سخت گرمی کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بقیع غرقد کی طرف جا رہے تھے کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے چلنا شروع کر دیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جوتوں کی آواز سنائی دی تو آپ نے اسے محسوس کیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھ گئے یہاں تک کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آگے نکل گئے تاکہ آپ کے دل میں ذرا سا تکبر بھی پیدا نہ ہو۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، اسود بن قیس، نبیع عنزی، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چلتے تو صحابہ (آپ کی منشا کے مطابق) آپ کے آگے آگے چلتے اور آپ کی پشت ملائکہ کے لیے چھوڑ دیتے (کیونکہ آپ کے پیچھے فرشتے چلا کرتے تھے )۔
طلب علم کے بارے میں وصیت
محمد بن حارث بن راشد مصری، حکم بن عبدۃ، ابو ہارون عبدی، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں عنقریب تمہارے پاس بہت سے لوگ علم کی تلاش میں آئیں گے تم جب انہیں دیکھو تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وصیت کے مطابق ان کو کہنا خوش آمدید ، خوش آمدید اور ان کو خوب علم سکھانا۔
٭٭ عبد اللہ بن عامر بن زرارۃ، معلی بن ہلال، اسماعیل کہتے ہیں کہ ہم حضرت حسن کی عیادت کے لئے گئے گھر عیادت کرنے والوں سے بھر گیا تو انہوں نے اپنے پاؤں سمیٹ لئے اور فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے در اقدس پر حاضر ہوئے حتی کہ گھر بھر گیا آپ کروٹ لئے لیٹے ہوئے تھے جب آپ نے ہمیں دیکھا تو اپنے پاؤں سمیٹ لئے اور فرمایا کہ میرے بعد تمہارے پاس بہت سی اقوام عالم علم کی تلاش میں آئیں گی ان کو خوش آمدید کہنا، مبارکباد دینا اور انہیں علوم سکھانا۔ حضرت حسن نے فرمایا کہ بخدا ہم نے تو ایسے لوگ بھی دیکھ لئے جو نہ ہمیں خوش آمدید کہتے نہ مبارکباد دیتے ہیں الا یہ کہ ہم ان کے پاس چلے جائیں تو (اگرچہ علم کی باتیں بتا دیں لیکن) لاپرواہی برتتے ہیں
٭٭ علی بن محمد، عمرو بن محمد عنقزی، سفیان، حضرت ہاروں بن عبدی کہتے ہیں ہم جب حضرت ابو سعید خدری کی خدمت میں حاضر ہوتے تو وہ ہمیں خوش آمدید کہتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وصیت کے موافق (اور فرماتے ) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم سے فرمایا تھا کہ لوگ تمہاری پیروی کریں گے اور اکناف عالم سے تمہارے دین کی گہری سمجھ (اور فقہ) حاصل کرنے آئیں گے تو ان کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت میری طرف سے قبول کرو۔
علم سے نفع اٹھانا اور اس کے مطابق عمل کرنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو خالد احمر، ابن عجلان، سعید بن ابی سعید، ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک دعا یہ بھی ہے اے اللہ میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں علم غیر نافع سے (یعنی جس کے مطابق عمل نہ کرے ) اور اس دعا سے جو سنی نہ جائے اور اس دل سے جس میں خوف نہ اور ایسے نفس سے جو کبھی بھی سیر نہ ہو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، موسیٰ بن عبیدۃ، محمد بن ثابت، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا مانگا کرتے تھے اے اللہ! جو علم آپ نے مجھے عطا فرمایا اس سے نفع بھی دیجئے اور مجھے ایسے علوم سے نواز دیجئے جو میرے لئے نافع اور مفید ہوں اور میرے علم میں خوب اضافہ فرما دیجئے اور ہر حال میں تمام تعریفیں آپ ہی کے لیے ہیں۔ ایک اور روایت سے بھی یہ مضمون ایسے ہی مروی ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یونس بن محمد وسریح بن نعمان، فلیح بن سلیمان، عبد اللہ بن عبد الرحمن بن معمر ابی طوالہ، سعید بن یسار، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جس نے کوئی ایسا علم جس سے رضائے الہی کا حصول مقصود ہونا چاہیے اس لیے حاصل کیا تاکہ کچھ دنیا ملے وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکے گا۔ ایک اور سے بھی یہ مضمون ایسے ہی مروی ہے۔
٭٭ ہشام بن عمار، عبد الرحمن، ابو کرب ازدی، نافع، حضرت ابن عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں جس نے اس لئے علم حاصل کرنا چاہا کہ بے وقوفوں سے تکرار کرے یا علم والوں کے سامنے اپنی بڑائی ظاہر کرے یا عوام کے قلوب اپنی طرف مائل کرے وہ دوزخ میں جائے گا۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، ابن ابی مریم، یحییٰ بن ایوب، ابن جریج، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں علم اس لئے حاصل نہ کرو کہ علماء کے سامنے فخر کرو یا جاہلوں سے تکرار کرو اور نہ ہی علم سے (دنیوی جاہ کی) مجالس تلاش کرو جو ایسا کرے گا تو آگ ہے آگ۔
٭٭ محمد بن صباح، ولید بن مسلم، یحییٰ بن عبد الرحمن کندی، عبید اللہ بن ابی بردۃ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرے کچھ امتی دین کی سمجھ حاصل کریں گے اور قرآن پڑھیں گے اور کہیں گے کہ ہم حکمرانوں کے پاس جاتے ہیں تاکہ ہمیں ان سے دنیا مل جائے اور ہم اپنا دین ان سے بچا لیں گے حالانکہ ایسا نہیں ہو سکتا جیسے ببول کے درخت سے کانٹوں کے سوا کچھ نہیں ملتا اسی طرح ان حکمرانوں کے قریب ہونے سے سوائے خطاؤں کے کچھ نہیں ملتا۔
٭٭ علی بن محمد و محمد بن اسماعیل، عبد الرحمن بن محمد محاربی، عمار بن سیف، ابو معاذ بصری، علی بن محمد، اسحاق بن منصور، عمار بن سیف، ابو معاذ، ابن سیرین، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ سے پناہ مانگو (جُبِّ الحُزنِ) (غم کے کنویں ) سے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! غم کا کنواں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جہنم میں ایک وادی (کا نام) ہے جس سے جہنم بھی روزانہ چار سو بار پناہ مانگتی ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس میں کون جائیں گے فرمایا یہ ان قاریوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اپنے اعمال میں ریاکار ہوں اور اللہ کو سب سے ناپسند قاریوں میں سے ایک وہ ہیں جو ظالم حکمرانوں کے پاس جاتے ہیں (دنیا کی خاطر) یہی حدیث ایک اور سند سے مروی ہے۔ اسی حدیث کی ایک اور سند۔
٭٭ علی بن محمد و حسین بن عبد الرحمن، عبد اللہ بن نمیر، معاویہ نصری، نہشل، ضحاک، اسود بن یزید، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر علماء علم کی حفاظت کریں اور ان لوگوں کو علم دیں جو اس کے اہل ہیں تو وہ اہل زمانہ کے سردار بن جائیں لیکن انہوں نے یہ علم دنیا داروں کو دیا تاکہ ان سے کچھ دنیا بھی حاصل کر لیں اس لیے وہ لوگوں کے سامنے بے وقعت ہو گئے میں تمہارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو اپنی تمام فکروں کو ایک فکر آخرت کی فکر بنا لے۔ اللہ تعالیٰ دنیوی پریشانیوں اور فکروں سے اس کی کفایت فرماتے ہیں اور جس کو دنیوی حالات کی فکریں گھیر لیں تو اللہ کو بھی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ دنیا میں کس جنگل میں ہلاک ہو گا۔
٭٭ زید بن اخزم و ابو بدر عباد بن ولید، محمد بن عباد ہذائی، علی بن مبارک ہنائی، ایوب سختیانی، خالد بن دریک، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت بیان کرتے ہیں کہ جس نے غیر اللہ کے لیے علم حاصل کیا یا علم سے مقصود اللہ (کی رضا) کے علاوہ کسی اور چیز کو ٹھہرایا۔ تو وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔
٭٭ احمد بن عاصم عبادانی، بشیر بن میمون، اشعث بن سوار، ابن سیرین، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا علم اس لئے حاصل نہ کرو کہ علماء کے سامنے فخر کرو یا جاہلوں سے بحث و تکرار کرو یا لوگوں کو اپنی طرف مائل کرو اس لئے کہ جو ایسا کرتا ہے وہ دوزخ میں جائے گا۔
٭٭ محمد بن اسماعیل، وہب بن اسماعیل اسدی، عبد اللہ بن سعید مقبری، ان کے دادا، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس نے علم اس لئے حاصل کیا تاکہ علماء کے سامنے فخر کرے اور بے وقوفوں سے بحثیں کرے اور لوگوں کو اپنی طرف مائل کرے اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ میں داخل فرمائیں گے۔
علم چھپانے کی برائی میں
ابو بکر بن ابی شیبہ، اسود بن عامر، عمارہ بن زاذان، علی بن حکم، عطاء، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں جس شخص کے پاس کوئی علم محفوظ ہو اور وہ اسے چھپائے رکھے قیامت کے دن اسے دوزخی آگ کی لگام ڈال کر لایا جائے گا۔ دوسری سند سے بھی (بعینہ) اسی طرح کی روایت ہے۔
٭٭ ابو مروان عثمانی محمد بن عثمان، ابراہیم بن سعد، زہری، عبد الرحمن ہرمز , اعرج، عبد الرحمن ہرمز الاعرج سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابو ہریرہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اگر کتاب اللہ میں دو آیتیں نہ ہوتی تو میں کبھی کوئی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کوئی روایت نہ کرتا اور وہ آیتیں یہ ہیں۔ (اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ الْکِتٰبِ وَیَشْتَرُوْنَ بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا ۙ اُولٰۗىِٕکَ مَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِہِمْ اِلَّا النَّارَ وَلَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَا یُزَکِّیْہِمْ ښ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ١٧٤) 2۔ البقرۃ:174) بے شک جو لوگ چھپاتے ہیں جو کچھ ہم نے اتارے صاف حکم اور ہدایت کی باتیں بعد میں اس کے کہ ہم ان کو کھول چکے لوگوں کے واسطے کتاب میں ان پر لعنت کرتا ہے اللہ اور لعنت کرتے ہیں ان پر لعنت کرنے والے مگر جنہوں نے توبہ کی اور درست کیا اپنے کلام کو اور بیان کر دیا حق بات کو تو ان کو معاف کرتا ہوں اور میں بڑا معاف کرنے والا نہایت مہربان ہوں۔
٭٭ حسین بن ابی سری عسقلانی، خلف بن تمیم، عبد اللہ بن سری، محمد بن منکدر، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جب اس امت کے بعد والے لوگ پہلے والوں کو لعنت کرنے لگیں اس وقت جو شخص کوئی حدیث چھپائے تو وہ اس چیز کو چھپائے گا جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی۔
علم چھپانے کی برائی میں
احمد بن ازہر، ہیثم بن جمیل، عمرو بن سلیم، یوسف بن ابراہیم، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا جس سے کوئی علم کی بات پوچھی جائے اور وہ چھپا لے تو اس کو قیامت کے دن آگ کی لگام دی جائے گی۔
٭٭ اسماعیل بن حبان بن واقد ثقفی ابو اسحاق واسطی، عبد اللہ بن عاصم، محمد بن داب، صفوان سلیم، عبد الرحمن بن ابی سعید خدری، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت بیان کرتے ہیں کہ جس نے کوئی ایسی علمی بات چھپائی جس سے لوگوں کا دینی فائدہ وابستہ ہو۔ اس کو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز آگ کی لگام لگائیں گے۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن ہشام بن زید بن انس بن مالک، ابو ابراہیم اسماعیل بن ابراہیم کرابیسی، ابن عون، محمد بن سیرین، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت بیان کرتے ہیں جس سے کوئی علمی بات پوچھی گئی جو اسے معلوم بھی تھی پھر بھی اس نے چھپا لی تو قیامت کے دن اس کو آگ کی لگام دی جائے گی۔
وضو اور غسل جناب کے لیے پانی کی مقدار کے بیان میں
ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن ابراہیم، ابو ریحانہ، حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مد سے وضو اور صاع سے غسل کر لیتے تھے (ایک مد ساڑھے چودہ چھٹانک کا ہوتا ہے ، اور ایک صاع ساڑھے تین سیر دو چھٹانک کا ہوتا ہے )
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، ہمام، قتادۃ، صفیہ بن شیبہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مد سے وضو اور ایک صاع سے غسل کر لیتے تھے۔
٭٭ ہشام بن عمار، ربیع بن بدر، ابو زبیر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مد سے وضو اور ایک صاع سے غسل کر لیتے تھے
٭٭ محمد بن مؤمل بن صباح وعباد بن ولید، بکر بن یحییٰ بن زبان، حبان بن علی، یزید بن ابی زیاد، عبد اللہ بن محمد بن عقیل بن ابی طالب، حضرت عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وضو کے لیے ایک مد اور غسل کے لئے ایک صاع کافی ہے۔ ایک شخص نے کہا کہ ہمیں تو اتنا کافی نہیں ہوتا تو فرمایا کہ تم سے بہتر اور افضل اور تم سے زیادہ بالوں والی شخصیت یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تو کافی ہو جاتا تھا۔
اللہ تعالیٰ بغیر طہارت کے نماز قبول نہیں فرماتے
محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید و محمد بن جعفر ، بکر بن خلف ابو بشرختن مقری، یزید بن زریع، شعبہ، قتادۃ، ملیح بن اسامہ، حضرت اسامہ بن عمیر ہذلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ بغیر طہارت کے کوئی نماز بھی قبول نہیں فرماتے اور چوری کے مال سے صدقہ قبول نہیں فرماتے۔ دوسری سند سے بھی بعینہ یہی مضمون مروی ہے۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، اسرائیل، سماک، محمد بن یحییٰ، وہب بن جریر، شعبہ، سماک بن حرب، مصعب بن سعد، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت بیان کرتے ہیں اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر نماز قبول نہیں فرماتے اور نہ چوری کے مال سے صدقہ۔
٭٭ سہل بن ابی سہل، ابو زہیر، محمد بن اسحاق ، یزید بن ابی حبیب، سنان بن سعد، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یوں فرماتے سنا اللہ بغیر طہارت کے نماز اور چوری کے مال سے صدقہ قبول نہیں فرماتے۔
٭٭ محمد بن عقیل، خلیل بن زکریا، ہشام بن حسان، حسن، حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ بغیر طہارت کے نماز اور چوری کے مال سے صدقہ قبول نہیں فرماتے۔
نماز کی کنجی طہارت ہے
علی بن محمد، وکیع، سفیان، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، محمد بن حنفیہ، حضرت حنفیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نماز کی کنجی طہارت ہے اور اس کا احرام تکبیر اولیٰ ہے اور اس کی تحلیل سلام ہے۔
٭٭ سوید بن سعید، علی بن مسہر، ابو سفیان طریف سعدی، ابو کریب محمد بن علاء، ابو معاویہ، ابو سفیان سعدی، ابو نضرہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت بیان کرتے ہیں کہ نماز کی کنجی طہارت ہے اور اس کا احرام پہلی تکبیر ہے اور اس کی تحلیل سلام پھیرنا ہے۔
وضو کا اہتمام
علی بن محمد، وکیع، سفیان، منصور، سالم بن ابی الجعد، حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (عقائد و اعمال میں حق پر) ثابت قدم رہو اور تم تمام نیکیوں کا احاطہ نہیں کر سکتے اور خوب سمجھ لو تمہارا سب سے افضل عمل نماز ہے اور وضو کا اہتمام ایمان دار ہی کرتا ہے۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم بن حبیب، معتمر بن سلیمان، لیث، مجاہد، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ثابت قدم رہو اور تم تمام اعمال کا احاطہ نہیں کر سکتے یہ جان لو کہ تمہارے افضل ترین اعمال میں سے ایک عمل نماز ہے اور وضو کی نگہداشت مومن ہی کرتا ہے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، ابن ابی مریم، یحییٰ بن ایوب، اسحاق بن اسید، ابو حفص دمشقی، حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے۔ فرمایا (حق پر) استقامت اختیار کرو اور کیا ہی خوب ہے اگر تم ثابت قدم رہو اور تمہارا افضل ترین عمل نماز ہے اور وضو کا اہتمام نہیں کرتا مگر مومن۔
وضو جزو ایمان ہے
عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، محمد بن شعیب بن شابو ر، معاویہ بن سلام، عبد الرحمن بن غنم، حضرت ابو مالک اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پوری طرح وضو کرنا ایمان کا حصہ ہے اور الْحَمْدُ لِلَّہِ ترازو کو بھر دیتی ہے اور سُبْحَانَ اللَّہِ اور اللَّہُ أَکْبَرُ سے آسمان اور زمین بھر جاتے ہیں اور نماز نور ہے اور زکوٰۃ دلیل ہے اور صبر روشنی ہے اور قرآن حجت ہے تیرے حق میں یا تیرے خلاف ہر شخص صبح کو اپنے نفس کو بیچتا ہے کوئی اسے آزاد کرا لیتا ہے اور کوئی اسے ہلاک کر لیتا ہے۔
طہارت کا ثواب
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی وضو کرے اور خوب عمدگی سے تو ہر قدم پر اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند فرما دیتے ہیں اور ایک خطا معاف فرما دیتے ہیں حتی کہ وہ مسجد میں داخل ہو جائے۔
٭٭ سوید بن سعید، حفص بن میسرۃ، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، حضرت عبد اللہ صنابحی سے مروی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس نے وضو (شروع) کیا اور کلی کی ناک میں پانی ڈالا تو اس کی خطائیں اس کے منہ اور ناک سے دھل گئی حتی کہ آنکھوں کی پلکوں کے نیچے سے بھی اور جب ہاتھ دھوئے تو اس کی خطائیں اس کے ہاتھوں سے دھل گئیں اور جب سر کا مسح کیا تو اس کی خطائیں سر سے دھل گئیں حتی کہ اس کے کانوں سے بھی دھل گئیں اور جب پاؤں دھوئے تو اس کی خطائیں پیروں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی دھل گئیں اور اس کی نماز اور مسجد کی طرف چل کر جانا زائد ثواب کی چیز ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و محمد بن بشار، غندر محمد بن جعفر، شعبہ، یعلی بن عطاء، یزید بن طلق، عبد الرحمن بن بیلمانی، حضرت عمر بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب بندہ وضو کرتا ہے اور اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اس کی خطائیں ہاتھوں سے جھڑ جاتی ہیں اور جب اپنا چہرہ دھوتا ہے تو اس کی خطائیں چہرے سے جھڑ جاتی ہیں اور جب اپنے بازو دھوتا ہے اور سر کا مسح کرتا ہے تو خطائیں بازوؤں اور سر سے جھڑ جاتی ہیں اور جب پیر دھوتا ہے تو خطائیں پیروں سے جھڑ جاتی ہیں۔
٭٭ محمد بن یحییٰ نیشاپوری، ابو ولید ہشام بن عبد الملک، حماد، عاصم، زر بن حبیش، حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا (ایک مرتبہ) لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ (قیامت کے روز) اپنے ان امتیوں کو کیسے پہچانیں گے جن کو آپ نے دیکھا بھی نہ ہو گا فرمایا وہ سفید روشن پیشانی والے روشن چمکتے ہوئے ہاتھ پاؤں والے چت کبرے ہوں گے وضو کے اثرات کی وجہ سے۔
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، ولید بن مسلم، اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، محمد بن ابراہیم، شقیق بن سلمہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام حضرت حمران کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان رضی اللہ کو مقاعد (حضرت عثمان کے گھر کے پاس دکانوں کو مقاعد کہتے تھے ) میں بیٹھے ہوئے دیکھا انہوں نے پانی منگایا اور وضو کر کے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اسی جگہ دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو فرمایا میرے اس وضو کی طرح۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اس کے گزشتہ گناہ معاف ہو جائیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ اس خوشخبری سے دھوکہ میں مبتلا نہ ہونا۔
مسواک کے بارے میں
محمد بن عبد اللہ بن نمیر، ابو معاویہ وابی اعمش، علی بن محمد، وکیع، سفیان، منصور و حصین، ابو وائل، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کو جب تہجد کے لیے اٹھتے تو اپنے دانت مسواک سے ملتے۔ (یعنی سب سے پہلا کام دانتوں کی صفائی کا کرتے )۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ و عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ بن عمر، سعید بن ابی سعید مقبری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا خوف نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا۔
٭٭ سفیان بن وکیع، عثام بن علی، اعمش، حبیب بن ابی ثابت، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کو دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرتے اور مسواک کرتے (اسی طرح ہر دو رکعت کے بعد فرماتے )۔
٭٭ ہشام بن عمار، محمد بن شعیب، عثمان بن ابی عاتکہ، علی بن یزید ، قاسم، حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مسواک کیا کرو اس لیے کہ مسواک منہ کو صاف کرنے والی اور پروردگار کو راضی کرنے والی ہے۔ جب بھی میرے پاس جبرائیل آئے مجھے مسواک کا کہا حتی کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ مسواک مجھ پر اور میری امت پر فرض ہو جائے گی اور اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا خوف نہ ہوتا تو میں مسواک کو اپنی امت پر فرض کر دیتا اور میں اتنا مسواک کرتا ہوں کہ مجھے خطرہ ہونے لگتا ہے کہیں میرے مسوڑھے چھل نہ جائیں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، شریک، مقدام بن شریح بن ہانی کہتے ہیں میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا بتائیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب آپ کے پاس آتے تو سب سے پہلے کیا کام کرتے؟ فرمایا داخل ہوتے ہی سب سے پہلے مسواک کرتے۔
٭٭ محمد بن عبد العزیز، مسلم بن ابراہیم، بحر بن کثیر، عثمان بن ساج، سعید بن جبیر، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہارے منہ قرآن کے راستے ہیں انہیں مسواک کے ذریعے پاک صاف رکھا کرو۔
فطرت کے بیان میں
ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں ختنہ کرنا، زیر ناف بال صاف کرنا، ناخن کاٹنا، بغل کے بال اکھیڑنا، مونچھیں کترنا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، زکریا بن ابی زائدہ، مصعب بن شیبہ، طلق بن حبیب، ابو زبیر، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دس چیزیں فطرت میں سے ہیں مونچھیں کترنا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈال کر صاف کرنا، ناخن کاٹنا انگلیوں وغیرہ کے جوڑ دھونا، بغل کے بال اکھاڑنا، زیر ناف بال مونڈنا، استنجاء کرنا۔ زکریا (راوی) کہتے ہیں (میرے استاذ) مصعب کہا دسویں بھول گیا ہوں شاید کلی کرنا ہو۔
٭٭ سہل بن ابی سہل ومحمد بن یحییٰ، ابو ولید، حماد، علی بن زید، سلمہ بن محمد بن عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ امور فطرت میں سے ہیں کلی کرنا، ناک میں پانی ڈال کر صاف کرنا، مسواک کرنا، مونچھیں کاٹنا، ناخن تراشنا، بغل کے بال اکھیڑنا، زیر ناف مونڈنا، انگلیوں کے جوڑ دھونا، پانی چھڑکنا (اپنے ازار پر وساوس کو رفع کرنے کے لیے ) ختنہ کرنا۔
٭٭ بشر بن ہلال صواف، جعفر بن سلیمان، ابو عمران جونی، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے ہمارے لئے مونچھیں کترنے ، زیر ناف بال مونڈنے ، بغل کے بال اکھاڑنے اور ناخن تراشنے کے لیے یہ وقت مقرر کیا گیا کہ چالیس رات سے زیادہ تاخیر نہ کریں۔
بیت الخلاء داخل ہوتے وقت کیا کہتے؟
محمد بن بشار، محمد بن جعفر و عبد الرحمن بن مہدی، شعبہ، قتادۃ، نضر بن انس ، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ بیت الخلاء جنات کے حاضر ہونے کے مقام ہیں جب تم میں سے کوئی ان میں داخل ہونے لگے تو یہ دعا پڑھے ( اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ) دوسری سند سے بھی ایسا ہی مضمون مروی ہے۔
٭٭ محمد بن حمید، حکم بن بشری بن سلمان، خلاد صفار، حکمر بصری، ابو اسحاق ابو جحیفہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جنات اور انسان کی شرمگاہ کے درمیان آڑ اور پردہ یہ ہے کہ (جب کوئی) بیت الخلاء میں داخل ہونے لگے تو کہے بِسْمِ اللَّہِ
٭٭ عمرو بن رافع، اسماعیل بن علیہ، عبد العزیز بن صہیب، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب بیت الخلاء میں داخل ہونے لگتے تو یہ دعا مانگتے (أَعُوذُ بِاللَّہِ مِنْ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ) میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ناپاک جنوں اور ناپاک جنیوں سے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، ابن ابی مریم، یحییٰ بن ایوب، عبید اللہ بن زحر، علی بن یزید، قاسم، حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی بیت الخلاء میں داخل ہونے لگے تو یہ کہنے سے عاجز و بے بس نہ ہو (یعنی سستی نہ برتے ) (اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ الرِّجْسِ النَّجِسِ الْخَبِیثِ الْمُخْبِثِ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ) اے اللہ عزوجل! میں آپ کی پناہ میں آتا ہوں گندے ، ناپاک، برے ، بدکار اور دھتکار ہوئے شیطان (مردود) سے۔
بیت الخلاء سے نکلنے کے بعد کی دعا
ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن ابی بکیر، اسرائیل، یوسف بن ابی بردہ، حضرت ابو بردہ فرماتے ہیں میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ فرما رہی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب بیت الخلاء سے باہر آتے تو فرماتے (غُفْرَانَکَ) اے اللہ آپ کی بخشش چاہئے۔
٭٭ ہارون بن اسحاق ، عبد الرحمن محاربی، اسماعیل بن مسلم، حسن و قتادۃ، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب بیت الخلاء سے باہر آتے تو یہ دعا پڑھتے ہیں (الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَذْہَبَ عَنِّی الْأَذَی وَعَافَانِی) تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھ سے تکلیف دور کی اور مجھے عافیت دی۔
بیت الخلاء میں ذکر اللہ اور انگوٹھی لے جانے کا حکم
سوید بن سعید، یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ، ابن ابی زائدہ، خالد بن سلمہ، عبد اللہ بھی، عروۃ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر وقت اللہ کو یاد رکھتے تھے۔
٭٭ نصر بن علی جہضمی، ابو بکر حنفی، ہمام بن یحیی، ابن جریج، زہری، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب بیت الخلاء میں داخل ہونے لگتے تو اپنی انگوٹھی اتار دیتے۔
غسل خانے میں پیشاب کرنا مکروہ ہے
محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، معمر، اشعث بن عبد اللہ، حسن، حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں کوئی بھی غسل خانے میں پیشاب نہ کرے اس لیے کہ اکثر و ساوس اسی وجہ سے ہوتے ہیں۔ مؤلف رحمہ اللہ محمد بن یزید کے واسطے سے نقل کرتے ہیں کہ علی بن محمد طنافسی نے فرمایا یہ ممانعت کچے گڑھوں والے غسل خانوں کے بارے میں ہے۔
کھڑے ہو کر پیشاب کرنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، شریک و ہشیم و وکیع، اعمش، ابو وائل، حضرت حذیفہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک قوم کے کوڑے کے ڈھیر پر گئے اور (کسی مجبوری کی وجہ سے ) وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔
٭٭ اسحاق بن منصور، ابو داؤد، شعبہ، عاصم، ابو وائل، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک قوم کے گھورے (کوڑے کے ڈھیر) پر تشریف لے گئے اور کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔
بیٹھ کر پیشاب کرنا
ابو بکر بن ابی شیبہ و سوید بن سعید و اسماعیل بن موسیٰ سدی، شریک ، مقدام بن شریح بن ہانی، ہانی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جو تمہیں یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا تو تم اس کی تصدیق نہ کرنا (اس کو سچا مت سمجھنا) میں نے یہی دیکھا کہ آپ بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، ابن جریج، عبد الکریم بن ابی امیہ، نافع، ابن عمر، حضرت عمر فرماتے ہیں (ایک مرتبہ) مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہوئے دیکھا۔ فرمایا اے عمر کھڑے ہو کر پیشاب مت کرو چنانچہ اس کے بعد سے میں نے کبھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا۔
٭٭ یحییٰ بن فضل، ابو عامر، عدی بن فضل، علی بن حکم، ابو نضرۃ، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے منع فرمایا سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے جو فرمایا کہ میں نے ان کو بیٹھ کر ہی پیشاب کرتے دیکھا تو اس بات کو مرد ان سے زیادہ جانتے ہیں۔ احمد بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ عربوں میں عام رواج کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کا تھا دیکھو عبد الرحمن بن حسنہ کی حدیث میں ہے (کہ یہودی نے ) کہا بیٹھ گیا پیشاب کرنے جیسے عورتیں پیشاب کرتی ہیں۔
دایاں ہاتھ شرمگاہ کو لگانا اور اس سے استنجاء کرنا مکروہ ہے
ہشام بن عمار، عبد الحمید بن حبیب بن ابی العشرین، اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کوئی پیشاب کرے تو اپنا دایاں ہاتھ شرمگاہ کو نہ لگائے اور نہ ہی اس (داہنے ہاتھ) سے استنجاء کرے۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، صلت بن دینار، عقبہ بن صہبان، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے نہ گانا گایا نہ جھوٹ بولا نہ دایاں ہاتھ شرمگاہ کو لگایا جب سے ان باتوں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔
٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، مغیرۃ بن عبد الرحمن و عبد اللہ بن رجاء مکی، محمد بن عجلان، قعقاع بن حکیم ، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی استنجاء کرنے لگے تو اپنے دائیں ہاتھ سے ہرگز استنجاء نہ کرے بلکہ بائیں ہاتھ سے استنجا کرے۔
پتھروں سے استنجا کرنا اور (استنجا میں ) گوبر اور ہڈی (استعمال کرنے) سے ممانعت
محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، ابن عجلان، قعقاع بن حکیم ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تمہارے لئے ایسا ہی (شفیق اور مربی) ہوں جیسا باپ اپنے بیٹے کے لیے میں تمہیں از راہ شفقت تمام امور کے متعلق تعلیم دیتا ہوں (مثلاً) جب تم قضاء حاجت کے لیے جاؤ تو قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ مت کرو اور تین پتھر استعمال کرنے کا حکم دیا اور گوبر اور ہڈی استعمال کرنے سے اور دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنے سے منع فرمایا۔
٭٭ ابو بکر بن خلاد باہلی، یحییٰ بن سعید قطان، زہیر، ابو اسحاق ، عبد الرحمن بن اسود، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قضاء حاجت کے لئے تشریف لے جانے لگے تو فرمایا مجھے تین پتھر لادو تو میں دو پتھر اور ایک گوبر کا ٹکڑا لے گیا (اس لئے کہ پتھر تلاش کے باوجود نہیں مل سکا) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گوبر کا ٹکڑا پھینک کر فرمایا یہ ناپاک ہے۔
٭٭ محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، علی بن محمد، وکیع، ہشام بن عروۃ، ابو کزیمہ، عمارۃ بن خزیمہ، حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا استنجاء میں تین پتھر ہونے چاہئیں جن میں گوبر نہ (یعنی گوبر کو استنجاء کے لیے کسی صورت بھی استعمال نہ کیا جائے )۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، اعمش، محمد بن بشار، عبد الرحمن ، سفیان، منصور اعمش، ابراہیم، عبد الرحمن بن یزید، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو ایک مشرک نے بطور استہزاء کہا مجھے معلوم ہوا کہ تمہارے سردار (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) تمہیں ہر ہر بات سکھاتے ہیں حتی کہ بیت الخلاء میں جانا بھی۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا جی ہمیں انہوں نے یہ حکم دیا کہ ہم (پیشاب یا پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کریں نہ دائیں ہاتھ سے استنجا کریں اور تین پتھروں سے کم پر اکتفا نہ کریں جن (تین) میں گوبر ہو نہ ہڈی۔
پیشاب پاخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا منع ہے
محمد بن رمح مصری، لیث بن سعد، یزید بن ابی حبیب، حضرت عبد اللہ بن حارث بن جزاز بیدی فرماتے ہیں۔ میں نے ہی سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا تم میں سے کوئی بھی قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب نہ کرے اور میں نے ہی سب سے پہلے لوگوں کو یہ حدیث سنائی۔
٭٭ ابو طاہر احمد بن عمرو بن سرح، عبد اللہ بن وہب، یونس ، ابن شہاب، عطاء بن یزید، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان فرما یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قضاء حاجت کے لیے جانے والے کو قبلہ کی طرف منہ کرنے سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ مشرق یا مغرب کی طرف کر لیا کرو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، خالد بن مخلد، سلیمان بن بلال، عمرو بن یحییٰ مازنی، ابو زید مولی ثعلبین، حضرت معقل بن ابو معقل اسدی رضی اللہ عنہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابی ہیں بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیشاب پاخانہ کرتے وقت دونوں قبلوں کی طرف منہ کرنے سے منع فرمایا۔
٭٭ عباس بن ولید دمشقی، مروان بن محمد، ابن لہیعہ، ابو زبیر، جابر بن عبد اللہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پیشاب پاخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے سے منع فرمایا۔
٭٭ ابو الحسن بن سلمہ و ابو سعد عمیر بن مرداس دونقی، عبد الرحمن بن ابراہیم ابو یحییٰ بصری، ابن لہیعہ، ابو زبیر، جابر، حضرت ابو سعید خدری نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ نے مجھے کھڑے ہو کر پانی پینے سے اور قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب کرنے (یا رفع حاجت کرنے ) سے منع فرمایا۔ (یعنی ان کاموں سے اجتناب کرنے کا حکم فرمایا)۔
اس کی رخصت ہے بیت الخلاء میں اور صحرا میں رخصت نہیں
ہشام بن عمار، عبد الحمید بن حبیب، اوزاعی، یحییٰ بن سعید انصاری، ابو بکر بن خلاد و محمد بن یحییٰ، یزید بن ہارون، یحییٰ بن سعید، محمد بن یحییٰ بن حبان، واسع بن حبان، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ جب قضاء حاجت کے لیے بیٹھنے لگو تو قبلہ کی طرف منہ نہ کرو اور میں ایک دن اپنے گھر کی چھت پر گیا تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو اینٹوں پر بیت المقدس کی طرف منہ کئے ہوئے بیٹھے تھے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، عبید اللہ بن موسی، عیسیٰ حناط، نافع، حضرت ابن عمر نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بیت الخلا میں قبلہ کی طرف منہ کئے ہوئے دیکھا۔ راوی عیسیٰ کہتے ہیں میں نے امام شعبی رحمہ اللہ سے اس کے متعلق اشکال ظاہر کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ابن عمر نے بھی سچ فرمایا اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی سچ فرمایا اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ کی حدیث کا مطلب ہے کہ جنگل میں ہو تو قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ نہ کرو اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث بیت الخلاء سے متعلق ہے کیونکہ بیت الخلاء میں کوئی قبلہ نہیں جس طرف چاہو منہ کر لو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، حماد بن سلمہ، خالد حذاء، خالد بن ابی صلت، عراک بن مالک، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے ایک (ایسی) جماعت کا ذکر ہوا جو اپنی شرمگاہوں کو قبلہ کی طرف (کرنا) ناپسند کرتے تھے۔ (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد) فرمایا میرا خیال ہے کہ واقعتا ًوہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ میرے بیٹھنے کی جگہ کا رخ قبلہ کی طرف کر دو۔
٭٭ محمد بن بشار، وہب بن جریر، جریر، محمد بن اسحاق ، ابان بن صالح، مجاہد، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب کرنے سے منع فرمایا۔ پھر میں نے وفات سے ایک سال قبل دیکھا کہ آپ قبلہ کی طرف منہ کئے ہوئے ہیں۔
پیشاب کے بعد خوب صفائی کا اہتمام کرنا
علی بن محمد، وکیع، محمد بن یحییٰ، ابو نعیم، زمعۃ بن صالح، عیسیٰ بن یزداد یمانی، حضرت یزداد یمانی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی پیشاب کرے تو چاہئے کہ جھاڑے اپنا ذکر تین بار۔ دوسری سند سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔
پیشاب کرنے کے بعد وضو نہ کرنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، عبد اللہ بن یحییٰ توأم، ابن ابی ملیکہ، ان کی والدہ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیشاب کرنے کے لیے گئے تو حضرت عمر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ پانی لے گئے۔ فرمایا اے عمر! یہ کیا ہے؟ عرض کیا پانی۔ فرمایا جب بھی میں پیشاب کرو تو مجھے وضو کرنے کا حکم نہیں اور اگر میں ایسا کروں تو یہ سنت بن جائے۔
راستے میں پیشاب کرنے سے ممانعت
حرملہ بن یحییٰ، عبد اللہ بن وہب، نافع بن یزید، حیوۃ بن شریح، حضرت حمیری فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ (اہتمام سے ) ایسی احادیث بیان فرمایا کرتے تھے جو اور صحابہ نے نہ سنی ہوں اور جو احادیث اور صحابہ نے بھی سنی ہوں تو وہ (اس اہتمام) سے نہیں سناتے تھے۔ جب عبد اللہ بن عمرو کو وہ احادیث معلوم ہوئیں تو فرمایا بخدا ! میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے نہ سنا اور بعید نہیں کہ معاذ تمہیں قضاء حاجت کے بارے میں آزمائش میں ڈال دیں (اور مشقت میں مبتلا کر دیں ) حضرت معاذ کو اس کی اطلاع ہوئی تو حضرت عبد اللہ بن عمرو سے ملے اور کہا اے عبد اللہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی حدیث کو جھٹلانا نفاق ہے اور اس کا گناہ روایت کرنے والے کو ہی ہوتا ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لعنت کی تین باتوں سے بچو مسافروں کے اترنے کی جگہ پاخانہ کرنا، سائے اور راستے میں پاخانہ کرنا۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، عمرو بن ابی سلمہ، زہیر، سالم، حسن، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بچو تم راستے کے بیچ میں ٹھہرنے سے اور وہاں نماز پڑھنے سے اس لئے کہ وہ سانپوں اور درندوں کی جگہ ہے اور وہاں قضاء حاجت سے اس لئے کہ یہ لعنت کا سبب ہے۔
٭٭ محمد بن یحیی، عمرو بن خالد، ابن لہیعہ، قرۃ، ابن شہاب، حضرت سالم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے راستے کے درمیان میں نماز پڑھنے سے اور پیشاب، پاخانہ کرنے سے منع فرمایا۔
پاخانہ کے لئے دور جانا
ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قضاء حاجت کے لئے دور تشریف لے جاتے۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، عمرو بن عبید، محمد بن مثنی، عطاء خراسانی، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک سفر میں میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھا آپ قضاء حاجت کے لیے ایک طرف تشریف لے گئے واپس آ کر پانی منگوایا اور وضو کیا۔
٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، یحییٰ بن سلیم، ابن خثیم، یونس بن خباب، حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قضاء حاجت کے لئے دور تشریف لے جاتے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید قطان، ابو جعفر خطمی، ابو بکر بن ابی شیبہ عمیر بن یزید، عمارۃ بن خزیمہ وحارث بن فضیل، حضرت عبد الرحمن بن ابی قراد رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حج کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قضاء حاجت کے لئے دور تشریف لے جاتے تھے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبید اللہ بن موسی، اسماعیل بن عبد الملک، ابو زبیر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت تک قضاء حاجت نہ فرماتے جب تک نگاہوں سے اوجھل نہ ہو جاتے۔
٭٭ عباس بن عبد العظیم عنبری، عبد اللہ بن کثیر بن جعفر، کثیر بن عبد اللہ مزنی، عبد اللہ بن مزنی، حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قضاء حاجت کے لئے دور تشریف لے جاتے تھے۔
پیشاب، پاخانہ کے لیے موزوں جگہ تلاش کرنا
محمد بن بشار، عبد الملک بن صباح، ثور بن یزید، حصین حمیری، ابو سعید خیر، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو ڈھیلے سے استنجاء کرے تو چاہئے کہ طاق عد د لے۔ جو کرے تو اچھا ہے اور جو نہ کرے تو کوئی حرج نہیں اور جو خلال کرے تو (دانتوں سے جو کچھ نکلے ) چاہئے کہ اسے پھینک دے اور جو زبان کی حرکت سے نکلے تو اسے نگل لے جس نے ایسا کیا تو اچھا کیا اور جس نے نہ کیا اس پر کوئی حرج نہیں اور جو قضاء حاجت کے لئے جائے تو (لوگوں سے دور ہونے کے باوجود) آڑ بنا لے اگر کوئی صورت نہ ہو اور ریت کا ڈھیر تو اس کو زیادہ کر لے اس لئے کہ شیطان انسان کی شرمگاہ سے کھیلتا ہے (اس لئے انسانوں سے پردہ کے ساتھ ساتھ شیاطین سے بھی حتی الامکان پردہ بہتر ہے ) جو ایسا کر لے تو بہت اچھا اور نہ کرے تو کوئی حرج بھی نہیں۔
٭٭ عبد الرحمن عمر، عبد الملک بن صباح، دوسری سند سے بھی یہی مضمون مروی ہے اور اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ جو سرمہ لگائے تو طاق عد د کا خیال رکھے جو کر لے تو اچھا ہے اور نہ کرے تو حرج نہیں اور جو زبان کی حرکت سے نکالے تو وہ نگل لینا چاہئے۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، اعمش، منہال بن عمرو، یعلی بن مرہ سے روایت ہے ان کے والد نے فرمایا کہ میں ایک سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قضاء حاجت کرنا چاہتے تھے مجھے فرمایا ان دو کھجور کے درختوں کے پاس جا کر ان سے کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمہیں ایک جگہ ہو جانے کا حکم دیتے ہیں (میں نے ایسا ہی کیا) تو وہ ایک جگہ ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی آڑ میں قضاء حاجت کی۔ پھر مجھ سے فرمایا ان سے جا کر کہو کہ ہر ایک اپنی سابقہ جگہ پر واپس ہو جائے میں نے ان سے کہہ دیا تو وہ واپس (اپنی جگہ پر) آ گئے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، ابو نعمان، مہدی بن میمون، محمد بن ابی یعقوب، حسن بن سعد، حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے قضاء حاجت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سب سے پسندیدہ آڑ زمین کا ٹیلہ یا کھجور کے درختوں کا جھنڈ تھی۔
٭٭ محمد بن عقیل بن خویلد، حفص بن عبد اللہ، ابراہیم بن طہمان، محمد بن ذکوان، یعلی بن حکیم، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک گھاٹی کی طرف مڑے اور پیشاب کیا اور مجھے پیشاب کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاؤں کشادہ ہونے پر رحم آ رہا تھا۔
قضاء حاجت کے لیے جمع ہونا اور اس وقت گفتگو کرنا منع ہے
محمد بن یحییٰ، عبد اللہ بن رجاء، عکرمہ بن عمار، یحییٰ بن ابی کثیر، ہلال بن عیاض، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا دو شخص بھی قضاء حاجت کے درمیان باتیں نہ کریں کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کی شرمگاہ کی طرف دیکھ سکتا ہو۔ اس لئے کہ یہ چیز اللہ تعالیٰ کو غصہ دلانے والی ہے۔ دوسری سند سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔
٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابو زبیر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو خالد احمر، ابن عجلان، عجلان، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ٹھہرے ہوئے پانی میں ہرگز کوئی پیشاب نہ کرے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، محمد بن مبارک، یحییٰ بن حمزہ، ابن ابی فروۃ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہرگز کوئی بھی ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے
پیشاب کے معاملے میں شدت
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، زید بن وہب، حضرت عبد الرحمن بن حسنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ میں ڈھال تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو رکھا پھر (اس کی آڑ میں ) بیٹھے اور پیشاب کیا۔ ایک شخص (کافر) نے کہا اس کو دیکھو عورتوں کی طرح پیشاب کر رہا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی یہ بات سنی۔ فرمایا تیرا ستیاناس ہو تجھے پتہ نہیں بنی اسرائیل کے ایک شخص کو کیا سزا ملی۔ بنی اسرائیل جب کسی کپڑے کو پیشاب لگ جاتا تو اس کو قینچیوں سے کاٹ دیتے تھے ایک شخص نے ایسا کرنے سے ان کو منع کیا تو اس منع کرنے والے کو قبر میں عذاب ہوا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ وکیع، اعمش، مجاہد، طاؤس، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دو نئی قبروں کے قریب سے گزرے تو فرمایا ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور ان کو کسی مشکل کام کی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا۔ ایک تو پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خوری کرتا تھا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عفان، ابو عوانہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اکثر عذاب قبر پیشاب (سے نہ بچنے ) کی وجہ سے ہوتا ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، اسود بن شیبان، بحر بن مرار، حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوقبروں کے پاس سے گزرے اور فرمایا ان کو عذاب ہو رہا ہے اور کسی مشکل کام کی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا ہے بلکہ ایک کو پیشاب سے نہ بچنے کی وجہ سے اور دوسرے کو غیبت کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے۔
جس کو سلام کیا جائے جبکہ وہ پیشاب کر رہا ہو
اسماعیل بن محمد طلحی و احمد بن سعید دارمی، روح بن عبادۃ، سعید ، قتادۃ، حسن، حصین بن منذر بن حارث بن وعلۃ ابی ساسان رقاشی، حضرت مہاجر بن قنفذ بن عمیر بن جذعان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وضو کر رہے تھے میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب نہ دیا جب وضو سے فارغ ہوئے تو ارشاد فرمایا سلام کا جواب دینے سے یہ مانع ہوا کہ میں بے وضو تھا۔ دوسری سند سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔
٭٭ ہشام بن عمار، مسلمہ بن علی، اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سے گزرے آپ پیشاب کر رہے تھے انہوں نے سلام کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام کا جواب نہ دیا اور جب فارغ ہوئے تو زمین پر دونوں ہاتھ مار کر تیمم کیا پھر سلام کا جواب دیا۔
٭٭ سوید بن سعید، عیسیٰ بن یونس، ہاشم بن برید، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سے گزرے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیشاب کر رہے تھے۔ انہوں نے سلام کر دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا جب تم مجھے اس حالت میں دیکھو تو سلام مت کیا کرو اگر ایسا کرو گے تو میں جواب نہ دوں گا۔
٭٭ عبد اللہ بن سعد وحسین بن ابی سری عسقلانی، ابو داؤد، سفیان، ضحاک بن عثمان، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ایک صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سے گزرے۔ آپ پیشاب کر رہے تھے انہوں نے سلام کر دیا۔ آپ نے جواب نہ دیا۔
پانی سے استنجا کرنا
ہناد بن سری، ابو الاحوص، منصور، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قضاء حاجت سے فارغ ہو کر (استنجاء میں ) پانی ضروری استعمال فرماتے ہیں۔
٭٭ ہشام بن عمار، صدقہ بن خالد، عتبہ بن ابی حکیم، طلحہ بن نافع ابو سفیان، حضرت ابو ایوب انصاری، جابر بن عبد اللہ، انس بن مالک رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ آیت (رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَہَّرُوْا ۭوَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیْنَ ١٠٨) 9۔ التوبہ:108) اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے گروہ انصار اللہ تعالیٰ نے طہارت کی وجہ سے تمہاری تعریف فرمائی ہے تو تم طہارت کیسے حاصل کرتے ہو۔ انہوں نے عرض کیا نماز کے لیے وضو کرتے ہیں۔ جنابت ہو جائے تو غسل کرتے ہیں اور پانی سے استنجا کرتے ہیں۔ فرمایا بس یہی وجہ ہے تم اس کو تھامے رکھو۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، شریک، جابر، زید عمی، ابو صدیق نافی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (قضاء حاجت کے بعد) مقعد تین بار دھوتے تھے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہم نے ایسا کیا تو معلوم ہوا کہ یہ (بیماریوں بواسیر وغیرہ کا) علاج بھی ہے اور پاکیزگی بھی۔ دوسری سند سے یہی مضمون ہے۔
٭٭ ابو کریب، معاویہ بن ہشام، یونس بن حارث، ابراہیم بن ابی میمونہ، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اہل قباء کے بارے میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی (رِجَالٌ یُحِبُّونَ أَنْ یَتَطَہَّرُوا وَاللَّہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِینَ) 9۔ التوبہ:108) فرمایا وہ پانی سے استنجا کرتے تھے تو ان کے بارے میں یہ آیت اتری۔
مرد اور عورت کا ایک برتن سے وضو کرنا
ہشام بن عمار، مالک بن انس، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں مرد اور عورتیں ایک برتن سے وضو کر لیا کرتے تھے۔
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، انس بن عیاض، اسامہ بن زید، سالم ابو نعمان بن سرح، حضرت ام صبیہ جہنیہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ بسا اوقات ایک برتن سے وضو کرنے میں میرا اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ہاتھ ایک دوسرے سے ٹکرا گیا۔ ابن ماجہ فرماتے ہیں کہ میں نے محمد کو یہ کہتے سنا کہ ام صبیہ خول بنت قیس ہیں میں نے ابو زرعہ سے اس کا ذکر کیا تو فرمایا کہ سچ کہا۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، داؤد بن شبیب، حبیب بن ابی حبیب، عمرو بن ہرم، عکرمہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں بتاتی ہیں وہ دونوں نماز کے لیے اکٹھے وضو کرتے تھے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، ان کے والد، محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، سفیان، ابو فزارۃ عبسی، ابو زید مولیٰ عمرو بن حریث، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو لیلۃ الجن (جس رات میں جنوں کو وعظ کے لیے مکہ سے باہر تشریف لے گئے تھے ) میں ارشاد فرمایا تمہارے پاس وضو کا پانی ہے؟ عرض کیا کچھ نہیں سوائے تھوڑی سی نبیذ کے چھاگل میں۔ ارشاد فرمایا پاک کھجوریں پاک کرنے والا پانی اور وضو کر لیا۔
نبیذ سے وضو کرنا
عباس بن ولید دمشقی، مروان بن محمد، ابن لہیعہ، قیس بن حجاج، خنش صنعانی، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لیلۃ الجن میں حضرت ابن مسعود سے فرمایا تمہارے پاس پانی ہے؟ عرض کیا نہیں مگر نبیذ مشکیزہ میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کھجور پاک ہے اور پانی پاک کرنے والا۔ میرے اوپر پانی ڈالو میں نے ڈالا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا۔
سمندری پانی سے وضو کرنا
ہشام بن عمار، مالک بن انس، صفوان بن سلیم، سعید بن سلمہ، مغیرۃ بن ابی بردۃ ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول! ہم سمندری سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا سا پانی بھی لے لیتے ہیں اگر ہم اس سے وضو بھی کریں تو پیا سے رہ جائیں تو کیا ہم سمندری پانی سے وضو کر لیا کریں؟ فرمایا اس کا پانی پاک کرنے والا ہے اور اس کا مردار (خود بخود مر جانے والی مچھلی) حلال ہے۔
٭٭ سہل بن ابی سہل، یحییٰ بن بکیر، لیث بن سعد، جفر بن ربیعہ، بکر بن سوادۃ، مسلم بن مخشی، حضرت ابن فراسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں شکار کیا کرتا تھا اور میرا ایک مشکیزہ تھا جس میں پانی رکھتا تھا اور میں نے سمندری پانی سے وضو کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کا ذکر کیا۔ ارشاد فرمایا سمندر کا پانی پاک کرنے والا ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، احمد بن حنبل، ابو قاسم بن ابی زناد، اسحاق بن حازم، عبید اللہ ابن مقسم، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سمندری پانی کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سمندر کا پانی پاک کرنے والا ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔ دوسری سند سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔
وضو میں کسی سے مد د طلب کرنا اور اس کا پانی ڈالنا
ہشام بن عمار، عیسیٰ بن یونس، اعمش، مسلم بن صبیح، مسروق، حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قضاء حاجت کے لئے تشریف لے گئے جب واپس آ رہے تھے تو میں چھاگل لے کر حاضر ہوا میں نے پانی ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہاتھ دھوئے پھر چہرہ دھویا پھر کہنیوں (سمیت ہاتھوں ) کو دھونے لگے تو جبہ (آستین) تنگ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جبہ کے نیچے سے بازو نکالے اور ان کو دھویا اور موزوں پر مسح کیا پھر ہمیں نماز پڑھائی۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، ہیثم بن جمیل، شریک، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لوٹا لے کر آئی۔ فرمایا پانی ڈالو میں نے پانی ڈالا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چہرہ بازو دھوئے اور نیا پانی لے کر سر کے اگلے پچھلے حصے کا مسح کیا اور دونوں پاؤں تین تین بار۔
٭٭ بشر بن آدم، زید بن حباب، ولید بن عقبہ، حذیفہ ازدی، حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے سفر حضر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وضو کروایا۔ (میں پانی ڈالتا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اعضاء ملتے تھے )۔
٭٭ کر دوس بن ابی عبد اللہ واسطی، عبد الکریم بن روح، روح بن عنبسہ، ابو عیاش مولی عثمان بن عفان، عنبسہ بن سعید، ام عیاش، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی باندی ام عیاش رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وضو کروا دیا کرتی تھی۔ میں کھڑی ہوتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھے ہوتے۔ (یعنی نسبتاً اونچائی سے پانی گراتی)۔
جب آدمی نیند سے بیدار ہو تو اسے معلوم نہیں ہوتا کہ رات کو ہاتھ کہاں لگا
عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ولید بن مسلم، اوزاعی، زہری، سعید بن مسیب و ابو سلمہ بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم نیند سے بیدار ہو تو اسے معلوم نہیں ہوتا کہ رات کو ہاتھ کہاں کہاں لگا۔
٭٭ حرملہ بن یحییٰ، عبد اللہ بن وہب، ابن لہیعہ و جابر بن اسماعیل، عقیل، ابن شہاب، حضرت سالم اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم نیند سے بیدار ہو جاؤ تو ہاتھ دھوئے بغیر کسی برتن میں نہ ڈالا کرو۔ (یعنی اتنی سستی یا لاپرواہی نہ برتو، اسی برتن سے پانی نکال کر ہاتھ دھو لو)۔
٭٭ اسماعیل بن توبہ، زیاد بن عبد اللہ بکائی، عبد الملک بن ابی سلیمان، ابو زبیر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم نیند سے بیدار ہو کر وضو کرنا چاہو تو ہاتھ دھوئے بغیر پانی میں نہ ڈالو کیونکہ معلوم نہیں ہاتھ رات کو کہاں کہاں لگا اور کس چیز پر رکھا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو بکر بن عیاش، ابو اسحاق ، حضرت حارث فرماتے ہیں کہ علی کرم اللہ وجہہ نے پانی منگایا اور برتن میں ہاتھ ڈالنے سے قبل ان کو دھویا پھر فرمایا میں نے رسول اللہ کو ایسے ہی کرتے دیکھا۔
وضو میں بسم اللہ کہنا
ابو کریب محمد بن علاء، زید بن حباب، محمد بن بشار، ابو عامر عقدی، احمد بن منیع، ابو احمد زبیری، کثیر بن زید، ربیح بن عبد الرحمن بن ابی سعید، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو وضو میں اللہ کا نام نہ لے اس کا وضو نہیں۔
٭٭ حسن بن علی خلال، یزید بن عیاض، ابو ثقال، رباح بن عبد الرحمن بن ابی سفیان، بنت سعید بن زید، حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس کا وضو نہ ہو اس کی نماز نہیں (اس کا وضو نہیں۔
٭٭ ابو کریب و عبد الرحمن بن ابراہیم، ابن ابی فدیک، محمد بن موسیٰ بن ابی عبد اللہ، یعقوب بن سلمہ لیثی، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کا وضو نہ ہو اس کی نماز نہیں اور جو وضو میں اللہ کا نام نہ لے اس کا وضو نہیں۔
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم ، ابن ابی فدیک، عبد المہیمن بن عباس بن سہل بن سعد ساعدی، حضرت سہل بن سعید الساعدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کا وضو نہ ہو اس کی نماز نہیں اور جو وضو میں اللہ کا نام نہ لے اس کا وضو نہیں اور جو مجھ پر درود شریف نہ پڑھے اس کی نماز نہیں اور جو انصار سے محبت نہ کرے اس کا درود شریف بھی نہیں۔ دوسری سند سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔
وضو میں دائیں کا خیال رکھنا
ہناد بن سری، ابو احوص، اشعث بن ابی شعثاء۔ سفیان بن وکیع، عمرو بن عبید طنافسی، اشعث بن ابی شعثاء، ابن ابی شعثاء، مسروق، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دائیں سے ابتداء کو پسند فرماتے تھے وضو کرتے وقت وضو میں ، کنگھی کرتے وقت کنگھی میں اور جوتا پہنتے وقت جوتا پہننے میں۔ (یعنی ہر اچھے کام میں دائیں سے ابتداء مسنون ہے )
٭٭ محمد بن یحییٰ، ابو جعفر نفیلی، زہیر بن معاویہ، اعمش، ابو صالح ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم وضو کرو تو پہلے دائیں اعضاء سے دھویا کرو۔ دوسری سند سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔
ایک چلو سے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا
عبد اللہ بن جراح و ابو بکر بن خلاد باہلی، عبد العزیز بن محمد، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، شریک، خالد بن علقمہ، عبد خیر، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا اور ایک چلو سے تین بار کلی کی۔
٭٭ علی بن محمد، ابو حسین عکلی، خالد بن عبد اللہ، عمرو بن یحییٰ، یحییٰ، حضرت عبد اللہ بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ فرما یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے ہاں تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کا پانی طلب فرمایا۔ میں پانی لے کر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔
خوب اچھی طرح ناک میں پانی ڈالنا اور ناک صاف کرنا
احمد بن عبدۃ، حماد بن زید، منصور، ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو احوص، منصور، ہلال بن یساف، حضرت سلمہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا جب تم وضو کرو تو ناک صاف کر لو اور جب استنجاء میں ڈھیلے استعمال کرو تو طاق عد د لو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن سلیم طائفی، اسماعیل بن کثیر، عاصم بن لقیط بن صبرۃ، حضرت لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! مجھے وضو کے بارے میں بتائیے۔ ارشاد فرمایا خوب اچھی طرح وضو کرو اور روزہ نہ ہو تو خوب اچھی طرح ناک صاف کرو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن سلیمان علی بن محمد، وکیع، ابن ابی ذئب، قارظ بن شیبہ، ابو غطفان مری، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دو تین بار اچھی طرح ناک صاف کیا کرو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، زید بن حباب، داؤد بن عبد اللہ، مالک بن انس، ابن شہاب، ابو ادریس خولانی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو وضو کرے تو ناک صاف کر لے اور جو استنجاء کرتے وقت ڈھیلے استعمال کرے تو طاق عد د لے۔
وضو میں اعضاء کا ایک ایک بار دھونا
عبد اللہ بن عامر بن زرارۃ، شریک بن عبد اللہ نخعی، حضرت ثابت ابی صفیہ ثمالی کہتے ہیں۔ میں نے ابو جعفر سے پوچھا آپ کو حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ملی کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ایک بار اعضاء وضو دھوئے؟ فرمایا جی میں نے پوچھا اور دو دو مرتبہ اور تین تین مرتبہ (کی روایت بھی ملی؟) فرمایا جی۔
٭٭ ابو بکر بن خلاد باہلی، یحییٰ بن سعید قطان، سفیان، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک ایک بار (اعضاء دھو کر) وضو کرتے دیکھا۔
ابو کریب، رشدین بن سعد، ضحاک بن شرحبیل، زید بن اسلم، اسلم، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو غزوہ تبوک میں ایک ایک بار (اعضاء دھو کر) وضو کرتے دیکھا۔
وضو میں اعضاء تین بار دھونا
محمود بن خالد دمشقی، ولید بن مسلم دمشقی، ابن ثوبان، عبدۃ بن ابی لبابہ، حضرت شقیق بن سلمہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وضو میں اعضاء تین بار دھوئے اور دونوں نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وضو ایسا ہی تھا۔ ایک اور سند سے یہی مضمون مروی ہے۔
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ولید بن مسلم، اوزاعی، مطلب بن عبد اللہ بن حنطب، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی ہے انہوں نے تین تین بار (اعضاء دھو کر) وضو کیا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف منسوب کیا۔
٭٭ ابو کریب، خالد بن حیاب، سالم بن مہاجر، میمون بن مہران، حضرت عائشہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین تین بار (اعضاء دھو کر) وضو کیا۔
٭٭ سفیان بن وکیع، عیسیٰ بن یونس، قائد ابی الورقاء بن عبد الرحمن ، حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ وضو میں باقی اعضاء تین تین بار دھوئے اور سر کا مسح ایک بار کیا۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، محمد بن یوسف، سفیان، لیث، شہر بن حوشب، حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اعضاء دھوتے تھے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، و علی بن محمد، وکیع، سفیان، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اعضاء وضو تین تین بار دھوئے۔
وضو میں اعضاء ایک بار، دو بار اور تین بار دھونا
ابو بکر بن خلاد باہلی، مرحوم بن عبد العزیز عطار، عبد الرحیم بن زید عمی، ابن زید، معاویہ بن قرۃ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اعضاء وضو ایک ایک بار دھو کر فرمایا اس وضو کے بغیر اللہ تعالیٰ نماز قبول نہیں فرماتے اور دو دو مرتبہ اعضاء وضو دھوئے اور فرمایا یہ مناسب درجہ کا وضو ہے اور تین تین بار اعضاء دھوئے اور فرمایا یہ کامل ترین وضو ہے اور یہ میرا اور ابراہیم خلیل اللہ کا وضو ہے جو اس طرح وضو کر کے کہے ( أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ) تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جس سے چاہے داخل ہو۔
٭٭ جعفر بن مسافر، اسماعیل بن قعنب ابو بشر، عبد اللہ بن عرادۃ شیبانی، زید بن حواری، معاویہ بن قرۃ، عبید بن عمیر، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی منگایا اور ایک ایک بار اعضاء وضو دھو کر فرمایا یہ مقرر وضو ہے (کہ بغیر اس کے نماز نہیں ہوتی) یا فرمایا یہ وہ وضو ہے جس کے بغیر اللہ تعالیٰ نماز قبول نہیں فرماتے۔ پھر دو دو مرتبہ اعضاء وضو دھو کر فرمایا یہ ایسا وضو ہے۔ جس پر اللہ تعالیٰ دوہرا اجر عطاء فرماتے ہیں۔ پھر تین تین بار اعضاء وضو دھوئے اور فرمایا یہ میرا اور مجھے سے پہلے کے رسولوں کا وضو ہے۔
وضو میں میانہ روی اختیار کرنے اور حد سے بڑھنے کی کراہت
محمد بن بشار، ابو داؤد، خارجہ بن مصعب، یونس ، عبید، حسن، عتی بن ضمرۃ سعدی، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا وضو کا ایک شیطان ہے جس کا نام ولہان ہے لہٰذا پانی میں وسوسوں سے بچو۔ (کیونکہ وہ اس کی کوشش میں رہتا ہے )۔
٭٭ علی بن محمد، یعلی، سفیان، موسیٰ بن ابی عائشہ، حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے وہ دادا سے روایت کرتے ہیں ایک دیہات کے رہنے والے صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وضو کے متعلق دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو تین تین بار وضو کر کے دکھایا۔ پھر فرمایا یہ پورا وضو ہے جس نے اس پر اضافہ کیا اس نے برا کیا اور زیادتی کی اور ظلم کیا۔
٭٭ ابو اسحاق شافعی ابراہیم بن محمد بن عباس، سفیان، عمرو، کریب، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں میں اپنی خالہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس رات کو ٹھہرا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کو اٹھے اور ایک پرانے سے مشکیزے سے مختصر سا وضو کیا۔ میں بھی اٹھا جیسے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا (ویسے ہی میں نے بھی کیا)۔
٭٭ محمد بن مصفی حمصی، محمد بن فضل، فضل، سالم، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا تو ارشاد فرمایا اسراف نہ کرو، اسراف نہ کرو۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، قتیبہ، ابن لہیعہ، حی بن عبد اللہ معافری، ابو عبد الرحمن حبلی، عبد اللہ معافری، ابو عبد الرحمن حبلی، حضرت عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت سعد کے پاس سے گزرے۔ وہ وضو کر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ کیا اسراف ہے ! حضرت سعد نے عرض کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ (حالانکہ یہ ایک نیک کام میں خرچ کرنا ہے ) فرمایا جی! اگرچہ تم جاری نہر پر (وضو کر رہے ہو) (کیونکہ اگرچہ پانی تو ضائع نہیں ہو رہا لیکن وقت تو ضائع ہو رہا ہے )۔
خوب اچھی طرح وضو کرنا
احمد بن عبدۃ، حماد بن زید، موسیٰ بن سالم ابو جہضم، عبد اللہ بن عبید اللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خوب اچھی طرح وضو کرنے کا حکم دیا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن ابی بکیر، زہیر بن محمد، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، سعید بن مسیب، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ خطائیں معاف فرما دیں اور نیکیوں (کے اجر) میں اضافہ فرما دیں۔ صحابہ نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ ! فرمایا خلاف طبع امور کے باوجود خوب اچھی طرح وضو کرنا اور مسجد کی طرف قدموں کی کثرت اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں رہنا۔
٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، سفیان بن حمزہ، کثیر بن زید، ولید بن رباح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خطاؤں کو مٹانے والے اعمال خلاف طبع امور کے باوجود خوب اچھی طرح وضو کرنا، مسجد کی طرف قدم اٹھانا اور ایک نماز کے بعد اگلی نماز کا انتظار کرنا ہیں۔
داڑھی میں خلال کرنا
محمد بن ابی عمر مدنی، سفیان، عبد الکریم ابو امیہ، حسان بن بلال، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو (وضو) میں داڑھی کا خلال کرتے ہوئے دیکھا۔ (اور دوران وضو داڑھی کا خلال کرنا مستحب ہے )
٭٭ محمد بن ابی خالد قزوینی، عبد الرزاق، اسرائیل، عامر بن شقیق اسدی، ابو وائل، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو میں داڑھی کا خلال کیا۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن حفص بن ہشام بن زید بن انس بن مالک، یحییٰ بن ابی کثیر ابو النضر صاحب البصری، یزید رقاشی، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب وضو کرتے تو اپنی داڑھی میں خلال کرتے اور اپنی انگلیاں دو بار کھولتے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی داڑھی میں خلال کرتے۔
٭٭ ہشام بن عمار، عبد المجید بن حبیب، اوزاعی، عبد الواحد بن قیس، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب وضو کرتے تو اپنے رخساروں کو کچھ ملتے پھر داڑھی کے نیچے سے انگلیوں سے داڑھی کا خلال کرتے۔
٭٭ اسماعیل بن عبد اللہ رقی، محمد بن ربیعہ کلابی، واصل بن سائب رقاشی، ابو سورۃ، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دوران وضو داڑھی میں خلال کرتے دیکھا۔
سر کا مسح
ربیع بن سلیمان و حرملہ بن یحییٰ، محمد بن ادریس شافعی، مالک بن انس، حضرت عمرو بن یحییٰ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عبد اللہ بن زید جو عمرو بن یحییٰ کے دادا ہیں سے کہا کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وضو کیسے کرتے تھے؟ حضرت عبد اللہ بن زید نے فرمایا جی۔ پھر انہوں نے وضو کا پانی منگایا اور ہاتھوں پر پانی ڈال کر دو دو مرتبہ دونوں بازو کہنیوں سمیت دھوئے پھر دونوں ہاتھوں سے سر کا مسح کیا ہاتھوں کو آگے رکھا اور پیچھے لے گئے سر کے سامنے کے حصے سے مسح شروع کیا پھر دونوں ہاتھ گدی تک لے گئے پھر ہاتھوں کو واپس وہیں لے آئے جہاں سے مسح شروع کیا تھا پھر دونوں پاؤں دھوئے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عباد بن عوام، حجاج، عطاء، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ نے وضو کیا اور ایک بار سر کا مسح کیا۔
٭٭ ہناد بن سری، ابو الاحوص، ابو اسحاق ، ابو حیہ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (وضو میں ) ایک بار سر کا مسح کیا۔
٭٭ محمد بن حارث مصری، یحییٰ بن راشد بصری، یزید مولی سلمہ، حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا اور ایک بار سر کا مسح کیا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ وعلی بن محمد، وکیع، سفیان، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، حضرت ربیع بن معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا اور دو بار سر پر مسح کیا۔
کانوں کا مسح کرنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن ادریس، ابن عجلان، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (وضو میں ) کانوں کا مسح کیا اندر کا شہادت کی انگلی سے اور انگوٹھے کانوں کی پشت پر پھیرے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کانوں کے سامنے اور پیچھے دونوں طرف سے مسح کیا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، حسن صالح، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا اور اپنی انگلیوں کو کانوں کے سوراخ میں ڈالا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، حسن بن صالح، عبد اللہ بن محمد عقیل، ربیع نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا کانوں کے باہر اور اندر۔
٭٭ ہشام بن عمار، ولید، حریز بن عثمان، عبد الرحمن بن میسرۃ، حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا اور سر کا مسح کیا اور کانوں کے اندر باہر کا بھی۔
کان سر میں داخل ہیں
سوید بن سعید، یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ، شعبہ، حبیب بن زید، عباد بن تمیم، حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کان سر میں داخل ہیں۔
٭٭ محمد بن زیاد، حماد بن زید، سنان بن ربیعہ، شہر بن حوشب، حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کان سر میں داخل ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک بار سر کا مسح کرتے تھے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، عمرو بن حصین، محمد بن عبد اللہ بن علاثہ، عبد الکریم جزری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کان سر کا حصہ (یعنی ان کے مسح کے لیے علیحدہ پانی لینے کی ضرورت نہیں سر کے مسح کے لیے تر کیا ہوا ہاتھ کافی ہے )۔
انگلیوں میں خلال کرنا
محمد بن مصفی حمصی، محمد بن حمیر، ابن لہیعہ، یزید بن عمرو معافری، ابو عبد الرحمن حبلی، حضرت مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا تو دونوں پاؤں کی انگلیوں میں چھنگلیا سے خلال کیا۔ دوسری سند سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔
٭٭ ابراہیم بن سعید جوہری، سعد بن عبد الحمید بن جعفر، ابن ابی زناد، موسیٰ بن عقبہ، صالح مولی توامہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم نماز کے لئے اٹھو تو خوب اچھی طرح وضو کرو اور اپنے ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کے اندر تک پانی پہنچاؤ۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن سلیم طالفی، اسماعیل بن کثیر، عاصم بن لقیط بن صبرۃ، حضرت لقیط بن صبرۃ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خوب اچھی طرح وضو کرو اور انگلیوں کے درمیان خلال کرو۔
٭٭ عبد الملک بن محمد رقاشی، معمر بن محمد بن عبید اللہ ابی رافع، محمد بن عبید اللہ ابو رافع، عبید اللہ بن ابی رافع، حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب وضو کرتے تو اپنی انگشتری کو ہلا لیتے۔
ایڑیاں دھونا
ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، سفیان، منصور، ہلال بن یساف، ابو یحییٰ، حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وضو کر چکے ہیں اور ان کی ایڑیاں چمک رہی ہیں (یعنی خشک رہنے کی وجہ سے نمایاں طور پر معلوم ہو رہا ہے ) تو فرمایا ہلاکت ہو ان ایڑیوں کے لئے دوزخ کی، خوب اچھی طرح وضو کیا کرو۔
٭٭ قطان، ابو حاتم، عبد المؤمن بن علی، عبد السلام بن حرب، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (وضو میں خشک رہ جانے والی) ایڑیوں کے لئے ہلاکت ہے دوزخ کی آگ کی۔
٭٭ محمد بن صباح، عبد اللہ بن رجاء مکی، ابن عجلان۔ ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن سعید و ابو خالد احمر، محمد بن عجلان، سعید بن ابی سعید، ابو سلمہ، حضرت عائشہ نے (اپنے بھائی) حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے دیکھا تو فرمایا خوب اچھی طرح وضو کرو اس لئے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا دوزخ کی آگ کی ہلاکت ہے ان ایڑیوں کے لئے۔ (جو ایڑیاں وضو کے درمیان بے احتیاطی یا لاپرواہی کی وجہ سے خشک رہ جائیں )
٭٭ محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، عبد العزیز بن مختار، سہیل، ان کے والد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان ایڑیوں کے لئے تباہی ہے دوزخ کی آگ کی۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، احوص، ابو اسحاق ، سعید بن ابی کریب، حضرت جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا دوزخ کی آگ کی ہلاکت ہے ان ایڑیوں کے لئے۔
٭٭ عباس بن عثمان و عثمان بن اسماعیل دمشقیان، ولید بن مسلم، شیبہ بن احنف، ابو سلام اسود، ابو صالح اشعری، ابو عبد اللہ اشعری، حضرت خالد بن ولید، یزید بن ابی سفیان، شرحبیل بن حسنہ اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم سب (صحابہ کرام) نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وضو پوری طرح کرو ہلاکت ہے ان ایڑیوں (یعنی ایڑیوں کے اوپر کے پٹھے عرقوب) کے لئے دوزخ کی آگ سے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ ابو الاحوص، ابو اسحاق ، حضرت ابو حیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دیکھا آپ نے وضو کیا تو دونوں پاؤں ٹخنوں سمیت دھوئے ، پھر فرمایا میں نے چاہا کہ تمھیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وضو دکھاؤں۔
٭٭ ہشام بن عمار، ولید بن مسلم، حریز بن عثمان، عبد الرحمن میسرۃ، حضرت مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا تو دونوں پاؤں تین تین بار دھوئے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابن علیہ، روح بن قاسم، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، حضرت ربیع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس میرے ہاں تشریف لائے اور مجھ سے اس حدیث مبارکہ کے بارے میں دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا تو اپنے دونوں پاؤں دھوئے پھر ابن عباس نے فرمایا لوگ وضو میں پاؤں دھونے کے علاوہ کسی اور حکم کو نہیں مانتے اور مجھے اللہ کی کتاب میں مسح کے علاوہ اور کچھ نہیں ملتا۔
وضو اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق کرنا
محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، جامع بن شداد ابی صخرہ، حمران، ابو بردہ، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم موافق پوری طرح وضو کیا تو فرض نمازیں درمیانی اوقات (کے گناہ ہوں ) کے لئے کفارہ ہیں۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، حجاج، ہمام، اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ، علی بن یحییٰ بن خلاد، یحییٰ بن خلاد، حضرت رفاعہ بن رافع کہتے ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے ، آپ نے فرمایا کسی کی نماز اس وقت تک پوری نہیں ہوتی جب تک اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق خوب اچھی طرح وضو نہ کر لے کہ چہرہ دھوئے اور دونوں بازو کہنیوں سمیت دھوئے اور سر کا مسح کرے اور دونوں پاؤں ٹخنوں سمیت دھوئے۔
وضو کے بعد پانی چھڑکنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، زکریا بن ابی زائدہ، منصور، مجاہد، حکم بن سفیان ثقفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا پھر چلو بھر پانی لے کر ستر کے مقابل چھڑ کا۔
٭٭ ابراہیم بن محمد فریابی، حسان بن عبد اللہ، ابن لہیعہ، عقیل، زہری، عروۃ، حضرت اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے جبرائیل علیہ السلام نے وضو سکھایا اور مجھے حکم دیا کہ وضو کے بعد کپڑوں کے نیچے چھینٹے ڈالوں پیشاب کے قطروں کی وجہ سے۔
٭٭ حسین بن سلمہ یحمدی، سلم بن قتیبہ، حسن بن علی ہاشمی، عبد الرحمن اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب وضو کرو تو پانی چھڑک لو۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، عاصم بن علی، قیس، ابن ابی لیلیٰ، ابو زبیر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا پھر ستر کے مقابل پانی چھڑکا۔
وضو اور غسل کے بعد تولیہ کا استعمال
محمد بن رمح، لیث بن سعد، یزید بن ابی حبیب، سعید بن ابی ہند، ابو مرۃ مولی عقیل، حضرت امّ ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہانے کے لئے کھڑے ہوئے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ ان پر پردہ کئے ہوئے تھیں پھر آپ نے کپڑا لیا اور اس میں لپٹ گئے۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، ابن ابی لیلیٰ، محمد بن عبد الرحمن بن سعد بن زرارہ، محمد بن شرحبیل، حضرت قیس بن سعد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے ہاں تشریف لائے ہم نے آپ کیلئے پانی رکھا ، آپ نے غسل کیا پھر ہم نے ایک چادر پیش کی جو ورس میں رنگی ہوئی تھی (ورس زرد رنگ کی گھاس ہے یمن میں ہوتی تھی) پر ورس کے نشان میری نگاہوں کے سامنے ہیں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، اعمش، سالم بن ابی الجعد، کریب، ابن عباس، امّ المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں (ایک مرتبہ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غسل جنابت کیا تو میں نے کپڑا پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ واپس کر دیا اور (ہاتھ سے ) پانی جھاڑنے لگے۔
٭٭ عباس بن ولید و احمد ازہر، مروان بن محمد، یزید بن سمط، وضین بن عطاء، محفوظ بن علقمہ، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا اور اون کا جبہ جو پہنا ہوا تھا الٹ کر اسی سے (اپنا چہرہ مبارک) چہرہ پونچھ لیا۔
وضو کے بعد کی دعا
موسی بن عبد الرحمن، حسین علی و زید بن حباب، محمد بن یحییٰ، ابو نعیم، عمرو بن عبد اللہ وہب ابو سلیمان نخعی، زید بن عمی، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو خوب عمدگی سے وضو کرے پھر تین بار یہ (أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ ) کلمات کہے تو اس شخص کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جس (دروازے ) سے چاہے داخل ہو۔
٭٭ علقمہ بن عمرو دارمی، ابو بکر بن عیاش، ابو اسحاق ، عبد اللہ بن عطاء بجلی، عقبہ بن عامر جہنی، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو مسلمان اچھی طرح (آداب و مستحبات تک کا خیال رکھ کر) وضو کرے پھر یہ کلمات کہے اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جس سے چاہے داخل ہو جائے۔
پیتل کے برتن میں وضو کر نا
ابو بکر بن ابی شیبہ، احمد بن عبد اللہ، عبد العزیز بن ماجشون، عمرو بن یحییٰ، یحییٰ، صحابی رسول ، حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے ہاں تشریف لائے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے پیتل کے برتن سے پانی نکالا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے وضو کر لیا۔
٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، عبد العزیز بن محمد دراوردی، عبید اللہ بن عمرو، ابراہیم بن عبد اللہ بن جحش، عبد اللہ بن جحش، حضرت زینب بن جحش رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ ہماری ایک پیتل کی لگن (طشت) تھی میں اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر مبارک میں کنگھی کیا کرتی تھی۔ (یعنی پیتل کے برتن گھر میں مستعمل تھے )۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، شری، ابراہیم بن جریر، ابو زرعہ بن عمرو بن جریر، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک برتن میں (سے پانی لے لے کر) وضو کیا (شاید وہ برتن پیتل کا ہو)۔
نیند سے وضو کا ٹوٹنا
ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، اعمش، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سو جاتے حتیٰ کہ خراٹے لیتے پھر کھڑے ہوتے اور نماز پڑھ لیتے اور وضو نہ کرتے ، حضرت طنافسی کہتے ہیں کہ حضرت وکیع نے فرمایا حضرت عائشہ کی مراد یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں سو جاتے (اور سجدہ سے اٹھ کر باقی نماز پوری کر لیتے اور وضو نہ کرتے )۔
٭٭ عبد اللہ بن عامر بن زرارۃ، یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ، حجل، فضیل بن عمرو، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سوئے حتیٰ کہ خراٹے لئے پھر اٹھے اور نماز پڑھی۔
٭٭ عبد اللہ بن عامر بن زرارۃ، ابن ابی زائدہ، حریث بن ابی مطر، یحییٰ بن عباد ابو ہبیرۃ انصاری، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ سونا (جس کے بعد وضو کئے بغیر نماز پڑھ لیتے تھے ) بیٹھے بیٹھے ہوتا تھا۔
٭٭ محمد بن مصفی حمصی، وضین بن عطاء، محفوظ بن علقمہ، عبد الرحمن بن عائذ ازدی، حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا آنکھ بندھن ہے دبر کا۔ جو سو جائے تو وضو کرے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عاصم، ذر، حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں اجازت دے رکھی تھی کہ تین دن تک موزے نہ اتاریں مگر جنابت ہو تو اتار دیں لیکن پیشاب، پاخانہ اور نیند سے نہ اتاریں۔
شرمگاہ کو چھو نے سے وضو ٹوٹنا
محمد بن عبد اللہ بن نمیر، عبد اللہ بن ادریس، ہشام بن عروۃ، عروۃ، مروان بن حکم، حضرت بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنی شرمگاہ کو چھوئے تو اس کو چاہئے کہ وضو کر لے۔
٭٭ ابراہیم بن منذری خزامی، معن بن عیسیٰ، عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، عبد اللہ بن نافع، ابو ذئب، عقبہ بن عبد الرحمن بن ثوبان، حضرت جابر بن عبد اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنی شرمگاہ کو چھوئے تو اس پر وضو لازم ہے
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، مہعلی بن منصور، عبد اللہ بن احمد بن بشیر بن ذکوان دمشقی، مروان بن محمد، ہیثم بن حمید، علاء بن حارث، مکحول، عنبسہ بن ابی سفیان، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو اپنی شرمگاہ کو چھوئے تو اس کو چاہئے کہ وضو کر لے۔
٭٭ سفیان بن وکیع، عبد السلام بن حرب، اسحاق بن ابی فروۃ، زہری، عبد اللہ بن عبد القاری، حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے وہی مضمون مروی ہوا ہے اس کی سند میں اسحاق بن ابی فروہ ہے جو بالاتفاق ضعیف ہے۔
ذکر چھونے کی رخصت کے بیان میں
علی بن محمد، وکیع، محمد بن جابر، قیس بن طلق حنفی، طلق رضی اللہ عنہ نے جو قبلیہ نبی حنیف سے ہے ، انہوں نے سنا آپ نحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہ کسی نے پوچھا کہ ذکر کے چھونے سے وضو ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں وہ تو تیرا ایک ٹکڑا ہے۔
٭٭ عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینار حمصی، مروان بن معاویہ، جعفر بن زبیر، قاسم ابی امامہ رضی اللہ عنہ سے وہی مضمون مروی ہوا ہے
جو آگ میں پکا ہو اس سے وضو واجب ہونے کا بیان
محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، محمد بن عمرو بن علقمہ، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آگ پر پکی ہوئی چیز کھا لو تو وضو کر لیا کرو تو ابن عباس نے کہا کیا ہم گرم پانی کی وجہ سے بھی وضو کریں (کیونکہ وہ بھی آگ پر گرم ہوتا ہے تو کیا اس سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے حالانکہ کبھی ہم وضو کیلئے گرم پانی استعمال کرتے ہیں ) تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا بھتیجے جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بات سنو تو اس کے مقابلہ میں باتیں مت بنایا کرو۔
٭٭ حرملہ بن یحییٰ، ابن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آگ پر پکی ہوئی چیز کے استعمال سے وضو کیا کرو۔
٭٭ ہشام بن خالد ازرق، خالد بن یزید بن ابی مالک، یزید بن ابی مالک، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کرتے تھے یہ بہرے ہو جائیں اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے نہ سنا ہو ، آگ پر پکی ہوئی چیز استعمال کرو تو وضو کر لیا کرو۔
آگ پر پکی ہوئی چیز کھا کر وضو نہ کر نے کا جواز
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو الاحوص، سماک بن حرب، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شانہ کا گوشت تناول فرمایا پھر جو کپڑا آپ کے نیچے تھا اس سے ہاتھ پونچھ کر کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی۔
٭٭ محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، محمد بن منکدر و عمرو بن دینار و عبد اللہ بن محمد بن عقیل، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روٹی یا گوشت کھایا اور وضو نہ کیا۔
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ولید بن مسلم، اوزاعی، حضرت ابن شہاب زہری فرماتے ہیں کہ میں رات کے کھانے میں ولید یا عبد الملک کے ساتھ شریک تھا ، نماز کا وقت ہوا تو میں وضو کے لئے اٹھا تو جعفر بن عمرو بن امیہ فرمانے لگے میں گواہی دیتا ہوں کہ میرے والد نے یہ گواہی دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آگ پر پکا ہوا کھانا تناول فرمایا پھر وضو کئے بغیر ہی نماز ادا فرمائی اور علی بن عبد اللہ بن عباس نے کہا کہ میں بھی اپنے والد کے متعلق اسی بار کی شہادت دیتا ہوں۔
٭٭ محمد بن صباح، حاتم بن اسماعیل، جعفر بن محمد، محمد، علی بن حسین، زینب بنت ام سلمہ، حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بکری کا شانہ پیش کیا گیا۔ آپ نے اسے تناول فرمایا اور نماز پڑھنے لگے پانی کو چھوا تک نہیں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، یحییٰ بن سعید بشیر بن یسار، حضرت سوید بن نعمان انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ خیبر کو نکلے۔ مقام صہباء پہنچ کر آپ نے نماز عصر ادا فرمائی۔ پھر کھانا طلب فرمایا سوائے ستو کے کچھ نہ آیا ، سب نے ستو کھایا پانی پیا پھر آپ نے کلی کی اور کھڑے ہو کر ہمیں نماز مغرب پڑھائی
٭٭ محمد بن عبد الملک بن شوارب، عبد العزیز بن مختار، سہیل، ان کے والد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بکری کا شانہ تناول فرما کر کلی کی ہاتھ دھوئے اور نماز پڑھی۔
اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن ادریس و ابو معاویہ، اعمش، عبد اللہ بن عبد اللہ، عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ، براء بن عازب، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا اونٹ کا گوشت کھانے کی وجہ سے وضو کرنے کے متعلق۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس کی وجہ سے وضو کر لیا کرو۔
٭٭ محمد بن بشار، عبد الرحمن بن مہدی، زائدہ و اسرائیل، اشعث بن ابی الشعثاء، جعفر بن ابی ثور، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں حکم دیا کہ اونٹ کا گوشت کھانے کی وجہ سے وضو کریں اور بکری کے گوشت کی وجہ سے وضو نہ کریں۔
٭٭ ابو اسحاق ہروی ابراہیم بن عبد اللہ بن حاتم، عباد بن عوام، حجاج، عبد اللہ بن عبد اللہ مولی بنی ہاشم، عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ، حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بکری کے دودھ کی وجہ سے وضو نہ کرو اور اونٹنی کے دودھ کی وجہ سے وضو کرو،۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، یزید بن عبد ربہ، بقیہ، خالد بن یزید بن عمر بن ہبیرۃ فزاری، عطاء بن سائب، محارب بن دثار، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا اونٹ کے گوشت کی وجہ سے وضو کرو اور بکرے کے گوشت کی وجہ سے وضو نہ کرو اور اونٹنی کا دودھ پی کرو ضو کرو اور بکری کا دودھ پی کر وضو نہ کرو اور بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھو اور اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ نماز مت پڑھو ۔
دودھ پی کر کلی کرنا
عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ولید بن مسلم، اوزاعی، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا دودھ پی کر کلی کر لیا کرو کیونکہ اس (دودھ) میں چکناہٹ ہوتی ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، خالد بن مخلد، موسیٰ بن یعقوب، ابو عبیدۃ بن عبد اللہ بن زمعہ، عبد اللہ بن زمعہ، امّ المومنین حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہ سے یہی مضمون مروی ہے۔
٭٭ ابو مصعب، عبد المہیمن بن عباس بن سہل بن سعد ساعدی، حضرت سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دودھ پی کر کلی کر لیا کرو اس لئے کہ اس میں چکناہٹ ہوتی ہے۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم سواق، ضحاک بن مخلد، زمعہ بن صالح، ابن شہاب، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک بکری کا دودھ دوہ کر پیا پھر پانی منگوا کر کلی کی اور ارشاد فرمایا اس میں چکناہٹ ہوتی ہے۔
بوسہ کی وجہ سے وضو کرنا
ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، اعمش، حبیب بن ابی ثابت، عروۃ بن زبیر، حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ایک اہلیہ کا بوسہ لیا پھر نماز کے لئے تشریف لے گئے اور وضو نہ کیا ، میں نے کہا آپ ہی ہوں گی؟ تو وہ مسکرا دیں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل، حجاج، عمرو بن شعیب، زینب سہمیہ، حضرت زینب سہمیہ روایت کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وضو کر کے بوسہ لیتے اور پھر دوبارہ وضو کئے بغیر ہی نماز پڑھ لیتے اور بسا اوقات میرے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ہشیم، یزید بن ابی زیاد، عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مذی کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا اس کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور منی نکلنے کی وجہ سے غسل واجب ہوتا ہے۔
٭٭ محمد بن بشار، عثمان بن عمر، مالک بن انس، سالم ابو النضر، سلیمان بن یسار، حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ مرد اپنی بیوی کے قریب ہو اور انزال نہ ہو تو کیا حکم ہے فرمایا جب تم میں سے کسی کے ساتھ ایسی صورت پیش آئے تو شرم گاہ کو دھو لے اور وضو کر لے۔
٭٭ ابو کریب، عبد اللہ بن مبارک و عبدۃ بن سلیمان، محمد بن اسحاق ، سعید بن عبید بن سباق، عبید بن سباق، سہل بن حنیف، حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری مذی بکثرت خارج ہوتی تھی اس لئے میں بہت نہایا کرتا تھا ، میں نے (اس سلسلہ میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا فرمایا اس میں تمہارے لئے وضو ہی کافی ہے ، میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! جو میرے کپڑے کو لگ جائے تو؟ فرمایا کپڑوں میں جہاں لگی ہوئی نظر آئے پانی کے چلو سے دھو لو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، مسعر، مصعب بن شیبہ، ابو حبیب بن یعلی بن منیہ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ وہ حضرت عمر کے ساتھ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس گئے ، وہ باہر تشریف لائے فرمانے لگے مجھے مذی محسوس ہوئی ، میں نے اپنا ستر دھو لیا اور وضو کر لیا ، حضرت عمر نے پوچھا کیا یہ کافی ہے؟ فرمایا جی ! پوچھا کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ سنا ہے؟ فرمایا جی۔
سو تے وقت ہاتھ منہ دھو نا
علی بن محمد، وکیع، سفیان، زائدہ بن قدامہ، سلمہ بن کہیل، کریب، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کو اٹھ کر بیت الخلاء تشریف لے گئے۔ قضاء حاجت کے بعد چہرہ اور ہاتھ دھو کر پھر سوگئے۔ دوسری سند سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔
ہر نماز کے لئے وضو کرنا اور تمام نمازیں
سوید بن سعید، شریک، عمرو بن عامر، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر نماز کے لئے وضو فرماتے اور ہم سب نمازیں ایک ہی وضو سے پڑھ لیا کرتے تھے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، سفیان، محارب بن دثار، سلیمان بن بریدۃ، حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر نماز کے لئے وضو فرمایا کرتے تھے اور فتح مکہ کے دن آپ نے تمام نمازیں ایک ہی وضو سے ادا فرمائیں۔
٭٭ اسماعیل بن توبہ، زیاد بن عبد اللہ، حضرت فضل بن مبشر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو تمام نمازیں ایک ہی وضو سے پڑھتے دیکھا تو عرض کیا یہ کیا ہے؟ فرماتے لگے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایسا کرتے دیکھا تو میں اس طرح کرتا ہوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا۔
وضو کے باوجود وضو کرنا
محمد بن یحییٰ، عبد اللہ بن یزید مقری، عبد الرحمن بن زیاد، حضرت ابو غطیف ہذلی فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں عبد اللہ بن عمر بن خطاب کی مجلس میں تھا ، نماز کا وقت ہوا تو وہ اٹھے وضو کرے کے نماز ادا کی پھر مجلس میں آ گئے عصر کا وقت ہوا تو آپ اٹھے وضو کیا نماز پڑھی اور پھر مجلس قائم ہو گئی ، مغرب کا وقت ہوا تو پھر آپ اٹھے وضو کر کے نماز پڑھی اور اپنی جگہ آ گئے ، میں نے عرض کیا اللہ تعالی آپ کا بھلا کرے یہ بتایئے کہ ہر نماز کے وقت وضو کرنا فرض ہے یا سنت؟ فرمانے لگے کیا تم میرے اس عمل کی طرف متوجہ تھے؟ میں نے عرض کیا جی۔ فرمانے لگے فرض تو نہیں ہے اسی لئے اگر میں نماز صبح کے لئے وضو کروں تو تمام نمازیں اسی وضو سے ادا کر لوں جب تک میرا وضو نہ ٹوٹے لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جو ہر مرتبہ پاکی کے باوجود وضو کرے اسے دس نیکیاں ملیں تو مجھے نیکیوں کی رغبت ہے۔
بغیر حدث کے وضو واجب نہیں
محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، زہری، سعید و عباد بن تمیم، حضرت عباد بن تمیم اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک صاحب نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں شکایت کی کہ نماز میں گڑبڑ سی محسوس ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا کچھ خیال نہ کرے یہاں تک کہ محسوس کرے بدبو یا آواز سنے (یعنی جب وضو ٹوٹنے کا یقین ہو جائے )۔
٭٭ ابو کریب، محاربی، معمر بن راشد، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نماز میں اشتباہ کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا واپس نہ لوٹے یہاں تک کہ آواز سنے یا بو محسوس کرے۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، محمد بن جعفر و عبد الرحمن، سہیل بن ابی صالح، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وضو واجب نہیں مگر آواز سے یا بو سے (یعنی ان دونوں چیزوں سے حدث محسوس کرے محض وہم پہ متردد نہ ہو)۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن عیاش، عبد العزیز بن عبید اللہ، حضرت محمد بن عمرو بن عطا کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ اپنا کپڑا سونگھ رہے ہیں ، میں نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ وضو واجب نہیں ہوتا مگر بو سے یا آواز سننے سے۔
پانی کی وہ مقدار جو نا پاک نہیں ہوتی
ابو بکر بن خلاد باہلی، زید بن ہارون، محمد بن اسحاق ، محمد بن جعفر بن زبیر، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عمر، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کسی نے آپ سے پوچھا کہ پانی کھلے میدان میں ہو اور چوپائے اور درندے پانی پر آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب پانی دو مٹکے ہو تو اس کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔ دوسری سند سے یہی مضمون مروی ہے۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، حماد بن سلمہ، عاصم بن منذر، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عمر، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب پانی دو یا تین مٹکے ہو تو اس کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔ دوسری سند سے یہی مضمون مروی ہے۔
حو ضوں کا بیان
ابو مصعب مدنی، عبد الرحمن بن زید بن اسلم، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ان حوضوں کے متعلق پوچھا گیا جو مکہ و مدینہ کے درمیان ہیں ، ان پر درندے کتے اور گدھے آتے ہیں کہ ان سے طہارت کرنے کا کیا حکم ہے جو انہوں نے اپنے پیٹوں میں اٹھا لیا وہ ان کا اور جو بچ گیا وہ ہمارے لئے پاک کرنے والا ہے۔
٭٭ احمد بن سنان، یزید بن ہارون، شریک، طریف بن شہاب، ابو نضرۃ، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک تالاب پر پہنچے اس میں گدھا مردار پڑا تھا ہم اس سے رک گئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے تو فرمایا پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کر سکتی، پھر ہم نے پانی پیا اور آسودہ ہوئے اور ساتھ لاد لیا۔
٭٭ محمود بن خالد و عباس بن ولید دمشقی، مروان بن محمد، رشدین، معاویہ بن صالح، راشد بن سعد، حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی الا یہ کہ پانی کے رنگ ذائقہ یا بو پر غالب آ جائے۔
اس لڑ کے کے پیشاب کے بیان میں جو کھا نا نہیں کھاتا
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو الاحوص، سماک بن حرب، قابو س بن ابی اسحاق ، حضرت لبابہ بنت حارث رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی گود میں پیشاب کر دیا ، میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! اپنے کپڑے مجھے دے دیجئے (تاکہ دھو ڈالوں ) اور دوسرے کپڑے زیب تن کر لیجئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لڑکے کے پیشاب کو ہلکا سا دھویا جاتا ہے اور لڑکی کے پیشاب کو اچھی طرح دھویا جاتا ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک بچہ لایا گیا اس نے آپ کے اوپر پیشاب کر دیا تو آپ نے اس پر پانی بہایا اور اسے (خوب اچھی طرح) دھویا نہیں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، حضرت امّ قیس بنت محصن رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں اپنے بچے کو جس نے کھانا شروع نہ کیا تھا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اس نے آپ پر پیشاب کر دیا آپ نے پانی منگا کر اس پر ڈالا۔
٭٭ حوثرۃ بن محمد و محمد بن سعید بن یزید بن ابراہیم، معاذ بن ہشام، ہشام، قتادۃ، ابو حرب بن ابی الاسود دیلی، ابو اسود دیلی، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دودھ پیتے بچے کے بول کے متعلق کہ لڑکے کے پیشاب پر پانی بہا دیا جائے اور لڑکی کے پیشاب کو اچھی طرح دھویا جائے۔ ابو الیمان مصری کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس مذکورہ فرمان کا مطلب پوچھا کہ دونوں پیشاب ہیں (پھر فرق کیوں ہے؟) فرمایا اس لئے کہ لڑکے کا پیشاب پانی اور مٹی سے ہے اور لڑکی کا پیشاب گوشت اور خون سے ہے پھر پوچھا کہ سمجھے؟ میں نے عرض کیا نہیں فرمایا اللہ تعالیٰ جب آدم علیہ السلام کو پیدا کر چکے تو حوا کو ان کی چھوٹی پسلی سے پیدا کیا اس لئے لڑکے کا پیشاب پانی اور مٹی سے (جس سے آدم پیدا کئے گئے ) اور لڑکی کا پیشاب گوشت اور خون سے ہے کہتے ہیں کہ امام شافعی نے مجھے سے پوچھا سمجھ گئے؟ میں نے عرض کیا جی ، فرمایا اللہ اس بات سے تمھیں نفع دے۔
٭٭ عمرو بن علی و مجاہد بن موسیٰ و عباس بن عبد العظیم، عبد الرحمن بن مہدی، یحییٰ بن ولید، محل بن خلیفہ، حضرت ابو السمع فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خدمت گزار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حضرت حسن یا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو پیش کیا گیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سینہ پر پیشاب کر دیا لوگوں نے (اہتمام سے ) دھونا چاہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس پر پانی ڈال دو ، اس لئے کہ لڑکی کا پیشاب دھویا جاتا ہے اور لڑکے کے پیشاب پر پانی ڈال دیا جاتا ہے۔
٭٭ محمد بن بشار، ابو بکر حنفی، اسامہ بن زید، عمرو بن شعیب، حضرت امّ کرز رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لڑکے کے پیشاب کو کچھ پانی سے دھویا جائے اور لڑکی کے پیشاب کو اچھی طرح دھویا جائے۔
٭٭ احمد بن عبدۃ، حماد بن زید، ثابت، حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کر دیا کچھ لوگ اس کی طرف لپکے (کہ اس کو منع کریں ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو مت روکو (کیونکہ اس سے سخت تکلیف کا اندیشہ ہے ) پھر پانی کا ڈول منگا کر اس پر بہا دیا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف فرما تھے کہ ایک دیہاتی مسجد میں داخل ہوا اور (دعا میں ) کہا اے اللہ ! میری اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بخشش فرما دیجئے اور ہمارے ساتھ (یعنی میرے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ) کسی اور کو نہ بخشئے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسکرائے اور ارشاد فرمایا کہ تم نے وسیع چیز (اللہ عزوجل کی وسیع رحمت مراد ہے ) کے گرد باڑ لگا دی (اور اسے تنگ کر دیا)۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، محمد بن عبد اللہ، عبید اللہ ہذلی، محمد بن یحییٰابو حمید، ابو ملیح ہذلی، حضرت واثلہ بن اسقع فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آئے اور کہا اے اللہ مجھ پر اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر رحم فرمایئے اور آپ جو ہم پر رحمت فرمائیں اس میں ہمارے ساتھ کسی اور کو شریک نہ فرمائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا افسوس ہے تجھ پر، تیرا ناس ہو تو نے وسیع (رحمت) کو تنگ کر دیا آگے وہی مضمون ہے جو پہلی حدیث میں گزرا۔
پاک زمین نا پاک زمین کو پاک کر دیتی ہے
ہشام بن عمار، مالک بن انس، محمد بن عمارہ بن عمرو بن حزم، محمد بن ابراہیم بن حارث تیمی، حضرت ابراہیم بن عبد الرحمن بن عوف کی امّ ولد نے امّ المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ میں اپنا دامن لمبا رکھتی ہوں اور (بسا اوقات) گندگی میں بھی چلنا پڑ جاتا ہے۔ تو فرمانے لگیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بعد والی زمین اس کو پاک کر دے گی۔
٭٭ ابو کریب، ابراہیم بن اسماعیل یشکری، ابن ابی حبیبۃ، داؤد بن حصین، ابو سفیان، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! ہم مسجد کی طرف آئیں تو ناپاک راستے پر پاؤں پڑ جاتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا زمین ایک دوسرے کو پاک کر دیتی ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، شریک، عبد اللہ بن عیسیٰ، موسیٰ بن عبد اللہ بن یزید، بنو عبد الاشہل کی ایک صحابیہ فرماتی ہیں کہ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ میرے (گھر) اور مسجد کے درمیان ناپاک راستہ ہے۔ فرمایا اس کے بعد اس سے صاف راستہ بھی ہے؟ میں نے عرض کیا جی فرمایا وہ اس کا بدلہ ہو جاتا ہے۔
جنبی کے ساتھ مصافحہ
ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، حمید، بکر بن عبد اللہ، ابو رافع، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ مدینہ طیبہ کے ایک راستہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملے ، ابو ہریرہ بحالت جنابت تھے اس لئے واپس ہو گئے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو نہ پایا تو ڈھونڈا ، جب ابو ہریرہ آئے تو پوچھا کہا بو ہریرہ ! تم کہاں تھے؟ عرض کیا اے اللہ کے رسول ! مجھے ملے اس وقت میں بحالت جنابت تھا۔ اس لئے غسل کئے بغیر آپ کے ساتھ نشست مناسب معلوم نہ ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مومن (ایسا) ناپاک نہیں ہوتا (کہ نشست و برخاست کے قابل ہی نہ رہے )۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، اسحاق بن منصور، یحییٰ بن سعید، مسعر، واصل احدب، ابو وائل، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر تشریف لائے مجھ سے ملے میں بحالت جنابت تھا اس لئے میں آپ سے الگ ہو گیا اور غسل کر کے حاضر خدمت ہوا۔ فرمایا تمہیں کیا ہوا تھا؟ میں نے عرض کیا میں جنبی تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مسلمان نجس نہیں ہوتا۔
کپڑے کو منی لگ جائے
ابو بکر بن ابی شیبہ عبدۃ بن سلیمان، حضرت عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سلیمان بن یسار سے پوچھا کہ کپڑے کو منی لگ جائے تو صرف اسی جگہ کو دھوئیں یا پورا کپڑا؟ فرمانے لگے کہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑے آلودہ ہو جائے تو ہم اسی حصہ کو دھو دیتے پھر آپ وہی کپڑے زیب تن فرما کر نماز کے لئے تشریف لے جاتے اور مجھے اس میں دھونے کا نشان نظر آہا ہوتا تھا۔
منی کھرچ ڈالنا
علی بن محمد، ابو معاویہ، محمد بن طریف، عبدۃ بن سلیمان، اعمش، ابراہیم، ہمام بن حارث، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑوں سے منی میں نے خود اپنے ہاتھوں سے کھرچی۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، ابراہیم، حضرت ہمام بن حارث فرماتے ہیں کہ عائشہ کے ہاں ایک مہمان نے قیام کیا آپ نے اس کیلئے ایک زرد لحاف (بھیجنے ) کا کہا ان کو احتلام ہو گیا وہ شرمایا کہ لحاف میں احتلام کا نشان ہو اور اسی حالت میں وہ بھیج دے۔ اس لئے اس نے لحاف کو پانی میں ڈال دیا (یعنی اس جگہ کو دھو دیا) پھر واپس کر دیا ، عائشہ نے فرمایا اس نے ہمارا کپڑا کیوں خراب کیا؟ اس کے لئے تو انگلی سے کھرچ ڈالنا ہی کافی تھا بسا اوقات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑے سے اپنی انگلی سے منی کو کھرچا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ہثیم، مغیرۃ، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑے میں منی نظر آتی تو میں کھرچ ڈالتی۔
ان کپڑوں میں نماز پڑھنا جن میں صحبت کی ہو
محمد بن رمح، لیث بن سعد، یزید بن ابی حبیب، سوید بن قیس، معاویہ بن حدیج، حضرت معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ نے اپنی ہمشیرہ امّ المؤمنین حضرت امّ حبیبہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جن کپڑوں میں ہمبستری کی ہو ان کو پہن کر نماز پڑھ لیتے تھے؟ فرمانے لگیں کہ اگر اس میں ناپاکی (منی وغیرہ) نہ دیکھتے تو پڑھ لیتے۔
٭٭ ہشام بن خالد ازرق، حسن بن یحییٰ خشنی، زید بن واقد، بسر بن عبید اللہ، ابو ادریس خولانی، حضرت ابو الدرداء فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے ، آپ کے سر مبارک سے پانی ٹپک رہا تھا۔ پھر آپ نے ہمیں ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے نماز پڑھائی آپ کے کپڑے کے ہر سرے کو دوسری جانب ڈالے ہوئے تھے جب سلام پھیرا تو حضرت عمر بن خطاب نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ نے ہمیں ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھائی اور اس میں کچھ اور بھی (یعنی ہم بستری بھی کی)۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، یحییٰ بن یوسف الزّمی، احمد بن عثمان بن حکیم، سلیمان بن عبید اللہ رقی، سلیمان بن عبید اللہ بن عمرو، عبد الملک بن عمیر، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صاحب نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ جن کپڑوں میں صحبت کی ہو ان میں کچھ) نجاست منی) دکھائی دے تو اس (حصہ) کو دھو لیں۔
موزوں پر مسح کرنا
علی بن محمد، وکیع، اعمش، ابراہیم، حضرت ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ حضرت جریر بن عبد اللہ نے پیشاب کر کے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا ، کسی نے عرض کیا آپ ایسا کرتے ہیں؟ فرمانے لگے ، میرے لئے (موزوں پر مسح سے ) کیا مانع ہو سکتا ہے جبکہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایسا کرتے دیکھا۔ ابراہیم کہتے ہیں لوگوں کو جریر کی یہ حدیث بہت پسند تھی اس لئے کہ وہ سورہ مائدہ نازل ہونے کے بعد اسلام لائے۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر و علی بن محمد، وکیع، ابو ہمام ولید بن شجاع بن ولید، ولید و ابن عیینہ و ابن ابی زائدہ، اعمش، ابو وائل، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا۔
٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، یحییٰ بن سعید، سعد بن ابراہیم، نافع بن جبیر، عروۃ بن مغیرۃ بن شعبہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قضاء حاجت کے لئے تشریف لے گئے تو حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ پانی کا لوٹا لے کر ساتھ ہو لئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب حاجت سے فارغ ہوئے تو وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا۔
٭٭ عمران بن موسیٰ لیثی، محمد بن سوار، سعید بن ابی عروبہ، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر نے سعد بن مالک کو موزوں پر مسح کرتے دیکھا تو فرمایا آپ ایسا کرتے ہیں یہ دونوں حضرت عمر کے پاس جمع ہوئے تو حضرت سعد نے حضرت عمر سے کہا بھتیجے موزوں پر مسح کا حکم بتاؤ۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اپنے موزوں پر مسح کرتے تھے اور اس میں کچھ حرج نہ سمجھتے تھے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اگر بیت الخلاء سے آیا ہو (تب بھی مسح درست ہے ) فرمایا جی۔
٭٭ ابو مصعب مدنی، عبد المہیمن بن عباس بن سہل ساعدی، حضرت سہل ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے موزوں پر مسح کیا اور ہمیں موزوں پر مسح کا حکم دیا۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، عمر بن عبید طنافسی، عمر بن مثنی، عطاء خراسانی، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھا ، آپ نے فرمایا کچھ پانی ہے چنانچہ آپ نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا پھر لشکر سے جا ملے اور ان کی امامت کروائی۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، دلہم بن صالح کندی، حجیر بن عبد اللہ کندی، حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نجاشی نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو سادہ سیاہ موزے بطور ہدیہ دیئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ پہن لئے پھر وضو کیا اور ان پر مسح کیا۔
موزے کے اوپر اور نیچے کا مسح کرنا
ہشام بن عمار، ولید بن مسلم، ثور بن یزید، رجاء بن حیوۃ، ورّاد کاتب مغیرہ بن شعبہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے موزے کے اوپر نیچے مسح فرمایا۔
٭٭ محمد بن مصفی حمصی، بقیہ، جریر بن یزید، منذر، محمد بن منکدر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک شخص کے پاس سے گزرے ، جو وضو میں موزے دھو رہا تھا۔ آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا گویا اس کو روکا (اور فرمایا) مجھے صرف مسح کا حکم دیا گیا ہے اور آپ نے انگلیوں سے لکیر کھینچی۔
مسح کی مدت مسافر اور مقیم کے لئے
محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حکم، قاسم بن مخیمرہ، حضرت شریح بن ہانی فرماتے ہیں کہ میں نے موزوں پر مسح کے بارے میں حضرت عائشہ سے پوچھا تو فرمانے لگیں ، حضرت علی کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو کیونکہ ان کو اس بارے میں مجھ سے زیادہ علم ہے میں حضرت علی کی خدمت میں گیا اور ان سے مسح خفین کے متعلق دریافت کیا فرمانے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں مسح کا حکم دیا کرتے تھے مقیم کو ایک دن رات اور مسافر کو تین دن رات۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، ان کے والد ابراہیم تیمی، عمرو بن میمون، حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسافر کے لئے تین دن مقرر فرمائے اور اگر سائل اپنا سوال جاری رکھتا تو پانچ فرما دیتے۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، سلمہ بن کہیل، ابراہیم تیمی، حارث بن سوید، عمرو بن میمون، حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا موزوں پر مسح میں مسافر کے لئے تین دن ہیں میرا خیال ہے کہ راتیں بھی فرمایا (یعنی کوئی حتمی بات نہیں کہہ سکے )۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ ابو کریب، زید بن حباب، عمر بن عبد اللہ بن ابی خثعم، ثمالی، یحییٰ بن ابی کثیر، سلمہ ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! موزوں پر طہارت کا کیا حکم ہے؟ فرمایا مسافر کے لئے تین دن رات اور مقیم کے لئے ایک دن رات۔
٭٭ محمد بن بشار و بشر بن ہلال صواف، عبد الوہاب بن عبد المجید، مہاجر ابو مخلد، عبد الرحمن بن ابی بکرۃ، حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا وضو کر کے موزے پہنے ہوں پھر وضو ٹوٹ جائے تو مسافر کو تین دن رات اور مقیم کو ایک دن ، رات مسح کی رخصت دی۔
مسح کے لئے مدت مقرر نہ ہونا
حرملہ بن یحییٰ و عمرو بن سواد مصری، عبد اللہ بن وہب، یحییٰ بن ایوب، عبد الرحمن بن رزین، محمد بن یزید بن ابی زیاد، ایوب بن قطن، عبادۃ بن نسی، حضرت ابی بن عمارۃ رضی اللہ عنہ جن کے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں قبلوں کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی تھی سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ میں موزوں پر مسح کر لوں؟ فرمایا جی ! عرض کیا پورا دن؟ فرمایا اور دو دن بھی عرض کیا ، تین دن بھی ، یہاں تک کہ سات دن تک پہنچ گئے آپ نے ان سے فرمایا جب تک تمہیں خیال ہو۔
٭٭ احمد بن یوسف سلمی، ابو عاصم، حیوۃ بن شریح، یزید بن ابی حبیب، حکم بن عبد اللہ بلوی، علی بن رباح لخمی، حضرت عقبہ بن عامر مصر سے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ پاس آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ کب سے تم نے موزے نہیں اتارے؟ کہا ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک ، فرمایا تم نے سنت کے مطابق کیا۔
جرابو ں اور جو توں پر مسح
علی بن محمد، وکیع، سفیان، ابو قیس اودی، ہذیل بن شرحبیل حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا اور جرابو ں اور جوتوں پر مسح کیا۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، معلی بن منصور و بشر بن آدم، عیسیٰ بن یونس، عیسیٰ بن سنان، ضحاک بن عبد الرحمن بن عرزب، حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا تو جرابو ں اور جوتوں پر مسح کیا۔
عمامہ پر مسح
ہشام بن عمار، عیسیٰ بن یونس، اعمش، حکم، عبد الرحمن ابن ابی لیلیٰ، کعب بن عجرۃ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے موزوں اور سر بندھن پر مسح کیا۔
٭٭ دحیم، ولید بن مسلم، اوزاعی ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن مصعب، اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، ابو سلمہ، جعفر بن عمرو ، حضرت عمرو رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو موزوں اور عمامہ پر مسح کرتے دیکھا (یعنی یہ دو اعمال کرتے میں نے خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ملاحظہ کیا)۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یونس بن محمد، داؤد بن ابی الفرات، محمد بن زید، ابو شریح، ابو مسلم کہتے ہیں کہ میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا ، آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ایک شخص وضو کے لئے موزے اتار رہا ہے ، تو اس سے فرمایا اپنے موزے پر ، عمامے پر اور پیشانی پر مسح کر لو ، اس لئے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو موزوں اور سر بندھن (یعنی عمامہ) پر مسح کرتے دیکھا۔
٭٭ ابو طاہر احمد بن عمرو بن سرح، عبد اللہ بن وہب، معاویہ بن صالح، عبد العزیز بن مسلم ، ابو معقل، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وضو کرتے دیکھا آپ نے قطری عمامہ پہنا ہوا تھا آپ نے عمامہ کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر سر کے اگلے حصہ کا مسح کیا اور عمامہ نہیں کھولا۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.esnips.com/web/hadeesbooks
ایم ایس ایکسل سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید