ادھوری بات
حمیرہ خاتون
"تم نے مطالعہ پاکستان کا سوال یاد کر لیا؟” یہ زینب تھی ہر ایک کی فکر میں لگی رہنے والی۔
"ہاں، یاد تو کیا ہے مگر کچھ کچا کچا ہے” صائمہ نے جواب دیا ج اب بھی کاپی کھولے بیٹھی تھی۔
"اور تم نے۔” زینب اب نصرت کی طرف مڑی جو بڑے آرام سے ایک بڑے اونچے پتھر پر بیٹھی چھوٹے چھوٹے کنکر اٹھا کر دور پھینک رہی تھی۔
"نہیں۔” وہ اسی طرح سکون سے اپنے مشغلے میں مصروف رہی۔
"کیا۔۔۔ ۔۔؟؟” زینب چلائی "تمہیں ان سے ڈر نہیں لگتا۔ یہ فرح تھی جو ہر ٹیچر سے ہی ڈرا کرتی تھی۔
"ڈرنے کی کیا بات ہے۔۔۔ ۔ انسان ہی ہیں نا۔۔۔ ۔ کوئی جن تو نہیں ہیں کہ کھا جائیں گی۔” وہ اب جمع کیے ہوئے کنکروں سے کوئی نقشہ ترتیب دینے میں مصروف تھی۔
"مگر مجھے تو ان سے بہت ڈر لگتا ہے۔” فرح نے تصور میں انہیں دیکھ کر جھرجھری لیتے ہوئے کہا۔
"اور مجھے بھی۔” یہ زینب تھی ہر کام وقت پر مکمل کرنے والی۔
"مجھے کسی بھی ٹیچر سے ڈر نہیں لگتا مگر مس شمیم۔۔۔ اف جس وقت وہ گھورتی ہیں ناں سب یاد کیا ہوا بھول جاتی ہوں۔” زینب اپنی کیفیت بتا رہی تھی۔ "اور انہیں بھی شوق ہے سننے کا۔” فرح نے کہا۔
"یہ نہیں کہ لکھوا لیں بندہ سکون سے بیٹھ کر سوچ کر لکھ لے۔ نہیں، ان کے سامنے کھڑے ہو کر انہیں سناؤ۔” فرح بہت زیادہ ہی پریشان تھی کہ وہ اچھا خاصا یاد کر کے بھی سناتے وقت بھول جاتی تھی اور پھر سزا پاتی تھی۔
"اور کیا۔ اب مس شاہدہ بھی تو ہیں، آرام سے ٹیسٹ دے کر کرسی پر بیٹھ جاتی ہیں۔ جو چاہو لکھ دو، ڈر نہیں لگتا۔” صبا نے بھی گفتگو میں حصہ لینا ضروری سمجھا۔
"جی ہاں سب معلوم ہے کہ کیسے لکھتی ہیں۔ سب ایک دوسرے کی نقل کرتی ہیں اور کچھ تو اسی پیپر کے نیچے انگلش کی کاپی بھی رکھ لیتی ہیں۔” صائمہ نے جو مانیٹر بھی تھی، ہنس کر کہا اس کی نظر واقعی بہت تیز تھی۔
"یہ تو میرا شکریہ ادا کرو کہ میں مس کو کچھ نہیں کہتی ہوں۔” صائمہ کی بات پر سب مسکرا اٹھے۔ کنکروں سے کھیلتی نصرت ایک دم ہی اٹھی، ہاتھ ماتھے تک لے جا کر جھکتے ہوئے کہا "شکریہ آپ کا۔” صائمہ کے ساتھ ہی سب کے قہقہے فضا میں بکھر گئے۔ نصرت نے ایک زوردار ٹھوکر اپنے ترتیب دئیے ہوئے کنکروں کو ماری کنکر اڑ کر اِدھر اُدھر بکھر گئے اور وہ لمبے لمبے قدم رکھتی کلاس میں چلی گئی۔
"مجھے تو نصرت پر بہت حیرت ہوتی ہے۔ اسے کسی ٹیچر سے ڈر نہیں لگتا ہے حالانکہ اکثر یاد نہیں کرتی ہے اور کام بھی مکمل نہیں کرتی ہے اور پھر بھی آرام سے ہر ٹیچر سے بات کر لیتی ہے۔” فرح نے کہا۔
"اور بعض دفعہ تو اپنے ساتھ ساتھ پوری کلاس کو بچا لیتی ہے۔” صبا نے کہا۔
"نصرت کی تو کیا بات ہے؟” صائمہ مانیٹر ہونے کے باوجود اس کی صلاحیتوں کی مداح تھی۔ نصرت پڑھائی میں اتنی اچھی نہیں تھی مناسب نمبروں سے پاس ہوا کرتی تھی مگر وہ اسکول کی بہترین ایتھلیٹ تھی، پچھلے تین سال سے یہ ٹائیٹل وہ جیت رہی تھی۔ اس کی کوئی بہترین دوست نہیں تھی مگر پوری کلاس اس کی دوست تھی۔ وقت پڑنے پر وہ سب کی مدد کرتی تھی۔ کلاس کا ہر مسئلہ حل کرنے کے لیے تیار رہتی۔ اس کی سب سے اہم خصوصیت اس کی حاضر جوابی تھی اور پھر اس پر اس کی معصومیت۔ ایسے ایسے بہانے ایجاد کرتی اور اس معصومیت سے بیان کرتی کہ ٹیچرز کو اسے معاف کرنا ہی پڑتا۔
کلاس کی اکثر لڑکیاں اس کی مداح تھیں اور نصرت بڑے پن سے ان کی باتوں پر مسکرا دیتی تھی۔ مس شمیم کے پیریڈ کی گھنٹی بجتے ہی سب الرٹ ہو گئیں۔ مس شمیم سینئر ٹیچر تھیں اور صرف نہم و دہم کو پڑھایا کرتی تھیں۔ یہ طالبات پہلی مرتبہ ان سے پڑھ رہی تھیں۔ ان کا طریقہ کار سب سے مختلف تھا۔ وہ یاد کر کے لکھوانے کے بجائے سننے پر یقین رکھتی تھیں اور سنتی بھی اس طرح تھیں کہ ایک ہی سوال ایک طالبہ شروع کرتی درمیان سے دوسری طالبہ سے سننا شروع کر دیتیں اور پھر اسے روک کر تیسری طالبہ سے کہتیں کہ اس کے بعد سے سنانا شروع کرے اس طرح ایک ہی سوال کئی طالبات مکمل کرتی تھیں اور کسی کو علم نہیں ہوتا تھا کہ مس کہاں سے سنیں گی لہذا مکمل اور پکا یاد کرنا پڑتا تھا۔ یاد نہ کرنے پر وہ صرف ایک سزا دیا کرتی تھیں۔ 10 ڈنڈے! وہ کبھی بھی اسکیل استعمال نہیں کرتی تھیں۔ صرف ڈنڈا اور مارتی بھی عام طریقے سے نہیں تھیں کہ پہلے بازو سے سر سے اوپر تک لے جاتی تھیں اور پھر پوری طاقت سے مارتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی مار کے نشانات چھٹی تک ہتھیلیوں پر اسی طرح نقش رہتے تھے۔ بہت دیر کی مالش کے بعد کہیں جا کر ہتھیلیوں میں خون کی روانی بحال ہوتی تھی اسی لیے تمام طالبات ان کی مار سے بہت ڈرا کرتی تھیں۔
مس شمیم نے آتے ہی پوری کلاس کا جائزہ لیا۔ بلیک بورڈ پر مانیٹر صائمہ پہلے ہی آج کا سوال لکھ چکی تھیں۔ سب طالبات منتظر تھیں کہ دیکھیں پہلے کس کی باری آتی ہے۔ مس کی نظر نصرت پر جا کر رک گئی جو بجائے دہرانے کے پنسل سے کھیل رہی تھی۔
"نصرت آپ اپنی کاپی لے کر آئیے۔” مس نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
نصرت آرام سے اٹھی۔ کاپی لا کر مس کے ہاتھ میں دے دی اور کرسی کے برابر کھڑی ہو گئی۔ کاپی بند تھی۔ مس نے کھول کر سوال نکالا اور کاپی کور میں رکھی۔”جی شروع کیجیئے۔”
مس نے نصرت کی طرف دیکھا۔ نصرت نے مس کی طرف دیکھا۔
"مس، میں نے یاد نہیں کیا۔” نصرت کی آواز دھیمی تھی۔
"کیوں۔” مس نے پوچھا۔
"مس ہمارے دادا کا انتقال ہو گیا تھا۔”
نصرت کی بات کر سب لڑکیاں حیران رہ گئیں۔ اس نے کلاس میں یہ بات کسی کو بھی نہیں بتائی تھی۔” شاید پچھلے ہفتے بھی آپ کے دادا کا انتقال ہوا تھا جس دن ٹیسٹ تھا۔” مس نے اسے کچھ یاد دلانے کی کوشش کی۔
"جی مس۔ وہ دادا کے چھوٹے بھائی تھے۔” نصرت اسی طرح مؤدب کھڑی تھی۔
"کب ہوا انتقال؟” مس پوری تفصیل جاننا چاہتی تھی کیونکہ نصرت تو کل اسکول میں حاضر تھی۔
"مس پچھلے سال چار ستمبر کو۔” نصرت بغیر ہچکچاتے ہوئے جواب دے رہی تھی۔” پچھلے سال انتقال ہوا تھا اور آپ کو کل یاد آیا۔” مس نے طنزیہ کہا۔ "جی مس، کل ان کی برسی تھی تو۔۔۔ ” نصرت کو بات ٹکڑوں میں کرنے کی عادت تھی۔
"نصرت، آپ کو پتہ ہے ناں کہ مجھے جھوٹ سے شدید نفرت ہے۔” مس غصے کی وجہ سے کھڑی ہو گئیں۔
"ابھی آپ نے کہا کہ کل انتقال ہوا تھا اور اب کہہ رہی ہیں کہ کل برسی تھی اور پھر کہیں گی۔۔۔ اور کیا تھا۔” مس کا غصہ تیز ہوتا جا رہا تھا۔ "مس، کل قرآن خوانی تھی۔” نصرت کا انداز اب بھی پرسکون تھا۔
"پہلے آپ طے کر لیجیئے کہ کل کیا تھا، انتقال، برسی یا قرآن خوانی۔” مس نے غصے سے ایک تیز نظر نصرت پر ڈالی جو سر اور نظر جھکائے خاموش کھڑی تھی۔ اس نے ایک مرتبہ بھی مس سے نظر نہیں ملائی تھی۔
"مس میری پوری بات سن لیں۔” نصرت نے آہستہ سے کہا۔
"مجھے کچھ نہیں سننا، نکل جائیں آپ کلاس سے اور آئندہ میری کلاس میں تشریف مت لائیے گا۔” ساری کلاس خاموش تھی۔ کلاس میں گہرا سناٹا طاری تھا۔ نصرت خاموش کھڑی رہی۔
"سنا نہیں آپ نے، میں نے کیا کہا۔” مس چیخیں۔
"آئی ایم سوری مس۔” نصرت نے آہستہ سے کہا۔
"جائیے باہر۔” مس نے باہر کی طرف دیکھا۔ نصرت نے مس کی طرف دیکھا۔ مس کے چہرے پر سختی چھائی ہوئی رہی۔ وہ ڈھیلے ڈھیلے قدموں سے باہر نکل گئی۔ پھر مس نے بھی بجائے سننے کے پہلی مرتبہ ٹیسٹ لکھنے کے لیے دے دیا۔ جب وہ کلاس سے باہر نکلیں تو نصرت باہر موجود نہیں تھی۔ مس کے جانے کے بعد وہ کینٹین سے نکلی اور بھاگتی ہوئی کلاس میں داخل ہو گئی۔ سب لڑکیاں اس کے ارد گرد جمع ہو گئیں اور طرح طرح کے سوالات کرنے لگیں۔
"ارے بیوقوفو، یہ سچ ہے کہ میرے دادا کا پچھلے سال انتقال ہوا تھا کل ان کی برسی تھی تو ہمارے گھر قرآن خوانی تھی۔ سب مہمان آئے ہوئے تھے تو میں سوال کیسے یاد کر سکتی تھی۔” نصرت نے سر کھجاتے ہوئے آرام سے بتایا۔
"تو کیا یہ بات تم مس کو ایک ہی مرتبہ آرام سے نہیں بتا سکتی تھیں۔” صائمہ نے اسے ڈانٹا۔
"بتا تو رہی تھی مگر مس نے کون سی سنی۔” دوسری ٹیچر کے آنے پر بات ختم ہو گئی۔ دوسرے دن جب مس شمیم کا پیریڈ شروع ہوا تو نصرت غیر حاضر تھی۔ تیسرے دن بھی وہ غیر حاضر تھی اور چوتھے دن بھی جب اسے غیر حاضر پایا تو مس شمیم سے رہا نہیں گیا۔ انہوں نے پوچھ ہی لیا کہ نصرت کیوں غیر حاضر ہے۔
"مس وہ غیر حاضر نہیں ہے بس آپ کے پیریڈ میں نہیں آتی ہے۔” صائمہ نے اٹھ کر جواب دیا۔
"کہاں ہے وہ۔۔۔ ۔۔ جائیے انہیں بلا کر لائیے۔” مس نے غصے سے کہا۔
"مس آپ ہی نے تو کہا تھا کہ آئندہ میری کلاس میں مت آنا۔” نصرت اتنی معصومیت سے کہہ رہی تھی کہ مس کو بے اختیار ہنسی آ گئی۔ "غصے میں کہی جانے والی بات پر عمل نہیں کرتے ہیں۔” مس نے مسکرا کر کہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ مس کا غصہ ختم ہو چکا تھا۔
"مس ، نصرت اس دن آپ کو صرف یہ بتانا چاہتی تھی کہ پچھلے سال اس کے دادا کے انتقال کے بعد اس دن اس کے گھر ان کی پہلی برسی تھی تو اس کے گھر قرآن خوانی رکھی گئی تھی اس لیے یہ یاد نہیں کر سکی تھی۔” صائمہ نے مانیٹر ہونے کا فرض ادا کرتے ہوئے بات صاف کی۔
"تو یہ بات آپ مجھے طریقے سے بھی بتا سکتی تھیں۔ ” مس نے نصرت سے کہا۔
"مس، میں نے کوشش تو کی تھی مگر طریقہ نہیں آیا، آئی ایم سوری مس۔” نصرت نے فوراً کہا۔
"رکئے! آئندہ خیال رکھیے گا۔ سچ بات بھی اگر مکمل طریقے سے نہیں کہی جائے تو جھوٹ لگتی ہے، جائیے بیٹھئے۔” مس نے کہا۔
"شکریہ مس۔” نصرت نے مسکرا کر کہا۔ مس بلیک بورڈ کی طرف مڑیں تو نصرت نے پوری کلاس کی طرف مڑ کر اپنی مٹھی بند کر کے انگوٹھا کھڑا کیا اور زیر لب کہا۔
"زبردست۔” اور سب مسکرا اٹھیں۔۔
٭٭٭
ٹائپنگ : مقدس
پروف ریڈنگ: فہیم اسلم، اعجاز عبید
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید