FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

بھیا۔ انٹرنیٹ کیا بلا ہے !!!

 

 

 

               سید تفسیر احمد

 

 

 

 

بھیا، میں انٹرنیٹ 1.1کی کلاس لے رہی ہوں۔ مجھے آپ کی مدد چاہیے۔

ہمم،وہ کیوں! تم دن رات تو آن لائن ہوتی ہے۔ کبھی ایم۔ایس۔این پر میسجینگ، کبھی یاہوپر ڈوڈل، کبھی گوگل پر ٹاک ، تم اسپیس پر ہو اور ورلڈ کلاس بلاگر بھی

بھیا۔ یہ سبتو میں کرتی ہوں مگر اس کلاس میں یہ سب تھوڑی استعمال ہوگا۔

تو پھر کیاہوگا!

وہ تمام بورینگ اسٹف جو آپ نے پہلے مجھے بتانے کی کوشش کی تھی۔ یاد ہے نا۔

یاد ہے۔۔۔ تم نے کہا تھا مجھے یہ سب نہیں جاننا۔ بس بتا دیں میسیج کیسے لکھتے ہیں۔ تواب کیوں؟

میں انٹرنیٹ1.01 کی کلاس لے رہی ہوں اور مجھے اس کلاس میں A+ چاہیے۔

تو پھر اسٹیڈی کرو!

بغیر اسٹیڈی کیے

وہ کیسے ؟

آپ بولیں گے اورمیں سنوں گی۔

بھاگو یہاں سے !

میں امی سے کہہ دونگی کہ بھیا مجھے نہیں پڑھارہے۔ امی نے مجھ سے کہا تھا کہ جو کچھ سیکھنا ہے اپنے بھیا سے سیکھ لو۔

ھمم۔۔۔ توسنو!!

بہت عرصہ پہلے جبتم پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں۔۔۔

اس سے بھی پہلے۔۔۔

اس زمانے کو 60 کا زمانہ کہتے ہیں دو طاقتور ملکوں میں اس دنیا پر قبضہ کرنے کی دوڑ شروع ہوئی۔مگر دونوں ملک تہذیب کے دائرے میں رکھ کر لڑنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اس لڑائی کو ” کولڈوار“ کا نام دیا۔ انہوں نے خوفناک ہتھیار بنائے جو انسانیت کو لمحہ بھر میں تباہکر سکتے ہیں۔ ملک بڑے تھے اور فوجی ادارے اور انکے اڈے ملک میں مشرق سے مغرب اور شمالسے جنوب میں بکھرے ہوئے تھے۔ اگرچہ اطلاعات کی فراہمی کے لئے یہ اڈے اور ادارے ایکدوسرے سے مختلف طریقوں سے رابطہ رکھ سیکھتے تھے مگر یہ نیا ہتھیار ان رابطوں کو تباہکر سکتا تھا۔ اگر فوجی اڈوں میں رابطہ نہ ہو تو فوج مفلوج ہو جاتی ہے اور وہ ملک کیحفاظت نہیں کر سکتی۔

بھائی۔ مجھے قصہ کہانی نہیں سنائیں نا۔۔۔۔ آپمجھے انٹرنیٹ کے متعلق بتائیں نا۔ ورنہ میں ابھی چلاتی ہوں اممیامییییییییییییییییی۔۔۔۔

 

ان میں سے ایک ملک کا نام یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکہہے۔ اور دوسری کا نام سویٹ یونین تھا۔ یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکہ کے ڈیفینسڈیپارٹمنٹ کے ایک محکمہ کو ایسے ذرائع کی تلاش تھی جن کے ذریعہ فوج تمام رابطوں، ٹیلیفون سسٹم اور فوج کے کمپیوٹرز اور ہزاروں دوسرے کمپیوٹروں کے تباہ ہونے کے باوجودبھی ایک دوسرے کو پیغام بھیج سکے۔

بھیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ نا صرف فوج کے کمپیوٹر بلکہ ہر کمپیوٹر کے پاس کو پیغام ہو اور وہ تمام کمپیوٹر اس پیغام کو ایکدوسرے کو بھیجنے کہ قابلیت رکھتے ہوں تو اگر ہم ہزاروں کمپیوٹر کو تباہ کر دیں۔۔۔۔

میرے کمپیوٹر کے علاوہ۔۔۔

تو باقی بچے ہوئے کمپیوٹرایک دوسرے کی مدد سے وہ پیغام ملک کے ایک حصہ سے دوسرے حصہ تک فوج کو پہنچا سکتے ہیں۔

بالکل ٹھیک کہا تم نے۔ تم اتنی کم عقل نہیں ہو جتنا تم مجھ پر ظاہر کرتیہو۔

بالکل ٹھیک کہا آپ نے ، جیسا بھائی ویسی اس کی بہن۔۔۔ ہماری جین ایک ہے نا۔

یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکہ کے ڈیفینس کے ایک ادارہ ” ایڈوانس ریسرچ ایجینسی” کو ایسے ہیحل کی تلاش تھی۔ اس ادارے کا مختصر نام آرپا ہے۔ آرپا نے ڈاکٹر ونٹن جی سرف اور بابکاہن کی خدمات حاصل کیں یہ دونوں اسٹنفرڈ یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے ، دونوں نے مل کراسبات کی تحقیقات کیں۔ آجکل یہی ڈاکٹر ونٹن جی سرف گوگل کے چیف ایونجیلسٹ ہیں اور بابکاہن، کارپورشن فور نیشنل ریسرچ انشیٹیوٹ کے صدر ہیں۔ باب کاہن نیشنل انفارمیشنانفرا اسٹرکچر کے بھی ملازم ہیں۔ اب اس محکمہ کو انفارمیشن سپرہائی وے کہا جاتا ہے۔اس محکمہ کو "انفارمیشن سپرہائی وے ” کا نام سابق نائب صدر ایل گور نے دیاتھا۔

بھیا، تب ہی ایل گور نے ایک دفعہ کہا تھا کہ انہوں نے انٹرنیٹ ایجاد کیاہے !!

نہیں۔ انہوں نے کہا تھا "میںنے انفارمیشن سپر ہائی ایجاد کیا ہے "۔ جس کا مطلب تھا کہ انہوں نے یہ نام بنایا ہے۔لیکن لوگوں نے اس کا مذاق بنا لیا۔

انٹرنیٹ کے بنانے والے فاونڈینگ فادر ڈاکٹرونٹن جی سرف اور باب کاہن ہیں۔ مگر اس کام کی ابتدا رینڈ کار پوریشن کے پول برانسے ہوئی۔رینڈ کار پوریشن ایک خود مختار ریسرچ کا ادارہ ہے۔رینڈ کار پوریشن کیطرحکے ادارے تھنک ٹینک کہلاتے ہیں۔

بھیا ، یہ تو جھوٹ بولے کی حد ہے نا۔

وہ بھی ایک سانس میں۔۔۔آپ نے اپنی پول خود ہی کھول دی ، پول بران کا نام لیکر!! پہلے کہا انٹرنیٹکے بنانے والے فاونڈینگ فادر ڈاکٹر ونٹن جی سرف اور باب کاہن ہیں۔ اور اب پولبران۔۔۔

چپ بیٹھو اور سنو۔۔۔۔

انیس سو باسٹھ میں ایسا لگتا تھا کہ آج نہیں تو کلنیوکلیر وار شروع ہو سکتی ہے۔ پول بران نے رینڈ کارپوریشن کے لیے کچھ میمو لکھے۔ انہوںنے لکھا کہ ایسی جنگ میں اور اس کے بعد کمانڈ اور کنٹرول نیٹ ورک کو کیسے زندہرکھا جا سکتا ہے۔ پول نے دو نئے خیال پیش کئے۔ روڈینڈینسی۔۔۔۔

یعنی ایک کام کوکرنے کے لئے ایک سے زیادہ ذریعہ استعمال کیے جائیں اور اگر ایک ذریعہ مقصد حاصل کرنے میںکامیاب نہ ہو تو دوسرا ذریعہ اس کی جگہ لے لے تاکہ کام تکمیل تک پہونچے۔ یہ بہیتمہارا جواب تھا۔

بھیا۔ میں اسمارٹ ہوں نا۔

وہ تو تم ہو۔۔۔۔ بہن کس کی ہو!!!۔۔۔

لیکن اس نے دواور خیال پیش کیئے

بھیا وہ کون سے ؟

ڈیجیٹل اور پیکٹسوئچینگ

ڈیجیٹل کا تو مجھے آئیڈیا ہے۔۔۔ یہ پیکٹ سوئچینگ کیا ہوتیہے ؟

اگر ہم ایک مسیج کو بہت سے چھوٹے چھوٹے مسیج میں تقسیم کر دیں اورہر ننھے منے مسیج  کو مییسج میں اس کی جگہ کا نمبر دے دیں۔

مثال کے طور پر ایک میسجکے دس حصہ بنا کر ہر حصہ کی پہچان کے لیے اُن کو ایک سے دس نمبر دے دیں۔

ابہر ننھے منے میسج کو بتا دیں کہ اُسے کہاں جانا ہے۔ یہ ان کی مرضی پر رکھیں کہ اگر اس کے راستہ میں رکاوٹ آ جائے تو وہ دوسرا راستہ لے سکتے ہیں۔

راہ میں ان کو صحیحراستہ بتانے والے موجود ہوں گے۔ جو بھی ننھا منا میسیج منزل پر پہنچے وہ اپنے دسبھائیوں کا انتظار کرے گا۔

جب سب دس جمع ہو جائیں تو مل کر ایک پورا میسج بنجائیں گے۔

کیونکہ میسیج میں ننھے منے مسیج کے علاوہ اور بھی انفارمیشن ہیں اسلیے اس کو پیکٹ بھی کہتے ہیں۔ اور کیونکہ یہ پیکٹ راستہ بدل (سوئچ ) کر سکتے ہیںاس وجہ سے اس طریقہ کو پیکٹ سوئچینگ کہتے ہیں

بھیا آپ نے پھر ہانکنی شروع کر دی۔۔۔

اوکے جب تم پاکستان گئیتھیں تو تم نے چوراہے پر ٹرافک کنٹرول کرنے والا پولیس مین کو تو دیکھاتھا؟

جی ہاں۔

وہ اپنے ہاتھ کے اشارے سے ٹرافک مختلف سمتوں میں بھیجتاہے۔

تو اس کا ہماری گفتگو سے کیا تعلق ہے۔ بدھو بھیا۔۔۔

پولس والا تمہاری لین یا تمہاری کار کے سنگل سے یہ جان لیتا ہے کہتمہارا ارادہ کس سمت میں جانے کاہے اور مناسب وقت پر وہ تم کو اس صرف جانے کا راستہکھول دیتا ہے۔ سمجھ لو اس کا پولیس والے کا نام سویئچر ہے یعنی راستہ تبدیل کرنے کیقابلیت رکھنے والا، ہم اسے راؤٹر بھی کہہ سکتے ہیں، یعنی روٹ بدلنے والا۔

ابتم بتاؤ کے تو پیکٹ کیا ہے ؟

پولس والا اور ٹرافک۔۔۔۔

نہیںبھائی مذاق نہیں۔میں سمجھ گئی۔۔۔

پیکٹ اور میسج ایک ہیں۔۔۔

میسیج کے چھوٹے حصہ بنا کراس کا ایک پیکٹ بنا لیا جاتا ہے۔۔۔۔

اس پیکٹ میں میسجکے چھوٹے حصوں کے علاوہ کچھ دوسری انفارمیشن بھی رکھ دی جاتی ہیں جو میسج کو سفرکرنے میں مدد دیں گی اور منزل مقصود پر پھر سے ایک مکمل میسج بنے میں مدد کریںگی۔

ہا ہا ہا ہا۔

ایک اور بات۔۔۔

وہ کیا؟

ٹرافک کے پولسوالے اور سوئچ یا راوٹر ) تھوڑا فرق ہوتا ہے۔۔۔

بڑی مشکل سے تو یہ سمجھ میںآیا تھا۔ اب آپ ایک اور پخ لڑا رہے ہیں۔

سوئچ یا راوٹر، پیکٹ کو وصول کرنے کے بعد کچھ فیصلے بھی کرتاہے۔۔۔

جب ننھا منا میسج اس تک پہنچتا ہے تو وہ اس کو اپنے گھر میں جگہ دیتاہے۔۔۔

اُس کے لیے سب سے اچھے راستہ کا انتخاب کرتا ہے۔۔۔

اور اگر ننھے منے کاراستہ تباہ ہو چکا ہے تو نیا راستہ انتخاب کرتا ہے۔۔۔

اور ننھے  منے کو دوسرے سوئچیا راوٹر کے پاس بھیجتا ہے۔۔۔

بھیا، پہلے بھی تو نیٹ ورک ہوتے ہوں گے۔ تو یہ سب جھگڑا کیوں؟

ہاں اُنیس سو ستر سے پہلے نیٹ ورک کی تعداد ایک سو سے کم تھی۔ لوگوںکی ڈیسک پر ایک چھوٹا کمپیوٹر کیطرح کا باکس ہوتا تھا جس میں کمپیوٹینگ قوت نہیںہوتی تھی وہ صرف انفارمیشن ٹائپ کرنے میں مدد دیتا تھا اور پھر اس انفارمیشن کو ایکبڑے کمپیوٹر تک بھیج دیتا تھا۔ اس لئے اس ڈمب ( بے وقوف ) ٹرمینل کہتے تھے۔ سارے ڈمبٹرمینل ایک بڑے کمپیوٹر سے رابط قائم کرتے تھے۔ اس بڑے کمپیوٹر کو مین فریم بھیکہا جاتا ہے۔ مین فریم اپنے ٹائم کو ڈمب ٹرمینل شئیر کر لیتا تھا۔

ڈمب ٹرمینل،مین فریم کو انفارمیشن بھیجتے تھے اور مین فریم اس انفارمیشن کو پروسیس کرتے تھے۔ڈمب ٹرمینل ایک قسم کی ڈیوائس ہیں اور ان کو اِن پُٹ ڈیوائسس بھیکہتے ہیں۔

ٹھیک بھیا۔ بیک ٹو انٹرنیٹ

رینڈ کارپوریشن کے پول براننے ” رینڈ میمورینڈم” میں ڈیسٹریبیوٹیڈ کیمیونیکیشن کا خیال پیش کیا۔ اس خیال کو “ ہاٹ پٹیٹو (گرم آلو) “ سویچینگ اینڈ راوٹینگ ڈاکٹرین بھی کہا۔ یہ ہی خیالروڈینڈینسی پیش کرتا ہے۔اس کے علاوہ پول بران نے میسج کو چھوٹے حصوں میں بانٹنے کا خیال بھی پیش کیا۔

انیس سو اُنسٹھ میں آرپا نے ایسا ہی نیٹ ورک بنانا شروعکیا۔ اس طرح دنیا کے سب سے پہلے انٹرنیٹ کی ابتدا ہوئی۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا۔اسٹیفرڈ یونیورسٹی، سانٹا باربرا یونیورسٹی اور یوٹا کا ایک نیٹ ورک بنایا گیا۔ یہیونیورسٹیاں نیٹ ورک کی نوڈ کہلائیں۔ اس وقت یہ تجربہ صرف سائنٹسٹ اور ریسرچرسکے لیے تھا۔

دو سال کے اندر یہ نیٹ ورک ایک مقبول پوسٹ آفس بن گیا اور ہزاروںسائینٹسٹ اور ریسرچرس اس کو استعمال کر کے ایک دوسرے کو ای میل بھیجنے لگے۔

بھیا تو کیا نیٹ پر سب سے پہلے ای میل آئی!!!

ہاں ای میل سب سے پہلے۔ یہٹی۔سی۔آئی۔پی کا ایک حصہ ہے۔

بھیا آپ تو بالکل بدھو ہیں۔۔

وہ کیوں؟

جب میری سمجھ میں کچھ آنے لگتا ہے۔ آپ اُوٹ پٹانگ بکنے لگتے ہیں

تمہیں پتہ ہے کہ پروٹوکال کیا ہوتی ہے۔

جی ہاں۔۔۔ یہ کون سی بڑیبات ہے۔

ہمارے اور دوسروں کے درمیان شوسلاصول۔۔۔ مثلاً میرے اور آپ کے درمیان ایک پروٹوکال ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ میں آپ سے بے تکلف ہو سکتی ہوں اور مذاق کر سکتی ہوں۔ میرے اور پروفیسر کے درمیان مختلف، مجھے اسکو یس سر، نو سر کرنا پڑتا ہے۔ اگر مجھے خدا نہ کرے صدر بش سے ملنے جانا پڑے توپروٹوکال مختلف ہوگی۔

ھمم۔۔۔ انٹرنیٹ کی پروٹوکال؛! کچھ اسی طرح کی ہوتیہیں۔ دو کمپیوٹروں کے ایک دوسرے سے بات کرنے کے اصول ہوتے ہیں۔

ان اصولوں کے مجموعہکو ٹی۔سی۔پی۔آئی۔پی کا سوئٹ کہتے۔ سوئٹ اس لئے کہ اس میں کئی پروٹوکال کو یکجاکیا گیا ہے۔ ٹی۔سی۔پی۔آئی۔پی کا نام ان مجموعہ میں سے دو بڑی پروٹوکال کے نام سے بنتا ہے۔

یہ ٹرانسمیشن کنٹرول پروٹوکال اور انٹرنیٹ پروٹوکال ہیں۔۔۔ ہم یہ گفتگواس وقت پر چھوڑ دیتے ہیں جب تمہاری کلاس اس موضوع پر پہونچے گی۔

بھیا میرابھی یہ خیال ہے۔ آپ میرے سر سے اوپر کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ واپس وہاں چلیں جب آپپوسٹ آفس کی بات کر رہے تھے۔

70‘میں ڈاکٹر ونٹن جی سرف اور بابکاہن نے ٹی۔سی۔ پی۔آئی- پی کی پروٹول کو فروغ دیا اور وہ اس آرکیٹیکٹ کے بانی کہلائے۔

١٩٨٣میں ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر عام ہوئے اور انہوں نے ڈمب ٹرمینل کی جگہلے لی۔

ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کی ذمہ داری بڑھ گئی اور اب ان کو اپنی غلطیوں کی ذمداری لینی پڑی۔ یعنی جو انفارمیشن وہ بھیجیں گے یا ان تک آئے گی اس کی جانچ پڑتالان کی ذمہ داری بن گی۔ اور اب ان کو انفرادی نمبر دیا گیا تاکہ نیٹ پران کو تلاشکرنے میں آسانی ہو۔

سچی بھیا!!

اس کو اینڈ۔ٹو۔اینڈ کنیکشنمنیجمینٹ کہتے ہیں۔

اور انفرادی نمبر بھیا۔!!

تم اپنے گھر کا پتہبتاؤ۔

بے وقوف بھیا یہ تو آسان ہے۔

١٢٣٤رینڈم اسٹریٹ

لاس انجیلس،کیلی فورنیا ٩١٣٠١

یو۔ایس۔اے

تو ہمارے گھر پہونچنے کے لیے ہم امریکہ کے ملکآئیں گے۔ پھر کیلیفورنیا کی اسٹیٹ میں جائیں گے۔ پھرلاس انجیلس کے شہر جائیں گے۔ زپکوڈ ٩١٣٠١ سے پتہ چل سکتا ہے کہ ہمیں لاس انجیلس کے کس علاقہ میں جانا۔

اورپھر رینڈم اسڑیٹ پر پہونچ کر١٢٣٤ والے نمبر کا گھر مل جائے گا بھیا۔۔۔

اب میں اپنی دوستوں کو بتا دوں گی کہ میرا گھر کیسے ڈھونڈنا ہے

تمہیں پتہ ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کیوں سلو چلتے ہیں؟

نہیں کیوں بھیا۔!!

کیوں کہ گھر کا پتہ نکڑ کے پان والے سے پوچھنا پڑتا ہے۔

بھیا آپ کو جوک کرنا نہیں آتا۔ چھوڑیںجانے دیں۔۔۔

انٹرنیٹ پروٹو کال ایڈریس دو حصوں سے مل کر بنتا ہے۔۔۔

نیٹ ورک آئی۔ڈی اور

ہوسٹآئی۔ڈی۔

یہ کیا بلائیں ہیں بھیا۔۔۔۔

ہر کمپیوٹر کا انفرادی نمبر دو پہچان سے مل کر بنتا ہے۔

نیٹ ورک آٰئی۔ڈی یا نیٹ ورککیپہچان اور

ہوسٹ آئی۔ڈی یعنی اسکمپیوٹر کی نیٹ ورکپرپہچان۔

یہ دونوں مل کر ایک انٹرنیٹ ایڈریسبناتے ہیں جو آئی۔پی ایڈریس کے نام سے مشہور ہے۔

جب تمہاری کلاس اس مقام پے پہنچے گی تو پھر میں تم کو انٹرنیٹ ایڈریس کی تفصیل بتاؤں گا۔

ٹھیک بھیا۔ بیکٹو انٹرنیٹ

ہم کہاں تھے ؟

پہلے آپڈمب تھے پھر عقلمند بن گئے۔۔۔ اررر۔۔۔ میرا مطلب ہے ڈمب ٹرمینل سے ڈیسک ٹاپ۔۔۔ یہمیری پیدائش سے پہلے کا واقعہ ہے۔

ہاں مزے کی بات یہ تھی کہ ٹی۔سی۔پی۔آئی۔پیایک اوپن پروٹوکال ہے۔

آپ ایک کے بعد ایک پٹاخہ چھوڑتے ہیں۔ ابھی آپ انگلشکے الفابٹ غلط پڑھا رہے تھے۔

” ٹی” پہلے آتا ہے ، اور ” سی” بعد میں ” پی” پہلے بھی اور” آئی” کے بعد میں۔

یہ کیسی انگلش ہے اور

اب کہتے ہو ” کھل جاسم سم” یعنی ٹی۔سی۔پی۔آئی۔پی کو کھول رہے ہیں۔

ٹھیک۔۔۔ تم عقل کی کچیہو مگر سمجھ رہی ہو۔

سرف اور کاہن اس پروٹوکال کو اچھی بنانے کے لیے اوپنکر دیا۔ یعنی کوئی بھی مسخرا جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس کو اور بھی اچھا بنا سکتا ہے۔وہ اپنی تجاویز پیش کر سکتا ہے۔

اس سے دال پتلی ہو جائے گی۔۔۔ بھیا۔

ہاں مگر صحیح کنٹرول سے پتلی ہونے کے بجائے بہترہو جائے گی۔

وہ کیسے ؟

اگر امی تم پر نگاہ رکھیں!!

میں نے کہابھیا بس جوک مجھ پر چھوڑ دیں۔ آگے بڑھیں۔۔۔

کنٹرول یہ ہے کہ اگر آپ اپنیقابلیت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو ایکفارم بھریں۔ یہ فارم “ مجھے بھی بولنے کی اجازت دیں “ کہلاتا ہے۔

ہا ہا ہا۔۔۔بھیا

اس فارم کا نام ” ریکویسٹ فور کومنٹ” ہے

ارے آپ مذاق نہیں کر رہے۔آپ سیریس ہیں۔

اور یہ فارم بھر کر انٹرنیٹانجینرینگ ٹاسک فورس کو بھیجا جاتا ہے۔

واؤ۔۔۔۔ فورس۔۔ آپ کا مطلب ہے آرمڈفورس

ہاہاہا۔۔۔۔ اب میری باری ہے۔۔۔ تم اس کو جوک کہتی ہو۔

آپ کے جوک سے تو اچھا تھا۔

انیس سو اسی میں آرپا نے کہا۔۔۔ بہت ہو گئی۔۔۔۔

اب کوئی کولڈ یا ہاٹ جنگ نہیںہو رہی اور آرپا نے یہ پراجیکٹ نیشنل سائنس فاونڈیشن کودے دیا۔ نیشنل سائنس فاونڈیشنایک فیڈرل گورنمنٹ ایجینسی ہے۔ جس کا مقصد ایجوکیشن اور سائنس کو فروغ دیناہے۔

این۔ایس۔ایف (نیشنل سائنس فاونڈیشن) نے آئی۔بی۔ایم ، اور ایم۔سی۔آئی کودو سال میں این۔ایس۔ایف انٹرنٹ بنانے کا کام سونپا۔آئی۔بی۔ایم ایک کمپیوٹر کمپنیہے اور ایم۔سی۔آئی ٹیلیفون کمپنی ہے۔

انیس سو  اسی کے اخیر میں ایک نئی پروٹوکال ایتھرنیٹ ہے وجود میں آئی اور جو لوکل ایریا نیٹ ورک میں استعمال ہوئی۔اسطرح نیٹ ، بڑے کمپیوٹروں سے عام گھریلو کمپیوٹروں پر پہنچی۔

لوکل ایریا نیٹورک کیا ہوتا ہے بھیا۔

جب ہم ایک مقامی جگہ پربہت سے کمپیوٹرز کو ایک دوسرے سے اسطرح ملا دیتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے رابطہ قیامرکھیں اور پرینٹر، اسٹوریج اور اپلیکیشن پروگرام کو ایک دوسرے سے شئیر کریں۔ ایسے نیٹکو لوکل نیٹ ورک کہتے ہیں۔

لوکل ایریا نیٹ ورک ایک گھر، ایک بلڈنگ یا ایکاسکول میں ہو سکتا ہے۔ اگر ہم ایک نیٹ ورک بنائیں جو لاس انجیلس کے لوکل نیٹ ورک کوسان فرانسسکو کے ایک لوکل نیٹ ورک سے ملائے تو اس کا نام کیا ہوگا؟

ھمم۔۔۔نان لوکل نیٹ ورک۔۔۔ہاہا ہا

اس کا نام وائیڈ ایریا نیٹ ورک ہوگا۔ کیونکہ وہجیوگرافی کے لحاظ سے ایک گھر، ایک بلڈنگ یا ایک اسکول میں نہیں بلکہ دو مختلف شہروںکے نیٹ ورک کو ملاتا ہے۔

ھمم۔۔۔

ہمارے گھر میں بھی ایک لوکل ایریانیٹ ورک ہے۔ یہ وائرلیس ہے۔

نو۔۔۔ پھر مجھ کو اس کا کیوں نہیںپتہ۔۔۔

تمہارا کمیپوٹر، میرا لیپ ٹاپ ، ابا جان کا کمپیوٹر اور اماں جان کالیپ ٹاپ سب ایک دوسرے سے مل کر لوکل ایریا نیٹ ورک بناتے ہیں۔ جیسا کا نام بتاتا ہے لوکل ایریا۔۔۔۔ اس نیٹ ورک کا مختصر نام “ لین“ ہے۔

بھیا اس کا مطلب ہوا کہآپ میرے کمپیوٹر میں سب انفارمیشن دیکھ سکتے ہیں!!

ہاں  تم جب تم  عاطفکو میسیج لکھتی ہو تو میں پڑھ سکتا ہوں۔

نہیں۔۔!!!!!

بھیا۔۔۔ یہ سب میریپرائیوٹ کنورسیشن ہے آپ ایسا نہ کریں۔

ارے نہیں تم صرف وہی شیئر  کرو گی جو تم شئیر کرنا چاہو۔ ہم سب صرفایک ڈائریکٹری شئیر کرتے ہیں، یاد ہے جب تم مجھے کہتی ہو کہ بھیا میں نے فائل شیئرڈائریکٹری میں رکھ دی۔ تو میں اس کو وہاں سے اٹھا لیتا ہوں۔ ہم نے گھر میں تمامکمپیوٹر اسطرح سٹ کیے ہیں کہ ہم سب کی پرائیویسی برقرار رہے۔

ان تمام پروگریس کے باوجود بھی نیٹ کا استعمال مشکل تھا۔ انیس سو تیرانوے میں نیٹبراؤزر بنایا گیا۔ اور نیٹ اسکیپ کمپنی نے یہ براؤزر مفت میں بانٹ کر عام کر دیا۔دنیا میں بزنس، گورنمنٹ ، پرائیوٹ اداروں اور لوگوں نے اپنے کمپیوٹر نیٹ سے کنیکٹکر رکھے ہیں۔ یہ نیٹ ورک سرور کہلاتے ہیں۔ان نیٹ ورک سرورز کا مجموعہڈبلو۔ڈبلو۔ڈبلو کہلایا  جانے لگا۔

تو بس بھیا۔۔۔۔ ڈیس سٹ۔

نہیں۔۔۔۔

آج کے انٹرنیٹ کا جال کاپر کے تار سے بنایا گیا ہے۔ اور اس پر الیکٹریسٹی استعمال ہوتی ہے جس کی رفتار کمہے۔

این۔ایس۔ایف (نیشنل سائنس فاونڈیشن) نے فائبر آپٹکیس کا انٹرنیٹ بنا لیاہے لیکن یہ فی الحال امریکن سائنٹسٹ اور ریسرچرس استعمال کر رہے ہیں۔

فائ برآپٹکیس میں الیکٹریکسٹی کے بجائے روشنی استعمال ہوتی ہے۔ اور روشنی کی رفتار بہتتیز ہوتی ہے۔

کمپیوٹروں کو نمبر دینے کی اسکیم آئی۔پی کیسی مسخرے نے بنائیتھی اس نے نمبروں کی تعداد محدود کر دی تھی۔ اب کوئی اور مسخرہ اس کو آی۔پی٦ تک لارہا ہے۔ اس سے اور نمبروں کی تعداد بڑھ جائے گی۔ لیکن ان لوگوں کی عقل میں یہ نہیںآتا کس جس لحاظ سے دنیا کی آبادی اور کمپیوٹروں کی تعداد بڑھ رہی ہے یہ آئی۔پی٦ اسکیمبھی کم پڑھ جائے گی۔

مستقبل سیل فون، ریفریجریٹر، گیس پمپ کرنے کی مشین ،سینما گھر کے ٹکٹ کی مشین ، یہ سب انٹرنیٹ سے کنیکٹ ہونگے۔

٢٠٠٨کے آخر انٹرپلانیٹری انٹرنیٹ بیک بون مکمل ہو جائے اور ہم مریخ تک انٹرنیٹ سے رابطہ کر سکیںگے۔

بھیا جھوٹے۔۔۔۔ گپ مارنے کہ بھی حد ہوتی ہے۔

یہ بالکل سچ ہے۔

اختتام

***

مصنف  تفسیر احمد کے تشکر کے ساتھ

ٹائپنگ: مصنف۔

پرو ف ریڈنگ، ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید