FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

               رؤف خیر

طنزیہ و مزاحیہ

 

قائم ہیں  شر سے  خوش سخنی کی روایتیں

اب کون مانتا ہے  یہاں  اصل خیر ہے

اسلاف سے  یہ کہہ کے  تبرا نہ کیجیو

بعدِ ولی دکن میں  بلا فصل خیرؔ ہے

٭٭٭

 

قریب بھائی سے  بڑھ کر کوئی نہیں  ہوتا

رقیب بھائی سے  بڑھ کر کوئی نہیں  ہوتا

وفا،خلوص،محبت ہے  خون میں  شامل

حبیب بھائی سے  بڑھ کر کوئی نہیں  ہوتا

یہ رشتے  ناتے  کی دنیا عجیب ہوتی ہے

عجیب بھائی سے  بڑھ کر کوئی نہیں  ہوتا

یہ جان لینے  پہ آئے  تو پھر صلیب بھی ہے

مہیب بھائی سے  بڑھ کر کوئی نہیں  ہوتا

سچ ہے  بھائی ہی ہے  دستِ راست بھائی کا

نصیب بھائی سے  بڑھ کر کوئی نہیں  ہوتا

قبول بھائی کو بھائی ضرور کرتا ہے

 مجیب بھائی سے  بڑھ کر کوئی نہیں  ہوتا

ہو انتخاب کا موقع کہ انتقاد کا ہو

ادیب بھائی سے  بڑھ کر کوئی نہیں  ہوتا

رؤف خیرؔ بھلے  ہی امیر ہو کوئی

غریب بھائی سے  بڑھ کر کوئی نہیں  ہوتا

***

 

ہمارے  قتل پہ سب راہگیر بھی چپ ہیں

ڈرے  ہوئے  ہیں  کبیر و صغیر بھی چپ ہیں

کمان پرتھوی،غوری کے  تیر بھی چپ ہیں

ضمیر بیچ کے  عبدالقدیر بھی چپ ہیں

ردیف بش ہے  مشرف کی،قافیہ خوش ہے

امان پا کے  بشیر و نذیر بھی چپ ہیں

بساط الٹی،زمیں  دوز ہو گئے  زر دار

جو دل نواز تھے  وہ بے  نظیر بھی چپ ہیں

بڑی لکیر جنھیں  کھینچنا نہیں  آتا

وہ کانٹ چھانٹ کے  میری لکیر بھی چپ ہیں

کسی سے  ہم کوئی شکوہ گلہ نہیں  رکھتے

فقیہِ شہر جو چپ ہے ،فقیر بھی چپ ہیں

وہی ہیں  کوفی و صوفی،وہی ہے  کرب و بلا

انیس ہی نہیں  کوئی دبیر بھی چپ ہیں

نہ صرف یہ کہ ہیں  مولائے  کائنات خموش

اجی عراق میں  پیرانِ پیر بھی چپ ہیں

رؤف خیرؔ ہمیں  داد ہی نہیں  دیتے

ہمارے  دور کے  سودا و میر بھی چپ ہیں

***

 

درون ذات کڑواہٹ ہے او ر بیرون میٹھا ہے

ہے  منطق ترش، استدلال افلاطون میٹھا ہے

یہ مچھر یہ درندے  ایک ایک قطرے  کے  پیاسے  ہیں

نظر کڑوی ہے  دشمن کی ہمارا خون میٹھا ہے

مریضان تعصب چاٹتے  ہیں  نوکِ خنجر سے

سمجھتے  ہیں جواہر دار یہ معجون میٹھا ہے

یہ کھارے  اور یہ کڑوے  کسیلے  کیسے  بندے  ہیں

الہی جب کہ تیرا حرفِ کاف و نون میٹھا ہے

کبھی دانتوں  تلے  انگلی دباتا ہے  وہ خوش پیکر

کبھی شیریں  دہن اس شوخ کا ناخون میٹھا ہے

شکر پارہ سمجھنے  کا بھگتنا ہو گا خمیازہ

لباس قند میں  زہر گل افیون میٹھا ہے

ہلاکت خیزیوں  کا اس کی اندازہ نہیں  اس کو

سمجھتا ہے  یہی چوہا کہ ہر  صابون میٹھا ہے

یہ کا سے  بھوکی آنکھوں  کے  نہ بھر دولت کے  خوابوں  سے

نگلتی ہے  زمیں  گنجینۂ قارون میٹھا ہے

غیور اتنے  تھے  خاکِ تلخ دلی کی نہیں  پھانکی

ظفر کے  واسطے  تلخابۂ رنگون میٹھا ہے

گراں  گزرے  نہ سچائی اگر کہہ دوں  مرے  بھائی

ترا اظہار تیکھا ہے  بھلے  مضمون میٹھا ہے

بدن جب تھک تھکا جائے  مزے  کی نیند آ جائے

عشا بعد العشاء کا اسوۂ مسنون میٹھا ہے

تو اپنی جیت پر نازاں  میں  اپنی ہار پر فرحاں

مرا دن کیف پر ور ہے  ترا شب خون میٹھا ہے

اترتا ہے  مر ی میزان خیر و شر پہ کب پورا

بظاہر خیرؔ یہ سرمایۂ قانون میٹھا ہے

***

 

مرے  مصرعے  پہ مصرع کہنے  والے

لہو تھوکیں  گے  مطلع کہنے  والے

لطیفہ ہے  کہ پیتل کے  بنے  ہیں

مرے  زر کو ملمع کہنے  والے

ریاضی داں  ہمارے  دور کے  ہیں

مثلث کو مربع کہنے  والے

خدا آباد رکھے  جامعہ یہ

ہیں مجموعے  کو مجمع کہنے  والے

کوئی ہو گا میاں  ہم تو نہیں ہیں

سخن موقع بہ موقع کہنے  والے

دکن میں خیرؔسے  ہیں آپ یا ہم

غزل کوئی مرصع کہنے  والے

***

 

لائے  جو مومنین پہ ایمان پھنس گئے

حی علی الفلاح و فرنزان پھنس گئے

ہشیار ہوشیاری سے  اپنی بچے  رہے

دامِ محافظین میں  نادان پھنس گئے

اس عشق نامراد نے  مٹی پلید کی

دامن بچا تو جیب و گریبان پھنس گئے

ملک سبا سے  تخت منگا نا پڑا انھیں

ہد ہد کی بات سن کے  سلیمان پھنس گئے

تھا ہر ورق پہ صنعتِ اغلاط کا کمال

دیوان دے  کے  صاحبِ دیوان پھنس گئے

سب جاں  نثار جان بچا کر نکل لیے

بالکل اکیلے  پڑ گئے  سلطان پھنس گئے

ان کی مدد تو فتویِ مفتی نے  خوب کی

 جو درمیانِ سنت و قرآن پھنس گئے

مجروح کو غزل نے  گلے  سے  لگا لیا

نظموں  کے  بیچ اختر الایمان پھنس گئے

انسان کا خوں  بہا کے  بھی موذی ہیں  سرخ رو

کالے  ہرن کو مار کے  سلمان پھنس گئے

کھیلا شکار شیخ نے  داڑھی کی آڑ میں

بیٹھے  بٹھا ئے  خیرؔ شریمان پھنس گئے

***

 

آستیں  سے  لہو نچوڑ کے  مار

رب سے  راز و نیاز چھوڑ کے  مار

کالے  پیلے  یہ سانپ یہ بچھو

موذیوں  کو نماز توڑ کے  مار

سیکھ مکاریوں  سے  مکاری

تو بھی اب ہاتھ جوڑ جوڑ کے  مار

گھر میں  جو بھی دراز سے  جھانکے

اس ندیدے  کی آنکھ پھوڑ کے  مار

بیس فی صد ہی تو سہی لیکن

دل پہ چھاپے  تو سو کروڑ کے  مار

ڈاکہ عزت پہ مارنا ہے  غلط

آزو بازو کے  گھر تو چھوڑ کے  مار

تیر تلوار کیا ضروری ہیں

 شاخ نیم و نخیل توڑ کے  مار

پیٹھ میں  مار مت،اگر دم ہے

آ کلائی مری مروڑ کے  مار

رات دن گھاس پھوس کھا کھا کر

کھانے  والوں  کو گھوڑ پھوڑ کے  مار

خیر ہی خیر اہلِ خیر کے  ساتھ

شر پسندوں  کو ہاں  جھنجھوڑ کے  مار

***

 

میں  منوا کر رہوں  گا جانتی ہے

بڑی مشکل سے  دنیا مانتی ہے

اسی مٹی سے  ہے  پہچان میری

یہ مٹی کیا مجھے  پہچانتی ہے

فسانہ ہو گیا ہے  امن عالم

حقیقت میں  کہانی شانتی ہے

میں  اس دنیا کی رگ رگ سے  ہوں  واقف

یہ دنیا بھی مجھے  پہچانتی ہے

مجھے  آتا نہیں  در در بھٹکنا

تری دیوار لوہا مانتی ہے

نہتوں  پر ادھر بم بار یاں  ہیں

کلیسا میں  ادھر کب شانتی ہے

اسی کی بھینس ہے  لاٹھی ہے  جس کی

کہاں  کا امن کیسی شانتی ہے

جو ہیں  بدمست طاقت کے  نشے  میں

انھیں  دنیا بھی ہیرو مانتی ہے

ہمیں  بے  گھر کیا تھا خیر جس نے

خود اپنے  سر پہ چادر تانتی ہے

***

 

حالاتِ بلدہ

اشعار کا مفہوم کسالا ہی ذرا تھا

ہاں  خیر کا انداز نرالا ہی ذرا تھا

حق بات جو میں  بولنے  والا ہی ذرا تھا

سچ بن کے  زباں  پر مری چھالا ہی ذرا تھا

گھائل ہوں  میں  اسپیڈ بریکر کی بدولت

گاڑی کو ابھی گیر میں  ڈالا ہی ذرا تھا

منہ کھولے  گڑھے  میں  مجھے  گرنا تھا سڑک پر

میں  کیسے  سنبھلتا کہ اجالا ہی ذرا تھا

کھمبے  کو لگے  بلب کی معراج ہوئی تھی

پتھر کسی بچے  نے  اچھالا ہی ذرا تھا

کچھ دیر میں  کچرے  کا وہاں  ڈھیر لگا تھا

اک شخص نے  لا کر ابھی ڈالا ہی ذرا تھا

آٹو سے  کسی طرح وہ ٹکرا گئی جا کر

گاڑی کو گڑھے  میں  جو سنبھالا ہی ذرا تھا

ہر سمت تھے  بکھرے  ہوئے  پائیپ نلوں  کے

پانی سے  مگر ان کا حوالہ ہی ذرا تھا

غار ایسے  خطرناک سڑک پر تھے  کہ جن سے

نزدیک فقط عالم بالا ہی ذرا تھا

بارش جو دھواں  دھار ہوئی،بن گیا دریا

کوچے  میں  بظاہر تو وہ نالا ہی ذرا تھا

پانی کی نکاسی کا جہاں  نظم نہیں  تھا

سڑکوں  پہ ٹریفک کا گھٹا لا ہی ذرا تھا

پھولوں  کے  کئی پودے  ملے  بیچ سڑک پر

سڑکوں  کا جہاں  حسن دو بالا ہی ذرا تھا

کیونکر نہ سڑک پرہی ہو دیدار گڑھوں  کا

سیمنٹ کا ریتی میں  مسالا ہی ذرا تھا

لیتا رہا گتہ پہ وہ گتہ تو یقیناً

ہاں  کام مگر اس نے  نکالا ہی ذرا تھا

اے  کاش نئے  پل کی طرح پل ہو پرانا

بے  نام و نشاں  بالا ہی بالا ہی ذرا تھا

اب لوگ کتب جانوں  میں  آتے  ہی کہاں  ہیں

پبلک کے  کتب خانوں  پہ تالا ہی ذرا تھا

دیکھا ہے  کہ دفتر میں  اجالا تو بہت تھا

ہر شعبے  کے  ہر گو شے  میں  جالا ہی ذرا تھا

افسوس کہ لوگوں  میں سِوک سنس نہیں  ہے  (civic sense)

ہر شخص نے  چھجے  کو نکالا ہی ذرا تھا

بجلی کا بقایا کبھی پانی کا بقایا

اس کو کبھی اس کو کبھی ٹالا ہی ذرا تھا

***

شاعر کی اجازت اور تشکر کے ساتھ

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید