فہرست مضامین
- شعر تیری آرسی
- سات سمندر پار وطن کی یاد
- گھول جا دن بھر کا حاصل اس دلِ بے تاب میں
- لب سے دل کا دل سے لب کا رابطہ کوئی نہیں
- خشک پتلی سے کوئی صورت نہ ٹھہرائی گئی
- گو نظر اکثر وہ حسنِ لازوال آ جائے گا
- رہینِ صد گماں بیٹھے ہوئے ہیں
- ابروئے ابر سے کرتا ہے اشارہ مجھ کو
- گُل کھلاتی ہے ، کبھی خاک اڑ اتی ہے یہ خاک
- دل کو پیہم وہی اندوہ شماری کرنا
- یہ مری روح میں گونجتا کون ہے
- یہ جو ننگ تھے ، یہ جو نام تھے ، مجھے کھا گئے
- جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کہ تو میرا نہیں
شعر تیری آرسی
خورشید رضوی
جمع و ترتیب: نوید صادق
( اور دوسرے)
میں سوچتا تھا کہ وہ زخم بھر گیا کہ نہیں
کھلا دریچہ، در آئی صبا، کہا کہ نہیں
ہوا کا رُخ تو اسی بام و در کی جانب ہے
پہنچ رہی ہے وہاں تک مری صدا کہ نہیں
زباں پہ کچھ نہ سہی، سن کے میرا حالِ تباہ
ترے ضمیر میں ابھری کوئی دعا کہ نہیں
لبوں پہ آج سرِ بزم آ گئی تھی بات
مگر وہ تیری نگاہوں کی التجا کہ نہیں
خود اپنا حال سناتے حجاب آتا ہے
ہے بزم میں کوئی دیرینہ آشنا کہ نہیں
ابھی کچھ اس سے بھی نازک مقام آئیں گے
کروں میں پھر سے کہانی کی ابتدا کہ نہیں
پڑو نہ عشق میں خورشید ہم نہ کہتے تھے
تمہیں بتاؤ کہ جی کا زیاں ہوا کہ نہیں
٭٭٭
سحرِ آئینہ کچھ ایسا ہے کہ ڈر پیدا ہو
بول کچھ بول کہ دیوار میں در پیدا ہو
پھر وہی سلسلۂ نقشِ قدم دکھلا دے
چشمکِ برقِ رواں، بارِ دگر پیدا ہو
دل وہ پاگل ہے کہ ہو جائے گا غرقاب وہیں
جھیل کی تہہ میں اگر عکسِ قمر پیدا ہو
حسن ہے حسن وہی جس کے مقابل آ کر
دیدۂ کور میں بھی تارِ نظر پیدا ہو
ہم نمائش کے تو قائل نہیں لیکن خورشید
خود کو پنہاں بھی زمانے سے نہ کر، پیدا ہو
٭٭٭
دنیا کے ساتھ میں بھی برباد ہو رہا ہوں
کس کس کو کھو چکا ہوں اور خود کو کھو رہا ہوں
کھڑکی کھلی ہوئی ہے، بارش تلی ہوئی ہے
آنسو امڈ رہے ہیں دامن بھگو رہا ہوں
وہ جس کے ٹوٹنے سے نیندیں اڑی ہوئی ہیں
وہ خواب جوڑنے کو، بن بن کے سو رہا ہوں
ہاں فصل کاٹنے سے کوئی غرض نہیں ہے
آیا کرے قیامت، میں بیج بو رہا ہوں
ہر صبح ایک سی ہے، ہر شام ایک سی ہے
کیا خاک زندگی ہے، اک بوجھ ڈھو رہا ہوں
٭٭٭
کڑی ہے دھوپ، گھٹا بن کے خود پہ چھاتے جائیں
کسی کو یاد کریں اوس میں نہاتے جائیں
یہ دل کی بھول بھلیاں، یہ ایک سے رستے
ہر ایک موڑ پہ کوئی نشاں لگاتے جائیں
سیاہ کیوں ہوں یہ طاق و دریچہ و محراب
چلے ہیں گھر سے تو جلتا دیا بجھاتے جائیں
یہ میری آپ کی ہمسائیگی کی آئینہ دار
جو ہو سکے تو یہ دیوار بھی گراتے جائیں
مذاقِ اہلِ جہاں کو بھلی لگے نہ لگے
شجر حجر تو سنیں گے، غزل سناتے جائیں
٭٭٭
یوں تو وہ شکل کھو گئی گردشِ ماہ و سال میں
پھول ہے اک کِھلا ہوا حاشیۂ خیال میں
اب بھی وہ روئے دلنشیں ، زرد سہی، حسیں تو ہے
جیسے جبینِ آفتاب، مرحلۂ زوال میں
اب بھی وہ میرے ہم سفر ہیں روشِ خیال پر
اب وہ نشہ ہے ہجر میں ، تھا جو کبھی وصال میں
اُن کے خرامِ ناز کو بوئے گُل و صبا کہا
ہم نے مثال دی مگر رنگ نہ تھا مثال میں
اہلِ ستم کے دل میں ہے کیا مرے کرب کا حساب
اُن کو خبر نہیں کہ میں مست ہوں اپنے حال میں
کیسا پہاڑ ہو گیا وقت گزارنا مجھے
زخم پہ جم گئی نظر خواہشِ اندمال میں
تو نے مرے خمیر میں کتنے تضاد رکھ دئیے
موت مری حیات میں ، نقص مرے کمال میں
٭٭٭
پھر وہ گم گشتہ حوالے مجھے واپس کر دے
وہ شب و روز، وہ رشتے مجھے واپس کر دے
آنکھ سے دل نے کہا، رنگِ جہاں شوق سے دیکھ
میرے دیکھے ہوئے سپنے مجھے واپس کر دے
میں تجھے دُوں تری پانی کی لکھی تحریریں
تو وہ خونناب نوشتے مجھے واپس کر دے
میں شب و روز کا حاصل اُسے لوٹا دوں گا
وقت اگر میرے کھلونے مجھے واپس کر دے
مجھ سے لے لے صدف و گوہر و مرجاں کا حساب
اور وہ غرقاب سفینے مجھے واپس کر دے
نسخۂ مرہمِ اکسیر بتانے والے
تو مرا زخم تو پہلے مجھے واپس کر دے
ہاتھ پر خاکۂ تقدیر بنانے والے
یوں تہی دست نہ در سے مجھے واپس کر دے
آسماں ! صبح کے آثار سے پہلے پہلے
میری قسمت کے ستارے مجھے واپس کر دے
میں تری عمرِ گزشتہ کی صدا ہوں خورشید
اپنے ناکام ارادے مجھے واپس کر دے
٭٭٭
نبضِ ایام ترے کھوج میں چلنا چاہے
وقت خود شیشۂ ساعت سے نکلنا چاہے
دستکیں دیتا ہے پیہم مری شریانوں میں
ایک چشمہ کہ جو پتھر سے ابلنا چاہے
مجھ کو منظور ہے وہ سلسلۂ سنگِ گراں
کوہکن مجھ سے اگر وقت بدلنا چاہے
تھم گیا آ کے دمِ بازپسیں، لب پہ وہ نام
دل یہ موتی نہ اگلنا نہ نگلنا چاہے
ہم تو اے دورِ زماں خاک کے ذرے ٹھہرے
تو تو پھولوں کو بھی قدموں میں مسلنا چاہے
کہہ رہی ہے یہ زمستاں کی شبِ چار دہم
کوئی پروانہ جو اس آگ میں جلنا چاہے
صبح دم جس نے اچھالا تھا فضا میں خورشید
دل سرِ شام اُسی بام پہ ڈھلنا چاہے
٭٭٭
اپنے باطن کے چمن زار کو رجعت کر جا
دیکھ اب بھی روشِ دہر سے وحشت کر جا
اپنا چلتا ہوا بت چھوڑ زمانے کے لیے
اور خود عرصۂ ایام سے ہجرت کر جا
مانتا جس کو نہ ہو دل وہ عمل خود پہ گزار
جو فسانہ ہو اسے چھو کے حقیقت کر جا
سر کٹایا نہیں جاتا ہے تو کٹ جاتا ہے
بات اتنی ہے کہ اس کام میں سبقت کر جا
جاں سے آگے بھی بہت روشنیاں ہیں خورشید
اک ذرا جاں سے گزر جانے کی ہمت کر جا
٭٭٭
سات سمندر پار وطن کی یاد
اے میرے وطن
اے پیارے وطن
جب اسکولوں کے گیٹ کھلیں
جب بچوںکا ریلا آئے
پتھر کی سڑک پر پھول کِھلیں
خوشبوؤں کا دریا آئے
جب ایک سی وردی پہنے ہوئے
بچوں کو گھر والے بھولیں
جب سائیکلوں اور تانگوں پر
بستے لٹکیں، تھرمس جھولیں
تب سات سمندر طے کر کے
اُن کی چاپیں مجھ کو چھو لیں
اور دل مین درد کی ہوک اُٹھے
اے میرے وطن
اے پیارے وطن
جب رنگ بھرا ہو شاموں میں
جب بور لدا ہو آموں میں
پھرتی ہو مہک مشاموں میں
جب آگ گلوں کی دہکتی ہو
جب ڈال سرس کی لہکتی ہو
نافے کی طرح مہکتی ہو
تب دل کے کنج پہ سایہ کناں
چھتری لہرائے بکائن کی
اور اُس میں چھپ کر بیٹھی ہوئی
یادوں کی کوئل کوک اُٹھے
٭٭٭
گھول جا دن بھر کا حاصل اس دلِ بے تاب میں
ڈوب جا، اے ڈوبتے سورج مرے اعصاب میں
آنکھ میں ہر لحظہ تصویریں رواں رہنے لگیں
جم گیا ہے خواب سا اک دیدۂ بے خواب میں
دل ہمارا شاخساروں سے، گلوں سے کم نہیں
اے صبا کی موجِ لرزاں، کچھ ہمارے باب میں
ہاں اسی تدبیر سے شاید بنے تصویرِ دل
رنگ ہم نے آج کچھ گھولے تو ہیں سیماب میں
دھیان بھی تیرا تری موجودگی سے کم نہ تھا
کنجِ خلوت میں بھی ہم جکڑے رہے آداب میں
دسترس ہے موج کی ساحل سے ساحل تک فقط
تہ کو جا پہنچے اگر اترے کوئی گرداب میں
پیشِ دل کچھ اور ہے پیشِ نظر کچھ اور ہے
ہم کھلی آنکھوں سے کیا کیا دیکھتے ہیں خواب میں
٭٭٭
لب سے دل کا دل سے لب کا رابطہ کوئی نہیں
حسرتیں ہی حسرتیں ہیں مدعا کوئی نہیں
حرفِ غم ناپید ہے، آنکھوں میں نم ناپید ہے
درد کا سیلِ رواں ہے راستا کوئی نہیں
اپنے من کا عکس ہے، اپنی صدا کی بازگشت
دوست، دشمن، آشنا، ناآشنا کوئی نہیں
سب کے سب اپنے گریبانوں میں ہیں ڈوبے ہوئے
گل سے گل تک رشتۂ موجِ صبا کوئی نہیں
حالِ زار ایسا کہ دیکھے سے ترس آنے لگے
سنگدل اتنے کہ ہونٹوں پر دعا کوئی نہیں
کیا کوئی راکب نہیں ہم میں سمندِ وقت کا
نقشِ پا سب ہیں تو کیا زنجیرِ پا کوئی نہیں
میں تو آئینہ ہوں سب کی شکل کا آئینہ دار
بزم میں لیکن مجھے پہچانتا کوئی نہیں
دل کے ڈوبے سے مٹی دستِ شناور کی سکت
موج کی طغیانیوں سے ڈوبتا کوئی نہیں
آنکھ میچو گے تو کانوں سے گزر آئے گا حسن
سیل کو دیوار و در سے واسطہ کوئی نہیں
عرش کی چاہت ہو یا پاتال کا شوقِ سفر
ابتدا کی دیر ہے پھر انتہا کوئی نہیں
کارواں خورشید جانے کس گپھا میں کھو گیا
روشنی کیسی، کہ صحرا میں صدا کوئی نہیں
٭٭٭
خشک پتلی سے کوئی صورت نہ ٹھہرائی گئی
آنکھ سے آنسو گئے میری کہ بینائی گئی
صبح دم کیا ڈھونڈتے ہو شب رووں کے نقشِ پا
جب سے اب تک بارہا موجِ صبا آئی گئی
رو رہا ہوں ہر پرانی چیز کو پہچان کر
جانے کس کی روح میرے روپ میں لائی گئی
مطمئن ہو دیکھ کر تم رنگِ تصویرِ حیات
پھر وہ شاید وہ نہیں جو مجھ کو دکھلائی گئی
چلتے چلتے کان میں کس کی صدا آنے لگی
یوں لگا جیسے مری برسوں کی تنہائی گئی
ہم کہ اپنی راہ کا پتھر سمجھتے ہیں اسے
ہم سے جانے کس لئے دنیا نہ ٹھکرائی گئی
٭٭٭
گو نظر اکثر وہ حسنِ لازوال آ جائے گا
راہ میں لیکن سرابِ ماہ و سال آ جائے گا
یا شکن آلود ہو جائے گی منظر کی جبیں
یا ہماری آنکھ میں شیشے کا بال آ جائے گا
ریت پر صورت گری کرتی ہے کیا بادِ جنوب
کوئی دم میں موجۂ بادِ شمال آ جائے گا
دوستو! میری طبیعت کا بھروسہ کچھ نہیں
ہنستے ہنستے آنکھ میں رنگِ ملال آ جائے گا
جانے کس دن ہاتھ سے رکھ دوں گا دنیا کی زمام
جانے کس دن ترکِ دنیا کا خیال آ جائے گا
حادثہ یہ ہے کہ ساری ذلّتوں کے باوجود
رفتہ رفتہ زخم سوئے اندمال آ جائے گا
٭٭٭
رہینِ صد گماں بیٹھے ہوئے ہیں
مگر ہم رائگاں بیٹھے ہوئے ہیں
بظاہر ہیں بھری محفل میں لیکن
خدا جانے کہاں بیٹھے ہوئے ہیں
اِدھر صحنِ چمن میں مجھ سے کچھ دور
وہ مجھ سے سرگراں بیٹھے ہوئے ہیں
اُدھر شاخِ شجر پر دو پرندے
مثالِ جسم و جاں بیٹھے ہوئے ہیں
ستارے ہیں کہ صحرائے فلک میں
بھٹک کر کارواں بیٹھے ہوئے ہیں
کنویں کی تہہ میں جھانکو عکس در عکس
یہاں سات آسماں بیٹھے ہوئے ہیں
کھنچی ہیں دل پہ پتھر کی لکیریں
نقوشِ رفتگاں بیٹھے ہوئے ہیں
ہمیں چا ہو، ہماری قدر کر لو
تمہارے درمیاں بیٹھے ہوئے ہیں
٭٭٭
ابروئے ابر سے کرتا ہے اشارہ مجھ کو
جھلک اُس آنکھ کی دکھلا کے ستارہ مجھ کو
ہوں میں وہ شمع سرِ طاق جلا کر سرِ شام
بھول جاتا ہے مرا انجمن آرا مجھ کو
رائگاں وسعتِ ویراں میں یہ کھلتے ہوئے پھول
ان کو دیکھوں تو یہ دیتے ہیں سہارا مجھ کو
میری ہستی ہے فقط موجِ ہوا، نقشِ حباب
کوئی دم اور کریں آپ گوارا مجھ کو
دام پھیلاتی رہی سود و زیاں کی یہ بساط
ہاں مگر میرے جنوں نے نہیں ہارا مجھ کو
کچھ شب و روز و مہ و سال گزر کر مجھ پر
وقت نے تا بہ ابد خود پہ گزرا مجھ کو
موجِ بے تاب ہوں میں ، میرے عناصر ہیں کچھ اور
چاہئے صحبتِ ساحل سے کنارا مجھ کو
رزق سے میرے مرے دل کو ہے رنجش خورشید
آسمانوں سے زمینوں پہ اُتارا مجھ کو
٭٭٭
گُل کھلاتی ہے ، کبھی خاک اڑ اتی ہے یہ خاک
شعبدے کرتی ہے ، نیرنگ دکھاتی ہے یہ خاک
میں تو خود خاک ہوں میرا تو بھلا کیا مذکور
آسمانوں سے ستاروں کو بلاتی ہے یہ خاک
سال ہا سال کِھلاتی ہے جسے رزق اپنا
آخرِ کار اُس انسان کو کھاتی ہے یہ خاک
سب سے آخر میں اُبھارے تھے جو رفتہ رفتہ
سب سے پہلے وہ خد و خال مٹاتی ہے یہ خاک
ہے کبھی جسم، کبھی قبر کی مٹی خورشید
جس طرف جاؤں ، مری راہ میں آتی ہے یہ خاک
٭٭٭
دل کو پیہم وہی اندوہ شماری کرنا
ایک ساعت کو شب و روز پہ طاری کرنا
اب وہ آنکھیں نہیں ملتیں کہ جنہیں آتا تھا
خاک سے دل جو اٹے ہوں انہیں جاری کرنا
موت کی ایک علامت ہے ، اگر دیکھا جائے
روح کا چار عناصر پہ سواری کرنا
تو کہاں مرغِ چمن، فکرِ نشیمن میں پڑ ا
کہ ترا کام تو تھا نالۂ و زاری کرنا
ہوں میں وہ لالۂ صحرا کہ ہوا میرے سپرد
دشت میں پیرویِ بادِ بہاری کرنا
اس سے پہلے کہ یہ سودا مرے سر میں نہ رہے
دستِ قاتل کو عطا ضربتِ کاری کرنا
یہ جو ٹپکا ہے زباں پر سو کرم ہے تیرا
اب رگ و پے میں اسے جاری و ساری کرنا
بخشنا لعل و جواہر سے سوا تابِ سخن
خاک کو انجمِ افلاک پہ بھاری کرنا
٭٭٭
یہ مری روح میں گونجتا کون ہے
بند گنبد میں مثلِ صدا کون ہے
کون سبزے کی صورت میں پامال ہے
سرو بن کر چمن میں کھڑ ا کون ہے
کس سے چھپ چھپ کے ملنے کو جاتی ہے تو
جنگلوں میں ، بتا اے صبا، کون ہے
پھول کھلنے کی کوشش سے اُکتا گئے
آنکھ بھر کر انہیں دیکھتا کون ہے
بے دلی سے کہاں ہاتھ آتے ہیں ہم
دل لگا کر ہمیں ڈھونڈتا کون ہے
٭٭٭
یہ جو ننگ تھے ، یہ جو نام تھے ، مجھے کھا گئے
یہ خیالِ پختہ جو خام تھے ، مجھے کھا گئے
کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی
وہی زاویے کہ جو عام تھے ، مجھے کھا گئے
میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں
یہ جو لوگ محوِ کلام تھے ، مجھے کھا گئے
وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جُڑ سکی
یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے ، مجھے کھا گئے
یہ عیاں جو آبِ حیات ہے ، اِسے کیا کروں
کہ نہاں جو زہر کے جام تھے ، مجھے کھا گئے
وہ نگیں جو خاتمِ زندگی سے پھسل گیا
تو وہی جو میرے غلام تھے ، مجھے کھا گئے
میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضر ر نہ تھا
پہ جو وسوسے تہہِ دام تھے ، مجھے کھا گئے
جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں
یہ جو زہر خند سلام تھے ، مجھے کھا گئے
٭٭٭
جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کہ تو میرا نہیں
مجھ میں کوئی چیخ اُٹھتا ہے ، نہیں ، ایسا نہیں
وارداتِ دل کا قصہ ہے ، غمِ دنیا نہیں
شعر تیری آرسی ہے ، میرا آئینہ نہیں
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اُتر جانے کے بعد
اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستا نہیں
تم سمجھتے ہو، بچھڑ جانے سے مٹ جاتا ہے عشق
تم کا اِس دریا کی گہرائی کا اندازہ نہیں
اُن سے مل کر بھی کہاں مٹتا ہے دل کا اضطراب
عشق کی دیوار کے دونوں طرف سایا نہیں
کب تری بوئے قبا سے بے وفائی دل نے کی
کب مجھے بادِ صبا نے خون رُلوایا نہیں
مت سمجھ میرے تبسم کو مسرت کی دلیل
جو مرے دل تک اترتا ہو یہ وہ زینہ نہیں
یوں تراشوں گا غزل میں تیرے پیکر کے نقوش
وہ بھی دیکھے گا تجھے جس نے تجھے دیکھا نہیں
ثبت ہیں اس بام و در پر تیری آوازوں کے نقش
میں ، خدا نا کردہ، پتھر پوجنے والا نہیں
خامشی، کاغذ کے پیراہن میں لپٹی خامشی
عرضِ غم کا اس سے بہتر کوئی پیرایہ نہیں
کب تلک پتھر کی دیواروں پہ دستک دیجئے
تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید