FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

بچوں کے جمیل جالبی

                   جمیل جالبی

جمع و ترتیب: محمد انیس الرحمٰن، اعجاز عبید

نادان بکری

    اتفاق سے ایک لومڑی ایک کنویں میں گر پڑی۔ اس نے بہت ہاتھ پیر مارے اور باہر نکلنے کی ہر طرح کوشش کی، لیکن کامیاب نہیں ہوئی۔ ابھی وہ کوشش کر ہی رہی تھی کہ اتنے میں ایک بکری پانی پینے کے لیے وہاں آ نکلی۔

    بکری نے لومڑی سے پوچھا، "اے بہن! یہ بتاؤ کہ پانی کیسا ہے؟”

    لومڑی نے جواب دیا، "پانی بہت ہی اچھا ہے۔۔۔ ۔۔ ایسا میٹھا اور ٹھنڈا پانی میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں پیا۔ میں نے خود اتنا پی لیا ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں بیمار نہ پڑ جاؤں۔”

    یہ سن کر پیاسی بکری نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، جھٹ سے کنویں میں کود گئی۔

    موقع غنیمت جان کر لومڑی پھرتی سے، بکری کے سینگوں کا سہارا لے کر کنویں سے باہر آ گئی اور بکری۔۔۔ ۔

    بکری وہیں رہ گئی۔۔۔

    ٭٭٭​

    نادانی کی سزا

    گرمی میں ایک شیر شکار کو نکلا۔ چلچلاتی دھوپ میں، تپتی ہوئی زمین پر چلنے سے وہ جلد ہی تھک گیا اور ایک بڑے سے سایہ دار گھنے درخت کے نیچے آرام کرنے لیٹ گیا۔

    ابھی وہ سویا ہی تھا کہ کچھ چوہے اپنے بلوں سے باہر نکلے اور نادانی سے اس کی پیٹھ پر اچھلنے کودنے لگے۔ اس سے شیر کی آنکھ کھل گئی۔ وہ غرایا اور غصّے میں آ کر ایک چوہے کو اپنے پنجے میں دبوچ لیا۔ ابھی وہ اسے مارنے ہی والا تھا کہ چوہے نے نہایت عاجزی سے کہا، "اے جنگل کے بادشاہ! مجھ غریب پر رحم کیجیے۔ مجھ جیسے چھوٹے اور کمزور کو مارنے سے آپ کی خاندانی شرافت پر آنچ آئے گی اور سارے جنگل میں بدنامی ہوگی کہ جنگل کے بادشاہ شیر نے ایک چوہے کو مار دیا ہے۔”

    یہ بات سن کر شیر نے اس پر ترس کھایا اور ڈرتے کانپتے چوہے کو آزاد کر دیا۔

    کچھ دن بعد وہی شیر شکار کے لیے جنگل میں نکلا۔ ابھی شکار کی تلاش میں وہ اِدھر اُدھر پھر ہی رہا تھا کہ اچانک شکاریوں کے جال میں پھنس گیا۔ اس نے نکلنے کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارے، لیکن جال سے نہ نکل سکا۔ آخر پریشان اور لاچار ہو کر وہ پورے زور سے دھاڑا۔ جیسے ہی چوہے نے شیر کی دھاڑنے کی آواز سنی، وہ تیزی سے وہاں پہنچا۔ دیکھا کہ وہی شیر ہے جس نے اس کی جان بخشی تھی۔ وہ شیر کے پاس گیا اور کہا، "اے بادشاہ سلامت! میں آپ کا دوست ہوں۔ آپ نے میری جان بخشی تھی۔ آپ بالکل فکر مت کریں۔”

    یہ کہہ کر وہ جلدی جلدی اپنے ننّھے تیز دانتوں سے جال کاٹنے لگا اور ذرا سی دیر میں جال کاٹ کر شیر کو آزاد کرا دیا۔

    جب شیر آزاد ہوا تو اس نے سوچا کہ وہ بھی اس احسان کے بدلے کوئی احسان کرے۔ یہ سوچ کر اس نے چوہے سے کہا، "اے دوست! تو نے مجھ پر احسان کیا ہے۔ جو تو مجھ سے مانگے گا، میں دوں گا۔ بول کیا مانگتا ہے؟”

    چوہا یہ سن کر خوشی کے مارے پھولا نہ سمایا اور بھول گیا کہ وہ اپنے لائق کیا مانگے اور کون سی ایسی چیز مانگے کہ شیر اسے دے بھی سکے۔ اپنی حیثیت بھول کر اس نے جلدی سے کہا، "اے بادشاہ سلامت! اپنی شیر زادی کی شادی مجھ سے کر دیجیے۔”

    شیر زبان دے چکا تھا۔ اس نے چوہے کی بات مان لی اور رشتہ قبول کر لیا۔

    شادی کے دن نوجوان شیر زادی بن ٹھن کر نکلی اور جھومتی جھامتی اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی بے فکری سے چلنے لگی۔ دولہا چوہا اس کے استقبال کے لیے سامنے کھڑا تھا کہ بےخیالی میں اتفاق سے شیر زادی دلہن کا پاؤں دولہا چوہے پر پڑ گیا اور وہ بے چارا وہیں پِس کر ڈھیر ہو گیا۔

    ٭٭٭​

    ناشکرا ہرن

    یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب بندوق ایجاد نہیں ہوئی تھی اور لوگ تیر کمان سے شکار کھیلتے تھے۔

    ایک دن کچھ شکاری شکار کی تلاش میں جنگل میں پھر رہے تھے کہ اچانک ان کی نظر ایک ہرن پر پڑی۔ وہ سب اس کے پیچھے ہولیے۔ شکاری ہرن کو چاروں طرف سے گھیر رہے تھے اور ہرن اپنی جان بچانے کے لی ےتیزی سے بھاگ تھا۔ جب وہ بھاگتے بھاگتے تھک گیا تو یک گھنی انگور کی بیل کے اندر جا چھپا۔ شکاریوں نے اسے بہت تلاش کیا، لیکن اس کا کچھ پتا نہیں چلا۔ آخر مایوس ہو کر وہ وہاں سے لوٹنے لگے۔

    جب کچھ وقت گزر گیا تو ہرن نے سوچا کہ اب خطرہ ٹل گیا ہے اور وہ بے فکر ہو کر مزے سے اسی انگور کی بیل کے پتے کھانے لگا، جس میں وہ چھپا ہوا تھا۔

    ایک شکاری جو سب سے پیچھے تھا، جب وہاں سے گزرا تو انگور کی بیل اور اس کے گچھوں کو ہلتے دیکھ کر سمجھا کہ یہاں ضرور کوئی جانور چھپا ہے۔ اس نے تاک کے کئی تیر مارے۔ اتفاق سے ایک تیر ہرن کو جا لگا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔

    مرتے ہوئے ہرن نے اپنے دل میں کہا، "اے بدبخت! تیری ناشکری کی یہی سزا ہے۔ مصیبت کے وقت جس نے تجھے پناہ دی، تو نے اسی پر ظلم ڈھایا۔”

    اتنے میں شکاری بھی وہاں پہنچ گئے۔ کیا دیکھتے ہیں وہی ہرن مرا پڑا ہے۔

    ٭٭٭​

    قصّہ ایک بھیڑیے کا

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چاندنی رات میں ایک دبلے پتلے، سوکھے مارے بھوکے بھیڑیے کی ایک خوب کھائے پیئے، موٹے تازے کتّے سے ملاقات ہوئی۔ دعا سلام کے بعد بھیڑیے نے اس سے پوچھا، "اے دوست! تُو تو خوب تر و تازہ دکھائی دیتا ہے۔ سچ کہتا ہوں کہ میں نے تجھ سے زیادہ موٹا تازہ جانور آج تک نہیں دیکھا۔ بھائی! یہ تو بتا کہ اس کا کیا راز ہے؟ میں تجھ سے دس گنا زیادہ محنت کرتا ہوں اور اس کے باوجود بھوکا مرتا ہوں۔”

    کتّا یہ سن کر خوش ہوا اور اس نے بے نیازی سے جواب دیا، "اے دوست! اگر تو بھی میری طرح کرے تو مجھے یقین ہے کہ تو بھی میری طرح خوش رہے گا۔”

    بھیڑیے نے پوچھا، "بھائی! جلدی بتا، وہ بات کیا ہے؟”

    کتّے نے جواب دیا، "تو بھی میری طرح رات کو گھر کی چوکیداری کر اور چوروں کو گھر میں نہ گھسنے دے۔ بس یہی کام ہے۔”

    بھیڑیے نے کہا، "بھائی! میں دل و جان سے یہ کام کروں گا۔ اس وقت میری حالت بہت تنگ ہے۔ میں ہر روز کھانے کی تلاش میں سارے جنگل میں حیران و پریشان مارا مارا پھرتا ہوں۔ بارش، پالے اور برف باری کے صدمے اٹھا تا ہوں، پھر بھی پیٹ پوری طرح نہیں بھرتا۔ اگر تیری طرح مجھے بھی گرم گھر رہنے کو اور پیٹ بھر کھانے کو ملے تو میرے لیے اس سے بہتر کیا بات ہے۔”

    کتّے نے کہا، "یہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، سچ ہے۔ اب تو فکر مت کر۔ بس میرے ساتھ چل۔”

    یہ سن کر بھیڑیا کتّے کے ساتھ ساتھ چل دیا۔ ابھی وہ کچھ دور ہی گئے تھے کہ بھیڑیے کی نظر کتّے کے گلے پر پڑے ہوئے اس نشان پر پڑی جو گلے کے پٹّے سے پڑ گیا تھا۔ بھیڑیے نے پوچھا، "اے دوست! تیرے گلے کے چاروں طرف یہ کیا نشان ہے؟”

    کتّے نے کہا، "کچھ نہیں۔”

    بھیڑیے نے پھر کہا، "اے دوست! بتا تو سہی یہ کیا نشان ہے؟”

    کتّے نے دوبارہ پوچھنے پر جواب دیا، "اگر تو اصرار کرتا ہے تو سن، میں چونکہ درندہ صفت ہوں۔ دن کو میرے گلے میں پٹّا ڈال کر وہ باندھ دیتے ہیں تاکہ میں سو رہوں اور کسی کو نہ کاٹوں اور رات کو پٹّا کھول کر چھوڑ دیتے ہیں تاکہ میں چوکیداری کروں اور جدھر میرا دل چاہے جاؤں۔ رات کو کھانے کے بعد میرا مالک میرے لیے ہڈیوں اور گوشت سے تیار کیا ہوا راتب میرے سامنے ڈالتا ہے اور بچوں سے جو کھانا بچ جاتا ہے، وہ سب بھی میرے سامنے ڈال دیتا ہے۔ گھر کا ہر آدمی مجھ سے پیار کرتا ہے۔ جمع خاطر رکھ، یہی سلوک، جو میرے ساتھ کیا جاتا ہے، وہی تیرے ساتھ ہوگا۔”

    یہ سن کر بھیڑیا رک گیا۔ کتّے نے کہا، "چلو چلو! کیا سوچتے ہو۔”

    بھیڑیے نے کہا، "اے دوست! مجھے تو بس معاف کرو۔ یہ خوشی اور آرام تجھے ہی مبارک ہوں۔ میرے لیے تو آزادی ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ جیسا تو نے بتایا اس طرح اگر کوئی مجھے بادشاہ بھی بنا دے تو مجھے قبول نہیں۔”

    یہ کہہ کر بھیڑیا پلٹا اور تیزی سے دوڑتا ہوا جنگل کی طرف چل دیا۔

    ٭٭٭​

    دو دوست، دو دشمن

    گھنے جنگل میں ایک دلدل کے قریب برسوں سے ایک چوہا اور ایک مینڈک رہتے تھے۔ بات چیت کے دوران ایک دن مینڈک نے چوہے سے کہا، "اس دلدل میں میرا خاندان صدیوں سے آباد ہے اور اسی لیے یہ دلدل جو مجھے باپ دادا سے ملی ہے، میری میراث ہے۔”

    چوہا اس بات پر چڑ گیا۔ اس نے کہا، "میرا خاندان بھی یہاں سینکڑوں سالوں سے آباد ہے اور مجھے بھی یہ جگہ اپنے باپ دادا سے ملی ہے اور یہ میری میراث ہے۔”

    یہ سن کر مینڈک غصے میں آ گیا اور تو تو میں میں شروع ہو گئی۔ بات اتنی بڑھی کہ ان کی دوستی میں فرق آ گیا اور دونوں نے ایک دوسرے سے بولنا چھوڑ دیا۔

    ایک دن چوہا وہاں سے گزرا تو مینڈک نے اس پر آواز کسی جو چوہے کو بہت بری لگی۔ اس کے بعد چوہے نے یہ کیا کہ وہ گھاس میں چھپ کر بیٹھ جاتا اور جب مینڈک وہاں سے گزرتا تو اس پر حملہ کر دیتا۔

    آخر تنگ آ کر ایک دن مینڈک نے کہا، "اے چوہے! تو چوروں کی طرح یہ کیا چھپ چھپ کر حملہ کرتا ہے؟ مرد ہے تو سامنے میدان میں آ، تاکہ کھل کر مقابلہ ہو اور تجھے میری قوت کا پتا چلے۔”

    چوہے نے یہ بات قبول کر لی اور دوسرے دن صبح ہی صبح مقابلے کا وقت مقرر ہوا۔ مقررہ وقت پر ایک طرف سے چوہا نکلا۔ اس کے ہاتھ میں نرسل کے پودے کا ایک لمبا تنکا تھا۔ دوسری طرف سے مینڈک آگے بڑھا۔ اس کے ہاتھ میں بھی ایسا ہی تنکا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے پر زبردست حملہ کیا اور پھر ذرا سی دیر میں دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔

    ابھی یہ لڑائی جاری تھی کہ دور ہوا میں اڑتی ہوئی ایک چیل نے دیکھا کہ ایک چوہا اور ایک مینڈک آپس میں گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔ وہ تیزی سے اڑتی ہوئی نیچے آئی اور ایک جھپٹے میں دونوں پہلوانوں کو اپنے تیز، نوکیلے پنجوں میں دبا کر لے گئی۔

    اب وہاں چوہا ہے نہ مینڈک۔۔۔ ۔۔دلدل اب بھی موجود ہے۔

    ٭٭٭​

    دو چوہے​

    دو چوہے تھے جو ایک دوسرے کے بہت گہرے دوست تھے۔ ایک چوہا شہر کی ایک حویلی میں بل بنا کر رہتا تھا اور دوسرا پہاڑوں کے درمیان ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ گاؤں اور شہر میں فاصلہ بہت تھا، اس لیے وہ کبھی کبھار ہی ایک دوسرے سے ملتے تھے۔

    ایک دن جو ملاقات ہوئی تو گاؤں کے چوہے نے اپنے دوست شہری چوہے سے کہا، "بھائی! ہم دونوں ایک دوسرے کے گہرے دوست ہیں۔ کسی دن میرے گھر تو آئیے اور ساتھ کھانا کھائیے۔”

    شہری چوہے نے اس کی دعوت قبول کر لی اور مقررہ دن وہاں پہنچ گیا۔ گاؤں کا چوہا بہت عزت سے پیش آیا اور اپنے دوست کی خاطر مدارات میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ کھانے میں مٹر، گوشت کے ٹکڑے، آٹا اور پنیر اور میٹھے میں پکے ہوئے سیب کے تازہ ٹکڑے اس کے سامنے لا کر رکھے۔ شہری چوہا کھاتا رہا اور وہ خود اس کے پاس بیٹھا میٹھی میٹھی باتیں کرتا رہا۔ اس اندیشے سے کہ کہیں مہمان کو کھانا کم نہ پڑ جائے، وہ خود گیہوں کی بالی منہ میں لے کر آہستہ آہستہ چباتا رہا۔

    جب شہری چوہا کھانا کھا چکا تو اس نے کہا، "ارے یار جانی! اگر اجازت ہو تو میں کچھ کہوں؟”

    گاؤں کے چوہے نے کہا، "کہو بھائی! ایسی کیا بات ہے؟”

    شہری چوہے نے کہا، "تم ایسے خراب اور گندے بل میں کیوں رہتے ہو؟ اس جگہ میں نہ صفائی ہے اور نہ رونق۔ چاروں طرف پہاڑ، ندی اور نالے ہیں۔ دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا۔ تم کیوں نہ شہر میں چل کر رہو۔ وہاں بڑی بڑی عمارتیں ہیں۔ سرکار دربار ہیں۔ صاف ستھری روشن سڑکیں ہیں۔ کھانے کے لیے طرح طرح کی چیزیں ہیں۔ آخر یہ دو دن کی زندگی ہے۔ جو وقت ہنسی خوشی اور آرام سے گزر جائے وہ غنیمت ہے۔ بس اب تم میرے ساتھ چلو۔ دونو ں پاس رہیں گے۔ باقی زندگی آرام سے گزرے گی۔”

    گاؤں کے چوہے کو اپنے دوست کی باتیں اچھی لگیں اور وہ شہر چلنے پر راضی ہو گیا۔ شام کے وقت چل کر دونوں دوست آدھی رات کے قریب شہر کی اس حویلی میں جا پہنچے جہاں شہری چوہے کا بل تھا۔ حویلی میں ایک ہی دن پہلے بڑی دعوت ہوئی تھی جس میں بڑے بڑے افسر، تاجر، زمیندار، وڈیرے اور وزیر شریک ہوئے تھے۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ حویلی کے نوکروں نے اچھے اچھے کھانے کھڑکیوں کے پیچھے چھپا رکھے ہیں۔ شہری چوہے نے اپنے دوست، گاؤں کے چوہے کو ریشمی ایرانی قالین پر بٹھایا اور کھڑکیوں کے پیچھے چھپے ہوئے کھانوں میں سے طرح طرح کے کھانے اس کے سامنے لا کر رکھے۔ مہمان چوہا کھاتا جاتا اور خوش ہو کر کہتا جاتا، "واہ یار! کیا مزیدار کھانے ہیں۔ ایسے کھانے تو میں نے خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے۔”

    ابھی وہ دونوں قالین پر بیٹھے کھانے کے مزے لوٹ ہی رہے تھے کہ یکایک کسی نے دروازہ کھولا۔ دروازے کے کھلنے کی آواز پر دونوں دوست گھبرا گئے اور جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ اتنے میں دو کتے بھی زور زور سے بھونکنے لگے۔ یہ آواز سن کر گاؤں کا چوہا ایسا گھبرایا کہ اس کے ہوش و حواس اڑ گئے۔ ابھی وہ دونوں ایک کونے میں دبکے ہوئے تھے کہ بلیوں کے غرانے کی آواز سنائی دی۔ گاؤں کے چوہے نے گھبرا کر اپنے دوست شہری چوہے سے کہا، "اے بھائی! اگر شہر میں ایسا مزہ اور یہ زندگی ہے تو یہ تم کو مبارک ہو۔ میں تو باز آیا۔ ایسی خوشی سے تو مجھے اپنا گاؤں، اپنا گندا بل اور مٹر کے دانے ہی خوب ہیں۔”

    ٭٭٭​

مغرور لومڑی​

ایک بلی آبادی سے دور ایک جنگل میں رہتی تھی۔ وہیں پاس ہی ایک لومڑی بھی رہتی تھی۔ آتے جاتے اکثر ان کی ملاقات ایک دوسرے سے ہو جاتی تھی۔

ایک دن جب سورج چمک رہا تھا اور خوب دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ ایک گھنے پیڑ کے نیچے ان کی ملاقات ہوئی۔ خاصی دیر دونوں ایک دوسرے سے بات کرتی رہیں۔

لومڑی نے کہا، "اے بی بلی! اگر دنیا میں سو طرح کی آفتیں آ جائیں یا کوئی مجھ پر حملہ کر دے تو مجھے کوئی فکر نہیں۔ مجھے ہزاروں گُر اور تراکیب آتی ہیں۔ میں ان سب مصیبتوں سے بچ کر نکل جاؤں گی، لیکن خدا نخواستہ تو اگر کسی آفت دوچار ہو تو کیا کرے گی؟”

بلی بولی، "اے بُوا! مجھے تو ایک ہی گُر اور ترکیب یاد ہے۔ اگر اس سے چُوک جاؤں تو ہرگز میری جان نہ بچے اور میں ماری جاؤں۔”

یہ سن کر لومڑی کو بلی پر بہت ترس آیا۔ کہنے لگی، "اے بی! مجھے تیری حالت پر بہت رحم آتا ہے۔ میرا جی تو یہ چاہتا ہے کہ ان ترکیبوں میں سے دو چار تجھے بھی بتاؤں، لیکن بہن! زمانہ بہت خراب آ گیا ہے۔ کسی پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔”

ابھی وہ دونوں یہ باتیں کر ہی رہی تھیں کہ بہت قریب سے کتوں اور شکاریوں کی آوازیں سنائی دیں۔ آوازیں سن کر یہ دونوں گھبرا گئیں۔ بلی نے خطرہ دیکھ کر آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنی پرانی ترکیب پر عمل کیا اور جھٹ سے پیڑ پر چڑھ کر اونچی ڈالیوں میں چھپ کر بیٹھ گئی۔ اسی دوران میں کتے اتنے قریب آ گئے کہ لومڑی اپنی کسی ترکیب پر عمل نہ کر سکی۔

ذرا سی دیر میں کتوں نے لومڑی کو دبوچ لیا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔

٭٭٭​

ٹائپنگ: محمد انیس الرحمٰن، ماخذ: نونہال، کراچی

ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید