فہرست مضامین
- بِساطِ ہوش
- فوقؔ کریمی
- شرابِ عیش سے مخمور ہوں نہ اہلِ وطن
- خوابیدہ حسرتوں کو جگانے لگے ہیں آپ
- چشمِ بینا کی ضرورت ہے پرکھنے کے لئے
- کلی کو گدگداتی ہے بہار آہستہ آہستہ
- چمن میرا ہے گل میرا ہے شاخِ آشیاں میری
- ہوا ہے یوں محبت کا اثر آہستہ آہستہ
- آنکھیں کبھی زلفیں کبھی لب دیکھ رہے ہیں
- راہوں میں کچھ ایسے بھی مقامات ملیں گے
- خوشا قسمت وہ آئے ہیں تو ایسے میں دعا جاگے
- اُن کی نظر سے جو آج ٹکرا گئی نظر
- سرِداراورکون آتا جو دیوانے نہیں آتے
- تمہیں پوچھو گے گھبرا کر پتا جب ہم نہیں ہوں گے
- کوئی ہو معتبر سے معتبر دیکھا نہیں جاتا
- ہمارے عہد کے چہرے بدل گئے یارو
- حِصارِ ذات بھی ظلمت کدہ لگے ہے مجھے
- جو آپ اپنے وقت کے سانچوں میں ڈھل گئے
- محفل میں ہے پھر ذِکرِ بہاراں کئی دن سے
- خود ختم کر کے قصّۂ شام و سحر کو میں
- پاس و آداب مے کشی کا رکھنا
- منزل کا جن کو ہوش نہ اپنا پتا ملے
- کہتے ہو لے کے ہاتھ میں تلوار چپ رہو
- نسلِ آدم پہ وہی جور و ستم آج بھی ہے
- کیوں ہو گیا ہے سرد یہ بازار کچھ کہو
- اے نگاہِ شوق تو نے آج یہ کیا کر دیا
- راز جو پنہاں تھے وہ دِل سے نکل کر رہ گئے
- محفلِ قدسیاں میں جب ذِکر ِچھڑا بہشت کا
- لب اگر کھول دوں اک طرفہ تماشا ہو جائے
- پتا وہ پوچھتے پھرتے ہیں قاتلوں کا مرے
- ستم کو بھی بہ عُنوانِ کرم کہنا ہی پڑتا ہے
- میں دھوکا ہر اک گام پر کھا رہا ہوں
- آغوش میں کرگس کی جو شاہین پلے گا
- حیران ہو کے رہ گئی دنیا نہ پوچھئے
- آنسو جھلک رہے ہیں چشمِ فسوں اثر میں
- خدا معلوم یہ کس نے بھلا دی زندگی میری
- رعب و عروجِ قیصری جاہ و جلال کچھ نہیں
- بشکلِ سُرخیِ افسانہ کب ہیں ہم فسانوں میں
- تصور سے کسی کے یوں ہوئی ہے جلوہ سامانی
- بس اک نگاہ سے مستِ شراب کر کے مجھے
بِساطِ ہوش
غزلیں
فوقؔ کریمی
شرابِ عیش سے مخمور ہوں نہ اہلِ وطن
خزاں کے روپ میں ہے اِن دنوں بہارِ چمن
بدل چکے ہیں زمانے کے رسم و راہِ کہن
قدم قدم پہ ملیں گے مقامِ دار و رسن
شبِ فِراق کی عظمت بھی ہو گئی روشن
تصوّرات میں میرے ہے کون جلوہ فگن
درونِ میکدہ و ساغر و خم و صہبا
شباب اور پھر اُن کا شباب توبہ شکن
کسی کا بزم میں آنا بھی اک قیامت تھا
بدل گیا سرِ محفل تمام روئے سخن
ہمارے امتحاں لیتا رہا زمانہ مگر
’’برائے نام نہ آئی جبیں پہ کوئی شکن‘‘
قدم قدم پہ تھا کانٹوں کا سامنے ہر چند
زہے کمال کہ پھر بھی بچا گئے دامن
جبینِ گل پہ نمایاں جنوں کے ہیں آثار
کیا ہے چاک یہ کس نے کلی کا پیراہن
کہیں ہے اطلس و کمخواب کی فراوانی
کہیں نصیب نہیں ہے کسی کسی کو کفن
وہ اک مقامِ شرافت ہے زندگی کے قریب
جہاں پہ اپنے لئے ہوں خود آپ ہی دشمن
خزاں کا دور بھی اے فوقؔ آ رہا ہے قریب
بہار میں وہ کریں لاکھ اہتمامِ چمن
٭٭٭
خوابیدہ حسرتوں کو جگانے لگے ہیں آپ
بیٹھے بٹھائے آگ لگانے لگے ہیں آپ
پھر دے رہی ہے گردشِ دوراں فریبِ شوق
’’رہ رہ کے پھر خیال میں آنے لگے ہیں آپ‘‘
وہ ہو چکا ہے کب کا نگاہوں سے آشکار
جو راز آج ہم سے چھپانے لگے ہیں آپ
اُتنا ہی بڑھ رہا ہے مرے دل کا اشتیاق
میرے قریب جتنا کہ آنے لگے ہیں آپ
اب کیا بتائیں فوقؔ کی سرمستیوں کا حال
اب تو نظر نظر میں پلانے لگے ہیں آپ
٭٭٭
چشمِ بینا کی ضرورت ہے پرکھنے کے لئے
عمر درکار ہے انساں کو سمجھنے کے لئے
کاش ہو جائے گزر بادِ صبا کا اُن تک
وہ جو کلیاں ہیں چمن میں ابھی کھلنے کے لئے
جان قربان تو پروانے نے کر دی لیکن
رہ گئی شمع مگر رات میں جلنے کے لئے
دیکھ لو صاف نہیں ہے ابھی مطلع شاید
ہے ابھی اور گھٹا کوئی برسنے کے لئے
حوصلہ جیسے بھی چاہیں وہ نکالیں اپنا
یہ جو دو چار ابھی ناگ ہیں ڈسنے کے لئے
آپ دیوانہ سمجھتے ہیں تو سمجھیں لیکن
میں تو خود ٹھوکریں کھاتا ہوں سنبھلنے کے لئے
جانے کب تک تمہیں اِس دہر میں رونا ہوگا
’’اور ہنس لو ابھی کچھ وقت ہے ہنسنے کے لئے‘‘
کوئی قاتل کوئی ظالم کوئی حاسد ہے یہاں
کس سے آمادہ رہوں فوقؔ میں لڑنے کے لئے
٭٭٭
اُنہیں یاد جب اُن کے وعدے دلائے
جبیں پر ستارے سے کچھ جھلملائے
یکایک مرے سامنے جب وہ آئے
نظر جھک گئی اور قدم ڈگمگائے
تصوّر میں غلطاں خیالوں میں پنہاں
’’کہاں تک کوئی اُن سے دامن بچائے‘‘
کیا ہے ترے غم کا یوں خیر مقدم
مسرّت میں جیسے کوئی مسکرائے
اُنہیں مدعائے غمِ دل سناکر
مصیبت خریدی ہے بیٹھے بٹھائے
ملے بارہا اُن سے اے فوقؔ یوں تو
مگر آج تک راز اُن کے نہ پائے
٭٭٭
کلی کو گدگداتی ہے بہار آہستہ آہستہ
گلوں پر آ رہا ہے اب نکھار آہستہ آہستہ
یہ دِل کا درد ہے اِس میں سکوں مشکل سے ملتا ہے
’’ذرا ٹھہرو کہ آئے گا قرار آہستہ آہستہ‘‘
لگائے ہیں یہ کس کس نے مجھے معلوم ہے سب کچھ
کروں کا دل کے زخموں کا شمار آہستہ آہستہ
سرورِ شب رگ و پے سے چلا آیا ہے آنکھوں میں
سحر تک خود ہی اُترے گا خُمار آہستہ آہستہ
بس اک ایمان باقی ہے کہو تو یہ بھی حاضر ہے
میں دل تو کر چکا تم پر نثار آہستہ آہستہ
شعاعیں حُسن کی ایسی بکھرتی ہیں پسِ پردہ
کہ بدلی سے گرے جیسے پھوہار آہستہ آہستہ
وفا پر فوقؔ میری اعتبار اُن کو نہیں آیا
مگر آئے گا اک دن اعتبار آہستہ آہستہ
٭٭٭
چمن میرا ہے گل میرا ہے شاخِ آشیاں میری
چمن کا پتّا پتّا ملکیت ہے باغباں میری
کریں گے غور اک اک بات پر اہلِ جہاں میری
دہن ہوگا اگر اُن کا تو بولے گی زباں میری
مرے اِس رازِ سر بستہ کو کیا اہلِ جہاں سمجھیں
یہ بس مجھ پر ہی روشن ہے کہ نظریں ہیں جہاں میری
وہیں تک منزلِ عِرفاں نمایاں ہوتی جاتی ہے
جہاں تک جا رہی ہے آج گردِ کارواں میری
جہاں اہلِ خرد بھی ہوش سے بیگانہ ہوتے ہیں
پڑی ہے بے خودی میں اک نظر ایسی وہاں میری
خدا جانے کہ کیا کیا حشر برپا ہوں سرِ محفل
’’مناسب ہے تو بس یہ ہے نہ کھلواؤ زباں میری‘‘
میں انساں ہوں نہ کیوں ہو ناز مجھ کو اپنی ہستی پر
رہی ہے فوقؔ برسوں تک مشیّت رازداں میری
٭٭٭
ہوا ہے یوں محبت کا اثر آہستہ آہستہ
اِدھر آہستہ آہستہ اُدھر آہستہ آہستہ
حریمِ حُسن کے آداب رکھ پیشِ نظر اے دِل
دھڑک آہستہ آہستہ گزر آہستہ آہستہ
مری آنکھوں میں آ دِل میں اُتر پھر روح میں کھو جا
مگر آہستہ آہستہ مگر آہستہ آہستہ
کسی کا اور بھی مجھ پر کرم پیہم ہے بے پایاں
اگر اُن تک بھی پہنچی یہ خبر آہستہ آہستہ
یکایک دیکھنے پر تابِ نظارہ کہاں ہوگی
اُٹھائیں روبرو اُن کے نظر آہستہ آہستہ
بتاتے ہیں در و دیوار کے بھی کان ہوتے ہیں
’’زباں سے نام لو میرا مگر آہستہ آہستہ‘‘
ہو ممکن تو نشاط و کیفِ شب کو بھول ہی جاؤ
وہ دیکھو آ رہی ہے اب سحر آہستہ آہستہ
ڈھلی ہے شب اُدھر بھی نیند کا غلبہ ہوا طاری
جھکی جاتی ہیں پلکیں بھی اِدھر آہستہ آہستہ
اسے تو فوقؔ جھکنا تھا یہیں پر اور بھی لیکن
کہاں مرا جھکا جاتا ہے سر آہستہ آہستہ
٭٭٭
آنکھیں کبھی زلفیں کبھی لب دیکھ رہے ہیں
آئینے میں گزری ہوئی شب دیکھ رہے ہیں
جب تک تھے مرے سامنے آنکھوں میں حیا تھی
جاتے ہوئے مُڑ مُڑ کے وہ اب دیکھ رہے ہیں
اللہ بچائے نگہِ بد سے کسی کی
محفل میں اُنہیں آج تو سب دیکھ رہے ہیں
اک ہم ہی نہیں بزم میں بے تاب و مذبذب
’’ہم حال تمہارا بھی عجب دیکھ رہے ہیں ‘‘
نظریں تو ہیں دونوں کی مگر فرق ہے اتنا
وہ صبح تو ہم ظلمتِ شب دیکھ رہے ہیں
مے خانے میں مے خوار طلب گار ہیں مے کے
اور ہم ہیں کہ اُن سب کی طلب دیکھ رہے ہیں
کل نام و نسب فوقؔ مٹایا تھا جنہوں نے
کیوں آج وہی نام و نسب دیکھ رہے ہیں
٭٭٭
راہوں میں کچھ ایسے بھی مقامات ملیں گے
قدموں کے جہاں میرے نشانات ملیں گے
یہ رات تو گزری ہے بڑے کیف میں لیکن
زندہ رہے اے دوست تو کل رات ملیں گے
پی تو گئے تم اشک مجھے دیکھ کے لیکن
رخسار پہ کچھ اب بھی نشانات ملیں گے
مے خانہ ہو، مسجد ہو، کلیسا ہو کہ مندر
ان میں بھی تو کچھ وقفِ خرابات ملیں گے
بازار میں بیچو گے جو تم قوم کی میراث
پھر تم کو بھی تمغات و خطابات ملیں گے
تاریخ کے کھاتے میں مرے نام پہ تم کو
صدیوں کے چکانے کو حسابات ملیں گے
آنکھوں کو پڑھو چہرے کی حالت پہ نہ جاؤ
’’نفرت میں بھی اُلفت کے پیامات ملیں گے‘‘
چہروں کے جوابات تو تم دے چکے پڑھ کر
آنکھوں میں ابھی اور سوالات ملیں گے
دیکھوں گا کہاں تک وہ بھُلاتے ہیں مجھے فوقؔ
ہر سانس میں اُن کے مرے جذبات ملیں گے
٭٭٭
خوشا قسمت وہ آئے ہیں تو ایسے میں دعا جاگے
گھٹا برسے، اُٹھے ساغر، نِظامِ مے کدہ جاگے
خُمار آلودہ آنکھیں ، سُرخ چہرہ، منتشر زلفیں
وہ کیا جاگے کہ فطرت کے نقوشِ فتنہ زا جاگے
نہیں ٹوٹا ابھی پِندارِ زہد و اِتَّقا شاید
کوئی ساغر بکف جادو نظر کافر ادا جاگے
ہمیں تو دیکھنا یہ ہے گرے گی تب کہاں بجلی
وہ جب انگڑائی لے کر اُٹھیں اور بندِ قبا جاگے
مہک کلیوں کی، پھولوں کا تبسّم ماند ہو پل میں
کسی کی زلف کو چھو کر اگر بادِ صبا جاگے
کبھی ایسا بھی لمحہ کاش آ جائے محبت میں
’’ہماری خواہشیں سو جائیں اُن کا مدعا جاگے‘‘
رہینِ خواب ہیں دیر و حرم کے پاسبان اب تک
یہ ممکن ہے کہ رند و مے کدہ میں اب خدا جاگے
یہ سوتے ہیں تو سونے دو نہ چھیڑو ان کو فرزانو !
بِساطِ ہوش اُلٹ دیں گے جو دیوانے خدا جاگے
نظامِ بحر و بر جس نے بدل ڈالا تھا دنیا کا
وہی تکبیر پھر گونجے وہی دستِ دعا جاگے
سکوتِ مستقل قسمت نہ بن جائے سمندر کی
کوئی طوفان پھر اُٹھے کوئی موجِ بلا جائے
ابھی سے فکر کیوں ردِّ عمل کی فوقؔ کرتے ہو
جفائیں اور بڑھنے دو کہ دل کا حوصلہ جاگے
٭٭٭
اُن کی نظر سے جو آج ٹکرا گئی نظر
میرا مقام کیا ہے یہ بتلا گئی نظر
تعمیرِ تاج میں ہے کسی کی وفا کا حُسن
روزن سے دیکھتے ہوئے پتھرا گئی نظر
مرجھا گیا ہے پھول سا چہرا یہ کس لئے
’’کچھ تو بتاؤ کس کی تمہیں کھا گئی نظر‘‘
یہ تو نہیں ضروری زباں سے وہ کچھ کہیں
سب کچھ نظر نظر ہی میں بتلا گئی نظر
اُن کو بھُلائے یوں تو زمانہ گزر گیا
دیکھا جو اُن کو آج تو للچا گئی نظر
ماضی کو فوقؔ ربط ہے کتنا نظر کے ساتھ
دیکھا کسی نے مجھ کو تو شرما گئی نظر ٭٭٭
سرِداراورکون آتا جو دیوانے نہیں آتے
یہ وہ منزل ہے جس منزل میں فرزانے نہیں آتے
صُراحی بھی ہے بادہ بھی، گھٹائیں بھی ہیں ساقی بھی
ہر اک شے ہے مگر گردِش میں پیمانے نہیں آتے
جہانِ زیست کی تعمیرِ نو میں جو معاون ہوں
’’کریں کیا اپنے ہونٹوں تک وہ افسانے نہیں آتے‘‘
منا لیں خوب جشنِ عیش اربابِ خرد ہمدم
ابھی کچھ دیر تک محفل میں دیوانے نہیں آتے
چلا ہوں تازہ دم لے کر بہاریں جانبِ صحرا
تصور میں بھی اب تو دوست ویرانے نہیں آتے
نہ جانے سرد ہو کر رہ گئی کیوں گرمیِ محفل
یہ کیوں آخر حضورِ شمع پروانے نہیں آتے
کشاکش ہی رہے گی ساغر و مینا و بادہ میں
قدم جب تک ہمارے فوقؔ مے خانے نہیں آتے
٭٭٭
تمہیں پوچھو گے گھبرا کر پتا جب ہم نہیں ہوں گے
ہر اک در پر ہمیں دو گے صدا جب ہم نہیں ہوں گے
ہمارے دم سے ساقی عظمتِ پیمانہ ہے باقی
بدل جائے گا نظمِ مے کدہ جب ہم نہیں ہوں گے
ابھی تک بددعا دیتے رہے ہو تم ہمیں لیکن
ہمارے حق میں مانگو گے دعا جب ہم نہیں ہوں گے
ہمارے دم سے ہے رسمِ وفا باقی زمانے میں
بدل جائے گا اندازِ وفا جب ہم نہیں ہوں گے
ستم جتنے بھی چاہو آج تم جی کھول کر کر لو
کرو گے کس پہ کل جور و جفا جب ہم نہیں ہوں گے
تمہارے یہ حِنائی ہاتھ ہو جائیں گے بے مصرف
کسے دستِ حِنا دکھلاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے
ہمارے دم سے سر تا پا بنے ہو دیدنی لیکن
نظر آؤ گے پھر تم کیا سے کیا جب ہم نہیں ہوں گے
ابھی ملتے ہی نظریں ہم سے تم نظریں چراتے ہو
تمہیں ڈھونڈو گے ہم کو جا بہ جا جب ہم نہیں ہوں گے
ہماری موت کی اے فوقؔ جب اُن کو خبر ہوگی
زباں پہ اُن کی ہوگا ’اے خدا‘ جب ہم نہیں ہوں گے
٭٭٭
کوئی ہو معتبر سے معتبر دیکھا نہیں جاتا
لباسِ راہزن میں راہبر دیکھا نہیں جاتا
کبھی پرواز تھی جن طائروں کی آسمانوں میں
زمیں پر اب اُنہیں بے بال و پر دیکھا نہیں جاتا
تمہارے سنگِ در سے اُٹھ کے جائیں تو کہاں جائیں
کہ ہم سے اب کسی کا سنگِ در دیکھا نہیں جاتا
شعاعیں حُسن کی خیرہ کئے دیتی ہیں نظروں کو
وہ محفل میں ہیں بے پردہ مگر دیکھا نہیں جاتا
عروسِ شب کے بستر پر مہک کر جو ہوئے قرباں
اُنہیں پھولوں کو اب وقتِ سحر دیکھا نہیں جاتا
سمجھتا ہوں وہ ظالم بے وفا بھی ہے ستم گر بھی
مگر پھر بھی اُسے با چشمِ تر دیکھا نہیں جاتا
مریضِ غم کی حالت لاکھ ہو مایوس کن لوگو !
’’مگرمایوس ہم سے چارہ گر دیکھا نہیں جاتا‘‘
حوادِث پر زمانے کے جسے ہنسنا نہ آتا ہو
ہماری بزم میں وہ نوحہ گر دیکھا نہیں جاتا
یہ کیا کم ہے گوارہ کر لیا بربادیِ دل کو
مگر اے فوقؔ اب خونِ جگر دیکھا نہیں جاتا
٭٭٭
ہمارے عہد کے چہرے بدل گئے یارو
غضب ہے خون کے رشتے بدل گئے یارو
ہمارے اپنے ہوئے غیر، غیر ہیں اپنے
’’روایتوں کے طریقے بدل گئے یارو‘‘
بدل رہے ہیں جو انسان تو تعجب کیا
یہ دور وہ ہے فرشتے بدل گئے یارو
نشان جن پہ لگائے تھے جیتنے کے لئے
نہ جانے کیسے وہ پتّے بدل گئے یارو
بہت غرور تھا ہم کو پرانے سِکّوں پر
بحکمِ شاہ وہ سِکّے بدل گئے یارو
ہمارا عکس بھی قاتل ہمیں نظر آیا
ہمارے جب سے عقیدے بدل گئے یارو
کہاں تلاش کرو گے نقوشِ پا میرے
تمام شہر کے رستے بدل گئے یارو
نہ کوئی چور کا کھٹکا نہ غم لٹیروں کا
اندھیری رات کے پہرے بدل گئے یارو
کرے گا اب وہ زمانے سے کیا گِلہ اے فوقؔ
جب اُس کے اپنے ہی سارے بدل گئے یارو
٭٭٭
حِصارِ ذات بھی ظلمت کدہ لگے ہے مجھے
بجھا بجھا سا چراغِ وفا لگے ہے مجھے
اندھیری رات میں لے دے کے اک ستارہ تھا
سو یہ ستارہ بھی اب ڈوبتا لگے ہے مجھے
اب اور کس کو بناؤں انیسِ تنہائی
ترا خیال بھی روٹھا ہوا لگے ہے مجھے
قریب اور قریب آ مرے گلے لگ جا
کہ تو بھی وقت کا مارا ہوا لگے ہے مجھے
نگاہِ لطف سے کیا اُس نے مجھ کو دیکھ لیا
مرا وجود بھی اب جانے کیا لگے ہے مجھے
خدا تو ایک ہے لیکن بھری خدائی میں
’’نگاہ جس پہ پڑے ہے خدا لگے ہے مجھے‘‘
ترے جنوں سے مجھے فیض یہ ہوا حاصل
دعا لگے ہے نہ اب بددعا لگے ہے مجھے
نہ جانے فوقؔ کو کیوں لوگ رِند کہتے ہیں
یہ آدمی تو بڑا پارسا لگے ہے مجھے
٭٭٭
جو آپ اپنے وقت کے سانچوں میں ڈھل گئے
سچ پوچھئے تو رُخ وہ ہوا کا بدل گئے
سر پر اُنہیں کے وقت نے رکھّا ہے تاج بھی
جو ٹھوکریں زمانے کی کھا کر سنبھل گئے
ماں کا لحاظ جن کو نہ ہی باپ کا خیال
ایسے بھی کچھ جوان محبت میں پل گئے
تو مجھ سے دور تھا تو مکاں تیرا بچ گیا
میرے قریب کے تو مکاں سارے جل گئے
اُن کو بھی میرے درد کا احساس ہو گیا
آنسو خود اُن کی آنکھ سے دو چار ڈھل گئے
اپنا ہی قصہ میں نے کیا تھا بیاں ابھی
لیکن کسی کے چہرے کے تیور بدل گئے
کچھ اُن کا رُخ بھی بدلا ہوا سا مجھے لگا
’’کچھ چال میرے ساتھ ستارے بھی چل گئے‘‘
مجھ کو ڈسا ہے فوقؔ اُنہیں نے ہی بار بار
کچھ سانپ آستینوں میں میری جو پل گئے
٭٭٭
محفل میں ہے پھر ذِکرِ بہاراں کئی دن سے
آنکھوں میں ہے وہ جانِ گلستاں کئی دن سے
کیا جانیے کیا بات ہوئی اُن سے کسی کی
دیکھا ہے اُنہیں ہم نے پشیماں کئی دن سے
اب دیکھئے کیا اور دکھائے غمِ دوراں
کانٹوں سے ہیں الجھے ہوئے داماں کئی دن سے
مائل بہ کرم مجھ پہ کوئی ہو گیا شاید
قابو سے ہے باہر مرا ایماں کئی دن سے
کیا بادِ صبا دے گئی پیغامِ بہاراں
ہاتھوں میں ہے خود اپنا گریباں کئی دن سے
گلشن کی مرے خیر بہ ہر طور ہو یارب
آنکھوں میں ہے تصویرِ بیاباں کئی دن سے
اللہ رکھے فوقؔ اُنہیں اپنی اماں میں
’’آتے ہیں نظر خوابِ پریشاں کئی دن سے‘‘
٭٭٭
خود ختم کر کے قصّۂ شام و سحر کو میں
یہ بھی پتہ نہیں کہ چلا ہوں کدھر کو میں
حاوی شبِ فِراق کی ظلمت ہے ذہن پر
وقتِ سحر بھی ڈھونڈ رہا ہوں سحر کو میں
مایوس ہمسفر نہ ہو پرواز سے مری
’’ترتیب دے رہا ہوں ابھی بال و پر کو میں ‘‘
یہ اور بات ہے کہ تبسّم لبوں پہ ہے
کیا جانتا نہیں ہوں تمہاری نظر کو میں
دانستہ ٹھوکروں کا اُٹھایا ہے میں نے لطف
بھولا نہیں ہوں دوست تری رہ گزر کو میں
اتنا خراب تو نہیں بیمارِ غم کا حال
مایوس دیکھتا ہوں مگر چارہ گر کو میں
پھر سامنے ہیں آج بصد اہتمام وہ
دِل کو سنبھالوں فوقؔ کہ روؤں جگر کو میں
٭٭٭
پاس و آداب مے کشی کا رکھنا
خود کو تم محوِ تشنگی رکھنا
ہر کسی سے نہ دوستی رکھنا
دوستوں سے نہ دشمنی رکھنا
گُل نہ سارے چراغ ہو جائیں
ایک دو میں تو روشنی رکھنا
لاکھ خوشیاں نصیب ہوں تم کو
غم سے وابستہ زندگی رکھنا
دِل کی گرمی نہ سرد ہو جائے
آگ سینے میں کچھ دبی رکھنا
ختم رشتہ تو کر رہے ہو مگر
’’کچھ تعلق کبھی کبھی رکھنا‘‘
صرف تقدیر ہی نہیں سب کچھ
دِل میں تدبیر بھی کوئی رکھنا
بات سے بھی تو بات بنتی ہے
بات بگڑے تو تم بنی رکھنا
فوقؔ جینے کو یہ ضروری ہے
کچھ نہ کچھ شغلِ شاعری رکھنا
٭٭٭
منزل کا جن کو ہوش نہ اپنا پتا ملے
ایسے میں راہِ عشق میں کچھ ہمنوا ملے
دیر و حرم میں پا نہ سکے شیخ و برہمن
اہلِ نظر کو جلوے ترے جا بہ جا ملے
اللہ رے احترام کہ میری جبینِ شوق
جھکتی گئی جہاں بھی تیرے نقشِ پا ملے
ہر ہر قدم پہ یوں تو ملے رہنما بہت
پھر بھی یہ آرزو ہے کوئی رہنما ملے
یوں تو قدم قدم پہ ملے بے شمار دوست
’’ہمدرد، غمگسار، کہاں آشنا ملے‘‘
انساں نہ کر سکے گا ابد تک یہ فیصلہ
کیا کیا ملا جہاں میں اُسے اور کیا ملے؟
اب آرزو بھی دِل میں نہیں ہے مرے کوئی
پھر کیا ہے لاکھ اُن کا اگر در کھُلا ملے
وہ جن کی پارسائی کا چرچا تھا ہر طرف
کل میکدے میں فوقؔ وہی پارسا ملے
٭٭٭
کہتے ہو لے کے ہاتھ میں تلوار چپ رہو
دار و رسن پہ آؤ سرِ دار چپ رہو
تم کر رہے ہو اور مری نفرتوں کو ذِکر
تم تو سوا ہو مجھ سے گنہگار چپ رہو
دیوار بھی تو گوش بر آواز ہے میاں
ہے مصلحت یہی بس دیوار چپ رہو
گزرو روش روش سے گلستاں کی بار بار
دیکھو گلوں کو صورتِ گلزار چپ رہو
کردار ہے تو بات کرو بزم میں ضرور
گفتار ہے تو غازیِ گفتار چپ رہو
ہم کو پتہ ہے خوب تمہارا ہے زہد کیا؟
اے مبتلائے تقویٰ و پِندار چپ رہو
ظاہر کرو گے کس پہ یہاں تم رموزِ عشق
دِل میں لئے ہوں مخزنِ اسرار چپ رہو
ہاتھوں کو کچھ اُٹھاؤ نگاہوں سے کام لو
یا دِل بڑھا کے حوصلہ بر دار چپ رہو
غیرت تمہارے نام سے شرما رہی ہے آج
کہتے ہو اپنے آپ کو خوددار، چپ رہو
کوئی شریکِ درد تمہارا نہ ہوگا فوقؔ
دِل کا کرو گے کس سے تم اظہار چپ رہو
٭٭٭
نسلِ آدم پہ وہی جور و ستم آج بھی ہے
اور یہ تفرقۂ دیر و حرم آج بھی ہے
بک چکا کب کا مسلمان کا ایمان اے دوست
کون کہتا ہے کہ ہندو کا دھرم آج بھی ہے
اب وہ پہلی سی کشش دِل میں کہاں سے لاؤں
یہ تو سچ ہے کہ ترا لطفِ کرم آج بھی ہے
بزم میں تیری ہر اک شخص ہے شاداں اے دوست
پھر بھی اک دِل ہے جو وابستۂ غم آج بھی ہے
ذہن سے لاکھ گزر جائے تری یاد مگر
دِل میں احساس ترے سَر کی قسم آج بھی ہے
ٹھوکریں راہ میں کھائی ہیں ہزاروں لیکن
’’رہ روِ عشق کا منزل میں قدم آج بھی ہے‘‘
کارواں عصمتِ مریم کے لئے ہیں لاکھوں
بنتِ حوّا کا مگر فوقؔ بھرم آج بھی ہے
٭٭٭
کیوں ہو گیا ہے سرد یہ بازار کچھ کہو
یوسفؑ کا بھی نہیں ہے خریدار کچھ کہو
اے حازقانِ وقت، طرحدار کچھ کہو
کیوں ہے خموش آپ کا بیمار کچھ کہو
زنداں میں رہ کے کس لئے لب ہیں تمہارے بند
کیا جرم ہے تمہارا سزاوار کچھ کہو
چہرے پہ چھا رہی ہیں ہر اک کے اداسیاں
تم مسکرا کے اے مری سرکار کچھ کہو
اک بار پھر نکل کے ذرا آؤ بام پر
بیٹھے ہو کس لئے پسِ دیوار کچھ کہو
پیغام شعر میں ہے نہ تصویر میں ہے رنگ
اے شاعر، اے مصور و فن کار کچھ کہو
مرجھا رہے ہیں پھول تو کلیاں اُداس ہیں
کیوں ہے خزاں گزیدہ یہ گلزار کچھ کہو
اے عارفانِ فکر و حقیقت کہو تو کچھ
ذہنوں میں کیا تمہارے ہیں انگار کچھ کہو
انسانیت پہ آج کا انسان ہے بار کیوں
کچھ تو بتاؤ صاحبِ اسرار کچھ کہو
تم سے بھی وہ خفا ہیں یہ کیا ماجرہ ہوا
تم تو بہت تھے اُن کے وفادار کچھ کہو
گفتار کا تو ذکر بہت ہو چکا ہے فوقؔ
کردار کیا ہے غازیِ گفتار کچھ کہو
٭٭٭
اے نگاہِ شوق تو نے آج یہ کیا کر دیا
اشتیاقِ دید میں اُن کو بھی رُسوا کر دیا
اے غمِ یاراں ترا ممنون ہوں میں تو نے آج
لذّتِ دردِ محبت سے شناسا کر دیا
منحصر ہیں آپ کی تبدیلیوں پر رات دِن
’’جب ذرا انگڑائی لی شب کو سویرا کر دیا‘‘
مسکرا کر پھیر لیں نظریں کسی نے یک بہ یک
درد مٹنے بھی نہ پایا تھا کہ پیدا کر دیا
مسکرا اُٹھی مشیت محوِ حیرت ہے جہاں
بے خودی میں آج کس فاسق نے سجدہ کر دیا
تم جو کہتے ہو کئے دیتا ہوں حالِ دِل بیاں
پھر نہ کہنا فوقؔ تو نے اور ایسا کر دیا ٭٭٭
راز جو پنہاں تھے وہ دِل سے نکل کر رہ گئے
وہ سمجھتے ہیں کہ ہم پہلو بدل کر رہ گئے
شاعرانِ عشق سے کہہ دو نئی چالیں چلیں
’’اب بساطِ حُسن کے مہرے بدل کر رہ گئے‘‘
اُٹھ گئے کروٹ بدل کر وقت کے نبّاضِ نو
ناشناسانِ حقیقت ہاتھ مل کر رہ گئے
دیکھنا یہ ہے کہ چومے کس کے منزل نے قدم
یوں تو لاکھوں قافلے دو گام چل کر رہ گئے
کون یہ گلشن سے گزرا ہے باندازِ خرام
گل ہنسے، کلیاں کھلیں ، غنچے مچل کر رہ گئے
وقتِ رُخصت لب پہ مہرِ خامشی تو تھی مگر
دامنِ مژگاں پہ کچھ آنسو مچل کر رہ گئے
آج میخواروں میں ساقی حشر ہو جاتا بپا
جانے یہ کس کے اشارے پر سنبھل کر رہ گئے
ناز تھا جن کی رفاقت پر مجھے بے انتہا
وقت پڑنے پر وہی آنکھیں بدل کر رہ گئے
فوقؔ مجھ پر ہی نہیں برقِ تپاں کا یہ کرم
جانے کتنے آشیاں گلشن میں جل کر رہ گئے
٭٭٭
محفلِ قدسیاں میں جب ذِکر ِچھڑا بہشت کا
آنکھوں میں نقشہ آ گیا اِنساں کی سرگزشت کا
بھُولا نہیں ہوں آج بھی تیری نوازشوں کو میں
’’جذبہ وہ تیرے دل کا تھا یا کہ تری سرشت کا‘‘
اُن کی نظر سے مل گیا مجھ کو پیامِ فتح جب
کوئی خیال اب نہیں دِل میں مرے شکست کا
راہ بھی صاف صاف ہے منزل بھی ہے قریب تر
کوئی نہیں وجود اب راہ میں سنگ و خشت کا
بزمِ طرب میں آج جب ٹوٹا نہیں کسی کا دل
کس کو پتا چلے گا پھر میرے دِلِ شکست کا
کوئی نہ ہوگا فوقؔ پھر اُس کا جہاں میں غم گسار
جس کو خیال کچھ نہیں اپنی متاعِ کِشت کا
٭٭٭
لب اگر کھول دوں اک طرفہ تماشا ہو جائے
جانے پھر کون تری بزم میں رسوا ہو جائے
بے نیازِ حرم و دیر ہے سجدہ میرا
میں جہاں سر کو جھکا دوں وہیں کعبہ ہو جائے
ظلمتِ شب سے ہے بیزار نظامِ عالم
’’تو جو زلفوں کو ہٹا دے تو سویرا ہو جائے‘‘
زندگی اپنی بھی ہو جائے مکمل اے دوست
کاش تجھ کو بھی جو احساسِ تمنّا ہو جائے
یہ تو توہینِ محبت ہے محبت کی قسم
نام سے میرے کوئی بزم میں رُسوا ہو جائے
مِنّتِ غیر بھی کر لوں گا میں تیری خاطر
تیری غیرت کو اگر یہ بھی گوارا ہو جائے
ہوش باقی نہیں ، لب خشک ہیں پھر بھی اے فوقؔ
کچھ بھی ہو آج تو اظہارِ تمنّا ہو جائے
٭٭٭
پتا وہ پوچھتے پھرتے ہیں قاتلوں کا مرے
نشان جن کے ہے خنجر پہ انگلیوں کا مرے
پھر اپنے زخم بھی دیکھو گے میرے زخم کے بعد
کرو گے پوچھ کے کیا نام دوستوں کا مرے
مرا نصیب کہ حل کوئی مسٔلہ نہ ہوا
’’تمہارے پاس تو حل بھی تھا مسٔلوں کا مرے‘‘
خلوص کیا ہے یہ اکثر بتاتے رہتے ہیں
بہت ہی مجھ پہ کرم ہے یہ مخلصوں کا مرے
ہوا نہ مجھ پہ کوئی وار کارگر اُن کا
بڑھا دے حوصلہ یارب تو قاتلوں کا مرے
مرے عروج پر احباب میرے خوش ہیں مگر
مجھے خیال ستاتا ہے حاسِدوں کا مرے
مجھے نہیں ہے پتا فوقؔ اپنی منزل کا
اُنہیں ملے گا نشاں کیسے راستوں کا مرے
٭٭٭
ستم کو بھی بہ عُنوانِ کرم کہنا ہی پڑتا ہے
بہ ہر صورت یہ قصّہ بیش و کم کہنا ہی پڑتا ہے
سمجھتا ہوں گراں گزرے گا حرفِ مدعا لیکن
بہ مجبوری ترے سر کی قسم کہنا ہی پڑتا ہے
خوشی کی چند گھڑیوں کا تو ہے اظہار نا ممکن
مگر یہ قصّۂ درد و الم کہنا ہی پڑتا ہے
ریاضِ زندگی میں اک مقام آتا ہے ایسا بھی
جہاں خود بُت کدے کو بھی حرم کہنا پڑتا ہے
جبینِ شوق بے تابانہ جھکتی ہے جہاں میری
وہاں اُن کا کوئی نقشِ قدم کہنا ہی پڑتا ہے
اسیری ہی کو جو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں دنیا میں
’’قفس کو بھی وہاں باغِ اِرم کہنا ہی پڑتا ہے‘‘
کبھی اے فوقؔ ہم ایسی بھی منزل سے گزرتے ہیں
جہاں اُن کے کرم کو بھی ستم کہنا ہی پڑتا ہے
٭٭٭
میں دھوکا ہر اک گام پر کھا رہا ہوں
مگر سوئے منزل چلا جا رہا ہوں
تری رحمتوں کا میں لے کر سہارا
گناہوں کو دعوت دئیے جا رہا ہوں
کوئی میری غیرت کو آواز دے دے
یہ دامن کہاں آج پھیلا رہا ہوں
جگہ دے کے دل میں محبت کو تیری
’’میں اپنے کئے کی سزا پا رہا ہوں ‘‘
جنہیں بھولتا جا رہا ہے زمانہ
وہ باتیں میں اے فوقؔ دہرا رہا ہوں
٭٭٭
آغوش میں کرگس کی جو شاہین پلے گا
کرگس وہ رہے گا نہ ہی شاہین رہے گا
پہونچے گی ترے گھر میں بھی کچھ روشنی اے دوست
کمرے میں اگر میرے دیا کوئی جلے گا
صدیوں کی تھکن جس کو وراثت میں ملی ہو
وہ سوچ سمجھ کر ہی قدم آگے رکھے گا
ہر شخص نظر آئے گا انگشت بہ دنداں
جب ذِکر مرا کوئی سرِ بزم کرے گا
آپس میں لڑو خوب مگر گھر کو نہ توڑو
جو ٹوٹ گیا گھر تو یہ مشکل سے بنے گا
اے اہلِ خرد اور ابھی جشن مناؤ
سویا ہے ابھی دیر سے دیوانہ اُٹھے گا
ظالم کی عدالت ہے تو قاتل کی گواہی
’’مظلوم کی روداد یہاں کون سنے گا‘‘
اِس دور میں کہلائے گا وہ مردِ مجاہد
اِس دور میں جو تیری طرح فوقؔ جئے گا
٭٭٭
حیران ہو کے رہ گئی دنیا نہ پوچھئے
سر تا پا بن گیا ہوں تماشا نہ پوچھئے
اُن کا خیال اُن کی محبت نفس نفس
کچھ اور زندگی کا سہارا نہ پوچھئے
ہر ہر قدم پہ تھا مجھے پاسِ مزاجِ دوست
’’دِل نے کیا ہے کیا کیا گوارا نہ پوچھئے‘‘
اک خواب ہے خیال ہے موہوم سا فقط
اِس کے سوا حقیقتِ دنیا نہ پوچھئے
دِل نے جہاں بھی چاہا ادا کی نمازِ عشق
کعبہ نہ پوچھئے گا کلیسا نہ پوچھئے
جن کے تصورات سے آنکھیں ہیں کیف زا
ان مست انکھڑیوں کا نظارہ نہ پوچھئے
جو کچھ میں چاہتا ہوں وہ سب جانتے ہیں آپ
بہتر یہی ہے مجھ سے تمنّا نہ پوچھئے
کیا جانے کس طرح میں جئے جا رہا ہوں فوقؔ
غربت میں زندگی کا سہارا نہ پوچھئے
٭٭٭
آنسو جھلک رہے ہیں چشمِ فسوں اثر میں
یا مے بھری ہوئی ہے پیمانۂ نظر میں
پاتا ہوں شامِ غم کو مِنت کش سحر میں
کروٹ بدل رہی ہے دنیا مری نظر میں
کچھ پُر شِکن جبیں سے ظاہر ہے برہمی سی
کچھ لطف بھی نہاں ہے بہکی ہوئی نظر میں
خورشید کی شعاعیں دھندلی سی ہیں ابھی کچھ
’’آنچل عروسِ شب کا ہے دامنِ سحر میں ‘‘
برہم سی ہو چلی ہے اے فوقؔ بزمِ عالم
آہوں کا دیکھتا ہوں تھوڑا بہت اثر میں
٭٭٭
خدا معلوم یہ کس نے بھلا دی زندگی میری
کہ ہر شے سے نظر آنے لگی بے گانگی میری
قریبِ منزلِ مقصود شاید ہوتا جاتا ہوں
یونہی ہر لمحہ شاید بڑھتی جاتی ہے خوشی میری
یہ ایسی تنگ دامانی ہے صحرا کی ابھی سے کیوں
بقدرِ جوشِ وحشت بھی نہیں دیوانگی میری
جمالِ شاہدِ ہستی سے تھی آراستہ محفل
مگر محسوس پھر بھی ہو رہی تھی اک کمی میری
حریفِ جوششِ بحرِ کرم ہونا مبارک ہو
’’بحمد اللہ بڑھتی جا رہی ہے تشنگی میری‘‘
جوانی کے وہ لمحاتِ حسیں یوں چھن گئے مجھ سے
یکایک چھن گئی جیسے کوئی شے قیمتی میری
نگاہِ التفاتِ دوست کی مرہونِ منّت ہے
حقیقت میں نہیں ہے فوقؔ اپنی زندگی میری
٭٭٭
رعب و عروجِ قیصری جاہ و جلال کچھ نہیں
جس کو کبھی زوال ہو وہ بھی کمال کچھ نہیں
غم کی لطافتوں کو دیکھ گرم حکایتوں کو دیکھ
ہجر کی مدّتوں کو دیکھ شوقِ وصال کچھ نہیں
عقلِ سلیم چاہیے ذوقِ کلیم چاہیے
عزمِ صمیم چاہیے فکرِ مآل کچھ نہیں
جذب ہے اک نگاہ میں دونوں جہاں کا حُسن سب
حُسنِ نظر کے سامنے رنگِ جمال کچھ نہیں
پیش ہیں لاکھ آفتیں کشمکش حیات کی
’’پھر بھی ترا خیال ہے اپنا خیال کچھ نہیں ‘‘
چھوڑئیے بحث کیا کریں اپنے ہی غیر ہو گئے
غیر تو پھر بھی غیر ہیں اُن کا ملال کچھ نہیں
ختم ہوئیں شکایتیں فوقؔ پہ روز روز کی
اُن کا جواب کچھ نہیں میرا سوال کچھ نہیں
٭٭٭
بشکلِ سُرخیِ افسانہ کب ہیں ہم فسانوں میں
ہمارا ذکر ہی بس رہ گیا ہے داستانوں میں
جنہیں تھا ناز اپنی حق پسندی حق شناسی پر
وہ تالے ڈال کر بیٹھے ہیں کیوں اپنی زبانوں میں
جو اپنے دامنوں میں جذب کر لیں برق و باراں کو
ضرورت ایسے تنکوں کی ہے ہم کو آشیانوں میں
ذرا محتاط ہو کر دیکھنا تاراجِ گلشن کو
’’خدا معلوم کیا سرگوشیاں ہیں باغبانوں میں ‘‘
زمانہ ہو گیا چھیڑے ہوئے سازِ وفا لیکن
صدائیں گونجتی ہیں اُس کی اب تک مرے کانوں میں
خطیبوں ، شاعروں سے عصرِ حاضر کے کوئی کہہ دے
اثر باتوں میں اُن کی ہے نہ جادو ہے بیانوں میں
وہ اپنا رازِ دِل مجھ سے چھپاتے ہیں تعجب ہے
رہا میں مدّتوں اے فوقؔ جن کے راز دانوں میں
٭٭٭
تصور سے کسی کے یوں ہوئی ہے جلوہ سامانی
کہ ہے حدِّ نظر تک آج تابانی ہی تابانی
لئے پھرتے ہیں اپنے دوش پہ وہ نقشِ ایمانی
رہا کرتا تھا جن کی ٹھوکروں میں تاجِ سلطانی
ہیں دونوں گامزن ترکِ وفا کی راہ پر لیکن
اُدھر اُن کو پشیمانی اِدھر مجھ کو پشیمانی
کبھی دامن کیا تھا چاک یوسفؑ کا زلیخا نے
’’مگر اب ہر زلیخا ہے حریصِ چاکِ دامانی‘‘
وفا کے نام پر اہلِ جفا کو ہم نے اپنایا
ہوئی ہے ہم سے دانائی کہ دھوکے میں یہ نادانی
اُدھر لُطف و کرم اُن کا مسلسل بڑھتا جاتا ہے
اِدھر فرطِ ندامت سے جھکی جاتی ہے پیشانی
دکھائی ہے جنوں نے راہ منزل کی وہیں اکثر
جہاں مجبور ہو جاتی ہے جا کر فکرِ انسانی
خدا سے بدگماں یہ ہے بتوں سے منحرف یہ ہے
یہاں تک گر گیا ہے آج کل معیارِ انسانی
بحمد اللہ پہونچا ہے وہاں نقشِ قدم میرا
جھکاتے ہیں جہاں قدسی بھی اکثر اپنی پیشانی
نقیبِ زندگی ہم تھے امینِ زندگی ہم تھے
مگر ہم نے حقیقت ہی کبھی اپنی نہ پہچانی
کہوں کیا طائرِ گمنام ہوں میں اُس گلسِتاں کا
جہاں ہوتی ہے آزادی کے پردے میں نگہبانی
بشر سے اب بشر ہی فوقؔ یوں دست و گریباں ہے
کہ جیسے غیض کی صورت میں ہو دریا کی طغیانی
٭٭٭
بس اک نگاہ سے مستِ شراب کر کے مجھے
کسی نے چھوڑ دیا انتخاب کر کے مجھے
مرے سوال پر آنکھیں اُٹھی تھیں لب تھے چپ
دیا جواب مگر لاجواب کر کے مجھے
وہ اِس ادا سے چلے آج اجنبی بن کر
نظر بچا کے نظر سے خطاب کر کے مجھے
یہ بخت آج اندھیرے مرے مقابل ہیں
’’زمیں پہ پھینک دیا آفتاب کر کے مجھے‘‘
حیات درد ہے اور درد ہے حیات مری
ازل سے بھیجا گیا انتخاب کر کے مجھے
شکستِ شوق سے جس نے مجھے بچایا تھا
وہ شخص پھر نہ ملا کامیاب کر کے مجھے
بڑے خلوص سے لا کر حیات چھوڑ گئی
اسیرِ زلف قتیلِ شباب کر کے مجھے
رہا نہ فوقؔ زمانے سے اب کوئی پردہ
نتیجہ دیکھ لیا بے نقاب کر کے مجھے
٭٭٭
کمپوزنگ: شجاع الدین، فائل کے لئے بھی ان کا تشکر
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید