FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

عقیدت کے قطرے

 

 

               سید انور جاوید ہاشمی

 

 

 

 

 

 

 حمدیہ

 

 

 

 اِ ذنِ ربیّ سے عنایت ہو گئی

حمد کہنے کی ریاضت ہو گئی

 

جب پکا راسُن لیاا للہ نے

مُلتَفِت گو یاسماعت ہو گئی

 

جو بھٹکتے رہ گئے اُلٹے قدم

دُور اُن لوگوں سے جنّت ہو گئی

 

زندگی صرَ فِ عبا د ت کیوں نہ ہو

بندگی سے پو ر ی حا جت ہو گئی

٭٭٭

 

 

 

یہی ہے مُدعائے دل کرم کر دے مرے اللہ

مرا عاجز قلم معُجِز رقم کر دے مرے اللہ

 

نہ میں صورت پہ اتراؤں، نہ میں دولت پہ اِتراؤں

وسیلہ حمد کا عزّت، بھرم کر دے مرے اللہ

 

نہ اُلجھیں کار دُنیا میں مری آنکھیں، یہ میرا دل

مری ہر سعی و کاوش محُتَرم کر دے مرے اللہ

 

حرم کے بعد طیبہ اور بطحا پر نظر ٹھہرے

مقاماتِ مقدّس یوں بَہم کر دے مرے اللہ

 

تمنائے زیارت بھی مگر اسبابِ حسرت بھی

جو تُو چاہے قدم سُوئے حرَم کر دے مرے اللہ

٭٭٭

 

 

 

آپ کے قبضے میں ہیں چاند ستارے سائیں

روشنی سینے میں بھر دیجے ہمارے سائیں

 

آپ ہیں مالک و مختار، لگا سکتے ہیں

زیست کی ڈولتی نیّاا بھی کنارے سائیں

 

ہیں عطا آپ کی یہ حرف خزانے سارے

ہم نے کب اپنے تئیں نذر گزارے سائیں

 

تذکرہ بے سروسامانیوں کا ہو کیسے

ماسوا آپ کے اب کس کو پکارے سائیں

 

اسی دھرتی پہ کئی ہاشمی جیسے بندے

بے سہارے ہیں بہت، دیجے سہارے سائیں

٭٭٭

 

 

 

یہ کہتا ہے ہمارا دل کوئی ہے تو محمدؐ ہیں

امین و صادق و عادل کوئی ہے تو محمدؐ ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

خامہ و دستِ قلم کار میں گُفتار میں تو

لفظ و معنی سے مُرصع مرے اشعار میں تو

 

خامیاں دیکھ کے کردار میں گُفتار میں تو

مبتلا رہنے نہیں د ے مجھے آزار میں تُو

 

دائرہ فکر و نظر کا ہو مُیسر مجھ کو

صورتِ یاس نہ رہ چشمِ طلب گار میں تو

 

واقعہ یہ ہے کوئی حمد نہیں لکھ سکتا

جب تلک خود نہ پکارے اُسے دربار میں تو

 

روشنائی کو عطا روشنی کرنے والے

چاہے تو خوشبوئیں بھر دے مرے اشعار میں تو

٭٭٭

 

 

 

 

گردانتے نہ کیسے بھلا بے نَوا مجھے

توفیق حمد کی جو نہ دیتا خدا مجھے

 

کرتا نہ گر طلب مرا ربّ الُعلیٰ مجھے

سنتا جہانِ حمد میں کوئی بھلا مجھے

 

جو رب نے دی ہے بارِ امانت اٹھائی ہے

حیرت سے کیوں نہ دیکھتے ارض و سما مجھے

 

وہ لاشریک ہوکے بھی میرا شریک ہے

صَلُّو عَلِیہٖ وَسلِّموا سکھلا گیا مجھے

 

آقاؐ سی کس کو عظمت و رفعت عطا ہوئی

آیا نظر نہ کوئی بھی بعد از خدا مجھے

 

مدحت رسولؐ کی ہے ثنا کردَگار کی

کیوں کر نہ ہاشمیؔ کہیں مدحت سرا مجھے

٭٭٭

 

 

 

جو نمازی ہیں وہ دیتے ہیں اطاعت کا ثبوت

یہ صلوٰۃ خمسہ کیا ہیں جُز نبوت کا ثبوت

 

اپنے محور سے نہیں ہٹتے کبھی شمس و قمر

گردشِ سیّارسگاں ہے اس شہادت کا ثبوت

 

جس نے کلمہ پڑھ لیا دل سے وہ مومن ہو گیا

اور جو کافر رہا، دے گا جہالت کا ثبوت

 

سن رہے ہیں حمد کو جن و ملک اس بزم میں

لا نہیں سکتا اگر چہ میں سماعت کا ثبوت

 

ذکر سے اللہ کے کھلتے ہیں ذہنوں کے طبق

ہاشمیؔ حاصل ہے ہم کو اس حقیقت کا ثبوت

٭٭٭

 

 

 

 

آغاز بھی اچھا ہو انجام بھی اچھا دے

یارب نہ مرے دل کو بارِ غمِ دنیا دے

 

سامع بھی کہے واللہ! قاری بھی کرے واہ وا

اس حمد کے لفظوں کو واللہ یوں چمکا دے

 

بوبکرؓ و عمرؓ جیسا ہو دورِ خلافت پھر

اس اُمتِ مسلم کو پھر اوجِ ثُریا دے

 

آتا رہے کانوں میں، پیغام اذانوں میں

مسجد میں موذن دے، یا بر سرِ صحرا دے

 

والعصرؔ میں لکھّا ہے انساں ہے خسارے میں

لیکن وہ نہیں ہرگز ایماں جسے اللہ دے

 

اوصاف جُداگانہ ہر شئے کو دیے اُس نے

شاہین کو اُڑان اونچی، ماہی کو وہ دریا دے

 

مالک وہ بہاروں کا، محکوم خزاں اُس کی

جو شاخِ برہنہ کو خلعت نئی پہنا دے

 

مغضوبِ علیھم میں شامل نہ کبھی کرنا

انعام ہوا جن پر وہ راستا دکھلا دے

 

یہ بھی ہے کرم اُس کا اے ہاشمیؔ لکھ دیجے

ہم ایسے غزل گو سے جو حمدیہ لکھوا دے

۵جنوری ۲۰۰۳ء

٭٭٭

 

 

 

 

پہلے بنامِ حمد کیا جائے قیل و قال

تا خوش رہے قلم سے مرا ربِ ذوالجلال

 

اے مالکِ ملوک و سماوات آج پھر

جنّت کی آرزو میں ہے دُنیا پئے قتال

 

اخراج اک خطائے بزرگاں کا اور سزا

کیا حشر تلک جھیلے گی یہ آدمی کی آل!

 

تخلیقِ کائنات میں آدمؑ کا یہ ظہور

بر حق رہا ملائکہ رب کا احتمال

 

بھیجی گئی کتابِ ہدایت ہر عہد میں

ہر کندہ ناتراش رکھے سیدھی اپنی چال

 

دُنیائے ارض میں ہے وہی گم رہی ہنوز

ملتے ہیں نیک طبع نہایت ہی خال خال

 

آزرؔ کے گھر میں بھیجے ابو الانبیاؑ کو تُو

بیٹا ہو نوحؑ کا بھی گھمنڈی من الضّال

 

اسرارِ کائنات فقط جانتا ہے تُو

افشاء یہ راز کرسکے انسان کیا مجال

 

موضوع اور بھی ہیں کہ موزوں کروں جنہیں

حاصل مجھے ہو طبعِ رسا دور ہے کمال

۲۴ مئی ۱۹۹۷ء

٭٭٭

 

 

 

               استغاثہ

 

بعد از بیانِ حمد جسارت نہیں رہی

تھی ابتدا میں جیسی عمارت نہیں رہی

 

 

بُنیادِ آب و باد ہے مٹّی بھی آگ بھی

کثرت میں گُم ہوئے ہیں کہ وحدت نہیں رہی

 

نازل کیا تھا رب نے جو دستور دین کا

وہ ۱۴ ویں صدی میں حقیقت نہیں رہی

 

تفسیر اپنے اپنے مقاصد کے واسطے

یوں کی گئی کہ اصل عبارت نہیں رہی

 

مُلا، فقیہ ، پیر، معلّم تو ہیں بہت

نافذ حضورؐ کی وہ شریعت نہیں رہی

 

نفرت ہوئی ہے عام ، تعصب ہے چارسو

ما بینِ آدمی وہ اخو ت نہیں رہی

 

کہنے کو ہم غلامِ محمد ؐ ہیں دوستو

حضرت بلالؓ جیسی تو سُنّت نہیں رہی

 

کافر بنے ہیں اپنے مفادات کے لئے

کیسا جہاد؟ اس کی ضرورت نہیں رہی

 

اقوامِ شرق ہوں کہ وہ اقوامِ غرب ہو

غیرت کہیں نہیں وہ حمّیت نہیں رہی

 

مل جُل کے امن و چین سے سب لوگ رہ سکیں

دُنیا میں اب حضورؐ وہ جنّت نہیں رہی

 

دل چاہتا ہے نذرِ عقیدت میں کچھ کہوں

سرکار ؐ سرگراں ہوں کہ ہمّت نہیں رہی

۱۹۹۷۔ ۵ ۔ ۲۳

٭٭٭

 

 

 

نعت

 

دل میں رکھتے ہیں یہ ایمان اُترسکتا ہے

قلبِ اطہر پہ ہی قرآن اُترسکتا ہے

 

نیکیاں کیا ہیں بہ جُز حُسنِ عمَل حسنِ عمل

کر کے احسان ہی احسان اُترسکتا ہے

 

حرفِ صادق مرے دل پر بھی کوئی القا ہو

حرفِ مدحت اسی عنوان اُترسکتا ہے

 

مان لو نعتِ شہ عظمتِ والا کے طفیل

ہو بڑا کتنا ہی طوفان اُترسکتا ہے

 

ہاشمیؔ دل سے عقیدت کا جو اظہار کریں

حرف کیا نعت کا دیوان اُتر سکتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اُدھر قافلہ اک مدینے کی جانب رواں ہے

اِدھر ہاشمی ؔ بے کس و منتَظر، بے اماں ہے

 

گئے دن کہ غافل تھا میں، مجھ کو جانا وہاں ہے

فقط یہ تمنّا نہیں، آ ر ز و بھی عیاں ہے

 

مُرادیں غریبوں کی بَر لانے والے محمدؐ

مُرادیں ہوں پوری کہ بندہ بہت ناتواں ہے

 

حضورؐ آپ ہی غیب سے اب مداوا کریں گے

مجال اب ہماری، وہاں خود سے آئیں کہاں ہے

 

۲۰۰۵ء۔ ۴۔ ۳

٭٭٭

 

 

 

 

کیسے ہوتا ہے سُخن جانتے ہیں

نعت کہنے کا جو فن جانتے ہیں

 

نذر کر دیتے ہیں چاہت د ل کی

حرَف کو مُشکِ خُتَن جانتے ہیں

 

رنگ لائے گی محبت ان کی

کا م آئے گا یہ فن جا نتے ہیں

 

گُل کی خوشبو کی طرح لفظوں سے

کب مہکتا ہے بدن جانتے ہیں

 

نعت سنتے ہیں ملائک آ کر

جن کے دل میں ہے لگن جانتے ہیں

 

نعت کا جن کو شرف ملتا ہے

وہ اسے دَین ِ سُخن جانتے ہیں

 

روح کو شانت رکھا جاتا ہے

میلا ہو گا نہ کفن جانتے ہیں

 

مصرعۂ ر انھیں ہوتا ہے عطا

کب جدید اور کُہن جانتے ہیں

 

نعت سیرت کا بیاں ہے اُن ؐ کی

بس یہی بات اپن جانتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

یہ اِذنِ نبیِ تھا سو میں دربار میں آیا

سچ پوچھئے یوں مدحتِ سرکارؐ میں آیا

 

آیا نہیں میں اپنے تئیں نعت سنانے

تھا اُنؐ کا کرم وصف گنہگار میں آیا

 

ہونٹوں سے اُسے چوم کے آنکھوں سے لگایا

جب نامِ محمد ؐ کبھی اخبار میں آیا

 

اک فوجِ ظفر موج تھی بازارِ سُخن میں

فن میرا کہاں کب کسی دربار میں آیا

 

وہ بزمِ رضا ہو کہ ہو حسّانؓ کی محفل

جس نے بھی بُلایا مجھے ہر بار میں آیا

 

میں عام سا شاعر سہی پر ہاشمیؔ میرا

اخلاص ہی لے کر صفِ فن کار میں آیا

٭٭

واپس جو آئے گا در خیر الانام ؐ سے

آنکھوں میں لے کے ایک سمندر بھی آئے گا

٭٭

 

 

 

 

ہاشمیؔ نعت سنانے جو ابھی ہم جائیں

اپنے پَر باندھے فرشتے رہیں دائیں بائیں

 

دل بہلتا ہی نہیں رونقِ دنیا سے اب

لَو لگاتے ہیں مدینے سے کہ دل بہلائیں

 

فیصلہ کون کرے دید کی حسرت میں ابھی

چشمِ پُرنم سے انھیں دیکھیں انھیں دکھلائیں

 

تا بہ کہ اُلجھے رہیں راہ نوردی میں ہم

منزلیں چھولیں قدم آقاؐ اگر فرمائیں

 

ہاشمیؔ دُور ہوں دنیا کے سبھی رنج و الم

رات دن اسمِ محمدؐ کو جو ہم دہرائیں

٭٭٭

 

 

 

 

نعت لکھوں ہاشمیؔ جب سے ارادہ کر لیا

زیب تَن اُن کی محبت کا لبادہ کر لیا

 

دونوں عالم اور ان کے درمیاں سب اُنؐ کا تھا

فقر و فخری ناز تھا، دنیا کو سادہ کر لیا

 

اب مجھے رستے میں لُٹ جانے کا کوئی ڈر نہیں

رحمتِ سرکارِ دو عالمؐ کو جادہ کر لیا

 

زائرِ دیر و حرم خوش بختیوں پر ناز کر

طے سفر قسمت سے تو نے پا پیادہ کر لیا

 

عیدِ میلاد النبیِ پر ہاشمیؔ نے لکھ کر نعت

مدحتِ خیر البشر ؐ کی اور اعادہ کر لیا

 

۱۹۸۶ء۔ ۳۔ ۷

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہر گھڑی چشمِ نم پوچھتی ہے

دور کب تک دیارِ نبیِ ہے

 

سورہا ہے مقدّر تو کیا غم

حسرتِ دید ابھی جاگتی ہے

 

اللہ اللہ اُنؐ کا تصّور

روح خوش بوئیں چھلکا رہی ہے

 

لفظ کی حرمتیں کیا بتاؤں

پڑھئے قرآن میں جو وحی ہے

 

علم اپنا اساس و اثاثہ

وارثِ آگہی اُمتّی ہے

 

ہاشمیؔ نعت لکھنے سے پہلے

دُور ہر کج روی ہو گئی ہے

٭٭٭

 

اپنے محور سے نہیں ہٹتے کبھی شمس و قمر

گردشِ سیارگاں ہے اس شہادت کا ثبوت

٭٭

 

 

 

حرف و نوَا

 

بڑھ گئی پھر وقعتِ حرف و نَوا

مل گئی جو قیمتِ حرف و نَوا

 

شان میں اُن کے کوئی لکھتا بھی کیا

اُن کی عظمت رفعتِ حرف و نَوا

 

جس پہ آقاؐ ڈالیں رحمت کی نظر

کیوں نہ پائے دولتِ حرف و نوا

 

جب رسائی ہو گی طَیبہ تک مری

جاگ اُٹھے گی قسمتِ حرف و نَوا

 

پیش ہے نذرانۂ دِل ہاشمیؔ

اور وہ بھی صورتِ حرف و نَوا

٭٭٭

 

 

 

 

ملی توفیق رب سے اور ہوئی تائید آقاؐ کی

وگرنہ نعت لکھتا ہاشمیؔ سا بندۂ خاکی

 

پڑھے جو سیرتِ سرکارؐ پڑھتے ہی پکار اُٹھّے

زمیں کو بخش دی ہے آپؐ نے تاثیر افلاکی

 

عمل سے آپؐ نے انسان کو انساں بنایا ہے

سِکھا کر دور کیسے دل سے کی جائے ہوس ناکی

 

یقین و اتحاد و نظم کا دے کر سبق ہم کو

سِکھایا مل کے رہنا جیسے باہم موج دریا کی

 

میں شاعر ہوں تو مجھ پر ہاشمیؔ نعتوں کا اِلقا ہو

خدا کا شکر کہ جس نے مری پوری تمنّا کی

٭٭٭

 

 

 

ظہور ہونا کسی کا جہاں میں تھا مشکل

بنا حضور ؐ کی خاطر جہانِ آب و گِل

 

پڑھا ہے آدمِ اوّلؑ نے آپؐ کا کلمہ

یہ اسمِ پاک ہے ایسا کہ حل کرے مشکل

 

سلام شہرِ مدینہ تری فضاؤں کو

کہ تو نے دیکھی ہے میرے حضورؐ کی محفل

 

حضورؐ نے ہی مکمل کیا نبوت کو

حضورؐ اب بھی سراپا ہیں رحمتِ کامل

 

مجھے بھی آقا زیارت نصیب ہو در کی

اس آرزو میں تڑپتا ہے رات دن یہ دل

 

ثنا و حمد ہے مخصوص ہاشمیؔ، رب سے

شرف درود کا رب سے انھیں ہوا حاصل

٭٭٭

 

 

 

 

بر مکان صہبا اختر کورنگی

 

 

رحمت اللعالمیں ہے خاص رحمت آپ ؐ کی

مجھ سا عاصی کر رہا ہے آج مدحت آپ ؐ کی

 

خالقِ کون و مکاں نے دی شہادت آپؐ کی

کس کی جرات پھر قلم سے لکھے سیرت آپ ؐ کی

 

میرے آقا آپ ؐ کی امت کے جو اعمال ہیں

ٹھیک ہو جائیں گے ہو جائے عنایت آپؐ کی

 

چشمِ نم ہے، خالی دامن اور دامانِ نبیِ

آ گیا دربار میں سُن کر سخاوت آپؐ کی

 

کیوں نہ ہوں مقبول آخر ہاشمیؔ آنسو مرے

جو لُٹاتا ہوں پئے نذرِ عقیدت آپؐ کی

٭٭

 

بشکریہ ماہنامہ تہذیب کراچی

 

 

 

 

نعت لکھنے کا شرف جس کو عطا ہو جائے

اہلِ دُنیا کی نظر میں وہ بڑا ہو جائے

 

ایسی برسات کریں آنکھیں کہ روکے نہ رکیں

ذکرِ آقاؐ جو بس اک بار ذرا ہو جائے

 

یہ گنہ گار درِ طیبہ پہ پہنچے جس دم

بابِ رحمت اسی اک لمحے میں وا ہو جائے

 

مرہمِ شوق زیارت کا لگاتے رہئیو

جادۂ حق پہ اگر آبلہ پا ہو جائے

 

ہاشمیؔ حُبِ نبیِ اور فزوں ہو دل میں

وجہِ بخشش سرِ محشر یہ نَوا ہو جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

خواجہ ء وسعتِ افلاک و زمیں کوئی نہیں

ہے محمدؐ سا یہاں کوئی ! نہیں کوئی نہیں

 

جن کے بارے میں کہیں اپنے پرائے مل کر

آپؐ سے بڑھ کے تو صادق نہ امیں کوئی نہیں

 

حُسنِ یوسفؑ، یدِ بیضا ہیں فقط تمثیلیں

پھر کسی ماں نے جنا ایسا حسیں کوئی نہیں

 

گر کوئی دیکھا ، سنا ہو تو بتا دیں ہم کو

اُس شہنشاہِ زمن سا شہِ دیں کوئی نہیں

 

اینٹ تکیہ تو رہا بوریا بستر جن کا

جز خدا اُن کے سوا عرش نشیں کوئی نہیں

 

اے خداوند دکھا دے مجھے طیبہ نگری

آرزو ما سوا در قلبِ حزیں کوئی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہم پہ اے ساقی کوثرؐ جو، کرم ہو جائے

روح کی پیاس بجھے تلخیِ غم کم ہو جائے

 

دل تڑپتا ہے مدینے کی زیارت کے لئے

خواب آنکھوں میں ہے تعبیر مجسّم ہو جائے

 

حشر کے روز رہے آپؐ کا سایہ سر پر

تاکہ آسانی سے طے راہِ عدم ہو جائے

 

ہادیِ دینِ مبیںؐ امتِ خستہ پہ کرم

آپ چاہیں تو یہ درماندگی کم ہو جائے

 

ہاشمیؔ، نعتِ شہ والا مری جو سن لے

اس کے سینے میں محمدؐ بھی رقم ہو جائے

٭٭٭

 

 

 

صد شکر رواں حب نبیِ میں ہوا خامہ

زیبا ہے عقیدت کو یہ الفاظ کا خامہ

 

اُس اِسم کی خوش بو سے مہکتا ہے تنفس

اے مومنو پیدا ہو اگر قوتِ شامہ

 

یہ مملکتِ عشق ہے مخصوص سمجھ لو

یاں حبِ نبیِ پر ملا کرتا ہے اقامہ

 

ہے وقت ابھی کر لو محمد کی اطاعت

کیا فرض ہے رسوائی ملے یومِ قیامہ

 

اسلوب کہَیں ہاشمیؔ یا فیض نبیِ کا

اشعار و بیاں میں کوئی سکتہ ہے نہ کاما

٭٭٭

 

 

 

 

 

شہ زماں کے لیے وقف یہ قلم کر دوں

میں اس جبیں کو درِ مصطفی پہ خم کر دوں

 

کہاں کی فکر، کہاں تاب یہ قلم لکھے

تمام حرف بھی کم ہوں اگر رقم کر دوں

 

میں نعت لکھتا ہوں توفیق مل گئی ہے مجھے

منافقت بھی ذرا زندگی سے کم کر دوں

 

کہا کہ ’’رحمتِ عالمؐ مجھے بنایا کہ میں

جہاں سے دُور ہر اک رنج، ہر الم کر دوں‘‘

 

شفا ہے اسم ِ محمد ؐ میں آؤ بیما ر و

شفا ملے گی اگر چاہتے ہو دم کر دوں

٭٭٭

 

 

 

 

گلہ زباں پہ کہاں عمر ِ مختصر کا ہے

پہ شوق دل میں مدینے کے ہی سفر کا ہے

 

حضورؐ آپ کی رحمت سے بگڑی بن جائے

کہ حالِ خستہ بہت آج اپنے گھر کا ہے

 

خدا نے چاہا تو حق کامران ٹھہرے گا

مقابلہ ابھی جاری جو خیر و شر کا ہے

 

یہ کائنات ہماری ہے جس کا فیض لئے

یہ بدنصیب بھی طالب اُسی نظر کا ہے

 

فرشتے ہاشمی کی نعت سن کے کہنے لگیں

کہ مدح خوان یہی سید البشرؐ کا ہے

 

یوم سقوط ڈھاکہ ۱۶ دسمبر ۱۹۹۷ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

عشا کے بعد بھی اور صبح کی اذان کے بعد

کہ نام آپؐ کا ہے ربِّ دو جہان کے بعد

 

رکھیں گے اپنی سماعت میں مدعا آقاؐ

یقین قلب کو حاصل رہے گمان کے بعد

 

حضورؐ عرشِ معلّیٰ کو چھوکے آئے ہیں

نگاہ پھر کوئی پہنچی نہ آسمان کے بعد

 

بلائیں گے درِ طیبہ پہ وقت آنے دو

دھڑک رہا ہے مرا قلب اطمنان کے بعد

 

شرف ہر ایک کو کب ہاشمیؔ یہ ملتا ہے

لکھی ہے نعت کٹھن ایک امتحان کے بعد

 

دبستان نارتھ کراچی ۳دسمبر ۱۹۹۷ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

مانگی دعا وسیلۂ صلِّ علیٰ کہا

ہم سے اگر کسی نے بھی بہرِ دعا کہا

 

کلمہ ہے روح و جسم کا اک ارتباط سا

آدھا دُعا بنا لیا باقی دوا کہا

 

آیا جو نام لب پہ مؤذن کے آپؐ کا

ہم نے زباں سے مرحبا بے ساختہ کہا

 

توقیرِ آدمی سرِ عرشِ عُلیٰ ہوئی

خوش آمدید جب سرِ عرشِ عُلیٰ کہا

 

للہ کے رسول ؑ ہیں سارے ہی انبیاؑ

محبوبِ رب کسی کو نہ اُنؐ کے سوا کہا

 

انسانیت بھٹکتی ہوئی، رہ پہ آ گئی

ہادی بنا کے بھیجا گیا، رہنما کہا

 

ذکرِ رسولؐ وہ جسے رفعت عطا ہوئی

ہم نے اگر کِیا تو انھیںؐ کی عطا کہا

 

پیشِ حضور ہم نے رسائی کی بات کی

جب آ گیا خیال اسے برملا کہا

 

توفیق جس کو مل گئی مدح سرائی کی

پھر اُس نے جو کلام لکھا نعتیہ کہا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ممکن نہیں کہ اسم وہ وردِ زباں نہ ہو

یہ اور بات ورد کا ہم سے بیاں نہ ہو

 

یہ اور بات دل سے مسلماں نہ ہوسکے

وہ کون ہے حضورؐ کا جو مدح خواں نہ ہو

 

کھوٹی نیّت کے اہل کو منزل نہ مل سکے

اچھا عمل کسی کا کبھی رائیگاں نہ ہو

 

اخلاص کے خزانے لُٹائیں گے جو یہاں

کیوں دست گیر ان کا بھلا آسماں نہ ہو

 

ہم نے حضورؐ شوق کا اظہار کر دیا

یہ اور بات آپؐ کے شایانِ شاں نہ ہو

 

کیوں اس کو ہاشمیؔ نہ کہوں اُنؐ کا معجزہ

ہوتی تھی صبح کب جو بلالی اذاں نہ ہو

انجمن بہار ادب

٭٭٭

 

 

 

 

آمدِ سرکار پر ارض و سما شِیر و شَکر

غیر مُسلِم کیا مُسَلمَاں کیا! رہا شیر و شَکر

 

وِردِ صلّ اللہ جہاں ہوتا رہے شام و سحر

رحمتوں سے برکتیں ہوں برملا شیر و شکر

 

کلمۂ طیّب دَرُودِ پاک پر باہم رہے

انبیاؑ و اولیا و اصفیا شیر و شکر

 

تاج دارِ دو جہاںؐ کی سادگی تو دیکھئے

اینٹ کا تکیہ، مصّفا بوریا شیر و شَکر

 

جس نے نعَتِ سرورِ کونین لکھّی ہاشمیؔ

اُس کے فن سے ہو گئی رب کی عطا شِیر و شَکر

٭٭٭

 

 

 

 

بو ُ بَکرؓ، حضرت عُمَرؓ، عُثمَانؓ، علیؓ شِیر و شَکر

عہدِ آقاؐ میں صحابی تھے سبھی شِیر و شَکر

 

آدمی کا قلب ہی بنتا ہے روشن آئینہ

درسِ آقاؐ سے یہ اُمّت ہو کبھی شیر و شکر

 

اَولِیاء کا ہر عمل سکھلا گیا حبِّ نبی

سلسلہ دَر سِلسَلہ ہیں یاں سبھی شیر و شکر

 

خدمتِ انسانیت کو ہے نبّوت سے شرَف

کیجئے بندہ نوازی بندگی شیر و شکر

 

رفتہ رفتہ نعت کہنے کا سلیقہ آئے گا

فکر سے گر ہو گئی نعتِ نبیِ شیر و شکر

 

ہم ہیں دربارِ نبیِ کے ایسے سجّادہ نشیں

خانقاہی سے ہو جن کی شاعری شیر و شکر

٭٭٭

 

 

 

 

کہہ گئی آیتِ قرآں یہ مرے کان میں آ

رحمتیں پائے گا اس اسمؐ کے دامان میں آ

 

جب خیال آیا نظر یوں اٹھی روضے کی طرف

جوں رہا تختِ سباؔ مِلکِ سلیمانؑ میں آ

 

میں کہاں اور کہاں مدح سرائی اُنؐ کی

مجھ کو بخشا یہ شرف نعت نے دیوان میں آ

 

آ گیا پھر سے خوشا ماہِ ربیع الاوّل

نعت ہم کیوں نہ پڑھیں حلقۂ حسانؔمیں آ

 

ان کی محفل میں مؤدّب ہوں جہاں جنّ و ملک

ہاشمیؔ ذکرِ محمدؐ پہ ذرا دھیان میں آ

٭٭٭

 

 

 

یوم شہادت سیدناحضرت عمر فاروق ؓ

 

نہ ہوتے اتنے فتنے آج اگر حضرت عمرؓ ہوتے

مسلماں آج دُنیا بھر میں کتنے معتبر ہو تے

 

چلے تھے قتل کرنے وہ جو ا یّا م ِ جہالت میں

اُنھیں ؓ دیکھا فدا اُمّی لقبؐ کے نام پر ہوتے

 

مساوات و اخوت دورِ ثانی میں مثالی تھی

نہ ہوتی گر تو کیسے جاں نشینِ بُو بکرؓ ہوتے

 

’’ یہ کُرتا بن گیا کیسے!، جواب اس کا ذرا دیجئے‘‘

سرِ منبر بھی اک عامی کو دیکھا اُن کے سر ہوتے

 

نہیں ہے تفرقہ قولِ نبیِ پر پوری اُمت میں

نبیؑ گر بعد میرے کوئی جو ہوتا عمرؓ ہو تے

٭٭٭

 

 

 

 

بنام شہیدان کربلا

 

برائے داستاں سمجھو وہ داستاں ہو گی

حسینؓ کی جو نہ سیرت یہاں بیاں ہو گی

 

مرے نبیِ نے کہا تھا حُسینؓ میرا ہے

رسول پاکؐ کی یہ بات اب عیاں ہو گی

 

سرِ فرات رہو ساتویں تلک پیاسے

مثال دوسری کب تشنۂ لباں ہو گی

 

جو شیر خوار کو قربان راہِ حق میں کرے

فلک نے دیکھی کوئی ایسی ماں کہاں ہو گی

 

نمازِ عشق کی ایسی مثال بھی تو نہیں

نہ ایسا سجدہ کہیں پر نہ اذاں ہو گی

 

وہ شامِ گریہ و ماتم مرے رسولِ اُمم

جب آئے ماہِ مُحرّم زباں زباں ہو گی

٭٭٭

 

 

 

کہے بغیر بھی آقاؐ میں رہ نہیں پایا

لُغَت تمام ہوئی کچھ بھی کہہ نہیں پایا

٭٭

 

 

 

 

 

 

اُدھر قافلہ اک مدینے کی جانب رواں ہے

اِدھر ہاشمی ؔ بے کس و منتَظر، بے اماں ہے

 

گئے دن کہ غافل تھا میں، مجھ کو جانا وہاں ہے

فقط یہ تمنّا نہیں، آ ر ز و بھی عیاں ہے

 

مُرادیں غریبوں کی بَر لانے والے محمدؐ

مُرادیں ہوں پوری کہ بندہ بہت ناتواں ہے

 

حضورؐ آپ ہی غیب سے اب مداوا کریں گے

مجال اب ہماری، وہاں خود سے آئیں کہاں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

توکلّنا علے رب العباد

 

 

جب طبع رواں ہو چکی ہر صنفِ سُخن پر

اور پھولے سماتا نہ تھا مَن اپنے ہی فن پر

 

ناگاہ یہ نقّاد نے آ و ا ز لگائی

کیوں کر نہ توجہ رکھی اس نکتۂ فن پر

 

دریافت کِیا آپ کی کیا منشاء ہے اس سے!

بولا کہ نظر ڈالئے اُس صنفِ سُخن پر

 

جس میں کہ شہنشاہ کے لکھتے ہوں قصائد

اور اُس کے عِوض دھن کی قبا آتی ہو تن پر

 

میںؔ نے کہا معذور ہے اس باب میں بندہ

تخلیق کو اپنی یہ بناتا نہیں دھندہ

 

کیا اتنا غنیمت نہیں کہ میں ہوں مبّرا

اُس فن سے جو غالبؔ کے لئے بن گیا پھندہ

 

انسان اور انسان کی یہ مدح سرائی

مانگوں گا بھلا نان و نمک کے لیے چندہ

 

رکھتا ہوں شرف ہاشمیؔ نسبت ہے خصوصی

کیا سحر طرازی کا ہوں تائید ِ کُنندہ

٭٭٭

 

تشکر: شاعر جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید