FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

مزاحِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

 

 

                   محمد اسامہ سرسری

 

 

 

 

 

 

سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات اپنے صحابہ سے ہنسی مذاق بھی فرمایا کرتے تھے ، مگر مذاق میں بھی آپ علیہ السلام کی زبان مبارک سے حق بات ہی نکلتی تھی ۔

(زاد المعاد ، فصل فی الفطرۃ و توابعہا ، المزاح ، ۱/۱۵۴)

 

 

 

 

 

 

قافیہ بندی

 

حضرت انس رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بھائی کی کنیت ’’ابو عمیر‘‘ تھی ، ابو عمیر نے ایک چھوٹا پرندہ پالا ہوا تھا ، چڑیا کے جیسا ، عربی میں اسے نُغَیْرْ کہتے ہیں ، وہ مرگیا ، ابو عمیر اس کے مرنے پر غم گین بیٹھے تھے ، آپ علیہ السلام نے ان کو چھیڑنے کے لیے فرمایا:

’’اے ابو عمیر!٭کہاں ہے نُغَیْر‘‘

(صحیح البخاری ، الأدب ، الانبساط الی الناس ، الرقم:۵۷۷۸)

 

‫٭اونٹنی کا بچہ

 

(ابوداود ، الأدب ، ما جاء فی المزاح ، الرقم:۵۰۰۰)

٭٭٭

 

 

 

اے دو کان والے!

 

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی علیہ السلام بعض دفعہ مجھے (از راہِ مذاق) اس طرح کہہ کر مخاطب فرمایا کرتے تھے:

’’اے دو کان والے‘‘

(جامع الترمذی ، المناقب ، مناقب أنس بن مالک ، الرقم:۳۸۲۸)

آپ علیہ السلام مذاقاً ان کو ’’دوکان والا‘‘ فرمایا کرتے تھے ، ورنہ کان تو سبھی کے دو ہوتے ہیں ، یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ اچھی باتیں بہت غور سے سنا کرتے تھے۔

(تحفۃ الأحوذی ، البروالصلۃ عن رسول اللّٰہ ، ماجاء فی المزاح ، الرقم:۱۹۱۵)

٭٭٭

 


 

دوڑ کا مقابلہ

 

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنا قصہ خود سناتی ہیں:

’’ایک مرتبہ میں نبی علیہ السلام کے ساتھ سفر میں گئی ، اس وقت میں نوجوان تھی اور میرا وزن بھی ہلکا پھلکا تھا ، سفر کے دوران نبی علیہ السلام نے لوگوں سے ارشاد فرمایا:’’آپ لوگ آگے چلے جائیں‘‘ سب آگے چلے گئے تو نبی علیہ السلام مجھ سے فرمایا: ’’آؤ ، ہم دوڑ میں مقابلہ کریں ‘‘ چناں چہ ہم دونوں نے دوڑ میں مقابلہ کیا ، میں نبی علیہ السلام سے آگے بڑھ گئی ، آپ علیہ السلام خاموش رہے ، پھر کافی عرصے بعد جب میرا جسم بھاری ہو گیا اور میں اس وقت اس مقابلہ کو بھول بھی چکی تھی ، ایک بار پھر میں آپ علیہ السلام کے ساتھ سفر میں نکلی ، راستے میں آپ علیہ السلام نے لوگوں سے فرمایا: ’’آپ لوگ آگے چلے جائیں‘‘ جب سب آگے نکل گئے تو آپ علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا:’’آؤ! دوڑ میں مقابلہ کریں‘‘ ہم دونوں نے دوڑ لگائی ، اب کی بار نبی علیہ السلام نے مجھے پیچھے چھوڑ دیا ، پھر آپ علیہ السلام نے ہنستے ہوئے ارشاد فرمایا:’’یہ دوڑ پہلی دوڑ کے بدلے میں ہے‘‘(یعنی اب معاملہ برابر ہو گیا)‘‘

(مسند أحمد ، حدیث السیدۃ عائشۃ ، الرقم:۲۷۰۳۱)

 

آنکھ مچولی

 

حضرت زاہر رضی اللہ عنہ سے نبی علیہ السلام بہت محبت فرمایا کرتے تھے ، ایک مرتبہ حضرت زاہر بازار میں اپنا کوئی سامان بیچ رہے تھے، اتنے میں نبی علیہ السلام وہاں سے گزرے ، آپ علیہ السلام نے پیچھے سے آکر ان کو اس طرح پکڑ لیا کہ وہ آپ علیہ السلام کو نہ دیکھ سکے ، حضرت زاہر رضی اللہ عنہ گھبرا کر کہنے لگے: ’’ارے! چھوڑو! مجھے ، کون ہے؟؟‘‘

تھوڑی دیر بعد حضرت زاہر نے پہچان لیا کہ یہ نبی علیہ السلام ہیں، تو وہ اور زیادہ اپنے آپ کو نبی علیہ السلام کے سینہ مبارکہ سے چمٹانے لگے ، نبی علیہ السلام نے (مذاقاً) فرمایا : ’’کون اس غلام کو خریدے گا؟‘‘ حضرت زاہر کہنے لگے :’’اے اللہ کے رسول! اگر آپ مجھے بیچ دیں گے تو کھوٹا پائیں گے‘‘ فرمایا :’’مگر اللہ کے نزدیک تم کھوٹے نہیں ہو‘‘

(صحیح ابن حبان ، الحظر و الاباحۃ ، المزاح و الضحک ، الرقم:۵۷۹۰)

 

 

 

بوڑھی عورت

 

ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت نے نبی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول!  بوڑھی عورت داخل نہیں ہوسکتی‘‘ وہ عورت روتی ہوئی واپس جانے لگی ،آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’اس سے کہہ دو کہ یہ جنت میں تو داخل ہو گی ، مگر بوڑھی نہ رہے گی (بل کہ جوان ہو چکی ہو گی) ‘‘

(الشمائل المحمدیۃ للترمذی ، ماجاء فی صفۃ مزاح رسول اللّٰہ ، ۱/۲۷۲ ، الرقم:۲۳۸)

 

آنکھوں میں سفیدی

 

ایک مرتبہ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا نے نبی علیہ السلام سے عرض کیا:’’میرے خاوند آپ کو بلا رہے ہیں‘‘ آپ علیہ السلام نے فرمایا:’’تمہارے خاوند کون؟…وہی جس کی آنکھ میں سفیدی ہے؟‘‘ وہ کہنے لگی:’’اللہ کی قسم! اس کی آنکھ میں کوئی سفیدی نہیں‘‘ فرمایا:’’کیوں نہیں، تمہارے خاوند کی آنکھ میں سفیدی ہے‘‘ ام ایمن پھر کہنے لگی:’’اللہ کی قسم! نہیں ہے‘‘ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:’’ہر شخص کی آنکھ میں سفیدی ہوتی ہے‘‘ ۔

یعنی ہر انسان کی کی آنکھ میں کچھ حصہ سفیدی کا ہوتا ہے اور کچھ میں سیاہی ہوتی ہے، مگر وہ عورت سمجھی کہ اس سے مراد آنکھ کا خراب ہونا ہے۔

(احیاء علوم الدین ، الأمر بالمعروف ، الاٰفۃ العاشرۃ المزاح ، الرقم:۲۹۰۳)